ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 21809
ڈاؤنلوڈ: 3932

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21809 / ڈاؤنلوڈ: 3932
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مقدمہ

اس میں کوئی شک نہیں حرم مقدس کی موجودہ عمارت کے اندر فنی اعتبار سے خوبصورتی کا اعلیٰ معیار موجود ہے شاید یہ اپنی خوبصورتی میں پوری دنیا میں بے نظیر و بے مثال ہے اور فن انسانی کا ایک معجزہ ہے اور اسلامی فنون تاریخی اہمیت کے اوج کمال پر ہے جو اپنے اندر محفوظ خزانوں کی وجہ سے نسل انسانی باعث فخر ہے اور اس کی تربت کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ یہاں ناشرِ عدل و امن وصی رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت علیـہیں اگرچہ راقم نے اس بارے میں ایک کتاب منظر عام پر لانے کے لئے حتی المقدر کوشش کی جو اس کے اندر صاحب روضہ کے موجود تبرکات پر مشتمل ہے اس میں کامیابی کا میں کبھی بھی دعویٰ نہیں کروں گا جسکی ایک وجہ تو یہ ہے کہ راقم کی ناسازی طبیعت کی وجہ سے اس حوالے سے کثیر و وافر مطالعہ نہیں کرسکا دوسری وجہ یہ کام ایک فرد واحد کی استطاعت سے خارج ہے کیونکہ اس کیلئے مختلف متخصّص( SPECIALIST ) افراد پر مشتمل ایک جماعت درکار ہے لیکن راقم محبان امام و عاشقان فنون کے سامنے اپنی مطالعات و مشاہدات کو پیش کرنے کی کوشش کرے گا۔ اور میرا خیال ہے یہ مزید تحقیقات کیلئے مرقد مطہر کے حوالے سے مزید تحقیق کرنے والوں کیلئے خشت اوّل ثابت ہوگی۔مجھے قوی امید ہے کہ اگر زندگی کے لمحات نے اجازت دی تو میں روضہ مبارک کے جوار میں رہ کر اپنے اس منصوبے کو اور زیادہ دقیق انداز سے پیش کروں گا۔

عصر جدید میں موجودہ عمارت کے بارے میں کچھ محققین نے بحث و تحقیقات پیش کی ہیں۔ یہاں پرمیں مثال کے طور پر چند افراد کا ذکر کرنا مناسب سمجھوں گا، ان میں ڈاکٹر سعاد ماہر ہے جنہوں نے مشہد امام علیـاور اس کے اندر موجود تبرکات کے حوالے سے ایک کتاب لکھی ہے جو دارالمعارف مصر سے ۱۳۸۹ھ / ۱۹۶۹ ء میں شائع ہوئی ہے ان کے بعد تحقیق کرنے والوں نے اس کتاب سے استفادہ ضرور کیا ہے۔

اس کے ساتھ کچھ اضافات و ملا حظات پر مشتمل ایک کتاب بنام ''تاریخ نجف اشرف'' شیخ محمد حسین حرز الدین نے لکھی ہے جس کے اندر انہوں نے اکثر موارد میں اپنے والد اور جدّ بزرگوار کے مشاہدات پر مشتمل کتاب ''معارف الرجال ''سے بھی استفادہ کیا ہے جس کی وجہ سے روضہ کے بارے میں اہم معلومات دوسری کتابوں کی نسبت آسانی سے مجھے فراہم ہوئی، مذکورہ محققین کی حیثیت اپنی جگہ لیکن شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب ''نجف کے ماضی و حال ''بھی اپنی جگہ انتہائی اہم معلومات پر مشتمل ہے اس کے بعد آنے والے محققین نے اس سے استفادہ کیے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتے۔

راقم نے اس کے علاوہ شیخ علی شرقی کی کتاب اور عصر عباسی کے آخری دور تک کی تاریخ تالیف محمد جواد فخر الدین سے بھی استفادہ کیا ہے میں اپنے محترم دوست ڈاکٹر حسن عیسیٰ حکیم کی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''کا ذکر کیے بغیر نہیں رہ سکتا جس نے مجھے کثیر معلومات فراہم کی میرے خیال میں یہ آخری کتاب ہے جس کے اندر موجودہ عمارت سے متعلق وافر معلومات موجود ہیں ۔ اس پر مستزاد یہ کہ موصوف نے نجف کے ادبی ، ثقافتی، آثار قدیمہ کے تاریخ پر زیر حاصل بحث کی ہے جس پر دوسرے مورّخین نے اتنی زیادہ توجہ نہیں دی۔

سیّد عبد المطلب موسوی خراسانی کی کتاب ''روضہ مطہرہ حیدریہ مساجد و معالم ''کا بھی یہاں ذکر کرنا ضروری ہے جس کا راقم نے ایک سے زیادہ موارد پر اشارہ بھی کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ جب ۲۰۰۵ ء میں راقم نے موصوف کو خط لکھا تو آپ کا محبت بھرا نامہ بتاریخ ۲۶-۱۲-۲۰۰۵کو موصول ہوا جو اب بھی میرے پاس محفوظ ہے اور اس خط نے مجھے مزید معلومات حاصل کرنے میں اضافہ کیا۔

چونکہ روضہ کی عمارت اور اطراف میں کچھ نہ کچھ تعمیر ہوتی رہتی ہے جس کی وجہ سے پچھلی چاردہائیوں میں تبدیلیاں بہت زیادہ ہوئی ہیں۔ بلکہ پچھلی صدی کے نوے کی دہائی میں اس حوالے سے جو معلومات شائع ہوئی ہے اگر یہ اس کے بعض اطراف میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔جب راقم ۱۱-۱۱-۲۰۰۸کو مرقد امام کی زیارت سے مشرف ہوا تو وہاں جدید توسیع و زائرین کی تعداد دیکھ کر حیران ہوا اس وجہ سے بھی میری معلومات میں بہت اضافہ ہوا ان میں کچھ معلومات میرے لئے جدید تھی جبکہ کچھ معلومات میری سابقہ کتاب کی تصحیح کے لئے اہم ثابت ہوئی۔

اگرچہ یہ چند سطور قدیم عمارت پر مرکوز ہے تاہم یہ ضروری ہے کہ موجودہ عمارت کی طرف بھی اشارہ کیاجائے خاص طور سے قدیم عمارت میں مسجد بالائے سر حسینیة، جامع مسجد عمران تمام مرافق وغیرہ شامل ہیں اس لئے کہ آج ان تمام اشیاء کا ذکر کرنا بھی محال ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ خاص طور سے زیارت کے موسم میں مرقد مقدس پر عراق اور خارج عراق سے کروڑوں کی تعداد میں زائرین موجود آتے ہیں ، مگر حرم کے خارجی توسیعات جس کے اندر صحن کے خارجی دیوار کے احاطے میں موجود تمام علاقے شامل ہیں۔ اب تو حرم کی حدود کے مغربی جانب تمام عمارات وغیرہ گراکر مرقد مطہر کے ساتھ شامل کیا جارہا ہے صحن خارجی کے سامنے اچھی خاصی بڑی جگہ بن رہی ہے اور جب سے یہ شہر ۱۲۱۲ ء کیلئے اسلامی ثقافتی مرکز نامزد ہوا ہے جس کی وجہ سے مزید تعمیرات و ترقی ہورہی ہے بڑے بڑے ہوٹل بن رہی ہیں ۔ہوسکتا ہے آئندہ آنے والے حرم کے انسائیکلوپیڈیا میں یہ تمام چیزیں شائع ہو کیونکہ ان تمام اشیاء کا احاطہ کرنا فرد واحد کیلئے ممکن نہیں ہے جب تک عتبہ مقدسہ کی طرف سے خاص تعاون شامل نہ ہو اس حوالے سے خاص طور سے آثار قدیمہ کے بارے میں مشورہ و رہنمائی ضروری ہوتی ہے اب تو تمام تبرکاتِ روضہ کی باقاعدہ رجسٹریشن ہوتی ہے اور انہیں مختلف مخصوص الماریوں میں رکھا گیا ہے جن کا ذکر آئندہ صفحات میں کیا جائے گا۔

صحن کی اندرونی اور بیرونی دیواریں

صحن کا اندرونی حصہ اس کے حدود کے سڑک سے آدھا میٹر نیچے تھا بلکہ روضہ کی سطح موجودہ سڑک سے کافی نیچے تھی لیکن بعد میں ہونے والی اصلاحات و توسیع کی وجہ سے روضہ کی سطح موجودہ صورت میں آیا ہے۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق مشہد شریف کے حدود میں صحن میں داخل ہونے کے رواق ، ایوان جو صحن کے اوپر ہیں دو مختلف عمارتوں پر مشتمل تھے اگر چہ یہ دونوں عمارتیں وقت اور طرز تعمیر میں ہم عصر لگتی ہیں اور موصوفہ اس بات کو ترجیح دیتی ہے کہ حدود کے اندر جو پرانی عمارت ہے وہ شاہ عباس اوّل نے مکمل کی تھی لیکن دوسری عمارت جو نسبتاً پہلی سے جدید ہے اس کو شاہ صفی نے بنوایا تھا(اس میں کوئی بات نہیں ہے کہ عباس ثانی نے اپنے والد کے وفات کے بعد اس کو مکمل کیا ہے کیونکہ انہوں نے اسی طرز و ترتیب سے بنوایا تھا)۔

روضہ کی بیرونی حدود قدیم شہر کے وسط تک پہنچتی ہے اور یہ دیوار اندرونی و بیرونی صورت میں مربع شکل کا ہے لیکن سابقہ ما خذ میں جو قیاس مذکور ہے وہ اتنا دقیق نہیں ہے جبکہ ہم نے عتبہ علوی کے انجینئرنگ ڈپارٹمنٹ سے جو صحیح معلومات حاصل کی ہیں وہ یہ ہے بیرونی جانب سے اندرونی شمالی و جنوبی دونوں زاویہ کی طول ۷۷میٹر اور ۷۵سنٹی میٹر ہے اور باہر سے شمالی زاویہ کی لمبائی ۱۱۸میٹر ہے جبکہ باہر سے ۱۱۹میٹر ہے اور بیرونی غربی زاویہ سے ۱۲۰میٹر اور ۵۰سینٹی میٹر ہے جبکہ اندر سے ۸۴میٹر اور ۵۰سینٹی میٹر ہے اس دیوار کا بیرونی حصہ پر محرابی کے شکل بنے ہوئے ہیں جن کے درمیان فاصلہ دو میٹر سے زیادہ نہیں ہے اور اس کے اوپر مضبوط پٹی بنی ہوئی ہے اور ان محرابوں کی گہرائی ۲۰سینٹی میٹر ہے ان پٹیوں پر نیلے قاشانی سے خط مربع میں لفظ اللہ لکھا ہوا ہے اور محرابوں کے درمیان لمبائی میں سیمنٹ سے گٹّھیاں بنی ہوئی ہیں اس کے اوپر چوڑائی میں بھی گٹھیاں بنی ہوئی ہیں اس پر لفظ اللہ لکھا ہوا ہے اور اسی بیرونی حصے میں پانی پینے کے لئے خوبصورت مقامات بنائے گئے ہیں۔

اس دیوار کے تین اطراف سے بہت سارے مکانات عضد الدّولہ کے زمانے ہی سے ملے ہوئے ہیں اور غربی سمت میں زیادہ اہم تکیة البکتاشیّة اور مسجد راس ہے لیکن شمال کی طرف جامع مسجد عمران ہے (اور شمال مشرق میں ایک عمارت حسینیة کے نام سے ہے یہ خانقاہ کے مشابہ ہے جبکہ مشرق کی طرف مسجد خضرہ ہے)مذکورہ حسینیہ کو پچھلی صدی کے دوران بعض علماء تدریس کیلئے استعمال کرتے تھے اور جب روضہ مطہر کے مرافق کی تعمیرنو و توسیع ہوئی تو یہ محفوظ رہے جسے ہم اپنے مقام پر بیان کریں گے۔

صحن شریف کی دیوار کے اندرونی حصے میں آیاتِ قرآنی فن اسلامی کی بلندیوں کی نمائندگی کررہی ہیں جو آنکھوں کو خیرہ کرتی ہیں کیونکہ یہ سونے سے مزین ہیں اور قاشانی خط میں مختلف رنگوں سے لکھی ہوئی ہیں اور محرابی شکلوں میں بھی ماہر خطاطوں سے قرآنی آیات لکھوائی گئی ہیں جس کے اندر انتہائی دقت اور خوبصورتی کا مظاہرہ کیا ہے اسی طرح ان تمام محرابی اشکال کے لمبائی اور چوڑائی دونوں طرف آیات قرآنی سے پورا صحن مزین کیا ہوا ہے۔

شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ قدیم زمانے میں بالائی منزل کے کمروں میں علماءے دین اور طلباء رہتے تھے اسی لئے آج تک وہ کمرے مختلف علماء کے نام سے منسوب ہیں جیسا حجرہ اردبیلی یہ قبلہ کی جانب پہلا حجرہ ہے' مگر پہلی منزل کے حجرے مختلف مقاصد کیلئے استعمال ہوتے تھے اور ان حجروں اور سردابوں میں مختلف بزرگ علماء و شخصیات دفن ہیںاور ان کی تصویریں آج تک بعض حجروں کی دیواروں میں سجائی ہوئی ہیں اور اب جو نئی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس میںخاص طور سے یہ خیال رکھا گیا ہے کہ قدیم طرز تعمیر کو محفوظ رکھا جائے ۔ بہت سارے مصادر ماخذ میں صحن کے دونوں طبقوں کے ایوانوں کی تعداد میں قدرے اختلاف ہے۔ دیوار کی لمبائی ۱۲سینٹی میٹر اور ۵۰سینٹی میٹر ہے۔ ڈاکٹر سعاد کی مطابق صحن شریف لمبائی میں دو طبقوں پر مشتمل ہے ان میں طبقہ اولیٰ میں ایوان جن کے اوپر گنبد بنے ہوئے ہیں اور دائیں بائیں دونوں اطراف میں کل (۱۳)ایوان ہیں۔

موصوفہ کہتی ہیں کہ یہ(۱۳) ایوان دونوں طبقوں کے دونوں اطراف میں ہیں اس کے علاوہ ایوان سیّد جنوبی اور ایوان جامع مسجد عمران بھی ہیں مگر دو طبقوں کے مشرقی جانب ایوان اور ایوان باب السّا عة ہیں۔ جبکہ مغربی جانب حالیہ پہلی منزل میں آٹھ ایوان ہیں اس طرح کل ایوانوں کی تعداد ننانوے ہیں ، یہ تعداد عتبہ علویہّ کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے رپورٹ کے مطابق ہے اگرچہ بعض اس سے اختلاف کرتے ہیں اور بعض اس کو صحیح مانتے ہیں۔جبکہ ڈاکٹر حسن حکیم اس بارے میں کہتے ہیں کہ ایوانوں کی تعداد شمالی اور جنوبی دونوں زاویوں میں دونوں منزلوں میں (۱۳)ہے اس کے علاوہ اس کے ساتھ ایوان باب طوسی ہے اور موصوف مزید یہ بھی لکھتے ہیں کہ'' صحن شریف کی پہلی منزل کے مشرقی زاویہ میں ۱۴ایوان ہیں اور اتنی تعداد میں دوسری منزل میں بھی ہے اور اس کے ساتھ باب مسلم ابن عقیل اور مسجد خضراء جانے کا دروازہ ہے اس کے علاوہ ایوان کبیر جو ایوان ذہبی کے بالمقابل ہے جس کے گھڑی ہے۔

جبکہ مغربی زاویہ میں پہلی منزل میں آٹھ ایوان ہیں اور اتنے ہی دوسری منزل میں بھی ہیں جن میں سے چار ساباط شمال کی جانب اور چار اس کے بائیں طرف ہیں اس کے ساتھ باب الفرج اور ساباط کے نیچے بڑے چھے ایوان ہیں۔

سیّد عبد المطلب الخرسانی اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ''صحن مطہر حیدری کے پہلی منزل میں حجرے ہیں اور ہر حجرے کے سامنے برآمدے ہیں اور ان حجروں میں جانے کیلئے پیچھے سے سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں''اور یہ کہا جاتا ہے کہ پچھلے زمانوں میں ان حجروں میں طلبہ رہا کرتے تھے اور انہیں ۱۹۷۷ ء میں انتفا کے بعدخالی کیاگیا لیکن جب میں جنوری ۲۰۰۸ ء میں روضہ امیر المومنین کی زیارت کیلئے گیا تو میں نے ان میں سے بعض حجروں میں جاکر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اب یہ حجرے دوبارہ ترمیم کے ساتھ بنائے گئے ہیں اور حرم شریف کے ادارہ ''شعبہ ثقافتی و فکری''کیلئے مختص کیا گیا ہے اور دیوار کے باہر سے تمام اطراف میں دروازے بنائے گئے ہیں سوائے مشرقی طرف اس کیلئے دو دروازے نکالے گئے ہیں۔

خارجی دروازے

باب کبیر

یہ مشرقی جانب بازار بزرگ کے سامنے واقع ہے اس کو باب السّاقہ بھی کہا جاتا ہے اور اس کا ایک نام بابِ امام علی بن موسیٰ الرّضاـبھی ہے یہ خوبصورت لاثانی قاشانی تختیوں سے بنا ہوا ہے جو چوتھی صدی ہجری کا فن اسلامی کا شاہکار ہے۔ جیسا کہ ڈاکٹر سعاد فرماتی ہے کہ اس کی اندرونی لمبائی ۶ m/۴۰cm ہے اور چوڑائی ۳ m/۴۰cm جبکہ بلندی ۵ m/۱۰cm ہے لیکن اس کی پرانی طرز تعمیر ختم کی گئی ہے جس سے ہم نے اپنا ایک اہم تاریخی و ثیقہ گنوا دیا ہے اس پر موصوفہ مزید آگے اس پر لکھے ہوئے قرآنی آیات ، اشعار، خطاطوں کے نام یا اس تعمیر میں شرکت کرنے والوں کے نام مختلف رنگوں کے ساتھ ہے کے بارے میں بھی کہتی ہے۔

مگر اس کی سب سے پرانی تاریخ جو موصوفہ کے مطابق ۱۱۹۸ھ /۱۷۸۳ ء بنتی ہے، محمد رضا کی لکھی ہوئی قرآنی آیات کی عبارت میں شامل ہے اوراس دروازے کے اوپر کی جانب دو قوسین جس کے اطراف میں خوبصورت پٹیاں بنی ہوئی ہیں اور ان پٹیوں پر قرآنی آیات سونے کے حروف سے لکھے ہوئے ہیں۔ اور اس کے بائیں طرف ایک دوسری منزل پر جانے کیلئے ایک چھوٹا دروازہ ہے۔ اور اس کے اندر جاتے ہی بالکل سامنے تین قوسین بنی ہے جن کے اردگرد خوبصورت پٹیاں فن قاشانی میں انتہائی مہارت و دقیق انداز سے بنی ہے۔ جبکہ اس کے بیرونی جانب صحن کے محرابی اشکال کی طرح مختلف اشکال اور طرز تعمیرسے بنی ہوئی ہے۔

باب مسلم بن عقیل

یہ صحن شریف کے جدید دروازوں میں شامل ہوتا ہے جو کہ باب کبیر کے دائیں جانب صحن کے اندر واقع ہے اس کی وجہ تسمیّہ یوں ہے کیونکہ یہ اس طرف واقع ہے جہاں کوفہ میں مسلم بن عقیل کے روضہ کی طرف جانے کا راستہ ہے۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ کا بیان ہے کہ اس دروازے سے نکلنے کے بعد سیدھا محلّہ خیّاطین (القیساریة)پہنچتا ہے اور یہ قیساریہ عہد صفوی میں مہمانوں کی رہنے کی جگہ تھی ، کیونکہ وہاں سے بہت سارے پرانے کتبے ملے ہیں اور اس زمانے میں اسے شیلان کہا جاتا تھا۔ لیکن یہ گر کر ختم ہوا تو ملّا یوسف نے شیخ صاحب جواہر سے ۱۲۵۲ھ /۱۸۳۶ ء میں خرید کر صحن کے لئے اس طرف ایک دروازہ نکال دیا جہاں زمانہ قدیم میں پانی پلانے کی جگہ تھی جسے سقہ خانہ کہا جاتا تھا ۔ لیکن روضہ مقدس کے احاطے کی سڑک توسیع کی خاطر محلہ قیساریہ کو گرایا گیا تو اس کے ساتھ اسے بھی ختم کیا گیا اور اس دروازے کے بالکل سامنے یہ اور ایوان ذہبی کے درمیان ایک کنواں تھا جہاں پر بارش کا پانی جمع ہوتا تھا جس سے لوگ استفادہ کرتے تھے۔ اور سیّد عبد المطلب خرسانی کے مطابق اسی پانی سے ایوان مطہر اور صحن شریف کو دھو یا بھی جاتا تھا ۔

شیخ محمد حسین اس ضمن میں اپنی سابق الذکر کتاب میں یوں لکھتے ہیں:'' یہ قیساریہ ایک مصروف جگہ تھی جہاں کپڑے اور عباء سینے والے درزیوں کا رش لگا رہتا تھا، اور ۱۳۶۸ھ / ۱۹۴۸ ء میںصحن شریف سے ملحق سڑک کی توسیع کی خاطر قیساریہ کے بہت سارے حصے شامل کیے گئے لیکن ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۱ ء میں ضیاء شکارہ جونجف کے نائب تھے کی کوشش سے یہ دروازہ مزید بڑا کیا گیا اور بیرونی جانب سامنے سے سونا چڑھا یا گیا''اور اس دروازے کا سائز یوں ہے لمبائی ۹ cm/۸m چوڑائی ۷۰ cm/۳m جبکہ بلندی ۳۵ cm/۴m ہے۔

باب القبلہ

یہ بیرونی حدود کے جنوب کی جانب واقع ہے اور یہ قبلے کی طرف ہونے کی وجہ سے اسی نام سے معروف ہے۔ اوریہ چھوٹا اور نیچا تھا تاہم کئی بار اس کی تعمیر ہوئی اور ایک مرتبہ ۱۲۹۱ھ بمطابق ۱۸۷۴ ء میں عہد عثمانی کے ایک والی شبلی بادشاہ کی بیٹی فاطمہ خاتون کے حکم سے ہوئی اور موصوفہ نے صحن میں پینے کے پانی کا ایک حوض بھی بنوایا تھا اور شاید یہ وہی حوض ہو جسے مشہور انگریز سیاح LOFTS نے دیکھا تھا اور وہ اس بارے میں یوں کہتا ہے ''روضہ مطہر کے سامنے ایک حوض کمالِ خوبصور تی کے ساتھ بنا ہوا ہے جس کے اندر سورج کی شعاعیں پڑنے سے گنبد کی چمک کا عکس نظر آتا ہے۔''اور اس سیاح کے سفر نامہ کو موسوعہ نجف اشرف میں شائع کیا گیا ہے ۔ ان کے مطابق صحن کے دوسرے حوضوں کی طرح اس حوض کو بھی ڈھایا گیا اور یہ دروازہ چھوٹا ہونے کے باوجود دوسرے بڑے دروازوں کی طرح دوبارہ تعمیر کیا گیا اور اس کے باہر سامنے کی جانب کو بلاط قاشانی سے مزین کیا گیا اور اشعار لکھے گئے لیکن اس کی تعمیر نو کی نسبت خود والی شبلی سے منسوب کی گئی ہے نہ کہ اس کی بیٹی کی طرف اور شیخ محمد حسین حرزالدین کابیان ہے کہ اس دروازے کی تعمیر کی سب سے پرانی تاریخ ایک شاعر شیخ محسن الخضری کے ایک شعر میں آئی ہے ''شبلی نے باب اسد کو بنایا'' جوکہ ۱۲۷۶ھ /۱۸۵۹ ء کی طرف اشارہ کرتا ہے پھر موصوف اپنے جدّ بزرگوار محمد حرز الدّین کی کتاب سے نقل کر تا ہے کہ شبلی کی تعمیر۱۲۹۱ھ /۱۸۷۴ ء میں ہوئی تھی اور اس کے رواق کے ایک حجرے میںبعض علماءے عظام جیسا کہ شیخ انصاری وغیرہ دفن ہیں۔ اس کا سائز یوں ہے، لمبائی ۸ m/۷۰cm چوڑائی ۳ m/۹۷cm جبکہ بلندی ۵میٹر ہے۔

با ب الطّوسی

یہ شمال کی جانب حدود میں واقع ہے اس کی وجہ تسمیّہ یوں ہے کیونکہ اس کے سامنے بالکل آخر میں شیخ طوسی کی قبر اور ان کی مسجد واقع ہے اور یہ باہر سے قاشانی طرز تزئین سے مزین کیا ہوا ہے اور اس کے اور اس کے اوپر سونے کے حرو ف سے اشعار لکھے ہوئے ہیں ، اور اوپر کی طرف فریم بنے ہوئے ہیں جس میں قرآنی آیات لکھی ہوئی ہے اور دروازہ کے اوپر کاتب کا نام سونے کے حروف سے لکھا ہوا ہے جس پر یہ لکھا ہوا ہے ۔ ''اسے الرّاجی ناجی نے لکھا ہے'' اور اس کی تائید شیخ محمد حسین نے کی ہے وہ اس کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ شیخ ناجی بن شیخ محمد بن شیخ علی قفطان ہیں۔ اور یہ وہی شخص ہے جس کے بارے میں ان کے دادا محمد حرز الدّین نے اپنی کتاب المعارف بیان کی ہے کہ یہ ۱۲۷۸ھ بمطابق ۱۸۶۱ ء کے قریب فوت ہوئے اور انہوںنے صحن شریف کی چوڑائی میں لکھے کتبات میں شرکت کی ہے اور یہ نفیس ترین خطوط میں شامل ہے۔ اس کے رواق کے حجروں میں بعض علماءے عظام دفن ہیں اس کے بائیں جانب مجدد شیرازی کا مقبرہ ہے جبکہ دوسری جانب سیّد علی بحر العلوم دفن ہیں اور اس کے دائیں جانب بعض دوسرے علما ء دفن ہیں ۔

شیخ محمد حسین کے مطابق ۱۳۶۹ھ / ۱۹۴۹ ء میں اس دروازے کی توسیع ہوئی اور مسجد عمران بن شاہین میں سے تھوڑا سا حصہ شامل کیا گیا اور اس کا حجم یوں ہے طول ۱۹میٹر،عرض ۳ m/۷۵cm جبکہ بلندی ۵ m/۳۰cm ہے۔ باب طوسی کے اندر فن تعمیر کے تمام زاویوں کو مدنظر رکھا گیا ہے اور اس کی تعمیر نو کے وقت اس کی شمال کی جانب کچھ واقع کچھ مکانات ڈھائے گئے اور صحن کے حدود کے شمال مغرب میں ایک سائبان بنایاگیا تاکہ زائرین وہاں بیٹھ کر آرام کر سکے اور خاص طور سے گرمی کی شدت اور بارش سے بچنے کے لئے یہ انتہائی مفید ثابت ہوتا ہے اور بعض محافل و مجالس کے انعقاد کیلئے بھی اسی کو استعمال کیا جاتا ہے۔

باب الفرج

یہ صحن کے دوسرے دروازوں کی نسبت بیرونی طرف میں چھوٹا ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک حجرہ تھا اور بعد میں یہاں دروازہ نکالاگیا اس کا اندرونی حجم میں طول ۸ m/۴۰cm عرض ۳ m/۴۰cm جبکہ بلندی ۵ m/۱۰cm ہے یہ حساب عتبہ علویہ کے انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ کے مطابق ہے۔ یہ اس نام سے اس لئے مشہور ہے کیونکہ یہ مقام امام مہدی کے روبرو ہے اور یہ سلطان عبد العزیز عثمانی کے عہد ۱۲۷۹ھ/۱۸۶۲ ء میں نکالا گیا اور اسی لئے اسے باب سلطانی بھی کہا جاتا ہے۔

شیخ محمد حسین اس کی وجہ تسمیہ یوں بیان کرتا ہے کہ سلطان عبد العزیز نے ایران کے سلطان ناصرالدین قاچاری کی عراق کے مقامات مقدسہ کے زیارات کے دوران ۱۲۷۸ھ بمطابق ۱۸۷۰ ء میں سے نکالا تھا۔ اس کے بعد یہاں بازار باب الفرج یا بازار کو چک یا بازار عمارہ کھلنا شروع ہوا۔ بازار عمارہ کی وجہ تسمیہ محلہ عمارہ ہے جسے پرانے زمانے میں رباط الجوینی سے نسبت کی وجہ سے محلہ رباط کہا جاتا تھا۔ اور ۱۹۹۱ ء میں جنگ خلیج کی وجہ سے یہ بازار اور پورا علاقہ بحر نجف کے ٹیلے تک ڈھے گیا لیکن اب یہ تمام علاقے صحن شریف میں شامل کیے جارہے ہیں اور صحن کے مغرب کی جانب باہر حدود میں زائرین امیرالمومنینـکیلئے خاص طور سے مہمان خانہ بنا یا گیا ہے یہاں یہ ذکر کرنا مناسب ہے کہ ترمیم کے دوران بعض آثار نکلے ہیں جن میں ایک قبر بھی نکلی ہے جو انتہائی قیمتی پتھر سے بنی ہوئی ہے۔