تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28305
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28305 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۴۵،۴۶،۴۷

۴۵ ۔( وَیَوْمَ یَحْشُرهُمْ کَاٴَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ النَّهَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَهُمْ قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللهِ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ ) ۔

۴۶ ۔( وَإِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِلَیْنَا مَرْجِعُهم ثُمَّ اللهُ شَهِیدٌ عَلَی مَا یَفْعَلُونَ ) ۔۔

۴۷ ۔( وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ رَسُولٌ فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۵ ۔ اس دن کو یاد کرو جب انھیں جمع ( اور محشور) کرے گا اور انھیں ایسا محسوس ہو گا جیسے ( دنیا میں ) انھوں نے دن کی ایک گھڑی سے زیادہ توقف نہیں کیا۔ بس اتنی مقدار کہ ایک دوسرے کو ( دیکھیں اور ) پہچان لیں ۔ وہ کہ جنہوں لقائے الہٰی ( اور روز قیامت ) کا ناکر کیا وہ خسارے میں رہے ، اور انھوں نے ہدایت حاصل نہ کی ۔

۴۶ ۔ اور گار ہم کچھ سزائیں کہ جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے ( تیری زندگی میں ) تجھے دکھائیں یا ( قبل اس کے کہ وہ عذاب میں گرفتار ہوں ) تجھے دنیا سے لے جائیں ، بہر حال ان کی با زگشت ہماری طرف ہے ۔ اس کے بعد خدا اس پر گواہ ہے جو کچھ وہ انجام دیتے ہیں ۔

۴۷ ۔ اور ہدایت کے لئے ایک رسول ہے ۔ جب ان کا رسول ان کی طرف آئے تو خدا ان کے درمیان عدل سے فیصلہ کرتا ہے اور ان پر ظلم نہیں ہوگا ۔

تفسیر

گزشتہ آیات میں مشرکین کی بعض صفات بیان کرنے کے بعد اب ان آیات میں قیامت میں ان کی دردناک کیفیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اس دن کو یاد کرو جب خدا ان سے کو محشور کرے گا اور ا س حالت میں کہ وہ محسوس کریں گے کہ دنیا میں ان کی ساری عمر دن کی ایک گھڑی سے زیادہ بس اتنی مقدار کہ وہ ایک دوسرے کو دیکھ لیں ، اور پہچان لیں( یَوْمَ یَحْشُرهُمْ کَاٴَنْ لَمْ یَلْبَثُوا إِلاَّ سَاعَةً مِنْ النَّهَارِ یَتَعَارَفُونَ بَیْنَهُمْ ) ۔

دنیا میں تھوڑی سی دیر کا یہ احساس اس بناء پر ہے کہ آخرت کی دائمی زندگی کے مقابلے میں یہ ایک گھڑی سے زیادہ نہیں ہے ۔

یا اس بناء پر کہ یہ ناپائیدار اور دنیا ان پر یوں تیزی سے گزری ہے کہ ایک ساعت سے زیادہ نہ تھی ۔

یا پھر اپنی زندگی سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے کی وجہ سے یوں خیال کریں گے کہ ان کی ساری عمر ایک گھڑی سے زیاد ہ قدر و قیمت نہیں رکھتی تھی ۔

جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہ ہے اس کے پیشِ نظر ”( یتعارفون بینهم ) “ ( ایک دوسرے کو پہچانتے ہیں ) کاجملہ دنیا میں ان کے قیام کی مقدار کی طرف اشارہ ہے یعنی اس طرح وہ اپنی عمر کو مختصر اور کم محسوس کرین گے گویا صرف اتنی مقدار تھی کہ جس میں دو آدمی ایک دوسرے کو دیکھ کر آپس میں متعارف ہو ں اور پھر ایک دوسرے سے جدا ہو جائیں ۔

آیت کی تفسیر میں یہ احتمال بھی پیش کیا گیا ہے کہ مراد یہاں زمانہ برزخ کی کمی کا احساس ہے یعنی وہ لوگ دورانِ برزخ کی نیند کی سی کیفیت میں ڈوب جائیں گے جس میں سالہا سال اور صدیوں او رزمانوں کے گزرنے کا احساس نہیں کریں گے اور قیامت کے دن ہزار ہا سال پر مشتمل زمانہ برزخ انھیں ایک ساعت سے زیادہ محسوس نہیں ہوگا ۔

اس تفسیر کے لئے شاہد سورہ روم کی آیت( ۵۵ ۔ ۔ ۵۶) ہے جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے :۔

( ویوم تقوم الساعة یقسم المجرمون مالبثوا غیر ساعة کذٰلک کانوا یوٴفکون وقال الذین اوتوا العلم و الایمان لقد لبثتم فی کتاب الله الیٰ یوم البعث فهٰذا یو م البعث ولکنکم لا تعلمون ) ۔

ان دو آیا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس وقت قیامت بر پا ہو گی ، مجرمین کا ایک گروہ قسم کھائے گا کہ ان کے برزخ ک ادور ایک ساعت سے زیادہ نہیں تھا لیکن مومنین ان سے کہیں گہ وہ طولانی دور تھا اور اب قیامت بر پا ہوئی ہے او رتمہیں معلوم نہیں ہے ۔

ہم جانتے ہیں کہ برزخ تمام لوگوں کے لئے ایک جیسی نہیں ہے اور اس کی تفصیل ہم متعلقہ آیات کے ذیل میں بیان کریں گے ۔

اس تفسیر کے مطابق ”( یتعارفون بینهم ) “ کا معنی یہ ہوگا کہ وہ لوگ زمانہ برزخ کی مقدار اتنی کم محسوس کریں گے کہ انھیں دنیا کی کوئی بات بھولی نہیں ہوگی او روہ ایک دوسرے کو اچھی طرح سے پہچان لیں گے ۔

اور یہ کہ وہاں ایک دوسرے کے برے اعمال کو دیکھیں گے او رایک دوسرے کے باطن کو پہچان لیں گے اور یہ خود ان کے لئے ایک بہت بڑی رسوائی ہے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے کہ اس دن ان سب پر ثابت ہو جائے گا کہ وہ افرادن جنہوں نے روز قیامت اور لقائے الہٰی کی تکذیب کی ، انھوں نے نقصان اٹھایا“۔ او روہ اپنے وجود کا سارا سرمایہ ہاتھ سے گنوابیٹھے اور ا سے کوئی نتیجہ بھی حاصل نہ کیا( قَدْ خَسِرَ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللهِ ) ۔

اور یہ لوگ اس تکذیب ، انکار ،گناہ پر اصرار ہت دھرمی کی وجہ سے ہدایت کی اہلیت نہیں رکھتے تھے( وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ ) ۔کیونکہ ان کا دل سیاہ او ران کی روح تاریک تھی ۔

اگلی آیت میں کفار کی تہدید کے لئے پیغمبر کو تسلی دینے کی خاطر فرمایا گیا ہے : جن سزاوں کا ہم نے ان سے وعدہ کیا ہے اگر ان کا کچھ حصہ ہم تجھے دکھائیں اور اپنی زندگی کے دوران اگر تو ان کے عذاب اور سزا کو دیکھ لے او ریا پھر اس سے قبل کہ وہ ایسے کام سے دو چار ہو ں ہم تجھے دنیا سے لے جائیں ، بہر حال ان کی باز گشت ہماری طرف ہے اور خدا ان کے انجام دیئے ہو ئے اعمال پر شاہد ہے( وَإِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِی نَعِدُهُمْ اٴَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَإِلَیْنَا مَرْجِعُهم ثُمَّ اللهُ شَهِیدٌ عَلَی مَا یَفْعَلُونَ ) ۔

زیر نظر آیت میں بشمول پیغمبر اسلام تمام انبیاء کے بارے میں او رتمام امتوں کے بارے میں کہ جن میں رسول اللہ کے زمانے کی امت بھی شامل ہے ، ایک کلی قانون بیان کیا گیا ہے ، ارشاد ہوتا ہے : ہدایت کے لئے خدا کی طرف سے ایک رسول اور فرستادہ الٰہی ہوتاہے( وَلِکُلِّ اٴُمَّةٍ رَسُولٌ ) ۔

جب ان کی طرف رسول آیا اور اس نے ابلاغ رسول کیا اور کچھ لوگوں نے حق کو قبول کرلیا اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرلیا اور ایک ایک گروہ مخالفت اور تکذیب کے لئے اٹھ کھڑا ہوا تو خدا ان کے درمیان اپنے عدل سے فیصلہ کرتا ہے او رکسی پر ظلم نہیں ہوگا “ مومن اور نیک لوگ باقی رہ جاتے ہیں اور برے اور مخالفت یا تو نابود ہو جاتے ہیں او ریا پھر شکست سے دو چار ہو تے ہیں( فَإِذَا جَاءَ رَسُولُهُمْ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) ۔

اسی طرح پیغمبر اسلام اور ان کے معاصر امت کے ساتھ ہوا کہ ان کی دعوت کے مخالف یا تو جنگوں میں ختم ہوگئے اور یا آخر کار شکست کھا کر معاشر ے سے مسترد ہو گئے اور مومنین نے امور کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے لی ۔

لہٰذا جس فیصلے کی طرف آیت میں اشارہ ہوا ہے یہ وہی تکوینی قضاوت اور فیصلہ ہے جو اسی دنیا میں جاری ہوا ہے ۔ باقی رہا یہ جو بعض نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ یہ روز قیامت خدا کے فیصلے کی طرف اشارہ ہے ، خلافِ ظاہر ہے ۔

آیات ۴۸،۴۹،۵۰،۵۱،۵۲

۴۸ ۔( وَیَقُولُونَ مَتَی هَذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

۴۹ ۔( قُلْ لاَاٴَمْلِکُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلاَنَفْعًا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ لِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ إِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ فَلاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ ) ۔

۵۰ ۔( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُهُ بَیَاتًا اٴَوْ نهَارًا مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ) ۔

۵۱ ۔( اٴَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ اٴَالْآنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ) ۔

۵۲ ۔( ثُمَّ قِیلَ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِهَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُونَ ) ۔

ترجمہ

۴۸ ۔ وہ کتے ہیں یہ جو ( سزا کا ) وعدہ ہے ، اگر سچ کہتے ہو تو کب اس پر عمل ہو گا ۔

۴۹ ۔ کہہ دو میں اپنے لئے نقصان او رنفع کا مالک نہیں ہو ں ( چہ جائیکہ تمہارے لئے ) مگروہ جو خدا چاہے ۔ ہر قوم و ملت کےلئے ایک اجل او رانجام ہے جب ان کی اجل آجاتی ہے ( اور ان کی سزا یا موت کا حکم صادر ہو جائے ) تو نہ ایک ھگڑی تاخیر کرتے ہیں اور نہ ہی ایک گھڑی آگے ہوتے ہیں ۔

۵۰ ۔ کہہ دو کہ اگر اس کی سز رات کے وقت یا دن کو تمہیں آپہنچے ( تو کیا تم اسے دور کرسکتے ہو) پس مجرمین کس بناء پر جلدی کرتے ہیں ۔

۵۱ ۔ یا یہ کہ جب واقع ہو گی تو ایمان لے آوگے ( لیکن جا لو کہ تمہیں کہا جائے گا کہ)اب جب کہ پہلے اس کے لئے جلدی کرتے تھے ( اس وقت کیا فائدہ ) ۔

۵۲ ۔ پھر جنہوں نے ظلم کیا ہے ان سے کہاجائے گا:ابدی عذاب چکھو، جو کچھ تم انجام دیتے تھے کیا تمہیں اس کے علاوہ کی سزادی جائے گی ۔

خدائی سزا میرے ہاتھ میں نہیں ہے

منکرین حق کو عذاب اور سزا کی تہدیدوں کے بعد اب ان آیات میں پہلے تو ان کی تکذیب اور تمسخر بھری بات بیان کی گئی ہے : وہ کہتے ہیں کہ عذاب کے بارے میں تم جو وعدہ کرتے ہواگر سچ ہوتو وہ کب ہے ؟( وَیَقُولُونَ مَتَی هَذَا الْوَعْدُ إِنْ کُنْتُمْ صَادِقِینَ ) ۔

یقینا یہ باتیں پیغمبر اسلام کے زمانے کے مشرکین کرتے تھے ۔ کیونکہ بعد والی آیات جس میں پیغمبر اکرم کا جواب موجود ہے اس امر پر شاہد ہے ۔

بہر حال اس طرح سے وہ پیغمبر کی تہدوں کے بارے میں اپنی اعتنائی کا مظاہرہ کرنا چاہتے تھے اور جو افراد ان تہدیدوں کی وجہ سے متزلزل ہو گئے تھے ان کے قوت قلب اور سکون ِ فکر کا سامان کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے جواب میں خدا تعالیٰ پیغمبر اکرم کو حکم دیتا ہے کہ انھیں چند طریقوں سے جواب دیں ۔

پہلا یہ کہ فرماتا ہے :ان سے کہہ دو کہ ان کام کا وقت اور وعدہ گاہ میرے اختیار میں نہیں ہے ۔ میں اپنے لئے نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں ، چہ جائیکہ تمہارے لئے ، مگر جو کچھ خدا چاہے ۔ اور جو وہ ارادہ کرے( قُلْ لاَاٴَمْلِکُ لِنَفْسِی ضَرًّا وَلاَنَفْعًا إِلاَّ مَا شَاءَ اللهُ ) ۔میں تو صرف اس کا بھیجا ہوا اور پیغمبرہوں نزول عذاب کے لئے وعدہ گاہ کا وقت کا تعین اسی کے ہاتھ میں ہے ۔ جب میں اپنے بارے میں نفع اور نقصان کا مالک نہیں ہوں تو تمہارے بارے میں بدرجہ اولیٰ نہیں ہو ں گا ۔

یہاں در حقیقت توحید افعالی کی طرف اشارہ ہے ۔ یعنی اس عالم میں تمام چیزوں کی باز گشت خدا کی طرف ہے ۔ ہر کام اسی کی طرف سے ہے کہ جو اپنی حکمت سے مومنین کو کامیابی عطا کرتا ہے او روہی ہے جو منحرفین کو اپنے عدل سے سزا دیتا ہے ْ

واضح ہے کہ یہ اس بات کے منافی نہیں کہ اللہ نے ہمیں قدرت و طاقت دی ہے کہ جس کے ذریعے ہم اپنے بعض منافع اور نقصا نات کے مالک ہیں اور اپنی سر نوشت کے بارے میں ہم ارادہ کرسکتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں یہ آیت مالکیت بالذات کی نفی کرتی ہے نہ کہ مالکیت بالغیر کی اور ”الا ماشاء الله “ اس کے لئے واضح قرینہ ہے ۔

یہاں سے معلوم ہوجاتا ہے کہ اس آیت سے جو بعض متعصب افراد مثلاً مولف المنار نے پیغمبر سے توسل کے جواز کی نفی کا مطلب لیا ہے وہ بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ اگر توسل سے مراد یہ ہو کہ ہم پیغمبر اکرم کو بالذات صاحبِ قدرت اور مالک ِ سود و زیاں سمجھیں تو مسلم ہے کہ یہ شرک ہے او رکوئی مسلمان یہ عقیدہ نہیں رکھ سکتا او راگر یہ مالکیت خد اکی طرف سے ہو اور ”الاّ ماشاء الله “ کے مفہوم کے مطابق ہو تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور یہ عین ایمان و توحید ہے ۔ مذکورہ مولف نے اس نکتے سے غفلت کی وجہ سے طویل بحثوں سے اپنا او راپنے قارئیں کا وقت جائع کیا ہے ۔ افسوس سے کہنا پڑ تا ہے کہ اس کی تفسیر تمام تر خصوصیات کے باوجود اس میں اشتباہات بہت زیادہ ہیں ۔ جن کا سر چشمہ تعصب کو سمجھا جا سکتا ہے ۔

دوسرا یہ کہ فرماتا ہے : ہر قوم او رجمیعت کے لئے ایک معین زمانہ او راجل ہے جن ان کی اجل آجاتی ہے تو وہ اس میں نہ ایک گھڑی تاخیر کرسکتے ہیں نہ گھڑی بھر کے لئے آگے بڑھ سکتے ہیں( لِکُلِّ اٴُمَّةٍ اٴَجَلٌ إِذَا جَاءَ اٴَجَلُهُمْ فَلاَیَسْتَاٴْخِرُونَ سَاعَةً وَلاَیَسْتَقْدِمُونَ ) ۔

دوسرے لفظوں میں کوئی قو م وم ملت جب راہ حق سے منحرف ہو تو اپنے اعمال کے نتیجے میں خدا کی سزا سے محفوظ نہیں رہ سکتی ۔ جب لوگ ایسے راستوں پر چل پڑیں اور آفرینش کے قطعی قوانین سے انحراف کریں تو اپنے مسائل کھو بیٹھتے ہیں اور آخر کار قعر مذلت میں جا گر تے ہیں تاریخ ِ عالم ایسے لوگوں کی مثالوں میں بھری پڑی ہے ۔

مشرکین جو عذاب الہٰی کے آنے میں تعجیل کا تقاضا کرتے تھے ، درحقیقت انھیں خبر داری کرتا ہے کہ وہ بلا وجہ جلدی نہ کریں ، جب وقت آئے گاتو اس عذاب میں لمحہ بھر کی تاخیر و تقدیم نہیں ہو گی ۔

ضمنی طور پر متوجہ رہنا چاہئیے کہ لفظ ” ساعت “ کبھی لحظہ اور لمحہ کے لئے آتا ہے او رکبھی زمانے کی تھوڑی سی مدت کے لئے آتا ہے اگر چہ آج کل رات دن کے چوبیسویں حصہ ( ایک گھنٹہ ) کو ” ساعت“ کہتے ہیں ۔

تیسرا جواب اگلی آیت میں پیش کرتے ہوئے کہتا ہے : ان سے کہہ دو کہ اگر رات یا دن کے وقت پر وردگار کا عذاب تم پر آجائے تو یہ کوئی غیر ممکن بات نہیں ہے ، کیا تم اس ناگہانی عذاب کو دو کرسکتے ہو ۔( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُهُ بَیَاتًا اٴَوْ نهَارًا ) ۔

ان حالات میں مجرم اور گنہ گار آکر کیوں جلدی کرتے ہیں( مَاذَا یَسْتَعْجِلُ مِنْهُ الْمُجْرِمُونَ ) ۔(۱)

بعض نے یہ احتمال پیش کیا ہے کہ ”ماذا یستعجل “ جزائے شرط ہے ، بہت بعید ہے ۔ ( غر کیجئے گا ) ۔

دوسرے لفظوں میں ان جسور مجرموں کو انزولِ عذاب کا یقین ہے تو کم از کم اس کا احتمال تو انھیں ہے ہی کہ اچانک عذاب ان کے پیچھے آجائے ۔ ان کے پاس اس کے لئے کیا بندو سبت ، ضمانت اور دلیل ہے کہ پیغمبر کی تہدید یں بالکل وقوعپذیر نہیں ہوں گی۔ عقل مند انسان کو ایسے احتمال ِ ضرر کی صورت میں بھی کچھ نہ کچھ احتیاط کرنا چاہیئے اور اس سر ڈرنا چاہئیے ۔

ایسا ہی مفہوم دیگر تعبیرات کی صورت میں قرآن کی سدوسری آیات میں میں موجودہے : مثلاً:افامنهم ان یخسف بکم جانب البر او یرسل علیکم حاصباً ثم لا تجدو ا لکم وکیلاً ۔

کیاتم اس سے مامون ہو کہ خدا تمہیں زمین کے کسی حصہ میں اندر سمادے ( یعنی تم زمین میں دھنس جاو) یا تم پر آسمان سے سنگریزے برسائے اور پھر تم اپنے لئے کوئی نگہبان نہ پاو۔ ( بنی اسرائیل ۶۸)

یہ وہی چیز ہے جسے علم کلام اور علم اصول میں ”لزوم دفع ضرر محتمل “ کہاجاتا ہے ۔

چوتھا جواب اس سے بعد والی آیت میں دیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے : اگر تم گمان کرتے ہو کہ نزول عذاب کے وقت ایمان لاوگے تمہارا ایمان قبول کر لیا جائے گا تو یہ خیال باطل ہے( اٴَثُمَّ إِذَا مَا وَقَعَ آمَنْتُمْ بِهِ ) ۔ کیونکہ نزول عذاب کے بعد توبہ کے در وازے تم پر بند ہو جائےں گے اور پھر ایمان لانے کا ذرہ بھر اثر بھی نہ ہوگا ۔ بلکہ ” تم سے کہا جائے گا کہ اب ایمان لارہے ہو جب کہ پہلے تم تمسخر اور تکذیب کرتے ہوئے عذاب کے لئے تعجیل کرتے تھے( اٴَالْآنَ وَقَدْ کُنْتُمْ بِهِ تَسْتَعْجِلُونَ ) ۔

یہ ان کی دنیاوی سزا ہے ” پھر روز قیامت جن لوگوں نے ظلم کیا ہے ، ان سے کہا جائے گا ابدی اور ہمیشہ کا عذاب چکھو“( ثُمَّ قِیلَ لِلَّذِینَ ظَلَمُوا ذُوقُوا عَذَابَ الْخُلْدِ ) ۔

کیا جو کچھ تم نے انجام دیا ہے تمہیں اس کے سوا سزا دی جائے گی( هَلْ تُجْزَوْنَ إِلاَّ بِمَا کُنْتُمْ تَکْسِبُونَ ) ۔

یہ در حقیقت تمہارے ہی اعمال ہیں جو تمہیں دامن گیر ہوئے ہیں ، وہی تمہارے سامنے مجسم ہو ئے ہیں اور وہی تمہیں ہمیشہ تکلیف و آزار پہنچاتے ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ قرآنی آیت سے غلط استدلال :

جیساکہ سورہ اعراف کی آیہ ۳۴ کے ذیل میں ہم نے کہا ہے کہ ہمارے زمانے کے بعض دین ساز لوگوں نے ”لکل امة اجل “ جیسی آیات سے جو قرآن میں دو مرتبہ آئی ہے ، پیغمبر اسلام کی خاتمیت کی نفی کے لئے استدلال کیا ہے اور یہ نتیجہ نکلا ہے کہ ہر دین و مذہب آخر کار ختم ہو جاتا ہے او راپنی جگہ دوسرے کو دے دیتا ہے حالانکہ لفظ ” امت “ گروہ اور جماعت کے معنی میں ہے نہ کہ مذہب کے معنی میں خصوصاً ایک مذہب کے پیرو کار ۔

ان آیات کا مقصد یہ ہے کہ قانون ِ موت و حیات افراد سے مخصوص نہیں ہے بلکہ ملتوں اور گروہوں پر بھی یہ قانون حاوی ہے ، اور جب وہ ظلم و گناہ اختیار کریں گے تو ختم ہو جائیں گے ، خصوصاً زیر بحث آیت سے پہلے اور بعد کی آیات کی طرف توجہ سے یہ حقیقت واضح پر ثابت ہ وجاتی ہے کہ یہاں کسی مذہب کے منسوخ ہونے سے متعلق گفتگو نہیں ہے بلکہ نزول عذاب اور ایک گروہ و ملت کے نابود اور ختم ہو جانے کے بارے میں ہے کیونکہ قبل و بعد کی دونوں آیات دنیاوی عذاب اور سزا کے بارے میں بات کررہی ہیں ۔

۲ ۔ دنیا میں مسلمانوں کے لئے سزا :

مندرجہ بالا آیات کی طرف توجہ کرنے سے یہ سوال پید اہوتا ہے کہ کیا مسلمانوں کے معاشرے بھی اس دنیامیں سزا و عذاب میں گرفتار ہو ں گے ؟

اس سوال کا جواب ہاں میں ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہ امت دنیا وی عذاب سے مستثنیٰ ہے بلکہ یہ قانون تمام امتوں اور ملتوں کے بارے میں ہے اور جو ہم نے بعض آیا ِ قرآن ( مثلاً انفال ۳۳) میں پڑھا ہے کہ خدا اس امت کو سز انہیں دے گا وہ دو میں سے ایک شرط کے ساتھ مشروط ہے پہلی پیغمبر اکرم کا امت میں موجود ہونا اور دوسری استغفار اور گناہ سے توبہ کرنا ۔ لہٰذا یہ فرمان غیرمشروط ہے ۔

۳ ۔ نزول اعذاب کے وقت توبہ قبول نہیں ہوتی :

مندرجہ باآیات دو بارہ اس حقیقت کو تاکید کرتی ہیں کہ نزول ِ عذاب کے وقت توبہ کے دروازے بند ہو جاتے ہیں او ر عذاب کے وقت کی پشیمانی بے فائدہ ہے ۔ اس کی دلیل بھی واضح ہے اور وہ یہ کہ اس حالت میں توبہ اجباری اور اضطراری صورت میں ہوگی اور ایسی توبہ کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہوتی ۔

____________________

۱-جو کچھ ہم نے سطور بالا میں کہا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ زیر نظر قضیہ شرطیہ پر مشتمل ہے جس کی شرط ذکر ہوئی ہے اور جزا مقدر ہے ، او ر” ماذا یستعجل منہ المجرمون “ ایک مستقل جملہ ہے ۔ آیت کی تقدیر اسی طرح ہے : (اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ اٴَتَاکُمْ عَذَابُهُ بَیَاتًا اٴَوْ نهَارًا کنتم تقدرون علی دفعه او تعدونه امرا محالا فاذا کان الامر کذٰلک ماذا یستعجل منه المجرمون ) ۔ یعنی کیا تم سمجھتے ہو کہ اگر تم رات یا دن کے وقت عذاب آجائے تو تم اسے روکنے کی قدرت رکھتے ہو یا اسے امر محال سمجھتے ہو۔ جب معاملہ ایسا ہے تو پھر مجرمین آخر کس طرح اس کی تعجیل چاہتے ہیں ۔

آیات ۵۳،۵۴،۵۵،۵۶

۵۳ ۔( وَیَسْتَنْبِئُونَکَ اٴَحَقّ هُوَ قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّهُ لَحَقٌّ وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔

۵۴ ۔( وَلَوْ اٴَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاٴَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ وَاٴَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاٴَوْا الْعَذَابَ وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) ۔

۵۵ ۔( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ اٴَلاَإِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

۵۶ ۔( هُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۳ ۔ تجھ سے پوچھتے ہیں کیا وہ ( خدائی سزا والا وعدہ ) حق ہے ؟ کہہ دو خدا کی قسم یقینا حق ہے اور تم اس سے بچ نہیں سکتے ۔

۵۴ ۔ اور جس نے ظلم کیا ہے اگر وہ تمام کچھ جو روئے پر ہے اس کے اختیار میں ہو تو وہ ( سب کچھ عذاب کے خوف سے ) اپنی نجات کے لئے دے گا اور جب عذاب کے دیکھے گا تو (پشیمان ہو گا لیکن ) اپنی پشیمانی کو چھپائے گا ( کہ کہیں زیادہ سوار نہ ہو ) اور ان کے درمیان عدل سے فیصلہ ہو گا او ران پر ظلم و ستم نہیں ہوگا ۔

۵۵ ۔ آگاہ ہو جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کا ہے ۔ آگاہ رہو کہ خد اکا وعدہ حق ہے ۔

۵۶ ۔ وہی ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اور اسی کی طرف لوٹ کر جاو گے ۔

خدائی سزا میں شک نہ کرو

گزشتہ آیا ت میں مجرمیں کے لئے اس جہان میں اور آرت میں سزا اور عذاب کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر نظر آیات میں یہی بحث جاری ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے : مجرمین اور مشر کین تجھ سے تعجب سے سوال کرتے ہیں کہ کیا اس جہان میں اور دوسرے جہان میں خدائی سزا والا وعدہ حق ہے

( وَیَسْتَنْبِئُونَکَ اٴَحَقّ هُوَ ) ۔

یاد رہے کہ یہاں ” حق “ ” باطل “ کے مقابلے میں نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ کیا یہ سزا او رکیفر کردار واقعیت رکھتا ہے اور متحقق ہوگا ؟ کیونکہ ”حق “ اور تحقیق“دونوں ایک ہی مادہ سے ہیں البتہ اگر یہاں وہ ” حق “مراد لیا جائے جو ” باطل “ کے مقابلے میں ہے تو پھر اس کا ایک وسیع معنی ہوگا اور یہ ہر موجود کی حقیقت پر محیط ہو گا اور اس نقطہ مقابل معدوم اور باطل ہو گا ۔

خدا تعالیٰ اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ اس سوال کا جواب میں بڑی تاکید سے کہہ دو : مجھے اپنے پروردگار کی قسم ! یہ حقیقت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے( قُلْ إِی وَرَبِّی إِنَّهُ لَحَقٌّ ) ۔

اور اگر تمہارا خیال یہ ہے کہ تم خدائی سزا کی گرفت سے بھاگ سکتے ہوئے تو تم نے بہت بڑا اشتباہ کیا ہے کیونکہ ” تم ہر گز اس سے نہیں بچ سکتے اور نہ ہی اپنی طاقت سے تم اسے عاجز سکتے ہو۔( وَمَا اٴَنْتُمْ بِمُعْجِزِینَ ) ۔

درحقیقت یہ جملہ مندرجہ بالا جملے کے ساتھ مقتضی اور مانع کے بیان کے قبیل میں سے ہے ۔ پہلے جملے میں فرمایا گیا ہے ، کہ مجرمین کی سزا ایک حقیقت ہے اور دوسرے جمل؛ے میں مزید کہا گیا ہے کہ کوئی طاقت اس سے بچا نہیں سکتی ۔ سورہ طور کی آیت ۷ ۔ ۸ ،میں بالکل اسی طرح ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے :۔( ان عذاب ربک لواقع ماله من دافع ) ۔

یقیناس تیرے رب ک اعذاب واقع ہو کر رہے گا او رکوئی اس سے بچا نے والا نہیں ہے

زیر بحث آیت میں جو تاکید یں دکھائی دیتی ہیں وہ قابل توجہ ہیں ۔ ایک طرف قسم کھا کر بات کی گئی ہے دوسری ”انّ“ اور لام تاکید ہے اور تیسری طرف ”وماانتم بمعجزین“کا جملہ یہ سب اس امر پر تاکید ہیں کہ سنگین جرائم کے ارتکاب پر خدائی سزا حتمی ہے ۔

بعد والی آیت میں اس سزا کے عظیم ہونے خصوصاً قیامت میں اس کے بڑے ہونے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : عذابِ الٰہی اس طرح سے وحشت ناک اور ہول انگیز ہے کہ ظالموں میں سے ہ رایک زمین کی تمام تر ثروت کا مالک ہوتو وہ تیار ہو گا کہ سب کچھ دے تاکہ اس عذاب اور سزا سے رہائی پالے

( وَلَوْ اٴَنَّ لِکُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاٴَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهِ ) ۔(۱)

در حقیقت وہ عذاب الٰہی سے بچنے کے لئے بڑی بڑی رشوت دینے کو تیار ہیں لیکن ان سے کچھ بھی قبول نہیں کیا جائے گا اور سوئی کی نوک کے برابر بھی ان کی سزا میں کمی نہیں کی جائے گی ۔

خصوصاً ان میں سے بعض سزائیں تو معنوی پہلو رکھتی ہیں اور وہ یہ کہ وہ عذاب الہٰی کے مشاہدے پر پشیمان ہوتے ہیں لیکن دوسرے مجرموں یا اپنے پیروکاروں کے سامنے زیادہ رسوائی سے بچنے کے لئے اظہار ندامت نہیں کرتے( وَاٴَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاٴَوْا الْعَذَابَ ) ۔

اس کے بعد تاکیداً کہا گیا ہے کہ ان تمام چیزوں کے باوجود ان کے درمیان عمل سے فیصلہ ہو گا اور ان کے بارے میں ظلم نہیں ہو گا( وَقُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَهُمْ لاَیُظْلَمُونَ ) ۔

یہ جملہ قرآنی روش کے مطابق تمام مقامات پر سزا میں عدالت کے سلسلے میں تاکید ہے کیونکہ گزشتہ آیت میں سزا کے بارے میں موجود تاکیدوں سے غافل لوگ یہ وہم کرتے کہ یہاں انتقام جوئی کا جذبہ کار فرما ہے لہٰذا قرآن پہلے کہتا ہے کہ ان کے درمیان عدل سے فیصلہ ہو گا اور پھر تاکید کے طور پر کہتا ہے کہ ان پر ظلم نہیں ہوگا ۔

اس کے بعد اس بناء پر کہ کہیں لوگ اللہ کے اس وعدہ اور و عید کو مذاق نہ سمجھیں اور یہ خیال نہ کریں کہ خدا اسے انجام دینے سے قاصر ہے ، قرآن مزید کہتا ہے : آگاہ رہوجو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے وہ خدا کامال ہے اور اس کی مالکیت و حکومت تمام جہان ِ ہستی پر محیط ہے اور کوئی اس کی سلطنت سر باہر نہیں جاسکتا( اٴَلاَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔

نیز اگاہ رہو کہ مجرمین کی سزاکے بارے میں خد اکا وعدہ حق ہے اگر چہ بہت سے لوگ جن کے نفس پر جہالت نے اپنا منحوس سایہ ڈال دیا ہے اس حقیقت کو نہیں جانتے( اٴَلاَإِنَّ وَعْدَ اللهِ حَقٌّ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَعْلَمُونَ ) ۔

زیر نظر آخری آیت بھی اسی مسئلہ حیات کے بارے میں مزید تاکید ہے ، ارشاد ہوتا ہے : خدا ہے کہ جو زندہ کرتا ہے اور وہی ہے جو مارتا ہے( هُوَ یُحْیِ وَیُمِیتُ ) ۔لہٰذا وہ بدنوں کو مارنے اور انھیں قیامت کے عدالت کے لئے زندہ کرنے کی بھی قدرت رکھتا ہے ۔

اور آکر کا تم سب کے سب اس کی طرف پلٹ جاو گے( وَإِلَیْهِ تُرْجَعُونَ ) ۔اور وہاں پھر اپنے اعمال کی جزا اور سزا پاوگے ۔

دو اہم نکات

ایک سوال اور اس کا جواب :

زیربحث آیا ت کے بارے میں ایک سوال کیا جاتا ہے کہ خدائی سزا کے واقعی ہونے کے بارے میں مشرکین کا سوال تمسخر تھا یا حقیقی سوال تھا بعض کہتے ہیں کہ حقیقی سوال شک کی نشانی ہے اور یہ مشرکین کی کیفیت نہ تھی ۔

لیکن بہت سے مشرکین شک اور تردد کی حالت میں تھے اور ان میں ایک گروہ پیغمبر اکرم کی حقانیت کا علم رکھنے کے باوجود ہٹ دھرمی تعصب اور عناد وغیرہ کی وجہ سے مخالفت پر اٹھ کھڑا ہوا تھا ۔ اس صورت ِ حال کی طرف توجہ کرتے ہوئے واضح ہو جاتا ہے کہ ان کی طرف سے حقیقی سوال کیا جانا کوئی بعید نہیں ہے ۔

۲ ۔ ”ندامت “ کا مفہوم :

”ندامت “ کا مطلب ہے ایسے کام پر پشیمانی جس کے غیر مطلوب آثار واضح ہو چکے ہوں ، چاہے انسان اس کا مداوا کرسکے یا نہ کرسکے ۔ مجرمین کی قیامت مین پشمانی دوسری طرح کی ہے اور اسے پوشیدہ رکھنا اس بناء پر ہے کہ اسے واضح کرنا زیادہ رسوائی کو موجب ہے ۔

____________________

۱-در حقیقت مندر جہ بالا جملے میں یہ عبارت مقدر ہے :من حول القیامة و العذاب ۔