تفسیر نمونہ جلد ۸

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 28302
ڈاؤنلوڈ: 3199


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 109 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 28302 / ڈاؤنلوڈ: 3199
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 8

مؤلف:
اردو

آیت ۱۰۶

۱۰۶ ۔( وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِاٴَمْرِ اللهِ إِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۱۰۶ ۔ ایک اور گروہ فر مان خدا سے نکل گیا ۔ وہ تو انھیں سزا دے گا اور یا ان کی توبہ قبول کرلے گا (جس کے وہ لائق ہو ں گے) خدا دانا اور حکیم ہے ۔

شان ِ نزول

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا آیت جنگ تبوک سے واپس رہ جانے والے تین اشخاص ہلال بن امیہ ، مرارہ بن ربیع اور کعب بن مالک کے بارے میں ہے ۔ کہ جن کی پشیمانی کی تشریح اور توبہ کی کیفیت اسی سورہ کی آیہ ۱۱۸ کے ذیل میں آئے گی۔

کچھ اور روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مندرجہ بالا آیت بعض کفار کے بارے میں ہے جنھوں نے مسلمانوں کے خلاف مختلف جنگو ں میں عظیم شخصیتوں مثلاً سید الشہداء حضرت حمزہ اور ایسے دیگر افراد کو شہید کیا تھا ۔ اس کے بعد وہ شرک سے دستبردار ہو گئے اور دین اسلام کی طرف آگئے۔

تفسیر

اس آیت میں ایک اور گنہ گار کی طرف اشارہ ہوا ہے ۔ ان لوگوں کا انجام صحیح طور پر واضح نہیں ہے نہ تووہ ایسے ہیں کہ رحمت الہٰی کے مستحق سمجھے جائیں اورنہ ایسے ہیں کہ ان کی بخشش سے بالکل مایوس ہو جا ئے لہٰذا قرآن ان کے بارے میں کہتا ہے : ایک اور گروہ کا معاملہ فرمانِ خد اپر موقوف ہے یا وہ انھیں سزا دے گا اور یا ان کی توبہ قبول کرلے گا( وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِاٴَمْرِ اللهِ إِمَّا یُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا یَتُوبُ عَلَیْهِمْ ) ۔

” مرجون “ کا مادہ ” ارجاء“ سے ہے ۔ یہ تاخیر اور توقف کے معنی میں ہے ۔اصل میں یہ ”رجاء “ سے لیا گیا ہے ۔جس کا معنی امید ہے ۔اس لحاظ سے کہ بعض اوقات انسان کسی کام کو کسی ہدف کے ماتحت تاخیر میں ڈال دیتا ہے یہ لفظ تاخیر کے معنی میں آیا ہے لیکن ایسی تاخیر جس میں امید شامل ہو ۔

حقیقت میں یہ لوگ نہ تو ایسے پا ک مضبوط ایمان اور نیک اعمال کے مالک ہیں کہ انھیں سعادت مند اور اہل نجات سمجھا جاسکے اور نہ ہی ایسے آلودہ اور منحرف ہیں کہ ان کے رخ پر سرخ خط کھینچ دی اجائے اور انھیں بد بخت سمجھ لیا جائے یہاں تک کہ ( ان کے روحانی مقام و مرتبہ کے مطابق ) لطف ِ الہٰی ان کے بارے میں فیصلہ کرے گا ۔

آیت کے آخر میں مزید فرمایا گیا ہے کہ خدا ان کے ساتھ حساب کتاب کے بغیر کو ئی سلوک نہیں کرے گا ۔ بلکہ علم و حکمت کے تقاضے کے مطابق ہی ان سے سلوک کرے گا کیونکہ ”خد اعلیم وحکیم ہے “( وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

ایک سوال اور اس کا جواب

یہاں ایک اہم سوال سامنے آتا ہے ا س کے بارے میں مفسرین نے بہت کم ہی کہیں جامع بحث کی ہے سوال یہ ہے کہ اس گروہ میں اور اس گروہ میں جس کی حالت اسی سورہ کی آیہ ۱۰۲ میں گذر چکی ہے کیا فرق ہے دونوں گروہ گنہ گار تھے اور دونوں نے اپنے گناہ سے توبہ کی۔ پہلے گروہ نے اپنے گناہ کا اعترافکرکے پشمانی کا اظہار کیا ااور دوسرے گروہ کے بارے میں ” امایتوب علیھم “ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی توبہ کی ۔ اسی طرح دونوں گروہ رحمت الہٰی کی توقع رکھتے تھے ۔ اور دونوں خوف و رجاء کے درمیان تھے ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ہم دو طریقوں سے ان دونوں گروہوں میں فر ق کرسکتے ہیں ۔

۱ ۔ پہلے گروہ نے فوراً توبہ کی اور کھلے بندوں پشیمانی کی علامت کے طور پر آپ کو مسجد کے ستون سے باندھ دیا

جیسے ابو لبابہ کے بارے میں آپ پڑھ چکے ہیں ۔مختصر یہ کہ انھوں نے اپنی ندامت کا اظہار صراحت کے ساتھ کیا او ربدنی اور مالی طور پر ہر قسم کی تلافی کے لئے اپنی آمادگی ظاہر کردی ۔

جبکہ دوسرے گروہ کے افراد ایسے تھے جنھوں نے اپنی پشیمانی کی ابتداء میں اپنی کیفیت ظاہرنہیں کی اگر چہ وہ دل میں پشیمان ہوئے تھے اور انھوں نے گزشتہ کی تلافی کے لئے اپنی آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔ حقیقت میں وہ چاہتے تھے کہ ساد گی اور آسانی سے اپنے گناہوں سے گذر جائیں ۔ ان کی واضح مثال وہ تین افراد تھے جن کی طرف سطور بالا میں اشارہ ہوا ہے ۔ ان کی حالت کی وضاحت عنقریب آئے گی یہ لوگ خوف و رجاء کے درمیان تھے لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ نے حکم دیا کہ لوگ ان سے علیحدہ رہیں اور ان سے روابط منقطع رکھیں ۔، اس طرح وہ معاشرے کے شدید دباو کا شکار تھے اور آخر کار وہ مجبور ہوئے کہ پہلے گروہ کا ساراستہ اختیار کریں ۔

ایسے اشخاص کی توبہ کی قبولیت کا اعلان چونکہ آیت نازل ہو نے کی صورت میں ہوا لہٰذا پیغمبر اکرم اس مدت تک وحی کے انتظار میں تھے یہاں تک کہ پچاس دنوں میں یا اس سے کم مدت میں ان کی تو بہ قبول ہو ئی اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ پہلے گروہ کے بارے میں جبتک انھوں نے اپنی روش کو تبدیل نہیں کیا ” واللہ علیم حکیم “کا جملہ آیا ہے ۔ کہ جس میں توبہ قبول ہونے کی کوئی بات نہیں ہے ۔

البتہ باعث تعجب نہیں کہ بڑے بڑے گناہوں کے بارے میں خصوصاً نزول آیات کے زمانے میں صرف ندامت و پشیمانی توبہ قبول ہونے کے لئے کافی نہ ہو ۔ بلکہ تلافی کے لئے اقدام ، واضح طور پر گناہ کا اعتراف اور اس کے بعد آیت کا نزول توبہ قبول ہو نے کے لئے شرط ہو۔

۲ ۔ دوسرا فرق جو ممکن ہے دونوں گروہوں کے درمیان ہو یہ ہے کہ پہلے گروہ نے اگر چہ ایک عظیم اسلامی فریضہ یعنی جہاد سے تخلف کیا تھا یا بعض جنگی اسرار دشمن کو بتائے تھے تا ہم ان کے ساتھ سید الشہداء حمزہ کے قتل جیسے عظیم گناہوں سے آلودہ نہ تھے اس لئے ان کی توبہ او رتلافی کے لئے آمادگی کے بعد خدا تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول کرلی لیکن جناب حمزہ کا قتل ایسا گناہ نہ تھا ج سکی تلافی ہو سکے ۔ اس لئے اس گروہ کی نجات حکم ِ خدا سے وابستہ تھی کہ وہ انھیں اپنی عفو بخشش سے نوازتا ہے یا انھیں سزا اور عذاب میں مبتلا کرتا ہے ۔

بہر حال پہلا جواب آیت کی شان نزول کے بارے میں مروی ان روایات سے مطابقت رکھتا ہے جو محل بحث آیت کو جنگ تبوک سے متخلف تین افراد کے ساتھ ربط رکھتی ہیں دوسرا جواب ان روایات سے موافقت رکھتا ہے جو طرق اہل بیتعليه‌السلام سے پہنچی ہیں اور جن میں ہے کہ یہ آیت حمزہ ، جعفر او راس قسم کے دیگر افراد کے بارے میں ہے ۔ ۱

اگر صحیح غور و فکر کیا جائے تو یہ دونوں جوابات ایک دوسرے کے منافی نہیں ہیں اور ممکن ہے کہ آیت کی تفسیر میں دونوں ہی مراد ہوں ۔

____________________

۱۔ ان روایات کو جاننے کے لئے تفسیر نور الثقلین جلد ۲ ص ۲۶۵ اور تفسیر بر ہان جلد۲ ص ۱۰۶ کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیات ۱۰۷،۱۰۸،۱۰۹،۱۱۰

۱۰۷ ۔( وَالَّذِینَ اتَّخَذُوا مَسْجِدًا ضِرَارًا وَکُفْرًا وَتَفْرِیقًا بَیْنَ الْمُؤْمِنِینَ وَإِرْصَادًا لِمَنْ حَارَبَ اللهَ وَرَسُولَهُ مِنْ قَبْلُ وَلَیَحْلِفُنَّ إِنْ اٴَرَدْنَا إِلاَّ الْحُسْنَی وَاللهُ یَشْهَدُ إِنّهُمْ لَکَاذِبُونَ ) ۔

۱۰۸ ۔( لاَتَقُمْ فِیهِ اٴَبَدًا لَمَسْجِدٌ اٴُسِّسَ عَلَی التَّقْوَی مِنْ اٴَوَّلِ یَوْمٍ اٴَحَقُّ اٴَنْ تَقُومَ فِیهِ فِیهِ رِجَالٌ یُحِبُّونَ اٴَنْ یَتَطَهرُوا وَاللهُ یُحِبُّ الْمُطّهِّرِینَ ) ۔

۱۰۹ ۔( اٴَفَمَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَی تَقْوَی مِنْ اللهِ وَرِضْوَانٍ خَیْرٌ اٴَمْ مَنْ اٴَسَّسَ بُنْیَانَهُ عَلَی شَفَا جُرُفٍ هَارٍ فَانْهَارَ بِهِ فِی نَارِ جَهَنَّمَ وَاللهُ لاَیَهْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِینَ ) ۔

۱۱۰ ۔( لاَیَزَالُ بُنْیَانُهُمْ الَّذِی بَنَوْا رِیبَةً فِی قُلُوبِهِمْ إِلاَّ اٴَنْ تَقَطَّعَ قُلُوبُهُمْ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۱۰۷ ۔ (مزید بر آں ) وہ لوگ ہیں جنھوں نے ( مسلمانوں کو ) نقصان پہنچائے اور کفر ( کوتقویت دینے ) کے لئے اور مومنین میں تفرقہ ڈالنے کی خاطر ایسے افراد کے لئے کمین گاہ مہیا کرنے کے جنھوں نے پہلے ہی اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ کی ہے ، مسجد بنائی ہے وہ قسم کھاتے ہیں کہ ہمرا مقصد سوائے نیکی ( اور خدمت) کے اور کچھ نہیں لیکن خدا گوہای دیتا ہے کہ وہ جھوٹے ہیں ۔

۱۰۸ ۔ اس میں ہر گز قیام ( او رعبادت ) نہ کرنا ۔ وہ مسجد جو روز اول سے تقویٰ کی بنیاد پربنی ہے زیادہ حق رکھتی ہے کہ تم اس میں قیام ( اور عبادت ) کرو ۔اس میں ایسے مرد ہیں جو پاک او رپا کیزہ رہنا پسند کرتے ہیں اور خدا پاک رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے ۔

۱۰۹ ۔ کیا وہ شخص جس نے اس کی بنیادتقویٰ الٰہی اور اس کی خوشنودی پر رکھی ہے بہتر ہے یاوہ شخص جو نے اس کی بنیاد گرنے والی کمزور جگہ پررکھی ہے کہ جو اچانک جہنم کی آ گ میں گرجائے گی اور خدا کی ظالم گروہ کو ہدایت نہیں کرتا ۔

۱۱۰ ۔ (لیکن ) یہ بنیاد جو انھوں نے رکھی ہے، اس کے دلوں میں ہمیشہ شک اور تردد کے ذریعے کے طور پر باقی رہے گی۔ مگر یہ کہ ان کے دل کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجائیں (اور وہ مر جائیں ورنہ چیز ان کے دلوں سے نہیں نکلے گی ) اور خدا دانا و حکیم ۔

شان نزول

زیر نظر آیات منافقین کے ایک گروہ کے بارے میں ہیں ۔ جنھوں نے اپنی منحوس سازشوں کی تکمیل کے لئے مدینہ میں ایک مسجد قائم کی تھی جو بعد میں ” مسجد ضرار“ کے نام سے مشہور ہ وئی ۔ یہ بات تمام اسلامی مفسرین اور بہت سی کتب حدث و تاریخ نے ذکر کی ہے ،اگر چہ اس کی تفصیلات میں کچھ فرق نظر آتا ہے ۔مختلف تفاسیر اور احادیث سے جو کچھ معلوم ہوتا ہے اس کے پیش نظر اس واقعہ کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے :

کچھ منافقین رسول اللہ کے پاس آئے عرض کی ا: ہمیں اجازت دیجئے کہ ہم قبیلہ بنی سالم کے درمیان ، مسجد قبا کے قریب ایک مسجد بنالیں تاکہ ناتواں ، بیمار اور بوڑھے جو کوئی کام نہیں کرسکتے اس میں نماز پڑھ لیا کریں ۔ اسی طرح راتوں میں بارش ہوتی ہے ان میں جو لوگ آپ کی مسجد میں نہیں آسکتے اپنے اسلامی فریضة کو اس میں انجام دے لیا کریں ۔

یہ اس وقت کی بات ہے جب پیغمبر خدا جنگ تبوک کا عزم کرچکے تھے آنحضرت نے انھیں اجازت دے لیا کریں ۔

انھوں نے مزید کہا : کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ خود آکر اس میں نماز پڑھیں ؟ بنی اکرم نے فرمایا: اس وقت تو میں سفر کا ارادہ کرچکا ہو ں البتہ واپسی پر خدا نے چاہا تو اس مسجد میں آکر نماز پڑھو ں گا ۔

جب آپ جنگ تبوک سے لوٹے تو یہ لوگ آپ کے پاس آئے اور کہنے لگے :ہماری در خواست ہے کہ آپ ہماری مسجد میں آکر نماز پڑھائیں اور خدا سے دعا کریں ہمیں برکت دے ۔

یہ اس وقت کی بات ہے کہ جب ابھی آنحضر ت مدینہ کے دروازے میں داخل نہیں ہوئے تھے اس وقت وحی خدا کا حامل فرشتہ نازل ہوا اور مندرجہ بالا آیات لایا اور ان کے کرتوت سے پردہ اٹھا یا ۔

اس کے فوراً بعد رسول اللہ نے حکم دیا کہ مذکورہ مسجد کو جلا دیا جائے اور اس کے باقی حصے کو مسمار کردیا جائے اور اس کی جگہ کو ڑا کرکٹ ڈال جایا کرے ۔

ان لوگوں کے ظاہراً کام کو دیکھا جا ئے تو ہمیں شروع میں تو اس حکم پر حیرت ہو گی کہ کیا بیماروں اور بوڑھوں کی سہولت کے لئے اور اضطراری مواقع کے لئے مسجد بنانا برا کام ہے جبکہ یہ ایک دینی اور انسانی خدمت معلوم ہوتی ہے کیا ایسے کام کے بارے میں یہ حکم صادر ہو اہے ؟ لیکن اگر ہم اس معاملہ کی حقیقت پر نظر کریں گے تو معلوم ہوگاکہ یہ حکم کس قدر بر محل و جچا تلا تھا ۔

اس کی وضاحت یہ کہ ابو عامر نامی ایک شخص نے عیسائیت قبول کرلی تھی اور راہبوں کے مسلک سے منسلک ہو گیا تھا ۔ اس کا شمار عابدوں اور زاہدوں میں ہوتا تھا ۔ قبیلہ خزرج میں اس کا گہرا رسوخ تھا ۔ رسول اللہ نے جب مدینہ کی طرف ہجرت کی اور مسلمان آپ کے گرد جمع ہو گئے تو با وعامر جو خود کبھی پیغمبر کے ظہور کے خبر دینے والوں میں سے تھا نے دیکھا کہ اس کے گرد ا گرد سے لوگ چھٹ گے ہیں اس پر وہ اسلام کے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑاہوا۔ وہ مدینہ سے نکلا اور کفار کے پاس پہنچا اس نے ان سے پیغمبر اکرم کے خلاف جنگ کے لئے مدد چاہی اور قبائل عرب کو بھی تعاون کی دعوت دی ۔ وہ خود مسلمانوں کے خلاف جنگ ِ اھد کی منصوبہ بندی میں شریک رہا تھا اور راہنمائی کرنے والوں میں سے تھا ۔ اس نے حکم دیا کہ لشکر کی دو صفو ں کے در میان گڑھے کھودے جائیں ۔ اتفاقاً پیغمبر ِ اسلام ایک گڑھے میں گر پڑے ، آپ کی پیشانی پر زخم آئے اور دندان ِ مبارک ٹوٹ گئے۔

جنگ احدختم ہوئی ، مسلمانوں کو اس میدان میں آنے والی مشکلات کے باوجوداسلام کی آواز بلند تر ہوئی او رہر طرف صدائے اسلام گونجنے لگی ۔ تو مدینہ سے بھاگ گیا اور بادشاہ روم ہر قل کے پاس پہنچا تا کہ اس سے مدد چاہے اور مسلمانوں کی سر کوبی کے لئے ایک لشکر مہیا کرے ۔

اس نکتے کابھی ذکر ضروری ہے کہ ان کی ان کارستانیوں کی وجہ سے پیغمبر اسلام نے اسے ”فاسق “ کا لقب دے رکھا تھا ۔

بعض کہتے ہیں کہ موت نے اسے مہلت نہ دی کہ اپنی آرزو ہر قل سے کہتا لیکن بعض دوسری کتب میں ہے کہ وہ ہر قل سے جاکر ملا اور اس کے وعدوں سے مطمئن اور خوش ہوا ۔

بہر حال اس نے مرنے سے پہلے مدینہ کے منافقین کو ایک خط لکھا اور انھیں خوشخبری دی کہ روم کے ایک لشکر کے ساتھ وہ ان کی مدد کو آئے گا ۔ اس نے انھیں خصوصی تاکید کی کہ وہ اس کے لئے ایک مرکز بنائیں تاکہ اس کے آئندہ کی کا گذار یوں کے لئے وہ کام دے سکے لیکن ایسا مرکز چونکہ مدینہ میں اسلام دشمنوں کی طرف سے اپنے نام پر قائم کرنا عملی طو رپر ممکن نہ تھا ۔ لہٰذا منافقین نے مناسب یہ سمجھا کہ مسجد کے نام پر بیماروں ار معذروں کی مدد کی صور ت میں اپنے پروگرام کو عملی شکل دیں ۔

آخر کار مسجد تعمیر ہو گئی یہاں تک کہ مسمانوں میں سے مجمع بن حارثہ( یامجمع جاریہ ) نامی ایک قرآن فہم نوجوان کو مسجد کی امات کے لئے بھی چن لیا گیا لیکن وحی الٰہی نے ان کے کا مسے پردہ اٹھا دیا۔

یہ جو پیغمبر اکرم نے جنگ تبوک کی طرف جانے سے قبل ان کے خلاف سخت کار روائی کاحکم نہیں دیا اس کی وجہ شاید یہ ہوکہ ایک تو ان کی حقیقت زیادہ واضح ہوجائے اور دوسرا یہ کہ تبوک کے سفر میں اس طرف سے کوئی اور ذہنی پریشانی نہ ہو۔ بہر حال جو کچھ بھی تھا رسول اللہ نے نہ صرف یہ کہ مسجد میں نماز پڑھی بلکہ بعض مسلمانوں ( مالک بن خشم ، معنی بن عدی اور عامر بن سکر یا عاصم بن عدی ) کو حکم دیا کہ مسجد کو جلا دیں اور پھر اس کی دیواروں کو مسمار کروادیا۔ اور آخر کار اسے کوڑا کر کٹ پھینکنے کی جگہ قرار دے دیا۔ ۱

____________________

۱-مجمع البیان ، تفسیر ابو الفتوح رازی ، تفسیر المنار ، تفسیر المیزان ، تفسیر نور الثقلین اور دیگر کتب۔