تفسیر نمونہ جلد ۹

تفسیر نمونہ 0%

تفسیر نمونہ مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن

تفسیر نمونہ

مؤلف: آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی
زمرہ جات:

مشاہدے: 33671
ڈاؤنلوڈ: 3552


تبصرے:

جلد 1 جلد 4 جلد 5 جلد 7 جلد 8 جلد 9 جلد 10 جلد 11 جلد 12 جلد 15
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 104 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 33671 / ڈاؤنلوڈ: 3552
سائز سائز سائز
تفسیر نمونہ

تفسیر نمونہ جلد 9

مؤلف:
اردو

چند اہم نکات

۱ ۔ کیا طوفان نوح عالمگیر تھا:

بہت سی آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفان نوح کسی خاص علاقے کے لئے نہیں تھا بلکہ پوری زمین پر رونماہوا تھا کیونکہ لفظ ”ارض“ (زمین) مطلق طور پر آیا ہے:( رَبِّ لَاتَذَرْ عَلَی الْاٴَرْضِ مِنَ الْکَافِرِینَ دَیَّارًا )

خداوندا! روئے زمین پر ان کافروں میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دے کہ جن کے بارے میں اصلاح کی کوئی امید نہیں ہے ۔ (نوح: ۲۶)

اسی طرح ہود کی آیہ ۴۴ میں یوں ہے:( وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ) ۔۔۔۔

اپنے زمین اپنا پانہ نگل لے

بہت سی تواریخ سے بھی طوفان نوح کے عالمگیر ہونے کی خبر ملتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ موجودہ تمام نسلیں حضرت نوح (علیه السلام)کے تین بیٹوں حام، سام اور یافث کی اولادمیں سے ہیں جو کہ زندہ رہے تھے ۔

طبیعی تاریخ میں سیلابی بارشوں کے نام سے ایک دور کا پتہ چلتا ہے، اس دور کو اگر لازمی طورپر جانداروں کی پیدائش سے قبل سے مربوط نہ سمجھے تو وہ بھی طوفان نوح پر منطبق ہوسکتا ہے ۔

زمین کی طبیعی تاریخ میں یہ نظر بھی ہے کہ کرہ زمین کا محور تدریجی طور پر تغیر پیدا کرتا ہے یعنی قطب شمالی اور قطب جوبی خط استوا میں تبدیل ہوجاتے ہیں اور خط استوا قطب شمالی اور قطب جنوبی کی جگہ لے لیتا ہے، واضح ہے کہ جب قطب شمالی وجنوبی میں موجود بہت زیادہ برف پگھل پڑے تو دریاؤں اور سمندروں کے پانی کی سطح اس قدر اوپر آجائے گی کہ بہت سی خشکیوں کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی اور پانی زمین جہاں جہاں اسے گنجائش ملے گی ابلتے ہوئے چشموں کی صورت میں نکلے گا، پانیوں کی یہی وسعت بادلوں کی تخلیق کا سبب بنتی ہے اور پھر زیادہ سے زیاہ بارشیں انھیں بادلوں سے ہوتی ہیں ۔

یہ امر کہ حضرت نوحعليه‌السلام زمین کے جانوروں کے نمونے بھی اپنے ساتھ لئے تھے طوفان کے عالمگیر ہونے کا مویدہے ۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام کوفہ میں رہتے تھے دوسری طرف بعض روایات کے مطابق طوفان مکہ اور خانہ کعبہ تک پھیلا ہوا تھا تو یہ صورت بھی اس بات کی موید ہے کہ طوفان عالمگیر تھا ۔

لیکن ان تمام چیزوں کے باوجود اس امر کی بھی بالکل نفی نہیں کی جاسکتی کہ طوفان نوح ایک منطقے کے ساتھ مخصوص تھا کیوں لفظ”ارض“ (زمین) کا اطلاق قرآن میں کئی مرتبہ زمین کے ایک وسیع قطعے پر بھی ہوا ہے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی سرگزشت میں ہے:( وَاٴَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِینَ کَانُوا یُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْاٴَرْضِ وَمَغَارِبَهَا ) ۔

ہم نے زمین کے مشارق اور مغارب بنی اسرائیل کے مستضعفین کے قبضے میں دئےے ۔ (اعراف: ۱۳۷)

کشتی میں جانوروں کو شاید اس بنا پر رکھا گیا ہو کہ زمین کے اس حصے میں جانوروں کی نسل منقطع نہ ہو خصوصا اس زمانے میں جانوروں کا دور دراز علاقوں سے منتقل ہونا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔ (غور کیجئے گا)

اسی طرح دیگر مذکوہ قرائن اس بات پر منطبق ہوسکتے ہیں کہ طوفان نوح ایک منقطعہ ارض پر آیا ۔

یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ طوفان نوح تواس سرکش قوم کی سزا اور عذاب کے طور تھا اور ہمارے پاس ایسی کوئی دلیل نہیں جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ حضرت نوحعليه‌السلام کی دعوت تمام روئے زمین پہنچی تھی ۔

اصولی طور پر اس زمانے کے وسائل وذرائع کے ساتھ ایک پیغمبر کی دعوت کا (اس کے اپنے زمانے میں )زمین کے تمام خطوں اور علاقوں تک پہنچنا بعید نظر آتا ہے ۔

بہر حال اس عبرت خیز واقعے کو بیان کرنے سے قرآن کا مقصد یہ ہے کہ اہم تربیتی نکات بیان کئے جائےں جو اس میں چھپے ہوئے ہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیئے کہ یہ واقعہ عالمی ہویا کسی ایک علاقے تعلق رکھتا ہو۔

۲ ۔ کیا نزول عذاب کے بعد توبہ ممکن ہے؟:

گذشتہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام طوفان شروع ہونے کے بعد تک اپنے بیٹے کو تبلیغ کرتے رہے یہ اس امر کی دلیل ہے کہ اگر وہ ایمان لے آتا تو اس کا ایمان قابل قبول ہوتا، یہاں یہ سوال سامنے آتا ہے کہ قرآن کی دوسری آیات کی طرف توجہ کرنے سے ، جن کے کچھ نمونے بیان کئے جاچکے ہیں معلوم ہوتا ہے کہ عذاب نازل ہونے کے بعد توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں کیونکہ ایسے مواقع پر تو اکثر سرکش گنہگار جو اپنی آنکھوں سے عذاب دیکھ لیتے ہیں بے اختیار ہوتے ہیں اور اضطرار کی حالت میں توبہ کرتے ہیں ، ایسی توبہ جس کی کوئی قدر قیمت، اہمیت اور وقعت نہیں ، ایسی توبہ جس کا کوئی مفہوم نہیں ۔

اس سلسلے میں گزارش یہ ہے کہ آیات بالا میں غور فکر کرنے سے اس سوال کا جواب اس طرح سے مل سکتا ہے کہ آغاز طوفان میں عذاب کی کوئی واضح نشانی موجود نہیں تھی بلکہ تیز اور اور غیر معمولی بارش نظر آتی تھی اسی تو نوحعليه‌السلام کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہا کہ میں پہاڑ کی پناہ لے لوں گاتاکہ غرق ہونے سے بچ جاؤں ، اسے یہ گمان تھا کہ بارش اور طوفان ایک طبیعی چیز ہے، ایسے مواقع پر توبہ کے دروازوں کا کھلا ہونا کوئی عجیب مسئلہ نہیں ۔

دوسرا سوال جو حضرت نوحعليه‌السلام کے بیٹے سلسلے میں کیا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت نوح (علیه السلام)نے اس حساس موقع پر صرف اپنے بیٹے کو کیوں پکارا سب لوگوں کو دعوت کیوں نہ دی، ہوسکتا ہے یہ اس بنا پر ہو کہ وہ عمومی دعوت کا فریضہ سب کے لئے یہان تک کہ بیٹے کے لئے بھی انجام دے چکے تھے لیکن بیٹے کے بارے میں ان کی ذمہ داری زیادہ ہو کیونکہ وہ اس کے لئے نبی ہونے کے علاوہ باپ ہونے ہونے کے حوالے سے بھی مسئولیت رکھتے تھے، اسی بنا پر اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے آخری لمحات میں اپنے فرزند کے لئے مزید تاکید کررہے تھے ۔

بعض مفسرین کے بقول یہاں ایک احتمال اور بھی ہے اور وہ یہ کہ پسر نوح اس وقت نہ کفار کی صف میں تھا اور نہ مومنین کی صف میں ، جملہ”وکان فی معزل“(وہ گوشہ تنہائی میں کھڑا تھا ) کو انھوں نے اس کی دلیل قرار دیا ہے، اگرچہ وہ مومنین کی صف میں شامل نہ ہونے کہ وجہ عذاب کا مستحق تھا لیکن کفار کی صف سے اس کی کنارہ کشی کا تقاضا تھا کہ طریق تبلیغ سے اس کے ساتھ لطف ومحبت کا اظہار کیا جاتا ہے، علاوہ ازیں کفار کی صف سے اس کی علحیدگی نے حضرت نوحعليه‌السلام یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید وہ اپنے کام سے پشیمان ہوچکا ہے ۔

آئندہ کی آیات پر توجہ کرنے سے یہ احتمال بھی پیدا ہوتا ہے کہ پسر نوح صراحت سے اپنے باپ کی مخالفت نہیں کرتا تھا بلکہ ”منافقین“ کی صورت میں تھا اور بعض اوقات آپ کے سامنے اظہار موافقت کرتا تھا، ایسی لئے حضرت نوحعليه‌السلام نے کدا سے اس کے لئے نجات کا تقاضا کیا ۔

بہرحال مندرجہ بالا آیت ان آیات کے منافی نہیں ہے جو کہتی ہیں کہ نزول عذاب کے وقت توبہ کے دروازے بند ہوجاتے ہیں ۔

۳ ۔طوفان نوح میں عبرت کے درس

جیسا کہ ہم جانتے ہیں قرآن گذشتہ لوگوں واقعات درس عبرت دینے کے لئے اور اصلاح وتربیت کے لئے بیان کرتا ہے، ہم نے حضرت نوحعليه‌السلام کی داستان کا جتنا حصہ پڑھا ہے اس میں بہت سے درس پوشیدہ ہیں ، ان میں سے ہم بعض کی ذیل میں اشارہ کرتے ہیں ۔

الف۔ روئے زمین کو پاک کرنا:یہ صحیح ہے کہ خدا رحیم اور مہربان ہے لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیئے کہ وہ اس کے باجود حکیم بھی ہے، اس کی حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ جب کوئی قوم وملت فاسد ہوجائے اور نصیحت کرنے والوں اور تربیت کرنے والے خدائی نمائندوں کی دعوت ان پر اثر نہ کرے تو انھیں زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں ، ایسے مواقع پر خدائے تعالیٰ بالآخر معاشرتی یا طبیعی اور فطری انقلابات کے ذریعے ان کی زندگی کے کارخانے کو درہم برہم کر کے انھیں نابود کردیتا ہے ۔

یہ بات نہ قوم نوح میں منحصر تھی اور نہ کسی اور زمانے یا معین وقت میں ، یہ ہرزمانے اور ہرقوم کے لئے ایک خدائی سنت ہے یہاں تک کہ ہمارے زمانے کے لئے بھی اور ہوسکتا ہے پہلی اور دوسری عالمی جنگیں اس پاک سازی کی مختلف شکلیں ہوں ۔

ب۔طوفان کے ذریعے انقلاب کیوں ؟: یہ صحیح ہے کہ ایک فاسد اور بری قوم کو نابود ہونا چاہیئے چاہے وہ کسی ذریعے سے نابود ہو اس میں فرق نہیں پڑتا لیکن آیاتِ قرآنی میں غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ عذاب وسزا اور قوموں کی گناہوں میں ایک قسم کی مناسبت تھی اور ہے ۔ (غور کیجئے )

فرعون نے عظیم دریائے نیل اور اس کے پر برکت پانی کو اپنی قوت وطاقت کا ذریعہ بنا رکھا تھا ، یہ بات جاذب نظر ہے کہ وہی اس کی نابودی کا سبب بنا ۔

نمرود کو اپنے عظیم لشکر پر بھروسہ تھا اور ہم جانتے ہیں کہ حشرات الارض کے چھوٹے سے لشکر نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو شکست دی ۔

قوم نوح زراعت پیشہ تھی ان کی کثیر دولت کا دارومدار زراعت پر ہی تھا ہم جانتے ہیں کہ ایسے لوگ اپنا سب کچھ بارش کے حیات بخش قطروں کو سمجھتے ہیں لیکن آخرکاربارش ہی نے انھیں تباہ وبرباد کردیا ۔

یہاں سے اچھی طرح واضح ہوگیا کہ خدائی فیصلوں میں کس قدر تدبیر اور تدبر کارفرما ہوتا ہے، اسی طرح اگر ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے زمانے کے سرکش انسان پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں اپنے جدید ترین اسلحوں کے ذریعے نیست ونابود ہوتے ہیں تو یہ بات ہمارے لئے باعث تعجب نہیں ہونا چاہیئے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ پسے ہوئے محروم انسانوں کے وسائل لوٹنے کے لئے ان کی استعماری طاقتوں نے اپنی اس ٹیکنالوجی اور مصنوعات پر ہی بھروسہ کررکھا تھا ۔

ج۔خدا کا نام۔ہر حالت میں او رہر جگہ: مندرجہ بالا آیات میں ہم نے پڑھا ہے کہ حضرت نوحعليه‌السلام نے اپنے اصحاب کو حکم دیا کہ وہ خدا کا نام کشتی کے رکتے اور چلتے وقت فراموش نہ کریں ، سب کچھ اس کے نام سے، اس کی یاد کے ساتھ اور اس کی پاک ذات سے مدد طلب کرتے ہوئے ہونا چاہیئے، ہر حرکت، ہر سکون میں ، حالت آرام میں اور طوفان میں سب کچھ اسی کے نام سے شروع ہونا چاہیئے کیونکہ جو کام اس کے نام کے بغیر شروع ہوگا وہ ابتر اور دم بریدہ ہوگا، جیسا کہ رسول اللہ کی مشہور حدیث میں ہے:کل امر ذی بال لم یذکر فیه بسم اللّٰه فهوابتر ۔

ہر اہم کام جس میں نام خدا نہ لیا جائے بد انجام اور دم بریدہ ہوگا ۔(۱)

اہم بات یہ ہے کہ نام خدا کا ذکر تکلفات اور تشریفات کے لئے نہ ہو بلکہ مقصد کے طور پر ہو یعنی جو کام خدائی مقصد کے تحت نہیں ہوگا اور اس کا ہدف خدا نہیں ہوگا وہ ابتر اور دم بریدہ ہوگا کیونکہ سارے مقاصد تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن الٰہی مقاصد ختم ہونے والے نہیں ہوتے، مادی اہداف جب اپنے کمال کو پہنچ جائیں تو ختم ہوجاتے ہیں لیکن خدائی اہداف اس کی پاک ذات کی طرح دائمی اور جاوداں ہوتے ہیں ۔

د۔ کمزور سہارے: عام طور پر ہر شخص اپنی زندگی کی مشکلات میں کسی چیز کا سہارا لیتا ہے اور پناہ گاہ ڈھونڈتا ہے، کچھ لوگ اپنی دولت وثروت کو سہارا سمجھتے ہیں ، کچھ مقام ومنصب کو، کچھ اپنی جسمانی طاقت کو اور بعض اپنی قوت فکر کو، لیکن جیسا کہ مندرجہ بالا آیات کہتی ہیں اور تاریخ نشاندہی کرتی ہے حکم خدا کے سامنے ان میں سے کسی چیز کی ذرہ برابر حیثیت نہیں ہے، ارادہ الٰہی کے سامنے ان میں سے کوئی چیز نہیں ٹھہر سکتی جیسے تار عنکبوت شدیدآندھی میں فوراً درہم برہم ہوجاتی ہے ۔

پیغمبر خدا حضرت نوحعليه‌السلام کا نادان اور سرپھرا بیٹا بھی اس غلط فہمی میں مبتلا تھا، اس کا خیال تھا کہ خدا کے طوفان غضب کے مقابلے میں پہاڑ اسے پناہ دے گا لیکن یہ اس کا کتنا بڑا اشتباہ تھا، طوفان کی ایک لہر نے اس کا کام تمام کردیا اور اسے ملک عدم میں پہنچا دیا، یہی وجہ ہے کہ ہم بعض دعاؤں میں پڑھتے ہیں :ها رب منک الیک ۔(۲)

میں تیرے غضب سے تیری طرف بھاگتاہوں ۔

یعنی اگر تیرے غضب کے مقابلے میں کوئی پناہ گا ہے تو وہ بھی تیری ذات پاک ہے اور بازگشت تیری ہی طرف ہے نہ کہ کسی اور کی طرف۔

ر۔کشتئی نجات: کشتئی نجات کے بغیرکسی طوفان سے نہین بچا جاسکتا، ضروری نہیں کہ وہ کشتی لکڑی اور لوہے کی بنی ہو بلکہ بعض اوقات یہ کشتی ایک کارساز، حیات بخش اور مثبت مکتب ومذہب ہوتا ہے جو انحرافی افکار کی طوفانی موجوں سے مقابلہ کرتا ہے اور اپنے پیروکاروں کو ساحل نجات تک پہنچا دیتا ہے، اسی بنا پر شیعہ اور سنی کتب میں پیغمبر اکرم صلی الله علیہ وآلہ وسلّم سے جو روایات نقل ہوئی ہیں ان میں آپ کے خاندان یعنی ائمہ اہل بیتعليه‌السلام اور حاملین مکتب اسلام کا”کشتئی نجات“ کی حیثیت سے تعارف کروایا گیا ہے ۔

حنش بن مغیرہ کہتا ہے:

میں ابوذر کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس آیا ، ابوذر نے بیت اللہ کے دروازے کے حلقہ میں ہاتھ ڈالا اور بلند آواز سے کہا:

میں ابوذر ہوں جو شخص مجھے نہیں پہچانتا پہچان لے، میں وہی جندب ہوں (ابوذر کا اصلی نام جندب تھا)، میں رسول اللہ کا صحابی ہوں ، میں نے اپنے کان سے آپ کو کہتے ہوئے سنا کہ آپ فرما رہے تھے:

مثل اھل بیتی مثل سفینة نوح من رکبھا نجیٰ۔

یعنی ۔ میرت اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی ۔(۳)

حدیث کے دوسرے طرق میں اس جملے کا اضافہ ہوا ہے:

فمن تخلف عنھا غرق۔

اور جو اس سے دور رہا اور جس نے تخلف کیا وہ غرق ہوا ۔(۴)

بعض جگہ یہ جملہ بھی ہے:من تخلف عنها هلک ۔(۵)

یعنی ۔ جو اس سے دور رہا وہ ہلاک ہوا ۔

رسول خدا کی یہ حدیث صراحت سے کہتی ہے کہ جس وقت فکری، عقائدی اور معاشرتی طوفان اسلامی معاشرے کا رخ کریں تو ایسے میں واحد راہ نجات اس میں مکتب میں پناہ لینا ہے، اس مسئلے کو ہم نے ملت ایران کے عظیم الشان انقلاب میں اچھی طرح سے آزمایا ہے کہ غیر اسلامی مکاتب کے پیروکاروں نے طاغوت کے مقابلے میں شکست کھائی اور صرف وہی لوگ کامیاب ہوئے جنھوں نے پناہ گاہ اسلام اور اہل بیتعليه‌السلام کے مکتب اور ان کے انقلابی پروگراموں کو بنایا ۔

____________________

۱۔ سفینة البحار، ج۱، ص ۶۶۳۔

۲۔ دعائے ابوحمزہ ثمالی ۔

۳۔ ابن قیتبہ دینوری جو مشہور علماء اہل سنت میں سے ہیں انھوں نے یہ حدیث عیون الاخبار ، ج۱، ص ۲۱۱ پر لکھی ہے ۔

۴۔ معجم الکبیر تالیف حافظ طبرانی، ص۱۳۰، (مخطوط)

۵۔ یہ حدیث بہت سے علماء اہل سنت مثلا ًحاکم نیشاپوری نے مستدرک میں ، ابن منازلی نے مناقب امیرالمومنین میں ، علامہ خوارزمی نے مقتل الحسین میں ، حموینی نے فرائد المسلمین۰ میں اور دیگر بہت سے علماء نے اپنی کتب میں نقل کی ہے (مزید وضاحت کے لئے احقاق الحق ، ج۹، ص ۲۸۰، طبع جدید کی طرف رجوع فرمائیں ۔

آیت ۴۴

۴۴( وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ وَیَاسَمَاءُ اٴَقْلِعِی وَغِیضَ الْمَاءُ وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔

ترجمہ

۴۴ ۔اور کہا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان رک جا، اور پانی نیچے چلا گیا اور معاملہ ختم ہوگیا اور وہ (کشتی) جودی (پہاڑ کے دامن) میں ٹھہرگئی اور (اس وقت )کہا گیا: دور ہو ظالم قوم۔

ایک داستان کا اختتام

جیسا کہ گزشتہ آیات میں ہم نے اجمالاً سربستہ طور پر پڑھا ہے کہ آخرکار پانی کی ٹھاٹھیں مارتی ہوئی لہروں نے تمام جگہوں کو گھیر لیا ، پانی کی سطح بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئی، جاہل گنہگاروں نے یہ گمان کیا کہ یہ ایک معمول کا طوفان ہے، وہ اونچی جگہوں اور پہاڑوں پر پناہ گزیں ہوگئے لین پانی ان کے اوپر سے بھی گزر گیا اور تمام جگہیں پانی کے نیچے چھپ گئیں ، ان طغیان گروں کے جسم، ان کے بچے کھچے گھر اور زندگی کا سازوسامان پانی کی جھاگ میں نظر آرہاتھا ۔

حضرت نوحعليه‌السلام نے زمام کشتی خدا کے ہاتھ میں دی، موجیں کشتی کو ادھر سے ادھر لے جاتی تھیں ، روایات میں آیا ہے کہ کشتی پورے چھ ماہ سرگرداں رہی، یہ مدت ابتدائے ماہ رجب سے لے کر ذی الحجہ کے اختتام تک تھی، ایک اور روایت کے مطابق دس رجب سے لے کر روز عاشورہ تک کشتی پانی کی موجوں میں سرگرداں رہی ۔(۱)

اس دوران میں کشتی نے مختلف علاقوں کی سیر کی یہاں تک کہ بعض روایات کے مطابق سرزمین مکہ اور خانہ کعبہ کے اطراف کی بھی سیر کی ۔

آخرکار عذاب کے خاتمے اور زمین کے معمول کی حالت میں لوٹ آنے کا حکم صادر ہوا، مندرجہ بالا آیت میں اس فرمان کی کیفیت ، جزئیات اور نتیجہ بہت مختصر مگر انتہائی عمدہ اور جاذب وخوبصورت عبرت میں چھ جملوں میں بیان کیا گیا ہے ۔

پہلے ارشاد ہوتا ہے: حکم دیا گیا کہ ات زمین! اپنے پانی نگل جاؤ( وَقِیلَ یَااٴَرْضُ ابْلَعِی مَائَکِ ) ۔

اور آسمان کو حکم ہوا ”اے آسمان ہاتھ روک لے“( وَیَاسَمَاءُ اٴَقْلِعِی وَ ) ۔

”پانی نیچے بیٹھ گیا“( غِیضَ الْمَاءُ ) ۔

”اور کشتی کوہ جودی کے دامن سے آلگی“( وَقُضِیَ الْاٴَمْرُ وَاسْتَوَتْ عَلَی الْجُودِیِّ ) ۔

”اس وقت کہا گیا: دور ہو ظالم قوم “( وَقِیلَ بُعْدًا لِلْقَوْمِ الظَّالِمِینَ ) ۔

مندرجہ بالاآیت کی تعبیرات مختصر ہوتے ہوئے بھی نہایت موثر اور دلنشین ہیں ، یہ بولتی ہوئی زندہ تعبیرات ہیں اورتمام تر زیبائی کے باوجود ہلا دینے والی ہیں ، بعض علماء عرب کے بقول یہ آیات قرآن میں سے فصیح ترین اور بلیغ ترین آیت ہے، روایات اور توریخ اسلام میں اس کی شہادت موجود ہے، لکھا ہے :

کچھ کفار قریش قرآن سے مقابلے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے، انھوں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ قرآنی آیات جیسی کچھ آیات گھڑیں ، ان سے تعلق رکھنے والوں نے انھیں چالیس دن تک بہترین غذائیں مہیا کیں ، مشروبات فراہم کئے اور ان کی ہر فرمائش پوری کی، خالص گندم کا معدہ، بکرے کا گوشت، ایرانی شراب غرض سب کچھ انھیں لاکر دیا تاکہ وہ آرام وراحت کے ساتھ قرآنی آیات جیسے جملوں کی ترکیب بندی کریں ۔

لیکن جب وہ مذکورہ آیت تک پہنچے تو اس نے انھیں اس طرح سے ہلا کر رکھ دیا کہ انھوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر کہا کہ یہ ایسی گفتگو ہے کہ کوئی کلام اس سے مشابہت نہیں رکھتا، یہ کہہ کر انھوں نے اپنا ارادہ ترک کردیا اور مایوس ہوکر ادھر ادھر چلے گئے ۔(۲)

کوہ جُودی کہاں ہے؟

بہت سے مفسرین نے کہا ہے کہ کوہ جودی جس کے کنارے کشتی نوح آکر لگی تھی اور جس کا ذکر مذکورہ آیات میں آیاہے وہی مشہور پہاڑ ہے جو موصل کے قریب ہے ۔(۳)

بعض دوسرے مفسرین نے اسے حدود شام میں یا ”آمد“ کے نزدیک یا عراق کے شمالی پہاڑ سمجھا ہے ۔

کتاب مفردات میں راغب نے کہا ہے کہ یہ وہ پہاڑ ہے جو موصل اور الجزیرہ کے درمیان ہے (الجزیرہ شمالی عراق میں ایک جگہ ہے اور یہ الجزائر یا الجزیرہ نہیں جو آج کل مشہور ہے) ۔

بعید نہیں کہ ان سب کی بازگشت ایک ہی طرف ہو کیونکہ موصل ، آمداور الجزیرہ سب عراق کے شمالی علاقوں میں ہیں اور شام کے نزدیک ہیں ۔

بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ جودی سے مراد ہر مضبوط پہاڑ اور محکم زمین ہے یعنی کشتی نوح ایک محکم زمین پر لنگر انداز ہوئی جو اس کی سواریوں کے اترنے کے لئے مناسب تھی، لیکن مشہور ومعروف وہی پہلا معنی ہے ۔

کتاب” اعلام قرآن“ میں کوہ جودی کے بارے میں تحقیق کی گئی ہے، یہ تحقیق ہم ذیل میں پیش کرتے ہیں :

جودی ایک پہاڑ کا نام ہے جس پر کشتی نوح آکر ٹھہر گئی تھی، اس کا نام سورہ ہود کی آیہ ۴۴ میں آیا ہے کہ جس کا مضمون تورات کے مندرجات کے قریب ہے، کوہ جودی کے محل ومقام کے بارے میں تین قول ہیں :

۱ ۔ اصفہانی کے بقول کوہ جودی عربستان(۴) میں ہے اور ان دو پہاڑوں میں سے ایک ہے جو قبیلہ ”طی“ کی حکومت میں تھے ۔

۲ ۔ کوہ جودی کاردین کا سلسلہ ہے جو جزیرہ ابن عمر کے شمال مشرق اور دجلہ کے مشرق میں موصل کے نزدیک میں واقع ہے، اکراد اسے اپنے لب ولہجہ میں کاردو اور یونانی جوردی اور اعراب جودی کہتے ہیں ۔

ترگوم یعنی تورات کے کلدانی ترجمے میں اور اسی طرح تورات کے سریانی ترجمے میں کشتی نوح کے رکنے کی جگہ کوہ اکراہ کا قلعہ ”کاردین“ معین ہوا ہے، عرب کے جغرافیہ دانوں نے بھی قرآن میں مذکورہ کوہ جودی کو یہی پہاڑ قرار دیاہے اور کہا ہے کہ کشتی نوح کے تختے کے کچھ ٹکڑے بنی عباس کے زمانے تک اس پہاڑ کی چوٹی پر باقی تھے اور مشرکین ان کی زیارت کیا کرتے تھے ۔

بابل کی داستانوں میں طوفان نوح کی داستانوں سے مشابہ ایک داستان موجود ہے ۔

علاوہ از ایں یہ احتمال ہے بھی ہے کہ دجلہ میں طوفان آیا ہو اور اس علاقے لوگوں کو طوفان کا سامنا کرنا پڑا ہو۔

کوہ جودی پر آشوری کتیبے موجود ہیں ، انھیں کتیبہ ہائے مسیر کہتے ہیں ، ان کتیبوں میں ”ارارتو“ کا نام نظر آتا ہے ۔

۳ ۔موجودہ تورات کے ترجمے میں کشتی نوح کے رکنے کی جگہ آرارات کے پہاڑ قرار دی گئی ہے اور وہ کوہ ماسیس ہے جو ارمنستان میں واقع ہے ۔

قاموس کتاب مقدس کے مولف نے پہلے معنی کو ”ملعون“ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روایات کے مطابق کشتی نوح اس پہاڑ کے اوپر رکی اور اسے عرب جودی کہتے ہیں ، ایرانی کوہ نوح کہتے ہیں اور ترک”کرداغ“ کہتے ہیں کہ جو ڈھلوان کے معنی میں ہے اور وہ ارس کے قریب واقع ہے ۔

پانچویں صدی تک ارمنستانی ارمنستان میں جودی پہاڑ کو نہیں جانتے تھے، اس صدی سے شاید تورات کے ترجمہ نگاروں کو اشتباہ ہوا ہے اور انھوں نے کوہ اکراد کا ترجمہ کوہ آرارات کردیا جس کی وجہ سے ارمنی علماء کو یہ خیال پیدا ہوگیا ہے ۔

شاید یہ خیال اس وجہ سے پیدا ہوا ہو کہ آشوری لوگ ”وان“ جھیل کے شمال اور جنوب کے پہاڑ کو ”آرارات“ یا”آراراتو“ کہتے تھے ۔

کہتے ہیں کہ طوفان ختم ہونے کے بعد حضرت نوحعليه‌السلام نے کوہ جودی کی چوٹی پر ایک مسجد بنائی تھی ۔

ارامنی بھی کہتے ہیں کہ کوہ جادی کے نیچے قریہ ”ثمانین“ یا”ثمان“ وہ پہلی جگہ ہے جہاں حضرت نوحعليه‌السلام کے ہمراہی آکر اترے تھے ۔(۵)

____________________

۱۔ تفسیر قرطبی، ج۵، ص ۳۲۶۹ ، تفسیر ابولفتوح رازی، ج۶، ص۲۷۸، تفسیر مجمع البیان، ج۵، ص ۱۶۴، اور طبری، ض ۱۲، ص ۲۹۔

۲۔ مجمع البیان، ج۵، ص ۱۶۵، روح المعانی، ج۱۲، ص ۵۷۔

۳۔ مجمع البیان ، روح المعانی اور قرطبی، زیر بحث آیت کے ذیل میں ۔

۴۔ جس کا نام آج کل موجودہ حکمرانوں نے اپنے خاندان کے نام پر” سعودی عرب“رکھا ہوا ہے ۔ (مترجم)

۵۔ اعلام قرآن خزائلی، ص ۲۸۱۔