دوسرا مرحلہ
مذہب امامیہ کی تجزیاتی شناخت
مذہب امامیہ کو وہابیوں کے لئے پیش کرنے میں ہمارا دوسرا قدم، اس مذہب کے عقائد کو اچھی طرح تحلیل کر نا ہے، تاکہ ان کا ذہن غلط تحلیل اور عقائد میں مشغول نہ ہو اور وہ ہمیں غلو اور کفر سے متہم نہ کریں اور ان باتوں کو ہماری طرف منسوب نہ کریں جن کا مذہب امامیہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔
جن حقائق کی ہم تحلیل کرنا چاہتے ہیں وہ شیعہ معتبر کتب میں موجود ہیں البتہ ہم اس مقام پر وسیع تحلیل و گفتگو نہیں کرنا چاہتے انشاء اللہ دوسری کتاب میں ان امور کو انجام دیں گے ، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ مذہب امامیہ کے متعلق وہابیت کی قلمی روش یہ ہے کہ وہ تحلیل و تحقیق کئے بغیر تمام غالی عقائد و آراء کو (جنہیں خود شیعوں نے رد کیا ہے) شیعیت کی طرف منسوب کرتے ہیں، انھیں اپنی تہمتوں کا نشانہ بناتے ہیں، افسوس کی بات ہے کہ بعض معاصر سنی مصنفین نے بھی اس روش کو اختیار کیا ہے۔
البتہ محققین خوب جانتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی شناخت کے لئے اس مذہب کے کتابوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور ان میں جو مطالب ہیں ان کی تحلیل و تجزیہ کے بعد ان کے بارے میں نظر دی جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ احسان الٰہی ظہیر (جوکہ شیعوں کی تکفیر کرتا ہے) کی روش اور شیخ محمود شلتوت (کہ جوامامیہ کو ایک معتبر اسلامی مذہب جانتے ہیں) کی روش میں فرق آفتاب کی طرح روشن ہے، احسان الٰہی ظہیر نے امامیہ کی شناخت میں غیر معتبر اور غالی کتب کا مطالعہ کیا لیکن شیخ محمود شلتوت نے معتبر منابع میں تمام مطالب کا تجزیہ کیاہے۔
اس مرحلے ہم چار مہم مسائل کی تحلیل کریں گے:
١۔ امامیہ کے نزدیک الوہیت و نبوت کی حقیقت
یہ دو مسائل شیعی فکر میں کافی اہمیت رکھتے ہیں اور اگر امامیہ کتب کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی، کہ وہ توحید الوہیت و ربوبیت اور الوہیت و عبودیت سے مخصوص خصوصیات میں فرق کے قائل اور اس پر کتنی اہمیت دیتے ہیں. الوہیت صرف اور صرف ذات خدا کے لئے ہے اور غیر خدا سب کے سب عبد و مخلوق ہیں۔
مذہب امامیہ کے نزدیک اس مسئلہ (الوہیت و نبوت) کی اہمیت نے انھیں مجبور کیا کہ وہ غلو اور غالی اعتقادات کا سختی سے مقابلہ کریں، کیونکہ غالی مقام الوہیت و نبوت میں تفریق کے قائل نہیں ،ان دو میں اتحاد یا حلول کے قائل ہیں، لہٰذا اہل تشیع نے ان کی تکفیر اوران کے اعتقادات کی رد میں بے شمار کتابیں لکھیں ۔
اسی طرح مذہب امامیہ پوری طرح سے نصوص قرآنی پر استوار ہے، اور وہ پیغمبر اسلام کے آخری نبی اور تمام لوگوں پر ان کی برتری کے قائل ہیں جب کہ غالیوں کے یہاں یہ امر قابل قبول نہیں اور وہ دوسروں کو پیغمبر اکرمصلىاللهعليهوآلهوسلم
سے افضل قرار دیتے ہیں۔
مذہب امامیہ کے پیرو معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامصلىاللهعليهوآلهوسلم
آخری نبی ہیں، جن کے بعد کوئی نبی نہیں اورجو بھی ختم نبوت کا قائل نہ ہو، وہ کافر ہے اس عقیدہ کی بنیاد قرآن کریم ہے۔
٢۔ امامیہ مذہب میں شریعتوں اور احکام کی حقیقت
ان حقائق کی شناخت کے لئے جس ترتیب کو ہم نے پیش کیا ہے اس کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ جب تک پہلی حقیقت (حقیقت الوہیت و نبوت) سمجھ میں نہ آئے،دوسری حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے۔
پہلی حقیقت میں فکری پہلو اوردوسری حقیقت میں عملی پہلو کی طرف اشارہ ہے پہلے مسئلہ میں عقل کی کارکردگی اوردوسرے مسئلہ میں عملی کارکردگی پر گفتگو ہے اور اگر پہلے مسئلہ پر ایمان لائیں تو دوسرے مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہوگا. پہلے مسئلہ میں جب ہم نے ثابت کردیا کہ جز اللہ کے کوئی معبود و خالق و مدبر نہیں اور تشریع فقط اسی کا کام ہے تودوسرے مسئلہ میں ہم کہیں گے اس تشریع کا قرآن اور کلام وحی سے استخراج ہونا ضروری ہے اور کیونکہ سنت پیغمبر بھی وحی سے متصل ہے لہٰذا سنت بھی تشریع کا منبع قرار پائے گی۔
اگر قارئین محترم، شیعہ فقہی کتب کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ ان کتب میں تمام احکام و فتاوی قرآن و صحیح سنت پر استوار ہیں اور وہ احکام کے ظاہری معنی پر عمل کرتے ہیں ا ور باطنی و تاویلی معانی سے پرہیز کرتے ہیں اور جو بھی احکام اسلام کی تاویل کے ذریعہ شریعت پر عمل نہ کرے اسے کافر قرار دیتے ہیں۔
اور معتقد ہیں کہ عقیدہ جتنا بھی اہم کیوں نہ ہو انسان کواحکام و شریعت پر عمل نہ کرنے سے بے نیاز نہیں کرتا۔
٣۔ مذہب امامیہ کے اہداف
کسی بھی مذہب کے اہداف کواس وقت تک نہیں جانا جاسکتا ،کہ جب تک اس مذہب کے اعتقادی افکار و نظریات کو نہ سمجھ لیا جائے، لیکن وہابی شیعہ عقائد اوران کے عمل پر تحقیق کئے بغیر ان کے اہداف کو درک کرنا چاہتے ہیں جو کہ ایک غیر ممکن بات ہے، کیونکہ انسان کے اعتقاداور عمل ہی کے ذریعہ اس کے اہداف تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔
کسی بھی انسان کے اعتقادات اوراہداف میں جدائی ممکن نہیں ،لیکن وہابی یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کی شناخت کے بغیر خود ساختہ اہداف شیعیت سے منسوب کریں اور پھر انھیں رد کریں۔
٤۔ تشیع میں بعض رائج مفاہیم
یہ دیکھا گیا ہے کہ وہابیوں نے شیعوں کے یہاں رائج اصطلاحات کی برعکس تفسیرکو پیش کی ہے، کہ جسے حتی اہل سنت نے بھی اس طرح نہیں سمجھا ہے بدا، تقیہ، عصمت، مصحف، جیسے کلمات اس سرنوشت کا شکار رہے اور جب تک واضح طور سے یہ معانی بیان نہ ہوں، وہابیوں سے منطقی گفتگو کرنا ممکن نہیں ۔
ایسے بے شمار موارد پیش آئے جن میں لفظ تو ایک ہے، لیکن اس کی تفسیر میں امامیہ اور وہابیوں کے درمیان عمیق اختلاف پایا جاتا ہے، لہٰذا جب تک وہابی ان الفاظ سے اہل تشیع کے معنی کو نہ سمجھیں،ان سے گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
امامت اور غیبت کی حقیقت کا ان حقائق میں شمار ہوتا ہے جن کی تحلیل اور تجزیہ اسی مرحلہ کے لئے موزوں ہے، لیکن چونکہ اس مرحلہ میں وہابیوں کا ان مطالب کو درک کرنا مشکل ہے اسی لئے ہم نے اسے تیسرے مرحلہ میں بیان کیا ہے. اور اب ہم مذہب امامیہ کی بنیادی شناخت کو پیش کرتے ہیں۔