گفتگو کا سلیقہ

گفتگو کا سلیقہ 0%

گفتگو کا سلیقہ مؤلف:
زمرہ جات: مناظرے

گفتگو کا سلیقہ

مؤلف: ڈاکٹر عصام العماد
زمرہ جات:

مشاہدے: 8746
ڈاؤنلوڈ: 2860

گفتگو کا سلیقہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 68 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8746 / ڈاؤنلوڈ: 2860
سائز سائز سائز

غلو اور غالیوں کے متعلق مذہب امامیہ کا نظریہ

دیگر مذاہب کی بہ نسبت غلو او رغالیوں کے مقابل امامیہ کا سخت موقف ان کا ایک خاص امتیاز ہے اس مسئلہ میں مذاہب اسلامی میں سے کسی مذہب نے بھی امامیہ کی طرح سختی سے مخالفت نہیں کی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ امامیہ فکر کی بنیادوں (کہ جو قرآن و سنت صحیحہ سے ماخوذ ہیں) اور غالی تصورات میں سخت اختلاف پایا جاتا ہے اور وہ غلو کی طرف کسی قسم کا رجحان نہیں رکھتے، بلکہ اس کوشش میں ہیں کہ ان انحرافات کی اصلاح کی جائے اور جواس مشکل میں گرفتار ہیں انھیں نجات دی جائے۔

غالیوں کے لئے شیعہ موقف روز روشن کی طرح واضح ہے لہٰذا اس سے زیادہ توضیح دینا مناسب نہیں میں نے کئی غالیوں سے گفتگو کی اور بحمد اللہ مذہب امامیہ کی برکت سے انھوں نے کفر آمیز عقائد کو چھوڑ کر حقیقی اسلام کو اپنا لیا. لیکن وہابی مذہب امامیہ کے نظریات اوراس کے بنیادی تفکرات سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے تشیع اور غلو کو ایک قرار دیتے ہیں لہٰذا ان کی اصلاح کرنا اور ان کے لئے غلو کے مقابل شیعہ موقف کو (شیعہ منابع کے ذریعہ) واضح کرنا ضروری ہے۔

ان کا یہ جاننا ضروری ہے کہ امامیہ اور غالیوں میں فاصلہ ایک بدیہی اور واضح بات ہے البتہ اگر کوئی شبہ باقی رہ جائے تو اسے توضیح کے ذریعہ رفع کیاجاسکتا ہے، کیونکہ شیعہ ہر قدم قرآن اور سنت صحیحہ کے ساتھ ہیں. اب تک ہم نے اپنی مفصل بحث میں پانچ مسائل پر روشنی ڈالی ہے۔

١۔ غالی تصورات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔

٢۔ غالی تشریعات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔

٣۔ غالی رؤساء کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات۔

٤۔ غالیوں کی روایات کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات ۔

٥۔ غالی کتب کے متعلق مذہب امامیہ کے نظریات۔

مسلمانوں کو غالیوں کے غلط افکار سے نجات دلانے میں مذہب تشیع نے کافی کوششیں کیں. غالیوں کے مقابل اس مذہب نے جس روش کو انتخاب کیا اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس روش نے سب سے پہلے اس کے انحرافی افکار کے دائرہ کو تنگ کرکے اس کا سد باب کردیا۔

الوہیت انسان، ایک ایسا اعتقادی مسئلہ تھا، کہ جس کا شیعوںنے ڈٹ کر مقابلہ کیا، یہ باطل خیال، الوہیت و عبودیت میں تفریق نہ کرنے سے وجود میں آیا. معصومین ٪ نے سینکڑوں روایتوں میں انسان کے مقام و منزلت کو بیان کیا ہے اور پوری طرح گوشزد فرمایا کہ انسان چاہے جتنا کمال کی بلندیوں تک پہونچ جائے، پھر بھی محال ہے کہ عبودیت سے نکل کر خدا بن جائے۔

أئمہ معصومین ٪ کے یہ اقوال قرآن و صحیح السند احادیث بنوی سے ماخوذ ہیں. گویا یہ اقوال قرآن و حدیث کی شرح و تفسیر ہیں. یہی وجہ ہے کہ ان اقوال میں قرآنی رنگ پایا جاتا ہے۔

ان تمام اقوال میں ماسوی اللہ کو عبد و مخلوق قرار دیا گیا ہے اورالوہیت کوذات باری تعالیٰ میں منحصر، چونکہ غالیوں نے اپنی تبلیغات کوالوہیت انسان یا أئمہ میں متمرکز کیا ہے، لہذ ا أئمہ (ع) نے بھی اپنی تعلیمات کو خدا کی بندگی اور عبودیت میں متمرکز کیا او رغالیوں کی اس بنیاد (الوہیت انسان) کو نابود کرنے کے لئے خدا کے مقابل عبودیت و بندگی ،خضوع و خشوع پر بے حد تاکید کی، تاکہ یہ باطل خیال پوری طرح نیست و نابود ہو جائے۔

غالیوں کی گمراہ فکر کو قلع قمع کرنے میں یہ روایات کافی موثر ثابت ہوئیں اور اس میں کوئی شک نہیں ، کہ ان روایات کو جمع، حفظ او رنشر کرنے میں شیعہ راویوں نے بے حد زحمتوں کا سامنا کیا اورانھیں روایتوں کی بنا پر شیعہ فقہاء نے غالی فرقوں کی تکفیر کی اوران کے مقابل سخت رد عمل اختیار کی، لیکن وہابی چونکہ شیعہ اور غالی کوایک ہی تصور کرتے ہیں، لہٰذا انھوں نے ان تمام روایات کو شیعیت کی مذمت پر حمل کیا اور جیسا کہ پہلے ہم عرض کرچکے ہیں، کہ یہ غلو کے مفہوم میں وسعت دیکر شیعہ اور عالی میں خلط کا نتیجہ ہے اب ہم قارئین کے لئے چند روایات کو پیش کرتے ہیں۔

١۔ امام جعفر صادق ـ اپنے اجداد کے ذریعہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل فرماتے ہیں کہ: '' رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مجھے میرے مقام سے اونچا نہ بناؤ، کیونکہ خدا نے مجھے پیغمبری سے پہلے اپنا بندہ قرار دیا ہے'' لہٰذا جب رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،جو انسانیت کے بلند و بالا مقام پر فائز ہیں خود کو عبد خطاب کریں، تو پھرحتماً أئمہ (ع) بھی انھیں کی سیرت پر عمل کریں گے۔

٢۔ حضرت علی ـ فرماتے ہیں:

''ہمارے متعلق غلو سے پرہیز کرو اور ہمیں خدا کے تربیت یافتہ بندے جانو''. أئمہ (ع) کی عبودیت مکتب تشیع کا ایک اہم تعلیمی رکن ہے جب میں أئمہ (ع) کی روایات اور علمائے شیعہ کے اقوال میں مقایسہ کرتا ہوں تو ان میں پوری طرح مطابقت نظر آتی ہے۔

أئمہ (ع) کی عبودیت اس مذہب کی اصلی او ربنیادی حقیقت ہے کہ جواس مذہب او راس مذہب کی پیروی کرنے والوں سے جڑی ہوئی ہے. لہٰذا غلو کے لئے کوئی مجال نہیں کہ وہ اس مذہب میں خود نمائی کرے۔

تمام شیعہ امام رضا ـ کے اس قول پر کاملاً ایمان رکھتے ہیں:

جو بھی امیر المومنین کو عبودیت کی منزل سے اونچا کرتے ہوئے انھیں الہٰ قرار دے، تو اس کا شمار مغضوبین اور گمراہوں میں ہوگا آیا علی بن ابی طالب نے دوسروں کی طرح طعام اور پانی نوش نہیں فرمایا: آیا آپ نے شادی نہیں کی؟ آیا ان صفات کا حامل خدا ہوسکتا ہے؟ اگر ممکن ہو تو پھر ہم میں سے ہر ایک فرد خدا بننے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

شیعہ کتب میں اس طرح کی بے شمار روایات پائی جاتی ہیں اور شیعہ علماء نے بھی أئمہ کی روش کو اپنایا، جو بھی شیعہ معاشرہ میں رفت و آمد رکھتا ہواسے اس حقیقت کا بخوبی اندازہ ہوسکتا ہے یہ صرف نظریات نہیں ، جو شیعہ کتب میں درج ہوں، بلکہ شیعی سماج اور ان کے گوشت پوست و خون میں یہ تعلیمات پائی جاتی ہیں او ریہ تعلیمات ان کی حیات سے جدا نہیں ، بلکہ ان کے لئے مایۂ فخر و مباہات ہیں۔

یہاں تک ہم نے مذہب امامیہ او رغلو میں فرق کو بیان کرنے میں وہابیوں کے لئے شیعیت کی ایک مختصر سی تصویر پیش کی ہے اوراب ہم مذہب امامیہ کی تحلیلی شناخت کو پیش کرتے ہیں۔

دوسرا مرحلہ

مذہب امامیہ کی تجزیاتی شناخت

مذہب امامیہ کو وہابیوں کے لئے پیش کرنے میں ہمارا دوسرا قدم، اس مذہب کے عقائد کو اچھی طرح تحلیل کر نا ہے، تاکہ ان کا ذہن غلط تحلیل اور عقائد میں مشغول نہ ہو اور وہ ہمیں غلو اور کفر سے متہم نہ کریں اور ان باتوں کو ہماری طرف منسوب نہ کریں جن کا مذہب امامیہ سے کوئی تعلق ہی نہیں ۔

جن حقائق کی ہم تحلیل کرنا چاہتے ہیں وہ شیعہ معتبر کتب میں موجود ہیں البتہ ہم اس مقام پر وسیع تحلیل و گفتگو نہیں کرنا چاہتے انشاء اللہ دوسری کتاب میں ان امور کو انجام دیں گے ، لیکن یہ جاننا ضروری ہے کہ مذہب امامیہ کے متعلق وہابیت کی قلمی روش یہ ہے کہ وہ تحلیل و تحقیق کئے بغیر تمام غالی عقائد و آراء کو (جنہیں خود شیعوں نے رد کیا ہے) شیعیت کی طرف منسوب کرتے ہیں، انھیں اپنی تہمتوں کا نشانہ بناتے ہیں، افسوس کی بات ہے کہ بعض معاصر سنی مصنفین نے بھی اس روش کو اختیار کیا ہے۔

البتہ محققین خوب جانتے ہیں کہ کسی بھی مذہب کی شناخت کے لئے اس مذہب کے کتابوں کی طرف رجوع کرنا ضروری ہے اور ان میں جو مطالب ہیں ان کی تحلیل و تجزیہ کے بعد ان کے بارے میں نظر دی جاتی ہے۔

یہی وجہ ہے کہ احسان الٰہی ظہیر (جوکہ شیعوں کی تکفیر کرتا ہے) کی روش اور شیخ محمود شلتوت (کہ جوامامیہ کو ایک معتبر اسلامی مذہب جانتے ہیں) کی روش میں فرق آفتاب کی طرح روشن ہے، احسان الٰہی ظہیر نے امامیہ کی شناخت میں غیر معتبر اور غالی کتب کا مطالعہ کیا لیکن شیخ محمود شلتوت نے معتبر منابع میں تمام مطالب کا تجزیہ کیاہے۔

اس مرحلے ہم چار مہم مسائل کی تحلیل کریں گے:

١۔ امامیہ کے نزدیک الوہیت و نبوت کی حقیقت

یہ دو مسائل شیعی فکر میں کافی اہمیت رکھتے ہیں اور اگر امامیہ کتب کا مطالعہ کیاجائے تو یہ بات واضح ہو جائے گی، کہ وہ توحید الوہیت و ربوبیت اور الوہیت و عبودیت سے مخصوص خصوصیات میں فرق کے قائل اور اس پر کتنی اہمیت دیتے ہیں. الوہیت صرف اور صرف ذات خدا کے لئے ہے اور غیر خدا سب کے سب عبد و مخلوق ہیں۔

مذہب امامیہ کے نزدیک اس مسئلہ (الوہیت و نبوت) کی اہمیت نے انھیں مجبور کیا کہ وہ غلو اور غالی اعتقادات کا سختی سے مقابلہ کریں، کیونکہ غالی مقام الوہیت و نبوت میں تفریق کے قائل نہیں ،ان دو میں اتحاد یا حلول کے قائل ہیں، لہٰذا اہل تشیع نے ان کی تکفیر اوران کے اعتقادات کی رد میں بے شمار کتابیں لکھیں ۔

اسی طرح مذہب امامیہ پوری طرح سے نصوص قرآنی پر استوار ہے، اور وہ پیغمبر اسلام کے آخری نبی اور تمام لوگوں پر ان کی برتری کے قائل ہیں جب کہ غالیوں کے یہاں یہ امر قابل قبول نہیں اور وہ دوسروں کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے افضل قرار دیتے ہیں۔

مذہب امامیہ کے پیرو معتقد ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آخری نبی ہیں، جن کے بعد کوئی نبی نہیں اورجو بھی ختم نبوت کا قائل نہ ہو، وہ کافر ہے اس عقیدہ کی بنیاد قرآن کریم ہے۔

٢۔ امامیہ مذہب میں شریعتوں اور احکام کی حقیقت

ان حقائق کی شناخت کے لئے جس ترتیب کو ہم نے پیش کیا ہے اس کا لحاظ ضروری ہے کیونکہ جب تک پہلی حقیقت (حقیقت الوہیت و نبوت) سمجھ میں نہ آئے،دوسری حقیقت کو سمجھنا مشکل ہے۔

پہلی حقیقت میں فکری پہلو اوردوسری حقیقت میں عملی پہلو کی طرف اشارہ ہے پہلے مسئلہ میں عقل کی کارکردگی اوردوسرے مسئلہ میں عملی کارکردگی پر گفتگو ہے اور اگر پہلے مسئلہ پر ایمان لائیں تو دوسرے مسئلہ پر عمل کرنا ضروری ہوگا. پہلے مسئلہ میں جب ہم نے ثابت کردیا کہ جز اللہ کے کوئی معبود و خالق و مدبر نہیں اور تشریع فقط اسی کا کام ہے تودوسرے مسئلہ میں ہم کہیں گے اس تشریع کا قرآن اور کلام وحی سے استخراج ہونا ضروری ہے اور کیونکہ سنت پیغمبر بھی وحی سے متصل ہے لہٰذا سنت بھی تشریع کا منبع قرار پائے گی۔

اگر قارئین محترم، شیعہ فقہی کتب کا مطالعہ کریں تومعلوم ہوگا کہ ان کتب میں تمام احکام و فتاوی قرآن و صحیح سنت پر استوار ہیں اور وہ احکام کے ظاہری معنی پر عمل کرتے ہیں ا ور باطنی و تاویلی معانی سے پرہیز کرتے ہیں اور جو بھی احکام اسلام کی تاویل کے ذریعہ شریعت پر عمل نہ کرے اسے کافر قرار دیتے ہیں۔

اور معتقد ہیں کہ عقیدہ جتنا بھی اہم کیوں نہ ہو انسان کواحکام و شریعت پر عمل نہ کرنے سے بے نیاز نہیں کرتا۔

٣۔ مذہب امامیہ کے اہداف

کسی بھی مذہب کے اہداف کواس وقت تک نہیں جانا جاسکتا ،کہ جب تک اس مذہب کے اعتقادی افکار و نظریات کو نہ سمجھ لیا جائے، لیکن وہابی شیعہ عقائد اوران کے عمل پر تحقیق کئے بغیر ان کے اہداف کو درک کرنا چاہتے ہیں جو کہ ایک غیر ممکن بات ہے، کیونکہ انسان کے اعتقاداور عمل ہی کے ذریعہ اس کے اہداف تک رسائی حاصل ہوسکتی ہے۔

کسی بھی انسان کے اعتقادات اوراہداف میں جدائی ممکن نہیں ،لیکن وہابی یہ چاہتے ہیں کہ پہلے اور دوسرے مرحلے کی شناخت کے بغیر خود ساختہ اہداف شیعیت سے منسوب کریں اور پھر انھیں رد کریں۔

٤۔ تشیع میں بعض رائج مفاہیم

یہ دیکھا گیا ہے کہ وہابیوں نے شیعوں کے یہاں رائج اصطلاحات کی برعکس تفسیرکو پیش کی ہے، کہ جسے حتی اہل سنت نے بھی اس طرح نہیں سمجھا ہے بدا، تقیہ، عصمت، مصحف، جیسے کلمات اس سرنوشت کا شکار رہے اور جب تک واضح طور سے یہ معانی بیان نہ ہوں، وہابیوں سے منطقی گفتگو کرنا ممکن نہیں ۔

ایسے بے شمار موارد پیش آئے جن میں لفظ تو ایک ہے، لیکن اس کی تفسیر میں امامیہ اور وہابیوں کے درمیان عمیق اختلاف پایا جاتا ہے، لہٰذا جب تک وہابی ان الفاظ سے اہل تشیع کے معنی کو نہ سمجھیں،ان سے گفتگو کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

امامت اور غیبت کی حقیقت کا ان حقائق میں شمار ہوتا ہے جن کی تحلیل اور تجزیہ اسی مرحلہ کے لئے موزوں ہے، لیکن چونکہ اس مرحلہ میں وہابیوں کا ان مطالب کو درک کرنا مشکل ہے اسی لئے ہم نے اسے تیسرے مرحلہ میں بیان کیا ہے. اور اب ہم مذہب امامیہ کی بنیادی شناخت کو پیش کرتے ہیں۔

تیسرا مرحلہ

مذہب امامیہ کی بنیادی شناخت

اس مرحلہ میں جن مسائل کا تجزیہ ہوگا ان کا مقام منطقی لحاظ سے دوسرے مرحلہ سے مربوط مسائل کی شناخت کے بعد ہے اگر الوہیت، نبوت، شریعت، اور شیعہ اہداف اوران کی اصطلاحات صحیح طور پر بیان ہو جائیں تو پھر نہ ہی امامیہ اور غلو کے منشا میں خلط واقع ہوگا اور نہ ہی شیعہ اور غالی منابع یکسان قرار دیئے جائیں گے اس مرحلہ میں تین چیزوں (شیعی منابع، شیعی تشخص، شیعیت کے وجود میں آنے کے اسباب) پر بحث و تحقیق ہوگی اور گرچہ امامت اور غیبت امام کے مباحث دوسرے مرحلہ سے مربوط ہیں لیکن ضرورت کی بنا پر ہم انھیں اسی مرحلہ میں پیش کرتے ہیں۔

١۔ امامیہ مذہب کے منابع

وہابی معتقد ہیں کہ شیعہ اعتقادات کی بنیاد مجوسی ، یہودی اور مسیحی افکار پر استوار ہیں، لیکن اگر وہ گذشتہ مراحل پر غور کرتے تو ان کے لئے واضح ہو جاتا ،کہ تمام شیعہ مبانی قرآن اور صحیح سنت سے ماخوذ ہیں اوریہی منابع اس مذہب کی بنیاد ہے۔

یہ تو وہابیوں کی عادت ہے کہ وہ کسی بھی مذہب کے مفاہیم اور عقائد پر پوری طرح تحلیل کئے بغیر اس مذہب کے بارے میں غلط قضاوت کر بیٹھتے ہیں.اگر وہ شیعہ علمی وعملی آراء کو سمجھتے، اوران کے لئے واضح ہو جاتا، کہ یہ آراء قرآن و سنت میں منحصر ہیں، تووہ شیعہ کو مجوسی نہ کہتے، کیونکہ وہابی، شیعہ اور غالی کوایک ہی تصور کرتے ہیں، لہٰذا ان کے منابع کو بھی ایک ہی خیال کرتے ہیں اور جس طرح غالیوں کے انحراف کی اساس ،مجوسی، یہودی اور مسیحی افکار ہیں، شیعہ عقائد کو بھی انھیں پر حمل کرتے ہیں جب کہ ان دونوں کے درمیان کوسوں فاصلہ پایا جاتا ہے ۔

٢۔ مذہب تشیع میں امامت کی حقیقت

امامت کے متعلق (قرآن و حدیث سے) محکم دلائل پر توجہ دینے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ امامت خدا کی طرف سے اپنے بندوں کے لئے ایک ایسی خاص نعمت ہے، جسے اپنے آخری پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذریعہ پہچنوایا.امامت شیعوں کا خود ساختہ مفہوم یا خاندان پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر ظلم کا نتیجہ نہیں ، بلکہ أئمہ (ع) کی امامت کے بارے میں صدر اسلام ہی سے صحیح نصوص موجود ہیں اوراس امر کی ابتدا چوتھی صدی یا اس کے بعد نہیں ہوئی ہے۔

شیعہ اور سنی متفق ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بارہ افراد کو اپنا وصی اور خلیفہ قرار دیا اوراس سلسلہ میں احادیث کو بخاری، مسلم او ردوسرے محدثین نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے. یہ تمام راوی چوتھی صدی سے پہلے تھے اور اس سے پہلے کہ بارہ امام آئیں یہ احادیث مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی تھیں اور انھیں احادیث کی بنا پر لوگ أئمہ (ع) کی امامت کی طرف مائل ہوئے، لہٰذا ظالم بادشاہوں نے پوری کوشش کی، کہ ان احادیث کو چھپا ئیں یاان میں تحریف و تاویل کریں، کیونکہ انھیں یقین تھا کہ ان احادیث کے ذریعہ ان کی سلطنت منہدم ہو جائے گی۔

ہم نے اپنی آئندہ کتاب ''رحلتی من الوہابیہ الی الاثنا عشریہ'' میں امامت کے لئے محکم دلائل پیش کئے ہیں،لیکن وہابی ان نصوص کو غالیوں کی طرف منسوب کرتے ہیں، جب کہ وہ بھول رہے ہیں، کہ امامت کے متعلق نصوص، سنی معتبرکتابوں میں بھی پائے جاتے ہیںاور یہ نصوص شیعوںکی گڑھی ہوئی نہیں ہیں۔

وہابی ان احادیث (کہ جسے تمام مسلمان، اختلاف کے باوجود قبول کرتے ہیں) پر دقیق تحقیق کرنے سے عاجز ہیں اور انھوں نے امامیہ کتب میں مذکور محکم دلائل کی طرف رجوع نہیں کیا، لہٰذا دوبارہ جہل و نادانی کے ساتھ کہتے ہیں کہ امامت غالی اور مجوسیوں کی جعل کردہ چیز ہے۔

ہماری نظر میں شیعیت کی بلند پروازیں اور اس کی ترقی میں اہم کردار ''حدیث ثقلین'' اور ''حدیث بارہ امام'' کا ۔ یہ دو حدیثیں اس مذہب کے لئے دو پروں کی حیثیت رکھتی ہیں جو اسے بلند پروازی کی صلاحیت عطاکرتے ہیں۔ جب تک وہابی ان دو حدیثوں کودرک نہ کرلیں. مذہب امامیہ کے دوسرے حقائق کا ادارک ان کے لئے ممکن نہیں ۔

معروف وہابی مصنف ڈاکٹر محمد علی بار اپنی کتاب ''الامام علی الرضا و رسالتہ الطیبة'' میں حدیث ثقلین کے متعلق لکھتے ہیں:

مسلم نے اپنی کتاب میں زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے میدان خم میں ، جو مکہ و مدینہ کے راستہ میں ہے، خطبہ ارشاد فرمایا اور حمد و ثنائے الٰہی کے بعد فرمایا:

اے لوگو! میں ایک بشر ہوں اور جلد ہی خدا کی طرف سے ملک الموت آئے گا اور میں اس خدا کے حکم پر لبیک کہوں گا، لہٰذا تم لوگوں کے نزدیک دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہا ہوں جن میں سے ایک قرآن ہے کہ جو سرتا پا نور اور ہدایت ہے، پس اس سے منسلک رہو اور پھر آپ نے لوگوں کو قرآن سے منسلک رہنے کی رغبت دلائی، اور فرمایا: دوسرے میرے اہلبیت ہیں. خدا را! ان کا خیال رکھنا، او راس جملہ کی آپ نے تین مرتبہ تکرار کی۔

یہ حدیث سنن ترمذی میں زید بن ارقم سے منقول ہے کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جار ہا ہوں اگر ان سے متمسک رہو گے تو ہرگز گمراہ نہ ہو گے ان میں سے ایک، دوسرے سے بہتر ہے. کتاب خدا جو آسمان سے کھینچی ہوئی رسی ہے اور میری عترت جو میرے اہل بیت ٪ ہیں. یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتے، یہاں تک کہ حوض کوثر پر وارد ہوں گے، سوچو! میرے بعد ان کے ساتھ تمہارا رویہ کیا ہوگا... تعجب تو اس بات پر ہے کہ اس حدیث کو مسلم اور ترمذی نے نقل کیا اور حاکم نیشاپوری کے مستدرک او راحمد کے اپنی مسند میں اس روایت کو مورد قبول قرار دینے کے باوجود بے شمار معاصر علماء اس روایت سے بے خبر ہیں یا اپنے علم کا اظہار نہیں کرتے او رروایت کو کتاب اللہ و سنتی پیش کرتے ہیں. جب کہ یہ نقل (جو کہ موطأ مالک میں ہے) ضعیف اور منقطع السند ہے. اگر اس نقل کو پیش کرنا چاہیں تو حد اقل ہر دو روایتوں کوایک جگہ نقل کریں نہ یہ کہ ایک حدیث کو بیان کیا جائے اور دوسرے کو مخفی. انھوں نے اپنے اس عمل کے ذریعہ علم کو چھپایاہے او رعلم چھپانے والا خدا او ررسول کے غضب میں مبتلا ہوگا۔

علامہ محمد ناصر البانی ''سلسلة الاحادیث الصحیحة'' میں لکھتے ہیں:

حدیث عترت یعنی''یا ایها الناس انی قد ترکت فیکم ماان اخذتم به لن تضلوا کتاب الله و عترتی اهل بیتی ''ایک صحیح السند حدیث ہے کہ جسے مسلم نے اپنی صحیح١ ، طحاوی نے مشکل الآثار ٢، احمد ٣، و ابن ابی عاصم نے کتاب السنہ٤، طبرانی٥، نے یزید بن حیان تمیمی کے توسط سے بیان کیا ہے او ردوبارہ احمد٦، طبرانی٧، طحاوی نے علی بن ربیعہ سے نقل کیا، کہ جب میں نے زید بن ارقم کو دیکھا

____________________

(١) ج ٧ ، ١٢٣۔ ١٢٢

(٢) ج ٤، ص ٣٦٨.

(٣) ج٤، ص ٣٦٧۔ ٣٦٦

(٤) ص ١٥٥١ ۔ ١٥٥٠.

(٥) ص ٢٦.٥

(٦) ج ٤، ص ٣٧١

(٧) ص ٥٠٤٠

تو سوال کیا کہ کیا آپ نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس قول کو سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ''انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی؟...'' زید نے مثبت جواب دیا۔

یہ روایت صحیح السند ہے کہ جسے دوسرے طرق سے بھی نقل کیا گیا ہے جن میں سے بعض طرق کو طبرانی١ اور بعض کو حاکم٢ نے ذکر کیا ہے اور طبرانی و ذہبی نے ان میں سے بعض طرق کو صحیح قرار دیا ہے، اور طبرانی سے دوسری حدیث بھی نقل ہوئی ہے جسے حدیث عطیہ عوفی کہا جاتا ہے اور وہ ابوسعید خدری سے منقول ہے:

''انی اوشک ان ادعی فاجیب. و انی ترکت فیکم ماان أخذتم لن تضلوا بعدی الثقلین احدهما اکبر من الآخر کتاب الله حبل محدود من السماء الی الارض و عترتی اهل بیتی الا انهما لن یفترقا حتی یردا علی الحوض ''

اس حدیث کو احمد٣، ابن ابی عاصم٤، طبرانی٥، ا ور دیلمی٦، نے بھی نقل کیا ہے۔

دوسرے شواہد کو دار قطنی٧، حاکم٨، او رخطیب نے کتاب فقیہ٩، میں نقل کیاہے جن میں سے بعض کوذہبی نے صحیح قرار دیا ہے۔

____________________

(١) ص ٤٩٦٩، ٤٩٧١، ٤٩٨٠، ٤٩٨٢ ، ٤٠٥٠

(٢)ج ٣، ص ١٠٩، یا ١٤٨ و ٥٣٣

(٣) ج٣، ص ١٤، و ١٧، و ٢٦ و ٥٩ (٤) ص ١٥٥٣ و ١٥٥٥

(٥) ص ٢٦٧٩۔ ٢٦٧٨ (٦) ج ١٢ ص ٤٥

(٧) ص ٥٢٩. (٨) ج ١، ص ٩٣ (٩) ٥٦ ١

البانی مزید لکھتے ہیں: جب میں نے قطر کا سفر کیا تو وہاں چند ڈاکٹروں سے میری ملاقات ہوئی ان میں سے ایک نے حدیث ثقلین کی تضعیف میں کتابچہ پیش کیا، جب میں نے اس کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ وہ علم حدیث میں نو وارد ہیں، لہٰذا اس تحقیق میں جن دو نکات ضعف کی طرف میں نے اشارہ کیا وہ یہ ہیں:

١۔ انھوں نے اس حدیث کے منابع کی تلاش میں صرف بعض معمولی کتابوں کی طرف رجوع کیا تھا اوراس امر میں کوتاہی کی اور بے شمار طرق اور صحیح اسناد اور (قرائن و شواہد کو مد نظر رکھتے ہوئے) فراموش کیا۔

٢۔ محدثین کے کلام کی طرف رجوع نہیں کیا اور اس حدیثی قاعدہ (ان الحدیث الضعیف یتقوی بکثرة الطرق)١ پر توجہ نہ کی جب کہ خود حدیث کے لئے بے شمار صحیح سندیں موجود ہیں. اس سے پہلے بھی مجھے اطلاع ملی کہ کویت میں کسی ڈاکٹر نے حدیث ثقلین کی تضعیف میں رسالہ لکھا ہے اور جب کویت سے ایک نامہ موصول ہوا جس میں مجھ پر یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ میں نے کیوں کر حدیث ثقلین کو جو کہ ضعیف السندہے اپنی کتاب صحیح الجامع الصغیر میں ذکر کیا ہے۔٢ اور اس حدیث کی تضعیف میں اس شخص نے اسی ڈاکٹر کے رسالہ سے استناد کیا اوراسی رسالہ کی وجہ سے میری باتیں ان کے لئے تعجب آور تھیں۔

____________________

(١) حدیث اگر ضعیف ہو تو کثرت طرق اسے ضعف سے خارج کرتے ہیں.

(٢) شمارۂ ٢٤٥٣۔ ٢٤٥٤۔ ٢٧٤٥و ٧٧٥٤

میں نے ان سے کہا: وہ خود اس مسئلہ پر تحقیق کریں تاکہ ڈاکٹر کی خطا ظاہر ہوسکے اور خود نامہ نگار کی غلطی یہ تھی کہ انھوں نے دیگر لوگوںہی کی طرح دوسروں کے نوشتوں پر تکیہ کرتے ہوئے ایک پختہ عالم اور نووارد شخص کے درمیان فرق کو مدنظر نہیں رکھا. بہرحال خدا رحم کرے۔١

البانی کے پورے کلام کو میں نے ذکر کیا تاکہ وہابی (کہ جو ہمیشہ حدیث ثقلین کی تضعیف میں ڈاکٹر علی احمد سالوس کی کتاب چھاپ کر اسے منتشر کرتے ہیں) جان لیں کہ اس شخص کوعلم حدیث و رجال سے کوئی اطلاع نہیں اور البانی کے اس کلام کا مقصد ڈاکٹر سالوس کی رد ہے۔

مذہب تشیع کا تشخص

جب تک کہ کسی مذہب کے فکری مضامین کا دقیق تجریہ نہ کیا جائے ا س وقت تک اس مذہب کی فکری ہویت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا. لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہابیوں نے غلط راستہ کا انتخاب کیا اور تشیع کے افکار کی تحلیل کئے بغیر انھیں مجوسی قرار دینے لگے،کیونکہ منطقی لحاظ سے تشیع کے تشخص پر تحقیق کی منزل اس مذہب کے حقائق کو جان لینے کے بعد قرار پاتی ہے. لہٰذا اس بحث کوہم نے اس مقام پر ذکر کیا ہے تعجب ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تشیع کا فکری تشخص اسلامی و عربی ہے، لیکن

____________________

(١) یہاں البانی کا کلام ختم ہوا

ان کا نژادی تشخص پوری طرح سے فارسی ہے. اور ہم محکم دلائل کے ذریعہ آئندہ مباحث میں ثابت کریں گے، کہ صدر اسلام میں تمام شیعہ عرب اور اکثر ایرانی، اہلسنت تھے یہی وجہ ہے کہ ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں ان کی مدح سرائی کی کہ وہ اہل سنت کے پیرو ہیں. لیکن بعد میں ایرانیوں نے کچھ دلائل کی بنا پر تسنن کو ترک کر کے شیعیت اختیار کرلی۔

جب ہمارے لئے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اہل تشیع کے نزدیک الوہیت و نبوت کی حقیقت قرآن و سنت سے ماخوذ اور ان کے فقہی احکام سوفیصد قرآن و سنت سے مطابقت رکھتے ہیں تو قرآن و مذہب امامیہ کے اہداف میں کوئی فرق نہیں ، او ریہ بھی جان چکے کہ ان کے علمی منابع قرآن و سنت ہیں اور جس امامت کو قرآن نے مطرح کیا ہے وہ اہل تشیع کی پیش کردہ امامت ہے تو اب حتمی نتیجہ یہ ہوگا کہ اسلامی فکر اور شیعی فکر میں جدائی ناممکن ہے۔

اگر ہم گذشتہ تمام مراحل کو ترتیب کے ساتھ طے کریں تو مذکورہ نتیجہ تک پہنچنا آسان ہوگا لیکن اگر ان مراحل کو طے کئے بغیر شیعیت سے آگاہ ہونا چاہیں تو ممکن ہے کہ تشیع اور غلو میں خلط کا شکار ہو جائیں۔