تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30766
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30766 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۴۸،۴۹،۵۰،۵۱

۴۸-( وَإِذْ زَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَاغَالِبَ لَکُمْ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّی جَارٌ لَکُمْ فَلَمَّا تَرَائَتْ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلیٰ عَقِبَیْهِ وَقَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکُمْ إِنِّی اٴَریٰ مَا لَاتَرَوْنَ إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ ) -

۴۹-( إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَّ هٰؤُلَاءِ دِینُهُمْ وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) -

۵۰-( وَلَوْ تَریٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَاٴَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ ) -

۵۱-( ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیکُمْ وَاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ ) -

ترجمہ

۴۸ ۔ اور وہ وقت (یاد کرو) جب شیطان نے ان (مشرکین) کے اعمال کو ان کی نظر میں مزین کیا اور کہا کہ لوگوں میں سے کوئی بھی تم پر کامیاب نہیں ہوگا اور میں تمہارا ہمسایہ (اور تمھیں پناہ دینے والا) ہوں لیکن جب اس نے دوگروہوں (مجاہد مسلمانوں اور ان کے حامی فرشتوں ) کو دیکھا تو پیچھے کی طرف پلٹا اور کہا کہ میں تم (دوستوں اور پیرو کاروں ) سے بیزار ہوں ۔ میں ایسی چیز دیکھ رہا ہوں جسے تم نہیں دیکھتے۔ میں خدا سے ڈرتا ہوں اور خدا شدید العقاب ہے۔

۴۹ ۔جس وقت منافقین اور وہ کہ جن کے دلوں میں بیماری تھی کہنے لگے :(مسلمانو ں کے )اس گروہ کو ان کے دین نے مغرورکیا(اورد ھوکا دیا )ہے اور جو شخص خدا پر توکل کرے (کا میاب ہو گاکہ )خدا عزیز و حکیم ہے۔

۵۰ ۔ اور اگر کفار کو دیکھے کہ جب (موت کے) فرشتے ان کی روح نکال رہے ہوتے ہیں اور ان کے چہرے اور پشت پر مار ہے ہوتے ہیں اور (کہتے ہیں کہ) چکھو جلانے والے عذاب کو (ان کی حالت پر تجھے افسوس ہوگا)۔

۵۱ ۔ یہ ان کاموں کے بدلے میں ہے کہ جو آگے بھیج چکے ہو اور خدا اپنے بندوں پر کبھی ظلم و ستم روا نہیں رکھتا۔

مشرک، منافق اور شیطانی وسوسے

ان آیات میں گذشتہ آیات کی مناسبت سے جنگ بدر کے ایک اور منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے یا پھر یہ آیات گذشتہ آخری آیت کی مناسب سے ہیں کہ جس میں جنگ بدر میں مشرکین کے شیطانی عمل کے بارے میں گفتگو تھی۔

جیسے مرادان حق کو راہ حق میں پروردگار اور اس کے فرشتوں کی تائید حاصل ہوتی ہے اسی طرح باطل کی طرف میلان رکھنے والے اور بداندیش لوگ شیطانی وسوسوں اور گمراہ کن طاغوتی سائبان کے نیچے رہتے ہیں ۔

بعض گذشتہ آیات میں مجاہدین بدر کے لئے فرشتوں کی حمایت کی کیفیت اور اس کی تفسیر بیان کی جاچکی ہے۔ یہاں زیر بحث پہلی آیت میں مشرکین کے لئے شیطان کی بد انجام حمایت کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے۔ پہلے ارشاد ہوتا ہے: اور اس دن شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے سامنے آراستہ کیا اور زینت دی تاکہ وہ اپنی کار گردگی پر خوش، پُر جوش اور پُراُمید ہوں( وَإِذْ زَیَّنَ لَهُمْ الشَّیْطَانُ اٴَعْمَالَهُمْ ) ۔

شیطان کی طرف سے زینت دینا اور آراستہ کرنا اس طرح سے ہے کہ وہ انسان کو شہوات، ہوسنا کیوں اور قبیح و ناپسندیدہ صفات کی تحریک دیتا ہے اور اس طریق سے انسان کے عمل خیال کرتا ہے ”اور انھیں اس طرح سمجھاتا ہے کہ تمہاری اتنی افرادی قوت اور جنگی وسائل کی وجہ سے لوگوں میں سے کوئی تم پر غالب نہیں آسکتا اور تم نا قابلِ شکست فوج ہو“( وَقَالَ لَاغَالِبَ لَکُمْ الْیَوْمَ مِنَ النَّاسِ ) ۔ ”ہلاوہ ازیں میں تمہارا ہمسایہ ہوں اور تمھارے پاس رہتا ہوں “ اور ایک وفادار اور ہمدرد ہمسائے کی طرح ضرورت کے وقت کسی قسم کی حمایت سے دریغ نہیں کروں گا ( وَإِنِّی جَارٌ لَکُمْ)۔

اس جملے کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ لفظ ”جار“ سے مراد ہمسایہ نہیں ہے بلکہ ایسا شخص مراد ہے جو امان اور پناہ دیتا ہے کیونکہ عربوں کی یہ عادت تھی کہ طاقتور افراد اور قبائل بوقتِ ضرورت اپنے دوستوں کو اپنی پناہ میں لے لیتے تھے اور اس موقع پر اپنے تمام وسائل کے ساتھ اس کا دفاع کرتے تھے۔ شیطان نے اپنے مشرک دوستوں کو امان نامہ دیا۔

لیکن جب دونوں لشکر ایک دوسرے سے ٹکڑائے اور فرشتے لشکر توحید کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے اور اس نے مسلمانوں کی قوت ایمان اور پامردی کا مشاہدہ کیا تو الٹے پاؤں لوٹ گیا اور اس نے پکار کر کہا کہ میں تم سے (یعنی مشرکین سے) بیزار ہوں( فَلَمَّا تَرَائَتْ الْفِئَتَانِ نَکَصَ عَلیٰ عَقِبَیْهِ وَقَالَ إِنِّی بَرِیءٌ مِنْکُمْ ) ۔اس نے اپنے وحشت زدہ فرار کی دودلیلیں پیش کیں پہلی یہ کہ اس نے کہا: میں ایسی چیز دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھ رہے( إِنِّی اٴَریٰ مَا لَاتَرَوْنَ ) ۔ میں مسلمانوں کے ان پر جلال با ایمان چہروں پر کامیابی کے واضح آثار دیکھ رہا ہوں ، ان میں الٰہی حمایت، غیبی امداد اور فرشتوں کی کمک کے آثار مشاہدہ کررہا ہوں اور اصولی طور پر جہاں پروردگار کی خاص مدد اور غیبی قوتوں کی کمک کارِ فرما ہو میں وہاں سے فرار ہی اختیار کروں گا۔

دو سری دلیل پیش کرتے ہوئے اس نے کہا کہ ”میں اس منظر میں پروردگار کی دردناک سزا سے ڈرتا ہوں ‘ اور اسے اپنے نزدیک دیکھتا ہوں( إِنِّی اٴَخَافُ اللهَ ) ۔

خدا کی سزا کوئی معمولی سی بات نہیں کہ جس کا سامنا کیا جاسکے بلکہ ”اللہ کی سزا شدید اور سخت ہے“ (وَاللهُ شَدِیدُ الْعِقَابِ)۔

شیطان وسوسے ڈالتا ہے یا بہروپ اختیار کرتا ہے؟

اس سلسلے میں جنگ بدر کے موقع پر شیطان نے مشرکین کے دل میں کیسے نفوذ کیا اور اس نے یہ گفتگو کیونکر کی، متقدمین اور موجودہ مفسّرین میں اختلاف ہے اور تقریباً دو نظریے موجود ہیں :

۱ ۔ بعض کا عقیدہ ہے کہ یہ کام باطنی وسوسوں کی صورت میں انجام پایا۔ شیطان نے اپنے وسوسوں سے اور مشرکین کی شیطانی، منفی اور قبیح صفات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کے اعمال ان کی نظر میں پسندیدہ بنادیئے اور انھیں یہ اعتماد دلایا کہ تمھارے پاس ایسی قوت ہے جسے شکست نہیں ہوسکتی اور یوں ایک طرح کی باطنی پناہ گاہ اور سہارا ان کے لئے پیدا کردیا۔

دوسری طرف مسلمانوں کو شدید جہاد اور پر اعجاز واقعات کے سبب کامیابی حاصل ہوئی اور جہاد اور انہی معجزانہ واقعات سے مشرکین کے دلوں سے ان وسوسوں کے آثار ختم ہوگئے اور انہوں نے محسوس کیا کہ شکست ان کے سامنے کھڑی ہے اور ان کے لئے کوئی سہارا اور امان نہیں بلکہ نہایت سخت عذاب اور سزا ان کے انتظار میں ہے۔

۲ ۔ دوسرا نظریہ یہ ہے کہ شیطان انسانی شکل میں مجسّم ہوا اور ان کے سامنے ظاہر ہوا۔ ایک روایت جو بہت سی کتب میں نقل ہوئی ہے، میں ہے:

قریش نے جب میدانِ بدر کی طرف جانے کا پختہ ارادہ کرلیا تو وہ بنی کنانہ کے حملے سے ڈرتے تھے کیونکہ ان کے ساتھ ان کا پہلے ہی سے جھگڑا تھا۔ اس موقع پر ابلیس سراقہ بن مالک کی شکل میں ان کے پاس آیا۔ سراقہ بنی کنایہ کا ایک جانا پہنچانا آدمی تھا۔ اس نے انھیں اطمینان دلایا کہ میں تم سے موافق ہوں اور تمھارے ساتھ ہم آہنگ اور کوئی شخص تم پر غالب نہیں ہوگا اور اس نے میدانِ بدر میں شرکت کی۔ لیکن جب اس نے ملائکہ کو نازل ہوتے دیکھا تو پیچھے ہٹ آیا اور بھاگ کھڑا ہوا۔ فوج بھی جو مسلمانوں سے سخت ضربیں کھاچکی تھی ابلیس کی حالت دیکھ کر بھاگ کھڑی ہوئی۔ جب وہ مکہ میں پلٹ کر آئے تو کہنے لگے کہ سراقہ بن مالک قریش کے فرار کا سبب بنا ہے۔ جب یہ بات سراقہ تک پہنچی تو اس نے قسم کھائی کہ مجھے اس بات کی قطعاً کوئی خبر نہیں ہے۔ جب انہوں نے میدانِ بدر میں اس کی مختلف نشانیاں اور کیفیتیں یاد دلانا چاہئیں تو اس نے سب کا انکار کیا اور قسم کھائی کہ ایسی حتماً کوئی بات نہیں ہوئی اور اس نے کہا کہ میں مکہ سے باہر گیا ہی نہیں ۔ اس طرح سے معلوم ہوا کہ وہ شخص سراقہ بن مالک نہیں تھا۔(۱)

پہلی تفسیر کے طرفداروں کی دلیل یہ ہے کہ ابلیس انسانی شکل میں ظاہر نہیں ہوسکتا جب کہ دوسری تفسیر کے طرفدار کہتے ہیں کہ اس کے محال ہونے پر کوئی دلیل میّسر نہیں ہے خصوصاً جب کہ اس کی نظیر یہ ہے کہ پیغمبر اکرم کے ہجرت کے موقع پر ایک بوڑھا نجدی لوگوں کے بھیس میں دارالندوہ میں آیا تھا۔ علاوہ ازیں ظاہری تعبیرات اور باتیں جو مندرجہ بالا آیت میں آئی ہیں ابلیس کے مجسم ہونے کے ساتھ زیادہ مطابقت رکھتی ہیں ۔

بہر حال مندرجہ بالا آیت نشاندہی کرتی ہے کہ خاص طور پر جب کوئی گروہ حق و باطل کی راہ پر گامزن ہو تو خدائی قوتوں اور امداد کا یا شیطانی قوتوں اور امداد کا ایک سلسلہ فعالیت کرتا ہے اور یہ قوتیں اور امداد مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتی ہیں ۔ راہ خدا پر چلنے والوں کو یہ امر ہمیشہ نظر میں رکھنا چاہیے۔

بعد والی آیت میں معرکہ بدر میں شریک مشرکوں اور بت پرستوں کی فوج کے طرفداروں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: اس وقت منافقین اور وہ کہ جن کے دل میں بیماری تھی کہتے تھے کہ یہ مسلمان اپنے دین پر مغرور ہوگئے ہیں اور اس تھوڑی سی تعداد اور معمولی اسلحہ کے ساتھ انہوں نے کامیابی کے گمان میں یاراہ خدا میں شہادت اور حیات جاوید کے خیال میں اس خطرناک مہم میں قدم رکھا ہے کہ جس کا انجام موت ہے

( إِذْ یَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ غَرَّ هٰؤُلَاءِ دِینُهُمْ ) ۔

لیکن وہ ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے اور الطاف الٰہی اور اس کی غیبی امداد سے آگاہی نہ رکھنے کے سبب اس حقیقت سے باخبر نہیں ہیں کہ ”جو شخص خدا پر توکل کرے اور اپنی تمام قوتوں کو مجتمع کرنے کے بعد خود کو اس کے سپرد کردے تو خدا اس کی مدد کرے گا کیونکہ خدا قادرو قوی ہے کہ کوئی شخص اس کے مقابلے میں کھڑا ہونے کا یار انھیں رکھتا اور وہ ایسا حکیم ہے کہ جس سے ممکن نہیں کہ وہ اپنے دوستوں اور اپنی راہ میں جہاد کرنے والوں کو تمہا چھوڑدے“( وَمَنْ یَتَوَکَّلْ عَلَی اللهِ فَإِنَّ اللهَ عَزِیزٌ حَکِیمٌ ) ۔

اس سلسلے میں کہ ”منافقین“ اور ”الذین فی قلو بہم مرض“ سے کون سے افراد مراد ہیں ، مفّسرین میں بہت اختلاف ہے لیکن بعید نہیں کہ دونوں عبارتیں منافقین مدینہ کی طرف اشارہ ہوں کیونکہ قرآن مجید منافقین کے بارے میں جن کی تفصیلی حالت سورہ بقرہ کی ابتدائے میں آئی ہے کہتا ہے:

( فِی قُلُوبِهِم مَرَضٌ فَزَادَهُمُ اللّٰه مرضاً )

ان کے دلوں میں بیماری ہے۔ خدا بھی ان کی بیماری میں اضافہ کرتا ہے۔ (بقرہ۔ ۱۰)

یا پھر یہ وہ منافق ہیں جو مکہ میں ظاہراً ایمان لائے تھے لیکن انہوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کرنے سے روگردانی کی تھی اور میدان بدر میں مشرکوں کی صفوں سے وابستہ تھے اور جب انہوں نے لشکر کفر کے مقابلے میں مسلمانوں کی کم تعداد دیکھی تو انھیں تعجب ہوا اور وہ کہنے لگے کہ ان مسلمانوں نے اپنے دین و آئین سے دھوکا کھایا ہے اور جبھی اس میدان میں قدم رکھا ہے۔

بہر حال خدا ان منافقین کی باطنی کیفیت کی خبر دیتا ہے اور ان کے ہم فکر لوگوں کی غلطی واضح کرتا ہے۔

اگلی آیت کفار کی موت اور ان کی بدبخت زندگی کے اختتام کی منظر کشی کرتی ہے۔ پہلے روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: اگر تم کفار کی عبرت انگیز کیفیت کو دیکھتے کہ جب موت کے فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر مارتے تھے اور انھیں کہتے تھے کہ جلانے والے عذاب کا مزہ چکھو، تو ان کے رقت آمیز انجام سے آگاہ ہوتے( وَلَوْ تَریٰ إِذْ یَتَوَفَّی الَّذِینَ کَفَرُوا الْمَلَائِکَةُ یَضْرِبُونَ وُجُوهَهُمْ وَاٴَدْبَارَهُمْ وَذُوقُوا عَذَابَ الْحَرِیقِ ) ۔

اگر چہ ”ترٰی“ فعل مضارع ہے لیکن ”لو“ کے ہونے کی وجہ سے ماضی کا معنی دتا ہے۔ اس بناء پر مندرجہ بالا آیت کفار کی گذشتہ کیفیت اور ان کی دردناک موت کی طرف اشارہ ہے۔اس لئے بعض مفّسرین اسے میدان بدر میں فرشتوں کے ہاتھوں ان کی موت کی طرف اشارہ سمجھتے ہیں اور وہ اس سلسلے میں کچھ ایسی روایات بھی نقل کرتے ہیں جن کی تائید نہیں ہوئی۔ لیکن جیسا کہ ہم بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ ایسے قرائن موجود ہیں کہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں سے میدان بدر کی جنگ میں براہِ راست دخل نہیں دیا لہٰذا مذکورہ آیت میں موت کے فرشتوں اور قبضِ روح کے وقت اور اس دردناک سزا کی طرف اشارہ ہے جو دشمنان حق اور بے ایمان گنہ گاروں کو اس وقت ہوگی ۔”عذاب الحریق “ روزِ قیامت کی سزا کی طرف اشارہ ہے کیونکہ قرآن کی دوسری آیات میں مثلاً سورہ حج کی آیہ ۹ اور ۲۲ اور بروج کی آیہ ۱۰ میں بھی یہی معنی آیا ہے۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے: ان سے کہا جائے گا کہ یہ دردناک سزا جو اس وقت چکھ رہے ہو ان امور کی وجہ سے تمھارے ہاتھوں نے اس سے پہلے فراہم کیے ہیں اور اس جہان میں بھیجے ہیں( ذٰلِکَ بِمَا قَدَّمَتْ اٴَیْدِیکُمْ ) ۔

”ہاتھ“ کی تعبیر اس بناء پر ہے کہ انسان عام طور پر اپنے اعمال ہاتھ کی مدد سے انجام دیتا ہے ورنہ مندرجہ بالا آیت تمام جسمانی اور روحانی اعمال پر محیط ہے۔

آیت کے آخر میں مزید ارشاد ہوتا ہے: ”خدا کبھی بھی اپنے بندوں پر ظلم و ستم روا نہیں رکھتا“ اور اس جہان میں یا اس جہان میں جو بھی سزا یا عذاب انھیں دامن گیر ہوگا وہ خود انہی کی طرف سے ہے( وَاٴَنَّ اللهَ لَیْسَ بِظَلاَّمٍ لِلْعَبِیدِ ) ۔

لفظ ”ظلام“ مبالغے کا صیفہ ہے۔ اس کا معنی ہے ”بہت ظلم کرنے والا“۔

اس جگہ اور دوسری جگہوں پر اس لفظ کے استعمال کی وجہ اور اسی طرح ظلم سے متعلق دیگر مباحث ہم نے تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ ۱۴۶ (اردو ترجمہ) پر ذکر کیے ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر محمع البیان، نور الثقلین اور دیگر تفاسیر، مذکورہ آیت کے ذیل میں ۔

آیات ۵۲،۵۳،۵۴

۵۲-( کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ کَفَرُوا بِآیَاتِ اللهِ فَاٴَخَذَهُمْ اللهُ بِذُنُوبِهِمْ إِنَّ اللهَ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ ) -

۵۳-( ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِعْمَةً اٴَنْعَمَهَا عَلیٰ قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ وَاٴَنَّ اللهَ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) -

۵۴-( کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ کَذَّبُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ فَاٴَهْلَکْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ وَاٴَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَکُلٌّ کَانُوا ظَالِمِینَ ) -

ترجمہ

۵۲ ۔ (مشرکین کے اس گروہ کی حالت) فرعون کے رشتہ داروں اور ان سے پہلے والوں کی سی ہے۔ انہوں نے آیاتِ الٰہی کا انکار کیا۔ خدانے بھی انھیں ان کے گناہوں کی وجہ سے سزادی۔ اللہ قوی ہے اور اس کی سزا سخت ہے۔

۵۳ ۔ یہ اس بناء پر ہے کہ خدا جو نعمت بھی کسی گروہ کو دیتا ہے اسے متغیّر نہیں کرتا مگر یہ گروہ خود اپنے آپ کو متغیّر کریں اور خدا سننے والا اور جاننے والا ہے۔

۵۴ ۔ اور یہ (بالکل) فرعونیون اور ان سے قبل کے لوگوں کی طرح ہیں کہ جنہوں نے اپنے پروردگار کی آیات کو جھٹلایا اور ہم نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں ہلاک کیا اور فرعونیوں کو غرق کیا اور یہ سب ظالم (اور ستمگر) گروہ تھے۔

متغیّر نہ ہونے والی ایک سنت

ان آیات میں دنیا کی اقوام و ملل کے بارے میں خدا تعالیٰ کی ایک دائمی سنت کی طرف اشارہ ہوا ہے تاکہ کہیں یہ خیال نہ ہو کہ جو کچھ میدان بدر مشرکین کے بُرےانجام کے بارے میں بیان ہوا ہے ایک استثنائی اور اختصاصی حکم تھا بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے اعمال گذشتہ زمانے میں جس سے سرزد ہوئے یا آئندہ جس سے سرزد ہوں گے ایسے ہی نتائج کے حامل ہوئے اور ایسے ہیں نتائج کے حامل ہوں ں گے۔

پہلے قرآن کہتا ہے: مشرکین کے حالات کی کیفیت فرعون کے خاندان اور ان سے پہلے کے لوگوں جیسی ہے( کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) ۔ وہی کہ جنھوں نے آیاتِ خدا کا انکار کیا اور خدا نے انھیں ان کے گناہ کی وجہ سے پکڑا( کَفَرُوا بِآیَاتِ اللهِ فَاٴَخَذَهُمْ اللهُ بِذُنُوبِهِمْ ) ۔ کیونکہ خدا قوی اور صاحبِ قدرت ہے اور اس کا عذاب بھی شدید اور سخت ہے( إِنَّ اللهَ قَوِیٌّ شَدِیدُ الْعِقَابِ ) ۔

اس بناء پر صرف قریش اور مکہ کے مشرکین اور بت پرست ہی نہ تھے جوآیات الٰہی کا انکار ، حق کے مقابلے میں ہٹ دھرمی اور انسانیت کے سچّے رہبروں سے الجھنے کی وجہ سے اپنے گناہوں کے عذاب میں گرفتار ہوئے بلکہ یہ ایک دائمی قانون ہے جو فرعونیوں جیسی طاقتور قوموں اور بہت کمزور قوموں پر بھی محیط ہے۔

اس کے بعد اس مسئلے کی بنیاد کا ذکر کرکے اسے زیادہ واضح کیا گیا ہے، ارشادہوتا ہے: یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ خدا کسی قوم وملت پر جو نعمت اور عنایت کرتا ہے اسے کبھی دگرگوں نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ جمعیت اور قوم خوددگرگوں اور متغیر ہوجائے( ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِعْمَةً اٴَنْعَمَهَا عَلیٰ قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ ) ۔

بالفاظ دیگر خدا کا بے کنار فیض وکرم عمومی اور سب کے لئے ہوتا ہے لیکن وہ لوگوں کی قیادت اور اہلیت کا مناسبت سے ان تک پہنچتا ہے، ابتداء میں خدا اپنی مادی اور روحانی نعمتیں اقوامِ عالم کے شاملِ حال کردیتا ہے اب اگر وہ خدائی نعمتوں کو اپنے تکامل اور ارتقاء کا ذریعہ بنائیں اور راہِ حق میں ان سے مدد حاصل کریں اور ان سے صحیح استفادہ کی صورت میں ان کے لئے شکر ادا کریں تو وہ اپنی نعمتوں کوپائدار کرتا ہے بلکہ اس میں اضافہ کرتا ہے لیکن یہ عنایات اور نعمات اگر طغیان وسرکشی، ظلم وبیداد گری، ترجیح وتبعیض، ناشکری وغرور اور آلودگی وگناہ کا سبب بنیں تو اس صورت میں وہ یہ نعمتیں واپس لے لیتا ہے یا انھیں بلا ومصیبت میں بدل دیتا ہے۔ لہٰذا جو بھی تبدیلیاں واقع ہوتی ہیں در اصل ہماری وجہ سے ہوتی ہیں نعمات الٰہی تو زوال پذیر نہیں ہیں ۔

اس ہدف کے بعد قرآن دوبارہ فرعونیوں اور ان سے پہلے کی طاقتور اقوام کے ایک گروہ کی حالت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے: نعمتوں کے سلب ہونے اور سخت قسم کے عذابوں کے چنگل میں گرفتار ہونے سے متعلق بت پرستوں کی کیفیت فرعونیوں اور ان سے پہلے کی قوموں جیسی ہے( کَدَاٴْبِ آلِ فِرْعَوْنَ وَالَّذِینَ مِنْ قَبْلِهِمْ ) ۔ ”انھوں نے بھی پروردگار کی ایات کی تکذیب کی“ اور انھیں پاوں تلے روندا جبکہ یہ آیات ان کی ہدایت، تقویت اور سعادت کے لئے نازل ہوئی تھیں( کَذَّبُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ ) ۔ ”ہم نے بھی ان کے گناہوں کی وجہ سے انھیں ہلاک کردیا کردیا“( فَاٴَهْلَکْنَاهُمْ بِذُنُوبِهِمْ ) ۔ ”اور فرعونیوں کو ہم نے دریا کی موجوں میں غرق کردیا“( وَاٴَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ ) ۔ ”اور یہ قومیں اور ان کے افراد ظالم وستمگر تھے، اپنے لئے بھی ظالم تھے اور دوسروں کے لئے بھی( وَکُلٌّ کَانُوا ظَالِمِینَ ) ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اتنے مختصر سے فاصلے میں ”کداٴب اٰل فرعون ----“ کامختصر سے طرق کے ساتھ تکرار کیوں ہوا ہے؟

اس سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہیے کہ اگر چہ حساس اور زندہ میں تکرار اور تاکید ایک اصولِ بلاغت ہے جو فصحاء اور بلغاء کی گفتگو میں ہمیشہ دکھائی دیتا ہے لیکن مندرجہ بالا آیات میں ایک اہم فرق بھی موجود ہے جو عبارت کو صورتِ تکرار سے خارج کردیتا ہے اور وہ یہ کہ پہلی آیت آیات حق کے انکار کے بدلے میں خدائی سزاؤں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کے بعد ان کی اس حالت کو فرعونیوں اور ان سے پہلے کی قوموں سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جب کہ دوسری آیت میں خداوند تعالیٰ کی نعمتوں اور عنایتوں کے متغیّر ہونے یعنی کامیابیوں ، قدرتوں اور دیگر افتخارات و اعزازات کے خاتمے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اس کے بعد ان کی حالت کو فرعونیوں اور گذشتہ اقوام سے تشبیہ دی گئی ہے۔

در حقیقت ایک مقام پر گفتگو نعمتوں کے سلب ہونے اور اس سے پیدا ہونے والی سزا کے بارے میں ہے اور دوسرے مقام پر نعمتوں کے متغیّر اور دگرگون ہونے سے متعلق بحث ہے۔

دو اہم نکات

ان آیات میں دو اہم نکات کی طرف اشارہ ہوا ہے جو ہر لحاظ سے توجہ طلب ہیں :

۱ ۔ قوموں کی زندگی اور موت کے عوامل:

تاریخ میں طرح طرح کی قوموں اور ملتوں کا تذکرہ ملتا ہے۔ کوئی قوم ترقی کے مراحل تیزی سے طے کر گئی کوئی قوم پستی کے سب سے نچلے مرحلے تک پہنچ گئی۔ کوئی گروہ جو ایک دن پراگندہ، درماندہ اور شکست خوردہ تھا دوسرے دن طاقتور اور سربلند تھا اور کوئی گروہ اس کے برعکس کبھی فخر و مباہات کے اعلیٰ ترین مرحلے پر تھا لیکن ذلت و خواری کے گڑھے میں جاگرا۔

بہت سے ایسے اشخاص ہیں جو تاریخ کے مختلف مناظر کے سامنے سے بڑی آسانی سے گزر گئے ہیں اور اس میں انہوں نے ذرّہ بھر غور و فکر نہیں کیا۔ بہت سے لوگ قوموں کی موت و حیات کے اصلی عوامل اور علل کا مطالعہ کرنے کی بجائے کم اہمیت عوامل جن کا کوئی بنیادی کردار نہیں ہوتا یا موہوم، بے ہودہ اور خیالی عوامل ہی کے در پے ہوجاتے ہیں اور سب کچھ انہی کے ذمہ ڈال دیتے ہیں ۔

بہت سے لوگ اپنی بدبختی کا تمام تر ذمہ دار غیروں کی بُری سیاست کو ٹھہراتے ہیں اور کچھ لوگ ان تمام حوادث کو افلاک کی موافق یا مخالف گردش کی نتیجہ سمجھتے ہیں ۔ ایک گروہ قضاؤ قدر کے تحریف شدہ مفہوم سے وابستہ ہے اور قسمت و تقدیر اور اتفاقات کو ہی تمام تلخ و شیریں حوادث کی وجہ قرار دیتا ہے۔

یہ سب کچھ اس بناء پر ہے کہ لوگ حقیقی علل کے ادراک سے گھبراتے اور پریشان ہوتے ہیں ۔

مندرجہ بالا آیات میں قرآن درد اور دوا، کامیابی اور شکست کے عوامل کے اصلی نقطہ پر انگشت رکھتا ہے اور کہتا ہے کہ اصل عامل کی تلاش کے لئے آسمانوں اور زمینوں کو چھان مارنا ضروری نہیں اور نہ اس کے لئے موہوم اور خیالی عوامل کے پیچھے جانے کی ضرورت ہے بلکہ اتنا ہی کافی ہے اپنے ہی وجود، فکر، ہمت، اخلاق اور اجتماعی نظام کی جستجو کی جائے اور اس پر نظر کی جائے۔ جو کچھ ہے اسی جگہ ہے۔

جن اقوام و ملل نے اپنی فکر و نظر کو استعمال کیا، ایک دوسرے کی طرف اتحاد،اتفاق اور برادری کا ہاتھ بڑھایا اور ان کی سعی و کوشش پہیم تھی اور ان کا غزم و ارادہ قوی تھا، ضرورت کے وقت انھوں نے جانبازی اور فداکاری سے کام لیا اور قربانی پیش کی وہ قطعاً اور یقیناً کامیاب وکامران ہوئیں دوسری طرف جب سعی وکوشش کی جگہ رکود وجمود اور سستی وکاہلی نے لے لی، آگاہی کے بجائے وہ بے خبری میں جاپڑے ،عزم وارادہ کے بجائے وہ تردد وبے دلی کا شکار ہوگئے، ان میں بزدلی نے بہادری کی، نفاق نے اتحاد کی تن پروی نے فداکاری کی اور ریاکاری نے خلوص وایمان کی جگہ لے لی تو ان میں سقوط، شکست اور بدحالی کا دُور شروع ہوگیا، درحقیقت ”ذٰلِکَ بِاٴَنَّ اللهَ لَمْ یَکُ مُغَیِّرًا نِعْمَةً اٴَنْعَمَهَا عَلیٰ قَوْمٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاٴَنفُسِهِمْ “ میں انسانوں کی زندگی کا بلند ترین قانون بیان کیا گیا ہے، اس سے واضح ہوتا ہے کہ مکتبِ قرآن معاشروں کی زندگی کے لئے اصیل ترین اور روشن ترین مکتب ہے، یہاں تک کہ ان لوگوں کو جو ایٹم اور خلاء کی دنیا میں داخل ہوکر انسان کو بھول چکے ہیں اور اقتصادی مسائل اور سازو سامان کی تولید کو گردشِ تاریخ کا سبب سمجھتے ہیں جو کہ خود انسان کی پیداوار ہیں ، انھیں بتادیا ہے کہ تم سخت اشتباہ میں ہو، تم نے معلول کو لے لیا ہے اور اصلی علت کو جو خود انسان اور انسانی تغیرات ہیں انھیں فراموش کردیا ہے، تم شاخوں سے چمٹے ہوئے ہو بلکہ ایک ہی شاخ سے اور جڑکو تم نے فراموش کردیا ہے۔

دُور نہ جائیں تاریخ اسلام یا زیادہ صحیح لفظوں میں مسلمانوں کی تاریخ ابتداء میں روشن کامیابیوں اور اس کے بعد تلخ اور دردناک شکستوں کی شاہد ہے۔

پہلی صدیوں میں اسلام بڑی تیزی سے دنیا میں پیشرفت کرتا رہا اور ہر جگہ علم وآزادی کا نور نچھاور کرتا رہا اور اقوامِ عالم کے سروں پر علو دانش کا سایہ کرتا رہا، اس دور میں اسلام قوت آفرین، قدرت بخش، ہلادینے والا اور آباد کرنے والا تھا، ان سے آنکھوں کو خیرہ کردینے والے تمدن کو وجود بخشا، جس کی مثال گذشتہ تاریخ میں نہیں ملتی، لیکن چند صدیوں سے زیادہ عرص نہ گزرا تھا کہ اس کا جوش وخروش ٹھنڈا پڑگیا، تفرقہ وانتشار، پراگندگی، کنارہ کشی، گوشہ نشینی، ضعف وناتوانی اور اس کے نتیجے میں پسماندگی اور شکست نے ان تمام کامیابیوں اور ترقیوں کی جگہ لے لی ، اب حالت یہ ہے کہ دنیا کے مسلمان بنیادی ضرورتوں کے لئے دوسرے کے دستِ نگر ہیں اور مجبور ہیں کہ علم ودانش کے حصول کے لئے اپنی اولاد کو دیار غیر بھیجیں جبکہ ایک وقت وہ تھا کہ مسلمانوں کی یونیورسٹیاں بلند ترین سمجھی جاتی تھیں اور دنیا کی عظیم ترین یونیورسٹیوں کی حیثیت سے اپنے اور بیگانے تمام طالب علموں کے لئے مرکز تھیں ، معاملہ یہاں تک آپہنچا ہے کہ اب نہ صرف یہ کہ مسلمان علم وصنعت اور ٹکنالوجی برآمد نہیں کرتے بلکہ ابتدائی غذائی مواد بھی باہر کے ممالک سے درآمد کرتے ہیں ۔

آج کی سرزمین جو ایک دن مسلمانوں کی عظمت کا مرکز تھی، یہاں تک کہ دوسو سال تک صلیبی فوجیں جس کے لئے لڑتی رہیں اور انھوں نے کئی ملین مقتول اور زخمی دیئے لیکن اسلام کے غازیوں کے ہاتھ سے اسے نہ سکیں ، آج کے مسلمان بڑے آرام سے چھ دن میں ہاتھ سے دے بیٹھے ہیں جبکہ اب اس کی ایک بالشت بھی دشمن سے واپس لینے کے لئے مہینوں اور سالوں تک لڑائی ہوگی اور اس جنگ کا خبر نہیں کیا انجام ہوگا۔

کیا خدا کا یہ وعدہ نہیں کہ:( وَکَانَ حَقًّا عَلَیْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِینَ )

مومنین کی مدد کرنا ہمارے ذمہ ہے۔ (روم/ ۴۷)

کیااس وعدے کی خلاف ورزی ہورہی ہے؟

اور کیا قرآن نہیں کہتا کہ:( وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِینَ )

عزت وسربلندی الله، اس کے رسول اور مومنین کے لئے ہے۔ (منافقون/ ۸)

کیا یہ آیت منسوخ ہوگئی؟

اسی طرح قرآن کہتا ہے:( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ )

گذشتہ کتب میں ہم نے لکھ دیا ہے کہ زمین ہمارے صالح بندوں کا ورثہ ہے۔ (انبیاء/ ۱۰۵)

کیا یہ حکم تبدیل ہوگیا ہے؟

کیا (معاذ الله) خدا اپنے وعدوں کو پورا کرنے سے عاجز ہے یا و اپنے وعدوں کو بھول چکا ہے یا انھیں تبدیل کردیا ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے ت پھر وہ عظمت، سربلندی اور افتخار کیوں ختم ہوگیا ہے؟

قرآن مجید مندرجہ بالا مختصر سی آیت میں ان تمام سوالوں ان تمام سوالات کا اور ایسے سینکڑوں سوالات کا ایک ہی جواب دیتا ہے اور وہ یہ ہے کہ اپنے دل کی گہرائیوں میں جھانک دیکھو اور اپنے معاشرے میں نگاہ دوڑاو تو تم دیکھ لوگے کہ تغیرات اور تبدیلیاں خود تمھاری طرف سے شورع ہوتی ہیں ، خدا کا لطف ، کرم اور رحمت تو سب کے لئے وسیع ہے، خود تمہی اہلیت اور صلاحیت کھوبیٹھے ہو اور ایسے غم انگیز دنوں تک آپہنچے ہو۔

یہ آیت صرف گذشتہ زمانے کی بات نہیں کرتی کہ ہم کہیں کہ گذشتہ زمانہ تمام تلخیوں اور شیرنیوں کے ساتھ گزر گیا ہے اور اب پلٹ کر نہیں آئے گا اوراس کے متعلق بات کرنا فضول ہے، بلکہ آج اور آئندہ کے زمانے کی بات کرتی ہے کہ اگر خدا کی طرف پھر لوٹ او اور ایمان کے ستون محکم کرلو، اپنے افکار کو بیدار کرلو، اپنے وعدوں اور ذمہ داریوں کو یاد رکھو، ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لو، اپنے پاوں پر کھڑے ہوجاو اور اپنی آواز بلند کرو، جوش وجذبے سے کام لو، قربانی دو، جہد کرو اور تمام امور میں سعی وکوشش سے کام لو، پھر چشمے بہنے لگیں گے، تیرہ تاریک دن کٹ جائیں گے، افقِ درخشاں اور روشن سرنوشت تمھاری سامنے آشکار ہوجائے گی اور اعلیٰ ترین سطح پر عظمت رفتہ پھر سے لوٹ آئے گی۔

آئیے اپنے آپ کو بدلیں ، علماء اور دانشور بات کریں اور لکھیں ، مجاہد جہاد کریں ، تاجر اور مزدور محنت کریں ، جوان زیادہ سے زیادہ علم حاصل کریں اور پاک وپاکیزہ بن جائیں اور پوری محنت سے علم وآگاہی حاصل کریں تاکہ معاشرے کی رگوں میں تازہ خون دوڑنے لگے اور وہ قدرت وطاقت پیدا کریں کہ وہ سخت دشمن جو آج ایک بالشت زمین منت والتماس سے واپس نہیں کرتا تمام زمنین ہاتھ جوڑکر واپس کردے۔

لیکن یہ ایسے حقائق ہیں جن کا کہنا تو آسان ہے مگر انھیں جاننا اور باور کرنا مشکل ہے اور ان پر عمل کرنا تو بہت زیادہ مشکل ہے، پھر بھی نورِ امید کے سائے میں پیش رفت کرنا چاہیے۔

اس نکتے کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مسئلہ رہبری ورہنمائی قوموں اور ملتوں کی زندگی میں بہت ہی موثر نقش رکھتا ہے اور اسے ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ بیدار قومیں ہمیشہ لائق رہبروں اور رہنماوں کواپنی رہبری کے لئے قبول کرتی ہیں اور نالائق، باتونی اور ظالم لیڈر قوموں کے آہنی ارادے کے سامنے ہمیشہ سرنگوں ہوجاتے ہیں ۔

اسے بھی ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہے کہ ظاہری عوامل واسباب کے ماوراء غیبی مدد اور الطاف الٰہی کا ایک سلسلہ ہے جو باایمان، پُرچوش اور پُرخلوص بندوں کے انتظار میں ہے اور وہ سب کچھ کئے بغیر شرط اور قید کے نہیں ہے بلکہ اس کے لئے اور اہلیت ضروری ہے۔

دو روایات پیش کرکے ہم یہ بحث تمام کرتے ہیں ۔

پہلی یہ کہ امام صادق علیہ السلام منقول ہے:”ما اٴنعم اللّٰه علیٰ عبد بنعمته فسلبها ایّاه حتّیٰ بذنب ذنباً یستحق بذٰلک السلب

خدا کوئی نعمت جو کسی بندے کو دیتا ہے اس سے واپس نہیں لیتا مگر یہ کہ وہ ایسا گناہ کرے جس کی وجہ سے اس نعمت کے سلب ہونے کا مستحق ہوجائے۔(۱)

دوسری حدیث بھی امام صادق علیہ السلام ہی سے منقول ہے:

خدا نے ایک پیغمبر کو مامور کیا کہ وہ اپنی قوم سے یہ بات کہہ دے کہ جو جماعت اور گروہ میری اطاعت کے سائے میں خوشی اور آسائش ہیں ہو وہ لوگ اس حالت کو جو میری رضا کا باعث ہے جب بھی تغیر کریں گے میں بھی جس حالت کو وہ پسند کرتے ہیں اس کے بجائے انھیں اس حالت میں بدل دوں گا جسے وہ ناپسند کرتے ہیں ، اور جو گروہ معصیت وگناہ کی وجہ سے تکلیف وناراحتی میں گرفتار ہو اس کے بعد اپنی اس حالت کی طرف لے جاوں گا جسے وہ دوست رکھتے ہیں اور ان کی حالت بدل دوں گا۔(۲)

۲ ۔ تقدیر، تاریخ یا کوئی اور جبر نہیں ہے:

ایک اور بات جو مندرجہ بالا آیات سے وضاحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے یہ ہے کہ انسان کی پہلی معین شدہ کوئی خاص تقدیر نہیں اور انسان جبرِ تاریخ، جبرِ زمان اور جبرِ ماحول کے زیر اثر ہے بلکہ تاریخ ساز اور انسان کے لئے حیات ساز عامل تغیرات ہیں جو اس کی روش ، اخلاق اور فکر روح میں اس کے اپنے ارادے سے پیدا ہوجاتے ہیں ، اس بناپر پر جو لوگ جبری قضاء وقدر کا اعتقاد رکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ تمام واقعات پروردگار کے جبری ارادے اور مشیت سے ظہور پذیر ہوتے ہیں ، ایسے لوگ مدرجہ بالا آیت سے مغلوب ہوجاتے ہیں ، اسی طرح مادی جبر کے قائل کہ جو انسان کو ناقابلِ تغیر غرائز اور اصل وراثت کے ہاتھوں کھلونا سمجھتے ہیں ، یا جبر ماحول کے قائل کہ جو انسان کو اقتصادی اور تولیدی حالات کا پابند سمجھتے ہیں مکتبِ اسلام کی نظر میں ان کا عقیدہ بے قیمت اور غلط ہے، انسان آزاد ہے اور اپنی سرنوشت اپنے ہاتھ سے لکھتا ہے، آیات مذکورہ بالا کی طرف توجہ کرتے ہوئے انسان اپنی سرنوشت اور تاریخ کی زمام اپنے ہاتھ میں رکھتا اور اپنے لئے افتخار، اعزاز اور کامیابی پیدا کرتا ہے اور وہ خود ہی اپنے آپ کو شکست اور ذلت میں گرفتار کرتا ہے، اس کی باگ ڈور اس کے اپنے ہاتھ میں ہے، جب تک خود انسان کی کیفیت میں تغیر پیدا نہ ہوا اور وہ خودسازی سے کام نہ لے اس کی سرنوشت میں تغیّر پیدا نہیں ہوسکتا۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۶۳ بحوالہ اصولِ کافی-

۲۔ تفسیر نور الثقلین، ج۲، ص۱۶۳ بحوالہ اصولِ کافی-