گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ 0%

گفتگو کا سلیقہ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف: ڈاکٹر عصام العماد
زمرہ جات:

مشاہدے: 8789
ڈاؤنلوڈ: 2875

گفتگو کا سلیقہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8789 / ڈاؤنلوڈ: 2875
سائز سائز سائز

مباحث) میں گرفتار ہوگئے لیکن اہل سنت کے متفکرین کی کوششوں سے آج یہ خطرہ ایک خاص گروہ میں منحصر ہوکر زائل ہو چکا ہے۔

قارئین یہ جان لیں کہ وہابی شیعوں کوغلو آمیز افکار کا حامل تصور کرتے ہیں، لیکن انھیں نہیں معلوم کہ شیعہ غلو جیسی مشکل میں گرفتار نہیں ، بلکہ یہ وہابی ہیں جو شیعیت کو نہ پہچاننے کی بیماری میں مبتلا ہیں وہ امامیہ میں غلو کے اسباب ڈھونڈتے ہیں لیکن انھیں چاہئے کہ وہ خلط جیسی بیماری میں مبتلاہونے کے اسباب پر توجہ دیں۔

سنی معاصر محققین اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ وہابیوں کی یہ مشکلات گذشتہ سنی کتب پر صحیح تحقیق نہ کرنے کا نتیجہ ہیں. لہٰذا انھوں نے ان انحرافات کے عوامل پر تحقیق کی اور واضح کیا ہے کہ یہ شیعہ نہیں کہ جو غلو جیسی مشکل میں گرفتار ہیں، بلکہ یہ ایک باطل خیال ہے جس میں وہابی تشیع اور غلو میں فرق نہ کرپانے کے سبب مبتلا ہوئے ہیں۔

ایک وسیع تحقیق انجام دینے کے بعد میں اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ شیعہ شناسی کی مطالعاتی نہج تین روشوں ہی میں منحصر ہے:

١۔ وہابی گروہ کی روش. ٢۔ اہل سنت کے قدیم و جدید متفکرین کی روش. ٣۔ شیعہ دانشور وںکی روش۔

سب سے پہلے میں ہابی روش پر پابندتھا پھر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اہل سنت متفکرین کی روش سے آگاہ ہوا جس کے بعد شیعہ علماء کی روش کی طرف ہدایت حاصل ہوئی تب میں نے وہابی اور سنی روش میں غیر قابل انکار تضاد پایا. ان روشی اختلاف کے ہوتے ہوئے وہابی تمام نتائج کو صحیح نہیں کہا جاسکتا ہے. لیکن اگر وہابی روش میں تعارض اور تباین کو قبول کرلیں تو پھر منطق کے لحاظ سے دونوں روشیں باطل ہوں گی۔

جس کے نتیجہ میں شیعوں کے بارے میں نہ وہابی تحقیق قابل استفادہ ہوگی اور نہ ہی سنی تحقیق، جبکہ آئندہ مباحث میں یہ بات واضح ہوگی کہ وہابی تفسیر (کہ جس میں کوئی واقعیت ہے اور نہ حقیقت) سے زیادہ سنی تفسیر، امامیہ عقائد کی حقیقتوں کوواضح کرتی ہے ۔جب ہم وہابی مطالعات کے نتائج دیکھتے ہیں تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ شیعہ عقائد کی صحیح تفسیر بیان کرنے سے کس قدر عاجز ہیں جس تشیع کے بار ے میں وہابی گفتگو کرتے ہیں اسے اہل سنت متفکرین تشیع ہی نہیں جانتے، اور شیعیت کی جو عجیب و غریبتصویر وہابی پیش کرتے ہیں وہ بالکل اس تصویر سے جدا ہے کہ جسے شیعہ اور سنی علماء نے پیش کیا ہے. شیعیت کی نظر میں مباحث الوہیت و نبوت اورمذہب امامیہ کے دیگر حقائق کا ادراک وہابیوں کے لے میسر نہیں ، کیونکہ وہ سخت انحراف فکری میں مبتلا ہیںاور وہ مذہب امامیہ اور غالیہ کو ایک جانتے ہیں، جبکہ اہل تشیع کا غالیوں سے دور دور تک کوئی ربط نہیں ، لہٰذا واضح ہے کہ ایسے حالات میں ایک وہابی کے لئے حیران و سرگردان رہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔

تعجب کی بات تو یہ ہے کہ بعض سادہ لوح سنی حضرات کے لئے وہابی نظریات قابل قبول ہیں اور وہ سنی متفکرین کو تمسخرآمیز نگاہ سے دیکھتے ہیں (جبکہ سنی اور وہابی دونوں شیعیت کے متعلق خاص نظر رکھتے ہیں) کیونکہ یہ لوگ اہل سنت اور وہابیوں کے درمیان شدید اختلاف سے بے خبر ہیں، لہٰذا وہابیوں کی فریب کاریوں میں مبتلاہوتے ہیں جبکہ یہ تمام مشکلات شیعیت سے آشنا نہ ہونے کا نتیجہ ہیں. جس طرح ١٨ ویںصدی عیسوی میں وہابیت کے وجود میں آنے سے اس مشکل نے شیعوں اور سنیوں میں اختلاف پیدا کیا، اسی طرح دور حاضر میں سنی اور وہابی اختلافات میں یہ مشکل تاثیر گذار ہوئی. اور جب تک یہ مشکل حل نہ ہو اہل سنت اور وہابیت کے درمیان اختلاف سمجھنا ممکن نہیں ۔

دور ماضی میں جن مسائل پر شیعوں اور وہابیوں میں اختلاف تھا دور حاضر میں وہی اختلاف سنی اور وہابی اختلاف میں تبدیل ہوچکا ہے اوراہل سنت نے اس بات کو پوری طرح واضح کردیا ہے کہ جن مسائل کی نسبت وہابی، شیعیت کی طرف دیتے ہیں وہ مذہب غلو اور غالیوں سے مربوط ہیں، جن کا شیعیت سے کوئی تعلق نہیں ،ا گرچہ وہابیوں کے اس کردار سے شیعہ اور سنی اختلاف میں شدت پیدا ہوئی، لیکن خود سنی اور وہابی میں بھی اختلاف پایا جاتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ شیعہ اور سنی مفکرین نے کئی مرتبہ اس مشکل کی طرف توجہ دلائی اور جب تک اس مشکل خلط کو حل نہ کیا جائے ان تین فرقوں میں آپسی تفاہم کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ڈاکٹر ناصر قفاری جوایک انتہا پسند مصنف ہے اور شیعوں کو کافر کہتا ہے، نے امامیہ کے متعلق وہابیوں اور سنیوں کے د رمیان ایک مناظرہ پیش کیاہے کہ جو قابل توجہ ہے:مذہب امامیہ کے متعلق معاصر مصنفین کے نزاع نے مجھے اپنی طرف جذب کیا، مصنفین کا ایک گروہ (جن میں محب الدین خطیب، احسان الٰہی ظہیر ، ابراہیم جبہان شامل ہیں) شیعوں کو کافر کہتا ہے وہ معتقد ہے کہ غلو نے انھیں اسلامی حدود سے خارج کردیا ہے اور دوسرا گروہ (نشار، سلیمان دنیا، مصطفی شکعہ)، انھیں ایک میانہ رو اور ایک ایسا فرقہ تصور کرتا ہے، جن کا غالیوں سے کوئی تعلق نہیں ، اور بھنساوی جیسے کچھ لوگ ہیں جو شک و تردید میں مبتلا ہیں اور انھوں نے سنیوں سے ان مطالب کے بارے میں سوالات کئے ہیں، جنھیں محب الدین خطیب و احسان الٰہی ظہیر نے لکھا ہے. البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی اس قسم کے گرداب میں پھنس جائے تو حقیقت اس کے لئے مشتبہ یا ختم ہوجائے گی۔(۱) اور اس نزاع کی جڑ تک پہنچنے کے لئے میری کوششوں نے مجھے مجبور کیا، کہ ڈاکٹریٹ میں میری تھیسس ( Thesis ) کا موضوع ''وہابیوں کی مشکل کے بارے میں شیعوں اور غالیوں کے خلط کرنے سے متعلق'' ہو، اس تھیسس ( Thesis ) میں ، میں نے عرض کیا ہے کہ اس قسم کی مشکلات مطالعاتی روش میں اختلاف کی وجہ سے وجود میں آتی ہے۔

____________________

(١) اصول مذہب الشیعہ الامامیہ الاثنی عشریہ، ج١، ص١١۔ ١٠. کہ جسے میں نے ناصر قفاری کی رد میں لکھا ہے وہ جلد طبع سے آراستہ ہوگی۔

میرے نزدیک ایک طویل تحقیق کے بعد یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ وہابیوں کے مطالعہ و تحقیق کی روش کے ذریعہ شیعیت کی شناخت ممکن نہیں ، اور خود وہابیوں اور اہل تسنن کے درمیان مذہب امامیہ کی شناخت میں گہرا اختلاف پایاجاتا ہے۔

مرحلۂ اول کے نتائج

مذہب تشیع کے بارے میں وہابی روش کے ذریعہ تحقیق کرنے کا مطلب تحقیق کے موضوع (شیعی حقائق) کی قربانی ہے اوران کی روش میں موضوع کے ساتھ اس طرح برتاؤ کیا جاتا ہے کہ گویا مکتب اہل بیت کے پیرو اپنے عقائد بیان کرنے میں کسی بھی قسم کی روش کے حامل نہیں ، لہٰذا اہلسنت اور وہابیوں کے اس جدال سے بچنے کا صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ کہ ہم مکتب تشیع کے عقائد کو سمجھنے کے لئے خود مذہب امامیہ کی تفاسیر اور بیانات کی طرف رجوع کریں، جس طرح سالم بھنساوی کے اس روش کواختیار کرنے کو قفاری نے نقل کیا ہے۔

بھنساوی نے جب مفہوم تشیع میں احسان الٰہی ظہیر اور مصطفی شکعہ کے درمیان اختلاف پایا تو کشف حقیقت کے لئے مذہب امامیہ کے علماء کی طرف رجوع کیا اوران سے گفتگو کے نتائج کو کتا ب ''السنة المفتریٰ علیہا'' میں درج کیا ہے لہٰذا وہ متوجہ ہوئے کہ شیعہ حقائق کے بارے میں سنی مطالعاتی روش، واقعیت سے زیادہ نزدیک ہے۔

اس طرح جن بزرگ سنی مفکر ڈاکٹر حامد حنفی داؤد نے امامیہ افکار کو بیان کرنے میں وہابیوں کی مطالعاتی روش کو چھوڑ کر امامیہ روش اختیار کرنے پر اصرار کیا ہے. آپ علامہ مرحوم مظفر کی کتاب عقائد الامامیہ کے مقدمہ میں تحریر فرماتے ہیں:

وھابیوں کے انحراف کی دلیلیں

وہ لوگ جواس خیال میں ہیں کہ دشمنان شیعہ کے نوشتوں کے سہارے امامیہ عقائد اور شیعی تمدن سے آگاہ ہوں تو وہ بہت بڑی غلطی پر ہیں، گرچہ وہ کثرت علم ، اور پوری طرح تسلط رکھتے ہوں اور ان کی روش میں تعصب نہ پایاجاتا ہو، افکار و نظریات کو نقل،یا ان میں تحقیق کرنے میں امین ہوں۔

میں نے أئمہ اہل بیت (ع) کے عقائد (بطور خاص) اور شیعی عقائد (بطور عام) کے مطالعہ اور تحقیق میں سالہا سال اس مذہب کے ناقدین اور مورخین کے نوشتوں کا مطالعہ کیا ہے ،لیکن قطعی طور پر یہ کہہ سکتاہوں کہ میں نے ان نوشتوں میں کوئی بھی قیمتی مطلب نہیں پایا اور اس مذہب (کہ جس کے پیرو دنیا میں پراکندہ ہیں) کے دقیق مطالب کو سمجھنے میں میری تمام کوششیں اور میرا سارا اشتیاق بے ثمر ہی ثابت نہیں ہوا، بلکہ مجھے شیعی نظریات سے دوری حاصل ہوئی، کیونکہ شیعوں کے مخالفین کی تحریروں پر اعتماد نے میری تحقیق کو ناحق اور عقیم بنادیا، لہٰذا حقیقت جوئی کے اس شوق نے مجھے مجبور کیا کہ شیعہ شناسی میں اپنی مطالعاتی روش کو از سر نو پھر سے شروع کروں اور میں نے ارادہ کرلیا کہ ا س مذہب تک خود انھیں کے محققین اور دانشوروں کے نوشتوں کے ذریعہ ہی رسائی حاصل کروں، کیونکہ کسی بھی مذہب کے دانشور، دشمنوں سے زیادہ اور بہتر اپنے عقائد کو جانتے ہیں، چاہے یہ دشمن ماہر خطیب اور توانا مصنفین ہی کیوں نہ ہوں۔

اس کے علاوہ علمی امانتداری (جو علمی تحقیق کا اہم رکن ہے اور میں نے اپنی تمام تحقیقات اور نوشتوں میں سب سے پہلے اس پر توجہ دی ہے) کا تقاضا ہے کہ انسان کسی بھی مطلب کو نقل کرنے میں پوری طرح دقت کرے اورایک محقق جو مطالب کے سمجھنے پر مسلط اور تیز بین ہو، بلاواسطہ شیعی منابع کی طرف رجوع کئے بغیر کس طرح ان مطالب کے متعلق مطمئن ہوسکتا ہے جنھیں شیعیت سے منسوب کیا جاتا ہے؟ اگر وہ بلاواسطہ منابع کی طرف رجوع نہ کرے، تو گویا اس نے اپنی تحقیق کو غیر علمی بنیادوں پر استوار کیا ہے۔

انھیں تمام وجوہات نے مجھے مجبور کیا کہ میں شیعہ شناسی میں اپنے مطالعہ کو صرف اور صرف شیعہ کتب میں متمرکز کروں اور کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی کے بغیر شیعہ عقائد کوانھیں کے تقریروں اورتحریروں سے اخذ کروں تاکہ شیعوں کے بارے میں قضاوت کرنے میں دوسروں نے غلطی کی ہے میں اس سے محفوظ رہ سکوں۔

اگر کوئی محقق حقائق کوان کے غیرحقیقی منابع سے اخذ کرنا چاہے تو اس کا یہ کام ظلم اور پوری طرح غیر علمی ہوگا، بالکل اس روش کی طرح کہ جسے شیعوں کے متعلق ڈاکٹر احمد امین مصری نے اپنے نوشتوں میں اختیار کیا ہے، انھوں نے محصلین اور فارغ التحصیل طلبہ کے لئے مذہب شیعہ کے بعض مطالب کو واضح کرنے میں انتہا پسندی سے کام لیتے ہوئے شیعیت کو اسلام میں یہودیت کی شکل اور عبد اللہ بن سبا کا ساختہ و پرداختہ قرار دیا ہے. یہ وہ تہمتیں ہیں جن کا بطلان ثابت و مسلم اور شیعوں کا ان سے بیزار ہونا واضح ہے. شیعہ علماء نے ان باتوں کی رد میں کئی کتابیں لکھی ہیں ،جن میں سے محمد حسین آل کاشف الغطاء ایک ہیں، جنھوں نے کتاب ''اصل الشیعہ و اصولھا'' میں اس امر کے متعلق ایک جامع تحقیق پیش کی ہے۔(۱)

اس مطلب کی مزید وضاحت کے لئے ایک مثال پیش کرتا ہوں تاکہ خلط جیسی مشکل بخوبی آشکار ہو جائے۔

وہابی اپنے نوشتوں میں لکھتے ہیں کہ شیعہ معتقد ہیں کہ حضرت علی ـ بادلوں کے درمیان تشریف رکھتے ہیں اور شیعہ آپ کے فرزندوں کی ان کے قیام میں مدد نہیں کرتے جب تک کہ خود امام آسمان سے فریاد نہ کریں، کہ اس فرزند کی مدد کرو. لیکن واضح ہے کہ اس قسم کے عقائد کے حامل شیعہ نہیں ، بلکہ غالی ہی ہوسکتے ہیں۔

شیعہ علماء کے ذریعہ ان ہی کے علمی مرکز (شہر قم) میں مطالعہ اورتحقیق کے بعد متوجہ ہوا کہ خود شیعہ اس قسم کے عقائد و افکار سے بیزار ہیں اور (امام مہدی) کے متعلق وہی سب کچھ شیعوں کے یہاں ثابت ہے جو سنیوں کے نزدیک ثابت ہے، کہ امام مہدی (جن کا قیام سنی وشیعہ دونوں کے نزدیک مسلّم الثبوت ہے) قیام کریں گے، آسمان سے ا یک فرشتہ ان کا نام لے گا اور لوگوں کوان کی مدد کے لئے دعوت دے گا.لہذا اس مثال سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ شناسی کے مطالعات میں وہابی کتب پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا۔

____________________

(١) مقدمہ کتاب عقائد الامامیہ ٣٣۔ ٢٠.

ہم نے جواہل سنت متفکرین کے اقوال پیش کئے ہیںان سے شیعہ شناسی میں وہابیوں کی شکست اور سنی و وہابی میں عمیق شگاف کی دلیل واضح ہوتی ہے اور وہ دلیل صرف اور صرف ان کا تشیع سے آگاہ نہ ہونا اور ان کا غالیوں میں خلط کرنا ہے۔

ا س مشکل کی وضاحت اور سنی متفکرین کے کلام کو تفصیلی طور پر پیش کرنے کا مقصد مندرجہ ذیل چند باتوں کی طرف اشارہ کرنا ہے:

١۔ یہ مشکل شیعہ و سنی اور سنی و وہابیوں کے درمیان اختلاف میں شدت پیدا کرنے کے لئے بے حد مؤثر ہے۔

٢۔ شیعہ شناسی میں وہابی مطالعہ کے انحراف اور شکست میں اس مشکل کا اہم رول ہے۔

٣۔ اس مشکل کے حل ہونے سے ان تین فرقوں میں اختلاف کم اور تفاہم میں زیادتی ہوگی۔

٤۔ اس مشکل کے خاتمہ سے مذہب امامیہ کا واقعی چہرہ آشکار ہوگا۔

الٰہی دین و مذہب کا سب سے بڑا خارجی دشمن وہ کفر آمیزالحادی و مادی افکار ہیں جو دین کے مخالف شبہات کو پیش کرتے ہیں۔

میری سمجھ کے مطابق، ہر مذہب کا داخلی دشمن (کہ جواس کے وجود اور ہویت کونابود کرتا ہے) اس مذہب کے حقائق کو شک و تردید کی گھٹاؤں میں چھپا دیتا ہے جس کے نتیجہ میں مذہب اوردینی حقائق کے غلط اور غیر واقعی معنی وجود میں آتے ہیں اور مذہب برعکس اور بد صورت شکل میں پیش کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے بشریت دین سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ، لہٰذا تشیع اور غلو میں خلط کا مطلب حقائق کو شک و تردید کی گھٹاؤں میں چھپانا ہے۔

٥۔ اس بات کی دلیل بیان کرنا مقصود ہے کہ وہابی کس لئے شیعہ اور غالی میں خلط کا شکار ہیں اور یہ واضح ہے کہ اس خلط کی دلیل شیعہ اور غالی کو ایک سمجھنا ہے جب کہ خود شیعہ علماء ان کفر آمیز فرقوں سے بیزار ہیں۔

اب تک جن باتوں کو پیش کیا گیا وہ تشیع کی شناخت کے پہلے مرحلہ سے مربوط ہیں، تشیع کی شناخت کے مراحل میں سے سب سے پہلے مرحلے میں جو اہم مسئلہدرپیش ہے، وہ وہابیوں کی خلط اورانحراف کے اسباب کی پیدائش کا مسئلہ ہے۔

ا س موضوع کے لئے دوبنیادی اسباب یہ ہیں:

١۔ وہابیوں کا آگاہ نہ ہونا۔

٢۔ ان کی مطالعاتی روش۔

پہلی صورت کے وجود میں آنے کی بھی تین دلیلیں ہیں:

١۔ ان کا غلو کے معنی سے مطلع نہ ہونا۔

٢۔ اور تشیع کے معنی کی شناخت نہ ہونا۔

٣۔ غلو اور غالیوں کے ساتھ امامیہ کے موقف سے آگاہ نہ ہونا۔

دوسری صورت کے لئے بھی دودلیلیں ہیں:

١۔ وہابیوں کا طرز تفکر ۔

٢۔ شیعوں کے مقابل موقف اختیار کرنے میں ان کا سنی روش کا ترک کرنا۔

قارئین محترم توجہ فرمائیں کہ ہم ایک بے جان و بے روح تحقیق پیش کرنا نہیں چاہتے، بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ قارئین ان خطروں سے آگاہ رہیں تاکہ ان میں گرفتار نہ ہوجائیں۔

''مشکل خلط کے منفی آثار''

یہاں پر ہم وہابی فکر پر خلط کے تسلط کے نتیجہ میں جو منفی آثار رونماہوئے ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

١۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق حقیقت الوہیت و نبوت کے بارے میں ان کی غلط تفسیر۔

٢۔ شیعہ عقیدہ کے مطابق حقیقت شریعت اور دینی احکام کی تفسیر میں ان کا خطا کرنا۔

٣۔ مذہب تشیع کے اہداف کی حقیقت میں ان کی غلط تفسیر۔

٤۔ بعض شیعی اصطلاحات کی صحیح تفسیر نہ کرنا ۔

٥۔ شیعہ منابع کی تفسیر میں ان کی خطا۔

٦۔ شیعہ عقیدہ میں حقیقت امامت کی تفسیر میں غلطی کرنا۔

٧۔ مذہب شیعہ کی پہچان کی تفسیر میں خطا کا ارتکاب کرنا ۔

٨۔ مذہب شیعہ کے وجود میں آنے کی صحیح تفصیل سے آگاہ نہ ہونا۔

ان آٹھ لغزشوں کے نتیجہ میں وہ ان سب سے بڑھ کر ایک اور خطا میں مبتلاہوئے اور وہ خطا مذہب شیعہ کی خصوصیات کے متعلق صحیح تفسیر کا نہ ہونا ہے جس کے نتیجہ میں مذہب شیعہ اور غالیوں کے خصوصیات کو آپس میں خلط کردیا ہے۔

ہم اس جگہ قارئین کی آسانی کے لئے دو تصاویر پیش کرتے ہیں تاکہ ان اشتباہات کا منفی اثر پوری طرح واضح ہو جائے۔

تصویر (٢)

وہابی تفکر میں انحراف کے اسباب

(١)

پہلا سبب

غلو کے معنی سے عدم واقفیت

(٢)

دوسرا سبب

تشیع کے معنی سے عدم واقفیت

(٣)

تیسرا سبب

غلو اور غالیوں سے متعلق

مذہب امامیہ کے موقف سے عدم آگاہی

(٤)

چوتھا سبب

وہابیوں کا طرز تفکر

(٥)

پانچواں سبب

شیعوں کے متعلق دیگر سنیوں

کی روش سے نکل جانا

تصویر نمبر (٢) میں ہم نے وہابی انحراف و خطا کی پیدائش اور اس کے وسیع ہونے کے ٥ اسباب تیر کی شکل میں بیان کئے ہیں کہ جنھوں نے وہابی فکر کو اپنا ہدف قرار دیا ہے۔

تصویر (٣)

مشکل خلط کے منفی آثار

وہابی عقل

(١)

شیعہ عقیدہ

کے مطابق حقیقت

الوہیت و نبوت کے

بارے میں ان کی غلط تفسیر۔

(٢)

شیعہ

عقیدہ کے

مطابق حقیقت

شریعت اور

دینی احکام کی

تفسیر میں ان

کا خطا کرنا۔

(٣)

مذہب

تشیع کے

اہداف کی

حقیقت میں

ان کی غلط تفسیر۔

(٤)

بعض

شیعی

اصطلاحات

کی صحیح تفسیر نہ کرنا ۔

(٥)

شیعہ

منابع کی

تفسیر میں

ان کی خطا۔

(٦)

شیعہ

عقیدہ میں

حقیقت امامت

کی تفسیر میں

غلطی کرنا۔

(٧)

مذہب

شیعہ کی

پہچان کی تفسیر

میں خطا کا ارتکاب

کرنا۔

(٨)

مذہب

شیعہ کے

وجود میں آنے

کی صحیح تفصیل

سے آگاہ نہ ہونا۔

ہم نے تصویر نمبر (٣) میں انھیں تیروں کا معکوس اثر بتلایا ہے تاکہ روشن کردیں کہ یہ ٨ اشتباہات انھیں ٥ اسباب کے حتمی نتیجے ہیں اور یہ فتنہ ایک وسیع دائرہ کو اپنی آگ میں لپیٹ لیتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم وہابیوں میں خلط جیسی مشکل کے پیدا ہونے اور اس کے وسیع ہونے کے اسباب بیان کریں چند نکات کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔

وھابیوں کے اشتباہات کا تاریخی پس منظر

١۔ وہابی فکری نظام میں تشیع اور غلو کو آپس میں مخلوط کرنا کسی مقدمہ کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا، بلکہ یہ فکر بے شمار عوامل کا نتیجہ ہے کہ جو گذر زمان کے ساتھ وجود میں آئی ہے اور علمی نقطۂ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تاریخی مشکلات (بعض اکتشافات کی طرح کہ جوایک لمحۂ فکریہ میں کشف ہوجاتے ہیں) ایک لمحہ میں پیدا نہیں ہوتے۔

٢۔ تاریخی مشکلات کے وجود میں آنے کے اسباب کو سمجھنا بے حد مشکل ہے اور یہ مشکلات کسی بیماری کی طرح نہیں کہ جس کا سبب آشکار ہو، لہٰذا قارئین متوجہ ہوں گے کہ بعض اسباب اس مشکل کے وجود کا سبب نہیں ،بلکہ اس کی وسعت کا سبب ہیں۔

٣۔ تاریخ کے مطالعہ اور اس میں تحقیق ہی کے ذریعہ اس بڑی مشکل (خلط) کے عوامل کو جانا جاسکتا ہے اسی لئے ہم نے شیعیت کے بارے میں وہابی تمام نوشتوں کی طرف رجوع کیا اور سالہا سال تحقیق و مطالعہ کے بعد اس مسئلہ کی تاریخی حیثیت سے آگاہ ہوئے، جس کے بعدہم نے اس کے وجود میں آنے کے اسباب کو مشخص کیا. اس تحقیق کے نتیجہ میں ہمارے لئے یہ بات واضح ہوگئی کہ وہابی فکری نظام کی اس مشکل کی جڑیں عثمانی دور سے متعلق ہیں، کہ جس دور میں وہابیت رونما ہوئی۔

عثمانی حکومت، قدرت حاصل کرنے کے لئے شیعہ صفوی حکومتوں سے شدت کے ساتھ جنگ میں مشغول تھی اس حکومت نے ایرانی شیعوں سے جنگ کے لئے انہیں کافر کہہ کر ان کا خون مباح قرار دیا، اس خبیث منصوبے نے ہندوستان میں بھی لوگوں کے درمیان رخنہ پیدا کیا اور شاہ عبدالعزیز دہلوی نے ان باتوں سے متاثر ہو کر ایک کتاب بنام ''تحفۂ اثنا عشریہ'' لکھی، جسے عثمانی حکومت نے اہلسنت کے درمیان نشر کیا جس کے ذریعہ شیعوں و سنیوں میں اختلاف پیدا ہوا.یہ کتاب وہابی اہداف کو عملی جامہ پہنانے میں مؤثر واقع ہوئی اور مشکل خلط کی پیدائش میں بھی اس نے خاصا اثر چھوڑا۔

اس کتاب کی تاثیر محب الدین خطیب پر (جنھوں نے وہابی فکر کوپیش کیا ہے اور شیعہ شناسی میں ان کی کتابیں وہابی منابع کی حیثیت رکھتی ہیں) ان کی کتاب ''الخطوط العریضة فی دین الامامیہ'' (جو تحفۂ اثنا عشریہ کا خلاصہ ہے'' میں نمایاںہے۔

شیعہ شناسی کے میدان میں تحفۂ اثنا عشریہ کی روش نے وہابی مطالعات پر ہمیشہ کے لئے ایک منفی اثر چھوڑا،جسے احسان الٰہی ظہیر کے نوشتوں میں آسانی کے ساتھ محسوس کیا جاسکتاہے، گرچہ مورخین اس کتاب کے تالیفی زمانہ کے حالات سے آگاہ ہیں. تمام ہندوستانی مورخین نے کہا ہے کہ یہ کتاب ١٢ ہجری (جب کہ شیعیت کی طرفداری میں لکھنؤ کی حکومت، اودھ کے بادشاہوں اور اسی حلقہ میں اہل سنت کے طرفدار بادشاہوں کے درمیان سیاسی جنگ چھڑی تھی) میں منتشر ہوئی اور اس میں کوئی شک نہیں ،کہ ان حالات میں اس طرح کے فرقہ وارانہ نوشتہ، حکومتوں کو اپنے منحوس مقاصد و اہداف تک پہنچنے میں کافی مدد کرتے ہیں، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ یہ کتب انھیں بادشاہوں کو ہدیہ کے طور پر پیش کی جاتی تھیں۔

محمود شکری آلوسی نے (جنھوں نے کتاب تحفۂ اثنا عشریہ کا خلاصہ کیا ہے) اپنی کتاب کے مقدمہ میں لکھا ہے:

اس کتاب کو زمین پر خدا کے جانشین اور دین کے احیاء میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نمائندہ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں. وہ کہ جو بطریقۂ احسن لوگوں کے حال کی رعایت کرتے ہیں اور دقیق منصوبہ بندی و عمیق بینش کے ساتھ امور کو منظم کرتے ہیں اور لوگوںکے امور اور ان کی حفاظت میں بہترین و مستحکم روش اختیار کرتے ہیں. اور حکومت کے صالح اور دانشور افراد پر خاص توجہ دے کر انھیں مورد لطف قرار دیتے ہیں .اور وہ امیر مومنان ہیں، جن کی اطاعت سب پر لازم ہے جو دریا و خشکی کے بادشاہ، سلطان ابن سلطان، جنگجو بادشاہ عبدالحمید خان ابن جنگجو، بادشاہ عبد المجیدخان ہیں، خدا یا! ان کی مدد فرما اور اپنے نام کی تجلیل کے لئے انھیں کامیابی عطافرما اوراپنے اور ان کے سیاہ دل دشمنوں کے فتنوں کونابود فرما اور اپنی شمشیر قہر و غلبہ کے ذریعہ ان میں تفرقہ ڈال دے ۔(۱)

____________________

(١) مختصرالتحفۂ الاثنا عشریہ، ص٣۔ ٢.

وہ مزید اپنے کلام کو جاری رکھتے ہوئے کہتاہے:

آستانۂ عالی قدر میں اس کتاب کی پیشکش کا مقصد یہ ہے کہ عالی جناب اس کتاب پر کیمیائی نظر ڈال کر اسے قبول فرمائیں گے گویا اسی وقت میری آرزو پوری اور میرا عمل قابل قبول واقع ہوگا۔

اس کتاب کو میں نے ٩ حصوں میں منظم و مرتب کیا ہے، جس کا پہلا حصہ شیعہ فرقوں اوران کے احوال سے مخصوص ہے۔

افسوس کی بات ہے کہ یہ کتاب ایک خاص قسم کے سیاسی حالات میں منتشر ہوئی جس نے وہابی مطالعات اور فکری نظام پر ایسا اثر چھوڑا کہ ابھی تک وہ اس روش پر باقی ہیں اور اس کتاب کے مطالب کا سہارا لیتے ہوئے اہل سنت کے بزرگ علماء کی مخالفت کرتے ہیں.ہاں یہ کتاب سیاست کا نتیجہ ہے اور ہر وہ چیز کہ جو سیاست کے ذریعہ وجود میں آئے سیاست ہی سے ختم ہوسکتی ہے۔

عثمانی حکومت کی سیاست کا تقاضا تھا کہ وہ شیعہ مذہب کو غلط انداز میں پیش کرے، خصوصاً جس وقت ایرانی شیعہ حکومت کے توسط سے بغداد کا تختہ پلٹ گیاتو عثمانی حکومت نے اپنی موقعیت کو خطرہ میں پایا اور انھیں بخوبی اس بات کا علم تھا کہ اہل سنت شیعوں سے جنگ نہیں کرسکتے، مگر یہ کہ شیعوں کو غالی کہہ کر اسلام کے زمرہ سے خارج کرکے انہیں کافر کہا جائے۔

انھیں حالات کے پیش نظر عثمانی سیاست کے نتیجہ میں تشیع اور غالی میں خلط جیسی مشکل وجود میں آئی اور وہابیوں کے ہاتھوں (کہ جو عثمانی دور کے نوشتوں کا مطالعہ کرتے تھے) اس مشکل میں روزبروز اضافہ ہوتا گیا لیکن یہ تمام کتابیں نہ علمی تھیں اور نہ ہی تحلیلی، بلکہ صرف اور صرف ان میں تبلیغی پہلو پایاجاتا تھا. اور واضح ہے کہ غیر علمی تبلیغات کا مقصد علمی گفتگو کوترک کرتے ہوئے دشمن کے چہرہ کو بہر صورت برعکس اور غیر واقعی دکھلاناہوتا ہے۔

عثمانی حکومت کے خاتمہ پر اہل سنت کے بزرگ علماء نے شیعوں کے مقابلہ میں اپنی قدیم روش کو زندہ کرنے کی ضرورت کو پیش کیا، جبکہ یہ روش عثمانی دور میں ان کی کاوشوں کی وجہ سے ختم ہوچکی تھی۔

ازھر یونیورسٹی کے رئیس اور اہل سنت کے بزرگ عالم محمود شلتوت نے فتویٰ صادر کیا کہ شیعہ مذہب، اہل سنت کے چار مذاہب کی مانند ہے جسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔

جو کچھ ہم نے اس مقام پر بیان کیا ہے وہ وہابی نظر میں تشیع و غالی کے مساوی ہونے کا ایک مختصر تاریخی گوشہ ہے، لہٰذا محترم قارئین آئندہ مباحث میں اس بحث کی طرف توجہ دے سکتے ہیں۔

وہابیوں کی تشیع اور غلو میں خلط جیسی مشکل کے حل کے لئے ایک ایسی تحقیق کا منظم کرنا ضروری ہے جو بحث کے محور میں تفکیک پیدا کی جائے اورپھر ان تمام محوروں پر الگ الگ بحث کی جائے.اس بحث کے محور ہی غلو، امامیہ، امامیہ کا غلو سے ارتباط اور وہابیت جیسے موضوع ہیں. تیسرے محور میں دیکھنا ہوگا کہ آیا تشیع اور غلو میں مناسبت پائی جاتی ہے، یا ان کے درمیان ایک (نظریاتی) عمیق شگاف ہے۔ اور یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ شیعہ اور غالی ایک دوسرے کے متعلق کیا نظریات رکھتے ہیں؟ چوتھے محور میں یہ تحقیق کرنا ہوگی کہ وہابی کس قدر شیعیت سے آگاہ ہیں؟ آیا وہابی شیعیت کی حقیقت سے باخبر ہیں؟ دیگر مسلمانوں کے مقابل وہابیوں کا رویہ کیاہے؟ وہابیوں نے غلو کی کیا تعریف کی ہے؟ اور شیعوں میں غلو کی تعریف کیا ہے؟ اہلسنت اور وہابیوں کے درمیان شیعوں کے مقابلہ میں موقف میں فرق کس جگہ سے پیدا ہوا ہے؟ وہابی طرز فکر کس چیز پر استوار ہے؟ اور شیعوں کے مقابل اس طرز تفکر نے وہابیون کے لئے کیا اثر چھوڑا ہے؟

ان چار محور پر تفحص کے بعد مشکل خلط کا دقیق ادراک میسر ہوگا یہ وہی مشکل ہے کہ جس نے مسلمانوں میں تفاہم اور اختلاف ختم کرنے میں دشواریاں پیدا کی ہیں، لہٰذا اس مشکل کو ختم کرنے کے لئے فکر کرنا بے حد ضروری ہے۔

وھابی مصنفین کی تقسیم بندی

٥۔ تشیع کے متعلق وہابی نوشتوں پر مفصل تفحص اور ان مصنفین کے نوشتوں کی تحقیق کے بعد کہ جو تشیع و غلو میں خلط کا شکار ہیں اس نتیجہ پر پہنچے کہ مصنفین کے چھ گروہ ہیں:

(پہلا) ایسا گروہ جنہوں نے ظالم حکمرانوں (کہ جوایرانی شیعہ حکومت سے جنگ میں مشغول تھے) کی خشنودی کے لئے کتاب لکھی، لہٰذا ان کی کتابوںمیں تبلیغاتی اور امنیتی ڈھانچہ پایا جاتا ہے۔

گویا یہ کتا ب شیعیت کی رد میں بیرونی کسی اطلاعاتی ادارہ (جو استعماری طاقتوں کی خدمت میں ہے) کی طرف سے منتشر ہوئی ہے اور سیاست کونمایاں کرتی ہے اور اس کا مذہب تشیع کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں مصنفین کے اس گروہ (کہ جو حقیقت میں درباری کاتب اور مولف ہیں) نے فتنۂ خلط کو ابھار نے میں کافی حصہ لیا ۔

(دوسرا) ایک سادہ گروہ کہ جو پہلے گروہ کے فریب کا شکار ہوا یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے سادگی کے ساتھ درباری مصنفین کے نوشتوں پر اعتماد کیا، جس کے نتیجہ میں انھیں یقین ہوگیا کہ امامیہ مسلمان نہیں ، بلکہ غالی فرقہکی ایک شاخ ہیں۔

اور جب میں کتاب (ارتباط شیعہ اور غالیان) لکھ رہا تھا تو اسی گروہ میں شامل تھا۔

(تیسرا) یہ گروہ سادہ فکر تو نہیں تھا لیکن یہ لوگ دقت نظر بھی نہیں رکھتے تھے لہٰذا نادانستہ، خلط جیسے مرض میں مبتلا ہوگئے اور جو چیز یں غلو نہیں ہیں، انھیں غلو قرار دیا او رجو باتیں مذہب امامیہ میں نہیں تھیں، ان کو بغیر کسی برہان اور دلیل کے امامیہ سے منسوب کیا. یہ شیعہ کتب کا دقیق مطالعہ نہ کرنے کی بنا پر حقائق کو برعکس سمجھتے ہیں اور شرک و توحید میں خلط کرتے ہوئے شیعہ کو مشرک قرار دیتے ہیں۔

یہ لو گ شرک اکبر (جوانسان کواسلام سے خارج کرتاہے) اور شرک اصغر (جو بے شمار مسلمانوں میں پایا جاتا ہے لیکن انسان اسلام پر باقی رہتا ہے) اور کفر کے مراتب میں فرق نہیں جانتے، لہٰذا وہ کفر جو اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں ہے اسے اس کفر، کہ جوانسان کواسلام سے خارج کرتا ہے، مشتبہ کردیتے ہیں اور جو فرقے ان کے مخالف ہیں انھیں ارتداد و کفر سے متہم کر کے اسلام سے خارج کردیتے ہیں۔

(چوتھا) ایسا گروہ جن کے مذہبی افکار حزبی افکار کی طرح ہیں کہ جو مخالف کی ہر بات کو محکوم کرتے ہیں اور دوسرے مذہب کے بارے میں بحث و تحقیق، حتی کسی طرح کی معمولی شناخت کے بغیر قضاوت کرتے ہیں اور تمام مخالفین پر خط بطلان کھینچتے ہیں یہ لوگ ہر مخالف آواز کو غلو تصور کرتے ہوئے انھیں رد کردیتے ہیں۔

(پانچواں) ایسا گروہ کہ جنھیں وہابیوں پر شیعوں کے اعتراضات برداشت نہیں اور اشکالات کا جواب دینے کے بجائے آنکھیں بند کئے ہوئے وہابیت کا دفاع کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ بے شمار شیعہ و سنی مسلّمات سے انکار کریں۔

در حقیقت ان کا وہابیت سے تعصب آمیز دفاع انھیں منطقی اور عقلانی حالت سے نکال کر عاطفی موقف میں لاکھڑا کرتا ہے. شیعوں کے اعتراضات کا جواب دینے کے بجائے شیعیت کو متہم کرتے ہیں اور فرقہ شناسی کی کتابوں میں جن باتوں کی نسبت غالیوں کی طرف دی گئی ہے ان ہی باتوں کو شیعوں سے منسوب کرتے ہیں اس گروہ نے خلط جیسی بیماری کو بڑھانے میں کافی حصہ لیا ہے۔

جب وہابیوں نے شیعہ اور بعض سنیوں کی طرف سے قوی اور علمی اعتراضات کا سامنا کیا، تو چونکہ انھیں حل کرنے سے عاجز ہیں اور انھیں اپنی فکری کمزوری کا علم تھا، لہٰذا آنکھیں بند کر کے اپنی تمام طاقتوں کو وہابیت کے دفاع میں متمرکز کیا جن کا مقصد صرف اور صرف شیعہ حقائق کو برعکس دیکھانا تھا۔

ان کا ہدف اپنی دفاعی موقعیت کو مضبوط کرنا تھا لہٰذا انھوں نے اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے کسی کام سے دریغ نہیں کیا. امامیہ کی تخریب کرنا ان کی دفاعی تدبیر ہے. انھیں مذہب تشیع کے حقائق سے کوئی تعلق نہیں تھا صرف اور صرف اس مذہب کی تحریف کر کے اپنی دفاعی دیواریں مضبوط کرنا چاہتے تھے۔

(چھٹا) شیعیت کی مخالفت میں مصنفین کا خطرناک ترین گروہ، وہ لوگ ہیں جنھوںنے خود کو وہابیوں کی صف میں قرار دیاہے جب کہ وہابی اور سنی دونوں ان سے بیزار ہیں. جب اہل سنت ان کی بدنیتی (یعنی قدرت، شہرت اور پیسہ حصول کی نیت ) سے آگاہ ہوئے توانھیں اپنی بزم سے دور کر دیا. پھر یہ لوگ وہابی گروہ سے جاملے تاکہ اپنے مقاصد تک پہنچ سکیں۔

عبد اللہ علی قصیمی کا اسی گروہ میں شمار ہوتا ہے اس نے سعودی کا سفر کیا لیکن علمائے ازھر نے کسی اختلاف کی بنا پر اسے اپنی بزم سے نکال باہر کردیا پھر اس نے ایک کتاب بنام ''انقلاب وہابیت'' لکھی جس سے وہابی مسرور اور اہل سنت جواب دینے پر مجبور ہوئے، اس کے بعد اس نے ایک اور کتاب لکھی جس کا نام ''اسلام اور بت پرستی کی لڑائی'' رکھا گیا اور اس کتا ب میں شیعوں کو بت پرست کا نام دیا گیا جس سے وہابی خوشحال ہوئے، لیکن ان کتابوں کے لکھنے کے بعد اس نے آشکار ا طور پر اپنے کفر کا اظہار کیااور الٰہی ادیان کا منکر ہوکر انبیاء کی توہین کی، لہٰذا وہابیوں نے بھی اسے نکال باہر کردیا، لیکن جو شیعیت کی برعکس تصویر اس نے پیش کی اس کا اثر آج تک باقی ہے۔

(٦) قرن اول اور اس سے کچھ پہلے رائج بعض کلمات میں جو ابہام تھا اس ابہام نے مشکل خلط کی اشاعت میں اپنا کافی اثر چھوڑا اس دوران لفظ تشیع کئی فرقوں کے لئے استعمال ہوتاتھا جن سے واقعی تشیع (امامیہ) بیزار تھے اس تاریک ماحول نے دشمنان امامیہ کے لئے زمینہ ہموار کیا تاکہ وہ شیعیت پر ثقافتی یلغار کریں اس طرح تشیع کو غالی کا نام دیتے ہوئے ان پر بے شمار جدید تہمتیں لگائی گئیں۔

اس مفہوم تشیع (کہ جو کئی فرقوں پر دلالت کرتاہے) اور مفہوم امامیہ (کہ جو صرف ایک فرقہ سے مخصوص ہے)، میں خلط کی وجہ سے غیر امامیہ کے غلط آراء و نظریات (جن پر عقیدہ رکھنا شیعہ و سنی کے نزدیک کفر ہے) امامیہ کی طرف منسوب کئے گئے۔

اور واضح ہے کہ اگر کلمات کے معانی اوران کے دائرہ مفہوم کو معین نہ کیا جائے، تو یہ کلمات سادہ لوح افراد اور سوء استفادہ کرنے والوں کا بازیچہ قرار پاتے ہیں۔

(٧) وہابیوں میں شیعہ اور غالی کو یکسان جاننے کی اشاعت کا ایک سبب، شیعہ نشین شہر کوفہ میں بعض غالیوں کا وجود ہے جو کہ پہلی ہجری میں وہاں زندگی بسر کر رہے تھے، تاریخ کے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ کافی کم تعداد میں تھے اور اس زمانے (حتی اس کے بعد) کے شیعہ معاشرے نے بھی ان کا بائیکاٹ کردیاتھا، یہاں تک کہ آہستہ آہستہ ان کی نسل ختم ہوگئی او راصولی طور پر جن مناطق میں لوگوں کے دلوں میں تشیع نے اپنے لئے جگہ بنائی، مذہب غلو کے پیرو، اس علاقہ کو ترک کرنے پر مجبور ہوئے. انشاء اللہ آئندہ مباحث میں اس مسئلہ پر وضاحت دی جائے گی۔

(٨) اہل بیت (ع) پر عباسی اور اموی حکومتوں نے شکنجہ، ڈرانے دھمکانے، اور قتل جیسی سیاست روا رکھی، جب کہ اہل بیت (ع) مسلمانوں میں بلند و بالا مقام کے حامل تھے، لہٰذا اگر ظالم بادشاہوں کے ذریعہ اس زمانے کے مظلوم شیعوں پر بھی چند برابر ظلم روا رکھا جائے اور انھیں طرح طرح کی کفر آمیز باتوں سے متہم کیاجائے تاکہ ان پر ظلم کا جواز پیدا ہوسکے مخصوصاً اس وقت کہ جب مظلوم دفاع پر قدرت نہ رکھتا ہو تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہے۔