تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30781
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30781 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیات ۷،۸

۷-( وَإِذْ یَعِدُکُمْ اللهُ إِحْدیٰ الطَّائِفَتَیْنِ اٴَنَّهَا لَکُمْ وَتَوَدُّونَ اٴَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ وَیُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ ) -

۸-( لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ) -

ترجمہ

۷ ۔ اور وہ وقت یاد کرو جب خدا نے تم سے وعدہ کیا کہ قریش کے تجارتی قافلے اور (ان کا لشکر، ان) دوگروہوں میں سے تمھارے لئے ایک ہوگا (اور تم اس پر کامیاب ہوجاؤگے) لیکن خدا چاہتا ہے کہ اپنے کلمات سے حق کو تقویت دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے (لہٰذا لشکر قریش سے تمھاری مڈبھیڑ کروادی)

۸ ۔ تاکہ حقثابت ہوجائے اور باطل ختم ہوجائے اگرچہ مجرم اسے ناپسند کرتے ہوں اور اس سے کراہت کرتے ہوں ۔

اسلام اور کفر کا پہلا تصادم۔

جنگ بدر

گذشتہ آیات میں جنگِ بدر کی طرف اشارہ ہوچکا ہے لہٰذا قرآن مجید بحث کو جنگ بدر کے واقعہ کی طرف کھینچ لایا ہے۔ زیر بحث آیات اور آئندہ کی کچھ آیات اس سلسلے کے بعض نہایت حسّاس پہلووں کی وضاحت کی گئی ہے جن میں سے ہر کوئی اپنے اندر تعلیم وتربیت کی ایک دنیا لئے ہوئے ہے، یہ اس لئے ہے تاکہ مسلمان ان حقائق کو کہ جن کا کچھ تجربہ وہ کرچکے ہیں ہمیشہ کے لئے دلنشین کرلیں اور ہمیشہ ان سے سبق حاصل کرتے رہیں ۔

زیرِ نظر آیات اور آئندہ کی آیات کی توضیح وتفسیر سے پہلے اس اسلامی جہاد کا مختصر خاکہ پیش کردینا ضروری ہے کہ جو سخت ترین اور خون آشام دشمنوں کی پہلی مسلح جنگ یہ اس لئے ہے تاکہ ان آیات میں جو باریک نکتے اور اشارات آئے ہیں وہ مکمل طور پر واضح ہوسکیں ۔

مورخین، محدّثین اور مفسّرین نے جو کچھ بیان کیا ہے وہ یہ ہے:

جنگ بدر کی ابتدا یہاں سے ہوئی کہ مکہ والوں کا ایک اہم تجارتی قافلہ شام سے مکہ کی طرف واپس جارہا تھا، اس قافلے کو مدینہ کی طرف گزرنا تھا۔ اہلِ مکہ کا سردار ابوسفیان قافلہ کا سالار تھا۔ اس کے پاس پچاس ہزار دینار کا مال تجارت تھا۔ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے اصحاب کو اس عظیم فاقلے کی طرف تیزی سے کوچھ کا حکم دیا کہ جس کے پاس دشمن کا ایک بڑا سرمایہ تھا تاکہ اس سرمائے کو ضبط کرکے دشمن کی اقتصادی قوت کو سخت ضرب لگائی جائے تاکہ اس کا نقصان دشمن کی فوج کو پہنچے۔

پیغمبر اور ان کے اصحاب ایسا کرنے کا حق رکھتے تھے کیونک مسلمان مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کرکے آئے تو اہل مکّہ نے ان کے بہت سے اموال پر قبضہ کرلیا تھا جس سے مسلمانوں کو سخت نقصان اٹھانا پڑا لہٰذا وہ حق رکھتے تھے کہ اس نقصان کی تلافی کریں ۔

اس سے قطع نظر بھی اہل مکہ نے گذشتہ تیرہ برس میں پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم اور مسلمانوں سے جو سلوک روا رکھا اس سے بات ثابت ہوچکی تھی وہ مسلمانوں کو ضرب لگانے اور نقصان پہنچانے کے لئے کوئی موقع ہاتھ سے نہیں گنوائیں گے یہاں تک کہ وہ خود پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کو قتل کرنے پر تُل گئے تھے۔ ایسا دشمن پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کے ہجرت مدینہ کی وجہ سے بے کار نہیں بیٹھ سکتا تھا، واضح تھا کہ وہ قاطع ترین ضرب لگانے کے لئے اپنی قوت مجتمع کرتا۔ پس عقل ومنطق کا تقاضا تھا کہ پیش بندی کے طور پر ان کے تجارتی قافلے کو گھیر کر اس کے اتنے بڑے سرمائے کو ضبط کرلیا تھا تاکہ اُس پر ضرب پڑے اور اپنی فوجی اور اقتصادی بناید مضبوط کی جاتی۔ ایسے اقدامات آج بھی اور گذشتہ ادوار میں بھی عام دنیا میں فوجی طریق کار کا حصّہ رہے ہیں ۔ جو لوگ ان پہلووں کو نظر انداز کرکے قافلے کی طرف پیغمبر کی پیش قدمی کو ایک طر ح کی غارت گری کے طور پر پیش کرنا چاہتے ہیں یا تو وہ حالات سے آگاہ نہیں اور اسلام کے تاریخی کے بنیادی سے بے خبر ہیں اور یا ان کے کچھ مخصوص مقاصد ہیں جن کے تحت وہ واقعات وحقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ۔

بہرحال ایک طرف ابوسفیان کو مدینہ میں اس کے دوستوں کے ذریعے اس امر کی اطلاع مل گئی اور دوسری طرف اُس نے اہلِ مکہ کو صورت حال کی اطلاع کے لئے ایک تیز رفتار قاصد روانہ کردیا کیونکہ شام کی طرف جاتے ہوئے بھی اسے اس تجارتی قافلے کی راہ میں رکاوٹ کا ندیشہ تھا۔

قاصد ابوسفیان کی نصیحت کے مطابق اس حالت میں مکہ میں داخل ہوا کہ اس نے اپنے اونٹ کی ناک کو چیر دیا تھا تھا اس کے کان کاٹ دیئے تھے، خون ہیجان انگیز طریقے سے اونٹ سے بہہ رہا تھا، قاصد نے اپنی قمیص کو دونوں طرف سے پھاڑدیا تھا اور اونٹ کی پشت کی طرف منھ کرکے بیٹھا ہوا تھا تاکہ لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکے ۔ مکہ میں داخل ہوتے ہی اس نے چیخنا چلّانا شروع کردیا:

اے کامیاب وکامران لوگو! اپنے قافلے کی خبر لو، اپنے کارواں کی مدد کرو، جلدی کرو، لیکن مجھے امید نہیں کہ تم وقت پر پہنچ سکو، محمد اور تمھارے دین سے نکل جانے والے افراد کقافلے پر حملے کے لئے نکل چکے ہیں ۔

اس موقع پر پیغمبر کی پھوپھی عاتکہ بنت عبدالمطلب کا ایک عجیب وغریب خواب بھی مکہ میں زبان زد عام تھا اور لوگوں کے ہیجان میں اضافہ کررہا تھا۔ خواب کا ماجرا یہ تھا کہ عاتکہ نے تین روز قبل خواب میں دیکھا کہ: ایک شخص پکار رہا ہے کہ لوگو! اپنی قتل گاہ کی طرف جلدی چلو۔ اس کے بعد وہ منادی کوہ ابوقبیس کی چوٹی پر چڑھ گیا۔ اس نے پتھر کی ایک بڑی چٹان کو حرکت دی تو وہ چٹان ریزہ ریزہ ہوگئی اور اس کا ایک ایک ٹکڑا قریش کے ایک ایک گھر میں جا پڑا اور مکہ کے درّے سے خون کا سیلاب جاری ہوگیا۔

عاتکہ وحشت زدہ ہوکی خواب سے بیدار ہوئی اور اپنے بھائی عبّاس کو سنایا۔ اس طرح خواب لوگوں تک پہنچا تو وہ وحشت وپریشانی میں ڈوب گئے۔ ابوجہل نے خواب سنا تو بولا: یہ عورت دوسرا پیغمبر ہے اولاد عبدالمطلب میں ظاہر ہوا ہے۔ لات وعزیٰ کی قسم ہم تین دن مہلت دیتے ہیں اگر اتنے عرصے میں اس خواب کی تعبیر ظاہر نہ ہوئی تو ہم آپس میں ایک تحریر لکھ کر اس پر دستخط کریں گے کہ بنی ہاشم قبائل عرب میں سے سب سے زیادہ جھوٹے ہیں ، تیسرا دن ہوا توابوسفیان کا قاصد آپہنچا، اُس کی پکار نے تمام اہل مکہ کو ہلاک رکھ دیا اور چونکہ تمام اہلِ مکہ کا اس قافلے میں حصّہ میں تھا سب فوراً جمع ہوگئے۔ ابوجہل کی کمان میں ایک لشکر تیار ہوا۔ اس میں ۹۵۰ جنگجو تھے جن میں سے بعض ان کے بڑے اور مشہور سردار بہادر تھے، ۷۰۰ اونٹ تھے اور ۱۰۰ گھوڑے تھے۔ لشکر مدینہ کی طرف روانہ ہوگیا۔

پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم ۳۱۳/ افراد کے ساتھ جن میں تقریباً تمام مجاہدین اسلام تھے سرزمین بدر کے پاس پہنچ گئے تھے، یہ مقام مکہ اور مدینہ کے راستے میں ہے۔ یہاں آپ کو قریش کے لشکر کی روانگی کی خبر ملی۔ اس وقت آپ نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا کہ کیا ابوسفیان کے قافلے کا تعاقب کیا جائے اور قافلے کے مال پر قبضہ کیا جائے یا لشکر کے مقابلے کے لئے تیار ہوا جائے۔ ایک گروہ نے دشمن کے لشکر کا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی جبکہ دوسرے گروہ نے اس تجویز کو ناپسند کیا اور قافلے کے تعاقب کو ترجیح دی۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ ہم مدینہ سے مکہ کی فوج کا مقابلہ کرنے کے ارادے سے نہیں نکلےتھے اور ہم نے لشکر کے مقابلے کے لئے جنگی تیاری نہیں کی تھی جبکہ وہ ہماری طرف پوری تیاری سے آرہا ہے۔

اس اختلاف رائے اور تردّد میں اس وقت اضافہ ہوگیا جب انھیں معلوم ہوا کہ دشمن کی تعداد مسلمانوں کی تعداد سے تقریباً تین گُنا ہے اور ان کا سازوسامان بھی مسلمانوں سے کئی گُنا زیادہ ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے پہلے گروہ کے نظریے کو پسند فرمایا اور حکم دیا کہ دشمن کی فوج پر حملے کی تیاری کی جائے۔

جب دونوں لشکر آمنے سامنے ہوئے تو دشمن کو یقین نہ آیا کہ مسلمان اس قدر سازوسامان کے ساتھ میدان میں آئے ہوں گے۔ ان کا خیال تھا کہ سپاہ اسلام کا اہم حصّہ کسی مقام پر چھپا ہوا ہے تاکہ وہ غفلت میں کسی وقت ان پر حملہ کردے لہٰذا انھوں نے ایک شخص کو تحقیقات کے لئے بھیجا۔ انھیں جلدی معلوم ہوگیا کہ مسلمانوں کی جمعیت یہی ہے جسے وہ دیکھ رہے ہیں ۔

دوسری طرف جیسا کہ ہم نے کہاہے مسلمانوں کا ایک گروہ وحشت وخوف غرق تھا۔ اس کا اصرار تھا کہ اتنی بڑی فوج کہ جس سے مسلمانوں کا کوئی موازنہ نہیں ، خلاف مصلحت ہے لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے خدا کے وعدے سے انھیں جوش دلایا اور انھیں جنگ پر اُبھارا۔ آپ نے فرمایا کہ خدا نے مجھے وعدہ دیا ہے کہ دو گروہوں میں سے ایک پر تمھیں کامیابی حاصل ہوگی قریش کے قافلے پر یا لشکرِ قریش پر اور خدا کے وعدہ کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ خدا کی قسم ابوجہل اور کئی سردارانِ قریش کے مقامِ قتل کو گویا میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ۔

اس کے بعد آپ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ بدر(۱) کے کنویں کے قریب پڑاو ڈالیں ۔

اس ہنگامے میں ابوسفیان اپنا قافلہ خطرے کے علاقے سے نکال لے گیا۔ اصل راستے سے ہٹ کر دریائے احمر کے ساحل کی طرف سے وہ تیزی سے مکہ پہنچ گیا۔ اس کے ایک مقاصد کے ذریعے لشکر کو پیغام بھیجا:

خدا نے تمھارا قافلہ بچالیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ ان حالات میں محمد کا مقابلہ کرنا ضروری نہیں کیونکہ اس کے اتنے دشمن ہیں جو اس کا حساب چکالیں گے۔

لشکر کے کمانڈر ابوجہل نے اس تجویز کو قبول نہ کیا۔ اُس نے اپنے بڑے بتوں لات اور عزیٰ کی قسم کھائی کہ نہ صرف ان کا مقابلہ کریں گے بلکہ مدینہ کے اندر تک ان کا تعاقب کریں گے یا انھیں قید کرلیں گے اور مکہ میں سے آئیں گے تاک ہاس کامیابی کا شہرہ تمام قبائلِ عرب کے کانوں تک پہنچ جائے۔

ماحول پُر ہیبت اور وحشت ناک تھا۔ لشکرِ ریش کے پاس فراوان جنگی سازوسامان تھا۔ یہاں تک کہ حوصلہ بڑھانے کے لئے وہ گانے بجانے والی عورتوں کو بھی ساتھ لائے تھے۔ وہ اپے سامنے ایسے حریف کو دیکھ رہے تھے کہ انھیں یقین نہیں آتا تھا کہ ان حالات میں وہ میدان جنگ میں قدم رکھے گا۔

پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم دیکھ رہے تھے کہ ممکن ہے آپ کے اصحاب خوف ووحشت کی وجہ سے آرام سے نہ سوسکیں اور پھر کل دن کو تھکے ہوئے جسم اور روح کے ساتھ دشمن کے مقابل ہوں لہٰذا خدا کے وعدے کے مطابق اُن سے فرمایا:

تمھاری تعداد کم ہو تو غم نہ کرو۔ آسمانی فرشتوں کی ایک عظیم جماعت تمھاری مدد کے لئے آئے گی۔

آپ نے انھیں خدائی وعدے کے مطابق اگلے روز فتح کی پوری تسلی دے کر مطمئن کردیا اور وہ رات آرام سے سوگئے۔

دوسری مشکل جس سے مجاہدین کوپریشانی تھی وہ میدانِ بدر کی کیفیت تھی۔ ان کی طرف زمین نرم تھی اور اس میں پاوں دھنس جاتے تھے۔ رات یہ ہوا کہ خوب بارش ہوئی۔ اس کے پانی سے مجاہدین نے وضو کیا، غسل کیا اور تازہ دم ہوگئے۔ ان کے نیچے کی زمین بھی اس سے سخت ہوگئی۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ دشمن کی طرف اتنی زیادہ بارش ہوئی کہ وہ پریشان ہوگئے۔

دشمن کے لشکر گاہ سے مسلمان جاسوس کی طرف ایک نئی خبر موصول ہوئی اور جلد ہی مسلمانوں میں پھیل گئی۔ خبر یہ تھی کہ فوج قریش اپنے تمام وسائل کے باوجود خوفزدہ ہے۔ گویا وحشت کا ایک لشکر خدا نے ان کے دلوں کی طرزمین پر اپتار دیا تھا۔

اگلے روز چھوٹا سا اسلامی لشکر بڑے ولولے کے ساتھ دشمن کے سامنے صف آراء ہوا۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے پہلے انھیں صلح کی تجویز پیش کی تاکہ عذر اور بہانہ باقی نہ رہے، آپ نے ایک نمائندے کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ میں نہیں چاہتا کہ تم وہ پہلا گروہ بن جاو کہ جس پر ہم حملہ آور ہوں ۔

بعض سردارانِ قریش چاہتے تھے کہ یہ صلح ہاتھ جو ان کی طرف بڑھایا گیا ہے اسے تھام لیں اور صلح کرلیں لیکن پھر ابوجہل مانع ہوا۔

آخرکار جنگ شروع شروع ہوئی۔ اس زمانے کے طریقے کے مطابق پہلے ایک نکلا۔ اِدھر لشکرِ اسلام میں رسول الله کے چچا ہمزہ اور حضرت علی(علیه السلام) جو جوان ترین افراد تھے میدان میں نکلے۔ مجاہدین اسلام میں چند بہادر بھی اس جنگ میں شریک ہوئے۔ ان جوانوں نے اپنے حریفوں کے پیکر پر سخت ضربیں لگائیں اور کاری وار کیے اور ان کے قدم اکھیڑ دیئے۔ دشمن کا جذبہ اور کمزور پڑگیا۔ یہ دیکھا توابوجہل نے عمومی حملے کا حکم دے دیا۔

ابوجہل پہلے ہی حکم دے چکا تھا کہ اصحابِ پیغمبر میں سے جو اہل مدینہ میں سے ہیں انھی قتل کردو، مہاجرین مکہ کو اسیر کرلو۔ مقصد یہ تھا کہ پراپیگنڈا کے لئے انھیں مکہ لے جائیں ۔

یہ لمحات بڑے حسّاس تھے۔ رسول الله نے حکم دیا کہ جمعیت کی کثرت پر نظر نہ کریں اور صرف اپنے مدمقابل پر نگاہ رکھیں ۔ دانتوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر پیسیں ، باتیں کم کریں ، خدا سے مدد طلب کریں ، حکمِ پیغمبر سے کہیں رتی بھر سرتابی نہ کریں اور مکمل کامیابی کی اُمید رکھیں ۔

رسول الله نے دستِ دعا آسمان کی طرف بلند کئے اور عرض کیا:

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین، ج۴، ص۱۲۱، اور تفسیر مجمع البیان، ج۴، ص۵۲۱تا۵۲۳ (اختصار کے ساتھ کہیں کہیں وضاحت بھی کی گئی ہے)۔

تفسیر

جنگ بدر کی کچھ کیفیت بیان ہوچکی ہے۔ اب ہم زیرِ نظر آیت کی تفسیر کی جانب لوٹتے ہیں ، پہلی آیت میں جنگ بدر میں اجمالی طور پر کامیابی کے خدائی وعدے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے: وہ وقت یاد کرو جب خدا نے تم سے وعدہ کیا کہ دو گروہوں میں سے ایک (قریش کا تجارتی قافلہ یا لشکرِ قریش ) تمھارے قبضے میں دے گا( وَإِذْ یَعِدُکُمْ اللهُ إِحْدیٰ الطَّائِفَتَیْنِ اٴَنَّهَا لَکُمْ ) ۔ لیکن تم جنگ کی مصیبت ، اس سے تلف ہونے والے جان ومال اور اس سے پیدا ہونے والی پریشانیوں کی وجہ سے چاہتے تھے کہ قافلہ تمھارے قبضے میں آجائے نہ کہ لشکرِ قریش( وَتَوَدُّونَ اٴَنَّ غَیْرَ ذَاتِ الشَّوْکَةِ تَکُونُ لَکُمْ ) ۔

روایات میں آیا ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے ان سے فرمایا:احدی الطائفتین لکم امّا العیر وامّا النفیر -”عیر“ کا معنی ہے ”لشکر“ لیکن جیسا کہ آپ آیت میں ملاحظہ کررہے ہیں کہ ”لشکر“ کے لئے ”ذات الشوکة“ اور ”قافلہ“ ”غیر ذات الشوکة“آیا ہے۔

یہ تعبیر ایک لطیف نکتے کی حامل ہے کیونکہ ”شوکة“کہ جو قدرت وشدّت کے معنی میں ہے دراصل ”شوک“ سے لیا گیا ہے جس کا معنی ہے ”کاٹنا“ بعد ازاں یہ لفظ فوجیوں کے نیزوں کی انیوں کے لئے استعمال ہونے لگا اور پھر ہر قسم کے ہتھیاروں کو ”شوکة“کہا جانے لگا۔

لہٰذا ”ذات الشوکة“مسلح فوج کے معنی میں ہے اور ”غیر ذات الشوکة“غیر مسلح قافلے کے مفہوم میں ہے۔ اب اگر اس میں کچھ مسلح بھی تھے تو مسلم ہے کہ وہ زیادہ نہ تھے۔

مفہوم یہ ہوا کہ: تم میں سے ایک گروہ آرام طلبی کے لئے یا مادّی مفاد کے لئے چاہتا تھا کہ مالِ تجارت کی طرف جایا جائے نہ کہ مسلح فوج کا سامنا کیا جائے حالانکہ اختتامِ جنگ نے ثابت کردیا کہ ان کی حقیقی مصلحت اس میں تھی کہ وہ دشمن کی فوجی طاقت کو درہم وبرہم کردیں تاکہ آئندہ کی کامیابیوں کی راہ ہموار ہوجائے لہٰذا اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے : خدا چاہتا ہے کہ اس طرح سے اپنے کلمات سے حق کو ثابت کرے اور دینِ اسلام کو تقویت دے اور کافروں کی جڑ کاٹ دے( وَیُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُحِقَّ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَیَقْطَعَ دَابِرَ الْکَافِرِینَ ) ۔(۱) لہٰذا یہ تم مسلمانوں کے لئے بہت بڑا درسِ عبرت تھا کہ مختلف حوادث میں ہمیشہ دور اندیشی سے کام لو، مستقبل کی تعمیر کرو، کوتاہ اندیش نہ بنو اور صرف آج کی فکر میں نہ رہو اگرچہ دور اندیشی اور انجامِ کار پر نظر رکھنے میں ایک وسیع اور ہمہ گیر کامیابی ہے جبکہ دوسری کامیابی ایک سطحی اور وقتی کامیابی ہے۔

یہ صرف اس زمانے کے مسلمانوں کے لئے درس عبرت نہیں ہے بلکہ آج کے مسلمانوں کو بھی اس آسمانی تعلیم سے الہام لینا چاہیے۔ مشکلات، پریشانیوں اور طاقت فرسا مصیبتوں کی وجہ سے اصولی روگرام سے چشم پوشی کرکے غیر اصولی، معمولی اور کم وقت طلب کاموں کے پیچھے ہرگز نہیں جانا چاہیے۔

اگلی آیت میں زیادہ واضح طور پر اس مطلب سے پردہ اٹھایا گیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے: اس پروگرام کا (مسلمانوں کی میدان بدر میں فوجِ دشمن سے مڈبھیڑ کا) اصلی ہدف اور مقصد یہ تھا کہ حق یعنی توحید، اسلام، عدالت اور انسانی آزادی خرافات قیدوبند اور مظالم کے چنگل سے آزاد ہوجائے اور باطل یعنی شرک، کفر، بے ایمانی، ظلم اور فساد ختم ہوجائے اگرچہ مجرم مشرکین اور مشرک مجرمین اسے پسند نہ کریں( لِیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُبْطِلَ الْبَاطِلَ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ )

کیا یہ آیت گذشتہ آیت کے مفہوم کی تاکید کرتی ہے جیسا کہ پہلی نظر میں دکھائی دیتا ہے یا اس کوئی نیا مفہوم ہے اس سلسلے میں بعض مفسّرین نے مثلاً فخر الدین رازی نے ”تفسیر کبیر“ میں اور صاحب المنار نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ لفظ ”حق“ گذشتہ آیت میں جنگ بدر میں مسلمانوں کی کامیابی کیطرف اشارہ ہے لیکن یہی لفظ دوسری آیت میں اسلام اور قرآن کی اس کامیابی کی طرف اشارہ ہے جو جنگ بدر میں فوجی کامیابی کے نتیجہ میں حاصل ہوئی ہے۔ اس طرح سے فوجی کامیابی ان خاص حالات میں ہدف ، مقصد اور مکتب کی کامیابی کی تمہید تھی۔

یہ احتمال بھی ہے کہ پہلیآیت خدا کے (تشریعی) ارادے کی طرف اشارہ ہو (جوپیغمبر کے فرمان کی صورت میں ظاہر ہوا تھا) اور دوسری آیت میں اس حکم اور فرمان کے نتیجے کی طرف اشارہ ہو (غور کیجئے گا)

آخرکار لشکر قریش مقامِ بدر تک آپہنچا ۔ انھوں نے اپنے غلام پانی لانے کے لئے کنویں کی طرف بھیجے، اصحابِ پیغمبر نے انھیں پکڑلیا اور ان سے حالات معلوم کرنے کے لئے انھیں خدمت پیغمبر میں لئے آئے، حضرت نے ان سے پوچھا تم کون ہو؟ انھوں نے کہا: ہم قریش کے غلام ہیں ۔ فرمایا: لشکر کی تعداد کیا ہے؟ انھوں نے کہا: ہمیں اس کا پتہ نہیں ۔ فرمایا: ہر روز کتنے اونٹ کھانے کے لئے نحر کرتے ہیں ؟ انھوں نے کہا: نو سے دس تک۔ فرمایا: ان کی تعداد ۹ سوسے لے کر ایک ہزار تک ہے (ایک اونٹ ایک سو فوجی کی خوراک ہے)۔

____________________

۱۔ ”بدر“ در اصل قبیلہ جہینیہ کے ایک شخص کا نام تھا اس مقام پ کنواں کھودا تھا اس کے بعد وہ سرزمینِ بدر اور کنواں چاہِ بدر کے نام سے مشہور ہوگیا۔