تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28349
ڈاؤنلوڈ: 3201


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28349 / ڈاؤنلوڈ: 3201
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۱۲۴،۱۲۵

۱۲۴ ۔( وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ اٴَیُّکُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِیمَانًا فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِیمَانًا وَهُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ) ۔

۱۲۵ ۔( وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَی رِجْسِهِمْ وَمَاتُوا وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۲۴ ۔ اورجب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض ( دوسروں سے ) کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم سے کس کے ایمان میں اضافہ کیا ہے ۔ (ان سے کہہ دو )جو لوگ ایمان لائے ہیں ، اس سے ان کا ایمان بڑھا ہے اوروہ ( خد اکے فضل و کرم سے ) خوش ہیں ۔

۱۲۵ ۔ لیکن جن کے دلوں میں بیماری ہے ان کی ناپاکی ہی کا اضافہ ہوا ہے اور وہ دنیا سے اس حالت میں گئے ہیں کہ وہ کافر تھے ۔

آیات قرانی کی تاثیر ۔ پاک اور ناپاک دلوں پر

منافقین اور مونین کے بارے میں گزشتہ مباحث کی مناسبت سے ان دو آیات میں ان دونوں گروہوں کی ایک واضح نشانی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : جب کوئی سورت نازل ہوتی ہے تو بعض منافقین ایک دوسرے سے کہتے ہیں کہ یہ سورت نازل ہونے سے تم میں سے کس کا ایمان بڑھا ہے( وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُمْ مَنْ یَقُولُ اٴَیُّکُمْ زَادَتْهُ هَذِهِ إِیمَانًا ) ۔(۱)

ایسی باتیں کرکے وہ قرآن کی سورتوں کی عدم تاثیر اور ان کے بارے میں بے اعتنائی کااظہار کرنا چاہتے تھے وہ ظاہر کرنا چاہتے تھے کہ یہ آیات کسی اہم اور قابل ِ توجہ مفہوم کی حامل نہیں ہیں ۔ لیکن قرآن انھیں قطعی لب و لہجہ میں جواب دیتا ہے اور لوگوں کے دو گروہوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہتا ہے : رہے وہ لوگ جو ایمان لائے ہیں ، تو ان آیات کا نزول ان کے ایمان میں اضافہ کرتا ہے اور ان کے چہروں سے مسرت کے آثار ظاہر ہوتے ہیں( فَاٴَمَّا الَّذِینَ آمَنُوا فَزَادَتْهُمْ إِیمَانًا وَهُمْ یَسْتَبْشِرُونَ ) ۔” لیکن جن جن کے دلوں میں نفاق ، جہالت اور عناد اورحسد کی بیماری ہے ان کی ناپاکی پر ایک ناپاکی کا اضافہ ہوجا تا ہے “( وَاٴَمَّا الَّذِینَ فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَتْهُمْ رِجْسًا إِلَی رِجْسِهِمْ ) ۔آخر کار وہ کفر اور بے ایمانی کی حالت میں اس دنیا سے جائیں گے( وَمَاتُوا وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ قرانی آیا کے مختلف لوگوں پر مختلف اثرات:

قرآن کی مندرجہ بالا دو آیت اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں کہ صرف حیات بخش تعلیمات اور اچھا لائحہ عمل ہی کسی فریاگروہ کی سعادت کے لئے کافی نہیں بلکہ اس کے مقدمات کی فراہی اور بیادوں کا مہیا ہونا بھی ایک بنیادی شرط سمجھا جانا چاہئیے ۔

قرآنی آیات بارش کے حیات بخش قطروں کی طرح ہیں جو باغ میں سبزہ زار اگاتے ہیں تھور والی زمین میں خس و خاشاک۔

جو لوگ تعلیم اور ایمان کے جذبے سے اور حقیقت سے عشق کے ساتھ ان کی طرف دیکھتے ہیں وہ ہر سورت بلکہ ہر آیت سے نیا درس لیتے ہیں ۔ جو ان کے ایمان کی پرورش کرتا ہے اور ان میں انسانیت کی واضح مصفات کو تقویت پہنچا تا ہے ۔ لیکن جو لوگ ہٹ دھرمی ، غرور اور نفاق کے تاریک شیشوں کے پیچھے ان آیا ت کی طرف دیکھتے ہیں وہ نہ صرف ان سے فائدہ اٹھاتے بلکہ ان کے کفر اور عناد کی شدت میں اضافہ ہوجا تا ہے ۔

دوسرے لفظوں میں ہر نئے فرمان کے بارے میں وہ نئی نافرمانی اور نیا گناہ کرتے ہیں ، ہر حکم کے بارے میں نئی سر کشی اور ہر حقیقت کے سامنے نئی ہٹ دھرمی کرتے ہیں اس طرح ان کے وجود میں عصیان ، نافرمانیاں اور ہٹ دھرمیاں تہ در تہ جمع ہو جاتی ہیں اس طرح ان کی روح میں ان بری صفات کی جڑیں مضبوط ہ وجاتی ہیں آخر کار وہ حالت کفر میں مر جاتے ہیں اور واپسی کا راستہ ان کے لئے بالکل بند ہو جاتا ہے ۔

ایک اور تعبیر میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی تربیتی پر وگرام میں فاعل کی فاعلیت کا فی نہیں ہے بلکہ روحِ قبولیت اور قابل کی قابلیت بھی بنیاد ی شرط ہے ۔

۲ ۔”رجس “ کا مفہوم :

لغت میں ” رجس “ کا معنی ہے ” پلید “ اور ” ناپاک “ وجود اور راغب نے اپنی کتاب مفردات میں لکھا ہے کہ پلیدی چار قسم کی ہے ۔

۱ ۔ طبیعت کے لحاظ سے ، ۲ ۔ عقل و فکر کے زاویہ سے ،

۳ ۔شریعت کے حوالے سے اور ۔ ۴ ۔ کبھی تمام پہلووں سے ۔

البتہ اس میں شک نیہں کہ وہ پلیدی جو نفاق ، ہٹ دھرمی اور حق کے مقابلے میں شدت سے پیدا ہو تی ہے ، ایک قسم کی باطنی اور معنوی ناپاکی ہے جس کا اثر آخر کار انسان کے تما م وجود ، گفتار اور کردار میں ظاہر ہوتا ہے ۔

۳ ۔ ”( وهم یستبشرون ) “ کا مطلب :

لفط ”بشارت “ کی اصل کی طرف توجہ کرتے ہوئے یہ جملہ ایسے سور اورخوشی کے آثار ان کے چہرے سے ظاہر ہوتے ہیں ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذٓیات قرآنی کاتربیتی اثر مومنین میں اس قدر آشکار تھا کہ اس کی علامات فوراً انک ے چہروں میں نمایاں ہو جاتی تھیں ۔

۴ ۔ دل کی بیماری :

مندرجہ بالا آیات میں نفاق اور اس کی گندگی صفات کو دل کی بیماری کہا گیا ہے جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ ” قلب “ ایسے مواقع پر روح اور عقل کے معنی میں ہے اور دل کی بیماری ان مواقع رذائل اور روحانی انحرافات کے معنی میں ہے اور یہ تعلیم نشاندہی کرتی ہے کہ انسان کی روح اور عقل اگر صحیح و سالم ہو تو ان پر بری صفات میں سے کوئی بھی اس کے وجود میں اپنی جڑیں پید انہیں کرسکتی اور ایسا اخلاق جسمانی بیماری کی طرح طبیعت کے بر خلاف ہو گا ۔ لہٰذا ایسی صفات سے آلودگی اصلی طبعی راستے سے انحراف اور روحانی بیماری کی دلیل نہیں ہیں ۔۲

۵ ۔ ایک درس :

مندرجہ بالاآیت ہم سب مسلمانوں کو ایک عجیب درس دیتی ہے یہ آیات اس حقیقت کی ترجمانی کرتی ہیں کہ جب کوئی قرآنی سورت نازل ہوتی ہے تو پہلے مسلمانوں میں ایک تازہ روح پیدا ہوجاتی تھی اور انھیں نئی تربیت حاصل ہوتی تھی ، اس طرح کہ اس کے آثار بہت جلد ان کے چہروں سے نمایاں ہوجاتے تھے حالانکہ آج کل ہم بظاہر مسلمان افراد کو دیکھتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ ایک سورت پڑھ کر ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا بلکہ قرآن ختم کرکے بھی ان پر تھوڑا سا اثر بھی دکھا ئی نہیں دیتا ۔

تو کیا قرآن کی سورتیں اور آیتیں اپنا اثر کھو بیٹھی ہیں یا پھر افکار کی آلودگی ، دلوں کی بیماری اور ہمارے برے اعمال کے حجابوں نے ہمارے دلوں کو اثر پذیر بنا دیا ہے ایسی حالت پر ہمیں خدا سے پناہ مانگنا چاہئیے اور اس کے درگاہ ِ پاک سے پہلے وقت کے مسلمانوں کے دل عطا ہونے کی دع ا کرنا چاہئیے ۔

____________________

۱۔اذا ماانزلت “میں لفظ ”ما “ در حقیقت”مازائده “ ہے اور تاکید کے لئے ہے ۔ بعض نے کہا ہے کہ یہ ” ماصلہ “ ہے جو حرف شرط یعنی ”اذا“ کو اس کی جزا پرمسلط کرتا ہے اورجملے کی تاکید کرتا ہے ۔

۲۔ دل کی بیماری اور قرآ ن میں اس کے مفہوم کے بارے میں ہم جلد اول ص ۹۹ ( ار دو ترجمہ ) پر ایک اور بحث کرچکے ہیں ۔

آیات ۱۲۶،۱۲۷

۱۲۶ ۔( اٴَوَلاَیَرَوْنَ اٴَنَّهُمْ یُفْتَنُونَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّةً اٴَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لاَیَتُوبُونَ وَلاَهُمْ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

۱۲۷ ۔( وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ هَلْ یَرَاکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ ثُمَّ انصَرَفُوا صَرَفَ اللهُ قُلُوبَهُمْ بِاٴَنّهُمْ قَوْمٌ لاَیَفْقَهُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۲۶ ۔ کیاوہ نہیں دیکھتے کہ سال میں ایک یا دو مرتبہ ان کی آزمائش ہو تی ہے پھر بھی وہ تو بہ نہیں کرتے اور متوجہ نہیں ہوتے ۔

۱۲۷ ۔ اور جس وقت کوئی سورت نازل ہوتی ہے ان( منافقین ) میں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے ہیں کہ کیا تمہیں کوئی دیکھ تو نہیں رہا ؟( اور اگر ہم بارگاہ پیغمبر سے باہر چلے جائیں تو کوئی ہماری طرف متوجہ نہیں ہوگا ) اس کے بعد وہ لوٹ جاتے ہیں ( اور باہر چلے جاتے ہیں ) خد انے ان کے دلوں کو حق سے پھیر دیا ہے کیونکہ وہ ایسے لوگ ہیں جو سمجھتے نہیں ہیں ( اور بے علم ہیں ) ۔

تفسیر

ان آیا ت میں بھی منافقین کے بارے میں گفتگو جاری ہے اور انھیں سر زنش کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : کیا وہ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک یا دو مرتبہ انھیں آزمایا جاتا ہے( اٴَوَلاَیَرَوْنَ اٴَنَّهُمْ یُفْتَنُونَ فِی کُلِّ عَامٍ مَرَّةً اٴَوْ مَرَّتَیْنِ ) ۔تعجب کی بات ہے کہ ان پے در پے آزمائشوں کے باجود غلط را ستوں پر چلنے سے بعض نہیں آتے اور توبہ نہیں کرتے اور متذکر نہیں ہوتے( ثُمَّ لاَیَتُوبُونَ وَلاَهُمْ یَذَّکَّرُونَ ) ۔

اس سلسلے میں اس آزمائش سے کیا مراد ہے جس کا سالانہ ایک یا دو مرتبہ تکرار ہوتا ہے ۔ مفسرین کے در میان اختلاف ہے ۔

بعض انھیں بیماریاں قرار دیتے ہیں ۔

بعض بھوک ، ننگ اور دوسری سختیاں مراد لیتے ہیں ۔

بعض جہاد کے میدانوں میں عظمتِ اسلام کے آثار اور حقانیت ِ پیغمبر کا مشاہدہ سمجھتے ہیں کیونکہ منافقین ماحول کی مجبوری کے باعث ان میں شریک ہوتے ہیں ۔

بعض منافقین کے بھید کھل جانا مراد لیتے ہیں ۔

لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ آیت کے آخر میں ہے کہ ” وہ متذکر نہیں ہوتے“ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ کوئی ایسی آزمائش ہو نا چاہئیے جو ان لوگوں کی بیدایر کا باعث ہو۔

نیز تعبیر آیت سے یو ں معلوم ہوتا ہے کہ یہ آزمائش ان عمومی آزمائشوں سے الگ ہے جن کا عام لوگوں میں اپنی زندگی میں سامنا کرنا پڑتا ہے ۔

اس امر کی طرف توجہ کرتے ہوئے یوں لگتا ہے کہ چوتھی تفسیر یعنی ان کے برے اعمال سے پردہ اٹھنا اور ان کے باطن کا ظاہر ہونا ، آیت کے مفہوم سے زیادہ قریب ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ زیر بحث آیت میں آزمائش ایک جامع مفہوم رکھتی ہو جس میں یہ تمام امو رشامل ہوں ۔

ان کے بعد انکار آمیز حرکات کی طرف اشارہ کیا گای ہے جو وہ آیات ِ خدا وندی سن کر کیا کرتے تھے ، ار شاد ہوتا ہے : جب کوئی قرآن کی سورت نازل ہوتی ہے تو وہ اس کے بارے میں حقارت اور انکار کی نظر سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے وہ آنکھوں کی حرکات سے ظاہر کرتے ہیں کہ انھیں کس قدر پریشانی ہے( وَإِذَا مَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ نَظَرَ بَعْضُهُمْ إِلَی بَعْضٍ ) ۔

انھیں تکلیف اور پریشانی اس وجہ سے ہے کہ کہیں اس سورت کا نزول ان کے لئے کوئی نئی رسوائی اور ذلت فراہم نہ کردے یا اس وجہ سے ہے کہ کور باطنی کے باعث وہ اس میں سے کچھ سمجھ نہیں پاتے اور انسان اس چیز کا دشمن ہے جسے وہ نہیں جانتا ۔

بہر حال وہ پختہ ارادہ کرلیتے ہیں کہ مجلس سے باہر نکل جائیں تاکہ یہ آسمانی زمزمے نہ سنیں البتہ انھیں اس بات کا ڈر ہے کہ کہیں نکلتے وقت کوئی انھیں دیکھ نہ لے لہٰذا آہستہ سے ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کوئی ہماری طرف متوجہ تو نہیں ہے ” کیا کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے “( هَلْ یَرَاکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ ) ۔ جب انہیں اطمینان ہو جاتا ہے کہ لوگ پیغمبر اکرم کی گفتگو سننے میں مشغول ہیں اور ان کی طرف متوجہ نہیں ہیں تو وہ مجلس سے باہر نکل جاتے ہیں( ثُمَّ انصَرَفُوا ) ۔

( هَلْ یَرَاکُمْ مِنْ اٴَحَدٍ ) “ ( کیا کوئی تمہیں دیکھ رہا ہے ).یہ جملہ وہ زبان سے کہتے یا آنکھوں کے اشارے سے ا شارے کی صورت میں ” نظر بعضھم الیٰ بعض “ کا جملہ اس کے ساتھ مل کر ایک ہی مفہوم بیان کرتا ہے اور حقیقت میں ” ھل یراکم من اھد “ ان کے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی تفسیر ہے ۔

آیت کے آخر میں اس بات کی علت کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ کلمات ِ خدا سننے پر اس لئے بے کیف اور پریشان ہوتے ہیں کہ ” خدا نے ان کے دلوں کو ان کی ہ دھرمی ، عناد اور گناہوں کی وجہ سے حق سے پھیر دیا ہے ( اور وہ حق سے دشمنی اور عداوت رکھتے ہیں ) کیونکہ وہ بے فکر اور ناسمجھ افراد ہیں( صَرَفَ اللهُ قُلُوبَهُمْ بِاٴَنّهُمْ قَوْمٌ لاَیَفْقَهُونَ ) ۔

( صَرَفَ اللهُ قُلُوبَهُم ) “کے بارے میں مفسرین نے دو احتمالات ذکر کئے ہیں :

پہلا یہ جملہ جملہ خبر یہ ہے جسیا کہ ہم نے اوپر تفسیر کی ہے اور ،

دوسرا یہ کہ یہ جملہ انشائیہ ہے اور نفرین اور بد عا کے معنی میں ہے یعنی خدا نے ان کے دل حق سے منصرف کردئے ہیں ۔

لیکن پہلا احتمال زیادہ صحیح دکھائی دیتا ہے ۔

آیات ۱۲۸،۱۲۹

۱۲۸ ۔( لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

۱۲۹ ۔( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِی اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّهُوَ عَلَیْهِ تَوَکَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ) ۔

ترجمہ

۱۲۸ ۔ تم میں سے تمہاری طرف رسول آیتا کہ جسے تمہاری تکالیف اور رنج و الم ناگوار ہیں اور جو تمہاری ہدایت پر اصرار کرتا ہے اور مومنین پر روف و مہر بان ہے ۔

۱۲۹ ۔ اگر وہ ( حق سے ) منہ پھیر لیں ( تو تم پریشان نہ ہو جانا ) کہہ دو کہ خدا میری کفایت کرے گا۔ اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے میں نے اس پر توکہ کیا ہے اور وہ عرش عظیم کا پر وردگار( اور مالک )ہے ۔

نازل ہو نے والی آخری آیات

بعض مفسرین کے بقول زیر نظر آیات رسول اللہ پر نازل ہونے والی آخری آیات ہیں ۔ سورہ برات ان پر ختم ہو رہی ہے ۔ یہ آیات فی الحقیقت ان تمام مسائل کی طرف اشارہ ہیں جو اس سورہ میں گزر چکے ہیں ، کیونکہ ،ایک طرف تو ان میں تمام لوگوں کو چاہے وہ مومن ہو ں ، یا منافق کہا گیا ہے کہ پیغمبر اور قرآن کی طرف سے سخت گیر یاں اور ظاہری سختیاں جن کے نمونے اس سورہ میں آئے ہیں سب اس لئے ہیں کہ پیغمبر کو ان کی ہدایت ، تربیت ، تکامل اور ارتقاء سے عشق ہے ۔

دوسری طرف پیغمبر اکرم کو بھی خبر دی گئی ہے کہ وہ لوگوں کی سر کشی اور نافرمانیوں پر جن کے بہت سے واقعے اس سورہ میں گذرے ہیں پریشان اور کبیدہ خاطر نہ ہوں او ریہ یقین رکھیں کہ خدا وند عالم ہر حالت میں ان کا پشتیبان ، دوست اور یا ور ہے ۔

لہٰذا پہلی آیت میں روئے سخن لوگوں کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : پیغمبر جو خود تمہی سے ہے تمہاری طرف آیا ہے( لَقَدْ جَائَکُمْ رَسُولٌ مِنْ اٴَنفُسِکُمْ ) ۔

آیت میں ” منکم “ کی بجائے ” من انفسکم “ یہ خصوصیت سے پیغمبر اکرم کے لوگوں سے شدت ارتباط کی طرف اشارہ ہے گویا وہ خود لوگوں کی جان کا ایک ٹکڑا ہے اور معاشرے کی روح کا ایک حصہ پیغمبر کی شکل میں ظاہر ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے تمام دکھ درد جانتا ہے ، ان کی مشکلات سے آگاہ ہے اور پریشانی اور غم و اندوہ میں ان کا شریک ہے ان حالات میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ان کے فائدے کے سوا کوئی بات کہے اور حقیقت میں یہ پیغمبر کی پہلی صفت ہے جو مندرجہ بالا آیات میں پیغمبر اکرم کے لئے ذکر ہوئی ہے ۔

تعجب کی بات ہے کہ بعض مفسرین جو نسلی اور عربی تعصبات کے زیر اثر تھے انھوں نے کہا ہے کہ اس آیت میں مخاطب عرب نسل کے لوگ ہیں یعنی پیغمبر اس نسل میں سے تمہاری طرف آیا ہے ۔ ہمارے نظرئیے کے مطابق اس آیت کے لئے ذکر ہونے والی یہ بد ترین تفسیر ہے ۔

کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ چیز کا قرآن میں ذکر تک نہیں ہے وہ نسل پرستی ہے کوینکہ قرآن میں تمام جگہوں پر ”( یا ایها الناس ) “ ، ”( یا ایها الذین اٰمنوا ) “ اور اس قسم کے دیگر الفاظ سے خطاب کیا گیا ہے اور کسی جگہ پر بھی ” یا ایھا العرب “ اور ” یا قریش“ وغیرہ کا وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ آخری حصہ میں ارشاد ہوتا ہے : وہ مومنین پر روف اور مہر بان ہے ”بالمومنین روف رحیم “ یہ جملہ بھی وضاحت سے اس کی تفسری کی نفی کرتا ہے کیونکہ تمام مومنین کے بارے میں ہے چاہے وہ کسی قوم و ملت او رکسی نسل و خاندان سے ہوں ۔

افسوس کا مقام ہے کہ بعض متعصب علماء قراان کو اس کے عالمی اور انسانی مرتبے سے نیچے لے آئے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اسے چھوٹے سے نسلی دائرے میں محصور اور محدود کردیا جائے ۔

بہر حال ” من انفسکم “کی صفت بیان کرنے کے بعد رسول اللہ کی چار ممتاز صفات کی طرف اشارہ کی اگیا ہے یہصفات لوگوں کے میلانات کی تحریک کے لئے ان کے احساساو جذبات کو جذب کرنے کے لئے گہرا اثر رکھتی ہیں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : تمہیں کوئی بھی تکلیف ، ضراور نقصاب پہنچے ،پیغمبر کے لئے سخت اور ناراضی کا باعث ہے (ع( زِیزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ ) ۔ یعنی وہ نہ صرف تمہاری تکلیف سے خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اس تکلیف سے الگ نہیں رہ سکتا، تماہیرے رنج و غم سے رنجیدہ ہوتا ہے اور اگر تمہاری ہدایت اور طاقت فرسا، پر زحمت جنگوں پر اصرار کرتا ہے تو وہ بھی تمہاری نجات اور ظلم ، گناہ اور بد بختی کے چنگل سے تمہاری رہائی کے لئے ہے ۔

دوسری بات یہ ہے کہ ” وہ تمہاری ہدایت سے سخت لگاو رکھتا ہے “ اور تمہاری ہدایت سے عشق رکھتا ہے( حَرِیصٌ عَلَیْکُمْ ) ۔

لغت میں ”حرص“ کا معنی ہے ” کسی چیز سے شدید لگاو رکھنا “ ۔ یہ بات جاذب نظر ہے کہ زیر بحث میں بطور اطلاق کہا گیا ہے کہ ” تم پر حریص ہے “ نہ ہدایت کے بارے میں بات کی گئی ہے اور نہ ہی کسی اور چیز کے بارے میں ۔ یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اسے تماہری ہر طرح کی سعادت پیش رفت ، ترقی اور خوش بختی سے عشق ہے ( اصطلاح میں کہتے ہیں کہ ” متعلق کا خذف ہو نا عموم کی دلیل ہے “) ۔ اس کے بعد تیسری اور چوتھی صفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : وہ مومنین کے لئے روف و رحیم ہے( بِالْمُؤْمِنِینَ رَئُوفٌ رَحِیمٌ ) ۔

لہٰذا اگر وہ مشکل اور طاقت فرسا حکم دیتا ہے تو یہ بھی اس کی طرف سے ایک طرح کی محبت اور لطف ہے یہانتک کہ گرمیوں کے موسم میں طاقتور دشمن کے مقابلے میں جنگ تبوک کے لئے بھوک اور پیاس کے ساتھ طویل اور جلانے والے بیا بانوں سے گذرنا بھی اس کے مہر و محبت کی علامت ہے ۔

”روف “ اور ”رحیم “ میں کیا فرق ہے اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن ایسا معلوم، ہوتا ہے کہ بہترین تفسیر یہ ہے کہ روف فرمانبر داروں کے لئے مخصوص محبت و لطف کی طرف اشارہ ہے جب کہ رحیم گناہ گاروں کے لئے رحمت کی طرف اشارہ ہے ۔

البتہ اس بات کا فراموش نہیں کرنا چاہئیے کہ یہ دونوں الفاظ جب الگ الگ ہوں ہوتو ہو سکتا ہے کہ ایک ہی معنی میں استعمال ہوں لیکن جہاں ایک دوسرے کے ساتھ استعمال ہوں تو بعض اوقات دو مختلف معانی دیتے ہیں ۔

بعد والی آیت میں جوکہ اس سورہ کی آخری آیت ہے ، پیغمبراکرم کی دلجوئی کرتے ہوئے کہ وہ لوگوں کی سر کشیوں اور نافرمانیوں سے ملول نہ ہوں فرمایا گیا ہے : اگر حق سے منہ نہ پھیر لیں تو پریشان نہ ہو اور کہہ دے کہ ” خدا میرے لئے کافی ہے “ کیونکہ وہ ہر چیز پر قدرترکھتا ہے( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِی ) ۔

” وہی خد اکہ جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے “ لہٰذا وہی اکیلا پناہ گاہ ہے( اللهُ لاَإِلَهَ إِلاَّهُوا ) ۔

جی ہاں میں نے صرف اسی معبود پر تکیہ کیا ہے اور اس کے ساتھ ہی دل باندھا ہے اور اپنے کام اسی کے سپرد کئے ہیں( عَلَیْهِ تَوَکَّلْت ) ۔

اور وہی عرش عظیم کا مالک اور پر وردگار ہے( وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ ) ۔

عرش، عالم بالا ماوائے طبیعت اپنی پوری عظمت کے ساتھ اس کے قبضہ قدرت میں ہے اور ا س کی حمایت و کفالت میں ہے تو کیونکر ممکن ہے کہ وہ مجھے اکیلا چھوڑ دے اور دشمن کے مقابلے میں میری مدد کرے ؟ کیا کوئی قدرت اس کی قدرت کے مقابلے میں ٹھہر سکتی ہے یا کوئی رحمت و مہر بانی اس کی رحمت و مہر بانی اس کی رحمت و مہر بانی سے بالاتر تصور ہو سکتی ہے ۔

خد ایا ! اس وقت جبکہ ہم یہ سورہ ختم کررہے ہیں او ریہ سطور لکھ رہے ہیں دشمنوں نے ہمیں ہر طرف سے گھیررکھا ہے اور ہماری رشید اور بہادر قوم ظلم ، برائی اور استبداد کے خاتمے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی ہے ، تمام صفوں اور طبقوں میں ایسا بینظیر اتحاد و اتفاق پید اہو گیا ہے جس کا تصور نہیں ہوتا تھا یہاں تک کہ ننھے ننھے بچے بھی اس جہاد میں شریک ہیں اور کوئی بھی کسی قسم کی فدا کاری اور قربانی سے دریغ نہیں کر رہا ہے ۔

پر ور دگار! تو ان تمام چیزوں کو جانتا ہے اور دیکھتا ہے ، ت ومہر و محبت کا مر کز ہے تو نے مجاہدین سے کامیابی اور کامرانی کا وعدہ کررکھا ہے ۔ پس اپنی نصرت و مدد قریب کردے او رہمیں آخری اور مکمل فتح عطا فرما اور ان پیاسوں اور عاشقوں کو ایمان ، عدل اور آزادی کے شفاف پانی سے سیراب فرما( انک علی کل شیء قدیر ) ( تو ہر چیز پر قادر ہے ) ۔(۱)

____________________

۱۔یہ حصہ انقلاب اسلامی حکومت کے قیام سے پہلے شاہ کے خلاف قیام کے زمانے میں لکھا گیا ہے ۔

سوره یونس

اس سورہ کے مضامین اور فضیلت

یہ سورة مکی ہے ، بعض مفسرین کے بقول سورہ بنی اسرائیل کے بعد اور سورہ ہود سے پہلے نازل ہوئی ہے ۔ دیگر مکی سورتوں کی طرح یہ بھی چند اصولی اور بنیادی مسائل پر مشتمل ہے ان میں سے سب سے اہم مبداء اور معاد کا مسئلہ ہے البتہ پہلے وحی اور مقام پیغمبر کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اس کے بعد عظمت آفرینش کی نشانیاں بیان کی گئی ہیں جو کہ عظمت خدا کی علامت ہیں ۔ بعد از اں لوگوں کو مادی زندگی کی نا پائیداری اور دار آخرت کی طرف متوجہ کیا ہے اور اس کے لئے ایمان اور عمل صالح کے ذریعے تیاری پر ابھارا گیا ہے ۔ انھی مسائل کی مناسبت سے بزرگ انبیاء کی زندگی کے مختلف پہلووں کو بیان کیا گیا ہے ۔ مثلا حضرت نوح، حضرت موسیٰ اور حضرت یونس علیہم السلام کے تذکرے ہیں ۔ اسی حوالے سے سورہ کا نام سورہ یونس رکھا گیا ہے ۔

اس کے بعد مذکورہ مباحث کی تائید کے لئے بت پرستوں کی ہٹ دھرمی اور سخت مزاجی کا ذکر ہے ۔ ہر جگہ خدا کا حضور و شہود ان کے لئے ثابت کیا گیا ہے خصوصیت سے اس مسئلہ کے اثبات کے لئے ان کی فطرت کی آگاہی سے مدد لی گئی ہے ۔ وہی فطرت کہ جو مشکلات کے وقت ظاہر ہوتی ہے اور وہ خدائے یکتا کو یاد کرتے ہیں ۔

اسی لئے امام صادق علیہ السلام سے ایک روایت میں مروی ہے :

من قرء سورة یونس فی کل شهرین او ثلاثه لم یخف علیه ان یکون من الجاهلین وکان یوم القیامة من المقربین ۔

جو شخص سورہ یونس ہر دو یا تین ماہ میں ایک دفعہ پڑھے تو اس کے لئے یہ خوف نہیں کہ وہ جاہلوں میں سے قرار پائے ۔ نیز قیامت کے دن وہ مقربین میں سے ہوگا ۔(۱)

یہ اس بناء پر ہے کہ اس سورہ میں خبر دار اور بیدار کرنے والی بہت سی آیات ہیں اور اگر انہیں غور و خوض سے پڑھا جائے تو جہالت کی تاریکی انسانی روح سے دور کر دیتی ہیں اور اس کے اثرات کم از کم چند ماہ تک انسان کے وجود میں رہتے ہیں اور اگر سورہ کے مضامیں کو سمجھنے کے علاوہ ان پر عمل بھی کیا جائے تو یقینی طور پر قیامت کے دن پڑھنے والا مقربین کے زمزہ میں قرار پائے گا ۔

شاید یاددہانی کی ضرورت نہ ہو کہ سورتوں کے فضائل جیسا کہ ہم کہ پہلے بھی کہہ چکے ہیں ، صرف آیات کی تلاوت سے بغیر معانی سمجھے اور بغیر اس کے مضامین پر عمل کیے فراہم نہیں ہوتے۔

کیونکہ تلاوت سمجھنے کا مقدمہ اور سمجھنا عمل کرنے کی تمہید ہے ۔

____________________

۱ تفسیر نور الثقلین ج ۲ ص ۲۹۰ اور دیگر تفاسیر

آیات ۱،۲

( بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمنِ الرَّحیمِ )

۱ ۔( الر تِلْکَ آیاتُ الْکِتابِ الْحَکیمِ ) ۔

۲ ۔( اٴَ کانَ لِلنَّاسِ عَجَباً اٴَنْ اٴَوْحَیْنا إِلی رَجُلٍ مِنْهمْ اٴَنْ اٴَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذینَ آمَنُوا اٴَنَّ لَهمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ قالَ الْکافِرُونَ إِنَّ هذا لَساحِرٌ مُبین ) ۔

ترجمہ

بخشنے والے مہربان خدا کے نام سے ۔

۱ ۔ ل. ر. وہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ۔

۲ ۔ کیا یہ چیز لوگوں کے لیے با عث تعجب ہے کہ ان میں سے ایک کی طرف ہم نے وحی بھیجی کہ لوگوں کو ڈراو ۔ اور جو ایمان لائے ہیں انھیں بشارت دو کہ ان کے لئے ان کے پروردگار پاس مسلم جزا ہے ۔

تفسیر

اس سورہ میں پھر ہمیں حروف مقطعات کا سامناہے اور یہ ہیں الف ، لام اور راء۔ سورہ بقرہ ، سورہ آل عمران اور سورہ اعراف کی ابتداء میں ہم ایسے حروف کے بارے میں کافی بحث کر چکے ہیں ۔ آئندہ بھی انشاء اللہ اس سلسلے میں مناسب موقع پر بحث کریں گے ، اور اس میں نئے مطالب کا اضافہ کریں گے ۔

حروف مقطعات کے بعد پہلے آیات قرآن کی عظمت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاکیا گیا ہے -: وہ کتاب حکیم کی آیات ہیں ۔( الر تِلْکَ آیاتُ الْکِتابِ الْحَکیمِ )

” یہ “ ( اسم اشارہ قریب کی )بجائے ” وہ “ ( اسم اشارہ بعید ) سے ابتداء کی گئی ہے اس کی نظیر سورہ بقرہ کی ابتدا میں بھی موجود ہے یہ قرآن کریم کی لطیف تعبیرات میں سے شمار ہوتی ہے اور یہ قرآن کریم کے مفاہیم کی عظمت اور بلندی کے لئے کنایہ ہے۔ کیونکہ سامنے پڑے ہوئے اور عام مطالب کے لئے زیادہ تر اسم اشارہ قریب استعمال کیا جاتا ہے لیکن اہم مطالب جو بلند سطح کے ہوں جو گویا آسمانوں کی بلندی میں ایک افق اعلیٰ میں موجود ہیں انھیں اسم اشارہ بعید کے ساتھ بیان کرتے ہیں اور اتفاق کی بات ہے کہ ہم روزمرہ کی تعبیرات میں بھی ایسی تعبیر استعمال کر تے ہیں مشلابعض اشخاص کی عظمت کے اظہار کے لیے ” آنجناب“ یا”آنحضرت“استعمال کرتے ہیں اگرچہ وہ پاس ہی بیٹھے ہوں لیکن انکساری کے اظہار کے لئے ” اینجانب “ کہا جاتا ہے ۔

آسمانی کتاب یعنی قرآن کی تعریف کے لئے لفظ ” حکیم “ استعمال کیا گیا ہے یہ اس طرف اشارہ ہے کہ آیت قرآنی استحکام نظم و ضبط اور حساب و کتاب کی حامل ہیں اور ہر قسم کے باطل سے ، فضول باتوں سے اور ہزل گوئی سے دور ہیں اور قرآن حق کے سوا کچھ نہیں کہتا اور سوائے راہ حق کے کسی چیز کی دعوت نہیں دیتا ۔

اس اشارے کی مناسبت سے جو پہلی آیت میں قرآن مجید میں وحی آسمانی کے لئے ہے دوسری آیت میں رسول اللہ کے بارے میں مشرکین کا ایک اعتراض بیان کیا گیا ہے یہ وہی اعتراض ہے جس کا قرآن مجید میں کئی مرتبہ ذکر کیا گیا ہے اس کا تکرار نشان دہی کرتا ہے کہ مشرکین یہ اعتراض بار بار کیا کرتے تھے اور وہ یہ کہ آسمانی وحی کیوں خدا کی طرف سے ایک انسان پر نازل ہوئی ہے اور عظیم رسالت کی یہ ذمہ داری کسی فرشتے کے ذمہ کیوں نہیں ہوئی ۔

ایسے سوالات کے جواب میں قرآن کہتا ہے کیا لوگوں کے لئے یہ امر باعث تعجب ہے کہ ہم نے ان میں سے ایک شخص کی طرف وحی بھیجی ہے ۔( اٴَ کانَ لِلنَّاسِ عَجَباً اٴَنْ اٴَوْحَیْنا إِلی رَجُلٍ مِنْهمْ )

درحقیقت ان کے اعتراض کا جواب لفظ ”منھم“ (ان کی نوع سے )کے ذریعہ دیا گیا ہے یعنی اگر رہبروراہنما اپنے پیرو کاروں کا ہم نوع ہو اور ان کے درداور تکالیف کو جانے اور ان کی ضروریات سے آگاہ ہو تو کوئی تعجب کا مقام تو نیہں ہے بلکہ تعجب کا مقام تو یہ ہے کہ انکی نوع میں سے نہ ہواوران کی کیفیت سے بے خبر ہو نے کی وجہ سے ان کی رہبری نہ کر سکے ۔

اس کے بود اس آسمانی وحی سے مضمون کا دو چیزوں میں خلاصہ بیان کیا گیا ہے پہلی یہ کہ ہم نے تیری طرف وحی کی ” تا کہ لوگوں کو کفر و گناہ کے انجام سے ڈر او( اٴَنْ اٴَنْذِرِ النَّاسَ ) ۔ اور دوسرا یہ کہ ” صاحب ایمان افراد کو بشارت دو کہ ان کے لئے بارگاہ خدا میں ” صدق ہے “( اٴَنْ اٴَنْذِرِ النَّاسَ وَ بَشِّرِ الَّذینَ آمَنُوا اٴَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِم )

” قدم صدق “ سے کیا مراد ہے ، اس سلسلہ میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ان کی پیش کردہ تمام تفاسیر میں سے تین ایسی ہیں جن میں سے ایک تفسیر قابل قبول ہے یا پھر تینوں اکھٹی قبول کی جا سکتی ہیں ۔

پہلی یہ کہ اس طرف اشارہ ہے کہ ایمان ” فطری سابقہ “ رکھتا ہے اور حقیقت میں مومنین نے ایمان کو ظاہر کرکے اپنے تقاضائے فطرت کی تصدیق اور تاکید کی ہے ( کیونکہ ” ودم “ کا ایک معنی ” سابقہ “ ہے ) جیسا کہ کہتے ہیں :

لفلان قدم فی الاسلام او قدم فی الحرب ۔

یعنی ۔۔۔۔۔فلاں شخص اسلام یا جنگ میں سابقہ رکھتا ہے ۔

دوسری ۔۔۔۔ یہ کہ یہ مسئلہ معاد و قیامت اور آخرت کی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ” قدم “ کا ایک معنی ” مقام “ اور ” منزلت “ بھی ہے ( اس مانسبت سے کہ انسان اپنے پاوں کے ساتھ اپنی منزل میں داخل ہوتا ہے ) یعنی صاحب ایمان افراد کے لئے خدا کی بارگاہ میں مسلما اور یقینا مقام و منزلت ہے کہ جسے کوئی چیز متغیر نہیں کر سکتی ۔

تیسری ۔۔۔۔۔ یہ کہ ” قدم “ پیشوا اور رہبر کے معنی میں ہے یعنی مومنین کے لئے سچا پیشوا اور رہبر بھیجا گیا ہے اس آیت کے ذیل میں سنی شیعہ تفاسیر میں متعدد روایات میں ” ْقدم صدق “ کی تفسیر پیغمبر اکرم کی ذات یا ولایت علی سے کی گئی ہے یہ روایات اس معنی کی موید ہیں ۔(۱)

جیسا کہ ہم نے کہا ہے ، ہو سکتا ہے اس تعبیر کامقصد ان تمام امور کی بشارت دینا ہو ۔

آیت کے آخر میں پھر ایک ایسے اتہام کی طرف اشارہ ہے جو مشرکین بار ہا رسول اللہ پر باندھتے تھے ارشاد ہوتا ہے : کافر کہتے ہیں کہ یہ شخص واضح جادو گر ہے۔( قالَ الْکافِرُونَ إِنَّ هذا لَساحِرٌ مُبین )

لفظ ” انّ“ لام تاکید اور صفت ” مبین“ یہ سب اس تاکید کی علامت ہے جو وہ اس تہمت کے بارے میں کرتے تھے اور ” ھذا “ (جو کہ اسم اشارہ قریب ہے ) کی تعبیر اس لئے تھی کہ وہ مقام پیغمبر کی تحقیر کریں ۔ رہا یہ سوال کہ وہ پیغمبر اکرم کی طرف جادو کی نسبت کیوں دیتے ہیں ، تو اس کا جواب واضح ہے کیونکہ آپ کی پر اعجاز باتوں ، در خشاں منصوبہ جات ، روشن قوانین اور دیگر معجزات کا ان کے پاس کوئی اطمینان بخش جواب نہیں تھے ۔ سوائے اس کے کہ ان کی خارق عادت اور غیر معمولی ہونے کو وہ جادو قرار دے دیں تا کہ اس طرح وہ سادہ لوح افراد پر جہالت کا پردہ ڈال سکیں ۔ رسول اللہ کے دشمن کی طرف سے ایسی تعبیریں خود اس بات کی دلیل ہیں کہ آپ کے کام خارق عادت اور غیر معمولی تھے جو لوگوں کے قلب و نظر کو اپنی طرف جذب کرلیتے تھے ۔ خصوصا ان کا قرآن مجید کو جادو قرار دینا اس بات کازندہ شاہد ہے کہ وہ اس آسمانی کتاب کی انتہائی قوت جاذبہ سے لوگوں کو دور رکھنے کے لئے اس تہمت کا سہارا لیتے تھے ۔

انشاء اللہ متعلقہ آیات کے ذیل میں اس سلسلے میں ہم پھر گفتگو کریں گے ۔

____________________

۱ تفسیر برہان۔ ج ۲ ص ۱۷۷ اور تفسیر قرطبی ۔ ج ۵ ص ۳۱۴۵