تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34489
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34489 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱۶،۱۱۷

۱۱۶( وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔

۱۱۷( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ مَنْ یَضِلُّ عَنْ سَبِیلِهِ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ) ۔

ترجمہ:

۱۱۶ ۔اور اگر تم زمین پر رہنے والے لوگوں میں سے اکثر لوگوں کی اطاعت کرو گے تووہ تمھیں راہ خدا سے گمراہ کردیں گے، وہ تو صرف ظن اور گمان کی پیروی کرتے ہیں اور وہ اٹکل پچو لڑاتے رہتے ہیں ۔

۱۱۷ ۔ تیرا پروردگار ان لوگوں سے بھی خوب اچھی طرح آگاہ ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوگئے ہیں اور ان لوگوں سے بھی کہ جو ہدایت یافتہ ہیں ۔

اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے

ہم جانتے ہیں کہ اس سورہ کی آیات مکہ میں نازل ہوئی ہے اور اس زمانے میں مسلمان انتہائی اقلیت میں تھے، یہ ممکن تھا کہ ان کی اقلیت اور بت پرستوں اور مخالفین اسلام کی قطعی اکثریت بعض لوگوں کے لئے تو ہم پیدا کردے کہ اگرکہ اگر ان کا دین وآئین باطل اور بے اساس ہے تو ان کی پیروی کرنے والے اتنی اکثریت میں کیوں اور اگر ہم حق پر ہیں تو اس قدر کم تعداد میں کیوں ہیں ۔

اس آیت میں اس توہم کو دفع کرنے کے لئے کہ جو ممکن تھا کہ قبل کی آیات میں قرآن کی حقانیت کے زکر کے بعد پیدا ہوجائے، اپنے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے: اگر تم زمین میں رہنے والے اکثر لوگوں کی پیروی کرو گے تو وہ تمھیں راہ حق سے گمراہ اور منحرف کردیں گے( وَإِنْ تُطِعْ اٴَکْثَرَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ یُضِلُّوکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔

بعد والے جملے میں اس امر کی دلیل بیان کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اس کی علت اور سبب یہ ہے کہ وہ منطق اور فکر صحیح کی بنیاد پر کام نہیں کرتے، ان کے رہنماہوا وہوس سے آلودہ گمان ہیں اور کچھ جھوٹ ، فریباور تخمینے ہیں( إِنْ یَتَّبِعُونَ إِلاَّ الظَّنَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ یَخْرُصُونَ ) ۔(۱)

چونکہ قبل والی آیت کا مفہوم یہ ہے کہ محض اکثریت تنہا راہ حق کی نشاندہی نہیں کرسکتی، تو اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہ کہ راہ حق صرف خدا سے حاصل کرنا چاہئے چاہے حق کے طرفدار اقلیت میں ہی کیوں نہ ہوں ، لہٰذا دوسری آیت میں اس امر کی دلیل واضح کرتا ہے کہ تیرا پروردگار کہ جو تمام چیزوں سے باخبر اور آگاہ ہے اوراس کے علم غیر متناہی میں ذرہ بھربھی اشتباہ نہیں ہے وہ بہتر طور پر جانتا ہے کہ راہ ضلالت کونسی ہے اور راہ ہدایت کون سی، اور وہ گمراہوں اور ہدایت یافتہ لوگوں کو بھی بہتر طور پر پہچانتا ہے( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ مَنْ یَضِلُّ عَنْ سَبِیلِهِ وَهُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِینَ ) ۔(۲)

یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا دوسرے لوگ راہ ہدایت وضلالت کو خدا کی رہنمائی کے بغیر بھی پہچان لیتا ہے، کہ آیت یہ کہہ رہی ہے کہ خدا دوسروں سے بہتر طور پر پہچانتا اور بہتر طور پر جانتا ہے۔

اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ انسان اپنی عقل کے ذریعے حقائق کا ادراک کرتا ہے اور راہ ہدایت وضلالت کو کسی حد تک سمجھ لیتا ہے لیکن یہ بات مسلم ہے کہ چراغ عقل کی روشنی اور اس کی شعاع محدود ہے ، اور ممکن ہے کہ بہت سے مطالب نگاہ عقل سے مخفی رہ جائیں ، علاوہ ازیں انسان اپنی معلومات میں اشتباہ میں بھی گرفتار ہوجا ہے اور اسی بنا پر وہ خدائی رہبروں اور رہنماؤں کا محتاج ہے اسی لئے یہ جملہ کہ”خدا زیادہ جانتا ہے “ صحیح ہے، اگر چہ انسان کا علم خدا کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔

عددی اکثریت کچھ اہمیت نہیں رکھتی

بعض لوگوں کی نظر میں یہ بات مسلم ہے کہ عددی اکثریتیں ہمیشہ صحیح راستہ پر گامزن ہوتی ہیں لیکن قرآن کے برخلاف متعدد اایات میں اس کی نفی کرتا ہے اور وہ عددی اکثریت کے لئے کسی اہمیت کا قائل نہیں ہے اور حقیقت میں وہ اکثریت ”کیفی“ کو معیار سمجھتا ہے نہ کہ اکثریت ”کمی“ کو، اس امر کی دلیل واضح ہے، کیون کہ آج کے معاشروں میں اگر چہ معاشرے کے امور میں لوگوں کو اکثریت پر بھروسہ کرنے کے سوا اور کوئی دوسرا راستہ نہیں سوجھا لیکن یہ بات بھولنا نہیں چاہئے کہ یہ بات جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں ایک طرح سے مجبوری کے باعث قبول کرنا پڑتی ہے، کیوں کہ ایک مادی معاشرے میں اصلاحات کرنے اور درست قوانین بنانے کا کوئی ایسا ضابطہ موجود نہیں جو اشکال اور عیب سے خالی ہو، لہٰذا بہت سے علماء اور ماہرین اس حقیقت کا اعتراف کرنے کے ساتھ کہ افراد معاشرہ کی اکثریت کی نظر اکثر اوقات اشتباہ آمیز ہوتی ہے اس بات کو قبول کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کیوں کہ دوسرے راستوں کے عیوب اس سے زیادہ ہیں ۔

لیکن ایک ایسا معاشرہ جو انبیاء علیہم السلام کی رسالت پر ایمان رکھتا ہو وہ قوانین کے نفاذاورپرپا کرنے کے لئے اکثریت کی پیروی کی کوئی مجبوری نہیں رکھتا، کیون کے سچے انبیاء کے پروگرام اور قوانین ہر قسم کے نقص، عیب اور اشتباہ سے خالی ہوتے ہیں اور جن قوانین کی جائز الخطا اکثریت تصویب وتصدیق کرتی ہے ان کا ان پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔

آج کی دنیا کے چہرے پر ایک نظر ڈالنے اور ان حکومتوں پر جو اکثریت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہے نظر کرنے اور ان نادرست اور ہوس آمیز قوانین کو جو بعض اوقات اکثریتوں کی طرف تائید وتصویب شدہ ہوتے ہیں دیکھنے سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اکثریت عددی نے کسی درد کی دوا نہیں کی ہے، بہت سی جنگوں کی اکثریت نے ہی تصویب کی تھی اور بہت سے مفاسد کو اکثریت نے ہی چاہاتھا۔

استعمار واستثمار، جنگیں اور خونریزیاں ، شراب نوشی کی آزادی، خمار بازی، اسقاط حمل، فحشاء ومنکر یہاں تک کہ بعض ایسے قبیح وشنیع افعال کے جن کا ذکر باعث شرم ہے بہت سے ایسے ممالک جو اصطلاح میں ترقی یافتہ کہلاتے ہیں کے نمائندوں کی اکثریت کی طرف سے ہے جو ان ممالک کے عوام کی اکثریت کے نظریہ کو منعکس کرتے تھے اس حقیقت پر گواہ ہیں ۔

علمی نکتہ نظر سے کیا عوام کی اکثریت سچ ہی بولتی ہے ؟کیا اکثریت امین ہوتی ہے؟کیا اکثریت دوسروں کے حقوق پر تجاوز کرنے سے اگر وہ کرسکے تو اجتناب کرتی ہے؟کیا اکثریت اپنے اور دوسروں کے منافع کو ایک ہی نظر سے دیکھتی ہے؟ ۔

ان سوالات کے جواب بغیر کہے ظاہر ہیں ، اس بنا پر اس حقیقت کا اعتراف کرلینا چاہئے کہ آج کی دنیا کا اکثریت پر اعتبار اور بھروسہ کرنا حقیقت میں ایک قسم کی مجبوری اور ماحول کی ضرورت ہے اور ایک ایسی ہڈی ہے جو معاشروں کے گلے میں پھنسی ہوئی ہے۔

ہاں انسانی معاشروں کے صاحبان فکرو نظر اور دلسوز مصلحین اور بامقصد سوچ رکھنے والے جو ہمیشہ اقلیت میں ہوتے ہیں اگر عوام الناس کو روشنی بخشنے کے لئے ہمہ جہتی تلاش وکوشش کریں اور انسانی معاشرے کافی حد تک فکری ، اخلاقی اور اجتماعی رشد پالیں تو مسلمہ طور پر اس قسم کی اکثریت کی نظریات حقیقت کے بہت قریب ہوں گے، لیکن غیر رشیداور نا آگاہ یا فاسد ، منحرف اور گمراہ اکثریت کون سی مشکل اپنے اور دوسروں کے راستوں سے ہٹا سکے گی ، اس بنا پر محض اکثریت اکیلی کافی نہیں ہے بلکہ صرف وہی اکثریت کہ جو ہدایت یافتہ ہو اپنے معاشرے کی مشکلات کو اس حد تک کہ جو امکان بشر میں ہے حل کرسکتی ۔

اگر قرآن مختلف آیات میں اکثریت کے بارے میں اعتراض کرتا ہے تو اس میں شک نہیں ہے کہ اس کی مراد ایسی اکثریت ہے کہ جو غیر رشید ہو اور ہدایت یافتہ نہ ہو۔

____________________

۱۔ ”خرص“ (بروزن ترس) اصل میں تخمین کے معنی میں ہے، پہلے پہل تو باغ وغیرہ کرایہ پر دینے کے وقت درختوں پر پھلوں کی مقدار کے تخمینے اور اندازے کے لئے استعمال ہوتا تھا، بعد از اں ہر قسم کے حدس وتخمین کے لئے یہ لفظ بولے جانے لگا اور چونکہ تخمینہ اور اندازہ بعض اوقات واقع کے مطابق اور بعض اوقات اس کے خلاف ہوتا ہے لہٰذا یہ لفظ جھوٹ کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے اور مندرجہ بالا آیت میں ہوسکتا ہے دونوں معانی کے لئے ہو۔

۲۔ عموما”افعل تفضیل“،” با“ کے ذریعہ متعدی ہوجاتا ہے لہٰذا یہاں یہ کہنا چاہئے”اعلم بمن“لیکن با محزوف ہے اور ”ومن یضل “ اصطلاح کے مطابق منصوب بنزع خافض ہے۔

آیات ۱۱۸،۱۱۹،۱۲۰

۱۱۸( فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ إِنْ کُنتُمْ بِآیَاتِهِ مُؤْمِنِینَ ) ۔

۱۱۹( وَمَا لَکُمْ اٴَلاَّ تَاٴْکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْهِ وَإِنَّ کَثِیرًا لَیُضِلُّونَ بِاٴَهْوَائِهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِینَ ) ۔

۱۲۰( وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۱۸ ۔ اور جس (ذبیح) پر اللہ کا نام لیا گیا ہے اس سے کھاؤ، (لیکن ان جانوروں کے گوشت سے کہ جن کو ذبح کرتے وقت ان پر خدا کا نام نہیں لیا گیا نہ کھاؤ)اگر تم اس کی آیات پر ایمان رکھتے ہو ۔

۱۱۹ ۔تم ان چیزوں میں سے کیوں نہیں کھاتے کہ جن پر خدا کا نام لیا گیا ہے، حالانکہ (خدا وند تعالی نے) جو کچھ تم پر حرام تھا اسے بیان کردیا ہے مگر یہ کہ تم مجبور ہوجاؤ( کہ اس صورت میں اس قسم کے جانور کا گوشت کھانا جائز ہے ) اور بہت سے لوگ (دوسروں کو ) ہوا وہوس اور بے علمی کی وجہ سے گمراہ کردیتے ہیں اور تیرا پرور دگار تجاوز کرنے والوں کو بہتر طور پر پہچانتا ہے۔

۱۲۰ ۔ آشکار اور مخفی گناہوں کو چھوڑ دو کیوں کہ جو لوگ گناہ کماتے ہیں انھیں ان کے بدلے میں سزا دی جائے گی۔

تفسیر

شرک کے تمام آثار مٹ جانے چاہئیں

یہ آیات حقیقت میں توحید وشرک بارے میں گذشتہ مباحث کے نتائج میں سے ایک ، لہذاپہلی آیت”فاء“ تفریح کے ساتھ آئی ہے جو عام طور پر نتیجہ کے بیان کے لئے ہوتی ہے۔

اس کی وضاحت اس طرح ہے کہ گذشتہ آیاتے میں مختلف بیانات کے ساتھ حقیقت توحید کا اثبات اور شرک وبت پرستی کا بطلان واضح ہوا ہے، اس مسئلہ کے نتائج میں سے ایک یہ ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ گوشت کھانے سے جو ”بتوں “ کے نام پر ذبح ہوتے احتراز کریں اور صرف ان جانوروں کے گوشت سے استفادہ کریں کہ جو خدا کے نام پرذبح ہوتے ہیں ، کیوں کہ مشرکین عرب کی ایک عبادت یہ تھی کہ وہ بتوں کے لئے قربانی کرتے تھے اور ان کے گوشت سے تبرک کے طور پر کھاتے تھے اور یہ کام ایل قس، کی بت پرستی ہی تھا ۔

لہٰذا پہلے کہا گیا ہے: ان چیزوں میں سے کھاااؤ کہ جن پر اللہ کانام لیا جاتا ہے، اگر تم اللہ کی آیات پر ایمان رکھتے ہو( فَکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ إِنْ کُنتُمْ بِآیَاتِهِ مُؤْمِنِین ) ۔

یعنی ایمان محض دعوے ، گفتار اور عقیدہ کے نام نہیں ہے، بلکہ اس کا اظہار عمل سے بھی ہونا چاہئے، جو شخص خدائے یکتا پر ایمان رکھتا ہے وہ صرف اسی قسم کے گوشت میں سے کھاتا ہے البتہ امر ”کلوا“(کھاؤ) یہاں اس قسم کے گوشت کے کھانے کے وجو ب کے لئے نہیں بلکہ حقیقت میں اس سے مراد اس کا مباح اور اس کے غیر کا حرام ہونا ہے ۔

ضمنی طور پر یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ اس گوشت کا حرام ہونا کہ جس کے ذبح کے وقت اس پر خدا کا نام نہیں لیا جاتا، اس نکتہ نظر سے نہیں ہے کہ یہ بات صحت عامہ کے پہلو سے ہے کہ یہ کہاجائے کہ نام لینے سے کیا اثر ہوتا ہے، بلکہ اس کا ربط معنوی واخلاقی پہلوؤں اور توحید پرستی کی بنیادوں کو محکم کرنے کے ساتھ ہے۔

بعد والی آیت میں یہی بات دوسری عبارت سے بیان کی گئی جو اور زیادہ استدلال کے ساتھ ہے، فرمایا ہے:تم ان جانوروں سے کیوں میں کھاتے کہ جن پر اللہ کا نام لیا گیا ہے؟ حالانکہ جو کچھ تم پر حرام ہے خدا نے اس کی تشریح کردی ہے( وَمَا لَکُمْ اٴَلاَّ تَاٴْکُلُوا مِمَّا ذُکِرَ اسْمُ اللهِ عَلَیْهِ وَقَدْ فَصَّلَ لَکُمْ مَا حَرَّمَ عَلَیْکُمْ ) ۔

ہم یہ بات دوبارہ دلنشین کراتے ہیں کہ یہ توبیخ وتاکید حلال گوشت کے کھانے کو ترک کرنے کی وجہ سے نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ ہے کہ سرف ان گوشتوں سے کھانا چاہئے اور ان کے سوا دوسرے گوشتوں سے استفادہ نہیں کرناچاہیے اور دوسرے لفظوں میں نظر نکتہ مقابل اور مفہوم جملہ پر ہے ، اسی لئے ”قد فصل لکم ما حرم علیکم“ (خدانے نے اس کی تشریح کردی ہے جو تم پر حرام ہے) کے جملہ سے استدلال کیا گیاہے۔

اس بارے میں کہ یہ بات کس سورہ اور کس آیت میں آئی ہے کہ جس میں حلال وحرام گوشت کی وضاحت کی گئی ہے، ممکن ہے کہ یہ تصور کیا جائے کہ اس سے مراد سورہ مائدہ ہے یا اسے سورہ کی بعض آیات ہیں جو آئندہ آئیں گی(مثلا آیہ ۱۴۵) لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ سورہ مکہ میں نازل ہوئی ہے اور سورہ مائدہ مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور اس سورت کی آئندہ آنے والی آیات بھی ان آیات کے نزول کے وقت ابھی تک نازل نہیں ہوئی تھی، یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان دونوں احتمالات میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ہے ، بلکہ اس سے مراد یا تو سورہ نحل کی آیہ ۱۱۵ ہے کہ جس میں صراحت کے ساتھ حرام گوشتوں کی بعض اقسام کا بیان آیا ہے اور خصوصا وہ جانور جو غیر خدا کے لئے ذبح ہوئے ہوں اور یا اس سے مراد ان گوشتوں کے بارے میں حکم ہے جو پیغمبر کے وسیلہ سے دئے گئے ہیں ، کیوں کہ وہ کوئی حکم وحی الٰہی کے بغیر نہیں دیتے تھے ۔

پھر ایک صورت مستثنیٰ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: مگر اس صورت کہ تم مجبور ہوجاؤ( إِلاَّ مَا اضْطُرِرْتُمْ إِلَیْهِ ) ۔

چاہے یہ اضطرار بیابان میں گرفتار ہوجانے اور شدید بھو کی وجہ سے ہو یا مشرکین کے چنگل میں گرفتار ہونے اورکے اس امر پر مجبور کرنے کی وجہ سے ہو۔

اس کے بعد مزید اضافہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے: بہت سے لوگ دوسروں کو جہل ونادانی اور ہواوہوس کی بنا پر گمراہ کرتے ہیں( وَإِنَّ کَثِیرًا لَیُضِلُّونَ بِاٴَهْوَائِهِمْ بِغَیْرِ عِلْمٍ ) ۔

اگرچہ ہوا پرستی اور جہل ونادانی اکثر ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ ہوتے ہیں لیکن پھر بھی ان دونوں کا ذکر زیادہ تاکید کے لئے اکٹھا کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے ”باہوائھم بغیر علم“۔

ضمنی طور پر تعبیر سے اچھی طرح معلوم ہوجاتا ہے کہ عالم حقیقی ہرگز ہوا پرستی اور خیال آرئی کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتا اور جہاں یہ ان سے جاملا وہ جہالت ہے نا کہ علم ودانش۔

اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ ہوسکتا ہے مندرجہ بالا جملہ اس خیال وتصور کی طرف اشارہ ہوو مشرکین عرب میں موجود تھا تاکہ وہ مردہ جانوروں کاگوشت کھانے کے لئے اس طرح استدلال کیاکرتے تھے کہ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ جانور جنھیں ہم خود زبح کریں انھیں تو ہم حلال سمجھ لیں جنھی ہمارے خدا مارا اسے ہم حرام شمار کریں ؟۔

یہ بات ظاہر ہے یہ سفسطہ ایک بیہودہ خیال سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، کیوں خدا نے مردہ جانور کو ذبح نہیں کیا اوراس کا سر نہین کاٹا کہ ان جانوروں کے ساتھ قیاس کریں جنھیں ہم نے ذبح کیا ہے اور اسی دلیل سے وہ قسم قسم کی بیماریوں کا مرکز ہیں اوراس کا گوشت فاسد اور خراب ہے، لہٰذا خدا وند تعالی نے اس کے کھانے کی اجازت نہیں دے ہے۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے :تیرا پروردگار ان لوگوں کے بارے کہ جو تجاوز کار اور زیادرتی کرنے والے ہیں زیادہ آگاہ ہے( إِنَّ رَبَّکَ هُوَ اٴَعْلَمُ بِالْمُعْتَدِینَ ) ۔

ایسے ہی لوگ فضول اور بودی دلیلوں کے زریعے نہ سرف یہ کہ راہ حق سے منحرف ہوجاتے بلکہ کوشش کرتے ہیں کہ دوسروں کو بھیک منحرف کردیں ۔

چونکہ ممکن ہے کہ بعض لوگ اس فعل حرام کا چھپ کر اور پوشیدہ طور پر انجام دیں لہذااس کے ساتھ ہی اگلی آیت میں ایک قانون کلی کے طور کہا گیا ہے: آشکار اور پنہاں گناہ چھوڑدو( وَذَرُوا ظَاهِرَ الْإِثْمِ وَبَاطِنَهُ ) ۔

کہتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں کچھ لوگوں کا یہ عقیدہ تھا کہ منافی عفت عمل (زنا) اگر چھپ کر کیا جائے تو کوئی عیب نہیں ہے وہ صرف اس صورت میں گناہ ہے کہ اگر اسے آشکار اور ظاہر بظاہر کیا جائے ، آج بھی کچھ لوگوں نے عملی طور پر اسی جاہلانہ منطق کو اپنایا ہوا ہے اور صرف آشکار اور ظاہر بظاہر گناہوں سے پریشان اور وحشت زدہ ہوتے ہیں لیکن چھپ کر گناہ کا ارتکاب کسی پریشانی کے بغیر کرتے ہیں ۔

مندرجہ بالا آیت نہ صرف مذکورہ بالا منطق کی مذمت کرتی ہے بلکہ یہ ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے کہ جو اس کے علاوہ کہ جو بیان کیا جاچکا ہے دوسرے مفاہیم وتفاسیر کوبھی ، جو ”ظاہر“اور ”باطن“گناہ کے سلسلے میں بیان ہوئے ہیں ، اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہے کہ ظاہری گناہوں سے مراد وہ گناہ ہے جو اعضائے بدن کے ساتھ انجام پاتے ہیں اور باطنی گناہ سے مراد وہ گناہ ہیں جو دل ،نیت اور تصمیم وارادہ کے ذریعہ صورت پذیر ہوتے ہیں ۔

اس کے بعد یاددہانی اور گناہگاروں کو تہدید کے طور پر اس بدبختی کے بارے میں جس کا وہ انتظار کررہے ہیں قرآن یوں کہتا ہے :وہ لوگ کہ جو گناہوں کا ارتکاب کررہے ہیں بہت جلدی اپنے اعمال کا نتیجہ دیکھ لےں گے( إِنَّ الَّذِینَ یَکْسِبُونَ الْإِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوا یَقْتَرِفُونَ ) ۔

”کسب گناہ“ کی تعبیر (یکسبون الاثم) ایک عمدہ اور جالب نظر تعبیر ہے جو اس بات کی نشان دہی کرتی ہے کہ افراد انسانی جہان میں اس سرمایہ داروں کی طرح ہیں جو ایک بہت بڑے بازار میں قدم رکھتے ہیں اور کا سرمایہ ہوش ،عقل،عمر اور جوانی اور قسم قسم کی خدا داد قوتیں ہیں وہ لوگ کتنے بدبخت ہیں جو سعادت، افتخار، مقام، تقوی اور قر ب خدا کے حصول کے بجائے گناہ کمانے میں لگے رہیں ۔

( سیجزون ) (عنقریب اپنی جزا دیکھےں گے) کی تعبیر ممکن ہے اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ اگرچہ بعض کی نظر میں قیامت دور ہے لیکن حقیقت وہ بہت قریب ہے اور یہ جہاں بہت تیزی کے ساتھ ختم ہوجائے گا اور قیامت آجائے گی، یا اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ زیادہ تر افراد اس دنیاوی زندگی میں ہی اپنے برے اعمال کے نتائج انفرادی اور اجتماعی رد عمل کے طور پر دیکھیں گے۔