تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28296
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28296 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۷،۸،۹،۱۰

۷ ۔( إِنَّ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا وَ رَضُوا بِالْحَیاةِ الدُّنْیا وَ اطْمَاٴَنُّوا بِها وَ الَّذینَ هُمْ عَنْ آیاتِنا غافِلُونَ ) ۔

۸ ۔( اٴُولئِکَ مَاٴْواهُمُ النَّارُ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

۹ ۔( إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ یَهْدیهمْ رَبُّهُمْ بِإیمانِهمْ تَجْری مِنْ تَحْتِهمُ الْاٴَنْهارُ فی جَنَّاتِ النَّعیمِ ) ۔

۱۰ ۔( دَعْواهُمْ فیها سُبْحانَکَ اللَّهُمَّ وَ تَحِیَّتُهُمْ فیها سَلامٌ وَ آخِرُ دَعْواهُمْ اٴَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین ) ۔

ترجمہ

۷ ۔ وہ جو ہماری ملاقات ( اور قیامت ) کی امید نہیں رکھتے اور دنیاوی زندگی پر خوش ہیں اور اس پر تکیہ کئے ہوئے ہیں اور وہ جو ہماری آیات سے غافل ہیں ۔

۸ ۔ ان ( سب ) کے رہنے کی جگہ آگ ہے ، ان کاموں کی وجہ سے جو وہ انجام دیتے تھے ۔

۹ ۔ ( لیکن ) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کئے خدا انھیں ان کے ایمان کے سبب ہدایت کرتا ہے ، ان کے ( قصر اور محلات کے ) نیچے سے جنت کے باغوں میں نہریں جاری ہیں ۔

۱۰ ۔ جنت میں ان کی گفتگو ( اور دعا ) یہ ہے کہ خدایا : تو منزہ ہے اور ان کا تحیہ سلام ہے اور ان کی آخری بات یہ ہے کہ حمد اور تعریف مخصوص ہے عالمین کے پروردگار اللہ کے لئے ۔

جنتی اور دوزخی

جیسا کہ اشارہ ہو چکا ہے اس سورہ کی ابتدامیں قرآن نے پہلے مبدا اور معاد کے مسلہ کے بارے میں ایک اجمالی بحث کی ہے اور بعد میں اس کی تفصیل شروع کی ہے ۔

گزشتہ آیات میں مسئلہ مبداء کے بارے میں تشریح تھی اور زیر نظر آیات میں معاد اور دوسرے جہان میں لوگوں کی سر نوشت کے بارے میں تشریح نظر آتی ہے ۔ پہلے فرمایا گیا ہے : وہ لوگ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے اور قیامت پر عقیدہ نہیں رکھتے اور اس بناء پر صرف دنیا وی زندگی پر خوش ہیں اور اسی پر تکیہ کئے ہوئے ہیں( إِنَّ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا وَ رَضُوا بِالْحَیاةِ الدُّنْیا وَ اطْمَاٴَنُّوا بِها ) ۔

اور اسی طرح طرح وہ لوگ جو ہماری آیات سے غافل ہیں اور ان میں غور و فکر نہیں کرتے کہ ان کے دل بیدار ہوں اور ان میں احساس مسئولیت پیدا ہو( وَ الَّذینَ هُمْ عَنْ آیاتِنا غافِلُونَ ) ۔

” ان دونوں گروہوں کے رہنے کی جگہ آگ ہے ، ان اعمال کے سبب جو وہ انجام دیتے تھے( اٴُولئِکَ مَاٴْواهُمُ النَّارُ بِما کانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

فی الحقیقت معاد اور قیامت پر ایمان نہ لانے کا سیدھا نتیجہ یہ ہے کہ انسان اس محدود زندگی اور عارضی مادی مقام و منصب سے دل بستگی پیدا کرتا ہے اور انھی پر بھروسہ کر لیتا ہے ۔ زندگی کے کاموں میں اس کا نتیجہ آلودگی کی صورت میں نکلتا ہے اور اس کا انجام آخر آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہوتا۔

اسی طرح آیات الہی سے غفلت خدا سے بیگانگی کا سر چشمہ ہے اور خدا سے بیگانگی عدم احساس مسئولیت کا سر چشمہ ہے اور اس کے نتیجے میں انسان ظلم ، فساد اور گناہ سے آلودہ ہوتا ہے اور اس کا انجام آتش جہنم کے سوا اور کچھ نہیں ہے ۔

لہذا مذکورہ دونوں گروہ ۔۔۔۔ یعنی وہ جو مبداء یا معاد پر یقین نہیں رکھتے یقیناً عمل کے لحاظ سے آلودہ ہوں گے اور دونوں گروہوں کا مستقبل تاریک ہے ۔

یہ دو آیات دوبارہ اس حقیقت کی تاکید کرتی ہیں کہ ایک معاشرے کی اصلاح اور اور ظلم و گناہ کی آگ سے نجات کے لئے خدا اور معاد ایمان کی بنیادوں کو قوی کرنا ناگزیر ہے کیونکہ خدا پر ایمان لائے بغیر وجود انسانی میں احساس مسئولیت پیدا نہیں ہوسکتا اور معاد قیامت کی طرف توجہ کئے بغیر سزا اور خوف پیدا نہیں ہو سکتا ۔ لہذا یہ دونوں اعتقادی ستون تمام اجتماعی اصلاحات کی بنیاد ہیں ۔

اس کے بعد دونوں گروہوں کے مقابل ایک اور گروہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایاگیا ہے:جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے اچھے عمل کئے ، ان کے ایمان کی تقویت کے لئے خدا انھیں ہدایت کرتا ہے( إِنَّ الَّذینَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ یَهْدیهِمْ رَبُّهُمْ بِإیمانِهِمْ ) ۔

ہدایت الہی کا یہ نور جس کا سر چشمہ ان کا نور ایمان ہے ، ان کی زندگی کے تمام افق راشن کر دیتا ہے اس نور کے ذریعے ان میں ایسی روشن بینی پیدا ہو جاتی ہے کہ مادی مکاتب و نظریات ، شیطانی وسوسے ، گناہوں کی چمک دہک ، زور دولت اور اقتدار ان کی فکر و نظر میں نہیں جچتے اور وہ صحیح راستے کو چھوڑ کر بے راہ روی میں قدم نہیں رکھتے ۔

یہ تو ان کی دنیا کی حالت ہے ” اور دوسرے جہان میں خدا بہشت کے پر نعمت باغوں میں انھیں محلات عطا کرے گا کہ جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی( تَجْری مِنْ تَحْتِهمُ الْاٴَنْهارُ فی جَنَّاتِ النَّعیمِ ) ۔

وہ ایک ایسے ماحول میں زندگی بسر کریں گے جو صلح و آشتی ، پاکیزگی اور عشق پروردگار سے معمور ہوگا اور جہاں طرح طرح کی نعمتیں ہوں گی جس وقت خدا کی ذات و صفات سے عشق ان کے وجود کو روشن کر دیگا تو وہ ” کہیں گے پروردگار ! تو ہر قسم کے عیب اورنقص سے منزہ اور پاک ہے “( دَعْواهُمْ فیها سُبْحانَکَ اللَّهُمّ ) ۔جب وہ ایک دوسرے سے ملیں گے تو صلح و صفائی کی باتیں کریں گے اور ان کا تحیہ سلام ہو گا( وَ تَحِیَّتُهُمْ فیها سَلامٌ ) ۔

اور آخر کار وہ وہاں خدا کی گونا گوں نعمتوں سے بہرہ ور ہوں گے تو اس کا شکرانہ ادا کریں گے اور کہیں گے کہ ” حمد و ثنا اس خدا کے لئے مخصوص ہے جو عالمین کا پروردگار ہے “ ۔( وَ آخِرُ دَعْواهُمْ اٴَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعالَمین ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ پروردگار سے ملاقات :

سوال پیدا ہوتا ہے کہ لقاء الہی سے کیا مراد ہے جس کا ذکر زیر نظر پہلی آیت میں ہے مسلم ہے کہ ملاقات حسی تو نہیں ہے بلکہ مراد پروردگار کی جزا وسزا سے ملاقات ہے اور اس کے علاوہ ایک قسم شہود باطنی بھی ہے جق قیامت میں انسان کے اندر ذات مقدس الہی کے بارے میں پیدا ہوگا کیونکہ اس موقع پر وہ اس کی آیات اور نشا نیوں کو ہر مقام سے بڑھ کر واضح اور آشکاردیکھ پائے گا اور وہاں انسان معرفت کی نئی نظر اور قدرت حاصل کر لے گا۔(۱)

۲ ۔( یهدیهم ربهم بایمانهم ) کے بارے میں کچھ گفتگو :

اس جملے میں ایمان کے سائے میں ہدایت انسانی کے مطلق گفتگو ہے ۔ یہ ہدایت دوسرے جہان کی زندگی سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس جہان میں بھی ایک مومن ایمان کی وجہ سے بہت سے اشتباہات، فریب کاریوں اور لغزشوں سے نجات حاصل کر لیتا ہے کیونکہ یہ بیماریاں ،حرص ، خود خواہی اور ہوا وہوس سے پیدا ہوتی ہیں اور اسی ایمان کے ذریعہ مومن دوسرے جہان میں اپنے لئے جنت کی طرف راستہ بنا لیتا ہے ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے :یوم تری المومنین و المومنات یسعی نورھم بین ایدیھم و بایمانھم

اس دن تو صاحب ایمان مردوں اور عورتوں کو دیکھے گا کہ ان کے نور کی شعاع ان کے سامنے اور دائیں طرف چل رہی ہوگی ۔ (حدید ۔۔۔ ۱۲ )

نیز ایک حدیث میں رسول اللہ سے مروی ہے:

انّ الموٴمن اذا خرج من قبره صور له عمله فی صورة حسنة فیقول له انا عملک فیکون له نوراً و قائداً الیٰ الجنة (۲)

جب مومن اپنی قبر سے نکلے گا تو اس کے اعمال ایک پیاری صورت میں نمایاں ہوں گے اوراس سے کہیں گے کہ میں تیرا عمل ہوں اور ایک نور سا آئے گا جو اسے جنت کی طرف ہدایت کرے گا۔

۳ ۔( تجری من تحتهم الانهار ) کا مفہوم :

زیر نظر آیات میں ” تجری من تحتھم الانھار “ آیا ہے جبکہ قرآن کی دیر آیات میں ” تجری من تحتھا الانھار “نظر آتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں دیگر مواقع پر ہے کہ ” جنت کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہوں گی “جبکہ زیر نظر آیت میں ہے کہ ” جنت والوں کے پیر کے نیچے نہریں جاری ہوں گی “ ممکن ہے یہ تعبیر اس طرف اشارہ ہوکہ اہل بہشت کے محلات بھی نہروں کے اوپر ہوں گے اور یوں یہ منظر نہایت حسین دکھائی دے گا ۔

یا پھر یہ اس طرف اشارہ ہے کہ جنت کی نہریں ان کے تابع فرمان ہوں گی اور ان کے قبضہ قدرت میں ہوں گی ۔ جیسا کہ فرعون کے واقعہ میں ہے ، وہ کہتا ہے( اٴ لیس لی ملک مصرو هذه الانهار تجری من تحتی ) ۔

کیا مصر کی حکومت میرے قبضہ میں نہیں اور یہ نہریں میرے حکم سے نہیں چلتیں ۔ (زخرف ۵۲)

یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ یہ لفظ ” تحت “ ”بین ایدی “ کے معنی میں ہو یعنی ان کے سامنے نہریں جاری ہوں گی ۔

۴ ۔ اہل جنت کے لئے تین عظیم نعمتیں : یہ امر جاذب توجہ ہے کہ زیر بحث آخری آیت میں اہل بہشت کی تین حالتوں یا ان کے لئے تین نعمتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ۔

پہلی. ذات پروردگار کی طرف توجہ اس توجہ سے جو لزت انھیں حاصل ہو گی اس کا موازنہ کسی اور لذت سے نہیں کیا جا سکتا ۔

دوسری وہ لذت جو مومنین کے ایک دوسرے سے صلح و تفاہم سے معمور اس ماحول میں ملاقات اور میل جول سے حاصل ہوگی اور یہ لذت خدا کی طرف متوجہ ہونے کی لزت کے بعد ہر چیز سے بہتر اور بر تر ہوگی ۔

تیسری وہ لذت کہ جو انھیں طرح طرح کی نعمات بہشت سے بہرہ ور ہونے سے حاصل ہوگی اور پھر وہ انھیں خدا کی طرف متوجہ کرے گی اور وہ اس کی حمد ، سپاس اور شکر بجا لائیں گے ۔ ( غور کیجئے )

____________________

۱ مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۸۳ ( اردوترجمہ ) اور سورہ بقرہ کی ایة کی ۴۶ کے ذیل کی طرف رجوع کریں ۔

۲ تفسیرفخر الدین رازی جلد ۱۷ ص۴۰

ـآیات ۱۱،۱۲

۱۱ ۔( وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجالَهم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْهمْ اٴَجَلُهمْ فَنَذَرُ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا فی طُغْیانِهمْ یَعْمَهُونَ ) ۔

۱۲ ۔( وَ إِذا مَسَّ الْإِنْسانَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنْبِهِ اٴَوْ قاعِداً اٴَوْ قائِماً فَلَمَّا کَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ کَاٴَنْ لَمْ یَدْعُنا إِلی ضُرٍّ مَسَّهُ کَذلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفینَ ما کانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۱ ۔جس طرح لوگ اچھائیوں کو اپنے قبضے میں لینے کے لئے جلدی کرتے ہیں اگر خدا( ان کے اعمال کے بدلے ) انھیں سزادے تو ان کی زندگی اختتام کو پہنچ جائے ( اور سب کے سب ختم ہو جائیں ) لیکن وہ جو ہماری ملاقات کی امید نہیں رکھتے انھیں ہم ان کی حالت پر چھوڑ دیں گے تا کہ وہ طغیان میں سر گردان پھریں ۔

۱۲ ۔ اور جس وقت کسی انسان کو کوئی نقصان ( اور پریشانی ) چھوئے تو جب وہ پہلو کے بل سویا ہوا بیٹھا ہو یا کھڑا ہو ( ہر حالت میں ہمیں ) پکارتا ہے لیکن جب ہم اس کی پریشانی دور کر دیتے ہیں تو ایسے گزرتا ہے گویا اس نے کسی مشکل کے حل کے لئے کبھی ہمیں پکارا ہی نہ ہو ۔ اس طرح سے اسراف کرنے والوں کے لئے ان کے اعمال زینت دے جاتے ہیں ۔

خود غرض انسان

ان آیات میں بھی بد کاروں کی پاداش کے بارے میں گفتگو جاری ہے ۔

پہلی آیت میں قرآن کہتا ہے : اگر خدا بد کار لوگوں کو جلدی اور اسی جہان میں سزا دےدے اور جیسے وہ نعمت اور خیر کے بارے کے حصول میں جلدی کرتے ہیں خدا بھی ان کی سزا میں تعجیل کرے تو سب کی عمر ختم ہو جائے اور ان کا نام و نشان تک بھی باقی نہ رہے( وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجالَهم بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ إِلَیْهمْ اٴَجَلُهمْ )

لیکن خدا لطف چونکہ تمام بندوں کے شامل حال ہے یہاں تک کہ بد کاروں ، کافروں اور مشرکوں کے لئے بھی ہے اس لیے وہ ان کی سزا میں جلدی نہین کرتا کہ شاید وہ بیدار ہوں جائیں ، توبہ کر لیں اور بے راہ روی سے پلٹ آئیں ۔ علاوہ ازیں اگرسزا اتنی جلد مل جاتی تو اختیاری حالت جو کہ مسولیت کی بنیاد ہے ، تقریبا ً ختم ہوجاتی اور اطاعت گزاروں کی اطاعت بھی ، پھر اضطراری کیفیت میں ہوتی کیونکہ خلاف ورزی کی صورت میں فوراً وہ درد ناک سزا کا سامنا کرتے ۔

اس جملے میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ کچھ ہٹ دھرم کفار ایسے تھے جو انبیاء سے کہتے تھے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو جتنا جلدی ہوسکے خدا سے کہو، ہمیں نابود کر دے یا سزا دے اس بات کو قرآن نے ذکر کیا ہے اب اگر خدا ان کے اس تقاضے کو قبول کر لیتا تو ان میں سے کوئی بھی باقی نہ رہتا لیکن پہلی تفسیر زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے ۔

آیت کے آخر مین قرآن فرماتا ہے : ان کے لئے یہی سزا کافی ہے کہ جو لوگ قیامت اور ہماری ملاقات پر ایمان نہیں لائے انھیں ہم ان کی حالت پر چھوڑ دیتے ہیں تا کہ وہ اپنے طغیان میں حیران و سرگردان رہیں ، نہ حق کو باطل سے جدا کر سکیں اور نہ راہ کو چاہ سے ۔( فَنَذَرُ الَّذینَ لا یَرْجُونَ لِقاء َنا فی طُغْیانِهمْ یَعْمَهُونَ ) ۔

اس موقع پر آدمی کی فطرت اور روح کی گہرائی میں نور توحید کے وجد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : جب انسان کو کوئی نقصان اور ضرر پہنچتا ہے اور ہر جگہ اس کا ہاتھ کوتاہ ہوجاتا ہے تو ہماری طرف ہاتھ بلند کرتا ہے اور جب وہ پہلو کے بل سوتا ہے یا بیٹھاتا ہے یا کھڑا ہوتا ہے ، ہر حالت میں ہمیں پکارتا ہے ۔

( وَ إِذا مَسَّ الْإِنْسانَ الضُّرُّ دَعانا لِجَنْبِهِ اٴَوْ قاعِداً اٴَوْ قائِماً )

جی ہاں ! مشکلات اور دردناک حواث کی خاصیت یہ ہے کہ وہ انسان کی پاک فطرت سے پردوں اور حجابوں کو بر طرف کر دیتے ہیں ۔ حوادث کی بھٹی میں تمام سیا ہ پردے جنہوں نے اس فطرت کو چھپا رکھا ہوتا ہے ، جل جاتے ہیں اور ختم ہو جاتے ہیں اور ایک عرصہ کے لئے چاہے وہ کتنا ہی کم ہو اس نور توحیدی کی چمک آشکار ہو جاتی ہے ۔

اس کے بعد فرمایا گیا ہے کہ باقی رہے یہ لوگ ، تو یہ اس قدر کم ظرف اور بے عقل ہیں کہ -- ” اتنی دیر میں کہ ہم بلا و پریشانی ان سے بر طرف کر دیں ، اس طرح غفلت میں ڈوب جاتے ہیں گویا انھوں نے ہم سے کوئی بالکل تقاضا ہی نہ کیا تھا ، اور ہم نے بھی جیسے ان کی کوئی مدد نہیں کی( فَلَمَّا کَشَفْنا عَنْهُ ضُرَّهُ مَرَّ کَاٴَنْ لَمْ یَدْعُنا إِلی ضُرٍّ مَسَّهُ )

جی ہاں ! اس طرح سے مسرفین کے اعمال کو ان نظر میں مزین کیا گیا ہے ۔( کَذلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفینَ ما کانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

ایسے افراد کے اعمال کو ان کی نظر میں کون مزین کرکے پیش کرتا ہے ؟ اس بارے میں ہم تفسیر نمونہ جلد پنجم سورہ انعام کی آیہ ۱۲۲ کے ذیل میں صفحہ ۳۴۳ ( اردو ترجمہ ) پر بحث کر چکے ہیں اس بحث کا اجمالی خاکہ یہ ہے کہ زینت دینے والا خدا ہے لیکن اس طرح سے کہ اس نے برے اور قبیح اعمال میں یہ خاصیت پیدا کی ہے کہ جس قدر انسان ان سے آلودہ ہوجاتا ہے اس قدر ان کا زیادہ عادی ہو جاتا ہے اور نہ صرف ان کی برا ئی اور قباحت اس کی نظر میں ختم ہو جاتی ہے بلکہ وہ اسے آہستہ آہستہ اچھے معلوم ہونے لگتے ہیں ۔

یہ کہ ایسے افراد کو زیر نظر آیت میں ” مسرفین “ ( اسراف کرنے والے ) کیوں کہا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس سے زیادہ اسراف کیا ہو گا کہ اپنے وجود کا اہم ترین سرمایہ یعنی عمر ، سلامتی ، جوانی اور اپنی مختلف صلاحیتوں کو فضول کاموں میں اور گناہ ، عصیان اور نا فرمانی میں برباد کر دے یا اس دنیا کے لئے بے وقعت اور نا پائیدار مال و متاع کے حصول میں ضائع کر دے اور اس سرمایہ کے بدلے میں اسے کوئی فائدہ حاصل نہ ہو کیا یہ کام اسراف نہیں ہے اور کیا ایسے لوگ مسرف شمار نہیں ہوتے ؟

انسان قرآن کریم کی نظر میں

انسان کے بارے میں قرآن مجید میں مختلف تعبیرات آئی ہیں :

بہت سی آیات میں انسان کے لئے لفظ ” بشر “ استعمال ہوا ہے ۔ بہت سی دیگر آیات میں لفظ ” انسان “ آیا ہے ۔ کچھ آیات میں ” بنی آدم “ کی تعبیر آئی ہے ہاں البتہ بہت سے مواقع پر اس کے لئے مذموم صفات ذکر ہوئی ہیں ۔

مثلا ً زیر بحث آیات میں انسان کا تعارف ایک زود فراموش اور حق شناس موجود کے طور پر کروایا گیا ہے ۔

ایک اور مقام پر اسے ایک ضعیف اور کمزور موجود موجود کہا گیا ہے :( خلق الانساان ضعیفاً ) ۔ ( نساء ۲۸ )

ایک اور جگہ اسے ستم گراور کفر کرنے والا قرار دیا گیا ہے :( ان الانسان لظلوم کفار ) ۔ ( ابراھیم ۔ ۳۴ )

ایک اور مقام پر انسان کو بخیل کہا گیا ہے :( و کان الانسان قتوراً ) ۔ ( بنی اسرائیل۔ ۱۰۰)

ایک اور جگہ جلد باز کہا گیا ہے :( و کان الانسان عجولاً ) ۔ ( بنی اسرائیل۔ ۱۱)

دوسری جگہ کفران کرنے والے قرار دیا گیا ہے :( و کان الانسان کفوراً ) ۔ ( بنی اسرائیل۔ ۶۷ )

ایک اور مقام پر اسے جھگڑالو کہا گیا:( کان الانسان اکثر شیء جدلاً ) ۔ ( کھف۔ ۵۴)

ایک اور جگہ انسان کو ظلوم اور جہول کہا گیا ہے :( انه کان ظلوما جهولاً ) ۔ ( احزاب۔ ۷۲ )

ایک اور جگہ اسے واضح کفر کرنے والا کہا گیا ہے :( ان الانسان لکفور مبین ) ۔ ( زخرف۔ ۱۵)

ایک اور جگہ اسے کم ظرف اور متلون مزاج کہا گیا ہے کہ جو دم بہ دم بدلتا رہتا ہے ، نعمت ملے تو بخیل ہو جاتا ہے اور مصیبت کے وقت رونا پیٹنا شروع کر دیتا ہے :( ان الانسان خلق هلوعاً اذا مسه الشر جزوعاً و اذا مسه الخیر منوعاً ) ۔ (معارج ۱۹ ، ۲۰ ، ۲۱ ،)

ایک اور جگہ اسے مغرور یہاں تک کہ خدا کے سامنے بھی مغرور بتایا گیا ہے :

( یا ایها الانسان ما غرک بربک الکریم ) ۔ ( انفطار ۔ ۶)

ایک اور مقام پر اسے ایک ایسا موجود بتایا گیا ہے کہ جو نعمت کے وقت طغیان و سرکشی کرتا ہے :

( ان الانسان لیطغی ان راٰه استغنی ) ٰ ۔ ( علق ۶،۷ )

اس طرح سے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن مجید میں انسان کو ایک ایسا موجود کہا گیا ہے جو بہت زیادہ منفی پہلو رکھتا ہے اور جس میں کمزوری کے بہت سے نقطے موجود ہیں ۔

کیا یہ وہی انسان ہے جسے انسان ہے جسے خدا نے ” احسن تقویم “ اور بہترین ساخت میں پیدا کیا ہے :

( لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم ) ۔ ( التین ۔ ۴)

کیا یہ وہی انسا ن ہے جس کا معلم اور استاد خدا تھا اور جس چیز کو وہ نہیں جانتا تھا اللہ نے اسے اس کی تعلیم دی :

( علم الانسان مالم یعلم ) ۔ (علق۔ ۵ )

کیا یہی وہ انسان ہے جسے خدا نے بیان سکھایا ہے -:( خلق الانسان علمه البیان ) ۔ ( رحمن ۔ ۳ ، ۴ )

کیا یہ وہی انسان ہے جسے خدا نے اپنی راہ میں کاوش کے لئے ابھارا ہے :

( یا ایها الانسان انک کادح الیٰ ربک کدحاً ) ۔ ( انشقاق ۔ ۶ )

یہ بات قابل غور ہے کہ خدا کی طرف سے ایسے شرف اور ایسی محبت کے حامل انسانوں میں کمزوری کے یہ پہلو کیسے آ گئے ۔

ظاہراً یہ ہے کہ تمام مباحث ایسے انسانوں کے بارے میں ہیں جو خدائی رہبروں کے زیر تربیت نہیں رہے بلکہ انھوں نے خود رو پودوں کی طرح پرورش پائی ہے ان کا نہ کوئی معلم تھا نہ رہبر و راہنما اور نہ انھیں کوئی بیدار کرنے والا تھا ۔ ان کی خواہشات آزاد تھیں اور وہ ہوا و ہوس میں غوطہ زن تھے ۔

واضح ہے کہ ایسے انسان نہ صرف یہ کہ فراواں وسائل اور اپنے وجود کے سرمایہ عظیم سے فائدہ نہیں اٹھاتے بلکہ انھیں انحرافی راستوں اور غلط کاموں میں استعمال کرتے ہیں ۔ یوں وہ ایک خطرناک موجود کی صورت اختیار کر لیتے ہیں اور آخر کار ناتواں و بے نوا وجود بن جاتے ہیں ۔

ورنہ وہ انسان جو ہادیان بر حق کے وجود سے استفادہ کرتے ہیں ، اپنی فکر و نظر سے استفادہ کرتے ہیں اور تکامل و ارتقاء اور حق و عدالت کا راستہ اختیار کرتے ہیں ، وہ مرحلہ آدمیت میں قدم رکھ کر بنی آدم ہونے کی اہلیت کا اظہار کرتے ہیں اور اس طرح وہ اس مقام پر پہنچ جاتے ہیں کہ خدا کے علاوہ انھیں کچھ نہیں سوجھتا ۔

جیسا کہ قرآن کہتا ہے :( و لقد کرمنا بنی آدم و حملناهم فی البر و البحر و رزقناهم من الطیبات و فضلناهم علی کثیر ممن خلقنا تفضیلاً ) ۔

ہم نے بنی آدم کو تکریم و عزت بخشی اور خشکی اور دریا کو ان کی جولان گاہ قرار دیا اور انھیں پاکیزہ رزق دیا اور انھیں اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی

( بنی اسرائیل ۔ ۷۰ )

آیات ۱۳،۱۴

۱۳ ۔( وَ لَقَدْ اٴَهْلَکْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَ جاء َتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّناتِ وَ ما کانُوا لِیُؤْمِنُوا کَذلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمینَ ) ۔

۱۴ ۔( ثُمَّ جَعَلْناکُمْ خَلائِفَ فِی الْاٴَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۱۳ ۔تم سے پہلے کی امتوں نے جب ظلم کیا تو ہم نے انھیں ہلاک کردیا حالانکہ ان کے پیغمبر واضح دلائل لیکر ان کے پا آئے تھے مجرم گروہ کو ہم اس طرح سے جز ادیتے ہیں ۔

۱۴ ۔ان کے بعد پھر ہم نے تمہیں روئے زمین پر ان کا جانشین بنایا تاکہ ہم دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو ۔

پہلے ظالم اور تم

ان آیات میں بھی ظالموں اور مجرموں کی اس جہان میں سزاوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے مسلمانوں کو گزشتہ زمانے کی طرف متوجہ کرتے ہوئے ان کے گوش گزار کیا گیا ہے کہ اگر ان کی راہ پر چلیں تو ان جیسی سر نوشت میں گرفتار ہو گے ۔

پہلی آیت میں کہا گیا ہے : ہم نے تم سے پہلے کی امتوں کو ہلاک اور نابود کر دیا جبکہ انہوں نے ظلم کیا اور وہ ان انبیاء پر ہر گز ایمان نہ لائے جو ان کے پاس واضح دلائل اور معجزات کے ساتھ ان کی ہدایت کے لئے آئے تھے( وَ لَقَدْ اٴَهْلَکْنَا الْقُرُونَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَمَّا ظَلَمُوا وَ جاء َتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَیِّناتِ وَ ما کانُوا لِیُؤْمِنُوا )

آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے : ایسا انجام کسی خاص جماعت سے مخصوص نہیں ہے ۔ ہم مجرموں کو اسی طرح سزا دیا کرتے ہیں( کَذلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمینَ ) ۔

بعد والی آیت میں اس بات کو زیادہ صراحت سے بیان کیا گیا ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : اس کے بعد ہم نے تمہیں زمین پر ان کا جانشین قرار دیا تا کہ دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو( ثُمَّ جَعَلْناکُمْ خَلائِفَ فِی الْاٴَرْضِ مِنْ بَعْدِهِمْ لِنَنْظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُون ) ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ ”قرون “ کا مطلب :

” قرون “ ” قرن “ کی جمع ہے ۔ ” قرن “ عام طور پر ایک طویل زمانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ علماء لغت نے کہا ہے ایسی قوم اور جمیعت کے معنی میں بھی لفظ استعمال ہوتا ہے جو ایک ہی زمانے میں زندگی بسر کرتے ہوں کیونکہ اس کا اصلی مادہ ” اقتران “ سے ہے جس کا مطلب ہے ” نزدیک ہونا ۔ “ زیر بحث آیت میں بھی ” قروان“ اس معنی میں یعنی ہم عصر گروہوں اور قوموں کے لئے استعمال ہوا ہے ۔

۲ ۔ قوموں کی بربادی کی وجہ ؟

مندرجہ بالا آیات میں قوموں کی بربادی اور نابودی کی علت ظلم قرار دی گئی ہے یہ اس بنا پر ہے کہ لفظ --” ظلم “ ایسا وسیع مفہوم رکھتا ہے کہ جس میں ہر قسم کی برائی اور گناہ شامل ہے ۔

۳ ۔”( وما کانو ا لیوٴمنوا ) “ کا مفہوم :

اس کا معنی ہے ” ایسا نہ تھا کہ وہ ایمان لاتے “ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا صرف اس گروہ کو ہلاک کرنے کی سزا دیتا ہے جس کےت آیندہ ایمان لانے کی امید نہ ہو ۔ اس طرح سے وہ قومیں کہ جن کے لئے ممکن ہو کہ آیندہ ایمان لے آئیں گی انھیں ایسی سزائیں نہیں دی جاتیں کیونکہ ان دونوں میں بہت فرق ہے کہ ” وہ ایمان نہیں لائے “ اور ” ایسا نہ تھا کہ وہ ایمان لائیں “ ( غور کیجئے گا )

۴ ۔ ”( لننظر کیف تعلمون ) “ کا مطلب:

اس کا لفظی معنی یہ ہے : تا کہ ہم دیکھیں کہ تم کس طرح عمل کرتے ہو “ ۔ مسلم ہے کہ نہ اس کا مقصود آنکھ سے دیکھنا ہے نہ دل کی نگاہ سے دیکھنا ہے کیونکہ خدا میں دونوں چیزیں نہیں ہیں بلکہ اس مفہوم ہے ایک حالت جو انتظار سے مشابہت رکھتی ہے یعنی تمہیں تمہارے حال پر چھوڑ دیا ہے اور ہمیں انتظار ہے کہ تم کیا کرتے ہو ۔