تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28307
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28307 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۹۴،۹۵،۹۶،۹۷

۹۴ ۔( فَإِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ مِمَّا اٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ فَاسْاٴَلْ الَّذِینَ یَقْرَئُونَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَائَکَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ المُمْتَرِینَ ) ۔

۹۵ ۔( وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ فَتَکُونَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔

۹۶ ۔( إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

۹۷ ۔( وَلَوْ جَائَتْهُمْ کُلُّ آیَةٍ حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ ) ۔

ترجمہ

۴۹ ۔ جو کچھ ہم نے تجھ پر نازل کیا ہے اگر اس میں تجھے شک و شبہ ہے تو ان سے جو تجھ سے پہلے آسمانی کتب پڑتھے ہیں سوال کرو، ( جان لو ( قطعی طور پر ” حق “ تیرے پروردگار کی طرف سے تجھ تک پہنچا ہے لہٰذا شک کرنے والوں میں سے ہر گز نہ ہو جا( البتہ وہ اس میں ہر گز شک نہیں کرتا جسے وہ شہود کے ذریعے جانتا ہے ، یہ لوگوں کےلئے ایک درس تھا ) ۔

۹۵ ۔ اور ان میں سے نہ ہو جاو جنہوں نے آیاتِ خدا کی تکذیب کی ہے ورنہ نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائے گا

۹۶ ۔ ( اور جان لو کہ ) جن پر خدا ثابت ہو چکا ہے وہ ایمان نہیں لائے گے ۔

۹۷ ۔اگر چہ ( اللہ کی ) تمام آیات ( اور اس کی نشانیاں ) ان تک پہنچ جائیں ، یہاں تک کہ وہ دردناک عذاب کو دیکھ لیں ( کیونکہ ان کے دلوں پر گناہ کی تاریکی چھائی ہوئی ہے اور روشنی ان تک پہنچنے کے لئے ان کے پا س کوئی راستہ نہیں ہے ) ۔

شک کو اپنے قریب نہ آنے دو

گزشتہ آیات میں چونکہ انبیاء اور اقوام کی سر گذشت کے کچھ حصے بیان کئے گئے ہیں لہٰذا ممکن تھاکہ بعض مشرکین اور دعوتِ پیغمبر کے منکر ان کی صداقت میں شک کرتے ۔ قرآن ان سے چاہتا ہے کہ ان کہی ہوئی باتوں کی صداقت سمجھنے کے لئے اہل کتاب کی طرف رجوع کریں اور ان کے بارے میں ان سے معلوم کریں کیونکہ ان کی کتب میں اس قسم کے بہت سے مسائل آئے ہیں لیکن مخالفین کی طرف روئے سخن کرنے کی بجائے پیغمبر کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے: جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے اگر تجھے اس کے بارے میں شک وتردد ہے تو ان سے جو تجھ سے پہلے آسمانی کتب پڑھتے ہیں پوچھ لے( فَإِنْ کُنْتَ فِی شَکٍّ مِمَّا اٴَنْزَلْنَا إِلَیْکَ فَاسْاٴَلْ الَّذِینَ یَقْرَئُونَ الْکِتَابَ مِنْ قَبْلِکَ ) ۔

تاکہ اس طرح سے یہ ثابت ہو جائے کہ ” ج وکچھ ہم نے تجھ پر نازل کیا ہے وہ تیرے پر وردگار کی طرف سے حق ہے ( لَقَدْ جَائَکَ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ ) ۔لہٰذا کسی قسم کے شک و شبہ کو ہر گز اپنے قریب نہ آنے دے ( فَلاَتَکُونَنَّ مِنْ المُمْتَرِینَ) ۔

یہ احتمال بھی ہے کہ مندرجہ بالا دعوت پیغمبر کی صداقت کے بارے میں ایک نئی اور مستقبل بحث شروع کررہی ہو اور مخالفین سے کہتی ہو کہ اھر اس کی حقانیت کے بارے میں انھیں کوئی شک و تردد ہے تو اس کی نشانیاں جو گزشتہ کتب مثلاً تورات اور انجیل میں ہیں اہل کتاب سے پوچھ لیں ۔

ایک شان نزول جو بعض کتب تفسیر ( تفسیر الفتوح رازی ،ج ۶ ،ص ۲۲۷ ، مذکورہ آیت کے ذیل میں ) ۔ میں نقل ہو ئی ہے وہ بھی اس معنی کی تائید کرتی ہے ۔ اور وہ یہ ہے : کفار قریش کا ایک گروہ کہتا تھا کہ یہ قرآن خدا کی طرف سے نازل نہیں ہوا بلکہ ( معاذاللہ ) محمد پر شیطان القا ء کرتا ہے ۔ ان کی اس گفتگو کی وجہ سے بعض لوگ شک و تردد کا شکار ہو گئے اس آیت کے ذریعے الہ نے انھیں جواب دیا۔

کیا رسول اللہ کو شک تھا ؟

ہو سکتا ہے کہ ابتدائی نظر میں یوں لگے کہ آیت کہہ رہی ہے کہ پیغمبر ِ خد ان آیات کی حقانیت کے بارے میں شک رکھتے تھے کہ جو ان پر نازل ہوتی تھیں اور خڈا نے اس طریقے سے ان کا شک و شبہ رد کردیا ۔

لیکن اس طرف توجہ رکھتے ہوئے کہ پیغمبر خد انے تو وحی کو شہود اور مشاہدہ سے پایا تھا ۔ جیسا کہ آیات ِ قرآنی اس بات کی حکایت کرتی ہیں لہٰذا اس صورت میں شک اور ردد کوئی مفہوم ہی نہیں ۔ علاوہ ازیں یہ بات مروج ہے کہ دور کے لوگوں کو تنبیہ کرنے کے لئے نزدیک کے افراد کو مخاطب کیا جاتا ہے ۔ جیسے عربوں میں مثل مشہور ہے :

ایاک اعنی و اسمعی یا جارة

اس کی نظیر فارسی میں بھی ہے ایسی گفتگو بہت سے مواقع پر صریح خطاب سے زیادہ موثر ہوتی ہے ۔ مزید بر آں جملہ شرطیہ ہمیشہ احتمال وجود شرط کی دلیل نہیں ہے ۔ بلکہ بعض اوقات ایک بات کی تاکید کے لئے ایک عمومی قانون بیان کرنے کے لئے ہوتا ہے ۔ مثلاً سورہ بنی اسرائیل کی آیہ ۲۳ میں ہے :

( وقضی ربک الاّ تعبدوا الایاه و بالوالدین احساناً و اما یبلغن عندک الکبر احدهما اوکلا هما فلا تقل لهما افٍ ) ۔

تمہارے پروردگار نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرواور ماں باپ کی ساتھ نیکی کرو۔ جب ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے پاس بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان سے کبھی تھوڑی سی بھی دکھ دینے والی اور ناراحت کرنے والی بات نہ کہو۔

توجہ رہے کہ اس جملے میں ظاہراً مخاطب صرف رسول اللہ ہیں جبکہ ہم جانتے ہیں کہ رسول اللہ کے والد کی ولادت سے قبل ہی وقات پاچکے تھے ابھی آپ پچپن ہی میں تھے کہ والدہ بھجی چل بسیں تو اس حالت میں ماں باپ کے احترام کا حکم ایک عمومی قانون کے طور پر بیان ہوا ہے اگر چہ ظاہراً مخاطب پیغمبر خدا ہی ہوں ۔

نیز سورہ طلاق میں ہے :( یا ایهاالنبی اذا طلقتم النساء )

اے پیغمبر! جس وقت تم لوگ عورتوں کو طلاق دو۔

یہ تعبیر اس امر کی دلیل نہیں کہ پیغمبر خد انے اپنی زندگی میں کسی بیوی کو طلاق دی ہے بلکہ یہاں ایک عمومی قانون بیان کیا گیا ہے ۔ یہ بات جاذب نظر ہے کہ اس جملے کی ابتداء میں رسول اللہ مخاطب ہیں او رجملے کے آخر میں سب لوگ مخاطب ہیں ۔

بہت سے قرائن جو تائید کرتے ہیں کہ آیت میں اصلی مقصود مشرکین اور کفار ہیں ان میں سے ایک اس آیت کے بعد کی آیات ہیں جو انکے کفر اور بے ایمانی کے بارے میں گفتگو کرتی ہیں اس کی نظیر حضرت عیسیٰعليه‌السلام سے مربوط آیات میں دکھائی دیتی ہیں کہ جس وقت خدا اس سے قیامت کے دن پوچھے گا کہ کیا تونے لوگوں کو اپنی اور اپنی ماں کی عبادت کی دعوت دی تھی وہ صراحت سے اس کا انکار کرتے ہیں اور مزید کہتے ہیں :( ان کنت قلته فقد علمته ) ۔

اگر میں نے یہ بات کی ہوتی تو تیرے علم میں ہوتا۔ (مائدہ ۔ ۱۱۶) ۔

بعد والی آیت میں مزید ارشاد ہوتا ہے : اب جبکہ آیات ِ پروردگار اور اس دعوت کی حقانیت تجھ پر واضح ہو چکی ہے تو ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہ ہوجنہوں نے آیات الٰہی کی تکذیب کی ہے ورنہ زیاں کاروں میں سے ہو جائے گا( وَلاَتَکُونَنَّ مِنْ الَّذِینَ کَذَّبُوا بِآیَاتِ اللهِ فَتَکُونَ مِنْ الْخَاسِرِینَ ) ۔

درحقیقت قرآن پہلی آیت میں کہتا ہے کہ اگر شک و تردد رکھتے ہو تو ان سے پوچھو جو آگاہی اور علم رکھتے ہیں اور اس آیت میں کہتا ہے کہ اب جبکہ تردد کے عوامل بر طرف ہوچکے ہیں تو ان آیات کے سامنے تجھے سر تسلیم خم کرنا چاہئیے ورنہ حق کی مخالفت کا نتیجہ خسارے اور نقصان کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

یہ آیت اس بات کا واضح قرینہ ہے کہ گزشتہ آیت میں میں حقیقی مقصود عام لوگ تھے اگر چہ روئے سخن پیغمبر خدا کی طرف تھا کیونکہ واضح نقصان ہے کہ پیغمبرہر گز آیات الٰہی کی تکذیب نہیں کرتے بلکہ وہ تو سختی سے اپنے دین کی حمایت اور دفاع کرتے ہیں ۔

اس کے بعد رسول اللہ کو بتا یا گیا کہ تیرے مخالفین میں تعصب اور ہٹ دھرم لوگ موجود ہیں جن کے ایمان لانے کی تقوع عبث ہے ۔ وہ فکری لحاظ سے اس قدر مسخ ہو چکے ہیں اور وہ باطل راستے اس قدر بڑھ چکے ہیں کہ ان کا بیدار ِ انسانی وجدان کھو چکا ہے وہ ناقابل اثر وجودمیں تبدیل ہو چکے ہیں البتہ قرآن اس بات کو یوں بیان کرتا ہے : وہ لوگ کہ جن پر تیرے پر وردگار کا فرمان ثابت ہو چکا ہے وہ ایمان نہیں لائےں گے( إِنَّ الَّذِینَ حَقَّتْ عَلَیْهِمْ کَلِمَةُ رَبِّکَ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

یہاں تک کہ اگرخدا کی تمام آیات اور نشانیاں ان کے پاس آجائیں وہ تب بھی ایمان نہیں لائیں گے جب تک کہ وہ خدا کے دردناک عذاب کو اپنی آنکھ سے نہ دیکھ لیں ۔ جبکہ اس وقت کے ایمان کا انھیں کوئی فائدہ نہیں( وَلَوْ جَائَتْهُمْ کُلُّ آیَةٍ حَتَّی یَرَوْا الْعَذَابَ الْاٴَلِیمَ ) ۔

در حقیقت زیر بحث پہلی آیت تمام لوگوں کو مطالعہ ، تحقیق او رباخبر لوگوں سے سوال کرنے کی دعوت دیتی ہے اور پھر تقاضا کرتی ہے کہ حق واضح ہو جانے پر اس کی حمایت اور دفاع کے لئے کھڑے ہو جائیں لیکن آخری آیات میں فرمایا گیا ہے کہ تمہیں سب کے ایمان لانے کی توقع نہیں رکھنا چاہئیے کیونکہ کچھ لوگ تو اس قدر فاسد ہو چکے ہیں کہ اب وہ اصلاح کے قابل نہیں رہے لہٰذا نہ تو ان کے ایمان نہ لانے پر دل سرد اہو اور نہ ہی ان کی ہدایت کے صرف ہونے والی توانائی کو رائیگان سمجھ بلکہ ان لوگوں کی طرف توجہ دے جو زیادہ تعداد میں ہیں اور قابل ہدایت ہیں ۔

جیسا کہ ہم بارہا تکرار کر چکے ہیں کہ ایسی آیات ہر گز کسی ” جبر “ پر دلالت نہیں کرتیں بلکہ یہ تو عمل انسانی کے آثار بیان کئے گئے ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ چونکہ ہر چیز کا اثر حکم خدا سے ہے اس لئے بعض اوقات ان امور کی نسبت خدا کی طرف دی جاتی ہے ۔

اس نکتے کا ذکر بھی ضروری معلوم ہوتا ہے کہ قبل کی چند آیات میں ہم نے فرعون کے بارے میں پڑھا ہے کہ اس نے نزول ِ عذاب اور طوفان میں پھنسنے کے بعد اظہار ایمان کیا لیکن ایسا چونکہ اضطراری پہلو رکھتا ہے اس لئے اسے اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا ۔ لیکن زیر بحث آیات میں فرمایا گیا ہے : یہ صرف فرعون کا طریقہ تھا بلکہ تمام ہٹ دھرم ، خود دار ، مستکبر اور سیاہ دل افراد کہ جو طغیان و سر کشی کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے ہیں ان کی بھی یہ حالت ہے وہ بھی دردناک عذاب کو دیکھے بغیر ایمان نہیں لاتے ۔ وہی ایمان جو ان کے لئے بالکل بے اثر ہے ۔

آیت ۹۸

۹۸ ۔( فَلَوْلاَکَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانهَا إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَی حِینٍ ) ۔

ترجمہ

۹۸ ۔ تمام آباد یاں اور شہر کیوں ایمان نہیں لائے کہ ( جن کا ایمان بر محل ہو اور ) ان کی حالت کے لئے مفید ہو ،مگر یونس کی قوم کہ جب وہ ایمان لائی تو ان کی زندگی سے ہم نے رسوا کن دنیاوی عذاب بر طرف کردیا او رہم نے مدت معین ( زندگی کے اختتام او ران کی اجل ) تک انھیں بہرہ مند کیا ۔

صرف ایک گروہ بر محل ایمان لایا

گزشتہ آیات میں فرعون اور فرعونیوں کے متعلق خصوصاً اور دوسری اقوال کے متعلق عموما ً یہ نکتہ بیان ہوا ہے کہ انھوں نے اختیار اور سلامتی کے عالم میں خدا پر ایمان لانے سے اعراض کیالیکن جب موت اور خد اکی سزا نے انھیں آلیا تو انھوں نے اظہار ایمان کیا کہ جو ان کے لئے سود م،ند نہیں ہوا۔ زیر نظر آیت میں یہ بات ایک عمومی قانون کے طور پر بیان کی گئی ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے : گزشتہ قومیں بر محل اور بر موقع ایمان کیون نہیں لائیں کہ ان کا ایمان ان کے لئے فائدہ مند ہوتا( فَلَوْلاَکَانَتْ قَرْیَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِیمَانُهَا ) ۔

اس کے بعد حضرت یونسعليه‌السلام کی قوم کو مستثنیٰ کرتے ہوئے کہا گیا ہے : سوائے یو نس کی قوم کے کہ جب وہ ایمان لائے تو ان کی زندگی سے ہم نے رسوا کن دنیاوی عذاب بر طرف کردیا( إِلاَّ قَوْمَ یُونُسَ لَمَّا آمَنُوا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیَاةِ الدُّنْیَا ) ۔ ” اور انھیں معین مدت ( ان کی زندگی کے اختتام ) تک ہم نے بہرہ مند کیا( وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَی حِینٍ ) ۔

لفظ ” لَولَا“بعض مفسرین کے مطابق یہاں نفی کے معنی میں ہے لہٰذا ” الا“ کے ذریعے اس سے استثناء ہوا ہے ۔

اس بناء پر جملے کا معنی اس طرح ہوگا: کوئی قوم و ملت جو گزشتہ زمانے میں شہروں اور آبادیوں میں زندگی بسر کرتی تھی اکٹھے مل کر خدا ئی پیغمبر پر ایمان نہیں لائی سوائے قوم یو نس کے ۔

بعض دوسرے مفسرین کانظریہ ہے کہ ”لولا“ نفی کے لئے نہیں آیا بلکہ ہمیشہ یہ ” تخضیض “ کے معنی میں ہوتا ہے ۔ ” تحضیض “، اس سوال کو کہتے ہیں جس میں تحریک اور سر زنش پائی جاتی ہے ) لیکن ایسے مواقع پر اس کا مفہوم لازمی طور پر نفی ہی ہوتا ہے ۔ اسی بناء پر ” الا“ کہہ کر کسی چیز کا ہم استثناء کرتے ہیں ۔

بہر حال اس میں شک نہیں کہ دوسری قوموں میں بھی بہت سے لوگ ایمان لائے تھے لیکن جو بات قوم یونس کو دوسری اقوام سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ سب کے سب مل کر ایمان لائے اور وہ بھی عذاب الہٰی کے قطعی اور یقینی طور پر آجانے سے پہلے جبکہ دوسری قوموں میں سے بہت سے لوگ سختی سے مخالفت پر ڈٹے رہے ۔ یہاں تک کہ پر وردگار کا قطعی عذاب صادر ہوا۔ عام طور پر ایسے لوگوں نے عذاب الہٰی کو دیکھ کر اظہار ایمان کیا۔ ان کا ایمان اسی دلیل کی بناء پر جو ہم پہلے ذکر کر چکے ہیں سود مند نہ ہوا۔

قومِ یونس کے ایمان لانے کا واقعہ

جیسا کہ تواریخ میں آیا ہے کہ ان کا ماجرا کچھ یوں ہے :

حضرت یونسعليه‌السلام کی قوم نینوا( عراق) میں زندگی زندگی بسر کرتی تھی جب آپعليه‌السلام اس سے مایوس ہو گئے تو ایک عابد کی درخواست پر کہ جو ان میں رہتا تھا ان کے لئے بد دعا کی جبکہ انہی میں ایک عالم بھی تھاجو حضرت یونسعليه‌السلام سے درخواست کرتا تھا کہ آپ قوم کے بارے میں دوبارہ دعائے خیر کریں ، ان کے لئے پھر ارشاد و ہدایت شروع کریں اور مایوس نہ ہوں ۔

لیکن حضرت یونس اس واقعے کے بعد اپنی قوم سے باہر چلے گئے ، ان کی قوم کہ جس نے آ پ کی سچائی کو بار ہا آزمایا ہوا تھا ، اس عالم کے گرد جمع ہو گئی جب کہ نزول عذاب کا فرمان صادر نہیں ہو اتھا لیکن اس کی نشانیاں کم و بیش نظر آتی تھیں ۔ ان لوگوں نے موقع غنیمت جانا اور اس عالم کی راہنمائی میں شہرسے باہر نکل آئے ۔ ان کی حالت یہ تھی کہ دعا وتضرع کررہے تھے ہاتھ اٹھارکھے تھے ، اظہار ایمان کررہے تھے ، توبہ کناں تھے ، انھوں نے ماوں کو بچوں سے جدا کردیا تھا تاکہ ان کی روح میں زیادہ انقلاب بر پا ہو اور انھوں نے معمولی قسم کا لباس پہن رکھا تھا ۔ وہ اپنے پیغمبر کی تلاش میں نکل پڑے مگر ان کا تو کہیں کوئی نشان نظر نہ آیا ۔ لیکن ان کی یہ توبہ، ایما ن او رپر وردگار کی طرف بازگشت چونکہ بر محل تھی اور علم ، آگاہی اور خلوص کی بنیاد پر تھی لہٰذا وہ اپنا کام کرگئی ۔ عذاب کی نشانیاں بر طرف ہو گئیں ۔ آرام و سکون کی طرف پلٹ آیا۔ ایک طویل واقعے کے جب حضرت یونسعليه‌السلام اپنی قوم کی طرف پلٹ آئے تو دل و جان سے قوم نے ان کی پذیرائی کی ۔

خود حضرت یونس علیہ السلام کی زندگی کی تفصیل انشاء اللہ سورہ صافات کی آیات ۳۴ اتا ۱۴۸ کے ذیل میں بیان کی جائے گی۔

اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے قوم یونسعليه‌السلام کو خدا کے عذاب کا ہر گز سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ورنہ ان کی قوم کی توبہ بھی قبول نہ ہوتی بلکہ خطرے کے الارم اور نشانیاں جو عام طور پر حقیقی عذاب سے پہلے نمایاں ہوتی ہیں ان کی بیداری کے لئے کافی ثابت ہوگئیں حالانکہ فرعونی خطرے کے ایسے الارم بار ہا سن چکا تھا۔خطرے کی نشانیاں ان کے لئے نمایاں ہو چکی تھیں ۔ مثلاً طوفان ، ٹڈی دل کا حملہ اور نیل کے پانی کا دگر گوں ہو جانا وغیرہ ایسے واقعات رونما ہوچکے تھے لیکن انھوں نے خطرے کی ان گھنٹیوں کو کبھی کوئی اہمیت نہ وی اور ہر مصیبت پر صرف حضرت موسیٰ سے خواہش کی کہ اس تکلیف اور مصیبت کو خدا ان سے بر طرف کردے تو ایمان لے آئیں گے لیکن وہ کبھی ایمان نہیں لائے ۔

مندرجہ بالاواقعہ ضمنی طور پر نشاندہی کرتا ہے کہ آگاہ اور دلسوز رہبر کا وجود ایک قوم کے درمیان کس قدر موثر اور حیات بخش ہے جب کہ وہ عابد جو کافی علم نہ رکھتا ہو وہ زیادہ سختی اور خشونت ہی کا سہارا لیتا ہے ۔ عدم آگہی سے عبادت اور علم جو حواس ذمہ داری کے ساتھ ہو میں اسلام جس کا فرق قائل ہے ، اس کی منطق بھی اس روایت سے سمجھ میں آتی ہے ۔

آیات ۹۹،۱۰۰

۹۹ ۔( وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ کُلّهُمْ جَمِیعًا اٴَفَاٴَنْتَ تُکْرِهُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ ) ۔

۱۰۰ ۔( وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اٴَنْ تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیَعْقِلُونَ ) ۔

ترجمہ

۹۹ ۔ اور گر تیرا پر وردگار چاہتا تو روئے زمین کے تمام رہنے والے ( جبری طورپر) ایمان لے آتے ۔ کیا تو مجبور کرنا چاہتا ہے کہ وہ ایمان لے آئیں (جبری ایمان کا کیا فائدہ ہے ) ۔

۱۰۰ ۔ (لیکن) کوئی شخص خدا کے ( اس کی توفیق ، مدد او رہدایت ) کے بغیر ایمان نہیں لاسکتا اور ( کفر و گناہ کی ) کی ناپاکی وہ ان کے لئے قرار دیتا ہے جو عقل سے کام نہیں لیتے ۔

جبری ایمان بے کار ہے

گزشتہ آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ اضطراری ایمان کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔ اسی بناء پر زیر بحث پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : اگر اضطراری اور اجباری ایمان کا کوئی فائدہ ہوتا او رتیرا پر وردگار چاہتا تو روئے زمین کے تمام لوگ ایمان لے آتے( وَلَوْ شَاءَ رَبُّکَ لَآمَنَ مَنْ فِی الْاٴَرْضِ کُلّهُمْ جَمِیعًا ) ۔

لہٰذا ان میں سے ایک گروہ کے ایمان نہ لانے سے دلگیر اور پریشان نہ ہو۔ ارادہ و اختیارکی بنیادی آزادی کا لازمہ ہے کہ کچھ لوگ مومن ہو ں گے اور کچھ غیر مومن ” ان حالات میں تو چاہتا ہے کہ لوگوں کو ایمان لانے کے لئے مجبور کرے “( اٴَفَاٴَنْتَ تُکْرِهُ النَّاسَ حَتَّی یَکُونُوا مُؤْمِنِینَ ) ۔

آیت اس تہمت کی دوبارہ نفی کرتی ہے جو اسلام کے دشمن بارہا لگاتے رہے ہیں او رلگاتے رہتے ہیں اور وہ یہ کہ اسلام تلوار کا دین ہے او رزبر دستی اور جبری طور پر دنیا کے لوگوں پر ٹھونسا جاتا ہے ۔

زیر بحث آیت قرآن کی دیگر بہت سی آیات کی طرح کہپتی ہے کہ جبری ایمان کی کوئیقدر و قیمت نہیں اور اصولی دین و ایمان ایسی چیز ہے جو روح کے اندر سے اٹھے نہ کہ باہر سے اور تلوار کے ذریعے سے ہو ، خصوصاً خدا تعالیٰ پیغمبر اسلام کو ایمان و اسلام کے لئے لوگوں پر جبر و اکراہ کرنے سے ڈررہا ہے او رمنع کر رہا ہے اس کے باوجود بعد والی آیت میں اس حقیقت کی یاد دہانی کروائی گئی ہے کہ یہ ٹھیک ہے کہ انسان مختار اور آزاد ہے پھر بھی جب تک لطفِ الہٰی اور حکم پر وردگار شامل حال نہ ہوتو کوئی شخص ایمان نہیں لاتا“( وَمَا کَانَ لِنَفْسٍ اٴَنْ تُؤْمِنَ إِلاَّ بِإِذْنِ اللهِ ) ۔لہٰذا وہ جہالت اور بے عقلی کی راہ میں قدم رکھتے ہیں اور اپنی عقل وخرد کے سرمائے سے فائدہ اٹھانے کے لئے تیار نہیں خدا ان کے لئے رجس اور ناپاکی قرار دیتا ہے اس طرح سے کہ انھیں ایمان کی توفیق نہیں ہوتی( وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیَعْقِلُونَ ) ۔

دو قابل توجہ نکات

۱ ۔ ایک وضاحت :

ہو سکتا ہے کہ ابتدائی نظر سے یوں معلوم ہو کہ پہلی اور دوسری آیت آپس میں ایک دوسرے کی نفی کرتی ہیں ۔ کیونکہ پہلی آیت کہتی ہے کہ خدا کسی کوایمان لانے پر مجبور نہیں کرتا جبکہ دووسری آیت کہتی ہے کہ جب تک پر وردگار کا فرمان اور ارادہ نہ ہو کوئی شخص ایمان نہیں لاتا۔

ایک نکتے کی طرف توجہ کرنے سے ظاہری اختلاف بر طرف ہوجاتا ہے اور وہ یہ کہ ہم عقیدہ رکھتے ہیں کہ نہ ” جبر“ صحیح ہے اور نہ ہی ” تفویض “ درست ہے یعنی نہ اس طرح ہے کہ لوگ اپنے افعال میں مجبور اور بے اختیار ہیں اور نہ اس طرح ہے کہ وہ تمام معنی میں اور ہر لحاظ سے اپنے حالت میں آزاد ہیں بلکہ ارادے کی آزادی ہوتے ہوئے بھی وہ خدائی امداد کے محتاج ہیں کیونکہ ارادے کی یہ آزادی خدا دیتا ہے عقل او روجدان ِ پاک اس انعامات او ر عنا یات میں سے ہے ، انبیاء کی راہنمائی اور کتب ِ آسمانی کی ہدایت بھی اس جانب سے ہے ۔ اس بناء پر ارادے کی آزادی کے باوجوداس نعمت وعنایت کا سر چشمہ اور اس کا ماحصہ سبھی خدا کی طرف سے ہے ( غور کیجئے گا ) ۔

۲ ۔ ایک اشکام اور اس کی توضیح :

آخری آیت آخری جملہ ”( وَیَجْعَلُ الرِّجْسَ عَلَی الَّذِینَ لاَیَعْقِلُون ) “ہر گز جبر کی دلیل نہیں ہے ۔ کیونکہ ” لایعقلون“ ان کے اختیار کی دلیل ہے یعنی پہلے افراد تعقل و تفکر اور غور و فکر سے منہ موڑ لیتے ہیں جس کے انجام کے طور پر اس عذاب میں مبتلا ہو تے ہیں کہ رجس ، شک و تردد کی ناپاکی ، دل کی تاریکی اور غلط نظر ان پر غالب آجاتی ہے ۔یہاں تک کہ قوت ایمان ان سے سلب ہو جاتی ہے ۔ لیکن توجہ رہے کہ اس کے مقدمات خو د انھوں نے فراہم کئے ہیں ۔ درحقیقت ایسے مواقع پر ایمان کے لئے اللہ کا اذن اور فرمان نہیں ہوتا ۔

دوسرے لفظوں میں یہ جملہ اس طرف اشارہ ہے کہ خدا کا اذن اور فرمان بلاوجہ اور بغیر کسی حساب کتاب کے نہیں ہے جو اس لائق ہیں ان کے لئے ہو گا اور جو اس کے لائق نہیں وہ اس سے محروم رہیں گے ۔

آیات ۱۰۱،۱۰۲،۱۰۳،

۱۰۱( قُلْ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔

۱۰۲ ۔( فَهَلْ یَنْتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ اٴَیَّامِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنْ الْمُنْتَظِرِینَ ) ۔

۱۰۳ ۔( ثُمَّ نُنَجِّی رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا کَذَلِکَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔

ترجمہ

۱۰۱ ۔ کہہ دو: دیکھو ! ان ( خدا کی آیات اور توحید کی نشانیوں ) کو جو آسمانوں میں ہیں اور زمین میں ہی لیکن یہ نشانیاں اور تنبیہیں ان لوگں کے لئے مفید نہیں ہو گی جو ایمان نہیں لائے ( اور ہٹ دھرم ہیں ) ۔

۱۰۲ ۔کیا یہ گزشتہ لوگوں کے سے دنوں ( اور ویسی بلاوں ، مصیبتوں اور سزاوں ) کا انتظار کرتے ہیں کہہ دو : تم انتظار کر، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کروں گا ۔

۱۰۳ ۔ پھر ( نزول اور سزا و عذاب کے وقت ) ہم اپنے رسولوں کو اور ان پر ایمان لانے والوں نجات دیتے تھے اور اس طرح ہم پر حق ہے کہ (تجھ پر) ایمان لانے والوں کو نجات بخشیں ۔

تربیت اور وعظ و نصیحت

گزشتہ آیات میں اس بارے میں گفتگو تھی کہ ایمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اختیاری ہو نہ کہ اضطراری اور اجباری ۔ اسی مناسبت سے زیر نظر پہلی آیت میں اختیاری ایمان کے حصول کا راستہ بتا یا گیا ہے اور پیغمبر اکرم سے فرمایا گیا ہے : ان سے کہہ دو : صحیح طور پر غو ر و فکر کر لیں اور آسمان و زمین میں دیکھیں کہ کیسا عجیب و غریب اور حیرت انگیز نظام ہے کہ جس کا ہر گوشہ پیدا کرنے والے کی عظمت ۔ قدرت ، علم اور حکمت کی دین میں ہے( قُلْ انْظُرُوا مَاذَا فِی السَّمَاوَاتِ وَالْاٴَرْضِ ) ۔یہ سب درخشان ستارے اور مختلف آسمانی کرّات کہ جن میں سے ہر ایک اپنے محور اور مدار میں گر دش کر رہا ہے ، یہ عظیم نظام ہائے شمسی اور یہ غول پیکر کہکشائیں اور ان پر کار فرما ایک دقیق ، نظام ، اسی طرح یہ کرّہ زمین اپنے تمام عجائب و اسرار کے ساتھ اور یہ سب طرح کے زندہ موجودات ان سب کی ساخت پر داخت میں غور کرو اور ان کے مطالعہ سے جہاں ، ہستی کے مبداء و موجد سے زیادہ آشنائی پیدا کرو اور اس سے زیادہ قریب ہو جاو۔

یہ جملہ وضاحت کےسا تھ جبر اور سلب ِ اختیار کی نفی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ایمان جہانِ آفرینش کے مطالعے کا نتیجہ ہے یعنی یہ کام خود تمہارے ہی ہاتھ میں ہے ۔

اس کے بعد مزید ارشاد ہوتا ہے : لیکن ان سب آیات اور نشانیوں کے باوجود تعجب کا مقام نہیں کہ ایک گروہ ایمان نہ لائے کیونکہ آیات، نشانیان ، کے الارم ، ڈرانے کے اسباب صرف ان لوگوں کے کام آتے ہیں جو حق کو قبول کرنے کے لئے تیار ہوں لیکن جنھوں نے پختہ ارادہ کرلیا ہے ہر گز ایمان نہیں لائیں گے ان پر ان امور کا کوئی اثر نہیں ہوتا( وَمَا تُغْنِی الْآیَاتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لاَیُؤْمِنُونَ ) ۔(۱)

لفظ ”ما“ کو ” ما تغنی الاٰیات“ میں بعض علما ء ماء نافیہ سمجھتے ہیں ، بعض استفہام انکاری ، نتیجہ کے لحاظ سے دونوں ایک ہی ہیں ۔ لیکن ظاہر یہ ہے کہ ماء نافیہ ہو نا چاہئیے ۔

یہ جملہ ایک حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بارہا قرآن میں آئی اور وہ یہ کہ دلائل ، حق باتیں ،و نصائح تنہا کا فی نہیں ہیں بلکہ مہیا اور آمادہ اسباب بھی نتیجہ حاصل کرنے کی شرط ہیں ۔

اس کے بعد قرآن تہدید آمیز لہجے میں لیکن سوال کے انداز میں کہتا ہے کیا یہ ہٹ دھرم اور بے ایمان لوگ سوائے اس کے کوئی توقع رکھتے ہیں کہ جو انجام گزشتہ سرکش قوموں کا ہوا تھا اور جو دردناک خدائی عذاب میں گرفتار ہو ئے تھے ، اس سے دوچار ہوں ۔ جیسا کہ انجام ، فراعنہ نمرود، شداد اور ان کے اعوان و انصار کا ہوا

( فَهَلْ یَنْتَظِرُونَ إِلاَّ مِثْلَ اٴَیَّامِ الَّذِینَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِهِمْ ) ۔

آیت کے آخر میں انھیں خطرے سے خبر دار کرتے ہوئے فرمای اگیا ہے : ” اے پیغمبر ! ان سے کہہ دو : اب جبکہ تم اس راستے پر چل رہے ہو اور تجدید نظر کے لئے تیار نہیں ہوتو تم انتظار میں رہو اور ہم تمہارے برے اور درد ناک انجام کے انتظار میں ہیں جیسا کہ انجام گزشتہ مستکبر قوموں کا ہوا( قُلْ فَانْتَظِرُوا إِنِّی مَعَکُمْ مِنْ الْمُنْتَظِرِینَ ) ۔

توجہ رہے کہ” فھل ینظرون“ میں استفہام ِ انکاری ہے یعنی ان کا طرز عمل ہی ایسا ہے کہ گویا وہ ایک برے انجام کے آپہنچنے کے علاوہ کسی کا انتظار نہیں کررہے ۔

لفظ”ایام “ اگر چہ لغت میں ” یوم “ کی جمع ہے جس کا معنی ہے دن لیکن دردناک حوادث کے معنی میں ہے ، کہ جو گزشتہ اقوام کی زندگی میں واقع ہوئے ۔

اس کے بعد اس بناء پر کہ یہ توہم نہ ہو کہ خدا سزا دیتے وقت خشک کے ساتھ تر کو بھی جلا دیتا ہے یہاں تک کہ ایک مومن جو کسی بڑے سر کش باغی گروہ میں ہو اسے نظر انداز کردیتا ہے مزید فرمایا گیا ہے : گزشتہ اقوام کے عذاب کے اسباب فراہم ہونے کے بعد ہم اپنے رسولوں اور ان لوگوں پر ایمان لائے نجات دیتے رہے

( ثُمَّ نُنَجِّی رُسُلَنَا وَالَّذِینَ آمَنُوا ) ۔

آخر میں فرمایا گیا ہے کہ یہ چیز گزشتہ اقوام ، رسل اور مومنین کے ساتھ مخصوص نہیں تھی بلکہ ہم اس طرح تجھے اور تجھ پر ایمان لانے والوں کو نجات دیں گے اور یہ ہم پر حق ہے ایک مسلم اور تخلف ناپذیر حق( کَذَلِکَ حَقًّا عَلَیْنَا نُنْجِ الْمُؤْمِنِینَ ) ۔(۲)

____________________

۱۔ ”نذر“ نذیر“ کی جمع ہے ۔ اس کا معنی ہے ڈرانے والا۔ یہ انبیاء اور خدائی راہنماوں کے لئے کنایہ ہے یا پھر یہ انذار کی جمع ہے ۔ یعنی غافلین اور مجرمین کو ڈرانا دھمکانا جو ان ہادِ یان الہٰی کا پروگرام ہے ۔

۲۔”کذٰلک حقاً علینا ننج المومنین “ کا جملہ معنوی لحاظ سے تھا :”کذٰلک ننج المومنین و کان حقاً علینا “ یعنی جملہ ”حقاً علینا “ ایک جملہ معترضہ ہے کہ جو” کذٰلک “ اور ”ننج المومنین “ کے درمیان آیا ہے یہ احتمال بھی ہے کہ” کذٰلک “ کا تعلق گزشتہ جملے سے ہو یعنی ”ننجی رسلنا والذین اٰمنوا “۔