گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ 0%

گفتگو کا سلیقہ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف: ڈاکٹر عصام العماد
زمرہ جات:

مشاہدے: 8747
ڈاؤنلوڈ: 2860

گفتگو کا سلیقہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8747 / ڈاؤنلوڈ: 2860
سائز سائز سائز

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

نام کتاب : گفتگو کا سلیقہ

مؤلف : ڈاکٹر عصام العماد

مترجم: مرزا محمد جواد

تصحیح: محمد کامل

نظر ثانی: سیدحمید الحسن

پیشکش: معاونت فرہنگی ،ادارۂ ترجمہ

کمپوزنگ : ابو زینب

ناشر: مجمع جہانی اہل بیت (ع)

طبع اول : ١٤٢٧ھ ٢٠٠٦ ء

تعداد : ٣٠٠٠

مطبع : اعتماد

انتساب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

اس کتاب کو اپنے پدر بزرگوار علی یحییٰ العماد کی خدمت میں پیش کرتاہوں جن کے علم و دانش اور طریقۂ کار سے میں مالا مال ہوا. وہ پدر کہ جو خیالی نہیں بلکہ ایک حقیقی مسلمان تھے جن کا طریقۂ کار قرآنی اصولوں پر استوار تھا جنھوں نے مسلمانوں کی مشکلات کو حل کرنے اورالٰہی آیات کے سایہ میں بچوں کی تربیت میں بے حد کوششیں کیں۔

عصام العماد

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ٢٣ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشتپناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّام آقای ڈاکٹر عصام العماد کی گرانقدر کتاب گفتگوی بی ستیز کو فاضل جلیل مولانا مرزا محمد جواد نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

عرض ناشر

حقیقت میں عشق ایک ایساراستہ ہے جو عاشقان نور کواپنی طرف جذب کرکے انھیں حقیقت کی آغوش تک پہنچاتا ہے اور پروردگار عالم کی خوشنودی کا سبب بنتاہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ راستہ سختیوں اور حساس پیچ و خم سے مملو ہے. اس راستہ پر چلنے والے صرف وہی لوگ ہوتے ہیں جن کے صبر کا پیمانہ وسیع اور فکر میں استقامت ہو. اس سخت و خوفناک سفر کو طے کرنے کے لئے ایک ایسے مرکب کا ہونا ضروری ہے جو حقیقت کا سفر کرنے والوں اور عاشقان نور کو مشکلات اور طوفان میں گرفتار ہونے سے بچائے۔

بے شک حقیقت جوئی کے اس پر خطر سفر میں (بالخصوص جہاں مذہب حق کی بات درپیش ہو) جذبات و احساسات کے بجائے عقل و خرد سے کام لینا ضروری ہے اورا س مقام پر گنجائش نہیں کہ ہم حق و حقیقت کے بارے میں کچھ کہہ سکیں چونکہ یہ کتاب خود حق و حقیقت کو پہچنوانے کے لئے ایک مفید نمونہ اور زندہ مثال ہے جس میں حقیقت جوئی کے پر پیچ و خم سفر کو پیش کیا گیا ہے۔ لہٰذا الگ سے اس موضوع پر بحث کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی۔

کسی بھی کتاب کے علمی معیار کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کتاب کے مصنف کی موضوع پر مہارت اور تجربہ کا اندازہ لگائیں، تو اس کتاب کی اہمیت دوچندان ہو جاتی ہے اور یہ دو خصوصیتیں (موضوع پر مہارت، تجربہ) اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر سید عصام میں بخوبی پائی جاتی ہیں۔

شیعہ اور اہل سنت کے لئے ڈاکٹر عصام ایک ایسے دانشور ہیں جوسالہا سال دینی علوم سے وابستہ تھے اور آپ نے حقیقت کی تلاش میں کافی تجربات بھی حاصل کئے۔

یہ وہی متعصب وہابی ہیں کہ جنھوں نے خود کو وہابیت کی ظلمتوں سے نجات دلا کر اپنے عقیدہ و فکر کو اہل بیت ٪ کے نورانی کارواں سے منسلک کرلیا ،گرچہ پہلے بھی سیادت کی بنا پر اس نورانی کارواں سے منسلک تھے۔

انھوں نے حقیقت جوئی کے اس سفر میں بے شمار تجربات حاصل کئے جن کی طرف قارئین محترم مطالعہ کے دوران متوجہ ہوں گے، ڈاکٹر عصام کا یہ طویل تجربہ ایک خاص اہمیت کا حامل ہے۔

یمن کا سنی معاشرہ آپ کو شہر صنعا کی مسجد میں امام جماعت اور ایک مدرس کی حیثیت سے جانتا تھا یہ وہی طالب علم تھے کہ جنھوں نے قاضی احمد سلامہ محمد بن اسماعیل عمرانی اور ڈاکٹر الوہاب دیلمی جیسے یمن کے بزرگ وہابی علماء کے سامنے زانوے ادب تہہ کیا اور اس کے بعد فن حدیث میں ریاض کی ابن سعود ریاض کی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور آہستہ آہستہ سعودی عرب کے بزرگ مفتی ابن باز کے نزدیک حاضر ہونے کی اجازت حاصل کی جن سے متاثر ہوکر آپ نے شیعیت کے خلاف سخت موقف اختیار کیا اور آپ کا شمار شیعیت کے سخت ترین دشمنوںمیں ہونے لگا۔

لیکن پروردگار عالم مومنین کا سرپرست ہے اور انھیں تاریکیوں سے نکال کر نور کی طرف ہدایت کرتا ہے.(۱) اور خدا جس چیز کا ارادہ کرلے اسے انجام دیتا ہے.(۲) خدا کی طرف سے ہدایت و توفیق کے نتیجہ میں آہستہ آہستہ ان کا کٹر وھابی دل نرم ہونے لگا اور وہ چشمۂ حقیقت سے سیراب ہوئے. سب سے پہلے ڈاکٹر عصام عماد اہل سنت کے ان ضعیف اقوال کی طرف متوجہ ہوئے جو علم رجال میں جرح و تعدیل کی بحث سے مربوط ہیں اور اسی مقام پر آپ نے سنی علماء کے فکری انحراف کو بہت ہی قریب سے محسوس کیا. یہی وہ پہلا قدم تھا جسے ڈاکٹر عصام نے حق و حقیقت کی تلاش میں اٹھایا۔

اس مقام پر مصنف کے متعلق مزید گفتگو کی گنجائش نہیں چونکہ خود مصنف نے اس کتاب میں اپنے متعلق واقعات کو بیان کیا ہے مصنف کی اس کتاب اور دوسری کتابوں اور مناظروں کا مقصد مذہب امامیہ کے اعتقادات کو صحیح اور مناسب طور پر سنی حضرات سامنے پیش کرنا ہے تاکہ وہ بھی مذہب اہل بیت سے منسلک ہو کر تمام مسلمانوں میں اتحاد اورگفتگو کی راہ پیدا کریں، انشاء اللہ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ ایک دن مسلمانوں کا یہ آپسی اختلاف ختم ہو جائے گا (الہٰی آمین)

اب سوال یہ ہے کہ اس کتاب کو لکھنے میں جس روش کو مصنف نے انتخاب کیا ہے وہ کس حد تک قارئین کے لئے مؤثر واقع ہوگی؛ ہم معتقد ہیں کہ ڈاکٹر عصام العماد اس روش میں موفق اور کامیاب رہیہیں لہٰذاا قارئین سے گذارش ہے کہ وہ اپنی نیک آراء سے ہم کو مستفیض فرمائیں۔

مؤسسہ معارف اسلامی کوثر

قم

____________________

(١) سورۂ بقرہ، آیت ٢٥٧

(٢) سورۂ حج، آیت ١٤

نوٹ: یہ عرض ناشر فارسی ترجمہ سے مربوط ہے۔

عرض مترجم(نسخۂ عربی)

بلاشک و شبہ ، امت اسلامی میں اتحاد ایک مطلوب امر ہے ابتدا ئے اسلام ہی سے، بلکہ دین اسلام کے اصلی متون، یعنی قرآن و احادیث میں بھی اتحاد کے لئے تاکید کی گئی ہے۔

لیکن زمانہ کے گذرنے کے ساتھ ساتھ دوسرے کلمات کی طرح، کلمۂ وحدت کے مفہوم میں بھی تبدیلی واقع ہوئی ،یہاں تک کہ دور حاضر اس کے جو مفہوم مراد لیا جارہا ہے وہ اس کے ماضی کے معنی سے بالکل الگ اور بے گانہ ہے۔

جیسا کہ علم، امامت، خلافت، حکمت، زہد، جیسے کلمات میں بھی اس قسم کی تحریفات واقع ہوئی ہیں اور دور حاضر میں کلمۂ وحدت کو مندرجہ ذیل معانی میں استعمال کیا جاتا ہے:

١۔ وحدت یعنی مخالفین کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرتے ہوئے ان کے ساتھ کسی بھی قسم کاعلمی مناظرہ نہ کیا جائے ۔

٢۔ وحدت یعنی تمام مذاہب حق پر ہیں۔

٣۔ وحدت یعنی اس بات پر عقیدہ ہو کہ روز قیامت نجات صرف اور صرف امامیہ مذہب سے مخصوص نہیں ۔

٤۔ وحدت یعنی بعض شیعی عقائد اور مذہبی متون میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

٥۔ وحدت یعنی مسلمانوں کے اختلاف کو اجتہادی سمجھا جائے۔

٦۔ وحدت یعنی تمام صحابہ کی تائید کی جائے۔

وحدت کے متعلق اہل تسنن کا نظریہ یہ ہے:

حق کسی مخصوص گروہ میں منحصر نہیں بلکہ تمام اسلامی فرقوں میں کم و بیش پایا جاتا ہے ۔

اسی طرح روز قیامت، نجات بھی کسی خاص فرقہ سے مخصوص نہیں ،اور مسلمانوں میں تمام فکری اختلافات دینی نصوص میں مطلوب اور مورد تائید اجتہاد کا نتیجہ ہیں لہٰذا ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم دیگر فرقوں کے آراء و عقائد باطل سمجھیں اور انھیں حقیقت سے بے خبر جانیں بلکہ جہاں جہاں اختلاف ہو وہاں سکوت اختیار کیا جائے۔

شیعوں کو بھی حق دیا جائے، انھیں فتنہ پرور نہ کہا جائے، اور نہ ہی ان سے نفرت و بیزاری کو دل نکال دیا جائے، کیونکہ یہ عمل شائستہ نہیں ، جبکہ ہمارے اور اہل تشیع کے درمیان اعتقادی اصول اور اکثر فقہی ارکان میں کسی بھی قسم کا اختلاف نہیں پایا جاتا، صرف اختلا ف امامت کے مصداق میں ہے شیعہ امامت کا انکار نہیں کرتے بلکہ ان کے پاس امامت اور خلافت کی (حقانیت) پر شرعی دلائل بھی موجود ہیں. اور اس زمانہ میں خلافت کے متعلق گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ، اور ہم سے کیا مطلب کہ انھوںنے ماضی میں کیا کارنامے انجام دیئے اور کن چیزوں کو ترک کیا۔

لیکن شیعوں کے نزدیک وحدت کے منصوص معانی یہ ہیں:

١۔ تمام مذاہب اور فرقوں کی پیروی کرنے والے آپس میں میل ملاپ کے ساتھ زندگی گزاریں۔

٢۔ ان کے اجتماعی روابط میں گشیدگی نہ ہو۔

٣۔ اعتقادات اور مذہبی سنتوں کی محافظت کے ساتھ تعصب کو ختم کیا جائے تاکہ اجتماعی زندگی میں فتنہ کے بجائے امنیت برقرار ہو۔

٤۔ کسی قسم کے لئے حساس پہلو کو اجاگر کرنے سے پرہیز کیا جائے ، جو شخص سماج کے دینی یا دنیاوی امور کے لئے نقصان دہ ہو۔

اور یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ اس روش کے اختیار کرنے کا مقصد، کسی کو نقصان پہنچائے بغیر دین اسلام کی محافظت ہے. ہم اعتقادی اور مذہبی اختلافات کے ہوتے ہوئے کبھی اس بات کے لئے حاضر نہیں کہ مسلمانوں اور اسلامی معاشرے میں تعصب اور فتنہ ایجاد کریں اورمبنائی اختلاف اور فتنہ و فساد، یہ دو الگ الگ چیزیں ہیں. فتنہ سے اجتماعی روابط خراب ہوتے ہیں اور وہ فکری اختلاف جن کی بنیاد پوری طرح سے علمی اصول پر استوار ہوتی، ان سے کبھی اجتماعی روابط خراب نہیں ہوتے۔

٢۔ سب سے پہلی مرتبہ ڈاکٹر عصام العماد سے انٹرٹت کے ذریعہ میرا تعارف ہوا اور وھابی عثمان الخمیس سے آپ کے بعض مناظروں کا مطالعہ بھی کیا جس کے نتیجہ میں ، میں آپ کی روش کا شیفتہ و فریفتہ ہوگیا آپ کی گفتار میں ادب، لہجہ میں اطمینان، مناظرہ میں ایک خاص روش کی عکاسی کرتا ہے چند دن بعد اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ خود ڈاکٹر عصام عماد کچھ عرصہ پہلے ایک متعصب اور کٹر وہابی تھے اور کئی سال آپ نے یمن و سعودی عرب میں بڑھ چڑھ کر شیعیت کی مخالفت کی، لیکن خدا کی عنایت او ر اس کے فضل سے آپ شیعہ ہوگئے اور ہمیشہ آپ نے کوشش کی کہ بنحو احسن وہابی علماء سے مناظرہ و گفتگو کریں. جب میں اس بات سے آگاہ ہوا کہ ڈاکٹر عصام العماد نے وہابی علماء سے طریقۂ گفتگو کے متعلق بنام'' المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین''کتاب لکھی ہے تو میں نے ان سے اپنے کسی دوست کے ذریعہ ملاقات کی اور یہ کتاب ''گفتگو کا سلیقہ'' ان ہی چند ملاقاتوں کا نتیجہ ہے۔

٣۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم وہابیوں سے روابط برقرار کرنے کا طریقہ جانیں اور انھیں زیادہ سے زیادہ شیعیت سے آگاہ کریں،تاکہ ان کے لئے راستہ ہموار ہو اور وہ اہلبیت ٪ کے شیعہ بن جائیں. مصنف نے ہمیشہ وہابیوں کے لئے راستہ ہموار کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ مذہب اہلبیت (ع) سے آشنا ہوں اور وہ معتقد ہیں کہ بعض وہابی جو کہ نہ متعصب ہیں اور نہ ہی دشمنوں کے بہکانے پر بہکے ہیں، اگر انھیں حقیقت سے آگاہ کیا جائے تو ڈاکٹر عصام کی طرح وہ بھی حق کو قبول کریں گے۔

کلمۂ وحدت و تقریب سے مصنف کی مراد یہ ہے کہ اختلاف کو ختم کرتے ہوئے ہم سب آپسی سمجھوتے کی طرف قدم بڑھائیں، اس امید کے ساتھ کہ تمام عالم میں شیعیت کا پرچم لہرائے۔

حقیقت میں یہ کتاب ''رحلتی من الوہابیة الی الأثنیٰ عشریة'' کا خلاصہ ہے۔

٤۔ یہ کتاب ''المنہج الجدید و الصحیح فی الحوار مع الوہابیین ''کا لفظی ترجمہ نہیں ، بلکہ ڈاکٹر عصام سے گفتگو کے بعد میں نے ترجمہ کے ساتھ اس کتاب کی تصحیح کا کام بھی شروع کیا، جس کے نتیجہ میں جو تبدیلیاں واقع ہوئیں وہ یہ ہیں:

١: تکراری مطالب کا حذف کرنا ٢: طولانی عبارتوں کا خلاصہ کرنا ٣: ایرانی ثقافت اور فارسی زبان سے ہماہنگی کو مدنظر رکھنا ٤: بلند و طولانی حاشیوں کو متن میں قرار دینا۔

٥۔ مصنف کے معنی و مراد کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب کلمات کا انتخاب کرنا، بطور مثال، مصنف نے جہاں کلمۂ وحدت یا تقریب سے استفادہ کیا ہے ان سے مشورہ کے بعد میں کلمۂ تفاہم یا ہمزیستی مسالمت آمیز کو استعمال کیاہے. اس بات کا ذکر کرنا بھی ضروری ہے کہ مصنف نے اس کتاب میں شیعیت کو'' المذہب الاثنیٰ عشری'' کے نام سے یاد کیا ہے او راس کلمہ کے استعمال پر تاکید بھی کی، اور معتقد ہیں، کہ وہابیوں کے لئے یہ کلمہ حساس نہیں ، تشیع اور شیعیت، ایسے کلمات ہیں جن کا دائرہ معنی کے لحاظ سے بہت وسیع ہی ہے اور شیعہ، دوازدہ امامی کے علاوہ، دوسرے فرقوں کو بھی کہا جاتا ہے، جبکہ وہ تمام فرقے امامیہ کے نزدیک باطل ہیں۔

لیکن قارئین کی سہولت اور عبارت کی نزاکتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے، میں نے تشیع ،شیعہ، امامیہ، شیعہ امامیہ اور شیعہ ٔ دوازدہ امامی جیسے تمام کلمات سے استفادہ کیاہے، لیکن یہ بات واضح رہے کہ ان تمام کلمات سے مراد صرف اور صرف مذہب اثنیٰ عشری اور شیعۂ دوازدہ امامی ہی ہیں۔

والسلام علی من اتبع الہدی

مصطفی اسکندری

قم

پیشگفتار

تمام تعریفیں خدا کے لئے ہیں اس کا شکر ادا کرتے ہیں، اسی کی بارگاہ سے مدد اور تمام گناہوں کی بخشش چاہتے ہیں، نفس کی برائیوں اور اپنی بدکرداری سے پناہ مانگتے ہیں، کیونکہ خدا ہی ہے کہ اگر اس نے کسی کی ہدایت کی تو وہ گمراہ نہ ہوگا اور اگر گمراہ کردے تو پھر ہدایت نہیں پاسکتا۔

گواہی دیتا ہوں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ، وہ یکتا ہے اس کا کوئی شریک نہیں ،اور گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ آلہ و سلم خدا کے بندہ اور اس کے رسول ہیں۔

(اے ایمان والو! اللہ سے اس طرح ڈرو جو ڈرنے کا حق ہے اور خبردار اس وقت تک نہ مرنا جب تک مسلمان نہ ہوجاؤ)(۱)

(اے انسانوں اس پروردگار سے ڈرو کہ جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیا ہے اور اس کا جوڑ ابھی اسی کی جنس سے پیداکیا ہے اور پھر دونوں سے بکثرت مرد و عورت دنیا میں پھیلا دیئے ہیں اور اس خدا سے بھی ڈرو جس کے ذریعہ ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابت داروں کی بے تعلقی سے بھی، اللہ تم سب

____________________

(١) سورۂ آل عمران، آیت ١٠٢

کے اعمال کا نگران ہے)(۱)

(اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو بھی خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا)(۲)

میرا اس بات پر عقیدہ ہے، کہ مسلمانوں میں وحدت اور آپسی قربت کے لئے ضروری ہے کہ ہماری گفتگو صحیح اور اس میں جذابیت پائی جائے، لیکن اگر آپسی گفتگو میں گذشتہ دو صفات نہ پائے جائیں اور گفتگو علمی اصول پر استوار نہ ہو، تو اس قسم کی گفتگو سے مسلمانوں میں وحدت کے بجائے، دوری میں اضافہ ہوگا۔مذاہب کے متعلق گفتگو میں کئی نکات پائے جاتے ہیں جنکی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔

گفتگوبحث و جدال سے خالی ہو کیونکہ اسلامی مذاہبمیں وحدت کی ایجادکا تنہا راستہ، یہی ہے کہ ہماری گفتگو میں نرمی پائی جائے تاکہ مسلمانوں کی مشکلات حل ہوں اور یہی ایک ایسا راستہ ہے کہ جو مسلمانوں کومتفرق ہونے سے بچاسکتا ہے درحقیقت اس کتاب میں پیروان مذاہب سے نامناسب طرز گفتگو کی اصلاح کی گئی ہے۔

مجھے وہابی علماء سے گفتگو کرنے میں ١٢ سال کا تجربہ حاصل ہے اور بالخصوص میرا وہابیت کے زمانہ کا تجربہ ( جب میں یمن میں تھا اور بزرگان وہابی علماء کے

____________________

(١) سورۂ نساء ، آیت ١

(٢) سورۂ احزاب، آیت ٧١۔ ٧٠

سامنے تحصیل علم کے لئے زانوئے ادب تہہ کیا کرتا تھا اور پھر سعودی عرب روانہ ہوکر وہاںایک متعصب وہابی بن گیا، جس کے نتیجہ میں ، میں نے شیعوں کی تکفیر میں ایک کتاب بنام ''الصلة بین الاثنی عشریة و فرق الغلاة''(۱) لکھا پھر جب وہابیت سے دستبردار ہوا تو حقائق و خصائص شیعہ اثناعشری کی وضاحت کے لئے ایک اور کتاب بنام ''رحلتی من الوہابیة الی الاثنی عشریة''(۲) تحریر کی، جس کے بعد میں یہ جانتاہوں کہ وہابی افراد سے کس طرح گفتگو کی جائے۔

وہابی افراد سے مناظرہ میں ضروری ہے کہ ہماری گفتگو میں مندرذیل خصوصیات پائی جائیں:

١۔ ضروری ہے کہ ہم وہابی شخص کواس بات کے لئے آمادہ کریں کہ ہماری گفتگو کا محورایک مذہبی موضوع نہیں ، بلکہ ایک آیت یا حدیث یا اس آیت و حدیث کے نکات میں سے ایک نکتہ ہوگا اور اس کی وجہ ان کی فکری توانائی کا قوی نہ ہونا ہے ایک ہی مرحلہ میں وہ امامیہ مذہب کے حقائق کو درک نہیں کرسکتے، اسی لئے ضروری ہے کہ قدم بہ قدم ایک آیت و حدیث کے بعد دوسری آیات و احادیث کی طرف رجوع کیا جائے اور مد ّمقابل کو ابتداہی میں اس روش سے آگاہ و آشنا کیا جائے، تاکہ وہ اس روش کی اہمیت کو جانتے ہوئے ، اپنی گفتگو میں اس پر توجہ دے۔

____________________

(١) شیعہ غلاة سے وابستہ ہیں.

(٢) میرا وہابیت سے امامیہ کی طرف کوچ کرنا.

قارئین کے لئے بھی یہ بات واضح ہے کہ تمام یونیورسٹیوں میں ایک کلی مسئلہ پر گفتگو نہیں کی جاتی، بلکہ ہمیشہ گفتگو کا محور کلی موضوع کاایک حصہ ہوتا ہے اور انھیں قسم کی تحقیقات مثمر ثمر ہوتی ہیں. اسی لئے ہم اس کتا ب میں مختصر و مفید موضوعات پر اس روش کو مد نظر رکھتے ہوئے گفتگو کریں گے تاکہ وہابی شیعیت کے حقائق کو درک کرسکیں۔

٢۔ ضروری ہے کہ ایک وہابی شخص سے مناظرہ کے دوران حدیث ثقلین کو گفتگو کا محور قرار دیا جائے، لیکن اگرہم نے فضائل حضرت علی ـ کے متعلق گفتگو کی، تو وہ بھی دیگر صحابہ کے کچھ فضائل نقل کریں گے، جس کے نتیجہ میں بحث مشکلات سے دوچار ہوگی۔اور اگر وہ حضرات دیگر اصحاب کے لئے بعض فضیلتوں کے قائل بھی ہوں، تو بھی انھیں کے نظریہ کے مطابق یہ فضائل ان اصحاب کی پیروی و اطاعت پر دلیل نہیں بن سکتے، جبکہ حدیث ثقلین ایک ایسی حدیث اور فضیلت ہے کہ جو واضح طور سے مولائے کائنات کی اطاعت پر دلالت کرتی ہے۔

اور اگر گفتگو کا محور قرآن ہو تو آیۂ ولایت کے بجائے آیۂ تطہیر کو انتخاب کیاجائے کیونکہ آیۂ تطہیر اور حدیث ثقلین میں عمیق ارتباط پایا جاتاہے اور جو اہل سنت آیۂ تطہیر اور واقعہ کساء کو نقل کرتے ہیں تو وہ حدیث ثقلین کو بھی انھیں سے مربوط جانتے ہیں اور کسی بھی مسلمان نے حدیث ثقلین کے حدیث کساء سے مرتبط ہونے کا انکار نہیں کیا ہے ، لہٰذا آیۂ تطہیر کے متعلق ہماری گفتگو، حدیث کساء و حدیث ثقلین تک راہنمائی کرتی ہے۔

وہابی افراد سے گفتگو کے لئے میرا، حدیث ثقلین کا انتخاب کرنااور اس انتخاب پر تاکید کی وجہ، خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا اس حدیث کواہمیت دینا ہے جیسا کہ خود رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ اگر امت ثقلین سے متمسک ہو جائے تو گمراہی سے بچ جائے گی اور آپ نے زندگی کے آخری لمحات تک ا س حدیث پر عمل کی تاکید کی جو کہ امت اسلامیہ کے لئے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف سے ایک امانت ہے تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ اسی حدیث ثقلین کی وجہ سے کتنے سنی اور وہابی افراد کی فکروں میں تبدیلی آئی ہے اور انھوں نے ہدایت کو قبول کیا ہے، لہٰذا میرا عقیدہ ہے کہ گفتگو کا آغاز حدیث ثقلین سے ہو. اور اگر عنوان و موضوع کچھ اور ہو تو گفتگو کا ثمرہ ظاہر نہیں ہوگا.اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اس گفتگو کا ہدف قابل اصلاح وہابیوں کی ہدایت ہے تاکہ وہ مذہب اہلبیت (ع) سے منسلک ہو کر اس کا اتباع کریں اور اس میں بھی کوئی تردید نہیں ،کہ ان میں سے بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ اگر ان کے لئے حق ثابت ہو جائے تو وہ اس کی پیروی کریں گے۔

مناظرہ میں کسی بھی وقت نہ میں نے مدّمقابل کے بارے میں سوء ظن کیا، اور نہ ہی اسے حق کا دشمن سمجھا ہے، میری نظر میں فقط وہ ایک بیمار ہے کہ جسے ایک اچھے اور ماہر طبیب کی ضرورت ہے، گفتگو کے دوران ہمیشہ میں اپنے ماضی پر نظر رکھتاہوں، کہ میں بھی ایک وہابی تھا لیکن بحمد اللہ میں نے حق کو جانااور اس کی پیروری کی اور اس حسن ظن کے ساتھ میں نے اس کتاب کو لکھا ہے لہٰذا دوسروں تک اپنے پیغام کو پہنچانے میں اس روش (حسن ظن) کو مؤثر جانتا ہوں۔

ان بارہ سالوں میں وہابیوں سے مناظرہ کے دوران طرفین کے تند و تیز حرکات سے بخوبی واقف ہوں، گرچہ شیعہ و سنی وشیعہ میں بحد معمول قدیم الایام سے اختلاف پایا جاتا ہے لیکن یہ اختلاف آج کے شیعہ اور وہابی اختلاف جیسا نہیں تھا۔

اس دشمنی و عناد کا بیج محمد بن عبد الوہاب نے بویا کہ جس کے نتیجہ میں آج تک امت مسلمہ مشکلات میں گرفتار ہے اور دشمنان اسلام اس فرقہ سے سوء استفادہ کر رہے ہیں (تاکہ مسلمانوں میں ہرج و مرج پیدا کریں) اور اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمانوں کے درمیان ہرج و مرج کشیدگی اوراتحاد نہ ہونے سے دشمنان اسلام قوی ہوں گے، اسی لئے ضروری ہے کہ ہماری گفتگو علم و منطق سے آراستہ ہو ،تاکہ مباحث کی مشکلات کو ختم کرسکیں اور ہماری گفتگو مفید واقع ہو۔

ہم گفتگو میں کوشش کریں کہ بنی امیہ اور منافقین نے مسلمانوں کو اہلبیت (ع) سے دور رکھنے میں جو سازشیں رچی ہیں انھیں بیان کریں، تاکہ مسلمانوں کو ثقلین سے دوری کا احساس ہو شیعہ ہونے کے بعد میری یہ پوری کوشش رہی کہ مختلف مذاہب کے علماء سے گفتگو کے لئے ایک مناسب اور صحیح روش کو مدنظر رکھوں اوراگر اس روش پر عمل نہ ہو تو میرے عقید ے کے مطابق گفتگو کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ۔

جامعہ شناسی اور نفسیات کی رو سے، میں نے اپنی گفتگو میں تین اساسی چیزوں کو مد نظر رکھا ہے تینوں پر عمل اور اس کی ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے:

١۔ کلمات کے صحیح معنی بیان کئے جائیں چونکہ معمولاً مباحث میں طرفین ایک ہی کلمہ سے مختلف، بلکہ متضاد معانی کا ارادہ کرتے ہیں بطور مثال، عصمت یا تقیہ کی جو تفسیر وہابی علماء کرتے ہیں وہ امامیہ تفسیر سے بالکل الگ ہے۔

٢۔ ابتدائے کلام ہی سے وہابی شخص کو قبول کرنا ہوگا کہ وہ ایک اسلامی فرقہ سے مربوط فرد سے گفتگو کر رہا ہے، بالکل اہل سنت کی طرح کہ جو شیعیت کو اسلامی فرقہ جانتے ہیں۔

٣۔ لیکن اگر وہ شیعوں کو کفار کا خطاب دیں تو انھیں یہ جان لینا چاہیئے کہ انھوں نے تمام اہل سنت کی مخالفت کی او ران سے گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ( میں اپنے تمام معاملات کوخدا کے حوالے کرتا ہوں،کہ بے شک وہ تمام بندوںکے حالات کو خوب دیکھنے والا ہے)۔(۱)

عصام علی یحییٰ العماد

صنعاء ١٤١٢ ہجری

____________________

(١) سورۂ غافر ، آیت ٤٤

مذہب امامیہ کو وہابیت کے لئے کس طرح پیش کیا جائے!

میں نے کتاب'' رحلتی من الوہابیة الی الاثنی عشریة'' میں وہ دلائل پیش کئے ہیں جن کی بنا پر میں نے وہابیت کو ترک کیا. گرچہ اس وقت وہابیوں کی ایک مسجد میں امام جماعت اوراستاد کی حیثیت سے مشغول تھا اور اس کتاب میں میری کوشش ہے کہ فرقۂ امامیہ کے حقائق اور خصوصیات کو ایک وہابی شخص کے لئے اس طرح بیان کروںکہ جب وہ کسی امامیہ سے گفتگو کرے تواس کی فکری مشکلات برطرف ہوں ، گفتگو کے مثبت نتیجہ تک پہنچنے کے لئے ان مشکلات کا حل ہونا ضروری ہے۔

شخصی نظریہ کے مطابق ایک وہابی شخص ،امامیہ سے گفتگو کے دوران جن فکری مشکلات سے دوچار ہوتا ہے، انھیں ختم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ مذہب امامیہ کو تین مرحلوں میں پیش کیا جائے اوران مراحل میں ترتیب کا لحاظ رکھنا ضروری ہے ورنہ اس کے افکار کی اصلاح بھی نہیں ہوگی اور نہ ہی وہ مذہب امامیہ کے حقائق سے آگاہ ہوسکتا ہے۔

وہابی کے لئے ضروری ہے کہ وہ یہ جان لیں کہ ان تین مراحل اوران کی ترتیب پر توجہ نہ دینے کے نتیجہ میں مذہب امامیہ کے متعلق ان کی تحقیق اہل سنت حضرات کی تحقیقا ت سے الگ ہے، اوراسی بنا پر وہابی شیعیت کے متعلق جو فکر رکھتے ہیں وہ قدمائے اہل سنت سے جدا ہے۔

میں نے کسی بھی مقام پر ان دو موضوعات (وہابی سے صحیح طرز گفتگو، یا سنی اور وہابی علماء کا دوسرے فرقوں کے متعلق مختلف الآراء ہونا) کے متعلق علمی تحقیق نہیں دیکھی، لہٰذا اس کتاب کی روش، تحقیق کی اہمیت کو نمایاں کرتی ہے اور شیعوں کے بارے میں سنیوں اور وہابیوں کا مختلف آراء رکھنا بھی تحقیق کی روش میں اختلاف کا نتیجہ ہے ، وہابی شیعیت کے بارے میں جو تصورات رکھتے ہیں، یہ انکی غیر علمی روش کا نتیجہ ہے، جس کی وجہ سے وہ شیعیت کے حقائق سے دور ہی نہیں ، بلکہ شیعوں کی طرف ناروا نسبتیں دیتے ہیں، شیعیت کے حقائق سے مطلع ہونے کے لئے ایک ایسی علمی تحقیق کی ضرورت ہے کہ جس میں شیعیت کے متعلق سنی اور وہابی نظریات کا آپس میں مقایسہ کیا جائے. اورایک محقق کہ (جس کا محور مذہب امامیہ کی تحقیقہے) کو چاہئے کہ وہ مذہب کے متعلق روش تحقیق کے درمیان فرق کا قائل ہو۔

ہم مذہب امامیہ کی خصوصیات کوبالترتیب تین مرحلوں میں بیان کریں گے اور اس ترتیب کے لئے پابندی لازم ہے تاکہ وہابیوںکی طرح مشکلات میں گرفتار نہ ہوں۔

حقائق اور مذہب امامیہ کی خصوصیات کی تین مرحلے:

پہلا مرحلہ: مذہب امامیہ کی وابستگی کے لحاظ سے معرفت۔

اس مرحلہ میں ان دلائل پر تحقیق ہوگی کہ جن کی بنیاد پر وہابی، شیعیت کے متعلق غلط فہمی میں گرفتار ہیں اور انھیں غالی کا خطاب دیتے ہیں۔

شیعیت کے متعلق اس غلط فہمی کے دو اسباب ہیں:

١۔ وہابیت کا مذہب امامیہ سے صحیح طور پر واقف نہ ہونا۔ ٢۔ اوران کے مطالعہ کی روش کا نادرست ہونا۔

اس پہلے سبب کے لئے بھی تین اسباب پائے جاتے ہیں:

الف: غلو کے معنی سے مطلع نہ ہونا. ب: شیعہ دوازدہ امامی کے معنیٰ نہ جاننا. ج: غلو اور غالیوں کے مقابلہ میں امامیہ کے موقف سے آگاہ نہ ہونا۔

دوسرے سبب کے لئے بھی دوا سباب ہیں:

الف: وہابیوں کا ایک خاص طرز تفکر ب: ان کا شیعوں کے مقابلہ میں اہل سنت سے جدا موقف رکھنا۔

اس مرحلہ کو طے کرنے کے بعد دوسرے مرحلہ میں واردہونگے۔

(دوسرا مرحلہ) مذہب امامیہ کی دقیق معرفت

اس مرحلہ میں چار مہم حقائق کی تحلیل کی جائے گی اور وہ حقائق یہ ہیں:

١۔مذہب امامیہ کی نظر میں الوہیت اور نبوت کی حقیقت۔

٢۔ مذہب امامیہ کے نزدیک شریعت و احکام کی حقیقت۔

٣۔ مذہب امامیہ میں بعض کلمات کے معانی کی حقیقت۔

٤۔ مذہب امامیہ کے اہداف کی حقیقت۔

اس مرحلہ میں غور و فکر کے بعد ہم تیسرے مرحلہ میں داخل ہوںگے۔

(تیسرا مرحلہ) مذہب امامیہ کی بنیادی معرفت

اس مرحلہ میں بھی چار اہم نکات کی تحلیل ہوگی۔

١۔ مذہب تشیع کے منابع. ٢۔ اس مذہب میں امامت کی حقیقت. ٣۔ مذہب امامیہ کی حقیقت ٤۔ اس مذہب کی ابتدا اور اس کے ظہور کی دلیلیں۔

اور جب قارئین ان تین مراحل کو طے کرلیں تو پھر ہم مذہب امامیہ کی خصوصیات کے متعلق تحقیق میں مشغول ہوں گے۔