آیات ۸۲،۸۳،۸۴،،۸۵،۸۶
۸۲(
لَتَجِدَنَّ اٴَشَدَّ النَّاسِ عَدَاوَةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الْیَهُودَ وَالَّذِینَ اٴَشْرَکُوا وَلَتَجِدَنَّ اٴَقْرَبَهُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا إِنَّا نَصَارَی ذَلِکَ بِاٴَنَّ مِنْهُمْ قِسِّیسِینَ وَرُهْبَانًا وَاٴَنَّهُمْ لاَیَسْتَکْبِرُونَ
)
۸۳(
وَإِذَا سَمِعُوا مَا اٴُنزِلَ إِلَی الرَّسُولِ تَرَی اٴَعْیُنَهُمْ تَفِیضُ مِنْ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنْ الْحَقِّ یَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِینَ
)
۸۴(
وَمَا لَنَا لاَنُؤْمِنُ بِاللهِ وَمَا جَائَنَا مِنْ الْحَقِّ وَنَطْمَعُ اٴَنْ یُدْخِلَنَا رَبُّنَا مَعَ الْقَوْمِ الصَّالِحِینَ
)
۸۵(
فَاٴَثَابَهُمْ اللهُ بِمَا قَالُوا جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا وَذَلِکَ جَزَاءُ الْمُحْسِنِینَ
)
۸۶(
وَالَّذِینَ کَفَرُوا وَکَذَّبُوا بِآیَاتِنَا اٴُوْلَئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَحِیمِ
)
ترجمہ:
۸۲ ۔ یقینی طور پر تم یہود اور مشرکین کو مومنین کی دشمنی میں سب لوگوں سے بڑھا ہوا پاؤگے لیکن وہ لوگ کہ جو خود کو مسیحی کہتے ہیں انھیں تم مومنین کے ساتھ دوستی میں قریب تر پاؤ گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن میں کچھ دانشمند اور دنیا سے دور افراد موجود ہیں اور وہ حق کے مقابلے میں تکبّر نہیں کرتے ۔
۸۳ ۔ اور وہ جس وقت پیغمبر پر نازل ہونے والی آیات سنتے ہیں توتم دیکھوگے کہ ان کی آنکھوں سے (فرط شوق میں ) آنسو جاری ہوجاتے ہیں کیونکہ انھوں نے حق کو پہچان لیا ہے ۔ وہ کہتے ہیں اے پروردگار! ہم ایمان لے آئے ہیں پس تو ہمیں حق کی گواہی دینے والوں میں لکھ دے ۔
۸۴ ۔ ہم خدا پر اور اُس حق پر جو ہم تک پہنچا ہے کیوں ایمان نہ لے آئیں جبکہ ہماری آرزو ہے کہ وہ ہمیں صالحین کے گروہ میں سے قرار دے ۔
۸۵ ۔ خدا نے انھیں ان ہی باتوں کی وجہ سے جنت کے ایسے باغات ثواب وجزا کے طور پر دیئے کہ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور یہ نیکوکار لوگوں کی جزا ہے ۔
۸۶ ۔ اور وہ لوگ جو کافر ہوگئے ہیں اور انھوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا وہ اہلِ دوزخ ہیں ۔
اسلام کے پہلے مہاجرین
بہت سے مفسرین نے منجملہ طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں اور فخر الدین رازی اور ”المنار“ کے مولف نے اپنی اپنی تفسیروں میں اپنے سے پہلے مفسرین کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ یہ آیات پیغمبر اکرم کے زمانے کے حبشہ کے بادشاہ نجاشی اور اس کے ساتھیوں کے بارے میں نال ہوئی ہیں ، نیز جو حدیث تفسیر ”برہان“ میں نقل ہوئی ہے اس میں بھی یہی بات شرح وبسط سے بیان کی گئی ہے ۔
اس سلسلے میں اسلامی روایات وتواریخ اور مفسرین کے اقوال سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ اس طرح ہے کہ پیغمبر اکرم کی بعثت اور عمومی دعوت کے ابتدائی سالوں میں مسلمان بہت ہی کم تعداد میں تھے ۔ قریش نے قبائل عرب کو یہ نصیحت کر رکھی تھی کہ ہر قبیلہ اپنے قبیلہ کے ان لوگوں پر کہ جو پیغمبر اکرم پر ایمان لاچکے ہیں انتہائی سخت دباؤ ڈالیں اور اس طرح مسلمانوں میں سے ہر کوئی اپنی قوم وقبیلہ کی طرف سے انتہائی سختی اور دباؤ میں مبتلا تھا، اس وقت مسلمانوں کی تعداد جہادِ آزادی شروع شروع کرنے کے لئے کافی نہیں تھی، پیغمبر اکرم نے اس چھوٹے سے گروہ کی حفاظت اور مسلمانوں کے لئے حجاز سے باہر قیام گاہ مہیّا کرنے کے لئے انھیں ہجرت کا کا حکم دے دیا اور اس مقصد کے لئے حبشہ کو منتخب فرمایا اور کہا کہ وہاں ایک نیک دل بادشاہ ہے جو ظلم وستم کرنے سے اجتناب کرتا ہے ۔ تم وہاں چلے جاؤ۔ یہاں تک کہ خداوندتعالیٰ کوئی مناسب موقع ہمیں عطا فرمائے ۔
پیغمبر اکرم کی مراد نجاشی سے تھی (نجاشی ایک عام نام تھا جسے ”کسریٰ“ جو حبشہ کے تمام بادشاہوں کا خاص لقب تھا لیکن اس نجاشی کا اصل نام جو پیغمبر کا ہم عصر تھا اصحمہ تھا جو کہ حبشہ کی زبان میں عطیہ وبخشش کے معنی میں ہے)مسلمانوں میں سے گیارہ مرد اور چار عورتیں حبشہ جانے کے لئے تیار ہوئے اور ایک چھوٹی سی کشتی کرایہ پر لے کر بحری راستے سے حبشہ جانے کے لئے روانہ ہوگئے، یہ بعثت کے پانچویں سال ماہ رجب کا واقعہ ہے ۔ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ جناب جعفر بن ابوطالب بھس مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ حبشہ چلے گئے ۔ اب اس اسلامی جمعیت میں ۸۲ مردوں کے علاوہ کافی تعداد میں عورتیں اور بچے بھی تھے ۔
اس ہجرت کی بنیاد بت پرستوں کے لئے سخت تکلیف دہ تھی کیونکہ وہ اچھی طرح سے دیکھ رہے تھے کہ کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرے گا کہ وہ لوگ جو تدریجاً اسلام قبول کرچکے ہیں اور حبشہ کی سرزمین امن وامان کی طرف چلے گئے ہیں ، مسلمانوں کی طاقتور جماعت کی صورت اختیار کرلیں گے ۔ یہ حیثیت ختم کرنے کے لئے انھوں نے کام کرنا شروع کردیا ، اس مقصد کے لئے انھوں نے جوانوں میں سے دو ہوشیار، فعّال، حیلہ ساز اور عیّار جوانوں یعنی عمروبن عاص اور عمارہ بن ولید کا انتخاب کیا، بہت سے ہدیے دے کر اُن کو حبشہ کی طرف روانہ کیا گیا ۔ ان دونوں نے کشتی میں بیٹھ کر شراب پی اور ایک دوسرے سے لڑپڑے، لیکن آخر کار وہ اپنی سازش کو روبہ عمل لانے کے لئے سرزمین حبشہ میں داخل ہوگئے، ابتدائی مراحل طے کرنے کے بعد وہ نجاشی کے دربار میں پہنچ گئے، دربار میں باریاب ہونے سے پہلے انھوں نے نجاشی کے درباریوں کو بہت قیمتی ہدیے دے کر اُن کو اپنا موافق بنالیا تھا اور اُن سے اپنی طرفداری اور تائید کرنے کا وعدہ لے لیا تھا ۔
عمروعاص نے اپنی گفتگو شروع کی اور نجاشی سے اس طرح ہمکلام ہوا:
”ہم سرداران مکہ کے بھیجے ہوئے ہیں ، ہمارے درمیان کچھ کم عقل جوانوں نے مخالفت کا علم بلند کیا اور وہ اپنے بزرگوں کے دین سے پھر گئے ہیں اور ہمارے خداؤں کو بُرا بھلا کہتے ہیں ، انھوں نے فتنہ وفساد برپا کردیا ہے، لوگوں میں نفاق کا بیج بودیا ہے؛ آپ کی سرزمین کی آزادی سے انھوں نے غلط اُٹھایا ہے اور انھوں نے یہاں آکر پناہ لی ہے، ہمیں اس بات کا خوف ہے کہ وہ یہاں بھی خلل اندازی نہ کریں ، بہتر یہ ہے کہ آپ انھیں ہمارے سُپرد کردیں تاکہ ہم انھیں اپنی جگہ واپس لے جائیں ۔
یہ کہہ کر ان لوگوں نے وہ ہدیے جو اپنے ساتھ لائے تھے پیش کئے ۔
نجاشی نے کہا: جب تک میں اپنی حکومت میں پناہ لینے والوں کے نمائندوں سے نہ مل لوں اس سلسلے میں کوئی بات نہیں کرسکتا اور چونکہ یہ ایک مذہبی بحث ہے لہٰذا ضروری ہے کہ مذہبی نمائندوں ہی کو ایک جلسہ میں تمھاری موجودگی میں دعوت دی جائے ۔
دوسرے دن ایک اہم جلسہ منعقد ہوا، اس میں نجاشی کے مصاحبین اور عیسائی علماء کی ایک جماعت شریک تھی، جعفر بن ابی طالب مسلمانوں کے نمائندوں کی حیثیت سے موجود تھے اور قریش کے نمائندے بھی حاضر تھے، نجاشی نے قریش کے نمائندوں کی باتیں سننے کے بعد جناب جعفر کی طرف رخ کیا اور اُن سے خواہش کی کہ وہ اس سلسلے میں اپنا نقطہ نظر بیان کریں ۔
جناب جعفر ادائے احترام کے بعد اس طرح گویا ہوئے: پہلے ان سے پوچھئے کہ کیا ہم ان کے بھاگے ہوئے غلاموں میں سے ہیں ؟
عمرو نے کہا: نہیں بلکہ آپ آزاد ہیں ۔
جعفر: ان سے یہ بھی پوچھئے کہ کیا ان کا کوئی قرض ہمارے ذمّے ہے کہ جس کا وہ ہم سے مطالبہ کرتے ہیں ؟
عمرو: نہیں ہمارا آپ سے ایسا کوئی مطالبہ نہیں ہے ۔
جعفر: کیا ہم نے تمھارا کوئی خون بہایا ہے کہ جس کا ہم سے بدلہ لینا چاہتے ہو؟
عمرو: نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔
جعفر: تو پھر تم ہم سے کیا چاہتے ہو؟ تم نے ہم پر اتنی سختیاں کیں اور اتنی تکلیفیں پہنچائیں اور ہم تمھاری سرزمین سے جو سراسر مرکز ظلم وجور تھی باہر نکل آئے ہیں ۔
اس کے بعد جناب جعفر نے نجاشی کی طرف رخ کیا اور کہا :ہم جاہل اور نادان تھے، بت پرستی کرتے تھے، مردار کا گوشت کھاتے تھے، طرح طرح کے برے اور شرمناک کام انجام دیتے تھے، قطع رحمی کرتے تھے، اپنے ہمسایوں سے برا سلوک کرتے تھے اور ہمارے طاقتور کمزوروں کے حقوق ہڑپ کرجاتے تھے ۔
لیکن خداوند تعالیٰ نے ہمارے درمیان ایک پیغمبر کو مبعوث فرمایا، جس نے ہمیں حکم دیا کہ ہم خدا کا کوئی مثل اور شریک زبنائیں اور فحشاء و منکر، ظلم و ستم اور قمار بازی ترک کردیں ۔ ہمیں حکم دیا کہ ہم نماز پرھیں ، زکوٰة ادا کریں ، عدل و احسان سے کام لیں اور اپنے وابستگان کی مدد کریں ۔
نجاشی نے کہا: عیسیٰ مسیح بھی انہی چیزوں کے لئے مبعوث ہوئے تھے ۔ اس کے بعد اس نے جناب جعفر سے پوچھا: ان آیات میں سے جو تمہارے پیغمبر پر نازل ہوئی ہیں کچھ تمھیں یاد ہیں ۔
جعفر نے کہا: جی ہاں :
اور پھر انھوں نے سورئہ مریم کی تلاوت شروع کردی ۔ اس سورہ کی ایسی ہلا دینے والی آیات کے ذریعہ جو مسیح اور اُن کی ماں کو ہر قسم کی ناروا تہمتوں سے پاک قرار دیتی ہیں ، جناب جعفر کے حسن انتخاب نے عجیب و غریب اثر کیا یہاں تک کہ مسیحی علماء کی آنکھوں سے فرط شوق میں آنسو بہنے لگے اور نجاسی نے پکار کر کہا: خدا کی قسم! ان آیات میں حقیقت کی نشانیان نمایاں ہیں ۔
جب عمرونے چاہا کہ اب یہاں کوئی بات کرے اور مسلمانوں کو اس کے سُپرد کرنے کی در خواست کرے، نجاشی نے ہاتھ بلند کیا اور زور سے عمرو کے منہ پر مارا اور کہا: خاموش رہو، خدا کی قسم! اگر ان لوگوں کی مذمت میں اس سے زیادہ کوئی بات کی تو میں تجھے سزادوں گا ۔ یہ کہہ کر مامورینِ حکومت کی طرف رُخ کیا اور پکار کر کہا: ان کے ہدیے ان کو واپس کردو اور انھیں حبشہ کی سرزمین سے باہر نکال دو۔ جناب جعفر اور اُن کے ساتھیوں سے کہا: تم آرام سے میرے ملک میں زندگی بسر کرو۔
اِس واقعہ نے جہاں حبشہ کے کچھ لوگوں پر اسلام شناسی کے سلسلے میں گہرا تبلیغی اثر کیا وہاں یہ واقعہ اس بات کا بھی سبب بنا کہ مکے کے مسلمان اس کو ایک اطمینان بخش جائے پناہ شمار کریں اور نئے مسلمان ہونے والوں کو اُس دن کے انتظار میں کہ جب وہ کافی قدرت و طاقت حاصل کریں وہاں پر بھیجتے رہیں ۔
کئی سال گزرگئے ۔ پیغمبر بھی ہجرت فرماگئے اور اسلام روز بروز ترقی کی منزلیں طے کرنے لگا، عہد نامہ حدیبیہ لکھا گیا اور پیغمبر اکرم فتح خیبر کی طرف متوجہ ہوئے ۔
اس وقت جبکہ مسلمان یہودیوں کے سب سے بڑے اور خطرناک مرکز کے ٹوٹنے کی وجہ سے اتنے خوش تھے کہ پھولے نہیں سماتے تھے، دور سے انھوں نے ایک مجمع کو لشکر اسلام کی طرف آتے ہوئے دیکھا ۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ معلوم ہوا کہ یہ وہی مہاجرین حبشہ ہیں ، جو آخوش وطن میں پلٹ کر آرہے ہیں ، جب کہ دشمنوں کی بڑی بڑی طاقتین دم توڑچکی ہیں اور اسلام کا پودا اپنی جڑیں کافی پھیلا چکا ہے ۔
پیغمبر اکرم نے جناب جعفر اور مہاجرین حبشہ کو دیکھ کر یہ تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
”لا ادری انا بفتح خبیر اسرام بقدوم جعفر
؟“
”میں نہیں جانتا کہ مجھے خیبر کے فتح ہونے کی زیادہ خوشی ہے یا جعفر کے پلٹ آنے کی“
کہتے ہیں کہمسلمانوں کے علاوہ شامیوں میں سے آٹھ افراد کہ جن میں ایک مسیحی راہب بھی تھا اور ان کا اسلام کی طرف شدید میلان پیدا ہوگیا تھا، پیغمبر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انھو ں نے سورہ یٰسین کی کچھ آیات سننے کے بعد رونا شروع کردیا اور مسلمان ہوگئے اور کہنے لگے کہ یہ آیات مسیح کی سچّی تعلیمات سے کس قدر مشابہت رکھتی ہیں ۔
اُ س روایت کے مطابق جو تفسیر ”المنار“ میں سعید ابن جبیر سے منقول ہے نجاشی نے اپنے یاور وانصار میں سے تیس بہترین افراد کو پیغمبر اکرم اور دین اسلام کے ساتھ اظہارِ عقیدت کے لئے مدینہ بھیجا اور یہ وہی تھے جو سورہ یٰسین کی آیات سُن کر رو پڑے تھے اور اسلام قبول کرلیا تھا ۔ اس پر مذکورہ بالا آیات نازل ہوئیں اور ان مومنین کی عزت افزائی کی گئی ۔ (یہ شان نزول اس بات کے خلاف نہیں کہ سورئہ مائدہ پیغمبر اکرم کی عمر کے اواخر میں نازل ہوئی ہو۔ کیونکہ یہ بات اس سورہ کی اکثر آیات کے ساتھ مربوط ہے لہٰذا اس میں کوئی امر مانع نہیں ہے کہ اُن میں سے کچھ آیات قبل کے واقعات کے شلشلے میں نازل ہوئی ہوں اور پیغمبر کی ہدایت کے مطابق اس سورہ میں بہت سی مناسبات کی وجہ سے شامل کردی گئی ہوں )۔
یہودیوں کی کینہ پروری اور عیسائیوں کی نرم دلی
ان آیت میں اُن یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان موازنہ کیا گیا ہے پیغمبر کے ہم عصر تھے ۔ پہلی آیت میں یہودیوں اور مشرکین کی ایک ہی صف میں قرار دیاگیا ہے اور عیسائیوں کو دوسری صف میں ، ابتدا میں فرمایا گیا ہے: مومنین کے سخت ترین دشمن یہودی اور مشرکین ہیں لیکن عیسائی مومنین سے زیادہ محبت کرنے والے ہیں (لتجدن اشد الناس عداوة للذین اٰمنوا الیهود و الذین اشرکوا ولتجدن اقربهم مودة للذین اٰمنو الذین قالوا انا نصری
)۔
تاریخ اسلام اس حقیقت کی اچھی طرح گواہ ہے کیونکہ اسلام کے خلاف لڑی جانے والی بہت سی جنگوں کے میدان میں یہودی بلا واسطہ یا بالواسطہ طریقہ سے دخیل رہے ہیں اور کسی عہد شکنی اور دشمنی سے باز نہیں آتے تھے ۔ اُن میں سے بہت ہی کم افراد ایسے ہیں جو حلقہ بگوش اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلام ہوئے جبکہ ہم اسلامی جنگوں میں بہت کم مسلمانوں کو عیسائیوں سے آمنا سامنا کرتے دیکھتے ہیں اور ہم یہ بھی مشاہدہ کرتے ہیں کہ اُن میں سے بہت سے افراد مسلمانوں کی صفوں میں آملے ۔
اس کے بعد قرآن اس روحانی فرق کی دلیل اور رہن سہن کے اجتماعی طریقوں کو چند جملوں میں بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ پیغمبر کے ہم عصر عیسائی کچھ ایسے امتیازات رکھتے تھے کہ جو یہودیوں میں نہیں تھے ۔
پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ ان میں علماء اور دانشمندوں کی ایک ایسی جماعت موجود تھی جو دنیا پرست یہودی علماء کی طرح حقیقت کو چھپانے کی کوشش نہیں کرتے تھے(
ذلک بان منهم قسیسین
)
۔
نیز اُن کے درمیان کچھ لوگ تارک دنیا بھی تھے کہ جواز روئے عمل لالچی یہودوں کے بالکل بر خلاف تھے اگر چہ وہ بھی کئی طرح کے انحرافات کے مرتکب تھے لیکن پھر بھی وہ ایک ایسی سطح پر تھے جو یہودیوں سے بالاتر تھی(
ورهباناً
)
۔
اُن میں سے بہت سے ایسے بھی تھے جو حق کے قبول کرنے میں خاضع تھے اور اپنی طرف سے تکبر کا اظہار نہیں کرتے تھے جبکہ یہودیوں کی اکثریت دین اسلام کو قبول کرنے سے اس وجہ سے سرتابی کرتی تھی کیونکہ وہ خود کو ایک برتر نسل سمجھتے تھے اور دین اسلام یہودیوں کی نسل میں قائم نہیں ہوا تھا(
وانهم لا یستکبرون
)
۔
علاوہ ازین ان میں سے ایک جماعت (جیسے جناب جعفر کے ساتھی اور حبشہ کے عیسائیوں میں سے کچھ لوگ) ایسے تھے کہ وہ جس وقت قرآن کی آیات کو سنتے تھے تو حق کے حاصل ہوجانے کی خوشی میں ان کی آنکھوں سے شوق کے آنسو جاری ہو جاتے تھے(
واذا سمعوا ما انزل الی الرسول تری اعینهم تفیض من الدمع مما عرفوا من الحق
)
۔
اور وہ صراحت کے ساتھ علی الاعلان بغیر کسی لاگ لپیٹ کے پکار اُٹھتے تھے پروردگارا ! ہم ایمان لے آئے ہیں ہمیں حق کے گواہوں اور محمد کے ساتھیوں اور یا و انصار میں سے قرار دے(
یقولون ربنا اٰمنا فاکتبنا مع الشَّاهدین
)
۔
وہ اس آسمانی کتاب کی ہلادینے والی آیات سے اس قدر متاثر ہوتے تھے کہ پکار اُٹھتے کہ یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ہم خدائے یکتا پر اور ان حقائق پر جو اُس کی طرف سے آئے ہیں ایمان نہ لائیں جبکہ ہم توقع رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں صالحین کے زمرے میں قرار دے(
و مالنا لا نومن باللّٰه و ماجاء نا من الحق و نطمع ان ید خلنا ربنا مع القوم الصَّالحین
)
۔
البتہ جیسا ہم اوپر اشارہ کرچکے ہیں یہ موازنہ زیادہ تر پیغمبر اسلام کے ہم عصر یہود و نصاریٰ کے بارے میں ہے کیونکہ یہودی آسمانی کتاب کے حامل ہونے کے باوجود مادیت سے بے اندازہ لگاو کی وجہ سے مشرکین کی صف میں جاکھڑے ہوتے تھے ۔ جب کہ مذہبی نقطہ نظر سے اُن دونوں میں کوئی وجہ مشترک نہیں تھی ۔ حالانکہ ابتدا میں یہودی اسلام کی بشارت دینے والوں میں شمار ہوتے تھے اور اُن میں عیسائیوں کی طرح تثلیث اور غلو جیسے انحرافات موجود نہیں تھے ۔
لیکن ان کی شدید دنیا پرستی نے انہیں حق سے بالکل بیگانہ کردیا جبکہ اُس زمانے کے عیسائی ایسے نہیں تھے ۔
لیکن گذشتہ اور موجودہ زمانے کی تاریخ ہمیں یہ بتلاتی ہے کہ بعد کے زمانوں کے عیسائی، اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے جو یہودیوں کے جرائم سے کسی طرح کم تھے ۔ گذشتہ زمانے میں طویل اور خونین صلیبی جنگیں اور اِس زمانے کی ایسی بے شمار تحریکیں جو مسیحی سامراجی ممالک کی طرف سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہو رہی ہیں ہیں کسی پرڈھکی چھُپی نہیں ۔ لہٰذا اُوپر والی آیات کو تمام عیسائیوں کے بارے میں ایک قانون کلی کے طور پر نہیں جاننا چاہیے ۔ و اذا سمعوا ما انزل الی الرسول ۔ اور اس کے بعد کے جملے اس بات پر گواہ ہیں کہ یہ آیات صرف پیغمبر اکرم کے ہم عصر عیسائیوں کی ایک جماعت کے بارے میں نازل ہوئی ہیں ۔
اس کے بعد کی دو آیات میں ان ہی دونوں گرہوں کے انجام اور جزا و سزا کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ پہلے فرمایا گیا ہے: جن لوگوں نے صاحبِ ایمان افراد کے سامنے محبت کا اظہار کیا اور آیات الٰہی کے مقابلہ میں سر تسلیم خم کیا اور صراحت کے ساتھ اپنے ایمان کا اظہار کیا خداوند تعالیٰ اس کے بدلے میں بطورِ جزا و ثواب انہیں جنت کے ایسے باغات عطا فرمائے گا جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے اور نیکو کار لوگوں کی یہی جزا ہے(
فاثا بهم اللّٰه بما قالوا جنات تجری من تحتها الانهار خالدین فیها و ذٰلک جزاء المحسنین
)
۔
اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جنہوں نے دشمنی کا راستہ اختیار کیا اور کافر ہوگئے(
والّذین کفروا و کذّبوا بِاٰیٰاتنا اولٰئک اصحاب الجحیم
)
۔
____________________