تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28306
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28306 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۱۳،۱۱۴

۱۱۳ ۔( مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ وَلَوْ کَانُوا اٴُوْلِی قُرْبَی مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اٴَنَّهُمْ اٴَصْحَابُ الْجَحِیمِ ) ۔

۱۱۴ ۔( وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِیمَ لِاٴَبِیهِ إِلاَّ عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِیَّاهُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ اٴَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّاٴَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِیمَ لَاٴَوَّاهٌ حَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۱۱۳ ۔ پیغمبر او رمومنین کے لئے مناسب نہیں تھا کہ مشرکین کے لئے ( خدا سے ) بخشش طلب کریں اگر چہ وہ ان کے قریبی کیوں نہ ہوں جبکہ ان پر روشن ہو گیا کہ یہ لوگ اصحاب ِ دوزخ ہیں ۔،

۱۱۴ ۔اور ابراہیمعليه‌السلام کی استغفار اپنے ( بمنزلہ) باپ ( چچا آزر) کے لئے صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھی کہ جو اس سے کیا گیا تھا ( تاکہ اسے ایمان کی طرف ترغیب دیں )لیکن جب اس پر واضح ہو گیا کہ وہ دشمن ِ خدا ہے تو اس سے بیزاری کی ۔ کیونک ابرہیمعليه‌السلام مہر بان او ربرد بار ہے ۔

شان نزول

تفسیر مجمع البیان میں مندرجہ بالا آیات کی شان نزول کے ابرے میں یہ روایت نقل ہو ئی ہے کہ بعض مسلمان پیغمبر اکرم سے کہتے تھے کہ کیا آپ ہمارے آباء و اجداد جو زمانہ جاہلیت میں مر گئے تھے ، کے لئے طلب بخشش نہیں کرتے اس پر مندرجہ بالا آیات نازل ہوئیں اور انھیں خبردار کیا گیا کہ کوئی شخص حق نہیں رکھتا کہ مشرکین کے لئے استغفار کرے۔

ان آیات کی شان نزول کے بارے میں کچھ اور مطالب بھی بیان کئے گئے ہیں جو آیت کی تفسیر کے آخر میں آئیں گے۔

دشمنوں سے لاتعلقی ضروری ہے

پہلی آیت ایک اچھی اور قطعی تعبیر کے ساتھ پیغمبر اور مومنین کو مشرکین کے لئے استغفار سے منع کرتی ہے اور کہتی ہے :مناسب نہیں کہ پیغمبر اور صاحب ایمان افراد مشرکین کے لئے طلب مغرفت کریں( مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَالَّذِینَ آمَنُوا اٴَنْ یَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِکِینَ ) ۔

اس کے بعد تاکید کے طور پر اور عمومیت کے لئے مزید کہا گیا ہے : یہاں تک کہ وہ ان کے نزدیکی ہی کیوں نہ ہوں( وَلَوْ کَانُوا اٴُوْلِی قُرْبَی ) ۔

اس کے بعد اس امر کی دلیل بیان کی گئی ہے : جب مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ مشرکین اہل جہنم ہیں اب ان کے لئے طلب مغفرت کے کوئی معنی نہیں ہیں( مِنْ بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَهُمْ اٴَنَّهُمْ اٴَصْحَابُ الْجَحِیم ) ۔یہ بالکل فضول کا م اور نامناسب آرزو ہے ۔ کیونکہ مشرک کسی طرح بھی قابل بخشش نہیں ہے اور جو شرک کی راہ پر ہیں ان کے لئے راہ نجات کا تصور نہیں ہوسکتا۔

علاوہ ازیں استغفار اور طلب بخشش ایک طرح سے مشرکین کے ساتھ محبت ، وابستگی اور لگاو کا اظہار بھی ہے او ریہ وہ چیز ہے جس سے قرآن میں بار ہا منع کیا گیا ہے ۔

قرآن سے آگاہ اور آشنا مومنین نے چونکہ اس آسمانی کتاب میں پڑھ رکھا تھا کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے اپنے چچا آزر کے لئے استغفار کی تھی تو ممکن تھا ان کے ذہن میں فوراً یہ سوال پیدا ہوتا کہ آزر مشرک تھا او راگر یہ کام ممنوع ہے تو خدا کے اس عظیم پیغمبرعليه‌السلام نے کیوں انجام دیا لہٰذا زیر نظر آیت میں اس سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ابرہایم کی استغفار اپنے بات (کے بمنزلہ چچا) کے لئے ایک وعدہ کی بنا پر تھی جو انھوں نے ا س سے کیا تھا لیکن جب وہ ان پر واضح ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو انھوں نے اس سے بیزاری اختیار کرلی اور پھر ا س کے لئے استغفار نہیں کی( وَمَا کَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَهِیمَ لِاٴَبِیهِ إِلاَّ عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِیَّاهُ فَلَمَّا تَبَیَّنَ لَهُ اٴَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّاٴَ مِنْهُ ) ۔

آیت کے آخر میں قرآن مزید کہتا ہے : ابراہیم وہ تھے جو بار گاہ خدا میں خاضع اور غضب الہٰی سے خائف بزرگوار تھے اورحلیم و برد بار تھے ۔( ان ابراهیم لا واه حلیم ) ۔

ہوسکتا ہے یہ جملہ ابراہیمعليه‌السلام کے آزر کے لئے استغفار کرنے کے وعدہ کی دلیل کے طور پر ہو کیونکہ ایک تو آپ حلیم و بر د بار تھے اور دوسری صفت آپ کی ”اواہ “ بیان ہو ئی ہے جو بعض تفاسیر کے مطابق رحیم اور رحمن کے معنی میں ہے۔ ان صفات کا تقاضا تھا کہ آپ آزر کی ہدایت زیادہ کوشش کرتے اگرچہ وہ وعدہ استغفار اور اس کے گذشتہ گناہوں کےلئے طلب بخشش کی صورت میں ہو۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مندرجہ بالا جملہ اس امر کے لئے ہو کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام میں جو خشوع و خضوع تھا اور آپ میں خدا کی مخالفت کا جو خوف تھا اس کی وجہ سے وہ حق کے دشمنوں کے لئے استغفار کرنے کو بالکل تیار نہ تھے ۔ بلکہ یہ کام اس زمانے سے مخصوص تھا جب آپ کو آزرکی ہدایت کی امید تھی لہٰذا صرف ا س کی دشمنی واضح ہوتے ہی آپ نے اس کام سے صرف نظر کرلیا ۔

اگر سوال ہو کہ اس وقت مسلمانوں کو کیسے معلوم ہوگیا کہ ابراہیمعليه‌السلام نے آزر کے لئے استغفار کی تھی تو ہم جواب میں کہیں گے سورہ توبہ کی یہ آیات، جیسا کہ ہم ابتداء میں اشارہ کرچکے ہیں پیغمبر خدا کی عمر کے آخری حصے میں نازل ہوئی تھیں جبکہ مسلمان پہلے سے سورہ مریم کی آیت ۴۷ پڑھ چکے تھے ۔ اس میں ہے کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے ” ساستغفرک ربی “کہہ کر آزر سے استغفار ککا وعدہ کیا تھا ۔ اور یہ بات مسلم ہے کہ خدا کا پیغمبر کسی سے فضول اور بلاوجہ وعدہ نہیں کرتا اور جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کی وفا بھی کرتا ہے ۔

نیز سورہ منتحہ کی آیت ۴ میں بھی وہ پڑھ چکے تھے کہ حضرت ابراہیم کی استغفار صراحت سے آئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :

( و اغفرلی لابی انه کان من الضآلّین ) ( الشعراء ۔ ۸۶)

چند اہم نکات

۱ ۔ ایک جعلی روایت :

کئی سنی مفسرین نے صحیح بخاری ، مسلم اور دیگر کتب سے سعید بن مسیب کے واسطے سے اس کے باپ سے ایک جعلی رویات نقل کی ہے وہ یہ ہے کہ جب ابو طالب کی موت کا وقت آیا تو پیغمبر اکرم ان کے پاس گئے جبکہ ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ ان کے پا س بیٹھے تھے تو پیغمبر اکرم نے ان سے فرمایا: اے چچا آپ ”لا اله الاالله “ کہیں تاکہ میں اس کے ذریعے پروردگارکے ہاں آپ کی شفاعت کروں ۔ اس وقت ابو جہل اور عبد اللہ بن امیہ نے ابو طالب کی طرف رخ کیا اور کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ ( اپنے باپ ) عبد اللہ کے دین سے منہ پھیر لو۔ پیغمبر خدا نے ان سے وہی بات بار بار کہی ۔ مگر ابو جہل اور عبد اللہ وہی کہتے ہوئے روکتے رہے ۔ آخری بات جو ابو طالب نے کہی وہ یہ تھی ۔ ” عبد المطلب کے دین پر اور ”لا اله الا الله “ کہنے سے اجتناب کیا ۔ اس وقت پیغمبر اکرم نے فرمایا : میں آپ کے لئے استغفار کرتار ہوں گا یہاں تک کہ مجھے اس سے روکاجائے اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ”( ما کان للنبی و الذین اٰمنوا ) “ ( تفسیر المنار او راہل سنت کی دیگر تفاسیر )

اس حدیث میں جعلی ہونے کی نشانیاں صاف نظر آرہی ہیں ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ مفسرین اور محدثین کے درمیان مشہور ہے کہ سورہ برات ۹ ھ ء میں نازل ہوئی بلکہ بعض کے نظرئیے کے مطابق یہ آخری سورت ہے جو پیغمبر اکرم پر نازل ہوئی ۔ جبکہ مورخین نے لکھا ہے کہ جناب ابو طالب کی وفات مکہ میں رسول اللہ کی ہجرت سے پہلے ہوئی ہے ۔

اسی واضح تضاد کی بناء پر متعصبین مثلا ًصاحب المنار نے ہاتھ پاوں مار ے ہیں ۔ کبھی کہا ہے کہ یہ آیت دو مرتبہ نازل ہوئی ، ایک دفعہ مکہ میں اور ایک دفعہ مدینہ میں ۹ ء ھ میں ۔ اس بے دلیل دعویٰ سے انھوں نے اپنے خیال میں اس واضح تضاد کو بر طرف کرنے کی کوشش کی ہے کبھی کہا ہے کہ ہو سکتا ہے یہ آیت مکہ میں وفات ابوطالب کے وقت نازل ہوئی ہو ۔

پھر بعد میں رسول اللہ کے حکم سے سورہ توبہ میں رکھ دی گئی ہو جبکہ یہ دعویٰ بھی بالکل دلیل سے عاری ہے ۔ کیا بہتر نہ تھا کہ بجائے ایسے بے سند توجہات کرنے مذکورہ روایت اور ا س کی صحت میں تردد کیا جاتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو طالب کی وفات سے پہلے خدا تعالیٰ قرآن کی چند آیات میں مسلمانوں کو مشرکین کی دوستی اور محبت سے منع کرچکا تھا اور ہم جانتے ہیں کہ استغفار کرنا دوستی اورمحبت کے اظہار کا ایک واضح ترین مصداق ہے اس کے باوجود کسی طرح ممکن ہے کہ ابو طالب دنیا سے مشرک کے طور پر چلے جائیں اور پھر رسول اللہ قسم کھائیں کہ میں تو اسی طرح تمہارے لئے استغفار کرتا رہوں گا جب تک خدا مجھے اس سے منع نہ کر دے۔

تعجب کی بات یہ ہے کہ فخرالدین رازی اس کا تو انکار نہیں کرسکا کہ یہ آیت باقی سورہ تو بہ کی آیات کی طرح مدینہ میں پیغمبر اکرم کی آخری عمر میں نازل ہوئی ہے لیکن ایسے مسائل میں اپنے مشہور تعصب کی بناء پر ایک اور توجیہ کرتا ہے اور وہ یہ ہے کہ رسو ل اللہ ابو طالب کی وفات کے بعد اسی طرح مسلسل سورہ توبہ کے نزول تک ان کے لئے استغفار کرتے رہے ۔ یہاں تک ایک مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور انھیں منع کیا گیا ۔ اس کے بعد کہتا ہے : اس میں کیا حرج ہے کہ یہ چیز پیغمبر اور مومنین کے لئے اس وقت تک جائز ہو۔

اگر فخرالدین رازی اپنے آپ کو تعصب کی قید سے آزاد کرلیتا تو اس حقیقت کی طرف متوجہ ہوجاتا کہ یہ ممکن نہیں ہے کہ پیغمبر اکرم اتنی طویل مدت تک ایک مشرک شخص کے لئے استغفار کریں جبکہ بہت سی قرآنی آیا ت جو اس وقت تک نازل ہو چکی تھیں ۔ مشرکین کے ساتھ ہر قسم کی محبت اور دوستی کی مذمت کرچکی تھیں ۔(۱)

تیسری بات یہ ہے کہ وہ اکیلا شخص جس نے یہ روایت نقل کی ہے وہ سعید بن مسیب ہے اور اس کی امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی مشہور ہے ۔ اس بناء پر اس کی بات پر حضرت علیعليه‌السلام ان کے والد اور ان کی اولاد کے بارے میں ہر گز اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔

علامہ امینی نے مذکورہ بات کی طرف اشارہ کرنے کے بعد واقدی سے ایک بات نقل کی ہے جو قابل توجہ ہے واقدی کہتا ہے :۔

سعید بن مسیب حضرت امام سجاد علی بن الحسین علیہ السلام کے جنازے کے قریب سے غذرا او ران کی نماز جنازہ نہ پڑھی( اور ایک فضول عذر کے ) اس کام سے اجتناب کیا لیکن ابن حزم کے بقول جب لوگوں نے اسے پوچھا کہ کیا تم حجاج کے پیچھے نماز پڑھتے ہو یا نہیں تو اس نے کہا کہ ہم حجاج سے بد تر کے پیچھے نما پڑھ لیتے ہیں ۔

چوتھی بات یہ ہے کہ جیسا کہ اسی تفسیر کی پانچویں جلد میں ہم کہہ آئے ہیں کہ اس میں شک نہیں کہ حضرت ابو طالب پیغمبر اسلام پر ایمان لے آئے تھے ۔ اس سلسلے میں ہم نے واضح مدرک اور دلائل پیش کئے ہیں اور ثابت کیا ہے کہ جو کچھ جناب ابو طالب کے ایمان نہ لانے کے بارے میں کہا گیا ہے وہ ایک بہت بڑی تہمت ہے ۔ تمام شیعہ علماء او ربہت سے سنی علماء مثلاًابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں قسطلانی نے ارشاد الباری میں اور زینی وحلان نے تفسیر حلبی کے حاشیہ پر اس امر کی تصریح کی ہے ۔

ایک باریک بین محقق اگر اس لہر کی طرف توجہ کرے جو بنی امیہ کے حکام کی طرف سے حضرت علیعليه‌السلام کے خلاف سیاسی مقاصد کے تحت اٹھی تھی تو وہ اچھی طرح اندازہ لگا سکتا ہے کہ جو شخص بھی آپ سے رشتہ اور تعلق رکھتا تھا وہ اس سازش سے امان میں نہیں تھا ۔ در حقیقت حضرت ابو طالب کا اس کے علاوہ کوئی گناہ نہیں تھا کہ وہ اسلام کے عظیم پیشوا علی بن ابی طالب علیہ السلام کے باپ تھے ۔ کیاان لوگوں نے ابو ذر جیسے عظیم مجاہد ِ اسلام پر حضرت علیعليه‌السلام سے عشق و محبت اورمکتب عثمان سے مقابلے کی وجہ سے ایسی تہمتیں نہیں لگائیں ۔

حضرت ابو طالب جو ساری زندگی پیغمبر اسلام کے حامی اور ان کے محافظ رہے اور آپ ہر طرح سے فرمانبرداری کرتے رہے ، ان کے ایمان کے سلسلے میں مزید اطلاع کے لئے اسی تفسیر کی جلد پانچ کے صفحہ ۱۶۶ تا صفحہ ۱۷۱ ( اردو ترجمہ ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

۲ ۔ حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے آزر سے استغفار کاوعدہ کیوں کیا؟

دوسرا سوال جو یہاں سامنے آتا ہے یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے اپنے چچا آزر سے استغفار کاوعدہ کیونکر کیا جبکہ زیر بحث آیت اور قرآن کی دیگر آیات کے مطابق آپ نے یہ وعدہ پورا کیا ، حالانکہ وہ ہر گز ایمان نہیں لایا اور وہ مشر کوں اور بت پرستوں میں سے تھا او رایسے افراد کے لئے استغفار کرنے کی ممانعت ہے ۔

اس سوال کے جواب میں اس نکتے کی طرف توجہ کرنا چاہئیے کہ مندرجہ بالا آیت سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیم کو توقع تھی کہ انتظار تھا کہ اس طریقے سے آزر، ایمان او ر توحید کی طرف مائل ہ وجائے گا اور ان کی استغفار حقیقت میں یہ تھی کہ خدا وند اسے ہدایت کر اور اس کے گذشتہ گناہوں کو بخش دے لیکن جب آزر نے حالت شرک میں اپنی آنکھیں دنیا سے بند کیں اور حضرت ابراہیم کے لئے مسلم ہو گیا کہ وہ پر وردگار کی دشمنی میں امر ہے اور اب اس کی ہدایت کی کوئی گنجائش نہیں رہی تو آپ نے اس کے لئے استغفار کو ختم کردیا ۔

اس معنی کے مطابق مسلمان بھی اپنے مشرک دوستوں اور رشتہ داروں کے لئے، جب تک وہ بقید حیات ہیں اور ان کی ہدایت کی امید ہو سکتی ہے استغفارکریں یعنی خدا سے ان کے لئے ہدایت اور بخشش دونوں طلب کریں لیکن جب وہ حالت ِکفر میں مر جائیں تو ان کے لئے اب استغفار کا کوئی موقع نہ رہے گا۔

باقی رہا یہ جو بعض روایات میں آیا ہے کہ امام صا دقعليه‌السلام نے فرمایا کہ حضرت ابراہیمعليه‌السلام نے وعدہ کیا تھا کہ اگر آزر اسلام لے آیا تو اس کے لئے استغفار کریں گے( نہ کہ اسلام لانے سے پہلے ) اور جس وقت ان پر واضح ہو گیا کہ وہ دشمن خدا ہے تو آپ نے اس سے بیزاری اختیار کی ۔ اس بناء پر ابراہیم کا وعدہ مشروط تھا اور چونکہ شرط پوری نہ ہوئی اس لئے انھوں نے کبھی اس کے لئے استغفا رنہیں کی۔

یہ روایت مرسل اور ضعیف ہونے کے علاوہ ظاہر یا صریح آیات ِ قرآن کے مخالف ہے کیونکہ زیر بحث آیت کا ظہور یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے استغفار کی ۔ سورہ شعراء کی آیت ۸۶ میں صراحت سے ہے کہ ابراہیمعليه‌السلام نے خدا سے اس کی بخشش کا تقاضا کیا تھا ۔ ارشاد ہوتا ہے :واغفر لابی انه کان من الصآلّین

اس کا دوسرا شاہد وہ مشہور جملہ ہے جو ابن عباس سے نقل ہوا ہے کہ جن تک آزر زندہ تھا حضرت ابراہیم نے بار ہا اس کے لئے استغفار کی لیکن جب وہ حالتِ کفر میں مر گیا اور اس کی دین ِ حق سے عداوت مسلم ہو گئی تو آپ بھی اس کام سے رک گئے۔

بعض مسلمان چونکہ اپنے بزرگ مشرکین کے لئے جو حالت کفر میں مر گئے تھے استغفارکرنا چاہتے تھے لہٰذا قرآن نے صراحت کے ساتھ انہیں منع کیا اور تصریح کی ابراہیم کا معاملہ بالکل ان سے مختلف تھا وہ تو آزر کی زندگی میں اور ا س کے ایمان کی امید پر ایسا کرتے تھے نہ کہ اس کی موت کے بعد ۔

۳ ۔ دشمنوں سے ہر قسم کا تعلق توڑ لینا چاہئیے :

زیر بحث آیت کوئی واحد آیت نہیں ہے جو مشرکین سے ہر قسم کا رابطہ منقطع کرنے کی بات کرتی ہے ۔ بلکہ قرآن کی متعدد آیات سے یہ امر اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ ہر قسم کا رابطہ ، رشتہ داری ، قطع تعلق اور عدم رشتہ داری مکتبی اور مذہبی بنیادوں پر ہو نا چاہئیے اور یہ رشتہ ( خدا پر ایمان اور اس قسم کے شرک اور بت پرستی سے مقابلہ )مسلمانوں کے تمام روابط پر حاوی ہو نا چاہئیے کیونکہ یہ رشتہ داری بنیادی ہے او ریہ رابط تمام اجتماعی اور معاشرتی امور پر حاکم ہے ۔ سطحی اور ظاہری رشتے ناتے اس کی ہر گز نفی نہیں کرسکتے۔ یہ درس کل کے لئے بھی تھا اور آج کے لئے بھی ہے ۔یہ ہر زمانے اور ہر دور کے لئے ایک سبق ہے ۔

آیات ۱۱۵،۱۱۶

۱۱۵ ۔( وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَهُمْ مَا یَتَّقُونَ إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔

۱۱۶ ۔( إِنَّ اللهَ لَهُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ یُحْیِ وَیُمِیتُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ ) ۔

ترجمہ

۱۱۵ ۔ ایسا نہ تھا کہ خدا کسی قوم کو ہدایت ( اور ایمان ) کے بعد سزا دے مگر یہ کہ جس سے انھیں بچنا چاہئیے اسے ان کے لئے بیان کردے( او رو ہ اس کی مخالفت کریں ) کیونکہ خدا ہر چیز سے دانا ہے ۔

۱۱۶ ۔ آسمانوں اور زمیں کی حکومت اس کے لئے ہے ( وہ ) زندہ کرتا ہے او رمارتا ہے اور خدا کے علاوہ کوئی ولی اور مدد گار نہیں ہے ۔

شان نزول

بعض مفسرین نے کہا ہے کہ کچھ مسلمان فرائض ، و واجبات کے نزول سے پہلے اس دنیا سے چل بسے ۔کچھ لوگ رسول اللہ کی خدمت میں آئے اور ان کے انجام کے بارے میں پریشانی کا اظہار کیا ان کا خیال تھا کہ شاید فوت شدہ مسلمان عذاب الہٰی میں گرفتار ہوں کیونکہ انھوں نے یہ فرائض انجام نہیں دئیے تھے اس پر مندرجہ بالا آیت نازل ہوئی اور اس با ت کی نفی کی گئی ۔ (مجمع البیان ، محل آیت کے ذیل میں )۔

بعض دوسرے مفسرین نے کہا ہے کہ یہ آیت سابقہ آیات میں وارد صریح ممانعت سے پہلے مسلمانوں کے مشرکین کے لئے استغفار کرنے اور ان سے اظہار محبت کرنے کے بارے میں نازل ہوئی اور انھیں اظمینان دلایا ہے کہ ان کی استغفار جو خدا کی ممانعت سے پہلے تھی اس پر ان کا مواخذہ نہیں ہوگا۔

____________________

۱۔سوره ٴ نساء مسلماً سورہ برات سے پہلے نازل ہوئی اس کی آیت ۱۳۹ میں اور سورہ آل ِ عمران بھی برات سے پہلے نازل ہوئی اس کی اایت ۳۸ میں صراحت سے کفار سے دوستی اور محبت کرنے کو منع کیا گیا ہے اور خو د اسی سورہ توبہ کی زیر بحث آیت سے پہلے کی آیات میں خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر سے بالصراحت کہتا ہے :۔ ان ( کفار ) کے لئے استغفار کرو یانہ کرو خداانھیں نہیں بخشے گا ۔

واضح حکم کے بعدسزا

مندرجہ بالا پہلی آیت ایک عمومی قانون کی طرف اشارہ ہے کہ جس کی عقل بھی تائید کرتی ہے اور وہ یہ کہ جب تک خدا کوئی حکم بیان نہ فرمائے اور شریعت میں اس کے بارے میں وضاحت نہ آجائے کسی شخص کو اس کے سلسلے میں سزا نہیں دے گا دوسرے لفظوں میں مسئولیت اور جوابدہی ہمیشہ احکام بیان کرنے کے بعد ہے اس چیز کو علم ِ اصول میں ” قاعدہ بلا بیان “ سے تعبیر کیا جاتاہے ۔

لہٰذا ابتداء میں فرما یا گیا ہے : ایسا نہ تھا کہ خدا کسی گروہ کو ہدایت کے بعد گمراہ کردے جب تک جس چیز سے اسے پرہیز کرنا چاہئیے وہ اس سے بیان نہ کردے( وَمَا کَانَ اللهُ لِیُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّی یُبَیِّنَ لَهُمْ مَا یَتَّقُونَ ) ۔

”یضل “ اصل میں گمراہ کرنے کے معنی میں ہے اس سے مراد گمراہی کا حکم لگا نا ہے جیسا کہ بعض مفسرین کو احتمال ہے جیسے تعدیل اور تفسیق ۔ عدالت اور فسق۔ عدالت کا حکم لگانے کے معنی میں ہیں ۔(۱)

و طائفة قد اکفرونی بحبکم

یعنی ایک گروہ نے آپ کی محبت کی وجہ سے مجھ پر کفر کا حکم لگا یا ہے ۔

یاروز قیامت ثواب و جزا کے راستے سے گمراہ کرنے کے معنی میں ہے جو در اصل سزا دینے کے مفہوم میں ہوگا یاپھر ” اضلال “ سے مرد وہی ہے جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں اور و ہ ہے نعمت ِ توفیق سلب کرنا اور انسان کو اس حالت پر چھوڑ دینا ۔ اس کا نتیجہ طریق ہدایت سے گمراہی اور سر گر دانی یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے کہ گناہوں کا تسلسل زیادہ گمراہی اور طریق ہدایت سے دور رہنے کا سر چشمہ ہے ۔(۲)

آیت کے آخر میں فرمایا گیا : خد اہر چیز کو جانتا ہے( إِنَّ اللهَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیمٌ ) ۔یعنی خد اکے علم کا تقاضا ہے کہ جب تک اس نے کسی کے بارے میں اپنے بندوں سے کچھ کہا نہیں اس کے بارے میں کسی کو جوابدہ نہ سمجھے اور اس سے مواخذہ نہ کرے ۔

____________________

۱۔ بعض یہ خیال کرتے ہیں کہ صرف ”باب تفعیل“ ہے جو کبھی حکم لگانے کے معنی میں بھی آتا ہے حالانکہ یہ حکم” باب افعال “میں دیکھا گیا ہے ۔ مثلا کمیت شاعر کا مشہو رشعر ہے جواس خاندان ِ رسالت سے اپنے عشق کے اظہار کے لئے کہا ہے ، اس میں ہے :۔

۲۔ قرآن میں ہدایت وضلالت کے معنی کے بارے میں مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۴۰ تا ص ۱۴۱( اردو ترجمہ )کی طرف رجوع کریں ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

بعض مفسرین اور محدثین کا خیال ہے کہ مندرجہ باآیت اس پر دلیل کہ مستقلات عقلیہ جب تک شرعی طریق سے بیان نہ ہوں کوئی شخص ان کے بارے میں مسولیت نہیں رکھتا ( مستقلات عقلیہ ان چیزوں کو کہتے ہیں جن کی اچھائی یا برائی کو انسان حکم ِ شریعت کے بغیر اپنی عقل سے سمجھ لیتا ہے مثلاً ظلم کی بدی، عدالت کی اچھائی یا چوری ، جھوٹ، تجاوز اور قتل فنس وغیرہ کی برائی ) گویا ان کے خیال کے مطابق تمام احکام ِ عقلی کی حکم ِ شریعت کے ذریعہ تائید ہو نا چاہئیے تاکہ لوگوں کی ان کے بارے میں مسولیت ہو۔ اس خیال کی بناء پر شریعت کے نزول سے پہلے لوگ مستقلات عقلیہ کے بارے میں کوئی بھی جوابدہی نہں رکھتے تھے لیکن اس کا خیال بطلان واضح ہے کیونکہ جملہ ”( حتیٰ یبین لهم ) “( یہاں تک کہ ان سے بیان کرے ) ان کا جواب دیتا ہے اور واضح کرتا ہے کہ یہ آیت اور ایسی آیات ان مسائل سے مربوط ومخصوص ہے جو پروہ ابہام میں ہیں اور بیان ووضاحت کے محتاج ہیں اور یہ مسلم ہے کہ مستقلات عقلیہ کے بارے میں یہ بات نہیں ہو سکتی کیونکہ ظلم برا ہے اور عدالت اچھی ہے اس میں کوئی ابہام نہیں ہے جو وضاحت کا محتاج ہو۔

جولوگ ایسی باتیں کرتے ہیں وہ اس طرف متوجہ نہیں ہیں کہ اگر یہ بات صحیح ہو تولوگوں پر ضرور ی نہیں رہتا کہ انبیاء کی دعوت پر لبیک کہیں اور ان کی صداقت معلوم کرنے کے لئے دعوی نبوت کے مدعی اور اس کے معجزات کا مطالعہ کریں کیونکہ ان کے تو ابھی پیغمبر کی سچائی اور حکم الٰہی واضح نہیں ہوا( لہٰذا ضروری نہیں کہ وہ ان کے دعویٰ کی تحقیقی کریں اور کا مطالعہ کریں ۔ لہٰذا جیسے مدعیان ِ نبوت کے دعویٰ کا مطالعہ عقل و خرد کے حکم سے واجب ہے اور اصطلاح کے مطابق مستقلات عقلیہ میں سے ہے ایسے ہیں دیگر مسائل جنھیں عقل و خرد وضاحت سے پہچانتی ہے ، واجب الاتباع ہیں ۔

اس گفتگو کی شاہد وہ تعبیر ہے جو طرق اہل بیتعليه‌السلام کی بعض احادیث میں نظر آتی ہے ۔ کتاب ِ توحید میں امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس آیت کی تفسیر میں فر مایا :

حتیٰ یعرفهم مایرضیه و ما یسخطه

یعنی خد اکسی کو عذاب نہیں کرتا جبتک اسے سمجھا نہ لے کہ کونسی چیزیں اس کی رضا کا سبب ہیں اور کون سی اس کے غضب کا موجب ہیں ۔(۱)

بہر حال یہ آیت اور اس قسم کی دیگر آیات ایک کلی حکم اور اصولی قانون کی بنیاد شمار ہوتی ہیں اور وہ یہ کہ جب تک کسی چیز کے وجوب یا حرمت کے لئے ہمارے پاس دلیل نہ ہو اس کے بارے میں ہماری کوئی مسولیت نہیں ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہمارے لئے تمام چیزیں جائز اور مباح ہیں مگریہ کہ ان کے وجوب یا حرمت کے لئے کوئی دلیل موجود ہو ۔ اسی بات کو ” اصل برات کہتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں اس مسئلہ پر تاکیدکے حوالے سے کہا گیا ہے : آسمانوں اور زمینوں کی حکومت خدا کے لئے ہے( إِنَّ اللهَ لَهُ مُلْکُ السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

(موت و حیات کانظام اس کے قبضہ قدرت میں ہے وہی ہے جو زندہ کرتا ہے او رمارتا ہے( یُحْیِ وَیُمِیتُ ) ۔

اس بناء پر ” تمہارا خدا کے علاوہ کوئی ولی ، سر پرست ، دوست اور یاور نہیں ہے( وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ وَلِیٍّ وَلاَنَصِیرٍ ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ عالم ہستی کی تمام قدرتیں اور تمام حکومتیں اس کے ہاتھ میں اور اس کے زیر فرمان ہیں ۔ تم اس کے غیر کا سہارا نہ لو۔ غیر خدا کو پناہ گاہ قرار نہ دو اور استغفار وغیرہ کے ذریعے خدا کے دشمنوں سے اپنی محبت کا رشتہ قائم اور محکوم کرو۔

____________________

۱۔ تفسیر نو ر الثقلین جلد ۲ صفحہ ۲۷۶۔