١۔ انسان کی الوہیت، اور انسان کو بڑھا کر مقام الوہیت تک پہنچانا۔
٢۔ خدا کے مقام کو گھٹا کر بشریت کے مقام تک لے آنا۔
ظاہر ہے کہ انسان میں خدا کا حلول یعنی خدا کے مقام کو گھٹا کر اسے بشریت کے مقام تک لے آنا ہے اورانسان کی ازلیت یعنی اسے مقام الوہیت تک بلند کرنا ہے.غالی فرقوں میں مختصر سی تحقیق کے بعد ان کے افکار میں ان دونوں رکنوں کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے۔
لیکن جو غلو علم حدیث میں بیان ہوا ہے اور بعض راویوں کے لئے اس کا استعمال ہونا فقط اسلامی فرعی مسائل سے مربوط ہے اور اس کا اصلی مسئلہ سے نہ کوئی ربط ہے اور نہ ہی اس کا نتیجہ، ارتداد و کفر ہے. ان دو نکات میں جدائی نہ کرنے کے سبب وہابی ان خطاؤں میں مبتلا ہوئے۔
معاصر وہابی مصنف عبد الرحمن عبد اللہ زرعی اپنی کتاب رجال الشیعہ فی المیزان میں اس غلطی کا شکار ہوئے ہیں اور وہ ان دو نکات میں جدائی نہیں کرسکے. اگر اہل سنت کی ان کتابوں کا مطالعہ کیا جائے جوعلم رجال سے مخصوص ہیں تو معلوم ہوگا کہ کلمۂ غلو کوانھوں نے ان افراد کے لئے استعمال کیا کہ جن میں افضلیت صحابہ پر نظریاتی اختلاف ہے، لہٰذا اس کا مطلب یہ تو نہیں ہوا کہ معاذ اللہ وہ ان افراد کو خدا کہنا چاہتے ہیں. آہستہ آہستہ غلو کے جو مفہوم اہل سنت کے یہاں رائج ہوئے، وہابی اس مفہوم سے دور ہوتے گئے اور اس کے حدود کو اتنا بڑھایا کہ اہل سنت بھی اس فتنہ میں مبتلاہوئے اور وہابی، شیعہ اور سنی دونوں فرقوں کو غالی قرار دینے لگے اور انھوں نے تمام غیر وہابی فرقوں کو غلو کی تہمت میں لپیٹ لیا۔
(غلو کے مفہوم کو وسعت دینے کا انجام)
غلو کے مفہوم کو وسعت دینے کا واضح اثر وہابیوں کے اس کردار سے ظاہر ہوتاہے، کہ جسے وہ اپنے مخالفین کے ساتھ بعض اختلافی مسائل میں اپنائے ہوئے ہیں، چونکہ وہابی اپنے مخالفین پر غلو کی تہمت لگاتے ہیں اور بعض مسائل میں خود ساختہ فتنہ (غلو سے مقابلہ کے نام پر ) پیدا کرتے ہیں، لہٰذا ان فتنوں میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے۔
١۔ خدا کی صفات خبریہ کے متعلق فتنہ برپا کرنا۔
وہابی ہر اس شخص پر غلو کی تہمت لگاتے ہیں جو خدا کی صفات خبریہ میں ان کا مخالف ہوں، لہٰذا انھوں نے سینکڑوں جلد کتا بیں شیعہ اور سنی دونوں کی رد میں لکھی ہیں جس کی وجہ سے مسلمانوں میں ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا۔
الٰہی صفات کے ذریعہ مسلمانوں میں اتحاد کے بجائے وہابیوں کی وجہ سے اختلاف وجود میں آیا. معاصر سنی دانشور محمد عادل عزیزہ نے وہابیوں کو یہ سمجھانے کی پوری کوشش کی ہے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ غالی نہیں ہیں. اوراگر انھیں غالی فرض کرلیا جائے تو ابن کثیر دمشقی (کہ جو وہابیوں کے نزدیک ایک خاص احترام رکھتے ہیں) کو غالی کہنا ہوگا، کیونکہ انھوں نے بھی الٰہی صفات میں وہابی روش پر عمل نہیں کیا۔
تمام شیعہ اور سنی علمائ، الٰہی صفات سے مربوط آیتوں کی تاویل کرتے ہیں اور اسے غلو نہیں کہتے، اور نہ ہی غلو اور تاویل میں کسی قسم کا ربط پایا جاتا ہے، لہٰذا وہ وہابی روش پر سختی کے ساتھ تنقید کرتے ہیں۔
محمد عادل عزیزہ نے صفات الہی سے مربوط آیات کے بارے میں ابن کثیر دمشقی کے نظریہ کے بارے میں ایک کتاب لکھی جس میں آپ اپنے ہدف کو یوں بیان کرتے ہیں:
اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں میں اختلاف، کشیدگی اور کینہ کم ہوجائے، کیونکہ دور حاضر میں وہابیوں کی جانب سے بے شمار اہل سنت علماء پر (الہی صفات سے مربوط آیات میں ان کے نظریات کی وجہ سے) کفر اور دیگر تہمتیں لگائی جا رہی ہیں۔
ہر وہ شخص جواس کتاب کا مطالعہ کرے، اس کے لئے واضح ہو جائے گا کہ صفات الٰہی سے مربوط آیات میں آپ کی روش وہابیوں کی روش سے الگ ہے آپ اسی کتاب میں فرماتے ہیں:
یہ مختصر رسالہ کہ جس میں آیات صفات کے متعلق ابن کثیر سلفی کے متفرق کلمات پائے جاتے ہیں ایک آزاد فکر مسلمان کو کنٹرول کرسکتا ہے جس سے وہ جس شخص کا کلام ابن کثیر سے مشابہ ہو، اسے فوراً مرتد نہ کہنے لگے، کیونکہ خود ابن کثیر تمام لوگوں کے نزدیک علم، دقت اور سلامت جیسے صفات سے جانے جاتے ہیں۔
____________________