ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) 0%

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام) مؤلف:
زمرہ جات: امیر المومنین(علیہ السلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: ڈاکٹر صلاح مہدی الفرطوسی
زمرہ جات: مشاہدے: 21811
ڈاؤنلوڈ: 3932

تبصرے:

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 18 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 21811 / ڈاؤنلوڈ: 3932
سائز سائز سائز
ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

ضریح و مرقد امیر المومنین علی ابن ابی طالب(علیھماالسلام)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

حرم کے داخلی رواق اور دروازے

روضہ مطہرہ کے چاروں اطراف میں رواق کے ساتھ مغربی جانب ایک کمرہ ہے اس کے علاوہ مسجد بالائے سر اور تکیہ بکتاشی کا یک حصہ بھی اس میں شامل کیا ہے کیونکہ حرم مطہرکے زائرین کی تعداد دن بدن بڑھ رہی ہے۔ لیکن ان رواق کی سطح سے بلندی اور دیوار ڈھائی میٹر ہے اور اس کے فرش پر سفید سنگ مرمر بچھے ہوئے ہیں یہ تمام پتھر نجف اشرف کے اطراف ایک مقام سے لایا گیا ہے جو''مظلوم ''کے نام سے مشہور ہے اسے بعد میں چوتھی صدی ہجری کے اوائل میں سبزدی سنگ مرمر میں تبدیل کیا گیا ۔ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ۱۱۹۳ھ / ۱۷۷۸ء میں شاہ ناصر الدین قاچاری کا ایک شخص جس کا نام باشی تھا اس نے تین رواقوں کی تعمیر نو کی اور اس کی تاریخ ابجدی حساب کے مطابق درج کی۔

اس حوالے سے سیّد جعفر بحر العلوم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ ۱۲۸۴ھ /۱۸۶۷ ء میں ایک تاجر حمزہ تبریزی نے مشرقی جانب رواق کی شیشہ کاری میں تین ہزار تومان خرچ کئے تھے۔ لیکن شیخ محمد الکوفی کے مطابق یہ کام حمزہ تبریزی نے ۱۲۸۵ھ / ۱۸۶۸ ء میں انجام دیا تھا۔ لیکن باقی تین رواقوں کی شیشہ کاری اور تزئین و آرائش حاج ابو القاسم بو شہری اور ان کے بھائی حاج علی اکبر بو شہری نے ۱۳۰۷ھ / ۱۸۹۰ ء میں شروع کی اور ۱۳۰۹ھ / ۱۸۹۲ ء میں مکمل کی ۔ ڈاکٹر حسن کے مطابق نوے سال بعد دونوں دروازوں کے درمیان یہ شیشہ کاری اکھاڑ کر دوبارہ ۱۳۶۹ھ / ۱۹۵۰ ء میں جدید انداز میں انجام دیا گیا۔

ڈاکٹر سعاد ماہر کہتی ہے کہ ان ارواق کے اوپر چھوٹے بہت سارے گنبد بنے ہوئے تھے اور ان میں سے ہر گنبد ہشت پہلو مرکز پر بنا ہوا تھا اور ساتھ میں ہر ایک کے ساتھ کھڑکی بنی ہوئی ہے تاکہ اس سے روشنی داخل ہونے کے ساتھ ہر رواق سے تازہ ہوا آتی رہے۔

شیخ محمد حسین حرز الدین اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے تزئین و آرائش تبدیلی سے قبل دیکھی ہے جسے شاہ محمد رضا نے اتار کر دوبارہ تبدیل کروایا انہوں نے روضہ اور رواق پر دوبارہ شیشہ کای کی جو فن اسلامی کی پوری دنیا میں بے مثال خوبصورت نشانی و علامت ہے اور یہ حقیقت ہے کہ فن اسلامی کی بلندی کی تعریف سے قلم قاصر ہے بلکہ جو کوئی مسلمان جب زیارت کی غرض سے روضہ مبارک میں داخل ہوتا ہے تو وہاں دیواروں اور ہر زاویوں میں فن اسلامی کے کمال و جمال دیکھ کر عقل و نظر دنگ کر رہ جاتی ہے اور وہاں مدفون صاحب عظمت امام علی کو نہیں معلوم کہ وہاں کی مٹی نے کیسے برداشت کیا ہے جو کہ تمام تمجیدوجلال و عظمت کی علامت ہے تو مبارک ہو ان کے ماننے والوں کو کہ ان کے امام نے اسلام کی عظمت و عدل کو بلند کیا۔

اس کے علاوہ شیخ محمد حسین نے ۱۳۵۸ھ / ۱۹۳۹ ء ، ۱۳۷۱ھ / ۱۹۴۰ ء ۔ ۱۹۵۲ ء کے سالوں میں رواق کی اصلاحات کی طرف اشارہ کیاہے۔ ان اصلاحات میں شیشہ کاری کے نقصان ، بعض عمارتوں کی تبدیلی، جو ان رواقوں کے چھتوں پر تھا جسے عراقی وزارت اوقاف نے بنوایا تھا جو ابھی تک جاری ہے اور اس کی فن بے مثالی ہر زمانے میں باقی رہے گی۔ ہم رواق کے تمام جہتوں میںموجود کمروں کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔

حرم کے داخلی دروازے

روضہ طاہرہ میں داخل ہونے کے لئے نصف مشرقی رواق کی جانب طلائی ایوان کے وسط میں واقع دروازے کے مقابلے میں دو چاندی کے دروازے ہیں ۔ جن میں سے جو روضہ کے دائیں جانب ہے اسے عثمانی شہزادہ عبد العزیز کے عہد میں لطف علی خان ایرانی نے اس کا خرچ برداشت کیا تھا ۔ اور اسے ۱۲۸۳ھ / ۱۸۷۰ ء میں اس وقت نصب کروایاتھا جب نجف اشرف میں زیارت امام سے مشرف ہوئے تھے اور ان کانام دروازے کے پیچھے لکھا ہوا ہے ۔ اسی میں رواقِ شمالی کی جانب بھی دو دروازے واقع ہیں اور جنوبی جانب ایک دروازہ بعد میں عورتوں کے لئے مخصوص بنوایا گیا ۔

شیخ محمد حسین کے مطابق روضہ مبارک کے چاروں اطراف سے زمانہ قدیم سے ہی اندر داخل ہونے کی جگہ تھی ان میں مغربی جانب والی جگہ بند کیا گیا اس میں دو چاندی کے دروازے نصب تھے ان دروازوں کے پیچھے ایک بڑی اسٹیل کی کھڑکی تھی جس کے اوپر پیلے پیتل چڑھا ہوا تھا ۱۳۶۶ھ / ۱۹۴۷ ء میں ان دونوں دروازوں کو شمالی جانب منتقل کیا گیا ۔ اس سے قبل یہاں پر ایک بڑا پیتل کا دروازہ تھا اور اس دروازے کو اکھاڑ کر اسکے ساتھ مغربی جانب کی پیتل کی کھڑکی بھی اکھاڑ کر دوسرے نوادرات کے ساتھ الماری میں رکھی گئی اور اس جگہ قبر مطہر پر پہلے سے لگی ہوئی پرانی ایک چاندی کی کھڑکی کو نصب کیا گیا ۔ شیخ محمد حسین کہتے ہیں کہ روضہ مبارک کے شمالی جانب بھی ایک اسٹیل کا دروازہ تھا جسے امین الدولہ کی بیٹی زوجہ علی نے ہدیہ کیا تھا اور یہ ۱۳۱۶ھ / ۱۸۹۸ ء میں نصب کیا گیا تھا۔

اور موصوف نے بھی اشارہ کیاہے کہ جنوبی جانب بھی ایک دروازہ تھا جسے بروز بدھ آٹھ ربیع الثانی ۱۳۱۸ھ /۱۹۰۰ ء کو ایک نیک آدمی حاج غلام علی مسقطی نے نصب کروایا تھا لیکن اسے بعد میں بند کیا گیا۔

اس وقت حرم میں جو مین گیٹ ہے وہ مشرقی رواق کے درمیان دو طلائی دروازوں پر مشتمل ہے اس سے قبل یہ چاندی کے تھے ۔ یہ دونوں دروازے خوبصورتی کے کمال کو چھو رہا تھا اور ان پر احادیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قرآنی آیات ، سید موسیٰ بحر العلوم کے دو قصیدے لکھے ہوئے ہیں اس کے علاوہ موصوف کا ایک قصیدہ ان دونوںدروازوں کے پیچ میں موجود مستون پر بھی آبگینہ سے لکھا ہوا ہے۔یہ ۱۳۷۳ھ / ۱۹۵۳ ء میں آٹھ شعبان کو نصب ہوا اس پر تمام اخراجات حاج مرزا مہدی مقدم' ان کے بھتیجے حاج کاظم آغا توکلیان اور حاج مرزا عبد اللہ مقدم نے برداشت کئے۔ لیکن جنوبی رواق کی طرف سے ایک جدید دروازہ عورتوں کے لئے نکالا گیا ہے تاکہ انہیں حرم میں داخل ہونے میں مشکلات نہ ہو۔

روضہ مبارک

روضہ مبارک کی تعمیرو اصلاحات مختلف ادوار سے گزرتی رہیں جس میں محمد ابن زید ۲۸۳ھ بمطابق ۸۹۶ ء کی تعمیر سے لے کر آج تک سینکڑوں شخصیات جن میں خلفاء ، سلاطین، ملوک، امراء ، وزراء ، اہل ثروت، شامل ہیں جن کا شمار ممکن نہیں ہے تاہم ان میں سے بعض اصلاحات (جو موجودہ صورت میں ہمارے سامنے ہے)کی طرف اشارہ قدرے مشکل نہیں ہے خاص طور سے قدیم کاشانی طرز و طریقے اور عہد صفوی کے خوبصورتی و جمال کے حوالے سے ہم بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اور میں یہاں پر روضے کے مطابق باقی باتوں کے علاوہ شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب ''نجف کے ماضی و حال ''ڈاکٹر سعاد ماہرکی کتاب ''مشہد الامام علی ''اورشیخ محمد حسین حرز الدین کی کتاب ''تاریخ نجف اشرف ''سے بھی مدد لوں گا۔ کیونکہ ان میں تمام شخصیات کا ذکر تفصیلی انداز سے بیان ہواہے ۔ اس کے علاوہ ماخذ کا بھی ذکر ہے اس کے ساتھ ڈاکٹر حسن حکیم کی کتاب ''مفصّل تاریخ نجف ''اور بعد میں راقم مرقد مقدس کی زیارت سے مشرف ہوا تو مزید اہم معلومات حاصل ہوئیں میں نے مذکورہ کتابیں اُن کے تاریخ طباعت کے حساب سے ذکر کی ہیں اور یہاں پر یہ اشارہ کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان میں شیخ جعفر محبوبہ کی کتاب دیگر کتب کیلئے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔ کیونکہ اس میں روضہ مطہر کے حوالے سے بہت ساری تاریخی معلومات کا ذکر ہوا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے بعد لکھنے والوں کی کوششیں بھی کم نہیں ہیں۔

روضہ مبار ک کا صحن تقریباً درمیان میں مغرب کی جانب واقع ہے اور یہ ایک چوکور شکل کی عمارت ہے جس کی لمبائی ۱۳میٹر۳۰ سینٹی میٹر مربع ہے۔ اور اس کی پیمائش ۱۷۶میٹر اور ۸۹سینٹی میٹر مربع ہے اور اس کی بلندی ساڑھے تین ہیں جس کے اوپر دو گنبد ہیں جوایک دوسرے کے اوپر ہیں ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق بیرونی گنبد بیضوی شکل کا موٹا ہے۔ جس کی بلندی ۸۰ سینٹی میٹر ہے اور سطح صحن سے ۴۸میٹر اور۵۰ سینٹی میٹر ہیں اس کا قطر ۱۲میٹر اور۶۰ سینٹی میٹر ہیں اس کا احاطہ۵۰ میٹر ہے۔ لیکن داخلی قُبّہ جو کہ تقریباً گول دائرے کی شکل میں ہے اور اس کی بلندی ۶۰ سینٹی میٹر اورقطر ۱۲میٹر اور۵۰ سینٹی میٹر ہے۔ سطح حرم سے اس کی بلندی ۲۳میٹر اور۵۰ سینٹی میٹر ہے اور روضہ مبارک کی تزین و آرائش نفیس جڑی بوٹوں کی شکل اور انتہائی خوبصورت نباتی علامات سے کی گئی ہے اور قرآنی آیات، امامکی شان میں وارد احادیث آپ کی مدح میں کہی گئی خوبصورت اشعار اور آئمہ اہل بیت کے اسمائے گرامی کی کتابت سے روضہ مبارک کی تزئین و آرائش میں مزید اضافہ کیا گیا ہے اور فرش پر اعلیٰ قسم کے سنگ مرمر کی ٹائلیں لگی ہوئی ہیں اور دیواروں پر انتہائی مہارت سے شیشہ کاری کی ہوئی ہے یہ خوبصورت منظر دیکھنے والوں کی آنکھیں خیرہ کرتا ہے۔

روضہ مبارک کے اندرونی حصوں کی خوبصورتی حد کمال کو چھو رہی ہے۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق کہ ان دونوں گنبدوں میں ٹوٹل(۱۳۰۰۰) اینٹیں استعمال ہوئی ہیں۔ لیکن یہ تعداد گنبدوں کی مساحت اور لمبائی کے حساب سے کم ہے شاید صحیح تعداد اس سے بہت زیادہ ہے۔ ان دونوں گنبدوں کے تعلق کے حوالے سے ایک مصری انجینئر محمد مدبولی خضیر جسے عراقی حکومت نے حرم اور اس کے نوادرات کے بارے میں جاننے کے لئے مدعو کیا تھا ان کے ملاحظات یوں ہیں:

''ان دونوں گنبدوں کو لکڑی کے مختلف ٹکڑوں سے جوڑا گیاہے۔ اور اس کے بعد چونے کے ذریعے مضبوط کیا گیا ہے اور گنبد ایک گول دائرہ جس کی بلندی ۱۲ میٹر ہے کے اوپر کھڑا ہے اور اس دائرے کے اندر آئمہ اہل بیت٪کی تعداد کی مناسبت سے ۱۲کھڑکیاں نکالی گئی ہیں۔ جنہیں اوپر کی طرف محرابی شکل کی ہے اور اس دائرے کے بیچ میں چار محرابیں ہیں۔ لیکن مربع سے مرکزی دائرہ تک وسط میں تین گول دائرے بنے ہوئے ہیں جو رکن مربع میں واقع ہے اس طرح ہمیں نیچے سے اوپر تک واضح نظر آتا ہے ۔ اس طرح کا اسلوب ہمیں اسلامی عمارتوں میں دسویں ہجری کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ طریقہ روضہ مبارک میں ہواداری کے حساب سے انتہائی جدید فن معماری میں شمار ہوتا ہے اور یہ آج کل جدید کشتیوں کے اندرونی حصوں میں ہواداری کی طریقوں سے مشابہت رکھتا ہے اور روضہ مبارک اور چھت کے درمیان محرابوں میں گزرنے کی جگہ بنی ہوئی ہے اور اس کے درمیان ہواداری میں ۱۵سینٹی میٹر قطر کا لوہے کی شیٹ لگی ہوئی ہے اور بلندی میں چھت سے۱۵ سینٹی میٹر ہے تاکہ بارش کا پانی اس میں نہ جاسکے اور دونوں گنبدوں کے درمیان مختلف مقامات پر کھلے ہوئے ہیں اور یہاں آب باراں کیلئے پر نالے وغیرہ بھی بنائے ہوئے ہیں۔لیکن مربع کی دیوار کی بلندی ڈاکٹر حسن کے مطابق ۱۷میٹر ہے۔گنبد کے اوپر طلائی تختیوں کی تعداد سات ہزار سات سو ستر تک پہنچتی ہے کہا جاتا ہے کہ اس تعداد میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔''

شیخ محمد حسین بیان کرتے ہیں کہ اوپر والا گنبد کا سرا نچلے گنبد کے سرے سے چار میٹر بلند ہے اور وہاں ایک لکڑی کا زینہ ہے جو بارہ میٹر لمبا ہے جو بالائی گنبد اوپر کھڑکی تک جاتا ہے اور اس کھڑکی کیلئے چھوٹے پیتل کا دروازہ لگا ہوا ہے۔ جس کا ظاہر طلا نما لگتا ہے اور اس گنبد کے بالکل اوپر ایک بہت بڑا طلائی انار بنا ہوا ہے جس کے اوپر ایک بہت بڑا طلائی پنچہ ہے جس پر یہ آیت لکھا ہوا ہے۔( یَدُ اﷲِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ) اسے نادرشاہ نے روضہ مبارک پر طلاء چڑھوانے کے لکھوایا تھا اب یہ پنچہ ایک بڑے روشنیوں کے مجموعے میں تبدیل ہوگیا ہے جو انتہائی شعلہ دار ہے جس سے لفظ ''اللہ ''بنتا ہے۔

ڈاکٹر سعاد ماہر گنبد کے داخلی تزئین و آرائش کے حوالے سے بھی بیان کرتے ہیں کہ ایک بہت بڑا دائرہ جو گنبد کے گردن کے ارد گرد ہے اور اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے گول دائروں کے ٹکڑے ہیں اور ٹکڑے چھ لائنوں میں ہے اور ہر لائن کی لمبائی ۲۵سینٹی میٹر ہے ۔ گنبد کی گردن شیشہ کاری سے انتہائی خوبصورت انداز میں سجائی گئی ہے جس کے اوپر کاشانی ٹائل خط کی صورت میں لگی ہے جس پر سورة النباء کی کتابت کی ہوئی ہے اور یہ خط ان بارہ کھڑکیوں تک جاتی ہے جو آئمہ اثنا عشر کے تعداد کی مناسبت سے ہے اور تمام محرابوں میں جیومیٹری کی مختلف اشکال کمال دقت اور بے مثال انداز میں بنی ہوئی ہیںاور اوپر سے قرآنی آیات کی لکھائی ہے لیکن گنبد کے ڈھانچہ پر بے مثال کاشانی ٹائلوں اور مختلف رنگوں کے بیل بوٹے بنے ہوئے ہیں۔

یہاںشیخ محمد حسین گنبد کے اندرونی حصے کی تعریف میں اشارہ کرتے ہیں کہ آیات کریمہ آبگینہ و بلور سے کتابت کی ہوئی ہے بلکہ ہر گنبد کے باطنی حصہ میں مختلف جڑی بوٹی کے نقشے معجزانہ انداز سے نقش کئے ہوئے ہیں اور خاص طور سے نیچے کی جانب ایک نقشے میں شیروں کے سر بنے ہوئے ہیں اس طرح ۲۴عدد شیر ہیں اور بالکل اوپر کی جانب ۱۲عدد فریم بنے ہوئے ہیں ان میں سے ہر ایک میں آئمہ اثنا عشر کے اسمائے گرامی کی کتابت کی ہوئی ہے گنبد کے گردن کے ارد گرد نیچے سے امام علی کی مدح میں ایک قصیدہ اس طرح لکھا ہوا ہے کہ ہر آدھے شعر سے ایک خط ایک پیلے رنگ کی پیٹی پر خوبصورت انداز میں بنی ہوئی ہے اور اس طرح دوسرے خطوط سے ملی ہوئی ہے اس طرح آیات مبارکہ اس خوبصورت اشعار کی زنجیر کے درمیان نظر آتی ہیں۔

گنبد کے پر فضاء کے اوپر خوبصورت ثریات سے روشن ہے اور ثریات وقتاً فوقتاً تبدیل ہوتی رہتی ہے اور ہر مہینے کے شروع میں ایک مرتبہ حرم کے خدّام ان فانوسوں کے ساتھ مرقد مطہر کے اندرونی حصوں کی صفائی کرتے ہیں اور اس دوران ان نذورات کو بھی نکالتے ہیں جو زائرین دوران زیارت پھینکتے ہیں۔ یہ نذورات ، نقد، یا معدن، بعض سبز کپڑوں کے ٹکڑے یا مرقد مطہر کے اوپر چڑھائی گئی چادروں وغیرہ پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کو نقود سے زیادہ قیمت پر تبرکاً خریدا جاتا ہے اور کپڑوں کے ٹکڑے اور چادریں زائرین میں تقسیم کرتے ہیں ۔ چودھویں صدی ہجری میں ایک سے زیادہ مرتبہ گنبد کی ترمیم ہوچکی ہے اور ماہ ذی الحجہ ۱۳۰۴ھ /اگست ۱۸۸۸ء میں بعض جگہ دراڑ پڑنے کی وجہ سے ترمیم ہوئی۔اس ترمیم کے بعد لوہے کی تختیاں چڑھائی گئیں پھر بعد میں انہیں طلائی تختیوں میں تبدیل کیا گیا اور یہ ترمیم اسی سال ربیع الاوّل کے آخر میں مکمل ہوئی ۔ اس میں شریک کار معمار حاجی محسن اور کار پینٹر حسین شمس رہے۔

دوبارہ بعض جگہ دراڑ پڑ جانے کی وجہ سے ترمیم کی ضرورت ہوئی کیونکہ اندر پانی جانے کی وجہ سے طلائی تختیاں نکلنا شروع ہو گئی تھیں اور یہ ترمیم ۱۳۴۷ھ /۱۹۲۸ ء کو شروع ہوئی اور اسی سال سابقہ معماروں کے ہاتھوں ماہ ربیع الثانی میں مکمل ہوئی اور شیخ محمد حسین کے مطابق یہ دو گنبدوں میں ۱۳۸۶ھ بمطابق۱۹۶۶ ء میں دوبارہ ترمیم ہوئی اور راقم بھی انکے ساتھ اتفاق کرتا ہے۔

شیخ محمد حسین ہی وہ شخص ہے جنہوں نے دونوں گنبدوں کے درمیان داخل ہوکر معلومات جمع کی ہیں اس بارے میں وہ یوں بیان کرتے ہیں:

'' بروز پیر۱۹ شعبان ۱۳۹۰ ھ بمطابق اکتوبر ۱۹۷۰ ء کو میں حرم کے چھت پر چڑھ کر آثار کو اپنے آنکھوں سے دیکھا اور گنبد کے درمیان سوراخ اور گزرگاہ میں داخل ہوا ۔ اور ایک کاغذ کے اوپر دائیں بائیں اور سامنے سمتوں کا اشارہ لکھا تاکہ مجھے نکلنے میں آسانی ہو کیونکہ اندر اس کی بناوٹ میں مختلف شاخیں بنی ہوئی تھی اور اس کے حجم کا اندازہ ایسا تھا کہ ایک آدمی جھک کر داخل ہوسکتا تھا اسی لئے محققین اس زحمت کو برداشت نہیں کرتے تھے اس عمل میں میرے ساتھ اُستاد معمار شیخ محمد علی جو کہ معمار حاج سعید نجفی کے نائب تھے ان کی مدد شامل رہی۔

موصوف نے ۱۸۹۰ھ / ۱۹۷۰ ء میں گنبد کے ایک اور جانب ترمیم کے بارے بتایا کہ

''وہ دوبارہ دوسرے دن بروز منگل مشرق کی جانب ایک چھوٹے طلائی دروازے سے چڑھا تھا۔ یہاں سے حرم کی چھت پرجانے کے لئے لکڑی کا زینہ لگا ہوا ہے اور وہاں سے اسی زینے سے گنبد کے اندر داخل ہوسکتے ہیں اس طرح بعد میں گنبد کی ترمیم کے دوران ماہرین پورے گنبد کو ایک ہی دفعہ میں گرانے کے بجائے پہلے آدھا میٹر توڑتے تھے پھر اس کو بناتے تھے ۔ اس کے بعد آگے توڑتے تھے ا س طرح اس طریقے سے پورے گنبد کاکام مکمل کرتے تھے اسکی وجہ یہی تھی کہ دونوں گنبدوں کی اصل شکل باقی رہنے کے ساتھ خوبصورت کاشانی ٹائل کو نقصان نہ پہنچے جو گنبد کے داخلی حصے کو مزین کیا ہوا ہے۔نچلے گنبد کے طلائی رباط کو نقصان پہنچنے کی وجہ سے گرایاگیا تھا پھر دوبارہ جدید رباط لگایا جسے قرآنی آیات سے مزین کیا ہوا ہے۔''

۱۳۵۹ھ / ۱۹۴۰ ء سے قبل فرشِ روضہ مبارک پر سفید رنگ کے سنگ مرمر بچھے ہوئے تھے جو نجف اشرف کے جنوب سے بمقام ''مظلوم ''سے لایا گیا تھا لیکن اسی سال بوہری امام طاہر سیف الدین نے اعلیٰ قسم کی اٹلی کے سنگ مرمر میں تبدیل کیا جسے شیخ جعفر محبوبہ نے اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔ شیخ محمد حسین حرز الدین کے مطابق مذکورہ امام صاحب نے قبر مطہر میں ایک چاندی کی کھڑکی بھی نصب کروائی تھی جبکہ ڈاکٹر حسن حکیم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے روضہ مبارک کیلئے انتہائی قیمتی سنگ مرمر ۱۹۳۷ ء کو ہدیہ کیا تھا۔

یوں تو روضہ مبارک ۱۲۰۴ ھ / ۱۷۹۰ ء میں ہی کاشانی طرز کے آرائش سے مزین کیا ہوا تھا اور روضہ مبارکہ چاروں اطراف میں دیواروں پر نیچے سے اوپر تک تزئین و آرائش کا مجسمہ بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر مختلف فنی اشکال و جیومیٹریکل اشکال بنی ہوئی ہے۔ شیخ محمد حسین کے مطابق اس تزئین و آرائش کے اخراجات کس نے کی اس کا کوئی نام درج نہیں ہے سوائے یہ کہ اس تعمیر نو کی تاریخ ابجدی حساب میں جنوبی طرف بالائے سر کی جانب چار میٹر کی بلندی پر لکھا ہوا ہے۔

ایرانی شاہ محمد رضا پہلوی نے بارہ ہزار دینار روضہ مبارک کی شیشہ کاری کے لئے وقف کئے تھے اور ماہ شعبان ۱۲۶۹ھ /۱۹۵۰ ء میں قدیم شیشوں کو اکھاڑنا شروع کیا گیا اور گنبد کا گردن کے نیچے بارہ مثلث کی شکل ہے جس میں ہر شکل مثلث میں بارہ اماموں کے اسمائے گرامی کی کتابت بڑے خوبصورت انداز میں کی ہوئی ہے اور شیشہ کاری کا یہ عمل ۲۶جمادی الاوّل ۱۳۷۰ھ / ۱۹۵۱ ء تک جاری رہا اس فن کا نظریہ حسین کیانفر نے پیش کیا جبکہ اسے عملی جامہ حاجی سعید نجفی نے پہنایا۔ اس علامت کی تاریخ فارسی کے شعر میں موجود ہے جو روضہ مبارک کے دائیں جانب مشرقی دروازے کی دیوار پرلکھا ہواہے لیکن پرانے سابقہ مآ خذ میں دوسری تاریخیں ابجدی حساب کے عدد میں لکھی ہوئی ہیں جو بعض شعراء کی طرف اشارہ ہے جن میںشیخ عبد المنعم الفرطوسی بھی شامل ہے۔

بیرونی گنبد پر باہر سے کاشانی ٹا ئلیں لگی ہوئی تھی یہاں تک کہ نادر شاہ کے عہد ۱۱۵۶ھ بمطابق۱۷۴۳ ء تھا پھر انہوںنے ان تمام تختیوں کو طلائی مربع شکل میں جن کی لمبائی ۲۰سینٹی میٹر ہے ان ٹائلوں کی کل تعداد ۷۷۷۲ہے اس طلائی عمل میں بے تحاشہ اموال خرچ ہوا ہے اور دو سو(۲۰۰)کے قریب کارمندوں نے شرکت کی جن میں مختلف ممالک عربی، فارسی، ترکی، چینی

ماہرین تھے۔ ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق اس پر تقریباً ۵۰ملین دینار خرچ ہوا جبکہ شیخ جعفر محبوبہ نے مختلف تواریخ سے نقل کیا ہے کہ اس کار خیر پر تقریباً ۰۰۰ ۵تومان خرچ ہوا پھر وہ اپنی کتاب کے حاشیہ میں لکھتے ہیں کہ مذکورہ رقم صرف کام کی اجرت ہے جبکہ پیتل، طلاء ، جو نادرشاہ نے دی تھی وہ الگ ہے اور آگے وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ ایک شاہی تومان سو تومان رائجہ کے برابر ہے ۔ عزّاوی کے مطابق ایک تومان دس ہزار دینار کے برابر ہے اور ہر دینار چھ درہم کے برابر ہے ، ایک جرمنی سیاح NABUR جب ۱۷۶۰ ء میں نجف اشرف پہنچا تو اس زمانے میں ایک چوکور پیتل کی تختی پر طلاء چڑھانے کی مزدوری ایک طلائی تومان سے زیادہ ہوتا تھا ۔ روضہ مبارک ، رواقوں، اور طلائی ایوان کی دیواروں پر خوبصورت اٹلی کے سنگ مرمر لگنے سے قبل ریشم کے پردے لگے ہوئے تھے ایک بادشاہ حرم مبارک میں زیارت کے لئے آئے تو انہوں نے سنگ مرمر کے ٹائل لگوائے۔

مرقد مطہر کی جالی

مرقد کی کھڑکی کے حوالے سے صحیح تاریخ معلوم نہیں کہ یہ سب سے پہلے کب نصب ہوئی؟ ہاں!تاریخ کی کتابوں میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ۱۰۷۳ھ/۱۶۶۳ ء سے قبل قبر مبارک پر کھڑکی تھی اور اسی سال ایک وبائی مرض میں مبتلا خاتون صاحب مرقد کی برکت سے شفا یاب ہوئی تھی اس حکایت کو علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار میں بیان کیا ہے لیکن ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق سب سے پہلی کھڑکی کی خوبصورتی اور فن اسلوب دسویں صدی ہجری عہد صفوی میں ملتا ہے اور مذکورہ کھڑکی ابھی تک روضہ مبارک کی اسٹورمیں محفوظ ہے۔ اس حوالے سے شیخ جعفر محبوبہ اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ وہاں صندوق میں ایک لوہے کی فولادی کھڑکی رکھی ہوئی ہے کیونکہ اس کے بعد چاندی کی لگی تھی پھر اس کے کئی مرتبہ اصلاحات ہوئی اسی طرح ایک مرتبہ ۱۲۰۳ھ میں بھی اصلاحات ہوئی تھی۔ ''کتاب تحفة العالم ''میں نقل ہوا ہے کہ مذکورہ کھڑکی کی تعمیر سلطان محمد شاہ قاچاری نے اس طرح کی تھی کہ انہوں نے ایران میں ۱۲۱۱ھ بمطابق ۱۷۹۷ ء میں یہ کھڑکی بنواکر کر علامہ آقا محمد علی الہزار جریبی کے ہمراہ نجف اشرف میں بھجوائی تھی اور مذکورہ کتاب کے حاشیے میں یہ درج ہے کہ موصوف آقا نے ۱۲۶۲ھ /۱۸۴۶ ء میں وفات پائی اور ایوان العلماء میں دفن ہوئے لیکن ان کی حالات زندگی ایک اور کتاب ''تکملة امل الآمل ''میں بھی بیان ہوئی ہے اس کے مطابق قمشہ فارس میں ۱۲۳۵ھ کو وفات ہوئے اور شاہ سید علی اکبر کے مقبرے کے پاس دفن ہوئے ۔ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں یہ اشارہ کیا ہے مرقد مطہر پر ۱۲۰۲ھ /۱۷۸۸ء میں نصب ہوئی تھی تاہم یہ بات انہوں نے ''العالم العربی'' نامی ایک اخبار میں ۶-۶-۱۹۴۲کو چھپے ہوئے ایک مضمون پر اعتماد کرتے ہوئے بیان کیا ہے ۔ جبکہ شاہ محمد خان قاچاری نے ۱۲۰۳ھ / ۱۷۸۹ ء کو اس کی تعمیر کی تھی لیکن الکوفی اپنی کتاب ''نزہة الغریٰ ''میں نقل کرتے ہیں کہ ۱۲۰۲ھ میں روضہ مبارک پر چاندی کی کھڑکی نصب تھی پھر ۱۲۰۳ھ میں اس کی تعمیر ہوئی اس کے بعد ۱۲۰۵ھ میں دوبارہ تعمیر ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ سلطان محمد شاہ بن عباس شاہ کے وزیر عباس قلی خان نے ۱۲۶۲ھ /۱۸۴۶ ء میں روضہ مبارک کے لئے ایک نئی جالی ہدیہ کی تھی جس کے اطراف میں بالائی محرابوں پر قرآنی آیات، آئمہ کرام کے نام اور فارسی اشعار امام علی کی شان میں لکھے ہوئے تھے اور چاروں کونوں کے اوپر خالص طلائی گول گنبد بنی ہوئی تھی ۔ پھر مشیر سیّد محمد شیرازی نے بھی اسے چاندی میں تبدیل کیا اس کے دروازے پر اپنا نام اورتاریخ تعمیر بڑے سنہرے حروف میں لکھوادی۔ یہاں پر شیخ محمد حسین اپنی تاریخ میں یوں بیان کرتے ہیں کہ

''ہم نے اسی کھڑکی کو وہاں پر نصب ہوا دیکھا اور مذکورہ کتابت پڑھی اور اس کی بناوٹ لاثانی تھی جس پر قرآنی آیات اور احادیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کمال دقت کے ساتھ نقش کی ہوئی تھیں اور اس کے ساتھ ابن ابی الحدید معتزلی کے قصیدے چند اشعار اور ایک شاعر شیخ ابراہیم صادق عاملی متوفی ۱۲۸۸ھ بمطابق۱۸۷۱ ء کے چند اشعار کھڑکی کے سامنے اور بالائے سر کی جانب والے حصوں پر سنہرے حروف سے لکھے ہوئے تھے۔ ''

کہا جاتا ہے کہ یہ کھڑکی ۱۳۶۱ھ / اپریل ۱۹۴۲ ء میں اکھاڑکر صحن شریف کے جنوب مشرقی جانب ایک کمرے میں رکھی کی گئی اور پھر ۲۵سال بعد اسے حرم کے دوسرے نوادرات کے ساتھ مخصوص اسٹور میں منتقل کی گئی۔

موجودہ کھڑکی کی جالی

اگر چہ شیخ جعفر محبوبہ اور ڈاکٹر سعاد ماہر نے سابقہ کھڑکی کو اس کی خوبصورتی اور دقیق فن آرائش کی وجہ سے باقی کھڑکیوں پر فضیلت دی ہے لیکن اس کے باوجود موجودہ کھڑکی کی بڑائی اہل بیت کے مراقد کی تمام کھڑکیوں سے قیمتی، خوبصورتی، طرز بناوٹ کے لحاظ سے زیادہ ہے اور پوری دنیا میں تمام مشہور تحفوں سے بڑا ہے اور دیکھنے والا ان اہل فن و ماہرین کے احترام کئے بغیر نہیں رہ سکتے جنہوں نے ان منفرد و ممتاز تحفے کو وجود میں لایا جس کی خوبصورتی قلم بیان کرنے سے قاصر ہے ۔

اس نادر تحفے کو ہندوستان کے بوہری امام طاہر سیف الدین نے ہدیہ کی تھی اور اس کے بنانے اور طلائی کرنے میں ہندوستان کے مشہور ماہرین نے شرکت کی تھی اور اس کار خیر کو انہوںنے پانچ سال کی مدت میں مکمل کیا۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس پورے عمل پر دس ملین گرام چاندی اور۵۵۵۲گرام سونا خرچ ہوا تھا اور اس زمانے کے لحاظ سے یہ اسّی ہزار دینار کے برابر ہوتا تھا اور یہ جالی دار کھڑ کی روضہ مقدس کے ۳۰سینٹی میٹر بلند نفیس اٹلی کے سنگ مرمر پر نصب کی گئی تھی اور اس کھڑکی کے لئے بالکل جنوب مشرق میں پرانے جالی دار دروازوں کی طرح ایک چاندی کا دروازہ ہے اور یہ صرف عظیم الشان علماء ، ملوک، سلاطین، کے لئے کھلتا ہے ، مرقد مطہر پر ایک صندوق بھی ہے جو اس دروازے سے تقریباً ایک میٹر کے فاصلے پر ہے اس کے مختلف تالے لگے ہوئے ہیں ۔ آج کل یہ ہر مہینے میں صرف ایک بار حرم کی کمیٹی کے ارکان کے سامنے کھلتا ہے اور ان کے ساتھ ایک قاضی بھی شامل ہوتے ہیں پھر وہاں موجود تمام نذورات کو نکالا جاتا ہے اور پلاسٹک کے تھیلوں میں ڈالا جاتا ہے اس کے بعد دوبارہ مضبوطی سے یہ دروازہ بند کیا جاتا ہے اس کے یہ تمام نذورات کی فہرست تیار کرکے ایک رجسٹر میں لکھا جاتا ہے قاضی سمیت کمیٹی کے تمام افراددستخط کرتے ہیں۔پھر ان تمام چیزوں کی کسی خاص مقام میں صفائی کی جاتی ہے اس دوران خدام کا گروہ روضہ مبارک کے اندر و باہر اور مرقد مطہر کے تمام اطراف کی صفائی کرتے ہیں اس مناسبت سے بعض مہمان وہاں پر نماز و زیارت سے مشرف ہوتے ہیں ۔ راقم کو اس اعزاز بڑی لمبی مدت بیٹھنے کا شرف حاصل ہوا تھا جب ۱۳ذی القعدہ ۱۴۲۹ھ / ۱۲-۱۱-۲۰۰۸کو بعض مہمان کے ہمراہ کمیٹی کے بعض افراد کے ساتھ روضہ مبارک کے اندر داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا اور میں اسی کھڑکی سے وہاں موجود صندوق کی طرف داخل ہوا اور سر امیر المومنین کے پاس نماز ادا کرنے کی توفیق حاصل ہوئی اور میرے اندر اس مناسبت سے ایک روحانی اثر داخل ہوا جسے میری زبان و قلم بیان کرنے سے عاجز ہے۔

ڈاکٹر حسن حکیم اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں ۱۳رجب المرجب ۱۳۶۱ھ بمطابق ۲۷جون ۱۹۴۲ ء امیر المومنینـکی ولادت کی مناسبت کے موقع پر اس کھڑکی سے پردے ہٹائے گئے اور وہاں عظیم جشن کا اہتمام ہوا جس میں عراقی وزیر اعظم نوری سعیدی اور رکن پارلیمنٹ سید عبد المہدی المنتفکی نے بھی شرکت اور خطاب کیا اور بہت سارے قصیدے امام کی شان میں کہے گئے۔

روضہ مبارک سے متعلق تمام کتابوں میں محدثین نے شدید تعجب میں مبتلا ہو کر بڑی خوبصورت نعتیں کہیں اور یہ ہے بھی بجا کیونکہ یہ پوری دنیا کے خوبصورت فنی آثار میں شامل ہیں اور اس حوالے سے جو شیخ محمد حسین نے بیان کیا ہے میں ان پر اعتماد کروں گا کہ اس کے چاروں اطراف پٹیاں طلائی حروف سے یوں لکھی ہوئی ہیں:

پہلی پٹی

جو کہ سب سے نیچے ہے جس پر ہدیہ کرنے والا یعنی طاہر سیف الدین کا قصیدہ لکھا ہوا ہے اس کے بعد اس جگہ ابن ابی الحدید کے امیر المومنین کی مدح میں کہا ہوا قصیدہ لکھا یا ہے ۔ دراصل یہ کام ایران میں ہوا تھا کہ ایک چاندی کی پٹی پر آبگینہ آسمانی اور مختلف رنگوں میں لکھا گیا اور یہ لاکر متبرع امام طاہر سیف الدین کے قصیدے کے اوپر رکھا گیا اور یہ کام تمام فن کمالات سے پُر کیا ہوا ہے اور اس پٹی پر جگہ جگہ خوبصورت بیل بوٹوں کو مختلف رنگوں میں دکھایا گیا اور اس نقوش کے درمیان احادیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لکھ کر اسے اوج کمال تک پہنچایا گیاہے۔

دوسری پٹی

اس پر قرآنی سورتوں کی کتابت ہوئی ہے جو کہ سورة الدہر جنوب مغربی رکن سے شروع ہوتی ہے پھر اس کے بعد سورة الغاشیة، سورة الانشراح، سورة الکوثر، سورة الاخلاص، اور آیة الکرسی پر ختم ہوتی ہے۔

تیسری پٹی

یہ دوسری پٹی کے اوپر ہے اس پر امیر المومنین اور آئمہ معصومین کی شان میں احادیث کی کتابت ہوئی ہے جو جنوب مغربی رکن پر ختم ہوتی ہے اور آخر میں یہ عبارت درج ہے:

'' عبد اﷲ وعبد ولیّه ا میر المومنین الدّاعی لی حبّ آل محمّد الطّاهرین ابو محمد طاهر سیف الدّین من بلاد الهند سنة ١٣٦٠ه / ١٩٤١ ئ''

اور اس پٹی کے نیچے چاندی پر ایک زرکش ہے جو انگور کے درخت اور بیلوں اور بڑے واضح گچھوں کا خاکہ پیش کرتا ہے اور اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے ستوں پر لمبائی میں ۲۸تاج جبکہ چوڑائی میں ۲۲تاج ہیں اور ہر تاج کے درمیان میں اسمائے حسنی سنہرے حروف سے لکھا ہوا ہے۔

چوتھی پٹی

اس پر سورة مبارکہ الرحمن کی کتابت ہوئی ہے اور بالائی جالیوں کے شرفوں کو بڑے بڑے طلائی گولوں سے مزین کیا ہوا ہے ان کی تعداد لمبائی عدد جبکہ چوڑائی میں ۲۲عدد گولے ہیں اور جالی مغرب کی طرف لمبائی میں پانچ چھوٹے چھوٹے پنجرے لگے ہوئے ہیں جبکہ چوڑائی میں چار چھوٹی جالیاں لگی ہوئی ہیں۔

صندوق مر قد مطہر

اس میں کوئی شک نہیں کہ مرقد مطہر پر درمیان میں گنبدیں ہیں شاید یہاں صندوق رکھنے کا رواج بہت پرانا ہے اس کا ذکر ابن بطوطہ نے ۷۲۷ھ / ۱۳۲۷ ء میں کیا ہے ''گنبد کے درمیان ایک چوکور بینچ ہے جوکہ لکڑی سے ڈھانپا ہوا ہے ۔ اس کے اوپر منقوش طلائی سلیٹ مضبوطی سے لگی ہوئی ہے پھر اسے چاندی کی میخوں سے اور زیادہ مضبوطی سے رکھی ہوئی ہے اور اس کے اوپر زیادہ لکڑی ہونے کی وجہ سے کوئی چیز زیادہ ظاہر نہیں ہوتی اور اس کی بلندی ایک قد سے کم ہے ''اور یہ بدیہی بات ہے کہ یہ مذکورہ بینچ اس تاریخ سے قبل مرقد مطہر پر نصب تھا اور یہ بھی واضح ہے کہ اس سے پہلے بھی ابن بطوطہ نے اس طرح کی بینچ مختلف عمارتوں میں دیکھی تھیں۔

اور یہ بھی واضح ہے کہ جس بنچ کوابن بطوطہ نے بیان کیا تھا وہ ۷۵۵ھ /۱۳۵۴ ء کو روضہ مبارک کو آگ لگنے کی وجہ سے تبدیل ہوا تھا اور پھر حسن الجلائری نے اسے بھی روضہ مبارک کے ساتھ دوبارہ تعمیر نوکی لیکن یہ نہیں معلوم کہ اگر اس صندوق کی تجدید ۷۵۵ھ /۱۳۵۴ ء کے درمیان ہوئی ہے کیونکہ جو صندوق ۷۵۷ھ/ ۱۴۵۳ ء میں مرقد مطہر پر تھا اسے مشعشع نے نجف اشرف میں داخل ہوتے وقت توڑا تھا توضروری ہے کہ اس کے یہاں سے نکلنے کے اور خطرہ ٹلنے کے بعد اس صندوق کی دوبارہ تعمیرنوہوئی ہو لیکن یہ نہیں معلوم کہ کس نے اس عمل کو انجام دیا اور اس دوران مرقد مطہر پر جالی نصب کرنے والا بھی معلوم نہیں ۔ اس حوالے سے پہلے صندوق ہدیہ کرنے والے کے بارے میں ہمیں ۱۹۱۴ ء میں پتہ چلتا ہے جیسا کہ ڈاکٹر علی الوردی نے اپنی کتاب''تاریخ کے عراق کے لمحات اجتماعیہ''میں محمد جواد المغنیہ کی کتاب ''تاریخ میں شیعوں کی حکومت ''سے نقل کیا ہے شاہ اسماعیل نے اس سال بغداد کو فتح کرنے کے بعد عتبات مقدسہ کی زیارت کا رخ کیا تو انہوں نے نجف ، کربلا، کاظمیہ، سامراء میں آئمہ اطہار کے روضہائے مبارک پر پرانے صندوقوں کو تبدیل کرواکے نئے صندوق رکھنے کا حکم دیا پھر ایک اور صندوق کی طرف ۱۱۲۶ھ / ۱۷۱۴ ء میں موجود ہونے کا اشارہ ملتا ہے جیسا کہ شیخ محمد حسین حرزالدین نے شیخ محمد جواد عواد کے حالات زندگی کے ذکر میں بیان کیا ہے کہ'' ان کا ایک مجموعہ مخطوطہ کتب کا ہے اور ان مجموعوں میں ان کا ایک قصیدہ بھی ہے جن میں انہوںنے وزیر حسن باشاہ کی مدح کی ہے جنہوں نے مرقد مطہر امیر المومنین پر ایک قیمتی صندوق ۱۱۲۶ھ / ۱۷۱۴ ء میں بنواکر رکھوایا تھا۔

لیکن اس میں انہوںنے کوئی قدیم صندوق کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ ہی کوئی جدید صندوق کا تو ہمارا خیال ہے جو بینچ ابن بطوطہ نے وہاں دیکھا ہے اس سے پہلے اور بعد میں مرقد مطہر پر مختلف صندوق رکھے گئے ہیں۔

جیسا کہ شیخ محمد حسین اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ۱۲۰۲ھ /۱۷۸۸ء میں محمد جعفر بن محمد صادق نامی ایک شخص نے روضہ مبارک پر ایک صندوق رکھا تھا جس پر یہ لکھا تھا کہ ''اس صندوق کو رکھنے کا شرف توفیق اللہ تعالیٰ اور اس کے ولی و اولیاء کیلئے نہایت ادب و خلوص کے ساتھ سگِ عتبہ علی امیر المومنین علی بن ابی طالب محمد جعفر بن محمد صادق ادام اللہ تا ئیدہ کو ۱۲۰۲ھ بمطابق ۱۷۸۸ء میں ہوا ہے اور آخر میں ان کے دستخط کے بعد عمل بندہ خاکسار محمد حسین نجار شیرازی ہے اور اسے محمد بن علاوء الدین محمد الحسینی سال ۱۱۹۸ھ / ۱۸۸۴ء نے کتابت کیا ہے۔ ''مذکورہ صندوق کو صندوقِ خاتَم کہا جاتا ہے اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کیونکہ اس کی نوعِ صناعت کو ''فن خاتمی ''کہا جاتا ہے اور اس عظیم فن کے حوالے سے ایران کے شہر اصفہان مشہور ہے۔ لیکن جوصندوق وہاں ہے وہ ایک نایاب لکڑی جو ہندوستان میں پائی جاتی ہے اس سے بنا ہوا ہے اور اس کے اوپر گوہر، عاج، ابنوس، صندل کے نقوش بنے ہوئے ہیں اور مختلف طرز میں عربی عبارت کندہ کی ہوئی ہے اس کے بالائی حصہ جنوبی جہت میں سورة الدھر کی کتابت سفید عاج سے کی ہوئی ہے پھر طلاء اور نقرہ کی پالش کی ہوئی ہے۔

اس کے علاوہ سورة القدر اور سورة الاعلیٰ کی کتابت بھی اسی طرح کی ہوئی ہے اور دو انگلیوں کے فاصلے پر یہ آیت لکھی ہوئی ہے۔( اِنَّ الَّذِیْنَ یُبَایِعُونَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوْنَ اللهَ یَدُ اللهِ فَوْقَ اَیْدِیْهِمْ ) اور اس صندوق کی مشرقی سمت میں بالائی جانب سورة النّباء ،نیچے کی جانب سورة العادیات جبکہ جنوبی سمت میں سورة الملک اور بالائے سر کی جانب خطبہ حجة الوداع امام صادق کی روایت سے لکھا ہوا ہے اس کے بعد تسلسل کے ساتھ ان کے فرزندان معصومین کی شان میں احادیث نبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لکھی ہوئی ہیں۔ اسکے علاوہ اسی جہت میں حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ قول بھی ہے کہ'' یَا عَلِیُ اَنْتَ اَخِیْ وَاَنَا اَخُوْکَ'' یہ صندوق علی مراد خان کے حکم سے بنا تھا۔

جیسا کہ شیخ محمد حسین نے ایک فارسی کتاب سے نقل کیا ہے لیکن علی مراد خان یہ کام مکمل ہونے سے قبل مر گیا پھر ان کے بیٹے جعفر خان نے یہ کام شروع کیا لیکن وہ بھی یہ کام مکمل نہیں کرسکا اور مرگیا تو ان کے بیٹے لطف علی خان بن جعفر خان نے یہ کام مکمل کیا۔ اور اس کی ابتداء ۱۱۹۸ھ /۱۷۸۴ ء میں ایک نجار کے ہاتھوں ہوا تھا جس کا نام اسی صندوق پر مذکورہ ہے جبکہ اس پر کتابت کرنے والے خطّاط کا نام بھی مذکور ہے اس کے بعد شیخ محمد حسین بیان کرتے ہیں کہ '' اس صندوق کو میں نے ۱۳۶۱ھ /۱۹۴۲ ء میں دیکھا تھا جب روضہ مبارک سے فولادی پرانی جالی اور چاندی کی جالی اکھاڑدی گئی تھی اور اس کی جگہ نئی جالی لگی اسے ہند کے بوہری امام نے وقف کیا تھا اس کام کو صندوق سے گردو غبار ہٹاتے ہوئے جاری رکھا۔ ''

شیخ جعفر محبوبہ نے بھی اپنی کتاب ''نجف کے ماضی اور حال ''اس حوالے سے گفتگو کی ہے کہ

''میں اس صندوق کو ۱۳۶۱ھ /۱۹۴۲ ء میں اس وقت دیکھ چکا تھا جب روضہ مبارک کی چاندی کی جالی کی تبدیلی ہورہی تھی۔ ''

لیکن انہوں نے سابقہ صندوق اور اس صندوق کے درمیان خلط کیا ہے اور یہ شاید یہ خلط مطلب ان کی کتاب سے موسوعہ النّجف میں نقل ہوا ہو۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بھی اپنی کتاب ''مشہد امام علی '' میں بیان کیا ہے اس کے علاوہ روضہ مبارک سے متعلق تمام کتابوں میں یہ بحث آئی ہے۔

ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ استاذ علی خاقان نے اپنی کتاب ''شعراء الغری ''میں یوں بیان کیا ہے:

''میں نے اس خاتم(صندوق)کو چاندی کی جالی کی تبدیلی کے موقع پر دیکھا اس دوران میں قریب جاکر اسے چھو بھی چکا ہوں اگر میں یوں کہوںتو مبالغہ نہیں ہوگا۔ اس صندوق کا حجم لمبائی میں ۶فٹ ۳سینٹی میٹر، اور چوڑائی ۱۰فٹ۳ سینٹی میٹر ہے اور عرض ۳میٹر۳ سینٹی ہے۔ جبکہ اس کی بلندی ۱میٹر۸۳ سینٹی میٹر ہے ۔''

ڈاکٹر حسن وغیرہ بیان کرتے ہیں کہ اس صندوق کے اوپر ۱۳۶۱ھ / ۱۹۴۲ ء میں شیشے کے پلیٹ چڑھا کر اس کی خوبصورتی کو دوبالا کردیا گیا صندوق اور اس کی تاریخ کے بارے میں بہت سارے شعراء کے قصائد اور اشعار ہیں، اللہ نے مجھے یہ توفیق دی کہ میں مرقد میں جالی کے دروازے سے داخل ہوکر سر امام کے نزدیک نماز پڑھی ، اُس دوران میں نے وہاں ایک عجیب امتزاج پایا کہ اس جگہ کی قد سیت اور فنی خوبصورتی کو کسی بھی آنکھ نے اس کائنات میں نہیں دیکھا ہو گا۔ یہ واضح ہے کہ مرقد مطہر کا صندوق قدیم زمانے سے مرور ایام کے ساتھ مختلف غلاف اس کے اوپر چڑھتے گئے ان میں سے بعض روضہ مبارک کے اسٹور میں موجود ہیں۔ لیکن شیخ محمد حسین نے ایک ایسے قدیم غلاف کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس کی انہوں نے یوں تعبیر کی کہ اس کپڑے پر سونے اورچاندی کے تار سے موتیوں سے پرویا ہوا کپڑا تھا، جو کہ عہد بویہی کی طرف پلٹتا ہے اور وہ مزید آگے کہتا ہے کہ شیخ علی شرقی نے اس غلاف کو احمد شاہ قاچاری کی زیارت کے دوران عراق پر برطانیہ کے قبضے کے ایّام میں دیکھا تھا اور کہا جاتا تھا کہ یہ عضد الدّولہ البویہی کے تحائف میں سے تھا، جسے انہوں نے روضہ مبارک کیلئے وقف کیا تھا ڈاکٹر سُعاد ماہر کے مطابق یہ غلاف روضہ مبارک کے مہنگے ترین تحائف میں شامل ہے۔

شیخ محمد حسین نے قلقشندی کی کتاب ''صبح الاعشی ''سے نقل کیا ہے کہ سب سے پہلے حجر النبویصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو حسین بن ابی الہیجا نے غلاف ہدیہ کیا تھا اور موصوف آخری خلفاء فاطمین کے وزیر صالح بن زریک کے داماد تھے، اور یہ غلاف سفید دھاگے سے بُنا ہوا ہے۔ جس کے اوپر مکمل سورہ یٰسین کی کتابت ہوئی ہے۔

عباسی خلیفہ مستضی باللہ نے بنفشی ابوریشم کا ایک پردہ جس کے اوپر خوبصورت ڈیزائن بنے ہوئے تھے جس کے اندر مستضی باللہ کا نام لکھا ہوا ہے۔ روضہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے بھیجا گیا۔ تو پرانا غلاف وہاں سے اُتار کر مشہد امیرالمومنین علی ابن ابی طالب کے لئے بھیجا گیا اور مستضی باللہ کا پردہ روضہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر چڑایا گیا۔

روضہ مبارک کے تجوری کی حالت اور اس کی تا ریخ

شہر نجف اشرف کے بعض صالح افراد نے مختلف مناسبات میں روضہ مقدس کیلئے ایک اسٹور کی ضرورت کا شدت سے اظہار کیا تاکہ نوادرات و تبرکات کی حفاظت کی جائے۔ روضہ مبارک کے نوادرات کے ضائع ہونے کے مختلف اسباب ہیں مثلاً

مدحت پاشاہ کے زمانے میں ان میں سے بعض نوادرات یہ کہہ کر فروخت کئے گئے کہ ایران اور نجف اشرف کے درمیان ریلوے لائن بچھائی جائے گی تاکہ زائرین امام کے لئے سہولت حاصل ہو۔

اس ارث کی حفاظت کرنے والوں کی ایک رائے یہ تھی کہ بعض ہاتھوں کو اس کی اہمیت کا اندازہ نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہونے کا خطرہ رہا اور ضائع ہوتے رہے۔

ان تمام نوادرات کی جدید طریقوں سے حفاظت نہیں کی گئی شاید اسی لئے آج ان تبرکات و نوادرات کی تعداد بہت کم ہے کیونکہ مختلف کیڑے مکوڑے آفات، رطوبت، شدید خشکی کی وجہ سے کچھ خراب ہوئے جبکہ بعض دوسرے زنگ لگنے کی وجہ سے، گلنے سڑنے کی وجہ سے ضائع ہوئے پھر ان امانات کی طرف کچھ ایسے ہاتھ بھی بڑھے جنہوں نے اس امانت میں خیانت کی اور ان امانتوں کو دوسروں کے ہاتھ تحفتاً یا قیمتاً دے دیا ۔ اس کی بہترین مثال ہمارے پاس کتب خانہ امیر المومنین کی حالت ہے جس میں بعض محققین نے دنیا کی قیمتی کتب خانوں سے کتابیں لاکر جمع کی تھیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اس کتب خانہ کیلئے سب سے پہلے عضد الدّولہ نے کتابیں وقف کی تھیں اور سیّد ابن طاووس نے بھی۔ اب اس کتب خانہ کے ۱۹۷۰ ء میں اصلاح کے بعد ۷۵۲کتب مخطوط میں سے ۱۵۲کتابیں بچی ہیں۔ اسی طرح کتب خانہ کے بہت سارے نوادرات ضائع ہوئے۔

اس حوالے سے محمد ہادی امینی نے موسوعہ نجف اشرف میں (خزانہ حرم شریف میں موجود تحائف)کے موضوع پر ایک مقالہ لکھا تھا جو شائع ہوا۔ میں اس کی بعض عبارات کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں وہ لکھتے ہیں کہ ''بعض اہل نجف بیان کرتے ہیں کہ کتب خانہ علوی کے شلف میں ہزاروں کتابیں تھیں جن میں قرآن کریم کے نسخے اور کتب ادعیہ و اوراد وغیرہ شامل تھیں لیکن بعض ناپاک ہاتھوں نے ان نفیس کتابوں کو ضائع کیا۔ آج کل تقریباً ۴۰۰نسخوں کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور یہ بعد میں پتہ چلا کہ ان میں سے بعض نسخے بھی لوگوں کے گھروں میں چلے گئے تھے اور کچھ لوگوں کے پاس آج تک ان کے کتب خانوں میں موجود ہیں اور بہت سارے نسخے دوبارہ پرانے اوراق خریدنے والوں کے پاس سے نکل آئے جو انہیں کوڑیوں کے دام فروخت کئے گئے تھے اور نہیں معلوم کہ ان تک یہ کتابیں کہاں سے اور کیسے پہنچیں؟''

وہ مزید بیان کرتے ہیں کہ جو اس حوالے سے مزید جاننا چاہتا ہے وہ اس مقالہ کا ملاحظہ کرے۔ اس حوالے سے جہاں تک میری معلومات ہیں کہ وقف شدہ اشیاء کو شریعت کے بیان کردہ اسباب کے علاوہ فروخت کرنا جائز نہیں ہے لیکن نہیں معلوم اس کتب خانہ سے کتابیں پہلے عاریةً پھر انہیں بیچا جانا کیسے جائز ہوا؟

اس موقع پر علامہ امینی نے بھی بعض حکایات خزانہ امیر المومنین کے بعض تحائف کے بارے میں بیان کی ہیں جن میں سے بعض تحائف قصر عبدالالٰہ میں، تو بعض قصر نوری سعید پہنچے ہیں یہاں تک بعض تو مختلف مناسبات میں لوگوں کو بطور ہدیہ پیش کرتے ہیں جو کہ نہ شرعاً اور نہ ہی قانوناً جائز ہے شاید اس سے بھی زیادہ لوگوں کی نظروں سے غائب ہو۔

مرحوم جعفر الخلیلی موسوعہ عتبات مقدسہ کے نجف سے مخصوص حصے کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ ایک فانوس جو انتہائی قیمتی پتھروں سے سجایا ہوا ہے اور روضہ مبارک کے اندر ایک طلائی زنجیر کے ذریعے بالکل وسط میں لٹکایا ہوا ہے پچھلی صدی میں ایک چور کے ہتھے چڑھنے والا ہی تھا کہ خداوند عالم کی عنایت شامل حال نہ ہوتی تو خزانہ روضہ مبارک کا ایک اہم نوادر ضائع ہوجاتا۔ اس طرح کے قیمتی فانوس کم از کم میں نے بہت ہی کم دیکھے ہیں۔

ڈاکٹر حسن کہتے ہیں کہ ''خزانہ روضہ مبارک ابھی تک اسی لئے پوشیدہ ہے محققین کے لئے وہاں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ ان میں سے بعض تو زیر زمین صندوقوں میں رکھے ہوئے ہیں اور بعض دوسرے ایسی الماریوں میں رکھے ہوئے ہیں جہاں پہنچنا مشکل ہے اس حوالے سے صرف اللہ جانتا ہے کہ وہ کس حالت میں ہیں؟

اور ہم باربار سنتے رہتے تھے کہ روضہ مبارک پر مامور خدام نے فلاں بادشاہ یا فلاں رئیس کو کوئی تلوار یا کوئی قیمتی مصحف ہدیہ کیا ہے لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ موصوف کے لئے یہ تصرف کیسے جائز ہوا؟ اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ اس تمام خزانے کو کسی ایک میوزیم میں نہ رکھنے کا نتیجہ ہے اور تمام وثیقہ جات وغیرہ کو رسمی طور پر تدوین نہ رکھنے کا لازمہ ہے کہ خدّام وغیرہ کو بھی ہر طرح کا تصرف حاصل ہے۔''

استاد محمد سعید الطریحی نے ۱۹۹۰ ء میں اس مضمون کو دوبارہ شائع کروایا تھا جس کو ایک مصری ماہر محمد الماحی نے اس وقت تیار کریاتھا جب وہ ۱۹۳۷ ء میں حکومت عراق کی دعوت پر عراق آئے تھے اور یہ یہاں کے میگزین کے پانچویں شمارے میں شائع ہوا تھا جو کہ ''عتبات مقدسہ کے تحائف کی صورتحال ''کے بارے میں تھا جس میں موصوف نے ان تحائف کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک اور کسی اچھے ادارے کا نہ ہونے کے بارے میں بیان کیا تھا۔ یہاں پر میں اپنا یہ فرض سمجھتا ہوں کہ ان خزانوں پر مامور افراد کی توجہ اس طرف مبذول کراوں کہ وہ ان خزانوں کی جتنا ممکن ہوسکے جلد از جلد حفاظت کرے اور یہاں میں موصوف کے کہے ہوئے ایک جملہ کا ذکر کروں جو انہوں نے اس خزانے کے ایک قالین کے بارے میں بتایا ہے جس کا سائز نو مربع میٹر ہے۔وہ کہتے ہیں کہ ''ان آثار کو اہمیت نہ دینے اور ان تحائف کے عظیم قیمتوں کے بارے میں اندازہ نہ کرنے کو دیکھ کر میں جس رنج و غم میں مبتلا ہوا جس کا میں اندازہ نہیں لگاسکتا ۔ اس کی مثال یہ ایک ہاتھ سے بُنا ہوا قالین ہے جو ریشم و اون سے بنا ہوا ہے جسے آج کل کے لوگ دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں اور وہاں پر ایسے پردے بھی ہیں جن کو موتیوں سے سجا یا ہوا ہے اور دوسرے وہاں پر موجود کپڑے وغیرہ بھی ہیں جن کی قیمت کا اندازہ بادشاہ اور کروڑ پتی افراد بھی نہیں لگاسکتے اور یہ چیزیں ایک ایسے کمرے میں پڑی ہوئی ہیں جہاں پر سورج کی روشنی بالکل بھی نہیں پڑتی، اس کمرے کے لئے صرف ایک چھوٹی سی کھڑکی ہے جہاں سے ہوا بھی داخل نہیں ہوتی اور یہ قیمتی کپڑے جمع کرکے ایک مرطوب جگہ میں رکھے ہوئے ہیں جو کیڑے مکوڑے لگنے کی وجہ سے ضائع ہورہے ہیں ۔ میں نے خود ہاتھ لگاکر دیکھا ان خوبصورت ریشمی قالینوں کی انتہائی خراب حالت تھی اور یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ یہ بے بہا چیزیں یوں ضائع ہورہی ہیں۔ اس مضمون کو آج سے ۷۰ سال پہلے محمد الماحی نے عراقی حکومت کو پیش کیا تھا، اس مضمون پر صحیح طریقے سے عمل درآمد نہیں ہوا اور وہاں موجود چیزوں کو صحیح طریقے سے رجسٹرڈ نہیں کیا گیا اور عتبات مقدسہ کے نوادرات کی مزید رجسٹریشن نہیں ہوئی اور ان کی صحیح طریقے Classification نہیں ہوئی اور اس حوالے سے یہ ایک رنج اور تعجب کا مقام ہے۔ جسے میں نے پڑھا اور وہ لکھتے ہیں ''کہ حرم امیر المومنین ، حرم حسین اور حرم عباس کے جو کمیٹی بنی ہوئی ہے۔ ان میں سے مدیر اوقاف کربلا نے ان نوادرات کی رجسٹریشن کی ذمہ داری لی تھی، اور انہوں نے ۱۵-۶-۱۹۳۶کو کربلا اور نجف میں موجود عتبات مقدسہ سے مدیر کو لکھا تھا کہ ان میں سے ہر ایک کے نوادرات کی چار چار کاپیاں بنائی جائیں۔ جن پر ایک دینار خرچ ہوگا اور اس نے گزارش کی کہ مذکورہ رقوم خرچ کرنے کی اسے اجازت دی جائے اور اس تاریخ کو ڈیڑھ سال گزرنے کے باوجود ان نوادرات کی کاپیاں مدیر اوقاف کربلا کی طرف سے موصول نہیں ہوئی ہیں۔''

ان تحائف کی حالت زار کو بیان کرنے کے لئے میں آپ کے سامنے روضہ مقدس کے ایک تحفے کی صورت حال نئے انداز میں کروں گا جس سے باقی تحائف و نوادرات کی حالت زار کا اندازہ بخوبی ہوگا۔ وہ ایک گلدان یا عود سوز ہے، جو الماس ، زبرجد یاقوت اور موتیوں سے خوبصورت انداز میں سجا ہوا ہے۔ جسے نادرشاہ نے ہدیہ کیا تھا اور ان مقدس پتھروں کی قیمت کا اندازہ لگانا ممکن نہیں اور آپ یہ بھی دیکھ سکتے ہیں کہ روضہ مبارک کے جالی نصب کرتے وقت کچھ تحائف کے حالت زار کا انکشاف ہوا۔

ان میں سے بعض کی قیمت کا تعین کوئی نہیں کرسکا ۔ اور یہ چیزیں اس وقت تک محفوظ نہیں رہتی جب تک انہیں شیشے کے صندوقوں میں اس طریقے سے نہ رکھا جائے کہ اُن پر ہوا لگتی رہے۔ میں یہاں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ یہ عجیب بات ہے کہ اس شہر کے اندر ایسے معتبر افراد بھی ہیں اس کے باوجود یہاں کی ثقافتی ورثے کی کما حقہ حفاظت نہیں ہوتی جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا روضہ مبارک کے خزانے کی حفاظت کے لئے کوئی بھی عراقی ماہر آثار اسلامیہ نے زحمت نہیںکہ اگر ایک مصری محققہ ڈاکٹر سعاد ماہر محمد اپنی وسیع کوشش کو بروئے کار نہ لاتی تو خزانہ روضہ مبارک کے اکثر نوادرات کے بارے میں کسی کو بھی معلوم نہیں ہوتا بلکہ اگر موسوعہ نجف اشرف ان کے بارے میں معلومات جمع نہیں کرتا اور اُسے جعفر دجیلی شائع نہیں کرتا تو بہت سارے لوگوں کے لئے ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب ''مشہد امام علی ''کے بارے میں بھی پتہ نہیں چلتا جسے دار المعارف مصر نے ۱۹۶۹ ء میں شائع کیا تھا اور اس کتاب کی دو جلدیں دوم و سوم مذکورہ موسوعہ میں شائع ہوئی ہیں اسی طرح اس میں بہت ساری بحوث و معلومات شہر نجف کی تاریخ، وہاں کے معروف افراد اور اس کے ساتھ روضہ مبارک کے بارے میں بہت ساری تعریف و ستائش ہے ۔ کیونکہ اس حصول کے لئے جو زحمتیں اُٹھائی ہیں، یقینا اس کار خیر کی جزاء اُسے ملے گی اور میرا خیال ہے کہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے ذریعے دُنیا و آخرت میں ایک سے زیادہ مرتبہ عزت حاصل کی کیونکہ انہوںنے خزانہ روضہ مبارک اور اس کی تاریخ کے بارے میں کوئی معمولی چیزیں ہمیں نہیں دیں۔ اس کام کی حصول کے لئے اُس نے کافی صعوبتیں برداشت کیں کہ خود خزانے میں داخل ہوئیں اور نوادرات کو دیکھا علامہ امینی اس خاتون کے بارے میں لکھتے ہیں کہ''اس خاتون نے گودام میں موجود تحائف کو دیکھنے کیلئے کافی صعوبتیں برداشت کیں کیونکہ وہ صرف رات کو ہی ان نوادرات کو دیکھتی تھی اور ان کی تصویر کھینچواتی تھی اور یہ عمل رات دس بجے سے صبح چار بجے تک ہوتا تھا ''اور وہاں پر ایسے بھی تحائف ہیں جن کے بارے میں موصوفہ ہمیں اطلاع فراہم نہیں کرتی جن میں سے بعض کی قیمت کاکوئی تعین نہیں کرسکتا۔

اس بارے میں وہ کہتی ہے ''روضہ حیدریہ کے حرم کے جنوبی رواق میں موجود ایک الماری کے اندر ان نوادرات میں بہت بڑی تعداد موجود تھی۔ جن کی تعداد ۲۰۲۰تحائف تھی ''موصوفہ نے ان میں سے بعض نوادرات کے بارے میںپڑھا جو خدّام کے پاس ایک رجسٹر میں محفوظ تھا کیونکہ یہ ہر ایک کے لئے نہیں کھولا جاتا جمہوری دور میں یہ صرف دو مرتبہ کھولا گیا تھا اور انہوں نے بعض نوادرات دوسرے گوداموں میں دیکھے۔

اس حوالے سے امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں اشارہ کیا ہے کہ روضہ مبارک کے اندر کل چار گودام ہیں ان میں ایک جنوبی مینار میں ایک کمرے کے اندر زیر زمین ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ گودام دور جدید میں صرف دو مرتبہ کھلا ہے پہلی مرتبہ سلطان ناصرالدین شاہ قاچاری کے لئے اس وقت کھو لا گیا جب وہ ۱۲۸۷ھ / ۱۸۷۰ ء حرم مقدس کی زیارت کے لئے آئے تھے ان کے ساتھ قیمتی پتھروں اور آثار کے ماہرین بھی تھے جبکہ گودام میں ان کے ساتھ عالم دین سید علی بحر العلوم اور مرقد مقدس کے خازن تھے اور انہیں دکھانے کے بعد فوراً دوبارہ بند کروایا گیا ۔ اس کے اندر صرف معدنی تحائف نہیں ہیں بلکہ بعض اہم مخطوطات اور قیمتی کتابیں بھی ہیں۔ ڈاکٹر علی الوردی اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں شاہ قاچاری نے جب روضہ مقدس کی زیارت کی تو انہوں نے وزیر مدحت باشا کو بھی ساتھ چلنے کو کہا تاکہ وہ اسے مرقد مقدس میں موجود خزانے کے بارے میں بتادے۔ مدحت باشا نے اسے وہاں موجود صحیفے، قدیم مخطوطے نکال کر دکھائے جو ان کی حفاظت نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہو رہے تھے اور یہ زیر زمین تھے۔'' مجھے نہیں لگتا کہ مخطوطات کو کسی دوسری جگہ منتقل بھی کیا گیا ہو بلکہ شاید ابھی تک وہیں پر پڑی ہوئی ہو کیونکہ الملکی کے زمانے میں اسے دوبارہ نہ کھولنے کا طے ہوا تھا ۔ اگر کھولا جائے تو صرف شاہی اجازت سے ممکن تھا اور دوسری مرتبہ یہ ۱۳۵۳ھ /۱۹۳۵ ء میں کربلاء کے گورنر صالح جبر کے لئے کھو لا گیا ان کے ساتھ چند نمائندہ علماء اور ماہرین اور خازن حرم تھے محمد ہادی امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں یہ لکھا ہے کہ'' اس واقع کے بعد ان تمام نوادرات کو انتہائی احتیاط کے سے محفوظ انداز میں روضہ مبارک کے اندر منتقل کیا گیا ہے جہاں پر ایک لوہے کے بڑے صندوق میں پہلے کپاس رکھا گیا پھر اس کے اوپر ان نفیس نوادرات کی پہلے ایک فہرست تیار کی گئی پھر ان کو ترتیب کے ساتھ رکھا گیا بعد ازاں وہاں موجود تمام افراد نے اس فہرست پر دستخط کی اور اس صندوق کو بند کرکے ایک اندھیرے کمرہ میں رکھا گیا ''۔ان میں ایک ماہر جو اس کمیٹی میں شامل تھے کہتے ہیں کہ ''اس خزانے میں موجودقیمتی نوادرات کے ایک ٹکڑے کی قیمت اتنی زیادہ ہے کہ اس سے نجف اور کربلا ء کے درمیان ایسی خوبصورت شاہراہ کی تعمیر ہوسکتی ہے جس کے فٹ پاتھوں پر ٹائلیں اور دونوں اطراف میں درخت لگائے جائیں اور راستے میں ان درختوں کی آبیاری کے لئے جگہ جگہ فوارے بنائے جائیں''۔ یاد رہے اس سڑک کے دونوں اطراف میں ٹائلوں کی بات کی ہے کیونکہ اس زمانے میں سڑکیں آج کی طرح نہیں تھیں اور اس کی سڑک کی لمبائی ۸۰ KM ہے ۔ اس حوالے سے یوسف ہرمز نے ایک مقالہ ''نجف میں دودن ''کے عنوان سے لکھا ہے جسے استاد محمد سعید الطریحی نے ۱۹۹۰ ء کے فصلنامہ میں دوبارہ شائع کیا ہے۔ مذکورہ گودام کو آخری دفعہ ۱۹۸۸ ء میں کھو لا گیا جیسا کہ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی سابق الذکر کتاب میں بیان کیا ہے کہ ''خزانہ حیدریہ بعض علماءے نجف اور روساء کے سامنے کھو لا گیا اور تمام موجود نوادرات کو ان کے فہرست سے مطابقت کی پھر دوبارہ اپنی جگہ رکھ دیئے گئے ''اور یہ بھی منقول ہے کہ نجف اور کربلاء کے خزانوں میں محفوظ طلاء و چاندی کا وزن سات ٹن ہے اور ان نفیس چیزوں میں زمرد سے بنا ہوا ایک چراغ ہے، خالص طلاء سے بنا ہوا فانوس ہے جو یا قوت سے مزین کیا ہوا ہے اس کے علاوہ موتی پرویا ہواایک قالین ہے۔ جب راقم نجف اشرف میں زیارت سے مشرف ہوا تو اپنے ایک دوست ڈاکٹر حمید رفیعی کو اس خزانے تک راقم کے ساتھ تعاون کرنے کی زحمت دی کیونکہ موصوف خدّام کے خاندان میں سے ہیں اور عراق پر اغیار کے قبضے کے بعد اور نجف میں جو واقعات رو نما ہوئے تھے موصوف بیان کر رہے تھے کہ اس وقت بھی روضہ مبارک میں کوئی چوری ڈکیٹی نہیں ہوئی کیونکہ اس دوران روضہ مبارک بالکل بند رہا۔ الحمدللہ!وہاں کوئی نقصان نہیں ہوا اور نہ ہی دوسرے خزانوں کو کوئی نقصان پہنچا۔

اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب امیر المومنین کی برکت کی وجہ سے ہے اس کے ساتھ روضہ مبارک کے خداموں کی امانتداری بھی اس میں شامل ہے اگر ان کی امانتداری اور برکت امیر المومنین جس کی اکثر خدّام اعتراف کرتے ہیں شامل حال نہ ہوتی تو ان نفیس اشیاء میں سے کوئی چیز بھی باقی نہ رہتی اور ان خدّام محترمین کی نجابت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عراق ایک ایسی پسادینے والی اقتصادی حالت سے گزرا لیکن پھر بھی ان میں سے کسی نے کوئی خیانت نہیں کی۔ لیکن اس کی وسعت کا اندازہ جو ہم نے وہاں دیکھا لگانا قدرے مشکل ہے اور وہاں آج کل کافی ترقی ہے اس کی وجہ ان دونوں شہروں نجف و کربلا ء میں مخفی حبّ و تقدیس ہے۔

مجھے میرے چچا زاد بھائی انجینئر صفاء الفرطوسی نے حال ہی میں روضہ مبارک کے نوادرات کی صفائی کے لئے جو کمیٹی بنی ہے ان میں سے نقل کرتے ہوئے کہا کہ روضہ کی توسیع نو کے دوران ایک جدید خزانہ کا انکشاف ہوا ہے جو آپ کے سامنے بعض ناگزیر حالات کو پیش کرتا ہے جسے دیکھ کر بہت رنج ہوتا ہے میں آپ کو یہاں اپنی اس عظیم سعادت کا ذکر نہیں کرنا چاہتا کہ جب مجھے معلوم ہوا کہ امانات عتبہ علویہ مقدسہ پر مامور افراد ان خزانوں کی طرف متوجہ ہوئے ہیں لہٰذا انہوں نے اس کیلئے کچھ محققین (جو اپنے علم و تقویٰ کے لحاظ سے مشہور ہیں) پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جو ان خزانوں کو علمی طریقے سے ترتیب دے اور میری درینہ خواہش تھی کہ یہ کام آثار قدیمہ کے ماہرین جو اسلامی ورثہ سے واقفیت رکھتے ہیں اور بعض دیگر اہل فن کے ساتھ مل کر اس کارخیر کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے۔

۲۵-۱۱-۲۰۰۸کو راقم نے اس جدید خزانے کی زیارت کی جو حدودِ صحن کے شمال مغربی جانب واقع ہے وہاں پر میں نے دیکھا کہ ہاتھ اور مشین سے بُنے ہوئے قالینوں کی جدید طریقے سے حفاظت کی گئی ہے۔لیکن جو سب سے زیادہ قیمتی قالین ہے وہ خزانے کے اندر بند ہیں اور یہ تمام امانتیں عتبہ علویہ مقدسہ کے امانتدار کی موجودگی کے بغیر کھولنا ناممکن ہے۔

جس گودام کو ابن بطوطہ نے ۷۶۲ھ / ۱۳۲۶ ء میں دیکھا اسکے بارے میں وہ یوں لکھتا ہے کہ ''یہ ایک بڑا گودام تھا جس کے اندر اتنے زیادہ اموال تھے جنہیں سنبھالا نہیں جاتا تھا ''ہم اس کی تاریخ تو نہیں بتا سکتے البتہ لگتا ہے یہ شیخ طوسی کے نجف اشرف میں داخل ہونے سے پہلے کے زمانے کا ہے کیونکہ اس زمانے میں حرم کی خدمت کیلئے جو متولی تھے وہ سیّد ابن طاووس کے مطابق شیخ طوسی کے داماد ابا عبد اللہ بن شہریار متوفی ۵۰۱ھ / ۱۱۰۸ ء تھے اور یہ اپنے زمانے کی جلیل القدر اور پرہیز گار عالم دین تھے ۔ مجھے لگتا ہے کہ یہ عضد الدّولہ البویہی کے زمانے سے قبل کا ہے لیکن اس خزانے کو ایک سے زیادہ مرتبہ نقصان پہنچا ایک دفعہ ۵۲۹ھ / ۱۱۳۵ ء کو اسے نقصان پہنچا تھا۔ اس حوالے سے شیخ محمد حسین حرز الدین نے اپنی کتاب میں ''مناقب آل ابی طالب ''سے نقل کیا ہے کہ عباسی خلیفہ مترشد باللہ نے کربلا میں حرم حسینی سے اور نجف سے اموال یہ کہہ کر اٹھالئے کہ قبر کو اموال کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور لے جاکر فوج پر خرچ کیا اور اس سے ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وہ خود قتل ہوا ''یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ جب بھی کوئی مراقد اہل بیت کے ساتھ برا سلوک کیا ہے اس کا انجام آخرت سے پہلے اسی دنیا میں ہی خراب ہوا ہے آپ کو تاریخ نے متوکل و مشعشع وغیرہ کے قتل ہونے کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔

ان نوادرات کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے ۵۷۲ھ / ۱۱۷۶ ء میں نجف اشرف کے ایک علمی شخصیت شیخ علی بن حمرہ ابن محمد بن احمد بن شہر یار نے اس کی ذمہ داری قبول کی تھی اس حوالے سے شیخ محمد حسین بھی بیان کرتے ہیں کہ یہ شخص نجف اشرف میں حرم علوی کے مشہور خازن تھے جنہوں نے احسن طریقے سے مشہد امیر المومنین کے خزانے کے ادارے کو چلایا وہ مزید یہ بھی کہتے ہیںکہ اس خزانے میں چالیس قندیلیں تھی جن کے اوپر سنان الخفا جی متوفی ۴۶۶ھ / ۱۰۷۴ ء کا نام ہے۔

اور موصوف نے ابن کثیر کی کتاب ''البدایہ و النہایہ ''سے نقل کیا ہے کہ ماہ شعبان ۶۵۷ھ بمطابق۱۲۵۹ ء میں بد ر الدین لو لو کا انتقال ہوا جس نے ۵۰سال موصل پر حکومت کی تھی اور موصوف مشہد علوی کے لئے سالانہ طلائی قندیل بھیجا کرتا تھا جس کی قیمت ایک ہزار دینا ر ہوتی تھی۔ نہیں معلوم کہ روضہ مبارک کو ۷۵۵ھ میں آگ لگنے کے وجہ سے کیا کیا چیزیں جل گئیں لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ بہت ساری اونی کپڑے ، قالین وغیرہ اور اسی طرح اہم آثار خطیّہ جل کر راکھ بن گئے۔ ہاں!کچھ نفیس چیزیں اس آفات سے بچ بھی گئیں جیسا کہ اس زمانے میں پرانا کولر پانی ٹھنڈا کرنے کی مشین جو کہ عضد الدّولہ البویہی سے منسوب کیا جاتا ہے اور یہ آج تک محفوظ ہے اور روضہ مبارک کے مہنگے ترین تحائف میں شامل ہے محمد حسین ابن عنبہ الحسینی کی کتاب ''عمدة الطالب ''سے نقل کرتے ہیں کہ روضہ مبارک کے اندر ایک مصحف تھا جو کہ تین جلدوں پر مشتمل تھا اور امیر المومنین کے دست مبارک سے لکھا ہوا تھا۔وہ اس آگ کے ضمن میں آکر جل گیا وہ بیان کرتے ہیں کہ کہا جاتا ہے کہ یہ بات مذکورہ مصحف کے آخری جلد تھی جس میں یہ لکھا ہوا تھا کہ ''اس مصحف کو علی بن ابی طالب نے لکھا ہے ''اس حوالے سے محقق محمد بن القاسم الحسینی اور ان کے نانا جعفر محمد حسین بن حدید الاسدی بیان کرتے ہیں کہ ''یہ جو وہ آخری مصحف میں علی بن ابی طالب کا نام تھا اس میں لفظ علی کا ''یاء ''،''واو ''جیسا تھا جو کہ خود علی ابن ابی طالب خط کوفی میں لکھتے تھے راقم نے ایک مصحف بمقام ''مزار ''میں عبید اللہ بن علی کے مزار میں دیکھا تھا جو کہ ایک جلد میں تھا جس میں پورے قرآن مجید کی کتابت مکمل کرنے کے بعد لکھا ہوا تھا۔ بسم اللہ الرحمن الرحیم اس مصحف کو علی ابن ابی طالب نے لکھا ہے لیکن مصحف غروی (یعنی مذکورہ بالا )مصحف کے مطابق لفظ علی کا یاء واو سے مشابہت رکھتا تھا اس کے بعد مجھے پتہ چلا کہ عبید اللہ ابن علی کامزار کو آگ لگنے کی وجہ سے جل چکا ہے اس کے ساتھ وہ مصحف بھی جل چکا ہے ''۔اسی بات کی طرف اشارہ ان سے قبل سید جعفر بحر العلوم نے بھی اپنی کتاب میں کیا تھا ۔ اب ہم آپ کو شہر مزار کے رہنے میں سیاسی اتار چڑھاو کے حوالے سے یاقوت کی کتاب معجم البلدان سے نقل کرتے ہیں کہ مزار (ایک گاوں ہے یہاں پر ایک عظیم الشان عمارت ہے جس پر کثیر اموال خرچ کیا گیا ہے اور یہ عبد اللہ بن علی ابن ابی طالب کا مزار ہے اوریہاں رہنے والے سارے غالی شیعہ ہیں اور جانوروں کی طرح پست لوگ ہیں)اب یہاں موصوف کو مذکورہ قبر عبد اللہ سے منسوب کرنے میں اشتباہ ہوا ہے کیونکہ عبد اللہ امام حسین کے ساتھ کربلاء میں شہید ہوئے تھے جیسا کہ ابو الفرج نے اپنی کتاب ''مقاتل الطالبین'' میںلکھا ہے لیکن مذکورہ شخص ابولفرج کے مطابق امیر مختار اور مصعب بن زبیر کے درمیان ہونے والی جنگ میں شہید ہوا تھا اور یہ غیر معروف شخص ہے۔

شاید یہ بھی ہوسکتا ہے کہ روضہ مبارک میں موجود تحائف مثلاً تلواریں، قندیلیں، طلائی ، چاندی، پیتل کے اور معدن کے چیزیں اس لگنے والی آگ سے محفوظ رہی ہو بلکہ ہوسکتا ہے روضہ مبارک کے اس خزانے کو آگ ہی نہ چھوئی ہو کیونکہ ضروری ہے ان تمام اشیاء کوکسی محفوظ اور خاص کمرے میں رکھا گیا ہو۔

لیکن مذکورہ خزانہ اس وقت نہیں بچ سکا جب اسی سال ۸۵۷ھ / ۱۴۵۳ ء میں علی بن محمد بن فلاح جن کا لقب مشعشی تھا نے لوٹ مار شروع کی کہا جاتا ہے اسی سال یکم ذی قعدہ کو حج کے ایام میں میر علی کیوان کو حجاج کا امیر بنا کر بغداد سے روانہ کیا یہ لوگ جب نجف اشرف میں داخل ہوئے تو انہوں نے اپنے سامان وہاں اتاردیا اتنے میں مشعشی نے ان پر حملہ کردیا اور ان کی قتل و غارت گری کردی اور ان میں سے صرف وہ لوگ بچ گئے جنہوں نے حرم علوی میں پناہ لی تھی تو ان کو محاصرہ کرلیا اتنے میں وہ مشعشی کے سامنے جھکنے پر مجبور ہوگئے تو مشعشی نے ان سے وہاں پر موجود قندیلیں' تلواریں طلب کیں۔ اس وقت خزانے میں سات سو سال پرانی تلواریں تھیں کیونکہ صحابہ کرام کی تلواریں اور اسی طرح سلاطین کی تلواریں یہاں پر جمع ہوتی تھیں ۔ ہوتا یہ تھا کہ کوئی بھی بادشاہ یا خلیفہ عراق میںمرجاتا تھا تو اس کی تلوار اس خزانے کیلئے بھیجی جاتی تھی اسی طرح ایک سو پچاس تلواریں یہاں جمع ہوئی تھیں اور اسی طرح بارہ قندیلیں تھی جن میں چھ سونے کی اور چھ چاندی کی تھی۔

لیکن اس ظالم نے ماہ ذی الحجہ میں مشہد مقدس نجف و کربلاء میں دوبارہ حملہ کیا اور لوٹ مار کی ہوا یہ کہ وہ نجف میں داخل ہوئے اور روضہ مبارک کے دروازے کھول کر گھوڑے سمیت حرم مقدس میں داخل ہوئے اور صندوقِ روضہ کو توڑا اور جلانے کا حکم دیا اور باقی چیزیں مثلاً قندیلیں ، تلواریں وغیرہ اٹھایا اور لوگوں کو برے طریقے سے ان کے گھروں میں قتل عام کیا۔ لیکن ا س ظالم کو بعد میں اپنے کئے کی سزا مل گئی ہوا یہ کہ ۷۶۱ھ / ۱۴۵۶ ء یہ برے طریقہ سے قتل ہوا اور اس کا سر کاٹا گیا۔ ا س کی کھال اتار دی گئی اور اس کی لاش کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے بغداد بھیجا گیا شیخ محمد حسین کے مطابق بعد میں اس کے والد محمد بن فلاح نے وہ تمام قندیلیں اور دیگر چیزیں جو اس کے بیٹے نے لوٹ لیا تھا دوبارہ نجف اشرف میں روضہ علی کو بھیج دیا۔

جیسا کہ ہم بیان کر چکے کہ ڈاکٹر حسن حکیم نے بیان کی ہے کہ مشعشی کے نجف اشرف پر حملے سے قبل صحابہ کرام' سلاطین میں سے جو بھی انتقال کرتاتھا ان کی تلواریں روضہ مبارک علی بن ابی طالب میں بھیجا جاتا تھا اس حوالے سے اور مشعشی کے حملے کے بارے میں مزید معلومات جاننے کے لئے کتاب ''النجف الاشرف مدینة العلم و العمران ''کی طرف رجوع کریں ۹۱۴ھ بمطابق۱۵۰۸ ء میں شاہ اسماعیل صفوی عراق پر قبضے کے بعد جب مرقد امیر المومنین کی زیارت کے لئے گئے تو روضہ مبارک کے لئے بہت سارے نوادرات فاخرہ ہدیہ کئے۔ اس کے علاوہ دریائے فرات سے نہر کھودنے کا حکم دیا اور زیر زمین کاریز کے بنوا کر اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچا یا یہ نہر بعد میں شہزاد ہ سلیم کے عہد میں عثمانیوں نے جب نجف کا محاصرہ کیا اس وقت تک باقی تھا لیکن جو تحائف شاہ اسماعیل نے حرم علوی کے لئے پیش کی ان میں کوئی معروف نہیں ہے ۱۰۳۳ھ / ۱۶۲۴ ء کو شاہ عباس اوّل صفوی نے جب مرقد امیر المومنین کی زیارت کی شیخ محمد حسین کے مطابق موصوف نے روضہ مبارک کے لئے نفیس چیزیں پیش کی تھی۔ لیکن تاریخ ان نفیس اشیاء کی خصوصیت کی تفصیلات بیان نہیں کرتی ہاں مشہور فرسیسی سیاح Tarfirnih نے اپنے سفر نامے میں شاہ عباس کی پیش کی ہوئی چیزوں کی طرف اشارہ کیاہے ان میں ایک کمان بھی تھا جو کہ موسوعہ نجف اشرف میں بھی آیا ہے ۔ اس خزانے میں موجود نفیس تحائف کی معنوی و مادّی قیمتوں کا انداز جب شاہ عباس اوّل کو ہوا تو انہوں نے ملا عبد اللہ بن شہاب الدین حسین یزدی کو'' حرم مقدس کا متولّی قرار دیا لہٰذا انہیں حرم و بڑے خزانے جس کے اندر دفاع حرم و نجف اشرف کے لئے وقف شدہ اسلحے موجود تھے اور وہ خزانہ جس کے نفیس آثار قدیمہ میں رکھے ہوئے تھے کی چابیاں حوالے کی ''اور موصوف شاہ عباس صفوی کی وفات تک رہے اور شاہ جب انتقال کرگئے تو اسے حرم کے اندر ایک سرداب میں عضد الدّولہ جہاں دفن ہیں وہاں دفن کیا گیا ۔ شیخ محمد حسین نے بیان کیا ہے کہ نواب احمد خان متوفی۱۱۹۹ھ/۱۷۸۵ ء نے ۱۱۹۸ھ بمطابق ۱۷۸۴ ء مرقد کے گنبد اور صحن شریف کی ترمیم مکمل کی اور حرم مقدس کے لئے مقدس پتھروں جواہر سے سجی ہوئی قندیلیں پیش کیں۔

امینی روضہ مبارک کی کتب خانہ کی باقیات کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ''ان کتب خانہ کی باقیات میں چند مخطوطات تھی جسے فاضل شیخ محمد سماوی نجفی نے صحن شریف کے ایک دوسرے حجرے میں بڑی محنت سے منتقل کی اور ان کے اوراق بکھرے پڑے تھے تو انہوں نے جمع کرکے انہیں ترتیب دیا اور ان کی خواہش تھی کہ کوئی ان مخطوطات کی جلد کا انتظام کرے جب ہم اس کتب خانہ میں گئے تو ہم نے ان باقیات کا مشاہدہ کیا ان میں اہم صحیفے جانوروں کے کھال پر لکھا ہوا تھا اور ان میں بعض آئمہ معصومین٪سے منسوب تھا کہ خود آئمہ٪نے ان کی کتابت کی تھی اور بعض پتلی لکڑی پر لکھا ہوا تھا تو کوئی بعض کاغذ پر لکھا ہوا تھا ان میں بعض مکتوبات امام امیر المومنینـ سے منسوب ہے اس میں تاریخ کتابت ۴۰ھ / ۶۶۰ ء لکھا ہوا تھا جسے ہم نے اپنے اس سفر ۱۳۵۲ھ / ۱۹۳۳ ء میں مشاہدہ کیا۔

اس مخطوطات والے حجرے میں راقم ۲۵-۱۱-۲۰۰۸کو داخل ہوا یہ حجرہ امانات عتبہ علویہ کے نزدیک ہے اب اس میں سے ان مخطوطات کو کسی اور جگہ منتقل کیا گیا ہے تاکہ اس حجرہ کی ترمیم کی جائے۔ ہم نے اپنے غم و اندوہ کو یہاں بیان کرنے کی کوشش کی اس امید کے ساتھ کہ عنقریب انشا ء اللہ ہم اسے ختم کریں گے۔

روضہ مبارک کی تجوری

پچھلے چند دہائیوں کے دوران راقم کو دنیا کے بعض اہم تجوریوں کو دیکھنے کا موقع ملا ان میں سے ہم یہاں بطور مثال چند تجوریوں کا ذکر کریں گے ۔ جن میں سے شاہ ایران کی تجوری جو ایرانی مرکزی بنک میں محفوظ ہے، اسکندریہ میں مصری خاندان کی سونے کی تجوری کا ایک حصہ ایک خاص میوزیم میں رکھا ہوا ہے اس کے علاوہ باقی مصر میں ایک اور میوزیم میں بھی ہے۔ تاج فرانسیسی کے سونے کی تجوری لوفر میوزیم پیرس میں واقع ہے اس کے علاوہ عثمانی تحائف حصے توپ کاپی سرائے میوزیم استنبول میں موجود ہے اس کے علاوہ بہت سارے سونے، تاجوں، فنی کتابت اور آثار قدیمہ کے چیزیں ہالینڈ کے بعض میوزیم وغیرہ میں ہے لیکن روضہ امیر المومنین کے تجوری کے بارے میں معلومات حاصل ہونے کے بعد میں بالکل یقین و اطمینان سے کہہ سکتا ہوں یہاں قیمتی ، نادر پتھر ، مہنگے فنی تحائف جن کی صیاغت ہوئی اور جو بنی ہوئی کندہ ہے بغیر کسی مبالغے کے یہ باقی تمام عالمی تجوریوں سے مادّی ، معنوی ، تاریخی حوالے سے کئی گنا زیادہ ہے بلکہ اس سے بھی دوگناہوسکتا ہے جب یہ روضہ امام علی ابن ابی طالب کے لئے ہدیّہ ہو ۔ یہ تجوریاں آج تک سینکڑوں سال سے روضہ مبارک کے اندر موجود ہے سوائے چند گنے چنے لوگوں کے علاوہ کسی کو بھی معلوم نہیں ہے اس لئے کہ اس حوالے سے کوئی لٹریچر دقیق انداز سے نہیں لکھا گیا ۔ ان تحائف میں سے اکثر کا معروف رجسٹروں میں اندراج تک نہیں ہوا ہے۔یہ صرف امیر المومنینـکی برکت سے ہی محفوظ ہیں ان کے پوشیدہ ہونے میں بھی اس صورت کے علاوہ کوئی نہیں ہے بلکہ اگر یہ ایسے ہی چھوڑ کر رکھا جائے تو ہوسکتا ہے ضائع ہو اس لئے مناسب ہے کہ ان کو زیرقلم لایا جائے اور انہیں رجسٹر میں درج کیا جائے تا کہ دنیا کو اس پڑی آفات کا معلوم ہو جو اس شہر نجف کے ساتھ ہوا تھا اور ابھی تک میرے اندر سے ضمیر اکساتی رہتی ہے کہ اسے ایک دن کسی مناسب جگہ میں رکھ کر اس مناسب دینی ، معنوی، مادی قیمت کو دیکھوں۔ اور ہوسکتا ہے امانت عتبہ علویہ کی کمیٹی روضہ مبارک کے احاطے کے تعمیر و ترمیم کے ساتھ جلد ہی اس کے لئے بھی کچھ بندوبست کرنے میں کامیاب ہوجائے ۔

اگرچہ روضہ مقدس علوی کے ایک بہت ساری تجوریاں ہیں ان میں سے ہم نے ایک کی طرف اشارہ کیا جوکہ جنوبی مینارئہ اذان کے ساتھ والے حجرے میں رکھی ہوئی ہے اس میں انتہائی نادر تحائف اور ہدیے شامل ہیں جسے نادر شاہ اور ان کی زوجہ اور بیٹے وغیرہ نے روضہ مقدس کے لئے وقف کئے تھے اس کے علاوہ ایک اور نسبتاً اس سے چھوٹی تجوری بھی روضہ کے اندر موجود ہے۔

اس کی قیمت بھی پہلے والی سے کم نہیں ہے جس کے اندر نفیس چیزیں ہے ان میں سے بعض روضہ مبارک کے محرابی جالی کے پیچھے سے نظر آتی ہے جو کہ صندوق خاتم کے اوپر رکھی ہوئی ہے اور بعض ایک شیشے کے پنجرے میں جالی کے اندر موجود ہے اور صندوقِ مرقد مقدس کے جنوبی سمت میں ایک بڑا نادر جواہرات سے مرصع کیا ہوا ہے اور ایک نسبتاً چھوٹا مغربی سمت بڑے خوبصورت و زیبائش کے ساتھ لٹکایا ہو اہے ۔ محرابی جالی کے دروازے کے دائیں جانب ایک لوہے کی تجوری کے اوپر ایک بڑا خوبصورت گل دان رکھا ہوا ہے۔یہ تمام تحائف راقم نے ۱۳ذی قعدہ ۱۴۲۹ھ / ۱۲ نومبر ۲۰۰۸ ء کو محرابی جالی کے اندر داخل ہوکر سر امام کے پاس نماز ادا کرتے وقت دیکھ چکا ہوں اور تصویر کشی کی کوشش کی تھی لیکن روشنی کا شعلہ زیادہ تیز ہونے کی وجہ سے کوئی مناسب تصویر نہیں بنی۔ شیخ محمد حسین نے اپنی کتاب میں بیان کیاہے کہ ''یہ تمام خالص سونے سے بنا ہوا ہے اور مقدس لعل جواہرات سے مرصع کی ہوئی ہے ان تحائف میں کچھ طلائی الماس و یاقوت سے سجی ہوئی قندیلیں ، زبر جد و الماس سے مرصّع کی تاجیں اور مختلف اقسام کے ہار، تمغے ، بڑے بڑے طلائی پھولیں، خط امام علی کے لکھے ہوئے صحیفے، موتیوں کا مجموعہ ، ایک ہیروں کا گُچھّہ جس کے اندر ۲۴شاخیں اور ہر شاخ میں ۹بڑے بڑے ہیرے، زمرد اور یا قوت ہیں۔ ''ڈاکٹر حسن حکیم نے بیان کیاہے کہ نادرشاہ نے یہ تاج ۱۱۵۶ھ / ۱۷۴۳ء جنگ ہندوستان سے قبل روضہ مقدس کے لئے ہدیہ کر کے سر مبارک کے اوپر معلق کیا تھایہ بھی راقم نے اپنی زیارت کے دوران دیکھا۔

اس کے علاوہ شیخ محمد حسین اور ڈاکٹر حسن حکیم دو اور تجوریوں کا ذکر کرتے ہیں ان میں سے ایک مرقد مقدس کے سر کی جانب والی رواق میں واقع ہے جس کے اندر ایک نادر قالین موجود ہے جبکہ دوسری تجوری صحن حیدری میں قبلے کی جانب واقع ہے واضح رہے کہ یہ تجوری خاص طور سے حرم کی کتب خانہ کے باقیات کے حوالے سے ہے۔ جیسا کہ اس کی ترتیب کے بارے میں اشارہ بھی ہوچکا کہ شیخ محمد سماوی نے ان کتابوں کو صحن کے کمروں میں منتقل کرنے میں بہت کوشش کی یا یہ کہ یہ بعض اہم صحیفے یہاں رکھے ہوئے تھے اور بعد میں یہ صحیفے اور مخطوطات کے لئے کتب خانہ حرم کے نیچے ایک محفوظ خاص جگہ بنائی گئی ہے۔ مخطوطات قدیمہ کا یہ حجرہ امانات عتبہ علویہ کے جوار میں جنوب مشرق کی جانب واقع ہے۔

شیخ محمد حسین نے ایک اور تجوری کا بھی ذکر کیا ہے جو ایک بند رواق کے کمرے میں ہے اس حوالے سے وہ یوں بیان کرتے ہیں ''روضہ شریفہ میں بہت سارے بڑے بڑے طلائی قندیلیں حرم کے چاروں کونوں میں مضبوط زنجیروں سے ستونوں ساتھ کے لٹکائے ہوئے ہیں اور یہ اتنے بڑے ہیں کہ انسان کے لئے ان کو اٹھانا طلائی وزن کی وجہ سے مشکل ہے اور اسے ہم لمبے عرصے سے دیکھ رہے ہیں۔۱۳۶۹ھ /۱۹۵۰ ء میں ان طلائی قندیلوں، باقی قیمتی چیزیں، شمع دانیں، چراغات، اور ان میں ایک بارہ سنگ کا خوبصورت سینگ جس کے درخت کی بہت ساری شاخیں ہیں اور حدّ درجہ وزنی بھی ہے ایک اور تجوری جو بند رواق کے کمروں میں ہے ان کمروں کے دیواروں پر شیشے کی نقش و نگاری کے اخراجات محمد رضا شاہ ایران نے برداشت کی اور موصوف ایک بیرونی تجوری اور دوسری تجوریوں کا بھی ذکر کرتے ہیں جہاں بہت سارے تحائف رکھی ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ'' ان ہدایا و تحائف میں ایک بڑا ایرانی قالین، اسلحے، طلائی قندیلیںجو داخل حرم میں معلق تھی۔'' یہ اشارہ گزر چکا کہ حرم کے قالین اس جدید تجوری میں منتقل ہوا جو حدود حرم کے شمال مغرب میں کتب خانہ کے نیچے بنائی گئی تھی موصوف اپنی کتاب میں بیان کرتے ہیں کہ ''دوسری منزل کے رواق کے کمرے بند ہیں ان میں داخل ہونے کے راستے بھی معلوم نہیں یہاں تک کہ ۱۳۵۹ھ / ۱۹۴۰ ء میں داخلہ ممکن ہوا اس لئے کہ جب رواق و حرم مبارک کے چھتوں میں اصلاحات شروع ہوئی تو ان کمروں کے دروازوں کا پتہ چلا اس کے بعد کمیٹی نے ان کمروں کے لئے چھٹے چھوٹے کھڑکیاں نکالی ہے تاکہ صحن کے دونوں شمالی و جنوبی اطراف میں ہوا کا آناجانا ہو ۔ آج کل اس کمرے میں حرم مطہر کے بعض آثار مثلاً تلواریں، پرانی صدیوں میں سلاطین ، مسلم امراء کی طرف وقف کئے قدیم بنوقیں رکھی ہوئی ہیں اس سے قبل یہ اسلحے صحن شریف کے جنوبی جانب ایک کمرے میں کتب مخطوطہ کے خزانے کے ساتھ رکھی ہوئی تھی۔ پھر ۱۳۷۱ھ / ۱۹۵۲ ء میں ان قدیم اسلحوں کو جنوبی رواق کے دوسری منزل میں منتقل کی گئی اور ہم خاص طور سے اچھی طرح دیکھ چکے ہیں کہ متولّیان حرم شریف و خدّام ان کو اٹھا اٹھاکر جنوبی رواق کے دائیں جانب سے چڑھتے تھے۔''

کہا جاتا ہے کہ ان میں سے بعض اسلحے تیروہوں صدی ہجری کے نصف میں ابن سعود کے عربوں کی غارت گری کی وجہ سے استعمال ہوا تھا ۔ اس وقت مرجع الدینی شیخ جعفر کاشف

الغطاء نے اسلحوں کو نکال کر مجاہدین کے لئے شہر سے باہر مشق کرنے کا حکم دیا تھا اس دوران شہر نجف کی آخری دیوار نہیں بنی تھی۔

اس موضوع کے بیان کے حوالے سے ۱۲۱۳ھ/۱۷۹۸ ء کے واقعات کا بھی ذکر کیا ہے۔ شیخ محمد حسین نے روضہ مقدس کے اندر ایک قدیم دروازوں والی تجوری کا بھی ذکر کیا ہے حال ہی میں ترامیم کے دوران مغربی رواق کی ایک اور نئی تجوری کا انکشاف ہوا ہے لیکن اس کے اندر موجودات کا ابھی تک اعلان نہیں ہوا ہے ۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری چیزوں کا انکشاف ہوا ہے جو آج کل ترتیب و تصنیف کے مراحل میں ہے لیکن ان کی حالت آپ کو انکشاف سے پہلے کا حال بتاتی ہے۔ واضح رہے کہ بکتاشی تکیہ بھی آج کل بعض آثار قدیمہ رکھنے کے لئے استعمال ہورہا ہے سید عبد المطلب الخرسان کے مطابق مذکورہ مقام میں قالین، فانوسیں، قدیم نقرے کے دروازے رکھے ہوئے ہیں۔

شیخ علی الشرقی نے شاہ احمد قاچاری کے زیارت کے دوران مشاہدہ کئے ہوئے تحائف کے حوالے سے لکھاہے کہ ''میں نے ایک صندوق کے لئے ایک تاریخی چادر دیکھی اس پر طلائی و نقرائی دھاگے سے ہیرے اور موتیاں پروئی تھی کہا جاتا ہے یہ کپڑا آل بویہ کے زمانے کا ہے۔ روضہ کے اندر بعض طلائی قندیلیں ہیں، یہاں بہت سارے قدیم و جدید تحائف حرم کے لئے وقف شدہ ہیں اور بہت سارے نفیس نگینے، طلائی تلواریں، گھڑیاں، قیمتی پتھریں، چراغات، قرآن کریم کے مخطوط نسخے، اور میں نے وہاں ایک نفیس انتہائی خوبصورت لاثانی قالین کو دیکھا جو ابو ریشم اور اون سے بُنا ہوا تھا۔جس کی لمبائی تقریباً ۲میٹر جبکہ اس کا عرض ایک میٹر سے تھوڑا کم ہے۔ اور محرابی شکل میں مصلیٰ کے لئے رکھا ہوا ہے اور اس کے چاروں اطراف میں فریم میں آیت الکرسی کی کتابت بُنی ہوئی ہے اس کے بالائی جانب شیر کی تصویر بنی ہوئی ہے یہ علامت امیر المومنین سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ دونوں اطراف پر قرآن کریم کے گیارہ چھوٹی چھوٹی سوروں کی کتابت بُنی ہوئی ہے یہ علامت ہے جو آئمہ معصومین جو امیر المومنین کی ذریت میں ہیں۔

اس قالین پر سورہ توحید و سورہ حمد و تسبییحات اربعہ، تشہد ، تسلیم بھی لکھا ہوا ہے ، میں نے وہاں چار نفیس ابو ریشم سے بُنے ہوئے چار قالین دیکھے یہ صفوی خاندان کے بادشاہوں کی ازواج نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے نام کے ساتھ کام کی تاریخ بھی لکھ دی ہے اس کے علاوہ اسماعیل البرنس صفوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا قرآن کریم کا ایک نسخہ ہے جس پر ۹۹۱ھ مکتوب ہے اس کے غلاف پر آب طلاء اور قیمتی پتھروں سے نقش و نگار بنا ہوا ہے۔اسی طرح ایک اور نسخہ عاج سے بنی کرسی جو قیمتی پتھروں سے سجی ہوئی ہے رکھا ہوا ہے اور اس کو ایک کپڑے میں لپیٹا ہوا ہے جو ریشم اور سونے کے تاروں سے بُنا ہوا ہے اور انتہائی فن کمالات کے ساتھ یہ غلاف بنا ہوا ہے اس کے علاوہ قرآن کریم کا ایک نسخہ اور ہے جو ایک خوبصورت کرسی پر رکھا ہوا ہے اس نسخہ پر ایک فارسی تفسیر بھی ہے اس کی کتابت میں سونے سے محلول بہت سارا رنگ استعمال ہوا ہے اور یہ آثار قدیمہ کے بے مثال نمونہ ہے۔ ''یہ دیکھ کر میرا رنج و الم تھوڑا سا کم ہوا اب کیونکہ حرم کے کمیٹی بنی ہے جس کے اندر معتبر افراد شامل ہیں جو ان تحائف کی ترتیب کر رہے ہیں اس حوالے سے جب میںدسمبر ۲۰۰۸ ء کو وہاں کیا تھا تو میں چند کارڈ وغیرہ اس مقصد کے لئے بنا ہوا دیکھا اگرچہ یہ افراد شکریہ کے مستحق ہیں لیکن انہیں چاہیے اپنے ساتھ اس عمل میں زمانہ وسطی کے اسلامی آثار قدیمہ چند ماہرین کو بھی شامل کریں کیونکہ ایسے یہ کام پہلے سے کر رہے ہیں بہت سارے ایسے لوگ بھی ہیں جو ٹوٹے ہوئے ابریق وغیرہ اور پھٹے ہوئے قالینوں کی دوبارہ رفو وغیرہ کرسکتے ہیں لہٰذا اس عمل میں کمیٹی کو جلد اقدام کرنا چاہیے اور باقی تجوریوں کی حفاظت کے لئے بھی اقدام ضروری ہے ۔ مجھے معلوم ہے اور میں اس کا گواہ ہوں کہ یہ کام بہت بڑا ہے لیکن اسے صبر و تحمل کے ساتھ پائے تکمیل تک پہچانا چاہیے۔

میرا خیال ہے کہ یہ پہلا اقدام ہوگا جو یہ کمیٹی انتہائی مشقت کے ساتھ انجام دے رہے ہونگے اوراگر وہ اس میں کامیاب ہوتو ان کو جو فخر و ثنا و عظیم ثواب نصیب ہوگا اس سے پہلے پوری تاریخ میں روضہ مبارک میں کسی خدام کو نصیب نہیںہوئی ہوگی۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بعض ایسے آثار قدیمہ کے ٹائل اور محرابوں کا ذکر کیا ہے اور بعض تربت حسینیہ بھی فنی مہارت سے بنی ہوئی پائی گئی جس کا موصوفہ تعریف کرتی ہے اور وہ اس حوالے سے شیعوں کے نماز پڑھنے کے طریقے سے واقف ہوئی کیونکہ شیعہ اہل بیت کے تقلید کرتے ہو ئے نماز ادا کرتے ہیں۔ لہٰذاموصوفہ (تربت کربلاء نجف)کی عنوان سے مزید تحقیق کی ہے پھر بعض تربتوں کو بیان کیا ہے جو فنی طریقے سے بنائی گئی ہے لیکن موصوفہ نے جو تحائف دیکھی ہے انہیں وہ چھے اقسام میں تقسیم کرتی ہیں۔

۱_ مخطوط صحیفے

موصوفہ اپنی کتاب الصحیفہ میں بیان کرتی ہیں کہ ''اس تجوری میں ۵۵۰ قیمتی صحیفے ہیں جن کی قدامت پہلی صدی ہجری سے لے کر چودہویں صدی ہجری تک ہے ان میں سے بعض مخطوطے جانوروں کی کھال پر جبکہ بعض دوسرے ہڈیوں پر مختلف اسلوب و طرز خط عربی میں کتابت ہوئی ہے ۔ پس بعض خط کوفی، نسخ، فارسی نستعلیق، ثلث، خط کوفی چوکور، خط ہمایونی، عثمانی، اور خط رقعہ میں کتابت ہوئی ہے ان تمام صفات کا مشاہدہ کرکے ایک محقق یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ ان صحیفوں کی کتابت نے تاریخ کے گزرنے کے ساتھ کیسے ترقی کی ہے جیسا کہ وہاں موجود بعض صحیفے خط کوفی میں کتابت ہوئی ہے انہیں امام علی،امام حسن ، امام زین العابدین سے منسوب کرتے ہیں انہیں دیکھ کر لاکھوں مسلمانوں کے دلوں میں قدرواحترام بڑھ جاتا ہے۔ لیکن شیخ محمد حسین کے مطابق اس تجوری کی کتابیں ستمبر ۱۹۷۰ ء میں علامہ محقق سیّد احمد حسینی کے ہاتھوں نجف اشرف کے نائب سیّد عبد الرّزاق الحبوبی اور قاضی شیخ حسن الشمیساوی کے زیر نگرانی گنی جاچکی تھی۔ ''تو وہاں کل تاریخی کتب کی تعداد ۷۵۲ تھی جن کتب مخطوطہ اور قدیم مطبوعہ کی تعداد ۷۰۰تھی۔ ''جب ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب بیسویں صدی کے ۷۰کے دہائی کے اوائل میں منظر عام پر آئی تو موصوفہ ایک اور تجوری کے بارے میں بیان کرتی ہیں جس میں وہ صحیفے تھے جو اس تجوری کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی ۔ کیونکہ شیخ محمد حسین روضہ کے تجوریوں کے بارے میں بتاتے وقت ایک تجوری کے بارے میں بتاتے ہیں جو ''خزانہ کتب و قرّا ''سے مشہور تھا۔ جس کے اندر کچھ قدیم قیمتی صحیفے موجود تھے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اسی کی طرف اشارہ کیا تھا اس لئے جس تجوری کی کتابوں کی گنتی ہوئی وہ اس مذکورہ تجوری کے علاوہ تھی۔

۲_معدنی تحائف

ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق اس تجوری میں ۷۲۰تحائف کے نمونے موجود ہیں جن میں سے بعض طلائی ہاریں ، قیمتی جواہرات، زبر جد، یاقوت، الماس، ہیرے فیروزے سے مزین ہیں جبکہ ''بعض طلائی قندیلیں قیمتی پتھروں، آنگینہ سے نقش و نگا، کی ہوئی ہے اور عود سوز، آب گلاب کے برتن' شمعدانیں' کتبات' تاج' ہار' گلدانیں' ہاتھ دھونے کے طشت'کشکول (جس کے ذریعے شیعہ درویش بھیک مانگتے ہیں)، بڑے بڑے اسلحوں کا ایک مجموعہ، جھنڈے ، روضوں کے نمونے '' جن میں ۵۶عدد روضہ مبارک کے رجسٹروں کے مطابق ایوان طلاء کے تجوری میں ہیں۔ یہ تعداد ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق ہے جسے اس نے دیکھایا پڑھا ہے لیکن حقیقی تعداد جو روضہ مبارک کے موجودہ تجوریوں میں ہے اس کا جاننا مشکل ہے۔جن کے کچھ نمونے کا ہم یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ایک تلوارہے جس کا دستہ الماس کے پتھروں طلائی غلاف سے مزین ہے اور ا س کے لئے ایک ہُک بھی ہے اس کے دھات پر ''حسن رضا کی جانب سے علی بن ابی طالب کے لئے تحفہ ''لکھا ہوا ہے۔

٭ پانچ طلائی قندیلیں ہیں ان میں سے ہر ایک میں چھ طغرے ہیں جن میں آٹھ قیمتی پتھریں جڑے ہوئے ہیں اور اس کے بیچ میں ایک زبر جد کا پتھر ہے اور ہر طغرے کے ارد گرد زبر جد کے بڑے بڑے پھول ہیں اور ان پھولوں کے ارد گرد بارہ یاقوت کے پتھر جڑے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر طغرے کے اوپر ہیرے سبز زبرجد کے بارہ پتھروں کے ساتھ ہیں اور اس کا بالائی حصہ اور نیچے والا حصہ نادر و نایاب جواہرات سے پُر ہیں جو عقل حیران کرتی ہے ان قندیلوں کو سلطان حسین نے ہدیہ کیا ہے۔

٭ ان کے علاوہ کچھ قندیلیں بھی ہیں جو پہلے کی طرح خوبصورت پتھروں سے سجاوٹ کی ہوئی ہے اور ان میں ہر قندیل کا وزن ۷۱۶۰گرام ہے اسے زینب بیگم شاہ طہماز صفوی نے ہدیہ کی ہیں۔

٭ طلائی عود سوز اس کو نادرشاہ نے ۱۱۵۶ھ /۱۷۴۳ ء میں ہدیہ کی تھی اور یہ ہشت پہلو شکل میں ہے اسکے اوپر کا ڈھکن گول جالی دار اور مختلف قیمتی پتھروں سے سجاوٹ کی ہوئی ہے لیکن کچھ چار کونہ شکل عوز سویں بھی ہیں ان میں ہر ایک خوبصورت پتھر کے فریم میں ہے اور اس فریم میں دس عدد چار زبرجد' ایک بڑا یاقوت'الماس کے چند پتھر ہیں جو فن تعمیر کے اہم علامت ہیں اور ان کا وزن۷۳۴۵ گرام ہے۔

٭ طلائی جھنڈے جو قیمتی بڑے چھوٹے پتھر اور آبگینہ نقوش سے مزین ہیں۔

٭ طلائی گلدان جوکہ مخروطی شکل کا ہے پتھر کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں سے مزین اور آبگینہ نقوش سے بنی ہوئی ہے اسے حاج بن درگاہ نے ۱۱۸۲ھ /۱۷۶۸ء میں ہدیہ کی تھی۔

٭ طلائی ہار یہ سبز آبگینہ رنگوں سے مزین ہے جس میں تین عدد یاقوت کے پتھر ہیں اس کے پتھر کے درمیان میں شش زاویہ ایک بڑا دائرہ ہے اور اس دائرے کے اندر ہی ایک اور چھوٹا دائرہ ہے جسے آبگینہ آسمانی رنگ میں بندہ شاہ ولایت سلطان حسین ۱۱۱۲ھ/۱۷۰۰ ء لکھا ہوا ہے۔

٭ طلائی جھالر دار پٹی اس کے اندر ۴۰طلائی کی گانٹھیں بندھی ہوئی ہیں اور ہر گانٹھ میں زبر جد کے دو پھول اور اور ہر پھول میں آٹھ یا قوت اور زبر جد ہیں۔

٭ طلائی دل نُما۔ یہ بڑے کے الماس کے پتھر اور زبرجد یاقوت سے سجاوٹ کی ہوئی ہے۔

٭ نارو نایاب بیضوی شکل کا فیروزہ جس کے اوپر طلاء لگا ہوا ہے اس کی لمبائی ۵سے۶ سینٹی میٹر اور عرض ۴سینٹی میٹر ہے۔

٭ مختلف سائز کے نقرے برتن جس کا وزن ۷۶۹۶۰گرام ہے۔

٭ حرز بابند۔ اس کو نادر شاہ نے ہدیہ کیا تھا یہ بیضوی شکل کا ہے جس کے اندر ایک بڑا سفید دائرہ ہے اور ایک دائرہ جو بھورا چنا نیلے زبر جد، سرخ یاقوت وغیرہ پر مشتمل ہے ۔ ان ٹکڑوں کے بارے میں موصوفہ کہتی ہیں کہ یہ وہ اہم تحائف ہیں جوحرم کے اندر صندوقوں میں موجود ہیں جن میں اکثر کے بارے میں یہ معلوم نہیں کہ کس نے ان کو ہدیہ کیا تھا۔

اس کے بعد بیرونی تجوری میں موجود تحائف کو دو قسموں میں تقسیم کرتی ہیں ان میں سے پہلی قسم میں مندرجہ ذیل چیزیں ہیں

۱۔ پردے، روضہ حیدری کے خاص ایرانی قالین ، معلق قدیم و جدید کرسٹل کے قندیلیں جو قیمتی جواہرات سے مزین ہیں۔

۲۔ قدیم بندوقیں، خوبصورت نیام والی تلواریں، بڑے طلائی قندیلیں جو حرم کے اندر معلق ہیں اور یہ روضہ کو شیشہ کاری کرنے کے دوران اٹھائی ہیں اور یہ مختلف سائز ہیں۔

جبکہ دوسری قسم میں۳۶مختلف نمونے ہیں جن میں معدنی ٹکڑے'پردے'قالین' منسوجات' چار صحیفے:

۱۔ طلاء سے مزین قیمتی پتھروں سے مرصّع جسے اسماعیل حیدر الحسینی نے ۹۲۱ھ میں وقف کی ہے۔

۲۔ ایک اور صحیفہ امام حسن کے خط سے ہے جو کہ قدیم خط کوفی میں کھال پر لکھا ہوا ہے۔

۳۔ بڑے حروف سے لکھی ہوئی مکتوب جو امام امیر المومنین سے منسوب ہے۔

۴۔ قدیم خط کوفی میں مکتوب جس کے آخر میں لکھا ہوا ہے''اسے علی ابن ابی طالب نے لکھا ہے ''اس حوالے سے ماہرین خطاط جب نجف اشرف میں زیارت کیلئے گئے تو انہوںنے بتایا کہ یہ عہد خلفائے راشدین کے خط ہے اس لئے یہ خط امام علی کی ہے۔

یہاں پر ڈاکٹر حسن حکیم نے ایک نسخہ قرآن مجید کا ذکر کیا ہے کہ ''ایک عاج کی خوبصورت کرسی پر قیمتی پتھر سے رکھا ہوا ہے اور یہ ایک سونے کے تار سے بنے ریشم کے کپڑے میں لپٹا ہوا تھا جو خارق فنی و بارع صناعت میں تھا اور بیل بوٹوں آبگینہ سے نقش و نگار کیا ہو اایک غلاف میں یہ خوبصورت خط نسخ میں لکھا ہوا ہے لیکن اس میں کوئی تاریخ درج نہیں ہے۔''

شاید اس حوالے سے ڈاکٹر سعاد ماہر کے اطلاع میں نہ ہو کیونکہ سابقہ تمام نمونے کی قیمت برابر نہیں ہے کیونکہ بعض معدنیات میں سے ہے یا دیگراشیاء سے متعلق ہیں۔ ہم یہاں چند نمونے اس تجوری سے بیان کرتے ہیں۔

٭ ایک جوڑا مخمل کے پردے میں جس کے اطراف میں ہیرے اور رنگ برنگ کے موتیاں پروئی ہوئی ہے اور ہر پردے پر سبز رنگ کے اطلسی ریشم کے کپڑوں سے مور کی شکل کی بنی ہوئی ہے۔ یہ پردے انتہائی نادر و نایاب ہے جس کو دیکھ کر آنکھیں خیرہ ہوتی ہیں اور ڈیزائننگ اہم نشانیوں میں شامل ہے ان دونوں پردوں کو ہندوستان کے ایک حاکم شہاب الدین کی زوجہ سیّدہ گوہر نے ہدیہ کی ہے۔

٭ عدد نادرو نایاب جائے نماز ہیں ان میں ہر ایک کی سائز۱۸۱ X ۳۹۰ ہے جن کے رنگ پیلے ہیں اس کے چار خانوں والے تین حصے میںمحرابی شکل ہے جن کے اندر چاندی سے نقوش بنے ہوئے ہیں یہ کام ایران میں ہوا ہے۔

٭ ایک تاج ہے جس پر بارہ گلاب کے پھول بنے ہوئے ہیں اور ہر پھول میں چھ الماس کے پتھر اس طرح لگے ہوئے ہیں کہ اس کے اطراف میں زبر جد کے بڑے پتھر لگے ہوئے ہیں اس کے ایک طرف دو بڑے زبر جد کے پتھر ہے اور اس کا تاج سر عمامہ ہیرے کے پتھروں سے سجایا ہوا ہے اور اسے تاج النساء بیگم نے ۱۲۴۰ھ / ۱۸۲۵ ء میں ہدیہ کئے۔

٭ ایک جوڑا گوشوارہ یہ دو بڑے پتھر میں رکھا ہوا ہے اور ان کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے قیمتی پتھر جڑے ہوئے ہیں ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق ان میں سے ہر ایک کا وزن۲۶ قیراط ہے ان کی قیمت ۷۰ء کی دہائی میں سونے کا ساٹھ ہزار پاونڈ تھا۔

٭ طلائی نگینے جو الماس سے مزین ہے اس پر تتلی کی شکل الماس و زبر جد سے بنی ہوئی ہے ۔

٭ ڈاکٹر سعاد ماہر نے بعض خوبصورت طلائی قندیلوں کا بیان کیا ہے کہ ''لیکن جو نفیس قندیلیں ہیں وہ طلاء سے بنے ہوئے ہیں جن کے اوپر آبگینہ سے نقوش بنی ہوئی ہے۔ ان نقوش میں ایک بیضوی شکل ہے جس کا حجم ۷۳سینٹی میٹر ہے اور دو اطراف کے بالائی اور زیریں قطر تقریباً ۲۰سینٹی میٹر ہے اور اس گیند کے اوپر سے نیچے کا درمیانی احاطہ ۴۱سینٹی میٹر ہے اور یہ اشکال بعض سے بعض متصل ہیں جوکہ بڑے قیمتی پتھر یاقوت، الماس، لعل، ہیرے ، زبر جد سے بنی ہوئی ہے اس کاایک حصے میں ایک قیمتی اشیاء سے نقش و نگار کی ہوئی ہے اسے ملک فارس کے علی مراد نے ۱۱۹۶ھ /۱۷۸۲ ء میں ہدیہ کی تھی وقف کنندہ کا نام فارسی زبان میں کلب علی مراد لکھا ہوا ہے۔

٭ ڈاکٹر حسن حکیم کے مطابق نادرشاہ نے پانچ قیمتی نگینے جڑے ہوئے قندیلیں مرقد امام علی کے ۱۱۵۳ھ / ۱۸۴۰ ء میں ہدیہ کی تھی۔

اور موصوف یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ ہندوستانی طرز کے خنجر جوکہ روضہ کی جالی سے معلق ہے قیمتی پتھروں سے مزین ہے اسے ہندوستان کے مغل بادشا اورنگزیب نے ہدیہ کی تھی۔ اس کے بارے میں مشہور سیاح NAIBOOR نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ اس خنجر کی کوئی قیمت تعین نہیں کیا جا سکتا اور جب میں حرم میں داخل ہوا تو میں نے یہ روضہ مقدس کے جالی کے اندر اسے دیکھا جو مغربی جانب صندوق میں معلّق تھا اور موصوف نے یہ بھی کیا ہے کہ اس کے اندر تین الماس کے تاجیں ہیں اور ہر تاج کے وسط میں زبر جد ہے شاید یہ وہی تاج ہے جس کا ذکر ہو چکا ہے۔

٭ وہ یہ بیان کرتا ہے کہ عثمانی شہزادہ عبد الحمید نے روضہ مبارک کیلئے موئے مبارک نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۳۰۳ھ /۱۸۸۶ء میں ہدیہ کیا تھا۔

٭ محمد ہادی امینی نے اپنے سابقہ مضمون میں کچھ اور نوادرات کا ذکر کیا ہے ان میں سے یہ ہے کہ طلائی انگھیٹی عود سوز جس میں سُرخ یاقوت کے چمکدار پتھریں ہیں اس میں الماس کے بڑے گڈّے ہیں اور اس پر نادر لکھا ہوا ہے۔

٭ یہ اشارہ گزر چکا ہے کہ بد ر الدین لو لو نے ۶۵۷ھ / ۱۲۵۹ ء میں چار قندیلیں ہدیہ کی ہے شیخ محمد حسین کے مطابق یہ وہی تجوری ہے لیکن میں نے ڈاکٹر سعاد ماہر کی کتاب میں نہیں دیکھا ہے۔

۳_دوسری قسم منسوجات

ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں بیان کیا ہے کہ اس تجوری میں ۴۸۴نمونے ہیں ۔ اس میں شک نہیںکہ موصوفہ نے قدیم فہرست سے یہ تعداد حاصل کی ہے لیکن حقیقی تعداد اس سے زیادہ ہے ان میں بہت سارے سونے چاندی کے تاریں ہیں جن سے قیمتی پتھریں اور ہیرے جواہرات کی سجاوٹ کی ہوئی ہے ڈاکٹر موصوفہ نے ان میں سے بعض کی تفصیلات اور ان کی قیمتیں ،تاریخیں اور نابغہ ماہرین کے نام کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔

۴_جائے نماز

اس تجوری میں ۳۲۵نادر جائے نماز ہیں ۔ ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں یوں بیان کیا ہے کہ روضہ مبارک میںایک نادر جائے نماز کا مجموعہ ہیں جو پوری دنیا میں فنی و معنوی اعتبار سے بے مثال ہیں۔

اور وہ اس دوران بعض ہیروں کے بارے میں یوں بیان کرتی ہیں کہ ''یہ ذوطرفین ہیں اور ہر سمت پر مختلف رنگوں سے نقش و نگار ہے۔

جیسا کہ ہم بیان کرچکے کچھ قالین شاہ عباس صفوی نے ہدیہ کی تھی ان میں سے ایک کی قیمت پچھلی صدی کے ۷۰ کی دہائی میں ۴ملین ڈالر سے زیادہ تھی جس وقت ایک گرام سونے کی قیمت آدھے سے زیادہ ہے تو مذکورہ قالین کی قیمت کیا ہوگی؟ اس پر مستزاد یہ کہ بہت سارے ایسے نمونے ہیں جس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ہے ڈاکٹر سعاد ماہر نے اپنی کتاب میں نو جائے نمازوں کا ذکر کیا ہے۔

یہ جائے نمازیں ریشم و حریر اور سونے کے تاروں سے بنی ہے اور ان تمام کی قیمت کا اندازہ لگانا قدرے مشکل ہے ان میں سے ایک جائے نماز کا جائز ۳۲۳ ۲۰ ہے اس کے بارے میں ڈاکٹر موصوفہ بیان کرتی ہیں یہ جائے نماز اپنی صناعت کے اعتبار سے کسی معجزے سے کم نہیں ہے اس کے دونوں اطراف میں خوبصورت نقش و نگار بنا ہوا ہے اور اس نقش و نگار میں اس بات کا لحاظ کیا گیا ہے کہ دونوں صورتوں کے رنگ مختلف ہیں۔ ''اور یہ حاج محمد رضا قمی نے ۱۲۶۴ھ /۱۸۳۸ء میں ہدیہ کی تھی یہ تاریخ فارسی میں لکھا ہوا ہے ۔ ڈاکٹر حسن حکیم نے اپنی کتاب میں بیان کی ہے کہ بعض صفوی امراء کی زواج نے چار ریشم کے جائے نماز اپنے ہاتھوں سے بناکر روضہ مقدس کو ہدیہ کی تھی اور ان پر ان کے دستخط اور بننے کی تاریخ درج ہے۔

۵_شیشے کے نمونے

تجوری کے اندر ۱۲۱نمونے شیشے کے مختلف اشکال میں ہے بعض نادر بلوری فانوس ہے تو بعض دوسرے قندیلیں کی شمع روشن ہوتا ہے شیشے کے گیندے کو اہل یورپ اہل مشرق کے انڈے کہتے ہیں ۔ ان میں سے بعض قیمتی پتھروں سے مرصّع ومزین ہیں ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق مذکورہ بالا تعداد صحیح ہے لیکن آج کل حرم میں شیشے کے نمونوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔

۶_لکڑی کے تحائف

ڈاکٹر سعاد ماہر کے مطابق ان میں کل ۱۵۶میں سے اکثر ساج ہندی بدیع الصناعت اور نقش و نگار سے مزین ہیں لیکن اس وقت مذکورہ تعداد سے کہیں زیادہ ہے۔

اگر ہم ان تجوریوں کا اضافہ کریں جن کی طرف محققین نے توجہ نہیں دی ہے اور نہ ہی روضہ کے کسی رجسٹر وغیرہ میں درج ہوئے ہیں وہ نقرئی دروازے جو منفرد انداز سے بنے ہوئے ہیں وغیرہ ان کی مادی و معنوی اہمیت کا انداز لگانا مشکل ہے ۔ یہ ایسے کنوزو خزانے ہیں جن کی معنوی قیمت مادی قیمت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لئے کہ یہ امیر المومنین کے اسم سے مشرف ہے۔

لیکن مادی قیمت یہ تو تصور سے بالاتر ہے اس بات میں دو لوگ بھی اختلاف نہیں کرسکتے ہیں کہ ان تمام تحائف کو ایسے ہی چھوڑ کر رکھنا جہاں اس پر آشوب دور میں ان کی طرف غیر محفوظ دست دراز ہونے میں دیر نہیں لگتی کیونکہ جو لالچ و خوف ہم سنتے آرہے ہیں جس میں ان تمام نفیس تحائف کا محفوظ طریقے سے ہم تک پہنچنا تعجب ہے۔

اگر ان موتیوں کے ایک میوزیم بنانے کا وقت ابھی نہیں پہنچا ہے تو کم از کم انہیں روضہ مبارک کے اندر ایک مناسب مقام میں ترتیب و تنظیم کے ساتھ رجسٹر میں درج کرکے مختلف حصوں اور سمتوں میں تقسیم کرکے رکھا جائے تاکہ ہر خاص و عام کے نظروں کے سامنے رہے۔

میری نیک شگونیاں گزرے کل کی نسبت آج زیادہ ہیں کیونکہ مجھے یہاں جدید علوم کے مطابق حرص، زینت حزن و ملال نظر آتا ہے اور مجھے یہ یقین ہے کہ ایک دن ایک نئی صبح یہ نوید دے گی کہ ان ہیروں کی طرف دیکھ کر عتبہ علویہ مقدسہ کے لاکھوں زائرین کی نظریں جھوم اُٹھیں گی اللہ سے میری دعا ہے کہ وہ ہمیں مرنے سے قبل اس صبح سے نوازے۔

الحمد للہ ترجمہ تمام شد

یکم اکتوبر ۲۰۱۰،جمعتہ المبارک بوقت شب ۲۰:۱۲

محمد تقی

*****