آیات ۸۷،۸۸،۸۹،
۸۷(
یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا اٴَحَلَّ اللهُ لَکُمْ وَلاَتَعْتَدُوا إِنَّ اللهَ لاَیُحِبُّ الْمُعْتَدِینَ
)
۔
۸۸(
وَکُلُوا مِمَّا رَزَقَکُمْ اللهُ حَلاَلًا طَیِّبًا وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی اٴَنْتُمْ بِهِ مُؤْمِنُونَ
)
۔
۸۹(
لاَیُؤَاخِذُکُمْ اللهُ بِاللَّغْوِ فِی اٴَیْمَانِکُمْ وَلَکِنْ یُؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُمْ الْاٴَیْمَانَ فَکَفَّارَتُهُ إِطْعَامُ عَشَرَةِ مَسَاکِینَ مِنْ اٴَوْسَطِ مَا تُطْعِمُونَ اٴَهْلِیکُمْ اٴَوْ کِسْوَتُهُمْ اٴَوْ تَحْرِیرُ رَقَبَةٍ فَمَنْ لَمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلاَثَةِ اٴَیَّامٍ ذَلِکَ کَفَّارَةُ اٴَیْمَانِکُمْ إِذَا حَلَفْتُمْ وَاحْفَظُوا اٴَیْمَانَکُمْ کَذَلِکَ یُبَیِّنُ اللهُ لَکُمْ آیَاتِهِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ
)
۔
ترجمہ:
۸۷ ۔ اے ایمان والو! اُن پاکیزہ چیزوں کو جو خدانے تم پر حلال کردی ہیں اپنے اُوپر حرام نہ کرو اور حد سے تجاوز نہ کرو کیونکہ خداوند سے تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔
۸۸ ۔ اور خداوند تعالیٰ نے حلال اور پاکیزہ نعمات میں سے جو رزق تمہیں دے رکھا ہے اُنہیں کھاؤ اور اس خدا (کی مخالفت) سے پرہیز کرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔
۸۹ ۔ خداوند تعالیٰ تمہیں بے ہودہ (اور بے ارادہ) قسموں کی وجہ سے مواخذہ نہیں کرے گا لیکن وہ قسمیں کہ جنہیں (ارادہ کے سات) تم نے محکم کیا ہو ان کے بارے میں مواخذہ کرے گا ۔ اس قسم کی قسموں کا کفارہ دس مسکینوں کو کھانا کھلانا ہے (اور وہ کھانا ایسا ہونا چاہیے) جو تم عام پر اپنے گھروالوں کو کھلاتے ہو۔ یادس مسکینوں کو لباس پہنانا ہے یا ایک غلام آزاد کرنا ہے اور جسے ان میں سے کچھ میسّر نہ ہووہ تین دن روزے رکھے ۔ یہ تمہاری قسموں کا کفارہ ہے ۔ جب تم قسمیں کھاتے ہو (اور پھر ان کی مخالفت کرتے ہو) اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو اور انہیں نہ توڑو۔ خداوند تعالیٰ اسی صرح سے اپنی آیات کو تمہارے لیے بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر بجالاؤ۔
حد سے تجاوز نہ کرو
درج بالا آیات کے بارے میں متعدد روایات نقل ہوئی، ہیں منجملہ اُن کے ایک یہ ہے کہ ایک دن پیغمبر نے روز قیامت خداوند تعالیٰ کی عظیم عدالت میں لوگوں کی حالت و کیفیت سے متعلق کچھ بیان فرمایا ۔ اِن بیانات نے لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا اور کچھ لوگ رونے لگے اُس کے بعد اصحاب پیغمبر میں سے ایک گروہ نے پختہ ارادہ کر لیا وہ کچھ لذائذ اور راحتوں کو اپنے اوپر حرام کرکے ان کی جگہ عبادت میں مشغول رہیں ۔ امیرالمومنین حضرت علی نے قسم کھائی کہ رات کو بہت کم سویا کریں گے اور عبادت میں مشغول رہیں گے ۔ بلال نے قسم کھائی کہ ہمیشہ روزہ رکھیں گے ۔ عثمان بن مظعون نے قسم کھائی کہ اپنی بیوی سے مباشرت ترک کرکے عبادت کرتے رہیں گے ۔ ایک دن عثمان بن مظعون کی بیوی عائشہ کے پاس آئی ۔ وہ ایک جوان عورت تھی اور بڑی ہی حسین و جمیل تھی ۔ عائشہ کو اس کی حالت پر تعجب ہوا اور کہنے لگی کہ تم اپنا بناؤ سنگھار کیوں نہیں کرتی ۔ اس نے کہا کہ بناؤ سنگھار کس کے لیے کروں میرے شوہر نے تو ایک عرصہ ہوا مجھے چھوڑ کر رہبانیت اختیار کر رکھی ہے ۔ یہ باتیں پیغمبر کے گوش گزار ہوئیں تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اور پروردگار کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:
تم میں سے بعض لوگوں نے پاکیزہ چیزوں کو کیوں اپنے اوپر حرام کرلیا ہے میں اپنی سنت تمہارے سامنے بیان کرتا ہوں ، جو اُس سے روگردانی کرے اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ میں رات کے ایک حصّہ میں سوتا ہوں اور اپنی بیویوں سے مباشرت کرتا ہوں اور ہر روز روزہ بھی نہیں رکھتا ۔
آگاہ ہو میں ہرگز تمہیں یہ حکم نہیں دیتا کہ عیسائیوں کے پادریوں اور راہبوں کی طرح دنیا ترک کردو کیونکہ اس قسم کے مسائل اور اس طرح کی رہبانیت میرے دین میں نہیں ہے ۔ میری اُمت کی رہبانیت جہاد میں ہے (اگر تم دنیا کو ترک کرنا چاہتے ہوتو کیا یہ بہتر نہیں ہے کہ وہ جہاد جیسے تعمیری راستے پر چلتے ہوئے ہو) تم اپنے آپ کو سختی میں نہ ڈالو کیونکہ جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں اُن میں سے ایک گروہ اپنے آپ کو سختی میں ڈالنے کے نتیجے میں ہی ہلاک ہوا تھا ۔
جن لوگوں نے یہ قسم کھارکھی تھی کہ وہ ان چیزوں کو چھوڑدیں گے وہ کھڑے ہوگئے اور انہوں نے کہا: اے رسولِ خدا! اس سلسلے میں ہم نے قسم کھائی تھی اب اس قسم کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری کیا ہے تو مندرجہ آیات نازل ہوئیں جن کے ذریعہ انہیں جواب دیا گیا ۔
اس مقام پر یہ یاد و ہانی ضروری ہے کہ مذکورہ قسموں میں سے بعض مثلاً وہ قسم جو عثمان بن مظعون سے نقل کی گئی ہے چونکہ وہ ان کی بیوی کے حقوق کے منافی تھی لہٰذا وہ قسم شرعاً جائز نہیں تھی ۔ لیکن حضرت علی علیہ السلام کی قسم جو کہ رات کو بیدار رہنے اور عبادت میں مشغول رہنے کے سلسلے میں ہے ایک امر مباح اور جائز تھی اگر چہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اولیٰ اور بہتریہی تھا کہ مسلسل ایسا نہ ہو لیکن یہ امر حضرت علی علیہ السلام کے مقامِ عصمت کے منافی نہیں ہے ۔ جیسا کہ اس کی نظیر پیغمبر کے بارے میں بھی سورہ تحریم کی پہلی آیت میں ہے:
(
یٰا ایّها النّبی لم تحرم ما احلّ اللّٰه لک تبتغی مرضات ازواجک
)
اے پیغمبر! وہ امور جو تیرے لیے اللہ نے حلال قرار دیے ہیں اپنی بیویوں کو خوش کرنے کے لیے اپنے اُوپر کیوں حرام کرتے ہو (یا اپنے آپ کو ان سے کیوں محروم کرتے ہو)۔
قسم اور اس کا کفارہ
اس آیت میں اور اس سے بعد کی آیات میں اہم اسلامی احکام کا ایک سلسلہ بیان ہوا ہے ۔ اُن میں سے بعض تو ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ بیان ہوئے ہیں ۔ لیکن زیادہ اہم حصّہ ان اَحکام کی توضیح و تاکید کے طور پر بھی بیان ہوا ہے جو قرآن کی دیگر آیات میں پہلے بیان ہوچکے ہیں ۔
جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیں کہ یہ سورہ پیغمبر کی عمر کے آخر میں نازل ہوئی ہے لہٰذا ضروری تھا کہ اس میں مختلف اسلامی احکام کے بارے میں زیادہ تاکید کی جائے ۔ پہلی آیت میں بعض مسلمانوں کی طرف سے کچھ نعمات الٰہی کی تحریم کی طرف اشارہ ہوا ہے اور انہیں اس کام کی تکرار سے منع کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:
”اے ایمان لانے والو! طیبات اور ایسے پاکیزہ امور جنہیں خدانے تمہارے لیے حلال قرار دیا ہے اپنے اوپر حرام نہ کرو“۔(
یٰا ایّها الذین اٰمنوا لاتحرموا طیبات ما احل اللّٰه لکم
)
۔
اس حکم کا تذکرہ شان نزول کے مفہوم کے علاوہ ممکن ہے اس بارے میں بھی ہوکہ اگر گذشتہ آیات میں کچھ عیسائی علماء اور رہبانوں کی مدح و ستائش کی گئی ہے تو وہ ان کے حق کی طرف مائل ہونے اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی وجہ سے تھی نہ کہ اُن کے ترک ترکِ دنیا کے عمل اور تحریم طیبات کی خاطر تھی اور اس مسلمان اس بارے میں اُن کی پیروی کرسکتے ۔ یہ حکم بیان کرکے اسلام نے صراحت کے ساتھ رہبانیت اور ترکِ دنیا سے جیسے عیسائی پادری اور ر اہب کرتے ہیں اپنی بیگانگی کا اعلان کیا ہے ۔ اس امر کے بارے میں مزید نشریح سورہ حدید کی آیت ۲۷ ” و رھبانیة ابتدعوہا“ کے ذیل میں آئے گی اس کے بعد اس امر کی تاکید کے لیے کہتا ہے: سرحدوں اور حدبندیوں سے آگے نہ بڑھو گیونکہ خدا تجاوز کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔(
ولا تعتدوا ان اللّٰه لا یحب المعتدین
)
۔
بعد والی آیت میں نئے سرے سے اس مطلب کی تاکید کرتا ہے البتہ فرق یہ ہے کہ گذشتہ آیت میں تحریم سے نہی کی گئی تھی اور اس آیت میں نعمات الٰہی سے جائز طور پر بہرہ ور ہونے کا حکم دیتے ہوئے فرمایاگیا ہے: ان چیزوں میں سے جو خداوند تعالیٰ نے تمہیں بطور روزی دی ہیں حلال و پاکیزہ چیزیں کھاؤ(
و کلوا مما رزقکم اللّٰه حلا لاً طیباً
)
۔
ان مواہب و نعمات سے بہرہ ور اور مستفید ہونے کی شرط یہ ہے کہ اعتدال، تقویٰ اور پرہیزگاری کو فراموش نہ کرو اسی لیے فرمایا:(
واتقوا اللّٰه الذی انتم به مومنون
)
۔
یعنی خدا پر تمہارے ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ تم اس کے تمام احکام کا احترام کرو ان سے نفع بھی اٹھاؤ اور اعتدال و تقویٰ کو بھی ملحوظ نظر رکھو۔
اس جملے کی تفسیر میں ایک اور احتمال بھی ہے اور وہ یہ کہ حکم تقویٰ سے مرادیہ ہے کہ مباحات و طیبات کو حرام قرار دینا تقویٰ کے عالی اور کامل درجے سے مناسبت نہیں رکھتا ۔ تقویٰ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کسی طرف بھی حدِّ اعتدال سے نہ نکلے ۔
قسموں کی دوقسمیں
قرآن بعد والی آیت میں اُن قسموں کے بارے میں کہ جو حلال کی تحریم یا اور چیزوں کے متعلق کھائی جائیں بطور کلی بحث کرتےہوئے قسموں کو دوحصّوں میں تقسیم کرتا ہے، پہلا کہتا ہے: خداوند تعالیٰ تمہیں لغو اور فضول قسموں کے بارے میں نہ کوئی مواخذہ کرے گا اور نہ ہی سزا دے گا(
لا یواخدکم اللّٰه باللغو فی ایمانکم
)
۔
جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۲۵ کی تفسیر میں بھی لغو قسموں کے مقابلے میں سزا نہ ہونے کے بارے میں بحث ہوئی تھی تو وہاں ہم نے کہا تھا کہ لغو قسم سے مراد جیسا کہ مفسرّین اور فقہانے کہا ہے، وہ قسمیں ہیں کہ جن کا ہدف و مقصد مشخص و معین نہ ہو اور جو قصد اور ارادہ مصمم سے سرزدنہ ہوئی ہوں ۔ بلکہ بغیر توجہ کیے واللہ ۔ باللہ ۔ یا لا و اللہ یا بلیٰ و اللہ کہہ دیا ہویا شدت ہیجان و غضب کے وقت بغیر قصد و ارادہ کے قسم کھائی جائے ۔
بعض کہتے ہیں کہ اگر انسان کسی چیز کا یقین رکھتا ہو اور وہ اس کی بنیاد پر قسم کھائے لیکن بعد میں معلوم ہوکہ اُسے اشتباہ ہوا ہے تو ایسی قسم بھی لغو قسموں میں ہی شمار ہوگی ۔ مثلاً یہ کہ کوئی شخص چغل خور، افراد کی چغلی کی وجہ سے اپنی بیوی کی کجروی کا یقین کرلے اور وہ اس کو طلاق دینے کی قسم کھالے لیکن بعد میں معلوم ہوکہ وہ بات جھوٹی تھی تو اس قسم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ حتمی قسموں میں قصد و آمادہ و تصمیم کے لازم ہونے کے علاوہ یہ بات بھی ضروری ہے کہ قسم کا مضمون کوئی غیر مشروع اور مکروہ فعل بھی نہ ہو۔ لہٰذا اگر انسان حالت اختیار میں قصد و ارادہ سے قسم کھائے کہ کسی فعل حرام یا مکروہ کو انجام دے گا، ایسی قسم کی بھی کوئی قیمت نہیں ہے اور اس کا پورا کرنا ضروری نہیں ہے ۔
احتمال یہ ہے کہ زیر نظر آیت میں لفظ لغو کا ایک وسیع مفہوم ہے یہاں تک کہ اس طرح کی قسم بھی اس میں شامل ہے ۔
دوسری قسم کی قسمیں وہ ہیں جو قصد و ارادہ اور عزم مصمم سے کھائی جائیں ۔ اس قِسم کی قسموں کے بارے میں قرآن زیر بحث آیت میں کہتا ہے: ”خدا تمہارا ایسی قسموں کے بارے میں کہ جنگی گرہ کو تم نے محکم کررھا ہے مواخذہ کرے گا اور تمھیں اس پر عمل کرنے کا پابندا اور ذمہ دار ٹھہرائے گا“۔(
ولکن یواخذکم بما عقدتم الایمان
)
لفظ ”عقد“ جیسا کہ ہم سورہ مائدہ کی ابتدا میں کہہ چکے ہیں ، اصل میں ایک محکم چیز کے اطراف کو جمع کرنے کے معنی میں ہے ۔اسی وجہ سے رسی کے دونوں سروں میں گرہ لگانے کو ”عقد“ کہتے ہیں اور اسی مناسبت سے یہ لفظ معنوی امور میں بھی استعمال ہوتا ہے اور ہر قسم کے عہد و پیمان کو بھی ”عقد“ کہتے ہیں ۔
زیر نظر آیت میں ”عقد ایمان“ یعنی قسمیں باندھنے سے مراد کسی کام کا عزم مصمم ہے جو قسم کے مطابق انجام دیا جاتا ہے ۔ البتہ قسم کا حتمی ہونا اس کی درستی کے لیے اکیلا کافی نہیں ہے بلکہ جس طرح اُوپر اشارہ ہوا ہے کہ قسم کا مضمون کم از کم کوئی امر مباح ہونا چاہیے اور یہ بھی جاننا چاہیے کہ خدا کے نام کے بغیر قسم معتبر نہیں ہے ۔ اسی بناپر اگر کوئی شخص خدا کے نام کی قسم کھاتا ہے کہ وہ کوئی نیک عمل یا کم از کم کوئی مباح کام انجام دے گا تو واجب ہے کہ وہ اپنی قسم پر عمل کرے اور اگر اس نے قسم توڑلی تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا ۔ قسم کا کفارہ وہی ہے جو محلِ بحث آیت کے ذیل میں بیان ہوا ہے ۔اس قِسم کی قَسم کا کفارہ تین چیزوں میں سے ایک چیز ہے:
پہلی چیز ہے دس مسکینوں کو کھانا کھلانا(
فکفارته اطعام عشرة مشاکین
)
۔
البتہ اس بناپر کہ کہیں اس حکم سے بعض لوگ یہ استفادہ نہ کریں کہ پست و بے قیمت غذا کفارے کے طور پر کھانے لگیں ، تصریح کی گئی ہے کہ یہ کھانا کم از کم ایک متوسط غذا ہونا چاہیے جو عام طور پر اپنے گھر میں کھاتے ہیں(
من اوسط ما تطعمون اهلیکم
)
۔
البتہ اس تعبیر سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایک روایت میں امام صادق سے حدوسط کیفیت کے لحاظ سے اور ایک روایت میں امام باقر سے حد وسط کمیت کے لحاظ سے نقل ہوا ہے کہ جن کا خلاصہ دونوں لحاظ سے شہروں ، آبادیوں اور زمانوں کے اختلاف کو مدِ نظر رکھتے ہوئے مختلف ہوگا ۔
آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ واسط اچھے اور عالی کے معنی میں ہے کیونکہ ”اوسط“ کا ایک معنی ”عالی “بھی ہے جیسا کہ پورہ قلم کی آیت ۲۸ میں ہے:(
قَالَ اَوسَطُهُمْ اَلَمْ اَقُلْ لَکُمْ لَو لَا تُسَبِّحُوْنَ
)
”ان میں سے بہترین شخص نے یہ کہا کہ کیا میں نے تم سے کہا نہیں تھا کہ تم خدا کی تسبیح کیوں نہیں کرتے“۔
دوسری چیز ہے دس محتاج لوگوں کو لباس پہنانا(
او کسوتهم
)
البتہ آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ ایسا لباس ہونا چاہیے کہ جو عام طور پر ان کو ڈھانپ لے اسی لیے بعض روایات میں ہے کہ امام صادق نے فرمایا کہ اس آیت میں (کسوہ) سے مراد دو قطعہ لباس (یعنی قمیص و شلوار) ہیں اور اگر ہم بعض روایت میں جیسے وہ روایت جو امام باقر سے نقل ہوئی ہے یہ پڑھتے ہیں کہ ایک کپڑے پر بھی قناعت کی جاسکتی ہے تو شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ عربی قسم کے بڑے قمیص اکیلے ہی سارے بدن کو ڈھانپ سکتے ہیں ۔ البتہ عورتوں کے لیے ایک قمیص چاہے وہ کتنا ہی بڑاکیوں نہ ہو کافی نہیں ہے بلکہ سر اور گردن کو ڈھانپنے کے لیے دوپٹہ بھی ضروری ہے ۔ کیونکہ عورت کو کم ا زکم جتنے لباس کی ضرورت ہوسکتی ہے وہ اس سے کم نہیں ہے ۔ تو اس احتمال کے ہوتے ہوئے بعید نہیں ہے کہ وہ لباس کہ جو کفارہ کے طور پر دیا جاتا ہے اس میں فصول
، مکان اور زبان کے لحاظ سے تفاوت ہوجائے ۔
اس سلسلے میں کہ کیا کیفیت کے لحاظ سے کم از کم کافی ہے یا یہاں بھی حدِ وسط کو ملحوظ رکھا جائے ۔ مفسرّین میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں ۔ پہلا یہ کہ آیت کے اطلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہر قسم کا لباس کافی ہے ۔ اور دوسرا یہ کہ اس شرط کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ جو کھانا کھلانے میں تھی یہاں بھی حد وسط کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے ۔ البتہ پہلا احتمال آیت کے اطلاق کے ساتھ زیادہ مناسب ہے ۔
تیسری چیز ہے ایک غلام کو آزاد کرنا (او تحریر رقبة)۔
اس سلسلے میں کہ جو غلام آزاد ہوگا کیا اُسے مسلمان اور مومن ہونا چاہیے یا کسی بھی غلام کو آزاد کرنا کافی ہے، فقہا کے درمیان اختلاف ہے اور اس کی وضاحت کتب فقہ میں پڑھنا چاہیے ۔
اگر چہ آیت کا ظاہری مفہوم مطلق ہے اور اس سے معلوم ہوتا ہے اسلام مختلف ذارئع سے غلاموں کو آزاد کرانے کے لیے استفادہ کرتا ہے اور ہمارے جیسے زمانے میں جبکہ غلام نہیں ہیں دیگر کفاروں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوگا ۔
اس میں شک نہیں کہ تینوں چیزیں قیمت کے لحاظ سے بہت مختلف ہیں اور شاید یہ تفاوت اس بناپر ہو کہ ہر شخص آزاد ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق ان میں سے ایک کو منتخب کرسکے ۔
لیکن چونکہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی ہوں جو اُن میں سے کسی پر بھی قدرت نہ رکھتے ہوں لہٰذا اس حکم کے بعد فرماتا ہے: اور وہ لوگ جو ان میں سے میں سے تک دسترس نہیں رکھتے انہیں تین دن کے روزے رکھنا چاہئیں(
فمن لم یجد فصیام ثلاثة ایّام
)
اس بناپر تین دن روزے رکھنا صرف اُن لوگوں سے مربوط ہے جو ان اُوپر والے تین امور میں سے کسی کی بھی انجام وہی کی قدرت نہیں رکھتے ۔ اس کے بعد تاکید کے طور پر قرآن کہتا ہے: تماری قسموں کا کفارہ یہ ہے جو بیان کیا گیا ہے(
ذٰلک کفارة ایمانکم اذاحلفتم
)
۔
لیکن اس بناپر کہ کوئی شخص یہ تصور نہ کرے کہ کفارہ دینے سے صحیح قسم کو توڑنا حرام نہیں ہے کہتا ہے: اور اپنی قسموں کی حفاظت کرو (و احفظوا ایمانکم)دوسرے لفظوں میں قسم پر عمل کرنا شرعاً واجب ہے اور اس کا توڑنا حرام ہے لیکن اگر توڑا ہے تو اس کا کفارہ دینا پڑے گا، قرآن آیت کے آخر میں فرماتا ہے: اس طرح خدا تمہارے لیے اپنی آیات بیان کرتا ہے تاکہ تم اس کا شکر ادا کرو اور ان احکام کے بارے میں کہ جو فرد و اجتماع کی سعادت و سلامتی کے ضامن ہیں اس کی حمد و سپاس کرو(
کذٰلک یبین اللّٰه لکم اٰیاته لعلکم تشکرون
)
۔
____________________