تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30765
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30765 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیت ۱

( بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ )

۱-( یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْاٴَنْفَالِ قُلْ الْاٴَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَاٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ )

ترجمہ

۱ ۔ تم اس انفال (غنائم اور ہر وہ مال جس کا مالک مشخص نہ ہو) کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دو: انفال خدا اور رسول سے مخصوص ہے پس خدا (کے حکم کی مخالفت) سے بچو اور پرہیز کرو اور جو بھائی آپس میں لڑے ہوئے ہیں ان میں صلح کراؤ اور خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔

شان نزول

ابن عباس سے منقول ہے کہ رسول اللہ نے جنگ بدر کے روز مجاہدین اسلام کی تشویق کے لئے کچھ انعامات مقرر کیے اور مثلاً فرمایا کہ جو فلاں دشمن کو قید کرکے میرے پاس لائے گا اسے یہ انعام دوں گا۔ ان میں پہلے ہی روح ایمان و جہاد موجود تھی اوپر سے یہ تشویق بھی، نتیجہ یہ ہوا کہ جو ان سپاہی بڑے افتخار سے مقابلے کے لئے آگے بڑھے اور اپنے مقصد کی طرف لپکے۔بوڑھے سن رسیدہ افراد جھنڈوں تلے موجود رہے۔ جب جنگ ختم ہوئی تو نوجوان اپنے پر افتخار انعامات کے لئے بارگاہ پیغمبر کی طرف بڑھے۔ بوڑھے ان سے کہنے لگے کہ اس میں ہمارا بھی حصّہ ہے کیونکہ ہم تمھارے لئے پناہ اور سہارے کا کام کررہے تھے اور تمھارے لئے جوش و خروش کا باعث تھے۔ اگر تمہارا معاملہ سخت ہوجاتا تو اور تمھیں پیچھے ہٹنا پڑتا تو یقیناً تم ہماری طرف آتے۔ اس موقع پر دو انصاریوں میں تو تکار بھی ہوگئی اور انہوں نے جنگی غنائم کے بارے میں بحث کی۔

اس اثناء میں زیر نظر آیت نازل ہوئی جس میں صراحت کے ساتھ بتلایا گیا کہ غنائم کا تعلق پیغمبر سے ہے وہ جیسے چاہیں انھیں تقسیم فرمائیں ۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے بھی مساوی طور پر سب سپاہیوں میں غنائم تقسیم کردیے اور برادران دینی میں صلح و مصالحت کا حکم دیا۔

تفسیر

جیسا کہ ہم شانِ نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ اوپر والی آیت جنگ ”بدر“ کے بعد نازل ہوئی اور جنگی مال غنیمت کے سلسلہ میں بات کررہی ہے اور ایک قانون کلی کے طور پر ایک وسیع اسلامی حکم کو بیان کررہی ہے۔ خدا تعالیٰ پیغمبر کو خطاب کرتے ہوئے کہتا ہے ”تجھ سے انفال کے بارے میں سوال کرتے ہیں “۔”( یَسْاٴَلُونَکَ عَنْ الْاٴَنْفَالِ ) “۔

”کہہ دے کہ انفال خدا اور پیغمبر کے ساتھ مخصوص ہیں “۔ ”( قُلْ الْاٴَنْفَالُ لِلّٰهِ وَالرَّسُولِ ) “ ۔ اس بناء پر ”تقویٰ اختیار کرو اور اپنے درمیان اصلاح کرو اور وہ بھائی کہ جن کا باہمی جھگڑا ہوگیا ہے ان میں صلح و آتشی کراؤ“ ۔ ”( فَاتَّقُوا اللهَ وَاٴَصْلِحُوا ذَاتَ بَیْنِکُمْ ) “ ۔ ”اور خدا اور اس کے پیغمبر کی اطاعت کرو اگر تم ایمان رکھتے ہو“۔ ”( وَاٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ إِنْ کُنتُمْ مُؤْمِنِینَ ) “ ۔ یعنی ایمان صرف زبانی کلامی نہیں بلکہ ایمان کی جلوہ گاہ زندگی کے تمام مسائل میں فرمان خدا و پیغمبر کی بے قید و بند اطاعت کرنا ہے نہ صرف جنگی غنائم میں بلکہ ہر چیز میں ان کے فرمان پر کان دھرنا اور ان کے اوامر کے سامنے سر تسلیم خم کرنا چاہیے۔

انفال کیا ہے؟

”انفال“ اصل میں ”نفل“ (بروزن ”نفع“)کے مادہ سے ہے اور اس کا فعل ہے زیادتی اور اضافہ۔ مستحب نمازوں کو بھی ”نافلة“ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ واجبات پر اضافہ ہیں ۔ ”نوہ“ کو بھی ”نافلة“ اسی لئے کہتے ہیں چونکہ وہ اولاد میں اضافہ ہوتا ہے۔”نوفل“ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو زیادہ بخشش کرتا ہو۔

جنگی غنائم کو انفال کہا جاتا ہے یا تو یہ اس بناء پر ہے کہ یہ اموال کا ایک اضافی سلسلہ ہے جو مالک کے بغیر رہ جاتا ہے اور جنگ کرنے والوں کے ہاتھ آتا ہے جب کہ اس کا کوئی متعیّن مالک نہیں ہوتا اور یا یہ اس لحاظ سے ہے کہ فوجی دشمن پر کامیابی حاصل کرنے کے لئے جنگ کرتے ہیں نہ کہ مال غنیمت کے لئے۔ اس بناء پر غنیمت ایک اضافی چیز ہے جو اُن کے ہاتھ آجاتی ہے۔

چند قابل توجہ نکات

۱۔ مندرجہ بالا آیت اگر چہ جنگی غنائم کے بارے میں ہے لیکن اس کا مفہوم کلی اور عمومی ہے اور یہ حکم تمام اضافی اموال، جن کا مالک مخصوص نہ ہو، کے بارے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ائمہ اہلِ بیت(علیه السلام) سے منقول روایات میں انفال کا ایک وسیع مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ معتبر روایات میں ہے کہ امام محمد باقر علیہ السلام اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:

انها ما آخذ من دار الحرب من غیر قتال کالّذی انجلی عنها اهلها وهو المسمیٰ فیئاً ومیراث من لاوارث له، وقطائع الملوک إذا لم تکن مغضوبة والآجام، وبطون الا ودیعة، والمات، فإنّها لِلّٰه ولِرسوله وبعده لمن قام مقامه، یصرفهه حیث یشاء من صالحه ومصالح عیاله

انفال ان اموال کوکہتے ہیں جو دار الحرب سے جنگ کے بغیر حاصل ہوں ، اسی طرح وہ زمین جس کے رہنے والے اسے چھوڑکر ہجرت کرگئے ہوں ، اسے ”فیء“ کا نام دیا گیا ہے اور اس شخص کی میراث جس کا کوئی وارث نہ ہو اور وہ سرزمین تنگ راستے اور غیر آباد زمینیں یہ سب خدا اور پیغمبر کا مال ہیں اور پیغمبر کے بعد اس کا ہے جو ان کا قائم مقام ہو اور وہ اسے ہراس راہ میں کہ جس میں وہ اپنی اور ان لوگوں کی کہ جن کی وہ کفالت کرتا ہے مصلحت دیکھے صرف کرے گا۔(۱)

اگرچہ تمام جنگی غنائم کا مندرجہ بالا حدیث میں ذکر نہیں آیا لیکن ایک اور حدیث جو امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے اُس میں ہے کہ آپ(علیه السلام) نے فرمایا:ان غائم بدر کانت للنّبی خاصّة فقسمها بینهم تفضلاً منه -

جنگ بدر کا مالِ غنیمت سے مخصوص تھا لیکن آپ نے بخشش کے طور پر لشکرِ اسلام میں تقسیم کردیا(۲)

جو کچھ بیان کیا جاچکا ہے اس سے نتیجہ نکلتا ہے کہ انفال کے مفہوم میں نہ صرف غنائم جنگی شامل ہیں بلکہ ہر وہ مال انفال ہے جس کا کوئی مخصوص مالک نہ ہو او رایسے تمام اموال خدا، پیغمبر اور ان کے قائم مقام سے تعلق رکھتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں اسلامی حکومت سے تعلق رکھتے ہیں اور تمام مسلمانوں کے مفاد میں صرف ہوتے ہیں ۔

البتہ جنگی غنائم اور جو منقولہ اموال جنگ میں لشکرِ اسلام کے ہاتھ آئیں ان کے بارے میں قانون اسلام جس کی ہم اس سورہ میں کریں گے یہ ہے کہ پانچ حصّوں میں چار غازیوں کو دیئے جائیں گے اور یہ ان کی تشویق اور زحمات کی کچھ تلافی کے لئے ہے، ایک حصّہ خمس کے طور پر رکھ دیا جائے گا، اس خمس کے مصارف کے بارے میں آیت ۴۱ کے ذیل میں اشارہ کیا جائے گا، اسی طرح سے غنائم بھی انفال کے عمومی مفہوم میں شامل ہیں اور دراصل حکومت اسلامی کی ملکیت ہیں اور پانچ میں سے چار حصّے جو غازیوں کو بخشے گئے ہیں وہ عطیہ اور تفضّل کے طور پر ہے (غور کیجئے گا)۔

۲ ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ خیال پیدا ہو کہ زیر نظر آیت کہ جس کے مفہوم میں جنگی غنائم بھی شامل ہیں اسی سورہ کی آیت ۴۱ کے خلاف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ غنائم کا صرف پانچواں حصّہ (یعنی خمس) خدا، پیغمبر اوردیگر مصارف کے لئے ہے کیونکہ اس کا مفہوم تو یہ ہے کہ باقی چار حصّے جنگی سپاہیوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔

لیکن سطور بالا میں جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ جنگی غنائم در اصل سب خدا اور رسول سے متعلق ہیں اور یہ ایک قسم کی بخشش اور تفضّل ہے کہ ان کے چار حصّے جنگی سپاہیوں کو دے دیئے گئے ہیں ، بہ الفاظ دیگر حکومتِ اسلامی منقولہ غنائم میں سے اپنے حق کے چار حصّے مجاہدین پر صرف کرتی ہے۔ اس مفہوم کے پیش نظر دونوں آیات میں کوئی اختلاف پیدا نہیں ہوتا۔

یہاں سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ خمس والی آیت جیسا کہ بعض مفسّرین کا خیال ہے آیہ انفال کی ناسخ نہیں ہے بلکہ دونوں اپنی قوّت سے باقی ہیں ۔

۳ ۔ جیسا کہ ہم شانِ نزول میں پڑھ چکے ہیں کہ بعض مسلمانوں کے درمیان جنگی غنائم کے بارے میں جھگڑا ہوگیا تھا۔ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لئے اوّل تو غنیمت کے مسئلے کی جڑ ہی کاٹ دی گئی اور مالِ غنیمت کو مکمل طور پر پیغمبر کے اختیار اور ملکیت میں قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد مسلمانوں کے درمیان اور ان افراد کے درمیان جن میں جھگڑا ہوا تھا، دوسروں کوصلح ومصالحت کروانے کا حکم دیا گیا۔

اصولی طور پر ”اصلاح ذات البین“ افہام وتفہیم، دشمنیوں اور کدورتوں کا خاتمہ اور نفرت کو محبت اور دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنا اسلام کا ایک اہم ترین پروگرام ہے۔

”ذات“ کا معنی کسی چیز کی خلقت، بنیاد اور اساس ”بین“حالت ارتباط کو اور دوشخصوں یا چیزوں کے درمیان پیوند قائم کرنے اور انھیں آپس میں ملانے کو کہتے ہیں ، اس بناپر کا ”اصلاح ذات البین“مطلب ہے ارتباط کی بنیاد کی اصلاح، پیوند اور جوڑ کی تقویت اور پختگی اور درمیان میں سے تفرقہ ونفاق کے عوامل واسباب کا خاتمہ۔

تعلیماتِ اسلامی میں اس بات کو اس قدر اہمیت دی گئی ہے کہ اسے بلند ترین عبادات میں سے قرار دیا گیا ہے۔ امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام نے اپنی وصیوں میں جبکہ آپ(علیه السلام) بسترِ شہادت پر تھے، اپنے فرزند انِ گرامی سے فرمایا:إنّی سمعت جدکما رسول اللّٰه (ص) یقول: اصلاح ذات البین افضل من عامة الصلوٰة والصیام -

میں نے تمھارے نانا رسول الله کو یہ کہتے ہوئے سنا: لوگوں کے درمیان اصلاحِ رابطہ مختلف قسم کی مستحب نمازوں اور روزوں سے برتر وافضل ہے۔(۱)

کتاب کافی میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے، آپ(علیه السلام) نے فرمایا:

صدقة یحبّها اللّٰه بین الناس إذا تفاسدوا وتقارب بینهم إذا تباعدو -

وہ عطیہ اور بخشش جسے خدا دوست رکھتا ہے وہ لوگوں کے درمیان صلح ومصالحت کروانا ہے جب وہ فسا کی طرف مائل ہوں اور انھیں ایک دوسرے کے قریب کرنا ہے جب کہ وہ ایک دوسرے سے دُور ہوں ۔(۲)

نیز اسی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ(علیه السلام) نے اپنے صحابی ”مفضل“ سے فرمایا:

إذا راٴیت بین إثنین من شیعتنا منازعة فافتدها من مالی -

جب ہمارے شیعوں میں سے دوافراد میں جھگڑا دیکھو (جو مالی امور سے متعلق ہو) تو میرے مال میں سے تاوان اور فدیہ ادا کرو (اور ان کی صلح کروادو۔(۳)

اسی بناپر ایک اور روایت میں ہے کہ مفضل نے ایک دن شیعوں میں سے دوآدمیوں کو میراث کے معاملے میں جھگڑتے ہوئے دیکھا تو انھیں اپنے گھر بلایا، ان میں چار سو درہم کا اختلاف تھا، وہ مفضل نے انھیں دے دیئے اور ان کا جھگڑا ختم کروادیا، اس کے بعد ان سے کہا کہ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ میرا مال نہیں تھا، بلکہ امام(علیه السلام) نے مجھے حکم دے رکھا ہے کہ ایسے موقع پر مالِ امام سے استفادہ کرتے ہوئے اصحاب کے درمیان صلح ومصالحت کروادوں ۔(۴)

اجتماعی معاملات میں اس قدر تاکیدیں کیوں کی گئی ہیں ، تھوڑا غوروفکر کیا جائے تو اس کا سبب واضح ہوجاتا ہے۔ کسی قوم کے عظمت، طاقت قدرت اور سربلندی باہمی افہام وتفہیم اور ایک دوسرے سے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اصلاح نہ ہو تو عدو۔اوت ودشمنی کی جڑ آہستہ آہستہ دلوں میں اتر جاتی ہے اور ایک متحد قوم کو پراکندہ کرکے رکھ دیتی ہے۔

آسیب زدہ، ضعیف وناتواں اور زبوں حال گروہ ہر حادثے اور ہر دشمن کے مقابلے میں سخت خطرے سے دوچار ہوگا بلکہ اسی جمعیت میں تو نماز، روزہ جیسے اصول مسائل یا خود وجوِ قرآن بھی خطرے میں پڑجائے گا۔ اسی بناپر اصلاح ذات البین کے بعض مراحل شرعاً واجب ہیں حتّیٰ کہ انھیں انجام دینے کے لئے بیت المال کے وسائل سے استفادہ کرنا جائز ہے اور بعض دوسرے مراحل جو مسلمانوں کی سرنوشت کے حوالے سے زیادہ اہم نہیں مستحبّ موکد ہیں ۔

____________________

۱ ۔ نہج البلاغہ-

۲۔ اصولِ کافی، باب اصلاح ذات البین، حدیث۱و۲-

۳۔ اصولِ کافی، باب اصلاح ذات البین، حدیث۱و۲-

۴۔ مدرک قبل-

آیات ۲،۳،۴،

۲-( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیاتُهُ زَادَتْهُمْ إِیمَانًَا وَعَلیٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ) -

۳-( الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ) -

۴-( اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ کَرِیمٌ ) -

ترجمہ

۲ ۔ مومن صرف وہ لوگ ہیں کہ جب خدا کا نام لیا جائے تو ان کے دل ڈرنے لگتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیات پڑھی جائیں تو ان کا ایمان زیادہ ہوجائے اور وہ صرف اپنے پروردگار پر توکل کرتے ہیں ۔

۳ ۔ وہ جو نماز قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انھیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں ۔

۴ ۔ حقیقی مومن وہ ہیں کہ جن کے لئے ان کے پروردگار کے پاپس (بے حد) درجات ہیں اور ان کے لئے مغفرت وبخشش ہے اور بے نقص اور بے عیب روزی ہے۔

مومن کی پانچ خصوصیات

گذشتہ آیت میں مسلمانوں کے درمیان غنائم پر ہونے والی بحث کی مناست سے تقویٰ اور ایمان کی بات آگئی تھی۔ اس کی گفتگو کی تکمیل کے لئے زیر نظر آیات میں سچّے اور حقیقی مومنین کی اور پرمعنی عبارتوں میں بیان کی گئی ہیں ۔ ان آیات میں خدا تعالیٰ نے مومنین کی پانچ امتیازی صفات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ جن میں سے تین روحانی اور معنوی پہلو رکھتی ہیں اور دوعلمی پہلو رکھتی ہیں ۔

پہلے حصّے میں :احساسِ ذمہ داری،ایمان کا تکامل اور تقاضا، اور توکل شامل ہیں ۔

دوسرے حصّے میں : خدا سے ارتباط اور خلقِ خدا سے تعلق اور ربط شامل ہیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: مومنین صرف وہ لوگ ہیں کہ جب بھی خدا کانام لیاجائے تو ان کے دل احساسِ مسئولیت سے اس کی بارگاہ میں دھڑکنے لگتے ہیں( إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِینَ إِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ ) ۔

”وجل“ خوف اور ڈر کی اس کیفیت کو کہتے ہیں جو انسان کو دو میں سے کسی ایک وجہ سے لاحق ہوتی ہے اور وہ یہ کہ انسان میں ذمہ داریوں کے ادراک کے ساتھ یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ اُس نے خدا کی طرف سے عائد کردہ لازمی فرائض کو ادا نہیں کیا اور یا یہ کہ انسان کی توجہ خدا کے لامتناہی وجود اور پرہیبت وعظمت مقام کی طرف ہوجاتی ہے۔

اس کی وضاحت یہ ہے کہ کبھی انسان کسی بزرگ شخصیت کو گزرتے دیکھ کر جو واقعاً ہر لحاظ سے باعظمت ہو اس کے مقام سے اس قدر متاثر ہوتا ہے کہ اور اپنے دل میں اس قدرخوف اور وحشت محسوس کرتا ہے کہ بات کرتے ہوئے اس کی زبان میں لکنت پیدا ہوجاتی ہے یہاں تک کہ بعض اوقات وہ اپنی بات بھول جاتا ہے اگرچہ وہ بزرگ شخص اس سے اور دیگر سب سے انتہائی محبّت اور لگاو رکھتا ہو اور ڈرنے والے سے کوئی غلطی بھی سرزد نہ ہوئی ہو اور اس قسم کا عمل عظمت کے ادراک کا عکس العمل ہے۔ قرآن مجید کا ارشاد ہے:

( لَوْ اٴَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْآنَ عَلیٰ جَبَلٍ لَرَاٴَیْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَةِ اللهِ )

یہ قرآن اگر ہم پہاڑ پر نازل کرتے تو وہ خوفِ خدا سے پھٹ جاتا۔( حشر/ ۲۱)

نیز یہ بھی ارشاد ہے:( إِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ )

خدا سے صرف علماء اور عظمت الٰہی سے آگاہ لوگ ہی ڈرتے ہیں ۔(فاطر/ ۲۸)

لہٰذا آگاہی وعلم اور خوف کے درمیان ہمیشہ کا تعلق ہے، اس بناپر یہ اشتباہ ہوگا اگر ہم خوف کا سرچشمہ صرف ذمہ داریوں کی عدم ادائیگی کو سمجھیں ۔

اس کے بعد ان کی دوسری صفت بیان کی گئی ہے: وہ راہِ تکامل میں مسلسل آگے بڑھتے رہتے ہیں اور ایک لحظ بھی آرام نہیں کرتے ”اور جب ان کے سامنے آیاتِ خدا پڑھی جائیں تو ان کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے“( وَإِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ آیاتُهُ زَادَتْهُمْ إِیمَانًَا ) ۔

رشد ونمو اور تکامل وارتقاء تمام زندہ موجودات کی خاصیت ہے جس میں نمو اور تکامل نہ ہو تو وہ مردہ ہے یا موت کے کنارے پہنچ چکا ہے۔ سچّے اور زندہ مومنین یہ ایمان رکھتے ہیں کہ جن کی ہستی کا نوبہار پودا آیاتِ خدا کی آبیاری سے سدا شاداب رہتا ہے تازہ یہ تازہ پھل وپھول پیدا کرتا ہے، وہ زندہ نُما مُردوں کی طرح ایک ہی جگہ اور حالت کا شکار نہیں رہتے اور اُکتادینے والی ایک ہی موت کی سی کیفیت میں نہیں رہتے۔ ہر نیا دن آتا ہے تو ان کی فکر، ایمان اور صفات بھی تازہ ہوتی ہیں ۔

ان کی تیسری نمایاں صفت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں اور اسی پر توکل کرتے ہیں( وَعَلیٰ رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُونَ ) ۔

ان کا افقِ فکر اس قدر بلند ہے کہ وہ کمزور اور ناتواں مخلوق پر بھروسہ کرنے سے انکار کردیتے ہیں چاہے وہ مخلوق ظاہر میں کتنی ہی عظمت رکھتی ہو اور پانی سرچشمہ سے لیتے ہیں اور وہ جو کچھ چاہتے ہیں اور طلب کرتے ہیں عالم ہستی کے بے کراں سمندر ذاتِ پاک پروردگار سے چاہتے ہیں ۔ ان کی روحِ عظیم ہے اور ان کی سطح فکر بلند ہے اور ان کا سہارا صرف خدا ہے۔

اشتباہ نہ ہو کہ توکّل کا مفہوم جیسا کہ بعض تحریف کرنے والوں نے خیال کیا ہے کہ یہ نہیں کہ عالمِ اسباب سے آنکھیں بند کرلی جائیں ، ہاتھ پر ہاتھ دھرکے بیٹھ جایا جائے اور گوشہ نشین ہوجایا جائے بلکہ اس کا مفہوم ہے خود سازی، بلند نظری اور ایرا غیرا سے عدم وابستگی اور محتاط نظری۔ جہانِ طبیعت اور عالم ہستی کے اسباب سے استفادہ کرنا عین توکّل برخدا ہے ۔چونکہ ان اسباب کی تاثیر منشائے ایزدی اور ارادہ الٰہی کے مطابق ہی ہے۔

سچّے مومنین کی ان تین قسم کی روحانی صفات کو بیان کرنے کے بعد قرآن کہتا ہے کہ وہ احساس مسئولیت اور عظمت پروردگار کے احساس کے تحت اور اسی طرح بڑھتے ہوئے ایمان اور توکّل کی بدولت وہ عملاً دو محکم رشتوں کے حامل ہیں ۔ ایک ان کا خدا سے مستحکم رابطہ اور دوسرا بندگانِ خدا کے لئے خرچ کرتے ہیں( الَّذِینَ یُقِیمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ یُنفِقُونَ ) ۔

”نماز پڑھنے“ کی بجائے ”قیام نماز“ کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ وہ نہ صرف نماز پڑھتے ہیں بلکہ وہ اس طرح سے عمل کرتے ہیں کہ پروردگار سے یہ رابطہ اسی طرح ہر جگہ قائم رہتا ہے۔

”مِمَّا رَزَقْنَاھُمْ“ (اور ہم نے جو انھیں روزی دی ہے) یہ تعبیر ایک وسیع مفہوم رکھتی ہے جو تمام ترمادی ومعنوی سرمائے پر محیط ہے وہ نہ صرف اپنے اموال سے بلکہ اپنے علم و دانش سے، اپنے ہوش وفکر، اپنے مقام وحیثیت سے اور اپنے اثر ورسوخ بھی اور ان تمام نعمات سے جو اُن کے اختیار میں ہیں بندگانِ خدا کی خدمت کرتے ہیں ۔

محل بحث آخری آیت میں اس طرح سچّے مومنین کے بلند مقام ومرتبہ اور فراواں اجر وثواب کو بیا ن کیا گیا ہے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: حقیقی مومنین صرف وہی ہیں( اٴُوْلٰئِکَ هُمَ الْمُؤْمِنُونَ حَقًّا ) ۔

اس کے بعد ان کے لئے تین اہم جزائیں بیان کی گئی ہیں :

۱ ۔ وہ اپنے پروردگار کے ہاں اہم درجات کے حامل ہیں( لَهُمْ دَرَجَاتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ ) ۔وہ درجات کہ جن کی مقدار معیّن نہیں اور یہی ابہام ان کے غیر معمولی اور بے حد وحساب ہونے پر دلالت کرتا ہے۔(۱)

۲ ۔ علاوہ ازیں اس کی مغفرت، رحمت اور بخشش ان کے شامل حال ہوگی( وَمَغْفِرَةٌ ) ۔

۳ ۔ اور رزقِ کریم ان کے انتظار میں( وَرِزْقٌ کَرِیمٌ ) ۔ یعنی بے حد وحساب، بے عیب عظیم اور دائمی نعمات ان کی انتظار میں ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ ہم مسلمان جو اسلام کا دم بھر تے ہیں اور اپنے آپ کو اسلام اور قرآن کا طلبگار سمجھتے ہیں بعض اوقات نادانی کی وجہ سے اپنی پسماندگی کا ذمہ اسلام اور قرآن پر ڈال دیتے ہیں ۔ لیکن اگر ہم صرف انہی چند آیات کو کہ جن میں سچّے مومنین کی صفات بیان کی گئی ہیں اپنی زندگی میں اپنالیں یہ ضعف وکمزوری، زبوں حالی اور اِدھر اُدھر سے وابستگی کو ایمان وتوکّل کے زیر سایہ ترک کردیں ، ہر نئے دن میں ایمان اور علم کے نئے مرحلے کی طرف قدم بڑھائیں ، ایمان کے سائے میں اپنے معاشرے کی پیش رفت کے لئے صرف کردیں ، تو کیا پھر بھی ہماری یہی حالت ہوگی جو آج ہے؟

اس امر کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ایمان کے کئی مرحلے اور درجے ہیں بعض مراحل میں ہوسکتا ہے کہ ایمان اس قدر کمزور ہو کہ عملاً دکھائی نہ دے اور بہت سی آلودگیاں بھی انسان کے ساتھ ہوں لیکن ایک حقیقی راسخ اور محکم ایمان کے نہایت پست مرحلے اور درجے پر ہے۔

آیات ۵،۶

۵-( کَمَا اٴَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِهُونَ )

۶-( یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ کَاٴَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَهُمْ یَنظُرُونَ )

ترجمہ

۵ ۔ (بدر کے مالِ غنیمت سے متعلق تم میں سے بعض ناکواری) اسی طرح ہے کہ جیسے خدا نے تجھے تیرے گھر سے حق کے ساتھ باہر (میدان بدر کی طرف) نکالا جبکہ مومنین کا ایک گروہ اسے پسند نہیں کرتا تھا (لیکن اس کا انجام ایک واضح کامیابی تھا)۔

۶ ۔ اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ فرمانِ خدا ہے پھر بھی وہ تجھ سے مجادلہ کرتے تھے (اور خوف وہراس نے انھیں یوں گھیر رکھا تھا) گویا انھیں موت کی طرف لے جایا رہا ہے اور (گویا وہ اسے اپنی آنکھ سے) دیکھ رہے ہیں ۔

تفسیر

اس سورہ کی پہلی آیت میں ہم پڑھ چکے ہیں کہ نئے مسلمانوں میں کچھ لوگ جنگ بدر کے غنائم کی تقسیم کی کیقیت سے ناراض تھے یہاں تک کہ زیر بحث آیات میں بھی خداوندعالم انھیں کہتا ہے کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کہ کوئی چیز تمھیں اچھی نہ لگے چاہے تمھاری مصلحت اسی میں ہو جیسا کہ خود جنگ بدر تم میں سے بعض کو ناپسند تھی کہ جس کے مالِ غنیمت کے بارے میں اب تم گفتگو کررہے ہو لیکن تم نے دیکھا کہ آخرکار وہ مسلمانوں کے لئے درخشاں نتائج کی حامل ہوئی لہٰذا احکام الٰہی کو اپنی کوتاہ نظر سے نہ دیکھو بلکہ ان کے سامنے سرتسلیم خم کرو اور ان کے اصلی نتائج سے فائدہ اٹھاؤ۔

پہلی آیت میں ارشاد فرمایا گیا ہے : غنائمِ بدر پر کچھ افراد کی یہ ناگواری ایسے ہی ہے جیسے خدا نے تجھے تیرے گھر اور مقام مدینہ سے حق کے ساتھ باہر نکالا جبکہ کچھ مومنین اس سے کراہت کررہے تھے اور اسے ناپسند کرتے تھے( کَمَا اٴَخْرَجَکَ رَبُّکَ مِنْ بَیْتِکَ بِالْحَقِّ وَإِنَّ فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ لَکَارِهُونَ ) ۔

”بِالْحَقِّ“ اس طرف اشارہ ہے کہ خروج کا یہ حکم الٰہی اور پیغامِ آسمانی کے مطابق دیا گیا تھا کہ جس کا نتیجہ اسلامی معاشرے کے حق میں تھا۔

یہ ظاہر بین اور کم حوصلہ لوگ بدر کی طرف جاتے ہوئے راستے میں اس فرمانِ حق کے بارے میں مسلسل تجھ سے مجادلہ اور گفتگو کرتے رہے اگرچہ وہ جانتے تھے کہ یہ حکم خدا ہے پھر بھی اعتراض سے باز نہیں آتے تھے( یُجَادِلُونَکَ فِی الْحَقِّ بَعْدَ مَا تَبَیَّنَ ) ۔ اور انھیں خوف وہراس نے یوں گھیر رکھا تھا جیسے انھیں موت کی طرف دھکیلا جارہا ہو اور گویا وہ اپنی موت اور نابودی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہوں( کَاٴَنَّمَا یُسَاقُونَ إِلَی الْمَوْتِ وَهُمْ یَنظُرُونَ ) ۔

بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ وہ کس قدر غلط فہمی کا شکار تھے اور بلاوجہ خوف وہراس میں گرفتار تھے اور جنگ بدر مسلمانوں کے لئے کیسی درخشاں کامیابی لے کر آئی تو یہ سب کچھ دیکھنے کے باوجود انھوں نے جنگ بدر کے بعد مالِ غنیمت کے سلسلے میں زبان اعتراض کیوں دراز کی ہے۔

ضمنی طور پر ”( فَرِیقًا مِنَ الْمُؤْمِنِینَ ) “ کی تعبیر سے واضح ہوتا ہے کہ اوّل تو یہ جھگڑا اور گفتگو منافقت اور بے ایمانی کی وجہ سے نہ تھی بلکہ ایمان کی کمزوری اور اسلامی مسائل کے بارے میں کافی دانش وبینش نہ ہونے کی وجہ سے تھی۔

دوسری بات یہ کہ صرف چند افراد ہی ایسی فکر رکھتے تھے اورمسلمانوں کی اکثریت جو سچّے مجاہدوں پر مشتمل تھی فرمانِ پیغمبر اور ان کے اوامر کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے تھی۔