تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28286
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28286 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ آبادی کے بڑ ے مراکز:

عظیم معاشروں اور آبادی کے بڑے مراکز کو اسلام جو اہمیت دیتا ہے وہ مندرجہ بالا آیت سے واضح ہوجاتی ہے یہ بات قابل توجہ ہے کہ اسلام ایسے پس ماندہ ماحول سے اٹھا ہے کہ جس سے تمدن کی بو بھی نہ آتی تھی اس کے باوجود وہ تمدن کے اصلاحی عوامل کی خاص اہمیت کا قائل ہے اور ا س کی اس بات پرنظر ہے کہ جو لوگ شہر سے دور افتادہ علاقوں میں زندگی بسر کرتے ہیں وہ ایمان اور مذہبی معلوم مات میں اس لئے پیچھے ہیں کہ ان کے پاس تعلیم و تربیت کے لئے کافی وسائل اور مواقع نہیں ہیں ۔ لہٰذا نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام کا ارشاد ہے :

و الزموا السواد الاعظم فان ید الله مع الجماعة

بڑے مراکز سے لازماً وابستہ رہو کیونکہ خدا کا ہاتھ جماعت کے ساتھ ہے ۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ۱۲۷) ۔

لیکن اس بات کا مفہو م یہ نہیں کہ سب لوگ شہروں کا رخ کرلیں اور دیہات جو شہروں کی آبادی کا باعث ہیں انھیں ویران کردیں بلکہ اس کے برعکس چاہئیے کہ شہروں سے علم ودانش دیہات کی طرف لائی جائے اور دیہات میں تعلیم و تربیت ، دین و ایمان اور بیداری و آگاہی کے فروغ اور تقویت کی کوشش کی جائے۔

اس میں شک نہیں کہ اگر دیہی عوام کو ان کی حالت پرچھوڑ دیا جائےاور انہیں شہری علوم و آداب، کتب آسمانی کی آیات اور پیغمبر خدا اور ہادیان برحق کی تعلیمات سے محروم رکھا جائے تو کفر ونفاق انھیں تیزی سے گھیر لے گا۔

دیہاتی لوگ صحیح تعلیم و تربیت زیادہ قبول کرتے ہیں کیونکہ ان میں صاف دل اور پاک فکر افراد زیادہ ہوتے ہیں جنھیں کسی کا ہاتھ نہیں لگا ہوتا اور ان میں شہری شیطنتیں اورسازشیں کم ہوتی ہیں ۔

۲ ۔ بادیہ نشین شہری :

”اعرابی “ اگر چہ ” بادیہ نشین “ کے معنی میں ہے لیکن اسلامی روایات میں اس کا ایک وسیع تر مفہوم لیا گیا ہے بالفاظ دیگر اس کا اسلامی مفہوم کسی علاقے سے وابستہ نہیں ہے بلکہ طرزِ فکر اور منطقہ فکری سے مربوط ہے جو لوگ اسلامی آداب و سنن اور تعلیم و تربیت سے دور ہیں ، اگر چہ شہر میں رہتے ہوں اعرابی ہیں اور اسلامی آداب و سنن سے آگاہ بادیہ نشین بی اعراب نہیں ہیں ۔

امام جعفر صادق سے منقول ایک مشہور حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا :من لم یتفقه منکم فی الدین فهو اعرابی

تم میں سے جو شخص اپنے دین سے آگاہ نہیں ، اعرابی ہے ۔(۱)

یہ فرمان ہماری مندرجہ بالا گفتگو پر ایک واضح گواہ ہے ۔

ایک اور روایت میں ہے :من الکفر التعرب بعد الهجرة ہجرت کے بعد بادیہ نشینی اور تعرب کفر ہے ۔

نیز نہج البلاغہ میں حضرت علی علیہ السلام نے منقول ہے کہ آپ نے اپنے اصحاب میں سے معصیت کا ر لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :و اعلموآ انکم صرتم بعد الهجرة اعراباً جان لو کہ تم ہجرت کے بعد اعرابی ہو گئے ہو۔ ( نہج البلاغہ خطبہ ص ۱۹۲)

مندرجہ بالا دو احادیث میں اعرابی ہونے کو ہجرت کے بالمقابل بیان کیا گیا ہے ۔ اگر ہم اس طرف توجہ کریں کہ ہجرت کا وسیع مفہوم بھی مکانی اور علاقائی پہلو نہیں رکھتا بلکہ اس کی بنیاد محور کفر سے فکر کو محور ایمان کی طرف منتقل کرنا ہے تو اس سے اعرابی ہونے کا معنی بھی واضح ہو جاتا ہے، اسلامی آداب و سنن سے جاہلیت کے آداب و رسول کی طرف پھر جانا ۔

۳ ۔ قرب ِ الہٰی کا مفہوم :

مندرجہ بالا آیات میں باایمان بادیہ نشین کے بارے میں ہے کہ وہ اپنے نفاق او رراہِ خدا میں خرچ کرنے کو قرب ِ خدا کا سبب سمجھتے ہیں خصوصاً جبکہ لفظ” قربات “ آیا ہے کہ جو کہ جمع اور نشاندہی کرتا ہے کہ وہ ایک نہیں بلکہ اس میں کئی قرب تلاش کرتے ہیں اور اس میں شک نہیں کہ قرب ِخدا سے مراد قربت ِ مکان او رمکانی نزدیکی نہیں ہے بلکہ مقام و مرتبہ اورقدر و منزلت کی نزدیکی ہے یعنی اس کی طرف جانا جو کمالِ مطلق ہے اور اس کی صفات ِ جمال و جلال کا سایہ اپنی روح و فکر پر ڈالنا۔

____________________

۱۔ تفسیر نور الثقلین ج۲ صفحہ ۲۵۴۔

آیت ۱۰۰

۱۰۰ ۔( وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَاٴَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْاٴَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

ترجمہ

۱۰۰ ۔مہاجرین و انصار میں سے پیش قدمی کرنےو الوں اور ان کی پیروی کرنے والوں سے خدا خوش ہے اور وہ ( بھی )خدا سے راضی ہیں اور اس نے ان کے لئے باغاتِ بہشت فراہم کئے ہیں کہ جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ وہ ہمیشہ اس میں رہیں گے اور عظیم کامیابی ہے ۔

سابقین ِ اسلام

مندرجہ بالا آیت کی شان ِ نزول کے بارے میں اگر چہ کئی ایک روایات نقل ہوئی ہیں لیکن جیسا کہ ہم دیکھیں گے ان میں سے کوئی بھی آیت کی شانِ نزول نہیں ہے بلکہ فی الحقیقت اس کے مصداق کا بیان ہے ۔

بہر حال گزشتہ آیات میں کفار اور منافقین کی حالت بیان ہوئی ہے ، ان کے بعد اب زیر نظر آیت میں سچے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کی طرف اشارہ کیاگیاہے اور ان تین گروہ بیان کئے گئے اول وہ جو اسلام اور ہجرت میں سبقت کرنے والے تھے( وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ ) ۔

دوسرے وہ جو رسول اللہ کی نصرت او رمدد کرنے والوں میں پہل کرنے والے اور انصار مدینہ تھے( وَالْاٴَنصَارِ ) ۔

تیسرے وہ جو دونوں گروہوں کے بعد آئے اور انھوں نے ان کے طریقوں کی پیروی کی ، نیک اعمال بجالانے میں ، اسلام قبول کرنے میں ہجرت کرنے میں ، رسول اللہ کے دین کی مدد کرنے میں انھوں نے پہلے دو گرہوں کا ساتھ دیا( وَالَّذِینَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ ) ۔(۱)

ہم نے جوکچھ بیان کیا ہے اس سے واضح ہوتا ہے کہ ” باحسان “ در اصل اعمال و عقائد کا بیان مقصود ہے کہ جن میں وہ سابقین ِ اسلام کی پیروی کرتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ”احسان “ ان اعمال کا وصف ہے کہ جن کی اتباع ہوتی ہے لیکن آیت کے معنی میں یہ احتمال بھی ذکر کیا گیاہے ۔ کہ احسان صفت ِ اتباع کی کفیت ہے یعنی وہ اچھے طریقے سے پیروی کرتے ہیں ۔ پہلی صورت میں باقی ”فی “ کے معنی میں ہے جب کہ دوسری صورت میں ” مع“ کے معنی میں ہے البتہ ظاہراً آیت پہلی تفسیر سے مناسبت رکھتی ہے ۔

ان تینوں گروہوں کے ذکر کے بعد فرمایا گیا ہے : خد ابھی ان سے راضی ہے اور وہ بی خدا سے راضی ہیں( رَضِیَ اللهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ) ۔

خد اکا ان سے راضی ہونا ان کے ایمان او ران کے انجام کردہ نیک اعمال کی بناء پر ہے اور ان کا خدا سے راضی ہونا خدا کی طرف سے عطا کردہ اچھی جزاوں اور نہایت اہم عنایات کے باعث ہے ۔ دوسرے لفظوں میں جو کچھ خدا ان سے چاہتا تھا انھوں نے انجام دیا ہے اور جو کچھ وہ خدا سے چاہتے تھے خدا نے انھیں عطا فرمایاہے ۔ اس بنا پر خدا نے ان سے راضی ہے اور وہ خدا سے راضی ہےں ۔

گزشتہ جملہ اگر چہ تمام طرح کی مادی و معنوی نعمات پر محیط ہے لیکن تاکید کے طور پر اور اجمال کے بعد تفصیل کے لئے مزید فرمایا گیا ہے خدا نے ان کے لےے باغات بہشت تیار کئے ہیں جن درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں( وَاٴَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی تَحْتَهَا الْاٴَنْهَارُ ) ۔اور اس نعمت کی خصوصیا ت میں سے ہے کہ یہ دائمی اور جاودانی ہے ” اور وہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رہیں گے “( خَالِدِینَ فِیهَا اٴَبَدًا ) ۔ اور یہ تمام مادی و معنوی نعمتیں ان کے لئے عظیم کامیابی شمار ہوگی( ذَلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیمُ ) ۔

اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہ وگی کہ انسان محسوس کرے کہ اسے پیدا کرنے والا معبود مولا اس سے خوش اور راضی ہے اوراس کے کام کی تائید کی ہے اور اسے پسند کیا ہے اور اس سے بڑھ کر کیا کامیابی ہو گی کہ انسان چند روزہ زندگی میں کئے ہوئے محدود اعمال سے غیر متناہی ابدی نعمات حاصل کرے۔

____________________

۱۔ بہت سے مفسرین نے لفظ ” من “ کو ”وَالسَّابِقُونَ الْاٴَوَّلُونَ مِنْ الْمُهَاجِرِینَ وَالْاٴَنصَارِ “میں ” من تبعیضیة“ سمجھا ہے اور ظاہر آیت بھی یہی ہے ۔ کیونکہ آیت میں مہاجرین و انصار میں سبقت کرنے والوں کے بارے میں بات کی گئی ہے نہ کہ مہاجرین و انصار کے بارے میں ۔ درحقیقت باقی و انصار” تابعین “ میں داخل ہیں ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ سابقین کا مرتبہ اور اہمیت:

ہر وسیع اجتماعی انقلاب میں جو معاشرے کی ناگفتہ بہ کیفیت کے خلاف آیا ہو کچھ سبقت کرنے والے ہوتے ہیں ۔ انقلاب کی بنیادیں اور اس کی اٹھان انہی کے کندھوں پر ہوتی ہے ۔ درحقیقت انقلاب کے سب سے زیادہ وفادار وہی ہوتے ہیں ۔ کیونکہ ان کا رہبرجب ہر لحاظ سے تنہا ہوتا ہے وہ اس کے گرد جمع ہوتے ہیں اور اگر چہ وہ مختلف حوالوں سے مشکلات کا شکار ہوتے ہیں اور طرح طرح کے خطروں سے دو چار ہوتے ہیں ، نصرت اور وفا داری سے دست بر دار نہیں ہوتے خاص طور سے آغاز اسلام کی تاریخ نشاندہی کرتی ہے کہ سبقت کرنے والے اور پہلے ایمان لانے والے افراد کو کن کن مشکلات کا سامنا کرناپڑا تھا انھیں کیسے شکنجوں میں جکڑ ا گیا ، تکلیفیں پہنچائی گئیں ، برا بھلاکہا گیا ، تہمتیں لگائی گئی ، زنجیر یں پہنچائی گئیں اور ان میں سے کئی ایک کوقتل کردیا گیا لیکن ان تمام امور کے باوجود جو کچھ ایسے افراد تھے جو آ ہنی ارادہ، عشق سوزاں ، عزمِ راسخ اور ایمان عمیق کے ساتھ اس راہ پر گامزن رہے اور ہر طرح کے خطرات کا خندہ پیشانی سے استقبال کیا ۔

اس سلسلے میں مہاجرین سابقین کا حصہ سب سے زیادہ تھا اور ان کے بعد انصار تھے جنہوں نے پیغمبر اکرم کے لئے اپنا دامن محبت پھیلا دیا اور انھیں مدینے آنے کی دعوت دی اور آپ کے مہاجرین اصحاب کو بھائیوں کی طرف سکونت فراہم کی اور اپنے پورے وجود سے ان کی حمایت کی اور ان کا دفاع کیا یہاں تک کہ انھیں اپنے اوپر ترجیح دی ۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ زیر نظر آیت میں ان دونوں گروہوں کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے تو وہ اسی وجہ سے ہے لیکن اس کے باوجود جیسا کہ قرآن مجید کی روش ہے اس نے دوسروں کے حصے کو بھی نظر انداز نہیں کیا۔ اور ” تابعین باحسان“ کہہ کر زماہ پیغمبر اور آپ کے بعد کے دور میں بھی اسلام سے وابستہ ہو کرہجرت کرنے والوں یا مہاجرین کو پناہ دینے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو یاد کیا ہے او رسب کو عظیم اجرو ثواب کی نوید دی ہے ۔

۲ ۔ تابعین کون لوگ تھے ؟ :

بعض علماء کے مطابق ”تابعین “ اصطلاح ہے جو صرف صحابہ کے شاگردوں کے لئے استعمال ہوتی ہے یعنی وہ افراد جنھوں نے رسول اللہ کو نہیں دیکھا اور وہ آپکے بعد آئے ہیں اور انھوں نے اسلامی علوم وکو وسعت دی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں انھوں نے اپنی اسلامی معلومات بغیر کسی واسطے کے اصحاب ِ پیغمبر سے حاصل کی ہیں ۔

لیکن جیسا کہ ہم سطور بالا میں کہہ چکے ہیں لغت کے لحاظ سے آیت کا مفہوم اس گروہ میں محدود نہیں ہوسکتا بلکہ ”تابعین باحسان“کی تعبیر ان کے لئے ہے جنھوں نے کسی بھی زمانے میں سابقین ِ اسلام کے اہداف و مقاصد کی پیروی ہے ۔اس کی وضاحت یہ ہے کہ بعض لوگوں کی سوچ کے برعکس”ہجرت“ اور ” نصرت“ دونوں اسلام کے اصلاحی اوتر تعمیری مفاہیم ہیں جو زمانہ پیغمبر میں محدود نہیں ہیں بلکہ آج بھی یہ دونوں مفاہیم دوسری صورت میں موجود ہیں ا ور کل ان کا وجود ہوگا ۔ اس بان پر وہ تمام افراد جس کسی نہ کسی طرح ان دونوں پر وگراموں پر عمل پیرا ہوں ” تابعین باحسان“ کے مفہوم میں داخل ہیں ۔

البتہ اہم بات یہ ہے کہ ہمیں توجہ رکھنا چاہئیے کہ قرآن لفظ ”احسان“ ذکر کرکے تاکید کرتا ہے کہ اسلام کے سابقین کی پیروی فقظ لفظی اور بغیر عمل کے ایمان کی صورت میں نہیں ہونا چاہئیے بلکہ ضروری ہے کہ یہ پیروی ایک فکری و عملی اور تمال پہلووں سے ہونا چاہئیے۔

۳ ۔ پہلا مسلمان کون تھا ؟ :

یہاں بہت سے مفسرین نے زیر بحث آیت کی مناسبت سے یہ سوال اٹھایا ہے کہ اسلام قبول کرنے والاپہلا شخص کون تھا او ریہ عظیم افتخار کس نے حاصل کیا؟

اس وال کے جواب میں سب نے متفقہ طور پر کہا کہ عورتوں میں سے جو خاتون سب سے پہلے مسلمان ہوئیں وہ جناب خدیجہعليه‌السلام تھیں جو پیغمبر اکرم کی وفا دار اور فداکار زوجہ تھیں باقی رہا مردوں میں سے تو تمام شیعہ علماء مفسرین او راہل سنت علماء کے ایک بہت بڑے گروہ نے کہا ہے کہ حضرت علیعليه‌السلام وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے مردوں میں سے دعوت ِ پیغمبر پر لبیک کہی ۔ علماء اہل سنت میں اس امر کی اتنی شہرت ہے کہ ان میں سے ایک جماعت نے اس پر جماع و اتفاق کا دعویٰ کیا ہے ۔ ان میں سے حاکم نیشاپوری نے مستدرک علی الصحیحین کتاب معرفت ص ۲۲ پرکہا ہے :

لا اعلم خلافاً بین اصحاب التواریخ ان علی بن ابی طالب رضی اله عنه اولهم اسلاماً و انما اختلفوا فی بلوغه

مورخین میں اس امر پر کوئی اختلاف نہیں کہ علیعليه‌السلام بن ابی طالب اسلام لانے والے پہلے شخص ہیں ۔ اختلاف اسلام قبول کرتے وقت ان کے بلوغ کے بارے میں ہے ۔ (تفسیر قرطبی جلد ۵ صفحہ ۳۰۷۵) ۔

ابن عبد البر ۔ استیعاب ( ج ۲ ص ۴۵۷ ) میں لکھتے ہیں :اتفقوا علی ان خدیجة اول من اٰمن بالله و رسوله و صدقه فیما جآء به ثم علی بعدها

اس مسئلہ پر اتفاق ہے کہ خدیجہ وہ پہلی خاتون نہیں جو خدا اور ا س کے رسول پر ایمان لائیں اور جو کچھ وہ لائے تھے اس کی تصدیق کی ۔ پھر حضرت علیعليه‌السلام نے ان کی کے بعد یہی کام انجام دیا ۔ ( الغدیر جلد ۳ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸) ۔

ابو جعفر اسکافی معتزلی لکھتا ہے :قدروی الناس کافة افتخار علی بالسبق الیٰ الاسلام

تما لوگوں نے یہی نقل کیا ہے کہ سبقتِ اسلام کا افتخار علی سے مخصوص ہے ۔ ( الغدیر جلد ۳ صفحہ ۲۳۷ ، ۲۳۸) ۔

قطع نظر اس کے پیغمبر اکرم سے ، خود حضرت علیعليه‌السلام سے اور صحابہ سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جو حداتواتر تک پہنچی ہوئی ہیں ، ذیل چند روایات ہم نمونہ کے طور پر نقل کرتے ہیں :

۱ ۔ پیغمبر اکرم نے فرمایا:اولکم وارداً علی الحوض اولکم اسلاماً علی بن ابی طالب

پہلا شخص جو حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچے گا وہ شخص ہے جو سب سے پہلے اسلام لایا او روہ علی بن ِ ابی طالب ہے۔(۱)

۲ ۔ علماء اہل سنت کے ایک گروہنے پیغمبر اکرم سے نقل کیا ہے کہ آنحضرت نے حضرت علیعليه‌السلام کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :

ان هٰذا اول من آمن بی و هٰذا اول من یصافحنی و هٰذا الصدیق الاکبر

یہ پہلا شخص ہے جو مجھ پر ایمان لایا او رپہلا شخص ہے جو قیامت میں مجھ سے مصافحہ کرے گا اور یہ صدیق اکبر ہے ۔(۲)

۳ ۔ ابو سعید خدری رسول اکرم سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے حضرت علیعليه‌السلام کے دونوں شانوں کے درمیان ہاتھ ما رکر فرمایا :یا علی لک سبغ خصال لایحاجک فیهن احد یوم القیامة : انت اول الموٴمنین بالله ایماناً اوفاهم بعهد الله و اقومهم بامر الله

اے علی ! تم سات ممتاز صفات کے حامل ہو کہ جن کے بارے میں روز قیامت کوئی تم سے حجت بازی نہیں کرسکتا۔ تم وہ پہلے شخص ہو جو خدا پر ایمان لائے اور خدائی پیمانوں کے زیادہ وفا دار ہو او رفرمانِ خد اکی اطاعت میں تم زیادہ قیام کرنے والے ہو ۱

۱ ۔الغدیر میں یہ حدیث حلیة الاولیاء ج ۱ ص ۶۶ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے ۔

جیسا کہ ہم نے کہا ہے تاریخ ، تفسیراور حدیث کی کتب میں اس سلسلے میں بہت سی روایات پیغمبر اکرم سے اور دوسروں سے نقل ہوئی ہیں ۔ شائقین مزید توضیح کے لئے الغدیر ( عربی) ج ۳ ص ۲۲۰ تا ص ۲۴۰ او رکتاب احقاق الحق ج ۳ ص ۱۴ ۱ تا ص ۱۲۰ ملاحظہ فر مائیں ۔

یہ امر لائق ِ توجہ ہے کہ بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ایمان اور اسلام میں حضرت علیعليه‌السلام کی سبقت کا سیدھے طریقے سے تو انکار نہیں کرسکے لیکن کچھ واضح البطلان علل کی بنیاد پر ایک طریقے سے انکار کی کوشش کی ہے یا سے کم اہم بنا کر پیش کیا ہے ۔ بعض نے کوشش کی ہے کہ ان کی جگہ حضرت ابو بکر کو پہلا مسلمان قراردیں یہ لوگ کبھی کہتے ہیں کہ علی اس وقت دس سال کے تھے لہٰذا طبعاً نابالغ تھے اس بناء پر ان کا اسلام ایک بچے کے اسلام کی حیثیت سے دشمن کے مقابلے میں مسلمانوں کے محاذ کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتا تھا ّ (یہ بات فخر الدین رازی نے اپنی تفسیر میں زیر نظر آیت کے ذیل میں ذکر کی ہے )۔

یہ بات واقعاً عجیب ہے اور حقیقت میں خود پیغمبر خدا پر اعتراض ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ یوم الدار ( دعوت ذی العشیرہ کے موقع پر) رسول اللہ نے اسلام اپنے قبیلے کے سامنے پیش کیا او رکسی نے حضرت علیعليه‌السلام کے سوال اسے قبول نہ کیا ۔ اس وقت حضرت علیعليه‌السلام کھڑے ہوگئے اور اسلام کا اعلان کیا تو آپ نے ان کے اسلام کو قبول کیا ۔ بلکہ یہاں تک اعلان کیا کہ تو میر ابھائی ، میرا وصی اور میر ا خلیفہ ہے ۔

یہ وہ حدیث ہے جو شیعہ سنی حافظانِ حدیث نے کتب ِ صحاح او رمسانید میں نقل کی ہے ۔اسی طرح کئی مورخین ِ اسلام نے اسے نقل کیا ہے یہ نشاندہی کرتی ہے کہ رسول اللہ نے حضرت علیٰ کی اس کم سنی میں نہ صرف ان کا اسلام قبول کیا ہے بلکہ ان کا اپنے بھائی، وصی او رجانشین کی حیثیت سے تعارف بھی کروایا ہے ۔(۳)

کبھی کہتے ہیں کہ عورتوں میں پہلیہ مسلمان خدیجہ تھیں ، مردوں میں پہلے مسلمان ابو بکر تھے او ربچوں میں پہلے مسلمان علی تھے ۔ یوں در اصل وہ اس امر کی اہمیت کم کرنا چاہتے ہیں ( یہ تعبیر مشہور او رمعتصب مفسر مولف المنار نے زیر بحث آیت کے ذیل میں ذکر کی ہے )۔

حالانکہ اول تو جیسا کہ ہم کہہ چکے ہیں حضرت علی علیہ السلام کی اس وقت کم سنی سے اس امر کی اہمیت کم نہیں ہوسکتی خصوصاً جب کہ قرآن حضرت یحییٰ کے بار ے میں کہتا ہے :( و اٰتینا ه الحکم صبیاً ) ۔

ہم نے اسے بچپن کے عالم میں حکم دیا ( مریم ۱۲)

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں بھی ہے کہ وہ بچپن کے عالم میں بھی بول اٹھے اور جو افراد ان کے بارے میں شک کرتے تھے اس سے کہا :( انی عبد الله ، اٰتانی الکتاب وجعلنی نبیاً )

میں اللہ کا بندہ ہوں مجھے اس نے آسمانی کتاب دی اور مجھے نبی بنا یا ہے ۔ (مریم ۳۰)

ایسی آیات کواگر ہم مذکورہ حدیث سے ملاکر دیکھیں کہ جس میں آپ نے حضرت علیعليه‌السلام کو اپنا وصی ،خلیفہ اورجانشین قراردیا ہےاور واضح ہوجاتاہے کہ صاحب المنار کی متعصبانہ گفتگو کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ امر تاریخی لحاظ سے مسلم نہیں ہے کہ حضرت ابوبکر اسلام لانےوالے تیسرے شخص ہیں بلکہ تاریخ و حدیث کی بہت سی کتب میں ان سے پہلے بہت سے افراد کہ اسلام قبول کرنے کاذکر ہے ۔

یہ بحث ہم اس نکتہ پرختم کرتے ہیں کہ حضرت علیعليه‌السلام نے خود اپنے ارشادات میں اس امر کی طرف اشارہ کیاہے کہ میں پہلامومن پہلامسلمان اور رسول اللہ کے ساتھ پہلا نماز گزارہوں اور اس سے آپ نے اپنے مقام و حیثیت کو واضح کیاہے ، یہ بات آپ سے بہت سی کتب میں منقول ہے ۔

علاوہ ازیں ابن ابی الحدید مشہور عالم ابوجعفر اسکافی معتزلی سے نقل کرتاہے کہ یہ جو بعض لوگ کہتے ہیں کہ ابوبکر اسلام میں سبقت رکھتے تھے اگر یہ امر صحیح ہے توپھر خود انھوں نے اس سے کسی مقام پر اپنی فضیلت کا استدلال کیوں نہیں کیا اور نہ ہی ان کے حامی کسی صحابی نے ایسا دعویٰ کیا ہے ۔(الغدیر ج ۲ ص ۲۴۰)

۴ ۔ کیا تمام صحابہ نیک اور صالح تھے ؟

اس امر کی طرف ہم پہلے بھی اشارہ کرچکے ہیں کہ علماء اہلسنت عام طور پر عقیدہ رکھتے ہیں کہ رسول اللہ کے تمام اصحاب پاک ، نیکو کار،صالح ،شائستہ اور اہل جنت تھے۔ زیر بحث آیت کو بعض لوگ اس دعویٰ کی قطعی دلیل قرار دیتے ہیں ۔اسی مناسبت سے ہم بات دوبارہ اس اہم بات کا تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں کہ جو سلامی مسائل میں بہت سی خرابیوں اور اختلافات کا سر چشمہ ہے ۔

بہت سے اہل سنت مفسرین زیر نظر آیت کے ذیل میں نقل کرتے ہیں :

حمید بن زیاد کہتاہے کہ میں محمد بن کعب قرظی کے پاس گیا میں نے اس سے کہا کہ رسول اللہ کے اصحاب کے بارے میں تم کیا کہتے ہوکہ اس نے کیا کہا :جمیع اصحاب رسول الله (ص)فی الجنة محسنهم و مسیئهم

یعنی رسول اللہ کے تمام اصحاب جنتی ہیں چاہے وہ نیکوکار ہو یا گناہ گار

میں نے کہا : ” یہ بات تم کہا سے کہہ رہے ہو “؟

اس نے کہا اس آیت کو پڑھو”( والسابقون الاولون من المهاجرین و الانصار )

وہاں تک جہان فرماتا ہےرضی الله عنهم و رضو اعنه

اس نے مزیدکہا ؛ لیکن تا بعین کے بارے میں ایک ہے اور وہ یہ کہ تابعین صحابہ کی صرف نیک کاموں میں پیروی کریں ( تابعین صرف اسی صورت میں اہل نجات ہیں لیکن صحابہ کے لئے ایسی کوئی شرط نہیں )(۴)

لیکن یہ دعویٰ بہت سے دلائل کی بناء پر غیر قابل قبول ہے کیونکہ

اول تو زیر نظر آیت میں مذکورہ حکم تابعین کے بارے میں بھی ہے اور تابعین سے مراد جیساکہ ہم اشارہ کرچکے ہیں وہ تمام لوگ ہیں جو سابقین ِمہاجرین و انصار کی روش اور طریقے کی پیروی کرتے ہیں اس بناء پر تو تمام امت بغیرکسی استثناء کے اہل نجات ہونا چاہئیے ۔

باقی رہا یہ کہ محمد بن کعب والی روایت میں اس بات کا جواب دیا گیا ہے کہ خدا نے تابعین کے لئے ”احسان “ کی شرط عائد کی ہے یعنی وہ صحابہ کے صرف اچھے طور طریقوں کی پیروی کریں نہ کہ ان کے گناہوں کی یہ بات نہایت عجیب مباحث میں سے ہے کیونکہ اس کا مطلب تو یہ ہے کہ فرع کو اصل سے بڑھادیا جائے صحابہ کے تابعین کے لئے جب اعمال صالح میں پیروی شرط نجات ہے توبطریق اولیٰ یہ شرط خود صحابہ کےلئے بھی ہو نی چاہئیے ۔

باالفاظ دیگر خداتعالیٰ زیر نظر آیت میں کہتا ہے کہ اس کی رضا اور خوشنودی ان تمام مہاجرین و انصار اور ان کے تابعین کےلئے ہے جن کی زندگی کا لائحہ عمل صحیح ہو نہ یہ کہسب مہاجرین و انصار سے وہ راضی ہے چاہے وہ اچھے ہوں یابرے لیکن تا بعین کےلئے اس کی رضا مشروط ہے ۔

دوسرا یہ کہ یہ بات عقل سے سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتی کیونکہ عقل اصحاب پیغمبر کے لئے دوسروں کی نسبت کسی امتیاز کی قائل نہیں ہوئی۔ ابوجہل میں اور ان افراد میں جو آنحضرت کے دین پرایمان لاکر منحرف ہو گئے ہیں کیا فرق ہے ؟وہ اشخاص جو رسول اللہ کے صدیوں بعد دنیا میں آئے اور راہ اسلام میں ان کی فداکاری اور جانبازی پہلے اصحاب ِ رسول سے کمتر نہیں بلکہ ان کاامتیاز یہ ہے کہ انھوں نے پیغمبر اکرم جو دیکھے بغیر پہچانا اور ان پر ایمان لائے کیسے اللہ کی رحمت اور خوشنودی انھیں حاصل نہ ہوگی ۔وہ قرآن جوکہتا ہے کہ تم میں سے زیادہ صاحبِ تکریم خدا کے نزدیک وہ ہے جو زیادہ پر ہیز گار ہے وہ اس غیر منطقی تبعیض اور ترجیح کو کیسے پسند کرسکتا ہے وہ قرآن جواپنی مخلتف آیا ت میں ظالموں او ر فاسقوں پر لعنت کرتا ہے اور انہیں عذاب الٰہی کا مستحق شمار کرتا ہے وہ کس طرح عذاب الہٰی سے صحابہ کی غیر منطقی مصونیت اورتحفظ کی تائید کرسکتا ہے کیا قرآن کی ایسی لعنتیں اور دھکمیاں قابل استناء ہیں اور ایک گروہ ان سے خارج ہے؟ آخر کیوں اور کس لئے ؟

تمام چیزوں سے قطع نظر کیا ایسا فیصلہ صحابہ کو ہر قسم کے گناہ او رنا فرمانی کی اجازت دینے کے مترادف نہیں ہے ؟

تیسرا یہ کہ ایسا فیصلہ اسلامی تاریخ سے کسی طرح بھی مناسبت نہیں رکھتا کیونکہ بہت سے لوگ تھے جو ایک دن انصار و مہاجرین کے ساتھ تھے بعد ازاں اس راستے سے منحرف ہو گئے اور رسول اللہ ان سے خفا و ناراض ہو ئے اور ظاہر ہے کہ رسول اللہ کی ناراضگی غضب ِخدا کا باعث ہے کیا گذشتہ آیا ت میں ہم نے ثعلبہ بن حاطب انصاری کی داستان نہیں پڑھی کہ وہ کس طرح منحرف ہو گیا اور مغضوب پیغمبر ہو گیا ۔زیادہ وضاحت سے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ان لوگوں کی مراد یہ ہے کہ اصحاب رسول سب کے سب کسی قسم کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوتے تھے اور ہر معصیت سے معصوم او رپاک تھے تو یہ واضحات کے انکار کے مترادف ہے ۔ اگر مراد یہ ہے کہ انھوں نے گناہ تو کئے ہیں اور غلط اعمال بھی انجام دئے لیکن پھر بھی خدا ان سے راضی ہے تو اس کا مفہوم یہ ہے کہ خدانے گناہ پر رعایت دی ہے ۔

طلحہ و زبیر کے جو ابتداء میں رسول اللہ کے اصحاب خاص میں سے تھے اور اسی طرح عائشہ جو رسول اللہ کی زوجہ تھیں انہیں جنگ جمل کے سترہ ہزار مقتول مسلمانوں کے خون سے کون بر الذمہ قرار دے سکتا ہے ؟ کیا خدا ان خونریزیوں پر راضی تھا ؟

علیعليه‌السلام کی مخالفت جو خلیفہ رسولتھے فرض کریں کہ ان کی خلافت منصوص نہ تھی ۔مگر کم از کم وہ امت کے اجماع و اتفاق سے توچنے گئے تھے ، ان کے خلاف اور ا ن کے اصحاب ِ با وفا کے خلاف تلوار کھینچنا کیا ایسا عمل تھا ، جس پر خدا راضی تھا ؟حقیقت یہ ہے کہ ” تنزیہ صحابہ “ایک مفروضہ ہے جس کے طرفدارں نے اس بات پر اصرار کرکے اور دباو ڈال کر اس اسلام کے پاکیزہ چہرے کو بگاڑ دیا ہے جو ہر مقام پر شخصیت کی میزان ایمان او ر عمل صالح کو قرار دیتا ہے ۔

آخری بات یہ ہے کہ خدا کی رضا اور خشنود ی جس کا ذکر زیر نظر آیت میں ہے چند امور کے ضمن میں ہے اور وہ ہیں ہجرت نصرت ،ایمان اور عمل صالح ۔تمام صحابہ اور تابعین جب تک ان کے مطابق رہے خدا کی رضا ان کے شامل حال رہی او رجس دن کوئی ان سے دور ہو گیا اس دن وہ رضائے الٰہی سے بھی دور ہو گیا ۔

جوکچھ ہم نے کہا اس سے اچھی طرح واضح ہو جاتا ہے کہ مذکور ہ متعصب مفسریعنی مولف المنار نے شیعوں کی اس بات پر جو سر زنش کی ہے وہ تمام صحابہ کی پاکیزگی اور درستی کا اعتقاد نہیں رکھتے اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ۔ شیعوں نے اس کے سوا کوئی گناہ نہیں کیا کہ انھوں نے حکم ِ عقل ، شہادت ِ تاریخ اور قرآن کی گواہی کو قبول کیا ہے اور متعصب افراد کے فضول اور نادرست امتیازات پر کان نہیں دھرا۔

____________________

۱۔ الغدیر میں یہ حدیثمستدرک حاکم ج ۲ ص ۱۳۶، استعاب ج۲ ص۴۵ اوار شرح ابن ابی الحدید ج۳ ص ۳۵۸ سے نقل کی گئی ہے ۔

۲۔ الغدیر ی ہی میں یہ حدیث طبرانی اور بیہقی سے نقل کی گئی ہے نیز بیہقی نے مجمع میں ، حافظ گنجی نے کفایہ اکمال میں اور کنزل العمال میں نقل کی ہے ۔

۳ ۔ یہ حدیث مختلف نقل ہوئی ہے او رجو کچھ ہم نے بیان کیا ہے اسے جعفر اسکافی نے کتاب نہج العثمانیہ میں ،برہان الدین نے نجبا الانبیاء میں ، ابن ایثر کامل میں اور بعض دیگر علماء نے نقل کیا ہے ( مزید وضاحت کے لئے الغدیر ، عربی کی جلد دوم ص۲۷۸تا ۲۸۶ کی طرف رجوع کریں ۔

۴ ۔تفسیر المنار اور تفسیر کبیر از فخر رازی زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

آیت ۱۰۱

۱۰۱ ۔( وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الْاٴَعْرَابِ مُنَافِقُونَ وَمِنْ اٴَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ لاَتَعْلَمهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَی عَذَابٍ عَظِیم ) ۔

ترجمہ

۱۰۱ ۔بادیہ نشین اعراب جو تمہار ے اطراف میں ہیں ان میں ایک جماعت منافقین کی ہے اور ( خود) اہل مدینہ میں سے ( بھی ) ایک گروہ نفاق کا سخت پابند ہے انھیں تم نہیں پہچانتے اور ہم انہیں پہچانتے ہیں ۔عنقریب ہم انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے ( ایک اجتماعی رسوائی کا عذاب اور دوسرا موت کے وقت کا عذاب ) اس کے بعد ( قیامت میں ) عذابِ عظیم کی طرف بھیجے جائیں گے ۔

تفسیر

قرآن مجید بحث کا رخ دوبارہ منافقین کی طرف موڑ رہا ہے فرمایا گیا ہے : ان لوگوں کے درمیان جو تمہارے شہر ( مدینہ) کے اطراف میں ہیں ایک گروہ منافقین کا موجود ہے( وَمِمَّنْ حَوْلَکُمْ مِنْ الْاٴَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ) ۔

یعنی صرف داخلی منافقین پر توجہ نہ رکھو بلکہ ہوشیا ر رہ کر باہر کے منافقین پر بھی نگاہ رکھو ۔ان کی خطر ناک کار گذاریوں پر نظر رکھو اور ان پر بھی ۔

لفظ ” اعراب “ جیسا کہ پہلے بھی اشارہ کیا جاچکا ہے عام طور بادیہ نشین عروبوں کے لئے بولاجاتا ہے ۔

پھر مزید فرمایا گیا ہے : خود مدینہ میں اور اس شہر کے رہنے والوں میں ایک گروہ ان لوگوں کا ہے کہ جن کا نفاق سرکشی کی حد تک پہنچا ہوا ہے اور وہ اس کے سخت پابند ہیں اور اس میں تجربہ کار ہیں( وَمِنْ اٴَهْلِ الْمَدِینَةِ مَرَدُوا عَلَی النِّفَاقِ ) ۔

” مردودا“ مادہ ”مرد“ ( بر وزن ”سرد“) سے ہے اس کا مطلب ہے مطلق طغیان سر کشی او ربے گانگی ۔ اصل میں یہ ”بر ہنگی“ اور ”تجرد“ کے معنی میں آیا ہے ۔ اسی بنا پر جن لڑکوں کے چہروں پر بال نہ اگے ہوں انھیں ”امرد“ کہتے ہیں ۔” شجرة مرداء “ ایسے درخت کو کہتے ہیں جس پربالکل پتے نہ ہوں اور ”مارد“ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو اطاعت حکم سے بالکل نکل گیا ہو۔

بعض مفسرین اور اہل لغت نے اس مادہ کا ایک معنی ”تمرین “ بھی بیان کیا ہے( ” تاج العروس اور” قاموس“میں بھی اس کا ایک معنی ”تمرین “ ذکر ہوا ہے )۔ یہ شاید اس بناء پر ہو کہ کسی چیز سے مطلق تجرد او رمکمل خروج بغیر تمرین کے ممکن ہیں نہیں ۔

بہر حال یہ منافقین حق و حقیقت سے اس قدر عاری اور اپنے کام میں اتنے ماہر ہیں کہ وہ اپنے آپ کو سچے مسلمانوں میں اس طرح شامل رکھتے ہیں کہ کسی کو ان کے منافق ہونے کا پتہ نہیں ۔ داخلی اور خارجی منافقین کے بارے میں تعبیر کا یہ فرق جو زیرنظر آیت میں دکھائی دیتاہے گویا اس نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ داخلی منافق اپنے کام میں زیادہ ماہر ہیں لہٰذا وہ طبعاً زشیادہ خطر ناک ہیں اور مسلمانوں کو چاہئیے کہ ان پر کڑی نظر رکھیں اگر چہ خارجی منافقین سے بھی غافل نہیں رہنا چاہئیے۔

اسی لئے اس کے بعد بلا فاصلہ فرمایا گیا ہے : تم انھیں نہیں پہچانتے لیکن ہم انھیں پہچانتے ہیں( لاَتَعْلَمهُمْ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ) ۔البتہ یہ پیغمبر کے عمومی علم کی طرف اشارہ ہے مگر یہ اس بات کے منافی نہیں کہ وحی اور تعلیم الہٰی کے ذریعے آپ ان کے اسرار سے پوری طرح واقف تھے ۔

آیت کے آخر میں اس گروہ کےلئے سزا اور سخت عذاب کو یوں بیان کیا گیا ہے : ہم عنقریب انھیں دو مرتبہ عذاب دیں گے اور اس کے بعد و ہ ایک عذاب عظیم کی طرف بھیجے جائیں گے( سَنُعَذِّبُهُمْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ یُرَدُّونَ إِلَی عَذَابٍ عَظِیم ) ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ” عذاب عظیم “روز قیامت کے عذاب اور سزاوں کی طرف اشارہ ہے لیکن یہ کہ اس سے پہلے دو عذابوں کا جو ذکر ہے اس سے کیامراد ہے اس سلسلے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے او رانھوں نے بہت سے احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن زیادہ تر معلوم ہوتا ہے کہ ان میں سے ایک عذاب وہی اجتماعی سزا جو ان کی رسوائی اور ان کے اسرار منکشف ہو جانے کے بعد تمام معاشرتی وقار اور اہمیت کھو جانے کی صورت میں ہو گا اس کا ذکر شاید گذشتہ آیا ت میں موجود ہے اور بعض احادیث میں بھی آیا ہے کہ جب ان لوگوں کا معاملہ خطر ناک مراحل تک پہنچ جا تا تو رسول اللہ ان کا تعارف کروادیتے یہاں تک کہ انھیں مسجد سے بھی نکال دیتے ۔

ان کے لئے دوسری سزا اور عذاب وہی ہے جس کی طرف سورہ انفال کی آیہ ۵۰ میں اشارہ ہو چکا ہے ۔ جہاں فرما یا گیا ہے :( ولو تریٰ اذیتوفی الذین کفروا الملآئکة یضربون وجوههم و ادبار هم ) الخ

اگرتو کافر وں کو اس وقت دیکھے جب موت کے فرشتے ان کی جان لے رہے ہوں کہ کس طرح فرشتے ان کے چہروں اور پشتوں پر ماررہے ہیں او رانھیں سزا دے رہے تو تجھے ان کی حالت پر افسوس ہو گا -

یہ احتمال بھی ہے کہ دوسرا عذاب اندرونی اذیت او رروحانی سزا اور تکلیف کی طرف اشارہ ہو کہ جو مسلمانوں کی ہر طرف سے کامیابی کے زیر اثر انھیں پہنچتی ہے ۔