تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33651
ڈاؤنلوڈ: 3543


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33651 / ڈاؤنلوڈ: 3543
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۱۵،۱۶

۱۵( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ اٴَعْمَالَهُمْ فِیهَا وَهُمْ فِیهَا لَایُبْخَسُونَ )

۱۶( اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ )

ترجمہ

۱۵ ۔ جو لوگ دُنیا اور اس کی زینت کو چاہتے ہیں ہم ان کے اعمال انھیں بے کم وکاست اسی جہان میں دے دیں گے ۔

۱۶ ۔ (لیکن) آخرت میں (جہنم کی) آگ سے سوا ان کا (کچھ حصّہ) نہیں ہوگا اور جو کچھ انھوں نے دنیا میں (مادّی مقاصد اور غیرخدا کے لئے) انجام دیا ہے وہ برباد ہوگا اور ان کے اعمال باطل ہوجائیں گے ۔

تفسیر

گزشتہ آیات نے اعجاز قرآن کے دلائل پیش کرکے مشرکین اور منکرین پر حجت تمام کردی ہے اور چونکہ حق واضح ہوجانے کے باوجود ایک گروہ نے صرف اپنے مادی منافع کی خاطر سرِتسلیم خم نہیں کیا لہٰذا محلِ بحث آیات میں ایسے دنیا پرست افراد کے انجام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے ”جس کا مقصد صرف دنیاوی زندگی کی رنگینیاں اور اس کی زنیت ہو وہ اس جہان میں اپنے اعمال کا نتیجہ پالے گا بغیر اس کے کہ کوئی چیز اس میں کم ہے“( مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْحَیَاةَ الدُّنْیَا وَزِینَتَهَا نُوَفِّ إِلَیْهِمْ اٴَعْمَالَهُمْ فِیهَا وَهُمْ فِیهَا لَایُبْخَسُونَ ) ۔

”بخس“لغت میں حق کے نقصان کے معنی میں آیا ہے اور ”( وَهُمْ فِیهَا لَایُبْخَسُونَ ) “ اس طرح اشارہ ہے کہ وہ اپنے اعمال کا نتیجہ بغیر تھوڑے سے بھی نقصان کے پالیں گے ۔

یہ آیت خداتعالیٰ کی ایک دائمی سنّت کو بیان کررہی ہے اور وہ یہ کہ مثبت اعمال اور مؤثر نتائج ختم نہیں ہوتے، فرق یہ ہے کہ اگر اعمال کا اصلی مقصد اس جہاں کی مادّی زندگی کا حصول ہے تو نتیجہ بھی مادّی ہی ہوگا لیکن اگر مقصد خدا اور اس کی رضا کا حصول ہو تو وہ اس جہان میں بھی ثمر بخش ہوں گے اور دوسرے جہاں میں بھی پُربار نتائج پیدا کریں گے ۔

درحقیقت پہلی قسم کے اعمال ایسی غیر مستقل اور کم عمر عمارت کی طرح ہیں جسے وقتی ضرورت کے لئے بنایا جاتا ہے اور اس سے استفادہ کیا جاتا ہے اور اس کے بعد وہ ویران ہوجاتی ہے لیکن دوسری قسم کی مثال ایسی محکم اور مضبوط بنیادوں والی عمارت کی سی ہے جو صدیوں تک برقرار رہتی ہے اور قالِ استفادہ ہوتی ہے، اس امر کا نمونہ آج کل ہم اپنے گردو پیش دیکھتے ہیں ، مغربی دنیا نے اپنی مسلسل اور منظم کوشش سے بہت سے علوم کے اسرار معلوم کئے ہیں نیز مغربی دنیا نے مادہ کی مختلف طاقتوں پر تصرف حاصل کرلیا ہے اور مسلسل کوشش اور مشکلات کے مقابلے میں استقامت، اتحاد اور ہم بستگی ہے انھوں نے بہت سی نعمات حاصل ہیں ۔

اس بناء پر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنے اعمال اور کوشش کے نتائج حاصل کریں گے اور درخشاں اور واضح کامیابیوں سے ہمکنار ہوں گے لیکن دوسری طرف سے چونکہ ان کا مقصد صرف دنیاوی زندگی ہے لہٰذا ان اعمال کا طبعی وفطری اثر سوائے ان کے لئے مادی وسائل فراہم ہونے کے اور کوئی نہیں ہوگیا یہاں تک کہ ان کے انسانی اور بڑے کام مثلاً ہسپتال بنانا، شفاخانے قائم کرنا، علمی مراکز قائم کرنا، غریب اقوام کی مدد کرنا اور اس قسم کے دیگر فلاحی کام، اگر ان کے استعمار واستثمار کی قیمت نہ ہو تو چونکہ بہرحال مادّی ہدف کے تحت اور مادّی منافع کے لئے ہوتے ہیں لہٰذا ان کا صرف مادی اثر ہوگا ، اسی طرح وہ لوگ جو ریاکارانہ کام کرتے ہیں ان کے علاوہ جو انسانی حوالوں سے ہوتے ہیں ان کے صرف مادی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔

اسی لئے بعد والی آیت میں صراحت سے فرمایا گیا ہے: ایسے افراد کے لئے آخرت میں (جہنم کی) آگ کے سوا کوئی فائدہ نہیں ہے( اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ لَیْسَ لَهُمْ فِی الْآخِرَةِ إِلاَّ النَّارُ ) ۔ ”اور جو کچھ انھوں نے اس جہان میں انجام دیا ہے وہ دوسرے جہاں میں محو ونابود ہوجائے گا اور اس کے بدلے میں انھیں کوئی جزا نہیں ملے گی“( وَحَبِطَ مَا صَنَعُوا فِیهَا ) ۔ ”اور وہ تمام اعمال جو انھوں نے غیر خدا کے لئے انجام دیئے ہیں باطل ونابود ہوجائیں گے( وَبَاطِلٌ مَا کَانُوا یَعْمَلُونَ ) ۔

”حبط“ (بروزن ”وقت“) کا معنی در اصل ایسا حیوان ہے جو نامناسب گھاس پھوس میں اتنا زیادہ کھالے کہ اس کے پیٹ ہَوا بھرجائے اور اس کا اوجھڑی بیمار اور ضائع ہوجائے، اس عالم میں یہ جانور ظاہراً تو چاق وچوبند نظر آتا ہے حالانکہ باطناً مریض ہوتات ہے ۔

یہ ایسے اعمال کے لئے نہایت موثر اور عمدہ تعبیر ہے جو ظاہراً مفید اور نسانی ہیں لیکن باطن میں آلودہ اور پست نیّت سے انجام دیئے گئے ہیں ۔

۱ ۔ ایک اشکال کی وضاحت:

ہوسکتا ہے پہلی نظر میں یوں معلوم ہو کہ مندرجہ بالا دوآیتیں آپس میں تعارض رکھتی ہیں اس بناء پر کہ پہلی آیت کہتی ہے : ”وہ اشخاص جن کا ہدف فقط اس دنیا کی زندگی ہے ان کے اعمال کا نتیجہ ہم انھیں بے کم وکاست دیں گے“ لیکن دوسری آیت کہتی ہے: ان کے اعمال حبط اور باطل ہوجائیں گے ۔

البتہ اس طرف توجہ کرتے ہوئے کہ ایک آیت دنیاوی زندگی کے بارے میں اور دوسری اشارہ دارِ آخرت کی طرف ہے ، اس اشکال کی وضاحت ہوجاتی ہے، یعنی وہ اپنے اعمال کے نتائج اسی دنیا میں پورے طور پر حاصل کرلیں گے ، لیکن اس کا کیا فائدہ کہ یہ اعمال جو اگرچہ نہایت زیادہ تھے مگر آخرت کے لئے بے اثر ہیں کیونکہ ان کا ہدف پاک اور نیّت خالص نہیں تھی، ان کا ہدف مادی مفادات کے سوا اور کچھ نہ تھا کہ جس تک وہ پہنچ گئے ۔

۲ ۔ دنیا کی زینتیں

حیاتِ دنیا کے بعد لفظ ”زینت“ دنسا پرستی اور دنیا پرستی کی زرق وبرق کی مذمت کے لئے ہے نہ کہ اس کا مقصد دنیا کی نعمتوں سے مناسب اور معتدل فائدہ اٹھانے کی نفی کرنا ہے ۔

لفظ ”زینت“ جو یہاں سربستہ طور پر آیا ہے دوسری آیات میں خوبصورت عورتوں ، عظیم خزانوں اور قیمتی سورایوں ، رزعی زمینوں اور فراوان دولت کے معنی میں استعمال ہواہے، مثلاً:

( زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِینَ وَالْقَنَاطِیرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّهَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاٴَنْعَامِ وَالْحَرْثِ )

مادّی چیزوں میں سے عورتیں ، اولاد اور مال جو سونے اور چاندی کے ڈھیروں پر مشتمل ہے، منتخب گھوڑے، جانور اور زراعت لوگوں کی نظر میں پسندیدہ بنادیئے گئے ہیں ۔

۳ ۔ ”حبط“ کے بعد لفظ ”باطل“

لفظ ”حبط“ کے بعد لفظ ”باطل“ ہوسکتا ہے اس طرف اشارہ ہو کہ ان کے اعمال کا ایک ظاہر ہے اور باطن کوئی نہیں ہے، اسی بناء پر ان کا نتیجہ کچھ بھی نہیں ، اس کے بعد مزید کہتا ہے کہ ان کے اعمال اصولی طور پر ابتداء ہی سے باطل اور بے خاصیّت ہیں ، زیادہ سے زیادہ یہ کہ بہت سی اشیاء کے حقائق چونکہ اس دنیا میں پہچانے نہیں جاتے اور دوسرے جہان میں جس میں تمام اسرار کھل جائیں گے، ان کی حقیقت ظاہر ہوجائے گی، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے اعمال شروع ہی سے کچھ نہ تھے ۔

۴ ۔ ایک حدیث:

مندرجہ بالا آیات کی تفسیر میں کتاب ”درّالمنثور“ میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے جس سے ان کا مفہوم واضح ہوتا ہے، حدیث یہ ہے:

قال رسول اللّٰه صل اللّٰه علیه و آله : اذا کان یوم القیامة صارت امت ثلاث فرق : فرقة یعبدون اللّٰه خالصاً و فرقة یعبدون اللّٰه ریاءً و فرق یعبدون اللّٰه یعیون به دنیا.

فیقول للذی کان یعبد اللّٰه للدنیا: بعزتی و جلالی ما اردت بعبادتی ؟ فیقول الدنیا، فیقول لاجرم لا ینفعک ما جمعت و لا ترجع الیه انطلقوا به الی النار.

و یقول للذی یعبد اللّٰه ریاء: بعزتی و جلالی ما اردت بعبادتی ؟ قال الریاء، فیقول انما کانت عبادتک التی کنت ترائی بها لا یصعد الی منها شییء و لا ینفعک الیوم ، انطلقوا به الی النار.

و یقول للذی کان یعبد اللّٰه خالصاً: بعزتی و جلالی ما اردت بعبادتی ؟ فیقول بعزتک و جلالک لانت اعلم منی کنت اعبدک لوجهک و لدارک قال : صدق عبدی انطلقوا به الی الجنة :

رسول الله نے فرمایا: جب قیامت کا دن ہو، میرے پیروکار تین گروہوں میں تقسیم ہوجائیں :

ایک وہ گروہ جو خدا کی خلوص کے ساتھ عبادت کرتا تھا، دوسرا گروہ جو دکھاوے کے لئے عبادت کرتا تھا اور تیسرا وہ گروہ جو دنیا تک رسائی کے لئے عبادت کرتا تھا ۔

اس وقت خدا اس گروہ کو جو دنیا کی خاطر اس کی عبادت کرتا تھا کہے گا: میری عزت وجلال کی قسم بتاو میری عبادت میں تمھارا کیا مقصد تھا، وہ جواب میں کہے گا: دنیا ، خدافرمائے گا: اس بناء پر جو کچھ تم نے جمع کیا ہے وہ تمھیں کوئی فائدہ نہیں دے گا اور تم اس کی طرف پلٹ کر نہیں جاوگے، پھر فرمائے گا: اسے آتش جہنم کی طرف لے جاو ۔

اور جو شخص ریاء کے طور پر خدا کی عبادت کرتا تھا الله اس سے کہے گا: میری عزت وجلال کی قسم بتاو میری عبادت سے تمھارا کیا مقصد تھا؟ وہ جواب دے گا: دکھاوا ۔ تو الله فرمائے گا: وہ عبادت جو تم نے ریاء کے طور پر انجام دی تھی اس میں کچھ بھی میرے پاس نہیں پہنچا تھا اور آج تمھیں اس کا کوئی فائدہ نہیں دوں گا، پھر حکم دے گا: اسے آتش جہنم کی طرف لے جاو۔

اور وہ شخص جو خدا کی عبادت خلوص سے کرتا تھا، اس سے کہا جائے گا: میری عزت وجلال کی قسم، بتاو تم عبادت کس مقصد سے کرتے تھے، وہ کہے تیری عزت وجلال کی قسم تو اس بات سے زیادہ باخبر ہے کہ مَیں نے تیری عبادت صرف تیرے لئے اور دارِ آخرت کے لئے کی تھی، خدا فرمائے گا: میرا بندہ سچ کہتا ہے اسے جنّت لے جاو۔(۲)

____________________

۱۔ مزید وضاحت کے لئے آل عمران کی آیت ۱۴ کی تفسیر ملاحظہ فرمائیں (تفسیر نمونہ جلد دوم صفحہ۲۶۶ ، اردو ترجمہ)

۲۔ تفسیر المیزان: ج۱، ص۱۸۶ (بحوالہ تفسیر.

آیت ۷

۱۷( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَیَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ کِتَابُ مُوسیٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً اٴُوْلٰئِکَ یُؤْمِنُونَ بِهِ وَمَنْ یَکْفُرْ بِهِ مِنَ الْاٴَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْهُ إِنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُونَ )

ترجمہ

۱۷ ۔ کیاوہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہے اس کے پیچھے اس کی طرف شاہد ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب کہ جو پیشوا اور ح۔رحمت تھی (اس پر گواہی دیتی ہے، اس شخص کی طرح ہے جو ایسا نہ ہو) وہ (حق طلب اور حقیقت کی متلاشی) اس پر (جو یہ خصوصیات رکھتا ہے) ایمان لاتے ہیں اور مختلف گروہوں میں سے جو شخص اس کا منکر ہو آگ اس کی وعدہ گاہ ہے، لہٰذا اس میں شک نہ کرو کہ وہ تیرے پروردگار کی طرف سے حق ہے لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے ۔

تفسیر

زیرِ نظر آیت کی تفسیر کے بارے میں مفسّرین کے درمیان بہت اختلاف ہے، آیت کے الفاظ کی جزئیات، ضمائر، موصول اور اسم اشارہ کے بارے میں مختلف نظریے ہیں ، اس تفسیر میں ان سب کا ذکر ہماری روش کے خلاف ہے، دوتفاسیر جو زیادہ واضح معلوم ہوتی ہیں اہمیت ترتیبی کے اعتبار سے یہاں ذکر کی جاتی ہیں ۔

۱ ۔ آیت کی ابتداء میں فرمایا گیا ہے: کیا وہ شخص جو اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہے اور اس کے پیچھے خدا کی طرف سے شاہد آیا ہے اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب (توریت) پیشوا، رحمت اور ان کی عظمت کو واضح کرنے والی کتاب کی حیثیت سے آئی ہے، اس شخص کی طرح ہے جو ان صفات، نشانیوں اور واضح دلائل کا حامل نہیں ہے( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَیَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ وَمِنْ قَبْلِهِ کِتَابُ مُوسیٰ إِمَامًا وَرَحْمَةً ) ۔

یہ شخص پیغمبر اکرم ہیں ، ان کی واضح دلیل قرآن مجید ہے، ان کی نبوت کی صداقت کے شاہد علیعليه‌السلام جیسے مومن صادق ہیں اور قبل ازیں ان کی نشانیاں اور صفات تورات میں آچکی ہیں ، اسی طرح تین واضح طریقوں سے آپ کی دعوت کی حقانیت ثابت ہوگئی ہے ۔

پہلا راستہ قرآن ہے، جو ان کے ہاتھ میں ایک واضح دلیل ہے ۔

دوسرا راستہ گزشتہ آسمانی کتب ہیں ، جن میں آنحضرت کی نشانیاں تفصیل سے بیان کی گئی ہیں اور رسول الله کے زمانے کے ان کتب کے پیروکار انھیں اچھی طرح سے پہچانتے ہیں اور اسی بناء پر ان کے انتظار میں تھے ۔

تیسرا راستہ آپ کے فدا کار پیروکار اور مخلص مومنین ہیں کہ جو آپ کی دعوت اور گفتار کی صداقت کو واضح کرتے تھے کیونکہ کسی مکتب کی حقانیت کی ایک نشانی اس مکتب کے پیروکاروں سے پہچانا جاتا ہے ۔

کیا ان زندہ دلائل وبراہین کے باوجود انھیں دوسرے مدعیانِ نبوت پر قیاس کیا جاسکتا ہے یا ان کی دعوت کی صداقت میں شک وشبہ کیا جاسکتا ہے ۔(۱)

اس گفتگو کے بعد قرآن متلاشیانِ حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھیں ضمنی طور پر ایمان کی دعوت دیتا ہے: ایسے پیغمبر پر کہ جو روشن دلیل رکھتا ہے ایمان لائیں گے( اٴُوْلٰئِکَ یُؤْمِنُونَ ) ۔

لفظ”( اٴُوْلٰئِکَ ) “ میں جن افراد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اگرچہ ان کا ذکر نہیں ہے لیکن اگر گزشتہ آیات کی طرف توجہ کرتے ہوئے اس آیت میں ان کی موجودگی کا احساس ہوتا ہے اور ان کی طرف اشارے کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔

اس کے بعد منکرین کی گہانی یوں بیان کی گئی ہے: مختلف گروہوں میں سے جو کوئی اس سے کفر کرے گا تو اس کی وعدہ گاہ جہنم ہے( بِهِ وَمَنْ یَکْفُرْ بِهِ مِنَ الْاٴَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ ) ۔

پورا جملہ مبتداء، اس کی خبر محذوف ہے اور اس کی تقدیر اس طرح ہوگی:

کمن لیس کذلک “ یا ”کمن یرید الحیاة الدنیا

آیت کے آخر میں قرآن کے دیگر بہت سے مواقع کی طرف سیرتِ قرآن کے روئے سخن پیغمبر کی طرف کرتے ہوئے تمام لوگوں کے لئے ایک عمومی درس بیان کیا گیا ہے ارشاد ہوتا ہے: اب جبکہ ایسا ہے اور تیری دعوت کی صداقت کے لئے یہ تمام شاہد موجود ہیں جو کچھ تجھ پر نازل ہوا ہے اس کے بارے میں ہرگز شک وشبہ کو راہ نہ دے( فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ مِنْهُ ) ۔ ”کیونکہ یہ تیرے پروردگار کی طرف سے کلامِ حق ہے“ (ا( ِٕنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّکَ ) ۔ ”لیکن بہت سے لوگ جہالت، تعصّب اور خود پسندی کی وجہ سے ایمان نہیں لاتے( وَلَکِنَّ اٴَکْثَرَ النَّاسِ لَایُؤْمِنُونَ ) ۔

۲ ۔ دوسری تفسیر جو آیت کے لئے ذکر ہوئی ہے یہ ہے کہ اصل مقصد سچّے مومنین کی حالت بیان کرنا ہے کہ وہ ان واضح دلائل وشواہد اور گزشتہ کتب میں موحود شہادتوں کی بنیاد پر دعوتِ پیغمبر کی صداقت پر ایمان لائے ہیں ، لہٰذا ”من کان علیٰ بیّنة من ربّہ“ کے جملے سے مراد وہ تمام لوگ ہیں کہ جو کھلی آنکھوں سے اور اطمینان بخش دلائل کے ذریعے اور اس کے لانے والے پیروی کررہے ہیں اور اس سے مراد خود پیغمبر اکرم نہیں ہیں ۔

یہ تفسیر گزشتہ تفسیر پر یہ ترجیح رکھتی ہے کہ مبتداء کی خبر آیت میں صراحت سے آئی ہے، اس میں کوئی محذوف نہیں اور ”اولئک“ کا مشارالیہ خود آیت میں مذکور ہے، نیز آیت کا پہلا حصّہ کہ جو ”( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ ) “ شروع ہوتا ہے ”اٴُوْلٰئِکَ یُؤْمِنُونَ “تک ایک مکمل جملہ ہے اور اس میں کوئی حذف وتقدیر نہیں ہے ۔

بلاشبہ آیت کی دوسری تعبیریں اس تفسیر سے مناسبت نہیں رکھتیں ، اس لئے ہم نے اس تفسیر کو دوسرے مرحلے میں قرار دیا ہے (غور کیجئے گا) ۔

بہرحال آیت اسلام اور سچّے مسلمانوں کے امتیازات اور اس مکتب کے انتخاب میں محکم دلائل پر ان کے اعتماد کرنے کی طرف اشارہ ہے جبکہ دوسری طرف سے آیت متکبر منکرین کا انجامِ بد بیان کررہی ہے ۔

۱ ۔ آیت میں ”شاھد“ سے مراد

بعض مفسّرین نے کہا ہے کہ زیرِ بحث آیت میں ”شاھد“ سے مراد وحیِ خدا کے قاصد جبرئیلعليه‌السلام ہیں ، بعض نے اس سے مراد پیغمبر اسلام لئے ہیں ، بعض دوسرے مفسّرین نے اس کی تفسیر زبانِ پیغمبر کی ہے (جبکہ ”یتلوہ“ کو ”تلاوت“ کے مادہ سے ’قرائت“کے معنی میں لیا ہے، نہ کہ پیچھے آنے والے کے معنی میں ) لیکن بہت سے بزرگ مفسرین نے اسے حضرت علی علیہ السلام سے تعبیر کیا ہے، اس ضمن میں آئمہ معصومینعليه‌السلام سے بھی کئی روایات سے اس تفسیر کی تاکید ہوئی ہے کہ ”شاھد“ سے مراد حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ہیں ، جو پیغمبر اسلام اور قرآن پر ایمان لانے والے پہلے شخص ہیں ، جو تمام مراحل میں رسول الله کے ساتھ رہے اور ایک لمحہ کے لئے فداکاری سے دریغ نہیں کیا اور آخری دم تک ان کی حمایت میں کوشاں رہے ۔(۲)

ایک حدیث میں ہے حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا: قریش کے مشہور افراد کے میں ایک یا ایک سے زیادہ آیت نازل ہوئیں ۔

کسی نے عرض کیا: اے امیرالمومنین(علیه السلام)! آپعليه‌السلام کے بارے میں کونسی آیت نازل ہوئی؟

امامعليه‌السلام نے فرمایا: کیا تُونے سورہ ہود کی یہ آیت نہیں پڑھی ”( اٴَفَمَنْ کَانَ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّهِ وَیَتْلُوهُ شَاهِدٌ مِنْهُ ) “ ، رسول الله خدائی ”بیّنہ“ اور ”شاہد“ مَیں تھا ۔(۳)

سورہ رعد کی آخری آیت میں بھی ایک تعبیر دکھائی دیتی ہے کہ جو اس معنی کی تاکید کرتی ہے ۔وہا ں فرمایا گیا ہے:

( وَیَقُولُ الَّذِینَ کَفَرُوا لَسْتَ مُرْسَلًا قُلْ کَفیٰ بِاللهِ شَهِیدًا بَیْنِی وَبَیْنَکُمْ وَمَنْ عِنْدَهُ عِلْمُ الْکِتَابِ )

کفار کہتے ہیں کہ تُو پیغمبر نہیں ہے، کہہ دو یہی کافی ہے کہ خدا میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے اور وہ کہ جس کے پاس علمِ کتاب (قرآن) ہے ۔

سُنّی اور شیعہ طرق کی بہت سی روایات میں ہے کہ ”ومن عندہ علم الکتاب“ سے مراد حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بھی اشارہ کیا ہے پھر اس نکتے کی طرف یاد دہانی ضروری ہے کہ کسی مکتب کی حقانیت کی پہچان کا ایک بہترین طریقہ اس کے پیروکار، مددکاروں اور حامیوں کی کیفیت کا مطالعہہے، مشہور ضرب المثل ہے کہ امامزادے کو اس کے زائرین سے پہچاننا چاہیے، جب دیکھیں کہ پاکباز، باشعور، صاحب ایمان، مخلص اور باتقویٰ افراد کسی رہبر اور مکتب کے گرد جمع ہیں تو اچھی طرح پہچانا جاسکتا ہے کہ یہ مکتب اور یہ رہبر صداقت کی حدّبلند پر ہے، لیکن اگر دیکھیں کہ موقع پرست، دھوکے باز، بے ایمان اور بے تقویٰ افراد کسی مکتب یا رہبر کے گرد جمع ہیں تو بہت کم یقین کیا جاسکتا ہے کہ یہ مکتب اور یہ رہبر حق پر ہے ۔

اس مطلب کی طرف اشارہ بھی ہم سمجھتے ہیں کہ لفظ ”شاہد“ سے حضرت علی علیہ السلام مراد لینا اس حقیقت کے منافی نہیں کہ ابوذر، سلمان، عماریاسر جیسے تمام افراد اس کے مفہوم میں شامل ہیں کیونکہ ایسی تفاسیر اکمل وبرتر کی طرف اشارہ ہوتی ہیں یعنی اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے ارائس ورئیس یہ فرد اکمل ہے، اس امر کی شاہد وہ روایت ہے جو امام محمد باقر علیہ السلام سے منقول ہے، آپعليه‌السلام نے فرمایا:

”شاہد سے مراد امیرالمومیننعليه‌السلام ہیں اور پھر یکے بعد دیگرے ان کے جانشین“۔(۴)

اس حدیث میں اگرچہ معصوم ہستیوں کا ذکر ہے لیکن یہ امر خود اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ روایات جن میں ”شاہد“ کو منحصراً حضرت علیعليه‌السلام سے تفسیر کیا گیا ہے ان سے مراد فقط آپعليه‌السلام نہیں بلکہ مراد افضل وبرتر کاا مصداق ہے ۔

____________________

۱۔ اس تفسیر کے مطابق ”مَن“ سے مراد پیغمبر اکرم ہیں ، ”بیّنة“ سے مراد قرآن ہے اور ”شاھد“ سے کہ جو جنس کے معنی میں ہے سے مراد سچّے مومنین ہیں جن کے راس ورئیس حضرت علی علیہ السلام ہیں ، نیز ”منہ“ کی ضمیر خداتعالیٰ کی طرف اور ”قبلہ“ کی ضمیر قرآن یا پیغمبر اسلام کی طرف لوٹتی ہے ۔

۲۔ برہان، نور الثقلین، مجمع البیان اور دیگر تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔۳۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۱۳.۴۔ تفسیر برہان، ج۲، ص۲۱۳.

۲ ۔ صرف تورات کی طرف اشارہ کیوں ؟

جیسا کہ ہم نے کہا ہے کہ پیغمبر کی حقانیت کی ایک دلیل زیرِ بحث آیت میں گزشتہ کتب بیان کی گئی ہیں ، لیکن تذکرہ صرف حضرت موسیٰ کی کتاب کا ہُوا ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ پیغمبر اسلام کے ظہور کی بشارتیں انجیل میں بھی ہیں ۔

شاید یہ اس بناء پر ہو کہ نزولِ قرآن اور ظہور اسلام کے علاقے یعنی مکّہ اور مدینہ میں زیادہ تر اہلِ کتاب میں سے یہودیوں کے افکار ونظریات پھیلے ہوئے تھے اور عیسائی نسبتاً دُور کے علاقوں میں رہتے تھے مثلاً یمن، شامات اور نجران (جو شمالی یمن کے پہاڑی علاقوں میں صنعاء سے دس منزل کے فاصلے پر واقع تھا) ۔

یا ہوسکتا ہے یہ اس بناء پر ہو کہ اوصاف پیغمبر کا تذکرہ تورات میں زیادہ جامع اور زیادہ وسیع طور پر آیا تھا ۔

بہرحال تورات کے بارے میں ”امام“ کی تعبیر ہوسکتا ہے اس بناء پر ہو کہ شریعتِ موسیٰعليه‌السلام کے احکام پورے طور پر اس میں موجود تھے یہاں تک کہ عیسائی بھی اپنی بہت سی تعلیمات تورات سے لیتے ہیں ۔

۳ ۔ ”( فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ ) “میں مخاطب:

( فَلَاتَکُنْ فِی مِرْیَةٍ ) “میں مخاطب کون ہے، اس بارے میں دو احتمال ذکر کئے گئے ہیں :

پہلا احتمال یہ کہ پیغمبر ارکم ہیں یعنی قرآن یا آئین اسلام کی حقانیت میں ذرہ بھر شک کوراہ نہ دیجئے ۔ البتہ اس حکم کی رُو سے کہ وہ وی کو بطورِ شہود دیکھتے تھے اور خدا کی طرف سے نزولِ قرآن ان کے لئے محسوس طور پر بلکہ حِس سے بھی بالا تھا، آپ کو اس دعوت کی حقانیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہ تھا لیکن یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ قرآن میں خطاب تو پیغمبر اکرم سے ہے جبکہ مراد تمام لوگ ہیں اور عربوں کی مشہور تعبیر کے مطابق ایسے خطاب ” ”ایّاک اعنی واسمعی یا جارة“ (میری مراد تو تم ہو اور پڑوسن تم بھی سُن لو)کی طرح کے ہیں ۔

فارسی میں کہتے ہیں :

در بہ توگویم دیوار تو گوش کن یا تو بشنو

اے دروازہ! مَیں تجھے کہہ رہا ہوں ، دیوار! تُو سن لے ۔

یہ فنونِ لاغت میں سے ہے کہ کئی مواقع پر تاکید اور اہمیّت کے لئے یا دیگر مقاصد کے لئے حقیقی مخاطب کے بجائے دوسرے شخص سے خطاب کیا جاتا ہے ۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ ہر مکلف عاقل مخاطب ہے یعنی ”فلا تک ایھا المکلف العاقل فی مریة“ یعنی اے عاقل ومکلف انسان! ان واضح دلائل کے ہوتے ہوئے اس قرآن کی حقانیت میں شک نہ کر“ اور یہ احتمال اس بناء پر ہے کہ ”من کان علی بیّنة من ربّہ“ سے مراد پیغمبر نہ ہوں بلکہ تمام سچّے مومنین ہوں (غور کیجئے گا)

لیکن بہرحال پہلی تفسیر آیت سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے ۔

آیات ۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

۱۸( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا اٴُوْلٰئِکَ یُعْرَضُونَ عَلیٰ رَبِّهِمْ وَیَقُولُ الْاٴَشْهَادُ هٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلیٰ رَبِّهِمْ اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ )

۱۹( الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ وَیَبْغُونَهَا عِوَجًا وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ کَافِرُونَ )

۲۰( اٴُوْلٰئِکَ لَمْ یَکُونُوا مُعْجِزِینَ فِی الْاٴَرْضِ وَمَا کَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ یُضَاعَفُ لَهُمَ الْعَذَابُ مَا کَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوا یُبْصِرُونَ )

۲۱( اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ )

۲۲( لَاجَرَمَ اٴَنَّهُمْ فِی الْآخِرَةِ هُمَ الْاٴَخْسَرُونَ )

ترجمہ

۱۸ ۔ ان لوگوں سے بڑھ کر کون ظالم ہے جو خدا پر افتراء باندھتے ہیں وہ (روز قیامت) اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہوں گے اور شاہد (انبیاء اور فرشتے) کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ باندھا تھا، خدا کی لعنت ہو ظالموں پر۔

۱۹ ۔ وہی لوگوں کو راہِ خدا سے روکتے تھے اور راہِ حق میں کجی دکھانا چاہتے تھے اور آخرت کا کفر کرتے تھے ۔

۲۰ ۔وہ زمین میں کبھی بھی فرار کی طاقت نہیں رکھتے اور خدا کے سوا کوئی دوست اور سرپرست نہیں پائیں گے ان کے لئے کئی گُنا عذاب الٰہی ہوگا (کیونکہ وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہی کی طرف کھینچتے تھے) اور کبھی کبھی (حق بات) سننے کی طاقت نہیں رکھتے تھے اور (حقائق کو) نہیں دیکھتے تھے ۔

۲۱ ۔ وہ ایسے لوگ جو اپنا سرمایہ ہستی گنوا بیٹھے ہیں اور جھوٹے معبود ان کی نظر سے کھوگئے ہیں ۔

۲۲ ۔ (اسی بناء پر)یقیناً وہ آخرت میں سب سے زیادہ زیاں کار ہیں ۔