تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34476
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34476 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

شراب اور قمار باطی کے مہلک اثرات

تفسیر نمونہ کی دوسری جلد میں سورہ بقرہ کی آیت ۲۱۹ کے ذیل میں ان دو اجتماعی اور معاشرتی باؤں کے سلسلے میں تفصیلی بحث کی جاچکی ہے لیکن یہاں پر تاکید مطلب کے لیے قرآن مجید کی اقتدا کے طور پر ضروری ہے کہ کچھ اور نکات کا تذکرہ کیا جائے ۔ یہ نکات اُن مختلف اعداد وشمار کا مجموعہ ہیں جن میں علیحدہ علیحدہ اُن نقصانات کی گہرائی اور وسعت ظاہر ہوتی ہے جن کا تعلق ان دونوں سے ہے ۔

۱ ۔ ان اعداد وشمار کے مطابق جو انگلستان میں الکحل کے جنون کے بارے میں شائع ہوئے ہیں کہ جن میں دیوانگی کا دوسری چیزوں سے ہونے سے والی دیوانگی اور جنون سے موازنہ کیا گیا ہے ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ۲۲۴۹ الکحل کے دیوانوں کے مقابلہ میں صرف ۵۳ دیوانے دوسرے اسباب کی وجہ سے ہوئے تھے(۱)

۲ ۔ دوسرے اعداد وشمار میں جو امریکہ کے اسپتالوں سے ہاتھ لگے ہیں ان کے نفسیاتی مریضوں میں سے ۸۵ فیصد الکحل سے مریض تھے(۲)

۳ ۔ ایک انگریزی دانشور جس کا نام ”بنٹام“ ہے لکھتا ہے: مشروباتِ الکحل شمالی ممالک میں انسان کو احمق وبے وقوف بناتے ہیں اور جنوبی ممالک میں دیوانہ بنادیتے ہیں ۔ پھر مزید کہتا ہے : دین اسلام نے تمام قسم کے مشروبات ِ الکحل کو حرام قرار دیا ہے اور یہ اسلام کی خصوصیات میں سے ہے(۳)

۴ ۔ جن لوگوں نے مستی اور نشہ کی حالت میں کوئی قتل یا کسی اور جرم کا ارتکاب کیا ہے اور گھروں کے گھر ویران کردیئے اور خاندان تباہ کردیئے ہیں اگر ان کے اعداد وشمار جمع کیے جائیں تو وہ ہوش ربا حد تک بہت زیادہ ہوں گے(۴)

۵ ۔فرانس میں ہر روز ۴۴۰ افراد اپنی جان الکحل کی بھینٹ چڑھا دیتے ہیں(۵)

۶ ۔ایک اور اعداد وشمار کے مطابق امریکہ میں ایک سال میں نفسیاتی بیماریوں سے تلف ہونے والی جانیں دوسری عالمی جنگ امریکیوں کی تلف ہونے والی جانوں سے دوگنی تھیں اور محققین کے نظریہ کے مطابق امریکہ میں نفسیاتی بیماریوں میں مشروباتِ الکحل اور سگرٹ نوشی کا بنیادی حصّہ ہے(۶)

۷ ۔ان اعداد وشمار کے مطابق جو ایک دانشور ”ہوگر“ کے ذریعے مجلّہ علوم کی بیسویں سالگرہ کی مناسبت سے شائع ہوئے تھے ۶۰ فیصد قتل عمر، ۵ فیصد مارپیٹ اور زخمی کرنے کے جرائم، ۳۰ فیصد اخلاقی جرائم (جن میں محارم سے زنا کے جرائم بھی شامل ہیں ) اور ۲۰ فیصد چوری چکاری کے جرائم شراب اور مشروبات الکحل کے ساتھ مربوط تھے ۔ اسی دانشور کے اعداد وشمار کے مطابق ۴۰ فیصد مجرم بچے الکحل کے ساتھ اثر کے حامل ہیں(۷)

۸ ۔اقتصادی نقطہ نظر سے صرف انگلستان میں وہ نقصانات جو کاریگروں کے کارخانوں سے مے نوشی کی وجہ سے غیر حاضر رہنے سے پیدا ہوتے ہیں سال میں ۵۰ ملین ڈالر (تقریباً اسی کروڑ روپئے موجودہ حساب سے) ہیں ۔ یہ وہ رقم جو ہزراوں نرسری، پرائمری اور ہائی اسلوکوں کے اخراجات پورے کرسکتی ہے(۸)

۹ ۔ان اعداد وشمار کے مطابق جو مے نوشی کے نقصانات کے سلسلے میں فرانس میں شائع ہوئے ہیں ۱۳۷ ارب فرانک سالانہ انفرادی نقصانات کے علاوہ حکومت فرانس کے مخارج میں الکحل سے مدرجہ ذیل تفاصیل کے مطابق نقصان ہوتا ہیں :

۶۰ ارب فرانک عدالت اور قید خانے کے اخراجات ۔

۴۰ ارب فرانک تعاون عمومی اور خیرات کے اخراجات ۔

۱۰ ارب فرانک شراب خواری کے ہسپتالوں کے اخراجات ۔

۷۰ ارب فرانک معاشرے کے امن وامان کو برقرار رکھنے کے اخراجات ۔

تو اس طرح واضح ہوجاتا ہے کہ نفسیاتی بیماریوں ہسپتالوں ، قتلوں ، خونی فسادات، چوریوں ، زیادتیوں اور حادثوں کی تعداد میخانوں کی تعداد کے ساتھ براہِ راست منسلک ہے(۹)

۱۰ ۔ امریکہ میں اعداد وشمار کے سب سے بڑے مرکز نے ثابت کردیا ہے کہ قمار بازی کا ۳۰ فیصد جرائم میں براہِ راست حصّہ ہے ۔

دوسرے اعداد وشمار کے مطابق جو قماربازوں کے سلسلے میں شائع ہوئے ہیں ، بڑے افسوس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ ۹۰ فیصد جیب تراشی، ۵۰ فیصد اخلاقی خرابیاں ، ۳۰ فیصد طلاقیں ، ۴۰ فیصد مارپٹائی اور زخمی کرنے کے واقعات اور ۵ فیصد خودکشیاں قماربازی کی وجہ سے ہوتی ہیں(۱۰)

____________________

۱۔ سمپوزیوم الکحل، ص۶۵.

۲۔کتاب سمپوزیوم الکحل، ص۶۵.

۳۔تفسیر طنطاوی، ج۱، ص۱۶۵.

۴۔دائرة المعارف، فرید وحیدی، ج۳، ص۷۹۰.

۵۔بلاہائے اجتماعی قرن ما، ص۲۰۵.

۶۔ مجموعہ انتشارات نسل نو.

۷۔ سمپوزیوم الکحل، ص۶۶.

۸۔مجموعہ انتشارات نسلِ جوان، سال دوم، ص۳۳۰.

۹۔نشریہ مرکز مطالعہ پیشرفتہائے ایران (الکحل اور قمار بازی کے بارے میں )

۱۰۔نشریہ مرکز مطالعہ پیشرفتہائے ایران (برائے الکحل و قمار بازی)

آیت ۹۳

۹۳( لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ثُمَّ اتَّقَوْا وَاٴَحْسَنُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ )

ترجمہ:

جو لوگ ایمان لے آئے اور نیک عمل کرنے لگے انھوں نے پہلے جو کچھ کھایا پیا اس پر کوئی گرفت نہ ہوگی بشرطیکہ وہ آئندہ ان چیزوں سے بچے رہیں جو حرام کی گئی ہیں اور ایمان پر ثابت قدم رہیں اور اچھے کام کریں ، پھر جس چیز سے روکا جائے اُس سے رکیں اور جو فرمان الٰہی ہ اسے مانیں ۔ پھر خدا ترسی کے ساتھ نیک رویّہ رکھیں ، الله نیک کردار لوگوں کو پسند کرتا ہے ۔

شان نزول

تفسیر مجمع البیان، تفسیرطبری، تفسیر قرطبی اور بعض دوسری تفاسیر میں اس طرح آیا ہے کہ شراب وقماربازی کی حرمت کی آیت کے نزول کے بعد بعض اصحاب پیغمبر نے کہا کہ اگر ان دونوں کاموں کے یہ سب گناہ ہیں تو پھر ہمارے اُن مسلمان بھائیوں کا کیا بنے گا جو اس آیت کے نزول پہلے کرچکے ہیں اور انھوں نے اس وقت تک ان دونوں کاموں کو ترک نہیں کیا تھا، اس پر یہ آیت نازل ہوئی اور اُنہیں جواب دیا گیا ۔

وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح بجالائیں

اس آیت میں اُن لوگوں کے بارے میں جواب دیتے ہوئے جو شراب ار قمار بازی کی حرمت کے نزول سے پہلے مرچکے تھے اُن لوگوں کے بارے میں کہ جن کے کانوں تک ابھی تک یہ حکم نہیں پہنچا تھا اور وہ دور دراز کے علاقوں میں زندگی بسر کررہے تھے فرمایا گیا ہے: وہ لوگ جو ایمان رکھتے تھے اور عمل صالح انجام دیتے تھے اور یہ حکم اُن تک نہیں پہنچا تھا، اگر اُنھوں نے شراب پی ہے یاقماربازی کی کمائی سے کھاتے رہے تو اُن پر کوئی گناہ نہیں ہے( لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ جُنَاحٌ فِیمَا طَعِمُوا ) (۱)

اس کے بعد اس حکم کو اس بات کے ساتھ مشروط کرتا ہے کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور ایمان لے آئیں اور عمل صالح بجالائیں( إِذَا مَا اتَّقَوْا وَآمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) ۔

پھر اس امر کی تکرار کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: پھر تقویٰ اختیار کرو اور ایمان لے آؤ( ثُمَّ اتَّقَوْا وَآمَنُوا ) ۔

اس کے بعد تیسری مرتبہ تھوڑے سے فرق کے ساتھ اسی حکم کی تکرار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: پھر تقویٰ اختیار کرو اور نیکی کرو( ثُمَّ اتَّقَوْا وَاٴَحْسَنُوا )

آیت کے آخر میں فرمایا: خدا نیک لوگوں کو دوست رکھتا ہے( وَاللهُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِینَ ) ۔

ان تین جملوں کی تکرار کے سلسلے میں قدیم وجدید مفسّرین کےدرمیان زیادہ اختلاف ہے، بعض انھیں تاکید پر محمول کرتے ہیں ، کیونکہ تقویٰ، ایمان اور عمل صالح کے موضوعات کی اہمیت کا تقاضا یہ ہے کہ انھیں پختگی کے ساتھ باربار بیان کیا جائے اور تاکید کی جائے ۔

لیکن بعض مفسّرین کا یہ نظریہ ہے کہ اِن تینوں جملوں میں سے ہر ایک میں علیحدہ اور جئاگانہ حقیقت بیان ہوئی ہے، انھوں نے ان کے اخلاف کے سلسلے میں کئی احتمال پیش کیے ہیں کہ جن میں بہت سے ایسے ہیں کہ جن کی کوئی دلیل اور شاہد نہیں ہے ۔

شاید اس سلسلے میں بہترین بات یہ ہے کہ پہلی مرتبہ ذکر ہونے والے ”تقویٰ“ سے مراد اندرونی تقویٰ اور باطنی احساسِ ذمہ داری ہے جو انسان کو دین کے بارے میں تحقیق وجستجو کرنے، پیغمبر کے معجزے میں غوروفکر کرنے اور حق کے بارے میں جستجو کرنے پر اُبھارتی ہے جس کا نتیجہ ایمان اور عمل صالح ہے، دوسرے لفظوں میں جب تک تقویٰ کا ایک مرحلہ وجود انسانی میں پیدا نہیں ہوتا اُس وقت تک اُسے تحقیق کی جستجو کی فکر لاحق نہیں ہوتی، اس بناپر پہلی مرتبہ اُوپر والی آیت میں تقویٰ کے بارے میں جو گفتگو ہوئی ہے وہ تقویٰ کے اسی مرحلہ کی طرف اشارہ ہے ۔ یہ چیز آیت کے ابتدا کے اس حصّے کے منافی نہیں ہے:( لَیْسَ عَلَی الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ ) کیونکہ ہوسکتا ہے کہ آیت کی ابتدا میں ایمان ظاہری تسلیم کے معنی میں ہو لیکن جو ایمان تقویٰ کے بعد پیدا ہوتا ہے وہ حقیقی ایمان ہے ۔

دوسری دفعہ جو تقویٰ کے بارے میں گفتگو ہوئی ہے وہ اُس تقویٰ کی طرف اشارہ ہے جو انسان کے اندر اور باطن میں نفوذ کرجائے کہ جس کا اثر زیادہ گہرا ہوتا ہے اور اس کا نتیجہ ایمان متسقر وثابت ہے، کہ عمل صالح جس کا ایک حصّہ اور جز ہے، اسی لیے دوسرے مرحلے ایمان کے ذکر کے بعد عمل صالح کے ذکر کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے ۔

تیسری مرتبہ ”تقویٰ“ سے متعلق جو گفتگو ہے اس سے مراد وہ تقویٰ ہے جو اپنے بلند ترین مرحلے تک پہنچ جاتا ہے اس طور پر کہ اب اُسے حتمی فرائض کی انجام دہی کی دعوت کے علاوہ احسان یعنی نیک کاموں کی دعوت بھی دی گئی ہے، یہاں تک کہ اُن کاموں کے لیے بھی کہ جو داخل نہیں ہیں ۔

خلاصہ یہ ہے کہ تقویٰ کے بار ے میں تین مرتبہ کا یہ تذکرہ احساسِ ذمہ داری اور پرہیزگاری کے ایک ایک مرحلہ کی طرف اشارہ ہے، ”ابتدائی مرحلہ“، ”درمیانہ مرحلہ“ اور ”آخری مرحلہ“ اور ان میں سے ہر ایک خود آیت میں ایک قرینہ رکھتا ہے کہ جس کا سہارا لے کر مقصد معلوم کیا جاسکتا ہے، بخلاف ان احتمالات کے جو بعض مفسّرین نے ان تین قسم کے تقویٰ اور ایمان کے فرق کے بارے میں پیش کیے ہیں کہ جن کے لیے کوئی قرینہ اور شاہد موجود نہیں ہے ۔

____________________

۱۔ یہ بات قابل توجہ رہے کہ ”طعام“ زیادہ تر کھانے کی چیزوں کے لیے استعمال ہوتا ہے نہ پینے کی چیزوں کے لیے لیکن بعض اوقات پینے کی چیزوں کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے مثلاً سورہ بقرہ کی آیت۲۴۹ میں ہے :فَمَنْ شَرِبَ مِنْهُ فَلَیْسَ مِنِّی وَمَنْ لَمْ یَطْعَمْهُ فَإِنَّهُ مِنِّی

آیات ۹۴،۹۵،۹۶

۹۴( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَیَبْلُوَنَّکُمْ اللهُ بِشَیْءٍ مِنْ الصَّیْدِ تَنَالُهُ اٴَیْدِیکُمْ وَرِمَاحُکُمْ لِیَعْلَمَ اللهُ مَنْ یَخَافُهُ بِالْغَیْبِ فَمَنْ اعْتَدَی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اٴَلِیم ٌ ) ۔

۹۵( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاٴَنْتُمْ حُرُمٌ وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ یَحْکُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ هَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَةِ اٴَوْ کَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاکِینَ اٴَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا لِیَذُوقَ وَبَالَ اٴَمْرِهِ عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَفَ وَمَنْ عَادَ فَیَنتَقِمُ اللهُ مِنْهُ وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ ) ۔

۹۶( اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَکُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ) ۔

ترجمہ

۹۴ ۔ اے ایمان والو! خدا تمھیں شکار کی اس مقدار کے ساتھ کہ (جو تمھارے قریب آجائیں اور) تمھارے ہاتھ اور نیزے اُن تک پہنچ جاتے ہیں ، آزمائے گا، تاکہ معلوم ہوجائے کہ کون شخص غیب پر ایمان رکھتے ہوئے خدا سے ڈرتا ہے اور جو شخص اُس کے بعد تجاوز کرے تو اُس کے لئے دردناک عذاب ہوگا ۔

۹۵ ۔ اے ایمان والو! حالت احرام میں شکار کو قتل نہ کرو اور جو شخص تم میں سے جان بوجھ کر اُسے قتل کرے گا تو اُسے چاہیے کہ اُس کا معادل کفارہ چو پاؤں میں سے دے ۔ ایسا کفارہ کہ جس کے معادل ہونے کی دو آدمی تصدیق کریں اور وہ قربانی کی شکل میں (حریم) کعبہ میں پہنچے یا (قربانی کے بجائے) مساکین و فقرا کو کھانا کھلائے یا اس کے معادل روزے رکھے تاکہ اپنے کام کی سزا کا مزہ چکھے جو کچھ گذشتہ زمانے میں ہوچکا ہے خدا نے وہ معاف کیا اور جو شخص تکرار کرے خدا اُس سے انتقام لے گا اور خدا توانا اور صاحبِ انتقام ہے ۔

۹۶ ۔ دریا کا شکار اور اس کا کھانا تمھارے لئے حلال ہے تاکہ تم اور مسافرین اس سے فائدہ اٹھائیں لیکن جب تک تم حالت احرام میں ہو تو صحرا کا شکار تم پر حرام ہے اور خدا (کی نافرمانی) سے کہ جس کی طرف تم محشور ہوں گے ڈ رتے رہو ۔

شانِ نزول

جیسا کہ کتاب کافی اور بہت سی تفاسیر میں منقول ہے کہ جس وقت پیغمبر اسلام اور مسلمان حدیبیہ والے سال عمرہ کے لئے احرام باندھ کر چل پڑے تو اُنھیں راستے میں بہت سے وحشی جانوروں کا اس طرح سے سامنا ہوا کہ اُن کے لئے آسان تھا کہ ہاتھ یا نیزے سے اُنھیں شکار کرلیں ۔ یہ شکار اس قدر زیادہ تھے کہ بعض نے لکھا ہے کہ سواریوں کے دوش بدوش اور خیموں کے نزدیک آتے جاتے تھے تو اُوپر والی آیات میں سے پہلی آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں کو شکار کرنے سے ڈرایا اور انھیں اس خطرے سے آگاہ کیا کہ یہ امر ان کے لئے ایک طرح کا امتحان ہے ۔

حالت احرام میں شکار کرنے کے احکام

یہ آیات عمرہ اور حج کے احکام میں سے ایک حکم یعنی حالت احرام میں صحرائی اور دریائی جانوروں کے شکار کا مسئلہ بیان کرتی ہیں ، پہلے تو اس واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہ جس کا ”حدیبیہ“ والے سال مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا تھا ارشاد ہوتا ہے: ”اے ایمان والو! خدا تمھیں شکار میں سے ایک چیز کے ساتھ آزمائے گا، ایسے شکار جو تمھارے اس قدر نزدیک ہوجاتے ہیں یہاں تک کہ تم نیزہ اور ہاتھ کے ساتھ انھیں شکار کرسکتے ہو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لَیَبْلُوَنَّکُمْ اللهُ بِشَیْءٍ مِنْ الصَّیْدِ تَنَالُهُ اٴَیْدِیکُمْ وَرِمَاحُکُمْ ) ۔

آیت کی تعبیر سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ خدا یہ چاہتا ہے کہ پیش بینی کے طور پر لوگوں کو ایک ایسے واقعہ سے جو انھیں پیش آنے والا تھا آگاہ کرے اور یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس تمام شکار کا وہاں کے لوگوں کے ہاتھوں کی پہنچ میں آجانا ایک ایسا امر تھا جو پہلے کبھی نہیں ہوا تھا اور یہ مسلمانوں کے لئے ایک قسم کی آزمائش تھی خصوصاً یہ دیکھتے ہوئے جانوروں کے گوشت سے غذا مہیا کرنے کی اُنھیں ضرورت بھی تھی۔

اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ یہ جانور وسوسہ انگیزی کی صورت میں خیموں کے اطراف میں اور ان کے گرداگرد آتے جاتے تھے، اس قسم کی میسّر غذا سے محروم رہنا، وہ بھی اس زمانے اور وقت میں ایسے لوگوں کے لئے ایک بہت بڑی آزمائش تھی ۔

بعض نے کہا ہے کہ اس جملہ سے مراد کہ ”تمھارے ہاتھ سے شکار کے قابل ہوں گے“ یہ ہے کہ وہ انھیں جال وغیرہ سے پکڑ سکتے تھے لیکن آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ حقیقتاً ان کے لئے یہ ممکن تھا کہ وہ خود ہاتھ سے انھیں پکڑسکتے تھے ۔

اس کے بعد تاکید کے طور پر فرمایا ہے: یہ ماجرا اس لئے ہوا تھا کہ وہ لوگ جو ایمان بالغیب کی بناپر خدا سے ڈرتے ہیں دوسرے لوگوں سے ممتاز ہوجائیں( لیعلم اللّٰه من یخافه بالغیب ) ۔

جیسا کہ ہم جلد اوّل میں سورئہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ کے ذیل میں کہہ چکے ہیں کہ ”لنعلم“تاکہ ہم جان لیں یا”لیعلم“ ”تاکہ خدا جان لے“وغیرہ جیسی تعبیرات سے مراد یہ نہیں ہے کہ خدا کسی چیز کو جانتا نہیں اس لئے وہ چاہتا ہے کہ آزمائش اور امتحان وغیرہ کے ذریعہ سے جان لے ۔ بلکہ مراد یہ ہے کہ ہم چاہتے کہ اپنی واقعیتِ علمی کو عملی جامہ اور متحققِ خارجی کا لباس پہنائیں کیونکہ باطنی نیتیں اور لوگوں کی آمادگیاں ، تکامل وار تقا، اور جزا و سزا کے لئے اکیلی ہی کافی نہیں ہیں بلکہ انھیں خارجی افعال کی شکل میں ظہور پذیر ہونا چاہیے تاکہ وہ ان آثار کے حامل ہوسکیں (مزید وضاحت کے لئے مذکورہ آیت کی تفسیر کی طرف رجوع کیجئے) ۔

آیت کے آخر میں اُن اشخاص کو کہ جو اس خدائی حکم کی مخالفت کرتے ہیں درناک عذاب کی تہدید کی گئی ہے( فَمَنْ اعْتَدیٰ بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَهُ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) اگر چہ آیت کا آخری جملہ اجمالی طور پر حالت احرام میں شکار کی حرمت پر دلالت کرتا ہے لیکن بعد والی آیت میں مزید صراحت اور قطعیت کے ساتھ اور بطور عموم حالت احرام میں شکار کے حرام ہونے کا حکم صادر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: ”اے ایمان لانے والو! حالت احرام میں شکار نہ کرو“( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَتَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَاٴَنْتُمْ حُرُمٌ ) ۔

کیا شکار کی حرمت (جو بعد والی آیت کے قرینہ کے ساتھ صحرائی شکار ہے) صحرا کی تمام اقسامِ شکار پر محیط ہے چاہے وہ حلال گوشت ہوں یا حرام گوشت یا حلال گوشت شکار سے مخصوص ہے ۔

مفسّرین اور فقہا کے درمیان اس سلسلے میں کوئی ایک نظریہ نہیں ہے ۔

تا ہم فقہا و مفسّرین امامیہ میں مشہور یہ ہے کہ حکم عام ہے اور جو روایات اہلِ بیت علیہم السلام کے طریق سے وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس مطلب کی تائید کرتی ہیں بعض فقہائے اہل سنت مثلاً ابوحنیفہ ہمارے ساتھ اس سلسلے میں متفق ہیں مگر دوسرے بعض مثلاً شافعی اسے حلال گوشت جانوروں کے ساتھ مخصوص سمجھتے ہیں بہرحال یہ حکم گھریلو جانوروں کے بارے میں نہیں ہے کیونکہ گھریلو جانوروں کو صیدو شکار نہیں کہا جاتا ۔

قابلِ توجہ بات یہ ہے کہ ہماری روایات میں نہ صرف یہ کہ حالت احرام میں شکار کرنا حرام ہے بلکہ اس میں مددکرنا، اشارہ کرنا اور شکار کی نشاندہی کرنا بھی حالت احرام میں حرام قرار دیا گیا ہے ۔

ہوسکتا ہے کہ بعض لوگ یہ تصور کریں کہ صید وشکار کا مفہوم حرام گوشت جانوروں پر محیط نہیں ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے ۔ کیونکہ جانوروں کا شکار مختلف مقاصد کے لئے انجام پاتا ہے ۔ بعض اوقات مقصود اُن کے گوشت سے فائدہ اٹھاناہوتا ہے، بعض اوقات ان کی کھال سے نفع حاصل کر نے لئے ہو تا ہے اور بعض اوقات ان کی مزاحمت کو دور کرنے لئے ہوتاہے ۔وہ مشہور شعر جو حضرت علی علیہ اسلام سے منقول ہے وہ بھی عمومیت کا مشاہدہ بن سکتا ہے، آپ فرماتے ہیں :صید الملوک ارانب و ثعالب و اذا رکبت فصیدی الا بطال

بادشاہوں کے شکار خرگوش اور لومڑیاں ہیں لیکن میرا شکار، جب میں میدان جنگ میں وارد ہوتا ہوں تو شجاع اور بہادر ہوتے ہیں ۔

(مزید وضاحت کے لئے فقہی کتب کی طرف رجوع کیا جائے) ۔

اس کے بعد حالت احرام میں شکار کرنے کے کفارہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: جو شخص جان بوجھ کر شکار کو قتل کردے تو اُسے چاہیے کہ چوپاؤں میں سے اُن جیسے جانور کفارہ میں دے یعنی انھیں قربانی کرکے ان کا گوشت فقراء ومساکین کو دے( وَمَنْ قَتَلَهُ مِنْکُمْ مُتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِثْلُ مَا قَتَلَ مِنْ النَّعَمِ )

یہاں مثل سے مراد کیا ہے؟ کیا شکل وصورت اور مقدار میں ایک جیسا ہونا، اس معنی میں کہ مثلاً اگر کوئی شخص کسی بڑے وحشی جانور مثلاً شتر مرغ کو شکار کرتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس کا کفارہ اونٹ کی صورت میں دے؟ یا اگر ہرن کا شکار کرتا ہے تو کفارہ کے لئے بھیڑ بکری کی قربانی دے جو تقریباً جیسی ہے؟ یا یہ کہ مثل سے مراد قیمت میں ایک جیسا ہونا ہے؟

فقہا اور مفسّرین میں پہلا معنی ہی مشہور ہے اور آیت کا ظاہری مفہوم بھی اسی کے مطابق ہے، کیونکہ حلال گوشت اور حرام گوشت کے حکمِ عمومی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو بہت سے جانور ایسے ہیں جن کی قیمت ثابت ومشخص نہیں ہے کہ جس کے ذریعہ اُن جیسے گھریلو جانوروں کا انتخاب کیا جاسکے اور اس کا مثل شکل وصورت اور مقدار کے مطابق ہی مل سکے ورنہ دوسری صورت میں تو اس کے علاوہ کوئی چارہ ہی نہیں کہ کسی طرح سے اس شکار کی قیمت معیّن کی جائے اور اُس کا مثل قیمت کے لحاظ سے حلال گوشت گھریلو جانوروں میں سے انتخاب کریں ، ممکن ہے کہ بعض اوقات مثل کے معاملے میں کوئی شک وتردید ہوجائے لہٰذا قرآن نے حکم دیا ہے کہ یہ کام دو باخبر اور عادل افراد کے زیرِنظر انجام پذیر ہو( یَحْکُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ ) ۔

اس سلسلے میں کہ یہ قربانی کہاں ذبح ہو، حکم دیتا ہے کہ وہ قربانی اور ”ھدی“ کی صورت میں کعبہ کا ہدیہ بنایا جائے اور سرزمین کعبہ میں پہنچے

( هَدْیًا بَالِغَ الْکَعْبَةِ ) ۔ ضمنی طور توجہ رہے کہ ہمارے فقہا کے درمیان مشہور ہے کہ احرام عمرہ کی حالت میں شکار کا کفارہ مکہ میں ذبح ہونا چاہیے اور احرام عمرہ کی حالت میں منیٰ اور قربان گاہ میں اور یہ بات اُوپر والی آیت کے منافی نہیں ہے کیونکہ جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں کہ یہ آیت، احرام عمرہ کی حالت میں نازل ہوئی ہے، اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ ضروری نہیں ہے حتماً کفارہ قربانی کی صورت میں ہو بلکہ دو اور چیزوں میں سے بھی ہر ایک اُس کی جانشین ہوسکتی ہے، پہلا یہ کہ اُ س کے برابر رقم مساکین کو کھانا کھلانے میں صرف کی جائے( اٴَوْ کَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاکِینَ ) یا اُس کے مساوی روزے رکھے

( اٴَوْ عَدْلُ ذٰلِکَ صِیَامًا ) ۔

اگرچہ آیت میں اُن مساکین کی تعداد جنھیں کھانا کھلایا ہے بیان نہیں ہوئی اور نہ ہی روزوں کے دنوں کی تعداد بتائی گئی ہے لیکن ایک طرف سے ان دونوں کا ایک دوسرے سے ساتھ ہونا اور دوسری طرف یہ صراحت کہ روزوں کے درمیان موازنہ ضروری ہے، نشاندہی کرتا ہے کہ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ جتنے مسکینوں کو وہ کھانا کھلانا چاہے کھلادے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ قربانی کی قیمت کے برابر ہونا چاہیے، باقی رہا یہ کہ روزہ اور مسکین کو کھانا کھلانے کے درمیان تعادل وبرابری کس طرح قائم ہو تو بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر ایک ”مد“ طعام کے مقابلہ میں ایک روزہ رکھے ۔ یہ حقیقت میں اس بناپر ہے کہ ماہ مبارک رمضان میں جو اشخاص روزہ پر قدرت نہیں رکھتے تو وہ ہر دن کے بدلے میں ایک یا دو مد کھانا مساکین کوکھلائیں (اس امر کے بارے میں مزید وضاحت فقہی کتب میں ملاحظہ فرمائیں ) ۔

اس بارے میں کہ وہ شخص جو حالت احرام میں شکار کا مرتکب ہوا ہے کیاوہ ان تین چیزوں میں سے جس کو چاہے کرلے یا اُسے ترتیب کو پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ پہلے تو اُسے قربانی کرنا چاہیے اور اگر ایسا نہیں کرسکتا تو مساکین کو کھانا کھلائے اور اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو پھر روزہ رکھے ۔ اس سلسلہ میں مفسّرین اور فقہا کے درمیان اختلاف ہے لیکن آیت کا ظاہر اختیار کا معنی دیتا ہے ۔ یہ کفارے تو اس بناپر ہیں کہ وہ اپنے غلط کام کی سزا اور انجام دیکھ لےں( لِیَذُوقَ وَبَالَ اٴَمْرِهِ ) (۱) ۔

اور اس بناپر کہ عموماً کوئی حکم بھی گذشتہ امور کو شامل نہیں ہوتا صراحت کے ساتھ کہتا ہے کہ خدا نے اُن غلط کاریوں کو جو اس سلسلے میں گذشتہ زمانے میں تم نے انجام دی ہیں معاف کردیتا ہے( عَفَا اللهُ عَمَّا سَلَف ) ۔

اور جو شخص ان بار بار کے اظہار کے خطر اور کفارہ کے حکم کی پروا نہ کرے اور پھر بھی حالت احرام میں شکار کا مرتکب ہو تو خدا ایسے شخص سے انتقام لے گا اور خدا توانا وصاحب قدرت ہے اور برمحل انتقام لیتا ہے( وَمَنْ عَادَ فَیَنتَقِمُ اللهُ مِنْهُ وَاللهُ عَزِیزٌ ذُو انتِقَامٍ ) ۔

مفسرین کے درمیان اختلاف ہے کہ آیا شکارکا کفارہ دوبارہ شکار کرنے سے دوگناہ ہوتا ہے یا نہیں ؟تو آیت کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ تکرار کی صورت میں صرف انتقال الٰہی کی تہدید اور دھمکی ہی دی گئی ہے اور اگر کفارہ کا تکرار بھی ہوتا تو صرف انتقال الٰہی کے ذکر پر اکتفانہ کی جاتی اور تکرار کفارہ کی تصریح بھی ہوتی ۔ ان روایات میں جواہل بیت علیہم السلام کے طریق سے ہم تک پہنچی ہیں یہی بات بیان کی گئی ہے ۔

بعد والی آیت میں دریائی شکار کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے کہتا ہے:(حالت احرام میں ) دریائی شکار اور اسے کھانا تمھارے لئے حلال ہے

( اٴُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ ) ۔

اس بارے میں کہ طعام اور کھانے سے کیا مراد ہے؟

مفسّرین نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ اس سے مراد وہ مچھلیاں ہیں جو شکار کیے بغیر مرجاتی ہیں اور پانی کے اُوپر رہ جاتی ہیں ، جبکہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات ٹھیک نہیں ہے کیونکہ مردہ مچھلی کا کھانا حرام ہے، اگرچہ اہلِ سنت کی بعض روایات میں ان کے حلال ہونے کی صراحت موجود ہے ۔

آیت کے ظاہری مفہوم سے جو بات زیادہ معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ طعام سے مراد وہی خوراک ہے کہ جو شکار شدہ مچھلیوں سے تیار کی جاتی ہے کیونکہ آیت دو امور کو جائز قرار دے رہی ہے پہلے شکار کرنا اور دوسرے شکار شدہ کھانا کھانا ۔

ضمناً اس تعبیر سے اس معروف فتویٰ کے لئے بھی اجمالی طور پر استفادہ ہوتا ہے جو ہمارے فقہا کے درمیان موجود ہے اور جو برّی (وصحرائی) جانوروں کے بارے میں ہے اور وہ یہ کہ نہ صرف انھیں شکار کرنے کا اقدام حرام ہے بلکہ شکار شدہ جانور کا گوشت کھانا بھی جائز نہیں ہے ۔

اس کے بعد اس حکم کے فلسفہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: یہ اس بناپر ہے کہ تم اور مسافر اس سے فائدہ اٹھاسکیں( مَتَاعًا لَکُمْ وَلِلسَّیَّارَةِ ) ۔

یعنی اس غرض سے کہ تم حالت احرام میں کھانے کے لئے زحمت ومشقت میں نہ پڑو اور ایک قسم کے شکار سے فائدہ اٹھا سکو یہ اجازت تمھیں دریائی شکار کے بارے میں دی جاتی ہے ۔

اور چونکہ عموماً اگر مسافر یہ چاہیں کہ شکار شدہ مچھلی اپنے ساتھ لے جائیں تو اس میں نمک ملاکر اُسے ”ماہی شور“ کی صورت میں تیار کرلیتے ہیں ۔ بعض مفسّرین نے مندرجہ بالا جملے کی اس طرح کی تفسیر کی ہے کہ مقیم افراد تازہ مچھلی سے اور مسافر نمک لگی مچھلی سے استفادہ کریں ۔

ہم نے درج بالا آیت میں یہ پڑھا ہے کہ دریائی شکار تمھارے لئے حلال ہے ۔ یہاں اشتباہ نہیں ہونا چاہیے ، اس کا مفہوم دریائی شکاروں کے بارے میں ایک عمومی حکم نہیں ہے، جیسا کہ بعض نے خیال کرلیا ہے ۔ آیت یہاں پر دریائی شکاروں کا اصل حکم بیان کرنا نہیں چاہتی، بلکہ آیت کا مقصد وہدف یہ ہے کہ وہ احرام باندھے ہوئے شخص کو اس بات کی اجازت دے کہ دریا کے دو شکار جو احرام سے پہلے حلال تھے احرام کی حالت میں بھی وہ اُس سے استفادہ رکرسکتا ہے ۔ دوسرے الفاظ میں آیت یہاں اصل تشریعِ قانون بیان نہیں کررہی بلکہ اِس کی نظر اُن قانونی خصوصیات کی طرف ہے جو پہلے سے تشریع ہوچکا ہے ۔ اصطلاح میں یہ بیان حکمِ عمومی کے نقطہ نظر سے نہیں بلکہ آیت صرف محرم کے احکام بیان کررہی ہے ۔

مگر دوسری مرتبہ تاکید کے طور پر حکم سابق کی طرف لوٹتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جب تک تم حالت احرام میں ہو صحرائی اور وحشی جانوروں کا شکار تم پر حرام ہے( وَحُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا ) ۔

آیت کے آخر میں اُن تمام احکام کی تاکید کے لئے جو ذکر ہوچکے ہیں فرماتا ہے: اس خدا سے ڈرو جس کی بارگاہ میں تمھیں قیامت کے دن محشور ہونا ہے( وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِی إِلَیْهِ تُحْشَرُون ) ۔

____________________

۱۔وبال جیسا کہ راغب اصفہانی نے مفردات میں لکھا ہے: اصل میں ”وبل“ اور ”وابل“ سے سخت بارش کے معنی میں ہے ۔ اس کے مشکل، شاق اور سخت کام پر بھی بولا جانے لگا اور چونکہ سزا وعذاب میں بھی شدت اور سختی ہوتی ہے اسے وبال کہتے ہیں ۔

حالتِ احرام میں شکار کی حرمت کا فلسفہ

ہمیں معلوم ہے کہ حج و عمرہ ان عبادات میں سے ہے جو انسان کو عالم مادہ سے جدا کرکے ایک ایسے ماحول میں جو روعانیت و معنویت سے معمور ہیں مستغرق کردیتی ہیں ۔ مادّی زندگی کے مقررات، جنگ و جدال، جھگڑے فساد، جنسی ہوس رانیاں اور مادی لذات حج و عمرہ کے مراسم میں کلی طور پر چھوڑنا پڑتی ہیں اور انسان ایک قسم کی شرعی الٰہی ریاضت میں مشغول ہوجاتاہے ۔ یوں نظر آتا ہے کہ حالت احرام میں حرمت شکار بھی اسی مقصد کے ماتحت ہے ۔

علاوہ ازیں اگر خانہ خدا کے زائر کے لئے شکار کرنا ایک مشروع اور جائز کام ہوتا تو اس آمدورفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ جو ہر سال اس مقدس سرزمین میں ہوتی ہے، اس علاقہ کے بہت سے جانوروں کی نسل کہ جو خشکی اور پانی کی کمی کی وجہ سے پہلے ہی کم ہے، ختم ہوجاتی لہٰذا یہ حکم اس علاقے کے جانوروں کی نسل کی بقا کے لئے ایک قسم کی حفاظت و ضمانت ہے ۔

خصوصاً اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ حالت احرام کے علاوہ بھی حرم میں شکار اور اسی طرح اس کے درختوں اور گھاس پھونس کا اکھاڑنا ممنوع ہے، اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ حکم زندگی کے ماحول کی حفاظت اور اس علاقے کے سبزہ زاروں اور جانوروں کو فنا و نابودی سے بچانے کے مسئلہ سے نزدیکی ربط رکھتا ہے ۔

یہ حکم اس قدر دقیق تشریع ہوا ہے کہ نہ صرف جانوروں کا شکار کرنا بلکہ اس سلسلہ میں مدد کرنا، یہاں تک کہ شکاریوں کو شکار کی نشاندہی کرنا اور انھیں شکار کرنے کی رائے دینا بھی حرام قرار دیا گیا ہے ۔ جیسا کہ اہلِ بیت(علیه السلام) کے طریق سے وارد شدہ روایات میں ہے کہ امام صادق (علیه السلام) نے اپنے ایک صحابی سے فرمایا:

لا تستحلن شیئاً من الصید واٴنت حرام ولا وانت حلال فی الحرم ولاتدلن علیه محلا ولامحرما فیصطاده ولاتشر الیه فیستحل من اجلک فان فیه فداء لمن تعمده “”ہرگز شکار میں سے کسی چیز کو حالت احرام میں حلال شمار نہ کرنا اور اسی طرح حرم کا شکار غیر حالت احرام میں بھی حلال نہیں ۔ محرم و غیر محرم کو شکار کی نشاندہی بھی نہ کرنا کہ وہ شکار کرلے، یہاں تک کہ اس کی طرف اشارہ بھی نہ کرنا (اور اُسے کوئی حکم نہ دینا) کہ وہ تیری وجہ سے شکار کو حلال سمجھے کیونکہ یہ کام اس شخص کا شمار ہوگا جس نے شکار کا حکم دیا ہے یا اشارہ کیا ہے اور کفارہ بھی اس پر واجب ہوگا“۔(۱)

____________________

۱۔ وسائل الشیعہ جلد ۵ صفحہ ۷۵ -