تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30756
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30756 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۴۲،۴۳،۴۴،

۴۲-( إِذْ اٴَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَی وَالرَّکْبُ اٴَسْفَلَ مِنْکُمْ وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیعَادِ وَلَکِنْ لِیَقْضِیَ اللهُ اٴَمْرًا کَانَ مَفْعُولًا لِیَهْلِکَ مَنْ هَلَکَ عَنْ بَیِّنَةٍ وَیَحْیَا مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَةٍ وَإِنَّ اللهَ لَسَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔

۴۳-( إِذْ یُرِیکَهُمْ اللهُ فِی مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ اٴَرَاکَهُمْ کَثِیرًا لَفَشِلْتُمْ وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاٴَمْرِ وَلَکِنَّ اللهَ سَلَّمَ إِنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۔

۴۴-( وَإِذْ یُرِیکُمُوهُمْ إِذْ الْتَقَیْتُمْ فِی اٴَعْیُنِکُمْ قَلِیلًا وَیُقَلِّلُکُمْ فِی اٴَعْیُنِهِمْ لِیَقْضِیَ اللهُ اٴَمْرًا کَانَ مَفْعُولًا وَإِلَی اللهِ تُرْجَعُ الْاٴُمُورُ ) ۔

ترجمہ

۴۲ ۔اس وقت تم نچلی طرف تھے اور وہ اوپر کی طرف تھے (اور اس طرح سے دشمن تم پر برتری رکھتا تھا) اور (قریش کا) قافلہ تم سے نچلی طرف تھا اور ان پر دسترس ممکن نہ تھی اور ظاہراً کیفیت ایسی تھی کہ اگر تم ایک دوسرے سے وعدہ کرتے (کہ میدانِ جنگ میں حاضر ہوں گے) تو بالآخر اپنے وعدے میں اختلاف کرتے لیکن (یہ تمام مقدمات) اتمام حجت کے طور پر ہوں اور جو زندہ رہتے ہیں (اور ہدایت حاصل کرتے ہیں ) واضح دلیل کے طور پر ہوں اور خدا سننے والا جاننے والا ہے۔

۴۳ ۔ اس وقت خدا نے عالم خواب میں تمھیں ان کی تعداد کم کرکے دکھائی اور اگر زیادہ کرکے دکھاتا تو مسلماً تم سست ہوجاتے اور (ان سے جنگ شروع کرنے کے سلسلے میں ) تم میں اختلاف پڑجاتا لیکن خدانے (تمھیں ان سب سے) محفوظ رکھا۔ جو کچھ سینوں کے اندر ہے خدا اس سے دانا اور آگاہ ہے۔

۴۴ ۔ اور اس وقت کہ جب تم (میدان جنگ میں ) ایک دوسرے کے آمنے سامنے ہوئے تو انھیں تمہاری نظر میں کم کرکے دکھاتا تھا اور تمھیں (بھی) ان کی نظر میں کم کرکے دکھاتا تھا تاکہ خدا اس کام کو عملی صورت بخشے جسے انجام پانا چاہیے (یہ اس لئے تھا تاکہ تم ڈرو نہیں اور جنگ کے لئے اقدام کرو اور انھیں بھی وحشت نہ ہوتا کہ وہ جنگ کے لئے تیار ہوں اور یوں وہ آخر کار شکست کھاجائیں ) اور تمام کاموں کی بازگشت خدا کی طرف ہے۔

وہ کام جو ہونا چاہیے

اس بات کی مناسبت سے جو ”یوم الفرقان“ (جنگ بدر کے دن) کے متعلق گذشتہ آیت میں آئی ہے اور حو کامیابیاں اس خطرناک صورت حال میں مسلمانوں کو نصیب ہوئی تھیں ، قرآن دوبارہ اِن آیات میں اس جنگ کے بعض پہلو مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے تاکہ وہ نعمت فتح کی اہمیت سے زیادہ آگاہ ہوسکیں ۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے: اس روز تم نچلی طرف اور مدینہ کے قریب تھے اور وہ اوپر کی طرف اور زیادہ دور تھے( إِذْ اٴَنْتُمْ بِالْعُدْوَةِ الدُّنْیَا وَهُمْ بِالْعُدْوَةِ الْقُصْوَی ) ۔

”عدوة “مادہ ”عدو“ (بروزن ”سرو“) سے ہے ”تجاوز کرنا“۔ تا ہم ہر چیز کے حاشیے اور اطراف کو بھی”عدو“ کہتے ہیں کیونکہ حدوسط سے یہ ایک طرف کو تجاوز ہوتا ہے۔ محل بحث آیت میں یہ لفظ طرف اور جانب ہی کے معنی میں آیا ہے۔

لفظ ”دنیا“ مادہ ”دنو“ (بروزن ”علو“) سے ہے۔ یہ ”زیادہ نیچے“ اور ”زیادہ نزدیک“ کے معنی میں آتا ہے اور اس کے بر خلاف ”اقصی“ اور ”قصوٰی“ دور تر کے معنی میں ہے۔

اس میدان میں مسلمان شمال کی جانب تھے۔ یہ طرف مدینہ سے زیادہ قریب تھی۔ دشمن جنوب کی طرف تھا۔ یہ جگہ زیادہ دور تھی۔ یہ احتمال بھی ہے کہ وہ جگہ جسے مسلمانوں نے مجبوری کی حالت میں دشمن سے جنگ کرنے کے لئے منتخب کیا تھا بہت نشیب میں تھی اور دشمن کی جگہ بلند تر تھی۔ یہ صورتِ حال دشمن کے لئے ایک برتری کی حیثیت رکھتی تھی۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: (قریش اور ابوسفیان کا) وہ قافلہ جس کے تم تعاقب میں تھے وہ زیادہ نشیب میں تھے( وَالرَّکْبُ اٴَسْفَلَ مِنْکُمْ ) ۔

کیونکہ جیسے ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ ابوسفیان کو جب مسلمانوں کی روانگی کا علم ہو ا تو اس نے قافلے کا راستہ بدل لیا اور وہ اپنا راستہ چھوڑ کر دریائے احمر کے کنارے کنارے تیز رفتاری سے چلتے ہوئے مکہ کے نزدیک ہوگیا اور اگر مسلمان قافلے کے راستے سے ہٹ نہ جاتے تو ممکن تھا کہ اس کا تعاقب کرتے اور دشمن کے لشکر سے جنگ کرنے سے رہ جاتے جو کہ آخر کار عظیم فتح و کامرانی کا سبب بنی۔

ان تمام چیزوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اگر ہم مسلمانوں کی تعداد اور دشمن کے مقابلے میں ان کے جنگی سازو سامان کو دیکھیں تو وہ ہر لحاظ سے کمتر اور ضعیف تر تھا جب کہ مسلمان ٹھہرے ہوئے بھی نشیب کی طرف تھے اور دشمن بلندی کی طرف تھا۔ لہٰذا قرآن مزید کہتا ہے: حالات ایسے تھے کہ اگر پہلے سے تمھیں معلوم ہوتا اور تم چاہتے کہ اس سلسلے میں ایک دوسرے سے وعدہ اور قول و قرار کرتے تو حتماً اس عہد و میعاد میں اختلاف میں گرفتار ہوتے( وَلَوْ تَوَاعَدتُّمْ لَاخْتَلَفْتُمْ فِی الْمِیعَادِ ) کیونکہ تم میں سے بہت سے ظاہری کیفیت اور دشمن کے مقابلے میں اپنی کمزور و حیثیت کے زیر اثر آجاتے اور اس قسم کی جنگ کی اصولاً مخالفت کرتے۔

لیکن خدا تمھیں ایک انجام پانے والے عمل کی طرف لے گیا تاکہ جس کام کو ہنا چاہیے وہ انجام پائے( وَلَکِنْ لِیَقْضِیَ اللهُ اٴَمْرًا کَانَ مَفْعُولًا ) ۔ یہ اس لئے تھا کہ اس غیر متوقع معجزہ نما کامیابی کے ذریعے حق اور باطل میں تمیز ہوسکے”اور وہ جو گمراہ ہوں اتمام حجت کے ساتھ ہوں اور وہ جو راہ حق قبول کریں آگاہی اور واضح دلیل کے ساتھ کریں “(ل( یَهْلِکَ مَنْ هَلَکَ عَنْ بَیِّنَةٍ وَیَحْیَا مَنْ حَیَّ عَنْ بَیِّنَةٍ ) ۔

یہاں ”حیات“ اور ”“ہلاکت سے مراد وہی ”ہدایت “اور ”گمراہی“ ہے کیونکہ بدر کے دن نے کہ جس کا دوسرا نام ”یوم الفرقان“ ہے، واضح طور پر نصرت الٰہی سے سب کو مسلمانوں کی قوت دکھائی اور ثابت کیا کہ یہ گروہ وہ خدا سے راہ و رسم رکھتا ہے اور حق اِس کے ساتھ ہے۔

آخر میں ارشاد ہوتا ہے: خدا سننے اور جاننے والا ہے( وَإِنَّ اللهَ لَسَمِیعٌ عَلِیمٌ ) ۔ یعنی اس نے تمہاری فریاد سنی،تمہاری نیتوں کو جانا اور اسی بناء پر اس نے تمہاری مدد کی یہاں تک کہ تم دشمن پر کامیاب ہوگئے۔

تمام قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ مسلمانوں میں ایک گروہ کم از کم ایسا تھا کہ اگر اسے دشمن کی طاقت اور اس کی فوج کی کیفیت معلوم ہوتی تو وہ اس جنگ کے لئے تیار نہ ہوتا اگر چہ مخلص مومنین کا ایک گروہ ایسا بھی تھا جس کا ہر طرح کے حوادث میں رسول اللہ کے ارادے کے سامنے سر تسلیم خم تھا۔ اس بناء پر خدانے کچھ ایسے واقعات پیش کیے کہ دونوں گروہ خواہ دشمن کے مقابلے میں نکل آئیں اور اس حیات بخش جنگ کے لئے تیار ہوجائیں ۔

ان واقعات میں سے ایک یہ تھا کہ رسول اللہ نے پہلے سے خواب میں اس جنگ کا منظر دیکھا تھا۔ آپ نے دیکھا تھا۔ آپ نے دیکھا کہ دشمن کی ایک قلیل سی تعداد مسلمانوں کے مقابلے میں آئی ہے۔ یہ در اصل کامیابی کی ایک بشارت تھی آپ نے بعینہ یہ خواب مسلمانوں کے سامنے بیان کردیا۔ یہ بات مسلمانوں کے میدان بدر کی طرف پیش روی کے لئے ان کے جذبے اور عزم کی تقویت کا باعث بنی۔

البتہ پیغمبر اکرم نے یہ خواب صحیح دیکھا تھا کیونکہ دشمن کی قوت اور تعداد اگر چہ ظاہراً بہت زیادہ تھی لیکن باطناً کم، ضعیف اور ناتوان تھی اور ہم جانتے ہیں کہ خواب عام طور پر اشارے اور تعبیر کا پہلو رکھتے ہیں اور ایک صحیح خواب میں کسی مسئلے کا باطنی چہرہ آشکار ہوتا ہے۔

رسول اللہ نے یہ خواب مسلمانوں سے بیان کیا لیکن آخر یہ سوال تو شاید ذہنوں کی گہرائیوں میں باقی رہا ہوگا کہ پیغمبر نے خواب میں ان کا ظاہری چہرہ کیوں نہیں دیکھا اور اسے مسلمانوں سے کیوں بیان نہیں کیا۔

زیر نظر دوسری آیت میں اس نعمت کا فلسفہ بیان کیا گیا ہے جو خدا تعالیٰ نے اس طریقے سے مسلمانوں کو عنایت کی تھی۔ ارشاد ہوتا ہے: اس وقت خدانے خواب میں دشمن کی تعداد تمھیں کم کرکے دکھائی اور اگر انھیں زیادہ کرکے دکھاتا تو یقینا تم لوگ سستی دکھاتے( إِذْ یُرِیکَهُمْ اللهُ فِی مَنَامِکَ قَلِیلًا وَلَوْ اٴَرَاکَهُمْ کَثِیرًا لَفَشِلْتُمْ ) ۔

نہ صرف یہ کے تم سست ہوجاتے بلکہ ”تمہارا معاملہ اختلاف تک جاپہنچتا اور ایک گروہ میدان کی طرف جانے کا موافق ہوتا اور دوسرا مخالف ہوتا“( وَلَتَنَازَعْتُمْ فِی الْاٴَمْرِ ) ۔

لیکن خدانے تمھیں اس سستی ، اختلاف کلمہ، نزاع اور جھگڑے سے اس خواب کے ذریعے نجات دی اور محفوظ رکھا کہ جس میں ان کے باطنی رخ کی نشاندہی کی گئی تھی نہ کہ ظاہری صورت کی( وَلَکِنَّ اللهَ سَلَّمَ ) ۔ کیونکہ خدا تم سب کی روحانی حالت اور تمھارے باطن سے آگاہ تھا اور جو کچھ سینوں کے اندر ہے وہ اس سے باخبر ہے (ا( ِٕنَّهُ عَلِیمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ) ۔

بعد والی آیت میں جنگ بدر کے ایک اور مرحلے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔یہ مرحلہ پہلے سے مختلف تھا۔

یہ وہ مرحلہ تھا جب رسول اللہ کے حرارت بخش بیانات کے زیر اثر، خدا کے وعدوں کی طرف توجہ کے باعث اور مختلف واقعات کے مشاہدہ سے مثلاً تشنگی دور کرنے کے لئے بر محل باران کا نزول، میدان جنگ کی ریتلی اور سنگریزوں والی زمین کا سخت ہوجانا۔ ان سب امور نے مل کر مسلمانوں میں ایک نئی روح پھونک دی اور انھیں ایک حقیقی کامیابی کے لئے پر امید کردیا۔ ان جوش اور دلولے کا یہ عالم تھا کہ دشمن کا لشکر کثیر بھی انھیں چھوٹا معلوم ہو رہا تھا۔ اسی لئے فرمایا گیا ہے: اس وقت خدانے آغازِ جنگ میں انھیں تمہاری نگاہ میں کم کردیا( وَإِذْ یُرِیکُمُوهُمْ إِذْ الْتَقَیْتُمْ فِی اٴَعْیُنِکُمْ قَلِیلًا ) ۔ لیکن دشمن چونکہ مسلمانوں کے اس مقام اور جذبے سے آگاہ نہیں تھا اس لئے وہ ان کی ظاہری تعداد ہی کو دیکھتا تھا۔ اسے مسلمان نا چیز دکھائی دیتے تھے یہاں تک کہ اس سے بھی کم معلوم ہوتے تھے جتنے وہ تھے۔ اسی لئے ارشاد ہوتا ہے: اور تمھیں ان کی نگاہ میں کم دکھاتا تھا( وَیُقَلِّلُکُمْ فِی اٴَعْیُنِهِمْ ) یہاں تک کہ ابوجہل کے بارے میں ہے کہ وہ کہتا تھا:

انمآ اصحاب محمد اکلة جزورمحمد کے ساتھی تو صرف ایک اونٹ کی خوراک ہیں ۔

یہ ان کی نہایت کم تعداد کی طرف اشارہ ہے یا اس طرف اشارہ ہے کہ صبح سے لے کر شام تک ان کا کام تمام کریدں گے۔ کیونکہ جنگ بدر سے متعلقہ روایات میں آیا ہے کہ قریش کا لشکر ہر دن دس اونٹ نحر کرتا تھا اور یہ ایک ہزار کے لشکر کی ایک دن کی خوراک تھی۔

بہر حال یہ دونوں امور مسلمانوں کی کامیابی کے لئے بہت موثر تھے کہ ایک طرف سے دشمن ان کی نگاہ میں کم معلوم ہوتے تھے تاکہ اقدامِ جنگ میں انھیں کوئی خوف اور وہم نہ ہو اور دوسری طرف سے مسلمانوں کی تعداد دشمن کو کم دکھائی دیتی تھی تاکہ وہ اس جنگ سے صرفِ نظر نہ کرلیں جس کا انجام ان کی شکست تھی علاوہ ازیں اس سلسلے میں زیادہ طاقت بھی حاصل نہ کریں اور اس گمان میں کہ لشکرِ اسلام کوئی اہمیت نہیں رکھتا، جنگ کے لئے مزید سپلائی حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ لہٰذا قرآن مندرجہ بالا جملوں کے بعد کہتا ہے: یہ سب کچھ اس بناء پر تھا کہ خدا اس امر کو انجام دے جسے ہر حالت میں متحقق ہونا چاہیے( لِیَقْضِیَ اللهُ اٴَمْرًا کَانَ مَفْعُولًا ) ۔

نہ صرف یہ جنگ اس کے مطابق انجام پائی کہ جو خدا چاہتا تھا بلکہ ”اس جہاں میں تمام کام اور تمام چیزیں اس کے حکم اور ارادے کی طرف بازگشت رکھتی ہیں اور اس کا رادہ تمام چیزوں میں نفوذ رکھتا ہے“( وَإِلَی اللهِ تُرْجَعُ الْاٴُمُورُ ) ۔

سورہ آل عمران کی آیہ ۱۳ جو جنگ بدر کے تیسرے مرحلے کی طرف اشارہ ہے میں ہے کہ دشمن آغاز جنگ اور سپاہ اسلام کی کاری ضربیں کہ جو بجلی کی طرح ان کے سروں پر پڑتی تھیں دیکھ کر پریشاں ہوگئے۔ وہ اس وقت یہ محسوس کرنے لگے کہ جیسے لشکر اسلام میں اضافہ ہوگیا ہے یہاں تک کہ انھیں لگتا تھا جیسے دوگنا ہوگیا ہے۔ اس طرح ان کی ہمت منزلزل ہوگئی جو ان کی شکست کا ایک باعث بنی۔

جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ نہ تو ان مندرجہ بالا آیات میں کوئی تضاد ہے اور نہ ہی ان کے اور آل عمران کی تیر ہویں آیت کے درمیان کوئی تضاد ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک آیت جنگ کے ایک ایک مرحلے کی طرف اشارہ ہے۔

پہلا مرحلہ __ میدان جنگ میں پہنچنے سے پہلے کا ہے۔ خواب میں رسول اللہ کو ان کی تعداد کم دکھائی گئی۔

دوسرا مرحلہ__سرزمین بدر میں پہنچنے کے وقت کا ہے۔ مسلمان دشمن کے لشکر کی زیادہ تعداد سے آگاہ ہوئے۔ اس سے بعض افراد خوف اور پریشانی میں مبتلا ہوئے۔

تیسرا مرحلہ__جنگ شروع ہونے کے وقت کا ہے۔ پروردگار کے لطف و کرم سے امید افزاء حالات پیدا ہوگئے اور دشمن کی تعداد انھیں کم معلوم ہونے لگی۔ (غور کیجئے گا)

آیات ۴۵،۴۶،۴۷

۴۵-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِیرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ )

۴۶-( وَاٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَاتَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِیحُکُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ )

۴۷-( وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَاللهُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ )

ترجمہ

۴۵ ۔اے ایمان لانے والو ! جب (میدانِ جنگ میں ) کسی گروہ کا سامنا کرو تو ثابت قدم رہو اور خدا کو زیادہ یاد کرو تاکہ فلاح پا جاؤ۔

۴۶ ۔اور خدا اور اس کے رسول (کے فرمان) کی اطاعت کرو اور نزاع (اور جھگڑا) نہ کرو تاکہ (کمزور اور) سست نہ ہوجاؤ اور تمہاری طاقت (اور شوکت و ہیبت ختم نہ ہوجائے اور صبر و استقامت کا مظاہرہ کرو اور خدا صبر و استقامت کرنے والوں کے ساتھ ہے)۔

۴۷ ۔اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو اپنے علاقے سے، ہوا پرستی، غرور اور لوگوں کے سامنے خود نمائی کے لئے (میدان بدر کی طرف) نکلے ہیں اور وہ (لوگوں کو) راہ خدا سے روکتے تھے (اور آخر کاران کا انجام شکست اور نابودی تھا) اور جو وہ عمل کرتے ہیں خدا اس پر احاطہ (اور آگاہی) رکھتا ہے۔

جہاد کے بارے میں چھ اور احکام

مفسّرین نے لکھا ہے کہ ابوسفیان جب بڑی چالبازی سے قریش کے تجارتی قافلے کو مسلمان کے علاقے سے صحیح سالم لے کر نکل گیا تو اس نے کسی کو لشکر قریش کی طرف بھیجا جو میدانِ بدر کی طرف عازم تھا اور کہلایا کہ اب تمھیں جنگ کرنے کی ضرورت نہیں رہی لہٰذا واپس آجاؤ۔ لیکن ابوجہل خاص غرور تکبر اور تعصب رکھتا تھا۔اس نے قسم کھائی کہ ہم ہرگز نہیں پلٹیں گے جب تک سرزمین بدر میں نہ جائےں (بدر اس واقعہ سے پہلے اجتماع عرب کا ایک مرکز تھا۔ ہر سال یہاں ایک تجارتی بازار لگتا تھا ) ۔ اس نے کہا کہ ہم تین دن تک وہاں وہاں رہیں گے، اونٹ ذبح کریں گے،خوب کھائیں گے، شراب پئیں گے اور گانے بخانے والے گائیں گے بجائیں گے تاکہ ہماری آواز تمام دنیائے عرب کے کانوں تک پہنچنے اور طاقت ثابت ہوجائے۔

لیکن آخر کار انھیں شکست ہوئی۔ شراب نوشی کی بجائے انہوں نے موت کے گھونٹ پیے اور گانے والوں کی بجائے نوحہ کرنے والی عورتیں ان کے غم میں بیٹھیں ۔

مندرجہ بالا آیات بھی اسی امر کی طرف اشارہ کررہی ہیں اور مسلمانوں کو ایسے کاموں سے منع کرتی ہیں اور گذشتہ احکام کے بعد ان آیات میں جہاد کے بارے میں مزید احکام جاری کیے گئے ہیں ۔ زیر نظر آیات میں کل چھ اہم احکام مسلمانوں کو دیئے گئے ہیں :

۱ ۔ پہلے قرآن کہتا ہے: اے ایمان لانے والو! جب دشمنوں کے کسی گروہ کو میدان جنگ میں اپنے سامنے دیکھو تو ثابت قدم رہو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِذَا لَقِیتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا ) ۔ یعنی ایمان کا ایک واضح نشانی ہر معاملے میں خصوصاً دشمنانِ حق سے برسرپیکار ہونے کی صورت میں ثابت قدمی ہے۔

۲ ۔ خدا کو بہت زیادہ یاد کرو تاکہ رستگار اور کامیاب ہوجاؤ( وَاذْکُرُوا اللهَ کَثِیرًا لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ یاد خدا سے مراد صرف لفظی ذکر نہیں ہے بلکہ روح کے اندر خدا کا مشاہدہ ہے اور اس کے بے انتہا علم و قدرت اور وسیع رحمت کو یاد رکھنا ہے۔ خدا کی طرف ایسی توجہ مجاہد سپاہی کی ہمت اور جذبے کو تقویت دیتی ہے اور اس کے سائے میں وہ محسوس کرتا ہے کہ وہ میدانِ جہاد میں اکیلا نہیں ہے۔ اس کی ایک طاقتور پناہ گاہ اور سہارا ہے کے جس کے مقابلے میں کوئی طاقت کھڑی نہیں ہوسکتی اور اگر وہ مارا بھی گیا تو اسے شہادت جیسی عظیم سعادت حاصل ہوگی اور وہ جوارِ رحمت حق میں رستگار ہوگا اور فلاح پائے گا۔ خلاصہ یہ کہ یاد خدا اسے طاقت، اطمینان اور پامردی عطا کرتی ہے۔

علاوہ ازیں خدا کی یاد اور اس کا عشق اس کے دل سے بیوی، اولاد، مال اور مقام سے لگاؤ کو نکال دیتا ہے اور خدا کی طرف توجہ ان چیزوں کو دل سے باہر نکال دیتی ہے جو مقابلے اور جہاد کے معاملے میں سستی اور کمزوری کا باعث بنتی ہیں ۔

چنانچہ امام سجاد زین العابدین علیہ السلام کے صحیفہ کی مشہور دعا جو اسلام کی سرحدوں کے مسلمان محافظین اور مدافعین کے بارے میں ہے، میں آپخدا کی بارگاہ میں یوں عرض کرتے ہیں :

وانسهم عند لقآئهم العدوذکردنیا هم الخداعة و امح عن قلوبهم خطرات المال الفتون و اجعل الجنة نصب اعینهم

پروردگارا! (اپنی یاد کے سائے میں ) فریب دینے والی دنیا کی یادان محافظ سپاہیوں کے دل سے نکال دے اور رزق برق اموال کی طرف سے ان کے دل پھیردے اور بہشت کو ان کی نگاہِ فکر کے سامنے کردے۔(۱)

۳ ۔ جنگ سے متعلق دووسرا اہم ترین مسئلہ رہبری ہے۔ پیشوا اور رہبر کے حکم کی اطاعت کا ہے۔ یہی وہ اہم معاملہ ہے کہ اگر اس پر عمل نہ کیا جاتا تو جنگ بدر کا انجام مسلمانوں کی مکمل شکست کی صورت میں سامنے آتا۔ اسی لئے دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے:خدا اور اس کے رسول کی اطاعت( وَاٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ ) ۔

۴ ۔ اور پراندگی، نزاع اور اختلاف سے پرہیز کرو( وَلَاتَنَازَعُوا ) ۔ کیونکہ دشمن کے سامنے مجاہدین کے ما بین کشمکش, نزاع اور اختلاف کا پہلا اثر جنگ میں سستی، ناتوانی اور کمزوری ہے( فَتَفْشَلُوا ) ۔ اور اس کمزوری کے نتیجے میں تمہاری طاقت، قوت، ہیبت اور عظمت ختم ہوجائے گی( وَتَذْهَبَ رِیحُکُمْ ) ۔

”ریح“ کا معنی ”ہوا“۔ اور یہ جو کہتے ہیں کہ اگر ایک دوسرے سے جھگڑو گے تو سست اور کمزور ہوجاؤ گے اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی، یہ اس معنی کی طرف لطیف اشارہ ہے کہ قوت و عظمت اور تمہاری مراد اور مقصود کے موافق جاری نہیں رہیں گے چونکہ موافق ہواؤں کے چلنے کی وجہ سے کشتیاں منزلِ مقصود کی طرف چلتی رہتی ہیں اور اس زمانے میں جب کہ کشتی کو چلانے کے لئے واحد محرک ہوا ہی تھی، اس لحاظ سے یہ مطلب بہت زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔

علاوہ ازیں ہوا کا چلنا جھنڈوں کے ساتھ جھنڈے قائم رہنے کی نشانی ہے جو کہ قدرت و حکومت کی رمز ہے اور مندرجہ بالا تعبیر اس معنی کے لئے کنایہ ہے۔

۵ ۔ اس کے بعد قرآن دشمن کے مقابلے میں اور سخت حوادث کے مقابلے میں استقامت اور صبر کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے: صبر و استقامت اختیار کرو کہ خدا صبرو استقامت کا مظاہر کرنے والوں کے ساتھ ہے( وَاصْبِرُوا إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ) ۔

پہلے حکم میں ثباتِ قدم کا ذکر ہے اور پانچویں حکم میں صبر و استقامت کا۔ ان میں اس لحاظ سے فرق ہے کہ ثباتِ قدم زیادہ تر جسمانی اور ظاہری پہلو رکھتا ہے جب کہ استقامت اور صبر زیادہ ترنفسیاتی اور باطنی پہلو رکھتا ہے۔

۶ ۔ آخری آیت میں مسلمانوں کو احمقانہ کاموں ، متکبرانہ افعال اور مہمل شورشین کی پیروی سے روکا گیا ہے۔ نیز ابوجہل، اس کے طرزِکار اور اس کے یارو انصار کے انجامِ کار کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان افراد کی طرح نہ ہوجانا جو اپنے علاقے سے غرور، ہوا پرستی اور خود نمائی کے لئے نکلتے تھے

( وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ خَرَجُوا مِنْ دِیَارِهِمْ بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ ) ۔ وہی کہ جن کا ہدف اور مقصد لوگوں کو راہِ خدا سے روکنا تھا( وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔ ان کا ہدف بھی ناپاک تھا اور اس تک پہنچنے کے اسباب بھی ناپاک تھے اور ہم نے دیکھا کہ آخر کار اتنی قوت اور جنگی سازو سامان کے باوجود انھیں شکست ہوئی۔ عیش و عشرت اور طرب و سرور کی بجائے ان میں سے کچھ خاک و خون میں غلطاں ہوئے اور کچھ ان کے غم میں اشکبار ہوئے۔ اور جو کام یہ لوگ انجام دیتے ہیں خدا ان پر محیط ہے اور ان کے اعمال سے باخبر ہے( وَاللهُ بِمَا یَعْمَلُونَ مُحِیطٌ ) ۔

____________________

۱۔ صحیفہ سجادیہ