تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33659
ڈاؤنلوڈ: 3543


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33659 / ڈاؤنلوڈ: 3543
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

آیات ۳۶،۳۷،۳۸،۳۹

۳۶( وَاٴُوحِیَ إِلیٰ نُوحٍ اٴَنَّهُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلاَّ مَنْ قَدْ آمَنَ فَلَاتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ) ۔

۳۷( وَاصْنَعْ الْفُلْکَ بِاٴَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا وَلَاتُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ) ۔

۳۸( وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٴٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ ) ۔

۳۹( فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاٴْتِیهِ عَذَابٌ یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُقِیمٌ ) ۔

ترجمہ

۳۶ ۔ نوح کو وحی ہوئی ہے کہ سوائے ان لوگوں کے کہ جو (اب تک )ایمان لا چکے ہیں اب تمہاری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا لہٰذا جو کام وہ کرتے ہیں ان سے غمگین نہ ہو ۔

۳۷ ۔ اور (اب) ہمارے سامنے اور ہماری وحی کے مطابق کشتی بناؤ اور ان کے بارے میں شفاعت نہ کرو جنھوں نے ظلم کیا ہے کیونکہ وہ غرق ہوکرر ہیں گے ۔

۳۸ ۔ وہ کشتی بنانے میں مشغول تھا اور جب اس کی قوم کے بڑوں میں سے کوئی گروہ اس کے قریب سے گزرتا تو اس کا مذاق اڑاتا (لیکن نوح نے )کہا : اگر ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی تمہارا اسی طرح مذاق اڑائیں گے ۔

۳۹ ۔ عنقریب تم جان لو گے کہ کس کے پاس خوار کرنے والا عذاب آتا ہے اور ہمیشہ کی سزا اسے ملتی ہے ۔

معاشرے کو پاک کرنے کا مرحلہ

ان آیات میں حضرت نوحعليه‌السلام کی سرگزشت بیان ہوئی ہے، اس کے درحقیقت مختلف مراحل ہیں ، ان میں سے متکبرین کے خلاف حضرت نوحعليه‌السلام کے قیام کے ایک دور سے مربوط ہے، گذشتہ آیات میں حضرت نوح (علیه السلام)کی مسلسل اور پر عزم دعوت کے مرحلے کا تذکرہ تھا، جس کے لئے انھوں نے تمام تر وسائل سے استفادہ کیا، یہ مرحلہ ایک طویل مدت پر مشتمل تھا، اس میں ایک چھوٹا سا گروہ آپعليه‌السلام پر ایمان لایا، یہ گروہ ویسے تو مختصر سا تھا لیکن کیفیت اور استقامت کے لحاظ سے بہت عظیم تھا ۔

زیر بحث آیات میں اس قیام کے دوسرے مرحلے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، یہ مرحلہ دور تبلیغ کے اختتام کا تھا جس میں خدا کی طرف سے معاشرے کو برے لوگوں سے پاک کرنے کی تیاری کی جانا تھی ۔

پہلی آیت میں ہے: نوحعليه‌السلام کو وحی ہوئی کہ جو افراد ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ تیری قوم میں سے کوئی ایمان نہیں لائے گا( وَاٴُوحِیَ إِلیٰ نُوحٍ اٴَنَّهُ لَنْ یُؤْمِنَ مِنْ قَوْمِکَ إِلاَّ مَنْ قَدْ آمَنَ ) ۔

یہ اس کی طرف اشارہ ہے کہ صفیں بالکل جدا ہوچکی ہیں ، اب ایمان اور اور اصلاح کی دعوت کا کوئی فائدہ نہیں اور اب معاشرے کی پاکیزگی اور آخری انقلاب کے لئے تیار ہوجانا چاہیئے ۔

آیت کے آخر میں حضرت نوحعليه‌السلام اور دلجوئی کے لئے فرمایاگیا ہے:اب جب معاملہ یوں ہے تو جو کام تم انجام دے رہے ہو اس پر کوئی حزن وملال نہ کرو( فَلَاتَبْتَئِسْ بِمَا کَانُوا یَفْعَلُونَ ) ۔

اس آیت سے ضمنی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اسرار غیبت کا کچھ حصہ جہاں ضروری ہوتا ہے اپنے پیغمبر کے اختیار میں دے دیتا ہے جیسا کہ حضرت نوحعليه‌السلام کو خبر دی گئی کہ آیندہ ان میں سے کوئی اور شخص ایمان نہیں لائے گا ۔

بہرحال ان گنہگار اور ہٹ دھرم لوگوں کو سزا ملنی چاہیئے، ایسی سزا جو عالم ہستی کو ان کے وجود کی گندگی سے پاک کردے اور مومنین کو ہمیشہ کے لئے ان کے چنگل سے نجات دے دے، ان کے غرق ہونے کا حکم صادر ہوچکا ہے لیکن ہر چیز کے لئے کچھ وسائل و اسباب ہوتے ہیں لہٰذا نوحعليه‌السلام کو چاہیئے کہ وہ سچے مومنین بچنے کے لئے ایک مناسب کشتی بنائیں تاکہ ایک تو مومنین کشتی بنے کی اس مدت میں اپنے طریق کار میں پختہ تر ہوجائیں اور دوسروں کے لئے بھی کافی اتمام حجت ہوجائے لہٰذا” ہم نے نوح کو حکم دیا کہ وہ ہمارے حضور میں اورہمارے فرمان کے مطابق کشتی بنائیں “( وَاصْنَعْ الْفُلْکَ بِاٴَعْیُنِنَا وَوَحْیِنَا ) ۔

لفظ”اعیننا“ (ہماری آنکھوں کے سامنے) سے اس طرف اشارہ کرنا مقصود ہے کہ اس سلسلے میں تمہاری سب جد وجہد، مساعی اور تمام کا وشیں ہمارے حضور میں اور ہمارے سامنے ہے لہٰذا اطمینان اور راحت فکر کے ساتھ اپنا کام جاری رکھو، یہ فطری امر ہے کہ یہ احساس کہ خدا حاضر وناظر ہے اور محافظ و نگران ہے ایک تو انسان کو قوت و توانائی بخشتا ہے اور دوسرے احساس ذمہ داری کو فروغ دیتاہے ۔

لفظ”وحینا“ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام کشتی بنانے کی کیفیت اور اس کی شکل وصورت کی تشکیل بھی حکم خدا سے سیکھ رہے تھے اور ایسا ہی ہونا چاہیئے تھا کیونکہ حضرت نوحعليه‌السلام آنے والے طوفان کی کیفیت ووسعت سے آگاہ نہ تھے کہ وہ کشتی اس مناسبت سے بناتے اور یہ وحی الٰہی ہی تھی جو بہترین کیفیتوں کے انتخاب میں ان کی مدد گار تھی ۔

آیت کے آخرمیں حضرت نوحعليه‌السلام کو خبردار کیا گیا ہے کہ آج کے بعد ”ظالم افراد کے لئے شفاعت اور معافی کا تقاضا نہ کرنا کویں کہ انھیں عذاب دینے کا فیصلہ ہوچکا ہے اور وہ حتماًغرق ہوں گے“( وَلَاتُخَاطِبْنِی فِی الَّذِینَ ظَلَمُوا إِنَّهُمْ مُغْرَقُونَ ) ۔

اس جملے سے اچھی طرح سے واضح ہوتا ہے کہ سب افراد کے لئے شفاعت ممکن نہیں ہے بلکہ اس کی کچھ شرائط ہیں ، یہ شرائط جس میں موجودنہ ہوں اس کے لئے خدا کا پیغمبر بھی بھی شفاعت اور معافی کے تقاضے کا حق نہی رکھتا، اس سلسلے میں تفسیر نمونہ جلد اول (ص ۱۸۷ تا ص ۲۰۴ ، اردوترجمہ)کی طرف رجوع کریں ۔

اب چند جملے قوم نوح کے بارے میں بھی سن لیں ، وہ بجائے اس کے کہ ایک لمحہ کے لئے حضرت نوحعليه‌السلام کی دعوت کو غور سے سنتے، اسے سنجیدگی سے لیتے اور کم از کم انھیں یہ احتمال بھی ہوتا کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام کے بار بار اصرار اور تکرار دعوت کا سرچشمہ وحی الٰہی ہی ہواورسکتا ہے طوفان اور عذاب کا معاملہ حتمی اور یقینی ہی ہو الٹا انھوں نے تمام متکبر اور مغرور افراد کی عادت کا مظاہرہ کیا اور تمسخر واستہزاء کا اسلسلہ جاری رکھا، ان کی قوم کا کوئی گروہ جب کبھی ان کے نزدیک سے گزرتا اور حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے اصحاب کو لکڑیاں اور میخیں وغیرہ مہیا کرتے دیکھتا اور کشتی بنانے میں انھیں سرگرم عمل پاتا تو تمسخر اڑاتااور پھبتیاں کستے ہوئے گزرجاتا( وَیَصْنَعُ الْفُلْکَ وَکُلَّمَا مَرَّ عَلَیْهِ مَلَاٴٌ مِنْ قَوْمِهِ سَخِرُوا مِنْهُ ) ۔

”ملاء“ ان اشراف اوربڑے لوگوں کو کہتے ہیں جو خود پسند ہوتے ہیں اور ہر مقام پر مستضعفین کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انھیں پست و حقیر مخلوق سمجھتے ہیں کیونکہ ان کے پاس سرمایہ اور اقتدار نہیں ہوتا ، بس یہ نہیں کہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں بلکہ ان کے افکار کتنے ہی بلندہوں ، ان کا مکتب کتنا ہی پائیدار اور بااصول اور ان کے اعمال کتنے ہی چچے تلے ہوں ان کے خیال میں وہ حقارت کے قابل ہیں اسی بنا پر پند ونصیحت، تنبیہ اور خطرے کی گھنٹیاں ان پر اثر انداز نہیں ہوتی، ان کا علاج فقط دردناک عذاب الٰہی ہے ۔

کہتے ہیں کہ قوم نوح کے اشراف کے مختلف گروہوں کے ہر دستے نے تمسخر اور تفریح وطبع کے لئے اپنا ہی ایک انداز اختیار کررکھا تھا ۔

ایک کہتا: اے نوح! دعوائے پیغمبری کا کاروبار نہیں چل سکا تو بڑھئی ہوگئے ہو ۔

دوسرا کہتا : کشتی بنا رہے ہو؟ بڑا اچھا ہے البتہ اس کے لئے دریا بھی بناؤ ، کبھی کوئی عقلمند دیکھا ہے جو خشکی کے بیچ میں کشتی بنائے؟

شاید ان میں سے کچھ کہتے تھے: اتنی بڑی کشتی کس لئے بنا رہے ہو، اگر کشتی بنانا ہی ہے تو ذرا چھوٹی بنالو جسے ضرورت پڑے تو دریا کی طرف لے جانا تو ممکن ہو۔

ایسی باتیں کرتے تھے اور قہقے لگاکر ہنستے ہوئے گزرجاتے تھے ، یہ باتیں گھروں میں ہوتیں ، کام کاج کے مراکز میں یہ گفتگو ہوتی گویا اب یہ بات بحثوں کا عنوان بن گئی، وہ ایک دوسرے سے حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے پیروں کاروں کی کوتاہ فکری کے بارے میں باتیں کرتے اور کہتے: اس بوڑھے کو دیکھو، آخر عمر میں کس حالت کو جا پہنچا ہے، اب ہم سمجھے کہ اگر ہم اس کی باتوں پر ایمان نہیں لائے تو ہم نے ٹھیک ہی کیا اس کی عقل تو بالکل ٹھکانے نہیں ہے ۔

دوسری طرف حضرت نوحعليه‌السلام بڑی استقامت اور پامردی سے اپنا کام بے پناہ عزم کے ساتھ جاری رکھے ہوئے تھے اور یہ ان کے ایمان کا نتیجہ تھا، وہ ان کوباطن دل کے اندھوں کی بے بنیاد باتوں سے بے نیاز اپنی پسند کے مطابق تیزی سے پیش رفت کررہے تھے اور دن بدن کشتی کا ڈھانچہ مکمل ہورہا تھا ، کبھی کبھی سر اٹھا کر ان سے یہ پر معنی بات کہتے: اگر آج تم ہمارا مذاق اڑاتے ہو تو ہم بھی جلد ہی اسی طرح تمہارا مذاق اڑائیں گے( قَالَ إِنْ تَسْخَرُوا مِنَّا فَإِنَّا نَسْخَرُ مِنْکُمْ کَمَا تَسْخَرُونَ ) ، وہ دن کے جب تم طوفان کے درمیان سرگرداں ہوگئے ، سرا سیمہ ہو کر ادھر ادھر بھاگو گے اور تمھیں کوئی پناہ گاہ نہیں ملے گی، موجوں میں گھرے فریاد کرو گے کہ ہمیں بچالو، جی ہاں اس دن مومنین تمھارے افکار غفلت، جہالت اور بے خبری پر ہنسے گے ،”اس دن تمھیں معلوم ہوگا کہ کس کے لئے ذلیل اور رسوا کرنے والا عذاب آتا ہے اور کسی دائمی سزا دامن گیر ہوتی ہے( فَسَوْفَ تَعْلَمُونَ مَنْ یَاٴْتِیهِ عَذَابٌ یُخْزِیهِ وَیَحِلُّ عَلَیْهِ عَذَابٌ مُقِیم ) ۔

یہ اس طرف اشارہ ہے کہ اگر چہ تمہاری مزاحمتیں ہمارے لئے دردناک عذاب ہیں مگر اولا تو ان مشکلات کو گوارا کرتے ہوئے ہم سربلند اور پر افتخار ہیں ثانیاً یہ مشکلات جو کچھ بھی ہیں جلد ختم ہوجائیں گی لیکن عذاب الٰہی رسوا کن بھی ہے اور ختم ہونے والا بھی نہیں اور ان دونوں کا آپس میں مقابلہ نہیں ہوسکت

چند قابل توجہ نکات

۱ ۔ معاشرے کی پاکیزگی نہ کہ انتقام:

مندرجہ بالا آیات سے اچھی طرح واضح ہوتا ہے کہ خدائی عذاب انتقامی پہلو نہیں رکھتا بلکہ نوع بشر کی پاکیزگی اور ایسے لوگوں کے خاتمے کے لئے ہے جو زندگی کے اہل نہیں ، اس طرح نیک لوگ باقی رہ جاتے ہیں ، اس کا مفہوم یہ ہے کہ ایک متکبر اور فاسد ومفسد قوم جس کے ایمان لانے کی اب کوئی امید نہیں ، نظام خلقت کے لحاظ سے اب جینے کا حق نہیں رکھتی اور اسے ختم ہوجا نا چاہیئے قوم نوح ایسی ہی تھی کیونکہ مندرجہ بالا آیات کہتی ہیں کہ اب جب کہ باقی لوگوں کے ایمان لانے کی امید نہیں ہے کشتی بنانے کے لئے تیار ہوجاؤ اور ظالموں کے لئے کسی قسم کا کی شفاعت اور معافی کاتقاضا نہ کرو۔

یہی صورت حال اس عظیم پیغمبر کی بد دعا اور نفرین سے بھی معلوم ہوتی ہے جو کہ سورہ نوح میں موجود ہے:

( وَقَالَ نُوحٌ رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا إِنَّکَ إِنْ تَذَرْهُمْ یُضِلُّوا عِبَادَکَ وَلَایَلِدُوا إِلاَّ فَاجِرًا کَفَّارًا )

پروردگارا! ان کفار میں سے کسی ایک کو بھی زمین پر نہ رہنے دے کیونکہ اگر وہ رہ جائیں تو تیرے بندوں کو گمراہ کریں گے اور ان کی نسل سے بھی فاسق وفاجر اور بے ایمان کافروں کے سوا کوئی وجود میں نہیں آئے گا، (نوح، ۲۶،۲۷) ۔

اصولی طور پر کارخانہ تخلیق میں ہر موجود کسی مقصد کے تحت پیدا کیا گیا ہے، جب کوئی موجود اپنے مقصد سے بالکل منحرف ہوجائے اور اصلاح کے تمام راستے اپنے لئے بند کرلے تو اس کا باقی رہنا بلا وجہ ہے لہٰذا اسے خواہ مخواہ ختم ہوجانا چاہیئے، بقول شاعر:

نہ طراوتی نہ برگی نہ میوہ دارم

متحیرم کہ دھقان بہ چکارہشت مارا

نہ مجھ میں تازگی ہے ، نہ مجھ پر پتے ہیں ، نہ پھول اور نہ پھل ہیں ، حیران ہوں کہ کسان نے مجھے کیوں چھوڑ رکھا ہے ۔

۲متکبرین کی نشانیاں :

خود غرض اور خود سر متکبرین ہمیشہ ان مسائل کا مذاق اڑاتے ہیں جن سے ان کی خواہشات اور ہوا وہوس پوری نہ ہوتی ہو، اسی بنا پر ان مخصوص حقائق کا تمسخر اڑانا جن کاتعلق مستضعفین کی زندگی سے ہے، ان کی زندگی کا ایک حصہ ہے، اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اپنی گناہ آلود اجتماعات میں رنگ بھرنے اور انھیں رونق بخشنے کے لئے کسی تہی دست صاحب ایمان کی تلاش میں رہتے تھے جسے تمسخر اور مضحکہ کا عنوان بنا سکیں اور اگر کسی اجتماع یا نششت کے لئے انھیں ایسے افراد نہ مل سکیں تو ان میں ایک یا کئی افراد اکوان کی عدم موجودگی میں موضوع سخن قرار دے کر مذاق اڑاتے ہیں اور ہنستے ہیں ۔

وہ اپنے آپ کو عقل کل خیال کرتے ہیں ، ان کے گمان میں ان کی بے بہا حرام دولت، ان کی لیاقت، شخصیت اور مقام کی نشانی ہے، اسی لئے وہ دوسروں کو نالائق، بے قدر اور بے وقعت سمجھتے ہیں ۔

لیکن قرآن مجید ایسے مغرور اور متکبر افراد پر نہایت سخت حملے کرتا ہے اور خاص طور پر ان کی تمسخرات کی شدید مذمت کرتا ہے ۔

مثلاً تاریخ اسلامی میں ہے :

ابوعقیل انصاری ایک صاحب ایمان شخص تھا، محنت مزدوری کرتا تھا ، غریب آدمی تھا، ایک مرتبہ وہ رات بھر جاگتا رہا اور مدینے کے کنوؤں سے پانی بھر بھر کر لوگوں کے گھروں تک پہنچاتا رہا، اس طرح اس نے مزدوری کرکے کچھ خرمے حاصل کئے، وہ خرمے وہ جنگ تبوک کے لئے تیار ہونے والے لشکر اسلام کے لئے پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں لے آیا، کچھ متکبر منافق وہاں موجود تھے، وہ اس پر بہت ہنسے، اس پر یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں اور ان پر بجلی بن کر گریں :

( الَّذِینَ یَلْمِزُونَ الْمُطَّوِّعِینَ مِنَ الْمُؤْمِنِینَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِینَ لَایَجِدُونَ إِلاَّ جُهْدَهُمْ فَیَسْخَرُونَ مِنْهُمْ سَخِرَ اللهُ مِنْهُمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ اٴَلِیمٌ )

جو راہ خدا میں مالی مدد کرنے پر اطاعت گزار مومنین کا مذاق اڑاتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں کہ جو تھوڑی سی مقدار سے زیادہ دینے پر دسترس نہیں رکھتے خدا ایسے لوگوں کا مذاق اڑائے گااور ان کے لئے دردناک عذاب ہے (توبہ: ۷۹)

۳ ۔ حضرت نوحعليه‌السلام کی کشتی:

اس میں شک نہیں کہ کشتی نوح کوئی عام کشتی نہ تھی کیونکہ اس میں سچے مومنین کے علاوہ ہر نسل کے جانور کوبھی جگہ ملی تھی اور ایک مدت کے لئے ان انسانوں اور جانوروں کو جو خوراک درکار تھی وہ بھی اس میں موجود تھی ، ایسی لمبی چوڑی کشتی یقینا اس زمانے میں بے نظیر تھی یہ ایسی کشتی تھی جو ایسے دریا کی کوہ پیکر موجوں میں صحیح وسالم رہ سکے اور نابود نہ ہو جس کی وسعت اس دنیا جتنی ہو، اسی لئے مفسرین کی بعض روایات میں ہے کہ اس کشتی کا طول یک ہزار دوسو ذراع تھا اور عرض چھ سو ذراع تھا (ایک ذراع کی لمبائی تقریبا آدھا میٹر کے برابر ہوتی ہے) ۔

بعض اسلامی روایات میں ہے کہ ظہور طوفان سے چالیس سال پہلے قوم نوح کی عورتوں میں ایک ایسی بیماری پیدا ہوگئی تھی کہ ان ہاں کوئی بچہ پیدا نہیں ہوتا تھا ، یہ دراصل ان کی سزا کی تمہد تھی ۔

آیات ۴۰،۴۱،۴۲،۴۳

۴۰( حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَاٴَهْلَکَ إِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِیلٌ )

۴۱( وَقَالَ ارْکَبُوا فِیهَا بِاِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ )

۴۲( وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ وَنَادیٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلَاتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ )

۴۳( قَالَ سَآوِی إِلیٰ جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنَ الْمَاءِ قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ إِلاَّ مَنْ رَحِمَ وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۰ ۔ (یہ کیفیت اسی طرح جاری تھی) یہاں تک کہ ہمارا فرمان آپہنچااور تنور جوش مارنے لگا، ہم نے (نوح سے )کہا: جانوروں کے ہر جفت (نر اورمادہ)میں سے ایک جوڑا اس (کشتی )میں اٹھالو، اسی طرح اپنے اہل کو مگر وہ کہ جن کے ہلاک ہونے کا پہلے سے وعدہ کیا جاچکا ہے (نوح کی بیوی اور ایک بیٹا)اور اسی طرح مومنین کو لیکن مختصر سے گروہ کے سوا اس پر کوئی ایمان نہیں لایا تھا ۔

۴۱ ۔اس نے کہا: اللہ کا نام لے کر اس میں سوار ہوجاؤ اور اس کے چلتے اور ٹھہرتے ہوئے وقت اسے یاد کرو اور میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے ۔

۴۲ ۔اور وہ انھیں پہاڑ جیسی موجوں میں گزارتا تھا، (اس وقت) نوح نے اپنے بیٹے کوجو ایک طرف کھڑا تھا پکارا: اے میرے بیٹے ! ہمارے ساتھ سوار ہوجا اور کافروں کے ساتھ نہ رہ ۔

۴۳ ۔اس نے کہا : میں پہاڑ کا سہارا لے لوں گا تاکہ پانی سے محفوظ رہوں ، (نوح نے) کہا: فرمان خدا کے سامنے آج کوئی بچنے والانھیں مگر وہی (بچ سکتا ہے)جس پر وہ رحم کرے ، اس وقت ایک موج ان دونوں کے درمیان حائل ہوئی اور وہ غرق ہونے والوں میں سے قرار پاپا ۔

آغاز طوفان

گذشتہ آیات میں ہم نے دیکھا ہے کس طرح حضرت نوحعليه‌السلام اور سچے مومنین نے کشتی نجات بنانا شروع کی اور انھیں کیسی کیسی مشکلات آئیں اور بے ایمان مغرور اکثریت نے ان کا کس طرح ان کا تمسخر اڑایا، اس طرح تمسخراڑانے والوں نے کس طرح اپنے آپ کو اس طوفان کے لئے تیار کیا جو سطح زمین کو بے ایمان مستکبرین کے نجس وجود سے پاک کرنے والا تھا ۔

زیر بحث آیات میں اس سر گزشت کے تیسرے مرحلے کے بارے میں ہیں ، یہ آیات گویا اس ظالم قوم پر نزول عذاب کی بولتی ہوئی تصویریں ہیں ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: یہ صورت حال یونہی تھی یہاں تک کہ ہمارا حکم صادر ہوا اور عذاب کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ، پانی تنور کے اندر سے جوش مارنے لگا( حَتَّی إِذَا جَاءَ اٴَمْرُنَا وَفَارَ التَّنُّورُ ) ۔

”تنور“ (نون کی تشدید کے ساتھ) وہی معنی دیتا ہے جو آج کل فارسی زبان میں مستعمل ہے، یعنی روٹی پکانے کی جگہ۔(۱)

اس بارے میں کہ طوفان کے نزدیک ہونے سے تنور سے پانی کا جوش مارنا کیا مناسبت رکھتا ہے مفسرین کے درمیان بہت اختلاف ہے ۔

بعض نے کہا ہے کہ تنور سے پانی کا جوش مارنا خدا کی طرف سے حضرت نوحعليه‌السلام کے لئے ایک نشانی تھی تاکہ وہ اصل واقعہ کی طرف متوجہ ہوں اور اس موقع پر وہ اور ان کے اصحاب ضروری اسباب و وسائل لے کر کشتی میں سوار ہوجائیں ۔

بعض نے کہا ہے کہ یہاں ”تنور“ مجازی اور کنائی معنی میں ہے جو اس طرف اشارہ ہے کہ غضب الٰہی کے تنور میں جوش پیدا ہوا اور وہ شعلہ ور ہوا اور یہ تباہ کن خدائی عذاب کے نزدیک ہونے کے معنی میں ہے، ایسی تعبیریں فارسی اور عربی زبان میں استعمال ہوتی ہیں کہ شدت غضب کو آگ کے جوش مارنے اور شعلہ ور ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے ۔

ان احتمالات میں یہ احتمال زیادہ قوی ہوتا ہے کہ یہاں ”‘تنور“ اپنے حقیقی اور مشہور معنی میں آیا ہے اور ہوسکتا ہے اس سے مراد کوئی خاص تنور بھی ہو بلکہ ممکن ہے کہ اس سے یہ نکتہ بیان کرنا مقصود ہوکہ تنور جو عام طور پر آگ کا مرکز ہے جب اس میں سے پانی جوش مارنے لگا تو حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے اصحاب متوجہ ہوئے کہ حالات تیزی سے بدل رہے ہیں اورانقلاب قریب تر ہے ۔یعنی کہاں آگ اور کہاں پانی ۔

بالفاظ دیگر جب انھوں نے یہ دیکھا کہ زیرزمین پانی کی سطح اس قدر اوپر آگئی ہے کہ وہ تنور کے اندر سے جو رعام طور پر خشک، محفوظ اوراونچی جگہ بنایا جاتا ہے، جوش ماررہاہے تو وہ سمجھ گئے کہ کوئی اہم امر درپیش ہے اور قدرت کی طرف سے کسی نئے حادثے کا ظہور ہے ۔ اور یہی امر حضرت نوحعليه‌السلام اور ان کے اصحاب کے لئے خطرے کا الارم تھا کہ وہ اٹھ کھڑے ہوں اور تیار رہیں ۔

شاید غافل اور جاہل قوم نے بھی اپنے گھروں کے تنور میں پانی کو جوش مارتے دیکھا ہو بہرحال وہ ہمیشہ کی طرح خطرے کے ان پُر معنی خدائی نشانات سے آنکھ کان بند کئے گزرگئے یہاں تک کہ انھوں نے اپنے آپ کو ایک لمحہ کے لئے بھی غور وفکر کی زحمت نہ دی کہ شاید شرف تکوین میں کوئی حادثہ پوشیدہ ہو اور شاید حضرت نوحعليه‌السلام جن خطرات کی خبر دیتے تھے ان میں سچائی ہو۔

اس وقت نوح کو” ہم نے حکم دیا کہ جانوروں کی ہر نوع میں سے ایک جفت (نر اور مادہ کا جوڑا) کشتی میں سوار کرلو“ تاکہ غرقاب ہوکر ان کی نسل منقطع نہ ہوجائے( قُلْنَا احْمِلْ فِیهَا مِنْ کُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ ) ، ”اور اسی طرح اپنے خاندان میں سے جن کی ہلاکت کا پہلے سے وعدہ کیا جاچکا ہے ان کے سوا باقی افراد کو سوار کرلو نیز مومنین کو کشتی میں سوار کرلو“( وَاٴَهْلَکَ إِلاَّ مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ ) ،” لیکن تھوڑے سے افراد کے سوا لوگ ان پر ایمان نہیں لائے تھے“،( وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِیل ) ۔

یہ آیت ایک طرف حضرت نوحعليه‌السلام کی بے ایمان بیوی اور ان کے بیٹے کنعان کی طرف اشارہ کرتی ہے جن کی داستان آئندہ آیات میں آئے گی کہ جنھوں نے راہ ایمان سے انحراف کیا اور گنہگاروں کا ساتھ دینے کی وجہ سے حضرت نوحعليه‌السلام اپنا رشتہ توڑ لیا، وہ اس کشتی میں سوار ہونے کا حق نہیں رکھتے تھے کیونکہ اس میں سوار ہونے کی پہلی شرط ایمان تھی ۔

دوسری طرف یہ آیت اس جانب اشارہ کرتی ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام نے جو اپنے دین وآئین کی تبلیغ کے لئے سالہاسال بہت طویل اور مسلسل کوشش کی اس نتیجہ بہت تھوڑے سے افراد مومنین کے سوا کچھ نہ تھا بعض روایات کے مطابق ان کی تعداد صرف اسی افراد تھی یہاں تک کہ بعض نے تو اس سے بھی کم تعداد لکھی ہے، اس سے پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم پیغمبر نے کس حد تک استقامت اور پامردی کا مظاہرہ کیا ہے کہ ان میں سے ایک ایک فرد کے لئے اوسطاً کم از کم دس سال زحمت اٹھائی، اتنی زحمت تو ہم لوگ اپنی اولاد تک کی ہدایت اور نجات کے لئے نہیں اٹھاتے ۔

بہرحال حضرت نوحعليه‌السلام نے جلدی سے اپنے وابستہ صاحب ایمان افراد اور اصحاب کوجمع کیا اور چونکہ طوفان اور تباہ کن خدائی عذابوں کا مرحلہ نزدیک آرہا تھا ”انھیں حکم دیا کہ خدا کے نام سے کشتی پر سوار ہوجاؤاور کشتی کے چلتے اور ٹھہرتے وقت خدا کانام زبان پر جاری کرو اور اس کی یاد میں رہو( بِاِسْمِ اللهِ مَجْرَاهَا وَمُرْسَاهَا ) ۔(۲)

کیوں کہا گیا کہ ہر حالت میں اس کی یاد میں رہو اور اس کی یاد اور اس کے نام سے مدد لو”اس لئے کہ میرا پروردگار بخشنے والا اور مہربان ہے“( إِنَّ رَبِّی لَغَفُورٌ رَحِیمٌ ) ۔

اس نے اپنی رحمت کے تقاضے سے تم اہل ایمان بندوں کو یہ وسیلہ نجات بخشا ہے اور اپنی بخشش کے تقاضے سے تمہاری لغزشوں سے درگزر کرے گا ۔

بالآخر آخری مرحلہ آپہنچا اور اس سرکش قوم کے لئے عذاب اور سزا کا فرمان صادر ہوا تیرہ وتار بادل جو سیاہ رات کے ٹکڑوں کی طرح تھے سارے آسمان پرچھا گئے اور اس طرح ایک دوسرے پر تہ بہ تہ ہوئے کہ جس کی نظیر اس سے پہلے نہیں دیکھی گئی تھی، پے در پے سخت بادل گرجتے خیرہ کن بجلیاں پورے آسمان پر کوندتیں آسمانی فضا گویا ایک بہت بڑے وحشتناک حادثے کی خبر دے رہی تھی ۔

بارش شروع ہوگئی اور پھر تیز سے تیزتر ہوتی چلی گئی، بارش کے قطرے موٹے سے موٹے ہوتے چلے گئے جیسا کہ قرآن سورہ قمر کی آیہ ۱۱ میں کہتا ہے:

گویا آسمان کے تمام دروازے کھل گئے اور پانی کا سمندر ان کے اندر سے نیچے گرنے لگا ۔

دوسری طرف زیر زمین پانی کی سطح اس قدر بلند ہوگئی کہ ہر طرف سے پرجوش چشمے ابل پڑے، یوں زمین وآسمان کا پانی آپس میں مل گیا اور زمین، پہاڑ، دشت، بیابان اور درہ غرض ہرجگہ پانی جاری ہوگیا، بہت جلد زمین کی سطح ایک سمندر کی صورت اختیار کرگئی، تیز ہوئیں چلنے لگیں جن کی وجہ سے پانی کو کوہ پیکر موجویں امنڈنے لگیں اس عالم میں ” کشتی نوح پیکر موجوں کا سینہ چیرتے ہوئے بڑھ رہی تھی“( وَهِیَ تَجْرِی بِهِمْ فِی مَوْجٍ کَالْجِبَالِ ) ۔

پسر نوح ایک طرف اپنے باپ سے الگ کھڑا تھا، نوح نے پکارا: میرے بیٹے! ہمارے ساتھ سوار ہوجاؤ اور کافروں کے ساتھ نہ رہو ورنہ فنا ہوجاؤ گے( وَنَادیٰ نُوحٌ ابْنَهُ وَکَانَ فِی مَعْزِلٍ یَابُنَیَّ ارْکَبْ مَعَنَا وَلَاتَکُنْ مَعَ الْکَافِرِینَ ) ۔

پیغمبر بزرگوار حضرت نوحعليه‌السلام نے نہ صرف پاک کی حیثیت سے بلکہ ایک انتھک پر امید مربی کے طور پر آخری لمحے تک اپنی ذمہ داریوں سے دستبرداری نہ کی، اس امید پر کہ شاید ان کی بات سنگ دل بیٹے پر اثر کرجائے لیکن افسوس کہ بری ساتھی کی بات اس کے لئے زیادہ پر تاثیر تھی لہٰذا دلسوز پاک کی گفتگو اپنا مطلوبہ اثر نہ کر سکی، وہ ہٹ دھرم اورکوتاہ فکر تھا ، اسے گمان تھا کہ غضب خداکا مقابلہ بھی کیا جاسکتا تھا، اس لئے”اس نے پکار کر کہا: ابا! میرے لئے جوش میں نہ آؤ میں عنقریب پہاڑ پر پناہ لے لوں گا جس تک یہ سیلاب نہیں پہنچ سکتا( قَالَ سَآوِی إِلیٰ جَبَلٍ یَعْصِمُنِی مِنَ الْمَاءِ ) ۔

نوحعليه‌السلام پھر بھی مایوس نہ ہوئے، دوبارہ نصیحت کرنے لگے کہ شاید کوتاہ فکر بیٹا غرور اور خود سری کے مرکب سے اتر آئے اور راہ حق پر چلنے لگے ”انھوں نے کہا: میرے بیٹے! آج حکم خدا کے مقابلے میں کوئی طاقت پناہ نہیں دے سکتی“( قَالَ لَاعَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اٴَمْرِ اللهِ ) ،”نجات صرف اس شخص کے لئے ہے رحمت خدا جس کے شامل حال ہو“( إِلاَّ مَنْ رَحِمَ ) ۔

پہاڑ تو معمولی سی چیز ہے، خود کرہ ارض بھی معمولی سی چیز ہے، سورج اور تمام نظام شمسی اپنی خیرہ کن عظمت کے باوجود خدا کی قدرت لایزال کے سامنے ذرہ بے مقدار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا، کیا بڑے سے بڑے پہاڑ کرہ زمین کے مقابلے میں چھوٹے سے ابھار سے زیادہ رکھتے ہیں ان کی حیثیت تو ایسے ہے جیسے ناشپاتی کی بالائی سطح ہوتی ہے جب کہ خود زمین کی حیثیت یہ ہے کہ اسے ایک ملین اور دوہزار گنا بڑا کیا جائے تو پھر جاکر وہ کرہ آفتاب کے برابر ہوتی ہے ، وہ آفتاب آسمان میں جس کی حیثیت ایک معمولی سے ستارہ کی سی ہے جب کہ وسیع عالم خلقت میں اربوں کھربوں سارے موجود ہیں پس کس قدر خام خیالی ہے کہ پہاڑ پانہ دے سکے گا ۔

اسی دوران ایک موج اٹھی اور آگے آئی، مزید آگے بڑھی اور پسر نوح کو ایک تنکے کی طرح اس کی جگہ سے اٹھایا اور اپنے اندر درہم برہم کردیا اور باپ بیٹے کے درمیان جدائی ڈال دی اور اسے غرق ہونے والے میں شامل کردیا( وَحَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَکَانَ مِنَ الْمُغْرَقِینَ ) ۔

____________________

۱۔اردو میں بھی ”تنور“ کا یہی معنی مستعمل ہے ۔ (مترجم)

۲۔ ”مجرا“ اور”مرسا“ دونوں اسم زمان ہیں اور ان کا معنی”چلتے وقت“ اور ”ٹھہرتے وقت“ ۔