تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30779
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30779 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیت ۲۸

۲۸( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمْ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ إِنْ شَاءَ إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ )

ترجمہ

۲۸ ۔ اے ایمان والو! مشرک ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد وہ مسجد الحرام کے قریب نہیں جاسکتے اور اگر فقر وفاقہ سے ڈرتے ہو تو خدا اپنے فضل سے چاہے گا تمھیں بے نیاز کردے گا، خدا دانا اور حکیم ہے ۔

مشرکین کو مسجد میں داخلے کا حق نہیں

ہم کہہ چکے ہیں کہ حضرت علی علیہ السلام نے ۹ ھء مراسم حج میں مکہ کے لوگوں تک جو چار احکام پہنچائے ان میں سے ایک یہ تھا کہ آئندہ سال کوئی مشرک مسجد الحرام میں داخل ہونے اور خانہ کعبہ کے گرد طواف کرنے کا حق نہیں رکھتا، مندرجہ بالا آیت اس امر اور اس کے فلسفے کی طرف اشارہ کرتی ہے، پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! مشرکین ناپاک ہیں لہٰذا اس سال کے بعد انھیں مسجد الحرام کے قریب نہیں آنا چاہیے( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّمَا الْمُشْرِکُونَ نَجَسٌ فَلَایَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِهِمْ هٰذَا ) ۔

کیا یہ آیت مشرکین کے نجس ہونے پر فقہی مفہوم کے لحاظ سے دلیل ہے یا نہیں ، اس سلسلے میں فقہاء اور مفسّرین میں اختلاف ہے ۔

آیت کے معنی کی تحقیق کے لئے ضروری ہے کہ پہلے لفظ ”نجس“ (بروزن ”ہوس“) پر بحث کی جائے، یہ لفظ مصدری معنی رکھتا ہے اور تاکید ومبالغہ کے طور پر صفت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔

راغب نے مفردات میں اس لفظ کے معنی کے سلسلے میں لکھا ہے کہ ”نجاست“ اور ”نجس“ ہر قسم کی ناپاکی کے معنی میں ہے اور وہ دو طرح کی ہوتی ہے ایک حسّی اور دوسری باطنی ۔

طبرسی ”مجمع البیان“ میں کہتے ہیں کہ ہر وہ چیز کہ جس سے انسان کی طبیعت متنفر ہو اسے ”نجس“ کہا جاتا ہے ۔

اس لئے یہ لفظ بہت سے ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے جہاں اس کا ظاہری نجاست اور آلودگی کا مفہوم نہیں ہوتا، مثلاً ایسی تکلیف اور درد کہ جس کا علاج دیر میں ہو عرب اسے ”نجس“ کہتے ہیں ، پست اور شریر اشخاص کے لئے بھی یہی لفظ بولا جاتا ہے، بڑھاپے اور بدن کی کہنگی وفرسوگی کو بھی ”نجس“ کہتے ہیں ۔

اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ مشرکین کو نجس اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کا جسم پلید ہے جیسے خون، پیشاب اور شراب نجس ہوتے ہیں یا یہ کہ بت پرستی کا عقیدہ رکھنے کی وجہ سے ان میں ایک قسم کی باطنی پلیدگی ہے، اس طرح سے کفار کی نجاست ثابت کرنے کے لئے اس آیت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا اور اس کے لئے ہمیں دوسری ادلّہ تلاش کرنا پڑ یں گی ۔

اس کے بعد ان کوتاہ فکر افراد کو جواب دیا گیا ہے جو یہ اظہار کرتے تھے کہ اگر مشرکین کا مسجد الحرام میں آنا جانا بند ہوگیا تو ہمارا کاروبار اور تجارت بند ہوجائے گی اور ہم فقیر ہوکر رہ جائیں گے، ارشاد ہوتا ہے: فقر وفاقہ سے ڈرتے ہو تو اگر خدا نے چاہا تو عنقریب تمھیں اپنے فضل وکرم کے ذریعہ بے نیاز کردے گا( وَإِنْ خِفْتُمْ عَیْلَةً فَسَوْفَ یُغْنِیکُمْ اللهُ مِنْ فَضْلِهِ ) ۔

اور ایسا ہی ہوا کہ اُس نے مسلمانوں کو بہترین طور پر بے نیاز کردیا اور زمانہ پیغمبر ہی میں اسلام کے پھیلاو اور وسعت سے خانہ خدا کے زائرین کا ایک سیلاب مکہ کی طرف اُمڈ آیا اور آج تک اسی طرح جاری وساری ہے ، مکہ جو جغرافیائی لحاظ سے نامناسب ترین حالات سے دوچار ہے، جو چند خشک اور سنگلاخ بے آب وگیاہ پہاڑوں کے درمیان موجود ہے، اس کے باوجود ایک بہت ہی آباد شہر ہے اور تجارت کا اہم مرکز ہے ۔

آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے: خدا علیم و حکیم ہے( إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) اور وہ جو بھی کم دیتا ہے حکمت کے مطابق ہوتا ہے اور وہ نتائج سے مکمل طور پر آگاہ اور باخبر ہے ۔

آیت ۲۹

۲۹( قَاتِلُوا الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَابِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَلَایُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَلَایَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ )

ترجمہ

۲۹ ۔ اہلِ کتاب میں سے وہ لوگ جو نہ خدا پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ روز جزا پر اور نہ اسے حرام سمجھتے جسے الله اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے اور نہ دینِ حق قبول کرتے ہیں ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے ہاتھ خضوع وتسلیم کے ساتھ جزیہ دینے لگیں ۔

اہلِ کتاب کے بارے میں ہماری ذمہ داری

گذشتہ آیات میں بت پرستوں سے متعلق مسلمانوں کی ذمہ داری یبان کی گئی ہے، زیر بحث آیت اور آئندہ آیات میں اہلِ کتاب کے بارے میں مسلمانوں کی ذمہ داری کو واضح کیا گیا ہے، ان آیات میں در حقیقت اسلام کے ایسے احکام ہیں جو مسلمانوں اور مشرکین کے بارے میں اسلامی احکام کا حد وسط ہیں کیونکہ اہلِ کتاب ایک آسمانی دین کی پیروی کی وجہ سے مسلمانوں سے مشابہت رکھتے ہیں لیکن ایک پہلو سے مشرکین کے ساتھ مشابہت رکھتے ہیں اسی بناپر اسلام انھیں قتل کرنے کی اجازت نہیں دیتا حالانکہ جو بت پرست کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ان کے لئے یہ اجازت دیتا تھا کیونکہ پروگرام یہ ہے کہ روئے زمین سے بت پرستی کی بیخ کنی کی جائے، لیکن اہلِ کتاب کو اس صورت میں مسلمانوں کے قریب آنے کی اجازت دیتا ہے کہ وہ اس بات کے لئے تیار ہوں کہ وہ پُرامن مذہبی اقلیت کے طور پر مسلمانوں کے ساتھ مصالحت آمیز زندگی بسر کریں ، اسلام کا احترام کریں ، مسلمانوں کے خلاف تحریکیں نہ چلائیں اور مخالفِ اسلام پراپیگنڈا نہ کریں ، پُرامن بقائے باہمی کا اصول تسلیم کرنے کی ایک نشانی یہ ہے کہ وہ حکومت اسلامی کو جزیہ کی ادائیگی کریں جو ان سے ہر شخص پر ایک طرح کا ٹیکس ہے اور یہ سالانہ ایک مختصر سی رقم بنتی ہے، اس کی حدود وشرائط انشاء الله آئندہ مباحث میں بیان کی جائیں گی، ورنہ دوسری صورت میں اسلام ان سے جنگ کی اجازت دیتا ہے ۔

اس شدت عمل کی دلیل زیرِ بحث آیت کے تین جملوں میں واضح کی گئی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے: جو لوگ خدا اروزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتے ان سے جنگ کرو( قَاتِلُوا الَّذِینَ لَایُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلَابِالْیَوْمِ الْآخِرِ ) ۔

مگر یہ سوال ہے کہ یہود ونصاریٰ جیسے اہل کتاب کسی طرح خدا اور روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتے حالانکہ ظاہراً ہم دیکھتے ہیں وہ خدا کو بھی مانتے ہیں اور قیامت کو بھی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا ایمان خرافات اور بے بنیاد عقائد سے مملو ہے ۔

ان کے مبداء اور حقیقتِ توحید کے بارے میں ایمان کے سلسلے میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہودیوں کا ایک گروہ، جیسا کہ بعد کی آیات میں آئے گا حضرت عزیر(ع) کو خدا کا بیٹا جانتے تھے اور عیسائی عموماً حضرت مسیح(ع) کو الوہیت اور تثلیث پر ایمان رکھتے ہیں ۔

دوسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ آئندہ آیات میں اشارہ کیا گیا ہے وہ ”شرک فی العبادة“ میں گرفتار تھے اور علی طور پر اپنے مذہبی علماء اور پیشواوں کی پرستش کرتے تھے، گناہوں کی بخشش جو خدا کے ساتھ مخصوص ہے وہ ان سے چاہتے تھے اور خدائی احکام میں تحریف کرنے کے بعد تحریف شدہ احکام کو باقاعدہ مانتے تھے ۔

باقی رہا معا وقیامت کے بارے میں ان کا ایمان تو وہ تحریف شدہ ایمان تھاکیونکہ معاد کو وہ معادِ روحانی میں منحصر سمجھتے تھے جیسا کہ ان کی باتوں سے معلوم ہوتا ہے، لہٰذا مبداء اور معاد دونوں پر ایمان ان کا ایمان مخدوش ہے ۔

اس کے بعد ان کی دوسری صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ وہ محرماتِ خداوندی کو تسلیم نہیں کرتے تھے اور جسے خدا اور اس کا پیغمبر حرام کرچکے تھے اُسے حرام شمار نہیں کرتے تھے( وَلَایُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ ) ۔

ہوسکتا ہے کہ ”رسولہ“ (اس کا رسول) سے مراد حضرت موسیٰ(ع) یا حضرت عیسیٰ(ع) کے دین میں حرام دیئے گئے ہیں ان کا ارتکاب کرتے ہیں ، نہ صرف یہ کہ ان کا ارتکاب کرتے بلکہ بعض اوقات انھیں حلال قرار دیتے ہیں ، یہ بھی ممکن ہے کہ ”رسولہ“ سے مراد پیغمبر اسلام ہوں یعنی یہ جو ان کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے جو کچھ خدا نے پیغمبر اسلام کے ذریعے حرام کیا ہے اس کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے اور ہر قسم کے گناہوں کے مرتکب ہوتے ہیں ۔

یہ احتمال زیادہ قرینِ نظر ہے اور اس کی شاہد اسی سورت کی آیت ۳۳ ہے جس کی عنقریب تفسیر بیان کی جائے گی، جس میں فرمایا گیا ہے:( هُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ )

وہ خدا وہ جس نے اپنے رسول کو دینِ حق کی ہدایت کے لئے بھیجا ۔

علاوہ ازین قرآن مجید میں جہاں لفظ ”رسولہ“ بطور مطلق بولا جائے وہاں اس سے مراد پیغمبر اسلام ہوتے ہیں ، اس سے قطع نظر اگر مراد انہی کا پیغمبر ہوتا تو پھر مفرد کی صورت میں نہ کہتا بلکہ تثنیہ یا جمع کی صورت میں کہتا کیونکہ ان کا اپنا رسول تھا یا رسل تھے جیسا کہ سورہ یونس کی آیہ ۱۳ میں آیا ہے:( وَجَائَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ )

یعنی: ان کے رسول اُن کے لئے واضح دلائل لائے تھے ۔

ایسی تعبیر قرآن کی دیگر آیات میں بھی دکھائی دیتی ہے ۔

ممکن ہے کہا جائے کہ اس صورت میں یہ آیت توضیحِ واضیحات میں سے ہوگی کیونکہ واضح ہے کہ غیرمسلم دینِ اسلام کے تمام محرمات کو قبول نہیں کرتے لیکن توجہ کرنا چاہیے کہ ان صفات کو بیان کرنے کا مقصد ان کے خلاف جہاد کے جائز ہونے کی علت بیان کرنا ہے، یعنی ان سے جہاد اس لئے جائز ہے کہ وہ محرماتِ اسلامی کو قبول نہیں کرتے اور بہت سے گناہوں میں آلودہ ہیں لہٰذا اگر وہ جنگ اور مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوں اور ایک پُرامن اقلیت بن کر نہ رہیں تو پھر ان سے جنگ کی جاسکتی ہے ۔

آخر میں ان کی تیسری صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : وہ پورے طور پر دینِ حق قبول نہیں کرتے (وَلَایَدِینُونَ دِینَ الْحَقِّ) ۔ اس جملے کے بارے میں گذشتہ دونوں احتمالات ہیں لیکن ظاہر یہ ہے کہ ”دین حق“ سے مراد ”دین اسلام“ ہی ہے کہ جس کی طرف چند آیات کے بعد اشارہ کیا گیا ہے ۔

محرمات اسلامی پر اعتقاد نہ رکھنے کی بات کرکے اس بات کا پیمان خاص کے بعد عام بات بیان کرنے کی طرح ہے یعنی پہلے بہت سے محرمات میں ان کے آلودہ ہونے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کیونکہ یہ آلودگی خصویت سے چھپنے والی ہے ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے کہ در اصل یہ لوگ دین حق کے سامنے سرنگوں ہی نہیں ہیں یعنی ان کے ادیان راہِ حقیقی سے منحرف ہوچکے ہیں ، وہ بہت سے حقائق فراموش کرچکے ہیں اور ان کی بجائے اپنے دین میں بہت سے خرافات شامل کرچکے ہیں ، لہٰذا یا تو وہ ارتقائی اور کامل تر انقلابِ اسلام کو قبول کرلیں اور اپنی مذہبی فکر کی نئی دنیا بنالیں اور یا کم از کم پُرامن اقلیت کے طور پر مسلمانوں کے ساتھ رہیں اور صلح آمیز شرائط زندگی قبول کرلیں ۔

یہ تین اوصاف جو در حقیقت ان سے جہاد کے جواز بیان کرنے کے لئے ہیں ، ان کے بعد فرمایا گیا ہے: یہ حکم ان کے بارے میں ہے جو اہلِ کتاب ہیں( مِنَ الَّذِینَ اٴُوتُوا الْکِتَابَ ) ۔

اصطلاح کے مطابق لفظ ”من“ یہاں بیانیہ ہے نہ کہ تبعیضیہ، دوسرے لفظوں میں قرآن کہتا ہے کہ (افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ) تمام گذشتہ آسمانی کتب کے پیروکار ان مذہبی انحرافات میں گرفتار ہیں اور یہ حکم ان سب کے بارے میں ہے ۔

اس کے بعد ان کے اور بت پرستوں کے درمیان فرق ایک ہی جملے میں بیان کردیا گیا ہے، ارشاد ہوتا ہے: جب تک جزیہ ادا نہ کرنے لگ جائیں یہ جنگ جاری رہے گی( حَتَّی یُعْطُوا الْجِزْیَةَ عَنْ یَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۔

”جزیة“ ”جزاء “کے ماد ہ سے ہے اس سے مراد وہ مال ہے جو اُن غیرمسلموں سے لیا جائے جو حکومت اسلامی کی پناہ میں رہیں ، اس کا یہ نام اس لئے رکھا گیا ہے کہ وہ یہ مال اپنی جان ومال کی حفاظت کے بدلے جزاء کے طور پر حکومت اسلامی کو دیتے ہیں ، اس لفظ کا یہ مفہوم راغب نے مفردات میں بیان کیا ہے ۔

”صاغر“ ”صغر“ (بروزن ”پسر“) کے مادہ سے ہے اور یہ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اپنے چھوٹے ہونے پر راضی ہو اور مندرجہ بالا آیت میں اس سے مراد یہ ہے کہ جزیہ ادا کرنا دین اسلام اور قرآن کے سامنے اظہارِ خضوع کے طور پر ہو۔ دوسرے لفظوں میں یہ پُرامن بقائے باہمی کی علامت اور حاکم اکثریت کے سامنے ایک صلح مند محترم اقلیت کی حیثیت کی نشانی کے طور پر ہے ۔

یہ جو بعض مفسرین نے اس کی تفسیر اہلِ کتاب کی تحقیر وتوہین کے طور پر کی ہے وہ نہ تو لفظ کے لغوی مفہوم سے ظاہر ہوتی ہے اور نہ ہی تعلیماتِ اسلامی کی روح سے یہ بات مطابقت رکھتی ہے اور نہ ہی مذہبی اقلیتوں سے سلوک کے بارے میں دیگر احکام جو ہم تک پہنچے ہیں ان سے مناسبت رکھتی ہے ۔

ایک اور قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت میں اگرچہ شرائط کی طرف ایک اجمالی اشارہ ہے کیونکہ اس سے ایسی شرائط معلوم ہوتی ہیں مثلاً وہ اسلامی معاشرے میں خلافِ اسلام تعلیمات اور پراپیگنڈا نہیں کریں گے، مسلمان کے دشمنوں کا ساتھ نہیں دیں گے اور مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی نہیں کریں گے کیونکہ ایسے کام خضوع، تسلیم اور ہمکاری ک مفہوم سے مطابقت نہیں رکھتے ۔

جزیہ کیا چیز ہے؟

جزیہ یہ ایک طرح کا اسلامی ٹیکس ہے جو افراد سے متعلق ہوتا ہے نہ کہ اموال اور زمینوں سے دوسرے لفظوں میں جزیہ فی کس سالانہ ٹیکس ہے ۔

بعض لوگوں کا نظریہ ہے کہ اس لفظ کی اصل غیر عربی ہے اور قدیم فارسی لفظ ”کزیت“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ایسا ٹیکس جو فوج کی تقویت کے لئے لیا جائے لیکن بہت سے علماء کا نظریہ ہے کہ یہ خالص عربی لفظ ہے اور جیسا کہ ہم پہلے نقل کرچکے ہیں کہ ”جزاء“ کے مادہ سے اس مناسب سے لیا گیا ہے کہ مذکورہ مالیہ اس تحفظ اور امنیت کا جزاء اور بدل ہے جو اسلامی حکومت مذہبی اقلیتوں کو فراہم کرتی ہے ۔

جزیہ اسلام سے پہلے بھی تھا، بعض کا نظریہ ہے کہ سب سے ساسانی شاہ نوشیرواں نے جزیہ وصول کیا لیکن اگر اس بات کو درست نہ بھی سمجھا جائے تب بھی کم از کم یہ بات مسلم ہے کہ نوشیرواں وہ شخص تھا جس نے اپنی قوم سے جزیہ لیا تھا اور وہ ہر اس شخص سے جو حکومت کا کارندہ نہیں تھا اور اُس کی عمر بیس سے پچاس سال تک تھی ۱۳۲،۸،۶ یا ۴ درہم کے فرق سے فی نفر ٹیکس وصول کیا کرتا تھا ۔

ان مالیات کا فلسفہ یہ لکھا گیا ہے کہ کسی ملک کے وجود، آزادی اور امن کی خفاظت اس ملک کے ہر فرد کی ذمہ داری ہے لہٰذا جب ایک گروہ اس فریضے کی انجام دہی کے لئے قیام کرے اور دوسرا گروہ کسب وکار میں مشغول ہونے کی وجہ سے مجاہدین کی صف میں شامل نہیں ہوسکتا تو پھر کسب وکار میں مشغول گروہ کا فریضہ ہے کہ وہ فوج اور محافظانِ امن وامان کے اخراجات فی کس سالانہ ٹیکس کی صورت میں ادا کرے، ہمارے پاس ایسے قرائن موجود ہیں جو قبل از اسلام اور بعد از ظہورِ اسلام کے ادوار میں جزیہ کے بارے میں اس فلسفہ کی تاکید کرتے ہیں ۔

نوشیرواں کے زمانہ میں جزیہ دینے والوں میں (بیس سے پچاس سال تک کا) سن وسال کا مذکورہ معیار ہماری اس بات کا شاہد ہے کہ کیونکہ اس عمر کے افراد درحقیقت عمر کے اس گروپ سے مربوط تھے جو ہتھیار اٹھانے اور امن وامان اور ملک کے استقلال کی حفاظت میں شریک ہونے کی طاقت رکھتا تھا لیکن کاروبار میں مشغول ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اس کے بجائے جزیہ دیتے تھے ۔

دوسرا گروہ یہ ہے کہ اسلام میں جزیہ مسلمانوں پر نہیں ہے کیونکہ سب پر جہاد واجب ہے اور ضرورت کے وقت سب کو میدانِ جنگ میں دشمن کے مقابلے میں جانا پڑے گا لیکن مذہبی اقلیتوں کے لئے چونکہ جہاد میں شرکت کرنا معاف ہے لہٰذا اس کے بجائے انھیں جزیہ دینا چاہیے تاکہ اس طرح وہ اسلامی ملک کی سالمیت کی حفاظت میں شریک ہوں جس میں وہ آرام سے زندگی بسر کرتے ہیں نیز مذہبی اقلیتوں کے بچوں ، عورتوں بوڑھوں اور نابیناوں کو جزیہ معاف ہے، یہ بھی اسی امر کی ایک اور دلیل ہے ۔

سطورِ بالا میں جو کچھ کہا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے جزیہ صرف ایک قسم کی مالی امداد ہے جو اہلِ کتاب اس ذمہ داری کے بدلے میں دیتے ہیں جو مسلمان ان کی جان ومال کی حفاظت کے طور پر ادا کرتے ہیں ، لہٰذا جو لوگ جزیہ کو ایک قسم کا ”حق تسخیر“ شمار کرتے ہیں وہ اس کی روح اور فلسفے کی طرف توجہ نہیں رکھتے، ان لوگوں نے اس حقیقت کی طرف توجہ نہیں کی کہ اہلِ کتاب جب اہل ذمہ کی شکل میں ہوں تو حکومتِ اسلامی کی ذمہ داری ہے کہ انھیں ہر قسم کے تعرض اور آزار سے محفوظ رکھے، نیز اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ وہ جزیہ ادا کرنے کے بدلے میں آرام اور چین کی زندگی گزارتے ہیں اس کے علاوہ ان پر میدان جنگ میں شرکت اور دفاعی وحفاظتی ذمہ داریاں نہیں ہوتیں اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حکومت اسلامی کے بارے میں مسلمانوں کی نسبت ان کی ذمہ داری کس قدر کم ہے، یعنی وہ سال بھر میں معمولی سی رقم ادا کرکے اسلامی حکومت کی تمام خوبیوں سے استفادہ کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اس سلسلے میں برابر کے شریک ہوتے ہیں جبکہ حوادث وخطرات کا سامنا انھیں نہیں کرنا پڑ تا ۔

اس فلسفے میں تائید کرنے والے واضح دلائل میں سے ایک یہ ہے کہ ان عہدناموں میں جو اسلامی حکومت کے دوران مسلمانوں اور اہلِ کتاب کے مابین ہوتے تھے اس امر کی تصریح موجود ہے کہ اہلِ کتاب کی ذمہ داری ہوگی وہ جزیہ ادا کریں اور اس کے بدلے میں مسلمانوں کا فرض ہوگا کہ وہ ان کی حفاظت کریں یہاں تک کہ اگر کوئی بیرونی دمن ان کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑا ہو اور انھیں آزار پہنچانے کے درپے ہو تو اسلامی حکومت اہلِ کتاب کا دفاع کرے گی ۔

ایسے عہدنامے بہت سے موجود ہیں ، ان میں سے ایک کو ہم بطور نمونہ ذیل میں بیان کرتے ہیں ، یہ عہدنامہ خالدبن ولید نے اطرافِ فرات کے عیسائیوں سے کیا تھا، عہدنامے کا متن یہ ہے:

هٰذا کتاب من خالد بن ولید لصلوبا ابن نسطونا وموقه انّی عاهدتک علی الجزیة والمنعة، فلک الذمة والمنعة، وما منعناکم ففلنا الجزیة والّا، کتب سنة اثنیٰ عشرة فی صفر “-(۱)

میں تم سے معاہدہ کرتا ہوں جزیہ اور دفاع پر کہ جس کے مقابلے میں تم ہماری حمایت آجاوگے اور جب تک ہم تمھاری حمایت کرتے رہیں گے ہم جزیہ لینے کا حق رکھتے ہیں ۔

یہ عہدنامہ ۱۲ ھ ماہ صفر میں لکھا گیا ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ تاریخ میں ہے کہ جزیہ کی مقدار معین نہیں تھی اور اس کی مقدار کا تعین جزیہ دینے والوں کی طاقت کو دیکھ کر کیا جاتا تھا اور یہ مقدار کبھی کبھی تو ایک دینار سالانہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی، یہاں تک کہ بعض اوقات عہد ناموں میں یہ شرط ہوتی تھی کہ جزیہ دینے والوں کا فرض ہے کہ وہ اپنی طاقت کے مطابق جزیہ دیں ، جو کچھ کہا جاچکا ہے اس تمام سے طرح طرح کے اعتراضات اور زہرافشانیاں جو اس اسلامی حکم کے سلسلے میں کی گئی ہیں ختم ہوجائیں گی اور اس سے ثابت ہوجائے گا یہ ایک عادلانہ اور منطقی حکم ہے ۔

____________________

۱-یہ خط ہے خالد بن ولید کی طرف سے صلوبا (عیسائیوں کے سردار) اور اس کی قوم کے لئے ۔

آیات ۳۰،۳۱،۳۲،۳۳

۳۰( وَقَالَتْ الْیَهُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللهِ وَقَالَتْ النَّصَاریٰ الْمَسِیحُ ابْنُ اللهِ ذٰلِکَ قَوْلُهُمْ بِاٴَفْوَاهِهِمْ یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ قَاتَلَهُمْ اللهُ اٴَنَّی یُؤْفَکُونَ )

۳۱( اتَّخَذُوا اٴَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اٴَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللهِ وَالْمَسِیحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَمَا اٴُمِرُوا إِلاَّ لِیَعْبُدُوا إِلَهًا وَاحِدًا لَاإِلَهَ إِلاَّ هُوَ سُبْحَانَهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ )

۳۲( یُرِیدُونَ اٴَنْ یُطْفِئُوا نُورَ اللهِ بِاٴَفْوَاهِهِمْ وَیَاٴْبَی اللهُ إِلاَّ اٴَنْ یُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ کَرِهَ الْکَافِرُونَ )

۳۳( هُوَ الَّذِی اٴَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدیٰ وَدِینِ الْحَقِّ لِیُظْهِرَهُ عَلَی الدِّینِ کُلِّهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُشْرِکُونَ )

ترجمہ

۳۰ ۔ یہودیوں نے کہا کہ عزیر خدا بیٹا ہے اور عیسائیوں نے کہاکہ مسیح الله کا بیٹا ہے، یہ بات جو وہ اپنی زبان سے کہتے ہیں ایسی ہے جو گذشتہ کافروں کی بات کے مشابہ ہے، ان پر خدا کی لعنت ہو، وہ کس طرح سے جھوٹ بولتے ہیں ۔

۳۱ ۔ وہ خدا کے مقابلے میں علماء اور راہبوں (تارکین دنیا) کو ہی معبود قرار دیتے ہیں اور اسی طرح مریم کے بیٹے مسیح کو حالانکہ انھیں حکم دیا گیاہے کہ ایک ہی معبود جس کے سوا کوئی معبود نہیں ، کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں ، وہ اس سے پاک ومنزہ ہے کہ جسے اس کا شریک قرار دیتے ہیں ۔

۳۲ ۔ وہ چاہتے ہیں کہ اپنی آنکھوں سے نور خدا کو بجھادیں لیکن خدا اس کے علاوہ کچھ نہیں چاہتا کہ وہ اپنے نور کو کامل کرے اگرچہ کافر اسے ناپسند کرتے ہیں ۔

۳۳ ۔ وہ وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر غلبہ دے اگرچہ مشرک ناپسند کرتے ہیں ۔

اہل کتاب کی بت پرستی

گذشتہ آیات میں مشرکین کے سلسلے میں بحث تھی ۔ یہ بتایا گیا تھا کہ ان کا معاہدہ منسوخ ہوچکا ہے اور کہا گیا تھا کہ ضروری ہے کہ مذہبِ بت پرستی کی بساط الٹ دی جائے ۔ پھر اہلِ کتاب کی کیفیت کی طرف اشارہ کیا گیا تھا کہ وہ چند شرائط کے ماتحت مسلمانوں کے ساتھ مصالحت آمیز زندگی بسر کرسکتے ہیں اور اگر یہ صورت نہ ہو تو پھر ان کے ساتھ جنگ کا حکم دیا گیا تھا ۔

زیرِ بحث آیات میں اہلِ کتاب خصوصاً یہود ونصاریٰ کی مشرکین اور بت پرستوں سے جو مشابہت پائی جاتی ہے اسے بیان کیا گیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ اگر اہلِ کتاب کے بارے میں بھی کسی حد تک سخت گیری عمل میں لائی گئی ہے تو وہ بھی توحید سے ان کے انحراف، ایک طرح سے ”عقیدہ میں شرک“ اور ایک لحاظ سے ”عبادت میں شرک“ کی وجہ سے ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہودیوں نے کہا ہے عزیر خدا کا بیٹا ہے (وَقَالَتْ الْیَھُودُ عُزَیْرٌ ابْنُ اللهِ) اور عیسائیوں نے کہا کہ مسیح خدا بیٹا ہے( وَقَالَتْ النَّصَاریٰ الْمَسِیحُ ابْنُ اللهِ ) ۔

یہ ایسی بات ہے جو وہ صرف زبان سے کہتے ہیں جبکہ اس میں کوئی حقیقت نہیں( ذٰلِکَ قَوْلُهُمْ بِاٴَفْوَاهِهِمْ ) ۔ ان کی گفتگو گذشتہ مشرکین کی گفتار سے مشاہت رکھتی ہے( یُضَاهِئُونَ قَوْلَ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَبْلُ ) ۔ خدا انھیں قتل کرے، اپنی لعنت میں گرفتار کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے، وہ کس طرح کا جھوٹ بولتے ہیں اور حقائق میں تحریف کرتے ہیں( قَاتَلَهُمْ اللهُ اٴَنَّی یُؤْفَکُونَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ عزیر کون ہیں ؟

عربی زبان میں ”عزیر“ انہی کو کہا جاتا ہے جو یہودیوں کی لغت میں ”عزرا“ کہلاتے ہیں ، عرب چونکہ جب غیر زبان کا کوئی نام اپناتے ہیں تو عام طور پر اس میں تبدیلی کردیتے ہیں ، خصوصاً اظہار محبت کے لئے اسے صیغہ تصغیر میں بدل لیتے ہیں ، ”عزرا“ کو بھی ”عزیر“ میں تبدیل کیا گیا ہے ہے جیسا کہ ”عیسیٰ“ کے اصل نام کو جو دراصل ”یسوع“ تھا اور ”یحییٰ“ کو جوکہ ”یوحنا“ تھا بدل دیا ۔(۱)

بہرحال عزیر یا عزرا یہودیوں کی تاریخ میں ایک خاص حیثیت رکھتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بعض ملت وقوم کی بنیا اور اس کی جمعیت کی تاریخ کی درخشنگی کی نسبت ان کی طرف دیتے ہیں ، درحقیقت حضرت عزیر نے اس دین کی بڑی خدمت کی ہے کیونکہ بخت النصر کے واقعہ میں جو بابل کا بادشاہ تھا یہودیوں کی کیفیت اس کے ہاتھوں درہم برہم ہوگئی، ان کے شہر بخت النصر کی فوج کے ہاتھ آگئے، ان کا عبادت خانہ ویران ہوگیا اور ان کی کتاب تورات جلادی گئی ۔

ان کے مرد قتل کردیئے گئے اور ان کی عورتیں اور بچے قید کرکے بابل کی طرف منتقل کردیئے گئے اور وہ تقریباً ایک سو سال وہیں رہے ۔

پھر جب ایران کے بادشاہ کورش نے بابل فتح کیا تو عزرا جو اس وقت کے یہودیوں کے ایک سردار اور بزرگ تھے اس کے پاس آئے اور اسے ان کے بارے میں سفارش کی، کورس نے ان سے موافقت کی کہ یہودی اپنے شہروں کی طرف پلٹ جائیں اور نئے سرے سے تورات لکھی جائے، اسی بناپر ان کا حد سے زیادہ احترام کرتے ہیں ۔(۲)

اسی امر کے سبب یہودیوں کے ایک گروہ نے انھیں ”ابن الله“ (الله کا بیٹا) کا لقب دیا، اگرچہ بعض روایات سے مثلاً احتجاج طبرسی کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ یہ لقب حضرت عزیر کے احترام کے طور پر استعمال کرتے تھے لیکن اسی روایت میں ہے کہ جب پیغمبر اسلام نے ان سے پوچھا کہ اگر تم نے حضرت عزیر کا ان عظیم خدمات کی وجہ سے کرتے ہو اور اس بناء پر انھیں اس نام سے پکارتے ہو تو پھر یہ لقب حضرت موسیٰ کو کیوں نہیں دیتے جبکہ انھوں نے حضرت عزیر کی نسبت تمھاری بہت زیادہ خدمت کی ہے تو وہ اس کا کوئی جواب نے دے سکے اور نہ ہی اس کا کوئی جواب تھا ۔(۳)

بہرحال اس نام سے بعض لوگوں کے اذہان میں احترام سے بالاتر صورت ہوگئی اور جیسا کہ عوام کی روش ہے کہ اس سے اپنی فطرت کے مطابق حقیقی مفہوم لیتے تھے اور انھیں واقعاً خدا کا بیٹا خیال کرتے تھے کیونکہ ایک تو حضرت عزیر نے انھیں دربدر کی زندگی سے نجات دی تھی اور دوسرا تورات لکھ کر ان کے دین کو ایک نئی زندگی بخشی تھی، البتہ ان سب کا یہ عقیدہ نہ تھا لیکن قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک گروہ خصوصیت سے جو پیغمبر اسلام کے زمانے میں تھا کی یہی طرز فکر تھی یہی وجہ ہے کہ کسی تاریخ میں یہ نہیں ہے کہ انھوں نے زیرِ بحث آیت کو سن کر اس سے انکار کیا ہو یا انھوں نے کوئی آواز بلند کی ہو اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیناً وہ کوئی ردِّ عمل ظاہر کرتے ۔

جو کچھ ہم نے کہا ہے اس سے اس سوال کا جواب واضح ہوجاتا ہے کہ آج یہودیوں میں ایسا عقیدہ موجود نہیں ہے اور کوئی شخص حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا نہیں سمجھتا تو پھر قرآن نے کیوں اس کی نسبت ان کی طرف دی ہے؟

اس کی وضاحت یہ ہے کہ ضروری نہیں کہ تمام یہودی ایسا عقیدہ رکھتے ہوں البتہ یہ مسلم ہے کہ آیات قرآن نزول کے وقت یہودیوں میں ایسے عقائد رکھنے والے موجود تھے، اس کی دلیل یہ ہے کہ کبھی کسی نے مذکورہ نسبت کا انکار نہیں کیا صرف روایات کے مطابق اس کی توجیہ کی جاتی تھی اور حضرت عزیر کو ابن الله کہنے کو ایک طرح کا احترام قرار دیتے تھے ۔ اس لئے کہ جب پیغمبر اسلام نے یہ اعتراض کیا کہ کیا پھر ایسا ہی احترام حضرت موسیٰ کے بارے میں کیوں نہیں کرتے تو وہ جواب سے عاجز ہوجاتے تھے ۔

بہرکیف جب کسی عقیدے کی نسبت کسی قوک کی طرف دی جائے توضروری نہیں کہ اس کے تمام افراد اس سے متفق ہوں بلکہ اگر ایک قابلِ توجہ تعداد ایسا عقیدہ رکھتی ہو تو کافی ہے ۔

____________________

۱۔ جیساکہ عربی مباحث میں آیا ہے کہ تصغیر سے مراد یہ ہے کہ کسی چیز کو چھوٹی نوع کو بیان کرنے کے لئے اس کے اصل صیغہ سے ایک خاص صیغہ بنایا جاتا ے مثلاً ”رجل“ (مرد) کی تصغیر ”رجیل“ (چھوٹا مرد) ہے البتہ بعض اوقات اس کا لفظ استعمال چھوٹے ہونے کے لحاظ سے نہیں ہوتا بلکہ اس شخص یا چیز سے اظہار محبت کے لئے ہوتا ہے جیساکہ انسان اپنے بیٹے سے اظہار محبت کرتا ہے ۔

۲۔ المیزان، ج۹، ص۲۵۳ اور المنار، ج۱۰، ص۳۲۲.

۳۔ نور الثقلین، ج۲، ص۲۰۵