آیات ۳۴،۳۵
۳۴(
یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ کَثِیرًا مِنَ الْاٴَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَیَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَایُنفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ
)
۔
۳۵(
یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوَی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُونَ
)
۔
ترجمہ
۳۴ ۔اے ایمان والوں !(اہل کتاب کے) بہت سے علماء اور راہب لوگوں کا مال باطل طور پر رکھتے ہیں اور (انہیں ) خدا کی راہ سے روکتے ہیں اور وہ جو سونا چاندی کا خزانہ جمع کرکے (اور چھپا کر) رکھتے ہیں اور خدا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب ناک کی بشارت دے دو۔
۳۵ ۔اس روز کہ جب انہیں آتش جہنم میں گرم کیا جائے گا اور جلایا جائے گا پس ان کے چہروں ، پہلووں اور پشتوں کو داغا جائے گا (اور انہیں کہا جائے گا کہ) یہ وہی چیز ہے کہ جسے تم نے اپنے لئے جمع کیا تھاپس چکھواس چیز کو جسے اپنے لئے تم نے ذخیرہ کیا تھا ۔
کنز اور ذخیرہ اندازی منع ہے
گذشتہ آیات میں یہود ونصاریٰ کے مشرکانہ اعمال کے متعلق گفتگو تھی کہ جو اپنے علماء کے لئے ایک طرح الوہیت کے قائل تھے، زیر بحث آیت کہتی ہے کہ وہ نہ صرف مقام الوہیت نہیں رکھتے بلکہ مخلوق کی رہبری کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے، اس کا مشاہدہ ان کی طرح طرح کی غلط کاریاں ہیں ۔
یہاں روئے سخن مسلمانوں کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے:اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! اہل کتاب کے علماء اور راہب لوگوں کے مال باطل طور رکھتے ہیں اور مخلوق خالق کی راہ سے روکتے ہیں(
یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا إِنَّ کَثِیرًا مِنَ الْاٴَحْبَارِ وَالرُّهْبَانِ لَیَاٴْکُلُونَ اٴَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَیَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ
)
۔
یہ امر جاذب نظر کہ جس طرح قرآن کی سیرت ہے یہاں حکم یہودیوں کے تمام علماء اور راہبوں پر جاری نہیں کیا بلکہ ”کثیرا“ کی تعبیر در حقیقت صالح اور نیک اقلیت کے استثناء کے لئے ہے اور ایسا ہی دیگر آیات قرآن میں بھی نظر آتا ہے کہ جس کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں ۔
رہایہ سوال کہ وہ کس طرح لوگوں کا مال فضول بحیر کسی جواز کے اور قرآنی تعبیر کے مطابق باطل طریقے سے رکھتے تھے تو اس سلسلے میں کم و بیش دوسری آیات میں اشارہ ہوا ہے اور کچھ باتیں تواریخ میں بھی آئی ہیں ۔
ایک بات تو یہ تھی کہ وہ حضرت مسیح (ع) اور موسیٰ (ع) کی تعلیمات کے حقائق چھپاتے تھے تاکہ لوگ نئے دین(اسلام) کے گرویدہ نہ ہوں تاکہ ان کے مفادات خطرے میں نہ پڑیں اور ان کے تحفے اور ہدئےے منقطع نہ ہوں جیسا کہ سورہ- بقرہ کی آیات ۴۱،۷۹ اور ۱۷۴ میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔
دوسری بات یہ تھی کہ لوگون سے رشوت لے کر حق کوباطل اور باطل کو حق قرار دے دیتے تھ، طاقتوروں اور زوروالوں کے فائدے میں باطل فیصلے صادر کرتے تھے جیسا کہ سورہ مائدہ کی آیہ ۴۱ میں اس طرف اشارہ ہوا ہے ۔
ان کی غیر شرعی آمدنی کا ایک اور طریقہ بھی تھااور یہ کہ وہ ”بہشت فروشی“ اور”گناہ بخشی“ کے نام پر لوگوں سے بہت سی رقم وصول کرتے تھے اور بہشت اور بخشش جو صرف خدا کے اختیار میں ہے کا کاروبار کرتے تھے، اس معاملے پر تاریخ مسیحیت میں بہت شور مچا ہے اور جنگ وجدال ہوئے ہیں ۔
باقی رہا ان کا راہ خدا سے لوگوں کو روکنے کا معاملہ تو وہ واضح ہے کیوں کہ وہ آیات الٰہی میں تحریف کرتے تھے یا اپنے مفادات حفاظت کے لئے انہیں چھپاتے تھے بلکہ جس کسی کو بھی اپنے مقام اور مفاد کا مخالف پاتے اسے پر تہمت لگاتے اور ”مذہبی“ تفتیش کی عدالت “قائم کرتے اور بدترین طریقے باز پرس کرتے ، ان کے خلا ف فیصلہ کرتے اور انہیں سزا دیتے ۔
یہ حقیقت ہے کہ اگر انہوں نے یہ اقدام نہ کئے ہوتے اور اپنے پیروں کاروں کو اپنی لالچ اور ہواوہوس پر قربان نہ کرتے تو آج بہت سے گروہ دین حق یعنی اسلام کو دل وجان سے قبول کرچکے ہوتے، لہٰذا یہ بات کھلے بندوں کہی جاسکتی ہے کہ لاکھوں انسان جو کفر کی تاریکی میں باقی رہ گئے ہیں ان کا گناہ انہی کی گردن پر ہے ۔
اس وقت بھی کلیسا اور یہودیوں کے مراکز اسلام کے بارے میں عام لوگوں کو گمراہ کرنے کے لئے کیا کچھ نہیں کرتے اور آج بھی کیسی عجیب وغریب وحشتناک تہمتیں پیغمبر اسلام پر لگانا روا سمجھتے ہیں ۔
یہ کام اتنا وسع اور عام ہے کہ مسیحیوں کے بعض روشن فکر علماء نے صراحت سے اس کا اعتراف کیا ہے کہ گرجے کی اسلام کے خلاف بزدلانہ حملوں کی یہ سنت بھی اس بات کا باعث ہے کہ اہل مغرب ایسے پاک وپاکیزہ دین سے بے خبر ہیں ۔
اس کے بعد قرآن یہود ونصاریٰ کے پیشواوں کی دنیا پرستی کی بحث کی مناسبت سے ذخیرہ اندوز وں کے بارے میں عمومی قانون بیان کرتے ہوئے کہتا ہے:جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرکے چھپا کر رکھتے ہیں اور انہیں رای خدا میں خرچ نہیں کرتے انہیں دردناک عذاب کی بشارت دے دو(
وَالَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَایُنفِقُونَهَا فِی سَبِیلِ اللهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اٴَلِیمٍ
)
۔
”یکنزون“ کا مادہ ہے”کنز“( بروزن اور بر بر معنی ”گنج“)یعنی خزانے کو” کنز“ کہتے ہیں جو در اصل جمع کرنے اور کسی چیز کے اجزا کو اکٹھا کرنے کے لئے بولا جاتا ہے ۔اسی لئے جس اونٹ پر زیادہ گوشت ہو اسے ”کناز اللحم“ کہتے ہیں ۔ بعد ازاں یہ لفظ جمع کرنے، حفاظت کرنے اور قیمتی اموال واشیاء کو چھپا کررکھنے کے معنی میں بولا جانے لگا ، لہٰذا اس کے مفہوم میں جمع کرنا، حفاظت اور کبھی چھپاکر رکھنا بھی پنہاں ہوتاہے ۔
”ذاھب“ کا معنی ہے”سونا“ اور فضہ“ کا معنی ہے ”چاندی“۔
جیسا کہ طبرسی نے مجع البیان میں نقل کیا ہے، بعض علماء لغت نے ان دو الفاظ کے بارے میں جاذب نظر تعبیر کی ہے اور کہا ہے کہ یہ جو سونے کو ”ذاھب“ کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ بہت جلد ہاتھوں سے نکل جاتا ہے اور اس کے لئے بقا نہیں ہے (یاد رہے کہ لغت میں ”ذھاب“ کا مادی جانے کے معنی میں ہے) اور یہ جو چاندی کو ”فضة“ کہا گیا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ جلد ہی پراگندہ اور متفرق ہوجاتی ہے(کیوں کہ”انفضاض“ لغت میں پراگندگی کے میں ہے) ، ایسی دولت وثروت کی کیفیت کو سمجھنے کے لئے ایسا کام ہی کافی ہے ۔
جس دن سے انسانی معاشرے وجود میں آئیں ہیں ، مختلف اجناس مبادلہ کے طور پر لینے کا طریقہ انسانوں رائج تھا، ہر شخص اپنی کھیتی باڑی اور نقدی وغیرہ میں سے ضرورت سے زیادہ اموال کو بیچتا تھا لیکن شروع شروع میں ہمیشہ جنس کا جنس سے تبادلہ ہوتا تھا کیوں کہ پیسہ روپیہ بھی ایجاد نہیں ہوا تھا، جنس کا جنس سے مبادلہ میں بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تا تھا کیوں کہ بہت سے لوگ ایسے ہوتے تھے جو اپنی ضرورت سے زیادہ مال بیچنا چاہتے تھے لیکن انہیں اس وقت کسی چیز کی ضرورت نہ ہوتی تھی جسے وہ خرید لیتے مگر وہ چاہتے کہ اسے کسی چیز میں تبدیک کرے تاکہ جب چاہیں اس سے اپنی ضرورت کی اجناس فراہم کر سکیں یہاں سے ”کرنسی“کے ایجاد کا مسئلہ پیدا ہوا ۔
چاندی اور اس سے زیادہ اہم سونے کی پیدائش نے اس فکر کوجنم دیا، یوں اس دودھاتوں نے کم قیمت اور زیادہ قیمت کی کرنسی کی شکل اختیار کرلی اور ان کے ذریعے سے تجارت اور معاملات کا کام تیزی سر انجام پانے لگا ۔
اس بنا پر کرنسی کا اصلی فیصلہ وہی کامل تر اور تیز تر اقتصادی مبادلات کے پہیوں کی گردش ہے اور جو لوگ نقدی کو خزانے کی صورت میں چھپالیتے ہیں وہ نہ صرف اقتصادی ٹھہراؤ اور معاشرے کے منافع کے نقصان کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کا عمل کرنسی کے ایجاد کا فیصلہ کے بالکل بر خلاف ہے ۔
مندرجہ بالا آیت نے صراحت سے ذخیرہ اندوزی کو حرام قرار دیا ہے اور مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ اپنے اموال راہ خدا میں اور بندگان خدا کے مفاد کی راہ میں لگائیں اور انہیں جمع کرکے رکھنے ، ذخیرہ کرنے اور گردش سے الگ کرنے سے پرہیز کریں اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو انہیں دردناک عذاب کا منتظر رہنا چاہئے، یہ دردناک عذاب صرف قیامت کے دن کی سخت سزا نہیں ہے بلکہ اس دنیا کی وہ سخت سزائیں بھی اس مفہوم میں شامل ہیں جو اقتصادی توازن بر قرار نہ رہنے کی وجہ سے اور طبقاتی اختلافات پیدا ہونے کے باعث پیش آتی ہے ۔
گذشتہ زمانے کے لوگ اگر اس اسلامی حکم کی اہمیت سے آشنا نہیں تھے تو آج ہم پوری طرح اس کی حقیقت سمجھتے ہیں کیوں کہ وہ خرابیاں جو انسان کو دامن گیر ہوئی ہیں خود پرست اور بے خبر لوگوں کی ثروت اندوزی اور ذخیرہ اندوزی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں ، مصائب وآلام ، جنگیں اور خون ریزیاں جو ظاہر ہورہی ہیں کسی سے ان کی وجہ مخفی نہیں ہے ۔
”کنز“کتنی دولت کو کہتے ہیں ؟
مفسرین کے درمیان زیر بحث آیت کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا ضروریات زندگی سے زیادہ ہر قسم کی ثروت اندازی ”کنز“ شمار ہوتی ہے اور اس آیت کے مطابق حرام ہے یا یہ کہ یہ حکم آغاز اسلام اور حکم زکوٰة کے نزول سے پہلے کے زمانے سے مربوط ہے اور پھر زکوٰة کا حکم نازل ہونے سے ختم ہوگیا ہے؟
یا یہ کہ جو کچھ واجب ہے وہ زکوٰة کی ادائیگی ہے نہ کہ اس کے علاوہ کچھ اور، اس بنا پر جب انسان کوئی مال جمع کرلے اور ہرسال باقاعدگی سے اس کے اسلامی مالیات یعنی زکوٰة ادا کردے تو وہ زیر نظر آیت کی زد میں نہیں آتا ۔
بہت سی روایات میں جو شیعہ اور سنی کتب میں آئی ہیں ان میں تیسری تفسیر ہی نظر آتی ہے، مثلا ایک حدیث میں پیغمبر اکرم سے منقول ہے، آپ نے فرمایا:ای مال ادیت زکوٰته فلیس بکنز
۔
یعنی ۔ جس مال کی تو زکوٰة ادا کردے وہ زکاة نہیں ہے ۔
نیز رویت ہے کہ جب مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی تو مسلمانوں پر معاملہ سخت ہوگیا اور انہوں نے کہا کہ ہم میں سے کوئی شخص بھی اپنی اولاد کے لئے کوئی چیز بچا کے نہیں رکھ سکتا اور ان کے مستقبل کے لئے کچھ نہیں بنا سکتا، آخرکار انہوں نے پیغمبر اکرم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا:
ان اللّٰه لم یفرض الزکوٰة الا لیطیب بها مابقی من اموالکم وانما فرض المواریث من اموال تبقی بعدکم
۔
خدا نے زکوٰة کو واجب نہیں کیا مگر اس لئے کہ تمہارے باقی اموال تمہارے لئے پاک ہوجائیں لہٰذا میراث کا قانون ان اموال کے لئے قرار دیا ہے جو تمہارت بعد رہ جائیں گے ۔
یعنی مال جمع کرنا اگر باکل ممنوع ہوتا تو پھر قانون میراث کا موضوع ہی باقی نہیں رہتا تھا ۔
کتاب امالی شیخ میں بھی پیغمبر اکرم سے یہی مضمون نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
جو شخص اپنے مال کی زکوٰة ادا کردے تو اس کا باقی مال کنز نہیں ہے ۔
منابع اسلامی میں کچھ اور روایات بھی دکھائی دیتی ہیں ظاہرا اور پہلی نظر میں جن کا مضمون مندرجہ تفسیر سے مطابقت نہیں رکھتا ۔
ان میں سے ایک حدیث وہ ہے جو مجمع البیان میں حضرت علی (ع) سے نقل ہوئی ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
مازاد علی اربعة اٰلاف فهو کنز ادی زکوٰته او لم یودها وما دونها فهی نفقة فبشرهم بعذاب الیم
۔
جو کچھ چار ہزار (درہم) سے (کہ ظاہراجس سے مراد سال بھر کا خرچ ہے)زیادہ ہو وہ کنز ہے، چاہے اس کی زکوٰة ادا کردی ہو یا نہ کی ہو اور جو کچھ اس سے کم ہو وہ نان نفقہ اور ضروریات زندگی میں شمار ہوگا، ان ثروت اندوزوں کو دردناک عذاب کی بشارت دو۔
کافی میں معاذ بن کثیر سے منقول ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ وہ کہتے تھے :
ہمارے شیعہ اس وقت تو آزاد ہیں کہ جوکچھ ان کے پاس اسے راہ خدا خرچ کرے (اور باقی ان کے لئے حلال )لیکن جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو تمام خزانوں اور جمع شدہ ثروتوں کو حرام قرار دیں گے تاکہ وہ سب مال ان کے پاس لے آئیں اور انہیں وہ دشمنوں کے مقابلے میں کام لائیں اور یہی مفہوم ہے اس کلام خدا کا جو وہ اپنی کیاب میں فرماتا ہے:َ(
والَّذِینَ یَکْنِزُونَ الذَّهَب َوَالْفِضَّة
)
جناب ابوذر کے حالات زندگی میں بھی بار باراور بہت سی کتب میں یہ بات منقول ہے کہ وہ یہ آیت شام میں معاویہ کے سامنے صبح وشام پڑھتے تھے بلند آواز میں پکارتے تھے:
بشراهل الکنوز بکی فی الجباه وکی بالجنوب وکی بالظهور ابداً حتیٰ یتردد الحرفی اجوافهم
۔
خزانہ رکھنے والوں کو بشارت دے دو کہ اس مال سے ان کی پیشانیاں ، ان کے پہلو اور ان کی پشتیں داغی جائیں گی یہاں تک کہ گرمی کی سوزش ان کے وجود کے اندر تک پہنچ جائی گے ۔
نیز حضرت عثمان کے سامنے ابوذر کا اس آیت سے استدلال نشاندہی کرتا ہے کہ ان کا نظریہ تھا کہ یہ آیت مانعین زکوٰة سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ان کے علاوہ دوسرے لوگوں کے بارے میں بھی ہے ۔
مندرجہ بالا تمام احادیث کو سامنے رکھا جائے اور آیت کو بھی ساتھ ملاکر دیکھا جائے تو ہم یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ عام حالات میں یعنی ایسے مواقع پر جب معاشرہ ناگوار اور خطرناک حالات دوچار نہ ہو اور لوگ معمول کی زندگی سے بہرور ہوں تو صرف زکوٰة کی ادائیگی کافی ہے اور باقی مال ”کنز“ شمار نہیں ہوگا(البتہ توجہ رہے کہ اصلی طور دوکت کمانے میں اگر اسلامی قوانین کو ملحوظ رکھا جائے تو اس صورت میں حد سے زیادہ مال ومنال جمع نہیں ہوپاتا کیوں کہ اسلام نے اس قدر قیود وشرائط عائد کی ہیں کہ ایسے مال کا حصول عام طور پر ممکن ہی نہیں ہے )لیکن اگر حالات معمول کے مطابق نہ ہوں اور ایسے مواقع ہوں جب اسلامی معاشرے کے مفاد میں یہ واجب اور ضروری ہوتو حکومت اسلامی مال کی جمع آوری پر حد بندی کرسکتی ہے اور اسے محدود کرسکتی ہے(جیسا کہ ہم حضرت علی (ع) کی روایت میں پڑھ چکے ہیں ) اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اسلامی حکومت عالم اسلام کی بقاء کے پیش نظر تمام جمع شدہ اموال اور ذخائر پیش کرنے کا مطالبہ کردے جیسا کہ امام صادق (ع) کی روایت میں قائم کے زمانے کے بارے میں آیا ہے ۔ اس روایت کی علت کی طرف توجہ کرتے ہوئے وہ باقی زمانوں پر بھی محیط ہوگی کیوں کہ امام (ع) فرماتے ہیں :فلیستعین به علی عدوه
وہ اس سے اپنے دشمن کے خلاف مدد لیں گے ۔
لیکن ہم اس بات کو دہراتے ہیں کہ ایسا صرف اسلامی حکومت کے اختیار میں ہے اور وہی ضروری مواقع پر ایسے اقدامات کرسکتی ہے(غورکیجئے گا) ۔
باقی ابوذر کا واقعہ تو ہوسکتا ہے وہ بھی اسی صورت حال کے پیش نظر ہوکیوں کہ اس وقت کے اسلامی میں اس بات کی شدید غرورت تھی کہ دولت اور سرمایہ مرتکز اور جمع نہ ہو۔ اس وقت ایسا کرنا اسلامی معاشرے کے تحفظ، بقاء اور سالمیت کے خلاف تھا ۔
یا ہوسکتا ہے کہ ابوذر بیت المال کے اموال کے بارے میں کہتے ہوں جو عثمان اور معاویہ کے ہاتھ میں تھے،ہم جانتے ہیں کہ ایسے اموال مستحق اور حاجت مند افراد کے ہوتے ہوئے لمحہ بھر کے لئے بھی جمع نہیں رکھے جاسکتے بلکہ یہ مستحقین تک پہنچنے چاہئیں اور اس مواملے کا زکوٰة کے مسئلے سے کوئی ربط نہیں ہے ۔
خصوصا ان حالات میں جب کہ تمام اسلامی تواریخ جن میں شیعہ سنی سب تاریخیں شامل ہیں گواہی دیتی ہیں کہ حضرت عثمان نے بیت المال میں سے بہت سی دولت اپنے رشتے داروں میں بانٹ دی تھی اور معاویہ نے بیت الامل ہی سے ایک ایسا محل تعمیر کیا تھا جس نے ساسانیوں کے محلات کے افسانوں کو زندہ کردیاتھا، ایسے میں ابوذر کو حق پہنچتا تھاکہ انہیں فرمان الٰہی یاد دلاتے ۔
ابوذر اور اشتراکیت ہم جانتے ہیں کہ تیرے خلیفہ پر کو اعتراضات کئے گئے ہیں ان میں سے ایک ابوذر کی ظالمانہ جلا وطنی ہے، انہیں بری آب وہوا کے مقام ربذہ کی طرف جلا وطن کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں آخرکار یہ عظیم صحابی اور راہ السام کے فداکار مجاہد اس دنیا سے چل بسے، ابوذر،وہ شخص کہ جس کے بارے میں پیغمبر اسلام نے فرمایا:
آسمان نے کسی ایسے شخص پر سایہ نہیں کیا نی زمین نے اسے اٹھایا کو ابوذر سے بڑھ کر سچا ہو۔
ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ عثمان سے ابوذر کا اختلاف مال کی تمنا اور کسی مقام ومنصب کی آرزو کی بنیاد پر نہ تھا کیوں کہ ابوذر پارسا اور آزاد انسان تھے، ان کے اختلاف کا سرچشمہ صرف تیسرے خلیفہ کی بیت المال کے بارے میں فضول خرچی، اپنی قوم اور قبیلہ پر ان کی بے پناہ نوازشات اور اپنے حامیوں پر ان کی بے شمار بخشش تھی ۔
ابوذر مالی مسائل کے بارے میں خصوصا ان کا تعلق بیت الما ل سے ہوتا بہت ہی سخت گیر تھے اور چاہتے تھے کہ تمام اس سلسلے میں پیغمبر اسلام کی روش اپنائے مگر ہم جانتے ہیں کہ خلیفہ سوم کے دور میں صورت حال مختلف تھے ۔
بہرحال اس عظیم صحابی کی صریح اور قطعی باتیں خلیفہ سوم کو ناگوار گزریں ، انہیں نے پہلے تو انہیں شام کی طرف بھیج دیا مگر ابوذر وہاں زیادہ صراحت اور زیادہ قاطعیت سے معاویہ کے کرتوتوں کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے ،یہاں تک کہ ابن عباس کہتے ہیں :
معاویہ نے عثمان کو لکھا: اگر آپ کو شام کی ضرورت ہے تو ابوذر کو واپس بلالیں کیوں کہ اگر وہ یہاں رہ گئے تو یہ علاقہ آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا ۔
عثمان نے خط لکھا اور ابوذر کے حاضر ہونے کا حکم صادر کیا اور بعض تواریخ کے مطابق معاویہ حکم دیا کہ ابوذر کو مدینہ بھیجنے کے لئے ایسے افراد معمور کئے جائیں جو رات دن انہیں مدینہ کی راہ پر چلاتے رہیں اور انہیں لمحہ بھر آرام نہ کرنے دیں ۔
یہاں تک کہ جب ابوذر مدینہ میں پہنچے تو بیمار ہوگئے اور چونکہ ان کا مدینہ میں رہنا بھی کاروبار خلافت کے لئے گوارا نہ تھا لہٰذا انہیں ربذہ کی طرف بھیج دیا گیا اور وہیں ان کی وفات ہوگئی ۔
جو لوگ اس سلسلے میں خلیفہ سوم کا دفاع کرنا چاہتے تھے وہ بعض اوقات ابوذر پر تہمت لگاتے ہیں کہ وہ اشتراکی نظریہ رکھتے تھے اور تمام مال کو اللہ کا مال سمجھتے تھے اور شخصی ملکیت کا انکار کرتے تھے ۔
یہ اتہام نہاےت عجیب ہے ۔ کیاباوجود یکہ قرآن صراحت سے خاص شرائط کے ساتھ تمام شخصی ملکیتوں کو محترم سمجھتاہے اور باوجودیکہ ابوذر رسول اللہ کے نزدیک ترین افراد میں سے تھے اور انہوں نے قرآن کے دامن میں پرورش پائی تھی اور آسمان کے نیچے ان سے زیادہ سچّا کوئی پیدا نہیں ہوا تھا، پھر ان کی طرف ایسی نسبت کس طرح دی جا سکتی ہے ۔
دور دراز کے بادیہ نشین تو اس اسلامی حکم کو جانتے تھے اور انہیں نے تجارت اور میراث وغیرہ سے مربوط آیات سن رکھی تھیں تو پھر کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم کے نزدیک ترین شاگرد اس حکم سے بے خبر ہوں ۔
کیا اس کے علاوہ کوئی اور بات ہے کہ ہٹ دھرم متعصبین نے خلیفہ سوم کے برائت کے لئے ان پر اس قسم کی تہمت لگائی ہے اور اس سے بھی بڑھ کر عجیب بات یہ ہے کہ معاویہ کے طرز عمل کے دفاع میں یہ اتہام باندھا ہے، اب بھی کچھ لوگ آنکھ کان بند کرکے اس بات کے پیچھے لگے ہوئے ہیں ۔
جی ہاں ! ابوذر آیات قرآنی سے راہنمائی لے کر خصوصا ”آیہ کنز“ سے ہدایت حاصل کرتے ہوئے یہ نظریہ رکھتے تھے اور صراحت کے ساتھ اس نظرےے کا اظہار کرتے تھے کہ اسلامی بیت المال بعض لوگوں کی خصوصی ملکیت نہیں بننا چاہئے، ان کا نظریہ تھا کہ وہ اموال جن میں محروموں اور حاجت مندوں کا حق ہے اور جنہیں تقویت اسلام کے لئے اور مفاد مسلمین کے لئے صرف ہونا چاہئے وہ کسی کو اپنے تئیں حاتم طائی ثابت کتنے کے لئے یا تعمیر محلات کے افسانوں کو زندہ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئیں ۔
علاوہ ازایں ابوذر یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ جس دور میں مسلمان انتہائی تنگدستی میں مبتلا ہیں ثروت مندوں کو بھی سادہ تریں زندگی پر قناعت کرنا چاہئے اور اپنے مال میں سے انہیں کچھ راہ خدا میں کرچ کرنا چاہئے، اگر ابوذر کا کوئی گناہ تھا تو یہی تھا لیکن رائے مورخین ، بنی امیہ اور چاپلوس اور دین فروش راویوں نے اس مرد مجاہد کا چہری بگاڑنے اور مسخ کرنے کے لئے ایسی ناروا تہمتیں ان پر لگائی ہیں ۔
ابوذر کا دوسرا ”گناہ“ یہ تھا کہ امیرالمومنین (ع) کے ساتھ خاص لگاؤ رکھتے تھے یہ”گناہ“ اکیلا ہی اس بات کے لئے کافی تھا کہ بنی امیہ کے جھوٹے پراپیگنڈہ کرنے والے اپنی شیطانی طاقت ابوذر کی حیثیت کو داغدار کرنے کے لئے صرف کریں لیکن ان کا دامن اس طرح سے پاک تھا اور ان کی سچائی اور اسلامی مسائل سے آگاہی اس قدر واضح اور روشن تھی کہ جس نے ان سب جھوٹون کو ذلیل ورسوا کردیا ۔
ان میں سے عجیب ایک عجیب افتراء جو خلیفہ سوم کو بری کرنے کے لئے ابوذر پر باندھا گیا ہے طبقات ابن سعد میں منقول ہے وہ یہ کہ :
جب ابوذر ربذہ میں تھے اہل کوفہ کاگروہ آپ کے پاس آیا، اس نے کہا: اس شخص(یعنی، عثمان)نے آپ کے ساتھ یہ سب کچھ کیا ہے کیا آپ تیار ہیں کہ پرچم بلند کریں اور ہم اس پرچم تلے اس کے خلاف جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں ۔
ابوذر نے کہا: نہیں ، اگر عثمان مجھے مشرق سے مغرب کی طرف بھیج دے، تب بھی میں اس کا تابع فرمان رہوں گا ۔
ان جعل سازوں نے اس طرف توجہ نہ کی کہ اگروہ خلیفہ کے اتنے ہی تابع فرمان تھے تو پھر ان کی اتنی مزاحمت کیوں کرتے کہ ان کا مدینہ میں رہنا خلیفہ پر گراں ہوجاتا کہ جسے وہ کسی طرح برداشت نہ کرپائے ۔
اس سے زیادہ تعجب انگیز وہ بات ہے جس کی طرف المانر کے مولف نے زیر بحث آیت کے ذیل میں ابوذر کے واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے، وہ یہ کہ ابوذر کا واقعہ نشاندہی کرتا ہے کہ صحابہ کے زمانے میں خصوصا حضرت عثمان کے دور میں اظہار رائے کی قسم قدر آزادی تھی ، علماء کا کتنا احترام ہوتا تھا اور خلفاء ان سے کتنی محبت کرتے تھے یہاں تک کہ معاویہ جو جرات نہ ہوئی کہ وہ ابوذر سے کچھ کہے بلکہ اپنے لئے حاکم بالا یعنی خلیفہ کو لکھا اور ان سے حکم لیا ۔
واقعا تعصب کیاکچھ نہیں کرتا، کیا ربذہ کی گرم، خشک اور جلادینے والی سرزمین جو موت اور آگ کی سرزمین تھی، کی طرف جلا وطن کرنا وعلماء کے لئے آزادی فکر اور احترام محبت کا نمونہ تھا ؟۔ کیا اس عظیم صحابی کو موت کی وادی میں دھکیل دینا حریت عقیدہ کی دلیل ہے؟ اگر معاویہ عوام کے افکار کے سیلاب کے خوف سے اکیلا ابوذر کے بارے میں کوئی منصوبہ نہ بنا سکا تو یہ اس کی طرف سے ان کے احترام کی علامت ہے؟
اس واقعہ کے عجائبات میں سے ایک یہ ہے کہ خلیفہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہیں کہ ابوذر کی جلا وطنی ”مفسدی کو دور کرنے کے لئے مصلحت کے مقدم ہونے“کے قانون کے مطابق ہے کیوں کہ اگرچہ ابوذر کے مدینہ میں رہنے کی بڑی مصلحتیں اور فائدے ےجء اور لوگ ان کے علم ودانش سے بہت فائدہ اٹھا سکتے تھے مگر عثمان کا نظریہ یہ تھا کہ ان کا غیر لچکدار طرز فکر اور اموال کے بارے میں ان کا سخت رویہ مفاسد اور خرابیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا ان کے وجود کے فائدوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے انہیں مدینہ سے باہر بھیج دیا اور چونکہ ابوذر اور عثمان دونوں مجتہد تھے لہٰذا یہاں کسی کے عمل پر اعتراض نہیں کیا جاسکتا ۔
واقعا ہمیں معلوم نہیں کہ ابوذر کے مدینہ میں رہنے سے کیا خرابی پیدا ہوتی تھی؟ کیا لوگوں کو سنت پیغمبر کی طرف پلٹانا خرابی کا باعث تھا ؟
حضرت ابوذر نے آخر پہلے اوردوسرے خلیفہ کی مالی منصبوبہ بندی جو عثمان کے طرز عمل سے مختلف تھی پر اعتراض کیوں نہیں کیا ۔
تو کیا لوگوں کو صدر اسلام کے مالی لائحہ عمل کی طرف پلٹانا فساد کا باعث تھا؟
کیا ابوذر کو جلا وطن کرنا اور ان کی حق گو زبان منقطع کرنا اصلاح کا سر چشمہ تھا ۔
کیا حضرت عثمان کے طرز عمل سے خصوصا مالی اموار میں ان کے طریق کار سے اتنا عظیم دھماکہ نہیں ہوا جس کی بھینٹ وہ خود بھی چڑھ گئے؟
کیا یہ مفسدہ تھا اور اسے ترک کرنا مصلحت تھا ؟
لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ جب تعصب ایک دروازے داخل ہوتا ہے عقل دوسرے دروازے سے رخصت ہوجاتی ہ، بہرحال اس عظیم صحابی کا طرز عمل کسی منصف مزاج محقق پر پوشیدہ نہیں ہے اور کوئی ایسا منطقی راستہ نہیں کہ خلیفہ سوم کی اس آزار اور تکلیف کے بارے میں برائت ہو سکے جو ان سے حضرت ابوذر کو پہنچی ۔
ارتکاز دولت کی سزا
بعد والی آیت میں ایسے افراد کے لئے دوسرے جہان کی اس سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فریاگایاہے:ایک دن ایسا آئے گا کہ یہ سکے جہنم کی جلا دینے والی آگ میں پگھلائے جائیں گے اور پھر ان سے ان کی پیشانی، پہلو اور پشت کو داغا جائے گا(
یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْهَا فِی نَارِ جَهَنَّمَ فَتُکْوَی بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُم
)
، ایسی حالت میں عذاب کے فرشتے اس سے کہیں گے کہ وہی چیز ہے جس سے تم نے اپنے لئے ذخیرہ کیا تھا اور خزانے کی صورت میں رکھا تھا اورراہ خدا میں محروم لوگوں پر خرچ نہیں کیا تھا(
هٰذَا مَا کَنَزْتُمْ لِاٴَنفُسِکُمْ
)
، اب چکھو اسے جسے تم نے اپنے لئے ذخیرہ کیا تھا اور اس کے برے انجام کو پاؤ(
فَذُوقُوا مَا کُنتُمْ تَکْنِزُون
)
۔
یہ آیت اس حقیقت کی دوبارہ تاکید کرتی ہے کہ انسانوں کے اعمال فنا نہیں ہوتے اور اسی طرح باقی رہتے ہیں اور وہی دوسرے جہان میں انسانوں کے سامنے مجسم ہوں گے اور اس کے سرور ومسرت یا رنج وتکلیف کا سبب بنیں گے ۔
اس بارے میں کہ مندرجہ بالا آیت میں تمام اعضائے بدن میں سے صرف پیشانی، پشت اور پہلو کا ذکر کیوں کیا گیا ہے،مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن جناب ابوذر سے منقول ہے، وہ کہتے تھے:(حتیٰ یتردد الحر فی احوافهم
) ۔
نیز یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ اس بنا پر ہے کہ محرومین کے مقابلے میں وہ ان تین اعضاء سے کام لیتے تھے وہ کبی ان سے مہنہ پھراتے، کبھی بے اعتنائی کے طور پر ان کے سامنے آنے سے کتراتے اور کبھی ان کی طرف پشت پھیرلیتے لہٰذا ان کے بدن کے بدن کے یہ تین حصے اس سیم وزر سے داغے جائیں گے جو انہوں نے جمع کررکھا تھا ۔
اس بحث کے آخر میں مناسب ہے کہ ایک ادبی نکتے کی طرف بھی اشارہ کردیا جائے جو آیت میں موجود ہے اور وہ یہ ہے کہ آیت میں ہے: یَوْمَ یُحْمَی عَلَیْھَا ۔یعنی اس دن آگ سکو ں کے اوپر ڈالی جائی گی تاکہ وہ گرم اور جلانے کے قابل ہوجائے حالانکہ عام طور پر اس قسم کے مواقع پر لفظ”علیٰ“ استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ مثال کے طور پر کہا جاتا ہے:”یحمی الحدید“ ۔یعنی لوہے کو گرم کرتے ہیں ۔ عبارت کی تبدیلی شاید سکوں کی بیت زیادہ جلانے کی طرف اشارہ ہو کیوں کی اگر سکوں کو آگ میں ڈال دیا جائے تو وہ اس قدر سرخ اورگرم نہیں یوتے جتنا کہ وہ آگ کے نیچے گرم ہوتے ہیں ۔ قرآن یہ نہیں کہتا کہ سکوں کو آگ میں ڈالیں گے بلکہ کہتا ہے انہیں ااگ کے نیچے رکھے گے تاکہ وہ اچھی طرح پگھل جائیں اور پھر جلا سکیں اور یہ ایسے سنگدل سرمایہ داروں کو سزا دینے کے لئے نہایت سخت تعبیر ہے ۔
____________________