تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33636
ڈاؤنلوڈ: 3543


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33636 / ڈاؤنلوڈ: 3543
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

سب سے زیادہ زیاں کار

گزشتہ آیت قرآن اور رسالتِ پیغمبر کے بارے میں گفتگو کررہی تھی، اس کے بعد زیرِ بحث آیات کی نشانیوں اور ان کے انجامِ کار کے متعلق تفصیلی بحث کررہی ہیں ، پہلی آیت میں فرمایا گیا ہے: اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہوسکتا ہے کہ جو خدا پر جھوٹ باندھے( وَمَنْ اٴَظْلَمُ مِمَّنْ افْتَریٰ عَلَی اللهِ کَذِبًا ) ۔

یعنی سچّے پیغمبر کی دعوت کی نفی کلماتِ الٰہی کی نفی ہے اور اس کی طرف جھوٹ کی نسبت دیتا ہے ۔ اصولی طور پر تکذیبِ پیغمبر تکذیبِ خدا ہے، اس شخص پر جھوٹ باندھنا کہ جو صرف خدا کی طرف سے بات کرتاہے خدا کی ذاتِ پاک پر جھوٹ باندھنا شمار ہوگا ۔(۱)

جیسا کہ ہم نے متعدد بار کہا ہے قرآن مجید کی مختلف آیات میں لوگوں کو سب سے بڑھ کر ظالم (”اظلم“) قرار دیا گیا ہے حالانکہ ظاہراً ان کے کام آپس میں مختلف ہیں اور ممکن نہیں ہے کہ مختلف کام کرنے والے مختلف گروہوں میں سے ہر ایک کو سب سے بڑھ کر ظالم شمار کیا جائے بلکہ چاہیے کہ ایگ گروہ ستمگر یا ستمگر تر ہوا اور دوسرا ستمگر ترین ہو لیکن جیسا کہ اس سوال کے جواب میں ہم نے بارہا کہا ہے کہ ان تمام اعمال کی بنیاد ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے شرک اور آیات الٰہی کی تکذیب جو کہ سب سے بڑی تہمت ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے تفسیر نمونہ جلد پنجم صفحہ ۱۶۰ ( اردو ترجمہ) کی طرف رجوع فرمائیں ۔

اس کے بعد قیامت ان کے بُرے مستقبل کو اس طرح بیا ن کیا گیا ہے: اس روز وہ بارگاہِ پروردگار میں اپنے تمام اعمال اور کردار کے ساتھ پیش ہوں گے اور اس کی عدالت میں حاضر ہوں گے( اٴُوْلٰئِکَ یُعْرَضُونَ عَلیٰ رَبِّهِمْ ) ۔

”اس وقت اعمال کے شاہد گواہی دیں اور کہیں گے کہ یہ وہی لوگ ہیں جنھوں نے اپنے عظیم مہربان اور ولی نعمت پروردگار جھوٹ باندھتا تھا( وَیَقُولُ الْاٴَشْهَادُ هٰؤُلَاءِ الَّذِینَ کَذَبُوا عَلیٰ رَبِّهِمْ ) ۔

اس کے بعد کھلے بندوں کہیں گے: ظالموں پر خدا کی لعنت ہو( اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ ) ۔

اس بارے میں کہ شاہد خدائی فرشتے ہیں کہ یا اعمال لکھنے پر مامور مَلک ہیں یا انبیاء ہیں ، مفسّرین نے مختلف احتمالات ذکر کئے ہیں لیکن اس طرف توجہ کرتے ہوئے قرآن کی دوسری آیات میں انبیاء الٰہی کا تعارف اعمال کے شاہدین کے طور پر کروایا گیا ہے ظاہر ہوتا ہے کہ یہاں بھی وہی مراد ہیں یا اس سے وسیع تر مفہوم مراد ہے جس میں دیگر گواہ بھی شامل ہیں ۔

سورہ نساء کی آیت ۴۱ میں ہے:( فَکَیْفَ إِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اٴُمَّةٍ بِشَهِیدٍ وَجِئْنَا بِکَ عَلیٰ هٰؤُلَاءِ شَهِیدًا )

ان کا کیا حال ہوگا جب اس دن ہم ہر امّت کے لئے ان کے اعمال کے گواہ بلائیں گے اور تجھے ان پر گواہ قرار دیں گے ۔

حضرت مسیحعليه‌السلام کے بارے میں سورہ مائدہ کی آیت ۱۱۷ میں ہے:

( وَکُنتُ عَلَیْهِمْ شَهِیدًا مَا دُمْتُ فِیهِمْ )

”مَیں جب تک اپنے پیروکاروں کے درمیان تھا ان کے اعمال پر گواہ تھا ۔

نیز اس سلسلے میں کہ ”( اٴَلَالَعْنَةُ اللهِ عَلَی الظَّالِمِینَ ) “ کہنے والا خدا ہے یا گواہ ہیں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے لیکن ظاہر آیت یہ ہے کہ بات گواہوں کی گفتگو کے تسلسل میں ہے ۔

بعد والی آیت ظالموں کی صفات تین ظالموں کی صفات تین جملوں میں بیان کی گئی ہیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ ایسے افراد ہیں جو لوگوں کو مختلف ذریعوں سے راہِ خدا سے روکتے ہیں( الَّذِینَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ ) ۔ ایسا وہ کبھی شک وشبہ پیدا کرکے کرتے ہیں ، کبھی دھمکی سے کام لیتے ہیں اور کبھی لالچ دے کر مقصد حاصل کرتے ہیں اور ان سب کا امور کا ہدف ایک ہی ہے اور وہ راہِ خدا سے روکنا ۔

دوسرا یہ کہ وہ خاص طور پر کوشش کرتے ہیں کہ خدا کی راہِ مستقیم کو ٹیڑھا کرکے دکھائیں (وَیَبْغُونَھَا عِوَجًا) ۔ یعنی طرح طرح کی تحریفیں کرے، کمی بیشی کرکے، تفسر بالرائے کرکے اور حقائق کو مخفی رکھ کر ایسا کرتے ہیں کہ یہ سیدھا راستہ اپنی اصلی صورت میں لوگوں کے سامنے نہ آئے تاکہ لوگ اس راستے پر نہ جاسکیں اور حق طلب افراد جادہ حقیقی کو نہ پہچان سکیں ۔(۲)

نیز یہ کہ وہ قیامت اور روزِ جزا پر ایمان نہیں رکھتے( وَهُمْ بِالْآخِرَةِ هُمْ کَافِرُونَ ) ۔ اور معاد پر ان کا ایمان نہ رکھنا ان کے سب انحرافات اور تباہ کاریوں کا سرچشمہ ہے کیونکہ موت کے بعد اس بڑی عدلات اور وسیع عالم پر ایمان لانے سے قلب وروح کی تربیت ہوتی ہے ۔

یہ بات جاذبِ توجہ ہے کہ یہ تمام امور ”ظلم“ کے مفہوم میں جمع ہیں کیونکہ اس لفظ کے وسیع مفہوم میں ہر قسم کا انحراف اور اشیاء، اعمال، ثفات اور عقائد کو ان کی حقیقی جگہ سے تبدیل کردینا شامل ہے ۔

لیکن بعد والی آیت میں ارشاد ہوتا ہے کہ ان سب چیزوں کے باوجود ”ایسا نہیں ہے کہ وہ روئے زمین پر خدا کی سزا اور عذاب سے فرار حاصل کرسکیں اور اس کی قدرت کی قلمرو سے نکل سکیں گے“( اٴُوْلٰئِکَ لَمْ یَکُونُوا مُعْجِزِینَ فِی الْاٴَرْضِ ) ۔

”اسی طرح وہ خدا کے علاوہ اپنے لئے کوئی حامی ومددگار نہیں پاسکتے“( وَمَا کَانَ لَهُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ) ۔

آخر میں ان کی سنگین سزا کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے: ان کا عذاب کئی گُنا ہوجائے گا (یُضَاعَفُ لَھُمَ الْعَذَابُ) ۔ کیونکہ وہ خود بھی گمراہ، گناہگار اور تباہکار تھے اور دوسرے کو بھی انہی راہوں کی طرف کھینچتے تھے، اس بناء پر وہ اپنے گناہ کا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھائیں گے اور دوسرں کے گناہوں کا بھی (جبکہ ان دوسرے گناہ کرنے والوں کی سزا میں بھی کمی نہیں ہوگی) ۔

اس مفہوم پر قرآن کی دوسری آیات شاہد ہیں ، مثلاً :( وَلَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَاَثْقَالاً مَعَ اَثْقَالِهِمْ )

روزِ قیامت وہ اپنے گناہوں کا بوجھ اور ان کے ساتھ دوسرے بوجھ اور گناہ اپنے دوش پر اٹھائیں گے ۔ (عنکبوت/ ۱۳)

نیز بہت سی روایا ت میں ہے کہ جو شخص کسی بُری سنت کی بنیاد رکھے گا اس بُری سنت پر عمل کرنے والے تمام لوگوں کا ”عذر“ اورگناہ اس کے کھاتے میں لکھا جائے اور اسی طرح جو شخص کسی اچھی نیت سنت کی بنیاد رکھے گا اس پر عمل کرنے والے لوگوں کی جزا کے برابر ثواب اس کے لئے لکھا جائے گا ۔

آیت کے آخر میں ان کی بدبختی کی اصل بنیاد کا ذکر یوں کیا گیا ہے: ان کے پاس سننے والا کان ہے نہ دیکھنے والی آنکھ( مَا کَانُوا یَسْتَطِیعُونَ السَّمْعَ وَمَا کَانُوا یُبْصِرُونَ ) ۔ در حقیقت جب یہ دونوں وسائل حقائق کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں تو وہ خود بھی گمراہی میں گرجاتے ہیں اور دوسروں کوبھی گمراہی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں کیونکہ کھلی آنکھ اور گوشِ شنوا کے بغیر حق وحقیقت کو نہیں سمجھا جاسکتا ۔

یہ امر توجہ طلب ہے کہ اس جملے میں ہے کہ وہ (حق بات) سننے کی طاقت نہیں رکھتے، یہ تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ان کے لئے حق باتوں کا سننا اس قدر بوجھل ہے کہ گویا وہ اسے سننے کی طاقت ہی نہیں رکھتے، یہ تعبیر بعینہ ایسے ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ عاشق اپنے معشوق کی برائی نہیں سن سکتا ۔

واضح ہے کہ حقائق فہمی کی اس طرح سے طاقت نہ ہونا، اس کی سخت ہٹ دھرمی اور حق دشمنی کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اب ان کی مسئولیت ختم ہوگئی ہے، اصطلاح میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے جس کے اسباب انھوں نے خود مہیّاکیے ہیں جبکہ و ہ طاقت رکھتے تھے کہ اس حالت کو اپنے سے دُور رکھیں کیونکہ سبب پر قدرت رکھنا مسبب پر قدرت رکھنے کے مترادف ہے ۔

بعد والی آیت میں ان کی غلط مساعی کو ایک ہی جملہ میں بیان کیا گیا ہے: یہ وہی لوگ ہیں جو اپنے وجود کا سرمایہ گنوا بیٹھے اور خسارے میں رہے( اٴُوْلٰئِکَ الَّذِینَ خَسِرُوا اٴَنفُسَهُمْ ) ۔ اور یہ عظیم ترین گھاٹا ہے جو انسان کو دامن گیر ہوسکتا ہے وہ اپنی ہستی ہی گنوا بیٹھے ۔

اس کے بعد قرآن مزید کہتا ہے: ”انھوں نے جھوٹے معبودوں سے دل لگالیا ہے ’لیکن آخر کا ریہ سب بناوٹی معبود گم ہوگئے اور ان کی نظر سے محو ہوگئے“( وَضَلَّ عَنْهُمْ مَا کَانُوا یَفْتَرُونَ )

زیر بحث آخری آیت میں ان کے انجام کے بارے میں یقینی اور آخری حکم کو قطعی صورت میں اس طرح سے بیان کیا گیا ہے: ناچار وہ آخرت کے گھر میں سب سے زیادہ نقصان میں ہوں گے( لَاجَرَمَ اٴَنَّهُمْ فِی الْآخِرَةِ هُمَ الْاٴَخْسَرُونَ ) ۔ کیونکہ وہ دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان سے بھی محروم ہوگئے ہیں ۔ اپنے انسانی وجود کا تمام سرمایہ گنوا بیٹھے ہیں اور اس حالت میں اپنا بارِ مسئولیت بھی اٹھائے ہوئے ہیں اور دوسروں کی ذمہ داری بھی اٹھائے ہوئے ہیں ۔

”جرم“ (بروزن ”حرم“) اصل میں درخت سے پھل چننے کے معنی میں ہے (جیسا کہ مفردات میں راغب نے ذکر کیا ہے) بعد ازاں یہ لفظ ہر قسم کے اکتساب اور تحصیل امر کے لئے استعمال ہونے لگا اور نامناسب کسب کا مفہوم پیدا ہوگیا، اسی لئے گناہ کو جرم کہا جاتا ہے لیکن جب یہ لفظ ”لا“ کے ساتھ کسی جملے کی ابتداء میں ”لاجرم“ کی صورت میں آئے تو پھر یہ معنی دیتا ہے کہ ”کوئی چیز اس امر کی نہیں روک سکتی“ اسی لئے ”لاجرم“ ناچار ”یقیناً“ اور ”مسلماً کے معنی میں استعمال ہوتا ہے (غور کیجئے گا) ۔

____________________

۱۔ یہ جو بعض مفسّرین نے احتمال ظاہر کیا ہے کہ اس جملے سے مراد اُن لوگوں کو جواب دینا ہے جو کہتے ہیں کہ پیغمبر الله تعالیٰ پر افتراء باندھتا ہے، بہت بعید ہے کیونکہ پہلے والے اور بعد کی آیات اس ترتیب سے مناسبت رکھتیں بلکہ مناسب یہی ہے کہ یہ کفار کی طرف اشارہ ہے ۔

۲۔ ”عوج“ کا معنی کجی اور ٹیڑھ پن ہے، اس سلسلے میں جلد۶ صفحہ۱۶۱ (اردو ترجمہ) پر ہم تشریح کرچکے ہیں ، ضمنی طور پر توجہ رہے کہ ”یبعغونھا“ کی ضمیر سبیل کی طرف لوٹتی ہے جو مؤنث مجازی ہے یا یہ طریقہ اور جادہ کے معنی میں ہے جو مؤنث لفظی ہیں سورہ یوسف کی آیت ۱۰۸ میں ہے:قُل هٰذِهِ سَبِیلِیْ اَدْعُو اِلَی اللهِ

آیات ۲۳،۲۴

۲۳( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَاٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّهِمْ اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ )

۲۴( مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْاٴَعْمَی وَالْاٴَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ هَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ )

ترجمہ

۲۳ ۔ وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجالائے اورجو خدا کے سامنے خاضع اور تسلیم تھے اصحابِ جنت ہیں اور وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ۔

۲۴ ۔ ان دو گروہوں (منکرین اور مومنین) کی حالت ”اندھوں اور بہروں “ اور ”دیکھنے اور سننے والوں “ کی سی ہے ۔ کیا یہ دونوں گروہ ایک جیسے ہوسکتے ہیں ، کیا تم فکر نہیں کرتے ہو۔

تفسیر

گزشتہ آیات میں وحی الٰہی کے ایک گروہ کی حالت بیان کی گئی تھی، یہ دو آیات ان کے مقابل سچّے مومنین کی حالت بیان کررہی ہیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال انجام دیئے اور خدا کے سامنے خاضع اور تسلیم رہے اور اس کے عدول پر مطمئن رہے وہ اصحابِ جنت ہیں اور اس میں ہمیشہ رہیں گے( إِنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَاٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّهِمْ اٴُوْلٰئِکَ اٴَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِیهَا خَالِدُونَ ) ۔

دو قابلِ توجہ نکات

۱ ۔ تین مربوط حقائق:

ایمان، عملِ صالح اور دعوتِ حق کے سامنے سرتسلیم خم، در اصل تین ایسے حقائق ہیں جو ایک دوسرے سے مربوط ہیں کیونکہ عملِ صالح شجر ایمان کا ثمر ہے، وہ ایمان جس کا ثمرہ عمل صالح نہ ہو ایسا کمزور اور بے وقعت ہوتا ہے کہ جو کسی شمار میں نہیں لایا جاسکتا، اسی طرح سرِتسلیم خم اور پروردگار کے وعدوں پر اطمینان ایسا مسئلہ ہے جو ایمان اور عملِ صالح کے آثار میں سے نہیں ہے کیونکہ صحیح اعتقاد اور پاک عمل ہی انسان کی جان اور روح ہیں ان بلند صفات وملکات کے پیدا ہونے کا سرچشمہ ہے ۔

۲۔ ”( اٴَخْبَتُوا ) “ کا مفہوم :

( اٴَخْبَتُوا ) “ ”اخبات“ کے مادہ سے ہے اس کی اصل ”خبت“ (بروزن ”ثبت“ )ہے جس کے معنی ہیں صاف اور وسیع زمین جس میں آرام و اطمینان سے چل پھر سکتا ہے، اسی بناء پر یہ مادہ اطمینان کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور خضوع وتسلیم کے معنی میں بھی آیا ہے کیونکہ ایسی زمین چلنے پھرنے کے لئے بھی اطمینان بخش ہے اور خود چلنے والوں کے سامنے خاضع اور تسلیم بھی ہے ۔

اسی بناء پر جملہ ”( اٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّهِمْ ) “ ہوسکتا ہے مندرجہ ذیل متن میں سے کسی ایک معنی میں ہو اگرچہ تینوں معانی ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں ہے:۔

۱ ۔ سچّے مومنین خدا کے سامنے خاضع ہیں ۔

۲ ۔ وہ اپنے پروردگار کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے ہیں ۔

۳ ۔ وہ خدا کے وعدوں پر اطمینان رکھتے ہیں ۔

ہر صورت میں مومنین کی ایک عالی ترین صفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جس کا اثر ان کی تمام زندگی میں منعکس ہوتا ہے ۔

یہ امر جاذب نظر ہے کہ حضرت امام صادق علیہ السلام سے ایک حدیث میں ہے کہ آپعليه‌السلام کے اصحاب میں سے ایک شخص نے عرض کیا کہ ہمارے درمیان کلیب نامی ایک شخص ہے، آپعليه‌السلام سے مروی جو بھی حدیث اس تک پہنچے وہ فوراً کہتاہے کہ مَیں اس کے سامنے تسلیم ہوں ، اس لئے کہ اس کانام ”کلیب تسلیم“ رکھ دیا ہے ۔

امامعليه‌السلام نے فرمایا: اس پر خدا کی رحمت ہو، پھر فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ تسلیم کسے کہتے ہیں ، ہم خاموش رہے تو فرمایا: خدا کی قسم یہ وہی ”اخبات“ ہے جو خدا کے کلام ”الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَاٴَخْبَتُوا إِلیٰ رَبِّهِمْ “ میں آیا ہے ۔(۱)

بعد والی آیت میں خدا اس گروہ کی حالت کو ایک واضح اور زندہ مثال کے ساتھ یان کرتے ہوئے کہتا ہے: ان دو گروہوں کی حالت، نابینا اور بہرے اور بینا اور سننے والے“ کی سی ہے( مَثَلُ الْفَرِیقَیْنِ کَالْاٴَعْمَی وَالْاٴَصَمِّ وَالْبَصِیرِ وَالسَّمِیعِ ) ۔

کیا یہ دونوں گروہ ایک دوسرے کے مساوی ہیں( هَلْ یَسْتَوِیَانِ مَثَلًا ) کیا تم تذکر نہیں کرتے اور غور وفکر نہیں کرتے( اٴَفَلَاتَذَکَّرُونَ ) ۔

جیسا کہ علم معانی میں آیا ہے کہ ہمیشہ حقائق عقلی کو مجسم کرنے اور عمومی سطح پر ان کی وضاحت وصراحت کے لئے معقولات کو محسوسات سے تشبیہ دیتے ہیں ، قرآن نے اس طریقہ کا زیادہ استعمال کیا ہے اور بہت سے حساس اور پُر اہمیت مسائل کو واضح اور خوبصورت مثالوں سے استفادہ کرتے ہوئے حقائق کو عالی ترین صورت میں بیان کیا ہے، مندرجہ بالا بیان بھی اس قسم کا ہے کیونکہ مؤثر ترین وسیلہ حِسّی حقائق کی شناخت کے لئے مادہ وطبیعت میں آنکھ اور کان ہیں ، اسی بناء پر یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ وہ افراد جو آنکھ اور کان سے مکمل طور پر مثلاً مادر زاد صورت میں بے بہرہ ہوں کسی چیز کا اس جہانِ طبیعت میں صحیح طور پر ادراک حاصل کرلیں ، وہ مسلماً ایک مکمل بے خبری کے عالم میں زندی بسر کریں گے ، اسی طرح وہ افراد جو ہٹ دھرمی، حق دشمنی، تعصب، خود خواہی اور خود پرستی کے چنگل میں گرفتار ہونے کی وجہ سے حقیقت میں آنکھ اور کان گنوا بیٹھے ہیں وہ ہرگز عالم غیب سے مربوط حقائق، ایمان کے اثرات، لذّتِ عبادتِ خداوندی اور اس کے فرمان کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کی عظمت کا ادراک نہیں کرسکتے، ایسے افراد اندھوں ، بہروں کی مانند ہیں جو گھٹا ٹوپ اندھیرے اور موت کی خاموشی میں زندگی بسر کرتے ہیں جبکہ مومن دیکھنے والی آنکھ اور سننے والے کان سے ہر حرکت کو دیکھتے ہیں اور ہر صدا کوسنتے ہیں اور اس کو مدِّنظر رکھتے ہوئے اپنا راستہ سعادت آفرین راہ کی طرف اختیار کرلیتے ہیں ۔

____________________

۱۔ تفسیر برہان: ج۲، ص۱۱۶.

آیات ۲۵،۲۶،۲۷،۲۸

۲۵( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلیٰ قَوْمِهِ إِنِّی لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ )

۲۶( اٴَنْ لَاتَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ إِنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اٴَلِیمٍ )

۲۷( فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاکَ إِلاَّ بَشَرًا مِثْلَنَا وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِینَ هُمْ اٴَرَاذِلُنَا بَادِی الرَّاٴْیِ وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ بَلْ نَظُنُّکُمْ کَاذِبِینَ )

۲۸( قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ اٴَنُلْزِمُکُمُوهَا وَاٴَنْتُمْ لَهَا کَارِهُونَ )

رجمہ

۲۵ ۔ ہم نے نوح کو اُن کی قوم کی طرف بھیجا (پہلی مرتبہ اس نے اُن سے کہا) مَیں تمھارے لئے واضح ڈرانے والا ہوں

۲۶ ۔ (میری دعوت یہ ہے کہ) سوائے الله کے (جو واحد یکتا خدا ہے ) کسی کی عبادت نہ کرو مَیں تم پر دردناک دن والے عذاب سے ڈرتا ہوں ۔

۲۷ ۔ اس کی قوم کے کافر سرداروں نے (جواب میں ) کہا: ہم تو تجھے صرف اپنے جیسا بشر پاتے ہیں اور وہ لوگ جنھوں نے تیری پیروی کی ہے انھیں ہم سوائے سادہ لوح پست لوگوں کے نہیں پاتے اور تمھارے لئے کوئی فضیلت اپنی نسبت نہیں دیکھتے بلکہ تمھیں دروغ گو خیال کرتے ہیں ۔

۲۸ ۔ (نوح نے) کہا: میں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل رکھتا ہوں اور اس نے اپنی طرف سے مجھے رحمت عطا کی ہے جو تم پر مخفی ہو (پھر بھی تم میری رسالت کا انکار کروگے) کیا مَیں تمھیں واضح امر قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم آمادہ نہیں ہو۔

حضرت نوحعليه‌السلام کی قوم کی ہلا دینے والی سرگزشت

جیسا کہ ہم نے سورہ کی ابتداء میں بیان کیا ہے اس سورہ میں افکار کو بیدار کرنے اور زندگی کے حقائق کی طرف متوجہ کرنے اور تبہکاریوں کی بُری سرنوشت کیطرف توجہ دلانے اور کامیابی اور موفقیت کی راہ بیان کرنے کے لئے گزشتہ انبیاء کے تاریخ کے اہم حصّے بیان ہوئے ۔

سب سے پہلے اولوالعزم پیغمبر حضرت نوحعليه‌السلام کا واقعہ بیان کیا گیا ہے اور ۲۶ آیات میں ان کی تاریخ کے اساسی اور بنیادی نکات کی ہلادینے والی شکل میں تشریح کی گئی ہے، اس میں شک نہیں کہ حضرت نوحعليه‌السلام کا قیام اور ان کے اپنے زمانے کے متکبروں کے ساتھ شدید اور مسلسل جہاد اور ان کے بُرے انجام کی داتسان تاریخِ بشر کے فراز میں ایک نہایت اور بہت عبرت انگیز درس کی حامل ہے ۔

مندرجہ بالا آیات پہلے مرحلے میں اس عظیم دعوت کو بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں : ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا، اس نے انھیں بتایا کہ میں واضح ڈرانے والا ہوں( وَلَقَدْ اٴَرْسَلْنَا نُوحًا إِلیٰ قَوْمِهِ إِنِّی لَکُمْ نَذِیرٌ مُبِینٌ ) ۔

انبیاء کے لفظ ”نذیر“

انبیاء ڈرانے والے بھی تھے اور خوش خبری دینے والے بھی پھر ”انذار“ (ڈرانے) کے مسئلہ پر انحصار صرف اس بناء پر کیا گیا ہے چونکہ انقلاب کی پہلی ضرب جو خطرے کے اعلان اور ڈرانے سے شروع کیا جائے کیونکہ اس کی تاثیر سوئے ہوئے اور غافل لوگوں کو بیدار کرنے میں بشارت کی نسبت زیادہ ہے، اصولی طور پر جب تک انسان کوئی بڑا خطرہ محسوس نہ کرے اپنی جگہ سے حرکت نہیں کرتا اور اسی بناء پر انبیاء کے انذار اور خطرے کے اعالان کو تازیانہ کی شکل میں گمراہیوں کی بے درد روحوں پر پڑتے تھے کہ جو شخص بھی حرکت کی طاقت رکھتا وہ حرکت میں آجاتا تھا نیز اسی بناء پر قرآن کی بہت سی آیات میں (مثلاً سورہ حج ۴۹ ، شعراء ۱۱۵ ، عنکبوت ۵۰ ، فاطر ۴۲ ، ص ۷۰ ، احقاف ۹ ، ذاریات ۵۰ ، اور دیگر آیات میں ) ہر جگہ دعوتِ انبیاء کو بیان کرتے وقت لفظ ”نذیر“ (ڈرانے والے) استعمال کیا گیا ہے ۔

بعدوالی آیات پہلی ضرب کے بعد اپنی رسالت کے مضمون کو صرف ایک جملہ میں بطور خلاصہ بیان کرتے ہوئے کہتا ہے: میرا پیغام یہ ہے کہ ”الله“ کے علاوہ کسی دوسرے کی پرستش نہ کرو( اٴَنْ لَاتَعْبُدُوا إِلاَّ اللهَ ) ۔ پھر بلافاصلہ اس کے پیچھے اسی مسئلہ انذار اور اعلامِ خطر کا تکرار کرتے ہوئے کہتا ہے: مَیں تم پر دردناک دن سے ڈرتا ہوں (ا( ِٕنِّی اٴَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ اٴَلِیمٍ ) ۔(۱)

اصل میں الله (خدائے یکتا ویگانہ) کی توحید اور عبادت ہی تمام انبیاء کی دعوت کی بنیاد ہے اور اسی بناء پر تمام انبیاء کے حالات میں جیسا کہ اس سورہ کی دوسری آیت اور سورہ یوسف کی آیت ۴۰ اور سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲۳ میں بھی آیا ہے یہی تعبیر نظر آتی ہے کہ وہ اپنی دعوت کا خلاصہ توحید کو قرار دیتے تھے ۔

سچ مچ اگر تمام افراد اور معاشرہ الله کے علاوہ کسی کی پرستش نہ کریں اور طرح طرح کے بنائے ہوئے بتوں کے سامنے چاہے بیرونی بت ہوں یا اندرونی، خود خواہی، ہَوا وہوس، شہوت وثروت، مقام ومنزلت، جاہ وجلال، عورت واولاد ہوں سرِتسلیم خم نہ کریں تو کسی قسم کی خرابی اور فساد معاشروں میں پیدا نہ ہو۔ اگر انسان خود کاسہ توانانی کو ایک بت کی صورت میں نہ لائے اور اس کے سامنے سجدہ نہ کرے اور اس کی فرمانبرداری نہ کرے تو استبداد اور استعمار وجود میں نہ آئے اور نہ ہی اس کے بُرے آثار، ذلّت اور اسارت پیش آئیں اور نہ ہی وابستگی اور طفیلی ہونے کی بنیاد پڑے، تمام بدبختیاں جو افراد اور معاشروں کودامنگیر ہوں اسی الله کی پرستش سے انحراف اور بتوں اور طاغوتوں کی پرستش کی طرف رخ کرنے کی وجہ سے ہیں ۔

اب ہم دیکھیں گے کہ پہلا درِّعمل اس زمانے کے طاغوتوں ، خود سروں اور صاحبان زروزور کا اس عظیم دعوت اور واضع اعلام کے مقابلے میں کیا تھا، مسلماً سوائے کچھ بیہودہ اور جھوٹے عذر بہانوں اور بے بنیاد استدلالوں کے جو کہ ہر زمانے کے جابروں کا طریقہ کار ہے ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ۔

انھوں نے حضرتنوحعليه‌السلام کی دعوت کے تین جواب دیئے:

۱ ۔ قومِ نوحعليه‌السلام کے سردار اور سرمایہ دار کافر تھے، انھوں نے کہا ہم تو تجھے صرف اپنے جیسا انسان دیکھتے ہیں( فَقَالَ الْمَلَاٴُ الَّذِینَ کَفَرُوا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرَاکَ إِلاَّ بَشَرًا مِثْلَنَا ) ۔ حالانکہ الله کی رسالت اور پیغام توفرشتوں کو اپنے کاندھوں پر لینا چاہیے، نہ کہ ہم جیسے انسانوں کو، اس گمان کے ساتھ کہ انسان کا مقام فرشتوں سے نیچے ہے یا انسان کی ضرورت کو فرشتہ انسان سے بہتر جانتا ہے، پھر ہم یہاں لفظ ”ملاء“ کاسامنا کررہے ہیں یعنی صاحبانِ اقتدار، سرمایہ دار اور ایسے افراد جن پر لوگوں کی نظریں جمتی ہیں لیکن وہ اندر سے خالی ہوتے ہیں ، یہ لوگ ہر معاشرے میں فساد اور تباہی کا اصلی سرچشمہ ہوتے ہیں اور انبیاء کے مقابلے میں مخالفت کا پرچم بلند کرتے ہیں ۔

۲ ۔ انھوں نے کہا: اے نوح! ہم تیرے گرد وپیش اور ان کے درمیان کہ جنھوں نے تیری پیروی کی ہے سوائے چند پست، ناآگاہ اور بے خبر تھوڑے سن وسال کے نوجوانوں کے کہ جنھوں نے مسائل کی دیکھ بھال نہیں کی کسی کو نہیں دیکھتے( وَمَا نَرَاکَ اتَّبَعَکَ إِلاَّ الَّذِینَ هُمْ اٴَرَاذِلُنَا بَادِی الرَّاٴْیِ ) ۔

”باراذل“ ”ارذل“ (بروزن اھرم“) کی جمع ہے اور وہ خود ”رذل“ کی جمع ہے جو پست وحقیر موجود کے معنی میں ہے چاہے وہ انسان ہے یا کوئی اور چیز۔

البتہ اس میں شک نہیں کہ حضرت نوحعليه‌السلام کی طرف مائل ہونے والے اور ان پر ایمان لانے والے لوگ نہ اراذل تھے اور نہ ہی حقیر وپست، تاہم اس بناء پر چونکہ انبیاء ہر چیز سے پہلے مستضعفین کے حمایت اور مستکبرین سے مبارزہ اور جہاد کرتے تھے لہٰذا پہلا گروہ جو انبیاء کی دعوت پر لبیک کہتا وہی محروم، فقیر اور کم آمدنی والے لوگ ہوتے تھے، جو مستکبرین کی نگاہ میں جو کہ شخصیت کامعیار دولت اور اقتدار کو سمجھتے تھے پست اور حقیر افراد شمار ہوتے تھے اور یہ جو انھیں ”بادی الراٴی “ (ظاہر بین بے مطالعہ اوروہ شخص جو پہلی نظر میں کسی چیز کا عاشق اور خواہاں ہوتا ہے) کا نام دیا ہے حقیقت میں اس بناء پر ہے کہ وہ ہٹ دھرمی اور غیرمناسب تعصبات جو دوسروں میں تھے وہ نہیں رکھتے تھے، بلکہ زیادہ تر پاک دل نوجوان تھے جو حقیقت کی پہلی کرن کو جو اُن کے دل پر پڑتی جلدی محسوس کرلیتے تھے، وہ اس بیداری کے ساتھ جو کہ حق کی تلاش سے تلاش سے حاصل ہوتی ہے صداقت کی نشانیاں انبیاء کے اقوال وافعال کا ادراک کرلیتے تھے ۔

۳ ۔ اُن کا آخری اعتراض یہ تھا کہ قطع نظر اس سے کہ تُو انسان ہے نہ کہ فرشتہ، علاوہ ازیں تجھ پر ایمان لانے والے نشاندہی کرتے ہیں کہ تیری دعوت کے مشتملات صحیح نہیں ہیں ، اصولی طور پر تم ہم پر کسی قسم کی برتری نہیں رکھتے کہ ہم اس بناء پر تیری پیروی کریں( وَمَا نَریٰ لَکُمْ عَلَیْنَا مِنْ فَضْلٍ ) ۔ لہٰذا ہم گمان کرتے ہیں کہ تم جھوٹے ہو( بَلْ نَظُنُّکُمْ کَاذِبِینَ ) ۔

____________________

۱۔ باوجودیکہ دردناک عذاب ک صفت ہے لیکن زیرِ نظر آیت میں یوم کی صفت قرار دی گئی ہے یہ ایک قسم کی لطیف اسنادحجازی ہے جو مختلف زبانوں کی ادبیات میں آتی ہے فارسی میں بھی ہم کہتے ہیں ”فلاں دن بڑا دردناک تھا“ حالانکہ خود دن دردناک نہیں تھا بلکہ اس کے حوادث دردناک تھے ۔

حضرت نوح کے جوابات

بعد والی آیات میں ان بہانہ جُو اور فسانہ ساز افراد کو حضرت نوحعليه‌السلام کی طرف سے دیئے گئے جوابات ذکر کئے گئے ہیں ، پہلے ارشاد ہوتا ہے: اے قوم! مَیں اپنے پروردگار کی طرف سے واضح دلیل اور معجزہ کا حامل ہوں اور اس نے اس رسالت وپیغام کی انجام دہی کی وجہ سے اپنی رحمت میرے شامل حال کی ہے اور یہ امر عدم توجہ کی وجہ سے تم سے مخفی رہ گیا توکیا پھر بھی تم میری رسالت کا انکار کرسکتے ہو اور میری پیروی سے دست بردار ہوسکتے ہو( قَالَ یَاقَوْمِ اٴَرَاٴَیْتُمْ إِنْ کُنتُ عَلیٰ بَیِّنَةٍ مِنْ رَبِّی وَآتَانِی رَحْمَةً مِنْ عِنْدِهِ فَعُمِّیَتْ عَلَیْکُمْ ) ۔

اس بارے میں کہ یہ جواب قوم نوحعليه‌السلام کے مستکبرین کے تین سوالوں میں سے کس کے ساتھ مربوط ہے مفسرین کا بہت اختلاف ہے لیک غور وخوض سے واضح ہوجاتا ہے کہ یہ جامع جواب تینوں اعتراضات کا جواب بن سکتا ہے کیونکہ ان کا پہلا اعتراض یہ تھا کہ تم انسان ہو، آپعليه‌السلام نے فرمایا: یہ بجا ہے کہ میں تمھاری طرح کا ہی انسان ہوں لیکن الله تعالیٰ کی رحمت میرے شامل حال ہوئی ہے اور اس نے مجھے کھلی اور واضح نشانیاں دی ہیں اس بناء پر میری انسانیت اس عظیم رسالت سے مانع نہیں ہوسکتی اور یہ ضروری نہیں کہ میں فرشتہ ہوتا ۔

ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ تمھارے پیروکار بے فکر اور ظاہر بین افراد ہیں ، آپعليه‌السلام نے فرمایا: تم بے فکر اور سمجھ ہو جو اس واضح حقیقت کا انکار کرتے ہو حالانکہ میرے پاس ایسے دلائل موجود ہیں جو ہر حقیقت کے متلاشی انسان کے لئے کافی ہیں اور اسے قائل کرسکتے ہیں مگر تم جیسے افراد جو غرور، خود خواہی، تکبر اور جاہ طلبی کا پردہ اوڑھے ہوئے ہیں ان کی حقیقت بین آنکھ بیکار ہوچکی ہے ۔

ان کا تیسرا اعتراض یہ تھا کہ وہ کہتے تھے: ہم کوئی برتری اور فضیلت تمھارے لئے اور اپنی نسبت نہیں پاتے، آپعليه‌السلام نے فرمایا اس سے بالاتر کونسی برتری ہے کہ خدا نے اپنی رحمت میرے شاملِ حال کی ہے اور واضح مدارک ودلائل میرے اختیار میں دیئے ہیں ، اس بناء پر ایسی کوئی وجہ نہیں کہ تم مجھے جھوٹا خیال کرو کیونکہ میری گفتگو کی نشانیاں ظاہر ہیں ۔

آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے: کیا مَیں تمھیں اس ظاہر بظاہر بینہ کے قبول کرنے پر مجبور کرسکتا ہوں جبکہ تم خود اس پر آمادہ نہیں ہو اور اسے قبول کرنا بلکہ اس کے بارے میں غوروفکر کرنا بھی پسند نہیں کرتے ہو( اٴَنُلْزِمُکُمُوهَا وَاٴَنْتُمْ لَهَا کَارِهُونَ )