تفسیر نمونہ جلد ۵

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 34474
ڈاؤنلوڈ: 3766


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 135 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34474 / ڈاؤنلوڈ: 3766
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 5

مؤلف:
اردو

آیات ۱۰۶،۱۰۷،۱۰۸

۱۰۶( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ اٴَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إِنْ اٴَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَاٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةُ الْمَوْتِ تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ إِنْ ارْتَبْتُمْ لاَنَشْتَرِی بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ وَلاَنَکْتُمُ شَهَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِینَ )

۱۰۷( فَإِنْ عُثِرَ عَلیٰ اٴَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنْ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمْ الْاٴَوْلَیَانِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ لَشَهَادَتُنَا اٴَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ )

۱۰۸( ذٰلِکَ اٴَدْنَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلیٰ وَجْهِهَا اٴَوْ یَخَافُوا اٴَنْ تُرَدَّ اٴَیْمَانٌ بَعْدَ اٴَیْمَانِهِمْ وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ )

ترجمہ:

۱۰۶ ۔اے ایمان لانے والو! جب تم سے کسی کی موت کا وقت آجائے تو وصیت کرتے وقت اپنے میں سے دوعادل افرادکو بلالو، اگر تم سفرمیں ہو اور تمھیں موت آپہنچے(اور راستے میں تمھیں کوئی مسلمان نہ ملے)تو اغیار میں سے دوفرد، اور اگر شہادت ادا کرتے وقت ان کے سچے ہونے میں شک کرو تو انھیں نماز کے بعد روک رکھو تاکہ وہ یہ قسم کھائیں کہ ہم حق کو کسی چیز کے بدلے فروخت کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں ، اگر چہ ہمارے رشتہ داروں کے بارے میں ہو اور ہم خدائی شہادت کو نہیں چھپاتے کہ مبادا ہم گنہگاروں میں سے ہوجائیں ۔

۱۰۷ ۔اور اگر اطلاع حاصل ہوجائے کہ وہ دونوں گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں ( اور انہوں نے حق کو چھپایا ہے) تو دو اور افراد کہ جن پر پہلے گواہوں نے ظلم کیا ہے ان کی جگہ قرار پائیں گے اور خدا کی قسم کھائیں گے کہ ہماری گواہی ان دونوں کی گواہی کی نسبت حق کے زیادہ قریب ہے اور ہم تجاوز و زیارتی کے مرتکب نہیں ہوئے اور اگر ہم نے ایسا کیا ہو تو ہم ظالمین میں سے ہوں گے ۔

۱۰۸ ۔یہ کام زیادہ سبب بنے گا کہ وہ حق کی گواہی دیں ( اور خدا سے ڈریں ) اور یا( لوگوں سے )ڈریں کہ (ان کا جھوٹ فاش ہوجائے گا اور) ان کی قسموں کی جگہ دوسروں قسمیں لے لیں گی اور خدا (کی مخالفت) سے ڈرو اور کان دھر کر بات سنو اور خدا فاسقین کی ہدایت نہیں کرتا ۔

شان نزول

مجمع البیان اور بعض دوسری تفاسیر میں درج بالا آیات کی شان نزول کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ مسلمانوں میں سے ”ابن ابی ماریہ“ نامی ایک شخص دو عرب عیسائیوں کی ہمراہی میں جن کے نام ”تمیم“ اور ”عدی“ تھے اور وہ دونوں بھائی تھے، تجارت کے ارادے سے مدینہ سے نکلا ۔ اثنائے راہ میں ”ابن ابی ماریہ“ جو مسلمان تھا بیمار ہوگیا اس نے وصیت نامہ لکھا اور اُسے اپنے سامان میں چھپا دیا اور اپنا مال اپنے دو ہمسفر عیسائیوں کے سپرد کرتے ہوئے وصیت کی کہ وہ اسے اس کے رشتہ داروں تک پہنچادیں وہ مرگیا ۔ اُس کے ہمسفر دونوں افراد نے اس کا مال و اسباب کھولا اور اس میں سے گراں قیمت اور زیادہ اہم چیزیں اٹھالیں اور باقی مال وارثوں کو پہنچادیا ۔ وارثوں نے جب سامان کھولا تو انھیں اس میں اُن چیزوں میں سے جو ”ابن ابی ماریہ“ اپنے ساتھ لے گیا تھا، کچھ چیزیں نہ ملیں ۔ اچانک اُن کی نظر وصیت نامے پر پڑی ۔ انہوں نے دیکھا کہ تمام چوری شدہ مال کی تفصیل اس میں درج ہے ۔ انہوں نے اُن دو ہمسفر عیسائیوں کے سامنے ماجرا پیش کیا ۔ انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ اُس نے ہمیں دیا وہ ہم نے تمھارے سپرد کردیا ۔ مجبوراً انہوں نے پیغمبر سے شکایت کی توزیر نظر آیات نازل ہوئیں جن میں اس سلسلے میں حکم بیان کیا گیا ۔

لیکن اس شان نزول سے کہ جو کتاب کافی میں بیان ہوئی ہے، یوں معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے پہلے تو دوسرے مال و متاع کا انکار کیا اور معاملہ پیغمبر کی خدمت میں لایا گیا ۔ پیغمبر کے پاس چونکہ ان دو افراد کے خلاف کوئی دلیل موجود نہیں تھی تو اُنھیں قسم کھانے پر آمادہ کیا اور اُن سے قسم لینے کے بعد اُنھیں بَری کردیا، لیکن کچھ وقت نہیں گزرا تھا کہ اُن دونوں آدمیوں کے پاس سے مالِ متنازعہ میں سے کچھ مال مل گیا اور اس طرح سے اُن کا جھوٹ ثابت ہوگیا، ماجرا پیغمبر کی خدمت میں عرض کیا گیا، پیغمبر انتظار میں ہی تھے کہ درج بالا آیات نازل ہوئیں ۔ اس کے بعد آپ نے حکم دیا کہ مرنے والے کے ورثا قسم کھائیں اور پھر آپ نے مال لے کر ان کے سپُرد کردیا ۔

اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق

اسلام کے اہم ترین مسائل میں سے ایک حفظِ حقوق اور لوگوں کے اموال اور مکمل عدالت اجتماعی کے اجراء کرنے کا مسئلہ ہے ۔ اُوپر والی آیات اس حصہ سے مربوط احکام کا ایک گوشہ ہیں ۔

پہلے اس بناپر کہ وارثوں کے حقوق مرنے والے کے مال میں سے ضائع نہ ہوں اور پسماندگان، یتیم اور چھوٹے بچوں کا حق پائمال نہ ہو، صاحب ایمان افراد کو حکم دیتا ہے اور اُن سے یہ کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! جب تم میں سے کسی کو موت آگھیرے تو وصیت کرتے وقت دو عادل افراد کو گواہی کے لئے بلاؤ اور اپنا مال امانت کے طور پر ورثا کے حوالے کرنے کے لئے ان کے سپرد کردو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا شَهَادَةُ بَیْنِکُمْ إِذَا حَضَرَ اٴَحَدَکُمْ الْمَوْتُ حِینَ الْوَصِیَّةِ اثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِنْکُمْ ) ۔

یہاں عدل سے مراد وہی عدالت ہے جو گناہِ کبیرہ وغیرہ سے پرہیز کرنے کے معنی میں ہے ۔ البتہ آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ہے کہ عدالت سے مراد ”امور مالی میں امانت“ اور ”عدم خیانت“ ہو مگر یہ کہ دوسرے دلائل سے ثابت ہو کہ اس سے مزید شرائط بھی اس سلسلے میں ضروری ہیں ۔

”منکم“ سے مراد یعنی تم مسلمانوں میں سے، غیر مسلم افراد کے مقابلے میں ہے کہ جس کی طرف بعد والے جملے میں اشارہ ہوگا ۔

البتہ اس بات پر توجہ رکھنی چاہیے کہ یہاں عام شہادت کے متعلق بحث نہیں ہے، بلکہ یہ وہ شہادت ہے جو وصیت کے ساتھ وابستہ ہے، یعنی یہ دونوں افراد وصی بھی ہیں اور گواہ بھی ۔ باقی رہا یہ احتمال کہ یہاں پر دو گواہوں کے علاوہ ایک تیسرے شخص کا وصی کے طور پر انتخاب بھی ضروری ہے تو وہ ظاہر آیت کے خلاف اور شانِ نزول کے مخالف ہے، کیونکہ ہم شان نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ ابن ماریہ کے ہمسفر صرف دو افراد تھے کہ جنھیں اُس نے اپنی میراث پر وصی اور گواہ اٹھہرایا تھا ۔

اس کے بعد مزید کہتا ہے: اگر تم مسافرت میں ہو اور تم پر موت کی مصیت آپڑے (اور مسلمانوں میں سے کوئی وصی اور شاہد تمھیں نہ مل سکے) تو اس مقصد کے لئے غیر مسلمانوں میں سے دو افراد کا انتخاب کرلو( اٴَوْ آخَرَانِ مِنْ غَیْرِکُمْ إِنْ اٴَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَاٴَصَابَتْکُمْ مُصِیبَةُ الْمَوْتِ ) ۔

اگرچہ اس آیت میں اس موضوع سے متعلق کوئی بات دکھائی نہیں دیتی کہ غیر مسلموں میں سے وصی وشاہد کا انتخاب مسلمانوں میں سے کسی مسلمان کے نہ ملنے کے ساتھ مشروط ہے البتہ یہ بات واضح ہے کہ مراد ایسی صورت میں ہی ہے جب مسلمان تک رسائی نہ ہو اور مسافرت کی قید کا ذکر بھی اسی وجہ سے ہوا ہے ۔ اسی طرح کلمہ ”او“ اگرچہ عام طور پر اختیار کے لئے آتا ہے لیکن یہاں بھی بہت سے دوسرے مواقع کی طرح ”ترتیب“ ہی منظور ہے، یعنی پہلے تومسلمانوں میں سے انتخاب ہونا چاہیے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر غیر مسلموں میں سے انتخاب کرو ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری ہے کہ غیر مسلموں سے یہاں صرف اہل کتاب یعنی یہود ونصاریٰ ہی مراد ہیں کیونکہ اسلام مشرکوں اور بت پرستوں کی اہمیت کا کبھی قائل نہیں ہوا ۔

پھر حکم دیتا ہے کہ اگر گواہی دینے کے وقت، رفعِ شک کی غرض سے، ان دونوں افراد کو نماز کے بعد اس بات پر آمادہ کریں کہ وہ الله کی قسم کھائیں( تَحْبِسُونَهُمَا مِنْ بَعْدِ الصَّلاَةِ فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ إِنْ ارْتَبْتُمْ ) اور ان کی شہادت اس طرح سے ہونا چاہیے کہ وہ کہیں کہ: ہم اس بات پر آمادہ نہیں ہیں کہ حق کو مادی منافع کی خاطر بیچ ڈالیں اور ناحق گواہی دیں اگرچہ ہمارے رشتہ داروں اور عزیزوں کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو( لاَنَشْتَرِی بِهِ ثَمَنًا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ ) اور ہم کبھی خدائی گواہی کو نہیں چھپائیں گے کیونکہ اس طرح تو تم گنہگاروں میں سے ہوجائیں گے( وَلاَنَکْتُمُ شَهَادَةَ اللهِ إِنَّا إِذًا لَمِنَ الْآثِمِینَ ) ۔

اس حقیقت پر بھی توجہ رکھنی چاہیے کہ:

اوّلاً یہ تمام لوازمات شک وشبہ اور اتہام کی صورت میں ادائے شہادت کے سلسے میں ہیں ۔

دوسرا یہ کہ حفاظت کے لئے ایک طرح کی محکم ضمانت ہے اور یہ بات شہادت عدلین کو بغیر قسم کے قبول کرلینے کے منافی نہیں ہے کیونکہ یہ حکم عدم اتہام کے مواقع کے ساتھ مربوط ہے، لہٰذا اس بناپر نہ تو اس آیت کا حکم منسوخ ہوا ہے اور نہ ہی یہ غیرمسلموں کے ساتھ مخصوص ہے (غور کیجیے) ۔

تیسرا یہ کہ نماز سے مراد غیر مسلموں کی صورت میں از روئے اصول وقاعدہ خود ان کی ہی نماز ہونا چاہیے جو اُن میں توجّہ اور خوف خدا پیدا کرتی ہے، باقی رہا مسلمانوں کے بارے میں تو ایک گروہ کا نظریہ تو یہ ہے کہ اس سے مراد خاص طور پر نماز عصر ہے اور اہل بیت علیہم السلام کی بعض روایات میں بھی اس بارے میں اشارہ ہوا ہے لیکن آیت کا ظاہر مطلق ہے اور وہ ہر نماز کے لئے ہے، ہوسکتا ہے کہ ہماری روایات میں خصوصیت کے ساتھ نماز عصر کا ذکر استحبابی پہلو رکھتا ہو کیونکہ نماز عصر میں لوگ زیادہ تعداد میں جمع ہوجاتے تھے ۔ علاوہ ازیں فیصلہ اور قضاوت کا وقت بھی مسلمانوں کے نزدیک زیادہ تر یہی ہوتا تھا ۔

چوتھا یہ کہ شہادت کے لئے نماز کے وقت کا انتخاب اس بناپر تھا ہ کیونکہ اس موقع پر انسان میں خدا خوفی کی روح بیدار ہوتی ہے جیسا کہ فرمایا گیا ہے:”( اِنَّ الصَّلَاةَ تَنْهیٰ عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْکَرِ )(۱)

زمان ومکان کی حالت انسان کو حق کی طرف متوجہ کرتی ہے، یہاں تک کہ بعض فقہا نے کہا ہے کہ اگر گواہی کے لئے مکہ میں ہوں تو بہتر ہے خصوصاًکعبہ کے پاس ”رکن“ و ”مقام“ کے درمیان کہ جو بہت ہی مقدس جگہ ہے اور اگر مدینہ میں ہوں تو پیغمبر کے منبر کے پاس یہ شہادت ادا ہو ۔

بعد والی آیت میں ایسے مواقع کے متعلق گفتگو ہورہی ہے جب یہ ثابت ہوجائے کہ دونوں گواہ خیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے حق کے خلاف گواہی دی ہے جیسا کہ آیت کی شان نزول میں بیان ہوا ہے ۔ ایسے موقع کے لئے حکم یہ ہے کہ: اگر یہ معلوم ہوجائے کہ دونوں گواہ گناہ، جرم اور تعدی کے مرتکب ہوئے ہیں اور انھوں نے حق کو پامال کردیا ہے تو دوسرے دو آدمی اُن لوگوں میں سے لئے جائیں جب پر پہلے گواہوں نے ظلم کیا ہے یعنی مرنے والے کے ورثا میں سے اور وہ اپنا حق ثابت کرنے کے لئے گواہی دیں گے( فَإِنْ عُثِرَ عَلیٰ اٴَنَّهُمَا اسْتَحَقَّا إِثْمًا فَآخَرَانِ یَقُومَانِ مَقَامَهُمَا مِنْ الَّذِینَ اسْتَحَقَّ عَلَیْهِمْ الْاٴَوْلَیَانِ ) ۔

مرحوم طبرسی نے ”مجمع البیان“ میں کہا ہے کہ یہ آیت معنی اور اعراب کے لحاظ سے پیچیدہ ترین اور مشکل ترین آیات قرآن میں سے ہے، لیکن دونکات کی طرف توجہ کرنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ یہ آیت اس قدر پیچیدہ بھی نہیں ہے ۔

پہلا نکتہ ہے کہ لفظ ”اثم“ (گناہ) کے قرینہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں ”اسْتَحَقَّ “سے مراد جرم اور دوسرے کے حق پر تجاوز ہے اور دوسرے یہ کہ ”اولیان“ یہاں ”اولان“ کے معنی میں ہے یعنی دو گواہ کہ جنھیں پہلے گواہی دینا چاہیے تھی اور اب وہ راہ راست سے منحرف ہوگئے ہیں ، بنابر یں آیت کا معنی اس طرح ہوگا کہ اگر کوئی ایسی اطلاع مل جائے کہ پہلے والے دو گواہ غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں تو دوافراد ان کی جگہ لے لیں گے یہ دو گواہ ان لوگوں میں ہوں گے کہ جن پر پہلے دو گواہوں نے زیادتی اور تجاوز کیا ہے(۲)

آیت کے ذیل میں دوسرے دو گواہوں کی ذمہ داری یوں بیان کی گئی ہے: خدا کی قسم کھائیں کہ ہماری گواہی پہلے دوافراد کی گواہی کی نسبت زیادہ صحیح اور حق کے زیادہ قریب ہے اور تجاوز اور کسی ظلم وستم کے مرتکب نہیں ہوں گے اور اگر ہم ایسا کریں گے تو ظالموں میں سے قرار پائیں گے( فَیُقْسِمَانِ بِاللهِ لَشَهَادَتُنَا اٴَحَقُّ مِنْ شَهَادَتِهِمَا وَمَا اعْتَدَیْنَا إِنَّا إِذًا لَمِنَ الظَّالِمِینَ ) ۔

حقیقت میں مرنے والے کے اولیاء پہلے سے اس کے مال ومتاع کے بارے میں مسافرت کے وقت یا مسافرت کے علاوہ جو کچھ جانتے ہیں اس کی بنیاد پر گواہی دیں گے کہ پہلے دو گواہ ظلم وخیانت کے مرتکب ہوئے ہیں اور یہ گواہی مشاہدہ وحس کی بناپر ہے نہ کہ حدس وقرائن کی رو سے ۔

زیر بحث آیت کے آخر میں در حقیقت ان احکام کا فلسفہ بیان ہورہا ہے جو شہادت کے سلسلے میں پہلی آیات میں گزر چکے ہیں کہ اگر اُوپر والے حکم کے مطابق عمل ہو یعنی دونوں گواہوں کو نماز کے بعد جماعت کی موجودگی میں گواہی کے لئے طلب کریں اور ان کی خیانت ظاہر ہونے کی صورت میں دوسرے افراد ورثاء میں سے ان کی جگہ لے لیں اور حق کو واضح کریں تو یہ لائحہ عمل اس بات کا سبب بنے گا وہ گواہ گواہی کے معاملے میں غور وخوض سے کام لیں گے اور خدا کے خوف یا خلق خدا کے ڈر سے واقع کے مطابق گواہی دیں گے( ذٰلِکَ اٴَدْنَی اٴَنْ یَاٴْتُوا بِالشَّهَادَةِ عَلیٰ وَجْهِهَا اٴَوْ یَخَافُوا اٴَنْ تُرَدَّ اٴَیْمَانٌ بَعْدَ اٴَیْمَانِهِمْ ) ۔

در حقیقت یہ کام اس بات کا سبب بنے گا کہ اُن میں خدا کے سامنے یا بندگانِ خدا کے سامنے زیادہ سے زیادہ بازپُرس کا خوف پیدا ہوجائے گا اور وہ حق کے مرکز سے روگرداں نہ ہوں ۔

آیت کے آخر میں تمام گذشتہ احکام کی تاکید کے لئے ایک حکم دیا گیا ہے:

پرہیزگاری اختیار کرو اور فرمان خدا کان لگا کر سنو اور یہ جان لو کہ خدا فاسق گروہ کو ہدایت نہیں کرتا( وَاتَّقُوا اللهَ وَاسْمَعُوا وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِینَ ) ۔

____________________

۱۔سورہ عنکبوت، آیت۴۵-

۲۔اس بناپر اعراب کے لحاظ سے ”آخران“ مبتدا ہے اور ”یَقُومَانِ مَقَامَهُمَا “ خبر ہے اور ”اولیان“ ”استحق“ کا فاعل ہے ”الَّذِینَ“ ورثاء کے معنی میں ہے جن پر ظلم ہوا ہے اور جارومجرور ”مِنَ الَّذِینَ “کا ”اخران“ کی صفت ہوگا (غور کیجیے)

آیت ۱۰۹

۱۰۹( یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا اٴُجِبْتُمْ قَالُوا لاَعِلْمَ لَنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ )

ترجمہ:

۱۰۹ ۔ اُس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور انھیں کہے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا تو وہ کہیں گے ہمیں تو پتہ نہیں تُو خود تمام پوشیدہ چیزوں کا جاننے والا ہے ۔

اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا

یہ آیت حقیقت میں گذشتہ آیات کی تکمیل کرتی ہے کیونکہ گذشتہ آیات کے ذیل میں جو حق وباطل کی شہادت کے مسئلہ کے ساتھ مربوط تھیں ، تقویٰ اور حکم خدا کی مخالفت سے ڈرنے کا حکم دیا گیا تھا، اس آیت میں کہتا ہے کہ اس دن سے ڈرو جس دن خدا پیغمبروں کو جمع کرے گا اور اُن سے رسالت اور ان کی ماموریت کے بارے میں سوال کرے گا اور اُن سے کہے گا کہ لوگوں نے تمھاری دعوت کا کیا جواب دیا تھا( یَوْمَ یَجْمَعُ اللهُ الرُّسُلَ فَیَقُولُ مَاذَا اٴُجِبْتُمْ ) ۔

وہ اپنے کسی بھی قسم کے ذاتی علم کی نفی کرتے ہوئے تمام حقائق کو علم پروردگار کے ساتھ وابستہ کرکے کہیں گے: خداوندا! ہمیں کوئی علم نہیں ہے تو ہی تمام پوشیدہ اور چھپی ہوئی چیزوں سے آگاہ ہے( قَالُوا لاَعِلْمَ لَنَا إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ ) ۔اسی طرح تمھارا ایسے علام الغیوب خدا اور ایسی عدالت سے سامنا ہوگا، اسی لئے تم اپنی گواہیوں میں حق وانصاف کو ملحوظ نظر رکھو(۱) یہاں پر دو سوال سامنے آتے ہیں :

پہلا: یہ کہ قرآن کی دوسری آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء ومرسلین(علیه السلام) اپنی اُمت کے گواہ اور شاہد ہیں جب کہ اُوپر والی آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے آپ سے علم کی نفی کرتے ہیں اور تمام چیزوں کو خدا کے سپُرد کررہے ہیں ۔لیکن ان دونوں باتوں کے درمیان کوئی تضاد اور اختلاف نہیں ہے، بلکہ یہ دونوں باتیں علیحدہ علیحدہ مرحلوں کے ساتھ مربوط ہیں ، پہلے مرحلہ میں جس کی طرف زیرِ بحث آیت میں اشارہ ہے انبیاء علیہم السلام نے پروردگار کے سوال کے جواب میں اظہارِ ادب کیا اور اپنے آپ سے علم کینفی کی ہے اور تمام چیزوں کو خدا کے علم سے وابستہ کیا ہے، لیکن بعد کے مرحلوں میں اپنی اُمت کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اس کو واضح کریں گے اور اس کی گواہی دیں کے، یہ بالکل اسی طرح ہے جس طرح سے کہ بعض استاد اپنے شاگرد سے کہتا ہے کہ فلاں شخص کے سوال کا جواب دو اور شاگرد پہلے تو اظہار ادب کے طور پر اپنے استاد کے علم کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر قرار دیتا ہے اور پھر جو کچھ وہ جانتا ہے اسے بیان کرتا ہے ۔

دوسرا: یہ کہ انبیاء علیہم السلام اپنے سے علم کی نفی کیسے کریں گے حالانکہ وہ عام عادی علم کے علاوہ بہت سے مخفی پروردگار کی تعلیم کے ذریعے جانتے ہیں ۔اگرچہ اس سوال کے جواب میں مفسّرین نے طرح طرح کی بحثیں کی ہیں لیکن ہمارے عقیدے کے مطابق یہ بات بالکل واضح وروشن ہے کہ یہاں پر انبیاء علیہم السلام کی مراد یہ ہے کہ وہ اپنے علم کو خدا کے علم کے مقابلے میں ہیچ سمجھتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے، ہماری ہستی اس کی بے پایاں ہستی کے سامنے کوئی چیز ہی نہیں ہے اور ہمارا علم اس کے علم کے سامنے کوئی علم ہی شمار نہیں ہوتا اور خلاصہ یہ ہے کہ ”ممکن“ جو کچھ بھی ہو ”واجب“ کے مقابلے میں کوئی چیز نہیں ہے، دوسرے لفظوں میں اگرچہ انبیاء علیہم السلام کا علم ودانش اپنے مقام پر بہت زیادہ ہے لیکن جب اس کا قیاس علم پروردگار کے ساتھ کیا جائے گا تو وہ کوئی شمار نہیں ہوگا ۔

حقیقت میں عالمِ واقعی وہ ذات ہے کہ جو ہر جگہ اور ہر وقت حاضر وناظر ہو اور تمام ذرّات عالم کے ایک دوسرے سے وصل وپیوند سے باخبر ہو اور جہان کی تمام خصوصیات سے کہ جو ایک وحدت کی صورت میں ایک دوسرے کے ساتھ ملا ہوا ہے اور یہ صفت صرف خداوندتعالیٰ کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے ۔

ہم نے اب تک جو کچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ آیت پیغمبروں اور اماموں سے ہر قسم کے علمِ غیب کی نفی کی دلیل نہیں ہوسکتی، جیسا کہ بعض لوگوں نے خیال کررکھا ہے کیونکہ علم غیب ذاتی طور پر تو اُسے علم غیب دیا اتنا ہی وہ جانتا ہے، قرآن کی متعدد آیات اس چیز کی گواہ ہیں کہ جن میں سے سورہ جن کی آیت ۲۶ میں ہے:

( عَالِمُ الْغَیْبِ فَلاَیُظْهِرُ عَلَی غَیْبِهِ اٴَحَدًا، إِلاَّ مَنْ ارْتَضَی مِنْ رَسُول )

”خداوند تعالیٰ عالم الغیب ہے اور سوائے ان رسولوں کے کہ جنھیں اس نے برگزیدہ کیا اور کسی کو اپنے علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا“نیز سورہ ہود کی آیت ۴۹ میں ہے:”( تِلْکَ مِنْ اٴَنْبَاءِ الْغَیْبِ نُوحِیهَا إِلَیْک )

”یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم تجھ پر وحی کرتے ہیں “

ان آیات اور ان جیسی آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ علم غیب ذات خدا کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لیکن جس شخص کے لئے وہ جتنا مصلحت سمجھتا ہے اسے تعلیم دیتا ہے اور اس کی کمیت وکیفیت اس کی خواہش اور مشیّت سے مربوط ہے ۔

آیت ۱۱۰

۱۱۰( إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ وَکَهْلًا وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَهَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ )

ترجمہ:

۱۱۰ ۔ وہ وقت یاد کرو جب خدا ن عیسیٰ بن مریم سے کہا کہ اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی ہے جب میں نے روح القدس کے ذریعے تیری تقویت کی کہ تو گہوارے میں اور بڑے ہوکر لوگوں سے گفتگو کرتا تھا، اور جب میں نے تجھے کتاب وحکمت اور توریت وانجیل کی تعلیم دی اور جب کہ تو میرے حکم سے مٹی سے پرندے کی شکل بناتا اور اُس میں پھونکتا تھا اور وہ میرے حکم سے پرندہ بن جاتا تھا اور مادر زاد اندھے اور برص کی بیماری والے کو تو میرے حکم سے شفا دیتا تھا اور مُردوں کو (بھی) تو میرے حکم سے زندہ کرتا تھا اور جب میں نے بنی اسرائیل کو تجھے اذیت وتکلیف پہنچانے سے بازرکھا جب تو ان کے پاس واضح دلائل لے کر آیا تھا لیکن اُن میں سے کافروں کی ایک جماعت نے کہا کہ یہ تو کھلے ہوئے جادو کے سوا کچھ نہیں ۔

تفسیر

۱ ۔ جو کچھ اوپر کہا جاچکا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اعراب کے لحاظ سے ”یوم“ تقوا کا مفعول ہے کہ جو اس کی تقدیر ہے اور پہلی آیت سے ظاہر ہوتا ہے ۔

مسیح(علیه السلام) پر انعاماتِ الٰہی

یہ آیت اور سورہ مائدہ کے آخر تک بعد والی آیات حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کی سرگذشت اور ان انعامات سے مربوط ہیں جو آنجناب(علیه السلام) اور ان کی اُمت کو بخشی گئیں اور وہ یہاں پرمسلمانوں کی بیداری اور آگاہی کے لئے بیان ہوئی ہیں پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے عیسیٰ (علیه السلام) ابن مریم سے فرمایا کہ تم اُس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمھاری والدہ پر کی( إِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اذْکُرْ نِعْمَتِی عَلَیْکَ وَعَلی وَالِدَتِکَ ) ۔

اس تفسیر کے مطابق اوپر والی آیات ایک مستقل بحث شروع کررہی ہیں جو مسلمانوں کے لئے تربیتی پہلو رکھتی ہے اور اس کا اسی دنیا کے ساتھ ربط ہے، لیکن بعض مفسرین مثلاً طبرسی، بیضاوی اور ابوالفتوح رازی نے یہ احتمال دیا ہے کہ یہ آیت پہلی آیت کا ضمیمہ ہے اور اس کا ربط ان سوالات اور باتوں سے ہے جو خداوند تعالیٰ قیامت کے دن پیغمبروں سے کرے گا اور اس بناپر ”قَالَ “ جو فعل ماضی ہے یہاں ”یقول“ یعنی فعل مضارع کے معنی میں ہوگا، لیکن یہ احتمال ظاہرِ آیت کے خلاف ہے، خاص طور پر جبکہ معمول یہ ہے کہ کسی کے لئے نعمتوں کا شمار کرنا اس میں روحِ شکرگزاری زندہ کرنے کی غرض سے ہوتا ہے، جبکہ قیامت میں یہ مسئلہ زیر بحث نہیں آئے گا ۔ اس کے بعد اپنی نعمات کا ذکر شروع کردیا ہے، پہلے کہتا ہے: میں نے تجھے روح القدس کے ذریعے تقویت دی ہے( إِذْ اٴَیَّدتُّکَ بِرُوحِ الْقُدُسِ ) ۔

روح قدس کے معنی کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد اوّل میں تفصیل سے بحث ہوچکی ہے(۱)

خلاصہ یہ کہ ایک احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وحی لانے والا فرشتہ یعنی جبرئیل ہو، اور دوسرا احتمال یہ ہے کہ اس سے مراد وہی غیبی طاقت ہو جو حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کو معجزے دکھانے اور رسالت کے کام سرانجام دینے کے لئے تقویت دیتی تھی اور یہ چیز انبیاء(علیه السلام) کے علاوہ دوسروں میں بھی ضعیف تر درجہ موجود ہوتی ہے ۔ نعمات الٰہی میں سے دوسری نعمت تجھ پر یہ ہے کہ روح القدس کی تائید کے ذریعے تو گہوراے میں اور پختہ کار ہوکر گفتگو کرتا تھا (تُکَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَھْدِ وَکَھْلًا ) ۔ یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ تیری گہوارہ کی باتیں بھی بڑے ہونے کے بعد کی باتوں کی مانند پختہ اور جچی تلی ہوتی تھیں اور وہ بچوں کی طرح بے وزن نہیں ہوتی تھیں ۔

تیسری نعمت یہ کہ میں نے تجھے کتاب وحکمت اور تورات وانجیل کی تعلیم دی( وَإِذْ عَلَّمْتُکَ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِیلَ ) ۔ کتاب کے ذکر کے بعد تورات وانجیل کا تذکرہ ہے جبکہ وہ بھی آسمانی کتابوں میں سے ہیں حقیقت میں اجمال کے بعد تفصیل کی صورت میں ہے ۔

چوتھی نعمت یہ ہے کہ تُو میرے حکم سے پرندے کی شکل کی ایک چیز مٹی سے بناتا تھا اس کے بعد اس میں پھونکتا تھا تو وہ میرے حکم سے ایک زندہ پرندہ ہوجاتی تھی( وَإِذْ تَخْلُقُ مِنْ الطِّینِ کَهَیْئَةِ الطَّیْرِ بِإِذْنِی فَتَنفُخُ فِیهَا فَتَکُونُ طَیْرًا بِإِذْنِی ) ۔

پانچویں نعمت یہ ہے کہ تو میرے اذن سے مادر زاد واندھے اور برص کی بیماری میں مبتلا شخص کو شفا دیتا تھا( وَتُبْرِءُ الْاٴَکْمَهَ وَالْاٴَبْرَصَ بِإِذْنِی ) ۔ اور بالآخر میری نعمتوں میں سے ایک اور نعمت تجھ پر یہ تھی کہ میں نے بنی اسرائیل کو تجھے پہنچانے سے اس وقت باز رکھا جبکہ ان کے کافر تیرے واضح اور روشن دلائل کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے اور انھیں کھلا جادو کہنے لگے، میں نے اس تمام شور وغل اور سخت اور ہٹ دھرم دشمنوں کے مقابلے میں تیری حفاظت کی تاکہ تو اپنی دعوت کو آگے بڑھاسکے( وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَی بِإِذْنِی وَإِذْ کَفَفْتُ بَنِی إِسْرَائِیلَ عَنْکَ إِذْ جِئْتَهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَذَا إِلاَّ سِحْرٌ مُبِینٌ ) ۔

یہاں پر ایک بات خاص طور پر قابل توجہ ہے کہ اس آیت میں چار مرتبہ لفظ ”باذنی“ (میرے حکم سے)دُہرایا گیا ہے تاکہ حضرت عیسیٰ(علیه السلام) کے لئے غلو اور دعائے الوہیت کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے، یعنی جو کچھ وہ انجام دیتے تھے اگرچہ بہت عجیب وغریب اور حیرت انگیز تھا اور خدائی کاموں کے ساتھ شباہت رکھتا تھا لیکن اُن میں سے کام خود عیسی(علیه السلام)ٰ کی طرف سے نہیں تھا کہ بلکہ یہ سب کام خدا کی طرف سے انجام پذیر ہوتے تھے، وہ ایک بندہ خدا تھے اور خداوندتعالیٰ کے تابع فرمان تھے اور ان کے پاس جو کچھ بھی تھا وہ خدائے لایزال کی قدرت سے تھا ۔

ہوسکتا ہے یہ کہا جائے کہ یہ تمام نعمتیں حضرت عیسی(علیه السلام)ٰ کے ساتھ مربوط تھیں تو اس آیت میں ان نعمتوں کو ان کی والدہ جناب مریم(علیه السلام) کے لئے بھی نعمت کیوں شمار کیا گیا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات مسلم ہے کہ جو نعمت بیٹے تک پہنچتی ہے وہ حقیقت میں اس کی ماں کو بھی پہنچتی ہے کیونکہ دونوں ایک اصل سے ہیں اور ایک ہی درخت کی شاخ اور جڑ ہیں ۔

ضمنی طور پر جیسا کہ ہم سورہ آلِ عمران کی آیہ ۴۹ کے ذیل میں بیان کرچکے ہیں یہ آیت اور اسی قسم کی آیات اولیاء خدا کی ولایت تکوینی کے واضح دلائل میں سے ہیں کیونکہ مسیح(علیه السلام) کے قصّے میں مُردوں کو زندہ کرنے، مادر زاد اندھوں اور لاعلاج بیماروں کو شفا دینے کو مسیح(علیه السلام) کی ذات کی طرف منسوب کیا گیا ہے البتہ اذن و فرمانِ خدا کے ساتھ۔

اس تعبیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ بات عین ممکن ہے کہ خداوند تعالیٰ عالم تکوین میں تصرف کرنے کے لیے اس قسم کی قدرت کسی شخص کے اختیار میں دے دے کہ وہ کبھی اس قسم کے اعمال انجام دے لیا کرے اور اس آیت کی تفسیر انبیاء کے دعا کرنے اور خدا کی طرف سے ان کی دعا قبول ہونے کے ساتھ کرنا مکمل طور پر ظواہر آیات کے خلاف ہے ۔ البتہ اولیاء خدا کی ولایت تکوینی سے ہماری مراد اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جسے ہم اُوپر بیان کرچکے ہیں ۔ کیونکہ اس مقدار سے زیادہ کے لیے ہمارے پاس کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔ مزید و ضاحت کے لیے جلد دوم کی طرف رجوع کریں ۔

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ،( اردو ترجمہ) ج۱، ص۳۶۰-