عرض مترجم(نسخۂ عربی)
بلاشک و شبہ ، امت اسلامی میں اتحاد ایک مطلوب امر ہے ابتدا ئے اسلام ہی سے، بلکہ دین اسلام کے اصلی متون، یعنی قرآن و احادیث میں بھی اتحاد کے لئے تاکید کی گئی ہے۔
لیکن زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کلمات کی طرح، کلمۂ وحدت کے مفہوم میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ،یہاں تک کہ دور حاضر اس کے جو مفہوم مراد لیا جارہا ہے وہ اس کے ماضی کے معنی سے بالکل الگ اور بے گانہ ہے۔
جیسا کہ علم، امامت، خلافت، حکمت، زہد، جیسے کلمات میں بھی اس قسم کی تحریفات واقع ہوئی ہیں اور دور حاضر میں کلمۂ وحدت کو مندرجہ ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے:
١۔ وحدت یعنی مخالفین کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کاعلمی مناظرہ نہ کیا جائے ۔
٢۔ وحدت یعنی تمام مذاہب حق پر ہیں۔
٣۔ وحدت یعنی اس بات پر عقیدہ ہو کہ روز قیامت نجات صرف اور صرف امامیہ مذہب سے مخصوص نہیں ۔
٤۔ وحدت یعنی بعض شیعی عقائد اور مذہبی متون میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔
٥۔ وحدت یعنی مسلمانوں کے اختلاف کو اجتہادی سمجھا جائے۔
٦۔ وحدت یعنی تمام صحابہ کی تائید کی جائے۔
وحدت کے متعلق اہل تسنن کا نظریہ یہ ہے:
حق کسی مخصوص گروہ میں منحصر نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقوں میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔
اسی طرح روز قیامت، نجات بھی کسی خاص فرقہ سے مخصوص نہیں ،اور مسلمانوں میں تمام فکری اختلافات دینی نصوص میں مطلوب اور مورد تائید اجتہاد کا نتیجہ ہیں لہٰذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم دیگر فرقوں کے آراء و عقائد باطل سمجھیں اور انھیں حقیقت سے بے خبر جانیں بلکہ جہاں جہاں اختلاف ہو وہاں سکوت اختیار کیا جائے۔
شیعوں کو بھی حق دیا جائے، انھیں فتنہ پرور نہ کہا جائے، اور نہ ہی ان سے نفرت و بیزاری کو دل نکال دیا جائے، کیونکہ یہ عمل شائستہ نہیں ، جبکہ ہمارے اور اہل تشیع کے درمیان اعتقادی اصول اور اکثر فقہی ارکان میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، صرف اختلا ف امامت کے مصداق میں ہے شیعہ امامت کا انکار نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس امامت اور خلافت کی (حقانیت) پر شرعی دلائل بھی موجود ہیں. اور اس زمانہ میں خلافت کے متعلق گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ، اور ہم سے کیا مطلب کہ انھوںنے ماضی میں کیا کارنامے انجام دیئے اور کن چیزوں کو ترک کیا۔
لیکن شیعوں کے نزدیک وحدت کے منصوص معانی یہ ہیں:
١۔ تمام مذاہب اور فرقوں کی پیروی کرنے والے آپس میں میل ملاپ کے ساتھ زندگی گزاریں۔
٢۔ ان کے اجتماعی روابط میں گشیدگی نہ ہو۔
٣۔ اعتقادات اور مذہبی سنتوں کی محافظت کے ساتھ تعصب کو ختم کیا جائے تاکہ اجتماعی زندگی میں فتنہ کے بجائے امنیت برقرار ہو۔
٤۔ کسی قسم کے لئے حساس پہلو کو اجاگر کرنے سے پرہیز کیا جائے ، جو شخص سماج کے دینی یا دنیاوی امور کے لئے نقصان دہ ہو۔
اور یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اس روش کے اختیار کرنے کا مقصد، کسی کو نقصان پہنچائے بغیر دین اسلام کی محافظت ہے. ہم اعتقادی اور مذہبی اختلافات کے ہوتے ہوئے کبھی اس بات کے لئے حاضر نہیں کہ مسلمانوں اور اسلامی معاشرے میں تعصب اور فتنہ ایجاد کریں اورمبنائی اختلاف اور فتنہ و فساد، یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں. فتنہ سے اجتماعی روابط خراب ہوتے ہیں اور وہ فکری اختلاف جن کی بنیاد پوری طرح سے علمی اصول پر استوار ہوتی، ان سے کبھی اجتماعی روابط خراب نہیں ہوتے۔
٢۔ سب سے پہلی مرتبہ ڈاکٹر عصام العماد سے انٹرٹت کے ذریعہ میرا تعارف ہوا اور وھابی عثمان الخمیس سے آپ کے بعض مناظروں کا مطالعہ بھی کیا جس کے نتیجہ میں ، میں آپ کی روش کا شیفتہ و فریفتہ ہوگیا آپ کی گفتار میں ادب، لہجہ میں اطمینان، مناظرہ میں ایک خاص روش کی عکاسی کرتا ہے چند دن بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ خود ڈاکٹر عصام عماد کچھ عرصہ پہلے ایک متعصب اور کٹر وہابی تھے اور کئی سال آپ نے یمن و سعودی عرب میں بڑھ چڑھ کر شیعیت کی مخالفت کی، لیکن خدا کی عنایت او ر اس کے فضل سے آپ شیعہ ہوگئے اور ہمیشہ آپ نے کوشش کی کہ بنحو احسن وہابی علماء سے مناظرہ و گفتگو کریں. جب میں اس بات سے آگاہ ہوا کہ ڈاکٹر عصام العماد نے وہابی علماء سے طریقۂ گفتگو کے متعلق بنام'' المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین''کتاب لکھی ہے تو میں نے ان سے اپنے کسی دوست کے ذریعہ ملاقات کی اور یہ کتاب ''گفتگو کا سلیقہ'' ان ہی چند ملاقاتوں کا نتیجہ ہے۔
٣۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم وہابیوں سے روابط برقرار کرنے کا طریقہ جانیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ شیعیت سے آگاہ کریں،تاکہ ان کے لئے راستہ ہموار ہو اور وہ اہلبیت ٪ کے شیعہ بن جائیں. مصنف نے ہمیشہ وہابیوں کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ مذہب اہلبیت (ع) سے آشنا ہوں اور وہ معتقد ہیں کہ بعض وہابی جو کہ نہ متعصب ہیں اور نہ ہی دشمنوں کے بہکانے پر بہکے ہیں، اگر انھیں حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو ڈاکٹر عصام کی طرح وہ بھی حق کو قبول کریں گے۔
کلمۂ وحدت و تقریب سے مصنف کی مراد یہ ہے کہ اختلاف کو ختم کرتے ہوئے ہم سب آپسی سمجھوتے کی طرف قدم بڑھائیں، اس امید کے ساتھ کہ تمام عالم میں شیعیت کا پرچم لہرائے۔
حقیقت میں یہ کتاب ''رحلتی من الوہابیة الی الأثنیٰ عشریة'' کا خلاصہ ہے۔
٤۔ یہ کتاب ''المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین ''کا لفظی ترجمہ نہیں ، بلکہ ڈاکٹر عصام سے گفتگو کے بعد میں نے ترجمہ کے ساتھ اس کتاب کی تصحیح کا کام بھی شروع کیا، جس کے نتیجہ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں وہ یہ ہیں:
١: تکراری مطالب کا حذف کرنا ٢: طولانی عبارتوں کا خلاصہ کرنا ٣: ایرانی ثقافت اور فارسی زبان سے ہماہنگی کو مدنظر رکھنا ٤: بلند و طولانی حاشیوں کو متن میں قرار دینا۔
٥۔ مصنف کے معنی و مراد کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کلمات کا انتخاب کرنا، بطور مثال، مصنف نے جہاں کلمۂ وحدت یا تقریب سے استفادہ کیا ہے ان سے مشورہ کے بعد میں کلمۂ تفاہم یا ہمزیستی مسالمت آمیز کو استعمال کیاہے. اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مصنف نے اس کتاب میں شیعیت کو'' المذہب الاثنیٰ عشری'' کے نام سے یاد کیا ہے او راس کلمہ کے استعمال پر تاکید بھی کی، اور معتقد ہیں، کہ وہابیوں کے لئے یہ کلمہ حساس نہیں ، تشیع اور شیعیت، ایسے کلمات ہیں جن کا دائرہ معنی کے لحاظ سے بہت وسیع ہی ہے اور شیعہ، دوازدہ امامی کے علاوہ، دوسرے فرقوں کو بھی کہا جاتا ہے، جبکہ وہ تمام فرقے امامیہ کے نزدیک باطل ہیں۔
لیکن قارئین کی سہولت اور عبارت کی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، میں نے تشیع ،شیعہ، امامیہ، شیعہ امامیہ اور شیعہ ٔ دوازدہ امامی جیسے تمام کلمات سے استفادہ کیاہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ ان تمام کلمات سے مراد صرف اور صرف مذہب اثنیٰ عشری اور شیعۂ دوازدہ امامی ہی ہیں۔
والسلام علی من اتبع الہدی
مصطفی اسکندری
قم