تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30757
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30757 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

شان نزول

مفسّرین اور محدثین مندرجہ بالاآیت کو ان حوادث کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں جن کے نتیجے میں رسول الله کو مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرنا پڑھی، ان حوادث کی مختلف تعبیرات بیان ہوئی ہیں جو سب کی سب ایک ہی حقیقت تک جاپہنچتی ہیں اور وہ یہ کہ خدا نے معجزانہ طور پر پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو ایک ایک عظیم حتمی خطرے کے چنگل سے نجات دی، درّالمنثور میں اس سلسلے میں یہ واقعہ نقل کیا گیا ہے۔

مختلف قبائل سے قریش اور اشراف مکّہ کا ایک گروہ جوع ہوا تاکہ وہ دارالندوة(۱) میں میٹنگ کریں اور انھیں رسول الله کی طرف سے درپیش خطرے پر غور وفکر کریں ۔

(کہتے ہیں ) اثنائے راہ میں انھیں ایک خوش ظاہر بوڑھا شخص ملا جو در اصل شیطان تھا (یا کوئی انسان جو شیطانی روح وفکر کا حامل تھا)۔

انھوں نے اُس سےپوچھا تم کون ہو؟

کہنے لگا: اہلِ نجد کا بڑا بوڑھا ہوں مجھے تمھارے ارادے کی اطلاع ملی تو میں نے چاہا کہ تمھاری میٹنگ میں شرکت کرواور اپنا نظریہ اور خیرخواہی کی رائے پیش کرنے میں دریغ نہ کروں ۔

کہنے لگے: بہت اچھا اندر آجائیے۔

اس طرح وہ بھی دارالندوة میں داخل ہوگیا۔

حاضرین میں سے ایک نے ان کی طرف رُخ کیا اور (پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) کہا: اس شخص کے بارے میں کوئی سوچ بچار کرو، کیونکہ بخدا ڈر ہے کہ وہ تم پر کامیاب ہوجائے گا (اور تمھارے دین اور تمھاری عظمت کو خاک میں ملادے گا)۔

ایک نے تجویز پیش کی: اسے قید کردو یہاں تک کہ زندان میں مَرجائے۔

بوڑھے نجدی نے اس تجویز پر اعتراض کیااور کہا: اس میں خطرہ یہ ہے کہ اس کے طرفدار ٹوٹ پڑیں گے اور کسی مناسب وقت اسے قید خانے سے چھڑاکر اس سرزمین سے باہر لے جائیں گے لہٰذا کوئی زیادہ بنیادی بات کرو۔

ایک اور نے کہا: اسے اپنے شہر سے نکال دو تاکہ تمھیں اس سے چھٹکارا مل جائے کیونکہ وہ تمھارے درمیان سے چلا جائے گا تو پھر جو کچھ بھی کرتا پھرے تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتا اور پھر وہ دوسروں سے ہی سروکار رکھے گا۔

بوڑھے نجدی نے کہا: والله یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے، کہا تم اُس کی شریں بیانی، طلاقتِ لسانی اور لوگوں کے دلوں میں اس کا نفوذ کرجانا نہیں دیکھتے؟ اگر ایسا کروگے تو وہ تمام دنیائے عرب کے پاس جائے گا اور وہ اس کے گرد جمع ہوجائیں گے اور وہ پھر وہ ایک انبوہِ کثیر کے ساتھ تمھاری پلٹے گا اور تمھیں تمھارے شہروں سے نکال باہر کرے گا اور بڑوں کو قتل کردے گا۔

مجمع نے کہا: بخدا! یہ سچ کہہ رہا ہے کوئی اور تجویز پیش سوچو۔

ابوجہل ابھی تک خاموش بیٹھا تھا، اُس نے گفتگو شروع کی اور کہا: میرا ایک نظریہ ہے اور اُس کے علاوہ کسی رائے کو صحیح نہیں سمجھتا۔

حاضرین کہنے لگے: وہ کیا ہے؟

کہنے لگا: ہم ہر قبیلے سے ایک بہادر شمشیر زن کا انتخاب کریں اور ان میں سے ہر ایک ہاتھ میں ایک کاٹ دینے والی تلوار دے دیں اور پھر وہ سب مل کر موقع پاتے ہی اُس پر حملہ کریں ۔ جب وہ اس صورت میں قتل ہوگا تو اس کا خون تمام قبائل میں بٹ جائے گا اور میں نہیں سمجھتا کہ بنی ہاشم تمام قبائل سے لڑسکیں گے لہٰذا مجبوراً اس صورت میں خون بہا پر راضی ہوجائیں گے اور یوں ہم بھی اس کے آزار سے نجات پاجالیں گے۔

بوڑھے نجدی نے (خوش ہوکر) کہا: بخدا! صحیح رائے یہی ہے جو اس جواں مرد نے پیش کی ہے میرا بھی اس کے علاوہ کوئی نظریہ نہیں ۔

اس طرح یہتجویز پراتفاق رائے سے پاس ہوگئی اور وہ یہی مصمم ارادہ لے کر وہاں سے اٹھ گئے۔

جبرئیل نازل ہوئے اور پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم ملا کہ وہ رات کو اپنے بستر پر نہ سوئیں ، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم رات کو غار ثور(۲) کی طرف روانہ ہوگئے اور حمک دے دے گئے کہ علی(علیه السلام) آپ کے بستر پر سوجائیں (تاکہ جو لوگ دروازے کی دراز سے بستر پیغمبر پر نظر رکھے ہوئے ہیں انھیں بستر پر سویا ہوا سمجھیں اور آپ کو خطرے کے علاقہ سے دور نکل جانے کی مہلت جائے)۔

جب صبح ہوئی گھر میں گھس آئے۔ انھوں نے جستجو کی تو حضرت علی(علیه السلام) کو بستر پیغمبر پر دیکھا) اس طرح سے خدا نے ان کی سازش کو نقش بر آب کردیا۔

وہ پکارے: محمد کہاں ہے؟

آپ نے جواب دیا: میں نہیں جانتا۔

وہ آپ کے پاوں کے نشانوں پر چل پڑے یہاں تک کہ پہاڑ (اوراس کی غار) کے پاس پہنچ گئے لیکن (انھوں نے تعجب سے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے سامنے جالا تن رکھا ہے۔ ایک نے دوسرے سے کہا کہ اگر وہ اس غار میں ہوتا تو غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا نہ ہوتا۔ اس طرح وہ واپس چلے گئے) پیغمبر تین دن تک غار کے اندر رہے (اور جب دشمن مکہ کے تمام بیابانوں میں آپ کو تلاش کرچکے اور تھک ہاکر مایوس پلٹ گئے تو آپ مدینہ کی طرف چل پڑے(۳)

____________________

۱۔ اشرافِ مکہ کی مشاورتی میٹنگیں اس مقام پر منعقد ہوا کرتی تھیں ۔

۲۔ مکہ کے قریب ایک غار کا نام ہے۔

۳۔ المنار ومجمع البیان، زیر نظر آیت کے ذیل میں بحوالہ درّ المنثور-

بیہودہ باتیں کرنے والے

گذشتہ آیت میں بیہودہ مشرکین کی عملی منطق کا ایک نمونہ بیان کیا گیا ہے۔ اب زیر نظر آیات میں ان کی فکری منطق کا ایک نمونہ پیش کیا گیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ نہ وہ سلامت فکری رکھتے ہیں نہ درست روی بلکہ ان کے تمام پروگرام بے بنیاد اور احمقانہ ہیں ۔

پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے: جب ہماری آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہم نے سن لیا ہے (لیکن کوئی اہم بات نہیں ہے) ہم چاہیں تو ہم بھی کہہ سکتے ہیں( وَإِذَا تُتْلَی عَلَیْهِمْ آیَاتُنَا قَالُوا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَاءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَا ) ۔

ان میں کوئی خاص بات نہیں بس گذشتہ لوگوں کے افسانے ہیں( إِنْ هٰذَا إِلاَّ اٴَسَاطِیرُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔

یہ باتیں وہ اس حالت میں کررہے ہیں کہ جب قرآن کے مقابلے کی بارہا فکر کرچکے ہیں اور اس سے عاجز رہ گئے ہیں ۔ وہ اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ ان میں قرآن کے مقابلے کی طاقت اور سکت نہیں ہے لیکن تعصب اور کینہ پروری کی وجہ سے یا ان لوگوں کو غفلت میں رکھنے کے لئے کہتے ہیں کہ یہ آیات کوئی اہم نہیں ہیں ، ایسی آیات توہم بھی لاسکتے ہیں لیکن لاکبھی نہیں سکتے، یہ ان کی غلط منطق تھی۔ تاریخ کے جابر لوگوں کی طرح خالی اور بں بنیاد دعووں کے ذریعے ان کی کوشش تھی کہ ان کے اقتدار کے محل چند تک قائم رہیں ہیں ۔

اگلی آیت میں ان کی ایک اور عجیب مطنق بیان کی گئی ہے، فرمایا گیا ہے: وہ وقت (یاد کرو) جب (وہ دستِ دعا بلند کرتے تھے اور) کہتے تھے خداوندا! اگر یہ (دین اور قران) حق ہے اور تیری طرف سے ہے تو آسمان سے ہمارے سروں پر پتھر برسا( وَإِذْ قَالُوا اللهُمَّ إِنْ کَانَ هٰذَا هُوَ الْحَقَّ مِنْ عِنْدِکَ فَاٴَمْطِرْ عَلَیْنَا حِجَارَةً مِنَ السَّمَاءِ ) ۔ یا ہمیں کسی دردناک عذاب میں مبتلا کردے( اٴَوْ ائْتِنَا بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ ) ۔

یہ بات وہ اس لئے کہتے تھے کہ شدید تعصب اور ہٹ دھرمی کی بناء پر ان کا خیال تھا کہ دین اسلام سو فیصد بے بنیاد ہے ورنہ جس شخص کواس کی حقانیت کا احتمال بھی ہو وہ خود پر اس طرح کی پھٹکار نہیں بھیجتا۔ یہ احتمال بھی ہے کہ شاید مشرکین کے سرکردہ افراد لوگوں کوغفلت میں رکھنے کے لئے کبھی کبھی ایسی باتیں کرتے تھے تاکہ سادہ لوح افراد سمجھیں کہ محمد کا دین بالکل باطل ہے حالانکہ دل سے وہ ایسا نہیں کہتے تھے۔

گویا مشرکین چاہتے تھے کہ یہ کہیں کہ تم گذشتہ انبیاء کے بارے میں کہتے ہو کہ خدا ان کے دشمنوں کو بعض اوقات پتھروں کی بارش برساکر سزا دیتا تھا (جیسے حضرت لوط(علیه السلام) کی قوم کے ساتھ ہوا) تم اگر سچ کہتے ہو تو ایسا کردکھاو۔

مجمع البیان میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

رسول الله، غدیر خم میں جب حضرت علی علیہ السلام کو خلافت کے لئے معیّن اور منصوب کرچکے اور فرمایا:

”من کنت مولاه فعلیّ مولاه “جس کسی کا میں مولا ہوں پس اس کا علی بھی مولا ہیں ۔

آپ کا یہ فرمان ہر طرف پھیل گیا۔ ( منافقین میں سے ایک شخص)نعمان بن حارث فہری (تھا، وہ ) پیغمبر اسلام کی خدمت میں آیا اور کہنے لگا: ہم سے آپ نے کہا کہ ہم توحید کو قبول کریں اور بتوں کی نفی کی شہادت دیں اور آپ کی رسالت کی گواہی دیں اور آپ نے ہمیں جہاں ، حج، روزہ اور زکات کا حکم دیا، ہم نے ان سب کوقبول کرلیا لیکن آپ نے اس پر بس نہ کی اور اس لڑکے (حضرت علی بن ابی طالب) کو خلیفہ بناکر آپ نے کہا ہے کہ”من کنت مولاہ فعلیّ مولاہ“ یہ بات آپ کی طرف سے ہے یا خدا کی طرف سے حکم ہے؟

پیغمبر خدا نے فرمایا: اس خدا کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں یہ خدا کی طرف سے حکم ہے۔

یہ سُن کر نعمان یہ کہتے ہوئے پلٹا:”اللّٰهمّ ان کان هذا هو الحق من عندک فاطر علینا حجارة من السماء

خداوندا! اگر یہ بات تیری طرف سے ہے تو آسمان ہم پر پتھروں کی بارس برسا۔

تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ اس پر ایک پھ۔تھر گرا کہ جس سے وہ مرگیا۔(۱)

یہ حدیث اس بات کے منافی نہیں کہ یہ آیت واقعہ غدیر سے پہلے نازل ہوئی ہو کیونکہ اس آیت کی شان نزول نعمان کا واقعہ نہیں تھا بلکہ نعمان نے اپنے اوپر پھٹکار کے لئے وہ آیت استعمال کی جو پہلے نازل ہوچکی تھی، جیسے ہم قرآن سے استفادہ کرتے ہوئے کہتے ہیں :”( ربّنا آتنا فی الدنیا حسنة وفی الآخرة حسنة )

(انشاء الله العظیم مندرجہ بالا حدیث کی مزید تشریح اور کتب اہل سنّت سے اس سلسلے میں بہت سے مدارک کا ذکر سورہ معارج کی ابتداء میں ”( سَئَلَ سَائِلٌ بِعَذَابٍ وَاقِعٍ ) “ کے ذیل میں آئے گا۔

گذشتہ آیات کے سلسلے میں مخالفین نے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم پر دو اعتراضات کئے، ان میں سے ایک کا بطلان تو واضح تھا لہٰذا قرآن نےاس کا جواب نہیں دیا اور وہ یہ تھا کہ انھوں نے کہا: اگر ہم چاہیں تو قرآن کی مثل لاسکتے ہیں ، کہ یہ دعویٰ کھوکھلا اور جھوتا تھا اور اگر ان میں سکت ہوتی تو لائے ہوتے لہٰذا اس بات کے جواب کی ضرورت نہ تھی۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اگر یہ آیات حق ہیں اور خدا کی طرف ہیں تو پھر وہ ہمیں سزا دے اور ہم پر کوئی عذاب نہیں کرے گا جب تک تو ان میں موجود ہے( وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاٴَنْتَ فِیهِمْ ) ۔در حقیقت تیرا پر برکت وجود۔کہ تو رحمتہ للعالمین ہے ۔ اس سے مانع ہے کہ ان گنہ گاروں پر عذاب نازل ہو اور یہ گذشتہ اقوام کی طرح نابود ہو جائیں کہ جو مختلف ذرائع سے اجتماعی یا انفرادی طور پر نابود ہوجاتے تھے۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے:اسی طرح اگر وہ استغفار کیں (اور اس سے عفو و بخشش کا تقاضا کریں )تو خدا انھیں سزا نہیں دے گا( وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُون ) ۔

اس جملے کی تفسیر میں مفسریں نے کئی ایک احتمالات پیش کیے ہیں ۔بعض نے کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ بعض مشرکین قبل کی آیت میں مذکور جملہ کہنے کے بعد اپنے کہے پر پشیمان ہوئے اور عرض کیا ؛”غفرانک ربنا

خدایا !ہمیں اگفتگو پر بخش دے۔

اسی سبب سے---حتی کہ پیغمبر خدا کے مکہ سے خروج کے بعد بھی وہ بلا و فنا میں گرفتار نہیں ہوئے۔

بعض کا خیال ہے کہ یہ جملہ مکہ میں باقی رہ جانے والے مومنین کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ہجرت پیغمبر پیغمبر کے بعد مکہ پر عذابنازل نہ ہوا۔

یہ احتمال بھی ہے یہ جملہ ایک شرطیہ جملے کامفہوم رکھتاہو یعنی اگر وہ اپنے کردار پرپشیماں ہوں اور خداوندی کا رخ کریں اور استغفار کریں تو ان سے عذاباور سزا برطرف ہوجائے گا۔

ان تمام امور کے باوجود آیت کی تفسیر میں یہ تمام احتمالات مجموعی طور پر بعید نہیں ہیں یعنی ممکن ہے آیت ان تمام چیزوں کی طرف اشارہ کررہی ہو۔

بہرحال آیت کا مفہوم زمانہ پیغمبرکے ساتھ مخصوص ہے بلکہ تمام لوگوں کے لئے یہ ایک کلی قانون ہو۔

اسی لئے شیعہ کتب میں حضرت علی علیہ السلام سے اور سنّ کتب میں ان کے شاگرد ابن عباس سے ایک مشہور حدیث میں ہے:کان فی الارض امانان من عذاب الله وقد وقع احدهما فدونکم الآخر فتمسکووا به وقرء هذه الآیة -

روئے زمین میں عذابِ الٰہی سے مامون رہنے کے دوذریعے تھے کہ جن میں سے ایک (وجودِ پیغمبر) اٹھا لیا گیا ہے، اب دوسرے (استغفار) سے تمسک رکھو، پھر آپ نے یہ آیت کی تلاوت کی۔(۲)

مندرجہ بالا آیت اور اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ سخت بلاوں اور مصیبت سے امان حاصل کرنے کے لئے لوگوں کے پاس وجودِ پیغمبر ایک موثر ذریعہ ہے اور اس کے بعد استغفار، توبہ اور درگاہِ حق کی طرف رُخ کرنا دوسرا عامل ہے۔

اب دوسرا عامل بھی اٹھ جائے تو دردناک عذاب اور سزائیں طبیعی حوادث کی صورت می ہوتی ہیں ، یا گھروں کو تباہ وویران کردینے والی جنگوں کی شکل میں یا کسی اور صورت میں ، جیسا کہ ہم اب تک ان کی مختلف قسمیں دیکھ چکے ہیں یا سُن چکے ہیں ۔

دعائے کمیل جو حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ، میں ہے:اللّٰهمّ اغفر لی الذنوب الّتی تنزل البلاء -

خدایا! ہمارے وہ گناہ بخش دے جو نزولِ بلا کا سبب بنتے ہیں ۔

یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ اگر استغفار نہ ہو تو بہت گناہ ایسے ہیں جونزولِ بلا کا سرچشمہ بن جائیں ۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ استغفار سے مراد یہ نہیں کہ یہ کہا جائے:

خدایا! ہمیں بخش دےاللّٰهمّ اغفر لی -

ایسے جملوں کا تکرار استغفار کی روح ہے کہ انسان کی طرف سے لوٹ آئے اور اپنے گذشتہ گناہوں کی تلافی کے لئے آمادگی کا اظہار کرے۔

اگلی آیت میں قرآن کہتاہے: یہ عذابِ الٰہی کا استحقاق رکھتے ہیں تو پھر، ”خدا انھیں کیوں عذاب نہ کرے حالانکہ وہ مومنین کےلئے مسجد الحرام میں جانے سے رکاوٹ بنتے ہیں( وَمَا لَهُمْ اٴَلاَّ یُعَذِّبَهُمْ اللهُ وَهُمْ یَصُدُّونَ عَنْ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ) ۔

اس زمانے کی طرف اشارہ ہے کہ جب مسلمان مکہ میں تھے اور مشرکین انھیں حق نہیں دیتے کہ وہ آزادانہ خانہ خداکے پاس نماز جماعت قائم کرسکیں اور مسلمانوں کی طرح طرح کی مزاحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا یا پھر یہ ان رکاوٹوں کی طرف اشارہ ہے جو ان کی طرف سے مومنین کو حج وعمرہ کے مراسم کی ادائیگی میں حائل تھیں ۔

تعجب کی بات ہے کہ برائیوں میں آلودہ مشرکین اپنے آپ کو اس عظیم مرکزِ عبادت کا سرپرست سمجھتے تھے لیکن قرآن مزید کہتا ہے: یہ کبھی بھی اس مقدس مرکز کے سرپرست نہیں تھے( وَمَا کَانُوا اٴَوْلِیَائَهُ ) ۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو خانہ خدا کامتولی اور صاحبِ اختیار فرض کرتے تھے ”صرف وہی لوگ اس کی سرپرستی کا حق رکھتے ہیں جو موحّد اور پرہیزگارہیں “( إِنْ اٴَوْلِیَاؤُهُ إِلاَّ الْمُتَّقُونَ ) ۔ لیکن ان میں سے اکثر واقعیت اور حقیقت سے بے خبر ہیں( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لَایَعْلَمُونَ ) ۔

اگرچہ یہ مسجدالحرام کے بارے میں بیان کیا گیاہے لیکن در حقیقت تمام مراکز دینی، دینی مساجد اور مذہب اداروں پر محیط ہے، ان کے متولی اور سرپرست پاکیزہ ترین، پرہیزگار اور نہایت فعّال افراد ہونے چاہئیں تاکہ وہ انھیں تعلیم وتربیت اور بیداری وآگاہی کے پاک اور زندہ مراکز بنائیں نہ کہ ایسے مٹھی بھر جانبدار، خودفروش اور الود ہ افراد ہوں جوانھیں تجارتی اڈّہ اور افکار کی خرابی اور حق سے بے گانگی کے مرکز میں تبدیل کردیں ۔

ہمارا نظریہ ہے کہ اگر مسلمان مساجد اور مذہبی مراکز کے بارے میں اسی اسلامی حکم پر عمل کرتے تو آج مسلم معاشروں کی کوئی اور ہی شکل ہوتی۔

زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ مدعی تھے کہ ان کی بھی نماز وعبادت ہے۔ وہ خانہ خدا کے گرد سیٹیاں اور تالیاں بجانے کا احمقانہ کام کرتے تھے اور اسے نماز کا نام دیتے تھے لہٰذا قرآن مزیدکہتا ہے: ان کی نماز خانہ خدا کعبہ کے گرد سیٹیاں اور تالیاں کے سوا اور کچھ نہ تھی( وَمَا کَانَ صَلَاتُهُمْ عِنْدَ الْبَیْتِ إِلاَّ مُکَاءً وَتَصْدِیَةً ) ۔

تاریخ میں ہے کہ زمانہ جاہلیت میں کچھ ایسے عربی بدو تھے جو طواف کے وقت مادر زاد ننگے ہوجاتے تھے اور سیٹیاں بجاتے، تالیاں پیٹنے اور اسے عبادت کا نام دیتے تھے۔

نیز منقول ہے کہ جب پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم حجر اسودکے پاس شمال کی طرف منھ کرکے کھڑے ہوتے (تاکہ آپ کا رُخ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی طرف ہوجائے) اور نماز ادا فرماتے تو بنی سہم کے دو شخص آنحضرت کے دائی بائیں کھڑے ہوجاتے، ایک چیختا چنگھاڑتا اور دوسرا تالیاں پیٹتا تاکہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی نماز خراب ہوجائے۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: اب جبکہ تمھارے تمام کام یہاں تک کہ تمھاری نماز وعبادت ایسی احمقانہ، بُری اور شرمناک ہے تو تم سزا کے مستحق ہو ”پس اپنے اس کفر کی وجہ سے عذاب الٰہی کو چکھو“( فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنتُمْ تَکْفُرُونَ ) ۔

جس وقت انسان عربوں کی زمانہ جاہلیت کی تاریخ کی ورق گردانی کرتا ہے اور اس کے ان حصّوں کا مطالعہ کرتا ہے جس کا قرآن میں ذکر ہے تو بڑے تعجب سے دیکھتا ہے کہ ہمارے زمانے میں جو اصطلاحاً فضا اور ایٹم کا بھی زمانہ ہے، کئی ایسے لوگ ہیں جو زمانہ جاہلیت کے اعمال دُہراتے ہیں اور پھر اپنے آپ کو عبادت کرنے والوں کی صف میں خیال کرتے ہیں ، قرانی آیات اور بعض اوقات وہ اشعار جو پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور حضرت علی علیہ السلام کی مدح میں ہیں کو موسیقی کی دُھنوں میں ملاکر رقص کی طرح اپنا سر، گردن اور ہاتھ ہلاتے ہیں ، پھر اسے ان مقدسات کی خدمت میں خراج عقیدت قرار دیتے، یہ اعمال کبھی وجدوسماع کے نام پر، کبھی ذکر وحال کے نام پر اور کبھی دوسرے ناموں پر خانقاہوں اور دیگر مقامات پر انجام پاتے ہیں ، حالانکہ اسلام ان باتوں سے بیزار ہے اور یہ اعمال زمانہء جاہلیت کے اعمال ہی کا نمونہ ہیں ۔

یہاں پر ایک سوال باقی رہ جاتا ہے اور وہ یہ کہ زیر بحث آیت میں ان سے سزا اور عذاب کی (دوشرائط کے ساتھ) نفی کی گئی ہے جب کہ چوتھی آیت میں ان کے لئے عذاب کا ذکر ہے تو کیا یہدونوں آیات آپس میں تضاد نہیں رکھتی ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ تیسری آیت میں دنیاوی سزاوں کی طرف اشارہ ہے اور چوتھی آیت میں ممکن ہے دوسرے جہان کی سزا کی طرف اشارہ ہو اور یا اس طرف اشارہ ہو کہ یہ گروہ اس دنیا میں سزا کا استحقاق رکھتا ہے اور اس کاسبب ان کے لئے فراہم ہے اور اگر پیغمبر ان کے درمیان سے اٹھ جائیں اور یہ توبہ بھی نہ کریں تو وہ عذاب انھیں دامنگیر ہوگا۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۵۱-

۲۔ نج البلاغہ، کلمات قصار-

آیات ۳۶،۳۷

۳۶-( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ فَسَیُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ثُمَّ یُغْلَبُونَ وَالَّذِینَ کَفَرُوا إِلیٰ جَهَنَّمَ یُحْشَرُونَ )

۳۷-( لِیَمِیزَ اللهُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَهُ عَلیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَهُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَهُ فِی جَهَنَّمَ اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْخَاسِرُونَ )

ترجمہ

۳۷ ۔ جو کافر ہوگئے ہیں وہ اپنے اموال لوگوں کو راہِ خدا سے روکنے کے لئے خرچ کرتے ہیں ، وہ ان اموال کو (جنھیں حاصل کرنے کے لئے زحمت اٹھاتے ہیں اس راہ میں ) خرچ کرتے ہیں لیکن یہ ان کے لئے حسرت واندوہ کا سبب ہوگا اور پھر وہ شکست کھاجائیں گے اور (دوسرے جہان میں یہ) کافر سب کے سب جہنم کی طرف جائیں گے۔

۳۷ ۔ (یہ سب کچھ) اس لئے ہے کہ خدا (چاہتا ہے کہ) ناپاک کو پاک سے جدا کردے اور ناپاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر متراکم کردے اور دوزخ میں ایک ہی جگہ قرار دے اور یہ ہیں زیاں کار۔

شان نزول

تفسیر علی بن ابراہیم اور بہت سی دوسری تفاسیر میں ہے کہ مندرجہ بالا آیت جنگ بدر کے لئے مکہ کے لوگوں کی مالی امداد کرنے کے بارے میں نازل ہوئی ہے کیونکہ جب مشرکین مکہ ابوسفیان کے قاصد کے ذریعے واقعہ سے آگاہ ہوئے تو انھوں نے بہت سا مال واسباب اکھٹا کیا تاکہ اپنے جنگی سپاہیوں کی مددکریں لیکن اخر کار وہ شکست کھاگئے اور مارے گئے اور جہنم کی آگ کی طرف چلے گئے اور اس راہ میں انھوں نے جو کچھ صرف کیا تھا ان کی حسرت واندوہ کا سبب بنا۔

پہلی آیت میں ان کی باقی امداد کی طرف اشارہ ہے جو انھوں نے اسلام کے خلاف مقابلوں میں کی تھی اور اس مسئلے کو ایک عمومی صورت میں بیان کیا گیا ہے۔

بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ آیت ابوسفیان کی جنگ بدر میں دو ہزار کرائے کے سپاہیوں کی مدد کے بارے میں نازل ہوئی لیکن چونکہ یہ آیات جنگ بدر سے مربوط آیات کے ساتھ آئیں ہیں اس لئے شانِ نزول زیادہ صحیح معلوم ہوتی ہے۔

تفسیر

آیت کی شانِ نزول میں جو کچھ بھی ہو اس کا مفہوم جامع ہے اور یہ دشمنانِ حق وعدالت کی ان تمام مالی امدادوں کے بارے میں ہے جو وہ اپنے بُرے مقاصد کی پیش رفت کے لئے کرتے تھے، پہلے کہا گیا ہے : کافر اور دشمنِ حق اپنا مال خرچ کرتے ہیں تاکہ لوگوں کو راہِ حق سے روکیں( إِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا یُنْفِقُونَ اٴَمْوَالَهُمْ لِیَصُدُّوا عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔ لیکن اموال کا یہ صرف کرنا ان کی کامیابی کا باعث نہیں بن سکتا ”عنقریب وہ یہ اموال خرچ کریں گے لیکن انجام کار وہ ان کی حسرت واندوہ کا سبب ہوگا“( فَسَیُنفِقُونَهَا ثُمَّ تَکُونُ عَلَیْهِمْ حَسْرَةً ) ۔ اور پھر وہ اہلِ حق کے ہاتھوں مغلوب ہوں گے( ثُمَّ یُغْلَبُونَ ) ۔

یہ لوگ نہ صرف اس جہان میں حسرت وشکست میں گرفتار ہوں گے بلکہ دوسرے جہان میں یہ کافر اکھٹے ہوکر جہنم میں جائیں گے( وَالَّذِینَ کَفَرُوا إِلیٰ جَهَنَّمَ یُحْشَرُون ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شکست کھانے سے پہلی بھی اپنے کام کی بیہودگی کی طرف متوجہ ہوگئے تھے اور چونکہ انھوں نے جواموال خرچ کئے ہیں ان کہ انھیں کافی ووافی نتیجہ میسّر نہیں آیا لہٰذا رنج واندوہ میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور یہ ان کی ایک دنیاوی سزا ہے۔

ان کی دوسری سزا ان کے منصوبوں کی شکست ہے کیونکہ کرائے کے فوجی اور مال ودولت کے عشق میں جنگ لڑنے والے مقدس ہدف کی خاطر لڑنے والے صاحبانِ ایمان کے مقابلے میں نہیں ٹھہر سکتے۔

دورِ حاضر میں کے حوادث نے بھی بارہا یہ بات ثابت کی ہے کہ طاقتور حکومتیں جو اپنے فوجیوں کو دولت اور ثروت کا لالچ دے کر اور جنسی خواہشات کی تشویق کے ذریعے چھوٹی سی قوموں کے مقابلے میں جوایمان کی بناء پر جنگ کرتی ہیں ، ذلّت ورسوائی سے مغلوب ہوجاتی ہیں ۔

ان دودنیاوی سزاؤں کے علاوہ انھیں ایک تیسری سزا کا سامنا بھی کرنا پڑے گا، یہ سزا دوسرے جہان میں ہوگی اور وہ غضب الٰہی کے جہنم میں گرفتار ہوں گے۔

۲ ۔ جو کچھ مندرجہ بالا آیت میں ایا ہے ہماری آج کی دنیا میں بھی اس کے بہت سے نمونے ہیں ۔ شیطانی سامراجی قوتیں ، ظلم وفساد کے طرفدار اور بے پردہ وباطل مذاہب کے حامی اپنے اہداف کی پیش رفت اور انسانوں کو راِہ حق سے روکنے کی خاطر مختلف صورتوں میں بہت زیادہ سرمایہ صرف کرتے ہیں ۔

کبھی کرائے کے فوجیوں کی صورت میں ، کبھی ظاہراً انسانی امداد کی شکل میں ہسپتالوں اور اسکولوں کی تعمیر کی صورت میں ، کبھی ثقافتی امداد کے حوالے سے لیکن اصلی مقصد سب کا ایک ہے اور وہ ہے استعمار اور ظلم وستم کی وسعت اور سچّے مومن مجاہدین جنگ بدر کی طرح منظم اور پُرعزم طور پر صف بندی کرلیں تو وہ ان تمام سازشوں کو نقش بر آب کرسکتے ہیں اور ان سرمایوں کی حسرت سے ان کے دلوں کو بھرسکتے ہیں اور آخرکار انھیں دوزخ میں بھیج سکتے ہیں ۔

۳ ۔ بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ یہ دعوتِ پیغمبر کی صداقت کی نشانی ہے کیونکہ اس میں آنے والے واقعات کی خبر دی گئی ہے اِس میں دشمنانِ اسلام کی شکست کی خبر ہے جبکہ انھوں نے کامیابی کے لئے بہت مال ودولت صرف کیا تھا۔

لیکن اگرہم آیت کو آئندہ کے واقعات سے مربوط غیبی خبر نہ سمجھیں تب بھی کم از کم حق وباطل کے بارے میں قرآن نے ایک دقیق اور حساب شدہ مفہوم پیش کیا ہے جو قرآن اور تعلیماتِ اسلام کی عظمت کو واضح کرتا ہے۔

گذشتہ آیت میں دشمنانِ حق کے مالی مصارف کے تین بُرے نتائج کئے گئے ہیں ، اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا گیا ہے: یہ حسرت، شکست اور بدبختی اس بناپر ہے کہ خدا چاہتا ہے کہ ناپاک کو پاک سے اس جہان میں اور دوسرے جہان میں الگ الگ کردے( لِیَمِیزَ اللهُ الْخَبِیثَ مِنَ الطَّیِّبِ ) ۔

یہ ایک سنّت الٰہی ہے کہ ہمیشہ پاک اور نجس، مخلص اور ریاکار اور جھوٹے مجاہد، خدائی کام اور شیطانی کام، انسانی پروگرام اور ضد انسانیت پروگرام واضح ہوئے بغیر نہیں رہتے آخر پہچانے جاتے ہیں اور جلوہ حق نمایاں ہوکے رہتا ہے البتہ یہ اس صورت میں ہے کہ حق کے طرفدار جنگ بدر کے مسلمانوں کی کافی آگاہی اور جذبہ فداکاری سے شرمسار ہوں ۔

مزید ارشاد ہوتا ہے: خدا اپاک چیزوں کو ایک دوسرے کا ضمیمہ قرار دیتاہے اور سب کو ڈھیر بنادیتا ہے اور جہنم میں قرار دیتا ہے( وَیَجْعَلَ الْخَبِیثَ بَعْضَهُ عَلیٰ بَعْضٍ فَیَرْکُمَهُ جَمِیعًا فَیَجْعَلَهُ فِی جَهَنَّمَ ) ۔

خبیث اور ناپاک جس گروہ سے ہوں اور جس شکل اور لباس میں ہوں اخرکار ایک ہی شکل میں ڈھل جائےں گے اور ان سب کا انجام زیاں کاری ہی ہوگا جیساکہ قرآن کہتا ہے کہ وہ خسارے میں ہیں اور زیاں کار ہیں( اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْخَاسِرُونَ ) ۔

آیات ۳۸،۳۹،۴۰

۳۸-( قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ یَنتَهُوا یُغْفَرْ لَهُمْ مَا قَدْ سَلَفَ وَإِنْ یَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ )

۳۹-( وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لَاتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ فَإِنْ انتَهَوْا فَإِنَّ اللهَ بِمَا یَعْمَلُونَ بَصِیرٌ )

۴۰-( وَإِنْ تَوَلَّوْا فَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ مَوْلَاکُمْ نِعْمَ الْمَوْلَی وَنِعْمَ النَّصِیرُ )

ترجمہ

۳۸ ۔ وہ لوگ کافر ہوگئے ہیں انھیں کہہ دو کہ اگر وہ مخالفت سے باز آجائیں (اور ایمان لے آئیں ) تو ان کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے اور وہ سابقہ اعمال کی طرف پلٹ جائیں تو گذشتہ والی خدا کی سنّت ان کے بارے میں جاری ہوگی۔

۳۹ ۔ اور ان کے ساتھ جگ کرو تاکہ (شرک اور سلبِ آزادی کا) فتنہ ختم ہوجائے اور دین (اور عبادت) سب خدا کے ساتھ مخصوص ہوجائے اور وہ (شرک اور فساد کی راہ سے لوٹ آئیں اور غلط اعمال سے) اجتناب کریں تو (خدا انھیں قبول کرے گا) جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں خدا اُسے دیکھنے والا ہے۔

۴۰ ۔ اور اگر وہ روگردانی کریں تو جان لوکہ (وہ تمھیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتے کیونکہ) خدا تمھار سرپرست ہے وہ بہترین سرپرست اور بہترین مددگار ہے۔

تفسیر

ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی روش ہے کہ وہ بشارت اور انذار کو اکھٹا کردیتا ہے یعنی جیسے دشمنانِ حق کو سخت اور دردناک عذاب کی تہدید کرتا ہے اسی رح لوٹ آنے کا راستہ بھی ان کے لئے کُھلا رکھتا ہے۔

محل بحث آیات میں سے پہلی آیت بھی قرآن کے اسی طریقے کے مطابق ہے۔ اس میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو حکم دیا گیا ہے کہ: جو لوگ کافر ہوگئے ہیں ان سے کہہ دو کہ اگر وہ مخالفت، ہٹ دھرمی اور سرکشی سے باز رہیں اور دینِ حق کی طرف پلٹ آئیں تو ان کے گذشتہ گناہ بخش دیئے جائیں گے (قُلْ لِلَّذِینَ کَفَرُوا إِنْ یَنتَھُوا یُغْفَرْ لَھُمْ مَا قَدْ سَلَفَ)۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام قبول کرنے لینے سے گذشتہ دور میں جو کچھ بھی ہوا ہو اُسے بخش دیا جاتا ہے اور یہ بات اسلامی روایات میں ایک عمومی قانون کے طور پر بیان کی گئی ہے جیسے کہا گیا ہے:

”اٴَلاِسْلَام یَجُبُّ مَا قَبْلَهُ“ -اسلام اپنے ماقبل کو چھپا دیتاہے۔

اسی طرح اہلِ سنّت کے طرق سے پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے منقول ہے:

انّ السلام یهدم ماکان قبله، وانّ الهجرة تهدم ماکان قبلها وانّ الحج یهدم ما کان قبله “-

اسلام سے پہلے جو کچھ ہوا اسلام اُسے ختم کردیتا ہے اور ہجرت اپنے ماقبل کو مٹادیتی ہے اور اسی طرح خانہ خدا کا حج بھی اپنے ماقبل کو محو کردیتا ہے۔(۱)

مراد یہ ہے کہ اسلام سے پہلے کے غلط اعمال وافعال یہاں تک کہ فرائض وواجبات کا ترک کرنا اسلام قبول کرلینے کی وجہ سے ختم ہوجاتا ہے اور اس قانون کا عطف اور ربط گذشتہ سے نہیں ہے۔ اسی لئے کتبِ فقہِ اسلامی میں ہے کہ مسلمان ہونے والے شخص کے لئے گذشتہ عبادات کی قضا تک ضروری نہیں ہے۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : لیکن اگر وہ اپنی غلط روش سے باز نہ آئیں ”اور اگر وہ سابقہ اعمال کی پلٹ جائیں تو جو خدائی سنّت گذشتہ لوگوں کے لئے رہی ہے ان کے لئے بھی انجام پائے گی“( وَإِنْ یَعُودُوا فَقَدْ مَضَتْ سُنَّةُ الْاٴَوَّلِینَ ) ۔ اور اس سنّت سے مراد وہی انجام ہے جس سے دشمنانِ حق انبیاء کے مقابلے میں اور خود مشرکینِ مکّہ تک جنگ بدر میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے مقابلے میں دوچار ہوئے ہیں ۔

سورہ غافر کی آیت ۵۱ میں ہے:( إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُومُ الْاٴَشْهَادُ )

ہم اپنے رسولوں کی اور مومنین کی دنیاوی زندگی اور روزِ قیامت کہ جس میں گواہ کھڑے ہوں گے، مدد کریں گے۔

اسی طرح سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۷۷ میں ہے:( وَلَاتَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیلًا )

یہ ہماری سنت گذشتہ پیغمبروں کے بارے میں ہے اور یہ سنت کبھی تبدیل نہیں ہوگی۔

گذشتہ آیت میں چونکہ دشمنوں کو حق کی طرف پلٹ آنے کی دعوت دی جاچکی ہے اور ممکن تھا کہ یہ عوت مسلمانوں میں یہ فکر پیدا کردیتی کہ اب جہاد کا دور ختم ہوگیا ہے اور انعطاف اور نرمی کے علاوہ کوئی راستہ نہیں لہٰذا اس اشتباہ کو دور کرنے کے لئے مزید فرمایا گیا ہے: ان سخت ترین دشمنوں کے ساتھ جنگ کرو اور اس جنگ کو جاری رکھو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور سارے کا سارا دین الله کے لئے ہوجائے( وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لَاتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلّٰهِ ) ۔

جیسا کہ ہم سورہ بقرہ کی آیت ۱۹۳ کی تفسیر میں بیان کرچکے ہیں کہ لفظ ”فتنہ“ کا ایک وسیع مفہوم ہے جس میں ہر قسم کے دباو ڈالنے والے اعمال شامل ہیں ، اس لئے کبھی یہ لفظ قرآن میں شرک وبت پرستی کے معنی میں استعمال ہوتاہے جوکہ معاشرے کے لئے بہت سی رکاوٹیں اور دباؤ پیدا کرتی ہے، اسی طرح ایسے دباو کے مفہوم میں بھی یہ لفظ استعمال ہوتا ہے جو دعوتِ اسلام کے پھیلاو کو روکنے کے لئے اور حق طلب لوگوں کی آواز دبانے کے لئے ہو، یہاں تک کہ مومنین کو کفر کی طرف پلٹانے کے لئے ڈالے جانے والے دباو پر بھی ”فتنہ“ کا اطلاق ہوتا ہے۔

مندرجہ بالا آیت میں بعض مفسّرین نے ”فتنہ“ کو شرک کے معنی میں لیا ہے، بعض نے دشمنوں کی مسلمانوں سے فکری واجتماعی آزادی سلب کرنے کی کوششوں کے معنی میں لیا ہے لیکن حق یہ ہے کہ آیت کات مفہوم وسیع ہے، اس سے مراد شرک بھی ہے اور (”وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّہُ لِلّٰہِ“ کے قرینہ سے)دشمنوں کی طرف سے مسلمانوں پر وارد ہونے والے ہر قسم کے دباو بھی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔

____________________

۱۔ صحیح مسلم، طبق نقل المنار، ج۹، ص۶۶۵-