اس شہر کی ابتداء اور ناموں کے بارے میں ممکنات
شہر نجف اشرف کے بارے میں تمام ممکنات یہ بتاتی ہے کہ پچھلی صدی کے تین دہائیوں تک اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ بس یہاں بے آب و گیاہ اور خشک صحرا کے سوا کچھ نہ تھا نہ اس کے آس پاس کوئی چشمہ تھا اور نہ ہی کوئی تالاب جو سیلاب کے گزرنے کے بعد بنتا ہے یہاں کی گرمی چہروں اور جسموں کو جلانے والی بادسموم ہوتی تھی جبکہ سردی میں سرد صحرائی راتیں سختی کے ساتھ آپڑتی تھیں۔ یہاں کے صحراء میں کوئی گھاس پھوس تک نہیں تھا جسے انسان یا جانور کھا سکیں۔ سوائے چند گھاس شیح، قیسوم، خزامی، گل لالہ، پھول وغیرہ سردی کے آخر اور بہار کے شروع کے دو مہینے میں ہوتے تھے جو کہ اس ٹیلے کے آس پاس رہنے والے قبیلوں کے اونٹ اور دوسرے جانور چرتے تھے۔ شاید اس کی سرخی مائل مٹی کی وجہ سے یہاں موسمِ بہار میں خزامی خوشبودار پھول اور گل لالہ کھلتے ہوں اور گل لالہ جو کہ نعمان بن منذر کی طرف منسوب ہے کیونکہ وہ یہ وہاں سے توڑنے سے منع کرتا تھا اس لئے کہ عرب دور جاہلیت میں باکرہ و دوشیزہ کے رخسار کو کہتے تھے۔
پس یہ شہر کافی سالوں سے جولائی میں بلند درجہ حرارت کا عادی ہوچکا تھا مگر بارش یہاں اتنی کم ہوتی تھی کہ جس کی وجہ سے کوئی گھاس پھوس، زراعت یا پودوں کو فائدہ نہ پہنچتا تھا اور یہاں سمندر تو شروع سے ہی کھارا ہے۔ مگر یہاں کی زمین کے بارے میں ایک مصنف ناجی وداعہ نے اپنی کتاب شہر نجف کا طبعی جغرافیہ جس کا کچھ حصہ موسوعة النجف الا شرف میں شائع ہوا ہے میں یوں لکھتا ہے کہ یہاں کی سطح زمین سخت ریت اور کنکر سے ڈھکی ہوئی ہے۔ اس کے بعد جوں جوں اندر دیکھا جائے تو پتھریلی ریت اور چونا نظر آتا ہے اور یہ نجف کے وسط میں مشہور ہے کہ یہ زمین بڑی سختی اور مشکل سے ایک یا دو میٹر کھودی جاسکتی تھی ۔
یہ بھی مشہور ہے کہ اس کے وسط میں کنویں کا پانی بیس میٹر سے زیادہ کھودنے کے بعد نکلتا تھا جو کھانے پینے کے لئے استعمال نہیں ہوتا تھا البتہ ضرورت کے وقت موت سے بچنے کے کام آتا تھا۔
لیکن اس شہر کے اطراف کے علاقوں کو دیکھنے کے بعد آپ حیران ہوجائیں گے کہ وہ جنت کے باغات جیسے تھے۔ پس وہاں کچھ گھر' قلعے اور عمارتیں تھیں مثلاً عسکری قلعہ جو کہ مملکت حیریہ کی حدود پر دشمن کو روکنے کے لئے بنایا گیا تھا قبیلہ منذرہ کے بادشاہ نے یہاں فصیلی گھر بنائے ہوئے تھے اور ان کے خلفاء اور والیان وہاں سیرو تفریح اور شکار کی غرض سے جایا کرتے تھے اور جب سے مسیحی وہاں پھیلنا شروع ہوئے تو وہاں مقامات اور دکانیں بھی پھیل گئیں۔
عرب چونکہ صحرا میں رہتے تھے اس لئے وہ صحرائی زندگی سے مانوس تھے اور سر سبز و شاداب جگہ اور کھیتوں سے واقف نہیں تھے یہاں تک کہ وہ نہ ہی ساحلِ سمندر کی ہوا اور اس کی نمی سے آشنا تھے اور کھٹمل ، کیڑے مکوڑے، مچھر کی وجہ سے ہونے والے اس عذاب سے واقف نہیں تھے جو سردی اور گرمی کے راتوں اور دنوں میں کاٹتے اور بھنبھنا کر تنگ کرتے تھے اس لئے عرب لوگ آج بھی بہار اور خزاں میں اپنے صحرائوں کی طرف بغرض آرام اور آب وہوا تبدیلی کے لئے جانے میں عجلت کرتے ہیں بلکہ آج کل تو صحرائوں میں ایسی ورزش اور کھیل متعارف ہوئے ہیں جس میں دنیا کے تمام براعظموں سے لوگ شرکت کرنے آتے ہیں۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ نجف ہی ہے جس نے اس ٹیلے کو باقی تمام ڈھلوانوں سے ممتاز بنا یا ہے جو موسم معتدل ہونے کی وجہ سے بہت خوبصورت ہوتا ہے اس کے علاوہ دریائے فرات بھی اس کی دوسری جانب بہتا ہے اور یہاں موسم معتدل ہونے کی وجہ سے قبیلہ اہل منذر کے بادشاہ بعض خلفائے بنی عباس، کچھ صاحبانِ ثروت اور والیوں نے یہاں مکانات تعمیر کرائے۔
یہاں موسم معتدل ہونے کے ساتھ صاف ہوا'اور خوبصورت منظرتھا اور یہ چھوٹا ٹیلہ سمندر کی سطح سے تقریباً پچاس میٹربلندتھا۔ اس کے علاوہ یہاں آنے کی اور وجوہات آرام، مرغابی ، سرخاب ، تیتر اور دوسرے پرندوں کا شکار تھی۔راقم نے اپنے آنکھوں سے دیکھا ہے کہ پچھلی صدی کی پچاس کے دہائی میں یہاں بالکل شہر کے قریب پرندوں کے جھنڈہوتے تھے جو کہ اسلحہ کی کثرت اور گاڑیوں کے شوروغل کی وجہ سے اب نظر نہیں آتے اور خاص طور سے جب تیل کی وجہ سے لوگوں کے پاس پیسوں کی ریل پیل ہوئی تو لوگ اپنے دفاع کیلئے اسلحہ تو رکھتے ہیں مگر شکار جیسی رحمت سے محروم ہوگئے یہاں تک ساٹھ کی دہائی میں بڑی مشکل سے کچھ تیتر ، سرخاب اور مرغابی کے کچھ جھنڈ آس پاس کے صحرا میں نظر آتے تھے۔ حالانکہ اس سے قبل وہاں ہرن کے ریوڑ گھوم پھر رہے ہوتے تھے۔ ایک دن میں اپنے ماموں کے ساتھ تھا وہ شکار کے بے حد شوقین تھے غالباً یہ پچاس کی دہائی تھی تقریباًپچاس کلومیٹر کے فاصلے پر میں ہرنوں کے ریوڑ اور پرندوں کے جھنڈ دیکھ کر حیران ہوا۔ جو کثرت کی وجہ سے گننا مشکل تھے اور بلا مبالغہ میں اگر غلیل سے بھی مارتا تو کم از کم پانچ پرندوں کا شکار آرام سے ہوجاتا۔ لیکن آج یہ سب کچھ ہم سے کھو گیا بلکہ اب ان پرندوں میں کوئی نظر بھی نہیں آتا سوائے ان پرندوں اور کبوتروں کے جو روضہ مقدس کے اوپر اپنے لئے جائے پناہ بنائے ہوئے ہیں۔
یہاں کا صحرا پچھلے سالوں میں موسمِ خزاں بہار اور موسمِ سرما کے اواخر میں پرندوں اور دوسرے جانوروں سے پُر ہوتا تھا بلکہ کبھی کبھار یہ پرندے دریائے فرات کے کنارے آجاتے تھے اور اسی فضا میں اڑتے رہتے تھے اور گروہ در گروہ یہاں اُترتے تو رنگ برنگ پرندوں سے دل خوش اور آنکھیں خیرہ ہوجاتی تھیں۔
عراق کے حجاج قافلوں کے صورت میں اسی ٹیلے سے گزرتے تھے اوریہیں بعض اوقات ٹھہرتے بھی تھے اور پھر مقامات مقدسہ کی جانب جاتے تھے خانہ کعبہ، اور بیت المقدس کو جائے پناہ قرار دیتے تھے۔
یہ صحرا موسم بہار، خزاں اور موسم سرما کے اواخر میں مختلف صحرائی پرندوں اور حیوانات سے پُر ہوتا تھا کبھی کبھار تو یہ پانی اور خوراک کی تلاش میں دریائے فرات کے کنارے پہنچ جاتے تھے جو یہاں کی فضا میں اڑتے نظر آتے تھے اور جھنڈ کے جھنڈ باہر سے آئے ہوئے پرندے یہاں کی زمین پر اترتے تھے تو مختلف خوبصورت رنگوں سے اچھا منظر بن جاتا تھا۔
نجف سے مراد صرف وہ ٹیلہ نہیں ہے جہاں روضہ مقدس موجود ہے بلکہ پوری پہاڑی اور ندی جو کہ بحر نجف سے موسوم ہے التہذیب اور القاموس اللسان، التاج جیسی لغت کی کتابوں میں نجف کے معنی کوفہ کے باہر کی وہ جگہ ہے جو سیلاب کے پانی کو مکانات اور قبروں تک پہنچنے سے روکتی تھی اور پہاڑی کا عرض زیادہ سے زیادہ دس کلومیٹر جبکہ لمبائی سو کلو میٹر سے زیادہ نہیں تھی اور بعض نے یہ بھی کہا ہے کہ نجف کا نام اس لئے غالب آیا ہے کیونکہ یہ یہاں کی زمین کوفہ کی جانب جانے والے پانی کو روکتی تھی گویا یہ ڈیم کی مانند تھی اور لغت میں جف دراصل اسی کو کہا جاتا ہے زبیدی نے اپنی کتاب ''التاج'' میں لکھا ہے'' اسی کے قریب امیر المومنین علی ابن ابی طالبـکا مرقد مقدس ہے ''اور یہاں جزپراسم غالب آیا ہے جہاں روضہ مقدس کی وجہ سے شہر بن گیا۔ بعد ازاں یہاں کی مٹی مسلمانوں کی مقدسات میں شامل ہوگئی۔
ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب اور ڈاکٹر موسیٰ العطیة نے اپنی کتاب نجف کی زمین میں نجف کبریٰ کی جغرافیائی حدود کی نشانی ہے پس ڈاکٹر حسن حکیم نے اس کے حدود میں تیس نشانیوں کا ذکر کیا ہے۔
ڈاکٹر عطیہ نے اکسٹھ نشانیوں کا ذکر کیا ہے کہ نجف کی پہاڑی وہ جز ہے جسے کربلا بھی کہا جاتا ہے اور اس کی قدامت کے حوالے سے ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ بعض نصوص قبل مسیح کے عہد کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
جیسے بادشاہ بخت نصر ۵۵۰ ق م نے اپنے لئے باغ اور قلعہ بنایا تھا بعد ازاں عرب کے قبائل آہستہ آہستہ وہاں جمع ہونا شروع ہوئے۔ مگر ڈاکٹر عطیہ نے سابق الذ کر کتاب میں لکھا ہے کہ یہاں دریائے فرات نے ایک سے زیادہ مرتبہ اپنی جگہ تبدیل کی ہے اور اس کی سب سے پہلی گزرگاہ آج سے تین لاکھ سال قبل بحر نجف تھا۔
بحر النجف
یہاں بحر سے مراد سمندر نہیں ہے بلکہ وہ نچلی سطح کی جگہیں ہیں جہاں دریائے فرات اور دوسری نہروں سے پانی آکر جمع ہوجاتا ہے اس حوالے سے شیخ محمود ساعدی نے الموسوعة میں بحر النجف کے موضوع پر تفصیل سے گفتگو کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ چھوٹا سمندر اس وقت خشک ہو گیا تھا جب عبدالغنی نے ۱۳۰۵ھ بمطابق ۱۸۸۸ ء کو دریائے فرات کے ان تمام جگہوں کو بند کیا تھا جہاں سے پانی نکلتا تھا اور بعد ازاں یہ بند بادشاہ عبدالحمید سے منسوب ہونے کی وجہ سے الحمیدیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ اور پھر وہاں سے کشتیوں کے بہت سارے ٹکڑے بھی دریافت ہوئے تھے جو زمانہ قدیم میں وہاں ڈوب چکے تھے۔
یہ چھوٹا سمندر پانی کی مقدار کے حوالے سے کافی مدوجزر سے گزرا ہے یعنی کبھی پانی کم ہو کر خشک ہوگیا تو کبھی پانی اتنا بڑھ گیا کہ اس پہاڑی کے کناروں پر اپنے آثار چھوڑ جاتا اور جب پانی کم ہو کر ختم ہوجاتا تو بڑے بڑے لمبے ڈھلوان بن جاتے تھے جن کی لمبائی پانچ سے پچاس میٹر تک ہوتی تھی جسے الطارات کے پہاڑ کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر حسن حکیم نے بھی اپنی سابق الذکر کتاب میں لکھا ہے کہ نجف کی یہ جگہ السیداور ابی جدعان کی پہاڑی کے نام سے مشہور تھی اور۱۳۳۶ھبمطابق ۱۹۱۸ ء کو انگریزوں نے اس پہاڑی کو استعمال کیا جب شہر نجف پر ان کا قبضہ تھا اور ان کا قبضہ بعد میں ابی جدعان کی پہاڑی تک پھیل گیا تھا۔
ڈاکٹر حسن حکیم نے ارضیات کے حوالے سے لکھا ہے کہ یہ چھوٹا سمندر دوسرے چھوٹے بڑے تالاب سے ملکر پھیل چکا تھا۔ یہاں تک کہ مدینہ ابی صخیرمشخاب اور مدینہ شنافیہ تک پہنچا تھا۔ جسے شیخ ساعدی نے ذکر کیا ہے پھر یہ خلیج تک پہنچ چکا تھا اور ان وادیوں سے مل چکا تھا جو واسط سے بصرہ تک پھیلا ہوا ہے ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ عمران بن شاہین نے ان وادیوں پر کیسے قبضہ کیا، وہ اور اس کے خاندان نے سات دہائیوں سے زیادہ کیسے حکومت کی؟
مسعودی نے اپنی کتاب ''مروج الذھب ''میں اور ڈاکٹر مصطفی نے ''موسوعہ عتبات مقدسہ ''میں اس حوالے سے لکھا ہے کہ دریائے فرات نے سینکڑوں مرتبہ حیرہ نامی جگہ کو ختم کیا ہے اور اس میں نہر کی نشانی آج تک موجود ہے جو کہ اسی سمندر یعنی نجف کے سمندر میں گرتی تھی اور اس زمانے میں یہاں تک چین اور ہندوستان کی کشتیاں آتی تھیں اور اس کو عبدالواسع بن عمرو بن بقیلة الغسانی نے حضرت ابو بکر کے دور میں جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ کو اس حوالے سے کیا یاد ہے تو انہوں نے کہا کہ مجھے یہ یاد ہے کہ یہ ان قلعوں کے پیچھے چین کی کشتیاں آکر رکتی تھیں۔ لیکن جب اس جگہ سے پانی ہٹ گیایہ پھر کا فی عرصہ تک لوگوں کے لئے راستہ بن گیا جس کے نشانات تاحال موجود ہیں۔
اس کے بعد انہوں نے کہا کہ ہم یہ تصدیق کرسکتے ہیں کہ وہاں حقیقت میں سمندر نہیں تھا بلکہ ہم یہی سمجھتے ہیں کہ دریائے فرات کا پانی ابھر کر آتا تھا اور وہاں کی وادیوں اور جو خندق سابور ذوالا کتاف نے ۳۱۰۔ ۳۸۰ م میں کھودی تھی میں گرتی تھی تو یہ وادیاں اور خندق مل کر ایک سمندر نما بن چکا تھا اور ڈاکٹر مصطفی کے مطابق یہ سمندر جا کر خلیج تک مل جاتا تھا اور بیسویں صدی سے قبل خلیج واقعاً آکر نجف تک مل جاتا تھا۔
اور یہاں پر ناجی وداعہ نے بھی اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے لکھا ہے کہ دریائے فرات کے جنوب مشرق میں جو نچلی جگہ تھی جسے القرنة اور دوسری نچلی جگہ جو اس سے زیادہ دور نہیں تھی المدلک کے نام سے مشہور تھی اور ان دونوں جگہوں کے درمیان ایک اور جگہ تھی جسے الفتحہ کہا جاتا تھا اور دریائے فرات کی وجہ سے ان تینوں جگہوں کو کافی فائدہ ملا ہے اور حیرہ اور نجف بھی انہی سے متصل تھی اسی وجہ سے اسے بحر نجف کہا گیا۔ اس کے فوراً بعد جعفر خلیلی نے ڈاکٹر مصطفی کے مضمون کے ذیل میں کہا کہ اسی کو ایک یورپین سیاح ( MR. BARLOW )نے بھی۱۳۰۹ھ بمطابق۱۸۸۹ ء دیکھا تھا وہ کہتا ہے کہ اسے نہر ہندیہ کہا جاتا تھا جو دریائے فرات کے دائیں جانب بہتی تھی اور فرات اس کے آدھے حصے کو شامل کرتا تھا پھر مغرب کی جانب کربلا کو چھو جاتا تھا اور بابل کے ٹیلوں کو مشرق کی جانب چھوڑتا تھا۔ پھر اس طرح شہر نجف تک پہنچتا تھا اور وہاں گرتا تھا جسے بحر نجف کہا جاتا تھا جس کی لمبائی ۶۰ میل اور چوڑائی ۳۰ میل تھی۔ اس کے بعد( MR. BARLOW )کتاب ''وادی فرات اور ہندی ڈیم کا منصوبہ'' سے نقل کر کے لکھتا ہے کہ یہ ڈیم ۱۳۰۵ھ بمطابق۱۸۸۷ ء میں بنا تھا جب سے اس سمندر میں پانی آنا بند ہوگیا تو پھر کشتیاں کوفہ کی جانب جانا شروع ہوئیں اسی لئے اسے مبدا کوفہ کہا جاتا تھا۔
خلیلی نے بھی کہا ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ڈیم بننے کے بعد یہ جگہ قابل کاشت بن گئی اور طرح طرح کے پھل فروٹ کھجور وغیرہ لگے ہوتے تھے کہ اچانک بند ٹوٹ گیا تو تمام کھیتیاں ، باغات تباہ و برباد ہوگئیں اور ایک مرتبہ پھر سمندر بن گیا اور تقریباً چالیس سال قبل بحر نجف آخری مرتبہ خشک ہوا تھا کیونکہ ڈیم کو جدید انجینئرنگ کی مدد سے جدید طریقے سے تعمیر کیا گیا تھا۔
یہ پہاڑی کا ٹیلہ دوسرے ٹیلوں سے اس لئے بھی نمایاں تھا کہ اس کے احاطے میں سمندر' خشک آبادی' صحراء اور بڑے بڑے کھجور کے باغات تھے جو شہر بصرہ تک پھیلے ہوئے تھے اور اس کا ریگستان جزیرة العرب تک پھیلا ہوا تھا یہ موسم بہار میں سیرو تفریح، شکار کیلئے مناسب تھا حج کے موقع پر یہ لوگوں کیلئے آرام گاہ بن جاتی تھی اور یہاں کی پاک و صاف آب و ہوا کی وجہ سے لوگ وبائی امراض سے بھاگ کر یہاں آتے تھے اس حوالے سے ایک واقعہ ابن عساکر نے تاریخ دمشق میں ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ قاضی شریح وبائی امراض سے بھاگ کر یہاں آئے تھے تو جب وہ یہاں نماز پڑھنے لگے تو ان کے سامنے ایک لومڑی آکر کھیلنے لگی یہاں تک کہ ان کی نماز سے توجہ ہٹ گئی۔ ڈاکٹر مصطفی نے اس حوالے سے اشعار عرب کا بھی ذکر کیا ہے کہ یہ جگہ تفریح گاہ تھی دریائے فرات میں جب پانی بڑھ کر طغیانی آجاتی تھی تو لوگ یہاں آکر پناہ لیتے تھے۔
جب دریائے فرات اور دجلہ وسط عراق کے جنوب کی وادیوں سے ٹھاٹھیں مارتا گزرتا تھا تو مختلف چھوٹے چھوٹے سمندربنتے تھے جیسا کہ شہر عمارہ، ناصریہ، بصرة کے قریب الاھوار تھا اور یہ چھوٹے چھوٹے سمندر وہاں کے لوگوں کا بڑا ذریعہ معاش تھے کیونکہ یہاں طرح طرح کی مچھلیاں اور پرندے پائے جاتے تھے۔
مرقد مقدس کی جگہ کی نشانیاں
نجف میں جو پہاڑی تھی وہ اتنی کشادہ نہیں تھی بلکہ بعض جگہوں پر کچھ چھوٹی چھوٹی چوٹیاں بھی تھیں عربوں کی یہ عادت تھی کہ صحرامیں جو بھی بلند ڈھلوان ہوتی تھی ان کے مختلف نام رکھنا ان کی جغرافیائی ثقافت میں شامل تھا اگرچہ ان تمام ٹیلوں کے نام محفوظ نہیںہوسکے۔ یہاں تک کہ روضہ مقدس کے اردگرد جو ٹیلے تھے ان کے نام بھی ہم تک نہیں پہنچے جب روضہ علی کا یہاں تعیّن ہوا تو یہ ٹیلہ مرکز توجہ بنا اور اس کے طبیعی خواص بھی بیان ہوئے پتہ چلا کہ یہاں سیاہی مائل کنکریاں مختلف شکلوں میں پائی جاتی ہیں جو کہ مقدس پتھروں میں شمار ہوتی ہیں جسے دُرِ نجف کہا جاتا ہے اس کے عناصر ڈاکٹر موسیٰ العطیہ نے اپنی کتاب ارضِ نجف میں یوں بیان کئے ہیں کہ جب ان پر سورج کی شعاعیں پڑتیں تو چمک اٹھتا جیسے کہ اس میں آگ بھڑک رہی ہو۔ خاص طور پر جب ان پر بارش پڑ تی تو اسے انڈے کا ایندھن کہا جاتا ہے۔
لیکن جب مرقد روضہ بن گیا تو اس کے آس پاس لوگ رہنے لگے جوں جوںلوگ وہاں پھیلتے گئے تو اس ٹیلہ پر بھی لوگوں نے رہائش بنانا شروع کی۔ پھر وہاں لوگوں نے اپنی شخصیات اور قبائل کے نام ان ٹیلوںپر رکھنے لگے۔ پس ان میں کسی کا نام ''جبل شرف شاہ ''جو روضہ کے جنوب کی جانب محلہ العمارہ میں واقع ہے اور یہ سید عز الدین ابی محمد شرف شاہ کی طرف منسوب ہے آپ مرقد مقدس کے مجاور اور اعلیٰ پائے کے محدث تھے اور۵۷۳ھبمطابق۱۱۷۷ ء میں حدیث بیان کرتے تھے ان کی اسی ٹیلے پر رہائش تھی لہٰذا انہی کے نام سے وہ ٹیلہ منسوب ہوا ۔
دوسرا ٹیلہ ''جبل نور ''کے نام سے مشہور ہے یہ روضہ مقدس کے جنوب مشرق میں محلہ البراق میں واقع ہے اور اس کے ایک طرف شیخ طریحی کی مسجد اور ان کا مقبرہ ہے جو ان کے گھر میں ہی واقع ہے۔
تیسرا ٹیلہ ''جبل الدّیک ''ہے یہ روضہ مقدس کے شمال میں محلہ المشراق میں واقع ہے شیخ محمد حسین حرز الدین کے مطابق یہ ایک نجفی آدمی کی طرف منسوب ہے ۔
ان ٹیلوں کے حوالے سے مزید تفصیلات نجف کا ماضی اور حال' تاریخ نجف' نجف اشرف علم و ثقافت کا شہر اور دوسری کتابوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔
پہاڑی کے آثار
چونکہ یہ پہاڑی جنوب میں حیرہ نامی جگہ کی طرف مشرق میں کوفہ کی طرف اور شمال میں کربلا کی طرف پھیلی ہوئی تھی لہٰذا بادشاہوں نے یہاںمحل اور قلعے بنائے۔ بعد ازاں ان کے آثار مختلف صدیوں تک باقی رہے لیکن آج کل کے جدید تحقیقی دور میں ان کی زیادہ اہمیت نہیں کیونکہ اب تو نشانیاں بہت ہو گئی ہیں اور قوم اس کی تاریخ کے کچھ حصوں کو کھو چکی ہے لہٰذا ہم اسے باریک بینی کے ساتھ بیان نہیں کرسکتے۔ کیونکہ میرے خیال میں اس کا زیادہ حصہ اس شہر کے سائبان میں شامل ہوگیا ہے جو شہر کوفہ سے متصل ہے اور شہر حیرہ سے ملنے والا ہے بہرحال تاریخ اسلام اور خاص طور سے تاریخ عراق میں اس کی بڑی اہمیت ہے۔
وہ جگہیں جہاں محلوں ' قلعوں، دکانوں ، گھروں کا ذکر کیا ہے یہ ہیںمحمد سعید الطریحی نے کوفہ اور اس کے مضافات میں نصرانیوں کے گھر اور مقامات، شیخ محمد حسین حرزا الدین نے اپنی کتاب نجف اشرف کی تاریخ ڈاکٹر حسن الحکیم کی کتاب نجف اشرف کی مفصل تاریخ میں ان کا ذکر کیا ہے یہ تمام روضہ کے دائرے میں داخل نہیں ہوتے اور نہ روضہ کے قریب ہیں اور نہ پرانے شہر کے دائرے میں داخل ہوتے ہیں جو شروع کے دور میں روضہ سے ملحق تھا اور اس کی لمبائی تین کلو میٹر سے زیاہ نہیں تھی اور زیادہ سے زیادہ شہر حیرہ اور کوفہ کے قریب تھے اور امام کے شہر اور روضہ کے دائرے میں داخل نہیں ہوتے تھے۔
مثلاً قصرِخورنق حیرہ میں واقع تھا اور قصرِعُذیب اورصنبر کوامرئو القیس بن النعمان نے فرات کے قریب سیرو تفریح کی غرض سے بنایا تھا۔ سفید محل جو کہ قصرِ ابیض اور قصرِ فرس الحیرہ کے محلوں میں سے تھا۔ اسی طرح قصر زوراء کا محل جسے نعمان بن منذر نے بنایا تھا اورقصرعدسیین کا محل جو کہ بنی عماد بن عبدالمسیح بن قیس الکلبی کا تھا یہ تمام کوفہ میں الحیرہ کی جانب واقع تھے بہرحال جب شہر حیرہ۔ کوفہ، نجف پھیلنا شروع ہوئے تو آپس میں ملنے کی وجہ سے وہ تمام آثار مٹ کر ختم ہوچکے ہیں ۔نجف تو آج کل کربلاء کے نزدیک تک پھیل چکا ہے۔
چرچ، خانقاہیں اور دکانیں
شہر حیرہ اور اس کے عیسائی پھیلے تو وہاں چرچ اور خانقاہیں بھی پائے جانے لگے جن میں بعض کے نام تاریخ کی کتابوں میں موجود ہیں۔
اس حوالے سے استاد محمد سعید الطریحی نے۱۹۸۱ ء میں ایک کتاب بیروت میں اسی موضوع پر چھپوائی ہے جس کا نام ''کوفہ میں نصرانیوں کے گھراور خانقاہیں'' ہے جس میں انہوں نے حیرہ کی تاریخ اس کی تاسیس اور فتح ہونے کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے اور کوفہ کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ شہر سریانیہ کے ٹکڑوں پر بنا ہے جسے عاقولا کہاجاتا تھا جیسا کہ میں اپنی کتاب ''وما ادراک ماعلی''یعنی تمہیں کیا معلوم کہ علی کیا ہے ؟ میں ذکر کیا تھا کہ میرے خیال کے مطابق کوفہ دراصل لکوثی یا کوثی سے معرب ہے اور یہ ایک شہر تھا کہا جاتا ہے کہ حضرت ابراہیمـ کی ولادت اسی شہر میں ہوئی تھی خاص طور سے یاقوت نے اپنی معجم میں اس کا ذکر کیا ہے کہ یہ بابل کی سرزمین میں واقع ہے جو کوفہ سے زیادہ دور نہیں ہے اور اگر ان کی ولادت یہاں ہونا صحیح ہو اور اس کی نسبت بھی صحیح ہو تو ممکن ہے کہ اس کا نام اس کے قرب و جوار پر بھی غالب آیا ہو اور اس کی نسبت بھی صحیح ہو تو پھراس کا ''ثائ''، ''فائ'' میں تبدیل ہوچکا ہو ایسا عربی زبان میں اکثر ہوتا رہتا ہے اور آخر میں اسکا ''الف '' ،''ھائ'' میں تبدیل ہوا ہو اور اسی طریقے سے ان کے مسلمان ہونے میں بھی یہی دلیل ہے کیونکہ ان کے گھر اس گھر کے قریب تھے جہاں رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے دادا کی پیدائش ہوئی تھی ا ور یہ بھی ہم نے اپنی سابقہ کتاب میں یاقوت کے معجم سے ذکر کیا ہے کہ ایک دفعہ امیر المومنین سے قریش کے اصلیت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا کہ ہم کوثی سے مخلوط لوگ ہیں۔
مگر جہاں تک اس نسبت کا تعلق ہے العاقول یا عاقولا کی طرف ہونا یا اس کا اسم کوبا سے بمعنی العاقول سے تحریف شدہ ہے یہ خیال میں نہ آنے والی بات ہے لیکن کبھی یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ کوثی میں ٹھہرے تو اس کا مطلب اس کے نزدیک ہونا ہے لیکن ان کی منزل وہ نہیں ہوتی مگر یہ اس پر غالب آگیا۔ جیسا کہ اسم نجف اس ٹیلہ پر غالب آیا جو امام سے مشرف ہوا حالانکہ وہ اس کا ایک جزء تھا۔
اگر کوئی مذکورہ کتب ڈاکٹر مصطفی جواد کا مقالہ اور اس سے متعلق کتابوں کا ملاحظہ کرے تو پتہ چلے گا کہ وہ محل، خانقاہیں اور گھر جو نصرانیوں کے ہیں یہ تمام روضہ مقدس کے دائرہ میں واقع نہیں اور نہ ہی اس کے قریب ہیں بلکہ یہ سب حیرہ یا کوفہ یا ان دونوں کے گرد و نواح میں واقع ہیں ہاں ان میں زیادہ حیرہ ہی میں واقع ہیں اور زمانے کے دست و برد کی وجہ سے تاریخ عراق اور آثار کے ساتھ ان کے نشان بھی مٹ چکے ہیں۔
مثلاً أکیراح جو چھوٹے چھوٹے قبے تھے یا راہبوں کے مکانات کوفہ کے درمیان یا حیرہ میں واقع تھے اور خانقاہ حریق بھی حیرہ میں تھی اور اسی طرح سے خانقاہ اسکون نجف کی جانب اوپر کی طرف روضہ مقدس کے نزدیک واقع تھی اور خانقاہ حنّہ جو کہ حیرہ کے پرانی خانقاہوں میں شمار ہوتی تھی خانقاہ ابن مزعوق شاشتی کے مطابق حیرہ کے وسط میں واقع تھی جبکہ یاقوت کہتا ہے کہ وہ اس سے باہر واقع تھی۔ خانقاہ مارت مریم یہ یاقوت کے مطابق آل منذر کے اولادوں کی پرانی خانقاہوں میں شمار ہوتی تھی جو حیرہ کے اطراف میں خورنق اور سدیر نامی جگہوں کے درمیان واقع تھی اور حنّة الکبیر کی خانقاہ جو کہ حیرہ اور کوفہ کے درمیان واقع تھی اسی طرح خانقائے ہند صغریٰ، خانقائے ہند کبریٰ، خانقائے اللج، خانقائے حنظلہ وغیرہ تمام حیرہ یا اس کے اطراف میں واقع تھیں۔ ان تمام خانقاہوں کو ڈاکٹر مصطفی جواد اور محمد سعید الطریحی نے بیان کیا ہے ان کے بعد ڈاکٹر حسن الحکیم نے وہاں کل ۳۲ خانقاہوں کا ذکر کیا ہے۔
یہاں یہ بھی بیان کرنا مناسب ہے کہ ظہر کوفہ سے مراد وہ علاقہ جس کی حدود کا تعین کرنا قدرے مشکل ہے اس حوالے سے یاقوت نے اپنی معجم میں کہا ہے کہ منذر بن نعمان کے گھر میں حیرہ، نجف، خورنق ، سدیر ، غریاں اور تفریحی مقامات اور خانقاہیں سب شامل ہیں اور قبر امیرالمومنینـ بھی بعض کے نزدیک اسی میں شامل ہوتی ہے اور ان میں بعض جگہیں تو بہت سارے صحابہ اور تابعین (جو کوفہ میں رہتے تھے )کا مدفن بن چکی تھیںجو اس سے باہر حنانہ نامی جگہ کی جانب ہے لیکن آج کل وہاں صرف کمیل ابن زیاد نخعی کی قبر کے علاوہ کسی صحابی اور تابعی کی قبر موجود نہیں ہے۔
اسکے بعد ڈاکٹر مصطفی نے وہاں کچھ دکانوں کا ذکر بھی کیا ہے لیکن ان میں سے کوئی روضہ مقدس کے دائرے میں شامل نہیں۔جیسا کہ عون کی دکان، دومتہ کی دکان، جابر کی دکان، خانہ شھلاء یہ تمام حیرہ میں واقع ہیں اور وہ بعض جگہ کھیل تماشوں کے لئے بھی میدان تھے اور ہم نے دیکھا کہ اس میدان میں ابونواس ، حماد عجرد والبہ بن الحباب وغیرہ بصرہ اور کوفہ کے مزاح نگاروں میں شامل ہوتے تھے۔
یہ تمام ہم نے یہاں اس لئے ذکر کیا ہے کہ امام نے جب اپنے لئے مرقد اختیار کیا تو بڑے غورو فکر کے ساتھ اختیار کیا تاکہ ہرقسم کے شورو غل دور رہے۔