تفسیر نمونہ جلد ۷

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 30819
ڈاؤنلوڈ: 3579


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 30819 / ڈاؤنلوڈ: 3579
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 7

مؤلف:
اردو

آیت ۱۹

۱۹-( إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَائَکُمْ الْفَتْحُ وَإِنْ تَنتَهُوا فَهُوَ خَیْرٌ لَکُمْ وَإِنْ تَعُودُوا نَعُدْ وَلَنْ تُغْنِیَ عَنکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَلَوْ کَثُرَتْ وَاٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۹ ۔ اگر تم فتح و کامرانی چاہتے ہو تو وہ تمہاری طرف آئی ہے اور اگر مخالفت سے اجتناب کرو تو تمھارے لئے بہتر ہے اور اگر لوٹ آؤ تو ہم بھی پلٹ آئیں گے (اور اگر اپنی مخالفتیں جاری رکھو گے تو ہم تمھیں دشمن کے سامنے کریں گے) اور تمہاری جمیعت چاہے کتنی زیادہ کیوں نہ ہو وہ تمھیں (خدائی مدد سے ) بے نیاز نہیں کرسکتی اور خدا مومنین کے ساتھ ہے۔

تفسیر

اس سلسلے مین کہ مندر جہ بالا آیت میں رُوئے سخن کن افراد کی طرف ہے، مفسّرین کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض کا نظریہ ہے کہ اس میں مشرکین مخاطب ہیں کیونکہ وہ میدانِ بدر کی طرف آنے سے پہلے خانہ کعبہ کے پاس گئے انھیں زعم تھا کہ وہ حق پر ہیں ، اس لئے وہ غرور میں مبتلا تھے، خانہ کعبہ کے پردے کو پکڑکر کہنے لگے:

( اللّٰهمّ انصر علی الجندین واهدی الفئتین واکرم الحزبین )

خدایا! ان دو لشکروں میں سے جو برتر، ہدایت یافتہ تر اور معززتر ہے اُسے کامیابی عطا کرنا۔(۱)

نیز منقول ہے کہ ابوجہل نے اپنی دعا میں کہا:

خداوندا! ہمار دین پُرانااور قدیمی ہے لیکن محمد کا دین تازہ اور خام ہے ان دونوں میں سے جو بھی تیرے نزدیک محبوب تر ہے اس کے پیروکاروں کو کامیابی عطاکر۔(۲)

لہٰذا۔ جنگ بندر کے اختتام پر مندرجہ بالا آیت نال ہوئی اور اُن سے کہا گیا: اگر تم فتح وکامرانی اور دینِ حق کے خواہاں ہو تو محمد کا دین کامیاب ہو اور اس کی حقانیت تم پر واضح اور آشکار ہوگئی( إِنْ تَسْتَفْتِحُوا فَقَدْ جَائَکُمْ الْفَتْحُ ) ۔

اور اگر دینِ شرک سے اور فرمانِ خدا کی مخالفت سے ہاتھ اٹھالو تو یہ بات تمھارے فائدے میں ہے(وَإِنْ تَنتَھُوا فَھُوَ خَیْرٌ لَکُمْ)۔ اور اگر تم مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لئے لوٹ اوگے تو ہم بھی تمھاری طرف پلٹ آئیں گے اور مسلمانوں کو کامیاب کریں گے اور تمھیں مغلو کردیں گے( وَإِنْ تَعُودُوا نَعُدْ ) ۔

اور اپنی تداد کی زیادتی پر ہرگز غرور نہ کرو کیونکہ ”تمھاری جمعیت کتنی بھی زیادہ کیوں نہ ہو تمھیں بے نیاز نہیں کرسکتی( وَلَنْ تُغْنِیَ عَنکُمْ فِئَتُکُمْ شَیْئًا وَلَوْ کَثُرَتْ ) ۔ اور خدا مومنین کے ساتھ ہے( وَاٴَنَّ اللهَ مَعَ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

لیکن اس تفسیر کو ایک بات دُور کردیتی ہے اور وہ یہ کہ قبل وبعد کی تمام آیات کا روئے سخن مومنین کی طرف ہے اور آیات کے درمیان معنوی تعلق ہے، لہٰذا ان کے درمیان صرف ایک آیت روئے سخن کفار کی طرف یہ بات بعید نظر آتی ہے لہٰذا بعض مفسّرین نے اس میں مومنین کو مخاطب سمجھا ہے، اس لحاظ سے بہترین تفسیر یہ بنتی ہے کہ بعض نئے اور ضعیف الایمان مسلمانوں کے درمیان جنگی اموالِ غنیمت کی تقسیم کے بارے میں جھگڑا ہوگیا تو یہ آیت نازل ہوئیں اور انھیں سرزنش کی اور اموالِ غنیمت پورے کے پورے پیغمبر کے اختیار اور ملکیت میں دے دیئے، آپ نے بھی مساوی طور پرانھیں تمام مسلمانوں میں تقسیم کردیا، اس کے بعد مومنین کی تربیت کے لئے انھیں جنگ بدر کے واقعات یاد دلائے گئے ہیں کہ کس طرح خدا تعالیٰ نے انھیں ایک طاقتور دشمن کے مقابلے میں کامیابی عطا کی۔

یہ آیت بھی اسی مطلب کی طرف اشارہ کررہی ہے کہ اگر تم مسلمانوں نے خدا سے فتح وکامیابی کا تقاضا کیا تو خدا نے تمھاری دعا کو قبول کرلیا اور تم کامیاب ہوگئے۔

اور اگر پیغمبر کے سامنے اعتراض کرنے اور باتیں بنانے سے بچو تو یہ تمھارے فائدے میں ہے اور اگر تم اپنی لسی اعتراض آیز روش کی طرف پلٹ گئے تو ہم بھی پلٹ جائیں گے اور تمھیں دشمن کے جنگل میں تنہا چھوڑ دیں گے اور تمھاری جمعیت چاہے کتنی زیادہ کیوں نہ ہو خدائی مدد کے بغیر کوئی کام نہیں کرسکے گی اور خداتعالیٰ سچّے اور اپنے فرمان کے مطایع مومنین اور اپنے پیغمبر کے ساتھ رہے۔

چونکہ خصوصاً آئندہ چند آیات بھی مسلمانوں کو ان کی چند مخالفتوں کی وجہ سے ملامت کررہی ہیں اور گذشتہ آیات میں بھی ہم نے ایسا ہی دیکھا ہے نیز آیات میں ربط بھی واضح ہے لہٰذا دوسری تفسیر زیادہ قوی معلوم ہوتی ہے۔

____________________

۱۔ تفسیر صافی، آیہ زیر بحث کے ضمن میں اور تفسیر کبیر از فخرالدین رازی، ج۵، ص۱۴۲-

۲۔ تفسیر مجمع البیان اور دیگر تفاسیر ، اسی آیت کے ذیل میں -

آیات ۲۰،۲۱،۲۲،۲۳

۲۰-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ وَلَاتَوَلَّوْا عَنْهُ وَاٴَنْتُمْ تَسْمَعُونَ )

۲۱-( وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَایَسْمَعُونَ )

۲۲- ا( ِٕنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِینَ لَایَعْقِلُونَ )

۲۳-( وَلَوْ عَلِمَ اللهُ فِیهِمْ خَیْرًا لَاٴَسْمَعَهُمْ وَلَوْ اٴَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ )

ترجمہ

۲۰ ۔ اے ایمان لانے والو!خدا اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو اور روگردانی نہ کرو جبکہ تم اس کی باتیں سنتے ہو۔

۲۱ ۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجاو جو کہتے تھے ہم نے سنا ہے لیکن درحقیقت وہ سنتے نہ تھے۔

۲۲ ۔ زمین پر چلنے والوں میں سے خدا کے نزدیک بد ترین وہ گونگے اور بہرے افراد ہیں جو عقل وفکر نہیں رکھتے۔

۲۳ ۔ اور اگر خدا ان میں کوئی بھلائی جانتا (تو حق بات) ان کے کانوں تک پہچاتا لیکن (تن کی وجودہ حالت میں ) اگر حق ان کے کانوں تک پہنچاتا ہے تو وہ مخالفت کرتے ہیں اور روگردان ہوتے ہیں ۔

سننے والے بہرے

یہ آیات گذشتہ مباحث کے تسلسل میں آئی ہیں ، اور یہ مسلمانوں کو جنگ، صلح اوردیگر تمام امور میں پیغمبرِ خدا کی مکمل اطاعت کی دعوت کے سلسلے میں ہیں ۔ آیات کہ لب ولہجہ نشاندہی کرتا ہے کہ اس سلسلے میں بعض مومنین نے اپنے فرض میں کوتاہی کی تھی۔ لہٰذا پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اٴَطِیعُوا اللهَ وَرَسُولَهُ ) ۔

دوبارہ تاکید کے طور پر فرمایا گیا ہے: اور اس کے حکم کی اطاعت سے کبھی روگردانی نہ کرو جب تک تم اس کی باتیں اور اوامر ونواہی سنتے ہو( وَلَاتَوَلَّوْا عَنْهُ وَاٴَنْتُمْ تَسْمَعُونَ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ حکم خدا کی اطاعت سب پر لازم ہے چاہے کوئی مومن ہو یا کافر لیکن چونکہ پیغمبر کے مخاطب اور ان کے تربیتی پروگراموں میں شرکت کرنے والے مومنین تھے لہٰذا یہاں رُوئے سخن ان کی طرف ہے۔

اسی سلسلے کی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: ان لوگوں کی مانند نہ ہوجاو جو کہتے تھے کہ ہم نے سنا لیکن در حقیقت وہ نہیں سنتے تھے( وَلَاتَکُونُوا کَالَّذِینَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَایَسْمَعُونَ ) ۔

یہ بہت عمدہ اور جاذب نظر تعبیر ہے جو قرآن نے ایسے لوگوں کے بارے میں استعمال کی ہے جو جانتے ہیں مگر عمل نہیں کرتے، سنتے ہیں مگر اثر نہیں لیتے اور ظاہراً مومنین کی سف میں شامل ہیں لیکن مطیعِ فرمان نہیں ہیں ، فرمایا گیا ہے کہ وہ سننے والے کان رکھتے ہیں ، الفاظ اور باتیں سنتے ہیں اور ان کے معانی بھی سمجھتے ہیں لیکن چونکہ ان کے مطابق عمل نہیں کرتے تو گویا بالکل بہرے ہیں چونکہ یہ سب کچھ تو عمل کے لئے تمہید ہے اور جب عمل نہیں تو تمہید بے فائدہ ہے۔

اس سلسلے میں کہ یہ کون لوگ تھے جن کی یہ صفت قرآن بیان کررہا ہے اور مسلمانوں کو ہوش میں رہنا چاہیے کہ وہ ان جیسے نہ بن جائیں بعض کا خیال ہے کہ اس سے مراد وہ منافق ہیں جو مسلمانوں کی صفوں میں گھسے ہوئے ہوئے تھے، بعض کہتے ہیں کہ یہودیوں کے ایک گروہ کی طرف اشارہ ہے اور بعض نے اسے مشرکینِ عرب کی طرف اشارہ سمجھا ہے لیکن کوئی مانع نہیں کہ آیت کے مفہوم میں ان تینوں گروہوں کے وہ افراد شامل ہوں جو عمل کے بغیر باتیں کرنے والے ہوں ۔

گفتار عمل کے بغیر اور سننا تاثیر کے بغیر انسانی معاشروں کے لئے ایک بہت بڑی مصیبت ہے اور بہت سی بدبختیوں کا سرچشمہ ہے لہٰذا دوبارہ اگلی آیت میں بھی یہ سلسلہ کلام جاری ہے اور ایک دوسرے خوبصورت انداز میں فرمایا گیا ہے: زمین پر چلنے والوں میں سے خدا کے نزدیک بد بترین وہ ہیں جو نہ سننے والے کان رکھتے ہیں نہ بولنے والی زبان اور نہ ہی عقل وادراک، وہ بہرے، گونگے اور بے عقل ہیں( إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِنْدَ اللهِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِینَ لَایَعْقِلُونَ ) ۔(۱)

قرآن چونکہ ایک کتابِ عمل ہے کوئی رسمی کتاب نہیں لہٰذا وہ ہر جگہ نتائج کا سہارا لیتی ہے اور اصولی طور پر ہر بے خاصیت موجود کو معدوم سمجھتی ہے،ہر بے حرکت وبے اثر زندہ کومردہ قرار دیتی ہے اور انسان کا ہر عضو جو اس کی ہدایت وسعادت کے راستے میں کارآمد نہ ہو اسے نہ ہونے کے برابر شمار کرتی ہے۔ اس آیت میں بھی ان اشخاص کو ظاہراً صحیح وسالم کان رکھتے ہیں لیکن ان کان آیات خدا، کلامِ حق اور سعادت بخش پروگراموں کو سننے پر آمادہ نہیں ، انھیں بہرہ قرار دیتی ہے اور اسی طرح جو لوگ صحیح وسالم زبان رکھتے ہیں لیکن مہر سکوت ان کی زبان پر لگی ہوئی ہے نہ حق کا دفاع کرتے ہیں ، نہ ظلم وفساد کا مقابلہ کرتے ہیں ، نہ جاہل کو ارشاد کرتے ہیں ، نہ امر بالمعروف کرتے ہیں ، نہ نہی عن المنکر کرتے ہیں اور نہ ہی راہِ حق کی طرف دعوت دیتے ہیں بلکہ اس عظیم خدائی نعت کو صاحبان زور روز کی چاپلوسی یا تحریفِ حق اور تقویتِ باطل میں استعمال کرتے ہیں ، ایسے افراد کو گونگا شمار کرتی ہے اور وہ ہوش وعقل کی نعمت سے بہرہ مند تو ہوتے ہی لیکن صحیح غور وفکر نہیں کرتے انھیں دیوانوں میں شمار کرتی ہے۔

اگلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے: خدا تمھیں حق کی دعوت دینے میں کوئی مضائقہ نہیں جانتا، اگر وہ مائل ہوتے اور خدا اس لحاظ سے ان میں خیر وبھلائی دیکھتا تو جیسے بھی ہوتا ان تک حق بات پہنچاتا( وَلَوْ عَلِمَ اللهُ فِیهِمْ خَیْرًا لَاٴَسْمَعَهُمْ ) ۔

کچھ روایات میں آیا ہے کہ ہٹ دھرم بت پرستوں کی ایک جماعت پیغمبرخدا کے پاس آئی، یہ لوگ کہنے لگے: ہمارے جد بزرگ قصی بن کلاب کو زندہ کردو اور وہ تمھاری نبوت کی گواہی دے تو ہم سب تسلیم کرلیں گے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں فرمایا گیا ہے کہ اگر یہ لوگ یہی بات حقیقت کے طور پر کہتے تو خدا یہ کام معجز نمائی کے طور پر انجام دے دیتا لیکن یہ جھوٹ بولتے ہیں اور ان کا ہدف قبولِ حق سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے اور اگر اس حالت میں خدا ان کی درخواست قبول کرلے اور حق بات اس سے زیادہ ان کے کانوں تک پہنچائے یا ان کے جد قصی بن کلاب کو زندہ کردے اور یہ اس کی گواہی سُن لیں پھر بھی یہ روگردانی کریں گے اعراض کئے رہیں گے( وَلَوْ اٴَسْمَعَهُمْ لَتَوَلَّوا وَهُمْ مُعْرِضُونَ ) ۔

یہ جملے ایسے لوگوں کے بارے میں ہیں جنھوں نے بارہا حق کی باتیں سنی ہیں اور قرآن کی روح پرور آیات اُن کے کانوں تک پہنچی ہیں اور انھوں نے ا ن کے مضامین ومفاہیم کو سمجھا ہے مگر پھر بھی تعصب اور ہٹ دھر می سے کام لیتے ہوئے ان کا انکار کرتے ہیں ، ایسے افراد اپنے اعمال کی وجہ سے ہدایت کا صلاحیت گنوا بیٹھے ہیں اور اب خدا اور اس کے پیغمبر کو ان سے کوئی سرورکار نہیں ۔

یہ آیت ایسے جبری مذہب کے پیروکاروں کے لئے دندان شکن جواب ہے، یہ آیت نشاندہی کرتی ہے کہ تمام سعادتوں کا سرچشمہ خود انسان ہے اور خدا کوبھی لوگوں کی اہلیت کے لحاظ سے ہی ان سے سلوک کرتا ہے۔

____________________

۱۔ ”صم “ ”اٴصم “ کی جمع ہے، اس کے معنی ہیں ”بہرے“ ”بکم “ ”اٴبکم “ کی جمع ہے، اس کے معنی ”گونگے“-

دو اہم نکات

۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ: بعض اوقات بعض نکتہ چین اس آیت سے اپنے لئے ایک پریشا کن مطلب اخذ کرتے ہیں ، وہ یہ منطق پیدا کرتے ہیں کہ اس آیت میں قرآن کہتا ہے: ”اگر خدا ان میں کوئی اچھائی دیکھے تو ان تک حق پہنچادے“ اور ”اگر ان حق ان تک پہنچادے تو وہ روگردانی کرتے ہیں “۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”اگر خدا ان میں کوئی خیر دیکھے تو وہ روگردانی کریں گے“۔

یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں کیونکہ گفتگو کے پہلے حصّے میں جو یہ آیا ہے کہ ”حق کو ان کے کانوں تک پہنچائے گا“ اس کے بارے میں انھیں اشتباہ ہوا ہے، اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر وہ اس سلسلے میں آمادکی رکھتے ہوں تو حق کو ان کے کانوں تک پہنچائے گا، لیکن گفتگو کے دوسرے حصّے میں اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر اسباب فراہم نہ ہونے کی صورت میں یہ کام کرے تو وہ روگردانی کریں گے۔

لہٰذا یہ جملہ مندرجہ بالا آیت میں دو مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے اور اس سے مذکورہ منطقی قیاس نہیں کیا جاسکتا(۱) (غور کیجئے گا)۔

یہ بالکل اس طرح ہے کہ کوئی کہے کہ: اگر میں جانتا کہ فلاں شخص میری دعوت کو قبول کرلے گا تو میں اسے دعوت دیتا لیکن اس وقت حالات ایسے ہیں کہ اگر میں اسے دعوت دوں تو وہ قبول نہیں کرے گا لہٰذا میں اسے دعوت نہیں دوں گا۔

۲ ۔ حق بات سننے کے مختلف مراحل: بعض اوقات انسان صرف الفاظ اور عبارات کو سنتا ہے لیکن ان کے مفہوم پر غور وفکر نیہں کرتا، کچھ ایسے حاالات بھی ہیں کہ جو اس قدر سننے پر تیار نہیں ہیں جیسا کہ قرآن کہتا ہے:

( وَقَالَ الَّذِینَ کَفَرُوا لَاتَسْمَعُوا لِهٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیهِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُونَ )

کفار کہتے ہیں کہ اس قرآن کی طرف کان نہ دھرو اور شور مچاو شایدتم کامیاب ہوجاو تاکہ کوئی شخص حق بات نہ سُن سکے۔(حٰم سجدہ/ ۲۶)

کبھی انسان گفتگو اور الفاظ سننے کو تو تیار ہوتا ہے لیکن پھر بھی عمل کا ارادہ اور عزم نہیں کرتا، جیسے منافقین ہیں کہ جن کی طرف سورہ محمد آیت ۱۶ میں فرمایا گیا ہے:

( وَمِنْهُمْ مَنْ یَسْتَمِعُ إِلَیْکَ حَتَّی إِذَا خَرَجُوا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوا لِلَّذِینَ اٴُوتُوا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا )

ان میں سے بعض ایسے منافق ہیں جو تمھاری باتیں کان دھر کے سنتے ہیں لیکن جب وہ تیرے پاس سے اٹھ کر چلے جاتے ہیں تو انکار یا استہزاء کے طور پر آگاہ اور باخبر لوگوں سے کہتے ہیں یہ کیا بات تھی جو محمد کہہ رہا تھا۔

بعض اوقات ان کی کیفیت کچھ ایسی ہوجاتی ہے کہ اگر وہ کسی بات کو توجہ سے سنیں بھی تو حق بات کا ادراک نہیں کرپاتے ان سے نیک وبد کی تمیز کی حس ہی سلب ہوجاتی ہے اور یہ خطناک ترین مرحلہ ہے۔

قرآن ان تینوں گروہوں کے بارے میں کہتا ہے کہ یہ درحقیقت بہرے ہیں کیونکہ حقیقی سننے والا تو وہ ہے جو توجہ سے سنتا بھی ہے، سمجھتا ہے، سوچتا ہے اور از رُوئے اخلاص عمل کا بھی مصمم ارادہ رکھتا ہے۔

آج بھی کتنے لوگ ہیں جو آیاتِ قرآن سنتے وقت (بغیر تشبیہ کے، جیسے موسیقی کی آوازیں سن رہے ہوں ) احساس کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی زبان سے شور ہیجان کی کیفیت کے مظہر جملے نکلتے ہیں لیکن ان کی ساری ہمت بس یہی ہوتی ہے اور عمل میں کورے ہوتے ہیں اور یہ کیفیت مقصدِ قرآن سے میل نہیں کھاتی۔

____________________

۱۔ منطقی اصلاح کے مطابق مذکورہ قیاس میں ”حد وسط“ موجود نہیں ہے کیونکہ پہلے جملے میں ”لاٴَسْمَعَهُمْ حالکونهم یعلم فیهم خیراً “ ہے اور دوسرے جملے میں ”لاسمعهم حالکونهم لایعلم فیهم خیرا “ہے لہٰذا مندرجہ بالا دو جملوں میں حدِ وسط موجود نہیں ہے کہ اس سے قیاس کی تشکیل کی جاسکے اور یہ دونوں جملے ایک دوسرے مختلف اور الگ الگ ہیں (غور کیجئے گا)۔

آیات ۲۴،۲۵،۲۶

۲۴-( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَاٴَنَّهُ إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ )

۲۵-( وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ )

۲۶-( وَاذْکُرُوا إِذْ اٴَنْتُمْ قَلِیلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِی الْاٴَرْضِ تَخَافُونَ اٴَنْ یَتَخَطَّفَکُمْ النَّاسُ فَآوَاکُمْ وَاٴَیَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ وَرَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ )

ترجمہ

۲۴ ۔ اے ایمان والو! خدا اور پیغمبر کی دعوت قبول کرو، جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف پکارے جو تمھاری زندگی کا سبب ہے اور جان لو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تم سب (قیامت) میں اس کے پاس محشور ہوگے۔

۲۵ ۔ اور اس فتنے سے درو جو صرف تمھارے ظالموں کو نہیں پہنچے کا (بلکہ سب کو گھیرلے گا کیونکہ دوسروں نے خاموشی اختیار کی تھی) اور جان لو کہ خدا شدید العقاب ہے۔

۲۶ ۔ اور وہ وقت یاد کرو جب رُوئے زمین پر ایک مختصر، چھوٹا اور کمزور گروہ تھے یہاں تک کہ تم ڈرتے تھے کہ کہیں لوگ تمھیں کو نہ لے جائیں لیکن اس نے تمھیں پناہ دی، تمھاری مدد کی اور تمھیں پاکیزہ رزق سے بہرہ مند کیا تاکہ اس کی نعمت کا شکر ادا کرو۔

دعوت، زندگی کی طرف

گذشتہ آیات میں مسلمانوں کو علم، عمل، اطاعت اور تسلیم کی طرف دعوت دی گئی تھی، ان آیات میں اسی ہدف کو ایک اور انداز سے حاصل کیا گیا ہے۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے ایمان والو! خدا اور اُس کے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرو، جب وہ تمھیں ایسی چیز کی طرف دعوت دیتا ہے جو تمھیں زندہ کرتی ہے( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَجِیبُوا لِلّٰهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیکُمْ ) ۔

مندرجہ بالا آیت صراحت سے کہتی ہے کہ دعوتِ اسلام در اصل زندگی اور حیات کی طرف دعوت ہے، حیاتِ روحانی، حیاتِ مادّی، حیاتِ ثقافتی، حیاتِ اقتصادی، حیاتِ سیاسی، حقیقی مفہوم کے ساتھ حیاتِ اخلاقی اور حیاتِ اجتماعی غرض اسلام کی دعوت ہر لحاظ سے اور ہر پہلو سے حیات ہے۔

یہ مختصر ترین اور جامع ترین تعبیر ہے جو اسلام اور دینِ حق کے بارے میں آئی ہے۔ اگر کوئی پوچھے کہ اسلام کا ہدف اور مقصد کیا ہے اور وہ ہمیں کیا دے سکتا ہے تو ایک ہی مختصر سے جملے میں کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ہدف اور مقصد تمام جہاتِ زندگی میں حیات عطا کرنا ہے اور یہی اسلام ہمیں عطا کرتا ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا طلوع اسلام سے قبل اور دعوتِ قرآن سے پہلے مردہ تھے کہ قرآن انھیں دعوتِ حیات دیتا ہے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں ، وہ اس حیات سے محروم تھے کہ جو حیات قرآن عطا کرتا کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ حیات کے کئی پہلو اور مراحل ہیں کہ قرآن جن سب کی طرف نشاندہی کرتا ہے۔

”زندگی“ کا مفہوم بعض اوقات سبزہ زار کی حیات کے معنی میں آیا ہے، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:

( اعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یُحْیِ الْاٴَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا )

جان لو کہ خدا زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کرتا ہے۔(حدید/ ۱۷)

کبھی حیاتِ حیوانی کے معنی میں آیا ہے، مثلاً:

( إِنَّ الَّذِی اٴَحْیَاهَا لَمُحْیِی الْمَوْتیٰ )

وہ خدا کہ جس نے اس (زمین) کو زندہ کیا، مردوں کو بھی زندہ کرے گا۔(حم سجدہ/ ۳۹)

کبھی زندگی، فکری، عقلی اور انسانی حیات کا معنی لئے ہوئے ہوتی ہے، مثلاً:( اٴَوَمَنْ کَانَ مَیْتًا فَاٴَحْیَیْنَاه )

وہ شخص جو مردہ اور گمراہ تھا، پس پھر ہم نے اس کی ہدایت کی، کیاوہ گمراہوں کی طرح ہے۔ (انعام/ ۱۲۲)

کبھی دوسرے جہان کی حیاتِ جاودان کے مفہوم میں ہے، مثلاً:( یَالَیْتَنِی قَدَّمْتُ لِحَیَاتِی )

اے کاش!آج (روز قیامت) کی زندگی کے لئے میں نے کوئی چیز آگے بھیجی ہوتی۔(فجر/ ۲۴)

اور کبھی زندگی لامحدود اور لامتناہی علم وتوانائی کے معنی میں ہوتی ہے، جیسا کہ خدا کے بارے میں ہے-

( هُوَ الْحَیِّ الَّذِی لَایَمُوت ) وہ ایسا زندہ ہے کہ جس کے لئے موت نہیں ہے۔

موت کی اقسام کے بارے میں جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کی طرف توجہ کرنے سے واضح ہوجاتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے لوگ اگرچہ مادّی اور حیوانی زندگی کے حامل تھے لیکن وہ انسانی، معنوی اور عقلی زندگی سے محروم تھے ، قرآن آیا اور اس نے انھیں حیات اور زندگی کی دعوت دی۔

یہاں سے یہ بات اچھی طرح معلوم ہوجاتی ہے کہ جو لوگ دین ومذہب کو ایک خشک، بے روح، حدودِ زندگی سے ماوراء اور فکری واجتماعی پروگراموں سے الگ سمجھتے ہیں وہ کس قدر اشتباہ اور غلطی ہیں ۔ ایک سچّا دین وہی ہوسکتا ہے جو زندگی کے تمام شعبوں پہلوں میں حرکت پیدا کرے، روح پھونکے، فکر عطا کرے اور احساس ذمہ داری پیدا کرے، ہمیشگی، اتحاد، ارتقا اور تکامل ایجاد کرے اور تمام معانی کے لحاظ سے حیات آفریں ہو۔

ضمناً یہ حقیقت بھی واضح ہوگئی کہ جو لوگ اس آیت کی تفسیر صرف جہاد یا ایمان یا قرآن یا بہشت کے ساتھ کرتے ہیں اور ان امور کو حیات کے تنہا عامل کے طور پر پیش کرتے درحقیقت مفہوم آیت کومحدود کردیتے ہیں کیونکہ آیت کے مفہوم میں تویہ سب امور شامل ہیں اور ان سے بڑھ کر ہر چیز، ہر فکر، ہر پروگرام اور ہر حکم جو حیاتِ انسانی کی کوئی صورت پیدا کرے آیت کے مفہوم میں شامل ہے۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے: جان لو کہ خدا انسان اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتا ہے اور یہ کہ تم سب قیامت میں اس کے پاس جمع کئے جاوگے( وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ یَحُولُ بَیْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ وَاٴَنَّهُ إِلَیْهِ تُحْشَرُونَ ) ۔

بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ یہ بندوں سے خدا کے نہایت قربت کی طرف اشارہ ہے گویا وہ خود انسان کی جان اور اس کے اندر موجود ہے، جیسا کہ قرآن کہتا ہے:( نَحْنُ اٴَقْرَبُ إِلَیْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیدِ )

ہم اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ اُس کے قریب ہیں ۔(ق/ ۱۶)

کبھی کہا جاتا ہے کہ یہ اشارہ ہے کہ قلوب اور افکار کی گردش خدا کے ہاتھ میں ہے جیسا کہ ہم دعا میں کہتے ہیں :

”یامقلّب القلوب والاٴبصار“

اے وہ کہ قلوب اور افکار کی گردش جس کے ہاتھ میں ہے۔

کبھی کہا جاتا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اگر لطفِ خدا نہ ہوتا تو انسان ہرگز حق کی حقانیت اور باطل کے بطلان پر آگاہ نہ ہوپاتا۔

کچھ لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب تک لوگوں کو موقع میسّر ہے اطاعتِ الٰہی اور نیک کاموں کی انجام دہی کے لئے کوشش کرتے رہیں کیونکہ خدا انسان اور اس کے درمیان موت کے ذریعے رکاوٹ پیدا کردیتا ہے۔

لیکن ایک عمومی حوالے سے ان تمام تفاسیر کو ایک ہی جامع تفسیر میں جمع کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ کہ خدا ہر جگہ حاضر وناضر ہے اور تمام موجودات پر محیط ہے وہ ان موجودات میں سے نہیں لیکن ان سے ح۔جدا بھی نہیں ۔ موت وحیات،علم وقدرت، امن وسکون اور توفیق وسعادت سب اس کے ہاتھ ہیں اور اس کے قبضہ قدرت میں ہیں ، لہٰذا انسان نہ کوئی چیز اس سے چھپاسکتا ہے، نہ کوئی کام اس کی توفیق کے کرسکتا ہے اور نہ ہی یہ مناسب ہے کہ انسان اس کے علاوہ کسی کی طرف رخ کرے اور اُس کے غیر سے درخواست کرے کیونکہ وہی تمام چیزوں کا مالک ہے اور انسان کے تمام وجود پر محیط ہے۔

اس جملے کا گذشتہ جملے سے ربط اس لحاظ سے ہے کہ اگر پیغمبر زندگی اور حیات کی طرف دعوت دیتا ہے تو ایسی ہستی کا فرستادہ ہے کہ موت وحیات اور ہدایت وعقل سب جس کے قبضہ قدرت میں ہیں لہٰذا اس امر کی تاکید کے لئے ارشاد ہوتا ہے کہ تم نہ صرف آج اس کی قدرت کے احاطہ میں موجود ہو بلکہ جہان میں بھی اسی کی طرف جاوگے یہاں اور وہا ں سب اس کے سامنے موجود ہو۔

صرف ظالم ہی انجامِ بد سے دوچار نہیں ہوں گے

اس کے بعد خدا اور پیغمبر کی حیات بخش دعوت قبول نہ کرنے کے بُرے انجام کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: اس فتنے سے بچو جو تم میں سے سرف ظالموں ہی کو نہیں آلے گا بلکہ سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گا (وَاتَّقُوا فِتْنَةً لَاتُصِیبَنَّ الَّذِینَ ظَلَمُوا مِنْکُمْ خَاصَّةً)۔

لفظ ”فتنہ“ قرآن مجید میں مختلف مواقع پر استعمال ہوا ہے۔ کبھی آزمائش وامتحان کے میں اور کبھی بلا، مصیبت اور عذاب کے معنی میں ۔ اصل میں اس لفظ کا معنی ہے سونے کو کٹھالی میں داخل کرنا تاکہ اس کا کھوٹا کھراپن واضح ہوجائے، بعد ازان یہ لفظ ایسی آزمائشوں میں استعمال ہونے لگا جو انسان کی صفاتِ باطنی کو ظاہر کردیتی ہیں اور اسی طرح ان سزاؤں کے بارے میں استعمال ہونے لگا جو روحِ انسانی کی سفائی یا اس کے گناہ کی تخفیف کا باعث ہوں ۔

زیر بحث آیت میں یہ لفظ اجتماعی مصائب آلام کے مفہوم میں ہے کہ جو سب کو دامنگیر ہوں ، اصلاح کی زبان میں جس میں خشک وتر سب جل جائیں ۔

در حقیقت اجتماعی حوادث کی خاصیت یہی ہے کہ جب معاشرہ اشاعتِ حق اور رسالت کے بارے میں اپنی ذمہ داری میں کوتاہی کرے اور اس کوتاہی کے نتیجے میں قانون شکنیاں ، ہرج ومرج اور بے امنی وغیرہ پیدا ہوجائیں تو نیک وبد سب اس کی آگ میں جلتے ہیں ۔ یہ دراصل خداوندعالم کی طرف سے تمام مسلمانوں کے خطرے کے الارم ہے اور اس کا مفہوم یہ ہے کہ افرادِ معاشرہ نہ صرف اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اس بات کے ذمہ دار ہیں کہ اپنے فرائض ادا کریں بلکہ ان کی ذمہ داری ہے وہ دوسروں کو بھی ان کے فرائض کی انجام دہی پر اُبھاریں کیونکہ اختلاف، انتشار اور عدم اتفاق اجتماعی پروگراموں کی شکست کا باعث ہوتے ہیں اور یہ دھواں سب کی آنکھوں میں پڑے گا۔ میں نہیں کہتا کہ چونکہ میں نے اپنی ذمہ داری نبھالی ہے لہٰذا ددوسروں کی فرض ناشناسی کے بُرے آثار سے بچ جاوں گا کیونکہ اجتماعی معاملات کو شخصی اور انفرادی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ بالکل اس طرح ہے جیسے دشمن کی طاقتور حملہ آور فوج کی تعدا ایک لاکھ ہو۔ اس کا حلہ روکنے کے لئے اگر پچاس ہزار افراد اپنی ذمہ داری بنھائیں تو مسلّم ہے کہ کافی نہیں ہوں گے اور شکست کے بُرے نتائج سے ذمہ دار اور غیر ذمہ دار سبھی دوچار ہوں گے اور جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ اجتماعی اور معاشرتی مسائل کی یہی صورت ہے۔

یہ حقیقت ایک اور طریقے سے بھی واضح کی جاسکتی ہے کہ اور وہ یہ کہ معاشرے کے نیک لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ بُروں کے مقابلے میں ہوکر نہ بیٹھ جائیں اگر انھوں نے سکوت اختیار کیا تو خدا کے ہاں وہ بھی بُروں کے انجام میں شریک قرار پائیں گے۔ جیسا کہ ایک مشہور حدیث میں ہے کہ پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا:

انّ اللّٰه عزّوجلّ لایعذّب العامّة بعمل الخاصّة حتّیٰ یروا المنکر بین ظهرانیهم وهم قادون علیٰ اٴن ینکروه فاِذا فعلوا عذّب اللّٰه الخاصّة والعامّة -

خداوندعزوجل عام لوگوں کے عمل کی سزا کسی خاص گروہ نہیں دے گا مگر اس صورت میں کہ جب منکرات اور خداکی نافرمانیاں ان کے درمیان ہورہی ہوں اور وہ ان کے افکار اور ممانعت کی قدرت رکھتے ہوئے سکوت اور خاموشی اختیار کریں ، اس صورت میں خداتعالیٰ اس خاص گروہ کو اور معاشرے کے تمام افراد کو سزادے گا۔(۱)

جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے یہ حکم خدا کی بنیادی اور اُخروی دونوں سزاوں پر صادق آتا ہے اور اسی طرح ایک گروہ یا سب کے اعمال نتائج اور آثار کے سلسلے میں بھی صادق آتا ہے(۲)

آیت کے آخر میں تہدید آمیز لہجے میں کہاگیا ہے : جان لو کہ خدا کا عذاب وعقاب سخت ہے( وَاعْلَمُوا اٴَنَّ اللهَ شَدِیدُ الْعِقَابِ ) ۔

کہیں ایسا نہ ہو کہ خدا کا لطف ورحمت انھیں غافل کردے اور خدائی عذاب وسزا کی شدت کو فراموش کردیں اور فتنے انھیں دامنگیر ہوجائیں جیسے اسلامی معاشرے کو دامنگیر ہوئے ہیں اور ان خدائی سنتوں کو بھول جانے کی وجہ سے وہ پیچھے کی طرف اُلٹے پاوں چلے گئے ہوں ۔

اگر ہم اپنے دَور کے اسلامی معاشروں پر ایک نظر ڈالیں توہم دیکھیں گے کہ دشمن کے مقابلے میں وہ پے درپے شکست کہ شکار ہورہے ہیں ۔ استعمار، یہودیت اور صیہونیت ان کے خلاف کامیابی سے مصروف عمل ہے۔ انحطاط، پستی اور علمی پسماندگی کے مفاسد دکھائی دے رہے ہیں ۔ یہ صورتِ حال آیت کی حقیقت اور اس کے مفہوم کی تصویر کشی کررہی ہے کس طرح ان فتنوں نے چھوٹے بڑے، نیک وبد اور عالم وجاہل کو گھیر رکھا ہے اور یہ اسی طرح جاری وساری رہیں گے یہاں تک کہ مسلمانوں میں اجتماعی رُوح بیدار ہوجائے اور ہر کوئی معاشرے میں اپنی اجتماعی ذمہ داری کو قبول کرلے اور اسلام کی طرف سے عائد دو فرائض امر بالمعروف اور نہی عن المنکر قطعی، حتمی اور تخلف ناپذیر صورت اختیار کرلیں ۔

قرآن مسلمانوں کا ہاتھ پکڑکر انھیں ایک مرتبہ پھر ان کی گذشتہ تاریخ کی طرف پلٹاتا ہے اور انھیں سمجھاتا ہے کہ تم کس درجے میں تھے اور اس وقت کس مقام پر کھڑے ہو تاکہ جو درس انھیں گذشتہ آیات میں دیا گیا ہے اس کا اچھی طرح ادراک کرلیں ۔ ارشاد ہوتا ہے: وہ وقت یاد کرو جب تم ایک چھوٹاسا ناتواں گروہ تھے اور دشمنوں کے چنگل میں پھنسے ہوئے تھے اور وہ چاہتے تھے کہ تمھیں ضعف وناتوانی کی طرف کھینچ لے جائیں( وَاذْکُرُوا إِذْ اٴَنْتُمْ قَلِیلٌ مُسْتَضْعَفُونَ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔ ”اس طرح کہ تم ڈرتے تھے کہ کہیں مشرکین اور مخالفین تمھیں اُچک نہ لیں “( تَخَافُونَ اٴَنْ یَتَخَطَّفَکُمْ النَّاسُ ) ۔

یہ ایک لطیف تعبیر ہے جو اُس دور کے مسلمانوں کی انتہائی کمزوری قوتکی کمی کو واضح کرتی ہے جیسے کوئی چھوٹا سا جسم ہوا میں معلّق ہو کہ دشمن جسے آسانی سے اُچک سکتا ہے، یہ ہجرت سے پہلے مسلمانوں کی کیفیت کی طرف اشارہ ہے جب کہ ان کا دشمن وہاں بہت طاقتور تھا یا پھر ہجرت کے بعد کے دور کی طرف ایران اور روم کی عظیم طاقتوں کے مقابلے میں ان کی حالت کی طرف اشارہ ہے۔

”لیکن خدا نے تمھیں پناہ دی“( فَآوَاکُمْ ) ۔ ”اور اپنی مدد سے تمھیں تقویت دی“( وَاٴَیَّدَکُمْ بِنَصْرِهِ ) ۔ ”اور تمھیں پاکیزہ رزق سے بہرہ مند کیا“( وَرَزَقَکُمْ مِنَ الطَّیِّبَاتِ ) ۔ ”شاید اس کی نعمت کا شکر بجالاو“( لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُونَ ) ۔

____________________

۱۔ تفسیر المنار، ج۹، ص۶۳۸-

۲۔ مفسّرین کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ ”لا تصیبن“ نفی کا صیغہ ہے یا نہیں کا۔ بعض نے نہی کا قرار دیا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ اس کا مفہوم یہ ہے کہ فتنوں سے بچو کیونکہ یہ صرف ظالموں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیں گے اور دیگر نے اسے نفی کا صیغہ سمجھا ہے لیکن چونکہ عربی ادب کے علماء کے نظریے کے مطابق نون تاکید سوائے نہی کے اور جواب قسم کے نہیں آتی لہٰذا جواب قسم قرار دیتے ہیں گویا آیت میں قسم مقدر ہے۔