تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 32235
ڈاؤنلوڈ: 2918


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 32235 / ڈاؤنلوڈ: 2918
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

۱ ۔ تمام انبیاء کی دعوت کا خمیر توحید ہے

تاریخ انبیاء نشاندہی کرتی ہے کہ ان سب نے اپنی دعوت کا آغاز توحید سے اور ہر قسم کے شرک اور بت پرستی کی نفی سے کیا، درحقیقت انسانی معاشرے کی کسی قسم کی اصلاح اس دعوت کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ معاشرے کی وحدت، ہمکاری، تعاون، ایثار اور فداکاری سب ایسے امور ہیں جو توحید معبود کے سرچشمے سے سیراب ہوتے ہیں ، رہی بات شرک کی تو وہ ہر قسم کی پراگندگی، انتشار، تضاد، اختلاف، خود غرضی، خود پرستی اور انحصار طلبی کا سرچشمہ ہے اور ان مفاہیم کا شرک وبت پرستی کے وسیع مفہوم سے تعلق کوئی پوشیدہ نہیں ہے ۔

جو شخص خود محور اور خود غرض غرض ہو وہ صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے اور اسی بنا پر وہ مشرک ہے، توحید ایک شخص کے قطرہ وجود کو معاشرے کے وسیع سمندر میں شامل کردیتی ہے، موحد ایک عظیم وحدت کے سوا کچھ نہیں دیکھتا یعنی وہ سارے انسانوں اور بندگان خدا کو ایک معاشرے کی صورت میں دیکھتاہے ۔

جو برتری کے خواہشمند ہیں وہ شرک کی ایک اور قسم سے وابستہ ہیں ، اسی طرح جو ہمیشہ اپنے ہم نوع افراد سے جنگ کرتے رہتے ہیں اور اپنے مفادات کو دوسرے کے فائدے سے جدا سمجھتے ہیں تو یہ دوگانگی یا چند گانگی سوائے شرک کے مختلف چہروں کے اور کچھ نہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اپنے وسیع اصلاحی پروگراموں کو سب انبیاء نے یہیں سے شروع کیا، ان کی پہلی دعوت۔دعوت توحید تھی ۔ توحید یعنی توحید معبودپھر توحید کلمہ، توحید عمل اور توحید معاشرہ۔

۲ ۔سچے رہبر اپنے پیروکاروں سے جزا نہیں چاہتے

ایک حقیقی پیشوا اور رہبر اس صورت میں ہرقسم کے اتہام سے بچ کر انتہائی آزادی سے اپنے مسلک پرکار بند رہ سکتا ہے ، اپنا سفر جاری رکھ سکتا ہے اور اپنے پیروکاروں کی ہر قسم کی کجروی کی اصلاح کرسکتا ہے جب وہ ان سے کوئی مادی وابستگی اور احتیاج نہ رکھتا ہو ورنہ وہی احتیاج ان کے دست وپا کی زنجیر بن جائے گی اور اس کی زبان وفکر کی بندش کا سامان ہوجائے گا ، منحرف اور کج رو لوگ اسی طریقے سے اس پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کریں گے، مادی امداد منقطع کرنے کی دھمکی دےں گے یا امداد بڑھانے کی پیش کش کریں گے، کوئی رہبر کتنا ہی صاف دل اور مخلص کیوں نہ ہو پھر بھی انسان ہوتاہے، اور ہوسکتا ہے اس مرحلہ پر اس کے قدم ڈگمگا جائیں ۔

اسی بنا پر مندرجہ بالا آیات اور قرآن کی دیگر آیات میں ہے کہ انبیاء اپنی دعوت کی ابتدا میں صراحت سے اعلان کرتے اور بتاتے تھے کہ وہ مادی احتیاج اور اجر کی توقع اپنے پیروکاروں سے نہیں رکھتے، انبیاء کا یہ کردار تمام رہبروں کے لئے نمونہ اور ماڈل ہے خصوصا روحانی اور مذہبی رہبروں اور رہنماؤں کے لئے ۔

البتہ چونکہ وہ اپنا تمام وقت اسلام اور مسلمانوں کی خدمت میں صرف کرتے ہیں لہٰذا ان کی ضروریات صحیح طریقے پر پوری ہونا چاہییں ، امدادی وسائل اور اسلامی بیت المال ایسی افراد کی ضروریات پوری کرنے کے لئے مہیا کیا گیا ہے اور بیت المال کی تشکیل کا ایک فلسفہ اور وجہ یہی ہے ۔

۳ ۔ گناہ ۔معاشرے کی تباہی

مندرجہ بالا آیات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کی نظر میں روحانی اورمادی مسائل میں ایک واضح تعلق موجود ہے، یہاں گناہ سے استغفار، خدا کی طرف رجوع اور توبہ کو آبادی، خوشی، شادابی اور قوت میں اضافے کے ذریعے کے طور پر متعارف کروایا گیا ہے ۔

یہ حقیقت قرآن کی اور بہت سی آیات میں بھی نظر آتی ہیں ، منجملہ ان کے سورہ نوح میں اس عظیم پیغمبر کی زبانی فرمایا گیا ہے:

( فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّکُمْ إِنَّهُ کَانَ غَفَّارًا یُرْسِلْ السَّمَاءَ عَلَیْکُمْ مِدْرَارًا وَیُمْدِدْکُمْ بِاٴَمْوَالٍ وَبَنِینَ وَیَجْعَلْ لَکُمْ جَنَّاتٍ وَیَجْعَلْ لَکُمْ اٴَنْهَارً ) .

ان سے میں نے کہااپنے گناہوں سے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں استغفار کرو کہ وہ بخشنے والا ہے تاکہ وہ پے در پے تم پر آسمان سے بارش برسائے اور مال واولاد کے ذریعے تمہاری مدد کرے اور تمھارے لئے باغات اور نہریں مہیا کرے ۔ (نوح: ۱۰ ۔ ۱۲)

یہ امر جاذب توجہ ہے کہ اسلامی روایات میں ہے کہ :

ربیع بن صبیح کہتا ہے کہ میں حسن (علیه السلام)کے پاس تھا، ایک شخص دروازے سے داخل ہوا، اس نے اپنی آبادی کی خشک سالی کی شکایت کی ، حسنعليه‌السلام نے اس سے کہا: استغفار کرودسراآیا اس نے فقر وفاقہ کی شکایت کی، اس سے بھی کہا: استغفار کرو، تیسرا آیا، اس نے کہا: دعا کریں خدا مجھے بیٹا عطا کرے، اس بھی کہا: استغفار کرو، ربیع کہتا ہے کہ میں (تعجب کیا اور )اس سے کہا : جو شخص آپ کے پاس آتا ہے اور وہ کوئی مشکل پیش کرتا ہے اور نعمت کا تقاضا کرتا ہے اسے یہی حکم دیئے جارہے ہو اور سب سے کہتے ہو کہ استغفار کرو اور خدا سے بخشش طلب کرو، اس نے میرے جواب میں کہا: جو کچھ میں نے کہا ہے اپنی طرف سے نہیں کہا، میں یہ مطلب کلام خدا سے لیا ہے اور یہ وہی بات ہے جو وہ اپنے پیغمبر نوح سے کہتا ہے، اس کے بعد انھوں نے سورہ نوح کی ان (مذکورہ )آیات کی تلاوت کی ۔

جن لوگوں کی عادت ہے وہ ایسے مسائل کو معمولی سمجھتے ہوئے گزرجاتے ہیں وہ ان امور میں موجود ایک روحانی تعلق جانے بغیر ان کے قائل ہوجاتے ہیں اور مزید کوئی تجربہ وتحلیل نہیں کرتے لیکن اگر زیادہ غوروفکرسے کام لیا جائے تو ہمیں ان امور کے درمیان تربیتی رشتے نظرآئیں گے جن کی طرف توجہ کرنے سے مادی اور روحانی مسائل کو آپس میں اس طرح مالایا جاسکتا ہے جیسے ایک کپڑے کے ریشے آپس میں ملے ہوتے ہیں یا جیسے کسی درخت کی جڑ تنااور پھل پھول آپس میں مربوط ہوتے ہیں ۔

کونسا ایسا معاشرہ ہے جو گناہ، خیانت، نفاق، چوری ، ظلم اور تن پروری سے آلودہ ہو اور پھر بھی وہ آباد اور پربرکت رہے ۔

کونسا معاشرہ ہے جو تعاون وہمکاری کی روح گنوا بیٹھے جنگ، نزاع اور خونریزی اس کی جگہ لے لے اور پھر بھی اس کی زمینیں سرسبز وشاداب ہوں اور وہ اقتصادی طور پر خوشحال ہو۔

کونسا معاشرہ ہے جس کے لوگ طرح طرح کی ہواووہوس میں آلودہ ہوں پھر بھی وہ طاقتور ہواور دشمن کے مقابلے میں پامردی سے کھڑا ہوسکے ۔

صراحت سے کہنا چاہیئے کہ کوئی ایسا اخلاقی مسئلہ نہیں مگر یہ کہ وہ لوگوں کی مادی زندگی پر مفید اور اصلاحی اثر کرے، اسی طرح کوئی صحیح اعتقاد اور ایامن ایسا نہیں کہ جو معاشرے کو آباد، آزاد، بااستقلال اور طاقتور بنانے میں موثر ہو۔

جو لوگ اخلاقی مسائل، مذہبی عقیدہ اور توحید پر ایمان کو مادی مسائل سے جدا کرکے دیکھتے ہیں انھوں نے نہ معنوی اور روحانی مسائل کو اچھی طرح سے پہچانا ہے اور نہ مادی مسائل کو، اگر دین لوگوں میں تکلفات اور تشریفات، ظاہری آداب اور مفہوم ومعنی سے خالی شکل میں ہو تو واضح ہے کہ معاشرے کے مادی نظام میں اس کی کوئی تاثیر نہیں ہوگی، لیکن اگر روحانی اعتقادات روح انسانی کی عمیق گہروئیوں میں اس طرح سے اتر جائے کہ اس کے اثرات ہاتھ، پاؤں ، آنکھ، کان، زبان اور جسم کے تمام ذرات میں ظاہر ہوں تو ان اعتقاد کے معاشرے پر اصلاحی آثار کسی سے مخفی نہیں رہیں گے ۔

ہوسکتا ہے مادی برکات کے نزول سے استغفار کے تعلق کے بعض مراحل میں ہم صحیح طورپر نہ سمجھ سکیں لیکن اس میں شک نہیں کہ اس کے بہت سے حصے ہمارے لئے قابل فہم ہیں ۔

دور حاضر میں ہمارے اسلامی ممالک ایران کے اسلامی انقلاب میں ہم نے اچھی طرح مشاہدہ کیا ہے کہ اسلامی اعتقادات اور اخلاقی اوروحانی قوت کس طرح دور حاضر کی طاقتورترین اسلحہ، طاقتور افواج اور استعمار ی سپر طاقتوں پر کامیاب ہوگی یہ چیز نشاندہی کرتی ہے کہ دینی عقائد اور مثبت روحانی اخلاق کس حد تک اجتماعی اور سیاسی مسائل میں کارگر ہیں ۔

۴ ۔ ”( یزدکم قوة الیٰ قوتکم ) “ سے کیامراد ہے؟

اس جملے کاظاہری مفہوم یہ ہے کہ خدا وند عالم توبہ اور استغفار کے نتیجے میں تمہاری قوت میں قوت کا اضافہ کرے گا ۔

بعض نے اس جملے کو انسانی قوت میں اضافے کی طرف اشارہ سمجھا ہے (جیسا کہ سورہ نوح کی آیات میں بھی اس طرف اشارہ ہوا ہے) ۔

بعض نے معنوی طاقت میں مادی طاقت کے اضافے کی طرف اشارہ سمجھا ہے ۔

لیکن آیت کی تعبیر مطلق ہے اور ہر قسم کی مادی اور معنوی طاقت میں اضافے کا مفہوم اس میں شامل ہے اور اس میں ان تمام تفاسیر کا مفہوم ہوجود ہے ۔

آیات ۵۳،۵۴،۵۵،۵۶،۵۷

۵۳( قَالُوا یَاهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

۵۴( إِنْ نَقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ قَالَ إِنِّی اٴُشْهِدُ اللهَ وَاشْهَدُوا اٴَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ ) ۔

۵۵( مِنْ دُونِهِ فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَاتُنْظِرُونِی ) ۔

۵۶( إِنِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهَا إِنَّ رَبِّی عَلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

۵۷( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ مَا اٴُرْسِلْتُ بِهِ إِلَیْکُمْ وَیَسْتَخْلِفُ رَبِّی قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَاتَضُرُّونَهُ شَیْئًا إِنَّ رَبِّی عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ حَفِیظٌ ) ۔

ترجمہ

۵۳ ۔انھوں نے کہا: اے ہود! تو ہمارے لئے کوئی دلیل نہیں لایا، ہم اپنے خداؤں کو تیری بات پر نہیں چھوڑتے اورہم (بالکل) تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے ۔

۵۴ ۔ہم (تیرے بارے میں ) صرف یہ کہتے ہیں ہمارے بعض خداؤں نے تجھے نقصان پہنچایا ہے (اور تیری عقل چھین لی ہے)، (ہود نے)کہا: میں خدا کو گواہ بناتا ہوں اور تم بھی گواہ رہو کہ جنہیں تم (خدا کا)شریک قرار دیتے ہو ان سے بیزار ہوں ۔

۵۵ ۔وہ جو اس (خدا) کے علاوہ ہیں ( کہ جنہیں تم سوچتے ہو) اب جب کہ ایسا ہے تو تم سب مل کر میرے خلاف سازش کرو (لیکن جان لوکہ تم سے کچھ بھی نہیں ہوسکتا)

۵۶ ۔ (کیونکہ) میں نے اللہ پر توکل کرلیا ہے جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے کوئی چلنے پھرنے والا ایسا نہیں جس پر وہ تسلط نہیں رکھتا (لیکن ایسا تسلط جو عدالت پر مبنی ہے کیونکہ )میرا پروردگار صراط مستقیم پر ہے ۔

۵۷ ۔اور اگر تم منہ موڈ لو تو جو پیغام میرے ذمہ تھا وہ میں نے تم تک پہنچادیا ہے اور خدا دوسرے گروہ کو تمہارا جانشین کردے گا اور تم اسے ذرہ بھر نقصان بھی نہیں پہنچاسکتے، میرا پروردگار وہر چیز کا محافظ اور نگہبان ہے ۔

حضرت ہودعليه‌السلام کی قوی منطق

اب دیکھتے ہےں کہ اس سر کش اور مغرور قوم نے ، یعنی قوم عاد نے اپنے بھائی ہود ، ان کے پند ونصائح اور ہدایت و رہنمائی کے مقابلہ میں کیا رد عمل ظاہر لیا ۔

”انھوں نے کہا: اے ہود ! تو ہمارے لئے کوئی وضح دلیل نہےں لاےا“( قَالُوا یَاهُودُ مَا جِئْتَنَا بِبَیِّنَةٍ ) ، ہر گزتےری باتو پر اپنے بتوں اور خداؤں کا دامن نہےں چھوڑے گے( وَمَا نَحْنُ بِتَارِکِی آلِهَتِنَا عَنْ قَوْلِکَ ) اور ہم ہر گز تجھ پر ایمان نہیں لائیں گے( وَمَا نَحْنُ لَکَ بِمُؤْمِنِینَ ) ۔

ان تین غیر منطقی جملوں کے بعد انھوں نے مزید کہا:”ہمارا خیال ہے کہ تو دےوانہ ہو گیا ہے اور اس کا سبب یہ ہے کہ تو ہمارے خداؤں کے غضب کا شکار ہوا ہے اور انھوں نے تےری عقل کو آسیب پہچایا ہے“( إِنْ نَقُولُ إِلاَّ اعْتَرَاکَ بَعْضُ آلِهَتِنَا بِسُوءٍ ) ۔

اس میں شک نہیں کہ جیسے تمام انبیاء کا طریقہ کار ہوتا ہے اور ان کی ذمہداری ہے حضرت ہود نے انھیں اپنی حقانیت ثابت کرنے کے لے کئی ایک معزے دیکھائے ہو ں گے، لیکن انھوں نے اپنے کبرو غرور کی وجہ دے دیگر ہٹ دھرم قوموں کی طرح معجزات کا انکار کیا اور انھیں جادو قرار دیا اور انھیں اتفاقی حوادث گردانا کی جنہیں کسی معاملے میں دلیل قرار نہیں دےا جا سکتا ۔

ان باتوں سے قطع نظر بت پرستی کی نفی کے لے تو کسی دلےل کی ضرورت ہی نہیں ہوتی اور جو شخص بھی تھوڑی سی عقل شعور رکھتا ہو اور اپنے آپ کو تعصب سے دور کرلے تو وہ اچھی طرح سے اس کا بطلان سمجھ سکتا ہر، فرض کرےں کہ اس کے لے دلیل کی ضرورت ہے تو کیا یہ مسئلہ منطقی و عقلی دلائل کے علاوہ کسی معجزہ کا بھی محتاج ہے ۔

دوسرے لفظوں میں جو کچھ حضرت ہودعليه‌السلام کے سلسلے میں گزشتہ آیات میں آیا ہے وہ خدائے یگانہ کی طرف دعوت، اس کی طرف بازگشت، بگناہوں سے استغفار اور ہر قسم کے شرک اور بت پرستی کی نفی ہے، یہ سب ایسے مسائل ہیں جنہیں عقلی دلیل سے بالکل ثابت کیا جاسکتا ہے ۔

لہٰذا اگرچہ”بینة“ سے نفی سے ان کی مراد عقلی دلیل کی نفی تھی، بہرحال انھوں نے یہ جو کہا تھا کہ ہم ہرگز تیری باتوں کی وجہ سے اپنے بتوں کو فراموش نہیں کریں گے ان کی ہٹ دھرمی کی بہترین دلیل ہے کیونکہ عقل مند اور حق جو انسان حق کی بات کسی کی طرف سے ہو اسے قبول کرلیتا ہے، خصوصا یہ جملہ کہ انھوں نے حضرت ہودعليه‌السلام کو ”جنون“ کہ تہمت لگائی ۔ اور ”جنون“ بھی وہ جو ان کے زعم میں ان کے خداؤں کے غضب کا نتیجہ تھا، ان کے بیہودہ پن اور خرافات پرستی کی خود ایک بہترین دلیل ہے ۔

بے جان اور بے شعور پتھر اور لکڑیاں جو خود اپنے”بندوں “ کی مدد کی محتاج ہیں وہ ایک عقلمند انسان سے کس طرح اس کا عقل وشعور چھین سکتی ہے ۔

علاوہ ازیں ان کے پاس ہودعليه‌السلام کے دیوانہ ہونے کی کونسی دلیل تھی، سوائے اس کے کہ انھوں نے ان کی سنت شکنی کی اور ان کے ماحول کے بیہودہ رسم ورواج کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، اگر یہ دیوانگی کی دلیل ہے تو پھر تمام مصلحین جہان اور انقلابی لوگ جو غلط روش اور طریقوں کے خلاف قیام کرتے ہیں سب دیوانے ہونے چاہیئں ۔

یہ کوئی نئی بات نہیں ہے، گزشتہ سور اور آج کی تاریخ نیک اندیش اور بدعت شکن مردوں اور عورتوں کی طرف یہ نسبت دئےے جانے سے بھری پڑی ہے، کیونکہ وہ خرافات اور استعمار اور اس کے ہتھکنڈوں اور شکنجوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ۔

بہرحال حضرت ہود(علیه السلام)کی ذمہ دارہ تھی کہ اس گمراہ اور ہٹ دھرم قوم کو دندان شکن جواب دیتے، ایسا جواب جو منطق کی بنیاد پر بھی ہوتا اور طاقت سے بھی ادا ہوتا، قرآن کہتا ہے کہ انھوں نے ان کے جواب میں چند جملے کہے: ”میں خدا کو گواہی کے لئے بلاتا ہوں اور تم سب بھی گواہ رہو کہ میں ان بتوں اور تمھارے خداؤں سے بیزار ہوں “(قَالَ إِنِّی اٴُشْهِدُ اللهَ وَاشْهَدُوا اٴَنِّی بَرِیءٌ مِمَّا تُشْرِکُونَ من دونه )، یہ اس طرف اشارہ تھا کہ اگر یہ بت طاقت رکھتے ہیں تو ان سے کہو کہ مجھے ختم کردیں ، میں جو ان کے خلاف علی الاعلان جنگ کے لئے اٹھ کھڑا ہوا ہوں اور یہ اعلانیہ ان سے بیزاری اور تنفر کا اعلان کررہا ہوں تو وہ کیوں خاموش اور معطل ہیں ، کس چیز کے منتظر ہیں اور کیوں مجھے نابود اور ختم نہیں کرتے ۔

اس کے بعد مزید فرمایا کہ نہ فقط یہ کہ ان سے کچھ نہیں ہوسکتا بلکہ تم بھی اتنی کثرت کے باوجود کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے”اگر سچ کہتے ہو تو تم سب ہاتھوں میں ہاتھ دے کر میرے خلاف جو سازش کر سکتے ہو کرگزرو اور مجھے لمحہ بھر کی بھی مہلت نہ دو“( فَکِیدُونِی جَمِیعًا ثُمَّ لَاتُنْظِرُون ) ۔

میں تمہاری اتنی کثیر تعداد کو کیوں کچھ نہیں سمجھتا اور کیوں تمہاری طاقت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا، تم کہ جو میرے خون کے پیاسے ہو اور ہر قسم کی طاقت رکھتے ہو، اس لئے کہ میرا رکھوالا اللہ ہے، وہ کہ جس کی قدرت سب طاقتوں سے بالا تر ہے، ”میں نے خدا پر توکل کیا ہے جو میرا اور تمہارا پروردگار ہے“( انِّی تَوَکَّلْتُ عَلَی اللهِ رَبِّی وَرَبِّکُمْ ) ۔

یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہا ، یہ اس امر کی نشانی ہے کہ میں نے دل کسی اور جگہ نہیں باندھ رکھا، اگر صحیح طور پر سوچو تو یہ خود ایک قسم کا معجزہ ہے کہ ایک انسان تن وتنہا بہت سے لوگوں کے بیہودہ عقائد کے خلاف اٹھ کھڑا ہو جب کہ وہ طاقتور اور متعصب بھی ہوں یہاں تک کہ انھیں اپنے خلاف قیام کی تحریک کرے اس کے باوجود اس میں خوف وخطر کے کوئی آثار نظر نہ آئیں اور پھر نہ اس کے دشمن اس کے خلاف کچھ کرسکتے ہوں ۔

پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ نہ صرف تم بلکہ” عالم وجود میں کوئی چلنے پھرنے والا نہیں کہ جو خدا کے قبضہ قدرت اور فرمان کے ماتحت نہ ہو“ اور جب تک وہ نہ چاہے ان سے کچھ نہیں ہوسکتا( مَا مِنْ دَابَّةٍ إِلاَّ هُوَ آخِذٌ بِنَاصِیَتِهَا ) ۔

لیکن یہ بھی جان لوکہ میرے خدا کی قدرت کا یہ مطلب نہیں کہ وہ کود سری اور خود خواہی کہ بنیاد پر عمل میں آئے اور وہ اسے غیر حق صرف کرے بلکہ ”میرا پروردگار ہمیشہ صراط مستقیم اور جادہ عدل پر ہے”اور وہ کوئی کام حکمت کے برخلاف انجام نہیں دیتا( إِنَّ رَبِّی عَلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیمٍ ) ۔

دو اہم نکات

۱ ۔ ”ناصیة“ کا مفہوم

”ناصیة“ اصل میں سر کے اگلے حصے کے بالوں کے معنی میں ہے اور ”نصا“(بروزن” نصر “) کے مادہ سے اتصال اور پیوستگی کے مفہوم میں آیا ہے،”اخذ ناصیة“ (سر کے اگلے حصے کے بال پکڑنا) کسی چیز پر تسلط اور قہر وغلبہ کے لئے کنایہ ہے، یہ جو مذکورہ آیت میں خدا فرماتا ہے کہ ”کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر یہ کہ ہم اس کی ”ناصیة“ پکڑ لیتے ہیں “ ہر چیز پر اس کی قدرت قاہرہ کا اشارہ ہے یعنی کوئی موجود اس کے ارادے کے سامنے ٹھہرنے کی تاب نہیں رکھتا کیونکہ عام طور پر جب کسی انسان یا حیوان کے سر کے اگلے بالوں کو پکڑ لیاجائے تو اس میں مقابلے کی طاقت نہیں رہتی ۔

یہ تعبیر اس لئے ہے کہ مغرور مستکبرین، خود پسند بت پرست اور ظالم حکومت کے خواہاں یہ نہ سوچیں کہ اگر چند دن کے لئے انھیں موقع مل گیا ہے تو اس کا یہ مطلب ہے کہ وہ پروردگار کے خلاف کچھ قیام کرنے لگیں ، انھیں اس حقیقت کی طرف متوجہ ہونا چاہیئے اور مرکب غرور سے نیچے اترنا چاہیئے ۔

۲ ۔” ان ربی علیٰ صراط مستقیم“کا مطلب

یہ جملہ نہایت خوبصورت ہے اور خدا کی ایسی قدرت جو عدالت اامیز ہے اس کے بارے میں یہ زیبا ترین تعبیرات میں سے ہے کیونکہ عموماً طاقتور جھوٹے اور ظالم ہوتے ہیں لیکن اللہ اپنی بے انتہا قدرت کے باوجود ہمیشہ عدالت کی صراط مستقیم پر ہے، اس کا راستہ ہمیشہ حکمت، نظم اور حساب وکتاب کا صاف وشفاف راستہ ہے ۔

اس نکتہ کو بھی نگاہ سے دور نہیں رہنا چاہیئے کہ حضرت ہودعليه‌السلام کی باتیں مشرکین کے سامنے یہ حقیقت بیان کر رہی تھیں کہ ہٹ دھرم دشمن جس قدر اپنی ہٹ دھرمی میں اضافہ کریں ایک حقیقی رہبر کو چاہیئے کہ وہ اپنی استقامت وپامردی میں اتنا ہی اضافہ کرے، قوم نے حضرت ہودعليه‌السلام کو بتوں سے بہت زیادہ خائف کرنے کی کوشش کی تھی لہٰذا انھوں نے بھی اس کے مقابلے میں انھیں شدید ترین طریقے سے خدا کی قدرت قاہرہ سے ڈرایا ۔

آخرکا حضرت ہودعليه‌السلام ان سے کہتے ہیں : اگر تم راہ حق سے روگردانی کرو گے تو اس میں مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا کیونکہ میں نے اپنا پیغام تم تک پہنچادیا ہے( فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقَدْ اٴَبْلَغْتُکُمْ مَا اٴُرْسِلْتُ بِهِ إِلَیْکُمْ ) ، یہ جو اس طرف اشارہ ہے کہ گمان نہ کرو کہ اگر میری دعوت قبول نہ کی جائے تو میرے لئے کوئی شکست ہے، میں نے اپنا فریضہ انجام دے دیا ہے اور فریضے کی انجام دہی کامیابی ہے اگرچہ میری دعوت قبول نہ کی جائے ۔

دراصل یہ سچے رہبروں اور راہ حق کے پیشواؤں کے لئے ایک درس ہے کہ انھیں اپنے کام پر کبھی بھی خستگی وپریشانی کا احساس نہیں ہونا چاہیئے چاہے لوگ ان کی دعوت قبول نہ کریں ۔

جیسا کہ بت پرستوں نے آپ کو دھمکی دی تھی، اس کے بعد آپ انھیں شدید طریقے سے عذاب الٰہی کی دھمکی دیتے ہوئے کہتے ہیں : اگر تم نے دعوت حق قبول نہ کی تو خدا عنقریب تمھیں نابود کردے گا اور کسی دوسرے گروہ کو تمہارا جانشین بنا دے گا اور تم اسے کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچا سکتے( وَیَسْتَخْلِف رَبِّی قَوْمًا غَیْرَکُمْ وَلَاتَضُرُّونَهُ شَیْئًا ) ۔

یہ قانون خلقت ہے کہ جس وقت لوگ نعمت ہدایت یا خدا کی دوسری نعمتیں قبول کرنے کے اہل نہ ہوں تو وہ انھیں اٹھا لیتا ہے اور ان کی جگہ کسی دوسرے اہل گروہ کو لے آتا ہے ۔

اور یہ بھی جان لو کہ میرا پروردگار ہر چیز کا محافظ ہے اور ہر حساب وکتاب کی نگہداری کرتا ہے ( إِنَّ رَبِّی عَلیٰ کُلِّ شَیْءٍ حَفِیظٌ)، نہ موقع اس کے ہاتھ سے جاتا ہے اور نہ وہ موقع کی مناسبت کو فراموش کرتا ہے، نہ وہ اپنے انبیاء اور دوستوں کو طاق نسیاں کرتا ہے اور نہ کسی شخص کا حساب وکتاب اس کے علم سے اوجھل ہوتا ہے بلکہ وہ ہر چیز کو جانتا ہے اور ہرچیز پرمسلط ہے ۔

آیات ۵۸،۵۹،۶۰

۵۸( وَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُودًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا وَنَجَّیْنَاهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِیظٍ ) ۔

۵۹( وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُوا بِآیَاتِ رَبِّهِمْ وَعَصَوْا رُسُلَهُ وَاتَّبَعُوا اٴَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ) ۔

۶۰( وَاٴُتْبِعُوا فِی هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَلَاإِنَّ عَادًا کَفَرُوا رَبَّهُمْ اٴَلَابُعْدًا لِعَادٍ قَوْمِ هُودٍ ) ۔

ترجمہ

۵۸ ۔اور جس وقت ہمارا فرمان آپہنچا تو ہود اور جو اس کے ساتھ ایمان لائے تھے انھیں اپنی رحمت سے ہم نے نجات دی اور عذاب شدید سے انھیں بچالیا ۔

۵۹ ۔اور یہ قوم عاد ہی تھی کہ جنھوں نے اپنے پروردگار کی آیات کا انکار کیا اور اس کے رسولوں کی نافرمانی کی اور ہر ستمگر، حق کے دشمن کے حکم کی پیروی کی ۔

۶۰ ۔اس جہان میں ان کے پیچھے لعنت (اور رسوائی رہی) اور قیامت میں (کہا جائے گا کہ) جان لو کہ عاد نے اپنے پروردگار سے کفر وانکار کیا، دُور ہو عاد قوم ہود (خدا کی رحمت اور خیروسعادت سے)

اس ظالم قوم پر ۔ابدی لعنت

قوم عاد اور ان کے پیغمبرحضرت ہودعليه‌السلام کی سرگشت سے مربوط آیات کے آخری حصے میں ان سرکشوں کی، دردناک سزا ور عذاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن پہلے کہتا ہے: جب ان کے عذاب کے بارے میں ہماراحکم آپہنچا تو ہود اور جو لوگ اس کے ساتھ ایمان لاچکے تھے ہماری ان پر رحمت اورلطف خاص نے انھیں نجات بخشی( وَلَمَّا جَاءَ اٴَمْرُنَا نَجَّیْنَا هُودًا وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَهُ بِرَحْمَةٍ مِنَّا ) ، پھر مزید تاکید کے لئے فرمایا گیاہے: اور ہم نے ان صاحب ایمان لوگوں کو شدید اور غلیظ عذاب سے رہائی بخشی( وَنَجَّیْنَاهُمْ مِنْ عَذَابٍ غَلِیظٍ ) ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ بے ایمان، سرکش اور ظالم افراد کے لئے عذاب وسزا بیان کرنے سے پہلے صاحب ایمان قوم کی نجات کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ یہ خیال پیدا نہ ہو جیسا کہ مشہور ضرب المثل ہے کہ عذاب الٰہی کے موقع پر خشک وتر سب جل جاتے ہیں کیونکہ وہ حکیم وعادل ہے اور محال ہے کہ وہ ایک بھی صاحب ایمان شخص کو بے ایمان اور گنہگارلوگوں کے درمیان عذاب کرے، بلکہ رحمت الٰہی ایسے افراد کو عذاب وسزا کے نفاذ سے پہلے ہی امن وامان کی جگہ پر منتقل کردیتی ہے جیسا کہ ہم نے دیکھا کہ اس سے پہلے کی طوفان آئے حضرت نوحعليه‌السلام کی کشتی تیار تھی اور اس سے پہلے کہ حضرت لوطعليه‌السلام کے شہر تباہ وبرباد ہوں حضرت لوطعليه‌السلام اور آپ کے انصار راتوں رات حکم الٰہی سے وہاں سے نکل آئے ۔

اس سلسلے میں کہ لفظ”نجینا“ کا اس جملے سے کیوں تکرار کیا گیا مختلف تفسیریں ہیں ۔

بعض کا نظریہ ہے کہ پہلے مرحلے میں ”نجینا“ دنیاوی عذاب سے نجات پانے کی طرف اشارہ ہے اور دوسرے مرحلے میں آخرت کے عذاب کی طرف کہ جو ”غلیظ“ ہونے کی صفت سے بھی پوری طرح مطابقت رکھتا ہے ۔

بعض دوسرے مفسرین نے ایک لظیف نکتے کی طرف اشارہ کیا ہے اور وہ یہ کہ چونکہ رحمت الٰہی کے بارے میں گفتگو ہورہی تھی اگر فوراً لفظ عذاب کا تکرار ہوتا تو مناسب نہ تھا، رحمت کہاں اور عذاب غلیظ کہاں ، لہٰذا ”نجینا“ کا تکرار ہوا تاکہ ان دونوں کے درمیان فاصلہ ہوجائے اور عذاب کی شدت اور تاکید میں بھی کسی قسم کی کمی نہ آئے ۔

اس نکتے کی طرف بھی توجہ رہنا چاہییے کہ آیات قرآن میں چار مواقع پر عذاب کے لئے” غلیظ“ کی صفت استعمال کی گئی ہے(۱) ان آیات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ عذاب غلیظ کا ربط جہانِ آخرت کے ساتھ ہے، خصوصا سورہ ابراہیم کی آیات جن میں عذاب غلیظ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے صراحت سے دوزخیوں کی حالت بیان کررہی ہیں اور ایسا ہی ہونا چاہیئے کیونکہ دنیاوی عذاب کتنا ہی شدید کیوں نہ ہو پھر بھی عذاب آخرت کے مقابلے میں خفیف ہے کم اہمیت کا حامل ہے ۔

یہ مناسبت بھی قابل ملاحظہ ہے کہ جیسا کہ انشاء اللہ سورہ قمر اور سورہ حاقہ میں آئے گا قوم عاد کے لوگ سخت اور بلند قامت تھے، ان کے قدکو کھجور کے درختوں سے تشبیہ دی گئی ہے، اسی مناسبت سے ان کی عمارتیں مضبوط، بڑی اور اونچی تھیں یہاں تک کہ قبل اسلام کی تاریخ میں ہے کہ عرب بلند اور مضبوط عمارتوں کی نسبت قوم عادہی کی طرف دیتے ہوئے انھیں ”عادی“ کہتے تھے، اسی لئے ان پر آنے والا عذاب بھی انہی کی طرح غلیظ اور سخت تھا، جیسا کہ مذکورہ سورتوں کی تفسیر میں آئے گا ۔

اس کے بعد قوم عاد کے گناہوں کا خلاصہ تین امور میں بیان کیا گیا ہے:

پہلا: یہ کہ انھوں نے اپنے پروردگار کی آیات کا انکار کیا اور ہٹ دھرمی کے ساتھ اپنے پیغمبر کی دعوت کے منکر ہوگئے جوکہ واضح دلیل اور مدرک تھا( وَتِلْکَ عَادٌ جَحَدُوا بِآیَاتِ رَبِّهِم ) ۔

دوسرا: یہ کہ وہ عملی لحاظ سے بھی انبیاء کے خلاف عصیان وسرکشی کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ( وَعَصَوْا رُسُلَہُ )، یہاں ”رسل“ جمع کی صورت میں بیان ہوا ہے، ایسا یا تو اس بنا پر ہے کہ تمام انبیاء کی دعوت ایک ہی حقیقت کی طرف تھی ۔یعنی توحید اور اس کی شاخیں ۔ لہٰذا ایک پیغمبر کا انکار تمام پیغمبروں کے انکار کے مترادف ہے، یا اس بنا پر کہ حضرت ہودعليه‌السلام انھیں گزشتہ انبیاء پر ایمان لانے کی دعوت دیتے تھے اور وہ انکار کرتے تھے ۔

تیسرا: گناہ ان کا یہ تھا کہ وہ حکم خدا کو چھوڑ کر حق دشمن ظالموں کی اطاعت کرتے تھے( وَاتَّبَعُوا اٴَمْرَ کُلِّ جَبَّارٍ عَنِیدٍ ) ۔

ترک ایمان، انبیاء کی مخالفت اور حق دشمن ظالموں کی پیروی سے بڑھ کر کونسا گناہ تھا ۔

”جبار“ اس شخص کو کہتے ہیں جو غضب سے مارتا، قتل کرتا اور نابود کرتا ہے اور حکم عقل کا پیرو نہیں ہوتا، دوسرے لفظوں میں ”جبار“ اسے کہتے ہیں جو دسروں کو اپنی پیروی پرمجبور کرے یا جو اپنی بڑائی اور تکبر کے ذریعے اپنا عیب چھپانا چاہے، اور ”عنید“ وہ ہے جو حق وحقیقت کی بہت زیادہ مخالفت کرے اور کسی صورت میں حق کو قبول نہ کرے ۔

یہ دو صفات ہر زمانے کے طاغوتوں اور متکبرین کی واضح صفات میں سے ہیں ، کبھی بھی ان کے کان حق بات سننے کو تیار نہیں ہوتے اور اپنے مخالف سے قساوت، بے رحمی اور سختی سے پیش آتے ہیں اور اسے ختم کردیتے ہیں ۔

یہاں ایک سوال سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ اگر جبار کا یہی معنی ہے تو پھر قرآن کی سورہ حشر آیہ ۲۳ میں اوع دیگر مصادر اسلامی میں خدا کی ایک صفت”جبار“ کیوں ذکر ہوئی ہے؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اصل لغت میں جیسا کہ ہم اشارہ کرچکے ہیں ”جبار“ یا مادہ”جبر“ سے قہر وغلبہ اور قدرت کے معنی میں ہے اور یا ”جبران“ کے مادہ سے کسی نقص کے برطرف کرنے کے معنی میں ہے ۔

لیکن ”جبار“ چاہے پہلے معنی میں ہویا دوسرے معنی میں ، دونوں صورتوں میں استعمال ہوتا ہے کطھی مذمت کی صورت میں اور وہ اس موقع پر جب کوئی انسان اپنے آپ کو بڑا ظاہر کرکے، تکبر کے ذریعے اور غلط دعویٰ کرکے اپنے کمی اور نقائص کی تلافی کرنا چاہے یا اپنے خواہش سے دوسرے کو مقہور اور ذلیل کرنا چاہے، یہ معنی قرآن کی بہت سے آیات میں آیا ہے، کبھی اسے دیگر قابل مذمت صفات کے ہمراہ بیان کیا گیا ہ، مثلا ًمندرجہ بالا آیت میں ”عنید“ کے ساتھ مل کر آیا ہے، سورہ مریم آیہ ۳۲ میں پیغمبر خدا حضرت عیسیٰ کی زبانی آئی ہے کہ :( ولم یجعلنی جبارا شقیا ) ۔

اور خدا نے مجھے جبار اور شقی قرار نہیں دیا ۔

یا بنی اسرائیل کے حالات میں بیت المقدس کے ظالم ساکنین کے بارے میں ہے کہ بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ سے کہا:( ان فیها قوماً جبارین ) ۔

اس سرزمین پر ظالم اور ستم پیشہ قوم رہتی ہے (مائدہ: ۲۲)

کبھی لفظ”جبار“ انھیں دونوں مادوں سے مدح کے معنی میں استعمال ہوتاہے ، اس حوالے سے ”جبار“ اسے کہا جاتا ہے جو لوگوں حاجات اور نقائص کی تلافی کرتا ہو، اسی طرح اس جو جو ہڈیوں کو جوڑتا ہو یا یہ کہ اتنی چبے پناہ قدرت کا مالک ہو کہ اس کا گیر اس کے سامنے خاضع اور ذلیل ہو لیکن وہ کسی پر ظلم نہ کرنا چاہے یا اپنی قدرت سے استفادہ نہ کرنا چاہے، اسی بنا پر جب ”جبار“ اس معنی میں ہوتو دوسری صفات مدح ساتھ ہوتی ہے، جیسا کہ سورہ حشر کی آیہ ۲۳ میں ہے:

( الملک القدوس السلام المومن المهیمن العزیز الجبارالمتکبر ) ۔

وہ پاک ومنزہ فرمانروا ہے کہ جس سے اس کے بندے کبھی ظلم نہیں دیکھتے اور نگہبان ومھافظ ہے ، ناقابل شکست ہے، قدرت مند ہے اور برتر ہے ۔

واضح ہے کہ قدوس، سلام اور مومن جیسے صفات کبھی صورت” جبار “بمعنی ”ظالم“ اور ”متکبر“ بمعنی”اپنے آپ کو بڑا سمجھنے والا“ سے مناسبت نہیں رکھتیں ، یہ عبارت اچھی طرح سے نشاندہی کرتی ہے کہ یہاں ”جبار“ دوسرے معنی میں ہے ۔

بعض حضرات نے چونکہ ”جبار“ کے صرف کچھ مواقع استعمال نگاہ میں رکھے ہیں اور اس کے لغوی اور متعدد معانی پر غور نہیں کیا لہٰذا ان کا خیال یہ ہے کہ اس لفظ کا خدا کے لئے استعمال صحیح نہیں ہے (یہی صورت ان کے نزدیک لفظ ”متکبر“ کی ہے)لیکن اس کے اصلی لغوی مفہوم کو نظر میں رکھنے سے اعتراض برطرف ہوجاتا ہے(۲)

زیر بحث آخری آیت جہاں حضرت ہودعليه‌السلام اور قوم عاد کی داستان ختم ہورہی ہے ان کے برے اور نادرست اعمال کا نتیجہ یوں بیان کیا گیا ہے:وہ ان کے اعمال کی وجہ سے اس دنیا میں ان پر لعنت ونفرین ہوئی اور ان کے مرنے کے بعد ان کے برے نام اور رسوا کن تاریخ کے سوا ان کی کوئی چیز باقی نہ رہی( وَاٴُتْبِعُوا فِی هٰذِهِ الدُّنْیَا لَعْنَةً ) ، اور قیامت کے دن کہا جائے گا کہ جان لو! قوم عاد نے اپنے پروردگار کا انکار کیا تھا( وَیَوْمَ الْقِیَامَةِ اٴَلَاإِنَّ عَادًا کَفَرُوا رَبَّهُمْ ) ، دور ہوجا عاد قوم ہود رحمت پروردگار سے( اٴَلَابُعْدًا لِعَادٍ قَوْمِ هُود ) ۔

باوجود یکہ لفظ”عاد“ اس قوم کے تعارف کے لئے کافی ہے لیکن مندرجہ بالا آیت میں عاد کے ذکر کے بعد ”قوم ہود“ کے الفاظ بھی آئے ہیں جن سے تاکید بھی ظاہر ہوتی ہے اور اس طرف بھی اشارہ ہے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے دلسوز پیغمبر حضرت ہودعليه‌السلام کو یہ سب تکلیفیں پہنچائیں ، انھیں تہمتیں دیں اور اسی بنا پر رحمت الٰہی سے دور ہیں ۔

____________________

۱۔ سورہ ابراہیم:۱۷، لقمان: ۲۴، اور فصلت: ۵۰۔

۲۔ کتاب تاج العروس از زبیدی اور مفردات از راغب، اور تفسیر مجمع البیان اور تفسیر المنار کا زیر بحث آیات اور سورہ حشر کی آخری آیات کے ذیل میں ملاحظہ فرمائیں ۔