تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28288
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28288 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیات ۸۱،۸۲،۸۳

۸۱ ۔( فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ وَکَرِهُوا اٴَنْ یُجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ وَقَالُوا لاَتَنفِرُوا فِی الْحَرِّ قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اٴَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوا یَفْقَهُونَ ) ۔

۸۲ ۔( فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلًا وَلْیَبْکُوا کَثِیرًا جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

۸۳ ۔( فَإِنْ رَجَعَکَ اللهُ إِلَی طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَاٴْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِی اٴَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِی عَدُوًّا إِنَّکُمْ رَضِیتُمْ بِالْقُعُودِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ ) ۔

ترجمہ

۸۱ ۔ ( جنگ تبوک سے ) کنارہ کشی کرنے والے جو رسول خدا کی مخالفت سے خوش ہیں اور وہ راہ خدا میں اپنے اموال او رجان سے جہاد کرنے کو ناپسند کرتے تھے ( اور ایک دوسرے سے او رمومنین سے ) کہتے ہیں کہ اس موسم گرما میں ( میدان کی طرف ) حرکت نہ کریں انھیں کہہ دو کہ جہنم کی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے ، اگر تم میں سمجھ ہے ۔

۸۲ انھیں چاہئیے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں یہ ان کا ر کردگیوں کی جزا ہے جو و ہ کرتے تھے ۔

۸۳ ۔ جب خدا تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف پلٹائے اور وہ تجھ سے ( میدان ِ جہاد کی طرف ) خروج کی اجازت چاہیں تو ان سے کہہ کہ تم کبھی میرے ساتھ خروج نہیں کروگے او رمیری معیت میں کبھی دشمن کے ساتھ جنگ نہیں کروگے ۔

منافقین کی ایک اور غلط حرکت

ان آیات میں بھی منافقین کے افکار و اعمال ک اذخر جاری ہے تاکہ مسلمان واضح طور پر اس گروہ کو ہیچان لیں اور ان کے غلط منصوبوں اور سازشوں کا شکار نہ ہوں ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : وہ جنھوں نے (تبوک میں ) جہاد میں شرکت نہیں کی اور بے ہودہ بہانے کرکے اپنے گھروں میں بیٹھے رہے اوراپنے گمان میں انھوں نے میدانِ جنگ میں خطرات پر سلامتی کو دی ترجیح دی ، وہ رسول خدا کے خلاف اس عمل پر خوش( فَرِحَ الْمُخَلَّفُونَ بِمَقْعَدِهِمْ خِلَافَ رَسُولِ اللهِ ) ۔

اور راہ خدا میں مال و جان سے جہاد کرنے او رمجاہدین کے عظیم اعزازات و افتخار ات حاصل کرنے کا ناپسند کرتے ہیں( وَکَرِهُوا اٴَنْ یُجَاهِدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ فِی سَبِیلِ اللهِ ) ۔

انھوں نے میدان جہاد میں شر کت نہ کرنے پر قناعت نہیں کی بلکہ وہ شیطانی وسوسوں سے دوسروں کو بھی بددل کرنے یا پھر نے کی کوشش میں تھے ۔ انھوں نے دوسروں سے کہا :موسم گرما کی اس جلادینے دالی گرمیں میں میدان جنگ کی طرف نہ جاو( وَقَالُوا لاَتَنفِرُوا فِی الْحَرِّ ) ۔

در حقیقت وہ ایک تو مسلمانوں کے ارادوں کو کمزور کرنا چاہتے ہیں او ردوسرا اپنے جرم میں بہت سے افراد کو شریک کرنا چاہتے تھے ۔ اس کے بعد قرآن پیغمبر اکرم کی طرف روئے سخن کرتے ہوئے کہتا ہے کہ انھیں دو توک الفاظ میں اور تنبیہ کرتے ہوئے ” کہہ دو کہ دوزخ کی جلادینے والی آگ اس سے بھی زیادہ گرم ہے اگر تم سمجھو( قُلْ نَارُ جَهَنَّمَ اٴَشَدُّ حَرًّا لَوْ کَانُوا یَفْقَهُونَ ) ۔

لیکن وہ کمزور ایمان اور ناسمجھی کی وجہ سے توجہ نہیں کرتے کہ کیسی جلانے والی آگ ان کے انتظار میں ہے ، ایسی آگ کہ جس کی چھوٹی سی چنگاری دنیا کی ہر قسم کی آگ سے زیادہ جلادینے والی ہے ۔

بع دکی دو آیتیں اس طرف اشارہ کرتی ہیں کہ وہ اس گمان میں ہیں کہ انھیں کامیابی حاصل ہو گئی ہے ، جہاد سے دور رہنے والے او رمجاہدین کے حوصلے پست کرنے سے وہ اپنے ہدف کو پہنچ گئے لہٰذا وہ قہقہے لگاتے ہیں جیسا کہ ہر دور کے منافقین کرتے رہے ہیں لیکن قرآن انھیں خطرے سے ڈراتے ہوئے کہتا ہے : انھیں تھوڑا ہنسنا چاہئیے اور زیادہ رونا چاہئیے( فَلْیَضْحَکُوا قَلِیلًا وَلْیَبْکُوا کَثِیراً ) ۔

ہاں انھیں رونا چاہئیے اپنے تاریک مستقبل پراور ان دردناک سزاوں پر جو ان کے انتظار میں ہیں انھیں رونا چاہئیے اس بنا پر کہ وہ واپسی کے راستے کے تمام پلو ں کو بر باد کرچکے ہیں ۔ انھیں رونا چاہئیے کہ وہ اپنی تمام تر استعداد اور زندگانی کا سرمایہ دے کر اپنے لئے رسوائی او ربد بختی خرید چکے ہیں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے ۔ یہ ان کے اعمال کی سزا ہے جو وہ انجام دیتے تھے( جَزَاءً بِمَا کَانُوا یَکْسِبُونَ ) ۔

ہم نے جو کچھ کہا اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ لوگ اس جہان میں ہنسیں کم اورروئیں زیادہ ۔ کیونکہ آگے ان کے لئے ایسی دردناک سزا ہے کہ اگر اس سے آگاہ ہو جائیں تو بہت روئیں اور ہسیں بہت کم۔

لیکن بعض مفسرین نے اس جملے کے معنی کے متعلق ایک او راحتمال بھی ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ جتنا بھی ہسیں دیان کی عمر اتنی تھوڑی ہے کہ وہ پھر بھی کم ہے اور آخرت میں وہ اتنا روئیں گے کہ دنیاوی گریہ و زاری اس کے مقابلے میں بہت حقیر ہے ۔

لیکب پہلی تفسیر ظاہر آیت سے اور تقریر و تحریر میں استعمال ہونے والی اس سے مشابہ تعبیرات سے زیادہ مناسبت رکھتی ہے خصوصاً جب کہ دوسری تفسیر کا لازمہ یہ ہے کہ صیغہ امر اخبار کے معنی میں ہو اور یہ خلافِ ظاہر ہے ۔

ایک مشہور حدیث میں کہ جسے بہت سے مفسرین نے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے ،آپ نے فرماتے ہیں :

لاتعلمون ما اعلم لضحکتم قلیلا و لبکیتم کثیراً

اگر اسے جو ( قیامت کی ہولناک سزاوں کے متعلق )جانتا ہوں تم بھی جانتے تو ہنستے کم اور روتے زیادہ ۔

یہ حدیث بھی پہلے معنی پ رایک شاہد ہے ( غور کیجئے گا )۔

زیر بحث آخری آیت میں منافقین کی ایک او رسچی سمجھی خطر ناک روش کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور وہ یہ کہ جب کسی غلط کام کو ظاہر بظاہر انجام دیتے ہیں تو اپنی برات کے لئے تلافی کرنے کے عذم ک ااظہار کرتے ہیں اور اس طرح اپنی بدعات اور خلافِ اسلام حرکات کو چھپانے کی کو شش کرتے ہیں ۔ آیت کہتی ہے: جس وقت خدا تجھے ان کے کسی گروہ کی طرف پلٹا ئے اور وہ تجھ سے جہاد کے دوسرے میدان میں شرکت کی اجازت چاہیں تو ان سے کہہ دو کہ تم میرے ساتھ کبھی میدان جہاد میں شرکت نہ کر سکو گے اور میری معیت میں کبھی کسی دشمن سے نہیں لڑو گے( فَإِنْ رَجَعَکَ اللهُ إِلَی طَائِفَةٍ مِنْهُمْ فَاسْتَاٴْذَنُوکَ لِلْخُرُوجِ فَقُلْ لَنْ تَخْرُجُوا مَعِی اٴَبَدًا وَلَنْ تُقَاتِلُوا مَعِی عَدُوًّا ) ۔

یعنی رسول اللہ انھیں ہمیشہ کے لئے مایوس کردیں اور واضح کردیں کہ ان کی حنارنگ نہیں لائے گی اور کبھی کوئی ان کے فریب میں نہیں آئے گا اورکیا ہی اچھا ہوکہ وہ مکرو فریب کہ یہ جال کہیں اور لے جائیں کیونکہ یہاں اب کوئی ان کے دام فریب میں نہیں آئے گا۔

اس نکتہ کا ذکر بھی ضروری ہے کہ ” طآئفة منھم “ ( ان میں سے ایک گروہ )کے الفاظ نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ سب ایسا کرنے کو تیار نہ تھے اور دوسرے جہاد میں شرکت پر آمادگی کا اظہار سے سب نے نہیں کیا تھا ۔ شاید اس کی جہ یہ تھی کہ ان میں سے بعض اس قدر رسوا اور شرمندہ تھے کہ وہ اس رسول اللہ کی خدمت میں پیش ہو کر اپنی یہ تجویز ہی پیش نہیں کرسکتے تھے ۔

اس کے بعد ان کی پیش کش قبول نہ کرنے کی دلیل یوں بیان کی گئی ہے : میدانِ جہاد سے کنارہ کشی کرنے اور گھروں میں بیٹھ رہنے پر تم پہلے بھی راضی ہو چکے ہو پھر اب بھی منہ موڑنے والوں کے ساتھ مل جاو اور ان کے ساتھ گھروں میں بیٹھ جاو( إِنَّکُمْ رَضِیتُمْ بِالْقُعُودِ اٴَوَّلَ مَرَّةٍ فَاقْعُدُوا مَعَ الْخَالِفِینَ ) ۔

چند توجہ طلب نکات

۱ ۔ دوسرے جہاد میں شرکت کی حقیقت:

اس میں شک نہیں کہ اگر یہ منافقین جہاد سے ایک مرتبہ منہ موڑنے کے بعد پشمان ہوتے ، توبہ کرلیتے اور اپنے سابقہ گناہوں کی تلافی کے لئے دوسرے جہاد میں شرکت کی پیش کش کرتے تو خدا تعالیٰ ان کی پیش کش قبول کرلیتا اور رسول اللہ ان کی درخواست رد نہ کرتے۔ اس بنا پر معلوم ہوتا ہے کہ پیش کش بھی ایک طرح کی شیطنت اور منافقت تھی ۔ در اصل یہ اپنے مکر وہ چہرے کو چھپانے اور سابقہ اعمال جاری رکھنے کی ایک تکنیک تھی ۔

۲ ۔لفظ ”خالف“ کا مفہوم :

یہ لفظ ’ متخلف“ کے معنی میں ہے جو کہ ایسے اشخاص کی طرف اشارہ ہے کہ جوعذرو معذرت کے ساتھ یا بغیرکسی عذرکے میدان جہاد میں شرکت نہیں کرتے تھے ۔

بعض نے یہ بھی کہا کہ ”خالف“ مخالفت کے معنی میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ تم بھی چلے جاو اور مخالفوں کے ہم آواز بن جاو اس لفظ کا ایک مفہوم ” فاسد“ بھی بیان کیا گیا ہے کیونکہ ”خلوف“ -”-فساد “کے معنی میں ہے اور ” خالف“ لغت میں ”فاسد“ کے معنی میں آیا ہے ۔

یہ احتمال بھی موجود ہے کہ مندرجہ بالاآیت میں اس لفظ سے تمام مذکورہ معانی مراد ہوں کیونکہ منافقین اور ان کے ساتھی ان تمام صفات رذیلہ کے حامل تھے ۔

۳ ۔ دور حاضر میں ہماری ذمہ داری او رمنافقین کی روش:

اس امت کی ہم دوابرہ یاد دہانی ضروری سمجھتے ہیں کہ دور حاضر کے مسلمان بھی اپنے معاشرے کے منافقین جو گذشتہ ادوارکے منافقین کی روش پر گمامزن ہیں کے بارے میں رسول اللہ کے اسی محکم طریقے کی پیروی کریں اور ایک دفعہ ان کے دام ِفریب میں آنے کے بعد دوسر مرتبہ ان سے دھو کا نہ کھائیں اور ان کے مگر مچھ کے آنسوو ں کو کوئی اہمیت نہ دیں کیونکہ :” کیونکہ ایک مسلمان ایک ہی جال میں دو مرتبہ نہیں پھنستا“۔

آیات ۸۴،۸۵

۸۴ ۔( وَلاَتُصَلِّ عَلَی اٴَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ اٴَبَدًا وَلاَتَقُمْ عَلَی قَبْرِهِ إِنّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ) ۔

۸۵ ۔( وَلاَتُعْجِبْکَ اٴَمْوَالهُمْ وَاٴَوْلَادُهُمْ إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اٴَنفُسُهُمْ وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

ترجمہ

۸۴ ۔ ان میں سے جو بھی مر جائے اس کی نماز جنازہ نہ پڑھو اور اس کی قبر پر( دعا اور طلب ِ بخشش کے لئے ) کھڑا نہ ہو کیونکہ انھوں خدا اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کیا ہے اور جب وہ دنیا سے گئے ہیں تو فاسق تھے ۔

۸۵ ۔ ان کے اموال اور اولاد تیرے لیے باعث تعجب نہ ہو ں (کیونکہ یہ ان کے لیے نعمت نہیں بلکہ )خدا چاہتا ہے کہ ان کے ذریعے انھیں دنیا میں عذاب کرے اور ان کی روحیں اس حالت میں نکلیں کہ وہ کافر ہوں ۔

منافقین کے بارے میں زیادہ اقدام

جب منافقین نے کھلے بندوں جہاد سے منہ موڑ کر خود پردے چاک کردئے اور ان کامعاملہ واضح ہو گیا تو خدا تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا کہ وہ زیادہ صریح اور زیادہ مستحکم طریقے سے اقدام کریں تاکہ دوسروں کے دماغ سے ہمیشہ کےلئے نفاق او رمنافق سازی کی فکر نکل جائے او رمنافقین بھی جان لیں کہ اسلامی معاشرے میں ان کے لئے کوئی جگہ او رمقام باقی نہیں رہا ۔

لہٰذا قرآن فرماتا ہے ۔( منافقین میں سے ) جو کوئی بی مر جائے اس کی نامز کبھی نہ پڑھو( ولا تصل علی احد منهم مات ابداً ) ۔ اور کبھی بھی اس کی قبر کے پاس طلب بخشش کے لئے کھڑا نہ ہو( ولا تقم علی قبره ) ۔

فی الحقیقت یہ منافقین سے ایک قسم کی منفی اور موثر جنگ ہے کیونکہ ان وجوہ سے پاک کرنے کا حکم نہیں دے سکتے تھے لیکن انھیں کافی حد تک بے اعتبار کرنے ، کنارہ کش کرنے اور اسلامی معاشرے سے نکال باہر پھینکنے کے لئے مقابلے کے ایسے منفی طریقے بہت موثر تھے ۔

ہم جانتے ہیں کہ ایک سچا مومن زندگی میں بھی محترم ہے موت کے بعد بھی اس لئے اسلام نے اس کے غسل ، کفن اور دفن کا حکم دیا ہے تاکہ اسے زیادہ اور خاص احترامات کے ساتھ سپرد ِ خاک کیا جائے یہاں تک کہ اسے دفن کرنے کے بعد اس کی قبر کے پاس آکر اس کے احتمالی گناہوں اور لغزشوں کی خدا سے بخشش طلب کرنے کا حکم دیاگیا ہے ۔

اب یہ مراسم اگر کسی شخص کے لئے انجام نہ دئے جائیں تو یہ گویا اسے اسلامی معاشرے سے باہر نکال کر پھینکنے کے مترادف ہے اور اگر اس شخص کو مسترد کردینے والی شخصیت پیغمبر اکرم کی ہو رو اس مسترد شدہ شخص کے مقام پر ایک سخت ضرب ہو گی ۔ در حقیقت یہ سردجنگ اور مقابلے کا ایک چچا تلا طریقہ ہے۔ دور حاضر میں بھی منافقین کے بارے میں مسلمانوں کو ایسے طریقوں سے کام لینا چا ہئیے یعنی جب تک کچھ افراد اظہار اسلام کرتے ہیں اور ظواہر اسلام کے پابند ہیں تو ان سے ایک مسلمان جیسا سلوک کیا جائے اگر چہ ان کا باطن کچھ اور ہو ۔ لیکن اگر وہ خود پردے چاک کردیں اور اپنا نفاق ظاہر کردیں تو پھر ان سے اسلام سے بیگانہ افراد کا سا سلوک کرنا چاہیئے ۔

آیت کے آخر میں ایک بار پھر اس حکم کی دلیل واضح کی گئی ہے او ر فرمایا گیا ہے : ” یہ حکم اس بنا پر ہے کہ انھوں نے خدا اور اس کے رسول سے کفر اختیار کیا ہے “( إِنّهُمْ کَفَرُوا بِاللهِ وَرَسُولِهِ ) ۔” اور جب یہ لوگ دنیا سے گئے ہیں تو فاسق اور فرمان ِ خدا کے مخالف تھے “ وہ نہ اپنے کئے پر پشیمان ہو ئے او رنہ ہی توبہ کے پانی سے انھو ں نے اپنا گناہ آلودہ دامن دھو یا ہے( وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ) ۔

مککن ہے اس مقام پر مسلمانوں سے یہ سوال کیا جائے کہ اگر منافقین سچ مچ رحمت الہٰی سے اس قدر ہیں اور مسلمانوں کو چاہئیے کہ ان سے محبت او رلگاو رکھیں تو پھر خدا نے ان سے اس قدر اظہار محبت کیوں کیا ہے اور یہ سب مال اور اولاد ( اقتصادی اور افرادی قوت) انھیں کیوں دی ہے ۔

اگلی آیت میں روئے سخں پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے خدا تعالیٰ نے اسی سوال کا جواب دیا ہے : ان کے اموال و اولاد تمہیں کبھی بھی معلوم نہ ہوں( وَلاَتُعْجِبْکَ اٴَمْوَالهُمْ وَاٴَوْلَادُهُمْ ) ۔کیونکہ ظاہر بین لوگانھیں خوش بختی کی علامت سمجھتے ہیں لیکن ” خدا چاہتا ہے کہ انھیں ان کے ذریعے دنیا میں سزا دے اور ول حالت ِ کفر میں مریں( إِنَّمَا یُرِیدُ اللهُ اٴَنْ یُعَذِّبَهُمْ بِهَا فِی الدُّنْیَا وَتَزْهَقَ اٴَنفُسُهُمْ وَهُمْ کَافِرُونَ ) ۔

اس آیت کی نظیر اسی سورہ کی آیہ ۵۵ بھی ہے یہ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ اقتصادی اور افرادی وسائل غیر صالح افراد کے ہاتھ میں ہوں تو نہ صرف سعادت بخش نہیں ہیں بلکہ اکثر اوقات دردِ سر ، مصیبت اور بد بختی کا سبب بھی ہیں کیونکہ ایسے نہ اپنے مال کو بر محل صرف کرتے ہیں کہ ان سے مفید اور اصلاحی نفع حاصل کر سکیں اور نہ ہی ان کی اولادصحیح راہ پر چلنے والی ، صاحب ایمان اور تربیت یافتہ ہوتی ہے کہ جو ان کی آنکھوں کا نور بن سکے اور ان کی زندگی کی مشکلات حل کر سکے ان کے اموال زیادہ تر ہلا ک کردینے والی سر کش ہوا و ہوس کے لئے فتنہ و فساد پید اکرنے کے لئے اور ظلم کے ستونوں کو مستحکم کرنے کے لئے صرف ہوتے ہیں ۔ یہ در اصل خدا فراموشی اور زندگی کے بنیادی مسائل سے غفلت کے سبب ہے ان کی اولادبھی ظالموں اور فاسدلوگوں کی خدمت میں لگ جاتی ہے اورآخر کار مصیبت ہی کا باعث ہوتی ہے ۔

البتہ جو لوگ دولت اور افرادی قوت کو بنیاد ی چیز خیال کرتے ہیں اور ان کے نزدیک اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اسے کس طرح صرف کرنا چاہیئے دور سے تو ان کی زندگی بڑی دلفریب معلوم ہوتی ہے لیکن اگر ان کی اصل زندگی کو ہم قریب سے دیکھیں اور اس حقیقت کی طرف بھی توجہ رکھیں کہ ان وسائل سے کس طرح استفادہ کیا جانا مقصود ہے تو ہم تصدیق کریں گے کہ وہ خوش بخت لوگ نہیں ہیں ۔

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ شان نزول کی اختلافی روایات:

پہلی آیت کی شانِ نزول کے بارے میں تعدد روایات وارد ہوئیں ہیں جو باہم اختلاف رکھتی ہیں ۔

ان میں سے کچھ روایات سے معلوم ہوتاہے کہ جب مشہو رمنافق عبد اللہ بن ابی مرگیا تو پیغمبر نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی اور اس کی قبر کے پاس کھڑے ہو کر دعا کی ۔ یہاں تک کہ اپنا پیراہن کفن کے طور اسے پہنا یا توآیت نازل ہوئی اور پیغمبر اکرم کو ایسے عمل کی تکرار سے روکا گیا ۔

جب کہ دوسری روایات سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ رسول اللہ اس کی نماز جنازہ پڑھنا چاہتے تھے کہ جبرئیل نازل ہوئے اور آپ کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی اور آپ کو اس کا م سے منع کیا۔

کچھ اور روایات سے ظاہر ہوتا ہے نہ تو رسول اللہ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی او رنہ ہی آپ ایسا کوئی ارادہ رکھتے تھے بلکہ عبد اللہ کے خاندان کی تشویق کے لئے صرف اپنا پیراہن کفن کے طور بھیجاجب لوگوں نے پوچھاکہ آپ نے یہ کام کیوں کیا ہے جبکہ وہ بے ایمان شخص ہے تو آپ نے فرمایا : میرا پیراہن اس لئے کے عذاب الہٰی سے نجات کا باعث نہیں ہو گا لیکن مجھے امید ہے کہ اس عمل کی وجہ سے بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے ۔

اور ایسا ہی ہوا کہ اس واقعہ کے بعد قبیلہ خزرج کے بہت سے افراد مسلمان ہو گئے

یہ روایات چونکہ آپس میں بہت اختلاف رکھتی ہیں اس لئے ہم ان سے شانِ نزول کی حیثیت سے صرف نظر کرتے ہیں خصوصاً جبکہ بعض مفسرین کے بقول عبد اللہ بن ابی کی موت ۹ ھئمیں واقع ہوئی او رزیر نظر آیات تقریباً ۸ ھء میں نازل ہو ئیں ۔ ( المیزان جلد ۹ ۳۸۵) ۔

لیکن جو بات قابل انکار نہیں ہے وہ یہ ہے کہ آیت کے لب و لہجہ سے یوں لگتا ہے کہ رسول الہ اس کے نزول سے پہلے منافقیین کی نماز جنازہ پڑھتے تھے اور ان کی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تھے کیونکہ وہ ظاہراً مسلمان تھے ۔

۲ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد بھی منافقین کی نماز جنازہ پڑھتے تھے مگر صرف چار تکبیرریں کہتے تھے یعنی آخری تکبیر جو میت پردعا کرنے سے مربوط ہے اس سے صرف نظر کرلیتے تھے ۔

یہ روایت اس صورت میں قابل قبول ہو سکتی ہے کہ محل آیت میں ” لاتصل “ کا معنی ”دعا نہ کرو “ لیا جائے ۔ لیکن اگر اس کا مطلب ہے ” نماز نہ پڑھو “ تو پھر یہ روایت مخالف ِ قرآن ہے اس لئے قابل قبول نہیں ہے ۔

اس بات کا انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ ” لاتصل “ کا ظاہری معنی ” نماز نہ پڑھو“ ہی ہے لہٰذا ہم اسلامی حکم کی رو سے ایسے افراد کی نماز جنازہ نہیں پڑھ سکتے جن کا نفاق ظاہر ہو اور ایک ایک مہم روایت کی وجہ سے ہم مندرجہ بالا آیت سے دست بردار نہیں ہو سکتے ۔

مگر اس آیت کے نزول کے بعد یہ طریقہ بالکل متروک ہوگیا ۔

۲ ۔ مومنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہونا اور دعا کرنا :

زیر بحث آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین کی قبروں کے پاس کھڑے ہونا اور ان کے لئے دعا کرنا جائز ہے آیت میں نہی منافقین کے ساتھ مخصوص ہے

اس بنا پر آیت کا مفہوم یہ ہوگا کہ مومنین کی قبور کی زیارت کرنا یعنی ان کی قبروں کے پاس کھڑے ہونا اور دعا کرنا جائز ہے ۔

البتہ زیر بحث آیت مومنین کی قبور سے متوسل ہو نے اور ان کی برکت سے خدا سے کسی حاجت کا تقا ضا کرنے کے مسئلے میں خاموش ہے اگرچہ اس امر کا جائز ہو روایات ِ اسلامی کی نظر سے مسلم ہے ۔

آیات ۸۶،۸۷،۸۸،۸۹

۸۶ ۔( وَإِذَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ اٴَنْ آمِنُوا بِاللهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَاٴْذَنَکَ اٴُوْلُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَکُنْ مَعَ الْقَاعِدِینَ ) ۔

۸۷ ۔( رَضُوا بِاٴَنْ یَکُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَیَفْقهُونَ ) ۔

۸۸ ۔( لَکِنْ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ وَاٴُوْلَئِکَ لهُمْ الْخَیْرَاتُ وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ۔

۸۹ ۔( اٴَعَدَّ اللهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

ترجمہ

۸۶ ۔ اور جب کوئی سورت نازل ہو کہ خدا پر ایمان لے آواور اس کے رسول کے ساتھ مل کر جہاد کرو تو ان ( منافقین ) میں سے جو توانائی رکھتے ہیں تجھ سے اجازت چاہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم بیٹھ رہنے والوں ( جن پر جہاد معاف ہے ) کے ساتھ چھوڑ دیجئے۔

۸۷ ۔ وہ اس بات پر راضی ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں میں سے ہوں اور ان کے دلوں پ رمہر لگادی گئی ہے لہٰذا وہ نہیں سمجھے۔

۸۸ ۔ لیکن رسول اور وہ افراد جو ان کے ساتھ ایمان لائے ہیں انھوں نے اپنے مال او رجان کے ساتھ جہاد کیا ہے اور سب نیکیاں ان کے لئے اور وہی کامیاب ہیں ۔

۸۹ ۔ الہ نے ان کے لئے جنت کے باغات تیار کر رکھے ہیں کن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ اس میں ہمیشہ کے لئے رہیں گے اور یہ بہت بڑی اور عظیم کامیابی ہے ۔

پست ہمت افراد اور سچے مومنین

ان آیات میں بھی منافقین کے بارے میں گفتگو ہے البتہ یہاں ان کی بد کاریوں کا سچے مومنین کے نیک کاموں سے موازنہ کیا گیا ہے اور اس سے ان کا انحراف اور بے چارگی زیادہ واضح ہوتی ہے ۔

پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے : جس وقت کو ئی سورت جہاد کے بارے میں نازل ہوتی ہے اور لو گوں کو خدا پر ایمان لانے کی دعوت دیتی ہے ( یعنی کہتی ہے کہ اپنے ایمان پر ثابت قدم رہو اور اسے مستحکم کرو) اور پیغمبر کے سامل کر جہاد کرو تو ایسے موقع پر صاحب ِ قدرت منافقین کہ جو جسمانی اور مالی طور پر میدان جنگ میں شر کت کی استعداد رکھتے ہیں تجھ سے اجازت چاہتے ہیں کہ میدان ِ جہاد میں شر کت نہ کریں او رکہتے ہیں کہ ہمیں بیٹھ رہنے والوں (کہ جہاد میں شرکت سے معذور رہیں ) کے ساتھ رہنے دیجئے( وَإِذَا اٴُنزِلَتْ سُورَةٌ اٴَنْ آمِنُوا بِاللهِ وَجَاهِدُوا مَعَ رَسُولِهِ اسْتَاٴْذَنَکَ اٴُوْلُوا الطَّوْلِ مِنْهُمْ وَقَالُوا ذَرْنَا نَکُنْ مَعَ الْقَاعِدِینَ ) ۔

”طول “ ( بروزن ”قول“) مالی وسائل کے معنی میں آیا ہے اس بنا پر ” اولوا الطول“ سے مراد وہ افراد ہیں جو میدان ِ جنگ میں شرکت کے لئے کافی مادی طاقت رکھتے تھے ۔ مگر اس کے باوجود وہ چاہتے تھے کہ ان ناتوان افراد کے ساتھ رہ جائیں جو جنگ میں شرکت کے لئے مالی او رجسمانی طور پر کافی طاقت نہیں رکھتے تھے ۔

اس لفظ کی اصل ”طول“ ( بروزن ”پول “) ہے جوکہ ”عرض“ کی ضد ہے اوران دونوں معانی کی آپس میں مناسبت واضح ہے ۔ کیونکہ مالی اور جسمانی توانائی ایک طرح سے طاقت اور قدرت کی کششِ دوام اور طول کو ظاہر کرتی ہے ۔

اگلی آیت میں قرآن ان کی اس جملے کے ذریعے مذمت و ملامت کرتا ہے وہ چاہتے ہیں کہ پیچھے رہ جانے والوں کے ساتھ رہیں( رَضُوا بِاٴَنْ یَکُونُوا مَعَ الْخَوَالِفِ ) ۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیاہے ”خوالف“ ”خالفة“ کی جمع ہے اس کا مادہ ” خلف “ ہے جس کا منعی ہے پشت سر۔ اسی بنا پر عورتوں کو جو مردوں کے کے گھر سے باہر چلے جانے کے بعد گھر میں باقی رہ جاتی ہیں ” خالفہ “ کہا جاتا ہے ۔ زیر بحث آیت میں ” خوالف “ سے مراد تمام لوگ ہیں جو کسی وجہ سے میدا ن جنگ میں شرکت کرنے سے معذور ہیں چاہے وہ عورتیں ہوں یا بوڑھے مرد، بیمار ہوں یا بچے ۔

بعض احادیث میں جو اس آیت کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں وہ بھی اس مار کی طرف اشارہ کرتی ہیں ۔

اس کے بعد مزید فرمایا گیا ہے : گناہ اور نفاق کے زیر اثر وہ اس مر حلہ تک پہنچ گئے ہیں کہ ان کے دلوں پر مہر لگی ہوئی ہے اسی بنا پر وہ کچھ نہیں سمجھتے( وَطُبِعَ عَلَی قُلُوبِهِمْ فَهُمْ لاَیَفْقهُونَ ) ۔

سورہ بقرہ کی ابتدا میں ہم نے دل پر مہر لگانے کے مفہوم پر بحث کی ہے ۔ ( تفسیر نمونہ جلد اول ص ۱۰۰ ( اردو ترجمہ )

اگلی آیت میں اس کے مد مقابل گروہ کی صفات و خصوصیات کا ذکر ہے جو کہ بالکل منافقین کی صفات و خصوصیات کے بر عکس ہیں ۔

ار شاد ہوتا ہے : ؛لیکن رسول اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں انھوں نے اپنے جان و مال سے راہ خدا میں جہاد کیا ہے( لَکِنْ الرَّسُولُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ جَاهَدُوا بِاٴَمْوَالِهِمْ وَاٴَنفُسِهِمْ ) ۔

اور ان کا انجام کار یہ ہوا کہ طرح طرح کی سعادتین ، کامیابیاں او ردونوں جہانوں کی مادی و روحانی خیرات انھیں نصیب ہوئیں( وَاٴُوْلَئِکَ لهُمْ الْخَیْرَاتُ ) اور یہی لوگ کامیاب ہیں( وَاٴُوْلَئِکَ هُمْ الْمُفْلِحُونَ ) ۔

لفظ ” الخیرات “ جمع کا صیغہ ہے جس پر ” الف لام “ بھی ہے اور اس سے عمومیت کا استفادہ ہوتا ہے یہ ایک ایسی جامع تعبیر ہے کہ جو ہر قسم کی کامیابی ، نعمت او رخیر کا مفہوم لئے ہوئے ہے چاہے وہ مادی ہو یا روحانی ۔

علم معانی بیا ن میں جو قواعد بیان ہوئے ہیں ان کے مطابق ان دونوں جملوں کی تعبیرات گواہی دیتی ہیں کہ کامیاب صرف یہی لوگ ہیں اور اسی طرح جو ہ رقسم کی خیرو سعادت کا استحقاق رکھتے ہیں صرف یہی لوگ ہیں ، وہی جو اپنے پورے وجود اور وسائل کے ساتھ جہاد کرتے ہیں ۔

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر ایمان او رجہاد اکھٹے ہو جائیں تو پھر ہر طرح کی خیرو برکت اس کے ساتھ ہو گی اور ان دونوں کے بغیر نہ کوئی راستہ فلاح کی طرف جاتا ہے نہ ہی مادی و معنوی نعمات میں کوئی حصہ ملتا ہے ۔

یہ نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ ان دونوں گروہوں کی صفات کے تقابل سے معلوم ہو تا ہے کہ منافق فقدانِ ایمان اور گناہ میں بہت زیادہ آلودگی کی وجہ سے نادان اور جاہل ہیں اور اسی بنا پر عالی ہمتی سے محروم ہیں جو کہ فہم ، شعور اور آگہی کی پیدا وار ہے وہ اس بات پر راضی ہیں کہ بیماروں اور بچوں کے ساتھ رہ جائیں اور میدانِ جہاد میں شرکت کے فضائل اور افتخارات کے باوجود اس کا انکار کردیں ۔ جب کہ ان کے مقابلے میں اہل ایمان ایسی روشن نگاہی، فہم وادراک اور عالی ہمتی رکھتے ہیں کہ مشکلات سے نجات کی راہ تمام تر وسائل کے ساتھ جہاد میں شرکت میں سمجھتے ہیں ۔

یہ وہی عظیم درس ہے جو قرآن نے اپنی بہت ہی آیات میں ہمیں دیا ہے اور پھر بھی ہم اس سے غافل ہیں ۔

زیر بحث آیت میں دوسرے گروہ کی کچھ اخروری جزاوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے : خدا نے ان کے لئے باغاتِ بہشت تیا ر کررکھے ہیں جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری کی گئی ہیں( اٴَعَدَّ اللهُ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِنْ تَحْتِهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔تاکیداً فرمایا گیا ہے کہ یہ نعمت اور عنا یات عاریتاً اور فنا پذیر نہیں ہے بلکہ وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے( خَالِدِینَ فِیهَا ) ۔ اور یہ عظیم کامیابی ہے( ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

”اعدلھم “ ( خدا نے ان کے لئے تیار کیا ہے ) یہ تعبیر موضوع کی اہمیت کی دلیل ہے اور اس احترام کی نشانی ہے جو اس گروہ کو خدا کے نزدیک حاصل ہے یعنی اس نے پیلے سے یہ نعمات و عنا یات ان کے لئے تیار کرکھی ہیں ۔

آیت ۹۰

۹۰ ۔( وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنْ الْاٴَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ وَقَعَدَ الَّذِینَ کَذَبُوا اللهَ وَرَسُولَهُ سَیُصِیبُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۹۰ ۔ اور اعراب میں سے معذور لوگ ( تیرے پاس ) آئے ہیں کہ انھیں جہاد سے تخلف کی اجازت دی جائے لیکن وہ لوگ جنھوں نے خدا اور اس کے پیغمبر کے ساتھ جھوٹ بولا ہے ( بغیر کسی عذر کے اپنے گھرمیں ) بیٹھ گئے ہیں ۔ عنقریب ان لوگوں کو جو کافر ہو گئے ہیں ( اور معذور نہیں تھے ) اور درد ناک عذاب پہنچے گا ۔

تفسیر

گذشتہ مباحث بہانہ جو اور عذر تراش منافقین کے بارے میں تھیں اسی مناسبت سے اس آیت میں جہاد میں پیچھے رہ جانے والے دو گروہوں کی کیفیت کی طرف اشارہ ہواہے ۔

پہلا گروہ وہ ہے جس نے بغیر کسی عذر کے سر کشی کے طور پر اس عظیم ذمہ داری سے رو گردانی کی ہے ۔

پہلے فرمایا گیا ہے : بادیہ نشین اعراب کا ایک گروہ جو میدان جہاد میں شرکت سے معذور تھا تیرے پاس آیا ہے تاکہ اسے اجازت دی جائے اور معاف رکھا جائے( وَجَاءَ الْمُعَذِّرُونَ مِنْ الْاٴَعْرَابِ لِیُؤْذَنَ لَهُمْ ) ۔

ان کے مقابلے میں وہ لوگ ہیں جنھوں نے خدا اور اس کے رسول کے سامنے جھوٹ بولا ہے اور بغیر کسی عذر کے اپنے گھر میں بیٹھ گئے ہیں اور میدان میں نہیں گئے( وَقَعَدَ الَّذِینَ کَذَبُوا اللهَ وَرَسُولَهُ ) ۔

آیت کے آخر میں دوسرے گروہ کو شدت کے ساتھ تہدید کی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے : ان میں سے جو کافر ہوا ہے عنقریب وہ دردناک عذاب میں گرفتار ہو گا( سَیُصِیبُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

جو کچھ ہم نے آیت کی تفسیر میں بیان کیا ہے یہی مفہوم آیت میں موجود قرائن سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے کیونکہ ایک طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے مد مقابل قرار دئیے گئے ہیں اور دوسری طرف لفظ ” منھم “ نشاندہی کرتا ہے کہ یہ دونوں گروہ تمام کے تمام کافر نہیں تھے ان میں دو قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ ”معذرون “ حقیقی معذور تھے ۔

لیکن اس تفسیر کے مقابلے میں اس آیت کی دو اور تفسیریں بھی کی گئی ہیں :

پہلی یہ کہ ” معذرون“ سے مراد وہ لوگ ہیں جو جہا د سے فرار کے لئے فضول ، بے ہودہ ار جھوٹے بہانے تراشتے تھے ، اور دوسرے گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اپنے آپ کو عذر تراشی کی بھی زحمت نہیں دیتے تھے اور جہاد کے بارے میں کھل کے حکم خدا کی نافرمانی کرتے تھے چاہے وہ سچے ہوں یا جھوٹے۔

مگر قرائن نشاندہی کرتے ہیں کہ ’معذرون “ میراد حقیقی معذور ہی ہیں ۔