تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34478
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34478 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۲۸،۱۲۹

۱۲۸( وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدْ اسْتَکْثَرْتُمْ مِنْ الْإِنسِ وَقَالَ اٴَوْلِیَاؤُهُمْ مِنْ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا اٴَجَلَنَا الَّذِی اٴَجَّلْتَ لَنَا قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیهَا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

۱۲۹( وَکَذٰلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۲۸ ۔ اور اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع اور محشور کرے گا تو ان سے کہے گا کہ اے گروہ شیاطین وجن تم نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کیا ہے ، تو انسانوں میں سے ان کے دوست اور پیروھار کہیں گے اے ہمارے پروردگا ر ہم دونوں (گمراہ پیشواؤں اور گمراہ پیروکاروں ) میں سے ہر ایک نے دوسرے سے فائدہ اٹھایا ہے( ہم ہوس آلودہ اور زود گزر لذات تک پہنچے اور انھوں نے ہم پر حکومت کی) اور جو اجل تونے ہمارے لئے مقرر کردی تھی ہم اس تک پہنچ گئے،(خدا) کہے گا:تمھارے رہنے کی جگہ آگ ہے تم ہمیشہ کے لئے اسی میں رہوگے، مگر جو کچھ خدا چاہے ، تیرا پروردگار حکیم اور داناہے۔

۱۲۹ ۔ اور اس طرح سے ہم بعض ستمگروں کو بعض (دوسرے ظالموں ) کے سپرد کردیتے ہیں یہ ان اعمال کی وجہ سے ہے جو وہ انجام دیتے ہیں ۔

اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا

ان آیات میں قرآن نئے سرے گمراہ اور گمراہ کرنے والے مجرمین کی سرنوشت کی طرف لوٹتا ہے، اور گذشتہ آیات کے مباحث کی اس سے تکمیل کرتا ہے۔

انھیں اس دن کی یاد دلاتاہے کہ جس دن وہ ان شیاطین کے آمنے سامنے کھڑے ہوں گے کہ جن سے انھوں نے الہام لیا ہے، اور ان پیروکاروں اور ان پیشواؤں سے سوال ہوگا ، ایسا سوال کہ جس کا وہ کوئی جواب نہ دے سکے گے اور حسرت واندوہ کے سواکوئی نتیجہ حاصل نہ کرے گے، یہ تنبیہیں اس مقصد کے لئے ہیں کہ صرف اس چند روزہ زندگی پر نگاہ نہ رکھیں اور انجام کار کی بھی فکر کریں ۔

قرآن پہلے کہتا ہے: اس دن کہ جس میں ان سب کو جمع ومحشور کرے گا تو ابتدا میں کہے گا کہ اے گمراہ کرنے والے جن وشیاطین تم نے بہت سے افراد انسانی کو گمراہ کیا ہے( وَیَوْمَ یَحْشُرُهُمْ جَمِیعًا یَامَعْشَرَ الْجِنِّ قَدْ اسْتَکْثَرْتُمْ مِنْ الْإِنسِ ) ۔(۱)

لفظ ”جن“ سے مراد یہاں وہی شیاطین ہیں ، کیوں کہ جن اصل لغت میں ، جیسا کہ ہم پہلے بھی بیان کرچکے ہیں ، ہر مخفی مخلوق کے معنی میں ، سورہ کہف کی آیہ ۵۰ میں ہم شیاطین کے سردار ابلیس کے بارے میں پڑھے گے۔

( کان من الجن ) “یعنی وہ جنوں میں سے تھا۔

آیات گذشتہ کہ جن میں شیاطین کے رمزی وسوسوں کے بارے میں گفتگو تھی اور فرمایاگیا تھا ”ان الشیاطین لیوحون الی اولیائھم “ اسی طرح بعد والی آیت کچھ اور لوگوں کے بارے میں بعض ستمگروں کی رہبری کی بات کررہی ہے ہوسکتا ہے کہ وہ اسی امر کی طرف اشارہ ہ۔

لیکن گمراہ کرنے والے شیاطین کے پاس اس گفتگو کا کوئی جواب نہیں ہے اور وہ خاموش ہوجاتے ہیں لیکن ”انسانوں میں سے ان کی پیروی کرنے والے اس طرح کہے گے کہ پروردگارا ، انھوں نے ہم سے فائدہ اٹھایا او ر ہم نے ان سے فائدہ اٹھایا یہاں تک کہ ہماری اجل آگئی“( وَقَالَ اٴَوْلِیَاؤُهُمْ مِنْ الْإِنسِ رَبَّنَا اسْتَمْتَعَ بَعْضُنَا بِبَعْضٍ وَبَلَغْنَا اٴَجَلَنَا الَّذِی اٴَجَّلْتَ لَنَا ) ۔

وہ اسی بات پر خوش تھے کہ انھوں نے فرمانبردار پیروکار مل گئے ہیں اور ان پر حکومت کررہے ہیں ، اور ہم بھی دنیا کے زرق وبرق اور اس کی بے لگام وقتی لذات کہ جو شیاطین کے وسوسوں کی وجہ سے دلفریب اور دلچسپ دکھائی دیتی تھی ، خوش تھے۔

اس بارے میں کہ اس آیت میں اجل سے کیا مراد ہے؟ کیا اس سے مراد زندگی کا اختتا م ہے یا قیامت کادن ہے ؟ مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ظاہر زندگی کا اختتام مراد ہے، کیوں کہ لفظ ”اجل“ اس معنی میں قرآن کی بہت سے آیات میں استعمال ہوا ہے ۔

لیکن خدا ان سب فاسد ومفسد پیشواؤں اور پیروکاروں کو مخاطب کرکے کہتا ہے: تم سب کے رہنے کی جگہ آگ ہے اور تم ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہوں گے، مگر جو کچھ خدا چاہے( قَالَ النَّارُ مَثْوَاکُمْ خَالِدِینَ فِیهَا إِلاَّ مَا شَاءَ الله ) ۔

جملہ”الا ماشاء الله “ (مگر جو خدا چاہے) کے ساتھ استثنا یا تو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایسے مواقع پر عذاب وسزا کا ابدی ہونا پروردگار عالم سے اس کی قدرت کو سلب نہیں کرتا، بلکہ جب وہ چاہے اسے بدل سکتا ہے، اگر چہ ایک گروہ کے لئے قائم رہنے دیتا ہے۔

یا یہ ان افراد کی طرف اشارہ ہے کہ جو ابدی عذاب کے مستحق نہیں ہیں ، یا یہ وہ عفو الٰہی کے شامل حال ہونے کی قابلیت رکھتے ہیں کہ جنھیں سزا کے جاودانی ہونے اور ہمیشگی کے حکم سے مستثنی ہونا چاہئے۔

اور آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے : تیرا پروردگار حکیم ودانا ہے( إِنَّ رَبَّکَ حَکِیمٌ عَلِیمٌ ) ۔

اس کی سزا بھی حساب وکتاب کے ماتحت ہے اور اس کی بخشش بھی حساب وکتاب کی رو سے ہے اوروہ اس کے مواقع کو اچھی طرح جانتا ہے۔

اگلی آیت میں اس قسم کے افراد کے بارے میں ایک دائمی قانون الٰہی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جس طرح ستمگر اور طاغی لوگ اس دنیا میں ایک دوسرے کے حامی اور معاون تھے، وہ آپس میں رہبر ورہنما بھی تھے، اور غلط راستوں پر چلنے میں ایک دوسرے کے قریبی ہمکار بھی تھے، ”دوسرے جہان میں بھی ہم انھیں ایک دوسرے کے ساتھ چھوڑ دیں گے، اور یہ ان اعمال کی وجہ سے ہے کہ جنھیں وہ اس جہان میں انجام دیتے تھے”( وَکَذٰلِکَ نُوَلِّی بَعْضَ الظَّالِمِینَ بَعْضًا بِمَا کَانُوا یَکْسِبُون ) ۔

کیوں کہ جیس کہ ہم نے معاد سے مربوط مباحث میں بیان کیا ہے قیامت کا منظر بہت بڑے پیمانے پر عکس العمل اور ردعمل کا منظر ہے اور وہاں پر جو کچھ ہوگا وہ ہمارے اعمال کا پرتواور انعکاس ہے۔(۲)

تفسیر علی بن ابراہیم قمی میں بھی امام علیہ السلام سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:

نولی کل من تولی اولیائهم فیکونون معهم یوم القیٰمة

”قیامت کے دن ہر شخص اپنے اولیاء کے ساتھ ہوگا“۔

قابل توجہ بات یہ ہے آیت میں تمام گروہوں کا ”ظالم“ کے عنوان تعارف کرایا گیا ہے اور اس میں شک نہیں ہے کہ ”ظلم“ اپنے وسیع معنی کے لحاظ سے ان سب پر محیط ہے، اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم ہوگا کہ انسان اپنے جیسے شیطان صفت لوگوں کی رہبری کو قبول کرکے اپنے آپ کو خدا کی ولایت سے خارج کرلے، اور دوسرے جہاں میں بھی ان ہی کی ولایت کے ماتحت قرار پائے۔

نیز یہ تعبیر اور”( بما کانوا یکسبون ) “ سے اس بات کی نشان دہی ہوتی ہے کہ یہ سیاہ روزی اور بدبختی خود ان کے اعمال کی وجہ ہے اور یہ ایک سنت الٰہی اور قانون فطرت ہے کہ تاریک راستوں کے راہی بدبختی کے کنویں اور درے میں گرنے کے سوا اور کوئی انجام وعاقبت نہیں پائیں گے۔

____________________

۱۔ ”یوم“ ظرف ہے اور ”یقول“ سے متعلق ہے جو کہ محذوف ہے اور اصل میں جملہ یوں تھا” یوم یحشرھم جمیعا یقول“۔

۲۔ مزید وضاحت کے لئے ”معادو جہان پس از مرگ “ نامی قیمتی کتاب کی طرف رجوع کریں ۔

آیات ۱۳۰،۱۳۱،۱۳۲

۱۳۰( یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هَذَا قَالُوا شَهِدْنَا عَلیٰ اٴَنفُسِنَا وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا وَشَهِدُوا عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ اٴَنَّهُمْ کَانُوا کَافِرِینَ ) ۔۔

۱۳۱( ذٰلِکَ اٴَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُهْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَاٴَهْلُهَا غَافِلُونَ ) ۔

۱۳۲( وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۳۰ ۔ (اس دن ان سے کہے گا) اے گروہ جن وانس ! کیا تم ہی میں سے (ہمارے بھیجے ہوئے) رسول تمھارے پاس نہیں آئے تھے، جو ہمارے آیات تمھارے سامنے بیان کیا کرتے تھے، اور اس قسم کے دن کی ملاقات سے تمھیں ڈراتے تھے، وہ کہیں گے کہ ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں (ہاں ہم نے برا کیا) اور انھیں دنیا کی (زرق وبرق) زندگی نے فریب دیا، اور وہ خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں کہ وہ کافر تھے۔

۱۳۱ ۔ یہ اس بنا پر ہے کہ تیرا پروردگار کبھی بھی شہر اور آبادیوں (کے لوگوں ) کو ان کے ظلم وستم کی وجہ سے غفلت اور بے خبری کی حالت میں ہلاک نہیں کرتا(بلکہ پہلے کچھ رسولوں کو ان کے پاس بھیجتا ہے)۔

۱۳۲ ۔ اور (ان دونوں گروہوں میں سے ) ہر ایک کے لئے درجات (اور مراتب) ہیں ہر اس عمل کے بدلے میں جو انھوں نے انجام دیا ہے اور تیرا پروردگار ان اعما ل سے جو انھوں نے انجام دئیے ہیں غافل نہیں ہے۔

تفسیر

اتمام حجت

گذشتہ آیات میں شیطان صفت ستمگروں کی قیامت کے دن سرنوشت بیان ہوئی ہے، اس غرض سے کہیں یہ تصور نہ کرلیا جائے کہ انھوں نے غفلت کی حالت میں یہ کام انجام دئے ہوں گے اب ان آیات میں واضح کرتا ہے کہ انھیں کافی تنبیہ کی گئی ہے اوران پر اتمام حجت کی گئی ہے ، لہٰذا قیامت کے دن وہ ان سے کہے گا: اے گروہ جن وانس! کیا تم ہی میں سے رسول تمھارے پاس نہیں آئے تھے اوت ہماری آیات بیان نہیں کی تھی اور قسم کے دن کی ملاقات سے تمھیں ڈرایا نہیں تھا( یَامَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ اٴَلَمْ یَاٴْتِکُمْ رُسُلٌ مِنْکُمْ یَقُصُّونَ عَلَیْکُمْ آیَاتِی وَیُنذِرُونَکُمْ لِقَاءَ یَوْمِکُمْ هَذَا ) ۔

”معشر“ اصل میں ” عشرة “سے جودس کے عدد کے معنی میں ہے، لیا گیا ہے اور چونکہ دس کا عدد ایک اکمل عدد ہے، لہٰذا معاشرہ کا لفظ ایک کامل جماعت پر جو مختلف اصناف اور طوتفوں پر مشتمل ہو ، بولا جاتا ہے، اس بارے میں کہ آیا جنوں کی طرف بھیجے گئے رہنما خود ان ہی کی جنس ونوع سے تھے یا نوع بشر میں سے مفسرین کے درمیان اختلاف ہے، لیکن سورہ جن کی آیات سے جو کچھ اچھی طرح سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ :قرآن اور اسلام سب کے لئے ہے حتی کہ جنوں کے لئے بھی نازل ہوا ہے، اور پیغمبر اسلام سب کی طرف مبعوث ہوئے تھے ، زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس بات میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ پیغمبر صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی جانب سے ان کو دعوت دینے کے لئے خود ان ہی میں سے پیغام دینے والے اور نمائندے مامور ہوں اس بارے میں مزید تشریح اور ”جن“ کے علمی معنی کے بارے میں بھی انشاء للہ قرآن مجید کے پارہ ۲۹ میں سورہ جن کی تفسیر میں آئے گی۔

لیکن اس بات پر توجہ رکھنا چاہئے کہ لفظ” منکم“ (تم میں سے) اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ہرگروہ کے رسول ایک ہی گروہ سے ہوں یا تمام گروہوں میں ے ہوں ۔

اس کے بعد کہتا ہے کہ قیامت کے دن کچھ چھپایا نہیں جاسکے گا او ر اس روز سب چیزوں کی نشانیاں آشکار ہوں گی اور کوئی شخص کسی چیز کو چھپا نہیں سکے گا، سب کے سب خدا کی اس پرسش کے سامنے اظہار کرتے ہوئے، کہیں گے ہم خود اپنے خلاف گواہی دیتے ہیں اور اس بات کا عتراف کرتے ہیں کہ ایسے رسول آئے تھے اور انھوں نے تیرے پیغام ہمیں پہنچایا تھا، مگر ہم نے ان کی مخالفت کی تھی( قَالُوا شَهِدْنَا عَلیٰ اٴَنفُسِنَا ) ۔

ہاں ! ان کے پاس پروردگار کی طرف سے کافی دلائل موجود تھے اور وہ راہ اور چاہ تمیز کرتے تھے ،”لیکن دنیا کی پرفریب زندگی اور اس کے وسوسہ انگیز زرق وبرق نے انھیں دھوکا دیا“( وَغَرَّتْهُمْ الْحَیَاةُ الدُّنْیَا ) ۔

یہ جملہ اچھی طرح سے واضح کررہا ہے کہ انسانوں کے لئے راہ سعادت میں سب سے بڑی رکاوٹ ، جہاں مادہ کے مظاہر کے سامنے بے لگام ہوکرسرتسلیم خم کرنا اور بے حد وحساب دلبستگی ہے ایسی دلبستگیاں کہ جو انسان کو زنجیر غلامی کی طر ف کھینچ لے جاتی ہے اور اسے ہر قسم کے ظلم وستم ، تعدی وانحراف اور خود کواہی وطغیان کی دعوت دیتی ہے۔

قرآن دوبارہ تاکید کرتا ہے: وہ صراحت کے ساتھ اپنے ضرر میں اور اپنے خلاف گواہی دیں گے کہ وہ کفر کی راہ پر چلے تھے اور منکرین حق کی صف میں شامل ہوئے تھے( وَشَهِدُوا عَلیٰ اٴَنفُسِهِمْ اٴَنَّهُمْ کَانُوا کَافِرِینَ ) ۔

بعد والی آیت میں گذشتہ آیت کے اسی مضمون کو دہرایا گیا ہے لیکن ایک قانون کلی اور دائمی سنت الٰہیہ سے کی صورت میں بیان کیا گیا ہے ”یہ اس بنا پر کہ تیرا پروردگار کبھی بھی شہروں اور بستیوں کے لوگوں کو ان کے ظلم وستم کی وجہ سے غفلت کی حالت میں ہلاک نہیں کیا کرتا )مگر یہ کہ ان کی طرف انبیاء ورسل کو بھیجے اور انھیں ان کے برے اعمال کی برائی طی طرف متوجہ کرے اور جو کہنے کی باتیں ہیں وہ ان سے کہے( ذٰلِکَ اٴَنْ لَمْ یَکُنْ رَبُّکَ مُهْلِکَ الْقُرَی بِظُلْمٍ وَاٴَهْلُهَا غَافِلُونَ ) ۔

لفظ ”بظلم“ اس معنی میں بھی ہوسکتا ہے کہ خدا کسی کو اس کے مظالم کی بنا پر غفلت کی حالت میں پیغمبروں کو بھیجنے سے پہلے عذاب اور سزا نہیں دیتا اور اس معنی میں بھ ہوسکتا ہے کہ خدا افراد غافل کو ظلم وستم سے عذاب سزا نہیں دیتا، کیوں ک انھیں اس حالت میں سزا دینا ظلم وستم ہے اور خدا نود تعالی اس سے بالا وبرتر ہے وہ کسی پر ظلم وستم کرے ۔(۱)

اس کے سر انجام کا بعد کی آیت میں خلاصہ کرتے ہوئے یوں فرمایا گیا ہے: ان گروہوں میں سے ہر ایک نیکو کاروں وبدکار، فرمانبردار وقانون شکن، حق طلب وستمگر وہاں پر اپنے اعمال کے مطابق درجات ومراتب کے حامل ہوں گے اور تیرا پروردگار کبھی بھی ان کے اعمال سے غافل نہیں ہے، بلکہ وہ سب کو جانتا ہے اور وہ ہر شخص کو اس کی لیاقت کے مطابق دے گا( وَلِکُلٍّ دَرَجَاتٌ مِمَّا عَمِلُوا وَمَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُونَ ) ۔

یہ آیت دوبارہ اس حقیقت کو تاکید کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ تمام مراتب اور درجات اور درکات خود انسان کے اپنے اعمال کا نتیجہ ہے نہ کہ کسی اور چیز کا۔

____________________

۱۔ پہلی صورت میں ”ظلم“ کا غافل ہے کافر ہے

آیات ۱۳۳،۱۳۴،۱۳۵

۱۳۳( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ )

۱۳۴( إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ )

۱۳۵( قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۳۳ ۔ اور تیرا پروردگار بے نیاز اور مہربان ہے(لہٰذا وہ کسی کے بارے میں ظلم وستم نہیں کرتا بلکہ یہ اپنے اعمال کا نتیجہ بھگتتے ہیں ) اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھارے بعد تمھاری بجائے جو کچھ چاہے (اور جسے چاہے) تمھارا جانشین بنا دے جیسا کہ تمھیں دوسری اقوام کی نسل سے وجود میں لایا ہے۔

۱۳۴ ۔ جو کچھ تم سے وعدہ کیا جارہا ہے وہ آکر رہے گااورتم (خدا کو ) عاجز ونوتواں نہیں کرسکتے( کہ اس کی عدلات وسزا سے بچ کر بھاگ جاؤ)

۱۳۵ ۔ کہہ دو اے قوم !جو کام( تم سے ہوسکتا ہے اور) تمھاری قدرت میں ہے کر گزرو۔ میں (بھی اپنے فریضہ پر) عمل کروں گا، لیکن بہت جلد تمھیں معلوم ہوجائے گا کہ کونسا شخس نیک انجام رکھتا ہے (اور کامیابی کس کے لئے ہے لین) یہ بات مسلم ہے کہ ظالم فلاح ونجات حاصل نہیں کریں گے۔

تیرا پروردگار بے نیاز بھی اور رحیم ومہربان بھی ہے

پہلی آیت درحقیقت اس پر ایک استدلال ہے جو گذشتہ آیات میں پروردگار کے ظلم نہ کرنے کے بارے میں بیان ہوا ہے۔ آیت کہتی ہے: تیرا پروردگار بے نیاز بھی ہ اور رحیم ومہربان بھی ہے ، اس بنا پر کوئی وجہ نہیں کہ کسی پر چھوٹے سے چھوٹا ظلم بھی روا رکھے کیوں کہ ظلم تو وہ کرتا ہے کہ جو نیازمند ہو یا سخت مزاج اور سنگدل ہو( وَرَبُّکَ الْغَنِیُّ ذُو الرَّحْمَةِ ) ۔

علاوہ ازایں اسے نہ تو تمھاری اطاعت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسے تمھارے گناہوں کا خوف ہے کیوں کہ” اگر وہ چاہے تو تم سب کو لے جائے اور تمھاری جگہ پر دوسرے لوگوں کو جنھیں وہ چاہے تمھارا جانشین بنادے جیسا کہ اس نے تمھیں ایسے انسانوں کی نسل میں پیدا کیا ہے جو تم سے بہت سی صفات میں مختلف تھے( إِنْ یَشَاٴْ یُذْهِبْکُمْ وَیَسْتَخْلِفْ مِنْ بَعْدِکُمْ مَا یَشَاءُ کَمَا اٴَنشَاٴَکُمْ مِنْ ذُرِّیَّةِ قَوْمٍ آخَرِینَ ) ۔

اس بنا پر وہ بے نیاز بھی ہے اور مہربان بھی اور ہر چیز پر قدرت بھی رکھتا ہے، اس حالت میں اس کے بارے میں ظلم کا تصور ممکن نہیں ہے۔

اور اس کی لامتناہی قدرت پر توجہ رکھتے ہوئے یہ بات واضح اور روشن ہے کہ” اس نے تم سے جو قیامت اور جزا وسزا کے بارے مین وعدہ کیا ہے وہ ہوکے رہے گا اور اس کی تھوڑی سی بھی خلاف ورزی نہیں ہو گی“ (إِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ )۔

”اورتم اس کی حکومت سے ہرگز باہر نہیں نکل سکتے اور اس کے پنجہ عدالت سے فرار نہیں کرسکتے“( وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔(۱)

اس کے بعد پیغمبر کو حکم دیا گیا ہے: انھیں تہدید کرتے اور دھمکی دیتے ہوئے کہو کہ اے قوم! تم سے جو کچھ ہوسکتا ہے وہ کرگزرو، میں بھی وہ کام جس کا خدانے مجھے حکم دیاہے انجام دوں گا۔ مگر تمھیں بہت ہی جلد معلوم ہوجائے گا کہ نیک انجام اور آخری کامیابی کسے نصیب ہوتی ہے لیکن یہ مسلم ہے کہ ظالم وستمگار کامیاب نہیں ہوں گے اور سعادت ونیک بختی کا منہ نہیں دیکھیں گے( قُلْ یَاقَوْمِ اعْمَلُوا عَلیٰ مَکَانَتِکُمْ إِنِّی عَامِلٌ فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ تَکُونُ لَهُ عَاقِبَةُ الدَّارِ إِنَّهُ لاَیُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔

یہاں ہم دوبارہ دیکھ رہے ہیں کہ ”کفر“ کی بجائے”ظلم“ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ کفر اور انکار حق ایک قسم کا واضح وآشکار ظلم ہے، اپنے اوپر بھی ظلم ہے اور معاشرے پر بھی ظلم ہے اور چونکہ ظلم جہان آفرینش کی عمومی عدالت کے برخلاف ہے لہٰذا آخر کار اسے شکست ہو گی۔

____________________

۱۔ ”معجزین“ ”اعجاز“ کے مادہ سے ہے ، یعنی دوسرے کو ناتوان اور عاجز کردینا ۔ آیت کہتی ہے کہ تم خدا کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرکے اٹھانے اور عدالت کے جاری کرنے سے عاجز نہیں کرسکتے۔ دوسرے لفظوں میں تم اس کی قدرت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔

آیت ۱۳۶

۱۳۶( وَجَعَلُوا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاٴَ مِنْ الْحَرْثِ وَالْاٴَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَکَائِنَا فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِهِمْ فَلاَیَصِلُ إِلَی اللهِ وَمَا کَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِهِمْ سَاءَ مَا یَحْکُمُونَ ) ۔

ترجمہ:

۱۳۶ ۔ اور (مشرکین نے ) ان چیزوں میں سے جو خدان پیدا کی ہیں ( یعنی ) زراعت اور چوپایوں میں سے کچھ حصہ خدا کے لئے( بھی ) قرار دیا ہے اور انھوں نے یہ کہا کہ (ان کے گمان کے مطابق) یہ خدا کا مال ہے اور یہ ہمارے شرکاء (یعنی بتوں ) کا مال ہے، جو ان کے شرکاء کا مال تھا وہ تو خدا تک نہیں پہنچتا تھا لیکن جو خداکا مال تھا وہ ان کے شرکاء تک پہنچ جاتا تھا، (اور اگر بتوں کا حصہ کم ہوجاتا تھا تو خدا کامال انھیں دے دیتے تھے لیکن اس کے برعکس کو جائز نہیں سمجھتے تھے، یعنی خدا کا حصہ کم ہوجانے کی صورت میں بتوں کے مال میں سے خدا کو نہیں دیتے تھے)وہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں (کہ شرک کے علاوہ خدا کو بتوں سے بھی کم تر سمجھتے تھے)۔

ان کے شرکاء (یعنی بتوں ) نے ان کی اولاد کے قتل کو

ان کے دماغوں سے بت پرستی کے افکار کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مشرکین کے بیہودہ عقائد ورسموں اور آداب وعبادات کادوبارہ ذکر شروع کیا گیا ہے اور بیان رسا کے ذریعے ان کے بیہودہ ہونے کو واضح کیا گیا ہے۔

قرآن پہلے کہتا ہے: کفار مکہ اور تمام مشرکین اپنی زراعت اور چوپایوں میں سے ایک حصہ تو خدا کے لئے اور ایک حصہ اپنے بتوں کے لئے قرار دیتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ حصہ تو خدا کا ہے اور یہ ہمارے شرکاء یعنی بتوں کا مال ہے( وَجَعَلُوا لِلّٰهِ مِمَّا ذَرَاٴَ مِنْ الْحَرْثِ وَالْاٴَنْعَامِ نَصِیبًا فَقَالُوا هَذَا لِلّٰهِ بِزَعْمِهِمْ وَهَذَا لِشُرَکَائِنَا ) ۔

اگرچہ آیت میں صرف خدا کے حصہ کی طرف اشارہ ہوا ہے لیکن بعد کے جملوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ایک حصہ خدا کا اور ایک حصہ بتوں کا قرار دیتے تھے، روایات میں آیاہے کہ اس حصہ کو تو جسے وہ خدا کے لئے قرار دیتے تھے بچوں اور مہمانوں میں صرف کرتے اور اس سے اس کام کے لئے استفادہ کرتے تھے لیکن زراعت اور چوپایوں کاوہ حصہ جو وہ بتوں کے لئے قرار دیتے تھے بتوں اور بت خانہ کے خادموں اور متولیوں اور مراسم قربانی اور خود ان کے اپنے لئے مخصوص تھا۔(۱)

”شرکائنا“ (ہمارے شریک) کی تعبیر بتوں کے لئے اس بنا پر تھی کہ وہ انھیں اپنے اموال ، سرمائے اور زندگی میں شریک سمجھتے تھے۔

”مما ذراء“(اس میں سے جو خدا نے خلق کیا ہے) کی تعبیر درحقیقت ان کے عقیدہ کے ابطال کی طرف اشارہ ہے کیوں کہ یہ تمام اموال سب کے سب خدا کی مخلوق تھے تو پھر ان میں سے ایک حصہ خدا کے لئے اور ایک حصہ بتوں کے لئے کیسے مقرر کرتے تھے۔

اس کے بعد اس بارے میں ان کے ایک عجیب وغریب فیصلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ حصہ جو انھوں نے بتوں کے لئے مقرر کیا تھا وہ تو ہر گز خدا کو نہیں مل سکتا تھا (اور خدا کے نام پر کسی کو نہیں دیا جاسکتا تھا) لیکن وہ حصہ جو انھوں نے خدا کے لئے قرار دیا تھا وہ بتوں کو پہنچ جاتا تھا

( فَمَا کَانَ لِشُرَکَائِهِمْ فَلاَیَصِلُ إِلَی اللهِ وَمَا کَانَ لِلّٰهِ فَهُوَ یَصِلُ إِلَی شُرَکَائِهِمْ ) ۔

اس بارے میں کہ اس جملے سے کیا مراد ہے، مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن تقریباً وہ سب کے سب ایک ہی حقیقت کی طرف لوٹتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ جب کسی حادثہ کی وجہ سے زراعت یا چوپایوں میں سے مقرر کئے ہوئے خدا کے سہم کا کچھ حصہ خراب ہوجاتا تھا اور نابود ہوجاتا تھاتو وہ کہتے تھے کہ یہ کوئی اہم بات نہیں ہے خدا بے نیاز ہے لیکن اگر بتوں کے حصہ مین سے کچھ ضائع ہوجاتا تو سہم خدا کو اس کی جگہ قرار دے لیتے تھے اور کہتے تھے کہ بتوں کو اس کی زیادہ ضرورت ہے۔

اسی طرح اگر اس کھیت کا پانی جو خدا کے حصہ میں تھا بتوں کے حصہ والے میں چلاجاتا تھا تو کہتے تھے کہ کوئی حرج نہیں ہے، خدا تو بے نیاز ہے، لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہوجاتاتو اس کو روک دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ بتوں اس کی زیادہ ضرورت ہے۔

آیت کے آخر میں خداتعالی ایک مختصر سے جملے کے ذریعے سے اس بیہودہ عقیدے کو جرم قرار دے کر اس کے خلاف فیصلہ کرتا ہے اور کہتا ہے:یہ کیسا برا فیصلہ کرتے ہیں( سَاءَ مَا یَحْکُمُون ) ۔

اس بات کے علاوہ کہ بت پرستی خود ایک فاسد اور بے اساس چیزہے ان کے فعل کی برائی کے کچھ اور پہلو بھی ہیں :

۱ ۔باوجود اس کے کہ تمام چیزیں خدا کی مخلوق ہیں اور اس کی مسلم ملکیت ہے او تمام موجوات کا حاکم ومدبر ومحافظ وہی ہے ، وہ اس میں سے صرف ایک ہی حصہ کو خدا کے ساتھ مخصوص قرار دیتے تھے، گویا اصلی مالک وہ خود تھے، لہٰذا تقسیم کا حق بھی صرف ان ہی کو حاصل تھا(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ ”مما ذراء“ کا جملہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے) ۔

۲ ۔ وہ اس تقسیم میں بتوں کی طرف داری کو مقدم رکھتے تھے لہٰذا ہر وہ نقصان جو خدا کے حصہ میں واقع ہوتا تھا اسے کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن جو نقصان بتوں کے حصہ میں ہوجاتا اس کی خدا کے حصہ سے تلافی کرلیا کرتے تھے اور خدا کے حصہ میں سے لے کر بتوں کو دے دیتے ، آیت میں اسی بات کی طرف اشارہ ہوا ہے، اور یہ بتوں ک لئے خدا کی نسبت ایک قسم کی برتری اور امتیاز کا اظہار تھا۔

۳ ۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بتوں کے حصہ کے لئے ایک خاص اہمیت کے قائل تھے ، لہٰذا ان کے حصہ میں سے متولیان، بتوں کے خادم اور خود بت پرست کھاتے تھے اور خدا کے حصہ کو صرف بچوں اورمہمانوں کو دیتے تھے، قرائن اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ موٹے تازے گوسفند اور اچھے قسم کا اناج بتوں کا مال تھا تاکہ بقولے ”حاتم کے بعد پیٹ بھر کر کھاسکیں “۔

یہ سب چیزیں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ وہ تقسیم کے سلسلے میں خدا کے لئے بتوں جتنی قدرت وقیمت کے بھی قائل نہیں تھے، اس سے بڑھ کر قبیح اور زیادہ سنگین اور کیا فیصلہ ہوسکتا ہے کہ انسان پتھر یا لکڑی کے ایک بے قدروقیمت ٹکڑے کو عالم ہستی کے خالق ومالک سے بلند تر خیال کرے، کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی انحطاط فکری تصور کیا جاسکتا ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر المنار، جلد ہشتم ، صفحہ ۱۲۲۔

آیت ۱۳۷

۱۳۷( وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اٴَوْلاَدِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُونَ )

ترجمہ:

۱۳۷ ۔اور اسی طرح ان کے شرکاء (یعنی بتوں ) نے ان کی اولاد کے قتل کو ان کی نظروں میں پسندیدہ رکھا تھا (وہ اپنے بچوں کو بتوں پر قربان کرتے تھے اور اس پر فخر کرتے تھے) اور اس کام کا انجام یہ ہوا کہ بتوں نے انھیں ہلاکت میں ڈال دیا اور ان کے دین کو دگرگوں کردیا اور اگر خدا چاہتا تو وہ ایسا نہ کرتے( کیوں کہ خدا انھیں جبرا ایسا کرنے سے روک سکتا تھا لیکن جبر کا کوئی فائدہ نہیں ہے) اس بناپر انھیں اور ان کی تہمتوں کو بھی چھوڑ دو(اور ان کے اعمال کی پرواہ نہ کرو)۔

بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ

قرآن اس آیت میں بت پرستوں کی ایک بدکاری اور ان کے شرم ناک جرائم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جس طرح خدا اور بتوں کے بارے میں ان کی تقسیم ان کی نظروں میں جچتی تھی اور اس برے، بیہودہ اور مضحکہ خیز عمل کو وہ پسندیدہ خیال کرتے تھے، اسی طرح ان کے شرکاء نے اولاد کے قتل کو بہت سے بت پرستوں کی نگاہ میں پسندیدہ بنا رکھا تھا یہان تک کہ وہ اپنے بچوں کو قتل کرنا ایک قسم کا افتخار یا عبادت شمار کرت تھے( وَکَذٰلِکَ زَیَّنَ لِکَثِیرٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ قَتْلَ اٴَوْلاَدِهِمْ شُرَکَاؤُهُمْ ) ۔

یہاں ”شرکاء “سے مراد بت ہیں کہ جن کی خاطر وہ بعض اوقات اپنے بیٹوں کو بھی قربان کردیتے تھے یا نذرکرتے تھے کہ اگر انھیں بیٹا نصیب ہوگا تو وہ اسے بت کے لئے قربان کریں گے ۔ جیسا کہ قدیم بت پرستوں کی تاریخ میں بیان کیا گیا ہے اور اس بنا پر بتوں کی طرف ”زینت دینے“ کی نسبت اس سبب سے ہے کیوں کہ بتوں کے ساتھ تعلق اور عشق انھیں اس مجرمانہ عمل پر آمادہ کرتا تھا۔ اس تفسیر کی رو سے مذکورہ بالا آیت میں قتل کرنے کا بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کا یا فقر وفاقہ کے خوف سے بیٹوں کو قتل کرنے کے مسئلہ کے ساتھ کوئی ربط نہیں ہے۔

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ بتوں کے وسیلہ سے اس جرم کی تزئین سے مراد یہ ہو کہ بت کدوں کے خدام اور متولی لوگوں کو یہ کام کرنے کا شوق دلاتے تھے اور خود کو بتوں کی زبان سمجھتے تھے کیوں کہ کہا جاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب اہم سفروں اور دوسروے کاموں کے انجام دینے کے لئے ”ھبل“ (ان کا بڑا بت تھا) سے اجازت لیتے تھے ، ان کے اجازت لینے کا طریقہ یہ تھا کہ تیر کی وہ لکڑیاں جو ایک مخصوص تھیلے میں ”ھبل“ کے پہلو میں ہوا کرتی تھیں او ان میں سے بعض کے اوپر ”افعل“ (یہ کام انجام دو) اور بعض کے اوپر ”لاتفعل“ (یہ کام انجام نہ دو) لکھا ہوا ہوتا تھا، وہ تھیلے کو ہلاتے تھے اور ان میں سے ایک تیر کی لکڑی نکال لیتے تھے اور جو کچھ اس کے اوپر لکھا ہوا ہوتا تھا، اسے وہ ”ھبل“ کا پیغام سمجھتے تھے اور یہ چیزاس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ اس طریقے سے بتوں کا منشاء معلوم کرنا چاہتے تھے اور کچھ بعید نہیں کہ بت کے لئے قربانی کا مسئلہ بھی خدام کے ذریعہ بت کے ایک پیغام کے طور پر متعارف ہوا ہو۔

یہ احتمال بھی ہے کہ بیٹیوں کا زندہ درگور کرنا ان لوگوں کے درمیان کہ جو تواریخ کے بیان کے مطابق بدنامی اور ننگ عار کا داغ مٹانے کے نام پر قبیلہ بنی تمیم کے درمیان رائج تھا، وہ بت کے پیغام کے طور پر ہی متعارف ہوا ہے ، کیوں کہ تاریخ میں ہے کہ نعمان بن منذر نے عرب کی ایک جماعت پر حملہ کیا او ر ان کی عورتوں کو اسیر کرلیا اور ان کے درمیان ”قیس بن عاصم“ کی بیٹی بھی تھی، اس کے بعد ان کے درمیان صلح ہوگئی اور ہر عورت اپنے قبیلہ کی طرف پلٹ آئی سوائے قیس کی بیٹی کے کہ ا س نے اس بات کو ترجیح دی کہ وہ دشمن کی قوم کے درمیان رہ جائے اور شاید ان کے کسی جوان سے شادی کرلے، یہ مطلب قیس پر گراں گزرا اور اس نے بتوں کے نام کی قسم کھائی کہ جب میری دوسری لڑکی پیدا ہوگی تو میں اسے زندہ درگور کردوں گا،کچھ زیادہ عرصہ نہ گزرا تھا کہ یہ عمل بطور سنت ان کے درمیان رائج ہوگیا کہ انھوں ناموس کے دفاع کے نام پر ایک بہت بڑے جرم یعنی بے گناہ اولاد کو قت کرنے کا ارتکاب کرنا شروع کردیا۔(۱)

اس بنا پر ممکن ہے کہ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا بھی زیر نظر آیت میں داخل ہو ۔

ایک اور احتمال بھی زیر بحث آیت کی تفسیر میں نظر آتا ہے، اگرچہ مفسرین نے اسے ذکر نہیں کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت کے عرب بتوں کے لئے اس قسم کی اہمیت کے قائل تھے کہ اپنے نفیس اور عمدہ اموال تو بتوں اور ان کے طاقتور اور مالدار متولیوں اور خدام پر خرچ کردیا کرتے تھے، اور خود فقیر اور تنگ دست ہوجاتے تھے، یہاں تک کہ بعض اوقات بھوک اور فقر وفاقہ کی وجہ سے اپنے بچوں کو ذبح کردیتے تھے، بتوں کے ساتھ ان کے اس عشق نے ایسے برے عمل ان کی نظروں میں مزین کردیا تھا ۔

لیکن پہلی تفسیر یعنی بتوں کے لئے اولاد کو قربان کرنا آیت کے متن کے ساتھ سب سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے ۔

اس بعد قرآن کہتا ہے: اس قسم کے قبیح اور بداعمال کا نتیجہ یہ تھا کہ بتوں کے خدام ، مشرکین کو ہلاکت میں ڈال دیں ، اور دین وآئین حق کو ان پر مشتبہ کردے اور انھیں ایک پاک وپاکیزہ دین تک پہنچنے سے محروم کردے( لِیُرْدُوهُمْ وَلِیَلْبِسُوا عَلَیْهِمْ دِینَهُمْ ) ۔

قرآن کہتا ہے :ان تمام باتوں کے باوجود اگر خدا چاہتا تو جبرا انھیں اس کام سے روک دیتا، مگر جبر کرنا سنت الٰہی کے برخلاف ہے، خدا چاہتا ہے کہ بندے آزاد رہیں ، تاکہ تربیت اور تکامل وارتقا کی راہ ہموار ہو، کیوں کہ جبر میں نہ تربیت ہے نہ تکامل وارتقا( وَلَوْ شَاءَ اللهُ مَا فَعَلُوهُ )

اور آخر میں فرماتا ہے: اب جب کہ یہ حال ہے کہ وہ اس قسم کے کے بیہودہ ، پست اور شرم ناک اعمال میں غوطہ زن ہیں یہاں تک کہ اس کی قباحت کو بھی نہیں سمجھتے اور سب سے بد تر یہ کہ وہ کبھی ایسے خدا کی طرف بھی منسوب کردیتے ہیں لہٰذا تم انھیں اور ان کی تہمتوں کو چھوڑ دو اور آمادہ ومستعد دلوں کی تربیت کرو( فَذَرْهُمْ وَمَا یَفْتَرُون ) ۔