آیت ۴۱
۴۱-(
وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاٴَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ إِنْ کُنتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ
)
ترجمہ
۴۱ ۔ اور جان لوکہ جس قسم کی غنیمت تمھیں ملے تو خدا، رسول، ذی القربیٰ، یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لئے اس کا پانچواں حصّہ ہے، اگر تم خدا پر اور جو کچھ ہم نے اپنے بندہ پر حق کی باطل سے جدائی کے دن اور (صاحبِ ایمان اور ے ایمان) دو گروہوں کی مڈبھیڑ کے دن (جنگِ بدر کے روز) نازل کیا، ایمان لے آؤ اور خدا ہر چیز پر قادر ہے۔
پارہ دہم
سورہ انفال کی آیت ۴۱ سے شروع ہوتا ہے
ایک اہم اسلامی حکم ،خمس
سورت کی ابتداء میں ہم نے دیکھا ہے کہ کچھ مسلمانوں نے چنگ بدر کے بعد جنگی غنائم کے سلسلے میں جھگڑا کیا تھا۔ خدا نے مادہ اختلاف کی ریشہ کنی کے لئے غنائم کو مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار میں دے دیا تاکہ وہ جیسے مصلحت سمجھیں انھیں صرف کریں اور پیغمبر اکرم نے جنگ میں حصّہ لینے والے غاریوں کے درمیان انھیں مساوی طور پر تقسیم کردیا۔
زیر نظر آیت در حقیقت اسی مسئلہ غنائم کی طرف بازگشت ہے۔ یہ ان آیات کی مناسبت سے ہے جو اس سے قبل جہاد کے بارے میں آئی ہیں اور چونکہ عام طور پر جہاد کا غنائم کے مسئلے سے تعلق ہوتا ہے لہٰذا حکمِ غنائم کو بیان یہاں مناسبت رکھتا ہے (بلکہ جیسا کہ ہم بتائیں گے قرآن یہاں اس حکم کو جنگی غنائم سے بھی بالاتر لے گیا ہے اور ہر طرح کی آمدن کی طرف اشارہ کرتا ہے)۔
آیت کے شروع میں فرمایا گیا ہے: جان لو کہ جیسی غنیمت بھی تمھیں نصیب ہو اس کا پانچواں حصّہ خدا، رسول، ذی القربیٰ (آئمہ اہل بیت) اور (خاندان رسول میں سے) یتیموں ، مسکینوں اور مسافروں کے لئے ہے(
وَاعْلَمُوا اٴَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِنْ شَیْءٍ فَاٴَنَّ لِلّٰهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ وَالْیَتَامَی وَالْمَسَاکِینِ وَابْنِ السَّبِیلِ
)
۔
تاکید کے طور پر مزید فرمایا گیا ہے: اگر تم خدا پر اور وہ جو ہم نے اپنے بندے پر (جنگ بدر کے دن) حق کے باطل سے جدا ہونے کے دن جب مومن و کافر ایک دوسرے کے مد مقابل ہوئے تھے نازل کیا، ایمان لائے ہو تو اس حکم پر عمل کرو اور اس کے سامنے سر تسلیم خم کردو(
إِنْ کُنتُمْ آمَنْتُمْ بِاللهِ وَمَا اٴَنزَلْنَا عَلیٰ عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعَانِ
)
۔
یہاں اس نکتے کی طرف توجہ ضروری ہے کہ اس آیت میں روئے سخن مومنین کی طرف ہے کیونکہ جہاد اسلامی کے غنائم کے بارے میں بحث ہورہی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ مجاہد اسلام مومن ہوتا ہے، اس کے باوجود فرمایا گیا: ”اگر تم خدا اور رسول پر ایمان لائے ہو“۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ نہ صرف یہ کہ اظہار ایمان، ایمان کی علامت نہیں بلکہ میدانِ جہاد میں شرکت بھی ہوسکتا ہے ایمان کامل کی نشانی نہ ہو اور یہ عمل کچھ اور مقاصد کے لئے انجام پارہا ہو۔ مومن کامل وہ شخص ہے جو تمام احکام کے سامنے اور بالخصوص مالی احکام کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہو اور خدائی احکام میں تبعیض کا قائل نہ ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ایک حکم مان لے اور دوسرے کو چھوڑ دے۔
آیت کے آخر میں خدا کی غیر محدود قدرت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: اور خدا ہر چیز پر قادر ہے (وَاللهُ عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ قَدِیرٌ)۔یعنی باوجودیکہ میدان بدر میں تم ہر لحاظ سے اقلیت میں تھے اور دشمن ظاہراً ہر لحاظ سے برتری رکھتا تھا، قادر و توانا خدا نے انھیں شکست دی اور تمھاری مدد کی یہاں تک کہ تم کامیاب ہوگئے۔
چند اہم نکات
۱۔ حق کی باطل سے جدائی کا دن:
اس آیت میں یوم بدر کو حق کی باطل سے جدائی کا دن (یوم الفرقان) اور کفر کے طرفداروں کی ایمان کے طرفداروں سے مڈبھیڑ کا دن قرار دیا گیا ہے اور اس طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ بدر کا تاریخی دن ایک ایسا دن تھا جس میں پیغمبر اسلام کی حقانیت کی نشانیاں ظاہر ہوئیں کیونکہ آپ نے پہلے سے مسلمانوں سے کامیابی کا وعدہ کررکھا تھا جب کہ ظاہراً اس کی کوئی نشانی موجود نہ تھی۔ ایسے میں کامیابی کے ایسے مختلف غیر متوقع عوامل اکٹھے ہوگئے کہ جنہیں اتفاق قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اس بناء پر ان آیات کی صداقت کہ جو رسول اللہ پر ایسے دن نازل ہوئیں ان کی دلیل خود انہی میں پوشیدہ ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ جنگِ بدر کا دن(
یوم التقی الجمعان
)
در حقیقت مسلمانوں کے لئے ایک عظیم خدائی نعمت کی حیثیت رکھتا تھا۔ ابتداء میں ایک ۔گروہ اس جنگ سے احتراز کرتا تھا لیکن یہی جنگ اور اس میں کامیابی انھیں کئی سال آگے لے گئی اور مسلمانوں کا نام اور شہرت اس کے سبب تمام جزیرہ عرب میں پھیل گئی اور اس نے تمام اہلِ عرب کو نئے دین اور اس کی حیرت انگیز قدرت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کردیا۔
ضمناً یہ دن کہ جو امت اسلامی کے لئے بھی ”و انفسنا
“ یعنی نفسا نفسی کا دن تھا اسلام کے سچے مومن، جھوٹے دعویداروں سے ممتاز ہوگئے لہٰذا یہ دن ہر لحاظ سے حق کی باطل سے جدائی کا دن تھا۔
۲ ۔ ایک وضاحت :
اس سورہ کی ابتداء میں ہم کہہ چکے ہیں کہ سورہ انفال کی آیت میں کوئی تضاد نہیں ہے اور اس بات کی ضرورت نہیں کہ ہم ایک کو دوسری کا ناسخ سمجھیں کیونکہ آیہ انفال کا تقاضا یہ ہے کہ جنگی غنائم بھی پیغمبر سے متعلق ہیں لیکن رسول اللہ پانچ میں سے چار حصّے جنگجو غاریوں کو بخش دیتے ہیں اور پانچواں حصّہ ان مصارف کے لئے جو آیت میں معین ہوئے ہیں رکھ لیتے ہیں ۔ مزید توضیح کے لئے اسی سورہ کی پہلی آیت کے ذیل میں کی گئی بحث کی طرف رجوع کیجئے۔
۳ ۔ ”ذی القربیٰ“ سے کیا مراد ہے:
اس آیت میں ”ذی القربیٰ“ سے مراد نہ تو سب لوگوں کے رشتہ دار ہیں اور نہ ہی رسول اللہ کے سب رشتہ دار بلکہ آئمہ اہلِ بیت مراد ہیں ۔ اس امر کی دلیل وہ متواتر روایات ہیں جو اہل بیت پیغمبر کے طرق سے نقل ہوئی ہیں ۔
کتب اہل سنت میں بھی اس طرف اشارے موجود ہیں ۔
اس بناء پر وہ لوگ کہ جو خمس کے ایک حصّے کو پیغمبر اسلام کے تمام رشتہ داروں سے متعلق قرار دیتے ہیں انھیں اس سوال کا سامنا کرنا پڑے گا کہ یہ کیسا امتیاز ہے جو اسلام نے پیغمبر کے رشتہ داروں سے متعلق روا رکھا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ اسلام نسل، قوم اور قبیلہ سے بالاتر ہے۔ لیکن اگر اسے آئمہ اہل بیت(علیه السلام) سے مخصوص سمجھیں تو اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ وہ رسول اللہ کے جانشین اور اسلامی حکومت کے رہبر و رہنما تھے اور ہیں تو خمس کا ایک حصّہ ان سے مختص کیے جانے کی علت واضح ہوجاتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں خدا کا حصّہ ، پیغمبر کا حصّہ اور ذی القربیٰ کا حصّہ تینوں حصّے حکومت اسلامی کے قائد و رہبر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ وہ اپنی سادہ زندگی کا اس سے انتظام کرتا ہے باقی مختلف مخارج کہ جو رہبری امت کا لازمہ ہیں کے لئے صرف کرتا ہے۔ یعنی حقیقت می یہ حصّہ معاشرے اور عوام کی ضرورت کے یے ہے۔
بعض مفسرین اہل سنت ”ذی القربیٰ“ پیغمبر اکرم کے تمام رشتہ داروں کو سمجھتے ہیں ۔ مثلاً المنار کا مولف بھی اسی بات کا قائل ہوا ہے لہٰذا وہ مذکورہ اعتراض کے جواب میں ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور پیغمبر خدا کی اسلامی حکومت کے لئے تشریفات اور تکلفات کا قائل ہوا ہے اور رسول اللہ کو اس بات کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم و قبیلہ کو مال کے ذریعے اپنے گرد جمع رکھا۔ واضح ہے کہ اس قسم کی منطق کسی طرح بھی ایک عالمی اسلامی انسانی اور قوم و قبیلہ کے امتیازات سے پاک حکومت سے مناسبت نہیں رکھتی (اس سلسلے میں کچھ مزید توضیح بھی ہے جو آئندہ کی بحثوں میں آئے گی)۔
۴ ۔ ”یتامیٰ و مساکین و ابن السبیل“ سے یہاں کیا مراد ہے:
کیا اس سے مراد صرف بنی ہاشم اور سادات کے یتیم، مسکین اور مسافر ہیں ؟ اگر چہ ظاہر آیت تو مطلق ہے اور اس میں کوئی قید دکھائی نہیں دیتی۔ اس سلسلے میں ہم جو اسے منحصر قرار دیتے ہیں تو اس کی دلیل وہ بہت سی روایات ہیں جو طرق اہل بیت میں وارد ہوئی ہیں ۔ اور ہم جانتے ہیں کہ قرآن میں بہت سے احکام بطور آئے ہیں لیکن ان کی ”شرائط و قیود“ ”سنت“ کے وسیلے سے بیان ہوئی ہیں اور یہ بات زیر بحث آیت میں ہی منحصر نہیں جو تعجب کیا جائے۔
علاوہ ازیں اگر ہم دیکھیں کہ بنی ہاشم کے حاجت مندوں کے لئے زکوٰة مسلمہ طور پر حرام ہے تو چاہیے کہ کسی دوسرے ذریعے سے ان کی احتیاجات پوری کی جائیں ۔ یہی امر اس کا قرینہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں بنی ہاشم کے حاجت مندوں کے لئے مخصوص حکم ہے۔ لہٰذا احادیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :
جب خدا تعالیٰ نے ہم پر زکوٰة حرام فرمائی تو ہمارے لئے خمس مقرر فرمایا یہی وجہ ہے کہ زکوٰة ہم پر حرام ہے اور خمس حلال ہے۔
۵ ۔ کیا ”غنائم“ سے مرادفقط جنگی مال غنیمت ہے؟:
دوسرا اہم موضوع جس پر اس آیت کے حوالے سے تحقیق کیا جانا چاہیے اورر در حقیقت جس میں ایک اچھی بحث متمر کز ہے، یہ ہے کہ لفظ غنیمت جو زیر نظر آیت میں آیا ہے کیا فقط جنگی مال غنیمت کے بارے میں ہے یا اس کے مفہوم میں ہر طرح کی آمدنی شامل ہے۔
پہلی صورت میں آیت فقط جنگی غنائم کے خمس کے بارے میں بیان کررہی ہے اور دیگر امور میں خمس کے بارے میں ہمیں صحیح و معتبر سنت اور روایات سے استفادہ کرنا چاہیے اور اس بات میں کوئی امر مانع نہیں کہ قرآن نے جہاد کے مسائل کے ذیل میں خمس کے ایک حصّے کی طرف اشارہ کیا ہے اور دوسرے حصّے کے بارے میں سنت سے وضاحت کی جائے۔
مثلاً قرآن مجید میں ہر روز کی پنجگانہ نماز کا صریحاً ذکر ہے اور اسی طرح واجب نمازوں میں سے طواف کی نمازوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے لیکن نماز آیات جس پر شیعہ سنی تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے اس کا ذکر قرآن مجید میں نہیں آیا۔ اور کوئی یہ نہیں کہتا کہ نماز آیات کا چونکہ قرآن میں ذکر نہیں اور اس کا تذکرہ فقط سنت پیغمبر میں آیا ہے لہٰذا اس پر عمل نہیں کیا جانا چاہیے۔
اسی طرح قرآن میں بعض غسلوں کی طرف اشارہ ہوا ہے اور بعض کا ذکر نہیں کیا گیا۔ کیا ان سے صرف نظر کرلیا جائے۔ یہ ایسی منطق ہے جسے کوئی مسلمان قبول نہیں کرتا۔
لہٰذا اس امر میں کوئی اشکال نہیں کہ قرآن خمس کے مواقع میں سے صرف ایک کی طرف اشارہ کرے اور باقی کو سنت پر چھوڑدے۔ فقہ اسلام میں ایسی مثالیں بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں دیکھنا چاہیے کہ لفظ غنیمت لغت میں اور عرف میں کیا معنی دیتا ہے۔ کیا واقعاً یہ لفظ جنگی غنائم میں منحصر ہے یا ہر قسم کی آمدنی اس کے مفہوم میں شامل ہے۔ جو کچھ لغت کی کتب سے معلوم ہوتا ہے یہ ہے کہ اس لفظ کی اصل جنگ کے حوالے سے نہیں اور نہ یہ اس چیز ہی کو کہتے ہیں جو دشمن سے ہاتھ لگے بلکہ ہر قسم کی درآمد اور وصولی کو کہتے ہیں ۔ بطور شاہد ہم چند ایک ایسی مشہور لغت کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو علماء اور ادباء عرب کی موردِ استناد ہیں ۔
”لسان العرب“ کی جلد ۱۲ میں ہے:
والغنم الفوز بالشیٴ من غیر مشقة ----و الغنم، الغنیمة و الغنم الفیٴ ----- وفی الحدیث الرهن لمن رهنه له غنمه و علیه غرمه، غنمه زیادته و نمآئه و فاضل قیمته----وغنم الشیٴ فاز به---
”غنم“ یعنی مشقت اور زحمت کے بغیر کسی چیز پر دسترس حاصل کرنا۔ نیز”غنم“ ”غنیمت“ اور ”مغنم“فییٴ
کے معنی میں ہیں (فییٴ
بھی لغت میں ایسی چیزوں کے معنی میں ہے جو زحمت اور اور تکلیف اٹھائے بغیر انسان تک پہنچ جائیں ) اور حدیث میں آیا ہے کہ ”رھن“ اس کے لئے ہے جس نے اسے اپنے پاس رہن رکھا ہے، غنیمت اور اس کے منافع اس کے لئے ہیں اوراس کا نقصان بھی اسی کے لئے ہوگا۔ نیز ”غنم“زیادتی،نمو اور قیمت میں اضافہ کے معنی ہے اور فلاں چیز کو غنیمت کے طور پر لیا یعنی اس تک دسترس حاصل کی۔
”تاج العروس“ جلد ۹ میں ہے:”والغنم الفوز بالشیء بلا مشقة
“
غنیمت ہر اس جیز کو کہتے ہیں جس پر انسان بغیر مشقت کے دسترس حاصل کرے کتاب ”قاموس“ میں اسی مذکورہ معنی میں ذکر ہوا ہے۔
مفردات راغب میں میں ہے:”غنیمت“ ”غنم“ کی اصل سے گوسفند کے معنی سے لیا گیا ہے۔
راغب کہتا ہے:”ثم استعملوا فی کل مظفور به من جهة العدی وغیره
“
بعد ازاں یہ لفظ ہر اُس چیز کے لئے استعمال ہونے لگا جو دشمن سے یا غیر دشمن سے حاصل کیا جائے۔
یہاں تک کہ جن لوگوں نے ”غنیمت“ کے معانی میں سے ایک معنی ”جنگی غنائم“ بیان کیا ہے وہ بھی اس بات کا انکار نہیں کرتے کہ اس کا اصلی معنی ایک وسیع مفہوم رکھتا ہے جو انسان بغیر مشقت کے حاصل کرے۔
عام استعمال میں بھی”غنیمت “ ”غرامت “کے مقابلے میں ذکر ہوتا ہے۔تو جس طرح غرامت کا معنی وسیع ہے اور ہر قسم کے تاوان اور ادائیگی پر محیط ہے اسی طرح غنیمت بھی وسیع معنی رکھتا ہے اور ہرایسی در آمد اور وصولی پر محیط ہے جو قابل ملاحظہ ہو ۔نہج البلاغہ میں بہت سے مواقع پر یہ لفظ اسی معنی میں آیا ہے۔خطبہ ۷۶ میں ہے:اغتنم المهل
مہلتوں اور مواقع کو غنیمت سمجھو۔
خطبہ ۱۲۰ میں ہے:من اخذها لحق و غنم
جو شخص دین خدا پر عمل کرے گا وہ منزل مقصود تک پہنچ جائے اور فائدے اٹھائے گا ۔
خطبہ ۵۳ میں حضرت امیرالمومنین علیہ السلام مالک اشتر سے فرماتے ہیں :ولا تکونن علیهم سُبُعاً ضاریا تغتنم اٴکلهم
مصر کے لوگوں کے لئے درندے کی طرح نہ ہوجانا کہ انھیں کھا جا نا اپنے لئے غنیمت اور در آمد سمجھنے لگو۔
خطبہ ۴۵ میں عثمان بن خلیف سے فرماتے ہیں :فو الله ما کنزت من دنیاکم تبراً ولا اٴدخرت من غنائمها و فرا
خدا کی قسم میں تمھارے سونے سے ذخیرہ اکٹھا نہیں کیا اور اس کے غنائم اور در آمدات سے زیادہ مال جمع نہیں کیا۔
نیز کلمات قصار کے جملہ ۳۳۱ میں آپ فرماتے ہیں :ان اللهجعل الطاعة غنیمة الا کیاس
خدا نے اطاعت کو عقلمندوں کے لئے غنیمت اور فائدہ قرار دیا۔
خطبہ ۴۱ میں ہے:و اغتنم من استقر ضک فی حال غناک
اگر کوئی شخص تیری تونگری کی حالت تجھ سے قرض چاہے تو اسے غنیمت سمجھ اس قسم کی دیگر تعبیریں بہت زیا دہ ہیں ججو سب کی سب نشاندہی کرتی ہیں کہ لفظ غنیمت جنگی غنائم میں منحرف نہیں ہے۔
باقی رہے مفسرین --------تو بہت سے مفسرین کہ جنہوں نے اس آیت کے بارے میں بحث کی ہے،صراحت کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ ”غنیمت“اصل میں ایک وسیع معنی رکھتی ہے اور اس میں جنگی غنائم اور ان کے علاوہ غنائم اورکلی طور پر ہر وہ چیز شامل ہے جسے انسان زیادہ مشقت کے بغیر حاصل حاصل کرلے۔ یہاں تک کہ جنہوں نے فقہاء اہل سنت کے فتویٰ کی بناء پر آیت کو جنگی غنائم کے ساتھ مخصوص کیا ہے وہ پھر بھی اعتراف کرتے ہیں کہ اس کے اصلی معنی میں یہ قید موجود نہیں ہے بلکہ انہوں نے ایک اور دلیل کی وجہ سے یہ قید لگائی ہے۔
اہلِ سنت کے مشہور مفسر قرطبی اپنی تفسیر میں آیت کے ذیل میں یوں رقم طراز ہے:
جان لو کہ (علماء اہل سنت) کا اس پر اتفاق ہے کہ آیت(
و اعلموآ انما غنمتم
)
میں غنیمت سے مراد وہ اموال ہیں کہ جو جنگ میں قہر و غلبہ کی وجہ سے لوگوں کو ملیں لیکن توجہ رہے کہ یہ قید جیسا کہ ہم نے کہا ہے اس کے لغوی معنی میں موجود نہیں ہے لیکن عرف شرع میں یہ قید آئی ہے۔
فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں تصریح کرتے ہیں :الغنم الفوز بالشیٴ
غنیمت یہ ہے کہ انسان کسی چیز کے حصول پر کامیاب ہوجائے۔
لغت کے لحاظ سے اس معنی کے ذکر کے بعد کہتے ہیں :
غنیمت کا شرعی معنی (فقہاء اہل سنت کے نظریے کے مطابق) وہی جنگی غنائم ہیں ۔
نیز تفسیر المنار میں غنیمت کا ایک وسیع معنی ذکر کیا گیا ہے اور اسے جنگی غنائم سے مخصوص نہیں کیا گیا اگر چہ صاحبِ تفسیر کا عقیدہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت کے وسیع معنی کو قید شرعی کی وجہ سے جنگی غنائم ہی میں محدود سمجھنا چاہیے ۔
مشہور سنی مفسر آلوسی کی تفسیر ”روح المعانی“ میں بھی ہے کہ:
”غنم“ اصل میں ہر قسم کے فائدے اور منفعت کے معنی میں ہے۔
تفسیر مجمع البیان میں پہلے تو غنیمت کو جنگی غنائم کے ساتھ تفسیر کیا گیا ہے لیکن آیت کی تشریح کے موقع پر لکھا ہے:
قال اصحابنآ ان الخمس واجب فی کل فائدة تحصل للانسان من المکاسب و ارباح التجارات، و فی الکنوز و المعادن و الغوص و غیر ذٰلک مما هومذکور فی الکتب ویمکن ان یستدل علٰی ذٰلک بهٰذه الاٰیة فان فی عرف اللغة یطلق علی جمیع ذٰلک اسم الغنم و الغنیمة
۔
علماء شیعہ کا یہ نظر یہ ہے کہ خمس ہر اس فائدے پر وواجب ہے جو انسان حاصل کرتا ہے چاہے وہ کسب تجارت کے طریق سے ہو یاخزانہ اور معدنیات سے یا دریا میں غوطہ کے ذریعے سے اور دیگر وہ امور جو کتبِ فقہ میں مذکورہ ہیں اور اس آیت سے بھی اس دعویٰ پر استدلال پیش کیا جاسکتا ہے کیونکہ عرفِ لغت میں ان تمام چیزوں کو غنیمت کہا جاتا ہے۔
حیرانگی کی بات ہے کہ ایک خود غرض شخص جو عوام کے افکار میں سم پاشی کے لئے خاص طور پر مامور ہے اس نے خمس کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے۔ اس میں اس نے تفسیر مجمع البیان کی عبارت میں رسوا کنندہ تحریف کی ہے۔ اس کی عبارت کے پہلے حصّے کو جس میں غنیمت کی تفسیر کے لئے جنگی غنائم کا ذکر کیا گیا ہے بیان کردیا گیا ہے لیکن اس توضیح کو جو اس کے لغوی معنی کی عمومیت کے لئے اور آیت کے معنی کے حوالے سے آخر میں کی گئی ہے اسے بالکل نظر انداز کردیا گیا ہے اور اس عظیم اسلامی مفسر کی طرف ایک جھوٹے مطلب کی نسبت دی گئی ہے۔ گویا اس کے خیال میں تفسیر مجمع البیان صرف اسی کے پاس ہے اور کوئی دوسرا اس کا مطالعہ نہیں کرے گا اور تعجب کی بات یہ ہے کہ اس خیانت کا وہ صرف اسی موقع پر مرتکب نہیں ہوا بلکہ دوسرے مواقع پر بھی جو کچھ اس کے فائدے میں تھا اسے لے لیا ہے کہ اس کے نقصان میں تھا اسے نظر انداز کردیا ہے۔
تفسیر المیزان میں بھی علماء لغت کے کلمات کے حوالے سے تصریح کی گئی ہے کہ ”غنیمت“ ہر قسم کے فائدہ کو کہتے ہیں کہ جو تجارت یا کسب و کار یا جنگ کے ذریعے انسان کے ہاتھ لگے اور زیر نظر آیت کا محل نزول اگر چہ جنگی غنائم ہے تا ہم ہم جانتے ہیں کہ محل نزول آیت کے مفہوم کی عمومیت کو مخصوص نہیں کرسکتا۔
جو کچھ کہا جا چکا ہے اس تمام سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ:
آیت غنیمت ایک وسیع معنی رکھتی ہے اور ہر قسم کی آمدنی، فائدے اور منفعت پر محیط ہے کیونکہ اس لفظ کا لغوی معنی عام ہے اور اسے کسی خاص معنی میں محدود کرنے کے لئے کوئی واضح دلیل موجود نہیں ہے۔ وہ واحد چیز جس کا بعض اہل سنت مفسرین نے سہارا لیا ہے یہ ہے کہ قبل وبعد کی آیات جہادکے بارے میں نازل ہوئی ہیں اور یہ امر اس بات کا قرینہ ہے کہ آیتِ غنیمت میں بھی جنگی غنائم کی طرف اشارہ ہے جبکہ ہم جانتے ہیں کہ آیتوں کی شانِ نزول اور سیاق وسباق آیت کی عمومیت کو محدود نہیں کرتے، زیادہ واضح الفاظ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہآیت کا مفہوم عمومی ہو جبکہ اس کا محلِ نزول جنگی غنائم ہوں کہ جو اس کُلّی حکم کا ایک جزوی مصداق ہی، مثلاً سورہ حشر کی آیت ۷ میں ہے:
(
مَا آتَاکُمْ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
)
جو کچھ پیغمبر تمھارے لئے لائے اسے لئے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاو۔
فرامین پیغمبرکی پیروی کے لازمی ہونے کے بارے میں یہ آیت ایک عمومی حکم بیان کررہی ہے حالانکہ اس کا محلِ نزول ایسے اموال ہیں کہ جو دشمنوں سے بغیر جنگ کے مسلمانوں کے ہاتھ لگیں (اور اصطلاح میں اسے ”فییٴ
“کہتے ہیں )۔
نیز سورہ بقرہ کی آیت ۱۳۳ میں یہ قانون ایک عمومی صورت میں بیان ہوا ہے:(
اتُکَلَّفُ نَفْسٌ إِلاَّ وُسْعَهَا
)
کسی شخص کو اس کی طاقت سے زیادہ ذمہ داری نہیں دی جاسکتی۔
حالانکہ اس آیت کا محلِ نزول دودھ پلانے والی عورتوں کی اجرت ہے اور نومولود کے باپ کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق انھیں اجرت دے، تو کیا ایسے خاص موقع پر آیتکا نازل ہوا اس قانون (جس کی طاقت نہ ہو وہ ذمہ داری نہیں ہے) کی عمومیت کم ختم کردیتا ہے؟
خلاصہ یہ ہے کہ آیت جہاد کی آیات کے ضمن میں آئی ہے لیکن کہتی ہے کہ ہر فائدہ جو تمھیں کسی بھی مقام سں حاصل ہو کہ جس میں ایک جنگی مال غنیمت ہے اس کا خمس ادا کرو، خصوصاً لفظ ”ما“ موصولہ ہے اور لفظ ”شیء“ دونوں عام ہیں اور کوئی قید وشرط نہیں رکھتے اس امر کی تائید کرتے ہیں ۔
۶ ۔ کیا نصف خمس کا بنی ہاشم کے لئے مخصوص ہوناترجیح نہیں ہے؟ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ اسلام کا یہ مالیاتی حکم بیس فیصد اموال پر مشتمل ہے اس سے آدھا یعنی دس فیصد سادات اور اولادِ پیغمبرکے ساتھ مخصوص ہے، یہ ایک قسم کا نسلی اور خاندانی امتیاز ہے اور اس میں یوں رشتہ داری کو ترجیح دی گئی ہے اور یہ بات اسلام کی عدالتِ اجتماعی اور اس کے عالمی ہونے کی روح کے ساتھ مناسبت نہیں رکھتی۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جو لوگ ایسی سوچ رکھتے ہیں انھوں نے اس اسلامی حکم کی شرائط اور خصوصیات کا مطالعہ نہیں کیا کیونکہ اس اعتراض کا مکمل جواب خود انہی شرائط میں پوشیدہ ہے۔
اس کی وضاحت یہ ہے کہ:
پہلی بات تو یہ ہے کہ آدھا خمس جو سادات اور بنی ہاشم سے مربوط ہے وہ ان میں سے صرف حاجتمندوں کو دیا جانا چاہیے وہ بھی ایک سال کی ضروریات کے مطابق اور اس سے زیادہ نہیں ، اس بناء پر صرف وہی افراد اس سے استفادہ کرسکتے ہیں جو بالکل کام نہیں کرسکتے اور بیمار ہیں یا یتیم چھوٹے بچّے ہیں اور یا وہ ہیں جو کسی وجہ سے زندگی کے مخارج کے لحاظ تنگی اور سختی سے دوچار ہیں لہٰذا وہ لوگ جو کام کرنے کی قدرت رکھتے ہیں (بالفعل یا با لقوہ) ان کی ایسی آمدن ہے جو ان کے بارِ زندگی کو چلا سکے تو وہ خمس کے اس حصّے سے ہر گز استعفادہ نہیں کرسکتے اور یہ بات جو بعض عوام میں مشہور ہے کہ سادات خمس لے سکتے ہیں چاہے ان کے گھر کا پر نالا سونے کا ہو۔ در اصل یہ ایک جاہلانہ عوامی بات سے زیادہ قیمت نہیں رکھتی اور اس کی کوئی بنیاد نہیں ۔
دوسری بات یہ ہے کہ سادات اور بنی ہاشم کے فقراء و مساکین حق نہیں رکھتے کہ زکوٰة میں سے کوئی چیز صرف کریں اور اس کی بجائے صرف خمس کے اسی حصّہ سے صرف کرسکتے ہیں ۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر سہم سادات جو کہ خمس کا آدھا حصّہ ہے موجود سادات کی ضروریات سے زیادہ ہو تو اسے بیت المال میں داخل کرنا ہوگا اور اسے دوسرے مخارج میں صرف کیا جائے گا۔ جیسا کہ اگر سہمِ سادات ان کی کفایت نہ کرے تو بیت المال یا سہم زکوٰة میں سے ان کی ضروریات پوری کی جائیں گی۔
مندرجہ بالا تینوں پہلووں کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ حقیقت میں مادی لحاظ سے سادات اور غیر سادات میں کوئی فرق نہیں رکھا گیا۔
غیر سادات محتاج اپنے سال بھر کے مخارج زکوٰة سے لے سکتے ہیں لیکن وہ خمس سے محروم ہیں اور سادات میں سے جو محتاج ہیں وہ صرف خمس سے استفادہ کرسکتے ہیں لیکن زکوٰة سے استفادہ کا حق نہیں رکھتے۔
در حقیقت یہاں دو صندوق موجود ہیں ۔ خمس کا صندوق اور زکوٰة کا صندوق۔ ان دو گرہوں میں سے ہر ایک کا حق ہے کہ ان دو میں سے صرف ایک سے استفادہ کرے وہ بھی مساوی مقدار میں یعنی ایک سال کی ضرورت کے برابر (غور کیجیے گا)۔
لیکن جن لوگوں نے ان شرائط اور خصوصیات میں غور نہیں کیا وہ خیال کرتے ہیں کہ سادات کے لئے بیت المال سے زیادہ حصّہ مقرر کیا گیا ہے یا وہ مخصوص امتیاز سے نوازے گئے ہیں ۔
صرف ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر ان دو کے درمیان نتیجہ کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں ہے تو پھر ایسے مختلف پروگرام کا کیا مقصد ہے؟
ایک مطلب پر توجہ کرنے سے اس سوال کا جواب بھی معلوم ہوسکتا ہے اور وہ یہ کہ خمس اور زکوٰة میں ایک اہم فرق ہے اور وہ یہ کہ زکوٰة ایسے مالیات میں سے ہے جو در اصل عام اسلامی معاشرے کے اموال کا جزء شمار ہوتے ہیں لہٰذا ان کے مصارف بھی عموماً اسی حصّہ میں ہوتے ہیں لیکن خمس ایسے مالیات میں سے ہے جو حکومتِ اسلامی سے مربوط ہیں یعنی اسلامی حکومت چلانے والوں کے مخارج و مصارف اس سے پورے ہوتے ہیں ۔
اس بناء پر سادات کا عمومی اموال (زکوٰة) سے دور ہونا در حقیقت اس لئے ہے کہ اس حصہ سے پیغمبر کے رشتہ داروں کو دور رکھا جائے تاکہ مخالفین کے ہاتھ یہ بہانہ نہ آئے کہ پیغمبر نے اپنے رشتہ داروں کو عمومی اموال پر مسلط کردا ہے۔ لیکن دوسری طرف محتاج سادات کا بھی کسی طرح گزارہ ہونا چاہیے تو اس کا اسلامی قوانین میں یہ اہتمام کیا گیا ہے کہ اسلامی حکومت کے فنڈسے ان کی ضروریات پوری کردی جائیں نہ کہ عام لوگوں کے فنڈسے ۔ حقیقت میں خمس نہ صرف یہ کہ سادات کے لئے ایک امتیاز نہیں ہے بلکہ انھیں عام لوگوں کے مفاد سے ایک طرف رکھنے کے لئے اور کسی قسم کے بُرے گمان کے پیدا ہونے سے بچنے کے لئے بھی ایک اقدام ہے۔
یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس امر کی طرف شیعہ اور سنی کتب میں اشارہ ہوا ہے۔ ایک حدیث میں امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے:
بنی ہاشم کا ایک گروہ وہ پیغمبر کی خدمت میں پہنچا اور تقاضا کیا کہ انھیں چوپایوں کی زکوٰة جمع کرنے پر مامور کریں اور کہا کہ یہ حصّہ جو خدانے زکوٰة جمع کرنے والوں کے لئے معین کیا ہے ہم اس کے زیادہ حقدار ہیں ۔
۶-پیغمبر خدانے فرمایا اے بنی عبدالمطلب:
زکوٰة نہ میرے لئے حلال ہے اور نہ تمھارے لئے لیکن میں تمھیں اس محرومیت کے بدلے شفاعت کا وعدہ کرتا ہوں ۔ تم اس پر جو خدا اور رسول نے تمھارے لئے معین کیا ہے راضی رہو(اور زکوٰة سے سروکار نہ رکھو)۔
وہ کہنے لگے: ہم راضی ہیں ۔
اس حدیث سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ بنی ہاشم اس چیز کو اپنے لئے ایک قسم کی محرومیت سمجھتے تھے اور پیغمبر اسلام نے انھیں اس کے بدلے شفاعت کا وعدہ دیا۔
صحیح مسلم جو اہل سنت کی نہایت مشہور کتاب ہے اس میں سے ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے:
عباس اور ربیعہ بن حارث پیغمبر کی خدمت میں آئے اور انہوں نے تقاضا کیا کہ ان کے بیٹے یعنی عبدالمطلب بن ربیعہ اور فضل بن عباس کو جو دو نوجوان تھے زکوٰة کی جمع آوری پر مامور کیا جائے تاکہ دوسرے لوگوں کی طرح وہ بھی زکوٰة سے حصّے لے سکیں اور اپنی اپنی شادی کے مصارف اس طرح سے فراہم کرسکیں ۔
پیغمبر نے انھیں اس سے روکا اور حکم دیا کہ کسی اور طریقے سے ان کی شادیوں کے اسباب فراہم کیے جائیں محل خمس سے ان کی بیویوں کا حق مہردیا جائے۔
اس حدیث سے بھی کہ جس کی تشریح بڑی طویل ہوتا ہے کہ رسول اللہ اصرار کرتے تھے کے اپنے رشتہ داروں کو زکوٰة (کہ جو عام لوگوں کا مال تھا) لینے سے دور رکھیں ۔
جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے مجموعی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ خمس نہ صرف سادات کے لئے کوئی امتیاز اور خصوصیت شمار نہیں ہوتا بلکہ عمومی مصالح کی حفاظت کے لئے ایک طرح کی محرومی ہے۔
۷ ۔ خدا کے حصّے سے کیا مراد ہے؟:
”لِلّٰہ“ کہہ کر خدا کا حصّہ بیان کیا گیا ہے۔ اس طرح سے اصل سے اصل مسئلہ خمس کی زیاد اہمیت بیان کی گئی ہے نیز پیغمبر اکرم اور اسلامی حکومت کے رہبر و راہنما کی ولایت و حاکمیت کی تاکید و تثبیت کی گئی ہے۔ یعنی جیسے خدا تعالیٰ نے اپنے لئے ایک حصّہ مقرر کیا ہے اور خود کو اس میں تصرف کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے اسی طرح اس نے پیغمبر اور امام مصلحت سمجھیں گے صرف ہوگا اور خدا کو تو کسی حصّے کی ضرورت نہیں ہے۔
____________________