ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 21803
ڈاؤنلوڈ: 3921

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21803 / ڈاؤنلوڈ: 3921
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

علمائے شیعہ کی روایات میں آپ ـکا مرقد شریف

امام علی کی مرقد اور روضہ مقدس کے حوالے سے شیعوں کے ہاں بہت ساری روایات ملتی ہیں۔ جن میں بعض حقیقت کے قریب ہیں تو بعض حقیقت سے نہ صرف دور ہیں بلکہ حقیقت کے ساتھ کوئی واسطہ ہی نہیں ہے اور بعض میں ایسی حقیقت ہے جن کے اوپر شک و شبہ کی گنجائش نہیں کچھ ایسی روایات بھی ہیں جنہیں علمی بحث کے ذریعے اخذ نہیں کرسکتے اس لئے کہ انہیں صرف جذباتی محبت اور غیبی روحانیت کے چوکھٹے میں وضع کیا گیا ہے اور ایسا ہونا اس دنیا کے اندر مقدس جگہوں کیلئے کوئی تعجب کی بات نہیں۔ کیونکہ یہاں لوگ مختلف کہانیاں گھڑتے ہیں اور اس میں غلو سے کام لیتے ہیں اور اسی طرح ایسی بھی کہانیاں وجود میں آتی ہیںجو حقیقت سے کوسوں دور ہیں۔ اس حوالے سے ہمارے پاس مکہ مکرمہ ، مدینہ منورہ ، بیت المقدس وغیرہ سے متعلق قصص و کہانیاں بہترین مثال ہیں جو کہ وہاں بہت سارے انبیائ٪ کا مسکن قرار دینا یا وہاں سے گزرنا یا ان کے وہاں مدفن کی طرف اشارہ کرتی ہے اور ہم نے اس حوالے سے مسجد بصرہ اور مسجد کوفہ سے متعلق بھی بہت ساری کہانیاں پڑھیں تو ہم حیران ہوئے کہ یہ دونوں بھی تاریخ کی بڑی مسجدوں میں شمار ہوتی ہیں۔

یہاں پر ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب تاریخ نجف میں وادی السّلام اور نجف کے مراقد مقدسہ کو خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا ہے جس میں انہوں نے پہلے باب میں حضرت آدمـاور حضرت نوحـ کی قبروں اور ان دونوں قبروں کے درمیان امام علیـکے دفن کے بارے میں روایات کو بیان کیا ہے اور اس ضمن میں حضرت ہودـاور حضرت صالحـکی قبروں کو وادی السّلام میں بیان کیا ہے جبکہ اسی کتاب کے دوسرے باب میں اہل بیت ٪کی بعض ذریت کی قبروں اور بعض صحابہ کرام کے امام کی روضہ مقدس کے احاطے میں دفن ہونے کا ذکر کیا ہے اور اسی میں بعض آئمہ٪کے مقامات جنہوں نے نجف کی زیارت کی ہے جیسے مقام امام زین العابدینـاور امام جعفر صادقـاور اسی مقام پر امام مہدیـکا تذکرہ کیا ہے۔

اور آخر میں انہوں نے کچھ ایسی روایات کا ذکر کیا ہے جو سر مبارک امام حسینـکے اپنے بابا علی مرتضیٰـکے سر کے قریب دفن ہونے کو بیان کرتی ہیں۔اس حوالے سے کچھ روایات سر امام حسینـ کربلا یا شام یا عسقلان یا مصر یا دوسرے علاقوں میں دفن ہونے کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان تمام کے باوجود شیعہ روایات کہتی ہیں کہ سر مبارک بالآخر آپـکے جسم مبارک سے ملحق ہوا تھا ڈاکٹر صاحب سرِامامـ نجف میں دفن ہونے کی روایات کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔

تاریخ کے کچھ محدثین کی ملاوٹ کے باوجود جس سے میں اپنے آپ کو بری کرتا ہوں آخرکار حقیقت سامنے آہی گئی جسے ایک باغی گروہ نے چھپانے کی حتی المقدور کوشش کی تھی جس کیلئے انہوں نے مختلف طریقے استعمال کئے بالآخر ننگ و عار اور نقصان انہی کو ہوا۔ عالم انسانیت کمام کا نور اور فکر دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا جبکہ آپ کے مخالفوں کی قبروں کو تاریخ نے کوڑ ے دان میں ڈال کے رکھ دیا اور آپ کی روضہ مقدس کا مینارہ بلند ہے اور آپ کے چاہنے والے اسے بلند سے بلندتر کرتے جارہے ہیں۔

امام کے مرقد شریف کے موضع کے بارے میں جو قابل بھروسہ کتاب کہ جس کے بارے میں بالکل یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں تو سید ابن طائوس کی کتاب ''فرحتہ الغری'' ہے اگرچہ اسکے بارے میں اشارہ ہوچکا ہے مولف محترم نے اس میں زیادہ تر ان روایات کو بیان کیا ہے جو علماءے اہل بیت اور دوسروں کی کتابوں سے لئے گئے ہیں۔ بعد میں آنے والے علماء نے ان پر پورا پورا اعتماد کیا ہے یہ کتاب دو مرتبہ نجف اشرف میں چھپ چکی ہے۔

یہاں میں یہ یاد دلانا چاہتا ہوں جس کی طرف میں نے اشارہ کیا تھا کہ بہت ساری تاریخی روایات بعض اوقات بغیر کسی تحقیق کے ساتھ نقل کی جاتی ہیں بعض دفعہ ہوتا ہے کہ راوی یا مولف اپنے من پسند معیارات کے مطابق اچھی یا بری نیت کے ساتھ روایات کو کہیں گھٹا کر تو کہیں بڑھا کر بیان کرتے ہیں۔ بعد ازاں دن گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ روایات اپنی اصلی صورت سے کوسوں فاصلہ پر ہوتی ہیں اس بناء پر یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ بہت سارے مصادر میں ایک روایت ہمیں ایک شکل میں ملتی ہے تو وہی روایت دوسرے مصادر میں دوسری صورت میں نظر آتی ہے اس میں بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ روایت کی پوری نص متغیر ہوتی ہے اور کہیں زیادہ ہوتی ہے تو کہیں کم اور کبھی کبھار روایت کے معنی تبدیل ہورہے ہوتے ہیں اور مولف کو اس چیز کا شعور بھی نہیں ہوتا۔ اسی طرح کی تبدیلی جب آگے بڑھتی ہے تو ایک وقت ایسا آتا ہے کہ روایت کا اصل سے کوئی تعلق ہی نہیں رہتا۔ لیکن بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ ایک روایت مختلف راویوں کے مختلف انداز سے نقل کرنے کی وجہ سے کئی روایتیں بن جاتی ہیں اس طرح بہت ساری تاریخ کی کتابوں کا ہونا عام سی بات ہے۔

کبھی کبھار ایک راوی ایک روایت لکھتے وقت تعصب کا شکار ہوجاتا ہے اور اسے درایت کا کوئی علم نہیںہوتا اور سب سے آخری راوی اپنی شخصیت کو قرار دیتا ہے لیکن تھوڑی تبدیلی کے ساتھ۔

اس موضوع کو چھیڑنے کا مقصد یہ ہے کہ ہر سمجھدار آدمی کے لئے یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ ایسا ہی خاص طور سے ان روایات کے ساتھ بھی ہوا ہے جو مرقد امامـکے حوالے سے تاریخ کی کتابوں میں ہمیں ملتی ہیں ان میں کوئی تخصیص نہیں چاہے مورخ علماءے اہل بیت٪ میں سے ہوں یا اصحاب حدیث میں سے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں ان لوگوںکا نام لیا ہے۔

اس حوالے سے صفوی اور عثمانی حکومتوں کی گروہی سیاسی چپقلش بھی شامل ہے کہ ان میں ایک دور ایسا بھی آیا تھا کہ کبھی کبھار ایک بھائی اپنے دوسرے بھائی کے پاس موجود چیزوں کی طرف صرف دیکھنا بھی گوارہ نہیں کرتا تھا اس طرح میرا نہیں گمان ہے کہ ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایہ والنہایة میں غیر مسلم گروہوں پر اعتراض کیا ہو جتنا انہوں نے شیعوں پر اعتراض کیا ہے پس شیعہ ان کے نزدیک جاہل ، جھوٹا، گمراہ اور غلطی کرنے والا فرقہ ہے اور ان کی روایت ضعیف، متروک، موضوع، ساقط، بغیر اہمیت کی حامل روایت ہیں اس طرح کے عمل میں اور دوسروں نے بھی اسلام اور مسلمانوں پر مہربانی دکھانے کے لئے اپنے بال سفید کئے ہیں۔ جس کا نتیجہ اسلامی تاریخ کے واقعات میں تبدیلی، حقیقت سے دوری اور ان کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔

مرقد امیرالمومنینـکا پوشیدہ ہونا وجہ جو بھی ہو لیکن دسیوں سوالات اٹھتے ہیں جن کے صحیح جوابات دینے کیلئے جد وجہد اور کوشش کی ضرورت ہے۔ یہ کوشش کبھی کبھار جا کر ایک حکایت پر ختم ہوجاتی ہے۔

مثلاً اگر کوئی خبر اہل بیت یا ان کے قریب ترین اصحاب میں پھیل جائے کہ امامـ ظہر کوفہ میں دفن ہوئے ہیں پس یہ خبر فوراً اخبار میں تبدیل ہو جاتی ہے پس ظہرکوفہ ایک وسیع منطقے پر محیط ہے اورہر خبر یہ کہتی ہے کہ امام ایک صالح ٹیلہ میں دفن ہوئے ہیں اور ان ٹیلوں میں ثویہ کوفہ بھی ہے اور بعد ازاں لفظ ظہرحذف ہوا اور صرف لفظ کوفہ باقی رہ گیا پھر اس کے بعد نقل ہونے والی اخبار میں یہ کہ ''دفن فی الکوفہ''یعنی آپ کوفہ میں دفن ہوئے بعد میں آنے والے لوگوں کا ذہن اسی جگہ کو ماننے کو ترجیح دے گا۔

پس امام کا دفن قصر امارہ کے پاس یا اس کے اندر یا اس کے قریب یا جامع مسجد کے قریب یا آل جعدہ کے نزدیک کسی حجرے وغیرہ میں ہونا واقع ہوتا ہے اب ممکن ہے اس میں بہت ساری روایات بن جائیں اور مورخین چاہے تو ان کو اصلی صورت کی طرف موڑدیں اور اگر چاہیں تو اس طرف موڑ دیں جدھر انہیں اچھا لگے اور ان روایات میں سے جسے یہ مشکل سمجھے وہاں وہ '' قیل ''کہتا ہے یعنی کہا گیا اس کے علاوہ باقی جسے اس کا دل چاہے مسلمات قرار دے۔

اور اگر پوشیدہ والی روایت میں یہ اشارہ موجود ہو کہ جسد اقدس کو مدینہ کی طرف لے جایا گیا ہو تاکہ وہاںاپنی والدہ گرامی، چچا اور زوجہ محترمہ حضرت بتول کے قرب و جوار میں دفن ہوتو یہ بعید نہیں ہے کہ اس روایت سے بھی حکایت نہ لپٹی ہو۔ مثلاً نعش مدینہ تک نہیں پہنچی ہو اگر پہنچی ہو تو یہ خبر بھی چغل خوروں سے محفوظ نہ رہی ہو۔

اس کے معنی یہ ہیں کہ قافلے کے ساتھ نعش مبارک تھی صحرا میں وہ اونٹ کھو گیا جس پر نعش رکھی ہوئی تھی اور وہ قافلہ قبیلہ طی سے گزرا تھا تو یہ بھی بعید نہیں ہے کہ یہ خبر بھی حکایت سے محفوظ رہی ہو مثلاً کہ وہ وہاں ایک گروہ پہنچا۔ ان کے ساتھ ایک اونٹ پر نعش تھی اور وہاں دفن ہوئی تو کسی نے منع بھی نہیں کیا۔ در حالانکہ وہ انکے خاندان والوں کو جانتے بھی نہیں تھے اس طرح سے بہت ساری روایات واضح اور پوشیدہ تاریخ کے اندر موجود ہیں جسے دشمن اپنے مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہیں تو چاہنے والے غلو کے ساتھ حقیقت کو تبدیل کرکے رکھ دیتے ہیں لیکن جو حقیقت شناس تھے انہوں نے اپنے کانوں کو کھول کر حقیقت کو سننے کی فرصت دی یا جو روایات ان کے سامنے ہیں ان کو کھنگالا جو واقع سے قریب یا بعید ہیں اور سیاسی گروہی پردوں کو چھوڑ دیا۔ جاہل اور بے وقوف دشمنی میں یا دوسرے کے بغض میں باطل چیز کو ہی اٹھانے پر مصر رہتے ہیں۔

ان میں سے ایک روایت سید ابن طاوئوس نے قبر امیر المومنینـکے حوالے سے اپنی کتاب الفرحتہ میں نقل کی ہے جسے محمد بن عبدالعزیز بن عامر الدھان نے محمد بن حسن الجعفری کی سند سے روایت کیا ہے کہ اس نے کہا:میں نے اسے اپنے والد کی کتاب میں دیکھا جسے میری والدہ نے اپنی والدہ سے نقل کرتے ہوئے یوں مجھ سے بیان کیا کہ امام علیـنے اپنے فرزند حسنـسے چار قبریں چار مختلف جگہوں میں کھودنے کا حکم دیا مسجد میں ، رحبتہ میں ، غری میں اور جعدة بن ھبیرة کے مکان میں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ آپـکے دشمنوں کو قبر کے بارے میں معلوم نہ ہو۔

میرے حساب سے یہ روایت حقیقت سے زیادہ مطابق نہیں ہے کیونکہ جس نے اس کتاب الفرحتہ کی تحقیق کی ہے اس کے نزدیک اس میں راوی واضح نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ان راویوں کی وضاحت نہیںکی ہے لیکن جب میں نے تفریشی کی کتاب نقد الرجال میں محمد بن حسن بن عبداللہ الجعفری کی وضاحت دیکھی تو انہوں نے اس روایت کو فساد قرار دیا ہے اور اس کے مصدر نہ ہونے کی وجہ سے اسے ملعون قرار دیا ہے۔ میرا خیال ہے اس طرح کی اور بھی بہت ساری روایات ہیں جن کی وجہ سے خطیب بغدادی وغیرہ بھی شک میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ قبر امام کا موضع واضح نہیں ہے۔ پس اس طرح کی روایات میں ابہام، خواہش اور نقل کا زیادہ دخل ہے۔

اس موضوع پر ایک اور روایت طبری نے بھی اپنی تاریخ میں نقل کی ہے جو مرقد شریف کو مسجد الجماعة کے نزدیک قصر امارہ میں بتاتی ہے اب یہاں پر شاید سید ابن طاوئوس والی روایت کے راوی نے جب دیکھا کہ یہ خبر مخلوط ہے تو انہوں نے ایک مناسب روایت کو دیکھا جو ان تمام کو رفع کرے اس لئے نقل کی ہے۔

جن روایات کومیں نے دیکھا ہے جنہیں شیخ کاظم الحلفی نے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ امام نے اپنے چند مخلص ساتھیوں کو اپنے مشہد شریف کے بارے میں دکھایا جو زمین کے نیچے ایک سرداب میں تھی اور یہ جگہ تین حصوں میں منقسم تھی جہاں ایک جگہ نماز پڑھنے کے لئے مختص تھی جبکہ دوسرے حصے میں اپنے خاص شاگردوں کو درس دیتے تھے اور تیسرے حصے میں اپنے لئے قبر بنائی ہوئی تھی۔

لیکن اس روایت پر شیخ کاظم بھروسہ نہیں کرتے بلکہ یوں اشارہ کرتے ہیں کہ شاید یہ امام کی اپنی اولاد کے لئے وصیت ہو اور اس روایت کا کوئی مصدر ہے اور نہ کوئی خبر موثق تائید کرتی ہے تو کسی صورت میں اس پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

اور شیخ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب امام شہید ہوئے تو اہل بیت ان کو اٹھا کر مشہد معلوم پر پہنچے تو امام حسن نے نماز پڑھائی جبکہ آپ کے اہل بیت ،حبیب ابن مظاہر، حبہ بن جوین، اَصبخ بن نباتہ، کمیل بن زیاد، رشید الھجری، حجر بن عدی الکندی ، عمر بن الحمق الخزاعی، جویریہ بن مسھر العبدی وغیرہ نے اقتداء کی۔ لیکن اسے صعصتہ بن صوعان نہیں مانتے جبکہ شیخ صاحب اس پر بھروسہ نہیں کرتے اور اسے ارسال المسلمات قرار دیتے ہیں۔ بہرحال یہ روایت ایک ایسی خبر ہے جس کیلئے روایت معتبر تائید کرتی ہیںجن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

سید ابن طاوئو س نے اپنی کتاب الفرحة میں جہاں علمی اور معتبر روایتوں کو بیان کیا ہے وہاں کچھ پوشیدہ روایتوں کوبھی نقل کیا ہے جو بہرحال غوروتحقیق طلب ہیں انہی میں ایک روایت یوں ہے:

ایک دفعہ حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضر ت علیـسے فرمایا کہ اے علی!اللہ تبارک تعالیٰ نے ہم اہل بیت کی مودت کو زمین اور آسمانوں کے سامنے پیش کیا تو سب سے پہلے ساتویں آسمان نے جواب دیا تو خداوند عالم نے اسے عرش و کرسی سے سجایا پھر چوتھی آسمان کو بیت معمور سے مشرف کیا پھر دنیا کے آسمان کو ستاروں سے مزین کیا۔ پھر حجاز کی سر زمین کو بیت الحرام سے مشرف کیا پھر شام کی سرزمین کو بیت المقدس سے نوازا پھر طیبہ (مکہ )کی سر زمین کو میری قبر سے مشرف کیا پھر کوفان کی سر زمین کو یا علی! تیری قبر سے مشرف کیا۔

حضرت علی نے سوال کیا:یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میری قبر کوفان عراق میں ہوگی؟

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جواب دیا:ہاں اے علی!تجھے غریین اورذکوات بیض کے درمیان قتل کیا جائے گا اور تجھے اس امت کا شقی عبدالرحمٰن ابن ملجم قتل کرے گا۔

پس قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے نبی مبعوث فرمایاکہ اس کا عقاب ناقہ صالح کے قاتل سے زیادہ ہوگا۔

آپ نے علی ابن طحال کی روایت ملاحظہ کی جو قابل تدبر و تامل ہے اسی طرح بہت سی اور بھی روایتیں ہیں۔ اس طرح کی ایک روایت اصول کافی میں بھی ہے کہ جب امیر المومنینـ زخمی ہوئے تو آپ نے امام حسنـاور امام حسینـسے فرمایا کہ تم دونوں مجھے غسل و کفن اور حنوط دینا اور پھر میرے جنازے کی پائینتی والا حصہ تم اٹھانا اور سر کی جانب والا چھوڑ دینا۔

شیخ یعقوب کلینی جو کہ بزرگ علماءے شیعہ میں شمار ہوتے ہیں آپ نے تیسری چوتھی صدی ہجری کو بغداد میں وفات پائی۔ آپ نے اپنی سند سے ایک روایت ابا عبداللہ الحسینـ سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا کہ جب امیر المومنینـکو زخمی کیا گیا تو انہوں نے ہم سے فرمایا جب تم مجھے غسل دے چکے اور گھر سے لے چلو تو اگر تم لوگ میرے جنازے کو سر کی جانب کو اٹھاو تو پیر کی جانب چھوڑ کر رکھو اور اگر تم لوگ پیر کی جانب سے اٹھائو تو سر کی طرف کو چھوڑ دو۔ یہاں تک کہ تم دونوں ایک جگہ پہنچو گے کہ جہاں ایک تیار قبر تمہیں ملے گی جہاں اینٹیں بھی ملیں گی پھر تم دونوں مجھے قبر میں اتارنے کے بعد وہاں پڑی ہوئی اینٹوں سے قبر کو بند کرنے کے بعد سر کی جانب سے ایک اینٹ کھلی رکھنا تمہیں آوازیں سنائی دیں گی پھر اس اینٹ والی جگہ کو بند کر دینا اور سرکی جانب سے ایک اینٹ اور اٹھانا تو قبر میں کوئی چیز نہیں ہو گی اور ہا تف غیبی کی آواز آئے گی کہ امیر الومنین ایک عبد صالح تھے۔ خداوند عالم نے انہیں اپنے نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آج ملا یا ہے اور وہ انبیاء کے اوصیاء کے ساتھ ایسا ہی کرتا ہے اگر کوئی نبی مشرق میں فوت ہوجائے اور اس کا وصی مغرب میں تو اللہ تبارک و تعالیٰ اس وصی کو اپنے نبی سے ضرور ملا دے گا۔

کتاب الفرحتہ میں اس طرح کی دو روایتیں اور بھی ہیں کہ جس میں امام حسنـو امام حسینـنے امیر المومنین کے تابوت کو سر کی جانب سے اٹھایا اور دوسرے حصہ کو چھوڑ رکھا اور تیار قبر ملی۔ اس کے بعد آپـکا جسد مبارک غائب ہوا پتہ نہیں چلا کہ آسمان لے اڑا یا زمین نے چھپالیا۔

اور اسی طرح کی ایک اور روایت شیخ مفید سے بھی ہے کہ جب امیر المومنینـکی وفات کا وقت آیا تو آپ نے امام حسنـاور امام حسینـسے فرمایا:تم دونوںتابوت کو آگے کی طرف سے پکڑنا پھر مجھے اٹھا کر غریین کی جانب بڑھنا تو وہاں تمہیں ایک سفید پتھر ملے گا تو تم وہاں کھدائی شروع کرو تو وہاں تمہیں ایک تختی ملے گی جس پر لکھاہوا ہو گا کہ یہ حضرت نوحـنے علی بن ابی طالبـکے لئے سنبھال کے رکھا تھا پھر حسینـفرماتے ہیں کہ ہم نے انہیں وہاں دفن کیا اور ہم امیرالمومنینـکیلئے اللہ تعالیٰ کے اس اکرام پر خوش ہو کر چلے آئے۔

علامہ مجلسی نے بھی بحار الانوار میں اسی طرح کی ایک روایت محمد بن حنفیہ سے نقل کی ہے جو سابقہ روایات کی طرح ہی ہے کہ امام حسنـنے نماز جنازہ پڑھائی اور ان کے پیچھے ایک گروہ نے اقتداء کی اور آپ نے اپنے والد گرامی کے حکم کے مطابق سات تکبیریں پڑھائیں۔ پھر ہم نے تابوت کو اٹھایا اور جیسا کہ امیرالمومنینـنے کہا تھا جنازہ کو ایک جگہ لے گئے اور جب ہم نے وہاں سے مٹی اٹھانا شروع کیا تو وہاں پہلے سے تیارشدہ ایک قبر تھی، لحد بنی ہوئی تھی اور ایک تختی بھی تھی جس پر لکھا ہوا تھا کہ ''یہ ان کے دادا پیغمبر نوحـنے عبد صالح طاہر مطہر کیلئے رکھا ہوا ہے ''تو جب ہم نے امام کی میت کو قبر میں اتارنا چاہا تو ہاتف غیبی نے صدا دی کہ ''انہیں تم لوگ پاک مٹی پر رکھ دو'' یہ سن کر وہاں لوگوں کے اوپر دہشت طاری ہوئی اور حیران رہ گئے اور امیر المومنینـ طلوع فجر سے قبل دفن ہوگئے۔

اوریہاں سید ابن طاوئوس نے اپنی سند سے ایک روایت امام باقرـسے نقل کی ہے کہ امیر المومنینـپیغمبر نوح ـکی قبر میں دفن کئے گئے۔

ایک روایت یہ بھی ہے کہ حسنین کریمین نعش امام لے کر جارہے تھے ایک نقاب لگائے شخص نے استقبال کیا اور ان سے نعش اٹھانے کی خواہش کی۔ لیکن جب نقاب اٹھا کر دیکھا تو خود امامـہی تھے۔ ظاہراً یہ روایت شک سے خالی نہیں ہے بہت ساروں نے اسے رد بھی کیا ہے۔

مذکورہ روایات میں سے زیادہ تر پر غیبی مہر ہے ان کے علاوہ کچھ روایتوں میں ایسا نہیں ہے جیسا کہ سید ابن طاوئوس کی کتاب الفرحة میں جو روایت اپنی سند سے امام باقرـسے مروی ہے کہ جس میں یہ ذکر ہے کہ امام غریین میں طلوع فجر سے پہلے دفن ہوئے آپـکی قبر میں امام حسنـ، امام حسینـ، محمد، اولاد علی اور عبداللہ بن جعفر اتر ے تھے اور یہی روایت کتاب شیخ مفید کی کتاب ارشاد میں بھی ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت کلینی نے الکافی میں بعض اصحاب سے روایت کی ہے وہ کہتے ہیں ہم نے اباعبداللہ الصادقـسے سنا کہ جب امیرالمومنینـکی روح قبض ہوئی تو امام حسنـ، امام حسینـ اور دو آدمی جسد مبارک اٹھا کر چلے کوفہ ان کے دائیں جانب تھا اور جبانہ سے ہوتے ہوئے غری پہنچے تو وہاں دفن کیا اور قبر کو برابر کرکے چلے گئے۔

اس کے علاوہ بھی بہت ساری روایات ہیں جنہیں سید ابن طاوئوس نے جمع کیا اور ان کے مصادر کو بھی بیان کیا ہے اس کے بعد دوسرے شیعہ مصادر شیخ محمد مہدی نجف نے مذکورہ مصادر شیعہ سے نکالا ہے جوان کے زمانے سے قبل یا ہمعصر ہے اور اس میں بہت ساری ایسی روایتیں بھی ہیں جن کا حوالہ مختلف لوگوںنے مختلف کُتب میں دیا ہے۔

آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ یہ تمام روایات علماءے اہل بیت کی ہیں اس کے علاوہ جو آنے والی ہیں یہ تمام متفق علیہ ہیں کہ امیرالمومنین اپنے مشہور مرقد نجف اشرف میں ہی مدفون ہیں۔ اسی طرح آپ عنقریب یہ بھی ملاحظہ فرمائیں گے کہ وہ تمام روایات جو اہل بیت سے وارد ہوئی ہیں یہ تصدیق کرتی ہیں کہ آپـاسی مشہور جگہ میں ہی مدفون ہیں جس کے بارے اہل بیت اور ان کے ماننے والوں میں کوئی شک نہیں۔ اور ان کی کتابوں میں کوئی ایسی روایت نہیں آئی ہے جو اس موضوع کے بارے میں شک کرے کہ اس کے قریب یا بعید ہیں۔ اس طرح جنہوں نے آپ کے مزار کی زیارت کی اسی موضع میں ہی کی ہے۔

لیکن ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نہ صرف اس کی توثیق نہیں کی ہے بلکہ اس کے علاوہ تمام دوسری روایات جو دوسری جگہ کی نشاندہی کرتی ہیں باطل قرار دی ہیں۔ وہ کہتے ہیں یہ عقل کے خلاف ہے کہ جو اختلاف اصحاب حدیث کے درمیان ہے کہ آپ کا جسد خاکی مدینہ منورہ لے جایا گیا یا رحبة الجامع میں دفن کیا گیایا قصر الا مارہ کے پاس وغیرہ تمام روایات باطل ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی حقیقت نہیں ہے ان کی قبر کے بارے میں ان کی اولاد سے زیادہ کون بہتر جان سکتا ہے اس لئے اولاد ہی اپنے آبائو اجداد کی قبروں کے بارے میں دوسروں سے زیادہ جانتے ہیں اور یہ تو وہ قبر ہے جس کی زیارت ان کے بیٹوں نے کی جن میں سے امام جعفربن محمد اور دوسرے بزرگ لوگ تھے اور انہوں نے شرح نہج البلاغہ میں ایک اور روایت بھی نقل کی ہے کہ ابو الفرج نے مقاتل الطالبین میں سند کے ساتھ ذکر کیا ہے کہ جب امام حسنـ سے پوچھا گیا کہ امیر المومنینـکو آپ لوگوں نے کہاں دفن کیا تو امام حسنـنے فرمایا کہ رات کی تاریکی میں ہم ان کی میت کو ان کے گھر سے اٹھا کر نکلے اور مسجد الاشعث سے ہوتے ہوئے ظہر کوفہ میں غری کی جانب پہنچے۔ اور یہ روایت سند کے ساتھ مقاتل الطالبین میں موجود ہے مگر شیخ طوسی جنہوں نے بغداد سے نجف اشرف کی طرف بعض حوادث کی وجہ سے ہجرت کی اور وہاں ایک بڑا دینی مدرسہ قائم کیا جس کا نام انہوں نے جامعة علمیة النجف رکھا انہوں نے اپنی کتاب تہذیب الا حکام میں قبر امام کے حوالے سے بھی کچھ روایات لکھی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ زیارت قبر کی فضیلت بھی بیان کی ہے یہ ساری باتیں تصدیق و توثیق کرتی ہیں کہ امامـغری نجف میں ہی مدفون ہیں۔

اجمالی طور پر یہ روایت سابقہ روایتوں سے جدا نہیں ہے تو میں تہذیب الا حکام سے ایک روایت بیان کردیتا ہوں کہ ابی مطر نے امیر المومنینـہی کی سند سے بیان کیا ہے کہ امیرالمومنینـ نے فرمایا کہ جب میں مرجائوں تو مجھے اس جانب میرے دونوں بزرگوں حضرت ہود اور حضرت صالح کی قبر میں دفن کردینا۔

اور اسی صفحہ پر دوسری روایت بھی ابی مطر ہی سے ہے کہ میں نے جب امام حسنـسے امیر المومنینـکے دفن سے متعلق پوچھا گیا تو آپـنے جواب دیا کہ ہم نے انہیں ان کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں لے جا کر مسجد اشعث میں حضرت ہودـکی قبر میں دفن کیا۔

اور اسی صفحہ میں ایک روایت اور بھی ہے کہ ابی بصیر نے جب ابا عبداللہـسے امیر المومنینـ کے دفن کے بارے میں پوچھا تو آپ نے جواب دیا کہ انہیں اپنے دادا حضرت نوحـ کے ساتھ قبر میں دفن کیا گیا۔ تو ابی بصیر نے دوبارہ پوچھا کہ نوحـ کی قبر کہاں ہے؟ لوگ تو کہتے ہیں کہ وہ مسجد میں ہے تو آپـ نے فرمایا: نہیں وہ ظہرکوفہ میں ہے۔

ایک اور روایت اسی صفحہ میں ہے کہ ابو حمزہ ثمالی نے ابو جعفرسے امیر المومنین کی وصیت کو نقل کیا ہے کہ مجھے ظہر کوفہ کی طرف لے کر چلنا تو جہاں تمہارے قدم رک جائیں مجھے وہیں پر دفن کردینا اور یہی طورِ سینا ہے۔

کتاب الفرحة میں ایک روایت ہے کہ امام صادق نے فرمایا کہ کوفان کی جانب ایک قبر ہے جہاں کوئی بھی پریشان حال دو یا چار رکعت نماز پڑھے تو اللہ تعالیٰ اس کی مراد پوری کرے گا۔ راوی نے پوچھا کہ کیا وہ حسین ابن علیـ کی قبر ہے امام ـ نے فرمایا نہیں۔ تو راوی نے دوبارہ پوچھا کہ کیا وہ امیر المومنین کی قبر ہے تو امام نے اثبات میں جواب دیا۔

اسی طرح کی بہت ساری روایات جعفر بن محمد ابن قولویہ نے اپنی کتاب کامل الزیا رات اور شیخ مفید نے کتاب ارشاد میں موثق اور مصدق طریقے سے بیان کی ہیں مگر قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب الخرائج والجرائح میں لکھا ہے کہ امیر المومنینـ کی قبر پوشیدہ رہی جس کی بعد میں امام جعفر صادقـ نے نشاندہی فرمائی۔

شیخ طوسی ان لوگوں میں سے نہیں جو اپنے جذبات میں عقل سے خالی گفتگو کرتے ہیں بلکہ آپ مسلمانوں کے پانچویں صدی ہجری کے بزرگ علماء میں شامل ہوتے ہیں اگر آپ کو وہاں دفن امیر المومنینـ کے بارے میں توثیق و تصدیق نہ ہوتی تو آپ قطعاً اتنی مشکلات کے ساتھ وہاں نہ رہتے اور مجھے اس میں کوئی شک و شبہ بھی نہیں ہے کہ انہوںنے اپنے سے ماقبل تمام روایات اہل بیت کی تحقیق نہ کی ہو۔ اس کے لئے میرے پاس واضح دلیل بھی موجود ہے کہ روایات اصحاب حدیث جتنی بھی ہیں جو قبر امامـ کے موضع کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کرتی ہیں یہ تمام مہمل اور اہمیت سے خالی ہیں۔ اگر میں انہیں ذکر کروں تو یہ ہرگز کسی حقیقت کی توثیق کرنا نہیں ہے جو سورج سے زیادہ واضح ہے بلکہ ان باطل دعوئوں کا اس لئے ذکر کررہا ہوں کہ بعض مفادپرست لوگوں نے کس طرح ان احادیث کو گھڑا ہے۔

بعض اصحاب حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ا مام چونکہ بنی امیہ کے مخالف تھے اور اس بات میں کوئی شک ہی نہیں ہے کہ آپـ کی وفات کے بعد وہ آپـ کی قبر کے ساتھ اچھا سلوک نہ کرتے اور دوسری طرف آپـ کے دشمن خوارج بھی تھے۔ لہٰذا آپـ کی قبر پوشیدہ رکھی گئی اور یہی دلیل پیش کی جاتی ہے قبر مبارک پھر آہستہ آہستہ چھپ ہی گئی اور کسی کو پتہ نہیں چلا۔

لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ قبر اہل بیت اور ان اصحاب سے کیسے چھپ سکتی تھی جنہوں نے آپ کی جنازے کی تشیع کی اور بالآخر دفن کیا اور یہی لوگ جب اس قبر کی زیارت کرنا چاہتے تھے تو ایک ٹیلے کی طرف جاتے تھے جو کوفہ سے زیادہ فاصلہ پر نہیں تھا اور غریین کے درمیان تھا اور بحر نجف اور اس ٹیلے کے درمیان چند سو میٹر سے زیادہ فاصلہ نہیں تھا ۔ یہ وہ مشہور و معروف ٹیلہ تھا کہ جہاں سورج کی شعاعیں پڑنے سے وہاں کے چمکدار چھوٹے چھوٹے پتھر چمکتے تھے۔

مگر قبر مقدس کے موضع کے بارے میں اصحاب حدیث کی کتابوں میں اختلاف کے ساتھ جو روایتیں ہیں۔ جن کا ذکر ابن ابی الحدید نے کیا ہے ہم نے بھی صرف تفریق کے لئے بیان کی ہیں اور یہ ایک فطری عمل ہے کہ ان روایتوں کے مصادر جن حالات سے گزرے۔ جنہیں ہم نے نقل کرتے وقت اشارہ کیا اس پر مستزاد یہ کہ اہل بیت اور ان کے ماننے والے جو موضع قبر کو جانتے تھے وہ ان کے دشمنوں کے سامنے اس کے بارے میں زیادہ گفتگو نہیں کرتے تھے۔ اس خوف سے کہ یہ راز کہیں فاش نہ ہوجائے یا یہ خبر بادشاہِ وقت تک نہ پہنچ جائے اور وہ لوگ قبر مقدس کی بے حرمتی کریں۔

اس حوالے سے یہ بھی یاد رہے بہت سارے اصحاب حدیث اگرچہ بادشاہ وقت کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں تھا اور نہ ہی امانت اور سچائی کی معرفت رکھتے تھے یہ لوگ اہل بیت اور ان کے شیعوں کی روایات کو لیتے ہی نہیں تھے اور نہ ہی انہیں مانتے تھے خاص طور یہ رویہ متاخرین میں زیادہ تھا۔ جن کے موقف کے بارے میں ہم نے اشارہ کیا۔

اب عام محدثین جو اکادمیہ سے تعلق رکھتے ہیں ایک ایسے چنگل میں پھنس جاتے ہیں کہ وہ بسا اوقات غیرشعوری طور سے اپنے تئیں روایت کی تصیح کے چکر میں اصل روایت میں ہی تحریف کر ڈالتے ہیں اس طرح سیرت امیر المومنینـ کے ساتھ زیادہ ہوا اور یہی صورت حال ان کے موضع قبر مبارک سے متعلق بھی ہوئی ہم عنقریب ان کا ذکر کریں گے اپنی کم مائیگی کے باوجودان شکوک و شبہات کورفع کرنے کی کوشش کی ہے جنہیں ہم سے پہلے لوگوں نے پیدا کر کھا تھا۔