تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30823
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30823 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۱۸۹،۱۹۰،۱۹۱،۱۹۲،۱۹۳

۱۸۹( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْکُنَ إِلَیْهَا فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا فَمَرَّتْ بِهِ فَلَمَّا اٴَثْقَلَتْ دَعَوَا اللهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا صَالِحًا لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِینَ ) .

۱۹۰( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَالَهُ شُرَکَاءَ فِیمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَی اللهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ ) .

۱۹۱( اٴَیُشْرِکُونَ مَا لَایَخْلُقُ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ) .

۱۹۲( وَلَایَسْتَطِیعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَااٴَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ) .

۱۹۳( وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَی الْهُدیٰ لَایَتَّبِعُوکُمْ سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ اٴَدَعَوْتُمُوهُمْ اٴَمْ اٴَنْتُمْ صَامِتُونَ ) .

ترجمہ

۱۸۹ ۔وہ خدا وہ ہے کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کی بیوی کو اس کی جنس (اور نوع) سے قرار دیا ہے تاکہ اس سے سکون حاصل کرے ۔ اس کے بعد وہ اس سے نزدیک ہوا تو وہ ایک ہلکے سے (بوجھ کے ساتھ) حاملہ ہوگئی کہ جس کے ہوتے ہوئے وہ اپنے پروردگار سے دعا کی (کہ انھیں نیک اور صالح فرزند عطا کرے اور عرض کیا) کہ اگر تو نے ہمیں نیک فرزند عطا کیا تو ہم شکرگزاروں میں سے ہوں گے ۔

۱۹۰ ۔پس جب اس نے انھیں نیک بیٹا عطا دیا (تو انھوں نے دوسرے موجودات کو اس میں موثر سمجھا اور) خدا نے انھیں جو نعمت بخشی تھی اس کے لئے شرکاء کے قائل ہوگئے اور جسے اس کا شریک قرار دیا جائے خدا اس سے برتر ہے ۔

۱۹۱ ۔کیا ایسے موجودات کو اس کا شریک قرار دیتے ہیں جو کسی چیز کو پیدا نہیں کرسکتے اور وہ خود مخلوق ہیں ۔

۱۹۲ ۔اور نہ ان کی مدد کرسکتے ہیں اور نہ اپنی ہی مدد کرسکتے ہیں ۔

۱۹۳ ۔اور جب انھیں ہدایت کی طرف دعوت دو تو تمھاری پیروی نہیں کرتے ۔ ان کے لئے اس میں کوئی فرق نہیں ، چاہے انھیں دعوت دو یا خاموش رہو۔

ایک عظیم نعمت کا کفران

ان آیات میں مشرکین کے حالات اور طرزِ فکر کے ایک اور پہلو اور ان کے اشتباہ کا جواب دیا گیا ہے ۔ گذشتہ آیت میں سود وزیاں اور علم غیب سے آگاہی کو خدا میں منحصر قرار دیا گیا ہے اور در حقیقت خدا تعالےٰ کی توحید افعالی کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، ، اب یہ آیات گذشتہ آیات کے مضمون کی تکمیل شمار ہوتی ہیں کیونکہ یہ بھی خدا کی توحیدِ افعالی کی طرف اشارہ ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ خدا وہ ہے کہ جس نے تمھیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اس کی بیوی کو اس کی جنس سے قرار دیا تاکہ اس سے سکون حاصل کرے( هُوَ الَّذِی خَلَقَکُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِیَسْکُنَ إِلَیْهَا ) ۔

یہ دونوں ایک دوسرے کے پہلو می آرام بخش زندگی گزار رہے تھے ”لیکن جب شوہر نے اپنی بیوی سے جنسی ارتباط کیا تو وہ ہلکے سے بوجھ سے حاملہ ہوگئی، ابتداء میں تو اس حمل سے کوئی مشکل پیدا نہ ہوئی اور حاملہ ہونے کے باوجود اپنے دوسرے کاموں کو جاری رکھے ہوئے تھی( فَلَمَّا تَغَشَّاهَا حَمَلَتْ حَمْلًا خَفِیفًا فَمَرَّتْ بِهِ ) ۔(۱)

لیکن جوں جوں روز وشب گزرے حمل کا بوجھ بڑھتا گیا یہاں تک کہ اس نے بہت بوجھ محسوس کیا( فَلَمَّا اٴَثْقَلَتْ ) ۔ اس وقت وہ دونوں ایک فرزند کے انتظار میں تھے اور ان آرزو تھی کہ خدا انھیں نیک فرزند عطا فرمائے لہٰذا وہ بارگاہ الٰہی کی طرف متوجہ ہوئے اور انھوں نے اپنے پروردگار کو اس طرح پکارا: بارالٰہا! اگر تونے ہمیں صالح اور نیک فذزند عطا کیا تو ہم شکرگزار میں سے ہوں گے( دَعَوَا اللهَ رَبَّهُمَا لَئِنْ آتَیْتَنَا صَالِحًا لَنَکُونَنَّ مِنَ الشَّاکِرِینَ ) ۔لیکن جب خدا نے انھی صحیح وسالم اور باصلاحیت فرزند عطا کیا تو وہ اس نعمت کی عنایت میں خدا کے شرکاء کے قائل ہوگئے لیکن خدا ان کے شرک سے برتر وبالاتر ہے( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَالَهُ شُرَکَاءَ فِیمَا آتَاهُمَا فَتَعَالَی اللهُ عَمَّا یُشْرِکُونَ ) ۔

____________________

۱۔”تغشاها “ ”تغشیٰ “ کے مادہ سے ہے اور اس کا معنی ہے ڈھاپنا اور چھپانا ۔ یہ لفظ عربی زبان میں مباشرت کے لئے ایک لطیف اشارہ ہے ۔

ایک اہم سوال کا جواب

مندرجہ بالا آیات میں جن میاں بیوی کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے وہ کون ہیں ؟ اس سلسلے میں مفسّرین میں بہت اختلاف ہے ۔

کیا نفس واحدہ اور اس کی بیوی سے مراد آدم اور حوّا ہیں ، جبکہ آدم نبی تھے اور حوّا ایک اچھی باایمان خاتون تھی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ وہ راہِ توحید سے منحرف ہوکر راہِ شرک پر چل پڑے ہوں ۔

اور اگر آدم کے علاوہ کوئی اور مراد ہے اور تمام انسانوں کے لئے ہے تو فقط ”واحدة“ سے یہ بات کیسے مناسبت رکھتی ہے؟

اس سے قطع نظر یہاں کس عمل یا فکر ونظر کو شرک قرار دیا گیا ہے ۔؟

ان باتوں کا جواب پیش خدمت ہے:

ان آیات کی تفسیر میں ہمارے سامنے دو راستے ہیں ، اس سلسلے میں مفسرین کی جو مختلف باتیں سامنے آئی ہیں شاید ان سب کی بنیاد انہی سے سمجھ میں آجائے ۔

۱ ۔ پہلا راستہ یہ ہے کہ ”واحد“ سے مراد آیت میں ”واحد شخصی“ ہے، جیسا کہ بعض دوسری آیات میں بھی ہے ۔ مثلاً سورہ نساء کی پہلی آیت میں بھی ایسا ہی ہے(۱)

”نفس واحدہ“ قرآنِ مجید میں پانچ مقامات پر آیا ہے، ایک زیر بحث آیت میں ، دوسرا سورہ نساء کی پہلی آیت میں ، تیسرا انعام آیہ ۹۸ میں چوتھا لقمان آیہ ۲۸ میں اور پانچواں زمر آیہ ۶ میں ۔ ان میں سے بعض مقامات کا ہماری موجودہ بحث سے متعلق نہیں ہے البتہ بعض مقامات زیرِ بحث آیت کے مشابہ ہیں لہٰذا ”واحد شخصی“ کا مطلب یہ ہوگا کہ یہاں پر مختصر طور پر حضرت آدم(علیه السلام) اور ان کی بیوی کی طرف اشارہ ہے ۔

مسلّم ہے کہ اس صورت میں شرک سے مراد غیر خدا کی پرستش اور پروردگار کے علاوہ کسی کی الوہیت کا اعتقاد نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اس سے مراد بیٹے کی طرف ایک طرح میلان ہو کہ کبھی بعض میلانات بھی خدا سے غافل کردیتے ہیں ۔

۲ ۔ دوسری تفسیر یہ ہے کہ ”واحد“ سے مراد یہاں ”واحد نوعی“ ہے یعنی خدا نے تم سب کو ایک ہی نوع سے پیدا کیا ہے اور تمھاری بیویوں کو بھی تمھاری جنس میں سے قرار دیا ہے ۔

اس صورت میں دونوں آیات اور بعد والی آیات نوعِ انسانی کی طرف اشارہ ہیں یعنی انسان بچے کی پیدائش کے انتظار کے دنوں میں تو بہت دستِ دعا بلند کرتے ہیں اور خدا سے نیک اور قابل اولاد کی خواہش کرتے اور ان لوگوں کی طرح جو مشکل اور خطرے کے وقت تو پورے خلوص سے بارگاہِ خداوندی کی طرف جاتے ہیں اور اس سے عہد کرتے ہیں کہ وہ حاجات پوری ہونے اور مشکلات حل ہونے کے بعد شکرگزار رہیں گے لیکن جب بچہ پیدا ہوجاتا ہے یا ان کی مشکل حل ہوجاتی ہے تو تمام عہدوپیمان فراموش کردیتے ہیں کبھی کہتے ہیں کہ ہمار بیٹا اگر صحیح وسالم اور خبصورت ہے تو ماں باپ پر گیا ہے اور قانونِ وراثت کا تقاضا تھا، کبھی کہتے ہیں کہ ہماری غذا، طریقہ اور دیگر امور اور حالات سازگار اور اچھے تھے لہٰذا یہ انہی کا نتیجہ ہے اور کبھی ان بتوں کا رخ کرتے ہیں کہ جن کی پرستش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے بچّے پر انہی کی نظرِ کرم تھی ۔ اسی طرح باتیں کرتے ہیں اور خلقتِ الٰہی کے تمام نقوش نظر انداز کردیتے ہیں ، یہ لوگ اس نعمت کی علت وسبب عوامل طبیعی کو قرار دیتے ہیں یا پھر اسے اپنے بیہودہ معبودوں کا کرشمہ شمار کرتے ہیں ۔(۲)

مندرجہ بالا آیات میں کچھ ایسے قرائن موجود ہیں جو دوسر ی تفسیر سے زیادہ مناسبت رکھتے ہیں مثلاً:

۱ ۔ آیات کی تعبیریں ایسے میاں بیوی کی حالت بیان کرتی ہیں جو پہلے سے کسی معاشرے میں رہتے تھے اور اچھی بری اولاد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے ۔ لہٰذا انھوں نے اپنے خدا سے اچھی اولاد کا تقاضا کیا اور اگر آیات آدم وحوّا سے متعلق ہوتیں تو ان کے ہاں تو ابھی بچہ ہی نہیں ہوا تھا اور ابھی صالح وغیر صالح اور اچھے برے کا وجود ہی نہ تھا کہ وہ خدا سے اپنے لئے اچھے بیٹے کی درخواست کرتے ۔

۲ ۔ دوسری بات یہ ہے کہ دوسری آیت اور اس کے بعد والی آیات میں سب جمع کی ضمیریں ہیں ، یہ چیز بتاتی ہے کہ تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو گروہ تھے نہ کہ دو شخص۔

۳ ۔ تیسری بات یہ ہے کہ بعد کی آیات نشاندہی کرتی ہیں کہ ان آیات میں شرک سے مراد بت پرستی ہے نہ کہ اولاد کی محبت وغیرہ اور یہ بات حضرت آدم(علیه السلام) اور ان کی زوجہ کے لئے روا نہیں ہے ۔

ان قرائن کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ اُوپر والی آیت نوعِ انسانی اور شوہروں اور بیویوں کے بارے میں گفتگو کررہی ہے ۔ جیسا کہ ہم ا س تفسیر کی تیسری جلد صفحہ ۱۸۲ ( اردو ترجمہ) میں اشارہ کر آئے ہیں ، انسان کی بیوی کا انسان سے پیدا ہونے کا یہ معنی نہیں کہ اس کے لئے مرد کے بدن کا کوئی حصّہ الگ ہوکر بیوی بن گیا ہے(جیسا کہ بعض جعلی اور اسرائیلی روایت میں ہے کہ حوّا، آدم(علیه السلام) کی بائیں پسلی سے پیدا ہوئی ہیں ) بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کی بیوی اس کی نوع سے ہے جیسا کہ سورہ روم کی آیہ ۲۱ میں ہے:

( وَمِنْ آیَاتِهِ اٴَنْ خَلَقَ لَکُمْ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ اٴَزْوَاجًا لِتَسْکُنُوا إِلَیْهَا )

قدرتِ خدا کی نشانیوں میں سے ایک یہ ہے کہ ہم نے تمھاری بیویاں نوع سے پیدا کی ہیں تاکہ ان سے سکون حاصل کرو۔

____________________

۱۔ تفسیر نمونہ، ج۳، ص۱۸۱ (اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ بعض مفسرین نے ابتدائے آیت کو حضرت آدم(علیه السلام) کے لئے اور ذیل آیت کو اولادِ آدم کے لئے قرار دیا ہے جو آیت کے ظاہری مفہوم سے کسی طرح سے بھی مطابقت نہیں رکھتا اور اصطلاح کے مطابق حذف اور تقدیر یا ضمیر کا مرجع کے غیر کی طرف پلٹانے کا محتاج ہے.

ایک مشہور اور جعلی روایت

اہل سنّت کی بعض کتب میں اور کچھ غیر معتبر کتب میں مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں ایک حدیث نقل کی گئی ہے جو انبیاء(علیه السلام) کے بارے میں اسلامی عقائد سے کسی لحاظ سے بھی مناسبت نہیں رکھتی اور وہ یہ ہے:

سمرہ بن جندب، پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے حوالے سے بیان کرتا ہے:

لمّا ولدت حوّاء طاف بها ابلیس وکان لایعیش لها ولد فقال سمیه عبدالحارث فعاش وکان ذٰلک من وحی الشیطان واٴمره.

یعنی جب حوّا کے ہاں بچہ پیدا ہوا تو شیطان اس کے چکر لگانے لگا اور اس سے پہلے حوّا کا کوئی بچہ زندہ نہیں رہتا تھا، شیطان نے حوّا سے کہا: اس کا نام عبدالحارث رکھو (کیونکہ حارث شیطان کے ناموں میں سے ہے لہٰذا عبدالحارث کا معنی ہے شیطان کا بندہ) حوّا نے ایسا کیا اور وہ بچہ زندہ رہ گیا اور ایسا شیطان کی وحی اور حکم سے ہوا ۔(۱)

اسی مضمون کی بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضرت آدم(علیه السلام) بھی اس بات پر راضی ہوگئے تھے ۔

اس روایت کا راوی چاہے مشہور گذّاب سمرہ بن جندب یا کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے افراد جو یہودیوں کے مشہور لوگوں میں سے تھے اور پھر مسلمان ہوگئے اور بعض علماء اسلام کے نظریے کے مطابق تورات اور بنی اسرائیل کی خرافات یہی دونوں مسلمانوں میں لائے، بہرحال جو بھی ہو رایات کا مضمون خود ہی اس کے بطلان کی دلیل ہے کیونکہ آدم(علیه السلام) جو خلیفة الله اور خدا کے عظیم پیغمبر تھے اور علم الاسماء کے حامل تھے ۔ اگرچہ وہ ترک اولیٰ کی وجہ سے جنت سے زمین پر آئے تاہم وہ ایسی شخصیت نہ تھے کہ شرکِ کی راہ انتخاب کرتے اور اپنے بیٹے کا نام ”بندہ شیطان“ رکھتے، ایسا کام توصرف کسی بت پرست، جاہل، نادان اور بے خبر ہی کے شایانِ شان ہوسکتا ہے ۔

سا سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ مذکورہ روایت میں شیطان کا معجزہ اور کرامت بیان کی گئی ہے کہ اس بچّے کا نام جب اُس کے نام پر رکھا گیا تو گذشتہ تمام بچوں کے برخلاف زندہ رہا ۔

بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض گذشتہ مفسرین ایسی روایات سے اتنے متاثر ہوئے کہ انھیں تفسیر کے طورپر بیان کردیا ۔ بہرکیف یہ روایت چونکہ قرآن کے بھی خلاف ہے اور عقل کے بھی لہٰذا اسے کسی ردّی کی ٹوکری میں پھینک دینا چاہیے ۔

اس واقعہ کے بعد قرآن بت پرستی کی دوبارہ سخت الفاظ میں مذمّت کرتا ہے، ارشاد ہوتا ہے: کیا یہ لوگ کچھ ایسے موجودات کوخدا کا شریک قرار دیتے ہیں جو کوئی چیز پیدا کرنے کی قدرت نہیں رکھتے بلکہ وہ خود اس کی مخلوق ہیں( اٴَیُشْرِکُونَ مَا لَایَخْلُقُ شَیْئًا وَهُمْ یُخْلَقُونَ ) ۔ علاوہ ازیں یہ جعلی معبود پیدا اپنے بچاریوں کی کسی بھی مشکل میں مدد نہیں کرسکتے یہاں تک کہ وہ مشکلات میں خود اپنی مدد نہیں کرسکتے( وَلَایَسْتَطِیعُونَ لَهُمْ نَصْرًا وَلَااٴَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ) ۔

یہ معبود ایسے ہوتے ہیں کہ ”اگر تم انھیں ہدایت کرنا چاہو تو وہ تمھاری پیروی نہیں کریں گے یہاں تک کہ اس کا شعور بھی نہیں رکھتے“( وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَی الْهُدیٰ لَایَتَّبِعُوکُمْ ) ۔ جو ہادیوں کی پکار اور ندا کو بھی نہیں سنتے اور وہ دوسروں کی ہدایت کیسے کرسکتے ہیں ۔

بعض مفسرین نے اس آیت کی تفسیر کے کے لئے ایک اور احتمال ذکر کیا ہے اور یہ کہ ”ھُمْ “کی ضمیر بت پرستوں اور مشرکوں کے لئے ہے یعنی ان میں سے ایک گروہ اس قدر ہٹ دھرم اور متعصّب ہے کہ انھیں جتنی بھی توحید کی دعوت دی جائے وہ اسے تسلیم اور قبول نہیں کرتے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مراد یہ ہو کہ اگر تم ان سے ہدایت کا تقاضا کرو تو اس کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوگا، بہرحال ”تمھارے لئے برابر ہے کہ انھیں دعوت حق دو یا خاموش رہو، دونوں صورتوں میں ہٹ دھرم بت پرست اپنے رویّے سے دست بردار نہیں ہوں گے( سَوَاءٌ عَلَیْکُمْ اٴَدَعَوْتُمُوهُمْ اٴَمْ اٴَنْتُمْ صَامِتُونَ ) ۔

دوسرے احتمال کے مطابق اس جملے کا معنی یہ ہے کہ: تمھارے لئے برابر ہے، چاہے بتوں سے کسی چیز کا تقاضا کرو چُپ رہو دونوں صورتوں میں نتیجہ منفی ہے کیونکہ بت کسی کی تقدیر میں کوئی اثر نہیں رکھتے اور کسی کی خواہش پوری کرسکتے ۔

فخرالدین رازی اس آیت کی تفسیرز میں لکھتے ہیں :

مشرکین جب کسی مشکل میں پھنس جاتے تھے تو بتوں کے سامنے فریاد کرتے اور جب انھیں کوئی مشکل درپیش نہ ہوتی تو خاموش رہتے، قرآن ان سےکہتا ہے: چاہے ان کے سامنے تضرع وزاری کرو یا چُی رہو، دونوں صورتوں میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

____________________

۱۔ المنار، ج۹، بحوالہ مسند احمد.

آیات ۱۹۴،۱۹۵

۱۹۴( إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ عِبَادٌ اٴَمْثَالُکُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) .

۱۹۵( اٴَلَهُمْ اٴَرْجُلٌ یَمْشُونَ بِهَا اٴَمْ لَهُمْ اٴَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِهَا اٴَمْ لَهُمْ اٴَعْیُنٌ یُبْصِرُونَ بِهَا اٴَمْ لَهُمْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِهَا قُلْ ادْعُوا شُرَکَائَکُمْ ثُمَّ کِیدُونِی فَلَاتُنظِرُونِِ ) .

ترجمہ

۱۹۴ ۔ جنھیں وہ خدا کے علاوہ پکارتے ہیں (اور جن کی پرستش کرتے ہیں ) تمھاری طرح کے بندے میں ، اگر سچّے ہو تو انھیں پکارو تو انھیں چاہیے کہ وہ تمھیں جواب دیں (اور تمھارے تقاضوں کو پورا کریں ) ۔

۱۹۵ ۔ کیا وہ (کم ازکم خود تمھاری طرح) پاؤں رکھتے ہیں کہ جن کے ساتھ چلیں پھریں یا ہاتھ رکھتے ہیں کہ جن چیز اٹھا سکیں (اور کوئی کام انجام دے سکیں ) یا کیا وہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ ان سے دیکھ سکیں یا ان کے کان ہیں کہ ان سے سن سکیں (نہیں ان کے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ) کہہ دو: (اب جبکہ ایسا ہے تو) ان بتوں کو جنھیں تم نے خدا کا شریک بنارکھا ہے، (میرے برخلاف) انھیں پکارو اور میرے خلاف سازش اور مکروفریب کرو اور لحظہ بھر کی مہلت نہ دو (تاکہ تمھیں معلوم ہوجائے کہ ان سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا) ۔

تفسیر

ان دونوں آیات میں توحید کی بحث اور شرک سے مقابلہ جاری ہے اور اس سلسلے میں گذشتہ بحث کی ان میں تکمیل ہوئی ہے، ان میں عبادت میں شرک اور غیر خدا کی پرستش کو احمقانہ اور عقل ومنطق سے عاری کام قرار دیا گیا ہے، ان روایات کے مضمون سے واضح ہوتا ہے کہ چار دلیلوں سے بت پرستوں کی منطق باطل ہوجاتی ہے ۔

قرآن مختلف طرح کے استدلال سے اس مسئلہ پر بحث کرتا ہے اور ہر وقت اس پر ایک نئی برہان پیش کرتا ہے، اس کا راز یہ ہے کہ شرک ایمان کا اور انفرادی واجتماعی سعادت کا بدترین دشمن ہے اور چونکہ افکارِ بشر کی مختلف جڑیں اور شاخیں ہیں اور ہر دور میں شرک ایک نئی شکل میں ظاہر ہوتا ہے اور انسانی معاشروں کو خطرے سے دوچار کردیتا ہے لہٰذا قرآن اس کی خبیث جڑوں اور شاخوں کو کاٹنے کے لئے ہر موقع پر فائدہ اٹھاتا ہے ۔

یہاں ارشاد فرمایا گیاہے: جنھیں تم خدا کے علاوہ پکارتے ہو اور جن کی عبادت کرتے ہو اور جن سے مدد طلب کرتے ہو وہ تمھاری طرح کے بندے میں( إِنَّ الَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ عِبَادٌ اٴَمْثَالُکُمْ ) ۔ لہٰذا کوئی وجہ نہیں کہ انسان ایسی چیز کے سامنے سجدہ ریزہو جو خود اس جیسی ہے اور اپنی تقدیر اور سرنوشت اس کے ہاتھ میں سمجھ لے ۔ دوسرے لفظوں میں آیت کا مفہوم یہ ہے کہ اگر غور کرو تو دیکھو گے کہ وہ جسم بھی رکھتے ہیں ، زمان ومکان کی زنجیر میں اسیر ہیں ، قوانینِ طبیعت کے بھی محکوم ہیں اور زندگی اور دیگر توانائیوں کے لحاظ سے بھی محدود ہیں خلاصہ یہ ہے کہ وہ تم سے کوئی امتیاز نہیں رکھتے، تم نے صرف وہم خیال سے ان کے لئے امتیاز گھڑ رکھا ہے ۔

آیت میں بت پرستوں کے معبودوں کو ”عباد“ کہا گیا ہے جو ”عبد“ کی جمع ہے اور جس کا معنی ہے ”بندہ“ جبکہ ”عبد“ زندہ موجود کو کہا جاتا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟ اس کی کئی ایک تفاسیر کی گئی ہیں

پہلی: یہ کہ ممکن ہے یہاں ان معبودوں کی طرف اشارہ ہو جو انسانوں میں سے ہیں جیسے عیسائیوں کے لئے عیسیٰ، عرب بت پرستوں کے لئے فرشتے وغیرہ۔

دوسری: تفسیر یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ اس توہم کی وجہ جووہ بتوں کے متعلق رکھتے تھے، یہ کہا گیا ہو کہ فرض کریں کہ وہ عقل وشعور بھی رکھتے ہیں (پھر بھی وہ) تم سے برتر موجود تو نہیں ہیں ۔

تیسری: یہ کہ ”عبد“ لغت میں بعض اوقات ایسے موجود کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے جو دوسرے کے زیرِ تسلط اور زیر فرمان ہو اور اس کے سامنے خاضع ہو چاہے وہ عقل وشعور نہ رکھتا ہو۔ جیسے ایسی سڑک کو ”معبد“ (بروزن مقدم) کہتے ہیں جس پرز ہمیشہ آمد روفت رہتی ہے

مزید فرمایا گیا ہے: تم سوچتے ہو کہ وہ قدرت وشعور رکھتے ہیں تو ”انھیں پکارکر دیکھو کیا وہ تمھیں جواب دیتے ہیں ، اگر تم سچ کہتے ہو( فَادْعُوهُمْ فَلْیَسْتَجِیبُوا لَکُمْ إِنْ کُنتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

ان کی منطق کو باطل کرنے کے لئے یہ دوسری دلیل بیان کی گئی ہے کہ ان کا موت کا سا سکوت وخاموشی ان کے بے ارزش ہونے اور کسی چیز پر ان کی قدرت نہ ہونے کی نشانی ہے ۔

پھر مزید واضح کیا گیا ہے کہ’ حتّیٰ کہ وہ اپنے عبادت گزاروں سے زیادہ پست اور عاجز ہیں ”اچھی طرح دیکھ لو کہ کیا وہ کم از کم تمھاری طرح پاؤں رکھتے ہیں کہ جن سے چل پھرسکیں “( اٴَلَهُمْ اٴَرْجُلٌ یَمْشُونَ بِهَا ) ۔ ”یا کیا وہ ہاتھ رکھتے ہیں کہ جن سے کوئی پکڑ سکیں اور کوئی کام کرسکیں( اٴَمْ لَهُمْ اٴَیْدٍ یَبْطِشُونَ بِهَا )

”یا کیا وہ آنکھیں رکھتے ہیں کہ جن سے دیکھ سکیں( اٴَمْ لَهُمْ اٴَعْیُنٌ یُبْصِرُونَ بِهَا ) ۔ ”یا کیا پھر وہ کان رکھتے ہیں کہ جن سے سن سکیں “( اٴَمْ لَهُمْ آذَانٌ یَسْمَعُونَ بِهَا ) ۔ وہ تو اس قدر ضعیف ہیں کہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہونے کے لئے تمھاری مدد کے محتاج ہیں اور خود اپنے وجود کی حفاظت کے لئے کمک محتاج ہیں ، نہ وہ دیکھنے والی آنکھ رکھتے ہیں نہ سننے والے کان اور نہ کوئی اور قوتِ حس ان کے پاس ہے ۔

آیت کے آخر میں چوتھا استدلال یوں پیش کیا گیا ہے: اے پیغمبر! ان سے کہو کہ یہ معبود جنھیں تم نے خدا کا شریک قرار دے رکھا ہے انھیں میرے برخلاف بلاؤ اور تم سب ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر جتنی کرسکو میرے خلاف سازش کرلو اور اس کام میں کسی قسم کی تاخیر روا نہ رکھو پھر دیکھتے ہیں کہ اس کے باوجود تم کیا کرسکتے ہو (قُلْ ادْعُوا شُرَکَائَکُمْ ثُمَّ کِیدُونِی فَلَاتُنظِرُونِ)یعنی اگر میں جھوٹ بولتا ہوں اور وہ مقربان خدا ہیں اور میں نے ان کے حریم احترام میں جسارت کی ہے تو پھروہ مجھ پر غضب کیوں نہیں کرتے اور تم اور وہ مل کر مجھ پر کوئی اثر نہیں کرپاتے ۔ لہٰذا جان لو کہ یہ غیر موثر موجودات ہیں کہ جنھیں تمھارے توہشمات نے قوت بخشی ہے ۔

آیات ۱۹۶،۱۹۷،۱۹۸

۱۹۶( إِنَّ وَلِیِّی اللهُ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتَابَ وَهُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِینَ ) .

۱۹۷( وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَایَسْتَطِیعُونَ نَصْرَکُمْ وَلَااٴَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ) .

۱۹۸( وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَی الْهُدیٰ لَایَسْمَعُوا وَتَرَاهُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ وَهُمْ لَایُبْصِرُونَ ) .

ترجمہ

۱۹۶ ۔ (لیکن) میرا ولی اور سرپرست وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ سب نیکوں اور صالحین کا سرپرست ہے ۔

۱۹۷ ۔ اور جنھیں تم اس کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمھاری مدد نہیں کرسکتے اور (حتّیٰ کہ) اپنی بھی مدد نہیں کرسکتے ۔

۱۹۸ ۔ اور اگر ان سے ہدایت چاہو تو وہ تمھاری باتوں کو نہیں سنتے اور تم دیکھوگے کہ (وہ اپنی مصنوعی آنکھوں سے) تمھیں دیکھ رہے ہیں لیکن درحقیقت وہ نہیں دیکھ سکتے ۔

بے وقعت ’معبود‘

گذشتہ آیت میں تھا کہ تم اور تمھارے بت مجھے کچھ بھی نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ زیر بحث پہلی آیت میں اس دلیل کی طرف اشارہ کرتے ارشاد ہوا ہے، میرا ولی، سرپرست اور بھروسہ خدا ہے جس نے مجھ پر یہ آسمانی کتاب نازل کی ہے (ا( ِٕنَّ وَلِیِّی اللهُ الَّذِی نَزَّلَ الْکِتَاب ) ۔ نہ صرف بلکہ وہ تمام صالح اور شائستہ لوگوں کی حمایت اور سرپرستی کرتا ہے اور اپنا لطف و عنایت ان کے شامل حال کرتا ہے( وَهُوَ یَتَوَلَّی الصَّالِحِینَ ) ۔

اس کے بعد پھر تاکیداً بت پرستی کے بطلان پر دلائل دیتے ہوئے قرآن کہتا ہے: خدا کے علاوہ تم جن معبودوں کو پکار تے ہو ان سے کچھ بھی نہی ہوسکتا، وہ تمہاری مدد نہیں کرسکتے اور نہ اپنی مدد کرسکتے ہیں( وَالَّذِینَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِهِ لَایَسْتَطِیعُونَ نَصْرَکُمْ وَلَااٴَنفُسَهُمْ یَنصُرُونَ ) ۔ اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ ”اگر مشکلات میں ان سے ہدایت اور راہنمائی چاہو تو یہاں تک کہ وہ تمہاری بات بھی نہیں سن سکتے( وَإِنْ تَدْعُوهُمْ إِلَی الْهُدیٰ لَایَسْمَعُوا ) ۔“

حتیّٰ کہ اپنی مصنوعی آنکھوں سے، جن سے گویا تیری طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں در حقیقت کچھ نہیں دیکھ پاتے( وَتَرَاهُمْ یَنظُرُونَ إِلَیْکَ وَهُمَ لایُبْصِرُونَ ) .

ہم پہلے بھی اشارہ کر آئے ہیں کہ آخری آیت ممکن ہے بتوں کی طرف اشارہ ہو یا بت پرستوں کی طرف پہلی صورت میں اس کا مفہوم وہی ہے جو بیان کیا جاچکا ہے اور دوسری صورت میں اس کی تفسیر یہ ہوگی کہ اگر تم مسلمان ان ہٹ دھرم مشرکوں اور بت پرستوں کو صحیح توحیدی راستے کی طرف دعوت دو تو وہ تمہاری یہ دعوت قبول نہیں کریں گے ۔ وہ اپنی آنکھوں سے تمہاری طرف دیکھتے تو ہیں اور صدق و حقیقت کی نشانیاں بھی انھیں تم میں نظر آتی ہیں لیکن پھر بھی وہ حقائق کو نہیں دیکھ پاتے ۔

آخری دو آیات کا مضمون گذشتہ آیات میں بھی آیا ہے اور یہ تکرار زیادہ سے زیادہ تاکید کے لئے ہے تاکہ بت پرستی کا مقابلہ کیا جائے اور مشرکین کی فکر اور روح سے اس کی ریشہ کشی کی جائے ۔

آیات ۱۹۹،۲۰۰،۲۰۱،۲۰۲،۲۰۳

۱۹۹( خُذْ الْعَفْوَ وَاٴْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِینَ ) .

۲۰۰( وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّهُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ ) .

۲۰۱( إِنَّ الَّذِینَ اتَّقَوْا إِذَا مَسَّهُمْ طَائِفٌ مِنَ الشَّیْطَانِ تَذَکَّرُوا فَإِذَا هُمْ مُبْصِرُونَ ) .

۲۰۲( وَإِخْوَانُهُمْ یَمُدُّونَهُمْ فِی الغَیِّ ثُمَّ لَایُقْصِرُونَ ) .

۲۰۳( وَإِذَا لَمْ تَاٴْتِهِمْ بِآیَةٍ قَالُوا لَوْلَااجْتَبَیْتَهَا قُلْ إِنَّمَا اٴَتَّبِعُ مَا یُوحیٰ إِلَیَّ مِنْ رَبِّی هٰذَا بَصَائِرُ مِنْ رَبِّکُمْ وَهُدًی وَرَحْمَةٌ لِقَوْمٍ یُؤْمِنُونَ ) .

ترجمہ

۱۹۹ ۔ ان سے نرمی بر تو اور ان کا عذر قبول کرلو اور نیکیوں کی طرف دعوت دو اور جاہلوں سے رخ موڑلو (اور ان سے لڑائی جھگڑا نہ کرو) ۔

۲۰۰ ۔ اور جب شیطانی وسوسہ تجھ تک پہنچے تو خدا کی پناہ لو کیونکہ وہ سننے والا اور جاننے والا ہے ۔

۲۰۱ ۔ پرہیزگار جب شیطانی وسوسوں میں گرفتار ہوں تو (خدا اور اس کی جزا و سزا کی) یاد اور ذکر میں مصروف ہوجاتے ہیں (اور اس کی یاد ہی کے زیر سایہ وہ راہ حق دیکھتے ہیں ) پس وہ بیسنا ہوجاتے ہیں ۔

۲۰۲ ۔ (جو پرہیز گار نہیں ) ان کے بھائی (یعنی شیاطین) انھیں ہمیشہ گمراہی میں آگے بڑھاتے رہتے ہیں اور پھر اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتے ۔

۲۰۳ ۔ اور جب (نزول وحی میں تاخیر ہوجائے اور) تو ان کے لئے کوئی آیت نہ لے آئے تو کہتے ہیں تو خود سے (اپنی طرف سے) اسے کیوں نہیں چن لیتا ۔ کہہ دو کہ میں صرف اس چیز کی پیروی کرتا ہوں جو مجھ پر ووحی ہوتی ہے یہ تیرے پروردگار کی طرف سے ایمان لانے والوں کے لئے بینائی کا وسیلہ اور ہدایت و رحمت کا ذریعہ اور سبب ہے ۔

شیطانی وسوسے

ان آیات میں تبلیغ اور لوگوں کی رہبری و پیشوائی کی شرائط جاذب نظر طریقے سے اور جچے تلے انداز میں بیاں کی گئی ہیں ۔ ان آیات کا مفہوم گذشتہ آیات سے بھی مناسبت رکھتا ہے جو کہ مشرکین کے لئے تبلیغ کے طور پر ہی تھیں ۔

پہلی آیت میں رسول خدا سے خطاب کی صورت میں رہبروں اور مبلغوں کے فرائض کے تین حصوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے: لوگوں سے سخت گیری نہ کرو اور ان سے نرمی برتو، ان کے عذر قبول کرو اور وہ جتنی قدرت رکھتے ہیں ان سے اس سے زیادہ خواہش نہ کرو( خُذْ الْعَفْوَ ) ۔

”عفو“ بعض اوقات کسی چیز کی اضافی مقدار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، کبھی ”حدوسط“ کے مفہوم کے لئے آتا ہے، کبھی خطا کاروں کے عذر قبول کرنے اور انھیں بخش دینے کا معنی دینا ہے اور کبھی کاموں کو آسان سمجھنے کامفہوم لئے ہوتا ہے ۔

آیات کے قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ زیر نظر آیت بعض مفسرین کے قول کے برخلاف مالی مسائل اور لوگوں کے مال سے اضافی مقدار لینے سے کوئی ربط نہیں رکھتی بلکہ یہاں اس کے لئے مناسب مفہوم آسان سمجھنا، درگزر کرنا اور حدّوسط انتخاب کرنا ہی ہے ۔(۱)

واضح ہے کہ رہبر اور مبلغ اگر سخت گیر شخص ہوتو بہت جلد لوگ اس کے گردا گرد سے منتشر ہوجائیں گے اور دلوں میں اس کا نفوذ ختم ہوجائے گا ۔ جیسا کہ قرآن مجید کہتا ہے:

( وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِک )

اگر تم سخت گیر، بد اخلاق اور سنگدل ہوتے تو مسلم ہے کہ لوگ تمھارے ارد گرد پراگندہ ہوجاتے ۔ (آل عمران۔ ۱۵۹)

اس کے بعد دوسرا حکم دیا گیا ہے: لوگوں کو نیک کاموں کا اور وہ کہ جنہیں عقل و خرد شائستہ قرار دے اور خدا ان کی نیکی اور اچھائی کے طور پر تعارف کروائے ، حکم دو( وَاٴْمُرْ بِالْعُرْفِ ) ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ سخت گیری نہ کرنے مطلب ”سب اچھا“ اور خوشامد نہیں بلکہ رہبر اور مبلغ کو چاہیے کہ وہ حقائق پیش کرے اور لوگوں کو حق کی دعوت دے اور کوئی چیز فروگذاشت نہ کرے ۔

تیسرے مرحلے میں جاہلوں کے مقابلے میں تحمل وبردباری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے: جاہلوں سے رُخ موڑلو اور ان سے لڑو جھگڑو نہیں( وَاٴَعْرِضْ عَنْ الْجَاهِلِینَ ) ۔

جب کسی رہبر اور مبلغ کو ہٹ دھرم متعصب، جاہل اور کوتاہ فکر اور پست اخلاق افراد کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو گالیاں سننا پڑتی ہیں تہمتیں لگتی ہیں ، اس کی راہ میں روڑے اٹکائے جاتے ہیں اور اس پر پتھر پھینکے جاتے ہیں ایسی صورت حال میں کامیابی کا طریقہ یہ نہیں کہ جاہلوں سے دست وگریباں ہوا جائے بلکہ بہترین راہ تحمل، حوصلہ اور چشم پوشی ہے اور تجربہ شاہد ہے کہ جاہلوں کی بیداری اور ان کے غضب، حس اور تعصّب کی آگ خاموش کرنے کے لئے یہ بہترین طریقہ ہے ۔

بعد والی آیت میں ایک اور حکم دیا گیا ہے جس میں در حقیقت رہبروں اور مبلغوں کے لئے ان کی چوتھی ذمہ داری بیان کی گئی ہے اور وہ یہ کہ مقام ومنزلت، مال ودولت اور خواہشات وشہوت وغیرہ کی صورت میں شیطانی وسوسے ہمیشہ ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں ، شیطان اور شیطان صفت لوگ ان وسوسوں کے ذریعے انھیں ان کے راستے سے منحرف کرنے کے درپے رہتے ہیں ۔ قرآن حکم دیتا ہے: اگر شیطانی وسوسوے تیرا رخ کریں تو اپنے آپ کو خدا کی پناہ میں دے دے، خود کو اُ س کے سپرد کردے اور اسی کے لطف سے مدد طلب کر کیونکہ وہ تیری بات سنتا ہے، تیرے اسرارِ نہاں سے آگاہ ہے اور شیطانوں کے وسوسوں سے باخبر ہے (وَإِمَّا یَنزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطَانِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللهِ إِنَّہُ سَمِیعٌ عَلِیمٌ) ۔(۲)

____________________

۱۔ لفظ ”عفو “ کی مزید و وضاحت کے لئے تفسیر نمون جلد دوم (ص ۷۳۔ ۷۴ اردو ترجمہ) کی طرف رجوع کریں ۔

۲۔ ”یَنزَغَنَّکَ “ کا”نزَغَ “ (بروزن ”نزَعَ“) ہے، اس کامعنی ہے کسی کام میں خرابی پیدا کرنا یا اس کی تحریک دین.