تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28292
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28292 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۵۷،۵۸

۵۷ ۔( یَااٴَیّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُمْ وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُورِ وَهُدًی وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

۵۸ ۔( قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا هُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ ) ۔

ترجمہ

۵۷ ۔ اے لوگو! تمہارے پر وردگار کی طرف سے تمہارے لئے نصیحت اور موعظہ آیا ہے او رجو کچھ سنیوں میں ہے اس کے لئے باعث شفاہے او رمومنین کے لئے ہدایت اور رحمت ہے ۔

۵۸ ۔ کہہ دو کہ خدا کے فضل اور رحمت سے خوش رہو، کیونکہ جو کچھ انھوں نے جمع کرکھا ہے وہ اس سے بہتر ہے ۔

قرآن خدا کی عظیم رحمت ہے

بعض گزشتہ آیات میں قرآ ن کے بارے میں کچھ مباحث آئی ہیں اور ان میں مشرکین کی مخالفت کا کچھ ذکر آیا ہے ۔ زیر بحث آیات میں بھی اسی مناسبت سے قرآن کے بارے میں گفتگو آئی ہے ۔

پہلے ایک ہمہ گیر عالمی پیغام کے حوالے سے تمام انسانوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : اے لوگوں تمہارے لئے تمہارے پر ور دگار کی طرف سے وعظ و نصیحت آئی ہے( یَااٴَیّهَا النَّاسُ قَدْ جَائَتْکُمْ مَوْعِظَةٌ مِنْ رَبِّکُم ) ۔اور ایسا کلام کہ جو تمہارے دلوں کی شفاء کا سبب ہے( وَشِفَاءٌ لِمَا فِی الصُّدُور ) ۔ ایسی چیز کہ جو ہدایت اور راہنمائی کا باعث ہے( وَهُدًی ) اور مومنین کے لئے رحمت ہے( وَرَحْمَةٌ لِلْمُؤْمِنِینَ ) ۔

اس آیت میں قرآن کی چار صفات بیان ہو ئی ہیں ، انھیں سمجھنے کے لئے پہلے ان کے لغوی معانی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا ” وعظ“ ( اور ”موعظہ“) جیسا کہ مفردات میں آیا ہے ، ایسی نہین کو کہتے ہیں جسمیں تہدید کی آمیزش ہو لیکن ظاہراً ”موعظہ “ کا معنی اس سے وسیع تر ہے جیسا کہ مشہور عرب دانشر خلیل کا قول مفردات ہی میں لکھا ہے کہ ” موعظہ “ نیکیوں کا تذکراور یادہانی ہے جس میں رقت ِ قلب بھی موجود ہو۔

در حقیقت ہرقسم کی پند و نصیحت جو مخالطب پراثر کرے ، اسے برائیوں سے ڈرائے یا اس کے دل کے نیکیوں کی طرف متوجہ کرے اسے ”وعظ “ اور ”موعظہ“کہتے ہیں البتہ اس بات کا یہ مطلب نہیں کہ ہرموعظہ کا اثر ہو نا چاہئیے بلکہ مطلب یہ ہے کہ وہ آمادہ دلوں پر اس طرح سے اثر کرے ۔

دلوں کی بیماری سے شفاے کا باعث یا قرآن کی تعبیر میں اس سے شفاء کا سبب جو سینوں میں ہے اس سے مراد معنوی اور روحانی آلودگیوں سے شفاء ہے ۔ مثلاً بخل، کینہ ، حسد، بزدلی ،شرک اورنفاق وغیرہ سے شفاءکہ جو سب کی سب روحانی بیمار یاں ہیں ۔

”ہدایت“ سے مرادہے مقصود کی طرف راستہ مل جانا۔ یعنی انسان کاتکل ، ارتقاء او رپیش رفت تمام مثبت پہلووں کے سلسلے میں ۔

نیز” رحمت“ سے مراد خدا کی بخشی ہو ئی وہ مادی اور معنوی نعمتیں ہیں جو اہل انسانوں کو میسر آتی ہیں جیساکہ مفردات میں ہے کہ ” رحمت “ کی جب خدا کی طرف نسبت دی جائے تو اس کا معنی نعمت بخشنا ہے اور جب انسانوں کی طرف اس کی نسبت ہو تو اس کا مطلب ہے رقت طلبی اور مہربانی ۔

قرآن کے سائے میں انسان کی تربیت اور اس کے تکامل و ارتقاء کو مندرجہ بالا آیات میں در حقیقت چار مراحل میں بیان کیا گیا ہے ۔

دوسرا مرحلہ طرح طرح کے اخلاقی رذائل سے روح ِ پاک انسانی کو پاک کرنا ہے ۔

تیسرامرحلہ ہدایت کا ہے جو پاکسازی کے بعد انجام پاتا ہے اور

چوتھامرحلہ وہ ہے کہ انسان اس لائق ہو جاتا ہے کہ پروردگار کی رحمت و نعمت اس کے شامل حال ہو۔

ان میں سے مرحلہ دوسرے کے بعد آتا ہے اور جاذبِ نظر یہ ہے کہ یہ سب مراحل قرآن کے زیرسایہ انجام پاتے ہیں ۔

قرآن ہے کہ جو انسانوں کو پند و نصیحت کرتا ہے ، قرآن ہے کہ جو گناہ کے زنگ او ربری صفت کو اس کے دل سے دھوتا ہے ۔ قرآن ہے کہ جو انسانوں کے دلوں میں نور ہدایت کی روشنی کرتا ہے ، اور قرآن ہی ہے جو فر اور معاشرے پر خدائی نعمتوں کے نزول کا باعث ہے ۔

نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام نے اپنی جامع گفتگو میں نہایت خوبصورت انداز میں اس حقیقت کی وضاحت فرمائی ہے ، آپعليه‌السلام فرماتے ہیں :

فاستشفعوه من ادوائکم و استعینوا به علی لاوائکم فان فیه شفاء من اکبر الداء وهو الکفر و النفاق و الغی و ضلال ۔

قرآن سے اپنی بیماریوں کی شفاء طلب کرو اور اپنی مشکلات کے حل کے لئے اس سے مدد طلب کرو کیونکہ قرآن میں سب بڑی بیماری یعنی کفر، نفاق گمراہی کی شفاء ہے ۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۱۷۶) ۔

یہ چیز بتاتی ہے کہ قرآن ایک ایسا نسخہ ہے جو فرد اور معاشرے کی مختلف اخلاقی اور اجتماعی بیماریوں کے علاج کے لئے کار گر ہے اور یہ وہ حقیقت ہے ، جس مسلمان بھلا چکے ہیں اور بجائے اس کے کہ وہ اس شفاء بخش دواسے فائدہ اٹھائیں ، اپنا علاج دوسرے مکاتب میں تلاش کرتے پھرتے ہیں اور انھوں نے اس عظیم آسمانی کتاب کو فقط پڑھنے کے لئے رکھ چھوڑا ہے اور یہ نہیں کہ وہ اس میں غور و فکر کریں اور اس پر عمل کریں ۔

اگلی آیت میں بحث کی تکمیل کے لئے اور اس عظیم خدائی نعمت یعنی قرآن مجید کہ جو ہر نعمت سے برتر ہے کے بارے میں تاکید کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اے پیغ،بر! کہہ دو کہ لوگ پر وردگار کے فضل اور اس کی بے پایاں رحمت پر اور اس عظیم آسمانی کتاب کے نزول پر خوش ہ وجائیں کہ جو تمام نعمتوں کی جامع ہے ۔ نہ کہ دولت کے انباروں پر ، بڑے مقام و منصب پر اور قوم و قبیلہ کی کثرت پر( قُلْ بِفَضْلِ اللهِ وَبِرَحْمَتِهِ فَبِذَلِکَ فَلْیَفْرَحُوا ) ۔ کیونکہ یہ سرمایہ ان تمام چیزوں سے بہتر اور بالا ترہے کہ جو انھوں نے جمع کر رکھی ہے ۔ ان میں سے کوئی بھی اس سے موازنہ کے قابل نہیں ہے( هُوَ خَیْرٌ مِمَّا یَجْمَعُونَ ) ۔

دو قابل توجہ نکات

۱ ۔ کیا دل احساسات کا مر کز ہے ؟

زیر بحث پہلی آیت اور اس قسم کی بعض دیگر قرآنی آیات کا ظاہری مفہوم یہ ہے کہ اخلاقی بیماریوں کا مرکز دل ہے ۔ اس بات سے ہوسکتا ہے کہ ابتداء میں یہ اعتراض پیدا ہوتا کہ ہم جانتے ہیں کہ تمام اخلاقی اوصاف او ر فکری و جذباتی مسائل کا تعلق روح ِ انسانی سے ہے اور دل تو صرف ایک خود کا رپمپ کے طور پر خو ن کی نقل و انتقال اور بدن کے سالموں کی آبیاری اور انھیں غذا پہنچانے کا کام کرتا ہے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ حق یہی ہے کہ دل صرف جسم انسانی کو منظم رکھنے پر مامور ہے اور نفسیاتی مسائل کا تعلق روح سے ہے لیکن ایک دقیق نکتہ موجود ہے کہ جس کی طرف توجہ کرنے سے قرآن کی اس تعبیر کا مقصد واضح ہو جائے گا اور وہ یہ کہ جسم انسانی میں مرکز موجود ہیں کہ جن میں سے ہر ایک انسان کے نفسانی اعمال کا مظہر ہے یعنی ان دومراکز میں سے ہر ایک نفسانی فعل اور انفعال پر فوراً ردّ عمل کا مظاہرہ کرتا ہے ۔ ان میں سے ایک دماغ پر ہوتا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دماغ روح کو فکری مسائل میں مدد دینے کے لئے ایک آلہ ہے ۔اسی لئے غور و فکر کرتے وقت خون دماغ میں تیزی سے حرکت کرتا ہے ، دماغ کے لئے سالمے ( Molecules )زیادہ فعل و انفعال کرتے ہیں ، زیادہ غذا جذب کرتے ہیں اور زیادہ لہریں بھیجتے ہیں ۔ مگر جب معاملہ جذبات سے متعلق ہو، مثلاً عشق و محبت ، عزم غصہ ، کینہ ، حسد اور در گزر وغیرہ تو انسان کے دل میں عجیب طرح کی فعالیت پیدا ہو جاتی ہے ، بعض اوقات دل کی دھڑکن بڑی تیزی ہوجاتی ہے اور کبھی حرکت قلب اتینی کمزور پڑجاتی ہے کہ گویا اب دل کام کرنا چھوڑ دے گا ، گاہے ہم محسوس کرتے ہیں کہ ہمارا دل پھٹنے لگا ہے ۔ یہ سب کچھ اس نزدیکی تعلق کی بناء پر ہے جو دل اور ان نفسیاتی معاملات کے مابین ہے ۔

اسی بناء پر قرآن مجید ایمان کی نسبت دل کی طرف دیتا ہے ۔( ولما یدخل الایمان فی قلوبکم )

اور تمہارے دلوں میں ایمان ہر گز داخل نہ ہوگا ۔ ( حجرات ۱۴)

اسی طرح جہالت ، ہٹ دھرمی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنے کو دل کے اندھے پن سے تعبیر کیا گیا ہے :

( ولٰکن تعمی القلوب التی فی الصدور )

اور لیکن وہ دل جو سینوں میں ہیں ، اندھے ہیں ۔ (حج ۴۶)

یہ بات کہے بغیر نہیں نہ رہ جائے کہ انسان ہمیشہ ، کینہ یا حسد وغیرہ کے وقت ایک خاص اثر اپنے دل میں محسوس کرتا ہے یعنی ان فسیاتی مسائل کے شعلے تپش جسم انسانی میں سب سے پہلے دل میں محسوس ہوتی ہے ۔

البتہ ان تمام باتوں کے علاوہ پہلے بھی اشارہ کیا جا چکاہے کہ ” قلب “ کے معانی میں سے ایک معنی انسانی عقل اور روح کے بھی ہے ۔ لہٰذا اس کا معنی اسی عضو کے ساتھ مخصوص نہیں جو سینے کے اندر ہے اور یہ امر آیات قلب کے لئے خود ایک تفسیر ہے ۔ لیکن تمام آیات ِ قلب کے لئے نہیں بلکہ بعض آیات میں تصریح کی گئی ہے کہ وہ دل جو سینوں میں ہیں ۔ ( غور کیجئے گا )

۲ ۔ ”فضل “ اور ” رحمت “ میں کیا فرق ہے ؟ :

زیر بحث دوسری آیت میں ”فضل“ اور ” رحمت “ کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان دونوں میں کیا فرق ہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین میں بہت اختلاف ہے ۔

الف: بعض نے فضل الہٰی کو ظاہری نعمتوں کی طر ف اور رحمت کو باطنی نعمتوں کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایک نعمت ِ مادی کی طرف اشارہ ہے اور دوسرا لفظ نعمت ِ معنوی کی طرف ( اور بار ہا قرآنی آیات میں ” و ابتغوا من فضلہ“ یا ” لتبتغوا من فضلہ “ تحصیل روزی اور مادی نعمتوں کے لئے آیا ہے ) ۔

ب: کچھ مفسرین نے کہا ہے کہ فضل الہٰی نعمت کا آغاز ہے اور اس کی رحمت نعمت کا دوام ہے ( البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے فضل نعمت بخشنے کے معنی میں ہے اور اس کے بعد رحمت کے ذکر میں کسی چیز کا اضافہ ہو نا چاہئیے یہ تفسیر قابل فہم ہے ) ۔

یہ جو متعدد روایات میں ہے کہ کہ فضل الہٰی سے مراد جو پیغمبر اور نعمت نبوت ہے اور رحمت پر وردگار سے مراد وجدِ علی اور نعمت ولایت ہے ، شاید اسی تفسیر کی طرف اشارہ ہو کیونکہ رسول اللہ سر آغاز اسلام ہیں ، علیعليه‌السلام کی بقاء اور حیات ِ دوام کا سبب ہیں (ایک علت محدثہ اور ایجاد کنندہ ہیں اور دوسرے علت مبقیہ اور بقائے دینے والے ہیں ) ۔ ۱

ج: یہ احتمال بھی ذکر کیا گیا ہے کہ ” فضل “ پر وردگار کی اس نعمت کی طرف اشارہ ہے جو دوست و دشمن کے لئے عام ہے اور گزشتہ آیت میں ”للموٴمنین ‘ ‘ کی طرف توجہ کرتے ہوئے ” رحمت“ اس کی مخصوص رحمت کی طرف اشارہ ہے جو باایمان افراد سے مختص ہے ۔

د: ایک اور تفسیر جو ان دونوں الفاظ کے لئے ذکر ہوئی ہے یہ ہے کہ پر وردگار کا فضل ایمان کی طرف اشارہ ہے اور رحمت قرآن کی طرف کہ جس کے بارے میں اس سے پہلے کی آیت میں گفتگو ہو ئی ہے ۔

ان میں سے زیادہ تر معانی آپس میں تضاد نہیں رکھتے اور ہوسکتا ہے یہ سب مفاہیم فضل اور رحمت کے ایک جامع معنی میں جمع ہوں ۔

____________________

۱۔ ان روایات سے آگاہی کے لئے تفسیر نور الثقلین ج۲ ص ۳۰۷ اور ص ۳۰۸ کی طرف رجوع کریں ۔

آیات ۵۹،۶۰،۶۱

۵۹ ۔( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ مَا اٴَنْزَلَ اللهُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا قُلْ اٴَاللهُ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُونَ ) ۔

۶۰ ۔( وَمَا ظَنُّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَشْکُرُونَ ) ۔

۶۱ ۔( وَمَا تَکُونُ فِی شَاٴْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیهِ وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفِی السَّمَاءِ وَلاَاٴَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرَ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ ) ۔

ترجمہ

۵۹ ۔ کہہ دو: کیاوہ رزق کو خدائے نے تم پر نازل کیا ہے تم نے اسے دیکھا ہے کہ اس میں سے کچھ تم نے حلال قرار دے دیا ہے اور کچھ کو حرام ۔ کہہ دو : کیا تمہیں خدا نے اجازت دی ہے یا خدا پر افتراء باندھتے ہو( اور اپنی طرف سے کسی کو حلال قرار دیتے ہو او رکسی کو حرام ) ۔

۶۰ ۔ جو خد اپر افتراء باندھتے ہیں وہ روز قیامت ( کی سزا ) کے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ خدا سب لوگوں کےلئے فضل (اوربخشش) کرنے والا ہے لیکن ان میں سے اکثر شکر گزاری نہیں کرتے ۔

۶۱ ۔ تم کسی حالت ( اور فکر ) میں نہیں ہوتے، نہ قرآن کے کسی حصے کی تلاوت کرتے ہواور نہ ہی تم کوئی عمل انجام دیتے ہو مگر یہ کہ جب تم ان میں وارد ہوتے ہو ہم تم پر نگران ہوتے ہیں اور زمین و آسمان میں کوئی چیز تیرے پر وردگار سے مخفی نہیں رہتی ذرہ برابر اور نہ اس سے کم و بیش ۔ مگر یہ کہ وہ سب کچھ واضح کتاب ( اور علم خدا کی لوحِ محفوظ ) میں ثبت ہے ۔

خد اہر جگہ ناظر ہے

گزشتہ آیات میں اور قرآن میں خدا کے وعظ و نصیحت اور ہدایت و رحمت کے بارے میں گفتگو تھی ۔ زیر بحث آیات میں اسی مناسبت سے مشرکین کے گھڑے ہوئے قوانین اور جھوٹے احکام کے بارے میں بات کی گئی ہے کیونکہ جو شخص خدا پر ایمان رکھتا ہے اور جانتا ہے کہ تمام نعمات اور رزق اس کی طرف سے ہے اسے چاہئیے کہ وہ یہ حقیقت بھی قبول کرے کہ ان نعمات کے بارے میں حکم دینا اور ان کے بارے میں حلال و حرام کا تعین خدا کے ہاتھ میں ہے اور اس کے اذن اور حکم کے بغیر اس کام میں دخل اندازی صحیح نہیں ہے ۔

زیر نظر پہلی آیت میں روئے سخن پیغمبر اکرم کی طرف ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان سے کہہ دو کہ خد انے جو رزق تمہارے لئے نازل کیا ہے اس میں سے کیوں کچھ کو حرام قرار دیتے ہو او رکچھ کو حلال( قُلْ اٴَرَاٴَیْتُمْ مَا اٴَنْزَلَ اللهُ لَکُمْ مِنْ رِزْقٍ فَجَعَلْتُمْ مِنْهُ حَرَامًا وَحَلَالًا ) ۔اپنی بے ہودہ رسوم کے مطابق کچھ چوپایوں کو سائبہ ، کچھ کو بحیرہ اور کچھ کو وصیلہ(۱)

کہتے ہو اسی طرح تم نے اپنی کھیتی باڑی کے بعض محصولات کو حرام قرار دے رکھا ہے اور ان کو ان پا ک نعمتوں سے محروم رکھا ہے علاوہ ازیں یہ امر تم سے مربوط نہیں ہے کہ کس چیز کو حلال ہونا چاہئیے او رکس چیز کو حرام ۔ یہ امر تو صرف ان کے پر وردگار اور خالق کے اختیار میں ہے ۔

کہہ دو : کیا خدا نے تمہیں اجازر دی ہے کہ ایسے قوانین وضع کرو یاخدا پرافتراء باندھتے ہو( قُلْ اٴَاللهُ اٴَذِنَ لَکُمْ اٴَمْ عَلَی اللهِ تَفْتَرُونَ ) ۔یعنی اس کام کی دوہی صورتیں ہوسکتی ہیں کوئی تیسری نہیں یا تو ایسا پر وردگارکی اجازتسے ہو اور یا پھر یہ تہمت اور افتراء ہے اور چونکہ پہلی بات نہیں ہے لہٰذا تہمت اور افتراء کے سوا کوئی اور چیز نہیں ہو سکتی۔

اب جبکہ یہ مسلم ہو گیا ہے کہوہ اپنے ان خود ساختہ اور بے ہودہ احاکم کے ذریعے نعمات الہٰی سے محروم ہو ئے ہیں اور پر وردگار کی ذات ِ مقدس پر افتراء باندھا ہے لہٰذا مزید فرمایا گیا ہے جو خڈا پر جھوٹ ناھتے ہیں وہ روز قیامت کی سزا کے بارے میں کیا سوچتے ہیں کیا انھوں اس دردناک سزا سے نجات کا کوئی بند و بست کیا ہے( وَمَا ظَنُّ الَّذِینَ یَفْتَرُونَ عَلَی اللهِ الْکَذِبَ یَوْمَ الْقِیَامَة ) ۔لیکن ” لوگوں پر خدا فضل اور رحمت وسیع ہے “ لہٰذا وہ انھیں ایسے برے اعمال پر سزا نہیں دیتا( إِنَّ اللهَ لَذُو فَضْلٍ عَلَی النَّاسِ ) ۔مگر وہ لوگ بجائے اس کے کہ اس خدائی مہلت سے فائدہ اٹھائیں ، عبرت حاصل کریں اس کا شکر بجالائیں اور خدا کی طرف پلٹ آئیں ۔

” ان میں سے اکثر غافل ہیں “ اور وہ اس عظیم نعمت کا شکر بجا لاتے( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَهُمْ لاَیَشْکُرُونَ ) ۔

اس آیت کی تفسری میں یہ احتمال بھی ہے کہ ان تمام نعمات اور رزق کا حلال ہو نا ( سوائے چند نقصان دہ اور ناپاک مستثنیٰ چیزوں کے ) خو د خدا کی ایک عظیم نعمت ہے اور بہت سے لو گ اس عظیم نعمت کی شکر گزاری کی بجائے نا شکری کرتے ہیں او ربے ہودہ احکام اور چیزوں کو بلا دلیل ممنوع قرار دے کر اپنے آپ کو ان سے محروم رکھتے ہیں ۔

اس بناء پر کہیں یہ خیال پیدا نہ ہو کہ خداکی یہ مہلت اس لےے کہ وہ ان کے کرتوتوں کو نہیں جانتا، زیر بحث آکری آیت میں یہ حقیقت نہایت عمدہ عبارت سے بیان کی گئی ہے کہ وہ آسمان و زمین کی وسعت میں تمام ذرات موجودات او ربندوں کے اعمال کی جزئیات سے باخبر ہے ، ارشاد ہو تا ہے : تو کسی حالت اورکسی اہم کام میں نہیں ہوتا اور تو کسی آیت کی تلاوت نہیں کرتا، اور وہ کوئی عمل انجام نہیں دیتے مگر یہ کہ ہم اس پر شاہد او رناظر ہوتے ہیں جب بھی وہ کام کرنے لگتے ہو( وَمَا تَکُونُ فِی شَاٴْنٍ وَمَا تَتْلُوا مِنْهُ مِنْ قُرْآنٍ وَلاَتَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلاَّ کُنَّا عَلَیْکُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِیضُونَ فِیهِ ) ۔(۳)

”شہود“ ” شاہد “ کی جمع ہے یہ اصل میں حضور اور موجودگی کے معنی میں ہے ۔ جس میں آنکھ یا قلب و فکر کا مشاہدہ شامل ہو۔

جمع کی تعبیر اس طرف اشارہ ہے کہ نہ صرف خدا بلکہ فرشتے جو اس کے فرمانبردار ہیں اور انسانوں کے اعمال کے نگران ہیں ان کے سب کاموں سے باخبر ہیں اور ان کے شاہد و ناظر ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا ہے کہ خدا کے بارے میں جمع کا صیغہ جب کہ اس کی ذات پ اک ہر لحاظ سے یکتا و بیگانہ ہے ، اس کے مقام کی عظمت کی طرف اشارہ ہے اور ہمیشہ ا سکے مامور ا س کے فر مان کے تابع ہیں اور اس کے امر کی طاعت کے لئے تیار ہیں ۔

اور درحقیقت گفتگو صرف اس کے بارے میں نہیں بلکہ اس کے تمام مطیع مامورین کے بارے میں بھی ہے ۔

اس کے بعدخداکی تمام چیزوں سے آگاہی کے مسئلے پر زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : زمین اور آسمان میں چھوٹی سے چھوٹی چیز یہاں تک کہ کوئی ذرّہ بے مقدار بھی تیرے پر وردگار کے علم کی نظر سے مخفی نہیں رہتا نہ اس سے کوئی چھوٹی چیز ہے او رنہ اس سے بڑی ۔ ،گر یہ کہ سب کی سب لوحِ محفوظ اور علم خدا کی واضح کتاب میں ثبت ہے( وَمَا یَعْزُبُ عَنْ رَبِّکَ مِنْ مِثْقَالِ ذَرَّةٍ فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفِی السَّمَاءِ وَلاَاٴَصْغَرَ مِنْ ذَلِکَ وَلاَاٴَکْبَرَ إِلاَّ فِی کِتَابٍ مُبِینٍ ) ۔

”یعذب “ اور ”عذوب“ کے مادہ سے در اصل گھر اور گھر والوں سے چوپایوں کے لئے چراگاہ تلاش کرنے کے لئے جدائی کے معنی میں ہے بعد ازاں یہ لفظ مطلقاً غیبت اور جدائی کے معنی میں استعمال ہونے لگا ۔

”ذرة“ نہایت چھوٹے سے جسم کے معنی میں ہے ۔ اسی لئے چوھٹی چھوٹی چونٹیوں کو بھی ”ذرہ “ کہا جاتا ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے جلد سوم ص ۲۸۹ کی طرف مراجعت کیجئے ۔

”کتاب مبین “ پر وردگارکے وسیع علم کی طرف اشارہ ہے کہ جسے بعض اوقات ” لوح محفوظ“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ۔

( اس بارے میں جلد پنجم ص ۱۸۵ ، اردو ترجمہ پر بھی بات کی گئی ہے ) ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ قانون بنانے کا حق صرف خدا کو ہے :

مندرجہ بالاآیات کی مختصر سی عبارتوں کے ذریعہ یہ حقیقت ثابت ہوتی ہے کہ قانون بنانے کا حق خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور جو شخص اس کے فرمان اور اجازت کے بغیر ایسا کرے تو وہ خدا پر تہمت اور افتراء کا ارتکاب کرتا ہے کیونکہ رزق اور تمام عالم ہستی کی نعمات اس کی جانب سے نازل ہوتی ہیں اور در حقیقت ان سب کا حقیقی مالک وہی ہے ۔ اسی لئے اسی کو حق پہنچتا ہے کہ کسی کو جائز یا ناجائز قرار دے ۔ البتہ اس سلسلے میں اس کے احکام خود بندوں کے مفاد میں ہیں اور انہی کے تکامل و ارتقاء کے لئے ہیں اور اسے ان کی ذرہ بھر بھی ضرورت نہیں ہے ۔ لیکن بہر حال صاحبِ اختیار اور قانون گزار وہی ہے مگر یہ کہ جتنا مناسب سمجھے کسی پیغمبر کو یا کسی حد تک کوئی اجازت دے دے ۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبر اسلام بعض امور کو واجب یا حرام قرار دیتے تھے کہ جنہیں روایات کی زبان میں ” فرض النبی “ کہا جاتا ہے البتہ یہ سب کے سب خدا کے حکم کے تابع ہیں اور ایسے اختیارات ہیں جو پیغمبر اکرم کو ودیعت کئے گئے ہیں ۔

” اللہ اذب لکم “ اس پر دلیل ہے کہ ہوسکتا ہے کہ خدا اس قسم کی اجازت کسی کو دے ۔

یہ مسئلہ ” ولایت تشریعی “ کی بحث سے مربوط ہے جو انشاء اللہ تعالیٰ کسی دوسرے مقام پر ہم تشریح کے ساتھ بیان کریں گے ۔

۲ ۔ رزق کا نزول :

مندرجہ بالا آیات میں ارزاق کے لئے نزول کی تعبیر استعمال ہوئی ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ صرف بارش کا پانی آسمانی سے اترتا ہے ۔ یہ یا تو اس بناء پر ہے کہ بارش کے یہ حیات بخش قطرے تمام تر رزق کی اصل بنیاد ہیں اور یا اس بناء پر ہے کہ مرادنزول مقامی ہے کہ جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے ۔ یہ تعبیر روز مرہ کی گفتگو میں نظر آتی ہے کہ اگر ایک بزرگ شخص کی طرف سے کوئی حکم یا احسان کسی چھوٹے شخص کے لئے ہو تو کہا جا سکتا ہے کہ یہ ” اوپر “ سے معین کیا گیا ہے یا اوپر سے ہمیں ملا ہے ۔

۳ ۔ علماء علم اصول کا ایک استدلال :

علما ء علم اصول نے ”اٴ لله اذن لکم ام علی الله تفترون “سے ” اصل عدم حجیت ظن“ کو ثابت کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ تعبیر نشاندہی کرتی ہے کہ احکام الہٰی میں سے کوئی یقین کے بغیر ثابت نہیں کیا جاسکتا ورنہ خدا پر افتراء ہو گا کہ جو حرام ہے ۔

البتہ اس استدلال پر ہمارے کچھ اعتراجات ہیں کہ جو ہم نے علم اصول کے مباحث میں ذکر کئے ہیں ۔

۴ ۔ ایک درس :

مندرجہ بالاآیات میں سے ہمیں ایک اور درس بھی ملتا ہے اور وہ یہ ہے کہ قانون خدا کے مقابلے میں قانون بنا نا جاہلیت کا طریقہ ہے ۔

ایسے لوگ اپنے آپ کو حق دار سمجھتے تھے کہ اپنے نارسا اور ناپختہ افکار سے احکام تراش لیں ۔ ایک حقیقی خدا پرست ہر گز ایسا نہیں ہوسکتا ۔

یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو ایمان ب اخدا کا دم بھر تے ہیں اس کے باوجود دوسروں کے غیر اسلامی قوانین کی طرف دست سوال دراز کرتے ہیں یا جو قوانین ِ اسلام کو ناقابل عمل قرار دے کر خود قانون وضع کرتے ہیں وہ بھی جاہلیت کے طریقوں کے پیروکار ہیں ۔

حقیقی اسلام قابل تقسیم اور تجزیہ پذیر نہیں ہے ۔ جب ہم کہتے ہیں کہ ہم مسلمان ہیں تو اس کے قوانین کو قبول کرنا چاہئیے اور یہ جو بعض کہتے ہیں کہ اس کے سب قوانین قابل اجراء ہیں ، ان کی سوچ بے بنیاد اور یہ خیال ایک قسم کی مگرب زدگی اور خود نمائی پر مبنی ہے ۔

البتہ اسلام اپنی جامعیت کے لحاظ سے بعض مسائل میں اصول بیان کرکے ہمارے ہاتھ کھلے رکھتا ہے تاکہ ہر زمانے کے تقاضوں کے مطابق شوریٰ کے اصولوں کی روشنی میں ہم تنظیم کریں اور انھیں جاری کریں ۔

۵ ۔ علم الہٰی کے تین پہلو :

محل ِ بحث آخری آیت میں علم پر وردگار کی وسعت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے تین نکتوں کا ذکر کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا ہے کہ تو کسی کام اور حالت میں نہیں ہے اور کوئی آیت تلاوت نہیں کرتا اور تم لوگ کوئی عمل انجام نہیں دیتے ہو مگر یہ کہ ہم تم پر شاہد اور ناظر ہیں ۔

یہ تین تعبیریں اصل میں انسانوں کے افکار ، گفتار اور کردار کی طرف اشارہ ہیں ،یعنی جس طرح خدا ہمارے اعمال دیکھتا ہے ،۔ ہماری باتوں کو بھی سنتا ہے اور ہمارے افکار اور نیتوں سے بھی آگاہ ہے اور ان میں سے کوئی چیز بھی علم پر وردگار کے دائرے سے خارج نہیں ہے ۔

اس میں شک نہیں کہ نیت اور روح کی کیفیت کا مرحلہ پہلے آتا ہے ، گفتگو اس کے بعد ہوتی ہے اور کردار کا مرحلہ آخر میں آتا ہے ۔ اسی لئے آیت میں بی اسی ترتیب کو ملحوظ رکھا گیا ہے ۔

یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کا ذکر مفرد کی شکل میں پیغمبر سے خطاب کی صورت میں ہے اور تیسرے مرحلے کاذکر جمع کی صورت میں ہے اور تمام مسلمانوں سے خطاب ہے ، جیسا کہ خدا کی طرف سے آیات ِ قرآن لے کر انھیں لوگوں کے سامنے تلاوت کرنا بی آنحضرت سے مربوط ہے ۔ لیکن ان پر وگراموں پر عمل کرنا ساری ملت سے مربوط ہے اور کوئی شخص اس سے مستثنیٰ نہیں ہے ۔

۶ ۔ ہماری ہر کیفیت کی نگرانی ہورہی ہے :

زیر نظر آخری آیت میں تمام مسلمانوں کے لئے ایک عظیم درس موجود ہے کہ جو انھیں راہ حق پر ڈال سکتا ہے اور انحرافات سے روک سکتا ہے یہ ایک ایسا درس ہے کہ جس کی ط رف توجہ کرنے سے صالح اور پاکیزہ معاشرہ تشکیل پا سکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمیں یہ حقیقت نظر میں رکھنا چاہئیے کہ ہم جو بھی قدم اٹھاتے ہیں ، جو بھی بات کرتے ہیں ، جو کچھ بھی سوچتے ہیں ، جس طرف بھی دیکھتے ہیں او رہم جس حالت اور کیفیت میں بھی ہوتے ہیں نہ صرف خدا کی پا ک ذات بلکہ اس کے فرشتے بھی ہمارے نگران ہوتے ہیں اور پوری توجہ سے ہمیں دیکھتے ہیں ۔ زمین و آسمان کے طول و عرض میں چھوٹی سے چھوٹی حرکت بھی خدا کی نگاہ سے پنہاں نہیں ہوسکتی ، نہ صرف پنہاں نہیں ہوتی بلکہ لوحِ محفوظ میں بھی ثبت ہوتی ہے اور اس میں تبدیلی ، اشتباہ یا غلطی نہیں ہوسکتی۔ نہ خدا کے علم بے پایاں کے صفحہ میں نہ مقرب فرشتوں اور بندوں کے اعمال لکھنے والوں کی سوچ میں اور نہ ہماری ڈائری اور ہمارے نامہ اعمال میں کہیں بھی تبدیلی ، اشتباہ یا غلطی نہیں ہو سکتی۔

بلاوجہ نہیں ہے کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :کان رسول الله اذا قرء هٰذه الاٰیة بکی بکاء شدیداً ۔

جب رسول اللہ اس آیت کی تلاوت کرتے تھے تو شدت سے گریہ کرتے تھے ۔ ( مجمع البیان جلد ۵ ص ۱۱۶ ، مذکورہ آیت کے ذیل میں )جب رسول اللہ اپنے خلوص و بندگی ، خدمت خلق او رعبادت ِ خالق کے باوجود علم خدا کے سامنے ترساں ہوتوہماری اور دوسروں کی حالت واضح ہے ۔

____________________

۱۔ ”بحیرہ “ اس جانور کو کہتے ہیں جس نے کئی مرتبہ بچہ جنا ہو ۔” سائبہ “ اس اونٹنی کو کہتے ہیں جس نے دس یا بارہ بچے دئیے ہوں اور ” وصیلہ “ اس گوسفند کو کہتے ہیں جس نے سات بچے دئیے ہو ں ( مزید وضاحت کے لئے جلد پنجم ص۹۷ کی طرف رجوع کریں ) ۔

۲-بعض مفسرین ضمیر ” منہ “ کو خدا کی طرف پلٹا تے ہیں یعنی جو آیات تو خدا کی طرف سے پڑھتا ہے ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ یہ ضمیر لفظ شان یا قرآن کی طرف لوٹتی ہے جیسا کہ بہت سے مفسرین نے کہا ہے یعنی وہ آیات جن کی کسی اہم کام کے بارے میں تو تلاوت کرتا ہے یا قرآن کی جو آیات تو تلاوت کرتا ہے ۔