تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33668
ڈاؤنلوڈ: 3552


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33668 / ڈاؤنلوڈ: 3552
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

۲ ۔ اخلاص کی جزا

جیسا کہ مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں اشارہ کیاجا چکا ہے کہ قرآن مجید اس خطرناک گرداب کہ جو زوجہ مصر نے پیدا کردیا، سے یوسفعليه‌السلام کی نجات کی نسبت خداکی طرف دیتا ہے اور کہتا ہے:

ہم نے ”سوء“ اور ”فحشاء“ کو یوسف سے دُور کردیا ۔

لیکن ۔ بعد کا جملہ کہ جس میں کہا گیا ہے کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھا، کی طرف توجہ کرنے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ان بحرانی لمحات میں خدا اپنے مخلص بندوں کو تنہا نہیں چھوڑتا اور ان کے لئے اپنی معنوی امداد سے دریغ نہیں کرتا بلکہ اپنے غیبی الطاف وامداد سے کہ جن کی تعریف وتوصیف کسی طرح بھی ممکن نہیں اپنے بندوں کی حفاظت کرتا ہے اور یہ درحقیقت ایسی جزا ہے کہ جو خدائے بزرگ وبرتر ایسے بندوں کو عطا فرماتا ہے ۔ یہ در اصل پاکیزگی، تقویٰ اور اخلاص کی جزاء ہے ۔

ضمنی طور پر اس نکتے کی یاد دہانی بھی ضروری ہے کہ مندرجہ بالا آیات میں حضرت یوسفعليه‌السلام کا ذکر ”مُخلَص“ (بروزن”مطلق“ )بصورتِ اسمِ مفعول ہوا ہے یعنی ”خالص کیا ہوا“ نہ کہ بصورتِ ”مُخلِص“ (بروزن”مُحسِن“) اسمِ فاعل کی شکل میں جس کا معنی ہے ”خالص کرنے والا“۔

غور وخوض سے معلوم ہوتا ہے کہ ”مُخلِص“(لام کے نیچے زیر کی صورت میں )زیادہ تر ایسے مواقع پر استعمال ہوتا ہے کہ جہاں انسان تکامل و ارتقاء کے ابتدائی مراحل میں ہو اور ابھی خود سازی کے عمل سے گزررہا ہو، جیساکہ قرآنِ حکیم میں ہے:( فَإِذَا رَکِبُوا فِی الْفُلْکِ دَعَوْا اللهَ مُخْلِصِینَ لَهُ الدِّین )

جب کشتی میں سوار ہوتے ہیں خدا کو خلوص سے پکارتے ہیں ۔(عنکبوت: ۶۵)

اسی طرح ایک اور آیت میں ہے:( وما امروا الا لیعبداللّٰه مخلصین له الدین ) ۔

انہیں حکم نہیں دیا گیا مگر یہ کہ خدا کی خلوص کے ساتھ پرستش کریں ۔(بینة: ۵)

لیکن” مُخلَص“ (لام پر زبر کی صورت میں ) اعلیٰ مرحلے کے لئے بولا جاتا ہے کہ جو ایک مدت تک جہادِ بالنفس سے حاصل ہوتا ہے وہی مرحلہ کہ جب شیطان انسان میں اپنے وسوسے پیدا کرنے سے مایوس ہوجاتا ہے، در حقیقت اس مرحلے میں خدا کی طرف سے بیمہ ہوجاتا ہے ۔

ارشاد الٰہی ہے:( قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاٴُغْوِیَنَّهُمْ اٴَجْمَعِینَ، إِلاَّ عِبَادَکَ مِنْهُمَ الْمُخْلَصِین ) ۔

شیطان نے کہا: تیری عزت کی قسم! ان سب کو گمراہ کروں گا مگر تیرے مخلص بندوں کو( ۸۲ ۔ ۸۳) ۔

یوسفعليه‌السلام اس مرحلہ پر پہنچے ہوئے تھے کہ اس بحرانی حالت میں انہوں نے پہاڑ کی طرح استقامت دکھائی اور کوشش کرنا چاہیئے کہ انسان اس مرحلے تک پہنچ جائے ۔

۳ ۔ متین وپاکیزہ کلام

قرآن کے عجیب وغریب پہلوؤں میں سے ایک کہ جو اعجاز کی ایک نشانی بھی ہے ، یہ ہے کہ اس میں کوئی چھپنے والی ، رکیک ، ناموزوں ، متبذل اور عفت وپاکیزگی سے عاری تعبیر نہیں ہے اور کسی عام اَن پڑھ اور جہالت کے ماحول میں پرورش پانے والے کا کلام ہرگز اس طرز کا نہیں ہوسکتا، کیونکہ ہر شخص کی باتیں اس کے افکار اور ماحول سے ہم رنگ ہوتی ہیں ۔

قرآن کی بیان کردہ تمام داستانوں میں ایک حقیقی عشقیہ داستان موجود ہے اور یہ حضرت یوسفعليه‌السلام اور مصر کی بیوی کی داستان ہے ۔

یہ ایک خوبصور ت اور ہوس آلودہ عورت کے ایک زیرک اور پاک دل نوجوان سے شعلہ ور عشق کی داستان ہے ۔

کہنے والے اور لکھنے والے جب ایسے مناظر تک پہنچتے ہیں تو وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ یا تو ہیرو اور اس واقعے کے اصلی مناظرکی تصویر کشی کے لئے قلم کو کھلا چھوڑ دیں اور با زبانِ اصطلاح حقِ سخن ادا کردیں اگرچہ اس میں ہزارہا تحریک آمیز، چھبنے والے اور غیر اخلاقی لفظ آجائیں ۔

یا وہ مجبور ہوجاتے ہیں کہ زبان وقلم کی نزاکت وعفت کی حفاظت کے لئے کچھ مناظر کو پردہ ابہام میں لپیٹ دیں اور سامعین وقارئین کو سربستہ طور پر بات بتائیں ۔

کہنے والا اور لکھنے والا کتنی بھی مہارت رکھتا ہو اکثر اوقات ان میں سے کسی ایک مشکل سے دوچار ہوجاتا ہے ۔

کیا یہ باور کیا جاسکتا ہے کہ ایک اَن پڑھ شخص ایسے شور انگیز عشق کے نہایت احساس لمحات کی دقیق اور مکمل تصویر کشی بھی کرے لیکن بغیر اس کے کہ اس میں معمولی سی تحریک آمیز وعفت سے عاری تعبیر استعمال ہوں ۔

لیکن قرآن اس داستان کے حساس ترین مناظر کی تصویر کشی شگفتہ انداز میں متانت وعفت کے ساتھ کرتا ہے، بغیر اس کے کہ اس میں کوئی واقعہ چھوٹ جائے اور اظہارِ عجز ہو، جب کہ تمام اصولِ اخلاق وپاکیزگی بیان بھی محفوظ ہو ۔

ہم جانتے ہیں کہ اس داستان کے تمام مناظر میں سے زیادہ حساس ”خلوت گاہ وعشق“ کا ماجرا ہے جیسے زوجہ مصر کی بیقراری اور ہواوہوس نے وجود بخشا ۔

قرآن اس واقعے کی وضاحت میں تمام کہنے کی باتیں بھی کہہ گیا ہے لیکن پاکیزگی اور عفت کے اصول سے ہٹ کر اس نے تھوڑی سی بات بھی نہیں کی، قرآن اس طرح سے کہتا ہے:

( وَرَاوَدَتْهُ الَّتِی هُوَ فِی بَیْتِهَا عَنْ نَفْسِهِ وَغَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ وَقَالَتْ هَیْتَ لَکَ قَالَ مَعَاذَ اللهِ إِنَّهُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ إِنَّهُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) ۔

جس خاتون کے گھر یوسف تھے، اس نے ان سے تقاضااور اظہار تمنا کی اورتمام دروازے بند کرلئے اور کہنے لگی :جلدی آؤ،اس کی طرف جو و تمہارے خاطر مہیا ہے،انہوں نے کہا : مَیں اس کام سے خداکی پناہ مانگتا ہوں ، ( مصر)بزرگ اور میرا مالک ہے،اس نے مجھے بڑی عزت سے رکھا ہے ،یقینا ظالم (اور آلودہ دامن افراد ) فلاح نہیں پائیں گے (یوسف: ۲۳) ۔

اس آیت میں یہ الفاظ قابلِ غور ہیں :

۱ ۔ لفظ”وارد“ وہاں استعمال ہوتا ہے جہاں کوئی شخص دوسرے سے کوئی چیز بڑی محبت اور نرمی سے مانگے(لیکن زوجہ مصر یوسف سے جو کچھ طلب کرتی تھی )چونکہ یہاں واضح تھی لہٰذا قرآن نے اسی واضح کنایہ پر کفایت کی ہے اور نام نہیں لیا ۔

۲ ۔ یہاں قرآن لفظ”امراة ال “(یعنی ۔ مصر کی بیوی)تک استعمال نہیں کرتا بلکہ کہتا ہے” الَّتِی ھُوَ فِی بَیْتِھَا“ (وہ خاتون کہ یوسف جس کے گھرمیں رہتا تھا )یہ اس لئے ہے تاکہ کلام پردہ پوشی اور عفتِ بیاں سے زیادہ قریب ہو ۔

ضمنی طور پر اس تعبیر سے قرآن نے حضرت یوسفعليه‌السلام کی حسِ حق شناسی کو بھی مجسم کیا ہے، یعنی یوسفعليه‌السلام نے تمام مشکلات کے باوجود اس کے سامنے سرتسلیم خم نہ کیا جس کے پنجے میں آپ کی زندگی تھی ۔

۳ ۔ َ”( غَلَّقَتْ الْاٴَبْوَابَ ) “ کہ جو مبالغے کا معنی دیتا ہے، دلالت کرتا ہے کہ تمام دروازے مضبوطی اور سختی سے بند کر دےے اوریہ اس ہیجان انگیز منظر کی تصویر کشی ہے ۔

۴ ۔”( وَقَالَتْ هَیْتَ لَک ) “ اس کا معنی ہے ”جلدی آؤ اس کی طرف جوتمہارے لئے مہیا ہے “ یا ”آجاؤ کہ مَیں تمہارے اختیار میں ہوں “۔

اس جملے کے وصالِ یوسف سے ہمکنار ہونے کے لئے زوجہ مصر کی آخری بات پیش کی گئی ہے لیکن ایک وزنی، پرمتانت اور معنی خیز انداز میں بغیر کسی تحریک آمیز اور بد آموزی کے ۔

۵ ۔”( مَعَاذَ اللهِ إِنَّهُ رَبِّی اٴَحْسَنَ مَثْوَایَ ) “یہ جملہ حضرت یوسفعليه‌السلام نے اس حسین ساحرہ کی دعوت کے جواب میں کہااکثر مفسرین کے بقول اس کا معنی ہے:”مَیں خدا کی پناہ مانگتا ہوں ، تیرا شوہر مصر میرا بزرگ اور مالک ہے اور وہ میرا احترام کرتا ہے اور مجھ پر اعتماد کرتا ہے، مَیں اس سے کسی طرح کی خیانت کروں ، یہ کام خیانت بھی اور ظلم بھی “”( إِنَّهُ لَایُفْلِحُ الظَّالِمُونَ ) “۔

اس طرح قرآن حضرت یوسفعليه‌السلام کے بارے میں بیان کرتا ہے کہ انہوں نے مصر کی بیوی کے احساسات بیدار کرنے کی کوشش کی ۔

۶ ۔”( وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَااٴَنْ رَاٴَی بُرْهَانَ رَبِّهِ ) “ ایک طرف قرآن اس خلوت گاہ عشق کے انتہائی حساس مناظر کی تصویر کشی کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ یہ کیفیت اس قدر تحریک آمیز تھی کہ اگر حضرت یوسفعليه‌السلام عقل، ایمان یاعصمت کے بلند مقام پر نہ ہوتے تو گرفتار ہوجاتے، دوسری طرف آیت کے اس حصے میں قرآن طغیان گر شہوت کے دیو پر حضرت یوسفعليه‌السلام کی آخری کامیابی پر ایک خوبصورت انداز میں خرات تحسین پیش کررہا ہے ۔

یہ بات قابل ِ توجہ ہے کہ لفظ”ھم “ استعمال ہوا ہے یعنی مصر کی بیوی نے پختہ ارادہ کررکھا تھا اور یوسفعليه‌السلام نے بھی اگر برھان پروردگار نہ دیکھی ہوتی تو وہ بھی ارادہ کرتے ۔

کیا کوئی لفظ یہاں قصد وارادہ سے بڑھ کر متانت آمیز استعمال کیا جاسکتا ہے؟

آیات ۲۵،۲۶،۲۷،۲۸،۲۹

۲۵( وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِنْ دُبُرٍ وَاٴَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَی الْبَابِ قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ اٴَرَادَ بِاٴَهْلِکَ سُوئًا إِلاَّ اٴَنْ یُسْجَنَ اٴَوْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

۲۶( قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ اٴَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ) ۔

۲۷( وَإِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِینَ ) ۔

۲۸( فَلَمَّا رَاٴَی قَمِیصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ ) ۔

۲۹( یُوسُفُ اٴَعْرِضْ عَنْ هٰذَا وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنَ الْخَاطِئِین ) ۔

ترجمہ

۲۵ ۔اور دونوں دروازے کی طرف دوڑے (جبکہ زوجہ یوسف کا تعاقب کررہی تھی )اور پیچھے سے اس کی قمیص پھاڑ دی اور اس دوران اس عورت کے سردار کو ان دونوں نے دروازے پر پایا ، اس عورت نے کہا: جو تیرے اہل سے خیانت کا ارادہ کرے اس کی سزا سوائے زندان یا دردناک عذاب کے کیا ہوگی ۔

۲۶ ۔(یوسف )نے کہا: اس نے مجھے اصرار سے اپنی طرف دعوت دی اور اس موقع پر اس عورت کے خاندان میں سے ایک شاہد نے گواہی دی کہ اگر اس کی قمیص آگے سے پھٹی ہے تو عورت سچ کہتی ہے اور یہ جھوٹوں میں سے ہے ۔

۲۷ ۔اور اگر اس کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے تو پھر وہ عورت جھوٹ بولتی ہے اور یہ سچوں میں سے ہے ۔

۲۸ ۔جب ( مصر نے) دیکھا تو اس (یوسف )کی قمیص پیچھے سے پھٹی تھی تو اس نے کہا کہ یہ تمہارے مکر وفریب میں سے ہے اور مَیں جانتا ہوں کہ عورتوں کا مکر وفریب عظیم ہوتا ہے ۔

۲۹ ۔یوسف! اس امر سے صرفِ نظر کرو اور (اے عورت!)تو بھی اپنے گناہ پر استغفار کر کہ تو خطا کاروں میں سی تھی ۔

زوجہ مصر کی رسوائی

یوسفعليه‌السلام کی انتہائی استقامت نے زوجہ کو تقریباً مایوس کردیا، یوسفعليه‌السلام اسی معرکے میں اس ناز وادا والی اور سرکش ہَوا وہَوس والی عورت کے مقابلے میں کامیاب ہوگئے تھے، انہوں نے محسوس کیا کہ اس لغزش گاہ میں مزید ٹھہرنا خطرناک ہے، انہوں نے اس محل سے نکل جانے کا ارادہ کیا، لہٰذا وہ تیزی سے قصر کے دروازے کی طرف بھاگے تاکہ دروازہ کھول کر نکل جائیں ، زوجہ بھی بے اعتناء نہ رہی وہ بھی یوسفعليه‌السلام کے پیچھے دروازے کی طرف بھاگی تاکہ یوسفعليه‌السلام کو باہر نکلنے سے روکے، اس نے اِس مقصد کے لئے یوسف کی قمیص پیچھے سے پکڑ لی اور اسے اپنی طرف کھنچا اس طرح سے کہ قمیص پیچھے سے لمبائی کے رخ پھٹ گئی( وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِیصَهُ مِنْ دُبُر ) ۔

”استباق“ لغت میں دو یا چند افراد کے ایک دوسرے کے سبقت لینے کے معنی میں ہے اور ”قد“ لمبائی کے رخ پھٹنے کے معنی میں ہے جیسا کہ ”قط“ عرض میں پھٹ جانے کے معنی میں ، اس لئے حدیث میں ہے :

کانت ضربات علی بن ابی طالب عليه‌السلام ابکاراً کان اذا اعتلی قد ، واذا اعترض قط ۔علی ابن ابی طالبعليه‌السلام کی ضربیں اپنی نوع میں نئی اور انوکھی تھیں ، جب اوپر سے ضرب لگاتے تو نیچے چیر دیتے اور جب عرض میں ضرب لگاتے تو دو نیم کردیتے ۔(۱)

لیکن جس طرح ہوا یوسف دروازے تک پہنچ گئے اور دروازہ کھول لیا،اچانک مصر کو دروازے پیچھے دیکھا ، جس طرح قرآن کہتا ہے: ان دونوں نے اس عورت کے آقا کو دروازے پر پایا( وَاٴَلْفَیَا سَیِّدَهَا لَدَی الْبَابِ ) ۔

”الفیت“ ”الفاء“ کے مادہ سے اچانک پانے کے معنی میں ہے اور شوہر کو ”سید “ سے تعبیر کرنا جیسا کہ بعض مفسرین نے کہا ہے اہل ِ مصر کے رواج کے مطابق تھا، وہاں کی عورتیں اپنے شوہر کو ”سید“ کہہ کر مخاطب کرتی ہیں ، آج کی فارسی زبان میں بھی عورتیں اپنے شوہر کا ”آقا“ سے تعبیر کرتی ہیں ۔

اب جب کہ زوجہ نے ایک طرف اپنے تئیں رسوائی کے آستانے پر دیکھا اور دوسری طرف انتقام کی آگ اس کی روح میں بھڑک اٹھی تو پہلی بات جو اسے سوجھی یہ تھی کہ اس نے اپنے آپ کو حق بجانب ظاہر کرتے ہوئے اپنے شوہر کی طرف رخ کیا اور یوسف پر تہمت لگائی: اس نے پکار کر کہا جو شخص تیری اہلیہ سے خیانت کا ارادہ کرے اس کی سزا زندان یا دردناک عذاب کے سواکیا ہوسکتی ہے( قَالَتْ مَا جَزَاءُ مَنْ اٴَرَادَ بِاٴَهْلِکَ سُوئًا إِلاَّ اٴَنْ یُسْجَنَ اٴَوْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ ) ۔

یہ امر قابلِ توجہ ہے کہ اس خیانت کار عورت نے جب تک اپنے آپ کو رسوائی کے آستانے پر نہیں دیکھا تھا، بھول چکی تھی کہ وہ مصر کی بیوی ہے لیکن اِس موقع پر اس نے ”اھلک“ (تیری گھر والی)کا لفظ استعمال کرکے کی غیرت کو ابھارا کہ مَیں تیرے ساتھ مخصوص ہوں لہٰذا کسی دوسرے کو نہیں چاہیئے کہ میری طرف حرص کی آنکھ سے دیکھے، یہ گفتگو حضرت موسیٰعليه‌السلام کے زمانے کے فرعونِ مصر کی گفتگو سے مختلف نہیں کہ وہ تختِ حکومت پر بھروسے کے وقت کہتا تھا:( الیس لی ملک مصر ) ۔

کیا مصر کی سلطنت کا مَیں مالک نہیں ہوں (زخرف: ۵۱) ۔

لیکن جب اس نے دیکھا کہ تخت وتاج خطرے میں ہے اور میرے اقبال کا ستارا ڈوب رہا ہے تو کہا:

( یریدان ان یخرجٰکم من ارضکم ) ۔

یہ دونوں بھائی(موسیٰ وہارون)چاہتے ہیں کہ تمہیں تمہاری سرزمین سے نکال دیں ۔(طٰہٰ: ۶۳)

دوسرا قابلِ توجہ نکتہ یہ ہے کہ مصر کی بیوی نے یہ ہرگز نہیں کہا کہ یوسف میرے بارے میں برا ارادہ رکھتا تھا بلکہ مصر سے اس کی سزا کے بارے میں بات کی،اس طرح سے کہ اصل مسئلہ مسلم ہے اور بات صرف اس کی سزا کے بارے میں ہے ، ایسے لمحے میں جب وہ عورت اپنے آپ کو بھول چکی تھی اس کی یہ جچی تلی گفتگو اس کی انتہائی حیلہ گری کی نشانی ہے ۔(۲)

پھر یہ کہ پہلے وہ قید خانے کے بارے میں بات کرتی ہے اور بعد میں گویا وہ قید پر بھی مطمئن نہیں ہے ایک قدم اور آگے بڑھاتی ہے اور ”عذاب الیم“ کا ذکر کرتی ہے کہ جو سخت جسمانی سزا اور قتل تک بھی ہوسکتی ہے ۔

اس مقام پر حضرت یوسفعليه‌السلام نے کاموشی کو کسی طور پر جائز نہ سمجھا اور صراحت سے زوجی مصر کے عشق سے پردہ اٹھایا، انہوں نے کہا: اس نے مجھے اصرار اور التماس سے اپنی طرف دعوت دی تھی ( قَالَ ھِیَ رَاوَدَتْنِی عَنْ نَفْسِی)۔

واضح ہے کہ اس قسم کے موقع پر ہر شخص ابتداء میں بڑی مشکل سے باور کرسکتا ہے کہ ایک نوخیزجوان غلام کہ جو شادہ شدہ نہیں بے گناہ ہو اورایک شوہر دار عورت کہ جو ظاہراً باوقار ہے گنہگار ہو، اس بناء پر الزام زوجہ کی نسبت زیادہ یوسف کے دامن پر لگتا تھا لیکن چونکہ خدا نیک اور پاک افراد کا حامی ومدد گار ہے، وہ اجازت نہیں دیتا کہ یہ نیک اور پارسا مجاہد نوجوان تہمت کے شعلوں کی لپیٹ میں آئے لہٰذا قرآن کہتا ہے:اور اس موقع پر اس عورت کے اہلِ خاندان میں سے ایک گواہ نے گواہی دی کہ اصلی مجرم کی پہچان کے لئے اس واضح دلیل سے استفادہ کیا جائے کہ اگر یوسف کا کرتہ آگے کی طرف سے پھٹا ہے تووہ عورت سچ کہتی ہے اور یوسف جھوٹا ہے( وَشَهِدَ شَاهِدٌ مِنْ اٴَهْلِهَا إِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَهُوَ مِنَ الْکَاذِبِینَ ) ۔

اور اگر اس کاکُرتہ پیچھے سے پھٹا ہے وہ عورت جھوٹی اور یوسف سچاہے( وَإِنْ کَانَ قَمِیصُهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَکَذَبَتْ وَهُوَ مِنَ الصَّادِقِینَ ) ۔

اس سے زیادہ مضبوط دلیل اور کیا ہوگی ۔ کنونکہ زوجہ کی طرف سے تقاضا تھا تو وہ یوسف کے پیچھے دوڑی ہے اور یوسف اس سے آگے دوڑ رہے تھے کہ وہ ان کے کُرتے سے لپٹی ہے، تو یقینا وہ پیچھے سے پھٹا ہے اور اگر یوسف نے کی بیوی پر حملہ کیا ہے اور وہ بھاگی ہے یا سامنے سے اپنا دفاع کیا ہے تو یقینا یوسف کا کُرتہ آگے سے پٹھا ہے ۔

یہ امر کس قدر جاذبِ نظر ہے کہ کُرتہ پھٹنے جا سادہ سا مسئلہ بے گناہی کا تعین کردیتا ہے، یہی چھوٹی سی چیز ان کی پاکیزگی کی سَند اور مجرم کی رسوائی کا سبب ہوگئی ۔

مصر نے یہ فیصلہ کہ جو بہت ہی جچا تُلا تھا بہت پسند کیا، یوسف کی قمیص کو غور سے دیکھا، اور جب اس نے دیکھا کہ یوسف کی قمیص پیچھے سے پھٹی ہے (خصوصاً اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ اس دن تک اس نے کبھی یوسف سے کوئی جھوٹ نہیں سنا تھا) اس نے اپنی بیوی کی طرف رخ کیا اور کہا: یہ کام تم عورتوں کے مکر وفریب میں سے ہے، بے شک تم عورتوں کا مکر وفریب عظیم ہے( فَلَمَّا رَاٴَی قَمِیصَهُ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ إِنَّهُ مِنْ کَیْدِکُنَّ إِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیمٌ ) ۔

اس وقت مصر کوخوف ہوا کہ یہ رسوا کن واقعہ ظاہر نہ ہوجائے اور مصر میں اس کی آبرو نہہ جاتی رہے، اس نے بہتر سمجھا کہ معاملے کو سمیٹ کر دبا دیا جائے، اس نے یوسف کی طرف رخ کیا اور کہا: اے یوسف تم صرفِ نظر کرو اوراس واقعے کے بارے میں کوئی بات نہ کہو( یُوسُفُ اٴَعْرِضْ عَنْ هٰذَا ) ، پھر اس نے بیوی کی جانب رُخ کیا اور کہا:تم بھی اپنے گناہ سے استغفار کرو کہ تم خطا کاروں میں سی تھی( وَاسْتَغْفِرِی لِذَنْبِکِ إِنَّکِ کُنتِ مِنَ الْخَاطِئِین ) ۔(۳)

بعض کہتے ہیں کہ یہ بات کہنے والا مصر نہ تھا بلکہ وہی شاہد تھا لیکن اس احتمال کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے خصوصاً جب کہ یہ جملہ مصر کی گفتگو کے بعد آیا ہے ۔

____________________

۱۔ مجمع البیان، زیرِ بحث آیت کے ذیل میں ۔

۲۔ یہ کہ ”ما جزا“میں لفظ ”ما“ نافیہ ہے یا استفہامیہ ، اس سلسلے میں مفسرین میں اختلاف ہے لیکن دونوں صورتوں میں اس کے نتیجے میں کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

۳۔ اس جملے میں ”من الخاطئین “ کہ جو جمع مزکر ہے کہا گیا ہے : کہ ”من الخاطئات “ کہ جو جمع مونث ہے، ایسا اس لئے ہے کہ بہت مواقع پر تغلیب کے طور پر جمع مذکر کا دونوں پر اطلاق کیا جاتا ہے یعنی تو خطا کاروں کے زمرے میں ہے ۔

چند اہم نکات

۱ ۔ شاہد کون تھا؟

شاہد کون تھا کہ جس نے یوسف اور مصر کی فائل اتنی جلدی درست کردی اور مہر لگادی اور بے گناہ کو خطا کار سے الگ کردکھایا، اس بارے میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔

بعض نے کہاہے کہ وہ مصر کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے تھا اور لفظ”من اھلھا“ اس پر گواہ ہے اور قائدتاً ایک حکیم، دانش مند اور سمجھدار شخص تھا اس واقعے میں کہ جس کا کوئی عینی شاہد نہ تھا اُس نے شگافِ پیراہن سے حقیقت معلوم کرلی، کہتے ہیں کہ یہ شخص مصر کے مشیروں سے تھا اور اس وقت اس کے ساتھ تھا ۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ وہ شیر خوار بچہ تھا، یہ بچہ مصر کی بیوی کے رشتہ داروں میں سے تھا، اس وقت یہ بچہ وہی قریب تھا یوسف نے مصر سے خواہش کی کہ اس سے فیصلہ کروالو، مصر کو پہلے تو بہت تعجب ہوا کہ کیا ایسا ہوسکتا ہے لیکن جب وہ شیر کوار حضرت عیسیٰ کی طرح گہوارے میں بول اٹھا اور اس نے گنہگار کو بے گناہ سے الگ کرکے معیار بتایاتو وہ متوجہ ہوا کہ یوسف ایک غلام نہیں بلکہ نبی ہے یا نبی جیسا ہے ۔

وہ روایات کہ جو اہل بیتعليه‌السلام اور اہلِ تسنن کے طریقے سے منقول ہیں ان میں اس ایک دوسری تفسیر کی طرف اشارہ ہے، ان میں سے ایک روایت ابن عباس نے رسول اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے نقل کی ہے، آپ نے فرمایا:

چار افراد نے بچپن میں بات کی، فرعون کی آرایش کرنے والی کا بیٹا، یوسف کا شاہد ، صاحبِ جریح اور عیسیٰ بن مریم۔(۱)

تفیر علی بن ابراہیم میں بھی امام صادق علیہ السلام سے منقول ہے:

شہادت دینے والا چھوٹا بچہ گہوارے میں تھا ۔(۲)

لیکن توجہ رہے کہ مندرجہ بالا دونوں احادیث میں سے کسی کی بھی سند محکم نہیں ہے بلکہ دونوں مرفوعہ ہیں ۔

تیسرا احتمال یہ ذکر کیا گیا ہے کہ شاہد وہی کُرتے کا پھٹا ہونا تھا کہ جس نے زبانِ حال میں شہادت دی، مگر کلمہ”من اهلها “ (شاہد کی بیوی کے خاندان میں سے تھا) کی طرف توجہ کرنے سے یہ احتمال بہت بعید نظر آتاہے بلکہ یہ کلمہ اس احتمال کی نفی کرتا ہے ۔

۲ ۔ مصر نے خفیف رِ عمل کیوں ظاہر کیا؟

اس داستان میں جو مسائل انسان کی توجہ اپنی طرف مبذول کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ ایسے اہم مسئلہ میں مصر مصر نے صرف ایک ہی جملے پر قناعت کیوں کی، جب کہ یہ اس کی عزت وناموس کا معاملہ تھا، اس نے صرف اتنا ہی کہا کہ اپنے گناہ پر استغفار کرو کہ تُو خطا کاروں میں سے تھی ۔

شاید یہی مسئلہ سبب بنا کہ اپنے اسرار فاش ہونے کے بعد مصر کی بیوی نے اشراف اور بڑے لوگوں کی بیویوں کو ایک خاص محفل میں دعوت دی اور ان کے سامنے اپنے عشق کی داستان کو صراحت سے اور کھول کر بیان کیا ۔

کیا رسوائی کے خوف نے کو آمادہ کیا کی وہ اس معاملے کو طول نہ دے یا یہ کہ طاغوتی حکمرانوں کے لئے یہ کام اور عزت وناموس کی حفاظت کوئی زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کیونکہ وہ گناہ ، برائی اور بے عفتی میں اس قدر غرق ہوتے ہیں کہ اس بات کی ان کی نظر میں حیثیت اور وقعت ختم ہوچکی ہوتی ہے ۔

دوسرااحتمال زیادہ قوی معلوم ہوتا ہے ۔

۳ بحرانی لمحات میں نصرتِ الٰہی

داستانِ یوسف کا یہ حصہ ہمیں ایک اور بہت بڑا درس دیتا ہے، اور وہ یہ ہے کہ ایسے انتہائی بحرانی لمحات میں پروردگار کی وسیع حمایت انسانی مدد کو آپہنچتی ہے ۔

جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے-:۔۔۔۔۔( یَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجًا، وَیَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَایَحْتَسِب ) ۔

خدا اس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردے گا اور اسے ا یسی جگہ سے رزق دے گا کہ جہاں سے وہم بھی نہ ہو،(طلاق: ۲،۳) ۔

اسی کے مصداق ایسے ذرائع سے کہ انسان جن کے متعلق سوچتا بھی نہیں کہ کوئی امید کی کرن پیدا ہوگی، خدائے تعالیٰ کی مدد ہوتی ہے ۔

کیا خبر تھی کی کُرتے کا پھٹنا حضرت یوسفعليه‌السلام کی پاکیزگی اور برائت کی سند بن جائے گا، وہی واقعات کو جنم دینے والا کُرتہ کہ جو ایک یوسفعليه‌السلام کے بھائیوں کو پھٹنا نہ ہونے کی وجہ سے باپ کے حضور ذلیل ورسوا کرتا ہے لیکن دوسری طرف یہ کُرتہ کی ہوس آلود بیوی کو پھٹا ہونے کی وجہ سے خوار کرتا ہے اور تیسری طرف حضرت یعقوبعليه‌السلام کی بے نور آنکھوں کے لئے نورِ آفرین بن جاتا ہے اور اس کی بوئے آشنائی نسیمِ صبحگاہی کے ہمراہ مصر سے کنعان تک سفر کرتی ہے اور پیرِ کنعان کو خوش خبری لے کر آنے والے سوار کی خبر دیتی ہے ۔

بہرحال خدا تعالے کے ایسے پوشیدہ الطاف ہیں کہ جن کی گہرائی سے کوئی شخص آگاہ نہیں ہے اور جس وقت اس کے لطف کی بادِ صبا چلتی ہے تو منظر اس طرح سے بدل جاتے ہیں کہ سمجھدار ترین افراد بھی جس کی پیش گوئی کے قابل نہیں ہوتے ۔

کُرتہ اگرچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے لیکن ایک اہم چیز ہے بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ مکڑی کے جالے کے چند تار ایک ملت کی زندگی کو ہمیشہ کے لئے تبدیل کردیتے ہیں جیسا کہ ہجرتِ رسول کے وقت غارِ ثور پر ہوا ۔

۴ ۔ مصر کی بیوی کا منصوبہ

مندرجہ بالا آیات میں عورتوں کے مکر کی طرف اشارہ ہوا ہے (البتہ ایسی عورتیں جو زوجہ مصر کی طرح بے لگام اور ہوس ران ہوں ) اور اس مکر وفریب کو ”عظیم“ قرار دیا گیا ہے (ان کیدکن عظیم)۔

تاریخ میں اور تاریخ ہی کے تسلسل میں ایسی بہت سی داستانیں موجود ہیں ، اس سلسلے میں بہت سی باتیں منقول ہیں کہ جن کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ہوس باز عورتیں اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے ایسے ایسے منصوبے بناتی ہیں جو بے نظیر ہوتے ہیں ۔

مندرجہ بالا داستان میں ہم نے دیکھا ہے کہ زوجہ مصر نے عشق میں شکست کھانے کے بعد اور اپنے آپ کو رسوائی کے آستانے پر پاکر کس طرح بڑی مہارت سے اپنی پاک دامنی اور یوسف کی آلودگی کو پیش کیا، یہاں تک کہ اس نے یہ بھی نہیں کہا کہ یوسف نے میری طرف برا ارادہ کیا بلکہ اسے مسلم امر کے طور فرض کیا اور صرف ایسے شخص کی سزا کے متعلق سوال کیا اور ایسی سزا کا ذکر کیا جو صرف قید پر موقوف نہ تھی بلکہ اس کی کوئی حد نہ تھی ۔

اسی واقعے میں ہم بعد میں دیکھے گے کہ جب مصر کی عورتوں نے سرزنش کی اور اپنے غلام سے اس کے بے قرار عشق پر انگلی اٹھائی تو اس نے کس طرح اپنی برائت کے لئے انتہائی مکارانہ اور سوچے سمجھے طریقے سے حیران کن چال چلی ۔

اور یہ ایسی عورتوں کے مکر کے بارے میں ایک اور تاکید ہے ۔

____________________

۱۔تفسیر المنار، ج۱۲،ص ۲۸۷۔

۲۔تفسیر نورالثقلین، ج۲،ص ۴۲۲۔