تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28308
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28308 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۷۱،۷۲،۷۳

۷۱ ۔( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ إِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَقَامِی وَتَذْکِیرِی بِآیَاتِ اللهِ فَعَلَی اللهِ تَوَکَّلْتُ فَاٴَجْمِعُوا اٴَمْرَکُمْ وَشُرَکَائَکُمْ ثُمَّ لاَیَکُنْ اٴَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّةً ثُمَّ اقْضُوا إِلَیَّ وَلاَتُنْظِرُونِی ) ۔

۷۲ ۔( فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاٴَلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی اللهِ وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔

۷۳ ۔( فَکَذَّبُوهُ فَنَجَّیْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِی الْفُلْکِ وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِفَ وَاٴَغْرَقْنَا الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۱ ۔ان کے سامنے نوح کا قصہ پڑھو کہ جب اس نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! حیثیت اور میرا آیات ِ الہٰی کا یاد دلانا تم پر گراں ( اور قابل بر داشت ) ہے تو جو کچھ تم سے ہو سکے کرلو ) میں نے خدا پر توکل کیا ہے اپنی فکر اور اپنے معبودوں کی قوت کو مجتمع کولو اور کوئی چیز تم پر مخفی نہ ہو پھر میری زندگی کا خاتمہ کردو ( اور لمحہ بھر کے لئے ) مجھے مہلت نہ دو ( لیکن تم اس کی قدرت نہیں رکھتے ) ۔

۷۲ ۔ اور اگر تم میری دعوت قبولکرنے سے منہ موڑ تے ہو تو ( تم غلط کرتے ہو کیونکہ ) میں تم سے کوئی مزدوری نہیں چاہتا ۔ میرا اجر صرف خدا پر اور میرے ذمہ ہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں ( کہ جو خدا کے سامنے سر تسلیم خم کیے ہوئے ہیں ) ۔

۷۳ ۔ لیکن انھوں نے اس کی تکذیب کی اور ہم نے اسے اور اس کے ساتھ جو کشتی میں تھے انھیں نجات دی اور انھیں ( کافروں کی جگہ ) جا نشین قرار دیا او رجن لوگوں نے ہماری آیات کی تکذیب کی تھی انھیں غرق کردیا پس دیکھو کہ جوڈرائے گئے تھے ( لیکن انھوں نے اللہ کی طرف سے ڈرائے جانے کو اہمیت نہ دی ) ان کا کیا انجام ہوا ؟

حضرت نوحعليه‌السلام کے جہاد کا ایک پہلو

زیر نظر آیات سے تاریخ انبیاء اور گزشتہ اقوام کی سر گزشت کے ایک حصے کا آغاز ہوتا ہے ۔ مشرکوں اور مخالف گروہوں کی بیداری کے لئے خدا اپنے پیغمبر کو حکم دیتا ہے کہ مشرکین کے بارے میں جاری گفتگو کی تکمیل گزشتہ لوگوں کی عبرت انگیز تاریخ کے حوالے سے کریں ۔

پہلے حضرت نوحعليه‌السلام کی سر گزشت بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : ان کے سامنے نوح کی سر گزشت پڑھو، جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا : اے میری قوم ! تمہارے درمیان میرا توقف اور آیات ِ الٰہی کا یاد دلانا اگر تمہارے لئے گراں ہے اور ناقابل ِ برداشت ہے تو پھر جو کچھ تم سے ہو سکے کر گزر رو اور اس میں کوتا ہی نہ کرو

( وَاتْلُ عَلَیْهِمْ نَبَاٴَ نُوحٍ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ یَاقَوْمِ إِنْ کَانَ کَبُرَ عَلَیْکُمْ مَقَامِی وَتَذْکِیرِی بِآیَاتِ اللهِ ) ۔کیونکہ میں نے اللہ پر توکل کیا ہے “ لہٰذا اس کے غیر سے نہیں ڈرتا اور نہ میں کسی سے ہراساں ہو ں( فَعَلَی اللهِ تَوَکَّلْت ) ۔

اس کے بعد تاکیداً فرمایا گیا ہے : اب جب کہ ایسا ہے تو اپنی فکر مجتمع کرلو اور اپنے بتوں کو بھی دعوتِ عمل دو تاکہ وہ تمہارے ارادے میں تمہاری مدد کریں( فَاٴَجْمِعُوا اٴَمْرَکُمْ وَشُرَکَائَکُم ) ۔” اس طرح سے کہ کوئی چیز تم پر مخفی نہ رہے اور نہ تمہارے دل میں کوئی غم رہے “ بلکہ پوری وضاحت سے میرے بارے میں پختہ ارادہ کرلو( ثُمَّ لاَیَکُنْ اٴَمْرُکُمْ عَلَیْکُمْ غُمَّةً ) ۔

” غمة “ ” غم “ کے مادہ سے کسی چیز کے چھپانے کے معنی میں ہے ۔ یہ جو رنج و اندوہ اور حزن و ملال کو غم کہتے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ انسان کے دل کو چھپالیتا ہے ۔

اس کے بعد کہاگیا ہے : اگرتم سے ہو سکے تو ” اٹھ کھڑے ہو اور میری زندگی کا خاتمہ کر دو اور مجھے لمحہ بھر کی مہلت نہ دو“( ثُمَّ اقْضُوا إِلَیَّ وَلاَتُنْظِرُونِی ) ۔(۱)

حضرت نوحعليه‌السلام خدا کے عظیم رسول ہیں ان کے بہت تھوڑے سے ساتھی تھے اور دشمن نہایت سخت اور طاقت ور لیکن وہ پانے یقین کے ساتھ کہ جو اولو العزم پیغمبروں کا خاصہ ہے بڑی شجاعت اور پامردی سے دشمنوں کے مقابلے میں ڈٹ جاتے ہیں ۔ ان کی قوت و طاقت کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کے سازشوں ، افکار اور بتوں کے بارے میں اپنی بے اعتنائی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔ اس طرح ان کے افکار و نظر یات پر ایک شدید نفسیاتی ضرب لگاتے ہیں ۔

اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ یہ آیات مکہ میں نازل ہو ئیں اس زمانے میں کہ جب رسول اللہ بھی حضرت نوحعليه‌السلام جیسے حالات سے دو چار تھے اور مومنین اقلیت میں تھے ، قرآن چاہتا ہے کہ پیغمبر اکرم کو بھی یہی حکم دے کہ وہ دشمن کی طاقت کو اہمیت نہ دیں ، بلکہ یقین او رشجاعت و شہامت کا مظاہرہ کریں کیونکہ ان کی پناہ گاہ خدا ہے اور اس کی قدرت کے سامنے طاقت نہیں ٹھہر سکتی ۔

بعض مفسرین حضرت نوحعليه‌السلام کے اس قیام کو یا تاریخ انبیاء میں ایسے واقعات کو اعجاز کی ایک قسم قرار دیتے ہیں کیونکہ انھوں نے ظاہری وسائل نہ ہونے کے باوجود دشمنوں کو شکست کی دھمکی دی او رانجام کا ر اپنی فتح کی خبر دی اور یہ چیز معجزے کے سوا ممکن نہیں ۔

بہر حال یہ تمام اسلامی رہبروں کے لئے ایک درس ہے کہ وہ دشمنوں کی کثرت سے ہر گز ہراساں نہ ہوں بلکہ پر وردگار پر بھروسہ اور توکل کرتے ہوئے ، حتمی و قطعی فیصلے کے ساتھ جتنا زیادہ ہو سکے انھیں مقابلہ کی دعوت دیں او ران کی طاقت کی تحقیر و تذلیل کریں کیونکہ یہ اسلام کی پیروکاروں کی روحانی تقویت اور دشمنوں کی روحانی شکست کے لئے ایک اہم عامل ہے ۔

اگلی آیت میں حضرت نوحعليه‌السلام کی طرف سے اپنی حقانیت کے لئے اثبات کے لئے ایک اور بیان نقل ہواہے ارشاد ہوتا ہے :اگر تم میری دعوت سے رو گردانی کرو گے تو مجھے کوئی نقصان نہیں ہو گا کیونکہ میں نے تم سے کسی اجر یا مزدوری کا تو تقاضا نہیں کیا( فَإِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَمَا سَاٴَلْتُکُمْ مِنْ اٴَجْرٍ ) (۲)

کیونکہ میرا اجر اور جزا صرف خدا پر ہے “( إِنْ اٴَجْرِی إِلاَّ عَلَی اللهِ ) ۔

میں اس کام کے لئے کرتا ہوں اور اسی سے اجر و جزا چاہتا ہوں اور ” میں مامور ہوں کہ فقط فرمانِ خدا کے سامنے سر تسلیم خم کروں “( وَاٴُمِرْتُ اٴَنْ اٴَکُونَ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ) ۔

یہ جو حضرت نوحعليه‌السلام کہتے ہیں کہ میں تم سے کوئی اجرت نہیں چاہتا خدائی رہبروں کے لئے یہ ایک اور درس ہے کہ وہ اپنی دعوت اور تبلیغ میں لوگوں سے کسی قسم کی کوئی مادی اور معنوی جز کی توقع نہ رکھیں کیونکہ ایسی توقعات ایک قسم کی وابستگی پیدا کردیتی ہیں اور ان کی صریح تبلیغات اور آزادانہ کار کر دگی کی راہ میں دیوار بن جاتی ہیں لہٰذا فطرتا ً ان کی تبلیغات اور دعوت کا اثر کم ہو جائے گا ۔ ۔ اس بناء پر اسلام اور اس کی تبلیغ اور دعوت کے لئے صحیح راستہ بھی یہی ہے کہ مبلغین اسلام اپنی گزر بسر کرنے اور معاش کے لئے بیت المال کا سہارا لیں نہ کہ وہ لوگوں کے محتاج ہوں ۔

زیر بحث آخری آیت میں حضرت نوح کے دشمنوں کے انجام اور آپ پیش گوئی کی صداقت کی یوں بیان کیا گیا ہے : انھوں نے نوح کی تکذیب کی لیکن ہم نے اسے اور ان تمام افراد کو جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے نجات دی( فَکَذَّبُوهُ فَنَجَّیْنَاهُ وَمَنْ مَعَهُ فِی الْفُلْکِ ) ۔(۳)

” ہم نے یہ صرف انھیں نجات دی بلکہ ستم گر قوم کی جگہ جانشین بنایا “( وَجَعَلْنَاهُمْ خَلَائِف ) ۔اور جن لوگوں نے ہماری آیات کا انکار کیا تھا انھیں ہم نے غرق کردیا “( وَاٴَغْرَقْنَا الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِنَا ) ۔

آخر میں روئے سخں پیغمبر اکرم کی طرف کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : اب ان لوگوں کا انجام دیکھو جھنیں ڈرایا گیا تھا لیکن انھوں نے خدا ئی تنبیہوں کو نہ سمجھااس طرح ہم تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں ( تاکہ وہ کچھ نہ سمجھ سکیں ) ۔( فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَةُ الْمُنْذَرِینَ ) ۔

____________________

۱۔ ”کان ان کبر علیکم “ کی جزاء شرط کیاہے ؟ اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے اس کے لئے جس قدر احتمالات ذخر ہوئے ہیں ان میں سے دو زیادہ قرین عقل ہیں ۔ایک یہ کہ ”فاجمعوا امرکم “ جزائے شرط ہے اور ”فعلی الله توکلت “ شرط اور جزا کے درمیان جملہ معترضہ ہے ۔ دوسرا یہ کہ جزا محذوف ہے او ربعد والے جملے اس پر دلالت کرتے ہیں اور تقدیر اس طرح ہے :فافعلوا ما ترید ون فانی متوکل علی الله ۔ در حقیقت جملہ ”فعلی الله توکلت “ علت کے قبیل سے ہے جو معلول کی جانشین ہے اور بعد والے جملے میں ” شرکائکم “ بتوں کی طرف اشارہ ہے اور اس سے پہلے واو ہے وہ ” مع“ کے معنی میں ہے ( غور کیجئے گا ) ۔

۲۔ اس شرط کا جواب بھی محذوف ہے ۔فان تولیتم فلا تضرونی ۔ یا اس طرح ہے :فان تولیتم فانتم و شاٴنکم ۔

۳۔ ”فلک “ کشتی کے معنی میں یہ لفظ ” سفینہ “ سے مختلف ہے ۔ یہ فرق کہ ” سفینہ “ مفرد ہے اور اس کی جمع ” سفائن “ ہے ، جبکہ ” فلک “ مفرد اور جمع دونوں کے لئے بولا جاتا ہے ۔

آیت ۷۴

۷۴ ۔( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَی قَوْمِهِمْ فَجَائُوهُمْ بِالْبَیِّنَاتِ فَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ کَذَلِکَ نَطْبَعُ عَلَی قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۴ ۔ پھر ہم نے نوحعليه‌السلام کے بعد کچھ رسول ان کی قوم کی طرف بھیجے وہ واضح دلائل لے کے ان کے پاس گئے لیکن وہ اس چیز پر ایمان نہ لائے جس کی پہلے تکذیب کرچکے تھے ۔

حضرت نوحعليه‌السلام کے بعد آنے والے انبیاء

حضرت نوح کی سر گزشت کے بارے میں اجمالی گفتگو کے بعد ان کے بعد لوگوں کی ہدایت کے لئے آنے والے انبیاء کی طرف اشارہ کیا گیا ہے یہ ان انبیاء کا تذکرہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پہلے آئے مثلاًابراہیمعليه‌السلام ، ہودعليه‌السلام ، صالحعليه‌السلام ، لوطعليه‌السلام اور یو سفعليه‌السلام ۔ ارشاد ہو تا ہے : پھر نوح کے بعد ہم نے کچھ رسول ان کی قوم اور جمیعت کی طرف بھیجے( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِ رُسُلًا إِلَی قَوْمِهِمْ ) ۔

” وہ واضح ، روشن اور آشکار دلائل لے کر اپنی اپنی قوم کی طرف ائے “ اور نوح کی طرف ح ان کے پاس بھی منطق و اعجاز کے تربیت کنندہ ہتھیار اور پروگرام تھے( فَجَائُوهُمْ بِالْبَیِّنَات ) ۔

” لیکن وہ لوگ جو عناد اور ہٹ دھرمی کی راہ چل رہے تھے اور گزشتہ انبیاء کی تکذیب کے لئے بھی اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ انھوں نے ان انبیاء کی بھی تکذیب کی اور ان پر ایمان نہ لائے( فَمَا کَانُوا لِیُؤْمِنُوا بِمَا کَذَّبُوا بِهِ مِنْ قَبْلُ ) ۔

اور یہ اس بناء پر تھا کہ گناہ اور حق دشمنی کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردہ پڑا ہو اہے ” جی ہاں ہم اس طرح تجاوز کرنےوالوں کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں “( کَذَلِکَ نَطْبَعُ عَلَی قُلُوبِ الْمُعْتَدِینَ ) ۔

دوقابل توجہ نکات

۱ ۔ ہٹ دھرم گروہ :

( فما کانوا لیوٴمنوا بما کذبوا به من قبل ) “ یہ جملہ اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ امتوں میں کچھ ایسے گروہ بھی تھے جو کسی پیغمبر اور مصلح کی دعوت پر سر تسلیم خم نہیں کرتے تھے اور اسی طرح اپنی بات پر اڑے رہتے تھے انبیاء کی بار بار کی دعوت سے ان پر ذرہ بھی بھی اثر نہیں ہوتا تھا لہٰذا مذکورہ ایک ایسے گروہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس نے دو مختلف گروہوں کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ ایک گروہ حضرت نوحعليه‌السلام کے زمانے میں تھا اور ان کی دعوت کی تکذیب کرتا تھا جب کہ دوسرا گروہ اس کے بعد آیا جو انبیاء کی تکذیب میں پہلے گروہ کا پیرو کار تھا ۔ اس بناء پر جملے کا معنی اس طرح ہو گا : دوسری قوموں کے تجاوز کرنے والوں نے اس چیز پر ایمان لانے سے منہ پھیر لیا کہ جس سے پہلی قوموں نے رو گر دانی کی تھی ۔

البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت کی مخالفت کرنے والے طوفان کے دوران ختم ہو گئے تھے دوسرا احتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے بہر حال اس کا لازمہ یہ ہے کہ ہم جملے کی ضمیروں کے مرجع (کانوا،لیوٴمنوا ،اورکذبوا ، میں جمع کی واو ) میں تفکیک اور الگ الگ ہونے کے قائل ہوں ۔

۲ ۔ ”( کذٰلک نطبع علیٰ قلوب المعتدین ) “ جبر کی دلیل نہیں :

واضح ہے کہ یہ جملہ جبر کی دلیل نہیں ہے اور اس کی تفسیر خود اسی میں موجود ہے کیونکہ فرمایا گیا ہے کہ ہم تجاوز کرنے والوں کے دلوں پر مہر لگادیتے ہیں تاکہ وہ کسی چیز کا ادراک نہ کرسکیں ۔ یعنی پہلے وہ احکام الہٰی اور حق و حقیقت کے بارے میں پے در پے تجاوز اور زیادتیوں کا ارتکاب کرتے ہیں ۔ ان کی یہ زیادہ تیاں تدریجاً ان کے دلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان سے حق کی تشخیصکی قدرت چھین لیتی ہیں ان کا معاملہ یہاں تک پہنچ جاتا ہے کہ سر کشی ، نافرمانی اور گانہ ان کی عادت اور طبیعت ِ ثانیہ بن جاتا ہے چنانچہ اب وہ کسی حقیقت کے سامنے سر تسلیم خم نہیں کرتے ۔(۱)

____________________

۱ ۔اس مطلب کی تفصیل ہم جلد اول میں سورہ بقرہ کی آیت ۸ کے ذیل میں پیش کرچکے ہیں ۔

آیات ۷۵،۷۶،۷۷،۷۸

۷۵ ۔( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَی وَهَارُونَ إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآیَاتِنَا فَاسْتَکْبَرُوا وَکَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِینَ ) ۔

۷۶ ۔( فَلَمَّا جَائَهُمْ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ هَذَا لَسِحْرٌ مُبِینٌ ) ۔

۷۷ ۔( قَالَ مُوسَی اٴَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَکُمْ اٴَسِحْرٌ هَذَا وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ) ۔

۷ ۸۔( قَالُوا اٴَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ آبَائَنَا وَتَکُونَ لَکُمَا الْکِبْرِیَاءُ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۷۵ ۔ ان کے بعد ہم نے موسیٰ اور ہارون کو اپنی آیات دے کرفرعون اور اس کے آس پا س والوں کی طرف بھیجا لیکن انھوں نے تکبر کیا ( اور حق قبول نہ کیا کیونکہ ) وہ مجرم گروہ تھا۔

۷۶ ۔ اور جب ہماری طرف سے ان کے پاس حق آیا تو کہنے لگے یہ واضح جادو ہے ۔

۷۷ ۔( لیکن ) موسیٰ نے کہا کیا اس حق کو تم جادو شمار کرتے ہو جو تمہاری طرف آیاہے ؟ کیا یہ جادو ہے؟ حالانکہ جادو گر تو رست گار ( اور کامیاب ) نہیں ہوں گے ۔

۷۸ ۔ کہنے لگے کیا تو اس لئے آیا ہے کہ ہمیں اس سے پھیر دے جس پر ہمارے آباو اجداد تھے اور تو روئے زمین کی بزر گی ( اور حکومت حاصل کرلے ) ہم تم دونوں پر ایمان نہیں لائیں گے ۔

موسیٰعليه‌السلام اور ہارونعليه‌السلام کے جہاد کا ایک پہلو

گزشتہ انبیاء او ران کی امتوں کے واقعات کو زندہ نمونہ کے طور پر ذکر کیا گیا ہے ، اس سلسلے میں سب سے پہلے حضرت نوحعليه‌السلام کے بارے میں گفتگو کی گئی ہے پھر حضرت نوحعليه‌السلام کے بعد کے پیغمبروں کاذکر ہوا ہے ۔

اب زیر نظر آیات میں حضرت موسیٰعليه‌السلام اور حضرت ہارونعليه‌السلام کے بارے میں بات کی گئی ہے ۔ یہاں فرعون اور اس کے ساتھیوں سے ان کے مسلسل مبارزات اور جہاد کا کچھ ذکر کیا گیا ہے ۔

پہلی آیت میں ارشاد ہوتا ہے : گزشتہ انبیاء کے بعد ہم نے موسیٰ او رہارون کو فرعون اور اس کی جماعت کی طرف آیات و معجزات کے ساتھ بھیجا( ثُمَّ بَعَثْنَا مِنْ بَعْدِهِمْ مُوسَی وَهَارُونَ إِلَی فِرْعَوْنَ وَمَلَئِهِ بِآیَاتِنَا ) ۔(۱)

جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے ان زرق و برق اشراف کو ملا ء کہا جاتا ہے کہ جن کا ظاہر آنکھ کو پر کردے اور اجماع میں ہو ں تو نمایاں ہوں ۔ زیر بحث آیت میں ایسی دیگر آیات میں یہ لفظ حواریوں ، اطرافیوں او رمشیروں کے معنی میں آیا ہے ۔

یہ جو ہم دیکھتے ہیں کہ گفتگو صرف فرعونیوں کی طرف حضرت موسیٰعليه‌السلام کے مبعوث ہو نے کے بارے میں ہے جب کہ حضرت موسیٰ تمام فرعونیوں اور بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہوئے تھے تو ا س کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے کی بض بر سر اقتدار پارٹی او ران کے خاندان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اس لئے ضروی ہے کہ ہر اصطلاحی اور انقلابی پر گرام میں پہلے انھیں ہدف بنا یا جائے ۔ جیسا کہ سورہ توبہ کی آیہ ۱۲ میں بھی ہے:( فقاتلوا ائمة الکفر )

پس کفر کے حکمرانوں اور دالیوں سے جنگ کرو۔

لیکن فرعون اور فرعونیوں نے حضرت موسیٰعليه‌السلام کی دعوت سے رو گر دانی کی اور حق کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی بجائے اس سے تکبر کیا( فَاسْتَکْبَرُوا ) ۔

انھوں نے تکبر کی وجہ سے اور انکساری کی روح نہ ہونے کے باعث حضرت موسیٰ کی دعوت کے واضح حقائق کی پر واہ نہ کی ۔ اس طرح اس مجرم اور گنہ گار قوم نے اپنا جرم و گناہ جاری رکھا ۔( وَ کَانُوا قَوْمًا مُجْرِمِینَ ) ۔

اگلی آیت میں حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی سے فرعونیوں کے بعض مبارزات کے بارے میں گفتگو ہے پہلا مرحلہ یہ تھا کہ انھوں نے انکار ، تکذیب اور افتراء کا راستہ اختیار کیا ان کی نیت کو بڑا قرار دیا ۔بڑوں کے طریقے کو درہم بر ہم کرنے کا الزام دیا اور اجتماعی نظام میں خلل ڈالنے کی تہمت لگائی ۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے : جس وقت ہماری طرف سے حق ان کے پاس آیا ( تو باوجودیکہ انھوں نے اس کے چہرے سے اسے پہچان لیا ) کہنے لگے کہ یہ واضح جادو ہے

( فَلَمَّا جَائَهُمْ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوا إِنَّ هَذَا لَسِحْرٌ مُبِینٌ ) ۔

حضرت موسیٰ کی دعوت کی قوت ِ جاذبہ ایک طرف، آنکھوں میں سما جانے والے معجزات دوسری طرف روز افزون اور حیران کن اثر نفوذ تیسری طرف بنے کہ فرعونی فکر میں پڑ گئے ۔ انھیں اس سے بہتر کوئی بات نہ سوجھی کہ انھیں جادو گر کہیں اور ان کے کام کو جا دو قرار دیں اور یہ ایسی تہمت ہے جو پوری تاریخ انبیاء میں اور خصوصاً پیغمبر اسلام کے بارے میں نظر آتی ہے لیکن حضرت موسیٰعليه‌السلام نے اپنے دفاع میں دو لیلوں سے نقاب الٹ دئیے اور ان کے جھوٹ اور تہمت کو آشکار کردیا ۔

آپعليه‌السلام نے پہلے ان سے کہا کہ کیا تم حق کی طرف جادو کی نسبت دیتے ہو کیا یہ جادو ہے اور ا س کی جادو سے کوئی مشابہت ہے ؟( قَالَ مُوسَی اٴَتَقُولُونَ لِلْحَقِّ لَمَّا جَائَکُمْ اٴَسِحْرٌ هَذَا ) ۔

مندر جہ بالا جملے میں محذوف مقدر ہے کہ جو پورر کلام سے سمجھا جاتا ہے ، جو اصل میں اس طرح ہے :

( اتقولون للحق لما جاء کم سحر، اسحر هٰذا )

یعنی یہ درست ہے کہ سحر اور معجزہ دونوں ہی اثر رکھتے ہیں ۔ یہ حق اور باطل ممکن ہے دونوں لوگوں کو متاثر کریں لیکن جادو ک اچہرہ کہ جو ایک باطل چیز ہے ، معجزے سے کہ جو حق ہے بالکل جدا ہے ۔ انبیاء کے اثر کو جادو گروں کے اثر پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ۔ جادو گروں کے کام بے ہدف ، محدود اور بے وقعت ہوتے ہیں ۔ جب کہ انبیاء کے معجزات کے مقاصد روشن ، اصلاحی ، انقلابی اور تربیتی ہوتے ہیں علاوہ ازیں جادو گر بھی کامیاب نہیں ہوتے( وَلاَیُفْلِحُ السَّاحِرُونَ ) ۔

یہ تعبیر در اصل انبیاء کے کام کے جادو سے ممتاز اور جدا ہونے پر ایک دلیل ہے پہلی دلیل میں جادو اور معجزے کا فرق بیان کیا گیا ہے ان دونوں کے مختلف رخ کی طرف اشارہ ہے اور ان کے ہدف اور مقصد ک ااختلاف ثابت کیا گیا ہے لیکن یہاں جادو گر اور معجزہ لانے والے کے حالات و صفات کے اختلاف کے حوالے سے مطلب کے اثبات میں مدد لی گئی ہے ۔

جادو گر کا کام اور فن انحراف پیدا کرنے اور غافل کرنے کا پہلو رکھتا ہے ۔ جادو سے فائدہ اٹھانے والے افراد منحرف ، لوگوں کو غافل کرنے والے اور دھوکا باز ہوتے ہیں ۔ جبکہ پیغمبر حق طلب ، دلسوز ، پاک دل ، باہدف ، نیک ، پارسا اور مادی امور کی پرواہ نہ کرنے والے جواں مرد ہوتے ہیں ۔

جادو گر بھی رست گاری اور فلاح کا چہرہ نہیں دیکھتے وہ دولت و ثروت ، مقام اور منصب ذاتی مفادات کے سوا کسی چیز کے لئے کام نہیں کرتے ۔ جبکہ انبیاء کا ہدف و مقصد ہدایت ، خلق خدا کا مفاد اور انسانی معاشرے کے تمام معنوی اور مادی پہلو وں کی اصلاح ہوتا ہے ۔

پھر انھوں نے اپنی تہمتوں کی سیلاب کا رخ موسیٰ کی طرف کئے رکھا اور ان سے کھل کر کہنے لگے: کیا تو ہمارے آباوواجداد اوربزرگوں کے طور طریقے سے پھیر دینا چاہتا ہے( قَالُوا اٴَجِئْتَنَا لِتَلْفِتَنَا عَمَّا وَجَدْنَا عَلَیْهِ آبَائَنَا ) ۔

در حقیقت انھو ں نے بڑوں کے طور طریقے ، رسومات ، خیالی عظمت او ران کے افسانوی بتوں کا سہارا لیا تاکہ عوام کو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارونعليه‌السلام سے متنفر کرسکیں اور انھیں یقین دلائیں کہ یہ تمہارے معاشرےاور ملک کے مقدسات اور عظمتوں کو پامال کرنا اور ان سے کھیلنا چاہتے ہیں ۔

اس کے بعد انھو ں نے اپنی پہلی بات کو جاری رکھا اور کہا کہ خدا کے دین کے بارے میں تمہاری دعوت جھوٹ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ یہ تو سب اس سر زمین پر حکومت کرنے کے لئے جال اور خائنانہ سازشیں ہیں( وَتَکُونَ لَکُمَا الْکِبْرِیَاءُ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

درحقیقت چونکہ ان کی ہر کوشش لوگں پر ظالمانہ حکومت کے لئے تھی لہٰذا دوسروں کو بھی ایسا ہی خیال کرتے تھے ۔ وہ انبیاء کی مصلحانہ کو ششوں کو بھی یہی معنی پہناتے تھے اور کہتے تھے کہ ” تم جان لو کہ ہم تم دو افراد پرکبھی ایمان نہیں لائیں گے ۔ “ کیونکہ ہم تمہارے مقاصد سمجھ لیتے ہیں اور تمہارے تحزیبی پر گرام سے ہم آگاہ ہیں( وَمَا نَحْنُ لَکُمَا بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کے خلاف ان کی جنگ کا یہ پہلا مرحلہ ہے ۔

____________________

۱۔ ”آیات “ سے مراد وہی حضرت موسیٰعليه‌السلام کے متعدد معجزات جو ابتداء میں اپنے ساتھ لائے تھے ۔

آیات ۷۹،۸۰،۸۱،۸۲

۷۹ ۔( وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِی بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ) ۔

۸۰ ۔( فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَی اٴَلْقُوا مَا اٴَنْتُمْ مُلْقُونَ ) ۔

۸۱ ۔( فَلَمَّا اٴَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُهُ إِنَّ اللهَ لاَیُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

۸۲ ۔( وَیُحِقُّ اللهُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ) ۔

ترجمہ

۷۹ ۔ فرعون نے کہا :ہر گاہ جادو گر ( اور ساحر )کومیرے پاس لے آو۔

۸۰ ۔ جس وقت جادو گر آئے اور موسیٰ نے ان سے کہا : تم ( جادو کے اسباب میں سے ) جو کچھ ڈال سکتے ہو ڈال دو ۔

۸۱ ۔ جب انھوں نے ( جا دو کے اسباب) ڈالے تو موسیٰ نے کہا کہ جو کچھ تم لائے ہو وہ جادو ہے جسے خدا جلدی باطل کر دے گا کیونکہ خدا فساد کرنے والوں کے عمل کی اصلاح نہیں کرتا ۔

۸۲ ۔ اور حق کو وہ اپنے وعدہ سے ثابت کر دکھا تا ہے اگر چہ مجرم ناپسند کرتے ہوں ۔

حضرت موسیٰعليه‌السلام کے خلاف جنگ کا دوسرا مرحلہ

ان آیات میں مقابلے کا اگلا مرحلہ بیان کیا گیا ہے ۔ ان میں حضرت موسیٰ اور ان کے بھائی کے خلاف فرعون کے عملی اقدام کی بات کی گئی ہے ۔

جب فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کے کچھ معجزات مثلاًید بیضا اور بہت بڑ ااژدہا کو حملہ کرتے دکھا اور اسے نظر آیا کہ موسیٰعليه‌السلام کا دعویٰ بلا دلیل نہیں اور یہ دلیل کم از کم اس کے اطرافیوں یا دوسروں میں سے بعض پر اثر انداز ہو گی تو اس نے عملی طور پر جواب دینے کا فیصلہ کیا ۔ قرآن کہتا ہے : فرعون نے پکارا کے کہا کہ تم آگاہ جادو گروں کو میرے پاس لے آوتاکہ ان کے ذیعے میں موسیٰ والی مصیبت اپنے سے دور کرسکوں( وَقَالَ فِرْعَوْنُ ائْتُونِی بِکُلِّ سَاحِرٍ عَلِیمٍ ) ۔

وہ جانتا تھا کہ ہر کام میں اس کے راستے سے داخل ہونا چاہئیے اور ا س کے ماہروں سے مدد لینا چاہئےے ۔

کیا واقعاً حضرت موسیٰ کی دعوت کی حقانیت میں شک رکھتا تھا اور اس طریقے سے انھیں آزمانا چاہتا تھا یا وہ جانتا تھا کہ موسیٰ خدا کی طرف سے ہیں لیکن اس کا خیال تھا کہ جادو گروں کے شور وغل سے لوگوں کا مطمئن کیا جا سکتا ہے اور وقتی طور پر عامة الناس کے افکار کو موسیٰ کے اثر و نفوذ سے بچایا جا سکتا ہے کہ موسیٰ خارق عادت کام کا انجام دیتا ہے تو ہم بھی اس جیسے کام کی انجام دہی سے عاجز نہیں ہیں اور ا س خیال تھا کہ اگر اس کا ملوکا نہ ارادہ اس طرح سے پورا ہو جائے تو یہ چیز سہل اور آسان ہے ۔

دوسرا احتمال زیادہ صحیح معلوم ہوتا ہے نیز حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مقابلے میں کھڑا ہوا تھا ۔

بہر حال جب مقابلے کے معین تاریخی دن کہ جس دن کے لئے لوگوں کو شرکت کی عام دعوت دی گئی تھی ، جادو گر اکھٹے ہو ئے تو حضرت موسیٰعليه‌السلام نے ان کی طرف رخ کیا اور کہا : پہلے جو کچھ تم لاسکتے ہوں میدان میں لے آو( فَلَمَّا جَاءَ السَّحَرَةُ قَالَ لَهُمْ مُوسَی اٴَلْقُوا مَا اٴَنْتُمْ مُلْقُونَ ) ۔

القو ماانتم ملقون “ کااصلی معنی یہ ہے کہ جوکچھ تم پھینک سکتے ہو پھینکو اور یہ اشارہ ہے ان مخصوص رسیوں اور لاٹھیوں کی طرف جو اندر سے خالی تھیں اور انھوں نے ان میں خاص کیمیائی مواد ڈال رکھا تھا کہ جسے سورج کی روشنی میں رکھا جائے تو اس میں حرکت اور جوش پیدا ہوتا ہے ۔ اس بات کی شاہد وہ آیات ہیں جو سورہ اعراف اور شعراء میں آئی ہیں ۔ سورہ شعراء کی آیت ۴۳ اور ۴۴ میں ہے ۔

( قال لهم موسیٰ القوا ماانتم ملقون فالواحبالهم و عصیهم و قالو بعزة فرعون انا لنحن الغالبون ) ۔

موسیٰ نے ان سے کہا جو پھینک سکتے ہو پھینکو ، پھر انھوں نے میدان میں اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں اور کہنے لگے فرعون کی عزت کے صدقے ،ہم کامیاب ہیں ۔

بہر حال انھوں نے اپنی تمام قدرت مجتمع کی او رجو کچھ وہ اپنے ساتھ لائے تھے انھوں نے میدان کے بیچ میں ڈال دئیے ” تو اس وقت موسیٰ نے ان سے کہا کہ جو کچھ تم لے کر آئے ہو یہ جادو ہے او رخدا جلدی ہی اسے باطل کردے گا( فَلَمَّا اٴَلْقَوْا قَالَ مُوسَی مَا جِئْتُمْ بِهِ السِّحْرُ إِنَّ اللهَ سَیُبْطِلُهُ ) ۔

تم فاسد اور مفسد افراد ہو کیونکہ ایک جابر ، ظالم اور سر کش کی خدمت انجام دے رہے ہو اور تم نے اپنے علم کو اس خود غرض حکومت کی بنیادوں ک ومضبوط کرنے کے لئے فروخت کردیا ہے اور یہ خود تماہرے مفسد ہونے پر ایک بہترین دلیل ہے اور خدا مفسدین کے عمل کی اصلاح نہیں کرتا( إِنَّ اللهَ لاَیُصْلِحُ عَمَلَ الْمُفْسِدِینَ ) ۔

در حقیقت جو شخص بھی عقل ہوش اور دانش رکھتا تھا، حضرت موسیٰ کے جادو گروں پر غلبہ حاصل کرنے سے پہلے بھی اس حقیقت کو سمجھ سکتا تھا کہ ان کاعملبے بنیاد ہے کیونکہ وہ ظلم کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کے لئے کام کررہے تھے ۔ کوں نہیں جانتا تھا کہ فرعون غاصب، غارت گر ، ظالم اور مفسد ہے ت وکیا ایسی طاقت کے خدمتگزار اس ظلم و فساد میں شریک نہ تھے کیا ممکن تھا کہ ان کا عمل ایک صحیح اور خدائی عمل قرار پا سکے ۔ ہر گزش نہیں ۔ لہٰذا واضح ہے کہ خدا ایسی مفسدانہ کوششوں کو باطل کردے گا۔

کیا ”سیبطلہ“ ( خدا نے جلد باطل کردے گا ) اس بات کا دلیل ہے کہ جادو ایک حقیقت ہے لیکن خدا اسے باطل کرسکتا ہے یا س جملے سے مراد یہ ہے کہ خدا اس کے باطل ہونے کو واضح کردے گا ۔

سورہ اعراف کی آیہ ۱۱۶ میں ہے :۔( فلما القوا سحروا اعین الناس و استرهبو هم ) ۔

یعنی ۔ جادو گروں کے جادو نے لوگوں کی آنکھوں کو متاثر کیا اور انھیں وحشت میں ڈال دیا ۔

لیکن یہ تعبیر اس بات کے منافی نہیں کہ ان کے پاس مرموز وسائل تھے جیسا کہ ” سحر“ کے لغوی معنی میں پوشیدہ ہے ۔ انھوں نے معنوی طور پر مختلف اجسام کے طبیعی اور کیمیائی خواص سے استفادہ کیا اور اس سے ان رسیوں اور لاٹھیوں میں واقعاً حرکات پیدا کردیں البتہ یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ جیسا کہ ظاہرا ً معلوم ہوتا تھا معاملہ اس کے بر عکس تھا یہ رسیاں اور لاٹھیاں زندہ موجودات نہیں بن گئی تھیں ۔ جیسا کہ قرآن سورہ طٰہٰ کی آیت میں کہتا ہے :

( فاذا حبالهم و عصیهم یخیل الیه من سحر هم انها تسعیٰ

) اس وقت رسیاں اور لاٹھیاں جادو گروں کے جادو کی وجہ سے یوں لگتی تھیں جیسے وہ زندہ موجودات ہیں جو دوڑرہی ہیں ۔لہٰذا جادو جا ایک حصہ تو حقیقت پر مبنی ہے اور دوسرا وہم و خیال ہے ۔

زیرنظر آخری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ موسیٰ نے اس سے کہا کہ اس مقابلے میں ہمیں اعتماد ہے کہ کامیابی ہماری ہے کیونکہ خدا کا وعدہ ہے کہ وہ حق کو آشکار کرے گا اور شکست دینے والی منطق اور غالب آنے والے معجزات کے ذریعے اپنے پیغمبروں کی مدد کرے گا اور یوں ایل فساد و باطل کو رسوا اور ذلیل کرے گا اگر چہ مفسد فرعون اور ا س کے حواری اسے ناپسند کرت ے ہیں( وَیُحِقُّ اللهُ الْحَقَّ بِکَلِمَاتِهِ وَلَوْ کَرِهَ الْمُجْرِمُونَ ) ۔

” بکلماتہ“ سے مراد یا تو انبیاء ِبر حق کی کامیابی کے لئے خدائی وعدہ ہے یا اس کے قاہر اور قوی معجزات ہیں ۔(۱)

____________________

۱ ۔حضرت موسیٰ کے فرعون اور فرعونیوں سے مقابلے کے بارے میں تفصیلات اور اس سلسلے میں کئی اہم نکات پر ہم جلد شش میں سورہ اعراف کی آیہ ۱۱۳کے بعد سے تفصیل سے بحث کرچکے ہیں ۔ نیز جاو اور اس کی حقیقت کے بارے میں ہم پہلی جلد میں سورہ بقرہ کی آیہ ۱۰۲ کے ذیل میں بحث کرچکے ہیں ۔ رجوع کیجئے ۔