تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30770
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30770 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۷۲،۷۳،۷۴،۷۵

۷۲ -( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یُهَاجَرُوا مَا لَکُمْ مِنْ وَلَایَتِهِمْ مِنْ شَیْءٍ حَتَّی یُهَاجِرُوا وَإِنْ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمْ النَّصْرُ إِلاَّ عَلیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِیثَاقٌ وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ )

۷۳-( وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاٴَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ )

۷۴-( وَالَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ )

۷۵-( وَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ مِنْکُمْ وَاٴُوْلُوا الْاٴَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اٴَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللهِ إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ )

ترجمہ

۷۲ ۔ جوایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مالوں اور جانوں کے ساتھ جہاد کیا اور وہ کہ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی ایک دوسرے کے اولیاء (دوست، جوابدہ اور دفاع کرنے والے) ہیں اور جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت نہیں کی تم ان کے بارے میں کسی قسم کی ولایت (تعہد اور جوابدہی) نہیں رکھتے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں اور (صرف اس صورت میں کہ) جب وہ تم سے (اپنے) دین (کی حفاظت) کے لئے مدد طلب کریں (تو پھر تم پر لازم ہے کہ ان کی مدد کرو مگر ایسے گروہ کے خلاف نہیں کہ جس کے ساتھ تمھارا (جنگ نہ کرنے کا) معاہدہ ہو اور جو کچھ تم عمل کرتے ہو خدا اسے دیکھتا ہے۔

۷۳ ۔ وہ جو کافر ہوگئے ہیں ایک دوسرے کے اولیاء (دوست اور پشت پناہ) ہیں اگر تم (اس حکم کو) انجام نہ دو تو زمین میں فتنہ فساد برپا ہوجائے گا۔

۷۴ ۔ اور وہ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور راہ خدا میں جہاد کیا اور وہ جنھوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی حقیقی مومن ہیں ، ان کے لئے بخشش (اور خدا کی رحمت) اور مناسب رزق ہے۔

۷۵ ۔ اور جو بعد میں ایمان لائے اور ہجرت نہیں کی اور تمھارے سات شامل ہوکر جہاد کیا وہ تم میں سے ہیں اور رشتہ دار ایک دوسرے کے ساتھ (غیروں کی نسبت) خدا کے مقرر کردہ احکام میں زیادہ حق دار ہیں ، خدا تمام چیزوں کو جانتا ہے۔

چا رمختلف گروہ

یہ آیات سورہ انفال کا آخری حصّہ ہیں ، ان میں مہاجرین وانصار اور مسلمان کے دوسرے گروہوں کے ماقام ومرتبے کا ذکر ہے نیز جہاد اور مجاہدین کے بارے میں جاری بحث کی بھی ان آیات میں تکمیل ہوتی ہے۔

ان آیات میں مختلف رشتوں کے حوالے سے اسلامی معاشرے کا نظام بیان کیا گیا ہے کیونکہ جنگ اور صلح کا پروگرام دوسرے عمومی پروگراموں کی طرح صحیح اجتماعی اور معاشرتی رشتوں کو ملحوظ رکھے بغیر نہیں بن سکتے۔

ان آیات میں پانچ گروہوں کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے، ان میں سے چار مسلمان ہیں اور ایک گروہ غیر مسلموں کا ہے۔ مسلمانوں کے چار گروہ ہیں :

۱ ۔ مہاجرین اوّلین-

۲ ۔ انصار، اہل مدینہ سے یار وانصار-

۳ ۔ وہ جو ایمان تو لے لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہ کی-

۴ ۔ وہ جو بعد میں ایمان لائے اور مہاجرین سے آملے-

زیر بحث پہلی آیت میں کہا گیا ہے : وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے ہجرت کی اور اپنے مال وجان سے راہِ خدا میں جہاد کیا اور وہ لوگ کہ جنھوں نے پناہ یاور مدد کی وہ ایک دوسرے کے اولیاء ، ہم پیمان اور ایک دوسرے کا دفاع اور محافظت کرنے والے ہیں( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) ۔

آیت کے اس حصّے میں پہلے اور دوسرے گروہ کی طرف اشارہ ہوا ہے، یعنی وہ مومنین جو مکہ میں ایمان لائے اور اس کے بعد انھوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی اوروہ مومنین جو مدینہ رسول الله پر ایمان لائے اور آپ کی اور مہاجرین کی مدد کی اور حمایت کے لئے اٹھ کھڑے ، ان کا ایک دوسرے کے اولیاء، حامی اور متعہد کے طور پر تعارف کرایا گیا ہے۔

یہ بات جالبِ توجّہہے کہ پہلے گروہ کی چار صفات بیان کی گئی ہیں ، پہلی ایمان، دوسری ہجرت، تیسری مالی واقتصادی جہاد (مکہ میں موجود اپنے مال سے صرف نظر کرتے ہوئے یا جنگ بدر میں اپنے مال کی پرواہ نہ کرنے کی صورت میں ) اور چوتھی اپنے خون اور جان کے ساتھ راہِ خدا میں جہاد کرنا۔

انصار کے دو وسف بیان ہوئے ہیں : پہلا ”ایواء“ (پناہ دینا) اور دوسرا مددکرنا۔

نیز ”( بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) “ کے جملے کے ذریعے سب کوایک دوسرے کے بارے میں جوابدہ قرار دیا گیا ہے۔

حقیقت میں یہ دونوں گروہ اسلامی معاشرے کے تانے بانے کی بنیادی اجزاء کی حیثیت رکھتے تھے، ایک تانے کی اور دوسرا بانے کی حیثیت کا حامل تھا، ان میں کوئی بھی دوسرے سے بے نیاز نہ تھا۔

اس کے بعد تیسرے گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد ہوتا ہے: وہ جو ایمان لائے لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی اور تمھارے نئے معاشرے سے وابستہ نہیں ہوئے ان کے بارے میں تم کوئی ذمہ داری، جوابدہی اور ولایت نہیں رکھتے جب تک کہ وہ ہجرت نہ کریں( وَالَّذِینَ آمَنُوا وَلَمْ یُهَاجَرُوا مَا لَکُمْ مِنْ وَلَایَتِهِمْ مِنْ شَیْءٍ حَتَّی یُهَاجِرُوا ) ۔

البتہ اگلے میں اس گروہ کی حمایت اور مسئولیت سے متعلق ایک استثنائی حکم دیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جس وقت یہ لوگ (غیر مہاجر مومنین) تم سے اپنے دین وآئین کی حفاظت کے لئے مدد طلب کریں (یعنی دشمنوں کے شدید دباو میں گھرے ہوں ) تو تم پر لازم ہے کہ ان کی مدد کے لئے فوراً جاو

( وَإِنْ اسْتَنصَرُوکُمْ فِی الدِّینِ فَعَلَیْکُمْ النَّصْرُ ) ۔ مگر اس وقت کہ جب ان کے مخالف وہ لوگ ہوں کہ تمھارے اور ان کے درمیان لڑائی نہ کرنے کا عہدوپیمان موجود نہ ہو( إِلاَّ عَلیٰ قَوْمٍ بَیْنَکُمْ وَبَیْنَهُمْ مِیثَاقٌ ) ۔

دوسرے لفظوں میں ان کا دفاع اس صورت میں لازم ہے جب وہ مشترک دشمن کے مقابل ہوں جنھوں نے تم سے معاہدہ کررکھا ہے تو پھر معاہدے کا احترام اس بدحال گروہ کے دفاع کی نسبت زیادہ ضروری ہے۔

آیت کے آخر میں ان ذمہ داریوں کی حدود کوملحوظ نظر رکھنے اوران فرامین کی انجام دہی میں دقتِ نظر سے کام لینے کے لئے کہا گیا ہے: جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے بصیر وبینا ہے( وَاللهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ ) ۔

وہ تمھارے تمام اعمال کو دیکھتا ہے اور تمھاری تمام تر سعی وکاوش اور احساسِ ذمہ داری سے آگاہ ہے، اسی طرح اس عظیم ذمہ داری کے بارے میں بے اعتنائی، سستی ، تساہل اور عدم احساس سے بھی باخبر ہے۔

دوسری طرف آیت میں اسلامی معاشرے کے مدمقابل یعنی کفر اور اسلام کے معاشرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: وہ جو کافر ہوگئے ہیں ان میں سے بعض دوسرے بعض کے اولیاء اور سرپرست ہیں( وَالَّذِینَ کَفَرُوا بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍ ) ۔ یعنی ان کا تعلق اور پیوند خود انھیں کے ساتھ ہے اور تمھیں کہ ان سے کوئی تعلق قائم کرو اور ان کی حمایت کرو یا انھیں اپنی حمایت کی دعوت دو، نہ انھیں پناہ دو اور ن ان سے پناہ لو، خلاصہ یہ کہ اسلامی معاشرے کے تاروپودا اور تانے بانے میں انھیں دخیل نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی تم ان کے معاشرے کے تاروپود میں دخل دو۔

اس کے بعد مسلمانوں کو تنبیہ کی کی گئی ہے کہ اگر تم نے اس اسلامی حکم کو نظر انداز کردیا توزمین میں اور تمھارے معاشرے کے گردو پیش میں عظیم فتنہ وفساد بپا ہوگا( إِلاَّ تَفْعَلُوهُ تَکُنْ فِتْنَةٌ فِی الْاٴَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیرٌ ) ۔

اس سے بڑھ کر فتنہ وفساد کیا ہوگا کہ تمھاری کامیابی کے نقوش محو ہوجائیں گے اور تمھارے معاشرے میں دشمنوں کی سازیں کارگر ہوں گی اور دینِ حق وعدالت کی راہ کو دُور کردینے کے لئے ان منحوس اور بدبخت منصوبے بے موثر ہونے لگیں گے۔

اگلی آیت میں دوبارہ مہاجرین وانصار کے مقام کی اہمیت اور اسلامی معاشرے کے اہداف کی پیش رفت میں ان کا کردار کے احترام کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ جو ایمان لائے ہیں اور انھوں نے ہجرت کی ہے اور راہِ خدا میں جہاد کیا ہے اور وہ کہ جنھوں نے پناہ دی اورمدد کی ہے وہی حقیقی اور سچّے مومن ہیں( وَالَّذِینَ آمَنُوا وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ آوَوا وَنَصَرُوا اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ) ۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اسلام کے سخت، دشوار اور غربت کے دنوں میں دینِ خدا اور رسول الله کی مدد کے لئے کسی نہ کسی صورت میں آگے بڑھا ہے اور ”انھیں اس عظیم فداکاری کی وجہ سے بخشش اور شائس رزق نصیب ہوگا“( لَهُمْ مَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ ) ۔ وہ خدا کی بارگاہ میں اور دوسرے جہان میں بھی عظیم نعمات سے بہرہ ور ہوں گے اور اِس جہان میں بھی نفع نفع ، عظمت، سربلندی، کامیابی، امن وامان اور اطمینان کا شائستہ حصّہ حاصل کریں ۔

آخری آیت میں مسلمانوں کے چوتھے گروہ یعنی ”بعد کے مہاجرین“ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ جو اس کے بعد ایمان لے آئیں اور ہجرت کریں اور تمھارے ساتھ شریکِ جہاد ہوں وہ بھی تم میں سے ہیں( وَالَّذِینَ آمَنُوا مِنْ بَعْدُ وَهَاجَرُوا وَجَاهَدُوا مَعَکُمْ فَاٴُوْلٰئِکَ مِنْکُمْ ) ۔ یعنی اسلامی معاشرے کے دائرہ کا تنگ یا کسی گروہ پر منحصر نہیں ہے بلکہ اس کے دروازے آئندہ کے تمام مومنین، مہاجرین اور مجاہدین کے لئے بھی کھلے ہوئے ہیں ، پہلے مہاجرین اگرچہ ایک خاص مقام ومرتبہ رکھتے ہیں لیکن یہ برتری اس معنی میں نہیں کہ آئندہ کے مومنین اور مہاجرین جو اسلام کے نفوذ اور پیش رفت کے وقت اس کی طرف جھکے اور اس سے آملے ہیں وہ اسلامی معاشرے کی بُن وبافت کا جز نہیں ہیں ۔

آیت کے آخر میں رشتہ داروں اور عزیزوں کی ایک دوسرے کےلئے ولایت واولویت کے متعلق تھی اور اس آخری آیت میں خداتعالیٰ تاکید کرتا ہے کہ یہ ولایت واولویت رشتہ داروں کے لئے قوی اور زیادہ جامع صورت میں ہے کیونکہ مسلمان رشتہ دار ایمان وہجرت کی میراث کے علاوہ رشتہ داری کی ولایت بھی رکھتے ہیں( وَاٴُوْلُوا الْاٴَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اٴَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللهِ ) ۔

اسی بناپر وہ ایک دوسرے کی میراث لیتے ہیں جب کہ رشتہ داروں کے علاوہ دسرے شریکِ میراث نہیں ہوتے۔

لہٰذا آخری آیت صرف میراث کا حکم بیان نہیں کرتی بلکہ ایک وسیع معنی کی حامل ہے کہ جس کا ایک جزء میراث بھی ہے، اگر ہم دیکھتے ہیں کہ اسلامی روایات اور تمام فقہی کتب میں احکامِ ارث کے لئے اس آیت اور سورہ اجزاب کی اس سے ملتی جلتی آیت سے استدلال ہوا ہے تو یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ یہ آیت مسئلہ ارث میں منحصر ہے بلکہ ہوسکتا ہے کہ آیت ایک عمومی قانون یان کررہی ہو جس کا ایک اہم حصّہ میراث بھی ہے۔

اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول الله کی جانشینی کے مسئلہ میں کہ مالی میراث میں داخل نہیں ہے بعض اسلامی روایات میں سے اس آیت سے استدلال کیا گیا ہے نیز غسل میت وغیرہ کے مسائل میں بھی رشتہ داروں کی اولویت کے لئے اسی آیت سے استدلال کیا گیا ہے۔

جو کچھ سطورِ بالا میں کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ یہ جو بعض مفسّرین نے اصرار کیا ہے کہ یہ آیت صرف میراث کے بارے میں ہے، بے وجہ اور بے دلیل ہے، اگر ہم اس آیت کی تفسیر کرنا چاہیں تو اس کا صرف یہی طریقہ ہے کہ اسے گذشتہ آیت میں مہاجرین وانصار کے مابین بیان شدہ ”ولایت مطلقہ“ سے ایک استثناء سمجھیں اور کہیں کہ آخری آیت کہتی ہے کہ مسلمانوں کی عمومی ولایت میں ایک دوسرے کی میراث لینا شامل نہیں ہے۔

باقی رہا یہ احتمال کہ گذشتہ آیات کے بارے میں بھی ہے اور اس کے بعد آخری آیت نے اس حکم کو نسخ کردیا ہے یہ بہت بعید نظر آتا ہے کیونکہ ان آیات کا مفہوم کے اعتبار سے اور معنوی لحاظ سے آپس میں ارتباط یہاں تک کہ لفظی مشابہت بھی بہت نشاندہی کرتی ہے کہ یہ سب کی سب ایک ساتھ نازل ہوئی ہیں اور اس لحاظ سے یہ ناسخ ومنسوخ نہیں ہوسکتیں ۔

بہرحال آیات کے مفہوم کے ساتھ زیادہ مطابق وہی تفسیر رکھتی ہے جو ہم نے ابتداء میں ذکر کی ہے۔

آیت کے آخری جملہ میں جو کہ سورہ انفال کا آخری جملہ ہے فرمایا گیا ہے: خدا ہر چیز کوجانتا ہے( إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔

انفال ، جنگی غنائم، نظامِ جہاد، صلح، جنگی قیدی اور ہجرت وغیرہ سے مربوط تمام احکام جو اس سورہ میں نازل ہوئے ہیں سب دقیق منصوبہ بندی اور حساب وکتاب کے ماتحت ہیں جوکہ انسانی معاشرے ، بشری تقاضوں اور ہر پہلو سے ان مصالح سے مطابقت رکھتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ہجرت اور جہاد: تاریخ اسلام کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ طاقتور دشمن کے مقابلے میں اسلام کی کامیابی کے لئے ہجرت اور جہاد دو بنیادی عوامل تھے، ہجرت نہ توتی تو اسلام مکہ کے گھُٹے ہوئے ماحول میں ختم ہوکر رہ جاتا اور جہاد نہ ہوتا تو اسلام کو کبھی رشد اور نشو ونما حاصل نہ ہوتی۔

ہجرت نے اسلام کو مخصوص علاقائی صورت سے نکال سے عالمی دین کی شکل دی اور جہاد نے مسلمانوں کو یہ بات سکھائی کہ اگر انھوں نے طاقت کا سہارا نہ لیا تو وہ دشمن جو منطق، حرفِ حسابی ارو سنجیدہ بات کے پابند نہیں ہیں ان کے لئے کسی قسم کے حق کے قائل نہیں ہوں گے۔

آج بھی اسلام کو سرحدوں کی بندش سے نجات دلانے اور ان مختلف رکاوٹوں کو دور کرنے کے لئے کہ جنھیں ہر طرف دشمنوں نے کھڑا کررکھا ہے ہجرت اور جہاد کو زنمدہ کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔

ہجرت مسلمانوں کی آواز کو پوری کے کانوں تک پہنچائے گی اور آمادہ لوں ، اصلاحی قوتوں اور حق وعدالت کی پیاسی قوموں کو ان کی طرف مائل کردے گی، جبکہ جہاد انھیں حرکت اور حیات بخشے گا اور ہٹ دھرم دشمنوں کو کہ جن کے کانوں کو طاقت کی آواز کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا اپنے راستے سے ہٹادے گا۔

اسلام اور ہجرتیں

مکہ کے مسلمانوں کی حبشہ کی طرف ہجرت سے ایک تو جزیرہ عرب سے باہر اسلام کا بیج چھڑکا اور ساتھ ہی ساتھ جو پہلے معدودے چند مسلمان تھے اور دشمن کے سخت دباو میں تھے ان کے لئے اس نے ایک مورچے کا کام بھی دیا۔

پھر رسول الله اور پہلے مسلمانوں نے مدینہ کی طرف ہجرت کی، یہ مہاجرین جنھیں بعض اوقات مہاجرینِ بدر بھی کہتے ہیں تاریخ اسلام میں بہت زیادہ اہمیت رکھتے ہیں کیونکہ بظاہر تو یہ ایک بالکل تاریک مستقبل کی طرف چل پڑے تھے اور درحقیقت انھوں نے خدا کے لئے تمام مادی سرمائے سے آنکھیں بند کرلی تھیں ، مہاجرین کہ جنھیں مہاجرینِ اوّلین سے تعبیر کیا جاتا ہے انھوں نے در حقیقت اسلام کے پُرشکوہ محل کی بنیاد کی پہلی اینٹ رکھی، قرآن ان کے لئے ایک مخصوص عظمت کا قائل ہے کیونکہ وہ تمام مسلمانوں کی نسبت زیادہ با ایثار سمجھے جاتے ہیں ۔

ایک اور ہجرت صلح حدیبیہ کے بعد نسبتاً امن وامان کے ماحول میں ہوئی کچھ مسلمانوں نے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی۔بعض اوقات ان تمام مسلمانوں کی ہجرت شمار کیا جاتا ہے اور اسے ”ہجرت ثانیہ“ کا نام دیا جاتا ہے۔

فتح مکہ کے بعد پہلے کی سی ہجرت کا سلسلہ ختم ہوگیا یعنی مکہ سے مدینہ کی طرف آنا ختم ہوگیا اب مکہ ایک اسلامی شہر میں تبدیل ہوچکا تھا اور رسول الله سے یہ جو حدیث نقل ہوئی ہے کہ:”لاهجرة بعد الفتح “یعنی ، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں ہے۔یہ اس امر کی طرف اشارہ ہے۔

لیکن اس گفتگو کا یہ مفہوم نہیں ہے کہ اسلام نے ہجرت کی آئندہ کے لئے بالکل نفی کردی ہے جیسا کہ بعض نے خیال کر رکھا ہے بلکہ مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی نفی کی گئی ہے ورنہ جب بھی مسلمانوں کے لئے پہلے مسلمانوں کے سے حالات پیدا ہوں ان کے لئے قانونِ ہجرت اپنی قوت کے ساتھ باقی ہے اور جب تک اسلام کا پوری دنیا پر قبضہ نہیں ہوجاتا یہ قانون برقرار دہے گا۔

افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج کے مسلمان اس اہم اسلامی بنیاد کو بھلادینے کی وجہ سے زیادہ تر اپنے محیط میں بند ہیں جبکہ مسیحی مبلغ، گمراہ فرقوں کے نمائندے اور سامراجب مذاہب کے مبلغ مشرق ومغرب اور شمال وجنوب کی طرف ہجرت کرتے ہیں یہاں تک کہ یہ لوگ وحشی اور آدم خور قبائل میں جاتے ہیں بلکہ قطبِ شمال اور قطبِ جنوبی کے علاقوں میں جاتے ہیں ، درحقیقت یہ حکم تو مسلمانوں کے لئے تھا اور اس پر عمل دوسرے کررہے ہیں ۔

زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے بڑے بڑے شہروں کے اطراف میں بہت سے ایسے دیہات ہیں جو بعض اوقات چند میلوں کے فاصلے پر ہونے کے باوجود اسلامی مسائل سے بے خبر ہیں اور بعض تو ایسے کہ انھوں نے کبھی اسلامی مبلغ کی صورت تک نہیں دیکھی، اسی لئے ان کا ماحول فساد کے جراثیم اور جعلی وسامراجب مذاہب کے لئے آمادہ اور تیار ہے، نہ جانے آج کے مسلمانوں نے جو مہاجرینِ اوّلین کے وراث ہیں خدا کے سامنے اس کیفیت کے لئے کیا جواب سوچ رکھا ہے۔

حالیہ دنوں میں اگرچہ اس سلسلے میں کچھ حرکت نظر آنے لگی ہے لیکن یہ ہرگز کافی ووافی نہیں ہے۔

بہرحال تاریخ اور مسلمانوں کی سرنوشت میں ہجرت کا موضوع اور اس کے نقوش اس سے کہیں زیادہ اہم ہیں کہ اس اختصار سے اس کے تمام پہلووں کا مطالعہ اور تحقیق ہوسکے۔

(تفسیر نمونہ جلد چہارم سورہ نساء آیت نمبر ۱۰۰ پر بھی اس سلسلے میں ہم کچھ باتیں کر آئے ہیں ، آئندہ بھی انشاء الله متعلقہ آیات کے ذیل میں پھر گفتگو کریں گے)

۲ ۔ صحابہ کے بارے میں مبالغہ: قرآن مہاجرینِ اوّلین کے بارے میں جس احترام اور اہمیت کا قائل ہے اس سے ہمارے کچھ اہلِ سنّت بھائیوں نے یہ مطلب نکالنا چاہیے کہ وہ حضرات آخر عمر تک کسی غلطی اور خلافِ شریعت امر کے مرتکب نہیں ہوئے، لہٰذا ان کے خیال میں بلاچون وچرا سب کو بلا استثناء محترم سمجھنا چاہیے، پھر قرآن نے بیعت رضوان وغیرہ کے واقعہ میں ان کی جو تعریف وستائش کی ہے اس کے وجہ سے وہ اس احترام میں صحابہ کو شامل سمجھتے ہیں اور عملی طور پر وہ صحابہ کو ان کے اعمال وکردار کو مدّنظر رکھے بغیر استثنائی انسان شمار کرتے ہیں اور اس طرح انھوں نے ان کے کردار پر کسی قسم کی تنقید اور بحث وتمحیص کے اپنے حق کوسلب کرلیا ہے ان میں سے المنار کے مولف مشہور مفسّر نے زیر بحث آیات کے ذیل میں شیعوں پر سخت حملہ کیا ہے کہ وہ بعض مہاجرین اوّلین پر کیوں انگلی رکھتے ہیں اور ان پر کیوں تنقید کرتے ہیں ، ان کے خیال میں شیعہ اس طرف متوجہ نہیں

نہیں کہ صحابہ کے بارے میں ایسا نظریہ رکھنا روحِ اسلام اور تاریخ اسلام سے بہت متضاد ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابہ، خصوصاً مہاجرینِ اوّلین بڑی عزت واحترام کے حامل ہیں لیکن یہ احترام اس وقت ہے جب تک وہ صحیح راستے پر گامزن رہے اور انھوں نے فداکاری کی، لیکن جس روز سے صحابہ کا ایک گروہ اسلام کے حقیقی راستے سے ہٹ گیا مسلّماً ان کے بارے میں قرآن کا دوسرا فیصلہ ہوگا۔

مثلاً ہم طلحہ اور زبیر کو کیسے بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں جنھوں نے بیعت توڑی، ایسے امام کی مخالفت کی جو اس کے علاوہ کہ رسول الله کے ارشادات کے مطابق پیشوا تھا بلکہ تمام مسلمانوں حتّیٰ کہ خود ان کی طرف سے منتخب ہوا تھا، ہم کیسے ان کے دامن سے ان ستر ہزار مسلمانوں کا خون دھوسکتے ہیں جو جنگ جمل میں مارے گئے، جو شخص کسی ایک گناہ کا خون بہادے وہ بھی دربارِ الٰہی میں کوئی عذر پیش نہیں کرسکے گا چاہے کوئی بھی ہو چہ جائیکہ اتنی کثیر تعداد کا خون۔

کیا اصولی طور پر جنگ جمل کے میدان میں حضرت علی علیہ السلام اور ان کے ساتھیوں کو اور دوسری طرف طلحہ وزبیر اور دوسرے صحابہ جو ان کے ساتھ تھے طرفین کو بیک وقت حق پر قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی منطق اور عقل اس واضح تضاد کو قبول کرسکتی ہے؟ کیا ہم ایسا کرسکتے ہیں کہ تقدّس صحابہ کے نام پر آنکھیں بند گرلیں اور انھیں ہر قانون سے بالاتر سمجھ لیں ، رسول الله کے بعد تمام تر تاریخِ اسلام فراموش کردیں اور اسلامی ضابطہ ”( انّ اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ) “ (الله کے نزدیک زیادہ محترم وہ ہے جو زیادہ متقی ہے) کو پامال کردیں ؟ یہ کیسا غیر منطقی فیصلہ ہے؟

اصولی طور پر اس امر میں کیا مانع اور رکاوٹ ہے کہ ایک شخص یا چند اشخاص ایک دن بہشتیوں کی صف میں کھڑے ہوں اور حق کے طرفدار ہوں اور دوسرے دن دوزخیوں اور حق دشمنوں کی صف میں شامل ہوجائیں ؟

کیا سب لوگ معصوم ہیں ؟ کیا ہم نے ایسی تبدیلیاں اور اختلافاتِ نظر لوگوں کے حالات میں اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھے؟ کیا ”واقعہ ردّہ“ رسول الله کے زمانے میں رونما نہیں ہوا جبکہ اصحاب پیغمبر میں سے کچھ لوگ مرتد ہوگئے تھے؟ کیا یہ واقعہ شیعہ سنی کتب میں منقول نہیں ہے؟ کیا یہ مرتد ہونے والے صحابہ کی صف میں شامل نہیں تھے؟

زیادہ تعجب انگیز بات یہ ہے اس تضاد اور عجیب کشمکش سے بچنے کے لئے بعض نے ”اجتہاد“ کو دستاویز بنارکھا ہے، وہ کہتے ہیں طلحہ، زبیر، معاویہ، ان کے ساتھی اور ان جیسے افراد مجتہد تھے، ان سے اشتباہ اور غلطی تو ہوئی ہے لیکن ان سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا بلکہ ان اعمال کے بدلے میں وہ خدا سے اجر وثواب پائیں گے۔

واقعاً کیسی رسوا کنند منطق ہے، کیا جانشینِ پیغمبر کے خلاف قیام کرنا، عہدوپیمان توڑنا اور ہزاروں بے گناہوں کا خون بہانا وہ بھی جاہ طلبی اور مال ومقام کے حصول کے لئے ایسا پیچیدہ اور نامعلوم معاملہ ہے کہ جس کی قباحت اور برائی سے کوئی شخص با خبر نہیں ؟ کیا اتنے بے گناہوں کا خون بہانے پر بھی خدا کے ہاں سے اجر وثواب ملے گا؟

اگر اس طرح سے ہم چاہیں کہ کچھ صحابہ کو جو ایسے جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں بری الذمہ قرار دیں تو یقیناً دنیا می کوئی گنہگار باقی نہیں رہے گا اور اس منطق کے ذریعے ہم تمام قاتل اور ظالم افراد کو بری الذمہ قرار دے سکتے ہیں ۔

صابہ کے ایسے بے سوچے سمجھے فاع سے حقیقت اسلام پر حرف آتا ہے لہٰذا اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ سب کے لئے خصوصاً اصحابِ پیغمبر کے لئے ہم عزت واحترام کے قائل تو ہوں مگر اس دن تک جب تک وہ حق وعدالت اور اسلامی مشن سے منحرف نہ ہوں ۔

۳ ۔ میراث، اسلامی نظام قانون میں : جیسا کہ سورہ نساء کی تفسیر میں ہم اشارہ کرچکے ہیں زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہان میراث کے تین طریقے تھے، ایک نسب کا طریقہ (ان کے ہاں نسب صرف اولادِ مذکورہ کے لئے تھا، چھوٹے بچّے اور عورتیں میراث سے محروم رہتے تھے) دوسرا ان کے ہاں متبنیٰ (بے پالک) کا طریقے تھے تیسرا طریق عہدو پیمان کا تھا جسے ”ولاء“ کہا جاتا تھا۔(۱)

ابتدائے اسلام میں جبکہ ابھی میراث کا قانون نازل نہیں ہوا تھا اسی طریقے پر عمل ہوتا تھا یک جلد ہی اس کی جگہ ”اخوتِ اسلامی‘’‘ نے لے لی اور صرف مہاجرین وانصار جنھوں نے ایک دوسرے سے پیمانِ اخوت باندھ رکھا تھا ایک دوسرے کی میراث لیتے تھے، ایک عرصے کے بعد جب اسلام میں زیادہ وسعت پیدا ہوگی تومیراث نسبی اور سببی رشتہ داروں کی طرف منتقل ہوگی اور میراث کے بارے میں اخوتِ اسلامی کا حکم منسوخ ہوگیا اور میراث کا !ری اور اصلی قانون نازل ہوا کہ جس کی طرف مندرجہ بالا آیات اور سورہ احزاب کی آیہ ۶ میں ارشاد ہوا ہے، سورہ احزاب کی آیت ۶ میں ہے:( وَاٴُوْلُو الْاٴَرْحَامِ بَعْضُهُمْ اٴَوْلَی بِبَعْضٍ فِی کِتَابِ اللهِ )

یہ سب چیزیں تاریخی لحاظ سے مسلم ہیں لیکن جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں لفظ ”( وَاٴُوْلُوا الْاٴَرْحَام ) “ جو محل بحث آیات میں آیا ہے مسئلہ میراث ہی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ایک وسیع معنی کے لئے کہ میراث جس کا ایک جزء ہے۔(۲)

مختلف احتمالات ذکرکئے ہیں لیکن جو چیز مفہومِ آیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے یہ ہے کہ ”فتنہ“ سے مراد اختلاف وانتشار اور مسلمانوں کے عقائد کی بنیادوں کو دشمنوں کے وسوسوں کے زیرِ اثر متزلزل ہونا ہے اور ”فساد“ کے مفہوم میں ہر طرح کی بے سروسامانی اور معاشرے کے مختلف نظاموں کی خرابی شامل ہے خصوصاً بے گناہوں کے خون بہہ جانے اور بدامنی وغیرہ کے مفہوم میں شامل ہے۔

در حقیقت قرآن مجید مسلمانوں کو تنبیہ کررہا ہے کہ اگر وہ آپس میں ارتباط وتعاون اور برادری کے رشتے کو محکم اور مضبوط نہیں بنائیں گے اور دشمنوں سے تعلق اور ہمکاری ترک نہیں کریں گے تو دن بدن ان کی صفوں میں اختلاف وانتشار زیادہ ہوگا، دشمنوں کا نفوذ اسلامی معاشرے میں زیادہ ہوگا اور ان کے تباہ کن وسوسوں سے ایمان کی بنیادیں کمزور اور متزلزل ہوجائیں گی اور اس طرح سے انھیں ایک عظیم فتنہ آلے گا۔

اسی طرح محکم ومضبوط معاشرتی ارتباط اور رشتے نہ ہونے کے باعث اور ان کی صفوں میں دشمنوں کی رخنہ انندازی کے سبب طرح طرح کے مفاسد، بدامنی، خون ریزی، مال واولاد کی تباہی اور معاشرے کی بے سروسامانی کا سامانا کرنا پڑے گا اور فسادِ کبیر تمام جگہوں پر چھاجائے گا۔

پروردگارا!ہمارے اسلامی معاشرے کو بیداری عطا فرما۔

مسلمانوں کو دشمنوں کے ساتھ ربط، تعلق اور ہمکاری کے خطرات سے آگاہ فرما۔

اور خود آگاہی اور وحدتِ کلمہ کے سائے میں ہمار ے معاشرے کو ”فتنہ وفساد“ سے پاک کردے۔

____________________

۱۔ ولاء کے طریقے سے میراث کے بارے میں تفسیر نمونہ جلد سوم صفحہ۲۶۶ پر تفصیل سے بحث کی جاچکی ہے۔

۲۔ میراث کے بارے میں بھی تفسیر نمونہ جلد سوم صغحہ۲۰۹ سے ۲۲۳ تک تفصیلی بحث کی جاچکی ہے۔