تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30818
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30818 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

اسی طرح امام باقر علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

الاصل فی ذٰلک بلعم، ثمّ ضربه اللّٰه مثلا لکل موثر هواه علی هدی اللّٰه من اهل القبلة

اصل آیت بلعم کے بارے میں ہے اس کے بعد خدا نے اسے ایک مثال کے طورپر ایسے اشخاص کے لئے کیا ہے جنھوں نے اس امّت میں ہوس پرستی کو خداپرستی اور خدا کی ہدایت پر مقدم گردانا ہے(۱)

اصولی طور پر انسانی معاشروں میں اتنا خطرہ کسی چیز سے نہیں جتنا ان علماء سے ہوتا ہے جو اپنے علم وافکار کو اپنے زمانے کے فرعونوں اور جابروں کے اختیار میں دے دیتے ہیں اور ہوس پرستی اور مادی دنیا کی شان وشوکت (وخلاد الی الارض ) سے مرعوب ہوکر اپنا تمام سرمایہ فکر ونظر طاغوتوں کے قبضے میں دے دیتے ہیں اور وہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے اس قسم کے افراد سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاتے ہیں ، یہ امر صرف حضرت موسیٰ(علیه السلام) یا باقی انبیاء کے زمانہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے کہ زمانہ پیغمبر سے لے کر اب تک یہ سلسلہ جاری ہے، کہ بلعم باعور، ابوعامر اور امیہ بن ابوالصلت جیسے عالم اپنے علم ودانش اور اجتماعی اثر ورسوخ کو درہم ودینار یا مقام ومنزلت کے عوض بیچ دیتے یا پھر کینہ وحسد کی بناء پر منافقین، دشمنانِ حق، فرعونوں ، بنی اُمیّہ اور بنی عباس جیسے طاغوتوں کے اختیار میں دیئے ہیں ۔

مذکورہ بالا آیات میں علماء کے اس گروہ کی کچھ نشانیاں بیان ہوئی ہیں جن کے ذریعے انھیں پہچانا جاسکتا ہے، وہ ایسے مادہ پرست ہیں جنھوں نے دنیا کی محبّت میں خدا کو بھلادیا ہے، وہ اتنے کم ظرف ہیں کہ بارگاہِ خداوندی اور خلقِ خدا کی نظر میں بلند مقام حاصل کرنے کی بجائے ذلّت کی زندگی کو ترجیح دیتے ہیں ، اپنی اسی کم ظرفی کی وجہ سے سب کچھ کھو بیٹھتے ہیں ، وہ شیطان کے شدید وسوسوں میں گھرے ہوئے ہیں اور انھیں آسانی سے خریدا اور بیچا جاسکتا ہے، وہ بیمار اور باؤلے کتّوں کی مانند ہیں جو کبھی سیراب نہیں ہوتے، انہی وجوہ کی بناء پر انھوں نے حق کو چھوڑدیا ہے اور بے راہ روی اختیار کرلی ہے وہ گمراہوں کے پیشوا ہیں ، ایسے افراد کی پہچان لازمی ہے تاکہ سختی سے ان کے شر سے محفوظ رہا جاسکے ۔

بعد والی دونوں ایات میں بلعم اور دنیا پرست علماء کی سرگزشت سے ایک کلی اور عمومی نتیجہ اخذ کرتے ہوئے بیان کیا گیا ہے: کیا بُری مثال ہے ان لوگوں کی جو ہماری آیات سے انکار کرتے ہیں اور کیسا بُرا انجام اور ذلّت اُن کے انتظار میں ہے( سَاءَ مَثَلًا الْقَوْمُ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ) ۔ لیکن وہ ہم پر ظلم وستم نہیں کرتے تھے بلکہ خود اپنے اوپر ستم روا رکھتے تھے( وَاٴَنفُسَهُمْ کَانُوا یَظْلِمُونَ ) ۔ اور اس سے زیادہ ظلم کیا ہوگا کہ معنوی علم ودانش کا سرمایہ ح۔جو خود ان کے معاشرے کی سربلندی کا باعث بن سکتا تھا، صاحبِ زر اور صاحبِ اقتدار کے اختیار میں دے دیتے ہیں اور سستے داموں اُسے فروخت کرکے بالآخر اپنے آپ کو اور معاشرے کو پستی میں دھکیل دیتے ہیں ۔

لیکن اس قسم کی لغزشوں اور شیطانی دام وفریب سے خبردارد رہو کیونکہ ان سے رہائی خدا کی توفیق اور ہدایت کے بغیر ممکن نہیں ، جال اور پھندا بڑا ہی سخت ہے مگر یہ کہ رحمتِ الٰہی مددگار ہو۔

”جسے خداہدایت دے اور اپنی رحمت کو اس کا مددگار بنادے تو حقیقتاً وہی ہدایت پانے والا ہے“

( مَنْ یَهْدِ اللهُ فَهُوَ الْمُهْتَدِی )

”اور جس خص کو خدا اس کے (بُرے) اعمال کے نتیجہ میں اپس کے حال پر چھوڑدے یا کامیابی اور موافقت کے ذرائع شیطانی وسوسوں کے مقابلہ میں اُس سے چھین لے تو وہ واقعی زیانکار اور خسارے میں ہے ۔

( وَمَنْ یُضْلِلْ فَاٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْخَاسِرُونَ )

بارہا ہم نے کہا ہے کہ ہدایتِ الٰہی اور کمراہی نہ جبری پہلو رکھتی ہے اور نہ ہی بغیر کسی وجہ اور حساب وکتاب کے ہے، ان دونوں سے مراد وسائل ہدایت فراہم کرنا یا اس قسم کے ذرائع کو روک لینا ہے، وہ بھی انسان کے گذشتہ اچھے بُرے یا اعمال کی وجہ سے جو اس نے انجام دیئے ہیں ، بہرحال آخری پختہ ارادہ خود انسان کا اپنا ہوتا ہے، اس بناء پر زیرنظر آیت ان گذشتہ آیات سے مکمل مطابقت رکھتی ہے جو ارادہ کی آزادی کی تائید کرتی ہیں اور ان کے درمیان اختلاف نہیں ۔

آیات ۱۷۹،۱۸۰،۱۸۱،

۱۷۹( وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَایَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ اٴَعْیُنٌ لَایُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَایَسْمَعُونَ بِهَا اٴُوْلٰئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ بَلْ هُمْ اٴَضَلُّ اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْغَافِلُونَ ) .

۱۸۰( وَلِلّٰهِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوهُ بِهَا وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِهِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) .

۱۸۱( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یَعْدِلُونَ ) .

ترجمہ

۱۷۹ ۔ یقیناً جن وانس کے بہت سے گروہوں کو ہم نے جہنم کے لئے پیدا کیا ہے وہ ایسے دل (اور ایسی عقل ) رکھتے ہیں کہ جن سے (وہ سوچتے نہیں اور) سمجھتے نہیں اور ایسی آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے و دیکھتے نہیں اور ایسے کان رکھتے ہیں کہ جن سے وہ سنتے نہیں ، وہ چوپاؤں کی طرح ہیں ۔ بلکہ وہ زیاد ہگمراہ ہیں (اور) وہ غافل ہیں (کیونکہ ہدایت کے تمام تر اسباب میسّر ہونے کے باوجود گمراہ ہیں ) ۔

۱۸۰ ۔ خدا کے بہترین نام ہیں ۔ اسے انہی ناموں پُکاروں اور انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں تحریف کرتے ہیں ۔ (اور یہ نام اس کے غیر کے لئے رکھتے ہیں اور اس کے لئے شریک کے قائل ہیں ) وہ عنقریب اپنے کردہ (بُرے) اعمال کی سزا پائیں گے ۔

۱۸۱ ۔ اور جنھیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں سے ایک گروہ ایسا ہے جو حق کی تبلیغ کرتا ہے ۔

دوزخیوں کی نشانیاں

یہ آیات اس بحث کی تکمیل کرتی ہیں جو گذشتہ آیات میں دنیا پرست علماء اور اسی طرح ہدایت اور گمراہی کے عوامل ضمن میں گزری ہے ۔ ان آیات میں لوگوں کو دو حصّوں میں تقسیم کیا گیا ہے اور ہر ایک گروہ کی صفات کی وضاحت کی گئی ہے اور وہ ہیں دوزخیوں کا گروہ اور بہشتیوں کا گروہ۔

اوّل دوزخیوں کے لئے پیدا کیا( وَلَقَدْ ذَرَاٴْنَا لِجَهَنَّمَ کَثِیرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ) ۔

”‘( ذَرَاٴْنَا ) ‘ ‘ ”ذرء“ (بروزن زرع) یہاں خلقت وآفرینش کے معنی میں ہے ۔ لیکن در اصل پراگندہ اور منتشر کرنے کے معنی آٰا ہے جیسا کہ قرآن میں آیا ہے ۔

( تذروه الریاح )

”ہوائیں اسے پراگندہ کرتی ہیں “ (سورہ کہف/ ۴۵)

اور چونکہ موجودات کی پیدائش روئے زمین میں ان کے انتشارار اور پھیلنے کا سبب ہے لہٰذا یہ لفظ خلقت وآفرینش کے معنی بھی آیا ہے ۔

بہرحال یہاں جو اہم اعتراض سامنے آتا ہے وہ یہ ہے کہ یہاں کیونکر یہ فرمایا گیا ہے کہ ہم نے بہت سے جن وانس کو دوزخ کے لئے پیدا کیا ۔ جبکہ ایک اور مقام پر ہے کہ:

( وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلاَّ لِیَعْبُدُونِی ) (سورہ ذاریات/ ۵۶)

اس آیت کے مطابق تمام جن وانس خدا پرستش، ترقی اور فرمانبرداری کے لئے پیدا کئے گئے ۔ اسی لئے تو مذہب جبر کے بعض طرفداروں نے اپنے مذہب کے اثبات کے لئے اس آیت سے استدلال کیا ہے جیسے فخرالدین رازی وغیرہ۔

لیکن اگر آیات قرآن کو ایک دوسرے کی روشنی میں غور سے دیکھا جائے اور سطحی نتائج اخذ کیے جائیں تو اس سوال کا جواب خود آیت میں موجود ہے اور دوسری آیات میں تو اس طرح وضاحت کے ساتھ نظر آتا ہے کہ قارئین کے لئے غلط فہمی کی کوئی گناجائش باقی نہیں رہتی ۔ کیونکہ پہلے تو یہ تشریح اس طرح درست ہے کہ مثلاً ایک بڑھئی کہتا ہے کہ جو لکڑیاں صاف ستھری، مضبوط اور صحیح وسالم ہیں انھیں پہلے مصرف میں لاؤں گا اور جو لکڑیاں خراب اور ٹوٹی پھوٹی ہیں انھیں دوسرے کام میں صرف کروں گا تو ظاہر یہ ہوا کہ بڑھئی کے دو مقاصد ہیں ایک حقیقی اور اصلی اور دوسرا ثانوی ۔ اس کا ہدف تو بہترین دروازے، ان پر خوبصورت نق ونگار ار لکڑی کا دیگر سامان تیار کرنا ہے ۔ اور وہ اپنی تمام تر کوشش اس مقصد کے حصول میں صرف کرے ۔ لیکن جب وہ دیکھے گا کہ کچھ لکڑی ناکارہ ہے اور اس کے کام کی نہیں تو مجبوراً اُسے جلانے کے لئے الگ کردے گا ۔ تو یہ ثانوی ہدف ومقصد ہے نہ کہ اصلی (غور کیجئے گا) ۔

اس مثال میں اور ہمارے زیرِ بحث موضوع میں فرق صرف یہ ہے کہ لکڑیوں کا ایک دوسرے سے فرق اختیاری نہیں ہے ۔ لیکن انسانوں کا فرق خود اعمال سے وابستہ ہے اور اُن کے اختیار میں ہے ۔ اس گفتگو کا بہترین ثبوت ہیں جو جہنمی اور بہشتی گروہ کی ہم مندرجہ بالا آیات میں پڑھتے ہیں ۔ جو نشاندہی کرتی ہیں کہ اس گروہ کا سرچشمہ خود انھی کے اعمال ہیں ۔

دوسرے لفظوں میں خدا نے مختلف آیات میں صریحاً بتایا ہے کہ اُس نے سب کو پاک وپاکیزہ خلق فرمایا ہے اور یہ ان کے اختیار میں ہے کہ وہ چاہیں تو نیکی کے راستے پر چلیں اور ترقی پائیں لیکن ایک گروہ اپنے اعمال کی وجہ سے جہنم کا راستہ اختیار کرتا ہے جو بہت ہی بُرا ٹھکانا ہے ۔ اور ایک گروہ اپنے اعمال کی بنابر اپنے آپ کو بہشت کے لئے نامزد کرتا ہے ۔ اور اس کا انجام خوش بختی ہے اس کے بعد دوزخی گروہ کی صفات کا خلاصہ تین جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔

پہلا یہ کہ وہ دل تو رکھتے ہیں لیکن ان سے غوررفکر اور ادراک کا کام نہیں لیتے( لَهُمْ قُلُوبٌ لَایَفْقَهُونَ بِهَا ) ۔ یہ بات متعدد مقامات پر کہی جاچکی ہے قرآن کی اصطلاح میں روح فکر اور قوتِ عقل کے معنی میں ہے یعنی اس کے باوجود کہ وہ قوت فکر رکھتے ہیں اور چوپاؤں کی طرح بے شعور نہیں پھر بھی اس فضیلت سے فائدہ نہیں اٹھاتے اور نہ ہی سوچ بچار کرتے ہیں اور خ۔حوادث کے عوامل ونتائج پر غور نہیں کرتے اور اس عظیم بدبختی کے چنگل سے نجات پانے کے لئے اپنی صلاحیتوں کو برُوئے کار نہیں لاتے ۔

دوسرا یہ کہ روشن اور حقیقت کو دیکھنے والی آنکھیں تو رکھتے ہیں لیکن حقائق پر نگاہ نہیں ڈالتے اور اندھوں کی طرح ان کے قریب سے گزرجاتے ہیں( وَلَهُمْ اٴَعْیُنٌ لَایُبْصِرُونَ بِهَا ) ۔

تیسرا یہ کہ ”صحیح وسالم کان رکھنے باوجود سچائی کی بات نہیں سنتے اور بہروں کی طرح اپنے آپ کو حرفِ حق سننے سے محروم رکھتے ہیں( وَلَهُمْ آذَانٌ لَایَسْمَعُونَ بِهَا ) ۔

یہ لوگ در حقیقت چوپاؤں کی طرح ہیں کیونکہ چوپاؤں سے انسان کا امتیاز بیدار فکر، چشم بینا اور سننے والے کان کی بناپر ہے افسوس کہ یہ ان سب صلاحیتوں کو گنواچکے ہیں( اٴُوْلٰئِکَ کَالْاٴَنْعَامِ ) ۔ بلکہ وہ چوپاؤں سے بھی زیادہ گمراہ اور پست تر ہیں( بَلْ هُمْ اٴَضَلُّ ) ۔

کیونکہ چوپائے تویہ استعداد اور وسائل نہیں رکھتے لیکن عقل سلیم، دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان کی بدولت ہر قسم کی ترقی وسعادت کا امکان رکھتے ہیں ۔ چونکہ اُن کا رجحان ہوس پرستی اور ذلّت کی طرف ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی عقل اعلیٰ صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کرتے اور یہیں سے اُن کی بدبختی شروع ہوجاتی ہے ۔ ”وہ غافل اور بے خبر افراد ہیں “۔ اور اسی لئے وہ بے راہ روی کا شکار ہیں( اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْغَافِلُونَ ) ۔

آبِ حیات کا چشمہ اُن کے پاس ہے پھر بھی وہ پیاس کے مارے فریاد کررہے ہیں بھلائی کے دروازے ان کے سامنے کھلے ہوئے ہیں لیکن ان کی طرف نظر اٹھاکر نہیں دیکھتے ۔

مذکورہ بالا بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اپنی بدبختی کو خود دعوت دیتے ہیں اور گراں قدر عقل، آنکھ اور کان جیسی نعمتوں سے فیض نہیں اٹھاتے ۔ یہ نہیں کہ خدا نے اُنھیں جبری طورپر دوزخیوں کی صف میں شامل کردیا ہے ۔

چوپاؤں کی طرح کیوں ہیں

قرآن ِ مجید میں بے خبر غافلین کو بارہا بے شعور چوپایوں اور حیوانات سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ ہوسکتا ہے مویشیوں سے تشبیہ اس لئے دی گئی ہو کہ وہ صرف کھانے پینے، سونے اور نسی شہوات میں لگے رہتے ہیں ۔ بالکل ان اقوام وملل کی طرح جو پڑفریب نعروں کے ذریعے عدالتِ اجتماعی اور قوانین بشری کا آخری مقصد روٹی، پانی اور ایک آسودہ مادی زندگی کا حصول قرار دیتے ہیں ۔ حضرت علی علیہ السلام ”نہج البلاغہ“ میں اس سلسلے میں ارشاد فرماتے ہیں :

کالبهیمة المربوطة همها علفها والمرسلة شغلها تقممها

مثل بندھے ہوئے جانور کے جو صرف گھاس کی فکر میں ہے یا دوسرے جانور جو چراگاہ میں چھوڑدیئے گئے ہیں اور اِدھر اُدھر بچا کچھا گھاس اٹھالیتے ہیں ۔(۱)

بالفاظ دیگر آسودہ حال اور دولت مند گروہ گھر میں پرورش پانے والی بندھی ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح ہے اور جو گروہ خوشحال نہیں وہ ان مویشیوں کی طرح ہے جو بیابان میں دربدر پانی اور گھاس کے پیچھے پھرتے رہتے ہیں لیکن ان دونوں گروہوں کا مقصد شکم سیری کے سوا کچھ نہیں ۔

جو کچھ اوپر کہا گیا ہے ہوسکتا ہے یہ ایک ہی فرد پر صادق آئے یا ایک قوم وملت پر۔ وہ قومیں جنھوں نے اپنی فکر وسوچ کا ناکارہ کردیا ہے اور وہ غیرمہذّب سرگرمیوں میں مصروف ہیں نہ تو وہ اپنی بدبختی کی اصل بنیادوں پر غور روفکر کرتی ہیں اور نہ اپنی ترقی کی بنیادوں پر سوچ بچار کرتی ہیں ۔ ان کے کان سنتے ہیں نہ آنکھیں دیکھتی ہیں تو یہ بھی دوزخی ہیں نہ صرف قیامت کی دوزخ میں ہوں گے بلکہ وہ اس دنیا میں بھی زندگی کی دوزخ میں گرفتار ہیں ۔

بہد والی آیت میں اہلِ بہشت کی وضع وکیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان کی صفات بیان کی گئی ہیں ۔ اوّل دوزخیوں کی سف سےباہر نکالنے کے لئے لوگوں کو خدا کے اسماء حسنیٰ پر گہری توجہ دینے کی دعوت دیتے ہوئے فرماتا ہے: خدا کے لئے بہترین نام ہیں اسے انہی کے ساتھ پکارُو( وَلِلّٰهِ الْاٴَسْمَاءُ الْحُسْنَی فَادْعُوهُ بِهَا ) ۔

اسماء حسنیٰ سے مراد پروردگار کی مختلف صفات ہیں جو سب اچھی اور سب کی سب حسنیٰ ہیں ۔ہم جانتے ہیں کہ خداوندعالم ہے، قادر ہے، رازق ہے، عادل ہے، جواد ہے، کریم ہے، رحیم ہے اور اسی طرح اس کی اور بھی بہت سی صفات ہیں ۔

خدا کو ان ناموں کے ساتھ پکارنے سے مراد صرف یہ نہیں کہ ان الفاظ کو ہم اپنی زبان پر جاری کرلیں ، مثلاً ہم کہیں یا عالم، یا قادر، یا ”ارحم الراحمین“ بلکہ چاہیے یہ کہ ہم ان صفات کو حتی المقدور اپنے اندر پیدا کریں ۔ خدا کے علم ودانش کا پرتو، اس کی قدرت وتوانائی کی ایک کرن اور اس کی وسیع رحمت کا ایک اہم ذرّہ ہم ہیں اور ہمارے معاشرے میں عمل شکل اختیار کرلے، دوسرے لفظوں میں اس جیسے اوصاف خود میں پیدا کریں اور اس کے اخلاقِ حسنیٰ کو اپنائیں اور اُسے مسعل راہ بنائیں تاکہ اس علم وقدرت اور اسی عدالت ورحمت کے سائے میں ہم اپنے آپ کو اور اس معاشرے کو جس میں زندگی بسرے کررہے ہیں دوزخیوں کی سف سے نکال لیں ۔

اس کے بعد خدا لوگوں کو اس بات سے ڈراتا ہے کہ وہ اُس کے ناموں میں تحریف نہ کریں لہٰذا ارشاد ہوتا ہے: انھیں چھوڑدو جو خدا کے ناموں میں ردّوبدل کرتے ہیں وہ عنقریب اپنے بُرے اعمال کی سزا پائیں گے( وَذَرُوا الَّذِینَ یُلْحِدُونَ فِی اٴَسْمَائِهِ سَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

”الحاد“ اصل میں ”لحد“ (بروزن مہد) اس گڑھے کے معنی میں ہے جو ایک ہی طرف ہو اسی بناپر گڑا جو قبر کی ایک طرف ہو اسے لحد کہتے ہیں ۔ اس کے بعد ہر سا کام کو الحاد کہا جانے لگا جو اعدال اور وسط کی حد سے افراط وتفریط کی طرف مائل ہو۔ شرک وبت پرستی پر بھی اسی وجہ سے الحاد کا اطلاق ہوتا ہے ۔

اسماء خدا میں الحاد سے مراد یہ ہے کہ ہم ان کے ان الفاظ اور مطالب کو تبدیل کردیں یا اسے اوصاف کے ساتھ متصف کریں کہ جو خدا کے شایانِ شان نہ ہو۔ عیسائیوں کی طرح جو تین خداؤں کو مانتے ہیں یا یہ کہ خدا کی صفات کو اس کی مخلوق پر منطبق کریں بت پرستوں کی طرح جو بتوں کے ناموں کو خدا کے نام سے اخذ کرتے تھے مثلاً ایک بت کو ”اللات“ دوسرے کو ”العزیٰ“ اور تیسرے کو ”منات“ کہتے تھے جو بالترتیب ”الله“، ”العزیز“ اور ”المنّان“ سے مشتقتھے ۔ یا مثل عیسائیوں کے جو خدا کا نام عیسیٰ اور روح القدس کودیتے ہیں ۔

یا یہ کہ اس کی صفات میں اس طرح ردّوبدل کریں کہ جس کا نتیجہ مخلوقات سے تشبیہ یا صفات کی تعطیل یا اس قسم کی کوئی چیز ہو یا صرف نامک پر اکتفاء کریں بغیر اس کے کہ ان صفات کو اپنے اُوپر یا اپنے معاشرے پر منطبق کریں ۔

آخری آیت میں دو حصّوں کی طرف کہ جو بہشتی گروہ کی بنیادی صفات ہیں ، اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: ان میں سے کہ جنھیں ہم نے خلق کیا ہے ایک امّت اور گروہ ایسا ہے جو لوگوں کو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے( وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اٴُمَّةٌ یَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَبِهِ یَعْدِلُونَ ) ۔

حقیقت یہ ہے کہ ان کے دو واضح پروگرام اور ان کی حکومت حق اور حقیقت کی بنیاد پر قائم ہے ۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ، خط نمبر۴۵.

چند اہم نکات

۱ ۔ اسماء حسنیٰ کیا ہیں :

شیعہ وسنّی کتب وتفسیر میں اسماء حسنیٰ کے سلسلہ میں تفصیلی ملتی ہیں کہ جن کا خلاصہ اور اپنا نکتہ نظر ہم یہاں پر بیان کرتے ہیں

اس میں کوئی شک نہیں کہ ”اسماء حسنیٰ “ کا مطلب ”اچھے نام“ ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ پروردگار کے سب نام اچھے اپنے اندر اچھے مفاہیم ہی رکھتے ہیں تو اس بناپر اس کے سب نام ہی حسنیٰ ہیں ۔ قطع نظر اس کے کہ وہ ذات پاک کی صفات ثبوتیہ میں سے ہوں مثلاً ”عالم وقار“یا یہ کہ ذات مقدس کی صفات سلبیہ میں سے ہوں ۔ جیسا کہ ”قدوس“ یا وہ جو صفات فعل ہیں جو اس کے کسی فعل کی ترجمانی کرتی ہیں مثلاً خالق ، غفور، رحمٰن اور رحیم۔

دوسری طرف اس میں بھی شک نہیں کہ صفات باری تعالیٰ کا احاطہ اور شمار نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے کمالات اور لامحدود ہیں اور اس کے ہر کمال کے لئے کوئی نام اور صفت ہم انتخاب کرسکتے ہیں ، لیکن جیسا کہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کی صفات میں سے بعض بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں اور ”اسماء حسنیٰ“ جوکہ اُوپر والی آیت میں آئے ہیں شاید ان میں ممتازتر صفات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ وہ روایات جو پیغمبر اکرماور آئمہ اہلبیت(علیه السلام) سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں بارہا یہ مطلب نظر سے گذرا ہے کہ خدا کے ننانوے نام ہیں اور جو شخص بھی اسے ان ناموں کے ساتھ پکارے اس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے وہ اہل بہشت میں سے ہے ۔

مثلاً وہ روایت جو کتاب توحیدِ صدوق میں امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء واجداد کے حوالہ سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:

”إنّ اللّٰه تبارک وتعالیٰ تسعة وتسعین إسماً، ماٴة الّا واحدة، من اٴحصاها دخل الجنة ...(۱)

”الله تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“

نیز کتاب توحید ہی میں امام علی بن موسی الرضا علیہما السلام سے ان کے اباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام سے نقل ہوا ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

إنّ اللّٰه عزّوجلّ تسعة وتسعین إسماً مَن دَعا اللّٰه بها استجاب له ومن اٴحصاها دخل الجنة... (۲)

”یعنی خدا تعالیٰ کے ننانوے نام ہیں جو ان کے ذریعے الله کو پکارے اُس کی دعا مستجاب ہوگی اور جو انھیں شمار کرے جنت میں داخل ہوگا“

صحیح مسلم، بخاری، ترمذی اور اہل سنت کی دیگر کتب احادیث میں بھی یہی مضمون خدا کے ننانوے ناموں کے بارے میں درج ہے اور یہ بھی کہ جو خص خدا کو اُن کے ساتھ پکارے اس کی دعا قبول ہوگی یا جو شخص انھیں شمار کرے وہ اہلِ بہشت میں سے ہوگا(۳) ان میں سے بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ننانوے نام قرآن مجید میں ہیں ، مثلاً وہ روایت جو ابنِ عباس سے منقول ہے کہ پیغمبر نے فرمایا:

للّٰهِ تسعة وتسعون إسماً من اٴحساها دخل الجنة وهی فی القرآن(۴)

الله کے ننانوے نام گننے والا جنت میں جائے گا اور وہ قرآن میں ہیں ۔

اس لئے بعض علماء نے کوشش کی ہے کہ وہ ان ناموں اور صفات کو قرآن مجید سے اخذ کریں لیکن خدا کے جو نام قرآن مجید میں آئے وہ ننانوے سے زیادہ ہیں لہٰذا ہوسکتا ہے کہ اسماء حسنیٰ انھیں کے درمیان ہوں اور یہ درست نہیں کہ ننانوے ناموں کے علاوہ خدا کا اور کوئی نام نہیں ۔

بعض روایات میں یہ ننانوے نام آئے ہیں ، ہم ذیل میں ان میں سے ایک حدیث بیان کرتے ہیں (لیکن یاد رہے کہ ان میں سے بعض نام جس طرح اس روایت میں آئے ہیں اس طرح متن قرآن میں نہیں ہیں لیکن ان کا مضمون ومفہوم قرآن میں موجود ہے)

اور یہ وہ روایت ہے جو ”توحیدِ صدوق“ میں امام صادق علیہ السلام سے ان کے آباء واجداد کے حوالے سے حضرت علی علیہ السلام کے ذریعہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل ہوئی ہے کہ جس میں اس طرف اشارہ فرمانے کے بعد خدا کے ننانوے نام ہیں آپ فرماتے ہیں :

وهی اللّٰه، الالٰه، الواحد، الاحد، الصمد، الاوّل، الاٰخر، السمیع، البصیر، القدیر، القادر، العلی، الاعلیٰ، الباقی، البدیع، الباریء، الاکرم، الباطن، الحی، الحکیم، العلیم، الحلیم، الحفیظ، الحق، الحسیب، الحمید، الحفی، الرب، الرحمان، الرحیم، الذراء، الرازق، الریب، الروٴف، الرائی، السلام، الموٴمن، المهیمن، العزیز، الجبّار، المتکبر، المتکبر، السیدن السبوح، الشهید، الصادق، الصانع، الظاهر، العدل، العفو، الغفور، الغنی، الغیاث، الفاطر، الفرد، الفتاح، الفالق، القدیم، الملک، القدوس، القوی، القریب، القیوم، القابض، الباسط، قاضی الحاجات، المجید، المولیٰ، المنّان، المحیط، المبین، المغیث، المصوّر، الکریم، الکبیر، الکافی، الکاشف الضّر، الموتر، النّور، المهّاب، الناصر، الواسع، الودود، الهادی، الوفی، الوکیل، الوارث، البرّ، الباعث، التوّاب، الجلیل، الجواد، الخبیر، الخالق، خیرالناصرین، الدیّان الشکور، العظیم، اللّطیف، الشافی ۔(۵)

لیکن جو چیز یہاں پر زیادہ اہمیت رکھتی ہے اور خصوصیت کے ساتھ جس کی طرف توجہ دیتی ہے وہ یہ ہے کہ خدا ان ناموں سے پکارنے یا پررودگار کے اسماء حسنیٰ کو شمار کرنے سے یہ مراد نہیں ہے کہ ان کے معانی ومفاہیم کس طرف توجہ کیے بغیر صرف الفاظ ادا کئے جائیں تو کوئی شخص سعادت مند ہوجائے گا یا اُس کی دعا قبول ہوجائے گی، بلکہ اصل مقصد تو یہ ہے کہ ان اسماء اور صفات پر ایمان رکھتا ہو اور کوشش کرے کہ اپنے وجود میں ان کے مفاہیم کا پرتو یعنی عالم، قادر، رحمان، رحیم، حلیم، غفور، قوی، غنی، رازق، وغیرہ کا مفہوم اپنے وجود میں منعکس کرے، مسلّم ہے کہ ایسا شخص بہشتی بھی ہوجائے گا اور اس کی دعا بھی قبول ہوگی اور ہر خیرونیکی کو پائے گا ۔

جو کچھ ضمناً بیان ہوا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ اگر کچھ روایات اور دعاؤں میں ان ناموں کے علاوہ خدا کے اسماء کا تذکرہ ملتا ہے اور بعض دعاؤں میں خدا کے ناموں کی تعداد ایک ہزار تک پہنچ گئی ہے، تو ہمارا بیان ان کی منافی نہیں کیونکہ خدا کے اسماء کی کوئی انتہا نہیں اور خدا کی ذات باکمال ولازوال کی طرح وہ غیر محدود ہیں اگرچہ ان میں سے کچھ صفات اور اسماء ممتاز ہیں ۔

بعض اور بھی روایات ہیں مثلاً وہ روایت جو کافی میں امام صادق علیہ السلام سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:نحن واللّٰه الاسماء الحسنیٰ

خدا کی قسم ہم خدا کے اسماء حسنیٰ ہیں(۶)

تو یہ اس طرف اشارہ ہے کہ صفات خداوندی کا قوی پرتو ہمارے وجود میں منعکس ہوا ہے اور ہماری معرفت اس کی پاک ذات معرفت کے لئے ممد ومعاون ثابت ہوتی ہے، ایسی روایات بھی بطور سطورِ بالا پیش کئے گئے مفہوم سے کوئی تضاد نہیں رکھتیں ۔

یا پھر دوسری احادیث میں درج ہے کہ تمام اسماء حسنیٰ کا خلاصہ ”خالص توحید“ میں ہے تو اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ اس کی تمام صفات اس کی یکتا ذات پاک طرف لوٹتی ہیں ۔

فخرالدین رازی اپنی تفسیر میں ایک مطلب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو ایک لحاظ سے قابلِ غور ہے پروردگار کی تما صفات ان دو حقیقتوں کی نشاندہی کرتی ہیں ”اس کی ذات کی ہر چیز سے بے نیازی“ یا ”ہر چیز کی اس کی ذات کی طرف نیازمندی“۔(۷)

۲ ۔ فلاح ونجات پانے گروہ:

جیسا کہ مذکورہ بالا آیات میں بیان کیا گیا ہے کہ بندگان خدا کا ایگ گروہ حق کی طرف دعوت دیتا ہے اور حق کے مطابق حکم کرتا ہے، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس گروہ سے کون لوگ مراد ہیں ان روایات میں جو احادیث اسلام میں آئی ہیں مختلف تعبیریں نظر سے گزرتی ہیں ، بشمول ان کے امیرالمومنین(علیه السلام) سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

اس سے مراد امت محمد صلی الله علیہ وآلہ سلّم ہے(۸)

یعنی وہ لوگ جو رسولِ اکرم صلی الله علیہ وآلہ سلّم کے سچّے پیروکار ہیں اور آنحضرت کی تعلیمات میں کسی قسم کے ردّوبدل، تغیّر، بدعت اور انحراف سے کنارہ کش ہیں ۔

اسی بناپر ایک اور حدیث میں رسول اکرمصلی الله علیہ وآلہ سلّم سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

والذّی نفسی بیده لتفرقن هٰذه الامة، علیٰ ثلاثة وسبعین فرقة کلها فی النار الّا فرقة“ وممن خلقنا امة یهدون بالحق وبه یعدلون“ وهٰذه التی تنجو من هٰذه الامة

قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے یہ امّت تہتّر فرقوں میں بٹ جائے گی کہ جو سب دوزخ میں جائیں گے سوائے ایک فرقے کے کہ جن کی طرف خدا نے آیہ وممن خلقنا امة... میں اشارہ کیا ہے صرف وہی اہلِ نجات ہیں ۔(۹)

ہوسکتا ہے ۷۳ کا عدد کثرت یا بہتات کے لئے استعمال ہوا ہو اور مختلف گروہوں کی طرف اشارہ مطلوب ہو جو اسلام کی پوری تاریخ میں عجیب وغریب عقائد کے ساتھ وقوع پذیر ہوتے رہے اور خوش قسمتی سے ان میں زیادہ تر ختم ہوگئے ہیں اور ”تاریخ عقائد“ کی کتب میں صرف اُن کے نام رہ گئے ہیں ، ایک اور حدیث میں جو اہل سنّت کے منابع میں حضرت علی علیہ السلام سے منقول ہے ہم پڑھتے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ان مختلف گروہوں کے ضمن میں جو آئندہ امّت اسلامی پیدا ہونے والے تھے ۔ ارشاد فرمایا ہے:

وہ گروہ جو اہلِ نجات ہے وہ میرے شیعہ اور میرے مکتب کے پیروکار ہیں ۔(۱۰)

واضح ہے کہ اوپر والی تمام روایات ایک ہی سچائی و حقیقت کی تصدیق کررہی ہیں ۔اور اس حقیق کے مختلف پہلوؤں کو بیان کررہی ہیں یعنی آیت میں ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جو دعوت حق دیتا ہے اور جس کا قول و فعل نظام حکومت اور پروگرام سراسر حق ہے اور وہ سچے اور صحیح اسلام کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے اور یہ امر قابل توجہ ہے کہ تمام تضادات کے باوجود جو علمی، نسلی اور لسانی معاملات میں ہوتے ہیں وہ (پھر بھی) ایک ہی امت اور ایک گروہ سے زیادہ نہیں ہیں ۔ کیونکہ قرآن ان کے بارے میں اُمّت (نہ کہ امم) کا لفظ استعمال کرتا ہے ۔

۳ ۔ خدا کا اسم اعظم:

بعض روایات میں کہ جو ”بلعم باعورا“ کے واقعہ سے متعلق ہیں ، جس کا تذکرہ ہوچکا ہے یہ آیا ہے کہ وہ خدا کے ”اسم اعظم“ کو جانتا تھا ۔ اوپر والی آیات کی مناسبت سے جن میں خدا کے اسماء حسنیٰ پر گفتگو ہوئی ہے مناسب ہوگا کہ ہم اس موضوع کی طرف اشارہ کریں ۔

اسم اعظم کے سلسلے میں گونا گوں روایات ملتی ہیں اور ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جو شخص اس اسم سے باخبر ہو نہ صرف اس کی دعا قبول ہوتی ہے بلکہ یہ فیض بھی اٹھاتا ہے کہ خدا کے حکم سے عالم طبیعت میں تصرف بھی کرسکتا ہے اور اہم کام انجام دے سکتا ہے ۔

اس بارے میں کہ خدا کے ناموں میں سے اسم اعظم کو نسا ہے بہت سے علماء اسلام نے بحث کی ہے اور زیادہ تر مباحث جس محور کے گرد گھومتی ہیں ، وہ یہ ہے کہ خدا کے ناموں میں سے وہ اس نام کا سراغ لگائیں جو یہ عجیب اور عظیم خاصیت رکھتا ہو۔

لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اس بات کی طرف زیادہ توجہ دینی چاہیے کہ ہم ایسے نام اور صفات کا پتہ لگائیں کہ جن کے مفہوم کو اپنا نے سے ہم ایسا روحانی کمال حاصل کریں کہ جس سے وہ آثار مرتب ہوں ۔ بالفاظ دیگر اصل مسئلہ ان صفات کو خود میں پیدا کرنا، ان مفاہیم کا واجد ہونا اور ان اوصاف سے متصف ہونا ہے ۔ ورنہ کس طرح ممکن ہے کہ گناہوں سے آلودہ ایک شخص مستجاب الدعوة وغیرہ ہوجائے ۔

اور اگر ہم سنتے ہیں کہ بلعم اسم اعظم کا حامل تھا اور اسے ہاتھ سے کھو بیٹھا تو اس کا مفہوم بھی یہی ہے کہ وہ خود سازی، ایمان کی آگاہی اور پرہیزگاری کی وجہ سے روحانیت کے اس مرتبہ پر فائز ہوگیا تھا کہ اس کی دعا بارگاہ ایزدی میں رد نہیں ہوتی تھی لیکن پھر وہ ان لغزشوں کے نتیجے میں کہ جن سے بہرحال انسان محفوظ نہیں ہے اور ہوس پرستی میں مبتلا ہونے سے، فرعونوں اور طاغوتوں کی خدمت گزاری کی وجہ سے وہ روحانیت و معنویت سے مکمل طور پر ہاتھ دھوبیٹھا اور اس مقام و مرتبہ کو کھوبیٹھا اور اسمِ اعظم کے بھول جانے سے مراد ہوسکتا ہے یہی معنی ہو۔

نیز اگر مرقوم ہے کہ رسولِ اعظم اور ہادیاں بر حق اسم اعظم سے آگاہ تھے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ انہوں نے خدا کے اس عظیم ترین اسم کی حقیقت کو اپنے وجود میں جذب کرلیا تھا اور اس حالت و کیفیت کی وجہ سے خدانے انھیں یہ بلند مقام عطا فرمادیا تھا ۔

____________________

۱، ۲، ۳، ۴۔تفسیر المیزان؛ مجمع البیان اور نور الثقلین آیہ ہٰذا کے ذیل میں

۵۔ المیزان،ج۸، ص۳۷۶ (منقول از توحید صدوق).

۶۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۰۳.

۷۔ تفسیر فخر رازی، ج۱۵، ص۶۶.

۸۔ نور الثقلین، ج۲، ص۱۰۵.

۹۔ مدرک مافوق.

۱۰۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۵۳.

بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ اس آیت سے مراد آئمہ اہل بیت(علیه السلام) ہیں ۔ (۱۲)

۱۰۔ نورالثقلین جلد ۲ صفحہ ۱۰۴ و صفحہ ۱۰۵.