تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28285
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28285 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۲۸،۲۹،۳۰

۲۸ ۔( وَیَوْمَ نَحْشُرهُمْ جَمِیعًا ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ اٴَنْتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ وَقَالَ شُرَکَاؤُهُمْ مَا کُنْتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ ) ۔

۲۹ ۔( فَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغَافِلِینَ ) ۔

۳۰ ۔( هُنَالِکَ تَبْلُو کُلُّ نَفْسٍ مَا اٴَسْلَفَتْ وَرُدُّوا إِلَی اللهِ مَوْلَاهُمْ الْحَقِّ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

ترجمہ

۲۸ ۔اس دن کو یا د کرو جب ہم ان سب کو جمع کریں گے ، اس کے بعد مشرکین کہیں گے کہ تم اور تمہارے معبود اپنی جگہ پر ہو ( تاکہ تمہارا حساب کتاب لیا جائے )پھر انھیں ہم ایک دوسرے سے جدا کردیں گے ( اور ہر ایک سے الگ الگ سوال کریں گے ) اور ان کے معبود ( ان سے ) کہیں گے کہ تم ( ہر گز ) ہماری عبادت نہیں کرتے تھے ۔

۲۹ ۔یہی کافی ہے کہ خدا ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ ہے کہ ہم تمہارے عبادت کرنے سے غافل تھے ۔

۳۰ ۔ اس وقت( اور وہاں ) ہر شخص نے جو پہلے سے عمل کیا ہو گا اسے آزمائے گا اور سب کے سب اللہ ، اپنے مولا اور حقیقی سر پرست کی طرف پلٹ جائیں گے اور جنہیں وہ جھوٹ موٹ خدا کا شریک قرار دیتے تھے ان سے کھو جائیں گے ۔

قیامت میں بت پرستوں کا ایک منظر

ان آیات میں بھی گزشتہ مباحث جاری ہیں جو کہ مبداء ومعاد اور مشرکین کی کیفیت کے بارے میں تھیں ۔ ان آیات میں ان کی اس حالت ِ بے چار گی کی تصویر کشی کی گئی ہے جب کہ وہ عدلِ الہٰی کے حضور اور اس کی بار گاہ ِحساب و کتاب میں حاضر ہو ں گے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : اس دن کویاد کرو جس میں ہم تمام بندوں کی جمع اور محشور کریں گے ( وَیَوْمَ نَحْشُرھُمْ جَمِیعًا) ۔

اس کے بعد ہم مشرکین سے کہیں گے کہ تم تمہارے معبود اپنی جگہ پر ٹھہرو تاکہ حساب کتاب دیکھا جائے “( ثُمَّ نَقُولُ لِلَّذِینَ اٴَشْرَکُوا مَکَانَکُمْ اٴَنْتُمْ وَشُرَکَاؤُکُمْ ) ۔(۱)

وقفوا ھم انھم مسئولون۔انھیں ٹھہراوان سے سوال ہوتاہے ۔

یہ بات توجہ طلب ہے کہ زیر نظر آیت میں بتوں کو ” شراکاوکم“ کہا گیا ہے یعنی ” شریک “ جب کہ مشرکین بتوں کو خدا کا شریک قرار دیتے تھے نہ کہ اپنا ۔

یہ تعبیر درحقیقت اس نکتہ کی طرف اشارہ ہے کہ بت در خدا کے شریک نہیں ہوتھے اور یہ بت برستوں کے موہوں خیالات تھے کہ جن کی بنا انھوں نے انھیں یہ حیثیت دے رکھی تھی یعنی وہ تمہارے انتخاب شدہ شریک تھے ۔

یہ بات بالکل اسی طرح ہے کہ کہیں کہ آودیکھوتمہارے اس استاد اور سربراہ نے کیا کچھ نہیں کیا( حالانکہ وہ اس کا استاد اور سربراہ نہیں ہے بلکہ مدرسہ کامعلم اورسر براہ ہے لیکن اس نے اسے اپنا لیا ہے ) ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے: ان دوگروہوں ( معبوداور عابد) کو ہم ایک دوسرے سے الگ کردیں گے “ اور ہر ایک سے الگ الگ سوال کریں گے ( جیسا کہ تمام عدالتوں میں یہ معول ہے کہ ہر ایک سے علیحدہ علیحدہ سوال کیا جاتاہے ) ۔ بت پرستوں سے سوال کریں گے کہ کس دلیل کی بناء پر تم نے ان بتوں کو خدا کا شریک قرار دیا تھا اور ان کی عبادت کرتے تھے اور معبودوں سے بھی پوچھیں گے کہ تم کس بناء پر معبود بنے تھے یا اس کام کے لئے تیار ہوئے تھے( فَزَیَّلْنَا بَیْنَهُمْ ) ۔(۲)

جنہیں انھوں نے شریک بنایا تھا اس وقت وہ بول اٹھیں گے “ اورکہیں گے تم ہر گز ہماری پرستش نہیں کرتے تھے “( وَقَالَ شُرَکَاؤُهُمْ مَا کُنْتُمْ إِیَّانَا تَعْبُدُونَ ) ۔تم درحقیقت و ہواوہوساور اپنے اوہام وخیالات کی پرستش کرتے تھے نہ کہ ہماری ۔

علاوہ ازیں تمہاری عبادت کرنا ہمارے فرمان سے نہ تھا اور نہ ہی ہماری رضا سے تھا اور ایسی عبادت دراصل عبادت ہی نہیں ہے ۔

اس کے بعد مزید تاکید کے لئے کہیں گے : ہمارے اور تمہارے درمیان گواہی کے لئے خدا کافی ہے کہ ہم کس طرح بھی تمہاری عبادت سے آگاہ نہ تھے( فَکَفَی بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ إِنْ کُنَّا عَنْ عِبَادَتِکُمْ لَغَافِلِینَ ) ۔(۳)

یہ کہ زیر نظر آیت میں بتوں اور شرکاء سے کون سے معبود مراد ہیں اور یہ کہ وہ کس طرح ایسی گفتگو کریں گے ، اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

بعض نے یہ احتمال ذکر کیا ہے کہ مراد انسانی اور شیطانی معبود ہیں یا پھر یہ فرشتوں میں سے ہیں کہ جو عقل و شعور رکھتے ہیں لیکن اس کے باجود انھیں یہ خبر نہیں ہے کہ کوئی گروہ ان کی عبادت کرتا ہے کیونکہ یاتووہ ان کی غیبت میں ایسی عبادت کرتے تھے اور یا ان کی موت کے بعد ان کی عبادت کی گئی ہے ( جیسے بعض انسانوں کی موت کے بعد ان کی عبادت کی گئی ہے ) ۔

لہٰذاان کی یہ گفتگو بالکل فطری اور طبعی ہو گی اس احتمال کی بناء پر یہ آیت سورہ سبا کی آیہ ۴۰ کی طرح ہوگی ، جس میں ارشادفرمایاگیا ہے :( ویوم یحشرهم جمیعاً ثم یقول للملائکة اهوٴلاء ایاکم کانوا یعبدون )

وہ دن کہ جس میں خدا سب کو محشور کرے گا ۔ اس کے بعد فرشتوں سے کہے گا ! کیا یہ لوگ تمہاری ہی عبادت کرتے تھے ۔

دوسرا احتمال ہے کہ جسے بہت سے مفسرین نے ذکر کیا ہے یہ ہے کہ اس روز خدا تعالیٰ بتوں کو زندگی اور شعور عطا کرے گا اس طرح سے کہ وہ حقائق بیان کرسکیں گے مندر جہ بالاجملہ کہ جو بتوں کی زبانی نقل ہوا ہے کہ وہ خدا گواہ بنائیں گے وہ عبادت کرنے والوں کی عبادت سے غافل تھے اس سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کیونکہ پتھر اور لکڑی کے بت بالکل کسی چیز کو نہیں سمجھتے ۔

آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ہوسکتا ہے کہ یہ تمام معبودوں کے لئے ہے البتہ جو معبود عقل و شعور رکھتے ہیں وہ اپنی زبان سے حقیقت بیان کریں گے لیکن جومعبود عقل و شعور نہیں رکھتے وہ زبان حال اور آثار ِ عمل کے ذریعے بات کریں گے بلکہ اسی طرح جیسے ہم کہتے ہیں کہ تیرے چہرے کی رنگت تیرے اندر کی بات کررہی ہے ۔

قرآن بھی سورہ فصلت آیہ ۲۱ میں کہتا ہے :انسانی جلد اورچمڑے عالم ِ قیامت میں گفتگو کریں گے ۔

اسی طرح سورہ زلزال میں کہتا ہے : وہ زمینیں جن پر انسان زندگی بسر کرتا ہے ،حقائق بیان کریں گی ۔

یہ معاملہ دور حاضر میں کوئی پیچیدہ مسئلہ نہیں ہے جب کہ ایک بے زبان ٹیپ ہماری تمام باتوں کو ریکارڈ کرتی ہے اور ضرورت کے وقت بیان کرتی ہے لہٰذا تعجب کا مقام نہیں کہ بت بھی اپنی عبادت کرنے والوں کی حقیقت کو ظاہر کریں ۔

بہر حال اس دن ، اس جگہ یا اس حالت میں جیسا کہ قرآن زیر نظر آخری آیت میں کہتا ہے : ہر شخص اپنے انجام دئے گئے اعمال کا نتیجہ دیکھے گا بلکہ خود انہیں دیکھے گا چاہے وہ عبادت کرنے والا ہو یا گمراہ معبود کہ جو لوگوں کو اپنی عبادت کی دعوت دیتا تھا، چاہے مشرک ہو یا مومن اور چاہے کسی گروہ یا کسی قبیلے سے ہو( هُنَالِکَ تَبْلُو کُلُّ نَفْسٍ مَا اٴَسْلَفَتْ ) ۔

” اور اس دن سب کے سب اللہ کی طرف پلٹ جائیں گے جو ان کا حقیقی مولا اورسرپرست ہے اور قیامت کی عدالت میں ظاہر ہو جائے گا کہ حکومت صرف اس کے زیرفرمان ہے “( وَرُدُّوا إِلَی اللهِ مَوْلَاهُمْ الْحَقِّ ) ۔”آخر کا ر تمام بت اور جعلی معبود کہ جنہیں وہ غلط طور پر خدا کا شریک قرار دے چکے تھے گم اور نابود ہو جائیں گے “( وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ ) ۔

کیونکہ وہ بندوں کے اسرار نہاں کے ظہور کا میدان ہے اور کوئی حقیقت ایسی نہیں رہے گی کہ جو اپنے آپ کو شکار نہ کردے ۔وہاں اصولی طور پر ایسی صورتحال ہے کہ نہ سوال کی ضرورت ہے نہ گفتگو کی بلکہ کیفیت حالات ہر چیز کی ترجمانی کرے گی او ربات چیت کی ضرورت نہیں ہوگی ۔

____________________

۱۔ ”مکانکم “ اصل میں فعل مقدرکا مفعول ہے اور حقیقت میں یوں تھا”الزموامکانکم انتم وشرکائکم حتیٰ تسئلوا “۔یہ جملہ فی الحقیقت سورہ الصاصفات کی آیہ ۲۴ کے مشابہ ہے جہاں فرمایاگیا ہے :

۲۔”زیلنا “ ”تزییل “ کے مادہ سے ہے اور جدا کرنے کے معنی میں ہے نیز جیسا کہ بعض اہل لغت نے کہا ہے کہ اس کا مادہ ثلاثی زال یزیل ہے جو جدا ہونے کے معنی میں ہے ۔ نہ کہ زال یزول کے مادہ سے زوال قبول کرنے کے معنی میں ہے ۔

۳-مندر جہ بالا جملے میں لفظ ” ان “ اصطلاح کے مطابق ثقیلہ سے خفیفہ ہے اور تاکید کے لئے ہے اور جملے کا معنی یہ ہے :۔ اننا عن عبادتکم لغافلین ۔ یعنی ہم یقینا تمہاری عبادت سے غافل تھے ۔

آیات ۳۱،۳۲،۳۳

۳۱ ۔( قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ فَسَیَقُولُونَ اللهُ فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ ) ۔

۳۲ ۔( فَذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ الْحَقُّ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ فَاٴَنَّا تُصْرَفُونَ ) ۔

۳۳ ۔( کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِینَ فَسَقُوا اٴَنّهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

ترجمہ

۳۱ ۔ کہہ دو : کوتمہیں آسمان وزمین سے روزی دیتا ہے یا کون کان اور آکھوں کا مالک ( اور خالق ) ہے اور کوئی زندہ کو مردہ سے نکلتا ہے اور مردہ کوزندہ سے نکالتا ہے اور کو ن ( دنیا کے ) امور کی تدبیر کرتا ہے جلد ہی وہ ( جواب میں ) کہیں گے : تو کہوکہ پھر کیوں تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو ( اور خدا سے نہیں ڈرتے ہو) ۔

۳۲ ۔ اور یہ تمہارا اللہ ، تمہارا حقیقی پر وردگار ، تو اس صورت میں حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ ہے ؟ پس کویں ( اس کی عبادت سے ) رخ پھیر تے ہو؟

اس طرح سے تیرے پر وردگار کا حکم فاسقوں پر مسلم ہوا ہے کہ وہ ( اس سر کشی اور گناہ کے بعد ) ایمان نہیں لائیں گے ۔

تفسیر

ان آیات میں وجودہ پر وردگار کی نشانیوں اور اس کے لائق عبودیت ہونے کے بارے میں گفتگو ہے اور اس سلسلے میں گزشتہ مباحث جاری ہیں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : مشرکین اور بت پرست کہ جو راہ روہی میں سر گر داں ہیں ان سے کہہ دو : کون تمہیں آسمان اور زمین سے روزی دیتا ہے “( قُلْ مَنْ یَرْزُقُکُمْ مِنْ السَّمَاءِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

”رزق“ لگا تار اور دائمی عطا اور بخشش کے معنی میں ہے اور چونکہ تمام نعمتیں بخشنے والا در حقیقت خد اہے لہٰذا ” رزق“ اور رازق“ لئے الفاط حقیقی معنی کے لحاظ سے صرف اسی کے لئے بو لے جاتے ہیں اور اگر اس کے علاوہ کسی اور کے لئے استعمال ہوں تو بلا شبہ مجاز کے حوالے سے ہوں سے ہوں گے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت ۲۳۳ میں دودھ پلانے والی عورتوں کے بارے میں ہے :۔و علی مولودله رزقهن و کسوتهن بالمعروف ۔

باپ پر فرض ہے کہ جو عورتیں اس کی اولاد کو دودھ پلائیں انھیں مناسب رزق دے اور لباس پہنائے ۔

یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہئیے کہ انسا ن کی زیادہ تر روزی آسمان سے مربوط ہے ۔ حیات بخش بارش آسمان سے برستی ہے ۔ ہوا جو کہ تمام زندہ موجودات کی ضرورت ہے وہ بھی زمین کے اوپر ہے اور سب سے زیادہ اہم سورج کی روشنی ہے کہ جس کےبغیر زمین پر کوئی موجود زندہ نہیں رہ سکتا اور جس کے بغیر ساری زمین پر کوئی حرکت و جنبش نہیں ہو سکتی ، اس روشنی کا تعلق بھی آسمان سے ہے ۔ یہاں تک کہ جو جانور دریا وں کی گہرائی میں ہیں وہ بھی نور آفتاب ہی کی بدلت زندہ ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ ان میں سے بہت سوں کی غذا بہت ہی چھوٹ نباتات ہیں کہ جو سمندر کی سطح پر موجوں کے درمیان سورج کی روشنی پڑنے سے ہی نشو ونما حاصل کرتے ہیں ۔ لیکن زمین صرف اپنے نباتات کو غذا دیتی ہے شاید اسی بنا پر مندرجہ با لاآیت میں پہلے آسمان سے روزی مہی اکیے جانے کا تذکرہ ہے او ربعد میں زمین سے ( درجہ اہمیت کے فرق کے ساتھ ) ۔

اس کے بعد حواس ِانسانی میں سے دو اہم ترین کا ذکر کیا گیا ہے جن کے بغیر انسان علم حاصل نہیں کرسکتا ۔ ارشاد ہوتا ہے : اور کہہ دو کہ کان اور آنکھوں کا خالق ، مالک اور انسان کے ان دو حواس کو قدرت دینے والاکون ہے (اٴَمَّنْ یَمْلِکُ السَّمْعَ وَالْاٴَبْصَارَ ) ۔

در حقیقت اس آیت میں پہلے تو مادی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے اور اس کے بعد معنوی نعمتوں کی طرف اشارہ ہے جن کے بغیر مادہ نعمتیں اپنا مقصد کھو دیتی ہیں ۔

لفظ ” سمع“ مفرد ( اور کان کے معنی میں ہے ) اور ” اسار“ ” بصر“ کی جمع ہے ، بینائی اور آنکھ کے معنی میں ہے یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ ” سمع “ قرآن میں تمام جگہوں پر مفرد آیا ہے جب کہ ” بصر“ کبھی جمع کی صورت میں آیا ہے کبھی مفرد، آخر اس کی کیا وجہ ہے اس سوال کا جواب جلد اولم ص ۱۰۱( اردو ترجمہ ) پر پیش کیا جاچکا ہے ۔

اس کے بع ددو ظاہر ہونے والی چیزیں یعنی موت و حیات کا ذکر ہے جو کہ عالم خلقت کی عجیب و غریب چیزیں ہیں ، ارشاد ہوتا ہے : اور کون ہے جو زندہ کو مردہ سے نکلاتا ہے او رمردہ کا زندہ سے نکالتا ہے( وَمَنْ یُخْرِجُ الْحَیَّ مِنْ الْمَیِّتِ وَیُخْرِجُ الْمَیِّتَ مِنْ الْحَیِّ ) ۔

یہ وہی موضوع ہے کہ جس میں ابھی تک طبیعی علوم کے ماہرین اور حیات شناس لوگوں کی عقل حیران و پریشان ہے کہ ایک بے جان چیز سے ایک زندہ موجودہ کس طرح وجود میں آتا ہے ۔ کیا ایسی چیز جسکے بارے میں علماء اور سائنس دانوں کی مسلسل کوشش ابھی تک کسی مقام تک نہیں پہنچی ۔ ایک معمولی ، اتفاقیہ ، بغیر ہدایت کے رونما ہونے والی حادثاتی اور بلا مقصد طبیعی ہوسکتی ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ ظاہر ہونے والی پیچیدہ ، ظریف اور آثار آمیز زندگی حد سے زیادہ علم و قدرت اور عقل ِ کلی کی محتاج ہے ۔

اس نے نہ صرف ابتداء میں زندہ کو زمین کی بے جان موجودات سے پیدا کیا ہے بلکہ اس کی سنت یہ رہی ہے کہ زندگی بھی جاودانی نہ ہو ۔ اس بنا پر اس نے موت کو زندگی کے دل میں پیدا کیا ہے تاکہ اس طریقے سے تغیر و تکامل کے لئے مید ان کھلا رکھے ۔

مندرجہ بالا آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ آیت مادی موت و حیات کے علاوہ معنوی موت و حیات کے بارے میں بھی ہے کیونک ہم دیکھتے ہیں کہ کبھی گمراہ او ربے ایمان ماں باپ سے ایک ہوش مند، پا ک دامن اور اب ایمان انسان پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بر عکس بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ قا نون ِ وراثت کے بر خلاف نہایت لائق او ربا وقار انسان سے بے وقعت او رمردہ انسان وجود میں آتے ہیں ۔(۱)

البتہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ زیر نظر آیت دونوں قسموں کی موت و حیات کی طرف اشارہ ہو کیونکہ دونوں ہی عجائب ِ آفرینش اور عالم کے تعجب انگیز مظاہرہ میں سے ہیں اور اس سے یہ حقیقت واضح ہو تی ہے کہ طبیعی عوامل و حکیم خالق کا دستِ قدرت کا ر فرما ہے ۔

اس کے بارے میں جلد پنجم ۔ص ۲۸۹ ( اردو ترجمہ ) سورہ انعام کی اایہ ۹۵ کے ذیل میں ہم کچھ دیگر توضیحات بھی ذکر کر چکے ہیں ۔

اس کے بعد قرآن کہتا ہے : کون ہے جو ا س جہان کے امور کی تدبیر کرتا ہے( وَمَنْ یُدَبِّرُ الْاٴَمْرَ ) ۔

در حقیقت پہلے تو نعمات کی خلقت و آفرینش کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے اور اس کے بعد ان کے محافظ، نگہبان او رمدبر کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔

ان تین سوالات کو پیش کرنے کے بعد قرآن بلا فاصلہ کہتاہے : وہ فوراً ہی جواب میں کہیں گے ”اللہ “

اس جملے سے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ زمانہ جاہلیت کے مشرکین او ربت پرست بھی عالم ہستی کا خالق ، رازق، حیات بخش اور مدبر امور اللہ ہی کو جانتے ہیں اور وہ ا س حقیقت کو طریق عقل او رراہ فطرت سے جان چکے تھے کہ یہ نظام اور حساب شدہ جہان بے نظمی کی پید اوار یابتوں کی مخلوق نہیں ہوسکتا۔

آیت کے آخر میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ کیا اس حالت میں تم تقویٰ اختیار نہیں کرتے ہو( فَقُلْ اٴَفَلاَتَتَّقُونَ ) ۔

صرف وہ ذات پرستش کے لائق ہے جس کے ہاتھ میں دنیا کی خلقت و تدبیر ہے ۔ اگر عبادت معبود کی اہلیت اور عظمت کی بنا پر کی جائے تو پھر یہ اہلیت ، لیاقت اور عظمت صرف خدا میں پائی جاتی ہے اور اگر اس بناء پر کی جائے کہ معبود سود زیاں کا سر چشمہ ہے تو یہ بھی خدا کے ساتھ مخصوص ہے ۔

آسمان و زمین میں خد اکی عظمت و تدبیر کے کچھ آثارذکر کرنے کے بعد اور مخالفین کے وجدان و عقل کو دعوت دینے کے بعد جب وہ اعتراف کرچکے تو اگلی آیت میں قطعی لب و لہجہ کے اختیار کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : یہ ہے خدا تمہارا برحق پر وردگار( فَذَلِکُمْ اللهُ رَبُّکُمْ الْحَقُّ ) ۔

نہ کہ بت اور دوسرے موجودات کہ جنہیں تم خدا کی عبودیت میں شریک قرار دیتے ہو اور ان کے سامنے سجدہ کرتے ہو اور ان کی تعظیم کرتے ہو۔ وہ کس طرح عبودیت کے لائق ہو سکتے ہیں حالانکہ یہی نہیں کہ وہ تخلیق و تدبیر جہان میں شریک نہیں ہوسکتے بلکہ خود بھی سر تا پا محتاج ہیں ۔

اس کے بعد نتیجتاً فرمایا گیا ہے : اب جب کہ حق کو واضح طور پر پہچان چکے ہو ۔ تو کیا حق کے بعد گمراہی کے علاوہ کچھ رہ جاتا ہے( فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ إِلاَّ الضَّلَالُ ) ۔

اس کے باوجود کیوں تم خدا کی عبادت اور پرستش سے منہ بھیر تو ہو حالانکہ تمہیں معلوم ہے کہ معبود بر حق ا س کے علاوہ کوئی نہیں( اٴَنَّی تُصْرَفُونَ ) ۔

یہ آیت در حقیقت باطل کی شناخت اور اسے ترک کرنے کے لئے ایک واضح منطقی راستہ بتاتی ہے اور وہ یہ کہ پہلے تو حق کی پہچان کے لئے عقل سے کام لینا چاہئیے اور جب حق کو پہچان لیا جائے تو جو کچھ اس کے مخالف ہے وہ باطل اور گمراہی ہے اور اس سے کنارہ کشی کرنا چاہئیے ۔

آخری آیت میں یہ نکتہ بیان کرنے کے لئے کہ وہ لوگ مطلب واضح اور حق آشکار ہو جانے کے باوجود کیوں اس کے پیچھے نہیں جاتے، قرآن کہتا ہے : اسی طرح خدا کا فرمان ان افراد کے بارے میں کہ جو جان بوجھ کر اور عقل کے خلاف چلتے ہوئے اطاعت سے رخ پھیر تے ہیں ، صادر ہوا ہے کہ وہ ایمان نہیں لائےں گے( کَذَلِکَ حَقَّتْ کَلِمَةُ رَبِّکَ عَلَی الَّذِینَ فَسَقُوا اٴَنّهُمْ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔(۲)

حقیقت میں یہ ان کے مسلسل غلط اعمال کی خاصیت ہے کہ جو ان کے دل کو اس طرح سے تاریک اور ان کی روح کو اس طرح سے آلودہ کردیتی ہے کہ حق کے واضح اور روشن ہونے کے باوجود اسے نہیں دیکھتے اور بے راہ روی اختیار کرتے ہیں ۔ اس بناء پر مندرجہ بالا آیت کسی طرح سے بھی مسئلہ جبر پر دلالت نہیں کرتی بلکہ انسان کے خود اپنے اعمال کی طرف اشارہ ہے لیکن اس میں شک نہیں کہ ان اعمال میں یہ خصوصیت فرمان الہٰی سے ہے ۔

یہ بالکل اس طرح ہے جیسے ہم کسی سے کہیں کہ ہم نے تجھے سو مرتبہ کہا ہے کہ نشہ آور چیزوں اور شراب کے پیچھے نہ جاو ، اب جب کہ تونے کان میں نہیں دھرے اور ان کا سخت عادی ہو چکا ہے تو اب تیرے لئے یہی حکم ہے کہ مدتوں بد بختی میں رہے ۔

____________________

۱۔ تفسیر بر ہان ج،۱ ص ۵۴۳ ،سورہ انعام کی آیت ۹۵کے ذیل میں متعدد روایات کے حوالے سے یہ مضمون ذکر کیا گیا ہے ۔

۲-کاف تشبیہ یہاں ایک مطلب کی طرف اشارہ ہے کہ جو گزشتہ آیت کے آخری جملے میں ذکر ہوا ہے اور آیت کا معنی اس طرح ہے (انه لیس بعد الحق الا الضلال کذٰلک حقت کلمة ربک )یعنی پہلے حق کے بعد گمراہی کے سوا کچھ نہیں ہے اسی طرح خد اکا حکم صادر ہو چکا ہے ۔

آیات ۳۴،۳۵،۳۶

۳۴ ۔( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ فَاٴَنَّا تُؤْفَکُون ) ۔

۳۵ ۔( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ قُلْ اللهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ اٴَفَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ۔

۳۶ ۔( وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ) ۔

ترجمہ

۳۴ ۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی مخلوق کو ایجان کرسکتا ہے اور پھر اسے پلٹا سکتا ہے ؟ کہہ دو ! صرف خدا نے مخلوق کو پیدا کیا ہے اور پھر واپس پلٹا ئے گا ۔ اس کے باوجود حق سے کیوں رو گرداں ہوتے ہو۔

۳۵ ۔ کہہ دو ! کیا تمہارے معبودوں میں سے کوئی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے ۔ کہہ دو صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے ۔ کیا وہ جو حق کی ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق نہیں ہے یا وہ کہ جسے ہدایت نہ کی جائے تو وہ خود ہدایت حاصل کرتا تمہیں کیا ہوگیا ہے تم کس طرح فیصلہ کرتے ہو۔

۳۶ ۔ ان میں سے اکثر سوائے گمان ( اور بے بنیاد خیالات)کے کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے ( حالانکہ ) گمان کبھی انسان کو حق سے بے نیاز نہیں کرتا(اور حق تک نہیں پہنچاتا) اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو خدا اس سے باخبر اور آگاہ ہے ۔

حق و باطل کی ایک پہچان

ان آیات میں بھی مبداء اور معاد سے مربوط استدلالات کا سلسلہ جاری ہے ۔ پہلی آیت میں پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ تمہارے معبودوں کہ جنہیں تم خدا کا شریک قرار دیتے ہومیں سے کوئی ہے جو عالم آفرینش کو ایجاد کرکے پھر لوٹا سکتا ہے( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُهُ ) ۔

اس کے بعد مزیدکہتا ہے : کہہ دو کہ خد انے عالم ِ آفرینش کو پیدا کیا ہے اور پھر اسے لوٹا ئے گا( قُلْ اللهُ یَبْدَاٴُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیدُه ) ۔” اس کے با وجود حق سے کیوں رو گردانی کرتے ہو اور بے راہ روی میں سر گرداں ہو“( فَاَنَّی تُؤْفَکُون ) ۔

یہاں دو سوال سامنے آتے ہیں : پہلا یہ کہ مشرکین عرب عام طور پر معاد اور قیامت کا عقیدہ خصوصاً جیسے قرآن کہتا ہے ، نہیں رکھتے تھے اس کے باوجود قرآن ان سے کیونکہ اعتراف چاہتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ گذشتہ آیت میں مشرکین کے اعتراف کا ذکر تھا لیکن یہاں پیغمبر کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اس حقیقت کا اعتراف کرو تعبیر کا یہ فرق کیوں ہے ؟

لیکن ایک نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے دونوں سوالوں کا جواب واضح ہو جاتا ہے اور وہ یہ کہ مشرکین معاد ( معاد جسمانی ) کا عقیدہ نہیں رکتھے تھے ان کا بس یہ اعتقاد تھا کہ خلقت کی ابتداء خدا کی طرف سے ہے اور یہی بات معاد کو تسلیم کرنے کے لئے کافی ہے کیونکہ جس نے ابتداء کی ہے وہ اعادہ بھی کرسکتا ہے لہٰذا مبداء کے عقیدہ پرتھو ڑا سا بھی غور و فکر کیا جائے تو اس سے معاد کا عقیدہ ثابت ہو جا تاہے ۔

یہاں سے واضح ہو جا تا ہے کہ کس بناء پر مشرکین کی بجائے پیغمبر اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں کیونکہ اگر چہ معاد پر ایمان مبداء کے لئے ایمان کے لوازمات میں سے ہے لیکن چونکہ وہ اس لزوم کی طرف متوجہ نہیں تھے لہٰذا طرزِ تعبیر بدل گئی اور پیغمبر نے ان کی جگہ اعتراف کیا ۔

دوبارہ پیغمبر اکرم کو حکم دیا گیا ہے : ان سے کہہ دو کہ کیا کوئی تمہارے جعلی معبودوں میں سے حق کی طرف ہدایت کرسکتا ہے( قُلْ هَلْ مِنْ شُرَکَائِکُمْ مَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقّ ِ ) ۔کیونکہ معبود کو اپنی عبادت کرنے والوں کا رہبر ہو نا چاہئیے اور رہبری بھی حق کی طرف کرنا چاہیئے ۔ حالانکہ مشرکین کے معبود چاہے وہ بے جان بت ہوں یا جاندار، کوئی بھی یہ طاقت نہیں رکھتا کہ ہدایت الہٰی کے بغیر حق کی طرف رہبری کرسکے کیونکہ حق کی طرف ہدا یت کرنا مقام ِ عصمت اور خطاہ و اشتباہ سے محفوظ ہونے کا مقام ہے او ریہ خدا کی ہدایت اور حمایت کے بغیر ممکن نہیں ہے ، لہٰذا بلا فاصلہ مزید فرمایا گیا ہے : کہہ دو کہ صرف خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے( قُلْ اللهُ یَهْدِی لِلْحَقِّ ) ۔تو ایسے میں ” کیا وہ جو حق کی طرف ہدایت کرتا ہے پیروی کے زیادہ لائق ہے یا وہ کہ جس کی ہدایت اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ اسے ہدایت کی نہ جائے( اٴَفَمَنْ یَهْدِی إِلَی الْحَقِّ اٴَحَقُّ اٴَنْ یُتَّبَعَ اٴَمَّنْ لاَیَهِدِّی إِلاَّ اٴَنْ یُهْدَی ) ۔

آیت کے آخر میں سر زنش کے انداز میں اور جھنجوڑ تے ہوئے فرمایا گیا ہے : تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ کس طرح کا فیصلہ کرتے ہو( فَمَا لَکُمْ کَیْفَ تَحْکُمُونَ ) ۔

زیر نظر آخری آیت میں ان کے انحراف کی بنیا داور سر چشمہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : ان میں سے اکثر خیال اور گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی نہیں کرتے جبکہ خیال اور گمان کبھی بھی انسان کو نہ حق سے بے نیاز کرسکتا ہے اور نہ حق تک پہنچا سکتا ہے( وَمَا یَتَّبِعُ اٴَکْثَرُهُمْ إِلاَّ ظَنًّا إِنَّ الظَّنَّ لاَیُغْنِی مِنْ الْحَقِّ شَیْئًا ) ۔

جو لوگ کسی منطق اور حساب کتاب کے تابع نہیں ، آیت کے آخر میں انھیں تہدید آمیز لہجے میں کہا گیا ہے : جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں ، خدا اس کا عالم اور جاننے والا ہے( إِنَّ اللهَ عَلِیمٌ بِمَا یَفْعَلُونَ ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ ”خدا ہی حق کی طرف ہدایت کرتا ہے “

۔ مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ صرف خدا حق کی ہدایت کرتا ہے یہ انحصار یا تو اس بناء پر ہے کہ ہدایت کے مراد راستہ دکھا نا نہیں ہے بلکہ مقصد تک پہنچا نا بھی ہے او ریہ کام صرف خدا کے ہاتھ میں ہے اور یا اس بناء پر ہے کہ راستہ دکھا نا اور اس کی نشاندہی کرنا بھی پہلے درجے میں خدا ہی کا کام ہے اور ا س کے غیر یعنی انبیاء الہٰی اور ہادیان بر حق صرف اس کے طریق ہدایت سے ہدایت کے راستوں سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس کی تعلیم سے عالم ہوتے ہیں ۔

۲ ۔ مشرکین کے معبود خود ہدایت کے محتاج ہیں :

یہ جو زیر بحث آیات میں آیا ہے کہ مشر کین معبود نہ صر ف کسی کو ہدایت نہیں کرسکتے بلکہ خود بھی ہدا یت الٰہی کے محتاج ہیں اگر پتھر اور لکڑی کے بتوں کے بارے میں صادق نہیں آتا کیونکہ وہ تو بالکل شعور نہیں رکھتے تھے لیکن صاحب شعور معبودوں کے بارے میں مثلاً جن فرشتوں اور انسانوں کو معبود قرار دیا گیا ہے پرمکمل طور پر صادق آتا ہے ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مذکورہ جملہ ایک قضیہ شرطیہ کے معنی میں ہو یعنی فرض کریں کہ بت عقل و شعور رکھتے ہوتے تو خدائی راہنمائی کے بغیر خودراہ تلاش نہ کرسکتے چہ جائیکہ دوسروں کی راہنمائی کرتے ۔

بہر حال مندرجہ بالا آیات اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہیں کہ بندوں کے لئے خدا کا ایک طرف سے ہدایت کا ایک بنیادی پر وگرام ہے جس کے تحت انھیں حق کی طرف ہدایت کی جاتی ہے اور یہ کام عقل و خرد بخشنے ، طریق ِ فطرت سے انھیں مختلف درس دینے ، جہانِ خلقت میں اپنی آیات دکھانے اور اسی طرح انبیاء اور آسمانی کتب بھیجنے کے ذریعے عمل پذیر ہوتا ہے ۔

۳ ۔ بت پرست گمان کی پیروی کرتے ہیں :

زیر بحث آخری آیت میں ہم نے پڑھا ہے کہ اکثربت پرست اور مشرک اپنے ظن و گمان کے پیچھے لگے رہتے ہیں ۔

یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ یہ کیوں نہیں فرمایا کہ وہ سب کے سب ایسے ہیں کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ تمام بت پرست اس گمان باطل میں شریک ہیں کہ وہ بتوں کو حقیقی معبود، نفع و نقصان کا مالک اور بار گاہ ِ خدا میں شفیع خیال کرتا ہوں ۔ اسی بناء پر بعض مجبور ہوئے ہیں کہ لفظ ” اکثر “ سے تمام کے معنی مراد لیں اور ان کا نظر یہ ہے کہ یہ بعض اوقات تمام او ر کل کے معنی میں آتا ہے ۔

لیکن یہ جواب کوئی زیادہ قابل ِلحاظ نہیں ہے ۔بہتر یہ ہے کہ ہم کہیں کہ بت پرست دو طرح کے ہیں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو بیہودہ ، نادان او رجاہل ہیں اور غلط سلط خیالات او رگمانوں کے زیر اثر رہتے ہیں اور انھوں نے بتوں کو پرستش کے لئے منتخب کر رکھا ہے جب کہ اقلیت میں وہ بت پرست ہیں جو سیاہ دل اور آگاہ ہیں اور اکثریت کے رہبر و راہنما ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بت پرستی کے لئے بے بنیاد ہونے کو جاننے کے باوجود اپنے مفادات کے لئے لوگوں کو بتوں کی طرف دعوت دیتے ہیں لہٰذ اخدا صرف پہلے گروہ کو جواب دیتا ہے کیونکہ وہ قابل ہدایت ہیں ۔ لیکن دوسرا اگر وہ جو جان بوجھ کر غلط راستے چل رہے اسے بالکل قابل ِ اعتناء قرار نہیں دیتا۔

۴ ۔ علماء اصول کی ایک بحث:

کچھ علماء اصول زیر نظر آیت اور اس قسم کی آیا ت کو اس امر کی دلیل سمجھتے ہیں کہ ظن اور گمان کسی طرح حجت اور سند نہیں بن سکتے اور صرف قطعی دلائل پر ہی اعتماد کیا جاسکتا ہے لیکن بعض دیگر علماء کہتے ہیں کہ فہقی دلائل میں ہمارے پاس بہت سے ظنی دلائل ہیں (مثلاً الفاظ کے ظواہر کا حجت ہونا ، دو عادل گواہوں کی گواہی ی اخبر واحد ثقہ اور اس قسم کے دیگر دلائل ) وہ کہتے ہیں کہ زیر نظر آیت اس امر کی دلیل ہے کہ اصلی قاعدہ کے مطابق ظن حجت نہیں ہے مگر یہ کہ کسی ظن کا حجت ہو نا قطعی دلیل سے ثابت ہ وجائے ، جیسے مذکورہ چند مثالوں کے بارے میں ہے ۔

مگرانصاف یہ ہے کہ مندرجہ بالا آیت صرف بے اسا س خیالات اور بے ہودہ گمانوں کے بارے میں بات کررہی ہے جیسے بت پرستوں کے گمان ۔ اس آیت کا تعلق اس ظن سے نہیں جو عقلاء کے نزدیک قابل ِ اعتماد ہے لہٰذا مندرجہ بالا آیت اور اس طرح کی دیگر آیات سے ظن کے حجت نہ ہونے کے بارے میں سند پیش نہیں کی جاسکتی۔ ( غور کیجئے گا )