مرقد شریف
امامکے دشمن آپ کے شہید ہونے پر خوشی کا اظہار کر رہے تھے۔ اگر انہیں اس عظیم سانحے میں انکے اپنے نقصان کا پتہ ہوتا تو وہ کبھی بھی ا س طریقے سے خوشی کا اظہار نہیں کرتے او ر صلح امام حسن کے بعد امیر معاویہ، آپ کے خلاف نازیبا اور توہیں الفاظ استعمال کرنے کی تحریک نہیں چلاتے اور طبری کے مطابق یہ عمل کوفہ میں سال ۴۱ ھ ربیع الاوّل یا جماد ی الاوّل میں شروع ہو چکا تھا ۔ او ر بعدازاں امام علی کے خلاف سب و شتم کا سلسلہ تمام مسلم ممالک کی مساجد کے منبروں سے شروع ہوا اور تمام مساجد کے آئمہ و خطبا ء آپ سے برائت کرنے لگے جس کو ہم نے اپنی کتاب''وَ مَا اَدْرَاکَ مَا عَلِی''
تفصیل سے بیان کیا ہے اور یہ سلسلہ نصف صدی سے بھی زیادہ جاری رہا۔ اور آپ کے جو بھی صحابی اس حوالے سے مزاحمت کرتے تھے تو ظالم حاکم نہ صرف انہیں قتل کرتے تھے بلکہ مثلی بھی کرتے تھے یعنی قتل کرنے کے بعد ان کے اعضاء کاٹتے تھے۔ اگر اس میں کافی اصحاب شہید ہوئے تاہم بعض کا یہاں پر ذکر کرتے ہیں کمیل بن زیاد النّخعی جسے حجاج نے قتل کیا۔ میثم تمّار ا سدی کو عبید اللہ ابن زیاد نے قتل کرنے کے بعد مثلی کر دیا ہانی ابن عروہ مرادی کو بھی ابن زیاد ہی نے قتل کرکے مثلی کردیا۔
حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو معاویہ بن ابی سفیان نے قتل کیا اس کے علاوہ سینکڑوں اصحاب مارے گئے لیکن اب حالت یہ ہے ان اصحاب کے قبور لوگوں کے مزار بن گئے لیکن ان کے دشمنوں کی قبور کا نام و نشان بھی موجود نہیں اور ان کا ذکر کرنا بھی ہر کوئی ننگ و عار محسوس کرتا ہے۔ لیکن امام علی کے شیعہ برے طریقے سے قتل ہوتے رہے اور ان پر کفر و گمراہی کے جھوٹے الزامات وغیرہ لگتے رہے جو آج تک جاری ہے۔
امام علی پر سب و شتم کا یہ سلسلہ بعد میں آکر عمر بن عبد العزیز کے دور میں بند ہوا ورنہ ان کا ارادہ تھا کہ یہ سلسلہ ہمیشہ جاری رہے۔ اور ایک طرف تو اس سلسلہ کو بڑھاتے رہے اور لوگوں کو اکساتے رہے لیکن دوسری طرف لوگوں میں اور مسلمانوں کے دلوں میں امام کی معرفت و منزلت موجزن ہوتا گیا۔ اور آپ کا جسد خاکی اس بیابان تقریباً ایک صدی اور نصف سے زیادہ مدفون میں رہے سوائے آپ کے اہل بیت اور خاصّان کے کسی کو علم نہیں تھا اور تقریباً اٹھاسی سال تو اہل بیت اور خاصّان کے ساتھ قلیل تعداد میں لوگ چھپ کر زیارت کے لئے جاتے تھے۔
اس دوران بنی امیہ نے مختلف طریقے سے قبر شریف کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تاکہ جسد خاکی کی توہیں کریں اسی میں وہ اپنی نجات سمجھتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ حجّاج بن یوسف نے کوفہ کے کنارے میں تین ہزار قبور کھول کر وہاں سے نعشیں نکلواکر مثلی کروایا شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب نجف کے ماضی اور حال، منتخب التواریخ اور روضات الجنات کے حوالے سے لکھتے ہیں ۔ ان قبور کو اس طرح ختم کیا گیا یہاں تک کہ آثار تک باقی نہیں رہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ان کا ارادہ خاک میں ملادیا اور اپنے ولی کی قبر کی ہر طریقے سے حفاظت کی۔۴۳سال تو قبر کی جگہ کی لوگوں کو پہچان ہوکر گزارا اور لوگ جوق در جوق وہاں جاتے رہے جس کی وضاحت ہم عنقریب کریں گے۔ لیکن ہمارے پاس کوئی ایک ایسا ماخذ اب تک موجود نہیں جو ہماری رہنمائی کرے کہ وہاں اس دوران کوئی اور بھی دفن ہوئے یا نہیں۔ ہاں بعد ازاں جب یہ زیادہ مشہور ہوا تو آنے والے زمانوں میں لوگ اپنے میتوں کو دفن کرتے رہے اور ساکنین نجف اس زمانے میں قبر شریف کے نزدیک نہیں رہتے تھے۔لیکن اتنا زیادہ دور بھی نہیں رہتے تھے جسے طبری اور بعض مورخین نے بیان کیا ہے۔ بعض اہل بیت شاید اس لیے بھی وہاں رہتے تھے ایک تو یہ مرکز کوفہ سے دور تھا دوسری بات وہاں آنے والے زائرین کی رہنمائی اور ان کی مہمانداری کرتے تھے لیکن یہ گمان غالب ہے کہ یہ سلسلہ عباسی انقلاب کامیاب ہونا تھا ۔ اور ۱۴۴ ھ بمطابق ۷۶۱ ء سے قبل خلیفہ منصور نے یہ حکم دیا تھا عبد اللہ بن حسن اور اہل بیت کومدینہ سے کوفہ لایا جائے اور ابن ھبیرہ کے قصر جو کوفہ کے مشرق میں واقع تھا میں قید کیا جائے یہ بات طبری نے اپنی تاریخ میں جبکہ ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ''میں بیان کی ہے۔ لیکن طبری ایک روایت عبد اللہ بن راشد بن یزید سے نقل کی ہے کہ ''جب عبد اللہ ابن حسن اور اس کا خاندان قیدی بن کر نجف اشرف پہنچے تو انہوں نے اپنے خاندان سے کہا کہ کوئی ہے اس گاؤں میںجو ہمیں اس ظالم سے بچائے؟ اتنے میں ان کے بھائی حسن کے دو بیٹے تلوار اٹھاکر ان کے پاس آئے اور کہنے لگے یا ابن رسول اللہ ہم حاضر ہیں آپ جو چاہیں ہمیں حکم فرمائیں۔ تو انہوں نے فرمایا تم دونوں نے فیصلہ تو کرلیا ہے لیکن اب تم کچھ بھی نہیں کرسکتے اتنے میں وہ چلے گئے۔''
جبکہ ابن اثیر نے یہ روایت بغیر کسی نسبت کے نقل کیا ہے لیکن روایت کے اندر کچھ تبدیلی ہے جو محقق کی اپنی اجتہاد کی طرف نسبت دی گئی ہے یا یہ کاتب یا مولف کی غلطی ہوسکتی ہے اور روایت یوں ہے۔ جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کوئی ہے اس گاؤں میں جو ہمیں اس ظالم سے بچائے؟ تو کہتے ہیں کہ ان کے بھائی کے بیٹے حسن اور علی ان کے پاس تلوار اٹھاکر آئے اور کہا یا ابن رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
ہم حاضر ہیں ہمیں حکم کیجئے کہ آپ کیا چاہتے ہیں تو انہوں نے فرمایا تم دونوں نے اپنی ذمہ داری پوری کی اب تم کچھ نہیں کرسکتے اتنے میں وہ چلے گئے۔
اب آپ ملاحظہ فرمائیے کہ اس نے کہا جب یہ لوگ کوفہ پہنچے تو عبد اللہ نے اپنے ساتھیوں سے کہا کوئی ہے اس گاوں میں ؟جبکہ کوفہ کو گاوں نہیں کہا جاتا تھا ہاں شاید اس نے یہاں علیٰ سبیل غلبہ کیا ہو یا اصل عبارت یوں ہو۔ فلما قدمو لی نواحی الکوفہ جب وہ کوفہ کے مضافات میں پہنچے یا کوفہ کے مقام نجف میں اور ہر صورت میںان کی آمد نجف کی جانب ہی نظر آتی ہے جس سے مراد صرف مو ضع قبر نہیں ہے بلکہ پورا ٹیلہ جس کے احاطے میں امام علی کی قبر بھی شامل ہے اور بجائے بقعہ ''ٹیلہ ''کے روضہ کی موضع بیان کیا جاتا ہے یاا بن اثیر نے طبری سے لفظ نجف کی جگہ لفظ کو ہی نقل کیا ہو یا کاتب نے کتابت کرتے وقت کوئی تبدیلی کی ہو اس پرمستذاد یہ کہ محقق کو شبہ ہوا ہو تو اس نے حاشیہ میں بیان کیا ہے اور وہ صحیح ہو۔ اور طبری کے ہاں یہی صحیح ہو ۔ لیکن حسن وعلی کون تھے اور اس علاقے سے ان کی کیا نسبت تھی اور ان کا دعویٰ وہ وہاں رہتے تھے ان تمام نکات کے حوالے سے پھر بھی شک و شبہ باقی رہتا ہے۔
بہر حال یہ بات یقینی ہے کہ قبر شریف کی زیارت اور وہاں قیام کرنے کا رواج اہل بیت سے ہی ہوا تھا جب ان پر سختی کم ہوتی تھی تو ان کے ماننے والے وہاں زیارت اور قیام کی غرض سے آتے رہتے تھے اور جب حکومت کی طرف سے سختی میں دوبارہ شدّت ہوتی تھی زائرین کی تعداد میں کمی آتی تھی اور وہاں مجاورین چھپتے تھے تو گمان یہ ہے کہ اس طرح اُن کا وہاں کا قیام موسمی تھا یعنی مختلف مناسبات کی وجہ سے لوگ وہاں آتے تھے۔مثلاً حضور اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی ولادت کے موقع پریوم غدیر اور خود امام کی ولادت شہادت کے ایام وہ مناسبات ہیں جو شیعوں کے ہاں اب بھی معروف و مشہور ہیں۔اور اس میں ماحول کا بھی عمل دخل تھا ہمارے خیال میں محمد بن زید الدّعی کے گھر کے نزدیک لوگوںکی رہائش تھی اس حوالے سے ہم عنقریب ذکر کریں گے لیکن میرے نزدیک قابل ترجیح بات یہ ہے کہ ہارون الرشید کے وہاں تعمیرات کرنے کے بعد ہی قبر شریف کے جوارمیں لوگ اپنے مردے زیادہ دفن کرنے لگے مگر ڈاکٹر شیخ محمد ہادی نے انسائیکلو پیڈیا میں جو اصحاب رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
نجف میں دفن ہیں تقریباً ایک سو پچاسی صحابی تک کا ذکر کیاہے اور ان کے حالات لکھے ہیں ۔لیکن ان میں کسی کی قبر امام علی کی قبر کے جوار میںنہیں ہے یہ انہوں نے صرف بیان کیا ہے تو اس حوالے سے یہ ہوسکتا ہے کہ یا تو یہ کوفہ یا اس کے مضافات کے قبرستان میں دفن ہیں یا بمقام ثویّہ جو خندق سابور اور حنانہ کے درمیان واقع ہے۔ شاید کمیل ابن زیاد النّخعی کے روضہ ان قبور کی طرف سے امام کی قبر سے نزدیک ہے اور کمیل کی قبریں اس وقت موجود ہے جو قبر امام سے چار کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے اور یہ بات بھی ہمیں تاریخ میں ملتی ہے کہ ان اطراف میں خبّاب بن ارت بھی دفن ہیں۔ ا س حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدین فی کتاب تاریخ نجف اشرف میں حکم کی مستدرک الصّحیحین سے یوں نقل کرتے ہیں ۔ جب خبّاب کو تیر لگا تھا اور اسے مرنے کا احساس ہوا تو اس نے اپنے کو کوفہ کے کنارے دفن کرنے کی وصیت کی۔
ڈاکٹر شیخ محمد ہادی امیں نے اپنے مضمون بعنوان ''سب سے پہلے امام امیر المومنین کے دور میں کون دفن ہوئے ''کہ امام نے ان کی نماز جنازہ پڑھی ''پھر آپ ان کی قبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا اللہ خباب پر رحم کرے کیونکہ اس نے اپنی رغبت سے اسلام قبول کیا اور ہماری اطاعت میں ہجرت کی اور مجاہدانہ زندگی گزاردی اپنے جسم میں مختلف بلائیں جھیلی اللہ تعالیٰ کسی کے اچھے اعمال کے اجر ضائع نہ کرے ''۔اور ابن قتیبہ نے اپنی کتاب المعارف میں واقدی سے روایت کی ہے کہ ''خباب ۶۶سال کی عمر میں۳۸ ھ میں کوفہ میں وفات پائی اور یہ پہلا شخص ہے جسے علینے کوفہ میں دفن کیا اور اس کی نماز جنازہ پڑھاکر صفین کی جانب روانہ ہوئے۔''
اور اسی بات کو محمدصاحب المظفّر نے اپنی کتاب ''وادی السّلام ''اور تمیمی نے مشہد علی میں ذکر کیا ہے لیکن جو وہاں دفن ہوئے وہ دائرہ قبر امام علی سے باہر ہوئے تھے۔ کوفہ میں سب سے پہلے دفن ہونے والے اصحاب کو بیان کرنے والوںمیں ابو الغنائم بن الزّسی کا نام آتا ہے جو ۴۲۴ھ شوال کو پیدا ہوا وہ کہتا ہے کوفہ میں اہلسنّت والحدیث میں صرف اُبّی تھا جو یہ کہتا ہے کہ کوفہ میں کل (۳۱۳) اصحاب دفن ہوئے جن میں صرف قبر علی کا پتہ ہے ۔اس روایت کو ابن جوزی نے اپنی کتاب بیان کیا ہے۔
اس زمانے میں وہاں روضہ کے آس پاس زندگی گزارنا سیاسی، قبائلی، ناگزیر ماحول کے باعث اتنی آسان نہیں تھی جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں لیکن وہاں روضہ مقدس کے احاطے میں پانی نہیں تھا یا اس کا حصول مشکل تھا ان تمام مشکلات کے باوجود وہ لوگ رہے۔ اور مرور ایام کے اس ٹیلے کو روضہ مقدس کی وجہ سے مختلف ناموں سے پکارنے لگے جو کہ یوں ہیں:جرف، نجف، مسنّاة، شغیر الھضة جو کہ ہزار میٹر کے فاصلے پر ہیں۔ اور بعد کے دِنوں میں یہ ہر خاص وعام کے لئے شہر بن گیا۔
اور ایک دن یہ مرقد مقدس مزار بن گیا اور لوگوں کا بڑا اجتماع بغیر کسی خوف و مناسبت کے یہاں جمع ہوتے ہیں اور پھر وہاں قبّے، صحن وغیرہ بن گئے تو مشہد کے نام سے پکارا جانے لگا پھر آہستہ آہستہ روضہ مقدس کے اطرف بازار بننے لگے۔اور وہاں رہنے والوں کو مشہدی کہا جانے لگا اور اسی طرح مقام غرییّن یا الغرّی ، الغریّان سے قریب سے ہونے کی وجہ سے غروری بھی کہنے لگے۔
شاید شیعان علی پر جو سب سے زیادہ سخت دور گزرا ہے زیاد بن اُمیّہ کا دور اگرچہ زیاد امام علی کے معروف اصحاب میں تھے اور اس کا بیٹا عبید اللہ بن زیادہ جسے یزید بن معاویہ کی جانب سے کوفہ کا والی بنایا تھا۔
تو یہ دور اہل بیت رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر کٹھن اور دشوار ترین دور گزرا جس میں امام حسین اور ان کاخاندان بھی شہید کردیا گیا۔ اور دوسرا جو مشکل ترین دور بنی اُمیّہ کے حاکم حجّاج بن یوسف ثقفی کا دور حکومت تھا۔
امام زین العابدین ـ کی زیارت
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ سانحہ کربلا کا واقعہ امام زین العابدین پر پہاڑ کی مانند ٹوٹ پڑا تھا جس کے برابری دنیا کی کوئی مصیبت نہیں کرسکتی ۔ اس حوالے سے ابن طاوس نے اپنی کتاب الفرحة میں روایت بیان کی ہے جس کے مطابق امام زین العابدین مدینہ سے باہر خیمہ لگا کر لوگوں سے الگ تھلگ اپنی عبادات و احزان میں مصروف رہتے تھے۔اور کبھی قریہ بلید کے نزدیک جو مدینہ سے زیادہ فاصلے پر نہیں ہے رہتے تھے۔ یا قوت اپنی معجم البلدان میں بیان کرتا کہ یہ قریہ مدینہ کے کنارے ایک وادی میںآل علی ابن ابی طالب کا قریہ کہلاتا تھا اور بعید نہیں ہے یہی شدید ؟ دراصل امام کو اپنے باپ دادا اور خاندان کی زیارت کرنے پر مائل کرنا تھا۔ جنہیں آپ سرزمین کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر چھوڑ آئے تھے اور چاہتے تھے وہاں جاکر ان پر ماتم کرکے اپنی مصیبت کی حرارت کو بجھادے اور ان کے قبروں پر روئے۔
ابن طاوس نے امام زین العابدین کی اپنے جدّ امیر المومنین کی زیارت کے حوالے سے چند روایتیں بیان کی ہیں ان میں سے وہ جابر بن یزید الجعفی سے ابو جعفر امام محمد باقر کی روایت بیان کی ہے کہ''میرے والد بزرگوار علی بن حسین قبر امیر المومنین کی جانب بمقام مجاز سے گزرے اور یہ مقام کوفہ کے کنارہ واقع ہے پھر وہاں ٹھہر کر رونے لگے۔''پھر اب طاوس ''کتاب الفرقة ''میں سابقہ زیارت دوسرے طراق سے امام علی بن موسی رضا سے روایت کرتے ہیں ۔ مذکورہ روایت کے ضمن میں جعفی کا بیان ہے کہ امام محمد باقر نے فرمایا۔ علی بن حسین نے اپنے والد حسین بن علی کی شہادت کے بعداپنے جانور کے بال کا خیمہ بنوا رکھا تھا اور بادیہ میں قیام کرنے لگے تھے ۔ اور چند سال لوگوں اور ان کے رہن سہن سے دور رہے اور وہ مقام عراق کے راستے میں واقع تھا اور وہیں سے اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کے لئے جاتے تھے اور کسی کو اس بات کا علم نہیں ہوتا تھا ۔ محمد بن علی کا بیان ہے ایک دن امام زین العابدین امیر المومنین کی زیارت کی غرض سے عراق کی طرف نکلے تو میں بھی ان کے ساتھ ہوا اور ہمارے ساتھ اونٹ مالکوں کے علاوہ کوئی بھی تھا۔ جب وہ بلاد کوفہ میں نجف کے مقام پہنچے اور ایک جگہ بیٹھ کر زارو قطار رونے لگے یہاں ان کی ریش مبارک آنسووں سے تر ہوگئی پھر انہوں نے فرمایا اس روایت کی سند اگر امام محمد باقر سے صحیح ہے تو یہ بھی توثیق کرتی ہے امام زین العابدین نے روضہ مقدس کی زیارت اس سے قبل اپنے والد بزرگوار کی رفاقت میں بھی کی تھی۔ اور ابھی تک نجف اشرف میں ان مقامات سے ایک امام سجاد کی طرف منسوب ہے اس حوالے سے شیخ حرزالدین نے اپنی کتاب معارف الرجال میں بیان کیا ہے یہ مقام محلہ مسیل میں جو نجف کے مغرب کی جانب جرف سے پہلے واقع ہے ۔ انہوں نے کہا ایک دفعہ امام علی بن حسین اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر کی زیارت کی غرض سے آکر اس مقام میں قیام کیا تھا اس لئے کہ اگر کوئی انہیں دیکھے تو شک و توہم ہوجائے ۔ امام اس راستے سے حج بیت اللہ کی نیت سے آئے ہیں پھر انہوں نے وہاں کنویں سے وضوء کیا یہ کنواں جو کہ قلیب کے نام سے مشہور ہے اس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے۱۰۰۰ میں شاہ عباس صفوی نے یہاں اور کنویں کھدوائے تھے اور مقام رحبہ میں بعض مومنین دفن ہیں جن میں ہمارے دادا الشیخ حسن الشیخ عیسٰی بن الشیخ حسن الفرطوسی النّجفی المعروف بہ فرطوسی کبیر بھی دفن ہیں جن کے بارے میں ان کے شاگرد شیخ محمد نے مذکورہ کتاب میں لکھا ہے ابن طاوس نے سابقہ مصدر میں ایک تیسری روایت بھی بیان کی ہے کہ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ امام زین العابدین اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کے روضہ کی زیارت جناب ابو حمزہ تمالی کی رفاقت میں کی جس میں ابو حمزہ نے کہا میں ان کے ناقہ سے سائے میں چل رہا تھا اورامام مجھ سے باتیں کر رہے تھے اتنے میں ہم مقام الغرییّن پہنچے یہ ایک سفید ٹیلہ سے روشنی پھوٹتی ہے تو وہ اپنے ناقہ سے اترے اور دونوں جوتے اتاردیئے اور مجھ سے فرمانے لگے اے ابو حمزہ یہ میرے بزرگوار علی بن ابی طالب کی قبر ہے پھر انہوںنے اس کی زیارت کی ۔ کوئی ایسی روایت نہیں یہ مذکورہ روایات کی صحت کو مشکوک یہ بعید ہے۔ اور اس میںکو ئی شک نہیں ہے کہ قبر کے اوپرکوئی علامت یا پتھر کا شاخص تھا جو ان کی رہنمائی کرتی تھی جب زیارت کے جاتے تھے جس کے بارے بعد میں بیان ہوا۔
شیعوں کی ایک جماعت قبر امامـ کی زیارت کرتی ہے
دوسری صدی ہجری کی تیسری دھائی میں جب بنی امیہ کی حکومت کمزور ہونا شروع ہوئی تو شیعہ گروہ در گروہ قبر امیر المومنین کے لئے آنا شروع ہوئے ہمارا خیال خاصّانِ اہل بیت کو تو موضع قبر کے بارے میں معلوم تھا بلکہ ان زائرین کا ایک بڑا گروہ مدینہ منورہ میں امام محمد باقر اور امام جعفر صادق سے موضع قبر کے بارے میں استفسار کیا تو ائمہ نے انہیں بتایا اور سمجھایااس حوالے سے ''کتاب الفرحة'' میں بہت ساری روایتیں موجود ہیں کہ ایک سے زیادہ مرتبہ ان دونوں آئمہ سے اس بارے میں پوچھا ہے تو یہ بعید نہیں ہے انہوں نے ان لوگوں کو زیارت کی تاکید کی ہو ۔ لیکن آئمہنے ان کو بچ بچاکر جانے کی نصیحت فرمائی تاکہ بنی اُمیّہ کے جاسوس کی نظروں سے زیارت گاہ محفوظ رہے۔
کتاب الصّحیفہ میں ایک روایت آئی جس کے مطابق شیخ مفید نے۱۹مزار کا ذکر کیا ہے اور اسے ابن طاوس الفرحة میں بھی نقل کیا ہے منع بن حجّاج دھب القوی نے کہا میں ایک دن مدینہ منورہ میں اباعبد اللہ کے پاس چلا گیا اورکہا میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں میں امیر المومنین کی زیارت کے لئے آپ کے پاس آیا ہوں تو آپ نے فرمایا تو نے اچھا کام نہیں کیا اگر تم ہمارے شیعہ نہیں ہوتے تو ہم کبھی تمہاری طرف نہیں دیکھتے جن کی تو زیارت کیوں نہیں کرتے ان کی تو اللہ او ر اس کے رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
اور مومنین زیارت کرتے ہیں۔ بلکہ صفوان بن مہران جمّال کی روایت سے یہاں تک واضح ہوتی ہے کہ موضع قبر امام جعفر صادق اور عبد اللہ بن الحسن جب اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کیلئے تشریف لے جانے کے بعد مجہول بھی نہیں رہی یہ اس روایت کے آخر میں مذکور ہے اور یہ روایت مکمل عنقریب بیان کی جائے گی۔ ''یہ قبر جہاں لوگ آتے ہیں۔ ''
اور یہ روایت تاکید کرتی ہے لوگ مناسبت سے قبل بھی زیارت کو جاتے تھے تو یہ بدیہی بات زیارتوں کا سلسلہ تو سفّاح کے دور میں ہی تھا نہ کہ منصور کے دور میں شروع ہوا۔ اس سے ملتی جلتی ایک اور روایت بھی ابن طاوس ابی العوجاء الطّائی سے بیان کرتے ہیں کہ ایک انہوں نے امام جعفر صادق سے ایک قبر کے بارے میں پوچھا جو کوفہ کے کنارے واقع تھا اور کیا یہ امیر المومنین کی قبر ہے؟ تو آپ نے فرمایا ہاں واللہ شیخ اور یہ بات ابن عقیدہ کی کتاب فضائل امیر المومنین میں ہے میرے اندازے سے یہ خبر بھی ابی العباس سفّاح کے زمانے کی ہے ۔ روایت میں ابی العوجاء کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق ایک دو غلاموں کے ساتھ مقام حیرہ کی جانب گزرے تو دوسرے روز صبح ابو العوجاء ان کا انتظار کررہے تھے۔ اتنے میں امام تشریف لائے تو انہوں نے امام کا استقبال کیا اور ٹھنڈا پانی کے ساتھ کھجور پیش کیا اور اس قبر سے متعلق پوچھا۔
سفّاح کے زمانے میںامام جعفر صادق ـکامرقدامیرالمومنین کی زیارت کرنا
ایک پرانی غیر شیعی روایت کے مطابق امام جعفر صادق ابی عباس سفّاح کے دور میں عراق آئے تاکہ اس سے ملاقات اور اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی زیارت بھی کرسکے لیکن روایت اس زیارت کے بارے میں تفصیل نہیں بتاتی ۔ مگر میں اب اہلسنّت کی کوئی ایسی روایت نہیں دیکھی جو امام جعفر صادق کی عراق آمد یا سفّاح کے دور میں اس سے ملاقات کے واقعے کی تصدیق کرتی ہو۔ لیکن اس کے دور میں امام کی زیارت کے لئے نہیں جانا غیر منطقی ہے اور مشکوک دعویٰ ہے خاص اس کا موقف ظاہراً اپنی خلافت سے الگ نہیں تھا اور نہ اپنے بھائی کی خلافت سے مختلف تھا اور اس اہل بیت کو اپنے بیعت کرنے کیلئے انقلاب کے دوران یا کامیابی کے مجبور نہیں کیا تھا یہ تو معلوم ہے۔بہت سارے مصادر کے مطابق سفاح کی سیاست علویوں کے ساتھ اس کے بھائی منصور سے مختلف تھی کیونکہ سفاح نے امویوں اور ان کے ماننے والوں سے انقلاب کے بہانے خوب انتقام لیا اور علویین کو اپنے قریب کیا اور اب اس کے اطراف شیعہ تھے۔ اور جو علماء اہل بیت کی روایتوں کی تصدیق کرتی ہے کہ امام جعفر صادق اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن الحسن کے ساتھ سفّاح سے ملاقات کی اسے ابن کثیر نے اپنی تاریخ الکامل میں جبکہ ابن جوزی نے ''المنتظم'' میں بیان کی ہے۔
عبد اللہ بن حسن ابی العباس سفّاح کے پاس آئے اور سفّاح کے نزدیک بنی ہاشم اور اہل بیت وغیرہ کی عزت تھی۔ اس ملاقات میں اس نے عبد اللہ بن حسن کو درہم اور بہت سارا مال دیا تاکہ مدینہ منورہ لے جا کر بنی ہاشم کے درمیان تقسیم کرے اور کتاب المنتظم میں یہ بات آئی ہے کہ جب انہوں نے یہ اموال لاکر تقسیم کیا تو بنی ہاشم نے سفّاح کا شکریہ ادا کیا تو عبد اللہ نے کہا یہ لوگ بیوقوف ہیں اس آدمی کا یہ لوگ شکریہ اداکررہے ہیں جو بعض دوسرے لوگوں سے لاکر انہیں دیا جب یہ خبر سفّاح تک پہنچ گئی تو اس نے عبد اللہ کے خاندان کو یہ بتادیا تو انہوں نے کہا تو اسے ادب سکھاو تو اس نے کہا جس نے سختی کی تو اس کے ساتھ نفرت ہوگی اور جو نرمی کرتا ہے تو اس کی محبت لوگوں کے دلوں میں ہوگی۔ اور عفو در گزر بہترین تقویٰ ہے اور تغافل اہل کرم کا عمل ہوتا ہے۔
یہ بعید نہیں ہے کہ امام جعفر صادق اس مجلس میں ہاشمیوں کے سردار تھے خاص طور سے علماءے اہل بیت کی بعض روایات امام عبد اللہ بن حسن کی رفاقت میں سفاح سے ملاقات کی خبر کی توثیق کرتی ہیں جسے ہم بیان کریں گے۔ عبد الحلیم جندی نے الصحیفہ میں اپنی کتاب امام صادق سے یو ں نقل کیا ہے کہ سفّاح نے عبد اللہ بن حسن سے ان کے دو بیٹے محمد اور ابراہیم کے بارے میں پوچھا لیکن ان دونوں کے چھپنے کا پتہ چلا تو انہیں طلب کرنے کے حوالے سے خاموش رہا لیکن وہ اس روایت کے مصادر بیان نہیں کرتا اور میں اس بات کو نہیں مانتا اس لئے کہ میرے پاس تاریخی مصادر ہیں جو محمد ذی النّفس ذکیّہ کے قیام کے بارے میں ہے اگر یہ بات صحیح ہے یہ مقام حیرة میں ہوسکتے ہیں کیونکہ ابا العباس کوفہ میں زیادہ عرصہ نہیں رہا اور ۱۳۲ ھ بمطابق ۷۵۰ ء کو وہ کوفہ چھوڑ کر حیرہ چلاگیا اور وہاں وہ اپنے چچا داود بن علی کو والی بنایا لیکن سفّاح وہاں بھی زیادہ عرصہ نہیں رہا۱۳۴ھ بمطابق۷۵۲ ء میں وہ انبار چلاگیا ۔ ابن قتیبہ ، طبری، ابن اثیر کے مطابق وہ اپنی آخری عمر تک انبار کو ہی دارالخلافہ بناکر رکھا یہاں تک کہ وہ ۱۳ذی الحجة ۱۳۶ھ کو وفات پاگئے۔ گمان غالب یہ ہے کہ امام جعفر صادق اس دوران کوفہ اور حیرہ کے درمیان کہیں تھے جب امام زیارت کے لئے تشریف لے گئے تھے۔
بعض روایات یہ بھی بتاتی ہے کہ امام کوفہ سے قبر مطہر امیر المومنین کی طرف ایک مرتبہ گئے تھے اور حیرہ سے دوسری مرتبہ گئے تھے اور امام صادق کی اقامت وہاں اتنی کم نہیں تھی تو میرا نہیں خیال ہے کہ امام نے یہ طویل مجلس شاہی کی لالچ میں گزارے ہوں ۔ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امام عراق میں سفاح یاکسی اور سے کوئی مال متاع حاصل کرنے کی غرض سے گئے تھے۔ بلکہ امام کے اہداف و مقاصد کچھ اور تھے۔ ان میں ایک مقصد تو یہ تھا کہ اپنے اہل بیت سے ضررّ ہٹانے کے لئے گئے تھے جو انہیں عباسیوں کی خلافت او رفتح و کامرانی کی خوشی میں شرکت نہیںکرنے کی وجہ ہوا تھا ۔ اس کے علاوہ اہل بیت کے ماننے والے اور وہاں کے شیعوں سے تجدید عہد کیلئے گئے تھے ۔ علوم آل محمد کی نشرو اشاعت بھی آپ کے مقاصد میں شامل تھی جسے اموی حاکموں نے پس پشت ڈال دیا تھا۔اس کے علاوہ شاید یہ بھی آپ کے مقاصد میں شامل تھا کہ آپ جد بزرگوار کی زیارت کریں اور موضع قبر مطہر کی آپ دوستداروں اور مسلمانوں کیلئے نشاندہی کریںخاص طور پر جب بعض ایسے اخبار رائج ہونے جن کی وجہ سے مسلمانوں کیلئے موضع قبر مطہر باعث تشویش ہوا تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں جامع مسجد کوفہ میں کئی دفعہ امامصادق کے درس و مناظر ہوئے تھے آپ کی فیوضات سے پوری قوم مستفید ہوئی اس طرح علوم اہل بیت کی نشرو اشاعت ہوئی یہاں ممکن ہے مسجد کوفہ میں آپ سے بہت ساری روایتیں اور ان کی تفسیر بیان ہوئی یہ تو ہر ایک کو معلوم ہے کہ خلافتِ عباسیہ کے ابتدائی ایام علماءے اہل بیت کے سامنے ان کی علوم کی نشرو اشاعت کے دریچے کھل گئے اور ان کی پریشانیاں ختم ہوئیں اور قبر مطہر امام علی اور شہید اکبر امام حسین کی قبر زیارت عام ہوئی تو اہل کوفہ اور اس کے آس پاس وغیرہ کے لوگ جوق در جوق زیارت آئمہ کے لئے آنے لگے ۔ بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے امام صادقـحیرہ میں سفاح کی مہمانی کے دوران رات کو نکل کر قبر امیر المومنین کی زیارت کیلئے جاتے تھے اور وہیں نماز پڑھ کر فجر سے قبل حیرہ واپس آتے تھے۔ ابن طاوس نے اس حوالے سے کتاب الفر حة میں اسحاق بن دیر سے ایک روایت نقل کی ہے جو کہ ثقہ بھی ہے۔امام صادق فرماتے ہیں کہ ''جب میں حیرہ میں ابی العباس کے پاس تھا تو رات کو قبر امیر المومنین پر آتا تھا جو حیرہ کے کنارے غری النّعمان کی جانب واقع تھی اور نماز شب وہاں پڑھ کر فجر سے قبل نکلتا تھا۔'' اس زیارت کی شیخ حواسی نے اپنی کتاب ''تہذیب الاحکام ''میں توثیق کی ہے انہوں نے عبد اللہ بن سلیمان سے روایت کی ہے کہ ''ابی العباس کے زمانے میں جب ابو عبد اللہ امام صادق کوفہ میں پہنچے تو لباس سفر میں ہی کوفہ کے پل پر آکر ٹھہرے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ مجھے پانی پلادو تو اس ملاح کے کوزے سے پانی بھر کر آپ کو پلایا ''اگر چہ طوسی کی یہ روایت نہ زیادہ قبر امیر المومنین کے بارے میں بیان کر رہی ہے اور نہ ہی آپ کی سفاح سے ملاقات کا ذکر کر رہی ہے لیکن آپ کا ایسا کرنا محال ہے۔ کیونکہ آپ اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن حسن کے ہمراہ زیارت کی تھی جیسا کہ ''کتاب الفرحة ''میں عبد اللہ بن زید سے یوں بیان ہے کہ''میں نے جعفر بن محمد اور عبد اللہ بن حسن کو غرّی میں قبر امیر المومنین کے پاس دیکھا تھا اتنے میں عبد اللہ نے اذان دی اور نماز قائم ہوئی اور جعفر بن محمد کے ساتھ نماز پڑھی اور میں نے جعفر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ قبر امیر المومنین ہے۔''شاید یہ زیارت وہی ہو جسے ابن طاوس نے صفوان بن مروان الجمّال سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں اپنے اونٹ پر جعفر بن محمد بن علی نے امام صادقـکو بٹھا کر جب نجف پہنچے تو آپ نے فرمایا اے تھورا آہستہ چلا تاکہ حیرہ میں آتے اور جس جگہ کی طرف آپ نے اشارہ فر مایا جب ہم وہاں پہنچے تو آپ وہاں اُترے اور وضوء کیا پھر آپ اور عبد اللہ بن حسن آگے بڑھے اور ایک قبر کے پاس آپ دونوں نے نماز پرھی جب یہ دونوں نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے پوچھا میں آپ پر قربان ہوجاوں یہ کس کی قبر ہے؟تو آ پ نے فرمایا یہ علی بن ابی طالب کی قبر ہے جہاں لوگ آتے رہتے ہیں۔ اور کوئی دوسری زیارت ہو جو آپ نے اپنے چچا زاد بھائی کے ہمراہ ہی میں کی تھی۔
بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ علوی قافلہ امام جعفر صادق اور عبد اللہ بن حسن کی ہمراہی میں کوفہ میں پہنچے کسی کو پتہ بھی نہ چلا ''میرے نزدیک یہ بھی بعید نہیں ہے کہ ان دونوں کی استقبال کو پورا کوفہ نکلا تھا۔'' اس حوالے سے ابن طاوس کی روایت سے زیادہ مضبوط و محکم کوئی نہیں ہے جسے انہوں نے محمد بن معروف الہلالی سے نقل کی ہے کہ ''جب حیرہ میں جعفر بن محمد امام صادق کے پاس گیا وہاں پر لوگوں کی کثرت دیکھ کر میری سمجھ میں آیا کہ یہ لوگ یہاں کیونکر جمع ہیں۔ جب چار دن گزرے اور لوگ چلنے لگے تو امام نے مجھے اپنے پاس بلاکر کہا کہ یہ قبر امیر المومنین ہے تو میں ان کے ساتھ قبر کی جانب گیا۔''اگر چہ اس روایت میں موضع قبر کی تعین نہیں ہوئی ہے اور یہ زیارت ان کی پہلی زیارت بھی نہیں ہے یہاں پر ابن طاوس اور ایک روایت حسین بن ابی العلاء الطائی جس نے اپنے باپ سے نقل کی ہے کہ امام صادق حیرہ کی جانب چل پڑے اور ان کے غلام بھی تھا اور وہ تو سواری پر تھے تو یہ خبر کوفہ میں پھیل گئی ۔ وہ کہتا ہے میں نے ان سے پوچھا یہ جو اس کنارے پر جو قبر ہے''کیا امیر المومنین کی قبر ہے؟ ''تو انہوں نے فرمایا واللہ اے شیخ تم سچ کہہ رہے ہو۔ میرے خیال میں شاید امام نے جان بوجھ کر ایسا کیا تھا تاکہ یہ زیارت کی خبر لوگوں کے درمیان پھیل جائے اس لئے کہ کسی بھی مہم کو پھیلانے کیلئے یہ پہلا قدم ہوتا ہے۔
ابن طاوس نے امام صادق کی دوسری مرتبہ قبر علی کی زیارت کو معلی بن خنس سے نقل کی ہے جو خود امام کے ساتھ حیرہ میں موجود تھا۔ ہم آکر غرییّن میں پہنچے تو انہوں نے مجھے تھوڑی دیر رکنے کیلئے کہا پھر ہم چل پڑے یہاں تک ہم موضع پر پہنچے تو انہوں نے مجھے اترنے کو کہا اورخود بھی اتر گئے اورمجھ سے کہا یہ قبر امیر المومنین ہے پھر ہم دونوں نے نماز پڑھی ۔ اس روایت کو ابن عقدہ کو فی نے بھی اپنی کتاب فضائل امیر المومنین میں بیان کی ہے۔ اور ابن طاوس نے بعد میں ان کی تمام روایتوں کو بیان کیا ہے۔
مجھے لگتا ہے اس زیارت میں امام صادق اور عبد اللہ بن حسن کے ساتھ یزید بن عمر بن طلحہ اور اسماعیل بن امام صادق بھی تھے۔ کیونکہ ابن طاوس نے اس حوالے سے یزید بن عمر سے بھی روایت بیان کی ہے وہ کہتاہے ''جب وہ مقام ثویہ جو حیرہ اور نجف کے درمیان مقام ذکوات بیض کے نزدیک واقع ہے، پہنچے اور اترے ان کے ساتھ اسماعیل بھی اترے اور میں بھی ان دونوں کے ساتھ اترا پھر ہم نے ساتھ نماز پڑھی۔ ''راوی نے یہ تاکید ساتھ بیان کیا ہے کہ امام صادق نے ہی قبر علی کو عہد عباس میں ظاہر کیا جو عہد اموی میں پوشیدہ ہوگئی تھی۔ اور ایک سے زیادہ روائتیں ان کی حیرہ میں قیام کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔
طوسی نے ''تہذیب الاحکام ''میں مذکورہ روایت کو عبد اللہ بن طلحہ النّھدی سے نقل کیا ہے لیکن مجھے یہ نہیں معلوم یہ وہی زیارت ہے یا کوئی اور زیارت جس میں نہدی بھی امام اور ان کے فرزند کے ساتھ تھا وہ کہتا ہے ''ہم جب عبد اللہ امام صادق کے ہمراہ مقام غرّی میں پہنچے تو وہاں ایک جگہ پر آپ نے نماز پڑھی پھر اسماعیل سے کہا اٹھو اور اپنے حسین کے سر مبارک کے پاس نماز پڑھو اتنے میں میں نے پوچھا کیا اسے شام نہیں لے جایا گیا تو آپ نے فرمایا لیکن ہمارے مولانا نے لاکر یہاں دفن کیا تھا۔'' اور یہی روایت کتاب ''کامل الزّیارات ''میں موجود ہے کہ'' اٹھو اپنے جدّ بزرگوار حسین پر سلام پڑھو اتنے میںمیں نے کہا میں آپ پر قربان جاوں کیا حسین کربلا میں نہیں ہے تو آپ نے فرمایا ہاں جب ان کا سر مبارک شام لے جایا جارہا تھا تو ہمارے مولا نے لاکر امیر المومنین کے پاس دفن کیا تھا۔ ''
اور یہ روایت ''کتاب الفرحہ ''میں بھی وارد ہوئی ہے آپ ملاحظہ کریں کہ یہ روایت سابقہ کے دائرہ میں ہی ہے لیکن راوی نے اس میں تھوڑا اضافہ کیا ہے یا انہوں نے اپنے تصورات سے امام کی نمازوں کی تفسیر کی ہے۔ شاید اس نے یہاں موضع راس الحسین کا ارادہ کیا ہو۔ کیونکہ اہل بیت سے روایات کے مطابق جب امام علی بن حسینـکو شام سے کربلا سر شہداء کے ساتھ لایا جارہاتھا تو اس سر مبارک حسین کو جسد مطہر سے ملادیا تھا۔ اور کہا جاتا ہے ہاشمی سواری جب قبر امیر المومنین کے نزدیک پہنچے تو ٹھہر گئے اور سر مبارک حسین کو وہاں رکھ کر مصیبت بیان کی ۔ اور ابھی اسی مقام پر روضہ مقدس امیر المومنین میں مسجد الراس کے نام سے ایک مسجد موجود ہے اگرچہ بعض روایات کے مطابق سر حسین اپنے والد بزرگوار کے پاس دفن ہوئے شاید موضع سے مراد امام علی کی قبر کی سر کی جانب والی جگہ ہو جہاں بعد میں مسجد الراس کے نام سے ایک مسجد بنی ہواور اسے ہم آگے سطروں میں بیان کرینگے۔ یہاں ہم یہ بھی بتانا ضرور سمجھتے ہیں کہ موضع سر مبارک ابی عبد اللہ حسین کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔ جن میں سے ایک روایت کی مطابق امام علی بن حسین اپنی پھوپھی، شہزادی زینب اور باقی اسیران اہل بیت کے ہمراہ شام سے کربلا آرہے تھے تو آپ نے اپنے بابا کے سر مبارک کو بھی لاکر ان کے جسد مطہر سے ملاکر دفن کیے تھے۔ اور یہی مشہور ہے اور یہ بھی کہا جا تا ہے اسے لے جاکر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں قبر زہرا ء کے پاس دفن کیا گیا ایک قول یہ بھی ہے سر مبارک کو خود یزید کی الماری میں رکھا گیا اور اس کے مرنے کے بعد شام میں ہی سر مبارک کو دفن کیا گیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے اہل عسقلان سے لاکر قاہرہ میں دفن کیا گیا ایک اور بات کہ مقام ''مرو ''میں دفن ہوا ، مقام رقّہ میں دفن ہوا۔ نجف اشرف میں دفن ہوا یہ تمام روایات کو ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف ''میں تفصیل سے بیان کیا ہے لیکن ان کی رائے میں نجف والی بات زیادہ قوی اور ثقہ ہے۔ واللہ اعلم!
کلینی نے ایک صفوان جمّال سے کافی میں نقل کیا ہے کہ امام صادق عامر بن عبد اللہ بن جزاعة اذری کو قبر امیر المومنین کے بارے میں یوں بتایا ''جب امیر المومنین شہید ہوئے تو امام حسن کو تشویش لاحق ہوئی پھر جنازے کو ظہر کوفہ نجف کے قریب لے کر آئے جو غرّی سے بائیں جانب جبکہ حیرہ کے دائیں جانب واقع ہے پھر زکوات بیض کے درمیان دفن کئے ۔ کچھ عرصے کے بعد میں وہاں گیا مجھے اس موضع کے بارے میں شک ہونے لگا تو میں آکر اس کے بارے میں بتایا۔ آپ نے مجھ سے تین مرتبہ فرمایا تم نے گریہ کی اللہ تم پر رحم کرے۔''
یہ روایت میں ابن طاوس کی ''کتاب الفرحة ''میں بھی موجود ہے اور اس میں لوگوں نے قبر علی کے متعلق ایک دوسرے سے پوچھتے رہے یہاںتک کہ امام صادق نے ان کو بتایا اور گمان غالب یہ ہے کہ ابن جزاعة ازری اکیلا قبر علی کی زیارت کے لئے نہیں گیا بلکہ بعض اصحاب بھی ہمراہ گئے اس طرح آہستہ آہستہ یہ سلسلہ بڑھتا گیا اور پھر کوفہ میں یہ مشہور ہوگیا اس روایت کو ابن عقدہ نے اپنی کتاب ''فضائل امیر المومنین ''میں بیان کیا ہے جسے شیخ طوسی اور ابن طاوس دونوں نے بعد میں نقل کیا ہے ''یونس بن طغیان سے روایت ہے کہ میں ابو عبد اللہ امام صادق کے پاس گیا جب وہ حیرہ میں تھے انہوں ایک حدیث بھی بیان کی جسے ہم نے روایت کی کہ ایک وہ ان کے ساتھ ایک مخصوص جگہ پہنچے تو فرمایا اے یونس تو اپنی سواری کے قریب آو میں نے حکم کی تعمیل کی پھر انہوں نے اپنا ہاتھ بلند کیا اور خفی آوازمیں دعا کرنے لگے جسے میں نہیں سمجھ رہا تھا پھر وہ نماز پڑھنے لگے جس میں انہوں نے چھوٹی سورتیں آواز کے ساتھ پڑھیں میں بھی ان کی اتباع کی پھر انہوں نے دعا کی تب مجھے معلوم ہوا اور میں نے سمجھا اس کے بعد فرمایا اے یونس کیاتمہیں معلوم ہے کہ یہ کونسی جگہ ہے ؟ میں نے کہا آپ پر قربان ہوجاوں میرے مولا واللہ میں نہیں جانتا لیکن میں اتنا جانتا ہوں کہ میں اس وقت ایک صحرا میں ہوں اتنے میں آپ نے فرمایا یہ قبر امیر المومنین ہے''۔یونس کی روایا ت اگرچہ تفریشی کی کتاب ''نقد الرجال ''کے مطابق ضعیف شمار ہوتی ہیں لیکن اس کی بات اس حوالے سے دوسروں کی روایات میں رخنہ ڈالتی ہے۔
ہم نے جس زیارت کی بات کی جس میں صرف امام صادق اور ان کے رفقاء نے ہی نہیں کی اور مختلف زیارتیں مختلف شیعیان علی نے کی ہے جسے کلینی نے امکانی میںبیان کیا ہے اور ابن طاوس نے الفرحة میں بھی ذکر کیا ہے عبد اللہ بن سنان سے روایت ہے کہ انہوں نے قبر علی کی زیارت عمر بن یزید کی ہمراہی میں جو موضع قبر سے واقف تھا کی ہے۔ اور حفص الکناسی کہتا ہے کہ ہم ایک دفعہ مقام غرّی میں گئے تو وہاں ایک قبر دیکھی تو عمر بن یزید نے ہم سے کہا کہ'' تم سب یہاں اتر جاو یہ قبر امیر المومنین ہے ہم نے ان سے پوچھا تمہیں کیسے اس بارے میں معلوم ہے؟ تو اس نے کہا میں اس سے قبل بھی ابا عبد اللہ امام صادق کے ساتھ ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں آ چکا ہوں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ یہ قبر علی ہے ''جو اشخاص اس میں روایت امام صادق کے ساتھ شامل ہیں ان کی توثیق تفریشی نے اپنی کتاب ''نقد الرجال'' میں کی ہے۔
قارئین کرام آپ نے ملاحظہ کیا جو روضہ مقدس سے واقف لوگوں کا دائرہ وسیع اور زیادہ تھا۔ اور یہ تمام شیعیان اہل بیت خاص طور سے کوفہ والے جانتے تھے لیکن چونکہ ظالم حکومت موضع قبر علی کی توثیق کرنا نہیں چاہتی تھی جس کے باعث شکوک و شبہات نے جڑ پکڑی۔
الشیخ محبوبہ نے ابن طاوس کی ''الفرحة ''اور مجلسی کی ''تحفة الزّائر ''سے ایک روایت نقل کی ہے ''امام جعفر صادق جب حیرہ پہنچے توآپ نجف کی طرف گئے اس وقت وہاں پر تین قبور محرابیں تھیں ان میں ایک امیر المومنین کی قبر دوسری موضع سر حسین جبکہ تیسری موضع منبرالقائم تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روایت کی تفسیرمیں شیخ کی رائے صحیح جس کا انہوں نے حوالہ دیا ہے اور جب امام صادق کی زیارت کے وقت موضع قبرمیں کوئی محراب نہیں تھا اور امام نے ہر موضع پر یعنی موضع قبر علی ، موضع راس الحسین اور موضع منبر القائم پر نماز پڑھی ''اور یہ روایت ہے وہ کہتا ہے ''جب ابو عبد اللہ امامصادق مقام حیرہ میںتھے مجھ سے کہا تم لوگ اپنے خچر اور گدھوں پر زین کس دو اور سوار ہوجاو میں سوار ہوا یہاں تک کہ ہم مقام الجرف میں داخل ہوئے پھر امام وہاں اترے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر تھوڑا آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی پھر دوبارہ اور آگے بڑھے اور دو رکعت نماز پڑھی۔ اس کے بعد دوبارہ سوار ہوئے اور واپس آئے اتنے میں میں نے پوچھا کہ میں آپ پر فدا ہوجاوں یہ پہلی دو رکعتیں، پھر دوسری اور پھر تیسری دو رکعتیں کیا تھیں۔ تو آپ نے فرمایا پہلی دو رکعتیں موضع قبر امیر المومنین کی تھی۔ دوسری دو رکعتیں موضع راس الحسین پر جبکہ تیسری دو رکعتیں موضع منبر القائم پر تھیں۔''
ابن طاوس نے اس روایت کو مبارک الخبّار اور ابان بن لقلب سے الفرحة میں نقل کیاہے اور دوسری سند سے ابی الفرج السیّدی نے کہا ''میں عبد اللہ جعفر بن محمد کے ہمراہ تھا جب وہ حیرہ میں آئے تھے تو ایک رات انہوں نے خچر پر زین ڈالنے کو فرمایا پھر وہ سوار ہوئے میں بھی ان کے ہمراہ تھا ۔ یہاں تک کنارے پہنچے تو وہ اترے اور دو رکعت نماز پڑھی پھر آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی پھر آگے بڑھے دو رکعت نماز پڑھی۔ میں نے پوچھا میں آپ پرقربان ہوجاؤں یا ابن رسول اللہصلىاللهعليهوآلهوسلم
آپ نے تین مواضع میں نماز پڑھی؟ آپ نے فرمایاپہلا موضع قبر امیرالمومنین دوسرا موضع راس الحسین جبکہ تیسرا موضع منبر القائم ہیں۔''اس کے علاوہ بعض کتابوں میں زیادہ مبالغہ آرائی سے نظر آتی ہے جس کی کوئی ماخذ میں نہیں ملے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ توثیق کے بجائے مزید مشکوک بناتی ہے بلکہ آنے والوں کے لئے اس بارے میں وہم و گمان میں اضافہ ہوتا ہے اگر چہ کثرت حب وولاء کی وجہ سے ہوسکتی ہے مرقد امام علی اور ان کے روضہ ایک سے زیادہ امور سے بیان ہوجائے گی۔
مرقد امامـکی علامت
سیّد ابن طاوس کی ''کتاب الفرحة ''میں ایک روایت نقل ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام جعفرصادق وغیرہ جب امام علی کی قبر کی زیارت کے لئے گئے تھے تو انہوں نے پتھر یا کوئی چیز قبر علی اور موضع راس الحسین پر رکھ دیا تھا تاکہ بعد میں آنے والوں کیلئے علامت رہے۔ پس ایک روایت ابن طاوس نے اپنے چچا سے اور انہوں نے ابن قولویہ کی سند سے نقل کی ہے۔ علی ابن اسباط اس علامت کو اٹھاتے ہوئے کہا کہ ابو عبداللہ امام صادق نے فرمایا کہ تم جب کبھی غرّی میں آ و تو وہاں دو قبریں دیکھو گے ان سے ایک چھوٹی اور دوسری بڑی ہوگی بڑی قبر امیر المومنین ہے جبکہ چھوٹی راس الحسین ہے۔ یہ روایت ابن قولویہ کی کتاب ''کامل الزیارات ''اور ابن عقدہ کی ''فضائل امیر المومنین'' میں آئی ہے شاید اس بات سے''وامّا الصّغیر فراس الحسین''
مگر چھوٹی راس الحسین سے مراد وہی موضع ہے جس کا ذکر گزر چکا لیکن یہ نہیں معلوم کہ یہ کب سے تھا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مرقد امام میں ایک علامت رکھی ہوئی تھی جس کے ذریعے ہر کسی کو اس موضع کے بارے میں معلوم ہوتا تھا۔یہ صرف قبر امیر المومنین کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ زمانہ قدیم و جدید ہر قبر کے ساتھ یہی ہوتا آرہا ہے دراصل یہ ایک غیر ارادی عمل ہوتا ہے یہاں تک نامعلوم میّتوں کے ساتھ بھی ایسا ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے تاکہ قبر کی مٹی بچ جائے اور قبر کے وجود کے بارے میں پتہ چل جائے۔اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ علامت امام کو دفن کرنے والوں نے ہی رکھی تھی۔
اس کی تائید سیّد ابن طاوس کی روایت سے بھی ملتی ہے جسے انہوں نے علی بن حسن نیشاپوری کی سند سے اپنی ''کتاب الفرحة ''میں بیان کی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر بن محمد بن حسن بن حسن کو یہ فرماتے ہوئے سناہے انہوں نے اپنے والد سے سنا ہے کہ صفوان الجمال نے کہا ''جب وہ مکہ میں تھے اُن سے قبر امیر المومنین کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے ایک لمبی حدیث بیان کی اور آخر میں کہا جب میں اور جعفر بن محمد امام صادق قبر امیر المومنین پر پہنچے تو جعفر بن محمد اترے اور وہاں کھودنا شروع کیا پھر وہاں سے ایک لوہے کا سکہ نکالا پھر زمین کی سطح کو برابر کیا اور نماز کی تیاری کی اور چار رکعات نماز پڑھی اس کے بعد مجھ سے فرمایا اے صفوان اٹھو اور وہی کرو جو میں نے کیا اور جان لو کہ یہ قبر امیر المومنین ہے ''۔قارئین کرام اب آپ ملاحظہ کریں کہ قبر امام لوگوں کی طبیعت کے اوپر نہیں چھوڑی گئی ہے کہ وہ جو چاہے کر گزرے بلکہ باقاعدہ وہاں علامت رکھی گئی ہے تاکہ زیارت کے لئے آنے والوں کی رہنمائی ہوسکے۔ صفوان نے یہاں جو لوہے کا سکہ کی بات کی اس حوالے سے گمان غالب ہے کہ یہ حسین نے رکھی ہو یا کسی اور نے رکھی ہو جو دفن کے موقع پر ساتھ تھے یا امام زین العابدین نے رکھی ہو جب آپ اپنے فرزند امام باقر کے ساتھ جدبزرگوار کی زیارت کے لئے تشریف لائے تھے تاکہ یہ علامت رہے اپنے اہل بیت اور آپ کے ماننے والوں کے لئے جو بعد میں وہاں آئیں۔
امام جعفر صادق ـکی مرقد امیر المومنین ـکی زیارت،خلافت منصور میں
جب سفاح نے اپنے چچازاد علوی بھا ئیوں کے ساتھ محبت و عاطفت کا اظہار کیا کیونکہ اسے یقین تھاکہ وہ بیعت کریں گے اور اسے اہل بیت کے خون کے انتقام کے اعلان کے بارے میں بھی معلوم تھا اور اس کی بیعت پر اہل بیت میں کچھ راضی ہوں گے اسے یہ بھی معلوم تھا جیساکہ مقام ابواء میں جو مدینہ منورہ کے قریب واقع ہیں۔ جہاںبنی امیہ کے آخری عہد میں محمد ذوالنفس الزکیہ بن عبداللہ ابن الحسن کی بیعت کی گئی تھی۔ان کے بیعت کرنے والوں میں سے کچھ لوگ ابھی تک زندہ تھے جن کابھا ئی ابوجعفر منصور تھا ۔ابن کثیر کے مطابق موصوف نے اس بیعت میں شرکت کی تھی ۔
اور سفاح محمد اور اس کے بھا ئی رو پو شی سے متعلق بھی جانتے تھے اور سال۱۳۶ھ/ ۷۵۳ ء کو وفات پا گیا ۔اور اسی سال کے دوران ابو جعفر منصور نے اپنے طرف سے حج پر جانے کی اجازت مانگی اور اس میں اس کا بڑا مطلب تھا کہ محمد اور ابراہیم جو عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب کے فرزند تھے جنہوں نے اس کے پاس آنے سے انکا ر کیا تھا جب بنی ہاشم کے دوسر ے تمام لوگ اس سے ملنے کے لیے آئے تھے ۔یہ بات طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کی ہے ۔اور سال۲۴۰ھ/۷۵۷ ء وہ دوبارہ حج کے لئے روانہ ہو ئے اس زمانے میں مدینہ کا گورنرزیاد بن عبداللہ الحارثی تھا ۔ اسے یہ فکر لاحق تھی کہ عبداللہ بن حسن بن حسن ابن علی ابن ابی طالب کے فرزند محمد اور ابراہیم نے اس وقت اس کے پاس آنے سے مخالف کی جب تمام بنی ہا شم نے اس کے بھائی ابی عباس کی زندگی میں حج کے ایام میں ملاقات کی تھی ۔
ابو منصور نے زیاد بن عبداللہ الحارثی سے ان دونوں یعنی محمداور ابراہیم کے متعلق پوچھا تو زیاد نے اسے کہا ان دونوں سے تمہارا کیا کام ہے ۔میں ان دونوں کو تمہارے پاس لاوں گا۔ اور اس دوران ۱۳۴ھ میں زیاد ابوجعفرکے ساتھ مکہ میں تھا۔ابو جعفر نے زیاد کو دوبارہ یاد دلایا تو انہوں محمد اور ابراہیم کو ان کے حوالے کر دیا ،اس مو قع پر طبری پلٹ کر دوبارہ اپنی تاریخ اس سے متعلق بیان کر تا ہے کہ منصور نے آل ابی طالب کو اس حج کے دوران کچھ بخشش دی تھی لیکن اس موقع پر فرزندان عبداللہ نہیں تھے ۔تو اس دن ان کے والد عبداللہ کے پاس گیا اور ان دونوں کے بارے میں پو چھا تو انہوں نے جواب دیا مجھے ان دونوں کے بارے کچھ معلوم نہیں ہے ۔
اتنے میں وہ ایک دم غصے میں آیا اور اسے قتل کرنے کا حکم دینے والا تھا لیکن زیاد ابن عبداللہ نے اپنی چادر ان پر ڈال کر انہیں بچایا اور کہا اے امیر المومنین یہ شخص مجھے دیجئے میں ان کے دونوں بیٹوں کو نکال دوں گا ۔ اس واقعے کو طبری نے بھی اپنی تاریخ میں ذکر کیا ہے ۔اس کے بعد منصور نے زیاد کو اس کے گھر والوں سمیت جیل بھجوا دیا ۔اور۱۴۴ھ میں ریاح بن عثمان مدینہ کا گورنر بنا جب موسم حج میں منصور حج پر جارہے تھے تو ریاح نے مقام ربدہ میں ان کا استقبال کیا اس وقت منصور نے ریا ح سے عبداللہ کے بندے اور خاندان جن میں محمد بن عبداللہ وغیر ہ شامل تھے ۔ابن عثمان بن عفان جو عبداللہ بن حسن کی ماں کی طرف سے بھا ئی تھا ان سب کو ریاح سے طوق زنجیر پہنا کر ربدہ لایا ۔طبری نے اپنی تاریخ میں۱۴۴ھ کے واقعات کو بیان کر تے ہوئے یہ لکھا ہے کہ امام صادق کو اپنے چچا زاد بھا ئی حسین بن زید بن علی ابن حسین کو ہتھکڑیا ں پہنا کر نکالنے کی خبر ملی تو آپ بارگاہ خداوندی میں کثرت سے ان کے حق میں دعا کر تے رہے ۔پھر اپنے غلام سے کہا ابھی ان کے پاس چلے جاو۔او ر جب انہیں لے جایا جائے تو مجھے خبر کر نا ۔اتنے میں قاصد آیا اور آپ کو بتا،یا کہ وہ لے گئے ہیں تو فورا جعفر ابن محمد امام صادق اپنی جگہ سے اٹھے اور پردے کے پیچھے کھڑے ہوئے جس کے پیچھے سے وہ دوسروں کو دیکھ رہے تھے لیکن انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔جب جعفر کی نظر ان پر پڑھی تو اس کی آنکھیں نم ہو گئی اور داڑھی آنسوسے بھیگنے لگی پھر امام فرماتے ہیں وہ میرے پا س آکر کہنے لگااے اباعبداللہ قسم ہے خدا کی ان کے بعد اللہ کے لیے کسی کی حرمت باقی نہیں بچے گی ۔
اس میں کوئی شک نہیں یہ دن علویین اور عباسین کے درمیا ن ہمیشہ اور دائمی جدائی کا سبب تھا اس لیے منصور نے اس کے ساتھ ایک کھیل کھیلا کیو نکہ جب اِسی منصور نے عبداللہ ابن حسن کے مادرزاد بھائی پر ایک سو پچاس کو ڑے مارنے کا حکم دیا تھا اور ااس کے گردن میں پر طوق بھی تھا ۔اس نے لوگوں سے بچانے کی اپیل کی لیکن کسی نے بھی اس کی فریا د سننے کی جرات نہیں کی۔ اور عبداللہ بن حسن نے اس کے لیے پانی مانگا تھا تو ایک خراسانی نے آگے بڑھ کر اسے پانی پلایا تھا جب منصور کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اس کو بھی باقی ہاشمیوں کی طرف دھکیل دیا ۔اور انہیں کو فہ بھیج دیا گیا تو وہ راستے میں انتقال کر گیا اور باقیوں کو کوفہ کے مشرق کی جانب واقع ابن ہبیرہ کی قصر میں قید کر نے کا حکم دیااور ان میں سب سے پہلے مرنے والوں میں عبداللہ بن حسن تھے جن کی نماز جنازہ ان کے بھائی حسن ابن حسن ابن حسن ابن علی پڑھائی ۔اس کے ساٹھ دن بعد منصور نے ان کے اوپر قصر کو گرا نے کا حکم دیا تو سارے شہید ہوئے ۔
اول رجب یا ماہ جمادی آخرہ سال ۱۴۵ھ/۷۶۲ ء میں مدینہ میں ذولنفس الزکیہ نے انتقام کا اعلان کیا جب مدینہ کے گورنر ابن ریاح کو ان کے خروج کا علم ہوا تو اس نے حسینیوں کا ایک شخص اور بعض قریشیوں کو جن میںسر فہرست امام جعفرالصادق تھے پکڑوادیا ۔اتنے میں مسلم بن عقبہ المری نے ان کو قتل کر نے کا مشورہ دیا تو حسین ابن علی ابن حسین نے اس پر اعتراض کرتے ہو ئے کہا قسم خداکی یہ تمہاری طرح نہیں ہے ۔ہم تو مطیع ہیں ۔یہ بات ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ'' میں لکھا ہے ۔اس کے بعد جلد ہی ذولنفس الزکیہ نے مدینہ کے گورنر کو شکست دی اور جیل میں ڈال دیا پھر بیت المال پر قبضہ کیا اس نے تمام لو گو ں کو قید سے آزاد کروایا ۔اس کے بعد ذولنفس الزکیہ کے پیچھے سوائے چند شخصیات کے باقی تمام قید سے باہر آئے طبری ۔ابن اثیر ،اور ابن کثیر وغیرہ کے مطابق اتنے میں مالک بن انس نے منصور کی بیعت سے بطلان کا اعلان کر دیا کیو نکہ یہ بیعت لوگوں سے جبرا لی گئی تھی۔اور محمد اور منصور کے درمیان کچھ خط کتابت ہوئی جس میں منصور نے معافی مانگنے کے علاوہ اور بہت سارے وعدے کئے لیکن وہ وعدہ خلافی کرنے میں بڑا مشہور تھا اس لیے اس کی یہ بات رد کی گئی تھی۔
جسے طبری نے اپنی تاریخ میں بیان کیا ہے ۔میں تم سے اس امر میں زیادی بہتر جانتا ہوں اور وعدہ وفائی میںزیادہ وفادار ہوں کیو نکہ جو عہد و امان مجھ سے پہلے کسی کو نہیں دی ہے توتو مجھے کونسی امان دوگے !!!۔ابن ہبیرہ کا امان یا تمہا را چچا عبداللہ بن علی کا امان ابی مسلم کا امان ۔اور ذولنفس الزکیہ کا ثورہ کے ساتھ فرزندان امام صادق موسیٰ اور عبداللہ بھی مل گئے ۔اگر چہ امام اس ثورہ کی مقاصد پر یقین تھا ابو الفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین ''میں لکھا ہے کہ نسل رسول اللہ کی انقطاع کے خوف سے امام صادق نے اپنے چچازاد''ذولنفس الزکیہ ''سے ان کے اعلان ثورہ کے بعد کہا تم کیا یہ بات پسند کرو گے کہ تمہارا خاندان ہو ،تو انہوںنے کہا ایسا ہرگز نہیں امام نے فرمایا اگر تم مجھے اجازت دینا پسند کرو گے تمہیں میرا سب معلوم بھی ہے ۔ انہوں نے کہا میںنے آپ کو اجازت دی پھر امام کے وہاں سے گزرنے کے بعد محمد ان کے فرزندان موسیٰ اور عبداللہ کی طرف متوجہ ہو ااور ان سے کہا کہ تم دونوں اپنے بابا کے ساتھ جاسکتے ہو میں تمہیں اجازت دیتا ہوں ۔تو وہ دونوں چلے گئے ۔پھر امام صادق نے انہیں اپنی طرف آتے دیکھا تو فرمانے لگے کہ تم دونوں کو کیا ہو ا کہنے لگے اس نے ہمیں اجازت دی ہے کہ آپ کے ساتھ جائیں اتنے میں امام نے فرمایا تم دونوں واپس چلے جاو مجھے تم لو گوں کی ضرورت نہیں ہے ۔
پھر دونوں محمد کے پاس چلے گئے ۔اس کے باوجود کہ امام صادق کو یقین تھا ،ذولنفس الزکیہ کا انقلاب کامیاب نہیں ہو گا اسے احجار زیت کے پاس شہید کیا جائے گا لیکن محمد کے والد عبداللہ کو اس بات پر یقین نہیں تھا ۔اور سوچا تھا کہ امام ان کے ساتھ حسد کر کے ایسا فرماتے ہیں ۔
ابو الفرج نے اپنی کتاب مقاتل میں لکھتا ہے کہ واقعاوہ ۱۴۵ھ/۷۶۲ ء کو ماہ رمضان میں شہید کیا گیا اور اس کے بعد ماہ ذیقعدہ میںاس کے بھا ئی کو ماردیا گیا ۔کیونکہ امام صادق ذولنفس الزکیہ کے انقلاب کے بارے اچھی طرح جانتے تھے اور آپ نے انقلاب شروع ہونے پہلے سے کئی بار اعتراض کیا ۔جب مقام بوا میں اس کی بیعت ہو رہی تھی جس میں منصور بھی حاضر ہوا تھا اور اس کے بعد مسجد الحرام میں دوبارہ بیعت ہوئی ۔
ابو الفرج کے مطابق ابو سلمہ الخلال کے آنے پر ذولنفس الزکیہ کے چچا زاد بھا ئی عبداللہ بن حسن نے اعتر اض کرتے ہو ئے انہیں منع کیا تھا ،یہ دیکھتے ہوئے کہ یہ منصور کی جال میں پھنس رہے ہیں جس کے پیچھے لالچ و طمع او ر آخر میں قتل وموت کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے۔ طبری نے اپنی تاریخ میں عبداللہ بن محمد بن علی ابن الحسین کی بیٹی سے ایک روایت نقل کیا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ میںنے اپنے چچا جعفر ابن محمد سے کہا تھا میں آپ قر بان ہو جاوں محمد بن عبداللہ کا یہ کا م کیسا ہے ؟ آپ نے فرمایااس کا یہ فتنہ ہے اسی میں اسے ایک رومی کے گھر کے نزدیک مارا جائیگا اور اس کا بھا ئی عراق میں مارا جائے گا اور ان کے گھوڑوں کو پانی میں پھینکا جائے گا ۔یہی روائت عیسیٰ ابن علویہ سے یوں روایت ہے ۔'' حمزہ بن عبداللہ بن علی نے جب محمد کے ساتھ خروج کیا اوراان کے چچا جعفر اسے برابر منع کر تے رہے۔ لیکن زمانے کے طاقت ور محمد کے ساتھ تھے اس نے کہا کہ جعفر کہتا ہے کہ محمد (ذوالنفس)جلد قتل کیا جائے گا تو اس نے کہا کہ جعفر ڈرتے ہیں ''لیکن ہمارامقصد یہاں پر امام جعفر الصادقـکی اپنے جد بزرگوارزیارت کو ثابت کر نا جو منصور کی عہد خلافت میں آپ کا قیام کو فہ یا حیرہ کے دوران کی تھی۔جسے شیعہ مصادر نے توکثرت اور توثیق کے ساتھ بیان کیا ہے ۔جس کے لئے آپ اسد حیدر کی کتاب امام صادق اور مذاہب اربعہ ملاحظہ کر سکتے ہیں البتہ اصحاب حدیث کی مصادر بھی کوئی کم نہیں ہے ان میں بعض یہ اشارہ کر تی ہے ۔کہ سال ۱۴۴ ھ /۷۶۱ ء کو امام ،منصور سے ملے تھے ۔جب اس نے عبداللہ بن حسن اور اس کے خاند ان کو مدینہ میں قید کر وانے کا حکم دیا تھا ۔ابن عبدالربہ نے اپنی کتاب العقید ة الفرید میں ابی الحسن المدائنی میں ایک روایت نقل کی ہے ۔جب حج پر جاتے ہوئے مدینہ سے گزرے تو اس نے اپنے دربان ربیع سے کہا میر ے سامنے جعفر بن محمد کو حاضر کرو میںاسے ضرور قتل کروں گالیکن ربیع نے اس میں ٹال مٹول کیا مگر اس پر زور دیا گیا اتنے میںان دونوں کے درمیان راز کھل گیا اور اس کے قریب گیا اور اس کے سامنے کھڑا ہو کر جعفر نے ہونٹو ں سے اشارہ کیا پھر اس کے قریب گیا اور اسے سلام کیا تو اس نے کہا تم تواللہ کے دشمن ہو لہٰذاتم پر کوئی سلامتی نہیں ہے ۔
تم نے میری حکومت میں فسادپیدا کیا ہو ا ہے ۔اللہ مجھے زندہ نہیں رکھے اگر میں تمہیں قتل نہیں کروںتو اتنے میں جعفر نے کہا اے امیر المومنین جناب سلیمان جس پر اور محمدصلىاللهعليهوآلهوسلم
پر اللہ درود بھیجا تو اسے عطا کیا گیا اسے مقابلے میں اس نے بارگاہ رب العزت میں شکر بجا لایا۔ جناب ایوب پر مصیبتیں نازل ہوئی تو انہوں نے صبر کیا جناب یوسف پر ظلم کیا تو اس نے معاف کیا ۔اور آپ تو ان کے وارث ہو اور ان کی اتباع کر نے کے زیادہ حق دار ہیں ۔تو ابو جعفر نے عاجزی سے سر جھکا یاجعفر کھڑا تھا پھر سر اٹھایا اور کہا اے ابو عبدللہ آپ میرے پاس آئے ۔آپ رشتہ داری میں مجھ سے زیادہ قریب ہیں اور صلہ رحمی ہمارے درمیان زیادہ ہے اور آپ مجھے کم اذیت دینے والے ہیں ۔پھر اس نے دائیں ہاتھ سے مصافحہ کیا اور بائیں طرف سے معانقہ کیا اور اپنے ساتھ بٹھا یا اس سے بعض لوگ اس سے منحرف ہو ئے اور وہ باتیں کر نے لگے پھر کہا اے ربیع اباعبداللہ کے لئے خلعت اور انعام جلد لے آو ، ربیع نے کہا جب میرے اور اس کے درمیان پردہ کھل گیا تو میں نے جاکر ان کے قمیص پکڑ لی تو انہوں نے کہا اے ربیع تم ہمیں قید میں ہی دیکھو گے تو میںنے کہا نہیں آقا ایسی کوئی بات نہیں یہ میر ی ذمہ داری ہے اس کی نہیں تو آپ نے کہا یہ تو بہت آسان ہے پوچھ تمہا ری حاجت ہے۔میں نے کہا تین دن سے آپ کا دفاع کر رہا ہو ں اور آپ کی حفاظت کر رہاہو ں میں نے دیکھا کہ آپ ہو نٹوں سے اشارے کرتے ہو ئے داخل ہو ئے تھے پھر میں نے دیکھا آپ کے بارے میں بات واضح ہو گئی۔ میں تو ایک سلطان کابیٹا ہو ںمجھے اس کی ضرورت نہیں ہے ۔میں چاہتا ہوں کہ آپ کچھ علم مجھے تعلیم فرمائے ۔اتنے میں آپ نے فرمایا:اے اللہ میر ی حفاظت اپنی نہ سونے والی ذات سے فرما اور ہمیشہ اپنے حفظ وامان میں رکھ' تو نے مجھے اپنے رحمتوں سے محروم نہیں کیا لیکن میری طرف سے بہت کم شکر ادا ہو ا لیکن پھر بھی تونے مجھے اپنے رحمتوں سے محروم نہیں رکھا اور مجھ پر کتنی بلائیں نازل ہو ئی لیکن میں نے صبر نہیں کیا پھربھی تو نے میری آبروریزی نہیں کی ۔اے میرے اللہ تیر ے زریعے ہی میں اس کا مقابلہ کرونگا اور تجھ سے ہی میں اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور توہی ہر چیز پر قادر ہے اللہ محمد ہمارے سردار اور ان کی آل پر درود بھیج ۔اب آپ ملاحظہ کریں کہ امام جعفر الصادق نے منصور کے غصے کو کیسے قابو کیا یہ دلیل دیتے ہوئے کہ وہ اس کی خلافت کے معترف ہیں اور بیعت پر ملتزم ہے ۔اور اس کے خلاف خروج نہیںکریں گے اوراسے ارث سلیمان اور ایوب اور یوسف جذبہ دلاکر اس کے خوف ودبدبہ کو بٹھا یا ۔
تو اس کے پاس شیطان آیاجب اسے یہ پتہ چلا کہ امام اس کے خلاف کوئی تحریک چلانے والے ہیں اس بات کی طرف طبری نے اپنی تاریخ میں اشارہ کیا ہے ۔شاید اس ملاقات میں امام نے یہ بات اور تمام باتیں اس لیے کی ہوں کیو نکہ منصور نے ان کی زمین پر قبضہ کیا ہو تھا اور اس کے واپس مانگنے پر منصور امام کے قتل کاا رادہ رکھتا جسے طبری نے بھی اپنی تاریخ میں یو ں بیان کیا ہے ۔
مجھ پر جلدی مت کرو اس وقت میں تریسٹھ برس کا ہوچکا ہوں اور عمر کے اس حصے میں میرے والد بزرگواراور جد امیر المومنین علی ابن ابی طالب بھی وفات پا چکے ہیں۔اور میر ے نزدیک تو بر تر ہو گا اور اگر میں تمہا رے بعد زند ہ رہوں تو تمہا رے بعد جو آئے گا وہ معزز ہو گا اتنے میں اس کا دل نرم ہوا اور اسے معاف کیا ،اس میں کوئی شک نہیں کہ عباسیوں کو امام جعفر الصادق کی طرف سے اپنی حکومت کے لئے زیادہ خوف تھا باقی علویوں کی بہ نسبت کیو نکہ امام کی حیثیت اور تاثیر تمام مسلمانو ں میں خاص طور سے شیعیا ن علی ابن ابی طالب کے نفوس میں زیادہ تھی ۔جس کا اندازہ منصور کو تھا ۔اس دلیل کی بنا پر کہ ایک دن ابو جعفر منصور نے محمد ذوالنفس الزکیہ کو ایک خط لکھا اور وہ خط یہ ہے کہ ''تم لوگوں کے درمیان ان کے بعد بیٹے محمد بن علی جیسا کوئی نہیں جس کی دادی ام ولد ہے ۔اور وہ تمہا رے والد سے بہتر ہے اور ان کے بیٹے جعفر جیسا نہیں جو تم سے بہتر ہے ''اس حوالے سے ابن ربہ نے اپنی کتاب ''العقدالفرید ''میں لکھا ہے کہ اس کی تفصیل کوئی محبت و مودت میں نہیں تھی ۔بلکہ ان کے پیچھے ہونے کی خوف کی وجہ سے تھا جو اس کی حکو مت کے لیے ان کی طرف سے تھا۔اور یہ امام کی قتل کی ایک سازش تھی اور اس کو اکساناتھا اگر چہ بعد کے زمانے میں ہی کیوں نہ ہو ۔امام جعفر الصادق کو عراق طلب کیا اس حوالے سے میرے نزدیک صرف شیعہ روایات نہیں بلکہ دوسروں کی بھی ہیں کہ امام جو سال ۱۴۳ھ/۷۶۰ ء کے اواخر یا۱۴۴ ھ /۷۶۰ ء کے اوائل میں عراق طلب کیا گیا یعنی میر ے خیال میں عبداللہ بن حسن اور اس کے خاندان کو سزا دینے سے قبل کا زمانہ تھا ۔اس زیارت کی توثیق بحث کو جاری رکھنے کی زیادہ اہمیت کے حامل ہے۔جسے ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں بیا ن کیا ہے اور شیخ محمد حسین حرزلدین نے اپنی تاریخ نجف میں نقل کیا ہے۔کہ منصور نے خالد بن عبد اللہ القسری کے آقا رزام کو امام جعفر صادق کو مدینہ سے حیرہ لانے کے لیے بھیجاتھا ۔رزام کہتا ہے ۔جب انہیں لے آیا تو منصور حیرہ میں تھا اور جب ہم نجف پہنچے تو جعفراپنی سواری سے اترے او روضو کیا پھرقبلہ رو ہوکر دو رکعت نما ز پڑھی پھر اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا ،رزام کہتا کہ جب میں ان کے قریب ہوا تووہ کہہ رہے تھے اے میرے پروردگارمیں تجھ سے ہی فتح و کامیابی مانگتا ہوں اور محمد جو تیرے بندے اور رسول ہیں سے مدد مانگتا ہوں۔ اے میرے پروردگار اس کی پریشانی آسان فرما اور اس کی سختی میر ے واسطے آسان فرمااورمیری آرزو سے زیادہ مجھے نیکی عطا فرما اور میرے خوف سے بڑی بدی کومجھ سے دوررکھ ۔جب امام پہنچے تو منصور نے بڑے اچھے طریقے سے ان کااستقبال کیا اوراپنے پاس بٹھاکرخوش ہوئے' پھر عبداللہ بن حسن کے بیٹے محمداورابراہیم کے بارے میں پوچھااوران کے قیام کے خوف سے متعلق بتایا جوان دونوںگھرانوں/خاندانوں یعنی عباسی اورعلویوںکے درمیان ہونے والے متوقع جدائی کا تھا۔ توامام نے جواب دیا کہ واللہ میں ان دونوںکو منع کر چکاہوںتوانہوںنے نہیں مانا پھر میں نے ان کوچھوڑدیااوران کے بارے میں،میں نہیں جانتا اور میں تمہارے ساتھ ہوں اتنے میں منصور نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔لیکن مجھے معلوم ہے کہ ان کے بارے میں جانتے ہیں اورجب تک مجھے ان کے بارے میںنہیںبتائیںگے میںآپ کوچھوڑنے والا نہیں ہوں تو آپ نے فرمایاکیاتم مجھے ایک آیت کی تلاوت کی اجازت دوگے ؟جس میں میرے آخری کام اور علم ہوگا۔اس نے کہا اللہ کے نام پرفرمایئے۔امام نے فرمایا:
(
اَعُوْذُ بِاﷲِ مِنَّ الشَّیْطَانِ الرَّجِیمْ
)
(
لَئِنْ ُخْرِجُوا لاَیَخْرُجُونَ مَعَهُمْ وَلَئِنْ قُوتِلُوا لاَ یَنْصُرُونَهُمْ وَلَئِنْ نَصَرُوهُمْ لَیُوَلُّنَّ الَْدْبَارَ ثُمَّ لاَ یُنْصَرُونَ
)
(سورہ حشر آیت۱۲)
یہ سن کر ابوجعفرسجدے میںگر گیاپھر سراٹھاکرامام کی پیشانی چومنے لگے اور کہا مجھے صرف آپ چاہیے پھراس کے بعدکسی چیزکے بارے نہیںپوچھایہاںتک کہ ابراہیم اور محمدکے بارے میںبھی۔ ابن خلکان نے اپنی وفیات میں ایک روایت نقل کی ہے۔ جو امام کی منصور سے ملاقات'امام کے چچازادبھائیوںکوقتل سے پہلے ثابت کرتی ہے۔اور یہ روایت سابقہ سے ملتی جلتی ہے۔وہ کہتاہے کہا جاتاہے کہ منصور نے جعفر کو بلانے کیلئے محمدبن عبداللہ کے قتل سے پہلے بھیجا تھا جب وہ نجف پہنچے تو نماز کیلئے وضو کیاجیساکہ ہم نے پہلے اشارہ کیا۔ذی النفس الزکیہ کاانقلاب سال ۱۴۵ھ/۷۶۲ ء میں تھا اورابن خلکان کی خبرسے ظاہر ہوتاہے کہ منصورنے عبداللہ اور اس کے بھائیوںکو اس کے بعدقتل نہیںکیا۔یہاںپرمحمد حسین حرزالدین نے ایک مناظرے کابھی ذکر کیاہے جوامام جعفر صادق اور ابوحنیفہ کے درمیان منصورکے مجلس میں ہو تھا جس کا زمانہ تقریبا۱۴۳ھ /۷۶۰ ء کے آس پاس کاتھا۔ اورانہوںنے اس مناظرے کومناقب ابی حنیفہ سے نقل کیاہے .......اوروہ کہتا ہے کہ ''خوارزمی نے ابی حنیفہ النعمان سے روایت کی ہے وہ کہتاہے ایک دن منصورنے مجھے حیرہ بلایاتومیںچلاگیاجب میںان کے پاس پہنچاتو وہاںجعفر بن محمدکے دائیں جانب بیٹھے ہوئے تھے لیکن جب میں نے ان کو دیکھاتو جعفربن محمدالصادق کیلئے میرے اندرایک خوف وہیبت پیدا ہوالیکن ابو جعفر منصورکی طرف سے کچھ ایسانہیں ہو اتو منصورنے تعارف کراتے ہوئے کہا اے ابا عبداللہ یہ ابو حنیفہ ہے۔تو آپ نے فرمایا:جی ہاں!اس بعد میری طرف متوجہ ہوکر کہااے ابوحنیفہ! اب تم اپنے مسائل اباعبدللہ امام صادق کے سامنے پیش کر دومیں نے مسائل پیش کرنا شروع کیا اورآپ جواب دیتے گئے اور فرماتے رہے تم لوگ ایسا کہتے ہو اور ہم اس کے جواب میں یوں کہتے ہیں کچھ ہماری اتباع کرتے ہیں کبھی کچھ ہم ساروں کی مخالفت کرتے ہیں۔یہاں تک کہ میں نے آپ کے سامنے چالیس مسائل پیش کئے جن میںکوئی ایسا نہیں رہاجس کاآپ نے جواب نہ دیا ہو پھر ابوحنیفہ نے کہاکیاہم نے یہ روایت نہیں کی کہ لوگوں میںسب سے زیادہ علم کون رکھتا ہے ۔اگرچہ لوگوں میں اختلاف ہی کیوں نہ ہو ۔''
یہ توسابقہ روایت سے واضح ہوتاہے کہ منصورنے اس کے بعد عبداللہ بن حسن اور اسکی خاندان کو سزانہیں دی لیکن اس سے بھی انکار نہیں ہے وہ زیارت ان کے مدینہ کی جیل کے دوران نہ کی ہو۔ جب منصورنے امام کاشانداراستقبال کیاتھااوران کے ساتھ گفتگوکے دوران محمد اور ابراہیم فرزندان عبداللہ بن حسن کے قیام سے لاحق ہو نے والے خوف کے بارے میں بھی گفتگو کی ہو ۔اس قیام سے ان کو خاندانوں کے درمیان ہونے والے متوقع جدائی کاخوف تھا۔لیکن اس کے بعدجدائی واقع نہیں ہوئی اور حدیث میں تہدید تھا اور ہم نے یہ بھی دیکھاکہ جب یہ نجف پہنچے تو اترے اورنمازپڑھی اور رزام نے ان کی دعابھی بیان کی لیکن میرا نہیں خیال کہ انہوں نے قبر امام پر ایساکیا ہویہاں پر اس زیارت کے درمیان ربط پیدا کرسکتے تھے۔ جو صفوان جمال نے ایک سے زائد مرتبہ اپنے امام کی ہمراہی میں یاخوداکیلاقبر مبارک کی ہے۔ اور یہ بات ابن طاوس کی ''کتاب الفرحہ ''کے مطابق بہت ساری کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ لیکن ہمارا مقصد اس زیارت کو بیان کر نا ہے جوابومنصورکے زمانے میں ہوئی تھی۔جسے محمد المشہدی نے اپنی سند سے بیان کیا ہے۔اورگمان غالب ہے کہ یہ زیارت سال ۱۴۳ھ /۷۶۰ ء میں واقع ہوئی تھی اور یہ بات بھی عیاں ہوتی ہے امام کو منصور سے ملاقات پر مجبور کیا گیا کیونکہ اس سے قبل محمد اور اس کے بھائی نے خروج کیاتھا۔اس ضمن میں عبدالحلیم الجندی نے اپنی کتاب امام صادقـمیں ذکر کیا ہے کہ انہوں نے فرمایاکہ ابوجعفر منصورنے جب ابراہیم بن عبداللہ کو مقام ''باخمری ''میں قتل کیا تو ہم سب مدینے سے نکل کر کوفہ آئے ۔ اور یہاں ہم ........ٹھہرے اور قتل ہونے کاانتظارکرنے لگے۔پھردربان ربیع ہمارے پاس آئے اورکہاعلوی خاندان کہاں ہے؟اورہم میںسنجیدہ افراد ،دو،دوکرکے امیرالمومنین کے پاس جانے کاحکم دیا تو میںاورحسن بن زید چلے گئے۔جب ہم اس کے پاس پہنچے توپوچھاکیاتم وہی ہوجوغیب جانتاہے ؟میںنے کہا غیب کاعلم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے پھر پوچھاکیا تم وہی ہو جس کو یہ خراج دیا جائے گا ؟میں نے کہا خراج آپ کو دیا جائے گا۔اس نے کہاکیا تم جانتے ہو کہ میں نے تم لوگوں کو یہاں کیوںبلایا ؟ اس نے کہامیں نے ارادہ کیا ہے کہ تمہاری زمینوں کو ڈھادوں اور تمہا رے دلوں میں خوف پیداکروں اورتمہارے کھجور کے باغوں کو اکھاڑپھینکوںاورمیں تم لوگوں کوایساتنہا چھوڑوںکہ تمہارے پاس نہ تواہل حجازہوں اورنہ ہی اہل عراق کیونکہ تمہارے ساتھ فسادہے۔میں نے کہا اے امیرالمومنین نبی سلیمان کواللہ تعالیٰ نے سب کچھ عطاکیاتواس نے شکرادا کیا۔
اور ایوب پر بلائیں نازل ہوئی تو انہوں نے صبرکیا اوریوسف پر ظلم ہواتوانہوں نے معاف کیا اور آپ اسی ذریت سے ہیں۔اتنے میں وہ مسکرائے اور کہا جو میں کہتا ہوں تم بھی ایسا کہنا میں نے ایساہی کہا ۔زعیم قوم توتم جیساہوناچاہیے میں نے تمہیں معاف کیا اور تمہاری وجہ سے ان اہل بصرہ والوں کی خطائیںبخش دیتا ہوں۔ کہ بتاو تمہارا پسندیدہ شہر کونسا ہے؟ خداکی قسم!اب کے بعد میں تمہارے ساتھ صلہ رحمی کر تا ہوں پھر ہم نے کہا مدینہ جائیںگے۔
اور ہمیں مدینہ جانے کی اجازت دی اللہ اسے برکت دے یہاں اگر چہ جندی نے مصدرکو بیان نہیں کیا ہے لیکن اس کی یہ روایت دوسری مذکور ہ روایتوںکی تائید کرتی ہے۔جیساکہ میرا اسکے مصدر پر اعتراض کر نے کا یہ مطلب نہیں کہ یہ روایت اس نے اپنے خیال سے پیش کی ہو۔محمد فخرالدین نے اپنی کتاب ''عباسی آخری دورکی تاریخ نجف ''میںبیان کیاہے کہ امام صادق ابوجعفر منصورکے عہدمیںعراق گئے اورزیارت کی۔یہ بات ابن مشہدی کی آنیوالی ایک روایت کی تائید کرے گی۔
دورِمنصور عباسی میں مرقد مطہر کی اصلاح اور زیارت کی اجازت
یہ ظاہرہے کہ امام صادق کے قافلہ منصور کے حکم پر حیرہ پہنچنے سے قبل امام کا اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر پر رزام کے ساتھ زیارت ، نماز اور دعا پڑھی تھی جیسا کہ گزر چکا۔ پھر حیرہ یا کوفہ میں قیام کے دوران یا مدینہ کی طرف واپس تشریف لاتے وقت آپ نے اپنے جدّ بزرگوار امیر المومنین کی قبر کی زیارت اپنے اونٹ کے مالک صفوان کے ساتھ کی تھی۔ ابن طاوس نے اپنی ''کتب الفرحة'' میں بیان کیا ہے اور اس روایت کا اشارہ بھی گزر چکا جو محمد بن المشہدی کی سند سے ہشام بن سالم سے تھی کہ صفوان جمال کہتا ہے۔ ''میں امام جعفر صادق کے ہمراہ کوفہ میں ابو جعفرمنصور کے پاس جارہا تھا تو راستے میں امام نے فرمایا: اے صفوان یہاں سواری ذرا روک دو کیونکہ یہ میرے جدّ بزرگوار امیر المومنین کا حرم ہے۔تو میں نے سواری روک دی پھر آپ اترے اور غسل کیا لباس تبدیل کیا اس موضع کا بہت احترام کیا اور مجھ سے فرمانے لگے تو بھی وہی کر جو میں کرتا ہوں پھر مقام زکوات کی جانب بڑھے اور فرمایا اب تم آہستہ آہستہ چلنا اور جھک جھک کرچلنا'اس طرح ہم احترام و وقار کے ساتھ چلے ہم تسبیح و تقدیس و تہلیل کرتے ہوئے زکوات تک پہنچ گئے اور آپ نے دائیں بائیں نگاہ ڈالی اور اپنی عصا سے خط کھینچ لیا پھر میں نے بھی ان کی مدد کی اس طرح قبر مبارک ایک لکیر کے درمیان آگئی اس کے بعد آپ زارو قطار رونے لگے اور چہرہ مبارک آنسو سے تر ہوا اور آیت رجعت کی تلاوت فرمائی اور فرمایا اے متّقی و فرمانبردار وصی تم پر سلام ہو۔ اے عظیم خبر تم پر میرا سلام ہو'اے سچے شہید میرا سلام آپ پر اے پاک و پاکیزہ وصی آپ پر میرا سلام ہو۔اے ربّ العالمین کے پیغمبر کے وصی میرا سلام ہو آپ پر ، اے اللہ کی بہترین مخلوق میرا سلام ہو آپ پرمیں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے مخصوص و مخلص دوست ہو' اے اللہ کے ولی اور اس کے علم و راز و وحی کے خزانے و موضع میرا سلام ہو آپ پر پھر اپنے آپ کو قبر پر گرادیا اور فرمانے لگے اے حجت خصام میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں' اے بابِ مقام میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں اے اللہ کے نور تمام میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوجائیں میں گواہی دیتا ہوں آپ نے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے اپنی ذمہ داری کو احسن طریقے سے پہنچادی ہے۔ اور جس کی آپ نے حفاظت کی اس پر عمل کیا اور جو امانت آپصلىاللهعليهوآلهوسلم
کے تھی اس کی بھرپور حفاظت کی اور آپ نے حلال اللہ حلال اور حرام اللہ کو حرام قرار دیا احکام خداندی کو قائم کیا اور حدود اللہ سے کبھی تجاوز نہیں کیا' اللہ کی آپ نے خلوص کے ساتھ عبادت کی یہاں تک کہ آپ کو یقین حاصل ہوگیا' اللہ آپ اور آپ کے آنے والے آئمہ پر درود بھیج دے ۔ صفوان کہتا ہے پھر آپ اُٹھے اور سر کی جانب پر چند رکعتیں نماز پڑھی اور فرمایا اے صفوان جو امیر المومنین کی زیارت کرے اور نماز پڑھے تو اپنے اہل کی طرف مغفور و مشکور ہوکر واپس لوٹے گا میں نے پوچھا اے میرے آقا کیا میںیہ خبر کوفہ میں ہمارے اصحاب کو بیان کر سکتا ہوں؟ فرمایا ہاں کیوں نہیں بتاسکتے اور مجھے چند درہم عطا کیے اور میں نے قبر شریف کی اصلاح کی۔ ''یہ روایت آپ تفریشی کی کتاب ''نقد الرجال ''میں ملاحظہ کرسکتے ہیں تاکہ آپ کو واضح ہو اور اس روایت میں ان تمام لوگوں نے اعتماد کیا ہے جنہوں نے زمانہ منصور میں امام صادق کی اپنے جدّ بزرگوار کی زیارت کے بارے میں بتایا ہے۔
ہمارے بھروسہ میںاس لیے اضافہ ہے کہ سابقہ روایت جسے محمد ابن مشہدی اپنی کتاب المزار میں بیان کیا ہے اور ابن طاوس نے بھی اسی سے نقل کی ہے اور اسے دو سو چودہ زیارتیں محمد بن کالد الطیاسی نے روایت کی ہے جن کی توثیق صاحب نقد الرجال تفریشی نے کی ہے ۔ تو اس روایت میں کوئی شک نہیں ہے لیکن صرف یہ تردد ہے کہ یہ اصحاب امام کاظم میں تھا نہیں یا یہ کہ انہوں نے اورکسی امام سے پھر ان کے بعد سیف بن عمیرة سے روایت بھی کی ہے لیکن یہ سیف بن عمیرہ تو تفریشی کے مطابق اصحاب امام کاظم سے تھا۔
کیونکہ ان روایتوں میں صرف صفوان اکیلا نہیں تھا بلکہ سیف بن عمیرہ اور اصحاب کی ایک جماعت ان کے ساتھ تھی جیسا کہ سیف کہتا ہے ''میں صفوان بن مہران جمال اور ہمارے اصحاب کی ایک جماعت کے ساتھ غری گیا تھا جب ابا عبد اللہ امام صادق وہاں پہنچے تھے پھر امیر المومنین کی زیارت کی یہ روایت بھی کتاب المزار میں موجود ہے۔
اب ضروری نہیں ہے کہ قبر کو مضبوط بنایا گیا ہو یا کمزور یہ تو ان رقم پر منحصر ہے جو امام جعفر صادق نے صفوان کو اس کام کے لئے عطا کی تھی۔ کیونکہ صفوان اکیلا تو یہ کام انجام نہیں دے سکتا تھا تو ضروری تھا کوئی ان کی مدد کرے اور اسے پتھر اور دوسری چیزوں کی ضرورت بھی ہوئی ہوگی لیکن انہوں نے ایک چبوترہ نما ضرور بنایا تھا تاکہ مرور ایام سے قبر پر ریت جمع ہوکر دور نہ ہٹ جائے اسی لئے قبر شریف پر چاروں طرف سے گول یا مربع دیوار اٹھائی گئی تو بالآخر یہ ایک مسجد جیسی بن گئی تاکہ زیارت کے ساتھ نماز کا قیام ممکن ہوسکے۔ اس طرح عام طور سے غربی افریقہ کے مسلمان کیا کرتے ہیں کہ وہ بازاروں یا سڑکوں پر ایک جانب تھوڑی جگہ کے اوپر دیوار اٹھاکر مربع یا مستطیل کی شکل میں بناتے ہیں تاکہ وہاں سے گزرنے والوں کو یہ معلوم ہوسکے کہ نماز کی جگہ ہے اور اپنے پیروں سے ٹھوکریں نہ ماریں یا اس کے اوپر سے نہ چلیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں زیادہ گرمی ہوتی ہے یا لوگ مالی لحاظ سے تنگدست ہیں اور شاندار مساجد کی تعمیر نہیں کرسکتے ہیں۔
اس روایت سے ہم دو نکات اور نکال سکتے ہیں۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ چبوترا یا پتھر یا اور اس سے ملتی جلتی چیز روضہ مبارک پر امام صادق کی منصور سے ملاقات سے قبل موجود تھا نہ معلوم کہ کس نے رکھا تھا یا یہ چبوترا بنایا تھا لیکن گمان غالب یہی ہے کہ خود امام نے رکھا تھا اوراہل بیت میں سے کسی کو حکم دیا تھا جب یہ تمام سفاح کے زمانے میں زیارت قبر علی کے لئے گئے تھے اور وہ چبوترا میں بارش ہوا اور گرمی کی شدت کی وجہ سے زنگ آلود اور پھٹا ہوا ا تھا۔ امام صادق صفوان اس کی اصلاح کا حکم دیا تھا۔ بقول صفوان'امام نے مجھے چند درہم عطا کی تو میں نے اس قبر کی اصلاح کی اور اگر یہ روایت صحیح ہو اگرچہ اس میں شک کی گنجائش نہیں تو پہلا گواہ یا پہلی علامت واضح ہے جو قبر شریف کی تصویر بغیر کسی شک و شبہے کے پیش کر رہا ہے جو امام صادق نے خود یا ان کے حکم سے رکھا گیا تھا۔
دوسرا نکتہ :دوسری بات یہ ہے کہ امام صادق نے اپنے اہل بیت کے ماننے والوں کو اس قبر کی زیارت کرنے کی اجازت دی تھی جس کی وجہ سے موضع قبر عوام کی توجہ میں آگئی ۔ اور اس سے یہ توجیہ بھی ہوسکتی ہے آپ نے اپنے چچا زاد بھائی عبّاسیوں کے ظلم و جور جو علویوں پر ہورہا تھا اس میں تخفیف کرنے کی طرف توجہ دلائی اور عبا سی ان کے ساتھ بیٹھنے کیلئے تیار نہیں تھے ۔ کیونکہ یہ صاحب قبریعنی علی کے دور کو یاد کرتے ہیں اور عین ممکن تھا کہ وہ بنی عباس کے مقابلے میں اپنا لشکر تیار کرے اگر یہ وہ ظلم جاری رکھتے لہٰذا مام نے یہ رکوایا۔
اور یہ ضروری نہیں ہے کہ ہم قبر مقدس کے اوپر کوئی کمرہ یا گنبد کے وجود کی توقع تاریخ کے اس زمانے میں کریں کیونکہ اس زمانے میں مسلمانوں کے قبور پر کوئی چبوترے یا قبے وغیرہ کا رواج نہیں تھا اگر ایسا ہوتا تو اموی اور عباسی ظالم حاکموں کی قبور پر بڑے بڑے چبوترے ہونا چاہیے تھے۔ہاں ہم عبد اللہ بن عباس جو خلافت عباّسیہ کا بانی ہے کی قبر پر گنبد دیکھتے ہیں۔ لیکن پہلی قبر جس پر گنبد تھا وہ منتصر با للہ بن متوکل کی قبر تھی جس کی تاریخ ۲۳۸ھ بمطابق۸۶۲ ء ہے۔ جیسا کہ طبری اور اس کے بعد ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے یہ بنی عباس کا پہلا خلیفہ ہے جس کی قبر معروف تھی کیونکہ ان کی ماں امّ ولد رومیّہ تھی اس نے اپنے بیٹے کی قبر کو ظاہر کروایا تھا۔
اس سے ملتی جلتی ایک روایت مسعودی نے بھی اپنی ''مروّج الذّھب ''میں بیان کیا ہے۔ وہ کہتا ہے ''یہ پہلا عباسی خلیفہ ہے جس کی قبر کو اس کی ماں جو حبشیہ تھی نے ڈھونڈ کر نکالی تھی جو سامراء میں تھی۔ '' ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب ''مشہد امام علی'' لکھا ہے کہ اس کی ماں نے اس کی قبر میں روضہ بنوایا جو اس کے قصر سے دور تھا جہاں وہ رہتا تھا اور یہ ''صلیبیہ قبہ''سے مشہور ہے اور یہ روضہ شہر سامراء میں دریائے دجلہ کے مغربی کنارے میں واقع ہے اور ایک کمرے کے اوپر جو مربع شکل میں ہے جس کے اوپر قیمتی قبہ پر مشتمل ہے اور یہ قبہ ابھی تک موجود ہے۔
دراصل قابل ترجیح بات یہ ہے ابو جعفر منصور اور دوسرے خلفائے بنی عبا س نے علویوں اور ان کے شیعوں کو تنگ کر رکھا تھا تو چنانچہ یہ لوگ کھلم کھلا امام علی کی زیارت کیلئے نہیں جاتے تھے بلکہ چھپ چھپاکر بعض زائرین اہل بیت اور خلیفہ کے درمیان ہونے والے تعلقات کے نشیب و فراز کے مطابق جایا کرتے تھے خاص طور سے شروع کے عباسیوں کے عصر عہد کے نصف اوّل میںایسے تھا۔
ابو جعفر منصور کے حکم پر بنشِ مرقدمطہر
یہ بات مختلف کتب و دراسات میں موجود، اورمشہور ہے ۔کہ ایک دن ابو جعفر منصور نے مو ضع قبر مطہر کو کھودنے کا حکم دیاتاکہ یہ بات وضح ہوجائے کہ کیا یہاںواقعی امیر المومنین دفن ہیں ۔اس روایت پر بحث کر نے سے قبل ضروری ہے کہ اس کے بارے میں مکمل علم ہو ۔ابن طاوس اپنی ''کتاب الفرحہ ''میںکہتا ہے کہ ''احمدبن سہل نے کہامیںایک دن حسن بن یحییٰ کے پاس تھا اتنے میں اس کے پاس احمد بن عیسیٰ بن یحییٰ آیاجوان کے بھا ئی کا بیٹا تھا تو اس نے پوچھا، جسے میں سن رہاتھاکہ کیا تمہارے پاس قبرعلی کے بارے میں حدیث صفوان جمال کے علاوہ کوئی دوسری حدیث ہے ؟ تو اس نے کہا ہاں مجھے ہمارے مولا نے انہوں نے بنی عباس کے آقا کے حوالے سے بتایا اوروہ کہتا ہے کہ مجھے ابو منصور نے کہا اپنے ساتھ کدال اوربیلچہ اٹھاواور میر ے ساتھ چلو وہ کہتاہے میں اٹھا یا اور اس کے ساتھ رات کی تاریکی میں چل کر غری پہنچے تو وہاں پر ایک قبر تھی اس نے کہا یہاں کھودو۔میں نے کھودنا شروع کیایہاںتک کہ ایک لحد نکل آیا۔اتنے میں اس نے کہا۔آہستہ آہستہ کرو یہ قبر علی ابن ابی طالب ہے میں نے جاننے کے لیے ایساکیا تھا۔اس روایت میں غور کرنے سے یہ ترک کر دیا جاتا ہے۔اگر ہمیںاس کی تائید میں دوسری روایت نہ ملے تواس کوہم ترک کردیںگے کیونکہ اس سے شدید پریشانی لاحق ہوتی ہے۔اورزیادہ غور طلب ہے۔حدیث قبر صرف صفوان پر منحصرنہیںہے بلکہ اس کے ساتھ اور بھی لوگ آئمہ اہل بیت اورامام سجاد،امام باقر ،اور امام صادق کے ساتھ تھے ۔اس روایت کی طرق قابل غور ہے۔اس لیے اسے احمد بن محمدبن سہل کے آقانے بنی عباس کے آقاسے روایت کی ہے۔ اور عملی تحقیق میں اس قسم کی روایت کوقبول کرنامشکل ہے۔جب تک اس کی اطمینان بخش نہ ہوکیو نکہ روایت میں نہ پہلے آقا کانام صراحت سے ہے اورنہ ہی دوسرے آقا کا۔ابن طاوس کے اجتہادکوبھی قبول کرنامشکل ہے۔جس میںکہ منصور نے اس حوالے سے اہل بیت سے سناتھا،تواس نے حقیقت حال جاننے کارادہ کیاتواس کیلئے یہ واضح ہو گئی'' کیونکہ منصورامام کی شہادت اور ان کے قبرکے پوشیدہ رکھنے کے بارے میں سنناشک وشبہ سے خالی نہیںتھا۔کیونکہ اسے پتا تھا۔ علویوں اور عباسیوںنے امام کی تشیع جنازہ اور دفن میںشرکت کی ہے ۔جن میں سرفہرست عبیداللہ ابن عباس ہے۔اور آل جعفر کے شرکت کر نیوالوں میں عبیداللہ بن جعفر ہے جیساکہ بہت ساری روایات میںوارد ہے کہ کن لوگوں نے حسنین٭کے ساتھ ان کے والد گرامی کے تشیع جنازہ ،دفن اور ان کے لحد میں اتارنے اور نماز جنازہ میں شرکت کی تھی۔جیساکہ ہم نے ذکر کیا اس پر مستزاد یہ کہ امام کی سیرت اور ان کی شہادت کا قصہ، دفن اور موضع قبر ہاشمی خاندان کے درمیان مشہور ہے۔اور یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ جس کی وجہ سے شک وپریشانی ہو'تاکہ منصوراس کی صحت کے بارے میںاطمنان اوروثوق حاصل کرے ۔اگر یہ روایت صحیح ہو تو میرے حساب سے امام جعفر صادق کی زیارت کے بعد واقع ہواہو ۔جو انہوں نے ابوعباس السفاح کے دور میں کی تھی۔یا اس واقعے کے بعدہو جب منصور نے امام کو ۱۴۳ھ /۷۶۰ ء میں کوفہ طلب کیا تھا۔اس واقعے کو ابن جوزی نے اپنی کتاب ''المنتظم'' میں اسی سال کا کہا ہے کہ میں نے بھی حج کا ارادہ کیا اور زاد راہ تیار کر لیا اورنکل گیا۔جب ہم کوفہ پہنچ گئے تو وہ نجف میں اترے اور چند دن قیام کیا اور شاید شیطان نے اس کو یہاں بہکا دیا ہو کہ وہ موضع قبرامیر المومنین کے بارے میں اطمینان حاصل کرلے تواس نے ایسا کیا ہو ۔اور یہ بعید نہیں ہے کہ موضع قبر کی معرفت حاصل ہونے کے بعدامام صادق کے حکم پر اس کی اصلاح ہوئی ۔اوراس کے بعدباقاعدہ علامت رکھی گئی ہو کیو نکہ یہ جگہ شدید ہو ا کی رخ کی جانب تھی گرد غبار اور ریت یہاں جمع ہوتا تھا اور پھر زیادہ بارش کی وجہ سے سیلاب آکر جمع ہونے کی وجہ سے وادی بن گئی ہوشایدیہی وجہ ہو بعد میں مرورایام کے ساتھ یہ تمام پتھر اور ریت جمع ہوکر ٹیلے کی شکل اختیار کر گیا ہو ۔
قبۂ رشید کی حکایت
مرقد مطہر اسی حال میں باقی رہا جس طرح امام صادق نے چھوڑا تھا ۔ہو سکتا ہے اس ٹیلے میں پوشیدہ ہواہوکیونکہ لوگ حکومتی جاسوسوں سے چھپ کر زیارت کرتے تھے عباسیوں نے علویوںکیساتھ وہی سلسلہ جاری رکھا ہو اتھا۔کبھی انہیں قید کرتے تو کبھی قتل اور ظلم کا نشانہ بناتے۔ اس طرح علویوں پر یہ دوراموی خلافت کے دورسے کم نہ تھا ۔ادھر منصور امام صادق کو زہر دینے میں کامیاب ہوااور ایام ۱۴۸ھ /۷۵۶ ء میں شہید کیا گیا ،اور امامت ان کے بعد ان کے فرزندامام موسیٰ ابن جعفر میں منتقل ہوئی ۔اور منصورنے امام صادق کی وصیت تلاش کرنا شروع کر دی تاکہ یہ جان سکے کہ ان کے بعد امام کو ن ہے ؟ تو اس نے یہ پایا کہ انہوں نے پانچ لوگوں کیلئے وصیت کی ہیں'جن میں ایک خود منصور' مدینہ کاگورنر ابن سلیمان اور ان کے دوفرزند عبداللہ اور موسیٰ ،اور ان کی زوجہ حمیدہ تھی اور ان تمام کا قتل ایک طریقے سے ممکن نہ تھا۔یہ واقعہ عبدالحلیم جندی نے اپنی کتاب ''امام جعفر الصادق ''میںلکھا ہے۔ اور وہ فرزندامام کوقتل نہیں کر سکتا تھا کیونکہ وہ وصیت میں معین نہیں تھا اسی سے ملتی جلتی ایک روایت ابوفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین ''میں نقل کیا ہے۔جس میں امام نے یحییٰ ابن عبداللہ ابن حسن ور ام موسیٰ اور ام ولد کے نام کی وصیت کی ہے ۔یحییٰ ابن عبداللہ سے ایک روایت ہے وہ کہتا ہے کہ انہوں نے جعفر ابن محمدموسیٰ اور امہ ولد کیلئے وصیت کی ہے کہ منصور مر گیا تو اس کے بعد مہدی خلیفہ بن گیا۔جس کے حکم سے امام موسیٰ کاظم کوبغداد بلایا گیا اور قید میں ڈالا گیا ۔ طبری کے مطابق مہدی نے ایک دن خواب میں امام علی ابن ابی طالب کو دیکھا جو فرمارہے تھے ۔
''فهل عسیتمان تولیتم ان تفسدوفی الارض وتقطعوا ارحامکم''
تو وہ خوف کی حالت میں نیند سے اٹھااور راتوں رات امام کو جیل سے نکالنے کا حکم دیا۔ اور ان سے عہد لیا کہ وہ ان کے خلاف خروج نہیں کریں گے ۔اتنے میں امام نے فرمایا:خداکی قسم یہ میر ی شان کے خلاف ہے اور نہ ایسی بات میرے ذہن میں ہے ۔تو اس نے کہا آپ نے سچ کہااور آپ کو تین ہزار درہم دینے کا حکم دیا ،پھر انہیں مدینہ واپس جانے کا حکم دیا اور خلافت رشیدہ کے دور میں جب اس نے حج کا ارادہ کیااور مدینہ پہنچ کر روضہ رسولصلىاللهعليهوآلهوسلم
کی زیارت کی اور اس کے ساتھ موسیٰ کاظم تھے تو خلیفہ نے زیارت میں یہ جملہ کہا اے اللہ کے رسول اور میرے ابن عم آپ پر سلام ہو تو موسیٰ نے زیارت میں یہ جملہ کہا اے میر ے بابا تجھ پر میرا سلام ہو ۔ اتنے میں رشید نے کہا اے ابو الحسن یہ باعث فخر ہے۔پھر اس نے ۱۶۹ھ میں امام کو طلب کیا اور لمبی مدت کیلئے قید کیا ۔طبری کے مطابق ماہ رجب یعنی ۱۸۳ھ/۷۹۹ ء کو آپ کی وفات ہو گئی ۔اس سے یہ ظاہر ہو تا ہے کہ طبری نے امام کی گرفتاری کی تاریخ کو بیان کر نے میں شک کیا یا تحقیق کر نے میں غلطی کی یا طباعت میں غلطی ہوئی کیونکہ اس سال رشید خلیفہ ہی نہیں تھا اور اس نے اس سال حج بھی انجام نہیں دیا تھا کیو نکہ اس وقت اس کا بھائی ہادی خلیفہ تھا مگر جس حج کا طبری نے ذکر کیا اور اس سال اس نے بنی ہاشم کے رشتہ داروں میں مال تقسیم کرنے کاحکم دیا تھاجس طرح اس نے اہل حرمیں میں بھی بہت سارا مال تقسیم کیا تھا۔ اور۱۷۱ھ بمطابق۷۸۷ ء کو عبدالصمد بن علی نے حج بجالایا۔اس کے دوسرے سال یعقوب بن ابو جعفر المنصور نے حج کیا لیکن طبری ۱۸۳ھ /۷۸۹ ء میں حج کیلیے گیا تو وہ زیادہ عرصہ وہاں نہیںٹھہر ا کیونکہ مکہ میں وبا ء پھیل گئی تھی ۔اس لیے گمان غالب ہے کہ اس کی ملاقات امام مو سیٰ بن جعفر کے ساتھ اس کے عمرہ کے دوران ۱۷۵ھ بمطابق ۷۹۱ ء کو ہو ئی تھی ۔ اور امام کو بلاکر ۱۷۹ھ بمطابق ۷۹۵ ء میں گرفتار کیا تھانہ کہ ۱۶۹ھ بمطابق ۷۸۵ ء جیسا کہ ا س نے ذکر کیا ہے اس کی توثیق ہمیں ابن خلقان کی اس حدیث سے بھی ہو تی ہے ۔جو اس نے امام مو سیٰ بن جعفر سے نقل کیا ہے ۔لیکن اس میں تاریخ اس نے ۱۷۹ھ بمطابق ۷۹۵ ء لکھا ہے ۔اور وہ کہتا ہے کہ مہدی بغداد آیا اور اسے گرفتار کیا ،اور اس نے علی ابن ابی طالب خواب میں دیکھا ۔وہ ہارون رشید کے دور تک مدینے میں تھے۔جب ہارون الرشید ماہ رمضان ۱۷۹ھ کو عمرے سے آیا تو اپنے ساتھ موسیٰ کو بغداد لایا اور انہیں وہاں قید کیا یہا ں تک کہ وہ قید میں ہی وفات پاگئے۔ اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس نے ایسا اہل بیت٪ کے ماننے والوں کے خوف سے کیا اور خاص طور پر اس نے اپنے دونوںبیٹے امیں اور مامون کی خلافت کا عزم کر رکھا تھا اور امام کو گرفتار ہونے کے بعد رشید اپنے دونو ں مذکو رہ بیٹوں کے ساتھ۱۸۶ھ کو حج کیلئے گیا اور ان دونو ں کے لیے عہد لیا ۔ ابن قتیبہ کے مطابق اس نے اپنے دونو ں بیٹوں کیلئے الگ الگ وصیت لکھ کر خانہ کعبہ میں لٹکا ئی تھی ۔بہر حال امام موسی ابن جعفر نے بھی مو ضع قبر علی کی نشاندہی فرمائی تھی اور لوگوں کی رہنمائی کی تھی ۔یہاں ایک بات جو مجھے سمجھ آتی ہے کہ آپ کو اپنے جد بزرگوار علی ابن ابی طالب کی زیارت آپ کے والد گرامی امام صادق کی وفات کے بعد میسر نہیں ہوئی کیو نکہ آپ کو ہر طرف سے مشکلات اور مسائل نے گھیر رکھا تھااسی لیے نہ آپ کو مہدی کے زمانے میں گرفتاری کے دوران اور نہ گرفتاری سے رہائی کے بعداور نہ رشید کے زمانے میں میسر ہوئی۔ ابن طاوس اپنی کتاب ''الفرحہ ''میں ابو علی ابن حما سے نقل کرتا ہے کہ موسیٰ ابن جعفر ان اماموں میں شامل ہیںجنہوں نے مشہد علی کی رہنمائی کیا ہے ۔ اور اس موضع کی طرف اشارہ کی ہے جو آج تک ہے اور کہتا ہے کہ ایو ب ابن نوح کہتا ہے میں نے ایک دن ابوالحسن مو سی ابن جعفر کو لکھا کہ ہمارے اصحاب زیارت قبر علی ابن ابی طالب کے حوالے سے اختلاف کر تے ہیں۔ بعض رحبہ کہتے ہے اور بعض غری ۔تو انہوں نے جوا ب لکھا کہ تم غری میں زیارت کرو ۔ایوب امام کاظم اور امام رضا کے وکیل تھے ۔اور ان دونوں کے نزدیک امانتدار'باعتماد اور متقی شخص تھا۔ یہ بات تفریشی نے اپنی کتاب ''نقد الرجال ''میںلکھا ہے۔اور محمد جواد فخر الدین وغیرہ امام کی زیارت کی بات کوترجیح دیتا ہے۔لیکن ان کے پیچھے کوئی قابل اطمنان دلیل نہیں ہے۔بہر حال اہل بیت ـمسلسل انقلاب نے عباسی خاندان کی کر سی ہلا کر رکھ دی تھی۔اور انہیں بے چین کیا تھا اور عباسیوں کا ظلم و جوراور ان کے ظالم اور جابر حکمرانوں کا بے رحمانہ سلوک ان پر جاری تھا۔ ایک دن منصور سے کہا گیا کہ ظلم میں رشید کا حصہ اس سے پہلے والے حکمرانو ں کے مقابلے زیادہ ہے لیکن اس کے دور میں اہل بیت٪کے قتل و غارت گری اورگرفتاریاں زیادہ ہوئی ۔اس حوالے سے اگر آپ ابو الفرج کی کتاب ''مقاتل الطالبین ''پر ملاحظہ کریں تو عباسیوں کا اہل بیت٪پر ظلم وجورکے واقعات جگہ جگہ نظر آتے ہیں ۔اس میں کو ئی شک نہیں کہ رشید کا یہ کارنامہ کہ اس نے امام مو سی بن جعفر کو زہر دیا ۔یہ اس کا عظیم اوربرے عزائم رکھنے کا نتیجہ ہے لیکن اللہ نے اس کا اس کے خاندان سے شدید انتقام لیا'جب مامون نے اپنے بھائی امین کو قتل کیا' لیکن سیرت علی کی روشنی نہ بجھ سکی بلکہ لوگوںکے دلوں میں اورزیادہ بڑھ گئی اور بہت سے انقلابات ان کی سیرت سے وجود میں آئے اور بہت سارے قائدین نے ان کی سیرت کے سایے میں لوگوں کی قیادت کی اور دوسری منصور اور اس کے بعد کے زمانوں میں کوفہ میںظالم حکمرانوں نے قبر علی کے زائرین پر سختی کرنا شروع کی۔ اور اس لمبے عرصے میں زائرین کی تعداد بہت کم ہوئی جس کے نتیجے میں بعض شیعوں کے درمیان موضع قبر کے بارے اختلاف در آیا لیکن مختلف مناسبات میں پوچھنے والوں کیلئے امام موسی ابن جعفر نے صحیح موضع کی طرف رہنمائی فرمائی۔
ابن کثیر''البدایہ والنہایہ ''کے مطابق ۱۸۴ھبمطابق ۷۹۲ ء کو دیلم حسین بن یحییٰ بن عبداللہ بن حسن بن حسن بن علی ابن ابی طالب نے ظہور کیا ۔اس کی بڑی تعداد میں لوگوں نے اتباع کی۔جس سے رشید بے قرار وبے چین ہو ا ۔تو اس نے پچاس ہزار جنگجو وں پر مشتمل فوج فضل بن یحییٰ بر مکی کی قیادت میں تیار کی اور فضل نے اپنی حکمت و سیاست کے ذریعے یحییٰ اور رشید کے درمیان صلح کرا نے کی کوشش کی اور ساتھ میں علویوں اور عباسیوں کے درمیان صلح کی بھی کوشش کی اور احتمال ہے کہ اس کے بعد یہ صلح اتنی زیادہ نہیں چلی ۔تو رشید کو فہ آیا ۔یا حج سے واپسی کے بعد یہاں پہنچا تھا ۔ اس نے یہاں تھوڑی دیر یا کچھ عرصہ آرام کر نے کا ارادہ کیا۔ اس دوران اس نے علویوں اور ان کے ماننے والوں کے ساتھ تھوڑی ہمدردی کا اظہار کیا ۔
اور ایک دن وہ ہرن کے شکار کیلئے نکلا جو کوفہ اور اس کے اطر اف میں زیادہ پائے جا تے تھے ۔ اور جو کوئی بھی یہاں آتا تو ان کی شکار کیلئے جا تا ۔ان ہر نو ں کی کثرت کے بارے میں شیخ محمد حرزالدین نے تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ایک دفعہ ۴۸۰ھ بمطابق ۱۰۸۷ ء میں سلطان ملک شاہ چار محرم کو کوفہ کے کنارے شکار کی غرض سے نکلا اور اس کا لشکر نے ہزاروں کی تعداد میں ہرنوں کا شکار کیا ۔اور ان کی کھو پڑیوں سے مکہ کے راستے میں واقع رحبہ کے مقام پر ایک بڑامینار بنانے کا حکم دیا۔جو آج تک ''ا رة القرون'' کے نام سے مو جو د ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس مینار میں چار ہزار کھوپڑیا ہیں اور نظام الملک جب کو فہ پہنچا تو اس نے مشہد علی اور اس مینار کو دیکھا اور وہ اسی ماخذ سے یہ بھی نقل کرتا ہے کہ میںارة القرون انہی شکاروںسے بنی ہے جو کو فہ کے کنارے میں واقع ہے۔ اور اس جیسا اور ایک مینار اس نے دریا کے پیچھے بنایا تھا ۔اور کہا جاتا ہے کہ اس نے خود دس (۱۰)ہزار ہرنو ں کا شکا ر کیا تھا اور دس ہزار دینا رصدقہ دیا ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ میں بلاوجہ ان جانوروں کی روح نکالنے سے ڈرتا ہوں۔اور ابھی تک پچھلے صدی کی پانچ دہایوںتک ہرن وہاں کثرت سے پائے جاتے تھے' جس کی طرف ہم اشارہ کر چکے ہیں اور درندوں کا قبر امام سے پناہ لینے کی حکایت جسے ہم ذکر کریں گے نے ہارون رشید کو حیران کر دیا اور اس جگہ کی راست کے بارے میں سوال کرنے پر مجبور کر دیا یوں تو اس طرح کی کرامات کی تعداد زیادہ تھی لیکن ان کی توثیق کرنا قدرے مشکل ہے کیو نکہ اس زمانے کے حکام اما م کے ساتھ بغض وعداوت کر تے تھے مگر وہ زیارت جو آگے آئے گی جس سے رشید کو پریشانی ہوئی تو اس نے اہل بیتکے ساتھ معذرت کی قابل قبول ہے چونکہ رشیدکو فہ میں تھا اور کوفہ عراق میں شیعوں کا مرکز تھا ۔او ر امام کا مر تبہ آپ کے دوستون اور دشمنوں کے ذہنون میں خاص طور پر رشید کی ذہن میں زیادہ تھا ۔وہ اگر چہ علویوں سے بچتا تھا اور ان کوختم کر نا چاہتا تھا لیکن اس کے دل میں امام کی عزت تھی جس کا وہ امام کو حقدار سمجھتا تھا ۔اس لیے اس نے قبر امام کی کئی مرتبہ زیارت کی اب یہاں دو باتیں قابل غور ہیں ۔ پہلی یہ کہ اس صلح کی تصدیق ہے جو رشید اور علویوں کے درمیان ہوئی تھی ۔دوسری یہ کہ اس نے اہل کوفہ کے لیے خاص طور سے امیر المومنینـکیلئے ہمدر دی کا اظہار کیا پھر اس زیارت کی اور قبر مقدس کا اصلاح کا حکم دیا ۔اگر چہ اصلاح سے مراد قبر پر جمی ہوئی مٹی کو جمع کر کے ایک ٹیلہ نما بنایا اوراس کے اوپر ایک بڑا چبوترا بنانے کا حکم دیا مگر جہاں تک اس گھڑے کی بات ہے اس کے بارے میں ابن الطہار لکھتے ہیں کہ کہ رشید قبہ کے اوپر رکھا تھا جو روضہ امیر المومنینـکی الماری میں چھٹی صدی کے نصف اول تک مو جود تھا ۔جس کا رشید کے ساتھ دور سے بھی واسطہ نہیں ہے اور یہ اس نے نہیں رکھا جیسا کہ بعد میں بیان ہو گا اور یہ ایک وہم ہے ۔جس کا سبب روایت میں نقطہ یا ابن الجمال کا ہو سکتا ہے لیکن روضہ کے الماری میںجو گھڑا موجو د ہے ۔وہ کو ئی دوسرا گھڑا ہے جس کے بارے میں ہم بیان کریں گے ۔بلکہ اس امر میں ابن طہال نے تجاوز کیا ہے اور کہا جاتا ہے ۔کہ رشید کا گھڑا الماری میں محفو ظ تھااورروضہ امام موسی کاظم کے الماریوں سے تبر کا ت منتقل کر تے وقت وہ گھڑا ٹوٹ گیا کیونکہ وہابیوںکے خوف سے یہ تمام تبرکا ت روضہ امام کاظم میں منتقل کیا گیا تھا ۔ یہ بعید نہیں کہ سبز گھڑاروضہ امام علیـکے الماری میں موجو د ہو جیسے روضہ کی تعمیر کے دوران شاہ صفی کی حکم سے رکھا گیا تھا ۔یا یہ بعد میں دوبارہ تعمیر کے دوران شاہ عباس صفوی اول کے حکم سے رکھا گیا ہو محمد حرزالدین نے اس حوالے سے ''معارف الرجال ''میں بیان کیا ہے کہ یہ قبہ سونا چڑھوانے سے پہلے نیلے رنگ کے کاشتکاری اور رنگ برنگ کے چھوٹے چھوٹے پتھروں کے ٹکڑوں کو جوڑکر مختلف اشکال اور قسم قسم کی صورتوں سے مزین کیا گیا تھا ۔اوراس کے اوپر ایک گھڑا رکھا ہو ا تھا جو بعد میں قبے کو سونا چڑانے کے بعد الماری میں رکھا گیا مگر وہ گھڑا جو رشید کی طرف منسوب ہے جس کا کوئی آثار نظر نہیں آتاہے جس کے کوئی آثار ۲۶۰ھ تک ہمیں نظر نہیں آئے ۔
خاص طور پر مرقد شریف پر قبہ سے پہلے چبو ترا تھا جیساکہ بیان ہو ا اور ہم یہاں یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس عمارت پر ایسا قبہ بنایا گیا تھا جس کے چاردروازے تھے اور اس کے اوپر ایک سبز قیمتی گھڑا مو جو د تھا ۔
بلکہ شیخ کاظم حلفی نے یہاں تک لکھا ہے ''روضہ کے جواہرات سے مر صہ قندیل رکھا ہوا تھااورہر کسی نظرکو آتا تھا اور مجھے نہیں معلوم یہ ساری چیزیں کہا ںسے آئی ۔ اگر یہ سب چیزیں صحیح ہو تو یہ گھڑ ا اور قندیل کے اوپر تین صدیوں کے آس پاس میں ابن الطہار جو کہ قبہ رشید کے حدیث کے راوی ہیں کے مطابق کوئی وجو د نہیں تھا ۔ قبہ رشید کے روایت کی بات میرے خیا ل میں زیادہ قابل غور ہے کیو نکہ اس کے اند ر بعض محدثین اور متاخرین نے حد سے زیادہ مبالغہ آرائی سے کا م لیا ہے۔ اور قبر امیرالمومنینـ کو اس چیز کی ضرورت نہیں تھی کیو نکہ اس زمانے میں قبر وں پر قبے بنانا مشہور نہیں تھا ۔اگر مشہور ہو تا تو بنی امیہ کے قبورپر اور بنی عباسیوں کے خلافاء صفاء ،منصور ،مہدی ،ہادی، رشید وغیرہ اور اہل بیتـ کے مدینہ منورہ میں یا ان کے علاوہ بڑے بڑے صحابیوں کے قبروں پر قبے کے بارے میں سنتے یا لکھتے، اور مسعودی جو چوتھی کے مورخ ہیں اور مدینہ منورہ میںآئمہ اطہار٪ کے قبور کے بارے میں سوائے ان کے اوپر ایک کتبہ ان پر ان کے اسماء گرامی کے علاوہ کچھ بیان نہیں کر تا ہے ۔جیسا کہ بیان ہوا ''کتاب فرحہ ''میں زیارت رشید کی اصل روایت ابن عائشہ سے عبداللہ بن حازم سے ہے ۔اور اس روایت کے سلسلے میں شیخ طوسی اور شیخ مفید ہے۔اور ان کا نام اس روایت میں ہو نا مزید توثیق کر تا ہے اور یہ روایت شیخ مفید کی کتاب الارشاد میں ہے۔عبداللہ بن حازم کہتا ہے۔ایک دفعہ ہم رشید کے ساتھ کوفہ سے شکارکرتے ہو ئے غریین اور ثویہ کے کنارے پہنچے اورہم نے وہاں بہت سارے ہرنوں کو دیکھا'تو ہم نے ان پرشکار ی باز اورکتوںکو چھوڑاتو انہوں نے ایک گھنٹہ شکار کرنے کی کو شش کی۔ پھر یہ ہرن ایک ٹیلے کی طرف بھاگ گئے تو بازاورکتے واپس آگئے۔یہ منظر دیکھ کر رشید حیران ہو ا'پھر یہ ہرن دوبارہ جب ٹیلے کے نیچے نکلے توبازوں اور کتوں نے دوبار ہ پیچھا کر نا شروع کیا۔ اور ہرنوں نے جب یہ دیکھا تو دوبارہ ٹیلے کے پیچھے چلے گئے۔تو کتے اور باز واپس آگئے۔اس طرح تین مرتبہ ہوا تو ہارون نے اپنے ساتھیوںسے کہا:اس جگہ کی طرف جاؤ جوبھی ملے میرے پاس لے کر آو'تو ہم اس کے پاس سے بنی اسد کے ایک بزرگ کو لے کر آئے۔ ہارون نے اس سے پوچھا ،یہ ٹیلہ کیا ہے۔ بزرگ نے جواب دیا: اگر تم مجھے امان دو گے تو میں بتا وںگا۔ہارون نے کہا تمہارے لیے اللہ کا عہد اور میثاق ہو۔ میں تمہیں کو ئی اذیت نہیں دوںگا اتنے میں اس بزرگ نے کہا کہ میرے والد نے اپنے باپ کے حوالے سے مجھے بتایا کہ وہ کہا کر تے تھے یہ ٹیلہ علی بن ابی طالب کی قبر ہے ۔اللہ نے اس کو رحم قرار دیا جو کوئی یہاں آتا ہے اما ن پاتا ہے ۔ اتنے میں ہارون اترا اور پانی طلب کر کے وضو کیا اور اس ٹیلے کے پاس نماز پڑھی ۔اور وہاں دیر تک روتا رہا پھر ہم نکل گئے اس روایت کو قطب الدین راوندی نے اپنی کتاب ''الخرائج والجرائح ''اور شیخ مفید نے اپنی کتاب ''الارشاد''میں بیان کیا ہیلیکن یہ دونوں محمد بن عائشہ سے عبداللہ بن حازم کی روایت کر نے پر مطمئن نہیں ہیں ۔اس کی وجہ یا تو اس روایت میں مذکور کرامت ہے۔یا رشید کی زیارت قبر امیر المومنین سے دوری ہے لیکن اس حوالے سے یاسرکی روایت پر اعتماد کرتے ہیں جو کہ رشیدکے ساتھ حج میں تھا یا سر کہتا ہے کہ جب ہم مکے آکر کو فہ میں ٹھہر ے تھے تو ایک رات رشید نے مجھ سے کہا اے یاسر عیسیٰ ابن جعفر سے کہو کہ وہ میرے پاس آئیں۔ اور ہم سب سوار ہو کر چل نکلے یہاں تک کہ ہم غریین پہنچے ۔
مگر عیسیٰ تو جلدی سو گیا ،لیکن رشید ایک ٹیلے کی طرف آیا اور نماز پڑھنا شروع کیا۔ جب اس نے دو رکعتیں پڑھی اور ٹیلے پر گر کر دعا اور گریہ زاری کر نا شروع کیا ،پھر یہ کہنے لگا اے میرے چچا زاد! واللہ میں آپ کی فضیلت کو جانتا ہوں اورمیں نے آپ سے مسا بقت کی ہے اور واللہ میں آپ کے پاس بیٹھا ہو ں اور آپ آپ ہیں لیکن آپ کی اولاد مجھے اذیت دیتے ہیں اور میرے خلاف خروج کرتے ہیں پھر وہ اٹھتا ہے اور نماز پڑ ھتا ہے اور وہی بات دوہر اتا ہے یہا ں تک کہ سحر کاوقت ہو تا ہے ۔تو مجھے کہتا ہے:اے یا سر! عیسیٰ کو اٹھا و جب میں نے اٹھا یا تو رشید نے اسے کہا اور اپنے چچا زاد بھا ئی کے قبر پر نماز پڑھو عیسیٰ نے کہا یہ میرے کو ن سے چچازاد ؟ تو ہارون نے کہا یہ قبر علی ابن ابی طالب کی ہے ۔یہ سن کراس نے وضو کیا اور نماز پڑھنا شروع کیا اور فجر تک دونو ں بھا ئی نماز پڑھتے رہے۔ پھر میں نے کہ اے امیرالمومنین صبح ہو گئی۔ پھر ہم سوار ہو گئے اور کو فہ واپس آگئے ۔یہ روایت شیخ مفید نے بھی اپنی ''کتاب الارشاد ''میں ذکر کیا ہے ۔پھر ابن طاوس نے اپنی کتاب الفرحہ میں ایک روایت بیا ن کیا ہے جسے صفی الدین نے بعض قدیم کتابوں سے یوں بیان کیا ہے کہ ۔عبیداللہ بن محمد بن عائشہ سے روایت کرتے ہوئے عبداللہ بن عازم بن حزیمہ کہتا ہے کہ ایک دن ہم رشید کے ساتھ شکار کی غرض سے غریین اور ثویہ کے کنارے چلے گئے پھرمذکورہ حدیث کی عبارت ہے اور اس قول کے بعد کہ ہم کوفہ واپس آگئے ،اس عبارت کا اضافہ کیا ہے پھر ہم مقام رحبہ کی جانب نکل گئے اور وہاں ٹھہرے ہوئے تھے ایک سال بعد رشید نے مجھ سے کہا اے یاسر تمہیں غریین کی رات یا د ہے ؟میں نے کہا ہا ں یا امیرالمومنین۔تو اس نے پو چھا کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ کس کی قبر ہے ؟ میں نے کہا نہیں تو اس کہا وہ تو امیر المومنین علی ابن ابی طالبـکی قبر تھی ۔میں نے کہا اے امیر المومنین یہ کو ن سا تضاد ہے کہ آپ ان کے قبر سے ساتھ یہ سلوک کر تے ہیں اور انکے اولادوں کو گرفتار کر کے قید کرتے ہیں !تو اس نے کہا تم پر ہلاکت ہو یہ تم کیا کہہ رہے ہو ؟
یہ لوگ مجھے اذیت دیتے ہیں اور میں ان کی مدد کر تا ہوں!تم دکھاو کہ ان میں سے کون جیل میں ہے ۔ہم نے بغداد اور رقہ کی جیلوں میں دیکھا تو پچاس آدمی تھے ۔ تو اس نے کہا ان میں سے ہر ایک کو ہزار ہزار درہم دے دو اور رہاکرو۔یا سر کہتا ہے کہ میں نے ایسا کیا تو مجھے احساس ہو اکہ اللہ کے نزدیک یہ میری سب سے بڑی نیکی ہے۔ابن عائشہ کہتا ہے کہ یاسر یہ حدیث جسے مجھے عبداللہ بن حازم نے بیان کی میرے نزدیک موثوق ہے۔اب ان تینوں روایتوں کے درمیا ن آپ کے سامنے ہے کہ پہلی روایت میں رشید شکار کیلیے نکلتا ہے اور وہاں ہرنوں کے ان ٹیلوں کے پاس پناہ لینے سے اس کو قبر مطہر کی پہچان ہوتی ہے جبکہ دوسری روایت میں وہ امیرالمومنینکی زیارت کی قصد سے ہی نکلا تھا۔ اور وہ موضع قبر اور صاحب قبرکے بارے میں جانتا ہے اور کو ئی اس کی رہنمائی بھی نہیں کرتا یہ بات زیادہ عقل کے قریب ہے اس لیے قبر مطہر تو دوسرے علویوں اور عباسیوںکے ہاں نا معلوم نہیں تھی اورجبکہ تیسری روایت میں وہ شکاراور زیادہ قبر مطہردونوںکی قصد سے نکلا تھا نہ صرف یہ کہ وہ موضع قبراور اس کی قدر کے بارے میں جانتا تھا اور ایک سال کے بعد قبر مطہر کی زیارت کی راز کو یا سر کو بتاتا ہے اور پھر یاسر کی ملامت اور علویوں کو قید سے رہا کروا تا ہے اور آپ نے ملاحظہ کی کہ ان تینوں روایتوں میں کہیں بھی اس کے قبر مطہر کی تعمیر کاذکر نہیں ہے ۔تیسری روایت کے مطابق وہ کو فہ دوبارہ واپس آتا ہے اور ایک سال کے بعد غریین میں آکر وہ یاسر کو صاحب قبر کا راز بتاتا ہے لیکن اس حوالے سے ''دمیری ''نے اپنی کتاب ''حیاةالکبریٰ ''میں ابن خلکان کی کتاب الوفیا ت سے فہد سے احادیث بیان کر تے ہوئے بیان کیا ہے۔ جس کے مطابق وہ شکار کیلئے نکلے تھے یہاں تک کہ شکاری جانور قبر اطہر کی طرف نہیں بڑھے ......!اس کے بعد یہ حدیث شروع ہو تی ہے کہ ''پھر اس نے وہاں کے ایک باشندہ کوبلایا اور اس سے اس نے دریافت کیا کہ یاامیرالمومنین اگرمیں آپ کو آپ کے ابن عم علی ابن ابی طالب کی قبر کی جانب رہنمائی کروں تو آپ کیادوگے ' رشید نے کہا ہم تمہا ری تعظیم کریں گے ۔ اتنے میں وہ آدمی کہتا ہے میں ایک دن اپنے باپ کے ساتھ یہاں سے گزراتو وہ اس قبر مطہر کی زیارت کر نے لگا اور مجھے بتایا کہ وہ امام جعفر صادقـ کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے اور جعفر اپنے والد بزرگوار محمد باقر کے ساتھ یہاں آیا کرتے تھے ۔اور علی ابن حسین اپنے پدر بزرگوار حسین کے ساتھ آکر زیارت کرتے تھے اور حسین اس قبر کے بارے میں ان سے زیادہ جاننے والے تھے یہ سن کر رشید نے اس موضع پر پتھر رکھنے کا حکم دیا اور یہ پہلی بنیا د تھی اس کے بعد سامانی اور بنی حمدان کے ایام میں اس پر مزید تعمیرات ہو ئی اور یہ سلسلہ دیلم کے دور میں او ربڑھ گیا ۔اور عضدالدولہ و ہی ہے جس نے قبر علی ابن ابی طالب کو ظاہر کیا اور اس پر مزار بنوایا اوروصیت کی کہ اسے یہاں دفنایا جائے۔ اورلوگوں کے در میان اس قبر کے بارے میں اختلاف ہے۔''دمیری ''کی یہ روایت دو روایتوں سے مخلوط ہے ،جس میں ایک کہ وفیات کے حوالے سے یہ بات کہ وہ شکار کیلئے نکلے پھر وہاں موضع قبر پر پتھر رکھنے کا حکم دیا۔ دوسری بات ابن خلکان کے مطابق کہ عضدالدولہ نے قبر امیرالمومنین کا انکشاف کیا ہے۔ اور پھر تعمیر کروائی اور وہا ں دفن ہو ئے اور اس میں لوگوں کے درمیان اختلاف ہے ۔اگر ہم اختلاف والی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دے تو اس روایت سے زیادہ سے زیادہ یہ بات نکلتی ہے کہ رشید نے قبر مطہر پر کو ئی چیز رکھی تھی ہم یہ توقع نہیں کر تے کہ رشید نے وہاں چبو ترا یاموضع قبر کے احاطے میں اور بھی پتھر رکھا ہو یا کوئی تعمیر کی بنیا د رکھی ہو یہ کام تو اس کے کارندے یا کو فہ کے گور نر کے حکم سے ہو تا ہے ۔پھر رقہ یا دوسری جگہ کی جانب چلا گیا ۔مگر جہاں تک بات رشید کے قبے کی ہے تو اس کی حکایت پر مجھے اطمینا ن نہیں ہے۔''صاحب الفرحہ ''نے اس حوالے سے ایک روایت بیان کی ہے۔ ابن طحال کہتا ہے کہ رشید قبر مطہر پر سفید سے تعمیر ات کی تھی جو موجود روضہ سے ایک ہاتھ چاروں طرف سے چھو ٹا تھا اور جب ہم نے روضہ شریف کو کھولا تو اس کے اوپر مٹی ور حرنا تھا ۔پھر رشید نے اس کے اوپر سرخ مٹی سے قبہ بنانے کا حکم دیا اور اس کے اوپر سبز یمنی چادر ڈال دی ۔اور مولوی کی تحقیق کے مطابق یہی قبہ ہے جو آ ج روضہ کی الماری میں مو جو د ہے ۔یہ روایت اور دوسری تمام روایات جو رشید کی عمارت کے حوالے سے ہیں ان تمام میں تبدیلی آئی ہے ۔ ڈاکٹر محمد حسن نے بھی اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے کہ بعض مآخذ میں رشید کی تعمیر کے بارے میں یو ں بھی وارد ہو اہے کہ امیرالمومنین کی قبر پر قبہ ،صندوق اور سائباں بنایا ۔در اصل ماخذ تو صرف الفرحہ کی روایت ہی ہے ۔یہاں ڈاکٹر محمد حسن مو ضع قبر مطہر کی شہرت رشید کے زمانے میں دیکھ کر بہت غضبناک ہو کر کہتے ہیں ۔پھر ایک اور روایت ہے شاید ہارون رشید کے زمانے میں قبر مطہر کی کشف کرنے کے حوالے سے سب سے قوی روایت ہوگی جبکہ اس کی صورت سے لگتا ہے کہ یہ سب ضعیف روایت ہے۔مگر یہ جو بن طحال کے روایت کے اند ر مذکور ہے جس کے بارے میں سید تحسین مولوی نے مستد رکار علم الرجال کے حوالے سے کتاب الفرحہ کے حاشیے میں حالات زندگی بیان کی ہے لیکن اس میں مو صوف کو اشتباہ ہوا ہے ۔انہوں نے کہا ابن طحال جو کہ حسن بن حسین بن طحال مقدادی ہے جبکہ شیخ غازی اس کے بارے میں لکھتا ہے کہ وہ علی ابن طحال جو کہ مزار علی ابن ابی طالب کا ایک خادم تھا ۔
آپ نے ملاحظہ کیا ہے کہ اس کے اندر واضح فرق ہے ۔اور ڈاکٹر حسن حکیم نے بھی لکھا ہے کہ وہ مر قد شرف کا خادم تھا ۔پانچویں صدی تک روضہ مقدس کی خدمت گزاری حوالے سے کوئی اشارہ وغیرہ نہیں ملتا اور یہ بھی کہا جاتا ہے آل طحال کے خاندان کی طرف خدمت گزاری منسوب کیا جاتا ہے لیکن کو ئی قابل اعتماد سند نہیں ہے سواے محمد السماوی جس نے آل طحال کی خدمت گزاری پر اعتمادکیا ہے جس کی حالات زندگی ہم فخر الدین کی تحقیق میں دیکھا ہے وہ کہتا ہے آل طحال حرم شریف کے خداموں میں سے تھا لیکن کتاب الفرحہ کے حاشیہ شیخ مہدی نجف نے اس شخص کی حالات زندگی میں بیان کیا ہے کہ وہ حسن ابن محمد بن حسین بن علی بن طحال بغدادی ہے جو۵۸۴ھ بمطابق ۱۱۸۸ ء میں مر قد شریف کے خدام تھے۔ لیکن موصوف نے اس حوالے سے کو ئی ماخذ بیا ن نہیں کیا سوائے بعض معلومات اپنے والد اور داد اسے جمع کرنے کے۔
شیخ عبداللہ مامقانی نے اپنی کتاب ''تنقیح المقال ''میں حسن بن حسین بن الطحال مقدادی کے حالات زندگی کو یہ کہہ کر چھوڑدیا ہے کہ علماء رجال نے اسے بیان نہیں کیا ہے۔اس لیے یہ مہمل ہے' ان کا یہ احتمال قابل شک ہے کیو نکہ ان سے روایت ہو ئی ہے اور انہوں نے روایت بیان کی ہے۔ اگر ہم ابن طحال کی روایت پرنظر دوڑائیں تو ہمیں اس میں کو ئی سند اور ماخذ نظر نہیں آتا جو اس کی تائید کرے بلکہ مجھے ان کے اندر کو ئی تقویت نظر نہیں آتی بلکہ ایک دوسرے کی دفاع کرتی ہوئی نظر آتی ہے روضہ مقدس تیسری اور چھٹی صدی کے درمیان ایک سے زیادہ دفعہ بنایا گیا ہے ان عمارتوں میں زیادہ مشہور عضدالدولہ کی عمارت ہے جس میں ایک سفید قبہ تھا جس کو ہم یہا ں بیان کریں گے ۔ رشید کی عمارت کیسے مشہور ہوئی ۔ خود اس روایت کے اندر اضطراب ہے کہ ایک مرتبہ رشید دیوار بناتا ہے تو دوسری طرف قبہ بنانے کاحکم دیتا ہے اور قبر اور صاحب قبر کی احترام کے لیے اس کے اوپر ایک سبز یمنی چادر رکھتا ہے ۔اور قبہ سرخ مٹی سے تیار کراتا ہے بلکہ میر ے نزدیک تو شیخ مہدی کا نظریہ صحیح لگتاہے جس نے بجائے جرةکے (حبرہ) یعنی یمنی چادر کا ذکر کیا ہے ۔
اگر میں عمارت اور قبہ کی زینت کو نہیں مانتا توبالکل انکار بھی نہیں کر تا ۔سید جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں الفرحہ میں مو جود ان دونوں روایتوں کو ملاتے ہوئے بیان کیا ہے کہ ہارون رشید نے وہاں قبہ بنانے کا حکم دیا پھر لوگوں نے زیارت شروع کی اور اس کے ارد گرد اپنے مردوں کو دفن کرتے تھے اوریہ سلسلہ عضدوالدولہ کے زمانے تک تھا۔سید محسن امین صاحب ''اعیان الشیعہ ''کے مطابق ۱۷۰ھ بمطابق ۷۸۶ ء کو سب سے پہلے ہارون رشید نے روضہ مقدس کی تعمیرکروائی تھی ۔اور دیلمی نے ''ارشاد قلوب ''میںروایت بیان کیا ہے کہ جب ہارون رشید نے زیارت قبر امیر المومنین کیلئے گیا تو وہاں چادر دروازوں پر مشتمل ایک قبہ بنوانے کا حکم دیا ۔اس پر حسینی نے اضافہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پھر لوگوں نے زیارت کرنا شروع کی اورقبہ اس کے ارد گرد اپنے مردوں کو دفن کرنا شروع کیا ۔دیلمی اپنی کتاب ''ارشاد القلوب'' میں بغیر سند کے ایک روایت بیان کرتے ہیں جس کے شروع سے آخر تک اخذ مشکل ہے وہ روایت کے شروع میں کہتا ہے کہ امیر المومنین کی جب روح قبض ہوئی غسل وکفن کے بعد مسجد کوفہ کی طرف چار تابوت نکالے گئے پھر نماز پڑھائی گئی 'پھر ایک تابوت ان کے گھر کی طرف لے جایا گیا باقی تین میں سے ایک بیت الحرام بھیجا گیا اور دوسرا مدینہ رسول بھیج دیا گیا جبکہ ایک تابوت بیت المقدس میں بھیج دیا گیا۔ یہ اصل میں آپ کو پوشیدہ رکھنے کے لیے ایسا کیا گیا تھا ۔
اسی طرح کی روایتوں پر ہم نے تبصرہ کیا ہے یہ صرف قیل وقال اور من گھڑت باتیں ہیں جو دفن کے حوالیسے دوسری معتبر روایات سے خاموش ہو تی ہے ۔سید حسن امین صاحب دائرة المعارف شیعہ نے لکھا ہے کہ رشید کے زمانے میں قبر شریف پر سائباں اور اس کے قبہ بنایا گیا تھا۔اس کے باوجود موصوف نے ماخذ کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کی ہیں ۔اسی طرح ہم نے ارشاد دیلمی میں بھی دیکھا جس کے اندر طباعتی غلطیا ں بہت زیادہ تھی ۔اور بغیر سند کے یہ روایت لکھ دی ۔پھر اس چار دروازوں پر مشتمل عمارت بنانے کا حکم دیا اور یہ عضد الدولہ کے زمانے تک باقی رہا ۔
مامون' معتصم'واثق اور متوکل کی دور خلافت میں روضہ مقدس کے حالات
بہر حال اگر یہ گنبد مٹی کا ہو تو ہمیں نہیں لگتا ہے کہ مو سم کے نشیب وفراز میں جہاں کبھی درجہ حرارت (مثلاجولائی کے مہینے میں )کافی بڑھ جا تاہے میں اتنا لمبا عرصہ رہا ہو ۔اگر باقی رہا ہو تو ضرو ری ہے کہ اس کیلئے کو ئی بچاو ہو جس کا میرا خیا ل ہے کہ نہ ہو۔اور یہ بھی بعید نہیں ہے کہ اس قبے کی اصلاح اور وسعت بھی نہ ہو ئی ہو اس لیے کہ ابن الربہ اور ابن اثیر دونو ں کے مطابق مامون نے ماہ ربیع الاول ۲۱۳ھ میں یہ اعلان کیا تھا کہ امیر المومنین رسول اللہ کے بعد لوگوں میں سب سے افضل ہیں ۔اور یہ بھی بعید نہیںہے کہ اسی عہد میں روضہ مقدس کے قرب وجوار میں لوگ رہتے تھے ۔خاص طور سے جب امام علی موسیٰ رضا کی ولی عہدی کا اعلان کیا تھا قرب جوار میں رہنے کے حوالے سے اس میں نشیب و فراز ہو تا رہتا تھا کیو نکہ موسم میں جب سختی ہو تی تھی خاص گرمی کے مہینوں میں تو میرا نہیں خیال ہے کہ لوگو ں نے وہا ں دائمی مسکن بنایا ہو ۔ لیکن اب یہ مجھے یقین ہے کہ خلافت مامون، معتصم اورواثق کے دور میں انہو ں نے علی اورآل علی کی تھو ڑی ہمدردی کی وجہ سے شیعہ کو فہ میں آرام کے ساتھ بغیر کسی سختی کے مر قد امیر المومنین کی تھوڑی اور بھی ترقی ہو ئی تھی کیو نکہ متوکل اپنے سے پہلے خلفاء ،مامون ،معتصم اورواثق سے ان کی علی اور آل علی کے محبت کر نے وجہ سے بغض رکھتے تھے۔ مجھے لگتا ہے خلافت واثق میں ۲۳۲ھ بمطابق ۸۴۷ ئ۔
زائرین قبر مطہر نے ایک بڑی کشادگی دیکھی ہے کیو نکہ وہ زیارت کیلئے بغیر کسی تنگی کے آرام سے جاتے تھے ۔ اگرچہ اس حوالے سے کوئی روایت تائید نہیں کرتی ہے کیونکہ اس سے عباسی حکومت اور خلافت کا ستارہ غروب ہونا شروع ہوا تھا ۔اس لیے ان کے ہاں تر کوں نے گھسنا شروع کیا تھا آہستہ آہستہ ان کے حکو متی معاملات میں تنگی لا نا شروع ہوا تھا۔ اس حوالے سے ہم نے اپنی ''نصوص و محاضرات ''نامی کتاب میں گفتگو کی ہے۔ اورگمان غالب ہے کہ جب لوگوں نے رہنا شروع کیا تو بعض علوی وہاں دفن بھی تھے ۔ان کے علاوہ کو فہ کے اور بھی شیعوں نے اپنے مردوں کو اس وقت دفن کر نا شروع کیا جب ان میں اعتقاد ہو اکہ قبر مطہر کے جوار میں دفن ہونا باعث ثواب ہے۔ لیکن شیعوں کیلئے یہ کشادگی زیادہ عرصہ نہ رہی ،جب زمام خلافت متوکل کے ہاتھ میں آئی جوبغض امیر المومنین میں مشہور تھا۔ تو اس نے شیعوں کے ساتھ ناروا سلوک کیا ۔اور بات یہاں تک آگئی ۲۳۶ھ بمطابق ۸۵۰ ء میں اس نے قبر ابی عبداللہ الحسین کو ڈھانے کا حکم دیا اور وہاں زراعت اور پھر پانی چڑانے کا حکم دیا اور لوگوں کو وہاں آنے سے روک دیا ،یہ بات طبری ،ابن اثیر اور مسعودی وغیرہ اپنی اپنی کتابوں میں جابجا لکھا ہے ۔
''آل ابی طالب متوکل کے زمانے میں سختی اور مشکلات میں تھے ۔انہیں قبر حسین کی زیارت سے روک دیا گیا تھا اور اسی طرح کو فہ کی سر زمین غرا جہاں مزار علی ابن ابی طالب ہے۔ یہاں ان کے شیعوں کو جانے سے روک دیا گیا تھا ۔یہ واقعہ ۲۳۶ھ کا ہے ۔یہ روایت انتہائی اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ غرامیں روضہ اور مزار کے بارے میں بتاتی ہے۔اور یہ مزار حامل آل ابی طالب کے نزدیک قابل اہتمام ہے ۔اور یہ قبر امیر المومنین کے ماننے والوں کے لیے مرکز ہے ۔وجود روضہ کے بارے میں شیخ محمد حرزالدین نے ابن تغری بردی سے روایت کی ہے جس میں متوکل کے امیر المومنین کے ساتھ بغض ظاہر ہو تا ہے ۔اس کی ایک امّ الفضل گویہّ (ناچنے' گانے والی عورت )کے ساتھ خلافت سے پہلے ناجائز تعلقات تھے ۔ایک دفعہ اس کو طلب کیا تو اس سے نہیں ملی ۔اور چند روز بعدوہ حاضر ہو گئی تو اس کے چہرے پر رونق تھی ۔متوکل نے اس سے پو چھا تو کہا ں گئی تھی ؟ تو اس نے جواب دیا حج میں تو اس نے کہا تمہاری ہلاکت ہو یہ حج کے ایام نہیں ہیں ۔اس نے کہا حج سے مراد حج بیت اللہ نہیں بلکہ میں مزار علی کی زیارت کرنے گئی تھی اس نے کہا اتنے میں متوکل نے کہا شیعوں نے تو اللہ کے فرض کئے ہوئے حج کو مزار علی کے لیے قرار دیا ہے۔اس کے بعد اس نے مزار کی طرف لوگوں کو جانے سے روک دیا''لیکن اس قسم کی ایک روایت ''مقاتل الطالبین ''میں ہے ۔جس میں متوکل کی ایک کنیز کے ماہ شعبان میں مرقد حسین پر جانے کا ذکر ہے ۔ بہر حال تغری بردی کے روایت اگر صحیح ہے تو کم ازکم یہ مزار علی کی وجود کے بارے میں توبتاتی ہے۔جو تیسری ہجری کے اوائل میں ایک بڑے قبے پر مشتمل تھا مگرمتوکل کا علی اور ان کے شیعوں کے ساتھ بغض زیادہ شدید تھا ،اور آل ابی طالب پرخلفائے بنی عباس میں سے سب سے زیادہ متوکل نے ظلم کیا ۔یہا ں تک کہا جاتا ہے کہ ابن اثیر کے مطابق متوکل کا بیٹا منتصرباللہ امام کے ساتھ شدید بغض رکھنے کی وجہ سے ان کے ماننے والوں کے قتل کو حلال قرار دیتا تھا ۔ ابن اثیر مزید آگے لکھتا ہے ۔وہ علی ابن ابیطالبـ اور اس کے خاندان کے ساتھ شدید بغض رکھتا تھا کوئی اس کے پاس علی اور اس کے خاندا ن کے ساتھ محبت کا اظہار کرتا تو اس کے جان ومال کی خیر نہیں تھی ۔ اور اس کی ہمنشینی ایک خنثیٰ کے ساتھ تھی جو اپنے لباس کے نیچے پیٹ پر تکیہ باندھ کر رقص کر تاتھا ۔ جب وہ گانے والے گاتے تھے تو یہ گنجا پیٹو خلیفہ مسلمین پر جھکتا تھا اورحضرت حضرت علیـکی شان میں گستاخیاں کیا کرتا تھا (نعوذباللہ )متو کل پیتا اور بہکتا رہتا تھا ۔
ایک دن اس مو قع پر منتصر بھی موجود تھا اور اس منظر کو دیکھ کر اس پر خوف طاری ہوا تو متوکل نے پوچھا یہ تمہاری کیا حالت ہوئی ہے ۔تو منتصر نے کہا اے امیر المومنین یہ جو کتا جس کے بارے میں کہہ رہا تھا اورلوگ اس پر ہنس رہے ہیں۔وہ تمہا راچچا زاد بھائی ہے ۔جس پر تمہیں فخر ہے ۔جس کا گوشت خود تو کھاو لیکن کتے کو مت کھلاو یہ سن کر متوکل نے گویوں کی طرف متوجہ ہو کر ایک شعر کہا ہے ۔اس جوان کو اپنے چچازاد بھائی کیلئے غیرت جاگ اٹھی اور اس کے بڑے مجلسوں میں علی کیساتھ بغض رکھنے والے جمع ہوتے تھے ۔ابن اثیر کے مطابق جن میں سر فہرست علی ابن الجہم عمرابن فر ح ،ابی السمطہ ،جو مروان ابن ابی حبصہ ،عبداللہ بن محمد الہاشمی تھے ۔یہ لوگ متوکل کو علویوںسے ڈراتے رہتے تھے ۔اور ان کے ساتھ برے سلوک کرنے کا مشہورہ دیتے رہتے تھے ۔اور اس گروپ میں اس کا وزیر عبداللہ بن یحییٰ بن خاقان جو کہ اہل بیت او ر ان کے ماننے والوں کے ساتھ یہ ناروا سلوک یہاں پر ختم نہیں ہو تا ۔بلکہ اس سے پہلے کئی خلفاء بھی کوئی کم نہ تھے انہوں نے جب قبر حسین کو گرانے کا مکروہ منصوبہ بنایا تو بغداد والوں نے دیواروں پر اس کے خلاف گالی گلوچ لکھنا شروع کیا ۔اور دوسری طرف شعراء نے اس کی ہجو گوئی کر نا شروع کیا ۔جن میں سر فہرست دعبل ،خزاعی،اور اس کے مکروہ ترین کارناموں میں یہ بھی تھا کہ اس نے امام ہادی بن الجواد کو مدینہ سے بغداد اور وہا ں سے سر زمین رے لانے کا حکم دیا یعقوبی اور مسعودی کے مطابق اس نے بالآخر امام کو شہید کر دیا ۔اور اہل بیت کے ساتھ اس کا رویہ صرف یہاں ختم نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ اس انقلاب کو بھی کچلنے کی کوشش کرتاہے ۔جو کہ محمد بن صالح بن موسیٰ بن عبداللہ بن حسن ابن حسین بن علی ابن ابی طالب جس نے مقام سویقہ جو مدینہ میں واقع ہے جہا ں آل علی ابن ابی طالب رہتے تھے۔ متوکل ابو ساج کی قیادت میں فوج کا دستہ بھیجا جنہوں نے ان کو شکست دی بعد ازاں انہیں قتل کیا اور ان کے خاندان کو گرفتا ر کیا پھر سویقہ کو ملیامٹ کر دیا ۔
یاقوت نے اپنی کتاب ''معجم البلدان''میں ایک جگہ لکھا ہے کہ یحییٰ بن عمر بن زید بن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب نے ۳۳۵ھ کو متوکل کے خلاف جب قیام کیا تھا توا سے بھی گرفتار کر کے قید کیا گیا تھا ۔پھر ۳۳۶ھ میں ابن اثیر کے مطابق اس نے روضہ اباعبداللہ الحسین کو گرانے کا حکم دیا تھا۔ ابن خلکا ن نے اپنی کتاب ''وفیات'' میں قبر حسین گرانے کے ساتھ قبر امیر المومنین اور ان کے دو بیٹوں کے مزارات کے ساتھ برا سلوک کر نے کا ذکر کیا ہے۔ موصوف آگے جاکر ایک حکایت نقل کر تا ہے کہ ایک بزرگ مذہب اہل امامت کی پیروی کر تا تھا ۔ جب متوکل کو پتہ چلا تو وہ اور اس کے ساتھیوں کوطلب کیا او ران سے پوچھا کہ رسول اللہ کے بعد بہترین بہادر شخص کون ہے؟ تو انہوں نے کہا'' علی بن ابی طالب ''اور یہ سن کر اس کے خادم نے یہ خبر متوکل کو دی ہے پھر وہ دوبارہ ان کے پاس آیا اور ان سے کہا خلیفہ کہتا ہے کہ یہ تو میر ا مذہب ہے ۔اگر یہ روایت صحیح ہے تویہ واقعہ اس کی ماں ااور بیٹا منتصر جو اپنے باپ کے اعتقاد کا مخالف تھا اور اپنے زمانے میں عباسیوں میں علی کو سب سے زیادہ چاہنے والا تھا کے واقعے کے بعد ہے ۔
اور شاید متوکل اباعبداللہ الحسین کی روضہ کو ۲۳۶ھ میں گرانے کے حکم کے بعد اسی سال اپنے موقوف سے ہٹ گیا ۔اس حوالے سے صاحب کتاب المنتظم نے یو ں لکھا ہے کہ محمد منتصر نے اپنی دادی شجاع کیساتھ ۲۳۶ھ کو حج کیا متوکل اپنی ماں کو نجف لے گیا ۔وہاں اس نے لوگوں میں بہت مال بانٹا اور یہ علویوں کے ساتھ زیادہ محبت اور انصاف کر نے والی خاتون تھیں ۲۴۷ھ بمطابق ۸۶۱ ء کو اس کا بیٹا منتصر باللہ تخت پر بیٹھا۔ اس کا دور اہل بیت اور ان کے ماننے والوں کیلئے کشادگی کا دور تھا ۔ابن اثیر اپنی کتاب ''الکامل'' میں لکھتا ہے کہ وہ سخی کریم اور انصاف پسند شخص تھا ۔اور اس نے لوگوں کو قبر علیوحسین کی زیارت کا حکم دیا اور علویوں کو امان دی جوکہ باپ کے دور میں ڈرے ہوئے تھے ۔اس نے ان کو آزاد کیا اور باغ فدک کو حسن وحسین'ابنا علی ابن ابی طالب کے بیٹوں کو واپس دینے کا حکم دیا۔ڈاکٹر حدن حکیم آمالی شیخ طوسی سے ۲۴۷ھ کے واقعات نقل کرتے ہوئے عبداللہ بن دانیہ الطوری کے قول ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے جب میں ۲۴۷ھ کو حج سے واپس آیا تو عراق جا کر امیر لمومنین علی ابن ابی طالب کی زیارت سلطان سے چھپ کر کی۔اس کی تائید مسعودی کا یہ بیان کہ متوکل نے قبر حسین کو گرانے کا حکم دیا اور علویوں اور ان کے شیعوں کے ساتھ جو کچھ کیا ۔پھر منتصر کی طرف منتقل ہو ا ۔اس ضمن میں وہ کہتا ہے: آل ابی طالب منتصر کی خلافت سے پہلے خوف ودہشت میں مبتلاء تھے ۔ انہیں اور ان کے ماننے والوں کو زیارت قبر علی وحسین سے روک دیا ۔اور یہ سلسلہ جاری تھا ۔تو منتصر خلیفہ بنا اس نے لو گوں کو امان دی اور آل ابی طالب کی طرف دست محبت بڑھادیا اور ان کے بارے میں کچھ کہنا چھوڑدیا اور قبر علی و حسین سے روکنا چھوڑ دیا اور نہیں روکا ۔اور باغ فدک کو حسنین کے بیٹیوں کو واپس کر نے کا حکم دیا اور آ ل ابی طالب سے پابندیاں ہٹادیںیا اور ان کے ماننے والوںسے تکلیف اٹھا دی۔بہر حال منتصر کی زندگی زیادہ لمبی نہیں رہی خلافت سنبھالنے کے چھے مہینے بعد۲۴۷ھ بمطابق ۸۶۲ ء کو اس دنیا کو خیر باد کہہ دیا۔مسعودی نے مذکورہ واقعات کو بیان کیا ہے جسے ابن اثیر نے اہمیت دی ہے ۔اس سے ثابت ہو تا ہے کہ مزار علی ۲۳۶ھ سے پہلے نہ صرف موجود تھا بلکہ معروف بھی تھا۔ اور اسی جگہ میں تھا جہاں علی ابن ابی طالب اور ا ن کے ماننے والے اس کی زیارت بھی کیا کر تے تھے اور روایت ابن تغزی بردی کے مطابق یہی مطلب نکلتا ہے۔مگر جہاں تک دفن کی روایتوں کا تعلق ہے اس میں کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ اس مو ضع کے علاوہ کسی نے زیارت کی ہو اور میرے یہاں یہ بعید نہیں کہ متوکل کی ماں شجاع اپنے پوتے منتصر کے ساتھ حج سے واپسی پر مر قد علی کی اس موضع میں زیارت کی تھی ۔ اور المنتظم میںیہ ۲۳۶ھ بمطابق ۸۵۰ ء کے واقعات کے ضمن میں یہ بھی وارد ہوا ہے ''محمد منتصر اپنی دادی شجاع کے ساتھ حج پر گیا تھا اور واپسی پر نجف میں اسی موضع میں زیارت کی اور یہ واقعہ بھی درج ہے کہ اس خاتون نے علویوںکے لیے مال تقسیم کیا اور رسول اللہ کی روئت کا اثر تھا کیونکہ یہ ابھی ابھی حج بیت اللہ اور روضہ رسول کی زیارت سے واپس آرہی تھی اور یہ بھی بیان ہواہے کہ ایک زیادہ بخشنے والی خاتون تھیں او ر ۲۴۷ھ کو بالآخر اس نے وفات پائی اور اس کے پو توں میں سے منتصرنے نماز پڑھائی ۔اور میرے یقین میں اضافہ ہو تا ہے یہ خاتون جب نجف پہنچی تو اس نے مرقد امیر المومنین کی زیارت کی جو حجاج کے راستے سے زیادہ فاصلے پر نہ تھا جہاں سے یہ گزرتے تھے اور حج کے مو سم میں امیر المومنین کے نزدیک تمام علویین جمع ہوتے تھے ۔اور یہ بھی واضح ہے کہ جب ۳۳۶ھ متوکل نے ابا عبد اللہ الحسین کی روضہ کو گرانے کا حکم دیا تھا تو روضہ امیرالمومنین بھی بچا ہو ۔مجلسی نے ''بحار'' میں ایک روایت نقل کی ہے کہ محمد ابن علی ابن رحیم الشیبانی کہتا ہے کہ ایک رات میں اپنے والد علی ابن رحیم اور چچا حسین ابن رحیم کے ساتھ ۳۶۰ھ میں غری کی طرف قبر مولا نا امیرالمومنین کی زیارت کے ارادے سے نکلے اور ہمارے ساتھ ایک جماعت بھی تھی ۔جب ہم وہاں پہنچے تو قبر امیرلمومنین کے ارد گرد سوائے کالے پتھروں کے کچھ بھی نہ تھا چاردیواری بھی نہ تھی ۔
صندوقِ داؤد عباسی
یہ ظاہر ہو تا ہے کہ جو صندوق داود عباسی نے امام کی قبر اطہر پر رکھا تھا ۔اس حکایت میں بہت سارے لکھا ریوں کو وہم ہو ا ہے ۔ جو مزید تامل کی ضرورت ہے کہ یہ داود جو عباسی خاندان کا ایک فرد تھا اور۲۸۳ھ بمطابق ۸۸۶ ء کو کوفہ میں رہتا تھا ۔اور داؤد بن علی عباسی جو کہ سفاح اور منصور کا چچا تھا ۔جو کہ ۱۳۳ھ کو وفات پا یا کے درمیان اشتباہ ہوا۔ اس وہم میں محدثین میں سب سے پہلے سید جعفر بحر العلوم مبتلاء ہو ئے ۔انہوں نے اپنی کتاب ''تحفةالعالم'' میں نبش قبر شریف کی ایک حکایت کو نقل کرتے ہوئے۔صندوق رکھنے والا شخص سفاح اور منصور کے چچا داود کو قرار دیا ہے اور جب مو صوف کو قبر کے بارے میں حقیقت کا پتہ چلا تو اس نے مصعب بن جابر کو وہاں ایک صندوق رکھنے کا حکم دیا ۔اور اس اشتبا ہ میں وارد ہو نے کی دوسر ی شخصیت جعفر محبوبہ ہے جو اپنی کتاب میں لکھتا ہے کہ جب دائود بن علی متوفی ۱۳۳ھ بمطابق ۷۵۱ ء نے قبر شریف پر لوگوں کا جوق درجوق آنا اور وہاںجمع ہو نے کا منظر دیکھا۔ تو اس نے حقیقت حال جاننے کا ارادہ کیا ۔یہ سوچ کر موضع قبرجو کہ اس کے خیال میں قبر علی ابن ابی طالب تھی اپنے غلام کو وہاں کھود نے کا حکم دیا۔جب اس پر حقیقت حال واضح ہو گئی تو اس نے قبر کو دوبارہ بند کیا اور اس کے اوپر ایک صندوق بنایا۔ یہ بات شیخ جعفر محبوبہ نے کتاب الفرحہ سے اصل خبر کو نقل نہیں کیا لگتا ہے کہ اس نے پوری خبر پڑھی ہی نہیں ۔اس کے بعد ڈاکٹر سعاد ماہرمحمد نے اس واقعے کو شیخ محبوبہ پر اعتماد کر تے ہوئے داود ابن علی کی طرف نسبت دی ہے ۔مجھے نہیں لگتا کہ اس نے بھی ''کتاب الفرحہ ''میں دیکھا ہو بلکہ شیخ موصوف پر اکتفا ء کیا ہے وہ کہتے ہے ۔
'' یہ فطری بات ہے کہ لوگوں کو اس جگہ کے بارے میں معلوم ہو جا نے کے بعد ایک علامت رکھی گئی ہو ۔اور کہا جاتا ہے کہ سب سے پہلی علامت وہی صندوق ہے جسے داود ابن علی العباسی نے ۱۳۳ھ میں بمطابق ۷۵۱ ء میں رکھا تھا عنایت الدین کی روایت ہے کہ جب داود بن علی العباسی نے قبر شریف پر لوگوں کے اجتماع کو دیکھا تو حقیقت حال جاننے کا ارادہ کیا ''یہ کتاب الفرحہ میں مو جود اصل روایت کو نہ دیکھنے کی وجہ سے وہم میں مبتلا ہو ا کیو نکہ اصل روایت میں داود بن علی العباسی کے بجائے صرف داود ہے ۔
او ریہ شخص بنی عباس میں سے تھا ۔حکایت صندوق کا واقعہ موسوعہ نجف اشرف میں آیا ہے۔ لیکن مقا لہ نگار کا نام درج نہیں ہے ۔صرف حکایت صندوق کے عنوان کے ذیل میں درج ہے مرقد شریف دوسری مرتبہ داود ابن علی متوفی ۱۳۳ھبمطابق ۷۵۱ ء کے ہاتھوں ظاہر ہوا مزے کی بات یہ ہے کہ مقالہ نگار نے عباسیوں کا علویوں پر پہلا ظلم پھر شیعوں کو ان کے امام کی زیارت پر اصرار کر نے کے واقعات پر بحث کی ہے ۔ اور قبر مطہر داود بن علی عباسی کے زمانے تک سوائے ایک ٹیلے کے کچھ نہیں تھی تو اس محبت اور تعظیم کی وجہ سے ظاہر کیا اور جب اس کر امت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اسے دشمنوں کے دست وبرد سے بچایا تو ہم نے یہ ارادہ کیا کہ اسے اصل مصدر وسند اور تاریخی حقائق کے ساتھ نقل کریں تاکہ باغی گروہوں کے اقوال کے مغالطے کو ردّ کر سکیں۔پھر ابن طاوس کی الفرحہ میں موجود صندوق سے متعلق روایت میں محمد جعفر تمیمی بھی ہے جو اپنی کتاب ''مشہد الامام ''میں دوسری مرتبہ مرقد مقدس کا داود بن علی عباسی کے ہاتھوں ظہور اور عباسیوں کا علویوں کے ساتھ موقف بیان کرنے کے بعد لکھا ہے ۔یہی حالت داود بن علی عباسی کے زمانے تک باقی رہی اور انہوں نے قبر مطہر کو ظاہر کیا اور اس پر ایک صندوق بنایا ۔ اور اسی کرامات و تعظیم کی بدولت ہی اللہ تعالیٰ نے مرقد مقدس کو دشمن کے شر سے محفو ظ رکھا تو ہم اسے اصل مصدر وسند اور تاریخی حقائق کے ساتھ بیان کر نے کی کو شش کی تاکہ اہل مغالطہ کی باتوں کا توڑ ہو ۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ مو لوعہ کی اس مقالہ میںمقالہ نگار کا نام مذکور نہیں ہے ۔اس کا سبب کاتب خود ہے اس کی وجہ ان دونوں نصوص میں مطابقت ہے۔پھر روایت نقل کی ہے اور اس میں توجہ نہیں کی ہے کہ یہ داود بن علی نہیں ہے بلکہ یہ کوئی دوسرا شخص ہے کیو نکہ اس کے واقعات ۳۷۲ھ بمطابق ۸۸۶ ء کے آس پاس موجود ہیں ۔
اس کے بعد متوہمیں میں حسین شاکری بھی شامل ہیں اس نے صندوق کی نسبت داود بن علی عباسی کی طرف دی ہے جس کی وجہ وہی پرانا اعتماد ہے جو روایت کو اچھے طریقے سے پڑھا نہیں ہے۔ اس کے بعد شیخ حرزالدین بھی اپنی کتاب ''تاریخ النجف'' میں اس وہم میں مبتلاء ہوا ہے ۔اگر چہ ان کی یہ کتاب دقیق معلومات اور قبر امام سے متعلق نصوص کثرةسے بھر ی ہو ئی ہے لیکن آخر میں انہوں نے بھی روایت صندوق کواول سے آخر تک بیان تو کیا ہے لیکن اس میں دقت کے ساتھ توجہ نہیں کی اور داود سے مراد داود بن علی عباسی کو سمجھا ہے ۔اور اس متوہمیں کے گروہ میں ڈاکٹر حسن حکیم کا نام بھی آتا ہے انہوں نے شیخ محبوبہ پر اعتماد کر تے ہوئے یوں لکھا ہے ''اگر ہم اس روایت کی صحت کو مانے تو قبرمقدس کا ظہور پہلا عباسی خلیفہ ابو العباس سفاح کے دور میں ہوا ۔جو کہ عباسی اور علوی کے درمیان اچھے تعلقات کا دور ہے کیو نکہ عباسیوں کو اس حوالے سے علویوں کی اشد ضرورت تھی ۔اس مو قعے سے فائدہ لیتے ہوئے امام سفاح اور منصور کے دور میں بھی اپنے خاص اصحاب صفوان الجمال وغیرہ کے ساتھ قبر شریف پر جایا کرتے تھے۔'' شیخ علی اشرقی نے تو اس روایت کے زمانے کو ابو العباس سفاح کے بجا ئے ابو جعفر منصور کا دور لکھا ہے ۔ وہ کہتا ہے ''کہا جاتا ہے پہلی مرتبہ قبر کا ظہور منصور عباسی کے دور میں ہو تھا جب وہ ہاشمیہ میں تھا۔اس وقت داود بن علی بن عبداللہ بن عباس نے آکر قبر شریف پر ایک لکڑی کا صندوق رکھا تھا ۔''
اب یہ تو معلوم ہو اکہ داود بن علی منصور کی ہاشمیہ منتقل ہونے سے پانچ سال پہلے ۱۳۳ھ بمطابق ۷۵۱ ء میں ہی وفات پا چکا تھا اور یہ نہیں معلوم کہ شیخ علی الشرقی نے یہ عجیب روایت کہاں سے لائی ہے۔ڈاکٹر حسن جو کہ ایک مشہور مورخ ہے ۔ اس کے نزدیک روایت صندوق ضعیف ہونے کی وجہ سے اس نے قبول کر نے میں احتیاط برتی ہے ۔لیکن اس مو قع پر دوسروں سے ہٹ کر ایک عجیب بات کہتا ہے کہ'' امام جعفر صادق ''نے سفاح اور منصور کے دور میں ہی قبر شریف کے اوپر مٹی جمع کرکے ایک رتیلی ٹیلہ بنا یا تھا ۔ جس کے بارے میں بعد میں رشید نے پو چھا تھا اب یہاں ریتلی ٹیلہ کا وجود حکایت صندوق کو کمزور کرتاہے ۔کیو نکہ اگریہ حکایت صحیح ہو تو رشید ٹیلہ کے بارے میں کیوں پوچھتا اب مجھے نہیں معلوم کہ موصوف کوکس نے بتایا کہ امام نے قبر شریف پر یہ ٹیلہ بنایا اور یہ ممکن نہیں ہے کہ اس صحراء میںیہ ٹیلہ آب وہوا سے بچابھی ہو۔ اس بارے میں ہم نے تفصیل سے اصلاح قبر مطہر جو امام جعفر صادق کے حکم سے ہوئی تھی۔ بیان کی ہے۔ اس مو قع پر ڈاکٹر حسن کا رشید کے ا ستفسار قبر اختیار کر نا عجیب بات ہے ۔کہا ں وہ صندوق جو داود بن علی نے رکھا تھا وہ بھی قبر پر نہیں رہا جو بعد میں نجف کے کسی اطراف سے ملا اور یہ معلوم ہے کہ داود بن علی کو سفاح نے قبرکا گورنر بنایالیکن اس کی حکومت یہاں زیادہ نہیں چلی تو فوراً وہ ۱۳۲ھ میں لوگوں کے ساتھ حج پہ چلا گیا پھر وہاں مکہ ومدینہ کا گورنر مقرر ہو الیکن یہاںبھی وہ زیادہ دیر نہیں چل سکا بلاآخر آٹھ مہینے بعد مر گیا اس حوالے سے سید جعفر بحرالعلوم لکھتا ہے ۔ابن قتیبہ نے بھی لکھا کہ سفاح کو فے میں زیادہ مدت نہیں رہا تو وہ حیرہ چلا گیا۔ اور وہاں سے ۱۳۴ھ میں انبا رچلا گیا اور وہاں پر ماہ ذوالحجہ ۱۳۶ھ میں وفات پا یا ۔ان تمام با توں کے باوجودتاریخ نجف الاشرف موجود ہے ۔اس کتاب کی اہمیت کم نہیںہو تی کیونکہ اس موصوف نے نجف اور خاص طور سے روضہ مقدس کے با رے میں کافی معلومات جمع کی ہیں ۔شیخ محمدبن الحاج عبود کوفی اپنی کتاب ''نزہتہ الغری ''میں لکھتا ہے ''کہا جاتا ہے کہ اس نے قبر مطہر پہ ایک صندوق بنایا اور اس کے اوپر ایک قبہ بنایا موصوف رشید کی عمارت کے بارے میں بحث کرتے وقت صندوق کی بات کو بیان نہیں کیا جس کے اوپر قبہ تھا ''بلکہ صرف سابقہ روایت کو بیان کیا ہے اس کے بعد اسی روایت کو ایک نویں صدی کے عالم بغیر کسی اضافے کے اپنی کتاب ''عمدة الطالب ''میں لکھا ہے ،پھر ڈاکٹر حسن فوراً کہتا ہے ''ابو جعفر طوسی نے اس قبے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا حدثنی ابو الحسن بن الحجاج نے کہا ہم نے یہ صندوق یہاں پر اس دیوار کے بننے سے پہلے دیکھا ہے جسے حسن ابن زید نے بنایا ہے۔'' اب آپ ملاحظہ کریں کہ اس روا یت میں قبے کا کو ئی ذکر نہیں ہے مگر یہ صندوق جوداود کے صندوق کے ساتھ ہوا ہے جس کا ہم ذکر کریں گے اور ڈاکٹر حسن نے اس کاحوالہ دیا ہے ۔شیخ طوسی قبر امام کے تعیین کے بارے اہمیت دینے والوں میں شامل ہے انہوں نے اس بارے میں اپنی کتاب تہذیب الاحکام میں بہت ساری روایات نقل کی ہیں جن میں سے اکثر کا ہم نے اشارہ کیا ۔در اصل ان کا نجف اشرف میں منتقل ہونا ہی عملی طور پر قبر مطہر کے موضع کے بارے میں مشکوک روایت کی عملی طور پر تردید کرنا ہے۔ وہ کربلابھی جاسکتا تھا جو آب وہو ا کی وجہ سے نجف سے زیادہ بہتر تھا ۔اور تہذیب الاحکام میں جو روایت صندوق مذکو ر ہے جو رشید اور اس قبے کے ساتھ کو ئی تعلق نہیں رکھتی ہے۔ بلکہ یہ روایت داود کے صندوق کے ساتھ مضبوط ہے یہاں اور ایک عجیب بات کا ذکر کروں کہ سید تحسین آل شبیب موسیٰ جو فرحتہ الغراکے محقق ہیں اس مو قع پر وہم میں مبتلا ء ہو ا انہوں نے تمہید کے شروع میں لکھا ہے۔ بنی عباس کے حکو مت آنے کے بعد وہ چھپا راز کھل گیا اور محفوظ خزانے کی جگہ معلوم ہوئی .......اور اس حالت میں لوگ جوق درجوق قبرشریف کی زیارت کے لیے جاتے تھے اتنے میں کچھ عباسی اور علوی بھی آتے تو داود بن علی عباسی نے احترام و تعظیم کی وجہ سے قبر مطہر پر ایک صندوق رکھنے کا حکم دیا ۔اور یہ صندوق کافی عرصہ تک وہاں رہا ۔اب مجھے نہیں معلوم کہ موصوف کو یہ وہم کیوں ہو احالانکہ اس نے اس کتاب کی تحقیق کی اور اس میں موجود نصوص میں غور فکر کیا ۔
محمد جواد فخرالدین بھی اس گروہ میں شامل ہے اس کی گراں قدر تصنیف ''تاریخ نجف عباسی کے آخری دور تک ''میں لکھتا ہے ''تمام مصادر کو جمع کرنے کے بعد یہ معلوم ہواکہ قبر امیرالمومنین پر سب سے پہلے نشان علی بن داود عباسی نے رکھا ''اب معلوم نہیں کہ اس کی تمام مصادر سے کیا مراد ہے۔ کیونکہ مجھے پرانے مصادر میں ایسی چیز نظر نہیں آتی پھر وہ شیخ طوسی کی صندوق والی روایت کا ذکر کر تے ہیں اور اس روایت کے شروع میں نہیںدیکھتا بلکہ صندوق کی تاریخ کو ۱۳۲ھ کا بتاتا ہے۔اور اس سے داود بن علی عباسی کی حقیقت قبر مطہر کے بارے میں معرفت گردانتا ہے ۔جس کی وجہ داود کا علویوں اور ان کے ماننے والوںکے ساتھ محبت اور تعاون کو کہا ہے ،اور ان تمام اوہام کی کوئی بنیا د نہیں ہے۔ اسی طرح روضہ کے بارے میں شیخ محبوبہ کے بعد بہت سارے لوگوں کو وہم ہو ا ۔کہ نہ اس صندوق کے رکھنے کے بارے میں سفاح اور منصور کا چچا داود بن علی نے حکم دیا تھا ۔اور نہ ہی نبش قبر کے بارے میں کوئی حکم دیا تھا ۔ جو تیسری صدی تک کو فہ میں رہتا تھا ۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت میں بنی عباس کا ہاتھ ہے اور اصل روایت شیخ طوسی کی ''تہذیب الاحکام ''میں یوں آئی ہے۔ ''ابوالحسن محمد ابن التمامالکوفی کہتا ہے کہ ہمیں ابوالحسن علی ابن الحسن الحجاج نے کہا ایک دن ہم اپنے چچا عبداللہ محمد ابن عمران بن الحجاج کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اتنے میں اہل کوفہ کے بزرگوں کی ایک جماعت آئی ان میں عباس ابن احمد العباسی بھی تھے اور جب یہ سارے ہمارے چچاکے ہاں پہنچے تو انہوں نے سلام کیا کیو نکہ میرے چچا ماہ ذی الحجہ ۲۷۳ھ کو ابو عبداللہ الحسین ابن علی کے ثقیفہ کے سقوط کے وقت پہنچاتھا اور یہ لوگ بیٹھ کر باتیں کررہے تھے ۔اتنے میں اسماعیل ابن عدی عباسی بھی آیا اور اس جماعت نے جوں ہی اس کو دیکھا تو انہوں اپنی گفتگو بدلی تو اسماعیل وہاں بیٹھا رہا اور ان سے کہااے ہمارے بزرگوں اللہ آپ لوگوں کو عزت دے شاید میرے یہاں آنے کی وجہ سے آپ لو گو ں کی گفتگو تو نہیں کٹ گئی ؟ اتنے میں ان کے بزر گ ابوالحسن علی ابن یحییٰ السلمانی جو سب سے آگے بیٹھا ہو اتھا ؛نے کہا نہیں یا اباعبداللہ!اللہ آپ کو عزت دے ہم اس وجہ سے چپ نہیں ہوئے ۔اتنے میں اس نے کہا ؛اے میرے بزرگو!یہ جان لو اللہ کو حاضر ناظر رکھ کر میں آپ لو گوں کو بتاوں کہ جس مذہب کا میں اعتقاد رکھتا ہوں یہ ہے کہ ہر کوئی ولایت امیرالمومنین علی ابن ابیطالب اور دوسرے آئمہ میں سے ہر ایک پر اعتقاد رکھتا ہے اور ان کی اتبا ع کر تا ہے اور ان سے برات کر تا ہے جن سے انہوں نے برات کیا ہے ۔
یہ سن کر ہمارے بزرگ خوش ہوئے اور ایک دوسرے کے درمیان سوال وجواب کے بعد اسماعیل نے ان سے کہا کہ ایک دن جمعہ کی روز نماز کے بعد جامع مسجد سے ہم اپنے چچاداود کے ساتھ آرہے تھے ،تو راستے میں انہوں نے ہم سے کہا تم لوگ جہاں کہیں بھی ہو سورج غروب ہونے سے پہلے میرے پاس آجاو اور تم میںسے کوئی پیچھے ہٹنا نہیں چاہیے، پھر وقت مقررہ پر اس کے پاس پہنچے تو وہ بیٹھے ہوئے ہمارا انتظار کر رہے تھے ۔پھر اس کہا کہ تم لوگ فلاں فلاں سے کہہ کر آواز دو اتنے میں دو آدمی اپنے سوار ی کے ساتھ آگئے پھر ہمارے چچاکی طرف متوجہ ہو کر کہا تم لوگ سارے جمع ہو جاو اور ابھی اس جمل (جو ایک کالاغلام کا نام تھا )اگر یہ غلام دریا ئے دجلہ کے بند پر تو وہ اپنے قوت سے دریا روکے گا اور تم سب اس قبر پہ جانا جہاں لوگ جمع ہونگے اور کہہ رہے ہو ں گے کہ یہ قبر علی ہے اور تم اس کو کھولنا اور اس کے اندر کچھ ہے وہ میرے پاس لے آو ۔پھر ہم اس موضع پر چلے گئے اور ہم نے کہا تو کھودنے والوں نے کھودنا شروع کیا ۔
اور اندر یہ کہہ رہے تھے ''لاحول ولا قوة الا باللہ العلیّ العظیم ''اور ہم ایک کنارے پر بیٹھے دیکھ رہے تھے ۔اتنے میں انہوں نے پانچ ہاتھ کھود ا تو زمین کی سخت مٹی شروع ہوئی تو کھودنے والوں نے کہا ہم سخت جگہ پہنچے ہیں تو ان کے سامان نے بھی کام کرنا چھو ڑدیا تھا پھر انہوں نے اس حبشی کو اتارا اور اس نے کدال اٹھا کر مارنا شروع کر دیا ۔تو قبر کے اندر سے ہم نے شدید آوازیں سنیں ۔پھر اس دوسری مر تبہ مارا تو یہ آواز اور شدید ہو گئی پھر اس تیسری مر تبہ مارا تو اور شدید ہو گئی پھر غلام نے خود ڈر کے مارے چیخنا شروع کیا پھر ہم نے ان سے کہا جو ا س کے ساتھ تھے اس سے پو چھو کہ کیا ہو ا اسے؟ تو اس نے ان سے بھی کچھ نہیں کہا بس چیختا رہا پھر ہم نے کہا اسے باندھ کر باہر نکا لوجب وہ نکلا تو ہم نے دیکھا اس کے انگلی سے لیکر گٹھنے تک خون لگا ہو اتھا اور وہ مسلسل چیخ رہا تھا ،ہم سے باتیں نہیں کر رہا تھا اور صحیح طریقے سے جواب بھی نہیں دے پا رہا تھا پھر ہم اسے سواری پر بٹھا کر جلدی واپس آگئے اور غلام کے دائیں طرف اس کی بازو میں مسلسل خون بہہ رہا تھا ۔جب ہم اپنے چچا کے پاس پہنچے تو اس نے کہا کہ تمہارے ساتھ کیا ہو ا؟ہم نے کہا جو آپ دیکھ رہیں ہے پھر ہم نے ساری صورتحال اسے بتادی اس کے بعد قبلے کی طرف رخ کیا اور اپنے اس عمل پر توبہ کی اور اپنے مذہب سے رجوع کیا اور ''تولّا''و ''تبرّا'' کیا اور اس کے بعد راتوں رات علی ابن مشعب بن جابر کے پاس آئے اور اس کو قبر پر ایک صندوق بنانے کا حکم دیا ۔اور کسی کو نہیں بتایا ۔اور قبر کو دوبارہ بھر دیا اور اس کے اوپر صندوق رکھ دیا اور کالا غلام اس وقت مر گیا ،ابو الحسن بن الحجاج نے کہا اس صندوق کہ یہ خوبصورت حدیث ہم نے دیکھی ،اور یہ صندوق حسن بن زید کے قبر پر دیوار بنانے سے پہلے ہے ۔
اور یہ دیوار حسن نے نہیں بنائی یہ وہم ہے بلکہ اس کے بھائی محمد نے بنائی ہے ۔اس کی تفصیل ہم عمارت کے بیان میں ذکر کریں گے ۔ابن طاوس نے خبر نقل کی ہے ۔کہ یہ طوسی سے نقل ہونے والی آخری روایت ہے ۔یہاں اس نے صرف ایک طوسی پر اکتفاء نہیں کیا ہے بلکہ اسے مختلف طریقوں سے توثیق کی ہے۔لہٰذاوہ کہتا ہے میں کہتا ہو ں کہ اسے ابوعبداللہ محمد ابن علی ابن عبدالرحمان الشجری نے سابقہ اسنا دکے ساتھ ذکر کیا ہے وہ کہتا ہے کہ مجھے احمد ابن عبداللہ الجوالقی نے کہا ہمیں علی ابن الحسن بن الحجا ج نے اس روایت کو بیان کیا ہے اور ا س نے کہا ''فقیہ صفی الدین بن محمد کہتا ہے میں نے یہ حدیث سید مفید کے داماد ابو العلی محمد بن حمزہ جعفر ی کے خط میں سید کے وفات کے بعدان کے درس میں دیکھی تھی دوسری روایت میں نے ابوالعلی کے خط میں دیکھی جیساکہ صفی الدین نے بیان کیا اور یہ میں نے ابن داود کے مزار میں ایک عتیق پر لکھے نسخے میں دیکھا تھا جس میں وہی لکھا تھا جسے میں نے پیش کیا ۔اور یہ میری تمام کتابو ں اور روایتوں میںسے پہلی کتاب ہے ۔جس میں عبداللہ بن عبد الرحمٰن بن سمیع اعزّہ اللہ کیلئے سہو تدلیس نہیں ہو اتھا اور یہ محمد بن داود القمی نے ماہ ربیع الثانی ۳۶۰ھ میں لکھا ہے......'' اور یہ روایت طوسی کے مطابق ہے ۔اور اس روایت کو علامہ مجلسی نے بھی بحار میں حرف بحرف نقل کیا ہے اور وہی سابقہ طریقوں کو بیان کیا ہے جسے طوسی نے بیان کیا ہے جس میں وہی شیخ مفید کے داماد ابو یعلی محمد بن حمزہ جعفر کا ذکر ہے اور انہوں نے ا سے مزار ابن داود القمی نامی ایک کتاب میں ایک ثقہ نسخہ دیکھا ہے جس کی تاریخ ۳۶۰ھ بمطابق ۹۷۱ ء ہے۔
شیخ محمد بن الحاج عبود الکوفی نے بھی اس روایت کو تھو ڑی تبدیلی کے ساتھ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے ،جن کے مطابق نبش قبر اورصندوق کی حکایت عباسیہ کے ایک شخص سے ہے ،مگر سید محسن امیں نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں صندوق کی حکایت کو روضہ کی عمارت جسے ہارون رشید نے بنوایا تھا کے ضمن میں بیان کیا ہے اور اس حکایت کو داود عباسی سے منسوب کیا ہے اور حاشیے میںلکھا ہے کہ ''بعض معاصرین نے کہا ہے یہ داود وہی داود بن عیسیٰ بن موسٰی بن محمد بن عیسیٰ بن علی ابن عبداللہ بن عباس ہے لیکن اسماعیل بن عیسیٰ کہتا ہے کہ میرا چچا نے کہا اس صورت میں داود ابن عیسیٰ اسماعیل کا بھائی نہ چچا، سوائے اگر اسماعیل بن عیسیٰ اور اس کا باپ دونوں کا نام عیسیٰ ہو وغیرہ ۔''
روایت صندوق کے بارے میں ہم نے اہم معلومات جمع کیں اور مرقد مطہر کے تاریخی واقعات کو تسلسل کے ساتھ جو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط تھے بیان کیا ہے ۔امام جعفر الصادق کے دست مبارک سے ہی قبر شریف مشہور ہو ااور انہوں نے ہی بعد میں اصلاح فرمائی، پھر اس ایک ٹیلہ نما کی شکل اختیار کی۔ خلفاء بنی عباس کے علویوںاور ان کے شیعوں کے ساتھ ہو نے والے سلوک کی وجہ سے ،پھر رشید نے اس کی اصلاح کی ۔پھر مامون ،معتصم اور واثق کے دور میں شیعوں کو قدرے آزادی ملی تو زئراین کی تعداد میں اضافہ ہو اتو ان کی ضرورت کی وجہ سے وہا ںدیوار اور بعض تعمیراتی کام ہو ابعدازاں قبر مطہر کی تعظیم اور احترام کی وجہ سے لفظ مشہد سے مراد ضریح امام علیـاستعمال ہو نے لگا پھر آہستہ آ ہستہ مشہد کے بدلے مدینہ علی یعنی شہر علی کے نام سے پکارا جانے لگا ۔عنقریب ہم ایک اور روایت بیان کریں گے جس کے مطابق مامون ،معتصم اور واثق زائرین کو روکتے نہیں تھے۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ متوکل ان لوگوں سے اسی لیے نفرت کرتا تھا کیو نکہ یہ امیرالمومنین سے محبت کرتے تھے ان کے زائرین کو تنگ نہیں کرتے تھے ۔یہاں تک ۲۳۶ھ کو متوکل نے زائرین پر پابندی لگادی ۔
اور یہا ں تک بیا ن کر تی ہے کہ اس نے روضہ علی اور روضہ حسین کو گرانے کا حکم دیا اس کے بعد روضہ ایک مر تبہ پھر عام قبر وںمیں تبدیل ہوا جس کے ارد گرد چند سیاہ پتھروں کے کچھ بھی نہ تھا جس کے ذریعے قبر کو سہارا دیا ہو اہو ۔بعد میں یہ پتھر نجف کے اطراف میں پھیل گئے اس کے بعد روضہ مقدس مختلف مراحل سے گزر تا رہا اور متوکل کے مرنے کے بعد یعنی ۲۶۰ھ کے بعد کے حوالے سے علامہ مجلسی ایک اہم روایت بیان کرتے ہیں ۔
محمد بن علی بن رحیم الشتاتی یا الشیبانی نے قبر امام کی زیارت کی تو اس کی حالت دیکھی ۔یہ روایت قبر پر دیوار یا عمارت کے وجود والی روایت کی توثیق کیلئے اہمیت کی حامل ہے کیو نکہ وہا ں پر چند پتھر وں کے سوا کچھ نہیں تھا ۔تو دیوار اور عمارت کہاں سے آئی اور اس وقت داود عباسی بھی پہنچتا ہے ۔جو نبش قبر کر تا ہے اور اگر وہاںروضہ قبہ یا دیوار ہو تو اس نے نبش کیسے کی ہو گی؟ پھر داود کی صندو ق کا دور آتا ہے جسے اس نے ۲۷۳ھ بمطابق ۸۸۶ ء میں قبر پر رکھا تھا اور اس صندوق کا سالوں باقی رہنا اور اس کے بعد محمد بن زید الداعی کا روضہ امام کو بنوانا ۔اس کے بارے میں ہم بیان کر یں گے ۔ اور بعید نہیں ہے کہ وضع صندوق پھر محمد بن زید کے ہاتھو ں نئی تعمیر ات اور زائرین کیلئے کشادگی اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں وہ آہستہ آہستہ قبر مطہر کے آس پاس لوگ رہنے لگے لیکن گرمیوں میں موسم کی سختی اور پانی کی قلت کی وجہ سے یہ سلسلہ جا ری نہیں رہتا تھا خاص طور پر ایک بار پھر زائرین پر پابندی لگ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ ۲۶جمادی الاول ۳۷۱ھ کو عضدالدولہ البو یہی مرقد مطہر کی زیارت کیلئے آتے ہیں ۔اس کے بعد ہمیں وہاں رہنے والوں کی ایک لمبی فہرست نظر آتی ہے ۔جسے روضہ کی عمارت کے باب میں تفصیل سے بیان کریں گے ۔
محمد بن زید الدّاعی اور ضریح کی تعمیر
منتصر کی خلافت چھ مہینے سے زیادہ نہیںچلی ۔جس میں علوی کو بعض وقت مشکل گزارنا پڑا ۔اور ۲۴۸ھ بمطابق ۸۶۲ ء کو جب وہ مر گیا تو عباسی خلافت کا زوال شروع ہوا اور جب مسند خلافت پر متعین بیٹھا تو ترکو ں سے جان چھڑانے کیلئے سامراء سے بغدادمنتقل ہو ا لیکن وہ بھی جلدی معزول ہو ا اور اس کی جگہ معتزبااللہ آیا ۔پھر انہوں نے بغداد کو محاصرے میں لے لیا اور متعین کو قتل کیا اور نئے خلیفہ نے بعض تر کوں کو بھی قتل کر کے اپنی جان بچائی ۔لیکن باقی ترکوں نے اس پر دھاوا بول دیا اور اسے معزول ہو نے پر مجبور کر دیا پھر اسے جیل بھیج دیا اور اسی سال قتل کیا ۔اور اس کی جگہ نیا خلیفہ اس کا نام بھی معتز باللہ تھا آیا لیکن اس کی حکو مت بھی زیادہ مدت نہیں چلی اور وہ باالآ خر ماہ رجب ۲۵۵ھ بمطابق ۸۶۹ ء کو قتل ہو ا۔پھر نیا خلیفہ آیا جس کا نام مہدی تھا۔اس نے ترکوں سے بچنے کی کو شش کی اور وہ کسی حد تک ان کی قیادت کرنے میں کامیا ب رہا ۔لیکن بالآخر وہ بھی نا کام ہو ا۔اور اس کی داستان ۲۵۴ھ بمطابق ۸۷۰ ء کو ختم ہوئی۔اس کے بعد مسند خلافت پر احمد بن متوکل جو معتمد کے لقب سے مشہور تھا بیٹھا اور اس کی خلافت ۲۷۹ھ بمطابق ۸۹۲ ء تک رہی ۔اس دوران علویین کی طرف سے بہت سارے لوگوں نے قیام کیا شاید اس کثرتِ انقلاب کے اسباب یہ ہو کہ علوی مختلف جگہوں میں خلافت عباسیہ کا سورج غروب ہوتا ہو ادیکھناچاہتے تھے ۔جو دن بدن کمزور ہو رہی تھی ۔یا یہ سبب ہو کہ متوکل نے امت پر جو مصائب ڈھا ئے تھے جس کی وجہ سے امت اسے نہیں بخشتی تھی ۔اور یہی سلسلہ اس کے بعد بھی بنی عباس کے خلفاء کے ساتھ جاری رہا ۔
اس دوران ان تمام انقلابات اور خون خرابہ ہو نے کی وجہ سے زائرین امیرالمومنین اور امام حسین کی تعداد میں مکمل کمی واقع ہوئی اور مہدی کے دور میں حبشیوں نے بصر ہ میںقیام کیا اور مکمل طور پر قتل وغارت گری پھیلا دی ۔اہل ترک ان کے قیام کو نہ روک سکے ۔اور ان کے قائد یعقوب بن لیث الصفار نے یہ سلسلہ فارسجستان وکر مان تک بڑھا یا اور بغداد پہنچنے والاتھا اتنے میں معتمد کا بھائی جس کا لقب موفق تھا نے اس کے خلاف فوج تیا ر کرلی اور اسے روکنے میں کامیاب ہو ا۔لیکن صرف اس پر اکتفا ء نہیں کیا بلکہ خلیفہ نے فوج کا دوسرا دستہ اپنے بھا ئی احمد کے بیٹے معتضد کے ساتھ بھیجا جو بلا کا ذہین تھا اور بلا خر حبشی انقلاب کا چراغ گل کر نے میں کامیاب ہوئے ۔
اور ۲۷۰ھ بمطابق ۸۸۳ ء کو ان کے قائد کو قتل کیا اور اپنے چچا کی وفات کے بعد یہ ۲۷۹ھ بمطابق ۸۹۲ ء کو خلیفہ بنا اس دور میں عباسیوں نے تھوڑاسکھ کا سانس لیا لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چلا جب معتضد ۲۹۹ھ بمطابق ۹۱۲ ء کو مر گیا ۔اس کے بعد اس کے بھا ئی معتدر کو خلافت ملی ۔اگر ہم اس پورے دور پر نظر ڈالیں تومعتضد کا دورعلویو ںکیلئے کچھ سکھ وچین کا نظر آتا ہے ۔جس کی وجہ یہ ہے کہ معضد نے خلافت سنبھالنے سے پہلے امام علی ابن ابی طالب کو خواب میں دیکھا تھا ۔انہوں نے اسے خلافت کی بشارت دی تھی ۔اور اپنے آل کے ساتھ ایذارسانی سے باز رہنے کا تقاضا کیا تھا ۔تو اس نے سمعًا وطاعةً قبول کیا تھا ۔اس واقعے کو مسعودی،طبری ،اور ابن اثیرنے تفصیل کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں بیان کیا ہے۔ روایت یہ ہے :
میں نے خواب میں دیکھا کہ میں نہروان کی طرف اپنی افواج کے ساتھ بڑھ رہا تھا ،تو میںنے دیکھا راستے میں ایک ٹیلے پر ایک آدمی کھڑا نماز پڑھ رہا ہے ۔اور میری طرف دیکھتا بھی نہیں ہے تو مجھے اس پر تعجب ہو ا لیکن جب وہ نماز سے فارغ ہو ا ،تو مجھے اپنی طرف بلایا، اور میں اس کے پاس گیا، تو مجھ سے کہا تم مجھے جانتے ہو ؟ میں نے کہا نہیں انہوں نے کہا میںعلی ابن ابی طالب ہو ں ۔اس چھڑی کو اٹھا و اور زمین پر زور سے مارو ،تو میں نے اٹھا یا اور زور سے مارنا شروع کیا اتنے میں مجھ سے کہنے لگے کہ اس پر تمہا رے بیٹوں کی حکو مت ہو گی لہٰذامیری اولاد کے لیے ان سے خیر کی وصیت کرو'' لیکن مجھے لگتا ہے کہ خواب والی بات میں تجاوز ہوئی کیونکہ معتضد خلفابنی عباس کے مضبوط اور مقتد ر خلفاء میں سے تھے ۔اور انہوں نے اپنے چچا کے عہد میں عسکری تربیت حاصل کی تھی اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ سیاسی مشق بھی کی تھی۔ اور حکو مت کے مختلف عہدوں پر کام کر نے کی وجہ سے اسے زمانہ سابق کے احوال کا اچھی طرح معلوم تھا ۔
میرے گمان کے مطابق اس کے ان سابقہ معلومات سے اس کو اندازہ ہو اتھا کہ علوی انقلابات کی بیخ کنی ایک مشکل اور محال امر ہے ۔اور ان سے وہ بچ بھی نہیں سکتا تھا اس وجہ سے اس نے ان کے ساتھ نرم گوشہ اختیا ر کیا تاکہ خلافت عباسیہ اپنی دوسری مشکلات کے ساتھ نمٹ سکے۔لیکن اس کے باوجوداس کے دور میں کثیر تعداد میںآل علی شہید ہوئے اور مسعودی کے مطابق محمد بن زید بھی اسی کے دور میں ۲۸۷ھ کو شہید ہوئے اور جب معتضد نے اپنے اس بہادر کی موت کی خبر سنی تو دکھ کا اظہار کیا۔ جس کی ابن اثیر نے تائید کی ہے لیکن ابو الفرج نے اپنی کتاب مقاتل الطالبین میں لکھا ہے کہ محمد بن زید ماہ رمضان ۲۸۹ھ میں وفات پایا اور اسی سال معتضد بھی فوت ہوا اور بات ظاہر ہو تی ہے کہ محمد بن زید بن محمد بن اسماعیل بن الحسن بن علی بن ابی طالب نے اپنے چچازاد بھائی حسن بن زید کے بعد طبرستان اور اس کے اطراف پر حکومت کی تھی اور ہمیشہ اس کی رعیت بغداد،کوفہ ، مکہ ،اور مدینہ میں اپنے چچازادبرادران آل علی ہی رہے تھے ۔لہٰذاوہ ان کی خفیہ طریقے سے محمد بن الوردالعطار جو بغدادمیں اس کے مددگاروں میں شامل تھا کے ذریعے مددکرتا رہتا تھا ۔اور طبرستان سے ایک دفعہ محمد بن زید نے ۲۸۲ھ میں ابن الوردکے لیے ۳۰ ہزار دیئے تھے ۔تاکہ وہ اس رقم کو آل علیکے درمیان تقسیم کرے لیکن طبری اس رقم کو ۳۲ہزار دینا کہتا ہے ۔اس طرح محمد سالانہ اسی مقدارمیں رقم ابن الورد کے لیے بھیجا کر تا تھا ۔اور وہ آل علی کے درمیان تقسیم کرتا تھا اور اس سال معتضد کو اس صورت حال سے آگاہ کیا گیا ۔پھر معتضد نے اس صورت حال کو جاننے کے لیے اپنے پولیس کے رئیس کو اپنا خواب بتایا لیکن وہ پھر بھول گیا ۔اور جب ابن الورد تک اموال پہنچنے کا علم ہو ا تو اس نے ابن الورد کو گرفتا ر اور معتضد کو خبر دی تو فورامعتضد کو وہ خواب یاد آیا ۔پھر اس نے ابن الورد کو آزاد کرنے کا حکم دیا اور مال واپس کروایا تاکہ تقسیم کریں لیکن اس بار اسے خفیہ طریقے نہیں بلکہ کھلم کھلا تقسیم کرنے کی اجازت دی گئی نہ صرف یہ بلکہ محمد بن زید کو طبر ستان میں لکھ بھیجا تاکہ یہ مال کسی سے چھپا کر نہیں بلکہ کھلم کھلا بھیجنے کا کہا ۔اورایک قدم اور آگے بڑھ کر معتضدنے اپنی پولیس کو اس مہم میں مدد کر نے کا حکم بھی دیا اور اس طرح وہ آل ابیطالب کے ساتھ قربت اختیار کرنے میں کامیاب ہو ا ،یہ واقعہ طبری ،مسعودی ،ابن اثیر، اور ذہبی، نے اپنی اپنی تاریخ کتابوں میں لکھا ہے ۔
اس سے یہ معلوم ہو تا ہے کہ روضہ مقدس تیسری صدی ہجری کے نصف میں بنا ہے۔ کیونکہ اسی صدی کے ساتویں دہائی کے اوائل میں قبرمطہر کے اطراف میں سوائے سیاہ پتھر وں کے کچھ بھی نہ تھا نہ وہاں دیوار تھی اور نہ ہی کو ئی عمارت وغیرہ ۔مجلسی نے محمد بن علی بن رحیم الشیبانی کی روایت کو موسوی کی تحقیق کر دہ الفرحہ سے نقل کیا ہے ۔
اور یہ شیبانی جس نے ۲۶۰ھ کے درمیان قبر کی زیارت کی تھی ۔ان کے مطابق قبرمیں سوائے چندسیاہ پتھر وں کے دیوار وغیرہ نہیں بنی تھی ۔لیکن سب سے پہلے محمد بن زید کی عمارت کے حوالے سے ابواسحاق الصابی نے اپنی کتاب ''المتزع ''میں ذکر کیا ہے جس کو ڈاکٹر محمد حسن نے نقل کیا ہے کہ ''محمد بن زید وہ پہلا شخص ہے جس نے سب سے پہلے قبر علی ابن ابی طالب اور قبر حسین ابن علی غری اور حائر میں تعمیرات کیں اور اس تعمیر میں انہوں نے ۲۰ ہزار دینار خرچ کیا''میرے خیال میں اس حوالے سے الصابی کی عبارت زیادہ دقیق ہے گرچہ قبر ایک سے زیادہ مر تبہ تعمیر ہوئی لیکن گمان غالب یہ ہے کہ سب سے پہلے وہاں مزار محمدبن زید الداعی نے بنوایا تھا۔شاید عمارت مرقد مقدس کے بارے میں اہلسنّت کے بھی قدیم اشارات ملتے ہیں۔ جیساکہ ابن جوزی نے اپنے شیخ ابوبکرالباقی سے نقل کیا ہے اور انہوں نے الغنائم بن الزسی جو ماہ .....۴۲۴ھ میں پیدا ہوئے ۔وہ کہتا ہے ''کو فہ اہلسنّت وحدیث میں سے سوائے ابی کے کوئی نہیں تھا اور وہ کہتا تھاکو فہ میں۳۱۳ ،اصحاب دفن ہیں ۔ان میں صرف قبر علی ظاہر ونمایاں ہے۔ اور آگے وہ کہتا ہے کیو نکہ جعفر بن محمد بن علی بن حسین یہاں آتے تھے اور قبر امیر المومنین کی زیارت کر تے تھے اور وہاں صرف یہی قبر تھی۔
پھر ایک دن محمد بن زید الداعی آیا ہے اوراس پر تعمیر کروائی ہے اور کوئی شک نہیں کہ یہاں صرف یہی قبر موجود تھی ۔اور ہم بیا ن کر چکے کہ محمد سے پہلے قبر کی اصلاحات وغیرہ کیسے ہوئی۔ اس عمارت کے بارے میں ابن طاوس نے اپنی کتاب الفر حہ میں ذکر کیا ہے لیکن ان روایت میں یہ عمارت زید کے بھائی حسن کی طرف منسوب ہے ۔در اصل یہ ابن طاوس کو وہم ہو اہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ انہوں نے محمد بن حمزہ جعفر ی شیخ مفید کے داماد کی روایت پر اکتفا ء کیا ہے جسے ہم بیان کر چکے ۔ شیخ محمد حسین حرزالدین نے تا ریخ نجف اشرف میں تاریخ طبرستان سے نقل کیا ہے ۔ ۲۸۳ھ کے حدود میں محمد بن زید المعروف الداعی الصغیر جو ملک طبرستا ن تھا ،نے امیرالمومنین کی قبر پر ایک عمارت بنوائی تھی جو ایک قبہ دیوار اور ستر کمروں پر مشتمل ایک قلعہ تھا۔ اور یہ کمرے اس لیے بنوائے گئے تھے تاکہ زائرین اور مجاورین وہاںٹھہر سکے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ محمد خود تو طبرستان سے نہیں آیا تھا لیکن اس نے معتضد کے موقف سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس طرح وہ اموال تقسیم کیلیے بھیجتا تھا اسی طرح کچھ اموال روضہ کی تعمیر کے واسطے بھی بھیج کر روضہ کو بنوایا ۔اس بات کی تائید ہمیں ڈاکٹر حسن حکیم کی کتاب تاریخ نجف اشرف سے بھی ہوتی ہے وہ لکھتا ہے سید الداعی علوی نے طبرستان سے کچھ اموال نجف اشرف ،کربلا ،اور مدینہ منورہ میںبھیجنے کا حکم دیا تاکہ مقامات مقدسات کی تعمیر ات ہو سکے ۔''
اس واقعے میں محمد جواد بن فخر الدین دو باتوں کو ترجیح دیتا ہے ۔
۱۔ محمد بن زید کا قبر مقدس کی زیارت کرنا اور اس کی صورت حال کا علم ہونا ۔
۲۔ اس قبرشریف پر دیوار بنوانا ۔
''پھر ان کے بھا ئی نے اس پرقلعہ نما عمارت کی تعمیر کر وائی جو ستر کمروں پر مشتمل تھا ۔اور یہ دونوں ترجیحیں قابل حجت ہیں ۔پھر شیخ محمد عبود الکوفی الغروی نے بھی سید نوراللہ شوستری کی کتاب مجالس المومنین کے حوالے سے لکھا ہے کہ محمد بن زیدنے ۲۸۰ھ میں قبر امیر المومنین بنوایا تھا ۔ لیکن میرے حسا ب سے یہ تاریخ صحیح نہیں ہے ۔کیو نکہ معتضد کو محمد ابن زید کی طرف سے مال آنے کی اطلاع ۲۸۲ھ میں ہوئی ہیتواس سے پہلے روضہ کی تعمیر کیسے ممکن ہوئی اور اس وقت جو مال آتا تھا وہ بھی خفیہ طور پر آتا تھا ۔تو گمان غالب یہ ہے کہ تعمیر کا حکم ۲۸۲ھ بمطابق ۸۹۵ ء کے بعد ہی ہوا ہے ۔ لیکن زیادہ مرجوح یہ ہے کہ ۲۸۲ھ میں یہ کام کیسے ممکن ہو ا تھا ۔اور ضروری ہے کہ محمد بن زید نے وہا ں لوگوں کیلئے مستقل رہنے کابندوبست کیا تھالیکن یہ زیادہ عرصہ نہیں باقی رہاکیونکہ ان کے ۲۸۹ھ بمطابق ۹۰۰ ء میں شہید ہونے کے بعد عمارت کو اس بیابان میں سخت موسمی تغیرات کی وجہ سے نقصان ہواتھا۔ اس عمارت کی تاریخ داود کی صندوق کی حکایت والی ۳۳۳ھ بمطابق ۹۴۵ ء میں ملتی ہے کیونکہ علی ابن الحجاج کی روایت ہے کہ انہوںنے یہاں داود کی صندوق اور زید الداعی کی عمارت دونوں دیکھا تھا۔ اگرچہ علی ابن حسن الحجاج کی اس روایت میں عمارت کو زید کی نسبت دینے میںغلطی کی ہے'' کیو نکہ وہ کہتا ہے''ہم نے صندوق کو زید کی یہاں دیوار بنوانے سے قبل دیکھا ہے ۔''
لیکن میں اس حوالے سے اس بات کو ترجیح دیتاہوں کہ زید کی عمارت بننے سے قبل روضہ مقدس کے آس پاس لوگ رہنا شروع ہوا تھا ۔محمد زید کو معتضد کے کھلم کھلااموال تقسیم کے حکم دینے کے بعد ہی راہ کھلی تھی ۔شاید ان کا زید کو فضیلت دینے کی وجہ ہو کہ کیونکہ اس نے اس مشکل اور سخت حالات میں مجاورین روضہ کی مالی مدد کی ۔میرے خیال میں وہاںشہر کی ابتداء اسی وقت سے ہو تی ہے ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس شہر کی ترقی کا راز در اصل خلافت عباسیہ ہے جیسا کہ حبشی قرا مطیوں اور ان کے بعد ترکوںکا خلافت پر دھاوا،پھرقرمطیوں کا کو فہ کو مر کز بنانا جس کی وجہ سے قبر کے آس پاس لوگوں کو رہنے کا موقع ملا ۔پھر وہ جنگیں جو مقتدر کے دور میں قرامطہ نے نہ روضہ کو نقصان پہنچایا اور نہ ہی اس کے مجاورین کو ایذارسانی کی ۔اور اس عرصہ میں کچھ دینی علمی شخصیات ابھر کر سامنے آئیں جس میں محدث محمدالشیبانی ،حسین بن احمد،المعروف جو اسماعیلیوں کے یہاں المستور سے مشہور ہے مگر تیسری صدی کے آخر ی دھائی میں وہاں مسلسل زیارتوں کا سلسلہ شروع ہو تا ہے ۔جیسا کہ محمدحسین حرزالدین نے بیان کیا ہے۔
عمارت حمدانیہ
حمدانی نے تاریخ اسلام کی تیسری صدی کے اواخر سے چوتھی صدی کے نصف ثانی تک بڑے بڑے واقعات وحادثات کا مشاہدہ کیا ہے لیکن اس خاندان کازوال اس وقت شروع ہو تا ہے جب اس کی مشہورشخصیت امیر سیف الدولہ حمدانی ۳۵۶ھ /۹۶۷ ء وفات پاتا ہے۔مگر اس خاندان کی آبیاری کرنے والی شخصیت موصوف کے والد ابو ہیجا ء عبداللہ بن حمدان بن حمدون الثعلبی ہے۔جس کو موصل وغیرہ کی ایک سے زیادہ مرتبہ گورنری نصیب ہوئی تھی اس کے وفات کے بعد ان کے برادران پھر بیٹے حسن اور اس کا بھا ئی موصل وغیرہ کے گورنر بنے بلکہ حمدانیوں کی حکومت ان کے بیٹے سیف الدولہ کے زمانے میں بلاد شام وغیرہ تک پھیل چکی تھی ۔ابن اثیر ،ابن کثیروغیرہ نے اپنی اپنی کتابوں میں تفصیل کے ساتھ لکھا ہے ۔اس زمانے میں خلافت عباسیہ کے واقعات میں اس خاندان کابڑا کردار رہا ہے ۔خاص طور سے امارت عربیہ میں اس کے فرزندوں نے رومی حملوں کو روک کر انہیں شکست فاش کر کے فتح وکامرانی حاصل کی تھی۔ اور عباسی حکو مت میں جتنے اس خاندان کے بادشاہوں نے جو علما ء ،ادباء ،شعراء دیکھے ہیں کسی اور خاندان نے نہیں دیکھے ۔مگر جس مو ضوع میں ہم گفتگو کر رہے ہیں وہ ہے مرقد مقدس کی عمارت جس کی تعمیر میں خاندان کے بانی ابو ہیجا ء نے کثیر مال خرچ کیا ہے جس کا ذکر ابن حوقل، اصطخری ،اور ادریس وغیرہ نے کئی مرتبہ کیاہے بلکہ ایک مستشرق ( K.LASTRANJ ) نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے او رکہا ہے یہ ۲۹۲ھ/۹۰۵ ء میں مو صل کا امیر تھا اور اس سے پہلے وہ یہاں امیر رہ چکا تھا اور بالآخر ۳۰۱ ھ بمطابق ۹۱۴ ء کو معزول ہو ا اس کے بعد ان کے فرزندحسن اور برادر ان ایک سے زیادہ مرتبہ اس علاقے کے گورنر رہے ۔جیساکہ ابن اثیر نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے ۔
اس کے بعد ابن اثیر مزید ان سالوں کے واقعات پر گفتگو کرتے ہو ئے لکھتا ہے کہ یہ خاندان محبت اہل بیت کی وجہ سے مشہور تھا جس کا ابن کثیر نے بھی اعتراف کیا ہے ۔بلکہ اس کے بارے میں لکھا ہے کسی اور نے بھی لکھا ہے ۔ سید محسن امیں نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں بیان کیا ہے کہ بعض معاصرین نے صاحب خریدہ العجائب کے حوالے سے کہا ہے کہ وہ کوفہ کا ذکر کرتے ہوئے کہتا ہے کہ اس میں ایک عظیم قبہ ہے کہا جاتا ہے کہ یہ قبر علی ہے اور یہ قبہ ابو عباس عبداللہ بن حمدان نے دولت بنی عباس میں بنایا ہے ۔سید عباس موسوی العاملی مکی نے اپنی کتاب نزہتہ الجلیس میں لکھا ہے ۔قبر آدم، نوح ،اور علی پر ایک بڑا قبہ بنایا ہوا تھا اور سب سے پہلے اس قبے کو عبداللہ بن حمدان نے دولت عباسیہ میں بنایا تھا پھر اس کے بعد وہی سیف الدولہ جس کا لقب ابوالہیجا ہے کا باپ ہے ۔جو ۲۹۳ھ بمطابق ۹۰۶ ء میں مو صل کے امیر تھے ۔اس بنا پر عبداللہ بن حمدان کی عمارت عضدالدولہ کی عمارت سے پہلے بنی ہے کیونکہ ابن حمدان ۳۱۸ھ بمطابق ۹۲۹ ء سے پہلے فوت ہو چکا تھا ۔لیکن کو ئی بھی اس عمارت کی تاریخ معین کر نے میں متفق نظر نہیںآتے۔
اور مجھے گمان غالب یہ ہے کہ اس حوالے سے یہ کام ۳۱۱ھ/۹۲۳ ء میں سر انجام ہواتھا اس لیے ابو الہیجا ء اسی سال ۳۱۱ھ کو خلیفہ کی نیا بت میں حج کے لیے روانہ ہو گیا تو ضروری ہے کہ اس نے کو فہ میں اس دوران قیام کیا ہو جیسے عراقیوں کی عادت تھی پھر انہوں نے قبر امیر لمومنین کی زیارت کی اوروہاں عمارت کی تعمیر کا حکم دینے کے بعد حج کیلئے روانہ ہوئے اور ان کی سیرت میں یہ بات بھی مو جودہے کہ جب وہ حج سے واپس آرہا تھا تو راستے میں ابوطاہر قرمطی ان کے قافلے پر حملہ آور ہوئے اور ان کی بڑی قتل وغارت گری ہوئی اور عبداللہ نے اپنے قافلے کی دفاع میں کافی کوشش کی لیکن بالآخر قرمطی نے ان کو شکست دی اور قافلہ کے اموال اور سواری کے جانوروں کو لوٹ لیا ۔اور عبداللہ ان کے ہاتھوں پھنس گئے ۔اور ابوطاہر نے تقریباً ایک ہزار آدمی پانچ سو عورتیں گرفتار کیں کہ اسی سال محرم الحرام میں واقع ہوا۔ابن اثیر کے مطابق ۳۱۲ھ میں قرمطی کو فے میں داخل ہوا۔ اور عبداللہ سمیت تمام اسیروں کو رہا کیا اس میں کوئی شک نہیں کہ رہائی کے بعد عبداللہ آرام کرنے کے لیے فورابغداد واپس آگیا ۔اس کی ذمہ داری کا یہ حال تھا کہ خلافت عباسی میں ترکوں کی مداخلت کی وجہ سے فتنہ پھوٹ رہا تھا ۔ لیکن ابو الہیجا ء اس زمانے کے نمایاں عسکری اور سیاسی شخصیات میں تھے۔ اور ۳۱۷ھ کو عباسی خلیفہ قاہر کو ترکوں پر فتح حاصل ہوئی کیو نکہ اسے قتل کرکے اس کے بھا ئی مقتدر کو دوبارہ اپنی جگہ میں واپس لانا چاہتے تھے ۔ابن اثیر نے یہ لکھا ہے کہ عبداللہ نے قاہر کا دفاع کر تے ہوئے اسے موت سے بچایا اور اس جنگ میں اپنا بازو اور سر کٹوایا ۔اور اثیر اورابن کثیر نے اپنی اپنی کتابوں میں ابوالہیجا پر بہت روایتیں لکھی ہیں ۔لیکن دونوں نے اس کی تعمیر روضہ میں مشارکت کا ذکر ہی نہیں کیا۔ لیکن ابن حوقل جو پانچویں صدی ہجری کے ایک سیاح ہے نے اس کی مشارکت تعمیر روضہ کے بارے میں بیان کیا ہے ۔
اس پر اعتماد کرتے ( K.LASTRANJ )سے ابو الہیجا کی طرف منسوب کیا ہے اور انہوں نے مشہد امیر المومنین کی حدیث کو لمبا ہو نے کی وجہ سے ٹکر اٹکرا کر کے لکھا ہے ۔اور اس کی نسبت کسی کتاب کی طرف نہیں دی ہے ۔وہ بیان کر تا ہے کہ قبر امیر المومنین پر ایک عظیم قبہ بنا ہوا تھا جس کے تمام اطراف میں مختلف دروازے تھے ۔ان دروازوں اعلی قسم کے پردے لگے ہوئے تھے اور اندر چٹائیاں بچھی ہوئی تھی ۔اور اصطخری کہتا ہے کہ قبر علی کوفے کے قریب ہے۔ اور اس کی جگہ کے بارے میں اختلاف ہے کہا جاتا ہے کہ یہ جامع مسجد کو فہ کے دروازے کے کونے میں ہے کیو نکہ بنی امیہ کے خوف سے پو شیدہ رکھی گئی تھی۔اس جگہ میں میں نے چارہ بیچنے والے کی دوکان دیکھی ہے اور بعض یہ گمان کر تے ہیں ،کہ کو فہ سے دو فرسخ کے فاصلے پر ہے جہا ں آج بھی قبر ستان کے آثار ہییں۔اس ضمن میں ابن حوقل کہتا ہے امیر المومنین کوفہ میں ہیں اور ا س کے مو ضع کے بارے میں اختلاف ہے بعض کہتے ہیں کوفہ کے کسی کو نے میں ہے کیو نکہ بنی امیہ سے چھپایا گیا تھا ۔اور اس جگہ آج کل چارہ کی دوکانیں موجود ہیںاور ان کی اکثر اولاد کا خیال ہے کہ ان کی قبر کو فہ سے دو فرسخ پر واقع ہے۔اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ ان کی اولاد کا گمان دوسروںکی گمانوں پر فوقیت رکھتے ہیں۔ڈاکٹر محمد حسن حکیم اپنی کتاب مفصل تاریخ نجف اشرف میں لکھتے ہیں ، مرقد علوی شریف پرچوتھی صدی ہجری کے دوران وسیع عمرانی ترقی ہوئی جس کی ابتداء ابو الہیجا عبداللہ بن حمدان متوفی ۳۱۷ھ بمطابق ۹۲۹ ء نے محمد بن زید الداعی کے بنائے ہوئے عمارت کو بڑھاتے ہوئے کیا ۔اور وہ مرقد شریف پراس نے مظبوط قلعہ ساتھ ایک لمبا قبہ بھی بنایا جس کے تمام اطراف میں دروازے تھے ۔اس حولے سے ڈاکٹر سعاد ماہر نے بھی اہم اضافوں ذکر کیا ہے ۔لیکن ا ن سے پہلے شیخ محمد حسین حر زالدین نے ماسینوں کی کتاب خططة الکوفہ پر اعتماد کر تے ہوئے لکھا ہے کہ امیر حمدانی جو کہ اوپر گزرا ،نے محمد بن زید کے ہاتھو ں بنی ہوئی عمارت کی تو سیع کی ۔پھر شیخ موصوف مشہد امیر المومنین کے بارے میں ابن حو قل کی حدیث کو نقل کیا ہے۔ اس پر ڈاکٹر سعا د ماہر کی بیان کا اضافہ بھی کیا ابو الہیجا عبداللہ بن حمدا ن نے جب اس جگہ کو دیکھا تو اس پر ایک مضبو ط دیوار بنایا اور قبر مطہر کے اوپر ایک بلند و بالا قبہ بنا یا جس کے چاروں اطراف میں دروازے تھے ۔اور اس پر اعلیٰ قسم کے پردے لگے ہویئے تھے ۔اور اس کے فرش پر قیمتی ثمانی چٹائیاں بچھی ہوئی تھی۔اور یہاں پر امیرالمومنین کی اکثر اولاد دفن ہیں ۔اور اس بڑی دیوار سے باہر جو جگہ ہے اور اس قبے سے باہر سادات آل ابی طالب دفن ہیں ۔اور اس بڑی دیوار سے باہر جو جگہ ہے وہ بھی آل ابی طالب کیلئے وقف کی گئی تھی ۔لگتا ہے کہ شیخ محمد حسین حرزالدین کو اس عمارت کے زمان کی تعین کرنے میں بڑا اشتباہ ہو ا ہے ۔جو کہ ۳۱۷ھ بمطابق ۹۲۹ ء اس زمانے میں ابو الہیجا ء بغداد میں قتل ہو اتھا ۔اور خلافت کے معاملا ت ڈانواڈول تھے ۔مجھے لگتا ہے کہ اس نے یہاں پر صحیح تاریخ بیان کر نے میں بھی اشتباہ کیا ہے ۔کیو نکہ ابو الہیجا ء ۳۳۱ھ کو حج پہ گیا تھانہ کہ ۳۱۷ھ کو اور میر ے نزدیک جو یقین کے قریب ہے ۔ کہ اس نے ۳۱۱ھ میں ہی کو فہ میں قیام کے دوران اس نے روضہ کی زیارت بھی کی تھی مگر ۳۱۴ھ بمطابق ۹۲۴ ء کو حج سے واپسی پر گرفتا ری سے رہا ئی کے بعد تعمیر قبر کا حکم دینا بعید ہے کیونکہ وہ خود ذہنی ،و جسمانی طور پر استراحت کے طالب تھے۔ تو اس نے روضہ کی تعمیر وتر میم کے بارے میں کیسے سوچاہو گا ۔اور اس میں کو ئی شک نہیں کہ اس کے بعد وہ اپنے خاند انی امور میں مصروف نہ ہو ا ہو ۔کیو نکہ جن مصادر کا میں نے ملاحظہ کیا جس میں اس کے کوفہ جانا نجف ،جانا اور پھر عباسی خلافت وکے اضطرابات وغیرہ میں مصروف رہنا اس صورت حال میں میر انہیں خیا ل ہے کہ اس تعمیر یا اصلاح روضہ کے لیے سوچابھی ہو بلکہ ان ایام میں روضہ کی زیارت بھی کی ہو ۔اس لیے کہ وہ عسکر ی اور سیاسی حوالے سے اہم شخصیات میں سے تھے ۔اس عمارت کے بارے میں شریف ادریسی نے بھی اپنی کتا ب نزہتہ المشتاق فی اختراق الآ فاق میں لکھا ہے ۔شہر کو فہ جو دریا فرات کے کنارے واقع ہے اور کوفہ سے چھ میل کے فاصلے پر ایک عظیم اور بلند بالا قبہ ہے ۔جس میں چاروں اطراف بند دیوار ،ودروازے ہیں اور یہ ہر طرح کے اعلیٰ معیار کے پر دوں سے سجایا ہو ا ہے ۔اور اس کے فرش پر ساسانی چٹائیا ں بچھی ہو ئی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ یہ قبر علی ہے۔اور اس قبہ کے ارد گرد مدفن آل ابی طالب ہے اوراس قبے کو ابو الہیجاء عبداللہ بن حمدان نے دولت عباسیہ کے دوران بنایا ہے۔ اور وہ اس سے قبل حکو مت بنی امیہ میں خفیہ طورپر تھا ۔عمارت حمدانیہ کے حوالے سے ہمیں ایک قدیم مطبوع سے کچھ اشارات ملتے ہیں۔اگر چہ روضہ مکمل طور پر چوتھی صدی نصف اول تک نہیں ملتا ۔ لہٰذا مسعودی المتوفی ۳۶۴ھ قبر امیر المومنین کے حوالے سے ذکر کر تا ہے بعض کہتے ہیں کہ اسے غری میں کوفہ سے کچھ میل دور فاصلے پر آج کی مشہور جگہ میں دفن کیا گیا ہے ۔ لیکن اس نے یہاں ہم سے زیادہ نہیں کہا میرا خیا ل ہے کہ اس کا یہ قول کہ کوفہ سے چند میل کے فاصلے پر آج کے مشہور جگہ سے عمارت حمدانیہ مراد لیا ہو ۔یہا ں یہ بات بھی واضح ہو تی ہے کہ قبر مطہر کے قرب وجوار میں باقیوں کا دفن ہونا تیسری صدی سے شروع ہو اتھا ۔یہ وہاں کے قصبہ جات اور روضہ کے احاطے کے شہر کے حدود میں نہیں رہا اور نہ شیعوں کو کوفہ میں رہنے والے علویوں تک محدود رکھا، بلکہ وہا ں علما ء وغیرہ اکثر شہروں سے لاکر یہاں دفن کر تے تھے ۔اور جب چوتھی صدی شروع ہوئی تو شہر دور دور اطراف جیسے بصرہ اور بغداد تک پھیل گیا تھا ۔اور وہاں ابوالفضل عباس شیرازی جو ابوالفرج محمد بن عباس معزالدولہ کا کاتب تھا کی میت بصرہ سے نجف ۳۴۲ھ /۹۵۳ ء میں لاکر یہاں دفن کیا گیا اسی طرح بقول ابن اثیر علی بن حسن بن فضال الکو فی ثعلب کے مشہور شاگردوں میں سے تھا ، کی میت کو بھی بغداد سے نجف ۳۴۸ھ بمطابق۹۵۹ ء میں دفنا یا گیا اور ۳۶۲ھ بمطابق ۹۷۳ ء میں ابوالفضل عباس بن حسن شیرازی کے وزیر کو زہر دے کر قتل کر دیا تو وہ مزار علی ابن ابی طالب میں دفن کیا گیا ۔محمد حسین حرزالدین کے بقول جوار امام میں یہ دفن کا سلسلہ جا ری رہا اور عراق کے دور دور علاقوں تک پھیل گیا یہا ں وادی السلام امام کے جوار میں جاری رہنا ان کے شیعوںکی زمانہ قدیم سے آرزو رہی ہے اور رہے گی ۔
عمارت عمر بن یحییٰ العلوی
اس عمارت کے بارے میں مجھے زیادہ اور دقیق معلومات نہیں ملی تاہم گمان غالب ہے کہ صرف روضہ مقدس کی توسیع اور اصلاح ہے جو چوتھی صدی ہجری کی چوتھی دہائی میں ابو علی عمر ابن یحییٰ کے ہاتھوں انجام پائی ۔کیو نکہ روضہ مقدس کا قبہ خراب ہو تھا ،یا ،گر گیا تھا جسے دوبارہ بنایا گیا ۔اس بارے میں تمام معلومات میں در اصل میں ''مستدرک الوسائل ''سے استفادہ کیا ہے اور اس کی تاریخ میں ایک سے زیادہ محقق کو اشتباہ ہوا ہے ۔بعض کے مطابق اس کا قیام ۲۵۰ھ میں ہو تھا یعنی محمد بن زید الداعی کی عمارت سے قبل ۔ان میں سے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب ''مشہد الامام علی ''میں اسی مذکورہ نسبت کو قبول کیا ہے ۔وہ کہتے ہیں روضہ مقدس کی تیسری تعمیر عمر بن یحییٰ نے کو فہ میں کی ہے ۔اور یہی نوری نے مستدرک الوسائل میں بیان کیا ہے ۔اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین کے مرقد مطہر کو اپنے خالص مال سے تعمیر کیا تھا اور یحییٰ امام موسیٰ بن جعفر کے اصحاب میں سے تھے جو ۲۵۰ھ /۸۶۴ ء میں عباسی خلیفہ مستعین کے دور میں قتل ہوئے اور بعد میں اس کوخلیفہ پاس لا یا گیا ۔اس کے بعد ڈاکٹر حسن حکیم بھی اشتباہ کا شکار ہو اہے۔ لہٰذا انہوں نے بھی مذکورہ تاریخ کو محمد بن زید کی عمارت سے قبل قرار دیا ہے لہٰذا وہ اپنی کتاب ''مفصل تاریخ نجف اشرف ''میں لکھتا ہے ''لیکن بعد میں اس کامتوکل کے عہد میں لوگوں کے قبر علی کی زیارت کی آزادی ملی جس طرح اسی دور میں اسے گروائی گئی تھی۔ پھر امیر الحاج عمر ابن یحییٰ بن حسین نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کی روضہ کی تعمیر اور قبے کو اپنے خالص مال سے بنوایا اور اس قبے کا رنگ سفید تھا اور اس کے بعد سید محمد بن زید الداعی نے تعمیر کی...... '' اس بارے میں انہوں نے سید محسن امین کا حوالہ دیا ہے لیکن انہوں نے بھی مستدرک الوسائل پر ہی اعتماد کیا ہے ۔اور اس اشتباہ پر اگر غور کیا جائے ۔تو دو صورتوں سے خالی نہیں ہے ۔
۱۔ ڈکٹر حسن حکیم کیلئے سید محسن امیں کا بیان واضح نہیں ہو ا ہے ۔ اس میں ہو سکتا ہے خود سید موصوف کو بھی اشتباہ ہو ا ہو ۔
۲۔ یہ ہو سکتا ہے شاید انہوں نے سید محسن امیں کے بعد دوبارہ نظریہ تبدیل کر کے عضدالدولہ کی عمارت اور قصید ہ ابن الحجاج کے بارے میں بیان کیا ہو۔
اسے بھی صاحب اعیان سے ذکر کیا ہے:''روضہ مقدس کی تعمیر کر نے والوں میں عمر ابن یحییٰ بن حسین بن احمد بن عمر جو کہ ۲۵۰ھ /۸۶۴ ء میں قتل ہو ا ۔عمر ابن یحییٰ بن حسین بن حسین ذی الدمعہ بن زید ابن علی ابن حسین ابن علی ابن ابی طالب بھی ہے ۔مستدرک الوسائل میں ہے کہ انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کا قبہ اپنے خالص مال سے بنوایا تھا اور انہوں نے حجر اسود کو بھی دوبارہ واپس لایا تھا جسے قرامطہ نے۳۲۳ھ/۹۳۵ ء میں مال غنیمت سمجھ کر لوٹ لیا تھا ۔پھر وہ ابن زید اور عضدالدولہ اور قصیدہ ابن الحجاج کی حدیث کی طرف متوجہ ہو تا ہے۔
یہاں اشتباہ ہو نے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تاریخ میںدو عمر ابن یحییٰ گزرے ہیں جن کے درمیان نو دہا ئیوں کا فاصلہ ہے ۔پھر اس غلطی میں ایک اضافہ کیا نص میں مو جو د اس عبارت کو بیان کر تے ہوئے ابن یحییٰ ابن حسین ۲۵۰ھ /۸۶۴ ء میں قتل ہو ا کیو نکہ اس تاریخ میںجو شہید ہو ا ہے وہ یحییٰ ابن حسین ابن حسین جو ذی الدمعہ کے لقب سے مشہور تھا ۔نہ کہ عمر....... ۔
ذی الدمعہ کی شہادت ایک عظیم سانحہ ہے جس کے بارے میں بڑے بڑے شعراء نے مرثیے کہے ہیں جس میں سر فہرست ابن رومی ہے جس میں انہوں نے اس کی بہادری اور کوفہ میں مستعین کے زمانے میں قیام کا ذکر کیا ہے لیکن ،اصلاح مرقد مطہر کے ساتھ ان کا کو ئی تعلق نہیں ہے ۔مگر دوسری شخصیات یعنی عمر ابن یحییٰ جس کی تعمیرمیر ے حساب سے تقریبا چوتھی صدی ہجری کے چوتھی دہائی میں ہو ئی تھی ۔یعنی محمد ابن زید الداعی کی عمارت سے نصف صدی یا اس سے زائد مدت بعد میں ہوئی تھی اور ڈاکٹر حسن اور ڈاکٹر سعاد ماہر کے بقول ابو الہیجاء کی عمارت کے بعد میں ہو ئی تھی ۔لیکن شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی کتاب تاریخ نجف اشرف میں اس تعمیر کی تاریخ ۳۳۸ھ مقر ر کی ہے اور یہی راجح ہے ۔اورلکھا ہے کہ سید ابو علی عمر ابن یحییٰ کو اللہ تعالیٰ نے دو فضیلتوں سے نوازا ہے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اپنے جد بزرگوار امیرالمومنین کے قبے کو بنوایا ۔اور دوسرایہ ہے کہ انہوں نے حجر اسود کو اس کی اپنی جگہ دوبارہ رکھوایا ۔اس لیے انہوں نے خلیفہ مطع الدین اللہ اور قرامطہ کے درمیان ثالثی کردار انجام دیا یہا ں تک کہ وہ قرامطہ حجر اسود واپس کر نے پر راضی ہوگئے ۔اوربیت الحرام واپس لے جانے سے پہلے لاکر جامع مسجد کوفہ کے ساتویں ستون میں رکھ دیا ۔اس بارے میںخود امیر المومنین سے روایت بھی ہے جس سے اس واقعے کی تصدیق ہوتی ہے کہ آپ نے فرمایا ،ایک دن کوفہ میں ضرور حجر اسود لایا جائے گا ۔اور اشارہ کر کے فرمایا اس ساتویں ستون میںڈالا جائیگا۔''
کتاب شہداء الفضیلہ میں ایک روایت آئی ہے جو ابن اثیر کی روایت کی ہوئی ہے کہ مکہ میں دوبارہ ۳۳۹ھ کو حجر اسود واپس لے جانے کے بارے میں ہے وہ کہتاہے''بحکم نے انہیں پچاس ہزار دینار اس حجر اسود کو واپس دینے کے عوض دیا لیکن انہوں نے نہیں مانا ،لیکن آج ماہ ذی القعدہ میں بغیر کسی کے معاوضے واپس لایا ہے اور جامع مسجد کوفہ میں لٹکا یا تاکہ لوگ دیکھ سکیں ۔پھر اسے مکہ لایا گیا اسے انہوں نے رکن بیت سے ۳۱۹ھ میں اٹھا کر لے گئے تھے۔'' اس حوالے سے قابل قبول یا اس سے قریب تاریخ کی تائید سید جعفر بحرالعلوم نے اپنی کتاب ''تحفةالعالم ''میں کی ہے ۔''سید ابو علی عمر اللہ نے جس کے ہاتھوں حجر اسود کو واپس لایا اور سید موصوف امیر حجاج تھا اور انہوں نے ۳۳۹ھ میں حجر اسود کو اپنی جگہ واپس لایا اور قرامطہ کے پاس یہ بائیس سال رہا اور اسی سید موصوف نے اپنے جد بزرگوار امیر المومنین کا قبہ اپنے خالص مال سے بنوایا تھا ۔اور یہ حسینکی ذریت سے ہے ۔
اور ان کا لقب ذی الدمعہ ہے اور ان کا پورا شجرہ یہ ہے ،ابو علی عمر ابن یحییٰ جو کوفے میں رہتا تھا ابن الحسین النقیب الظاہرابن ابی عانقہ احمد جو شاعر ومحدث تھا اور بن ابو علی عمرابن ابوالحسین یحییٰ جو اصحاب امام موسیٰ کاظم میں سے تھا اور ۲۵۰ھ میں قتل ہو نے کے بعد اس کاسر مستعین کے قصر میں لے جایا گیا ۔''
تعمیرات ِعضد الدولہ بو یہی
عراق نے جو تعمیراتی کام عضد الدولہ بویہی کے دور میںدیکھا ہے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا خاص طور سے تیسری صدی کے نصف میں زوال خلافت عباسیہ کے وقت اگرچہ اس کی حکومت پانچ سال سے زیادہ عرصہ نہیں رہی پھرتاتاریوں کے ہاتھوں ۶۰۶ھ /۱۲۵۸ ء میں ان کی حکومت ختم ہوئی۔ اس حوالے سے ہم نے اپنی کتاب نصوص فی ادب العربی میں کچھ کچھ تذکرہ کیاہے۔
اب ہم آپ کو ابن اثیر کی کتاب الکامل سے نقل کرتے ہیں ۔ تاکہ آپ کو عضد الدّولہ کے عظیم کاموں، عدالت ، فہم و فراست، صحت اور معاشرہ کے لئے اقدامات ، خاص طور سے پانی کا اہتمام جس پر پوری اقتصادیات منحصر ہے کا انداز ہو۔ اور آپ یہ جان کر بھی حیران ہوںگے کہ پانی کے حصول کیلئے اس نے کیا کیا زحمتیں اُٹھائی جس کے لئے انہوں نے کنویں کھد وایا اور دریا سے پانی کے نلکے لگوائے اور جو پہلے خراب حالت میں تھی انہیں دوبارہ ٹھیک کروایا اور جس کی وجہ سے ذراعت و پیداوار اچھی ہوئی جس کی ملک اشد ضرورت تھی کیونکہ پچھلے سالوں میں ملک عراق جن خراب حالات سے گزرا تھا اب اس کی وجہ سے بہتری کی طرف آنے لگا۔
ان کی یہ تمام خدمات ایک طرف جبکہ دوسری طرف انہوں نے علم و علماء کو ترغیب دی اور دین و مذہب کے جھگڑے کو ختم کروایا اور ملک کے اندر امن و آشتی لایا اس طرح عراق کافی عرصے کے بعد ثقافتی طور پر دوبارہ کھڑا ہوا۔ میں اس میں مبالغہ نہیں کرتا کہ یہ ایک بہترین مثال ہے جوکہ بلا د اسلامیہ کے حکمرانوں میں اتنے عرصے حکومت کرنے کے باوجود بہت کم ہے کیونکہ وہ اپنے بُرے عزائم و فتنے کے ساتھ ہمیشہ اپنے آنے والے اپنے وارثین کو حکومت تحویل کرنے کی فکر میں ہوتے تھے جس کی وجہ سے رعیت پر پوری توجہ نہیں دیتے تھے۔اور اپنی کرسی بچانے کی خاطر کچھ مظالم آل بویہ کی طرف منسوب کرتے ہیں تو دوسری جانب بعض حرص و لالچ کی وجہ سے انہیں اچھے لباس میں ڈال کر پیش کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ابن اثیر کہتا ہے'' عضد الدّولہ نے بغداد کی تعمیر۳۶۹ھ /۹۸۰ ء میں شروع کی۔ جو مسلسل فتنوں کی وجہ سے خراب ہوتا جارہا تھا لہٰذا س نے وہاں مساجد، بازاروں کی تعمیر کی، اور آئمہ مساجد، موذنین، علماء ، قرّاء ، غرباء ، ضعفاء جو مساجد میں رہتے تھے مال کی فراوانی سے نوازا۔ اور پچھلے بادشاہوں کے دورجو میں عمارتیںخراب حالت میں تھی اُن کی تعمیر کروائی جو نہریں بند ہوگئی تھی انہیں دوبارہ کھدوایا اس طرح لوگوں کے کندھے سے کدال و بیلچہ چھڑوایا اور عراق سے مکہ معظمہ تک کے راستے صحیح طریقے سے بنوایا اور مکہ معظمہ میں رہنے والے اہل شرف و ضعفاء اور مکہ کے آس پاس رہنے والوں کے درمیان ارتباط قائم کیا۔ اسی طرح مزار علی و حسین بھی بنوایا۔ اور لوگوں کو سکھ و چین کا سانس ملا اور فقہاء ، محدثین، متکلمین، مفسرین، اُدباء ، شعراء ، علماءے نسب شجرہ نسب جاننے والے، اطباء ، ریاضی دانوں ، اور مہندسیوں ( انجینئر وں ) کے لئے وظیفے مقرر کیے۔ اور اپنے وزیر نصر بن ہارون جو نصرانی تھا کو خرید و فروختگی کے لئے دکانیں بنانے کی اجازت دی اور فقراء میں مال تقسیم کروای، ابن اثیر نے یہ بھی کہا ہے۔ اُس کی عمر وفات کے وقت ۴۷سال تھی ۔ اور وہ عاقل ، فاضل ، اچھا سیاست دان، صابر، با ہمت ، اہل فضیلت کے لئے اچھی سوچ رکھنے والا سخی، دست دراز، موقع محل سمجھ کر خرچ کرنے والا، انجام کار میں نظر رکھنے والا، عد ل و انصاف کرنے والا، اہل علم کو پسند کرنے والا انسان تھا، اس طرح وہ علماء کا منظور نظر بنا تو انہوں نے اس کے نام پر عظیم کتابیں تالیف کی ''۔ان میں سے ابو علی فارسی ہے جس نے اس کے نام پر کتاب تالیف کی اسی طرح ابو اسحاق نے اس کی حکومت کے حوالے سے کتاب لکھی ، وہ ہر سال کے شروع میں بہت زیادہ مال نکال کر تمام بلاد میں جو اس کی حکومت کے اندر تھی، صدقہ کرتا تھا۔ اُن کی بعض خدمات کی طرف محمد جواد فخر الدین نے اشارہ کیا ہے۔ انہی میں سے وہ بیمارستان بھی ہے جسے اُس نے بغداد میں بنوایا تھا۔
'' اس بناء پر ہم دیکھتے ہیں عضد الدّولہ البویہی صرف نجف اور کربلا کی طرف توجہ نہیں تھی جس کی وجہ بعض اس کی مذہب کو قرار دیتے ہیں۔ اپنی حکومت کے اس پانچ سال میں اس نے اپنی تمام کوششیں اس بلاد کی دوبارہ احیاء کے لئے صرف کی جسے خراب اور بگاڑ دیا گیا تھا۔'' اُس نے قبر مقدس پر تعمیر کروانے کے ساتھ اس کے ارد گرد رہنے والے بنی تحتیہ او فو قیّہ کے لئے بھی تعمیر و ترقی جاری رکھی اگرچہ عمارت کے شروع کی تاریخ کچھ ہے۔ جس طرح اُس حوالے سے معلومات بھی کم ہے شاید اُس نے اس کی اور مَر قدابی عبد اللہ ِ الحسین کی تعمیر کا حکم ۳۶۹ھ /۹۸۰ ء میں کیا تھا۔ جیسا کہ ابن اثیر میں کہا۔''عضد الدّولہ نے ۳۶۹ھ /۹۸۰ ء میں تعمیرات شروع کی اور اسی طرح مزار علی وحسین بھی بنوائے'' لگتا ہے مرقد امیر المومنین اور مرقدابی عبد اللہ ِالحسین ۳۷۱ھ کے نصف ثانی میں مکمل ہوا تھا۔ اور اُسی سال جماد ی الا وّل میں مرقد امیر امو منین کی زیارت کے لئے آنے والوں کو روضہ مقدس کی عمارت کے بارے میں معلوم ہوا۔ اور انہوں نے یہ بھی دیکھا کہ بنی تحتیہ روضہ کی خدمت کر رہی تھی اس طرح وہاں قُرب و جوار میں لوگ رہنے لگے۔ اور مرور ایام کیساتھ یہ ایک آبادی پر مشتمل شہر بن گیا ۔ اس حوالے سے ابن طاوس کی روایت ہے ہمیں یحیٰ ابن علیاں نے جو مزار امیر المومنین علی بن ابی طالب کا خازن تھا، کہا کہ اس نے اپنے باپ دادا شیخ ابی عبد اللہ محمف بن السری جو ابن البرسی سے مشہور ہے اور روضہ کے قریب میں رہتا تھاسے ایک کتاب ملی اس کتاب میں وہ لکھتا ہے۔ کہ عضدالدّولہ نے مزار علی اور مزار حسین کی زیارت ماہ جما دی الاوّل ۳۷۱ھ میں کی سب سے پہلے وہ حائر آتے ہیں اور امام حسین کی زیارت کی اُس کے بعد کوفے میں داخل ہوا۔ اور مزار علی ابن ابیطالب کی زیارت کی اور وہاں پر موجود صندوق میں کچھ درہم ڈالے بعد میں علویوں کے جب درمیان تقسیم کیا۔ تو ہر ایک حصے میں ۲۱،۲۱ درہم آیا، اور وہاں علویوں کی تعداد ۱۷۰۰تھی، اور وہاں کے مجاورین کیلئے ۵۰۰۰درہم ، زائرین کے لئے ۵۰۰۰درہم اور وہاں نوحہ کناں کے لئے ۱۰۰۰۰درہم اور قرآن پڑھنے والے فقہاء ، منتظمین جن میں سے خازن نائبین، ابو الحسن علوی، ابو القاسم بن عابد اور ابو بکر سیّار کے ہاتھوں کافی مال دیا ''۔اس سے مجھے لگتا ہے کہ اس نے جوار حرم کو ایک شہر میں تبدیل کرنے کا مصمم عزم کر رکھا تھا۔ یہ اُس وقت پتہ چلا جب اس نے اپنے آپ کو وہاں دفن کرنے کی وصیت کی، یہ روایت زیادہ اہم ہے۔ کیونکہ اس کے مطابق کہ وہاں رہائش اس کی تعمیر سے پہلے بھی موجود تھی۔ اور جب وہ یہاں آیا تو بہت سارے علویین، مجاورین، نوحہ کناں، قرآن پڑھنے والے، فقہاء کے علاوہ مرقد مقدس کے خازن ،اور ان کے نائبین بھی تھے نوحہ کناں اور قرآن شریف پڑھنے والوں کا وجود یہ بتاتا ہے کہ جوار امام میں دفن ہونے کا عمل اس کی تعمیر سے غیر محدود مدّت پہلے سے مشہور تھا۔ سید ابن طاووس نے ابن طحّال سے نقل کیا ہے ''کہ عضد الدّولہ نے وہاں عمارت بنوائی اور بہت سارے اموال بھیجا اور ان امور کے مکمل ہونے کی تاریخ روضہ میں بالائے سر کی جانب زمین سے ایک قامت اوپر دیوار پر لکھا ہوا ہے اور اس سے یہی ثابت ہوتا ہے ''لیکن مجھے وہاں پر کوئی تاریخ نظر نہیں آئی البتہ میں سیّد محسن امین کی اعیان الشّیعہ میں اقوال کو دیکھا جو دیگر اقوال کی نفی کرتا ہے جو کہتے ہیں کہ ''۳۳۸ھ/۹۴۹ ء یا ۳۷۶ھ /۹۸۶ ء ہے کیونکہ پہلی تاریخ عضد الدّولہ کی حکومت سے ولادت کے قبل ہوتی ہے جبکہ دوسری تاریخ ان کی وفات کے بعد واقع ہوتی ہے تو وہ لکھتا ہے ظاہر ہے کہ عمارت کی تاریخ ۳۶۹ھ ہی ہے۔''
پھر سید محسن امین نے دیلمی کی روایت نقل کی ہے جس میں اس نے رشید کی عمارت کے بارے میں گفتگو کی ہے جو کہ ایک قبّہ اور چار دروازوں پر مشتمل تھا ۔ اس کے گمان کے اسی وقت عضد الدّولہ وہاں پہنچا تھا اور وہ لکھتا ہے عضد الدّولہ جب وہاں آیا ''اور وہاں تقریباً ایک سال قیام کیا اور اس کے ساتھ اس کی فوج بھی تھی اور وہیں اطراف سے ہنر مند اور استادوں کو بلایا اور مذکورہ عمارت کو گروایا اور کثیر مال خرچ کرکے ایک شاندار عمارت تعمیر کی اور یہ عمارت آج کے عمارت سے پہلے تھی۔''
یہ بات واضح ہے کہ دیلمی کو یہاں عمارت عضد الدّولہ اور رشید کی عمارت کے درمیان اشتباہ ہوا ہے اور مبالغہ کیا ہے کہ عضد الدّولہ اپنی فوج کے ساتھ وہاں تقریباً سال عمارت مکمل ہونے تک قیا م کیا۔ اگر ہم عضد الدّولہ کی حالات زندگی کا طائرانہ جائزہ لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ بغداد میں چند مہینے نہیں ٹھہر سکتا تھا کیونکہ اس کی جنگی مصروفیات بلاد فارس و عراق وغیرہ میں زیادہ تھی تو اس نجف میں اتنا لمبا قیام کیسے کر سکتا ہے اور اس بات کو سیّد جعفر بحر العلوم بھی نہیں مانتے ہیں اور ان کے ساتھ محمد جواد فخر الدین نے بھی اپنی کتاب میں اس روایت کو رد کیا ہے۔ ''لگتا ہے دیلمی نے اس بات میں زیادہ مبالغہ سے کام لیا ہے کیونکہ یہ تصور سے خالی ہے کہ عضد الدّولہ عمارت کو مکمل ہونے تک وہاںمکمل ایک سال ٹھہرا ہو۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے لئے بہت سارے اہم حکومتی و انتظامی و سیاسی ذمہ داریاں تھی'' اور سید محسن امین نے یہاں اس عمارت سے متعلق صاحب عمدة الطالب کے قول کو بھی بیان کیا ہے ''کہ عضد الدّولہ نے وہاں اوقاف معین کیا تھا اور اس کی یہ عمارت ۷۸۲ھ /۱۳۵۲ ء تک باقی نہیں رہی اور دیوار جس پر لکڑی کی کاشہ کاری کی تھی وہ سب ختم ہوا تھا اور اس کے بعد میں جلایا گیا اس کی جگہ نئی عمارت بنی جو آج ہے لہٰذا عضد الدّولہ کی عمارت زیادہ عرصہ نہیں رہی اور آلبویہ کی قبور مشہور ہیں جو نہیں جلی تھیں''۔ اور اس عمارت کے جلنے کی بات کو سیّد محسن امین کتاب الاماقی سے صحیح مانا ہے کیونکہ ''عبد الرحمن العتایقی الحلّی جو نجف اشرف کے مجاور تھے اور اس کی کتاب کا روضہ علوی کی الماری میں ایک نسخہ تھاجسے اس نے ماہ محرّم ۷۵۵ھ /۱۳۵۴ ء میں مکمل کی تھی۔ وہ کہتا ہے اسی سال روضہ مقدس کو آگ لگی تھی۔ پھر ۶۷۰ھ /۱۲۸۲ ء سے بہتر طریقے سے اور شاندار انداز میں تعمیر ہوئی اور موصوف اس جلنے کے حوالے سے دیلمی سے زیادہ جانتے ہیں کیونکہ اس نے خود اسے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور دیلمی اس سے متاخر ہے کیونکہ اس کی وفات ۸۴۱ھ /۱۴۳۷ ء میں ہوئی تھی ۔ یہ ہم نے پہلے کہا تھا کہ دیلمی کی تمام روایات جو قبر مطہر اور عمارت روضہ سے متعلق ہیں نجس نہیں ہے اطمینان ہے کیونکہ اس کے بارے میں مشہور ہے وہ بھولتا زیادہ تھا۔
جہاں تک عضد الدّولہ کے عظیم کارنامے کی بات ہے جو انہوں نے روضہ مقدس کی خدمت میں انجام دی ان میں پانی کا انتظام جس کے لئے انہوں نے فہم و فراست کی اپنے زمانے میں انتہا کردی۔ کیونکہ یہ مشہور ہے کہ نجف اشرف ایک پہاڑی تھی جو موجودہ کوفہ میں دریائے فرات کی سطح سے زیادہ بلندی پر واقع تھی۔ پانی اس بلندی پر پہنچانے کے لئے بہت سے لوگوں نے کوشش کی لیکن عضد الدّولہ کی کوشش کامیاب ہوئی ۔ لیکن زمانے کی نشیب و فراز کی وجہ سے دوبارہ یہ سلسلہ جلد ختم ہوا تو نجف میں پانی کا مسئلہ پھر ہوا اور یہ مسئلہ اس وقت حل ہوا جب الحاج محمد بو شہری جس کا لقب معین التّجار تھا نے ۱۹۲۷ ء میں پانی پھینکنے کا پمپ خریدا اور اسی سال ہر گھر میں پانی کوتقسیم کیا گیا اور محمد کاظم طریحی کے مطابق ۱۹۴۳ ء میں پانی و بجلی کے منصوبے کی بنیاد رکھی گئی۔
سیّد جعفربحر العلوم مزید آگے اس حوالے سے لکھتے ہیں ، دولت عثمانیہ نے جب یہ محسوس کیا کہ نجف کے لئے کوئی نہر نکال کر پانی لے جانا مشکل ہے تو یہ جنگ عظیم اوّل سے پہلے یہ طے کیا کہ پمپ کے ذریعے ہی اس مسئلے کو حل کیا جائے اور اسی سال ایک جرمن کمپنی سے پائپ خریدنے کا معاہدہ طے ہوا تھا جو کہ کوفہ اور نجف کے درمیانی راستے میں بچھانا تھا لیکن جنگ کی وجہ سے یہ منصوبہ مکمل نہیں ہوسکا اور پائپ وہیں پڑے رہے یہاں تک کہ بعد میں یہ اندر ریت جمع ہونے کی وجہ سے خراب ہوگئے۔
شیخ محمد حسین نے اعیان الشیعہ سے اس حوالے سے ایک واقعہ نقل کیا ہے جس سے عضد الدّولہ کے انجینئروں کی ابتکاری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ایک ٹنل بنایا تھا جو قناتِ آل بویہ سے مشہور تھا۔ جو انہوں نے دریائے فرات سے کھودا تھا پھر زمین کو چیرتا ہوا نجف تک پہنچا پھر نجف کو نیچے سے چیراگیا اور پانی شہر کے غرب میں نچلی طرف گرایا جہاں بحر نجف تھا تو وہاں ایک چشمہ وجود میں آیا اوریہ پانی جاکر اس چشمے سے مل گیا جس کی وجہ سے یہ پانی میٹھا نہیں ہوا اور پانی اسی چشمے سے جاری رہا جو پانی کے علاوہ باقی ضروریات کے لئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اور دو نالیاں کھودی گئیں ایک اوپر اور دوسری نیچے جن میں ایک پانی کے لئے تھی جبکہ دوسری ہوا کے آنے جانے کے لئے اور راستے میں جگہ جگہ سوراخ رکھے گئے تھے تاکہ ان نالیوں کی صفائی ستھرائی کے ساتھ خراب ہونے کی صورت میں اس کو ٹھیک کیا جائے جس کے آثار اب بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ حر ز الدین نے اپنے جدّ کی کتاب النّوادر سے کنویں اور نالیوں کے بارے میں تفصیل سے بیان کیا ہے کہ ان کے راستے اور کھودنے کے طریقے اور اندر سے ڈھانپے۔ گہرائی وغیرہ شامل ہیں، مثلاً شہر کے حدود میں ایک کنواں کی گہرائی چالیس ہاتھ یعنی تیس میٹر سے زیادہ تھی۔اس زمانے میں بے سرو سامانی کی حالت میں اور اس سخت زمین کو اتنی مقدار تک کھودنا محنت کی اعلیٰ مثال ہے۔ اور اس میں مبالغہ نہیں کر رہا ہوں کہ یہ کھودنے والے دن میں آدھے میٹر سے زیادہ نہیں کھود سکتا تھا اس کی وجہ کنویں کی تنگی تھی جس کے اندر دو یا تین آدمی سے کام نہیں کرسکتے تھے۔ اور زمین کی سختی اپنی جگہ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان کی فہم و فراست اور ان کے انجینئروں کی بدولت ۳۶۹ھ/۹۸۰ ء میں اس منصوبے کو مکمل کرنے میں کامیاب ہوا۔ ( K.LASTRANJ )نے یہاں پر مستوفی سے اپنی کتاب میں نقل کی ہے ''عضد الدّولہ البویھی نے ۳۶۶ھ/۹۷۷ ء میں روضہ مقدس کی تعمیر کی جو مستوفی کے زمانے تک قائم و دائم تھا اور وہ موضع اس وقت ایک چھوٹا شہر تھا جو ۲۵۰۰قدم پر محیط تھا اور ابن اثیر کی تاریخ میں آیا ہے کہ عضد الدّولہ ان کی وصیت کی مطابق اسی شہر میں دفن کیا گیا۔ اور ان کے بعد ان کیدونوں بیٹے شرف الدّولہ اوربھاء الدّولہ بھی یہاں دفن ہوئے اور ان کے آثار بعد میں آنے والے بہت ساروں نے دیکھا۔
ابن کثیر نے اپنی کتاب البدایة میں لکھا ہے ''عضد الدّولہ ماہ شوال ۳۷۳ھ /۹۸۲ ء میں انتقال ہوا اور اس کا جنازہ لاکر مزار علی میں دفن کیا گیا جہاں رافضی اور شیعہ ہیں اور اس کی قبر پر لکھا ہوا تھا:یہ عضد الدّولہ تاجِ شجاع رکن الدّولہ کی قبر ہے اور یہ اس متّقی امام کی مجاورت سے زیادہ محبت کرتا تھا(
یَوْمَ تَا تِیْ کُلُّ نَفْسٍ تُجَادِلُ عَنْ نَفْسِهَا
)
اور سیّد محسن امین اپنی کتاب اعیان الشّیعہ میں لکھتے ہیں ''عضد الدّولہ نے اپنے لئے نجف میں مزار مقدس کے جوار میں مغرب کی جانب ایک عظیم قبّہ بنوایا تھا اور خود کو ہاں دفن کرنے کی وصیت کی تھی اور بعد میں اس کی وصیت پر عمل ہوا اور سلطان سلیمان عثمانی جب ۹۴۰ھ /۱۵۳۳ ء عراق میں داخل ہوا تو اسے گرادیا اور اسے بکتاشی گروہ کے لئے تکیہ قرار دیا اوریہ ا س وقت تک باقی رہااس کا دروازہ صحن شریف کے مغرب کی طرف کھلتا ہے اور بعض کا گمان ہے یہ کام سلطان سلیم نے انجام دیا تھا لیکن صحیح یہ ہے کہ اس کا بیٹا سلیمان نے کیا تھا سلیم کی طرف منسوب اس کی شہرت کی وجہ سے ہوا تھا۔''
یہ اشتباہ ہے کیونکہ ان کا مدفن حرم امیر المومنین کے مشرق کی طرف رواق کے آخر میں ہے۔ اس حوالے سے شیخ محمد حسین حر ز الدین نے ایسے اہم معلومات فراہم کی ہے جس میں عضد الدّولہ کی قبر ، روضہ کی دہلیز اور سردابوں کے بارے میں ہیں جو قابل دیدہے۔اور مرزا ہادی خراسانی جو حرم امیر المومنین سے متعلق بعض آثار کے بارے میں سراغ لگانے والوں میں شامل ہے وہ عضد الدّولہ کے قبر کے بارے میں کہتے ہیں جسے شیخ محمد حسین حرز الدین نے بھی روایت کی ہے ''کہ عضد الدّولہ البویھی کی قبر حرم امیر المومنین کے مشرق کی طرف کے رواق کے سرداب میں ہے۔ جو ایوان طلاء کا مدخل ہے اور اس سرداب کا دروازہ صحن میں چراغ کے نیچے ہے اور مرزا اسی مدخل سے ہاتھ میں روشنی لے کر اپنے بعض ساتھیوں کے ساتھ داخل ہوتا ہے اور اس جگہ پہنچ جاتا ہے جہاں عضد الدّولہ کی قبر ہے اور اس کی قبر پر ایک نفیس پتھر کی لوح پر لکھا ہواہے ''یہ سلطان عضد الدّولہ بن رکن الدّولہ بن سلطان البویھی کی قبر ہے جس نے اپنے آپ کو امیر المومنین کے قدموں میں دفن کرنے کا حکم دیا تھا تاکہ ان کی مرقد میں عضد الدّولہ کے سر اور شانے کے اوپر آئے'' اور آل بویہ کے باقی مشہور شخصیات جیسے بھاء الدّولہ صحن میں باب التکیّة کے پاس دفن ہیں۔''
اور یہ بھی ذکر ہوا ہے ''عضد الدّولہ نے یہ وصیت بھی کی تھی کہ اس کی گردن میں چاندی کے زنجیر باندھ کر قبر امیر المومنینکے نیچے سے داخل کیا جائے اور اس کے منہ پر ایک رقعہ رکھا جائے جس پر یہ آیت لکھی ہو:(
وَ کَلْبُهُمْ بَاسِط ذَرَا عَیْهِ بِا لْوَصِیْدِ
)
اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ عضد الدّولہ کی قبر مرقد امیر المومنین کے دوسرے دروازے کے آخری دہلیز کے نیچے ہے۔ پھر دور عثمانی میں ان آثار میں کافی تبدیلیاں ہوئی ہیں لہٰذا ان میں سے زیادہ تر کانہ کوئی آثار ہیں اور نہ کسی نے اسے دیکھا ہے۔''اس بناء پر آل بویہ کے قبرستان جسے سیّد محسن امین نے بیان کیا عضد الدّولہ کی حکم سے نہیں بنا تھا بلکہ شاید ان کے کوئی بیٹے صمصام الدّولہ کے حکم سے بنا تھا۔
اب یہ اہم نہیں ہے کہ عضد الدّولہ نے کتنی بار روضہ مقدس کی زیارت کی اور نہ اس کی وجہ سے زیارت امیر المومنین لوگوں کے لئے عام ہوئی اس حوالے سے ممکن ہے کوئی شعر کہا ہو اور جو وہاں گئے ہیں بہت ساری چیزیں دیکھی ہو اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ مرقد مقدس پر جو قبّہ بنا یا گیا اس کا رنگ سفید ہے اس کے بارے میں میرا گمان غالب ہے کہ اس کی وجہ وہ سفید پتھر ہیں جو وہاں موجود نجف کے بعض گرے ہوئے چٹانوں کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس کی رنگ کی شہرت شاید اس شعر کی وجہ سے بھی ہو جو ابن حجّاج نے کہا تھا۔
ترجمہ شعر:
اے نجف میں صاحب قبہ بیضاء جو
تیری قبر کی زیارت اور شفاء مانگتا ہے تو مل جاتی ہے
بتایا جاتا ہے یہ شعر عضد الدّولہ کے سامنے کہا گیا تھا جب وہ شریف مرتضیٰ اور ابن حجاج کے ہمراہ تھے شریف مر تضیٰ نے ابن حجاج کی ہجو گوئی کی اور ایک رات امیر المومنین ابن حجاج کے خواب میں آئے اور اسے بتا یا کہ مرتضیٰ تمہارے پاس آکر معذرت کرے گا اور اسی رات مرتضیٰ نے بھی خواب میں امیر المومنینکو دیکھا جو انہیں ابن حجّاج کے ساتھ کرنے والے سلوک پر ملامت فر مارہے تھے۔اور جب وہ بیدار ہوا تو فوراً ابن الحجاج کے پاس جاکر اس سے معذرت کرلی اور دوسرے دن عضد الدّولہ کے سامنے یہ شعر کہہ دی ۔ لیکن اس واقعے کے ساتھ مرتضیٰ شریف کی عمر مناسبت نہیں رکھتی جو ۳۵۵ھ میں پیدا ہوا تھا۔ اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ابن حجّاج نے یہ شعر عضد الدّولہ کے علاوہ کسی اور کے پاس کہا تھا۔ اور یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ ابو اسحاق الصّابی جسے عضد الدّولہ نے جیل میں ڈالا تھا پھر ھ میں اسے رہا کیا گیا تھا ابن اثیر کے مطابق انہوںنے ایک قصیدہ عضد الدّولہ کی مدح سرائی اور ان کی تعمیر روضہ کے مناسبت میں انہیں بھیجا تھا۔ اور مرور ایام کے ساتھ بعد میں اس عمارت میں اصلاحات ہوتی رہی اور قبر علی پر جانے کا خوف آہستہ آہستہ ختم ہوا۔ ابن اثیر نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ابو محمد بن سہلان جو ۴۰۶ھ/۱۰۱۵ ء کو عراق کا والی بنا اور ایک دن وہ شدید بیمار پڑا تو اس نے نذر کی اگر وہ اس بیماری سے شفایاب ہوجائے تو مزار علی امیر المومنین کے چار دیوار بنوائے گا اور جب اس کی نذر قبول ہوئی اورصحت یاب ہوئے تو اس نے روضہ کے ارد گرد دیوار اٹھانے کا حکم دیا۔
مسجد و رواقِ عمران بن شاہین
عضد الدّولہ کی عمار ت کی طرح باقی رہنے ایک اور عمارت ہے جس کے آثار ابھی تک باقی ہے اور اس کو عمران بن شاہین کی طرف منسوب کیا جاتاہے اور اس کا عضد الدّولہ کی عمارت کے ساتھ تعلق ہونے میں مختلف اخبار کی وجہ سے شدید اختلاف ہے۔ اس حوالے سے سیّد ابن طاووس نے اپنی کتاب الفرحة میں ایک حکایت نقل کی ہے۔ شیخ حسن بن حسین بن طحال المقدادی کہتا ہے کہ ایک دن عمران نے عضد الدّولہ کی نافرمانی کی جس کی وجہ سے اسے طلب کیا گیا تو وہ بھاگ گیا اور امام علی کے روضہ میں چھپ گیا ایک دن اس نے امیر المومنین کو خواب میں دیکھا اور امام نے اسے عضد ولہ اسی رات کے صبح آنے کے بارے میں بتایا اور اسے یہ بھی فرمایا کہ اس کا نام یہاں کوئی بھی نہیں جانتا ہے جو ''فنا خسرو ''ہے۔ اور امام نے اس کی رہنمائی کی کہ عضد الدّولہ کس جگہ سے حرم میں داخل ہوگا۔ اور حرم کے ایک کونے میں اس کے لئے جگہ معیّن کی تاکہ وہ وہاں کھڑے ہوکر عضد الدّولہ کی راز و نیاز سنے اور وہ یہ دعا کرے گا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کی تعاقب میںاس کی مدد کرے اب وہ عضد الدّولہ کے قریب ہوکر یہ پوچھے کہ تمہارا مطلوب شخص اگر دکھادے تو اسکے بدلے کیا دوگے اور عمران سے امام نے فرمایا کہ عضد الدّولہ اس موقع پر عمران کی معافی مانگی جائے تو وہ اسے معاف کرے گا۔ بہر حال عمران نے امام کے حکم کے مطابق ان تمام کام کو انجام دیا اور بالآخر عضد الدّولہ نے اس کو بخش دی اور اسے یہ بھی بتادیا کہ اسے عضد الدّولہ کے نام پر یہاں کھڑا رکھوایا جسے کوئی جانتا نہیں ہے وہ یہی صاحب روضہ ہیں۔ پھر عمران نے اپنا پورا خواب اسے سنایا خلعت وزارت اس کے سامنے اتاردی صاحب الرّوایة کہتا ہے کہ دراصل عمران نے یہ نذر کی تھی کہ اسے جب بھی عضد الدّولہ کی طرف سے بخشش ہوگی تو وہ امیر المومنین کی زیارت پا برہنہ کریگا۔
شیخ حسن الطحّال جو اس خبر کے راوی ہے کہتا ہے ''جب رات چھاگئی تو میرے دادا نے مولا امیر المومنین کو عالم خواب میں دیکھا جو ان کو یہ فر ما رہے تھے ولی کہ عمران بن شاہین کو دروازہ کھول کر ان کے سامنے بیٹھ جاو اور جب صبح ہوگئی اور عمران بن شاہین آگئے تو شیخ نے کہا بسم اللہ مولانا، عمران نے کہا میں کون ہوں؟ شیخ نے کہا عمران بن شاہین ، عمران نے کہا میں ابن شاہین نہیں ہوں ۔ شیخ نے کہا میں نے رات کو امیر المومنین کو عالم خواب میں دیکھا تھا تو انہوں نے مجھے عمران بن شاہین کو دروازہ کھولنے اور ان کے بیٹھنے کو کہا تھا یہ سن کر وہ حیران ہوا اور روضہ مقدس پر اپنے آپ کو گرا کر عتبہ کا بوسہ دینے لگا اوراپنے اس ضامن کو ساٹھ دینار دیا جو ان کے ساتھ مچھلی پکڑا کرتا تھا کیونکہ ان کا مچھلی کا کاروبار تھا جس میں ان کے پاس بہت سارے ملازمین تھے جو ان کے ساتھ مچھلی پکڑا کرتے تھے۔''
اس موقع پر سیّد ابن طاووس کہتا ہے ''غرّی ( نجف)حائر(کربلا)میں مزار مقدس کی تعمیر عمران نے کروائی اور میرے حساب سے ابن طحّال کی بعض روایات کی وجہ سے زیادہ اشتباہ ہوا ہے جس کے اندر ادب و احترام، دینی جذبات کی وجہ سے کثرة مبالغہ ہے۔ جن پر اکثر طورپر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ ابن طحّال کی روایت اور عمران ابن شاہین کے درمیان تعلق پر بحث کرنے سے قبل ضروری ہے عمران کی روضہ حیدریة اور روضہ حسینیة کے ارد گرد برآمدے کی تعمیر پر گفتگو کی جائے۔
اس موقع پر یہ بتایا جاتا ہے کہ مشہور سیاح ابن بطوطہ جب یہاں پہنچا تھا تو وہ روضہ مقدس کے گنبد کے دروازوںکے بارے میں لکھتا ہے ''اس گنبد کے لئے ایک دروازہ اور ہے جو چاندی سے بنا ہوا ہے جہاں سے مسجد میں داخل ہوتا ہے جس کے چار دروازے ہیں جو چاندی سے بنے ہوئے ہیں'' یہاں سیّد محسن امین اپنی کتاب اعیان الشّیعہ میں حاشیہ دیا ہے ''یہ عمران بن شاہین نے عضد الدّولہ کی تعمیرات کے بعد بنایا تھا ''لہٰذا یہ عمران کے لئے ثابت ہونا مشکل ہے کیونکہ وہ ۳۶۹ھ/۹۸۰ ء میں فوت ہوا تھا اس بات کے خود سیّد محسن امین اور ان سے قبل ابن اثیر اور ابن کثیر بھی قائل ہیں جبکہ عضد الدّولہ کی عمارت ھ کے نصف میںبنی ہے تویہ تاریخی حقیقت ہے۔
مگر محمد الکوفی الغروری نے عمران بن شاہین کے رواق کی روایت کے بارے میں تشریح کرتے ہوئے لکھتاہے اہل نجف کے ہاں یہ مشہور ہے کہ باب طوسی کی جانب جو مسجد ہے وہ مسجد عمران ہے اور یہ خیال کرتے ہیں کہ ا س مسجد کے رواق عمران بن شاہین نے ہی بنوایا تھا جبکہ ایسا ہونا بعید ہے اور ممکن نہیں ہے کیونکہ رواق کا مطلب لغت اور عرف میں کسی گھر کے ارد گرد دیوار چننے کو کہا جاتا ہے اسی لئے لیکن بعض یہ گمان کرتے ہیں کیونکہ کہ انہوں نے اس مسجد کا بعض حصہ صحن شریف میں داخل کرایاتھا لیکن اب اس کو رواق تو نہیں کہا جاسکتا ۔ اب یہ مسجد ہے ہاں!ہوسکتا ہے شاید اسے بعد میں عمران بن شاہین کے خاندان نے بنوایا ہو اور مرور ایام کے ساتھ یہ مسجد عمران کے نام سے مشہور ہوا ہو واللہ اعلم اور یہی گمان غالب ہے جو عنقریب واضح ہوجائے گا پھر اس کے بعدمحمد جواد فخر الدین آتا ہے اور مسجد عمران یا رواق کے پا س کافی دیر تک کھڑے رہنے کے بعد مسجد اور رواق کے درمیان ربط پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
بالآخر نہ صرف وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ اس کے درمیان ربط ہے بلکہ عمران اور عضدالدّولہ کی ملاقات بھی اسی مقام ہوا تھا لیکن شیخ محمد رضا الشّیبی اس رابطے اور ملاقات کو نہیں مانتے کیونکہ عضد الدّولہ نے ۳۷۱ھ بمطابق ۹۸۱ ء میں صرف ایک ہی مرتبہ نجف کی زیارت کی تھی جبکہ عمران کی وفات ۳۶۹ھ /۹۸۰ ء کو ہوچکی تھی۔ لیکن فخر الدین شیبی کی اس بات کو نہیں مانتے کیونکہ عمران کے معز الدّولہ اور ان کے بیٹے عزّالدّولہ کے درمیان تعلق ٹھیک نہیں تھے نہ کہ عضد الدّولہ کے ساتھ بلکہ احتمال قوی یہ ہے کہ عمران کی آخری عمر تک ان کے درمیان اچھے تعلقات تھے اس لئے ابن طاووس کا قول قابل ترجیح ہے لیکن شیخ محمد رضا شیبی کی کتاب ''النّجف'' جو مجلہ آفاق نجفیّہ کے پہلے شمارے میں شائع ہوا ہے کہ ان دونوں کے درمیان صلح اس وقت عمل میں آئی جب عضد الدّولہ نجف کی زیارت کے لئے آیا تھا اور وہ ایک سے زیادہ مرتبہ یہاں زیارت کے لئے آیا تھا۔
''مشہد علی میں تعمیرات کرنے والوں میں آل بویہ کے عہد میں امیر عمران بن شاہین ملک بطیحة کا نام بھی آتا ہے جنہوں نے رواق اور مسجد بنوائی تھی جو آج تک مزار کے مشرق کی جانب ان کے نام سے مشہور ہے۔ ''اس نص میںکوئی ایسی بات نہیں ہے جو فخر الدین نے شیخ شیبی کی طرف منسوب کی تھی۔ پھر فخر الدین صاحب ''نزہة الغری''کی رائے کو شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب سے نقل کیا ہے کہ یہ معلوم نہیں کہ یہ مسجد عمران ہے بلکہ مشہور یہ ہے کہ عمران نے حرم کے رواق بنوایا تھا۔ پھر اس کے بعدیہ حرم سے آہستہ آہستہ جدا ہوا اور بعید نہیں کہ بعد میں یہاں مسجد کے آثار مرتب ہوئے ، مگر موجودہ آثار اور قرآنی آیت کی نشانیاں ہیں ان کے بارے میں احتمال ہے کہ یہ عمران کی عمارت کی نشانی نہیں ہے موصوف اپنی کتاب میں لکھتا ہے ''بل نقطع بعدم بقاء عمارة عمران''بلکہ ہمیں یقین ہے کہ یہ عمران کی عمارت نہیں ۔ آخر میں فخر الدین ''کتاب الصحیفة ''سے یہ قول نقل کرتا ہے۔اس بناء پر ممکن ہے عمران نے جو رواق بنایاتھا اس پر بعد میں مسجد کے آثار مرتب ہوئے۔''اس حوالے سے انہوںنے حسینی صاحب کتاب لو لو ة الصّدف، کا قول بھی بیان کرتا ہے کہ عمران ابن شاہین نے رواق اور مسجد بنوایا تھا اور متقدمین اور متاخرین بھی اسی بات پر قائل ہیں کہ یہ مسجد عمران ابن شاہین کے نام سے مشہور ہے یہی ہے ۔ جو رواق حرم علوی کے شمال کی جانب ہے اور موجودہ رواق سے چند قدم کے فاصلے پر صحن شریف کے اندر ہے اور باب طوسی کے نزدیک اس کے دو دروازے ہیں اور ایک دروازہ صحن میں ہے اور اب بعض علماء کے دفن ہونے کی وجہ سے وہ آثار مٹ چکے ہیں۔
شیخ محمد حسین حر ز الدین نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''میں عمران بن شاہین کے نجف میں دفن ہونے کے حوالے سے اہم معلومات پیش کی ہے جسے انہوں نے اپنے دادا کی کتاب ''مراقد المعارف ''سے نقل کی ہے کہ بطیحہ میں عمران بن شاہین الخفاجی امیر بطیحہ ۳۶۹ھ بمطابق۹۷۹ ء کو فوت ہوا اور انہیں نجف میں منتقل کیا گیا اور صحن شریف کے قریب محلہ مشراق میں اپنے گھر جو باب طوسی سے سو ہاتھ کے فاصلے پر واقع ہے میں دفن کیا گیا ۔ عمران کے بارے میں جو کتاب المختصر میں آیا ہے کہ وہ واسط کا رہنے والا تھا اور وہاں سے جرم کرکے بطیحہ کی طرف بھاگا تھااور وہاں کے جھاڑیوں اور گنجان درختوں کے بیچ میں رہنے لگا اور مچھلی اور آبی جانور کا شکار کرنے لگا۔تو اِس کے پاس اور بھی شکاری اور لٹیرے آتے تھے جس کی وجہ سے اُس نے تقویت حاصل کی اور ۳۳۸ھ بمطابق ۹۴۹ ء کو معز الدولہ کے دور میں بطیحہ کا والی بنا ۔ اور معز الدولہ کی فوج اور اس کے درمیان بہت ساری لڑائیاں ہوئی جس سے اُس کو کامیابی ملی۔ ایک دن معز الدولہ مزید فوج بھیجنے پر مجبور ہوا تاکہ اُس کا محاصرہ کیا جائے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکااور جب معز الدولہ مرگیا تو فوج کی ذمہ داری بختیار کے ہاتھوں میں آگئی۔ اور اُس نے بھی عمران کو زیر کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کامیاب نہیں ہوا۔ پھر جب ۳۶۹ھ بمطابق۹۷۹ ء کو جب عمران مرگیا تو اُس کا بیٹا حسن بن عمران رئیس بنا۔ پھر محمد حسین ابن طاووس کا قول نقل کرتا ہے اور اس کے ساتھ ابن مسکویہ کی کتاب سے بھی لکھتا ہے کہ عمران کی رواقِ حرم بنانے کی وجہ یہ ہے کہ اُس نے سلطان عضد الدّولہ پر خروج کیا تھا جس پر اُس کو کامیابی ملی اور وہ بطائع کی مملکت کا گورنر بنا اور عمران نے یہ نذر کی تھی کہ اگر سلطان اُسے معاف کریں تو وہ رواقِ حرم کی تعمیر کرے گا جسے محمد حسین یوں نقل کرتا ہے۔ ''جب سلطان عضد الدّولہ البویہی مرقد امیرالمومنین کی زیارت کے لئے آیا تو عمران نے اُن سے ملاقات کی ، اس طرح سلطان نے اُسے معاف کیا۔ اِس طرح اُس کی منّت پوری ہوئی تو اُس نے نجف اور کربلا کے حرموں میں رواق بنوایا۔''
جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے کہ بطائح کی سطح نچلی تھی جس کی وجہ سے دریائے فرات اور دجلہ کا پانی عراق کے بیچ اور جنوب میں جمع ہوتا تھا اور آہستہ آہستہ یہ سلسلہ پھیلتا گیا اور چوتھی صدی میں یہ واسط سے بصرہ تک پہنچا۔ اور بعد میں یہ جگہ جھاڑیوں اور آبی گھاس پھوس سے بھر گئی اور ابھی تک یہ علاقے الاجھوار کے نام سے مشہور ہے۔ جہاں پر حکومت کے جبر سے بھاگے ہوئے لوگ آکر پناہ لیتے تھے اور یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ عمران وغیرہ بھی یہاں نہ آئے ہو۔اور جو اس جگہ سے واقف ہے وہ اِس میں فوجی نظام کو چلانے کی صلاحیت رکھتا۔ اگر ہم عمران بن شاہین اور مسجد جو اس کے نام سے مشہور ہے یا رواق جو اس کی طرف منسوب ہے کے درمیان تعلق و ارتباط کے بارے میںدیکھتے ہیں تو ان اخبار و روایت کے درمیان جو بعد و فاصلہ دیکھ کر حیران ہوجاتے ہیں جیسا کہ گزر چکا۔ پس ابن اثیر اور ابن کثیر کی روایت عمران اور عضد الدّولہ کی ملاقات کے بارے میں ہیں دوسری روایتوں کے ساتھ ملتی نہیں ہے جن کے مطابق عمران اور مسجد یا رواق کے درمیان دور سے بھی تعلق نظر نہیں آتے ہیں ۔ اس لئے میرا گمان غالب ہے کہ مسجد اور رواق اس کے مرنے کے بعدبنی ہے اور بعد میں اس کی شہرت کی وجہ سے اس سے منسوب ہوا ہے اور ابن اثیر نے اپنی کتاب ''الکامل فی التاریخ ''میں لکھا ہے کہ عمران اور اس کی طاقت کا ظہور ۳۳۸ھ /۹۴۹ ء میں ہوا تھا جس کے مقابلے کے لئے معزّ الدولہ نے اپنے وزیر ابی جعفر الصمیری کی قیادت میں دستہ بھیجا تھا اور اسے کامیابی ملنے والی تھی لیکن اس سال عماد الدّولہ کی موت کی وجہ سے معزالدولہ مجبور ہوگئے صمیری کو شیراز میں امور حکومت سنبھالنے کیلئے بھیجا جائے اور اگلے سال ۳۳۹ھ/۹۵۰ ء کو معز ّالدّولہ نے روز بھان کی قیادت میں عمران کے خاتمے کیلئے ایک اور دستہ بھیجا لیکن وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوا پھر معزّالدّولہ نے روز بھان کیلئے مزید کمک بھیجی لیکن اس دفعہ اسے زیادہ ہزیمت اٹھانا پڑی اور عمران نے اسے گرفتار کیا تو باقی فوج اپنی جان بچاتے ہوئے تیرا کی کرتے ہوئے بھاگ گئے اور بالآخر معزّ الدولہ عمران کے ساتھ مصالحت پر مجبور ہوئے اس طرح گرفتار فوجیوں کو رہا کردیا۔
پھر ابن اثیر مزید آگے لکھتا ہے کہ ان کے درمیان یہ مصالحت زیادہ عرصہ نہیں چلی۔۳۴۴ھ بمطابق۹۵۵ ء میں جب معز الدولہ بیمار ہوا تو یہ مشہور ہوا کہ وہ مرچکا ہے اس دوران معزالدّولہ کے نام بھیجے گئے کچھ اموال چند تاجروں کے مال کے ساتھ بطا ئح میں لوٹ لیا گیااور تمام اموال عمران کے ہاتھ لگ گیا اور جب اسے معزّ الدّولہ کی زندہ ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے اگرچہ تما م اموال اس کی طرف بھیج دیا گیا لیکن اس واقعے کی وجہ سے ان کے درمیان صلح ختم ہوگیا اور حالات پہلے سے کشید ہ ہوگئے۔
اس کے بعد ابن اثیر بالکل خاموش ہوتا ہے اور عمران کے بارے میں کچھ نہیں کہتا پھر وہ اچانک ہمیں کہتا ہے کہ عمران ۳۶۹ھ /۹۷۹ ء کو بطیحہ میں طبعی موت مرگیا اور بطائح کی حکومت ان کے بیٹے حسن بن عمران میں منتقل ہوئی۔ تو عضد الدّولہ کو ایک مرتبہ پھر بطیحہ پر قبضہ کرنے کی سوجھی لہٰذا اس نے اپنے وزیر مطہر بن عبد اللہ کی قیادت میں ایک دستہ تیار کیا اور مال و سلاح کے ساتھ روانہ کردیا اور اس کے ساتھ محمد بن عمر العلوی بھی تھا۔ لیکن اس دفعہ بھی عضد الدّولہ کی فوج کو بری طرح ناکامی ہوئی اور اس کے وزیر کے مرنے کے بعد عضد الدّولہ نے فوج کی حفاظت کے لئے کسی اور کو بھیجااور حسن ابن عمران اور عضد الدّولہ کے درمیان مصالحت ہوئی اور حسن نے ان کے گرفتار شدہ لوگوں کو مال ادا کرنے کے شرط پر رہا کردیا۔
ابن اثیر نے یہ بھی لکھا ہے کہ صمصام الدّولہ بن عضد الدّولہ کی حکومت کے ایام میں ابوالفرج بن عمران بن شاہین نے اپنے بھائی حسن کو بغض و حسد اور لوگوں کی اس کے ساتھ محبت کی وجہ سے برے طریقے سے قتل کر دیا۔اس طرح انہوں نے اپنے فوجی سربراہان اور والد کے زمانے کے ان فوجی سربراہان سے چھٹکارا حاصل کیا جن سے انہیں امن کی امید نہیں تھی۔ ان میں سے ایک ابومظفر ہے جسے ابو الفرج نے قتل کردیا اور اس کے بعد ابو المعالی بن حسن بن عمران کو ذمہ داریدی، اس طرح اس نے حکومت کا دائرہ اپنے تک محدود کیا اور عمران کے پوتوں کا صرف برائے نام مداخلت تھی۔ لیکن صرف اس پر انہوں نے اکتفاء نہیں کیا بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور ایک چال چلی کہ صمصام الدّولہ کی طرف سے جعلی خط بنوایا جو ابو المعالی کے معزول کرنے کے بارے میں تھا پھر اسے اپنی ماں کے ساتھ واسط نکال دیا اس طرح بالآخر عمران بن شاہین کا خاندن ختم ہوا۔
اس طرح ظاہر ہوتا ہے کہ عضد الدّولہ اور عمران بن شاہین کے درمیان کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی اور عمران اپنی امارت میں اتنا کمزور بھی نہیں تھا کہ عضد الدّولہ کے سامنے جھک جائے اور وہ اپنے بیٹے حسن کو حکومت منتقلی کے وقت بھی مضبوط تھا، بلکہ حسن عضد الدّولہ کو دھمکیاں دیتے رہتے تھے اور وہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں بھی مصالحت کرنے پر مجبور ہوتے تھے۔
اگر یہ تمام روایات جسے ابن اثیر اور ان کے بعد ابن کثیر نے بیان کیا صحیح ہوتو ممکن ہے ہم ایک نتیجہ پر پہنچے جو شاید حقیقت سے زیادہ قریب ہو اور شہبات قدیم مصنفین اور محدّثین کے درمیان ابن شاہین کی رواق یا مسجد کے بارے میں پیداہوئی ہے ختم ہو سکے۔ کیونکہ عمران سے منسوب مسجد اور ان کی قبر ابھی تک موجود ہیں۔ ان دونوں کی حقیقت سے ان کی شہرت کی وجہ سے انکار نہیں کیا جاسکتاہے لیکن یہ بھی شرط نہیں ہے کہ جو بھی عمارت اس کے نام پرہے اسی نے بنایا ہو اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسجد یا رواق جسے ان کا بیٹا حسن ابن عمران بن شاہین نے عضد الدّولہ سے صلح کے بعد بنوایا تھا اور اس نے یہ اپنے باپ کے نام پر رکھ دیا تھا۔ بعد میں ان کی شہرت کی وجہ سے اسی نام سے مشہور ہوا اس حوالے سے ابن طحّال کی روایت کی صحت کے بارے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے کہ حسن ابن عمران بن شاہین نے منّت مانی تھی اور پورا ہونے پر بنوائی تھی نہ کہ ان کے والد نے لیکن بعد میں باپ کی شہرت کی وجہ سے عمارت ان سے منسوب ہوئی لیکن اس روایت کے علاوہ دیگر لگتا ہے صحت سے بعید ہے۔
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ عضد الدّولہ اور حسن بن عمران کے درمیان صلح روضہ مقدس میں قرار پایا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسن بن عمران نے عضد الدّولہ کے تمام اصحاب کے سامنے اطاعت و محبت کا اقرار کیا ہو اور یہ مناسبت دونوں طرفین کے لئے باعث اعتماد ہو جس کی وجہ سے علاقے میں امن و امان کی صورت بہتر ہوئی ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حسن بن عمران نے امام کے لئے نذر مانی ہو اور اس کے پورا ہونے پر وہاں عمارت بنوائی ہو اور کوفہ سے نجف پابرہنہ پیادہ سر برہنہ آیا ہو اور یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ یہ تمام بعد میں ان کے باپ کی شہرت کی وجہ سے ان سے منسوب ہوا ہو یا حسن نے خود اپنے باپ کا نام رکھ دیا ہو یا تاکہ یاداشت رہے۔
اس موقع پر ڈاکٹر سعاد ماہرلکھتی ہے کہ آثار الشّیعہ امامیہ میں یہ بات آئی ہے کہ وہ مسجد جو حرم مقدس کے رواق سے متصل تھی پھر شاہ عباس صفوی نے صحن میں شامل کیا ہے۔اور شیخ محمد حسین حرز الدین نے شیخ میرزا ہادی خراسانی متوفی ۱۳۵۳ھ /۱۹۳۴ ء سے روایت کی ہے جس کو ہم نے بیان کیا کہ جو آثار قبور رواق حرم شریف کے دائیں طرف داخل ہونے کے بعد بائیں جانب ایوان الاذہب کے پہلے دروازہ میں موجود ہے کے بارے میں یوں لکھتا ہے ''وہاں ایک قبر میں سے ایک سفید پتھروں سے بنے ہوئے مختلف شکل و صورت والے ٹکڑے ملے ہیں جن پر مختلف فنی نقوش بنے ہوئے تھے جو کافی قیمتی ہیں جب اسے بغداد لے جایا گیا لیکن اس کی حالت معلوم نہیں ہوسکی، کہا جاتا ہے کہ ان میں سے جو مسجد رواق کے دیواروں کے اوپر ہے جس کے بارے میں مشہور ہے کہ عمران بن شاہین سے منسوب ہے۔''عنقریب ہم مسجد عمران سے متعلق مزید باتیں کریں گے اور ساتھ یہ بھی بتائیں گے کہ ان کے بعد کیسے اس میں وسعت و ترمیم ہوئی۔
عضد الدّولہ کے جانے کے بعد نجف کی حالت
ہمارا مقصدعضد الدّولہ کی عمارت پر جو اصلاحات ان کے بعد ہوئی ہیں پر رکنا نہیں ہے اور نہ ہی اس پر اکتفا کرنا ہے کہ یہ مقدس شہر ترقی و تنزّلی کے جن مراحل سے گزرا کبھی وہاں کی آبادی زیادہ ہوئی اور کبھی کم۔ لیکن ہم یہاں دو اہم نکات ضرور بتا دیتے ہیں جن میں سے پہلا نکتہ شیخ طوسی کا نجف کی جانب ہجرت کرنا اور وہاں علمی و ثقافتی انقلاب برپا کرنا جبکہ دوسرا نکتہ مشہور سیاح ابن بطوطہ کا دنیا کا سفر کرتے کرتے ۷۲۶ھ/۱۳۲۵ ء کو وہاں پہنچنا اور وہاں کے شہر روضہ کی صورت حال کا جائزہ لینا۔
لیکن ان دونوں نکات پر بات کرنے سے قبل میں چاہتا ہوں ان باتوں کی طرف اشارہ کروں جنہیں میں نے اس سے قبل بغیر مناسبت ذکر کیا تھا۔ کہ مختلف قبائل و فرقوں کی سیاسی کشمکش کی وجہ سے جو آثار باقی ہے جس میں صرف مسلمان نہیں تھے بلکہ غیر مسلم بھی تھے جیسا کہ ہم پڑھ کر آئے ہیں کہ عیسائی فرقے کیتھولک پروٹسٹنٹ اور آرتھوڈکس وغیرہ کے درمیان بھی اختلاف کچھ کم نہیں تھے۔ مثلاً کیتھولک اور پرو ٹسٹنٹ آپس میں شادی نہیں کرسکتے تھے سوائے یہ کہ ایک دوسرے کے مذہب کو قبول کرنے کے ۔ اس طرح عراق میں طوائفی سیاست مختلف مراحل میں سخت طریقے سے شہادت امیر المومنین کے حوالہ سے طول تاریخ میں نشیب و فراز کے ساتھ جاری رہی اور قتل و غارت کی آگ اس طرح پھیل گئی جسے حکومتیں بھی بجھا نہ سکیں۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تاریخ میں گزرا ہے کہ ۴۴۲ھ بمطابق ۱۰۵۱ ء کو بغداد میں اہل تشیع اور اہل تسنن کے درمیان قربت کی فضاء قائم ہوئی کہ ایک دوسرے کے دینی مناسبت میں شریک ہونے لگے یہاں تک کہ بغداد کی مساجد کے میناروں سے حیّ علیٰ خیر العمل کی صدائیں بلند ہونے لگی اور کرخ میں صحابہ کرام کے فضائل بیان ہونے لگے۔ اور مختلف مناسبات میں نجف و کربلا میں زیارت کیلئے ساتھ جانے لگے اور یہ محبت و بھائی چارگی و قربت کا ایک خوبصورت منظر تھا جو تاریخ میں اس سے قبل کبھی نہیں ہوا جسے ابن اثیر وغیرہ اور تاریخ عراق کے دیگر مورخین نے جا بجا بیان کئے ہیں۔
شیخ طوسی کی نجف کی جانب ہجرت
لیکن یہ خوبصورت جشن کا سماں اتنا زیادہ عرصہ نہیں چلا جب ۴۴۷ھ /۱۰۵۵ ء میں طغرل بک امیر سلجوقی عراق میں داخل ہوا تو اچانک طوائفی فتنے کی آگ پھیلانا شروع ہوگئی اور خاص طور سے امیر موصوف نے بغداد میں شیعوں کا قتل عام کیا اور وزیر بہا ء الدّولہ البویہی نے سابور بن اردشیر کی لائبریری کو جلانے کا حکم دیا اور یہ لائبریری اس زمانے کی سب سے عظیم اور اہم لائبریری تھی۔ اور یا قوت نے اپنے ''معجم البلدان ''میں کرخ کی جانب حدود کے اندر ایک محلہ کے بارے میں بحث کرتے وقت اس لائبریری کے اندر قیمتی کتب کا تذکرہ بھی کیاہے کہ ''اس لائبریری کے اندر موجود کتابیں تھی وہ ابو نصر سابور اردشیر وزیر بہا ء الدّولہ نے وقف کی تھی ایسی اچھی کتابیں پوری دنیا میں نہیں تھیں۔ اور یہ تمام کتابیں معتبر آئمہ کے ہاتھوں لکھی ہوئی اصولی کتابیں تھی اور یہ تمام اس وقت کرخ میں جلائی گئی جب آل سلجوق کا پہلا بادشاہ طغرل بک ۴۴۷ھ کو بغداد میں وارد ہوا۔ ''اور اس طرف ابن خلکان نے بھی اپنی ''الوفیات ''میں اشارہ کیا ہے کہ...... اس کے لئے بغداد میں دار علم تھا جس طرف ابو العلا المصری نے اپنے ایک قصیدہ میں اشارہ کیا ہے ۔
۴۴۸ھ /۱۰۵۶ ء میں شیعہ فقیہ شیخ طوسی ابوجعفر بن حسن بن حسین اپنے گھر بار لٹنے ، درس کرسی چھننے اور کتابیں اور باقی اثاثہ جات جلائے جانے کے بعد بغداد کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے، ان واقعات کو ابن اثیر ، ابن جوزی وغیرہ نے تفصیل سے بیان کیا ہے اور جلد ہی شیخ نے ایک سال بعد یعنی ۴۴۹ھ /۱۰۵۷ ء میں ہی بغداد کو خیر باد کہہ دیا اور نجف اشرف کی طرف روانہ ہوئے اور وہیں پرمستقل سکونت اختیار کی۔
اگرچہ شیخ طوسی کے وہاں جانے سے پہلے بھی علمی سلسلہ موجود تھا جس کی طرف محمد جواد فخر الدین، شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی اپنی تاریخ کی کتابوں میں اشارہ کیا ہے کہ بعض علمی شخصیات وہاں رہتی تھیں یا زیارت کی غرض سے یا وہاں موجود شخصیات سے کسب فیض کے لئے گئے ہوئے تھے اور ڈاکٹر حسن حکیم نے بھی ان باتوں کا ذکر اپنی کتاب مفصّل تاریخ نجف اشرف میں کیا ہے۔
لیکن ان تمام کے باوجود شیخ الطائفہ کی ہجرت وہاں کے علمی و ثقافتی تحریک میں پہلا دور شمار کیا جاتا ہے بلکہ ان کی وجہ سے یہ شہر مرور ایّام کے ساتھ طلّب علوم دینی اور علماء کے توجہ کا مرکز بنا اور جب تک کربلا و حلہ میں بعض علماء و طلاب نہ گئے نجف اشرف شیعہ دینی مرجعیت کا مرکز تھا لیکن بعد میں کچھ اسباب کی بنا پر بعض علماء اور ان کے ساتھ اکثر طلاب نجف چھوڑ کر کربلا و حلہ کی طرف چلے گئے اور وہاں بھی حوزہ علمیہ کی بنیاد ڈالی۔
یہ شہر اس زمانے میں عراق کی اقتصادیات کی بہتری میں معاون بن رہاتھا اسی طرح امن وامان کی صورتحال کی بنا پر آس پاس کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ مثلاً ترکی، ایران، وغیرہ سے سیاسی تعلقات پیدا ہوئے لیکن شیخ الطائفہ کے وہاں جانے کے بعد جو علمی ، ثقافتی روشنیاں پیدا ہوئی تھیں وہ مستقل نہ رہ سکیں اور ایک مرتبہ پھر یہ شہر تہہ و بالا ہو کر رہ گیا اور شدید قحط کی وجہ سے یہاں سے لوگ ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد یہ شہر دوبارہ زائرین کا مرجع بن گیا، شیخ محمد حسین حرزالدین کے مطابق یہاں دسیوں شخصیات، خلفاء ، وزراء ، فوج کے قائدین یہاں زیارت کیلئے آئے اور یہاں دفن ہوئے اور شیخ الطائفہ کے یہاں داخل ہونے کے بعد بے شمار مدارس اور لائبریریاں بنیں جن کی کڑی آل بویہ کی تعمیرات تک ملتی ہیں۔
ابن بطوطہ کی زیارتِ نجف اشرف
روضہ مقدس کے ارد گرد خاص طور پر پانی وافر مقدار میں نہ ہونے کے باوجود اس مشکل اور سخت ماحول میں یہاں عضد الدّولہ کی تعمیرات سے قبل یا اسی دوران آل علی کے سترہ سو افراد فقہاء ، قاری، اور نوحہ خواں وغیرہ کے علاوہ بھی کافی تعداد میں لوگ رہتے تھے اور یہ تعداد محمد بن السرّی المعروف ابن البرسی کے حساب کے مطابق ہے اورعضد الدّولہ جب بھی یہاں زیارات کیلئے آتے تھے ان میں اموال تقسیم کیا کرتے تھے اور ان میں سے اکثر اس کی تعمیرات میں شریک بھی نہیں ہوئے اگرچہ وہ اس سے پہلے وہاںموجود تھے۔
لہٰذا مجھے جو ظن غالب ہے کہ علویوں کے لئے مشکلات خاص طور سے محمد بن یزید کی عمارت سے قبل اور بعد میں تھی اس کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ابن بطوطہ ۷۲۶ھ بمطابق۱۳۲۵ ء کو یہاں پہنچا تو اس وقت اس شہر میں کافی ترقی ہوئی تھی اور انہوں نے اپنے اس مشہور سفرنامہ میں اس شہر کا پور ا جائزہ لیا ہے جو موسوعہ نجف اشرف میں نشر ہوا ہے جس میں اس سفر سے متعلق اکثر محدثین کی کتابوں میں بھی ذکر ہوا ہے اس سے لگتا ہے کہ ابن بطوطہ اپنے حج کی ادائیگی سال ۷۲۶ھ /۱۳۲۵ ء کے بعد ہی عراق کی زیارت کے لئے آئے تھے کیونکہ ہر کوئی حج کے لئے جاتا تھا وہ ضرور نجف سے ہی گزرتا تھا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اسی وجہ سے ہی نجف پہنچا تھا ۔ لیکن جب وہ یہاں سے نکلا تو اس شہر کے حوالے سے اچھے تاثرات لے کر نکلا تھا اور کثرت بازار کے باوجود یہاں کی صفائی ستھرائی، نظم و ضبط نے اسے حیران کر رکھا تھا تو دوسری جانب یہاں کا نظام حکومت ایسا تھا جس میں لوگ آزادی کے ساتھ خوشحال زندگی گزارتے تھے۔
ابن بطوطہ لکھتاہے :''یہاں بڑے بڑے امراء اور بڑے بڑے نامور پہلوان گزرے ہیں اور صبح و شام شہر کے دروازے پر طبل بجاتے تھے جو شہر کے حاکم کی اجازت سے ہوتا تھا اور یہاں اس کے علاوہ اور کوئی والی نہیں تھا، نہ حکومت کا اشتیاق رکھنے والے تھے۔ اس شہر میں کسی کو نقصان پہنچانے والے نہ رہتے تھے بلکہ یہاں رہنے والے سخی تھے اور اپنے زائرین سے اچھا سلوک کیا کرتے تھے اور تین دن انہیں دو وقت کا کھانا کھلاتے تھے جس میں گوشت ، روٹی اور کھجور ہوتے تھے اور ان لوگوں کا پیشہ تجارت تھا اور وہاں روضہ مقدس سے ملحق ایک عظیم مدرسہ تھا جس میں شیعہ طلاب اور صوفی زوّار رہتے تھے اور روضہ مقدس سے گنبد تک جانے کے راستے آسان تھے مگر خاص روضہ مقدس پر جانے کے لئے باب گنبد پر رکنا پڑتا تھا کیونکہ وہاں حجاب اور پردے لگے ہوئے تھے اور مرقد مطہر پر جانے کیلئے زائروں کو اجازت لینا پڑتی تھی اور انہیں عتبہ چومنے کیلئے کہا جاتا تھا اور یہ عتبہ چاندی سے بناہوا تھا اور اسی طرح چوکھٹ کے دونوں بازوں بھی چاندی سے بنے ہوئے تھے اور اس کے اندر سونے چاندی کے چھوٹے بڑے فانوس لگے ہوئے تھے اور گنبد کے بالکل وسط میں ایک چوکور اوپر سے لکڑی سے ڈھکا ہوا چبوترا تھا جس کے اوپر سونے کے تار سے لکھے ہوئے چند صحیفے تھے جو چاندی کے میخوں سے مضبوط کیے ہوئے تھے ، اور اس چبوترے کی لمبائی ایک قامت سے زیادہ نہیں تھی اور اس کے اوپر تین قبریں تھیں اور وہ لوگ گمان کرتے تھے کہ ان میں ایک قبر حضرت آدمـاور دوسری حضرت نوحـ جبکہ تیسری قبر علی ابن ابی طالبـاور ان قبروں کے درمیان سونے چاندی کے سلفچے بنے ہوئے ہیں جس کے اندر آب گل مشک اور انواع و اقسام کے خوشبوئیں ہیں زائر اس میں ہاتھ ڈالتے ہیں پھر اپنے چہرہ پر تبرکاً ملتا ہیں۔''
وہ یہ بھی کہتا ہے:''اس گنبد کے لئے ایک دروازہ اور ہے یہ بھی چاندی سے بنا ہوا ہے جس پر رنگ برنگ ریشم کے پردے لگے ہوئے ہیں ۔ اس دروازے سے اندر کی جانب مسجد ہے جس کے اندر اچھے قالین بچھے ہوئے ہیں اور دیواریں اور چھت پر ریشمی پردے لگے ہوئے ہیں اور اس کے چار دروازے ہیں اور یہ چاندی سے بنے ہیں جس پر ریشمی پردے ہیں۔''
یہ بعید نہیں ہے کہ ابن بطوطہ جس مسجد کا ذکر کر رہے ہیں وہ مسجد بالائے سر ہو شاید یہ اس زمانے میں موجودہ مسجد کی طرح اتنی بڑی نہ ہو گی لیکن اس سے مسجد عمران مراد نہیں ہوسکتی کیونکہ جب بھی عمران سے منسوب عمارت کی طرف اشارہ ہوا ہے اس کے ساتھ رواق کا بھی ذکر ہوا ہے اور شاید یہ مسجد پرانی ہو جیسا کہ شیخ جعفر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ اس کی دیوار سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسجد حرم علوی کے ساتھ بنی ہے۔
سیّد جعفر بحرالعلوم نے اپنے کتاب میں اس ضمن میں لکھا ہے کہ سیّدہ رضیہ بنت سلطان حسین الصّفوی نے خلف ظہر میں واقع مسجد کی تعمیر کے لئے بیس ہزار تو مان دیئے تھے اور قول مرجوح یہ ہے کہ اس سے مراد مسجد بالائے سر ہی ہے اور اس حوالے سے خاص طور سے علماءے اہل بیت کی روایات تواتر سے ہیں۔ جو اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ موضع بالائے سر قدیم ہے۔ واللہ اعلم
لگتا ہے روضہ حیدریہ کی تجوری بھی بہت پرانی ہے۔ اس حوالے سے ابن بطوطہ کہتا ہے: ''روضہ کی تجوری بہت بڑی ہے جس کے اندر بے شمار امانات رکھے ہوئے ہیں ان میں تمام یا زیادہ تر امانات وہ نذورات ہیں جو روضہ مقدس کے زائرین وقف کیا کرتے ہیں اور حرم مطہر کے خدام ان نذور کی حفاظت میںکو تاہی نہیں کرتے تھے اور کوشش کرتے تھے ان خزانوں کی حد المقدور حفاظت ہو۔ ''
وہ کہتا ہے:بلاد عراق وغیرہ کے لوگ اس زمانے میں جب وہ بیمار ہوجاتے تھے تو روضہ مقدس کے نام اموال نذر کرتے تھے اوروہ شفا پاتے تھے اور ان میں سے بعض اپنا سر نذر کرتے تھے تو یہ منّت و نذرپورا ہونے پر سونے یا چاندی سے سر کا مجسمہ بناکر حرم میں لاکر رکھتے تھے اسی طرح ہاتھ پیر یا دوسرے اعضاء وغیرہ بھی۔
مزید آگے لکھتا ہے کہ'' اور یہ شہر والے تمام رافضی(شیعہ)تھے اور اس قبر علی کی وجہ سے روضہ مقدس کے بارے میں ان کے لئے بہت ساری کرامات ثابت ہوئی تھیں۔ اس سے ملحق مدارس اور دوسرے کمرے کی عمارت شاندار انداز میں بنائی گئی اوراس کے برابر میں مدارس اور چھوٹی چھوٹی گلیاں خوبصورت انداز سے بنی ہوئی تھی اور ان کی دیواروں پر خوبصورت نقش و نگار بنے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے دیواریں چمک رہی تھیں۔''
اس کے باوجود کہ موصوف نے روضہ سے متعلق مختلف شکوک و شبہات منسوب کرنے کوشش کی ہے لیکن پھر بھی اس کی کرامات سے متعلق طویل گفتگو کی ہے اور لکھا ہے کہ دور دراز علاقوں سے یہاں شفاء طلب کرنے کے لئے آتے تھے۔ خاص طور سے ستائیس رجب کو۔
موصوف اس بارے میں مزید یوں لکھتے ہیں:''اس روضہ پر بلاد عراق، خراسان، فارس، روم سے تیس تیس ،چالیس چالیس کے گروہ میں لوگ آتے ہیں۔ جب عشاء کا وقت ہو جاتا تھا تووہ ان تمام مریضوںکوروضہ مقدس کے پاس لٹا دیتے ہیں اور پھر ان کے صحت یاب کے انتظار میں نماز و ذکر تلاوت قرآن شریف میں مشغول ہوتے تھے جب آدھی رات یا اس سے زیادہ گزر جاتی تھی تو تمام مریض صحت یاب ہوکر یہ کہتے ہوئے اُٹھتے''لَا اِ لٰهَ اِلاَّ اﷲُ مُحَمَّد رَّسُوْلُ الله عَلِیْ وَلِیُّ اللّٰه''
پھر لکھتے ہیں:''یہ بات ان کے ہاں مشہور ہے جسے میں نے خود اہل ثقاة سے سُنا ہے لیکن میں اس رات کو حاضر نہیں ہو سکالیکن میں نے تین آدمیوں کو مدرسہ کے مہمان خانہ میں دیکھا ان میں ایک کا تعلق روم سے تھا دوسرا اصفہان سے تھا جبکہ تیسرا خراسان سے، وہاں بیٹھ کر گفتگو کر رہے تھے ، جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کیا گفتگو کر رہے ہیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ وہ آج شب بیداری تو نہیں کر سکے لہٰذا اب وہ آئندہ سال کے لئے لائحہ عمل بنا رہے ہیں۔''
شیخ محمد حسین حرز الدین نے عہد ایلخانی کے اقتصادی و تجارتی خوشحالی کے حوالہ سے لکھا ہے کہ عہد ایلخانی ۶۵۶ھ /۱۲۵۸ ء سے ۷۳۶ھ /۱۳۳۵ ء پر محیط تھااور اس وقت شہر کا رقبہ ۷۴۰ھ بمطابق ۱۳۳۹ ء میں مستوفی القزوینی کے مطابق دو ہزار پانچ قدم تھا ۔ لیکن اس کی آمدنی چھہتر ہزار دینار تک پہنچ چکی تھی جیسا کہ انہوں نے اپنی کتاب ''نزعة القلوب ''اور ''تاریخ آل الجلائر'' سے نقل کیا ہے۔
عضد الدّولہ کے روضہ مقدس کی تعمیر نو کے بعد نجف اشرف کے اندر نئے انداز سے تبدیلیاں شروع ہوچکی تھیں،کیونکہ وہاں صاحب شان لوگ جیسے علماء ، بادشاہان، امراء اور وزرا وغیرہ زیارت کے لئے آتے تھے اور اہم اصلاحات وغیرہ انجام دیتے تھے اور بعض تو وہاں رہنے والے علماء اور خدمت گزارانِ روضہ کو وظیفے بھی دیتے تھے اور صاحب شان و عزت افراد وہاں دفن کے لئے لائے جاتے تھے تو ان کے ساتھ ہبات و بخشش کے طور پر مال دیا جاتا تھا یا پھر کوئی عمل خیر انجام دیا جاتا تھا اور متوفی کی شان کے حساب سے دفن کے لوازمات بھی زیادہ ہوتے تھے۔ یہ تمام امور شہر کی اقتصادی اور سماجی حوالے سے ترقی اور خوشحالی میں شامل ہیں۔
عضد الدّولہ کی تعمیرات کے بعد سے دیگر افراد کی وہاں تدفین شروع ہوئی۔ اس سلسلے میں شہر کے حالات میں کیسی تبدیلی آئی ، ہم سمجھتے ہیں ان کا تاریخی ادوار کے ساتھ ذکرکریں اور ان تمام باتوں کو شیخ محمد حسین حرزالدّین نے اپنی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''میں تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے۔
.......مشہد امام میں اوائل جمادی الا خر ۳۷۹ھ /۹۸۹ ء کو شرف الدّولہ بن عضد الدّولہ دفن ہوا۔
.......پھر ۴۰۰ھ / ۱۰۰۹ ء کو سلطان الدّولہ البویہی کے وزیر ابو محمد ابن سہلان نے روضہ امیر المومنین اور روضہ امام حسین کے ارد گرد دیوار بنوانے کا حکم دیا۔ اسی سال عید غدیر کے موقع پر شیخ مفید کے استاد ابو عباس احمد بن علی النجاشی الاسدی یہاں آئے۔
.......۴۰۳ھ /۱۰۱۲ ء کو بہا ء الدّولہ بن عضد الدّولہ نے شہر ارجان میں وفات پائی بعد میں ان کا جنازہ نجف منتقل کیا گیا۔
.......۴۱۳ھ /۱۰۳۹ ء کو عضد الدّولہ کا پوتا جلا ل الدّولہ یہاں اپنی اولاد اور وزیروں کے ہمراہ آیا۔ابن جوزی نے اپنی کتاب المنتظم میں بیان کیا ہے کہ جب وہ کوفہ سے گزرا تو اپنی سواری سے اترااور پا برہنہ پیادہ روضہ مقدس کی زیارت کی۔
.......۴۴۸ھ / ۱۰۵۶ ء کو شیخ طوسی نے یہاں ہجرت کی اور ۴۶۰ھ /۱۰۶۷ ء یہیں پر وفات پائی اور دفن ہوئے۔
.......۴۴۶ھ /۱۰۷۱ ء امیر النّاقد شاعر ابن سنان الخفا جی کو زہر دے کر قتل کر دیا گیا اور موصوف روضہ امیرالمومنین کے لئے ہر سال سونے کا ایک فانوس بھیجا کرتا تھا اس طرح روضہ کے خزانے میں چالیس فانوس جمع ہوئے۔
.......۴۷۹ھ /۱۰۸۶ ء کو ملک شاہ سلجوقی نے مرقد مطہر کی زیارت کی یہ وہی شخص ہے جو ہرنوں کا شکار کیا کرتا تھا اور پھر ہرنوں کے سروں سے مینار بنوایا کرتا پھر وہ صدقہ نکالا کرتا تھا ابن جوزی نے کتاب المنتظم میں لکھا ہے کہ ''اس نے اپنی زیارت کے دوران یہاں دریائے فرات سے نجف تک نہر نکالنے کا حکم دیا تھا ''اور انہوں نے نجف میں ایک دعوت کا انعقاد کیا تھااور روضہ کے خدمت گزاروں کے درمیان تین سو دینار تقسیم کئے تھے۔
.......یہ بات بھی ظاہر ہے کہ نجف اقتصادی بحران کی دشواریوں سے بھی گزرا ہے جس کے باعث ۵۰۱ھ /۱۱۰۷ ء کو اکثر لوگ یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے کیونکہ روٹی کی قیمت بھی لوگوںکے قوت خریدسے تجاوز کر گئی تھی۔
.......ماہ رمضان ۵۳۲ھ /۱۱۳۷ ء کو بغداد میں خلیفہ مسترشد کے وزیر انتقال ہوا تو اس کاجنازہ نجف اشرف لاکر دفن کیا گیا۔
.......۵۴۰ھ/۱۱۴۵ ء کو شیخ الطائفہ طوسی کے پوتے نے وفات پائی جو نامور علماء میں شمار ہوتے تھے ، جس کی سمعانی نے تعریف کی ہے جبکہ عماد الطبری نے لکھا ہے کہ اگر انبیاء کے علاوہ کسی پر درود جائز ہوتا تو میں اس پر درود پڑھتا۔
.......۶۷۸ھ /۱۱۸۲ ء کو امام زاہد صوفی شیخ ابو العباس احمد الرّفاعی نے مرقد امیرالمومنین کی زیارت کی اور جب انہوں نے دور سے گنبد کو دیکھا تو اپنے جوتے اتار دیئے اور اس مناسبت سے چند اشعار کہے جو آج تک روضہ شریف پر نقش ہے۔
.......۵۷۹ھ /۱۱۸۳ ء کو کوفہ میں مشہور سیاح ابن جبیر آیا تھا لیکن وہ کہتا ہے کہ مشہد امام سے ایک فرسخ کے فاصلے پر تھا اور لیکن سفر میں جلدی جانے کی وجہ سے وہ روضہ کی زیارت نہیں کرسکا۔
.......۶۰۲ھ / ۱۲۰۵ ء کو امیر مجیر الدّین طا شکین مستنجدی فوت ہوا اور اس کی وصیت کے مطابق اس کے جنازہ کو لاکر نجف میں دفن کیا گیا۔
.......۶۰۶ھ /۱۲۰۹ ء کو خلیفہ ناصر الدّین اللہ احمد بن المستضی نے بنی عباس کے سب سے زیادہ عر صہ حکومت کرنے والا ہیبت ناک خلیفہ حسن بن مستنجدالعبّاسی کے حکم پر روضہ مقدس کی زیارت کی اور شیعہ ہوا تھا اور اس نے مشہد امام موسیٰ بن جعفرـکو مکان امن قرار دیا تھا، اوران کی فضائل امیر المومنین کے بارے میں ایک کتاب بھی ہے۔
.......۶۳۳ھ / ۱۲۳۵ ء کو خلیفہ مستنصر با اللہ عبّاسی نے نجف میں فقراء آل علی کے درمیان دو ہزار دینار تقسیم کرنے کا حکم دیا روضہ مقدس کی ترمیم اور اس کے حجروں کی اصلاح بھی کروائی۔ کتاب الفرحہ میں آیا ہے کہ اس نے ضریح مقدس کیلئے بہت سا کام کروایا۔ سید جعفر بحرالعلوم کے مطابق مستنصر وہی ہے جس نے روضہ مقدس کے جلنے کے بعد دوبارہ تعمیر کروائی تھی۔ لیکن یہ صرف ان کا اشتباہ ہے کیونکہ جلنے کا واقعہ مستنصر کی وفات کے دسیوں سال بعد پیش آیا تھا۔
.......۶۴۱ھ /۱۲۴۳ ء کو خلیفہ مستعصم اپنی والدہ کے ہمراہ حج بیت اللہ جاتے وقت نجف کی طرف سے ہوتے ہوئے مرقد امیر المومنین کی زیارت کی اور یہاں بہت سارا مال کی تقسیم کیا۔
.......۶۶۱ھ /۱۲۶۲ ء میں علا ء الدّین بغداد پر حاکم بنا اور شیعہ ہوا۔ کہا جاتا ہے اس کی شیعہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی شمس الدین جو کہ صاحب دیوان بھی تھے اور ان کے بیٹے ہارون کے ہمراہ مشہد مقدس میں زیارت کیلئے آئے اور زیارت کے دوران ان کے درمیان مذہب کے بارے میں بات چھڑی تو ہارون نے کہا میرا مذہب اس مصحف میں سے جو نکلے گا وہی ہے اور قبر کے اوپر صندوق پر رکھے ہوئے مصحف کو کھولا گیا تو اس میں ایک پیپر رکھا ہوا تھا اس پر یہ لکھا ہوا تھا:
''قَالَ یٰهٰرُوْنُ مَا مَنَعَکَ اِذْ رَاَیْتَهُمْ ضَلُّوْآ اَلَّا تَتَّبِعَنِ اَفَعَصَیْتَ اَمْرِیْ.(فَتَشَیَّعُوا)''
اور ۶۶۶ھ /۱۲۲۷ ء کو علا ء الدّین نے مشہد علی کے پاس وہاں رہنے والوں کیلئے مکانات بنانے کا حکم دیا ''اور حرم کیلئے اموال کثیرہ وقف کیا اور رہنے والے محتاجوں کے کثیر تعداد میں انفاق کیا ''اور مکانات کی جگہ بکتاشی تکیہ اور مسجد بالائے سر کی جانب ہے۔
.......۶۷۲ھ/۱۲۷۳ ء کو علاء الدّین الجوینی نے دریائے فرات قدیم جو کہ کوفہ کی جانب مسیب کے قریب ہے سے ایک نہر کھودنے کا حکم دیا جس پر اس نے ایک لاکھ سونے کے دینا ر خرچ کئے اور اس نہر کا نام نہر التّاجیّة رکھا گیا بعد میں یہ نہر سید تاج الدّین سے منسوب ہوئی جسے جوینی نے اس کام پر ما مور کیا تھا اس نہر کی تکمیل کے بعد کوفہ سے کافی تعداد میں لوگ نجف کی طرف منتقل ہوئے جہاں سال ہا سال ٹیلوں پر ٹیلے تھے کوئی آنے والا نہیں تھا اب وہاں پانی ہونے کی وجہ سے ہر طرف اصلاح ہونے لگی کثیر تعداد میں گاوں محلے بننے لگے اور اس نہر سے مزید شاخیں نکالی گئیں۔
.......۶۷۶ھ /۱۲۷۷ ء کو عطاء الملک کے حکم سے بھی نجف میں پانی پہنچانے کے لئے کوفہ سے زمینی ٹنل کھودی گئی جس کی گہرائی پچیس میٹر سے زیادہ تھی جیسا کہ محمد حسین حرز الدّین نے بیان کیا کہ نجف کوفہ سے پچیس میٹر بلند تھا۔
.......۶۶۲ھ /۱۲۶۳ ء کو بغداد کے حاکم کا نالی جلائر ی نے دریائے فرات سے نجف اشرف کی جانب نہر کھودنے کا حکم دیا جس کا نام انہوں نے نہر شہب رکھا اور اسی سال ایلخانی بادشاہ کے ایک امیر جلا ل الدّین بھی یہاں آئے تھے۔
اس سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ یہ شہر اقتصادی حوالے سے اس زمانے میں عراق کے مشہور شہروں میں شمار ہوتا تھا۔ محمد حسین نے کتاب ''روضة الصّفاء ''اور الحوادث الجامعہ دونوں سے نقل کیا ہے کہ اس شہر میں بسنے والے تمام شیعہ تھے اور یہ لوگ اپنے کرم و سخاوت کی وجہ سے مشہور تھے۔
.......ماہ ربیع الا خر کے تیر ویں تاریخ بروز جمعرات بوقت صبح ۶۷۶ھ /۱۲۷۷ ء کو شیخ فقیہ ابوالقاسم جعفر بن الحسن المعرف محقق حلّی فوت ہوئے پھر انہیں مشہد امیر المومنین لا کر دفن کیا گیا۔ ان کی مشہور کتابوں میں سے ایک ''شرائع الاسلام ''ہے جوکہ آج تک فقہ جعفریہ کی فقہ کی بنیاد ی کتابوں میں شامل ہے۔
.......۶۸۶ھ /۱۲۸۷ ء کو رضی استر آبادی کی وفات ہوئی ان کی مشہور کتاب شرح الکافیة فی النّحوہے جسے انہوں نے ۶۸۳ھ /۱۲۸۴ ء کو حرم مقدس کے جوار میں رہ کر مکمل کی تھی۔
.......۷۰۹ھ /۱۳۰۹ ء کو سلطان محمد بن ارغون بن بغابن ہلاکو بن تولی بن چنگیز خان منگولی جو خداندہ کے نام سے مشہور تھا۔عبد اللہ کے مسلک تشیّع اختیار کی وجہ محسن الامین نے علامہ مجلسی کی کتاب ''شرح الفقیہ ''سے نقل کی ہے کہ مذکورہ بادشاہ نے ایک ہی دن میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ لیکن بعد میں اسے پشیمانی ہوئی اور رجوع کا ارادہ کیا تو اسے کہا گیا کہ اس کیلئے حلالہ کروانا پڑے گا۔ وہ اسی پریشانی میں تھا اتنے میں اس کے ایک وزیر نے کہا حلّہ میں ایک عالم ہے جو اس طلاق کو باطل قرار دیتا ہے۔ یہ سننا تھا ان کے پاس بیٹھے ہوئے علماء نے کہا کہ اس کا مذہب باطل ہے اور اس کے اس نظریہ کاکوئی عقلی ثبوت نہیں ہے اورنہ ہی اس کے اصحاب کے مذہب صحیح ہے۔ لیکن بادشاہ نے اس عالم کو حاضر کرنے کا حکم دیا ، جب اسے لایا گیا اور ان کے درمیان طلاق کے مسئلہ پر کافی و بحث و مباحثہ ہوا با لآخر ان علماء نے اس کی فضیلت کا اعتراف کیا اور بادشاہ کی طلاق کو باطل قرار دیا کیونکہ اس نے بغیر گواہوں کے طلاق دی تھی۔
یہ عالم دین فقہ جعفریہ کے بزرگ عالم علامہ حلیتھے اس مناظرہ میں ان کی جیت اور مدلل انداز گفتگو سے بادشاہ بہت متاثر ہوا اس کے بعد بادشاہ نے علّامہ حلّی سے فقہ جعفریہ کے بارے میں جاننا چاہا تو علامہ حلی نے بہترین انداز میں فقہ جعفریہ کے بارے میں بادشاہ کو آگاہ کیا علامہ حلی کے بیان کردہ دلائل کو غور سے سننے کے بعد بادشاہ نے مذہب تشیّع اختیار کر لیا۔
.......ہفتہ کی رات ماہ محرم الحرام کی ۲۱ویں تاریخ ۷۲۶ھ /۱۳۲۵ ء کو شیخ جمال الدّین الحسن بن سدیدالدّین المعروف علامہ حلّی نے وفات پائی اور بعد ان کے جنازے کو نجف منتقل کیا گیا حرم شریف کے رواق میں دائیںجانب مینار کے پاس ۱۳۷۳ھ /۱۹۵۳ ء کو دفن کیا گیا۔جس حجرے میں علامہ دفن ہوئے اس طرف ''الطارمة ''ہال کی جانب ایک دوسرا دروازہ کھولا گیا تاکہ ان کی قبر تک عام و خاص سب لوگ آجا سکیں اور اس پر چاندی کی کھڑکی بنی ہوئی ہے۔
.......اسی سال مشہور سیاح ابن بطوطہ بھی نجف پہنچا تھا جس کے بارے میں تفصیلات گزر چکی۔
.......۷۳۴ھ/ ۱۳۳۳ ء کو ابو سعید بہادر نے امیر منگولی مبارز الدّین محمد بن امیر مظفر کے ساتھ نجف کی زیارت کی۔
.......۷۴۵ھ / ۱۳۴۴ ء کو ملک سواکن نقیب عز الدّین زید اصغر بن ابی نمی حسینی حلّہ میں فوت ہوا اور نجف لاکر دفن کیا گیا۔
عمارتِ مرقد، جلنے کے بعد
عضد الدّولہ کی عمارت تقریباً چار صدیوں تک باقی رہی لیکن ۷۵۵ھ/ ۱۳۵۴ ء کو روضہ کی عمارت کو آگ لگنے کی وجہ سے بہت بڑا نقصان ہوا۔ جیساکہ سیّد محسن الامین نے اپنی اعیان الشیعہ میں عبد الرحمن العتائقی کی کتاب ''الاماقی فی شرح الا یلاقی ''سے نقل کی ہے اور یہ شخص اس زمانے میں حرم شریف میں مجاور تھا اور اس آگ کو دیکھنے والے عینی شاہدین میں سے تھا اور اس کی کتاب مخطوطہ شکل میں ابھی روضہ کے خزانے میں موجود ہے۔
سید محسن امین ذکر کرتے ہیں کہ عتایقی کہتے ہیں کہ ۷۶۰ھ / ۱۳۵۷ ء میں مرقد مطہر سابقہ حالت سے بہتر طریقے میں موجود تھا لیکن وہ کیفیت تجدید کا ذکر نہیں کرتا ہے۔ نہ یہ ذکر کرتا ہے کہ کس نے عمارت کی اصلاح کی۔
شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں اس بات کو ترجیح دی ہے کہ اسے ایلخانیوں نے بنوائی تھی جیسا کہ وہ لکھتے ہیں: ''ایلخانیوں کی حکومت کے زمانے میں نجف میں جو مساجد و مدارس و مکانات کی تعمیرات ہوئی تھی اس دوران انہوںنے روضہ علوی کی تعمیر بھی کی تھی کیونکہ شیخ کے پاس نجف و کربلا کے حوالے سے بہترین آثار موجود ہیں تو ہمارا بھی اعتقاد ہے کہ یہ عمارت انہوںنے ہی بنوائی تھی۔''
لیکن محمد حسین کتابداری نجفی نسب شناش کہتا ہے:''اس عمارت کی اصلاح بہت سارے بادشاہوں نے کی ہے اور میں خود یہاں عضد الدّولہ کی تعمیرات کے آثار دیکھے ہیں۔ ''
اس بات کی مزید توسیع ڈاکٹر سعاد ماہر نے بہت سارے علمی و عملی تحلیلات کے ساتھ اپنی کتاب ''مشہد امام علی ''شیخ جعفر محبوبہ کی متابعت میں بیان کی ہے اور موصوفہ نے تاریخ ابن اثیر کی بات کو ترجیح دی ہے کہ سلطان غازان ایلخانی نے مشہد مقدس میں دار السّیادہ کے نام سے خاص طور سے سادات کے لئے ایک عمارت بنوائی تھی۔
اور اس میں صوفیوں کے لئے ایک خانقاہ بھی بنوائی تھی اس کے بعد حرم کے مغرب کی جانب کچھ عمارت بنوائی تھی مثلاً مسجد بالائے سر جس کے محراب سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساتویں صدی ہجری میں بنا ہے اور اس مسجد کی عمارت جو مشہد سے ملحق ہے اسے دیکھ کر شیخ جعفر کہتا ہے یہ ایلخانیوں کا عمل ہے۔ لیکن اس بات پر شیخ محمد حسین حرز الدّین اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ قابل اطمینان نہیں ہے اس لئے کہ ڈاکٹر سعاد جس بات کو مانتی ہے وہ اور ۷۶۰ھ / ۱۳۵۸ ء والی عمارت کے درمیان تقریباً ایک صدی کا فاصلہ ہے۔
ڈاکٹر حسن حکیم اس عمارت کو اویس بن الجلائری سے منسوب کرتا ہے کیونکہ ڈاکٹر علی الوردی کے مطابق جلائری نے ہی اس عمارت کی تجدید کی تھی اور سنگ مرمر بچھایا تھا۔لیکن اور ایک مصنف محمد النّوینی کہتے ہیں کہ میں اس بات کو نہیں مانتا لیکن یہ بات حقیقت سے زیادہ قریب ہے کیونکہ ابو اُویس شیخ حسن جلائری خود حرم میں مدفون ہے اور اس کابیٹا امیر قاسم بن سلطان حسن نویان الجلائری ۷۶۹ھ/۱۳۶۷ ء کو فوت ہوا تھا اور اپنے والد کے پہلو میں دفن ہوئے تھے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقت سے قریب تر یہ ہے کہ مذکورہ عمارت ان کے والد شیخ حسن الجلائیری نے تعمیر کی ہے جو ۷۵۷ھ بمطابق۱۳۵۶ ء کو بغداد میں فوت ہوا بعد میں نجف اشرف میں لاکر صحن شریف کے شمال کی جانب ایلخانیوں کے خاص قبرستان میں دفن کیا گیا اور شیخ حسن نے عراق پر سترہ سال حکومت کی تھی اور ان کا دا رالخلافہ بغداد تھا۔ انہوںنے بغداد اور نجف میں بڑی نفیس اور خوبصورت عمارتیں بنوئی تھی، ان باتوں سے یہ بعید نہیں ہے کہ روضہ مبارک کی تعمیر بھی انہوں نے نہ کی ہو ان سے پہلے شیخ جعفر بحرالعلوم نے بھی اسی سے ملتی جلتی بات کہی ہے ''شیخ حسن نو نیان المعروف شیخ حسن بزرگ ایلخانی جنہوں نے عراق پر ۱۷سال حکومت کی پھر بغداد میں ۷۵۷ھ / ۱۳۶۷ ء کو وفات پائی اور نجف لاکر دفن کیا گیا اور انہوں نے نجف میں عظیم المرتبت عمارتیں بنوائی تھیں۔
جب مولا المشعُشی نے ۷۵۷ھ / ۱۴۵۳ ء کو دو مرتبہ حملہ کیا تو یہ عمارت بھی ان کی دست برد سے نہ بچ سکی ۔ شیخ محمد حسین لکھتے ہیں کہ انہوں نے مشہد علوی اور مشہد حسینی دونوں کو لوٹ لیا تھا اور مرقد غروی کے گنبد کو چھ مہینے تک کچن بناکر رکھا وہ اس حرم کے احترام کا اس بناء پر قائل نہ تھا کہ وہ حضرت علی کی شہادت کا منکر تھا اور وہ حضرت علیـ کی ذات اقدس کے بارے میں حد سے زیادہ غلو کرتا تھا اور یہاں تک کہتا تھا ۔ نعوذباللہ! ''حضرت علی رب ہیں اور رب مرتا نہیں ہے۔''
روضہ مبارک کے خزانے کے اندر نفیس قسم کے تلواریں وغیرہ ہیں جو بعض صحابہ ، خلفاء ، سلاطین سے منسوب ہیں۔ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ''یہ کارنامہ المشعشی کا ہے کہ انہوں نے صحابہ و سلاطین کی تلواروں کو نجف میں جمع کیا اس طرح کہ ان میں سے جو بھی خلیفہ یا سلطان مرجاتا تھا تو اس کی تلوار اس خزانہ میں جمع کرتاتھا۔''
امیر تیمور لنگ نے بھی تعمیر روضہ مبارک میں شرکت کی تھی کہ اس نے ۸۰۳ھ / ۱۴۰۰ ء کو نجف اور کربلا کی زیارت کی تھی۔ شیخ محمد حسین کے مطابق انہوں نے نجف و کربلا میں تقریباً بیس دن قیام کیا اس دوران انہوں نے ان کی تعمیرات میں بھی حصہ لیا۔
شیخ محمد کاظم طریحی نے مستشرق انگریز ( MR.BROWN )کی کتاب ''تاریخ ایران ''پر اعتماد کرتے ہوئے ذکر کیا ہے کہ ۹۴۱ھ / ۱۵۳۴ ء کے اواخر میں سلطان سلیمان نے عراق کو قانونی اعتبار سے ایرانیوں سے واپس لیا تھا اور پھر اصلاحی کام انجام دیا نجف ، کربلا کی زیارت کی اور صفویوں سے زیادہ اصلاحات کی اور ان کی معیّت میں ایک بڑی جماعت تھی جس کے بارے میں شیخ نے بیان کیا ہے: اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض روایت کے مطابق ایک شخص ایک بڑی جماعت میں سے اس وقت نکلتا ہے جب اس کی نظر دور سے حرم مطہر کے گنبد پر پڑتی ہے تو اپنے گھوڑے سے اتر کر پیدل چلنے لگتا ہے۔ جب سلطان ناس کی وجہ دریافت کی تو اس نے جواب دیا کہ وہ خلیفہ رابع کی عزت و تکریم کی خاطر ایسا کرتا ہے یہ سن کر سلطان تھوڑا سا متردّد ہوا تو اس نے قرآن کریم سے استخارہ نکالا تو یہ آیت نکلی (فَاخْلَعْ نَعْلَیْکَ اِنَّکَ بِا لْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوی
)دیکھ کر وہ بڑا حیران ہوا اور اپنے گھوڑے سے اترا اور پیدل چلنے لگا۔
ان میں سے اکثر روایات کو ڈاکٹر علی الوردی نے( STEPHEN HEMSLEY LONGRIGG ) کی کتاب ''جدید عراق کی چار صدیاں'' کے تبصرے میں نقل کیا ہے کہ جب سلیمان کی نظر گنبد مبارک پر پڑی تو وہ امام کی شان میں اشعار کہتے ہوئے اور ان کی مدح کرتے ہوئے چلنے لگا'اسکے اعضاء کانپ رہے تھے لیکن وہ نجف کی جانب چل رہا تھا۔ روضہ مقدس کی تعمیر کے بعد بے شمار سلاطین، ملوک، روسائے جمہور، وزرا، امراء ، والیان، علماء ، اصحاب ذی شان و عزّت، سیاسی ، فکری، ثقافتی بڑے بڑے لوگ، مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے افراد اسی مٹی میں صحن شریف میں یا آس پاس کے گھروں یا اسی محلّہ میں دفن ہیں اور امام کی سیرت، فقاہت کے حوالے سے بے شمارقصائد، اشعار، آپ کی مدح میں اور آپ کی مصیبت میں مراثی لکھے گئے ہیں۔
حرم مطہر کی اصلاحات مختلف سلاطین نے مختلف ادوار میں کی ہیں اور خاص طور سے اس بے آب و گیاہ جگہ یعنی نجف میں پانی پہنچانے کے لئے بے شمار سعی و کوشش کی گئی اور بے انتہا مال و دولت خرچ کیا گیا۔ اس حوالے سے مختلف مصنفین اور محققین نے سیر حاصل بحث و گفتگو کی ہے۔ اس کے اطراف میں مختلف مساجد، مدارس اور طلّاب کی رہائش کی جگہیں مختلف صدیوں میں بنتی رہیں جو تاحال جاری ہیں اور اس علمی شہر سے اب تک ہزاروں علماء ، مفکرین ، ادباء ،فقہاء ، اہل قلم، شعراء فارغ التّحصیل ہوئے ہیں اس پر مستزاد یہ کہ یہاں آنے والے بلاد اسلامیہ کے شرق وغرب سے صرف شیعہ ہی نہیں ہوتے بلکہ غیر شیعہ بھی ہوتے ہیں۔ جب میں نے مرقدمطہر کے بارے میں تحقیق شروع کی تو اس کے بارے میں ایسی احادیث سامنے آئیں کہ جس پر بحث و تحقیق نہ ہونے کی وجہ سے میں خود اشتباہ کا شکار ہو رہا تھا۔
اس تحقیق نے مجھے جس ہدف کی طرف زیادہ متوجہ کیا وہ یہ تھا کہ وہ تمام تبرکات و نذورات جو روضہ کے اندر موجود ہیں انہیں ایک ایسی جگہ میں رکھا جائے جہاںلوگ ان کی زیارت کر سکیںاور ان سے استفادہ کرنا چاہیں تو ان سے استفادہ کر سکیں۔خود امام کی سیرت کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔
لیکن افسوس کہ اس حوالے سے کبھی توجہ نہیں دی گئی ۔
اے کاش !اب بھی کوئی توجہ کرے اور اس عظیم ورثہ کی حفاظت و نمائش کا اہتمام کرے تاکہ دنیا کو پتہ چلے کہ ہم کیسے عظیم ورثہ کے مالک ہیں اور وہ ہماری سرزمین کے بارے میں جانیں وہ سرزمین جو انبیاء کے نزول کی جگہ ہے جو امن و آشتی کی جگہ ہے۔
تعمیراتِ صفوی
روضہ مقدس کی موجودہ عمارت کے ڈانڈے گیارہویں صدی ہجری کے پانچویں چھٹی دہائی کے درمیان ملتے ہیں۔ اگر چہ تاریخ کے مرور مراحل کے ساتھ اسی میں تبدیلی آتی رہی لیکن اس میں اختلاف واقع ہوا کہ سب سے پہلے مذکورہ تعمیر کس نے کی۔ اس بارے میں سیّد محسن الامین نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں لکھا ہے کہ اہل نجف کے درمیان یہ بات مشہور ہے کہ یہ تعمیر سب سے پہلے شاہ عباس صفوی اوّل نے کروائی تھی۔ جس کی انجینئرنگ اس زمانے کے مشہور معمار شیخ بہائی نے کی تھی اور انہوں نے گنبد کے سفید رنگ کو سبز رنگ میں تبدیل کیا تھا۔
سیّد محسن الامین کے یہ بات قبول کرنے میں کچھ مناسبت نہیں ہے کیونکہ کتاب ''نزھة اھل الحرمین ''کے مولف نے ''البحر المحیط''سے نقل کیا ہے کہ اس کی ابتداء تو ۱۰۴۸ھ /۱۶۳۷ ء کو شاہ عباس صفوی کے حکم سے ہوا تھا لیکن یہ عمل جاری رہا اور مکمل ہونے سے قبل شاہ صفوی ۱۰۵۳ھ /۱۶۴۲ ء کو انتقال کرگئے تو پھر بعد ان کے بیٹے شاہ عباس ثانی نے اسے مکمل کیا اور بعد میںشاہ عباس کی طرف منسوب ہوا ہے۔
اس پورے واقعے کا خلاصہ سیّد محسن الامین یوں فرماتے ہیں کہ روضہ مقدس کی شاہ عباس اوّل کے زمانے میں تعمیر شروع ہوئی اور ان کی وفات کے بعد جاکر یہ مکمل ہوا۔ اس کے بعد مرور ایام کے ساتھ جو خرابی ہوئی تھی دوبارہ تعمیر ان کے پوتے شاہ صفی کے زمانے میں ہوئی مثلاً انہوں نے صحن کو وسیع کیا۔
شاہ عباس اوّل نے اس زمانے میں روضہ کی جو اصلاح کی تھی وہ آج اس کی اصل صورت باقی نہیں ہے بلکہ اس میں تبدیلیاں آ چکی ہیں۔
شیخ محمد الکوفی الغروی نے کتاب نزھة الغریٰ میں بیان کیا ہے کہ شاہ عباس اوّل نے بغداد پر ۱۰۳۳ھ / ۱۶۲۳ ء کو قبضہ کیا تھا پھر نجف میں زیارت امیرالمومنینـکیلئے گیااور زیارت کے بعد شاہ اسماعیل کی بنوائی ہوئی نہر کی تعمیر شروع کی اور اسے مسجد کوفہ تک پہنچایا کیونکہ اس کا عزم تھا کہ کاریز اور کنویں کھدوا کر کسی نہ کسی صورت روضہ مبارک میں پانی پہنچا دے لہٰذا دوسرے سال نجف کی دوبارہ زیارت کے لئے گیاتوبغداد واپس جاتے ہوئے پانچ سوآدمیوں کو وہاں چھوڑ گیا اور انہیں روضہ مبارک و صحن شریف کی تعمیر کرنے کا حکم دیا۔اور خود جانب روانہ ہوگیا۔
اس حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدّین قدرے زیادہ وضاحت کے ساتھ شاہ عباس اوّل کی اصلاحات کو بیان کیا ہے وہ ''تاریخ عالم آراء ''پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کرتا ہے کہ شاہ عباس اوّل نے نجف اشرف کی ۱۰۳۳ھ / ۱۶۲۳ ء کو دو مرتبہ زیارت کی پہلی مرتبہ اس نے وہاں دس دن قیام کیا اس دوران انہوںنے اپنے جدّ اعلیٰ شاہ طہماسب کی کھدوائی ہوئی نہر طہمازیہ کی صفائی کروائی کیونکہ یہ نہر نہایت اہم تھی اس لئے کہ اس کے ذریعے نجف تک پانی پہنچتا تھا جہاں سے لوگ پانی حاصل کرتے تھے اور اضافی پانی یہاں سے گزر کر بحر نجف میں جاگرتا تھا۔
جب انہوں نے دوسری مرتبہ نجف کی زیارت کی تو اس دوران انہوںنے گنبد علویہ کی تعمیر نو اور حرم کی توسیع کروائی۔ اس تعمیر میں تین سال لگے۔ اس میں رواق عمران کا تھوڑا حصہ گراکر صحن میں شامل کیا گیاتاکہ عمارت کا زاویہ مربع اور اس کی انجینئرنگ خوبصورت ہو جائے۔
اس کے بعد محمد حسین حرز الدین کتاب ''المنتظم الناصری ''سے بھی اسی بات کو یوں نقل کرتے ہیں کہ شاہ عباس اوّل نے نجف کی زیارت کی اور روضہ مبارک کی تزین و آرائش کروائی۔
یہاں پر شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب ''نجف کی ماضی اور حال ''میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ۱۰۴۲ھ /۱۶۳۳ ء کو شاہ صفی کے حکم پر سرزمین نجف پر فرات کا پانی پہنچایا گیا تھا۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جو مذکورہ تین سال حرم کی تعمیر میں لگے وہ تعمیر دراصل شاہ صفی نے کی تھی۔ کتاب نزہة الغریٰ میں کچھ مطالب کے بیان میں اشتباہ ہوا ہے۔اس ایک وجہ شاید یہ ہے اس زمانے میں نجف ایک مرتبہ پھر ترکوں کے ہاتھوں میں آیا تھا۔ ۱۰۳۴ھ / ۱۶۲۴ ء میں پورے شہر کا محاصرہ کیا تھا۔ ۱۰۳۵ھ / ۱۶۲۵ ء کو سلطنت عثمانی کے والی مراد باشاہ یہاں آئے تو اس وقت حکومتی صورت حال کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لئے کہ عثمانی اور صفوی فوجوں کے درمیان لڑائی چل رہی تھی۔
۱۰۴۲ھ / ۱۶۳۲ ء کو شاہ عباس اوّل کے پوتے شاہ صفی نے نجف کی زیارت کی اور اپنے وزیر میرزا تقی خان کو گنبد مر تضویہ کی تعمیر نو اور حرم کی توسیع کا حکم دیا تو وزیر نے نجف اشرف میں تمام کار مندان و با ہنر فراد کو جمع کیا اور دلجمعی کے ساتھ حرم کی تعمیرمیں مشغول ہوا۔ اس مقصد کیلئے نجف کے جنوب مغرب کی طرف سے سفید پتھر لائے گئے تاکہ خوبصورتی میں مزید اضافہ ہو۔ اس طرح انہوں نے وہاں مجاورین ، زائرین، فقراء کیلئے دارا لشّفاء ، باورچی خانہ، زائرین کی خاطر مہمان خانے ،صحن شریف کے اندر وضو کرنے کے لئے پانی کا حوض ، زائرین کے قیام کے لئے ایوان وغیرہ بنوائے یہ تمام کام تین سال کی مدت میں مکمل ہوا۔
ڈاکٹر حسن نے اپنی کتاب میں شاہ صفی کو شاہ عباس کا بیٹا لکھا ہے جبکہ صحیح یہ ہے کہ وہ ان کا پوتا تھا۔ اس بات کی طرف شیخ محمد السماوی نے بھی اشارہ کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:''پھر شاہ صفی صفوی جو ان کے پوتے تھے نے عمارت علویہ کو بڑے خوبصورت و شاندار انداز سے بنوایا۔ ''
سیّد جعفر بحر العلوم کے مطابق شاہ صفی نے عتبات مقدسہ کی زیارت ۱۰۴۱ھ / ۱۶۳۱ ء کو کی تھی مگر تجدید قبہ مرتضویہ اور توسیع حرم کا عمل ۱۰۴۲ھ میں انجام دیا تھا اور اسی بات کو روضہ کی عمارت کی تاریخ لکھنے والے تمام حضرات نے بیان کیا ہے جن میں سرفہرست سیّد محسن الامین ہیں۔
شیخ محمد الکوفی الغروی اور شیخ محمد حسین حرز الدّین کے درمیان دونوں حرم امام کی تعمیر نو میں توافق نہیں پایا جاتا۔ اسی طرح تنظیف نہر کی نسبت شاہ عباس اوّل کی طرف ہونے میں بھی اتفاق نہیں ہے۔ لیکن اس بات پر دونوں متفق ہیںکہ شاہ عباس اوّل نے اپنے زمانے میں عمارت کی اصلاح کی تھی اور نجف تک پانی پہنچا یا تھا۔ لیکن دوسری طرف شاہ صفی نے اپنے دور میں نہ صرف حرم کی تعمیر نو کی بلکہ حلہ کے قریب سے کوفہ تک نہر کھدوائی ور وہاں سے خورنق پھر خورنق سے زیر زمین نالیاں نجف تک بنوالیں اور شہر میں ایک حوض بنوایا تاکہ پانی وہاں جمع ہو پھر وہاں سے شہر میں سپلائی کیا۔ اس کے بعد وہاں سے ڈول کے ذریعے اوپر شہر کی گلیوں اور صحن شریف میں پہنچا۔
یہ عمارت تمام قدیم و جدید عمارتوں سے منفرد و ممتاز ہے کیونکہ علمی حوالے سے پوری دنیا میں اس طرح کی اچھی انجینئرنگ سے بنائی ہوئی عمارت موجود نہیں ہے۔
اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس حوالے سے تمام اساتذہ فن متفق ہیں کہ موسم گرما ہو یا سرما روضہ مقدس میں وقت زوال اور طلوع و غروب کا وقت معلوم ہو جاتا ہے کیونکہ باب کبیر ایسی جگہ بنایا گیا ہے جہاں سے سال کے اکثر ایام میں سورج طلوع ہوتے ہی اس کی روشنی روضہ مقدس میں داخل ہوتی ہے اور پھر وہاں سے شہر کے مشرقی دروازہ اور بازار میں ہر طرف پھیل جاتی ہے اس منظر کو میں خود دیکھ چکا ہوں۔
اس دروازے کی خاص انجینئرنگ کو میں نے آج تک کسی اور عمارت میں نہیں دیکھا ۔ کیونکہ اس کے اندر بائیں جانب سورج کی کرنیں پڑنے سے قوس و قزح بن جاتی ہے جس کی وجہ سے اندر وقت زوال کی تعیین ہو جاتی ہے یہ اس وقت ہوتا ہے جب سورج قوس کے درمیان میں پہنچتا ہے۔اس کی تفصیل سیّد عبد المطلب خراسانی نے اپنی کتاب ''مساجد و معالم فی الروضة الحیدریة ''میں لکھا ہے:
۱۰۴۷ھ / ۱۶۱۷ ء کو عراق پر عثمانیوں کا قبضہ ایک مرتبہ دوبارہ ہوجاتا ہے جب زمام قیادت سلطان مراد چہارم کے ہاتھوں آئی تو وہ ایک بڑی فوج لے کر عراقی سرزمین میں داخل ہوا تھا۔
اس حوالے سے شیخ محمد کاظم طریحی نے اپنی کتاب میں یوں لکھا ہے:''بعض ترک مخطوطات میں یہ آیا ہے کہ سلطان مراد خود بروز پیر ۱۸رمضان المبارک ۱۰۴۹ھ / ۱۶۳۹ ء کو بغداد زیارت امام علیـ و امام حسینـکے لئے گئے تھے ۔
لیکن اس معلومات کا موصوف نے کوئی حوالہ بیان نہیں کیا ہے۔
تعمیراتِ نادر شاہ
اگر نجف کو ہم سابقہ صدی کے نصف اواخر میں دیکھیں تو یہ شہر اس قدر وسیع وبا رونق نہیں تھا جہاں آج سورج کی روشنی حرم مطہر کے میناروں پر پڑکر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کرد یتی ہے اور یہ صورت فضاء کے اندر ایک نہایت ہی خوبصورت منظر پیش کرتا ہے کہ تعریف کرنے والے عاجز ہوجاتے ہیںلیکن اس کے ضمیر و وجدان میں یہ منظر اور مضبوط ہوجاتا ہے حرم مطہر کے گنبد اپنے دونوں میناروں کے ساتھ، صحن اپنی دیواروں کے ساتھ اور خزانے قیمتی تحائف کے ساتھ پوری دنیا میں نمایاں ہیں۔ اس حقیقت کا اندازہ اس وقت بھی ہوا جب مشہور جرمنی سیاح( NABOOR )۷۶۵ھ /۱۱۷۹ ء کو نجف اشرف پہنچا تھا۔ تو وہ یوں لکھتا ہے کہ ''اس کی چھت پر کثیر رقم خرچ کی گئی ہے جس سے اس کی تزئین و آرائش دوبالا ہو گئی ہے اور اس کے اوپر سونے کے رنگ چڑھا ئے ہوئے ہیں، جس کی رونق و خوبصورتی کی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے ۔''
موسوعہ نجف اشرف میں بھی آیا ہے کہ اس کے بارے میںایک انگریز سیاح LOFST جب نجف میں ۱۲۶۹ھ / ۱۸۵۳ ء میں پہنچا تھا تو جب اس کی نظر دور سے گنبد مبارک پر پڑی تو اس نے اپنے احساسات کا اظہار یوں کیا:''یہ بڑا گنبد جو سونے سے ڈھکا ہوا ہے جس کو دور سے دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ کرتی ہیں جب اس پر سورج کی شعاعیں پڑتی ہیں تو اس وسیع صحراء میں یہ ایک سونے کا ٹیلہ جیسا لگتا ہے ۔''
اس بے آب و گیاہ ٹیلے کی دہشت اس وقت ختم ہوجاتی ہے جب یہ معلوم ہو کہ وہاں اسلام کی رمز عظیم امام علی دفن ہیں اور لاکھوں ، کروڑوں لوگوں کی یہ خواہش و اصرار ہوتی ہے کہ اس کی قربت حاصل کرے اس کی زیارت کرے اورعذاب برزخ سے ان کی شفاعت سے نجات حاصل کرے اور دنیا و آخرت میں ان سے کامیابی و کامرانی کی امید لگاتے ہیں۔اگر ان کی روضہ مقدس کی تعمیر کے حوالے سے ۱۳۲ھ/ ۷۵۰ ء میں جائزہ لیں تو کوشش کرتے ہیں کہ ہم جلد ہی اس خوبصورت اور پر کشش منظر تک پہنچ جائیں۔
ہم اس تاریخ سے گزرتے ہیں کہ ترک اور ایرانیوں کے درمیان اس زمانے تک چپقلش چل رہی تھی جس کی وجہ سے شہر نجف کے ارد گرد دیوار بنائی گئی جیسا کہ محمد حسین اپنی کتاب میں یوں لکھتے ہیںکہ ''اس کے پیچھے ایک بڑی خندق کھودی گئی اور خشکی کے طرف چونے کے پتھر سے دیوار چنی گئی'' لیکن موصوف نے اس دیوار کی نسبت کسی کی طرف نہیں دی ہے۔ عراق میں فارس اور عثمانی جھگڑوں و چپقلش کی وجہ سے اور دوسری طرف مذہب تشیع کی غلبہ کی وجہ سے روضہ مقدس کی زیارت و تعمیر نو زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے اس شہر کی اہمیت اور بڑھ گئی۔
شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب میں ''تاریخ الجزیرة والعراق والنّھرین ''سے نقل کیا ہے کہ والی عثمانیہ خاصکی باشاہ جس کی حکومت۱۰۷۰ھ / ۱۶۵۹ ء میں ختم ہوئی تھی نے مرقد میر المومنین پر ایک مینارہ کا اور اضافہ کیا تھا لیکن اس وقت اس کے کوئی آثار باقی نہیں ہیں اس کے چند برس بعد بنی عثمان کے بعض والیان جب نجف پہنچے تو انہوں نے شاہی نہر کی صفائی کروائی اس کے علاوہ اور بھی نہریں کھدوائیں تاکہ شہر میں پانی کا سلسلہ برقرار رہے اور ۱۱۲۶ھ / ۱۷۱۳ ء کو والی بصرہ حسن باشاہ نے روضہ مقدس کی تعمیر نو کی اور اسے خود انہوں نے مرقد مطہر میں رکھوا دی اور اس کے اوپر مناسب کپڑے ڈھانپ دئیے۔
شیخ محمد حسین یہ بھی لکھتے ہیں کہ انہوں نے گنبد کی بھی تعمیر نو کی تھی ''انہوںنے وہاں خوبصورت بلند و بالا چھت بنوائی تھی ، یہ واقعہ ۱۱۲۹ھ/۱۷۱۶ ء کا ہے، موصوف مزید آگے لکھتے ہیں کہ ''دوسال بعدحرم کے اندر لکھے ہوئے کتبات رکھے گئے اوریہ حرم کے اندر سب سے پرانی تاریخ ہے جو آج تک ہے۔''
جب نادر شاہ اِفشاری ایران سے اپنی فوج کے ساتھ ہندوستان فتح کرنے کیلئے نکلا تو دہلی کے مقام پر ۱۷۳۸ ء کو ان کے اور ہندوستانی فوج کے درمیان معرکہ آرائی ہوئی جس کی وجہ سے ہندوستانی فوج کو بری طرح شکست ہوئی اور ہندوستانی بادشاہ شاہ محمد گرفتار ہوا لیکن نادر شاہ نے انہیں معاف کیا اور اس کی حکومت اس کو واپس دے دی اس کے عوض میں شاہ محمد نے اپنے اسلاف کے خزانے نادرشاہ کو پیش کئے جن میں عرش طاووس اور مشہور الماس جو آج کل حکومت برطانیہ کے پاس ہے اس کے علاوہ بے شمار و قیمتی اشیاء شامل ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی لکھتے ہیں کہ نادر شاہ نے ۱۱۵۳ھ /۱۷۴۰ ء کو ان میں سے چند تحائف و ہدیے مرقد ابو حنیفہ اور دوسرے آئمہ کے مراقد کے بھیجے ۔'' اور جو تحائف مرقد علوی کے لئے مخصوص کئے تھے وہ بہت بڑے ہیں جو آج تک وہاں موجود ہیں اور احتمال قوی ہے کہ یہ وہی چیزیں ہیں جو انہوں نے ہندوستان سے لی تھی ''پھر انہوں نے بہت سارے اور بھی اموال بھیجے تاکہ مرقد مطہر کے گنبد ، مینار وں اور ایوان کے اوپر سونا چڑھا دیا جائے اور یہ کام ۱۱۰۰ھ / ۱۷۴۲ ء کو شروع ہوا۔
ڈاکٹر الوردی نے یہ بھی لکھا ہے کہ نادر شاہ نے عثمانی بادشاہ کو ۱۱۵۶ھ /۱۷۴۳ ء میں یہ پیغام بھیجا جس میں انہوںنے رسمی طور پر مذہب جعفری قبول کرنے کا تقاضا کیا لیکن باشاہ کے علماوں نے اس کا یوں جواب دیا ''شیعہ دین اسلام سے خارج ہے لہٰذا ان کو قتل کرنا اور قید کرنا شرعاً جائز ہے ''اور یہ جواب نادرشاہ تک پہنچا تو اس نے دولت عثمانیہ پر حملہ کرنے کی ٹھان لی، اور عراق کی جانب اس کی فوج بڑھی اور شہر مندلی سے داخل ہوئی پھر کرکوک' اردبیل کو ختم کرتے ہوئے ماہ ستمبر کے اواخر تک موصل کے قریب پہنچ گئی اور اسے بیالیس دن تک محاصرے میں رکھا اور آخر کار اس کے حاکم کے ساتھ صلح کرنے پر مجبور ہوئے اس کے بعد نادرشاہ وہاں سے بغداد کی طرف رخ کیا اور کاظمیہ میں اترے وہاں امام موسیٰ کاظمـاور امام محمد تقیـکے مرقد کی زیارت کی پھر دریا پار کرکے مرقد ابو حنیفہ کی زیارت کی اس کے بعد وہ اوروالی بغداد احمد بادشاہ کے درمیان خط وکتابت جاری رہی یہاں تک کہ اس نے آخر کار اقرار کیا کہ ''مذہب شیعہ صحیح ہے اور یہ تصدیق کی کہ یہ مذہب جعفر الصادقـ ہے پھر نجف میں جاکر امام علی ابن ابی طالب کی زیارت کی اور وہاں گنبد دیکھا تو اسے سونے سے تعمیر کرنے کا حکم دیا ''اس کے لئے ڈاکٹر علی الوردی کی کتاب ''لمحات'' کو ملاحظہ کیجئے۔
سیّد جعفر بحر العلوم کہتے ہیں کہ حرم شریف میں سونے کا کام ۱۱۵۴ھ /۱۷۴۲ ء کو شروع ہوا اور ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء کو مکمل ہوا۔
نادر شاہ نے صرف یہ کام سر انجام نہیں دیا بلکہ روضہ مقدس کیلئے اعلیٰ قسم کے تحفے تحائف اور ہدیے بھی وقف کئے جیسا کہ سیّد محسن الامین نے اپنی کتاب اعیان الشیعہ میں بیان کیا ہے کہ انہوںنے مشہد شریف کے لئے جواہر و تحفے اور بہت ساری چیزیں وقف کیں۔ یہ عطیات انہوں نے ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء یا ۱۱۵۴ھ / ۱۷۴۱ ء کو دیئے تھے اور اپنا نام باب شرقی کے اندر طاقچہ میں اس طرح لکھا:
''المتوکّل علی الملک القادر السّلطان ناد ر''
سیّد جعفر بحر العلوم کے مطابق انہوں نے ''یہ ایوان شرقی پر جو رواق شرقی سے متصل ہے سونے کے حروف سے لکھا اور وہ عبارت یوں ہے:
''الحمد ﷲ تعالیٰ قد تشرّف بتذهیب هذه القبّة المنوّرة و الرّوضة المطهّرة الخاقان الاعظم سلطان السّلاطین الافخم ابوالمظفر المویّد بتائید الملک القاهر السّلطان نادرا دمَا للهُ ملکه و سلْطَنَتهُ ''
اس کی تاریخ ۱۱۴۶ھ لکھی ہوئی ہے۔
اسی طرح محمد حسین حرز الدین نے بھی مختلف کتابوں کے حوالے سے مثلاً اپنے جد بزرگوار محمد حرز الدین کے حوالے سے لکھا ہے۔
سیّد جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ شاہ کی زوجہ گوہر شاہ بیگم نے صحن مقدس کی دیواروں کی کاشہ کاری کے لئے ایک لاکھ ایرانی تومان عطا کئے تھے اور سیّدہ رضیہ بنت سلطان حسین الصّفوی نے مسجد بالائے سرکی تعمیر کے واسطے بیس ہزار تومان عطا کئے۔
محمد حسین نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ سلطان نادر شاہ کی زوجہ ملکہ گوہر شاہ بیگم نے مرقد مقدس کی دیوار کی ترمیم کے واسطے ایک لاکھ نادری (سکہ)خرچ کیا اور صحن میں نئی قاشانی ٹائلیں لگانے کیلئے بے شمار رقوم عطا کیں اور یہ کام ۱۱۵۶ھ/۱۷۴۳ ء کو شرع ہوا اور ۱۱۶۰ھ/ ۱۷۴۷ ء کو مکمل ہوا۔ اسی طرح انہوں نے قیمتی پتھر سے بنی ہوئی ٹنکی اور پانی گرم کرنے کیلئے سونے کے برتن روضہ اقدس کو ہدیہ کیے۔ ''۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء کو حرم کے اندر گنبد پر کتابت کا کام بھی تمام ہوا'' یہ تمام کتابت سفید لاجورد سے خوبصورت لکھائی میں ہے اور اس کے کنارے اوپر سے مزین ہیں اوریہ تمام کام سلطان نادر شاہ کے آثار میں سے ہیں کیونکہ مذکورہ کام کاتب ''مہر علی ''کے ہاتھوں ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء کو مکمل ہوا ہے۔
ڈاکٹر علی الوردی نے اپنے والد کے ڈائری اور اپنے جد بزرگوار کی کتاب ''النوادر ''سے نقل کی ہے کہ سلطان نادر شاہ نے ۱۱۵۷ھ / ۱۷۴۴ ء کو بھی حرم مقدس کی زیارت کی تھی لیکن شاہ عباس اوّل کے بنائے مکانات جو حرم کے سامنے واقع ہے سے داخل نہیں ہوئے اور یہ جگہ کچھ عرصے بعد میں بازار بن گئی اب یہ نجف کے اہم اور بڑے بازاروں میں شمار ہوتے ہیں۔ بلکہ نادر شاہ ایک چھوٹی سی تنگ گلی جو باب قبلہ کی طرف تھی سے داخل ہوئے اور صاحب حرم کے سامنے اپنے آپ کو گراکر انکساری کے ساتھ چلنے لگا۔ اس نیت سے انہوں نے اپنے گلے سے ایک سونے کی زنجیر باندھی اور ایک غیر معروف شخص سے حرم کی طرف ہنکوایا، یہ سونے کی زنجیر آج تک حرم کے باب شرقی کے ایوان میں لٹکائی ہوئی ہے۔ جس گلی سے نادر شاہ گزرا تھا جو بعد میں ''عکد الزّنجبیل''کے نام سے مشہور ہوئی۔
محمد عبود الکوفی نے اپنی کتاب ''نزھة الغری ''میں بیان کیا ہے کہ ''نادرشاہ الافشاری عراق کی طرف براستہ جانقین گیا اور موصل فتح کرنے کے بعد بغداد کی طرف ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء کو رخ کیا پھر دوسرے دن نجف اشرف میں براستہ حلہ داخل ہوگیااور وہاں پر مذاہب اسلامیہ کے علماء کیلئے ایک مجلس منعقد کی جس میں مذہب جعفری کو مذاہب اربعہ کا پانچواں مذہب مقرر کیا۔ پھر ایک اقرار نامہ لکھا جو آج بھی روضہ حیدریہ میں محفوظ ہے۔ پھر گنبد اور ایوان پر سونا چڑھانے کا حکم دیا اس کے علاوہ ان کی زوجہ گوہر شاہ بیگم نے ایک لاکھ تومان نادری صحن کی کاشہ کاری اور تزئین کے واسطے اور بہت سارے مختلف انواع و اقسام کے خوبصورت خوشبودار پتھر اور سونے کے پتھر عطا کئے ۔''
ڈاکٹر الوردی نے بیان کیاکہ موصل میں پہنچ کر وہاں کے حاکم کے ساتھ صلح کی۔ انہوں نے اپنی کتاب ''لمحات ''میں بھی کہاہے کہ'' نادر شاہ جس مقام پر آکر ٹھہرا وہ نجف تھا وہاں پر انہوںنے ایک کانفرنس منعقد کی جس میں سنّی اور شیعہ کو متفق کرنے کیلئے اپنے اپنے علماوں کو مدعو کیا تو انہوں نے کربلاء سے سیّد نصر اللہ حائری کو بلایا اور عثمانی بادشاہ سے ایک سنی بھیجنے کا تقاضا کیا جو عراقی سنّیوں کی نمائندگی کرے تو انہوں شیخ احمد السویدی کو بھیجا اور کانفرنس میں شیعوں کی نمائندگی شیخ علی اکبر نے کی جو ایران میں ملّا باشی کا متولّی تھا۔ اور یہ کانفرنس ۲۲/۱۰/۱۱۵۶ھ بمطابق ۱۱/۱۱/۱۷۴۳ ء کو منعقد ہوئی اس میں مختلف قراردادیں منظور ہوئیں بعد میں شیخ عبد اللہ السّویدی کی ایک کتاب بنام''الحج القطعیّة لاتفاق الفرق الاسلامیّة '
'چھاپی جس میں اس کانفرنس کی تفصیل شائع ہوئی ہے۔ ''
عبودالکوفی کے بیان سے ظاہر ہوتاہے کہ گنبد اور ایوان پر ۱۱۵۵ھ / ۱۷۴۳ ء کو سونا چڑھایا گیا تھا، کیونکہ اس کی تاریخ میں یہ کہا گیا ہے:''آنستُ مِن جَانبِ الطُّور ناراً''
جس کا عدد یہی بنتا ہے لیکن دونوں میناروں پر ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ ء میں سونے کا کام ہوا تھا کیونکہ اس کی تاریخ یوں بنتی ہے۔ ''اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر، اللہ اکبر ''جس کا عدد یہی بنتا ہے ۔ لیکن ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق نادر شاہ سے قبل دولت عثمانی نے گنبد روضہ پر سونے کا کام کروایاتھا اس لئے کہ ان کے ایک گورنر خاصکی محمد نے بغداد پر ۱۰۶۷ھ سے ۱۰۷۰ھ تک حکومت کی اس دوران انہوں نے نجف میں گنبد روضہ پر سونا چڑھانے کے کام کیلئے کافی مقدار میں سونا بھیجا تھا اور مینار بھی بنوایا تھا لیکن اس وقت ان کے کوئی اثار موجود نہیںہے۔