بحث کے کلّیات اور مقدمات
جیسا کہ ہم نے عرض کیا : ہم اس کتاب میں آئین ”وہابیت“ کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے ، اور اس تحقیق میں ( وقت کی کمی کے خاطر ) مختصر طور پر اس فرقہ کی خصوصیات، انحرافات اور نامطلوب نتائج کو بیان کریں گے ، وہابیت کا دعویٰ یہ ہے کہ ہم ہر قسم کے شرک و بت پرستی کی نفی کرتے ہیں ، اور اسی وجہ سے انبیاء اور اولیاء علیہم السلام کی زیارت ، ان سے توسل ، درخواست مدد ، طلب حاجت اور پیغمبروں کی قبروں کی زیارت نیز خدا کے خاص و پاک وپاکیزہ اور پرہیزگار بندوںکی قبروں کی زیارت کو حرام قرار دے دیا ہے ۔
انشاالله ہم اس کتاب میں مذکورہ مطالب کے جوابات کے ساتھ ان کے بارے میں بحث و بررسی کریں گے، لیکن ہم ابتداء گفتگوہی میں ایک بات کو وضاحت کے ساتھ کھنا چاہتے ہیں کہ وہابیوں کا ”شرک سے مقابلہ“ کانعرہ ، میدان عمل میں مسلمانوں کا قتل عام ، فتنہ و فساد اور تباہی کے علاوہ کچھ نہیں ہے ، یھاں تک کہ یہ بھی دعویٰ کیا جا سکتا ہے کہ یہ فرقہ ظاہرپرست عقائد اور شدت پسند و تفرقہ بازی سے استعمار اور اسلام دشمن طاقتوں کے ھاتھوں اس کا خطرناک حربہ بن چکا ہے ، اور ا ستعمار نے اس فرقے کوسیاسی میدان میں اتحاد بین المسلمین کے راستے میں رکاوٹ کے طور پر استعمال کررہا ہے ،
اورہم واضح طور پر کہہ سکتے ہیں کہ غلط اور ظاہر پسند تعلیمات کی وجہ سے اس سطحی اورظاہر پسند مقصد کے تحت یہ فرقہ وحدت اسلامی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے اور اسی وجہ سے مسلمانوں کا قتل عام ہوا ،اور مسلمانوںمیں اختلاف اور جدائی کا سبب بناہے ۔
مسلمانوں سے دشمنی اور لڑائی کرنا، ان کو کافر اور مشرک جاننا، مومنین کو اذیت پہونچانا ، ان کے لئے ضرب و شتم و لعن کو جائزقرار دینا ،و ھابیت کی بدترین اور بھیانک تصویروں میں سے ہے، جو ایک فاسد اور تخریب کار فرقہ کہ جس کانعرہ ہی تخریب،تباہی و بربادی ، تفرقہ بازی ، وحشی گری اوربے رحمی ہے مسلمانوں کا قتل عام ، شرک اور بت پرستی سے مقابلہ کا بھانہ، ائمہ اور اولیاء الله کیِ قبروں کا انھدام
توحید کے نعرے کو عملی جامہ کا بیان، اور شرک کی نفی، شرک سے مقابلہ کا نعرہ ، وہابیت کے کارناموں میں سے ہے۔
اس فرقے کے ماننے والے خونخوار ، وحشی استعمار، عالمی استکبار اورغنڈاگردی ، غارت گری اور ظلم و ستم کرنے والے سے جنگ و جدال کرنے کے بجائے خود مسلمانوں سے بر سر پیکار ہوگئے ، اور عالمی غارت گروں اور ظالموں کہ جن کا پورا ہم وغم اسلام کے تقدس کو پائمال اور قرآنی تعلیمات کو نابود کرنا ہے ، سے مقابلہ کے بجائے مسلمانوں کے قتل وغارت اور ان سے جنگ و جدال کے لئے کمر ہمت باند ھ لی ، اس طرح کہ مسلمانوں کو کافر کھنا اور ان کو ذلیل سمجھنا اور تمام اسلامی فرقوں کو کافر کھنا اس فرقہ کے راسخ عقیدوں میں سے ہے۔
ان لوگوں نے تاریخ کے بے رحم اور ظالموں و جابروںکے خلاف آواز اٹھانے کے بجائے خود مسلمانوں کے خلاف قیام کردیا ،اور برادر کُشی شروع کردی ، دشمنان خدا سے جنگ کرنے کے بجائے اپنی پوری طاقت کے ساتھ سچے مومنوں اور مسلمانوں سے نبرد آزماں ہوگئے۔
جبکہ عالمی استعمار بھی یہی سب کچھ چاہتا تھا ،عالمی استعمار کے اہداف و مقاصد، اسلام و قرآن کو نابود کرنا ، اسلام کی آزادی اور تکامل تک پھنچانے والی تعلیمات نیزمشکلات کو حل کرنے والی تعلیمات کو بھی ختم کرنا ، مسلمانوں کو ایک دوسرے کے خلاف بھڑ کانا ، اور ان میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا ہے، اور وہابیت استعمار کی اس خواہش کو پورا کرنے کے علاوہ اور کچھ چاہتی ہی نہیں ہے ، آج کل وہابیت دانستہ یا نادانستہ طور پراستعمار کی مدد میں مشغول ہے ،اور اپنی تمام تر قوتوں کے ساتھ استعمار کے نا پاک ارادوں کو پورا کرنے کی کوشش کر رہا ہے ، مسلمانوں میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا عالمی استعمار کی پرواز میں اس کو تقویت کرنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے جبکہ مسلمانوں کو متحد ہو کر کفار اور مشرکین اور ستم گروں کا مقابلہ کرنا چاہئیے تھا ۔
کیا وہ لوگ مشرک نہیں ہیں جھنوں نے اپنی پوری قوت کو اسلام کے مقاصد کو پورا کرنے میں صرف کرنے کے بجائے اسلام اور قرآن کے دشمنوں سے عقد اخوت پڑھ لیا ہے ، اور ان کو مسلمانوں پر ترجیح دیتے ہیں اور ان سے دوستی کرتے ہیں۔
خرید کران سے اسلامی انقلاب ایران ، شیعوں اور ان کی مقدسات کے خلاف کتابیں اور رسالے لکھوائے ، اور ان کی ڈیوٹی لگائی،کہ انقلاب اسلامی ایران اور پاک و پاکیزہ شیعہ مذہب پر ایک فرھنگی ، فکری حملہ کریں ، یھاں تک کہ حضرت فاطمہ زھرا سلام الله علیھا کے بارے میں ۷ ا کتابیں ان کی ضد میں چھاپی گئی ہیں ، اور حضرت امام خمینی کے خلاف لا تعداد کتابیں ہیں جن میں ان کے خلاف نازیبا الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ، اسی طرح اسلامی انقلاب ایران کے خلاف بھی بہت سی کتابیںچھپی ہیں ۔
بے شرمی ، عداوت اور کینہ اس حد تک بڑھ گیا ہے کہ امام خمینی کی تقریر کا ایک جملہ کو لے کر اس اپنی مرضی کے مطابق تاویل کرتے ہیں اور اس کے خلاف تبلیغات کرتے ہیں۔
لیکن وہ مسلمان جو حاجت مند اور پاک دل ہیں، انہیں لوگوں کے ظلم و ستم سے مجبور ہو کر حضرت رسول اسلام (ص)کی قبر منور پر گریہ و زاری کرتے ہےں،وہ مشرک اور بت پرست ہےں؟ اور تعجب تو اس بات پر ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) کی قبر مقدس کو ” بڑا بُت “ کہتے ہیں اور سُوپرطاقتوں کے کہ جن کا پیشہ ہی جنایت ہے رسوا کن پرچم کے نیچے جانے میں اپنے لئے افتخار سمجھتے ہیں ، لیکن خدا کے مقرب اور کامل بندوں کی کہ جو غیب کی بھی خبر رکھتے ہیں اور ان کا پاک دل عالم ملکوت سے متصل ہے ، کی در گاہ میں حاجت روائی کیلئے حاضر ہونا ان کے نزدیک شرک اور بت پرستی ہے۔
واقعاً بہت تعجب ہوتا ہے کہ آج کل اسلام خود اپنے ماننے والوں کے در میان اکیلا اور مظلوم ہے
،بدا الاسْلامُ غَریباً وَ سَیَعُودُ غَریباً فَطُوبیٰ لِلْغُرَباء
!
جی ہاں انھوں نے امام علی علیہ السلام کے فرمان کے مطابق اسلام کا لباس الٹا اوڑھ لیا ہے اور اسلامی اہداف کو ذرہ برابر بھی نہیں سمجھے ہیں ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مسلمان ،کفار اور مشرکین کی آغوش میں بیٹھ کر توحید کا دم بھرے ، اور ان ظالموں اور ستمگروں کے ساتھ دوستی اور محبت برقرار رکھیں کہ جو توحید کو مٹا ناچاہتے ہیں ، نیز یہ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ کوئی اپنی تمام تر طاقتوں کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف کام کرے ، اور ان کو کافر اور مشرک بتائے اور اس کے بعد توحید ( عبادت در توحید) کا دعویٰ کرے ، ان کی عبادت کی عجیب شکلیں ہیں کہ جن سے عالمی سیاست دانوں کی گندی بو آتی ہے ، اور کیا ان لوگوں کے سامنے تواضع اور انکساری کرنا شرک نہیں ہے ؟ کیا صرف حضرت رسول اسلام ، سید المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آستانہ مقدس میں اپنی حاجات کو پیش کرناشرک ہے۔
کیا ذلت اور رسوائی کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا توحید کے منافی نہیں ہے؟ کیا ائمہ معصومین (ع) کی زیارت کیلئے جانا اور اپنی حاجات پیش کرنا ، اور ان کے پاک و پاکیزہ نفوس کے ذریعہ الھام لینا ،توحید سے سازگاری نہیں رکھتا ؟! یہ ہیں عبادت میں توحید کے معنی! ظالموں اور کفر کے حامیوں سے دوستی ، کیا مسئلہ توحید کو نقصان نہیں پہونچاتی،اور خدا کے ان صالح بندوں سے جو فیض میں واسطہ ہیں اور اسما ء و صفات پروردگار کے مظھر کامل ہیں، ان سے توسل، مکتب توحید کو ضرر پہونچاتا ہے۔
ما در پیالہ عکس رخ یاردیدہ ایم ای بی خبر زلذت شرب مدام ما
” ہم نے اپنے محبوب کے عکس کی جھلک کاسہ ( عشق ) میں دیکھی ہے تمھیں کیا خبر ہم ہمیشہ کس چیز کا جام لیتے ہیں “ ۔
یہ نا فہم ، حضرات معصومین علیہم السلام اور اولیاء الہٰی کے پاک و صالح بندوں کی زیارت کو ان کی پوجا سمجھتے ہیں اور ان کے زائرین کو ان کا عبادت گذار مانتے ہیں ، ان کو نہیں معلوم کہ ہم ان کا احترام و اکرام ان کی عبودیت اور بندگی کی وجہ سے کرتے ہیں کیونکہ انھوں نے خداوندعالم کی اس طرح عبادت اور بندگی کی کہ خداوند عالم سے ان کا محکم و مضبوط رابطہ ہوگیا ، ورنہ خود ان کا کوئی مقام نہیں ہے ، ان کا احترام فقط خدا کی وجہ سے ہے ، یہی وجہ ہے کہ کوئی زائر کسی فاسق و فاجر کی قبر پر نہیں جاتا ، بلکہ اس با عظمت شخص کی قبر پر جاتا ہے کہ جس نے اپنی عمر خانہ کعبہ کے طواف میں گذاردی ہو ، شاعر کہتا ہے :
سالھا عشاق خاکم را زیار نگہ کنند
چونکہ من روزی طواف کوی جانان کردہ ام
”سالھا سال سے میری قبر زیارت گاہ بنی ہوئی ہے ، کیونکہ میں نے خانہ کعبہ کا طواف کیا ہے“ ۔
واقعاً انسان کو تکلیف ہوتی ہے اور حضرت امام علی کے فرمان کے مطابق ”وَ اللّٰہ یُمیتُ القلبَ“ اس موقع پر ہر مومن اور متقی انسان کا خون کھول جاتا ہے ۔
خلاصہ یہ ہے کہ وہابیوں کے عقاید ان کی بے بنیادی اور انحرافی عقیدت کے بارے میں اس کتاب کے آئندہ صفحات پر بیان ہونگے ، لیکن ہم یھاں پر چند نکات کو مقدمہ کے طور پر بیان کرتے ہیں تا کہ بحث کا زمینہ ہموار ہوجائے اور قارئین کرام کے ذھن و فکر میں وسعت پیدا ہوجائے تا کہ آئندہ ہماری باتوں کو دقت کے ساتھ سمجھنے کی کوشش کریں ۔
عالمی استعمار اور فرقہ بندی
اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ استعمار اور استکبار اپنی فاسد حکومت قائم کرنے کیلئے راستہ ہموار کررہا ہے ، اس کا ہمیشہ سے یہی نعرہ رہا ہے ” لڑاو اور حکومت کرو“ عالم اسلام میں ایک دوسرے کے خلاف تکفیر و تفسیق(دوسرے کو کافر اور فاسق کھنا) کے فتوی کی فضا ایجاد کرنا اس کے اہم مقاصد میں سے ہے۔پس فرقے سازی اور مذہب تراشی کی بہت بڑی وجہ استعمار ہے کہ مسلمانوں کے درمیان تکفیر دوسرے فرقوں کے خلاف بدبینی،تہم ت اور اسلامی شخصیتوں کے خلاف جھوٹ کی نسبت جیسی نحس فضا کو ایجاد کرنا ، اگر ہم دیکھیں تو استعمار کا سب سے اہم ہتھکنڈا، مسلمانوں کو کمزور کرنے کے لئے یہی تفرقہ اندازی ، فرقہ بندی، پیامبر تراشی ہے اورہماری یہ بات بالکل حقیقت ہے اس میں کوئی بھی مبالغہ نہیں ہے۔
اس بات کو واضح کرنے کیلئے ہم پھلے چند مطالب کو بعنوان مقدمہ بیان کریں گے اور اس کے بعد اپنی اصلِ بحث کا آغاز کریں گے ، تا کہ معلوم ہوجائے کہ استعمار نے ایسے اقدامات کیوں کئیے ، اس کے اغراض و مقاصد کیا ہیں اور کن مکاّریوں کے ساتھ ان اہداف تک پہونچنا چاہتا ہے۔
استعمار کے اہداف اور اس میں روکاٹیں
استعماری طاقتیںدوسرے ممالک پر اپنی حاکمیت قائم کرنے کیلئے خصوصاً ضعیف اور کمزور ممالک پر ، اور ان کی مادی اور معنوی دولت کو غارت کرنے کیلئے کچھ موانع سے ہمکنار ہوتی ہیں ، اور کسی بھی ملک میں آسانی سے داخل نہیں ہوئی اور نہ کبھی ان کا کوئی استقبال ہوا ہے ، خصوصاً ان کو آتے وقت بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،
غریب اور کمزور ممالک میں اپنے کلچر کو جاری کرنا استعمار کی ایک نئی چال ہے تاکہ ان ممالک کو تباہ و برباد کرسکے، سارے افکار کو ختم کرکے ان کی جگہ غلط اور برے افکار کو لوگوں کے ذھن میں ڈالنا ، اخلاقی مفاسد کو رواج دینا ، سیکس کی طرف لوگوں کا جذب کرنا ،جاسوسی اڈّے بنانا،نیز ہزاروں مختلف طریقوں اور چالوں سے استعمار اپنے شیطانی مقاصد کو پورا کرنا چاہتا ہے مثلاً سیکڑوں بکے ہوئے رائٹروں کو نوکری دینا ، لوگوں کے ذھنوں کو خریدنا،اور لوگوں کی صحیح و سالم صلاحیتوں کو ناکارہ بنانا ، چونکہ اپنے ناپاک مقاصد کے سامنے اسلامی طاقت کو ایک رکاوٹ کی طرح دیکھتاہے اسی وجہ سے ”حقیقی اسلام “ کو بدل کرایک ” نقلی اسلام “ ایجاد کرنے کی فکر میں لگا ہوا ہے تا کہ حقیقی اسلام کی اہم یت اور خاصیت کو ختم کرکے اس سے مقابلہ کیا جائے ، اسی چیزکے مد نظر اسلامی ممالک میں جعلی مذہبی فرقے ایجاد کررھے ہیں تا کہ حقیقی اور انقلابی اسلام کو پھیلنے سے روک سکیں ۔
لوگوں کا متحرک اور استعمار کے مقابلہ کیلئے قیام کرنے کے ، بہت سے عوامل اور اسباب ہیں مثلاً قومی ، لسانی، ثقافتی اورمذہبی،ان میں سے بعض اسباب صرف تھوڑی مدت کیلئے کارگر اور مؤثر ہوتے ہیں تا کہ ایک مخصوص زمانہ میں استعمار کامقابلہ کما حقہ کرسکیں لیکن اس کے بعد اہستہ اہستہ وہ کم رنگ ہوجاتی ہیں ، اور اپنا کام کرنا چھوڑ دیتی ہیں ، لیکن ان سب رکاٹوں میں اگر کوئی رکاوٹ محکم بند کی طرح استعمار کے مقاصد کا مقابلہ کرسکی تو وہ ہے” قدرت دین“ اور لوگوں میں مذہب کا نفوذ ، اور دین بھی دین اسلام ، یہ وہ چیز ہے کہ جس کا استعمار نے ہمیشہ اعتراف کیا ہے ۔ مثلاً قدیمی استعمار کا نمایندہ ” انگلینڈ کی پارلیمینٹ “ میں قرآن کو ھاتھ میں لیکر کہتا ہے :
”یورپ کو معلوم ہونا چاہئے کہ جب تک مسلمانوں کے پاس یہ راہنما کتاب موجود ہے اور مسلمان اس پر عمل کرتے رہیں گے، تب تک ہماری استعماری سیاست ان کی سرزمینوں پر قائم نہیں ہو سکتی “
نقش قرآن چون در این عالم نشست نقشہ ھای کاہن و پاپا شکست
فاش گویم آنچہ در دل مضمر است این کتابی نیست چیزی دیگر است
چونکہ در جان رفت جان دیگر شود جان چو دیگر شد جھان دیگر شود
”اگر قرآن کی تعلیمات پر انسان عمل کرے تو اس میں انقلاب آجاتا ہے اور جب انسان انقلابی ہوجاتا ہے تو وہ دنیا میں بھی انقلاب لاسکتا ہے“
” میں اپنے دل کی بات کو واضح طور پر کھناچاہتا ہوں کہ قرآن ایک کتاب نہیں بلکہ کوئی اہم چیزھے “
”اگر یہ قرآن انسان کی روح میں بس جا ئے تو روح انسان منقلب ہو جاتی ہے اور جب روح منقلب ہو جاتی ہے تو دنیا میں انقلاب برپا ہو جاتا ہے “
اور آج جبکہ اسلامی نسیم سحر شروح ہو چکی ہے اور تحریک کنندہ جھونکوں کے ساتھ صبح پیروزی کی خبردے رہی ہے سارے وحشی استعمار اور ظالم و جابر متفق ہو کر یہ کہہ رھے ہیں : ” ہمارے منافع کیلئے سب سے بڑا خطرہ اور رکاوٹ ”اسلام“ ہے کیونکہ دین اسلام کچھ ایسی ہی خاصیتوں کا حامل ہے کہ جو اکیلے ہی استعمار کے اہداف میں ایک اہم مانع ہے ، جبکہ دوسرے مذاہب میں یہ خاصیت نہیں ہے ان میں سے چند چیزوں کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
اسلامی تعلیمات کا اثر
اسلام کی حیات بخش تعلیمات اور اس کے عبادی و سیاسی احکامات ہمیشہ شیاطین اور استعمار کے لئے خطرہ تھا کہ جو اِن کے ناپاک ارادوں کیلئے سرزنش تھا ، کیونکہ اسلام نے ہر قسم کے استعمار ، استثمار(دوسرے کی محنت سے خود فائدہ اٹھانے والا ) اور بد معاشی ، غنڈا گردی کی مذمت کی ہے اور اس کو قبول نہیں کیا ہے ، اور مسلمانوں کو ظلم اور ظالم کے خلاف تحریک کیا ہے، روئے زمین پر عدالت اجتماعی قائم کرنے کیلئے اور لوگوں کو استعمار کے قید و بند سے آزاد کرانے کیلئے، نیز فتنہ اور فتنہ گروں کے خاتمہ کے لئے ، اسلام اپنے ماننے والوں کو ہر موقع پر مقابلے کی دعوت دیتا ہے ، البتہ یہ آزادی کا نعر ہ صرف مسلمانوں کی آزادی کیلئے نہیں ہے بلکہ دنیا بھرکے تمام محروم اورمظلوم لوگوں کیلئے ہے ۔
مَنْ اَصْبَحَ وَ لَا یَهتَمَّ بَاُمورِالمُسْلِمِین فَلَیْسَ بِمُِسْلِمٍ
“۔
جو شخص صبح اٹھ کر دوسرے مسلمانوں کے بارے میں نہ سوچے وہ مسلمان نہیں ہے۔
وَ مَن سَمِعَ رَجُلاً یُنادِی یَا لَلْمُسْلِمِیْنَ فَلَمْ یُجَبْهُ فَلَیسَ بِمُسْلِمٍ
۔
جو شخص کسی کو مدد کے لئے پکارے اور وہ جواب نہ دے تو وہ مسلمان نہیں ہے ۔
اسلام، مسلمانوں کو کفار سے ہر قسم کی دوستی سے منع کرتا ہے
اور ان کے پاس آمد ورفت ، انکی رھبری کو قبول کرنے
اور ان سے مشورہ کرنے سے روکتاہے ، اور کلمہ توحید کے سایہ میں اپنے ماننے والوں کے چاہے جس قوم و قبیلہ سے بھی ہوں ، ہر طرح کی امتیاز بندی کو ختم کرکے ، اتحاد کی دعوت دیتاہے ، اور اس زمین پر حکومت الہٰی چاہتا ہے
یا ایسی جس میں لوگ ایک دوسرے سے مل کررہیں
۔
جیسے محکم رشتہ سے منسلک ہوں اور ایک جسم کے اعضاء کے مانند اگر ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو دوسرے اعضاء بھی پریشان ہو جاتے ، ہیں
اور آیہ کریمہ کے مطابق :
(
مُحمدٌرَسوُلُ اللهِ وَالَذِیْنَ مَعَهُ اَشِدَّاءُ عَلی الکُفَّارِ رُحْمَاءُ بَیْنَهُمْ
)
”
مسلمان آپس میں رحم دل اور کفار کے مقابلے میں سخت ہیں ، اسلام اپنے ماننے والوں کی ایسی متحد اور مستحکم بنیان مرصوص ( سیسا پلائی ہوئی دیوار ) ہیں کہ دشمنوں کو پریشان کردیتے ہیں“
یہ سب تعلیمات اسلامی مسلمانوں کیلئے ہمیشہ باعث تقویت اور ستمگروں اور مستکبروں کے خلاف الھام کا باعث بنا ، اسلام نے انہیں تعلیمات کے ذریعہ صدر اسلام کے مسلمانوں میں ، ظلم کے مقابلے میں تحریک ، اور انقلاب ایجاد کیا ہے ۔
اور اگر آخری صدی کے انقلابات کو ملاحظہ کریں تو ہمیں اسلام کی حیات بخش تعلیمات کا صحیح اندازہ ہو جاے گا ، کہ کس طرح ظلم و ستم کے خلاف اپنی آواز بلند کی ہے ۔
جسے دوست اور دشمن سب کہتے ہیں کہ الجزائر میں انقلاب کی وجہ اسلام ہے کہ جس کی وجہ سے فرانس کو نکال باہر کیا ۔” گولیٹ “ اور ” فرانسیس جانسون “ دو مشھور و معروف رائٹر اس سلسلہ میں لکھتے ہیں :
”یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ اہل الجزائر کو آزادی کا سبق اسلام نے سکھا یا ہے ، الجزائر والوں نے بہت پھلے سے استعمار کے ظلم و تشدد کو برداشت کیا ہے ، فرانسویوں کا اصل مقصد اسلام کو مٹانا تھا، اہل الجزائر نے جب یہ سمجھ لیا کہ اسلام ہی ان کیلئے راہ نجات ہے ، توسب لوگ اسلام کے دامن میں آگئے تا کہ ان کو آزدی مل سکے“
اسی طرح کا اسلامی انقلاب عالم ربّانی، فقیہ عارف ومجاہد حضرت امام خمینی (رہ) کی رھبری میں ایران میں آیا ، اور اسلامی حکومت تشکیل پائی ،یہ انقلاب، اسلام کے نام پر اور اس کی حیات بخش تعلیمات کے ذریعہ آغاز ہوا اور الحمد للہ کامیابی حاصل ہوئی۔
خلاصہ یہ ہے کہ جس قوم میں بھی یہ تعلیمات پائی جائیں اور اس پر عمل بھی ہو بغیر کسی شک کے وہ قوم خود اپنے قسمت پر حاکم ہوگی ، اور استعمار ایسی امت پر مسلط ہونے کی امید بھی نہیں کرسکتا۔
استعمار کی ترکیبیں
جب استعمار نے اپنے سامنے اس بڑی رکاوٹ اورمضبوط قلعہ کو دیکھا تو ان سے مقابلے کیلئے مختلف راستے تلاش کرنے شروع کردئے اور اپنی پوری طاقت کو ان رکاوٹوں کی نابودی کیلئے صرف کردی ، اور مختلف طریقوں سے یہ کام انجام دیا،
ہم یھاںپراس کی فھرست بیان کرتے ہیں :
میں بھی ، اسلام کے زندگی ساز احکامات پر اعتقاد اور عمل ، مسلمانوں کی کامیابی کا سبب ہے اس طرح ایران میں بھی جس وقت حقیقی اسلام ( نہ کہ بناوٹی اسلام کہ جو روح اور معنویت سے خالی ہو) لوگوں کے دل میں اپنی جگہ بنالیتاہے دیندار اور شجاع مسلمان بیدار ہوجاتے ہیں ، اور اپنے بت شکن رھبر ( حضرت امام خمینی) کی اطاعت کرتے ہیں اور ان کی راہنمائیوں کی وجہ سے اپنے زمانے کے طاغوت پر کامیابی حاصل کر لیتے ہیں ، اور اسی طرح لبنان افغانستان ، مصر اور دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے واقعات رونما ہوئے ہیں، جس وقت مسلمانوں نے دین اسلام کی طرف توجہ کی اور اس کے انقلابی احکامات سے الھام لیا تب ہی ان کو عزت ، شرف اور سرفرازی نصیب ہوئی ہے او راستکبار جھانی کی کمر توڑ ڈالی او راس کو ذلیل وخوار کرڈالا ہے ۔
”استعمار گر ، اور استعمار شدہ میں بیگاری ( بغیر پیسہ کے مزدور ی) خوف و وحشت ، پولیس ، ٹیکس ، چوری ، اہل خانہ کو بے آبرو کرنا ، دوسرے کلچر کو زبردستی رواج دینا ، ذلت اور بدگمانی ، اپنا مفاد ، فتنہ وفساد اوربد مزگی ایجاد کرنا، بے وقوفوں کو انتخاب کرنے اور فاسد لوگوں کے جمع ہونے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ۔انسانی تعلقات اور روابط کچھ نہیں صرف ڈکٹیٹر شپ ہے :
یھاں تک کہ ہر قدم پر ان کی اطاعت کرتے رھو ،ورنہ سخت سے سخت سزا جھیلنے کے لئے تیار ہو جاؤ ، کیونکہ ھرشخص ان کی نظر میں ایک مشین جیسی حیثیت رکھتا ہے ،استعمار انسان کی اہم یت کو پامال کرتاہے ، اور مجھ سے ترقی کی باتیں کرتا ہے ، تاسیسات ،بیماریوں پر کنٹرول اور اعلی زندگی کی گفتگو کرتا ہے ، اور میں لوگوں کی تاراج ہونے کا ذکر کرتا ہوں، میں اس کلچر کی گفتگو کرتا ہوں جو اجاڑدی گئیں میں ان انجمنوں کا ذکر کرتاہو ںجو ختم کردی گئیں، میں ان زمینوں کا ذکر کرتا ہوں جو غصب کرلی گئیں ، میں ان مذہب و ملت کا ذکر کرتا ہوں جو نیست و نابود کردئے گئے ، میں ان تمام بہترین امکانات کا ذکر کرتاہوں جو ختم کردئے گئے ، استعمار اپنی بہت سی کارکرد گی کو میرے سامنے رکھتے ہیں ،جیسے سڑکیں بنوانا، ریلوے لائن بچھواناوغیرہ وغیرہ۔
میں ان ہزاروں لوگوں کے بارے میں کہتا ہوں کہ جو ” کنگو“ میں ماردئے گئے، میں ان کے بارے میں کہتا ہوں کہ جو ابھی تک ” ابیجان“ میں قید ہیں ، میں ان کروڑوں لوگوں کی بات کرتاہوں کہ جن کو ایمان، زمین، رسم و رواج اور زندگی سے کلی طور پر محروم کردیا گیاہے۔
میں ان کروڑوں لوگوںکی بات کرتاہوں کہ جن میں خوف و وہشت ذلت و خواری ، ناامیدی اور غلامی کو کوٹ کوٹ کر بھر دیا گیا ہے ، مجھ سے تمدن کی باتیں کرتے ہیں میں ان لوگوں کی باتیں کرتا ہون کہ جن کو غریب اور فقیر مزدور طبقہ میں تبدیل کردیا گیا ، اور آج بھی ان کو بے وقوف بنایا جارہا ہے “
قارئین کرام : یہ تھے ایک افریقی شاعر اور لائیٹر کی دردناک فریاد ، اور آتشی جملے ، جو تمدن جدید !! کے ظلم و تشد د کو بیان کرتے ہیں اور یہ وہی قدیم زمانے کی جاہلیت اور بربریت ہے جو اپنا چھرہ بدل کر لوگوں کو دھوکہ میں ڈالے ہوئے وہی سب کارنامے انجام دے رہی ہے ۔
افریقی مصنف ان باتوں کو بیان کرتے ہیں اور عدالت میں کھڑا کرتے ہیں اور صرف یہ تو استعمار کے ظلم وتشدد کا ایک نمونہ اس کتاب سے پیش کیا ہے خود کتاب میں بہت سے دردناک واقعہ بیان کے گئے ہیں ۔
ا۔ بلا واسطہ مقابلہ
الف: فوجی مقابلہ
اسلامی ممالک پر فوجی قبضہ کرنا جیسے : عراق ، افغانستان ، ایران ، الجزائر وغیرہ پر ۔
ب: اسلامی تعلیمات پر مختلف طریقوں سے حملہ آور ہونا
مثلاً اسلامی تعلیمات میں ردو بدل اور اسلامی احکام کو برعکس پیش کرنا ، اور اسلام اور اس کی مقدس چیزوں پر تہم تیں لگانا۔
۲ ۔ بالواسطہ مقابلہ
الف: مسلمانوں کے درمیان فحشاء و منکر اور غلط چیزوں کا رائج کرنا تا کہ مسلمانوں کودین اسلام سے بے توجہ کردیں ۔
ب: مسلمانوں میں قومی اور قبائل احساسات کو بھڑکا کر ان میں اختلاف ایجاد کرکے الگ الگ گروہ میں باٹنا ۔
ج: مسلمانوں میں ایک دوسرے کے خلاف تہم تیں، تکفیر اور دوسری برائیوں کو ہوادے کر اس میں اختلاف اور تفرقہ ایجاد کرنا۔
یہ بات واضح ہے کہ مذکورہ مطالب کی توضیح اور وضاحت کرنے کیلئے ایک بڑا وقت در کار ہے جس سے ہم قاصر ہیں اور ہم اپنی بحث کی مناسبت سے صرف ” فرقہ سازی اور مذہب تراشی “سے بحث کریں گے ، اور اس بحث اپنی اصل بحث (فرقہ وہابیت )کا مقدمہ قرار دیں گے تا کہ قارئین کرام پوری بصیرت کے ساتھ آئندہ کی بحث میں داخل ہو سکیں ۔
استعماراور فرقہ بندی
استعمار کا سب سے اہم قدم ، مسلمانوں کے اتحاد عظمت اور ھیبت کو ختم کرنے اور اختلاف و تفرقہ ایجاد کرنے کیلئے (اٹھایا ہے اور اٹھاتاآرہا ہے ) یہی فرقہ سازی ،مذہب تراشی اور جھوٹے اور استعمار ی دین بنانا ہے ،تا کہ حقیقی اسلام کو نابود کرنے کے ساتھ اپنے اصلی ہدف (مسلمانوں کو متفرق کرنا)کوبھی عملی جامہ پھناسکے،انگلیڈ کا بوڑھا استعمار اپنے جاسوسوں کو اس طرح ہدایت کرتا ہے کہ جو مسلمانوں کے علاقے میں مشغول تھے :
”اسلامی علاقوں میں من گھڑت اور جعلی مذاہب کے عقائد کی تبلیغ پوری آب وتاب کے ساتھ اور با قاعدہ طور پر اس طرح ہونی چاہئیے کہ لوگ ہمارے افکار اور نظریات کو قبول کرنے کے لئے آمادہ ہوجائیں، ان جعلی مذاہب کی تبلیغ و ترویج صرف شیعہ مراکزمیں محدود نہیں ہونی چاہیئے بلکہ اہل سنت کے مذاہب اربعہ میں بھی اس طرح کے جعلی مذاہب ہونے چاہئیے اور ان فرقوں کے درمیان شدید اختلافات اور جھگڑے ہونے چاہیئے، اس حد تک کہ ہر مسلمان اپنے کو واقعی مسلمان اور دوسرے کو مرتد ، کافر اور واجب القتل سمجھنے لگیں۔ “
جاسوسوں نے یہ ہدایت حاصل کرنے کے بعد ، دقیق مطالعہ اور موقع شناسی کی اجتماعی اور سیاسی اورافراط وتفریط جیسے تمایلات کو دیکھکر فرقہ سازی شروع کردی،تا کہ اپنے بڑوں کے اہداف کو پا یہ تکمیل تک پہونچاسکیں ۔
اوریہ بات واضح و روشن ہے کہ انگریزوں نے مستقیماً اور بلاواسطہ یہ کام نہیں کیا ہے بلکہ اس ہدف کو پورا کرنے کے لئے ایسے لوگوںکو تلاش کیا ہے کہ جو ایمانِ مستحکم نہ رکھتے ہو ںاور اس میں مختلف رجحان پائے جاتے ہوں ، تا کہ انگریزاس کی مادی اور معنوی حمایت کرکے اس کو فرقہ سازی پر مجبور کردے،مثال کے طور پر دو فرقوں سے ہم زیادہ بحث کریں گے ، جو ہماری کتاب کے لئے مناسب ہیں ۔
فرقہ شیخیہ کی پیدایش
جس وقت عراق، حوزہ ھای علمیہ کا مرکز تھا ، استعمار اپنے برے اہداف کو تکمیل کرنے کیلئے فرقہ سازی کیلئے مصم ہوجاتا ہے ۔
دو کٹّر مخالف گروہ تشکیل پاتے ہیں ایک عراق میں کٹّر شیعہ اور دوسرا سعودی عرب میں کٹّر سنی،چنانچہ عراق کےکٹّرشیعہ کا نام ” شیخیہ “ پڑا ، جس کا بانی ”شیخ احمد احسایی “ اور اس کا شاگرد ” سید کاظم رشتی “ تھا ۔
اس فرقہ نے ائمہ علیہم السلام کے مقام و عظمت کو اس قدر بڑھا یا اس قدر بڑھایا کہ خدائی حد تک پہونچا دیا،اور اس طرح کے بہت سے مسائل میں بہت زیادہ غلوسے کام لیا۔
اس فرقہ نےکٹّروہابیت کے ذریعہ شیعوں کے خلاف تہم تیں اور انکے کفر کے فتووں کاراستہ ہموار کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ، خشک اور دل خراش طریقوںاسلامی کتب کے دفاع اور علم منطق اور فلسفہ سے جنگ کی غرض سے بہت سے بڑے بڑے شیعہ عالموں کو مانند: ملاصدرّا (رہ)، اور ملامحسن فیض کاشانی (رہ) جیسی بزرگ شیخصیتوں کو کافر کھناشروع کر دیا،
شیخ احمد احسایی نے منطق اور فلسفہ نہیں پڑھا تھا لیکن پھر بھی فلسفہ اور عرفان اسلامی میں آگاہ ہونا چاہا ،بغیر کسی استاد کے خود شخصی مطالعہ کرنا شروع کردیا،جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نہ ہی حکمت اور فلسفہ کو لمس کرسکا اور نہ ہی عرفان کی بوسونگھ سکا ، لیکن پھر بھی اپنے کو اس فن کا مجتھد گمان کرنے لگا ، اور کچھ عقائد کی بناگذاری کی ، اور بڑے بڑے اسلامی فلسفی حضرات کو جیسے ملاصدرا شیرازی اور اسلامی عرفاء جیسے محی الدین عربی یھاں تک کہ تفسیر وحدیث کے بڑے علماء مثل ملامحسن فیض کاشانی کو اپنے کتاب میں نازیبا کھا اور جھوٹی تہم تیں لگائیں ۔
محی الدین عربی کو مُحْبَتُ الدِّیْن ( دین کو نابود کرنے والا ) اور ان کی کتاب فتوحات کوحتوفات(موت و مرگ ) کھا ، اور خود ان کو کافرو ملحد کھا ، ان کی عبادت کو مزخرفات ( بکو اس )کھا ، اور فیض کو ضلالت و گمراہی کھا اور ” ملا محسن “ کہنے کے بجائے ” ملامسنی “ کھا ، اور ان کو اہل بیت علیہم السلام جو ”اَذْهَبَ اللّٰه عَنهُمُ الرَّجسَ وَ طَهَّرَ هُمْ تَطْهِیْراً
“ہیں ،کا مخالف تصور کیا، اور خود اپنے کو اہل کشف و شھود ، اور راہ اہل بیت علیہم السلام کا موافق جانا، اور ظاہر ہے ان غلط اور نازیبا تہم توں کو دیکھکر ہر صاحب عقل انسان اور صاحب علوم الہٰی سمجھ جاتاہے کہ وہ کچھ بھی نہیں سمجھا ہے،
در حالیکہ اس فرقہ کی کار کردگی عراق میں تھی ، اور اس وقت عراق حکومت عثمانی کا جز مانا جاتا تھا ، اور حکومت عثمانی خود ایک متعصب سنی حکومت تھی ، لیکن پھر بھی علماء شیعہ کو کہ ان پر حکومت سختی کرتی تھی ، شیخیہ میں شامل نہیں کیا بلکہ ان کو بھی آزادی دے دی ، کیونکہ استعمار کی نگاہ میں امت اسلامی میں تفرقہ اور مرکز مقاومت کو در ہم وبر ہم کرنا اہم ہے ، چاہے وہ کسی بھی طرف یا کسی بھی ذریعہ سے ہو۔
وہابی فرقہ کی ایجاد
دوسری طرف استعمار نے کٹّرسنی گروہ ایجاد کیا کہ جس کا نام وہابیت پڑا ، انگلینڈ کے جاسوسوں نے محمد ابن عبدالوہاب میں جاہ طلبی ، اخلاقی کمزوریاں اور افراطی افکار کو دیکھا تو اس کو فرقہ بنانے کیلئے مناسب پایا ۔ اسی وجہ سے ہر موقع پر اس کی ہمراہی کرتے رھے ، اور اس نے موقع غنیمت دیکھ کرنئے مذہب کا ا علان کردیا ، اور پھر انگلینڈ کے فرمان کے مطابق اس کے ایک نوکر خاص یعنی سعودبن عبدالعزیز سے ملحق ہوگئے ، اور اپنی تمام کوشش صرف کردی یھاں تک کہ اس نے اپنے مرید پیدا کرلئیے ، اور اپنے وظیفہ پر عمل کرتے ہوئے شیعہ حاجیوں کو قتل کیا ، بلکہ ہر اس شخص کو قتل و غارت کرنے لگے جو اس کے نئے دین کو قبول نہ کرے ، چاہے وہ ” شیعہ ہو یا سنی “ اور جو شخص حضرت رسول خدا(ص) اور ائمہ معصومین علیہم السلام کی زیارت کا قائل ہو اس کو کافر اورمشرک کہتے اور اس کے ساتھ وہی کفار و مشرک جیسا سلوک کرتے تھے ، آخر کار وہابیت نے
” شیخ احمد احسایی“ کی لکھی ہوئی کتاب ” شرح الزیارة “ جس میں ائمہ علیہم السلام کے بارے میں غلو اور خلفاء ثلاثہ پر لعنت کے جائز ہونے کے بارے میں (تفصیل سے) لکھا تھا، کی وجہ سے شیعوں کے قتل کے فتوے صادر کردئے ، اور چونکہ عراق ، حکومت عثمانی کا ایک حصہ تھا ، سعودی عرب سے آزادانہ طور سے عراق کی زیارت گا ہوں پر حملہ آور ہوگئے ،اور ائمہ معصومین علیہم السلام کے روضوں کو تباہ و بر باد کردیا اور شیعوں کو قتل کرنا شروع کردیا ، نیز علماء شیعہ میں سے جس کو بھی فرقہ شیخیہ کا مخالف پایا اس کوقتل کرڈالا ۔
ایک اہم بات یہ ہے کہ اس قتل و غارت میں سید کاظم رشتی کہ جو کتاب شرح الزیاة کا مروج اور شیخ احمد احسایی کا شاگرد اور نایب تھا ، کے گھر کو کچھ نقصان نہیں پہونچا بلکہ اس کا گھر جائے امن قرار پایا ۔!
فرقہ وہابیت ، مسلمانوں میں تفرقہ ایجاد کرنے ، دوسرے اسلامی فرقوں کو کافر کہنے ، اسلامی تعلیمات کو نابود کرنے ، اور ظالموں اور استعمار گروں سے دوستی میں خلاصہ ہوتا ہے،
سعودی عرب جو اس فرقہ کا مرکز ہے ، سے ” شرک“ اور ” کفر “ کے فتویٰ آسانی کے ساتھ صادر ہوتے ہیں ، اور انسان وہاں حج کے موقع پرامر بالمعروف کمیٹی کے ذریعہ ، مشرک ، کافر جیسے الفاظ کو زیادہ سنتا ہے ، اور اس وقت اس فرقہ کی سرگرمیاں زیادہ بڑھ گئی ہیں ہر روز ایک مقالہ یا کتاب اسلامی مقدسات کے خلاف لکھی جاتی ہے اور تیل کی درآمدسے ایک بہت بڑی تعداد میں چھپتی ہیں ، تا کہ اپنے مالکوں کی خواہشات (مسلمانوں کے اتحاد میں رکاوٹ ڈالنا اور ان میں ایک دوسرے کے خلاف کفر اور فسق و فجور کی نسبت دینے کی فضا قائم کرنا ہے )کو پورا کرسکےں۔
فرقہ وہابیت اور فرقہ شیخیہ کے غلط نظریات کی بنا پر فتنہ و فساد اور خونریزی ہوئی ، اور مسلمان مارے گئے ،محمد ابن عبد الوہاب نے ابن تیمیہ کے طرز فکر کو عملی بنایا جو خود ( ابن تیمیہ ) ابن تُومرْتْ کی طرح شھرت اور مقام چاہتا تھا ،ابن تو مرت نے شمالی افریقہ ، اسپین ، الجزائر ، مراکش اورتونس کے بعض حصوں میں مھدویت کا دعویٰ کرکے دو سو سال تک اپنی حکومت باقی رکھی ، اس کو ” مھدی الموحدین “ کہتے تھے محمد ابن عبد الوہاب نے محمد سعود کو اپنا ہم خیال بنایا اور اس کے ساتھ مل کر کام شروع کردیا ،انکے ھاتھوں میں ننگی تلواریں ہوتی تھی جدھر سے بھی گذر ہوتا تھا قتل غارت اور خونریزی ہوتی تھی ، دوسرے تمام مسلمانوں کوکافر کہتے تھے ، اور جو شخص ان کے حکم و اطاعت سے روگردانی کرتا تھا ان کو قتل کردیتے تھے واقعاً وہابیت کے فتنہ و فساد عجیب و غریب ہے جس کا خسارہ عالم اسلام ابھی تک برداشت کررہاہے ۔
ہم انشاء الله تعالیٰ اسی کتاب میں فرقہ وہابیت کے اصول عقائدکی بحث وبررسی کرنے کے بعد ان کا مدلل اور مفصل جواب دیں گے، لیکن ان کے عقائد کو بیان کرنے سے پھلے اس فرقہ کے موسس محمد ابن عبدالوہاب کی زندگی کے حالات بیان کرتے ہیں ۔
اس کے بعد اصل موضوع شروع کریں گے اس فرقہ کے موسس کے حالات بیان کرنے سے پھلے ان چند لوگوں کی زندگی پر بھی اشارہ کریں گے جن کی طرز فکر پر یہ فرقہ ایجاد ہوا ہے، لہٰذا سب سے پھلے محمد ابن عبد الوہاب کے فکری اساتید پر ایک نظر ڈالیں گے اور پھر خود محمد ابن عبد الوہاب کی حالات زندگی پر بحث کریں گے۔
فرقہ وہابیت کا فکری سرچشمہ
ہم نے وعدہ کیا ہے کہ ہم پھلے ان لوگوں کی زندگی پر ایک نظر ڈالیں گے جو فکری اعتبار سے اس فرقہ کے بانی ہیں، لہٰذا اس سلسلہ میں چند لوگوں کا ذکر کیا جاتا ہے تا کہ معلوم ہوجائے کہ فرقہ وہابیت کی اصل ابتداکھاں اور کن لوگوں کے ذریعہ ہوئی ہے ؟ اور کس طرح پھیلا ہے ، اور کیسے کیسے برے کارنامے انجام دیتے ہیں ؟ اور آج کل اس کی موجودہ حالت کیا ہے ، ابن تیمیہ سے شروع کرتے ہیں ، جومحمد ابن عبد الوہاب کا فکری استاد ہے ۔
فرقہ وہابیت کے موسسین کے نظریات اور ان کی تحقیق و بررسی
ابن تیمیہ کے حالات زندگی
محمد ابن عبد الوہاب کے حالات زندگی میں لکھا ہے کہ : اس کوبچپن ہی سے احادیث ، تفسیر اور عقائد کی کتابیں پڑھنے کابہت زیادہ شوق تھا ، شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ابن قیّم کی کتابوں کو خاص اہم یت دیتا تھا، اور ان کی کتابوں کو زیادہ پڑھتا تھا
اسی وجہ سے ہم ابن تیمیہ کو وہابیت کا معلم فکری اور اس کا موسس قرار دیتے ہوے اس کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں
تقی الدین احمد ابن تیمیہ ۰ اربیع الاول ا ۶۶ ھ ق کو حرّان میں پیدا ہوا اور ۲۰ ذی قعدہ ۷۲۸ ھ کو دمشق میں اس دنیاسے چل بسا، یہ حنبلی مسلک تھا اور اس زمانہ کا متکلم اورمفتی تھا یہ شخص ایسے خاندان میں پیدا ہوا تھا جس میں اس سے پھلے اس کا دادا محمو دالدین اور اس کا چچا فخرالدین حنبلیوں کے مشھور و معروف مفتی تھے ۔
۶۶۷ ھ میں مغلوں کے حملہ کی و جہ سے ابن تیمیہ حرّان کو چھوڑنے پر مجبور ہوا ، اور اپنے باپ عبد الحلیم اور تین بھائیوں کے ساتھ دمشق میں جا کر پناہ لے لیتا ہے ، عبد الحلیم نے مدرسہ سُکّریہ دمشق کی ذمہ داری سنبھالی ، اور ابن تیمیہ کی اسی ماحول میں تربیت ہوتی رہی ، اس کے اساتید میں شمس الدین عبد الرحمن مقدسی کا نام بیان کیا جاتا ہے کہ جو شام میں محکمہ قضاوت کے اصلاح کے بعد بیبرس کے ذریعہ دمشق کا سب سے پھلا حنبلی قاضی قرار دیا گیا اور ابن تیمیہ کو مدرسہ سکّریہ کا مدیر بنا دیا گیا ، اور اس نے دوسری محرم ۶۸۳ ھ کو اپنی تدریس شروع کردی ، اور ایک سال کے بعد مسجد اموی میں قرآن کی تفسیر کا درس دیناشروع کر دیا ، اور ا ۶۹ ھ میں حج کرنے کیلئے گیا، اور ۶۹۲ ھ میں دوبارہ دمشق واپس آگیا ، اور حج کے زمانے میں جو بدعتیں اس نے وہاں دیکھی ان کو رد کرنے کے لئے ایک کتاب بنام ” مناسک حج “ لکھنے کا فیصلہ کیا اور اس کتاب کے لکھنے کے لئے اپنی دانست میں کافی مطالب جمع کرکے لایا تھا۔
۶۹۳ میں اس نے اپنی سیاسی دخالت شروع کردی عسّاف ( عسّاق ) نامی شخص جو نصرانی تھا اس نے حضرت رسول اسلام(ص) کی شان میں گستاخی کی تھی ، اس کے بارے میں ابن تیمیہ کچھ بولے جس کی بنا پر اس کو” کمزراویة“نامی قید میں ڈالد یا گیا ، اور اسی سلسلہ میں اس نے اپنی سب سے پھلی ضخیم کتاب ” الصارم المسلول علی شاتم الرسول “ لکھی
” عصای خیر من محمد فانھا تنفع و محمد لا ینفع “ میرا یہ عصا محمد(ص) سے بہتر ہے کیونکہ وہ فوت ہو چکے ہیں اور اب ان کا کوئی اثر اور خاصیت باقی نہیں ہے لیکن میرا یہ عصا اس وقت مفید ہے !! کیا ان متضاد چیزوں کی کوئی وجہ بیان کرسکتے ہیں ؟! کیا انسان قبول کرسکتاہے کہ ایک شخص جو رسول اسلام(ص) کی زیارت کے سفر کو ”سفر معصیت “اور ان کی قبر کو ”بڑابت “کھے ، ایسا شخص مذکورہ کتا ب لکھ سکتا ہے ؟ ایسا شخص جو اپنے دین و مذہب کے رئیس اور ھادی و رھبروں کا اتنا احترام !! کرے کہ ان کی شان میں نازیبا اور توہین کنندہ الفاظ کھے ، کیا عقل تسلیم کر سکتی ہے کہ ایسا شخص ایسی کتاب لکھے اور اس کا مقصد رسول اسلام(ص) کا دفاع ہو ، یا اس کے پیچھے دوسرے اغراض و مقاصد پوشیدہ تھے ، قارئین کرام ہم ان لوگوں کی منحرف فکر اور تناقض گوئی کے بارے میں مزیداسی کتاب میں بیان کریں گے ۔
مذکورہ کتاب ” الصارم المسلمول علی شاتم الرسول “ میں اور بھی بہت سی چیزیں بیان کی ہیں مثلاً اگر کوئی شخص رسول اسلام(ص) کی شان مقدس میں گستاخی کرے تو اس کا قتل واجب ہے اگر چہ وہ توبہ بھی کرلے یا کافر ذمی ہو، (تب بھی قتل واجب ہو )
اور ایک دوسری جگہ لکھاہے : حضرت رسول اسلام(ص) کی مدح و ثنا اور ان کی تعظیم کرنا ، دین کا احترام و اکرام کرناہے ۔
نیز ایک اور جگہ لکھاہے : مسلمانوں کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ جس نے رسول اکرم(ص) کی شان میں گستاخی کی ہو اس کو معاف کردیں بلکہ پیغمبر اکرم(ص) کی عظمت اور بزرگی کی خاطر اپنی جان و مال کو قربان کرنا واجب و ضروری ہے تا کہ آئندہ پھر کبھی کوئی ایسی ہمت نہ کرسکے“انسان واقعاً اس فرقے اور غلط فکر رکھنے والے اشخاص
اور ۷ ا شعبان ۶۹۵ ھ کو ابن تیمیہ اپنے ایک استاد زین الدین بن منجی کے انتقال کے بعد ، جانشین ملی اور حنبلیوں کے ایک بہت قدیمی مدرسہ میں اپنے استاد کی جگہ پڑھانا شروع کیا ، اور سلطان ملک منصور لاجین کی طرف سے حکم ملا کہ سلطان ، مملکت ارمنستان صغیر پر حملہ کرنے والے ہیں لہٰذا آپ (ابن تیمیہ) مسلمانوں کو جھاد کے لئے آمادہ و تیار کرے ۔
۶۹۸ ھ میں ” حماة “ کے لوگوں کی فرمایش کی وجہ سے اصول عقائد پر سب سے بڑی کتاب ”الحمویة الکبریٰ“ لکھی جو اشعریوں اور علم کلام کے سخت خلاف تھی ۔
ابن تیمیہ کے مخالف اس پر ” تشبیہ “ کا الزام لگاتے تھے اور خود ابن تیمیہ ، قاضی شھر دمشق جلال الدین احمدرازی کے پاس جانے سے گریز کرتے تھے بھانہ صرف یہ تھا کہ یہ قاضی مسائل عقائد کی رسیدگی کیلئے نہیں ہے ، لیکن امام الدین عمر قزوینی ، قاضی شافعی کے مکان پر ایک خصوصی ملاقات ہوئی جس میں کتاب حمویّة کو مورد بحث قرار دیا گیا ، لیکن اس کتاب کو ” مزاحمت “ کا نام دے کر چھوڑ دیا گیا جبکہ ابن تیمیہ کا کھنا تھا کہ اس کے جوابات قانع کنندہ ہےں ۔
کی تناقض گوئی پرتعجب کرتا ہے، اور کیا آل سعود ابن تیمیہ کی اولاد نہیں ہیں کہ جو بے شرمی اور جرائت کے ساتھ ” احترام بہ دین “ کا بھانہ لیکر حضرت رسول خدا(ص) کی زیارت سے روکتے ہیں ، اور حجاج کرام کو پیغمبر اسلام(ص) کی خدمت میں حاضر ہو کر ان کے ادب و احترام سے منع کرتے ہیں ، کیا یہ سب کچھ پیغمبر(ص) کے احترام میں ہو رہا ہے ؟!
تو پھر کیوں پیغمبر(ص) کے فرمان پر عمل نہیں ہو رہا ہے ؟ حج کے دنوں میں ” برائت از مشرکین “ (مشرکین وکفار سے بیزاری )نامی مظاہرے سے رو کا جارہا ہے جبکہ خدا اور اس کے رسول(ص) کافرمان ہے اور سنت رسول(ص) ہے، اور اگرکچھ افراد اس سنت نبوی پر عمل کرتے ہیں تو ان پر گولیوں کی بارش کی جاتی ہے اور خالی ھاتھ ہزاروں حاجیوں کو قتل یا زخمی کیا جاتا ہے ؟!
مغلوں کے حملہ کے وقت ۶۹۹ ھ کہ جو غازان ایلخان اور امیر مملوک قِبچق کی ملی بھگت سے ہوا تھا ابن تیمیہ دمشق میں تھا اور لوگوں کو جنگ کیلئے آمادہ کررہا تھا ، اور شوال ۶۹۹ میں کسروان کے شیعوں کے خلاف جن پر فرانکسوں اور مغلوں کی مدد کرنے کا الزام تھا) ممالیک کے حملہ میں شرکت کی
۷۰۰ ھ میں مغلوں نے دوبارہ حملہ سے ڈرایا فوراً ابن تیمیہ کو مامور کیا گیا تاکہ جھاد کیلئے لوگوںکو تحریک کرے، اور جمادی الاول ۷۰۰ ھ کو قاہرہ گیا تا کہ سلطان مملوک محمد بن قلاوون سے شام کی صورت حال کے بارے میں صلاح ومشورہ کرے۔
اور ۷۰۲ ھ میں جب مغلوں نے دوبارہ حملہ کیا ہے ، ابن تیمیہ فتح شَقْحَبْ چھارم رمضان ۷۰۲ میں شریک تھا ، اس جنگ میں اس کی ماموریت یہ تھی کہ اسلامی مجاہدین کیلئے روزوں کی معافیت کا فتویٰ صادر کرے ، ا س وقت سے ابن تیمیہ پر سختی کا دور تھا، ۷۰۴ ھ میں ابراہیم قطان نامی شخص سے ٹکراؤ ہوا ، کہ جس پر حشیش کے استعمال کا الزام تھا ، اور اس وقت ” محمد بن خباز “ نامی شیخ سے مقابلہ کرنا پڑا ،جس پر ”حد شرعی“ سے فرار کا الزام تھا۔اور اسی زمانے میں چند سنگ تراش لوگوں کے ساتھ مسجد نَرَنج کے ایک پتھر کو کہ جس کو لوگ مقدس مانتے تھے توڑنے گیا ، اور دوسری طرف فرقہ اتحادیہ ، جو ابن عربی کے پیروکار تھے ، مقابلہ کیلئے کھڑا ہوگیا ، اور ان کی ایک عظیم شخصیت بنی شیخ نصرالدین منجی کہ جو بَیْبرَسْ جانشکیر کا مرشد تھا ، اس کو ایک خط لکھا، خط اگر چہ مودبانہ تھا لیکن اس خط میں ابن عربی کے عقیدئہ ” وحدت وجودی “ کی سخت مذمت کی گئی تھی ۔
۷۰۴ ھ کے آخر میں دوبارہ کسروان کے شیعوں پر حملہ میں شریک رہا ۔
دمشق میں واپس آتے وقت” فرقہ احمدیہ رفاعید“جس کے رئیس پر مغلوں کی حمایت کا الزام تھا ، حملہ کردیا ۔
اسی وقت ابن تیمیہ کے مخالفوں نے مل کر اس کے اعتقاد نامہ پر حملہ کردیا اور اس کی کتاب ”الواسطیہ “ کے کہ جو مغلوں کے دمشق پہونچنے سے پھلے لکھی گئی تھی ، اس کے تمام اصول عقائد پر شک و تردید کرنے لگے، اور اس بارے میں ” اَفرَمُ “حاکم دمشق کے حضور میں ۸ و ۲ ا رجب ۷۰۵ ھ کو اجلاس رکھے گئے ۔
دوسرے جلسہ میں فخرالدین رازی کا شاگرد صفی الدین ھندی نے بھی شرکت کی اور اپنی رائے کا اس طرح اظھار یہ کیا :
” واسطیہ “ میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی چیزنھیں ہے
آخر کار دونوں کو قاہرہ بلایا گیا، اور یہ دونوں ۲۲ رمضان المبارک کو وہاں پہونچے، اس کے دوسرے روز ابن تیمیہ قاہرہ کے” قلعہ ارگ“ میں حاضر ہوئے جھاں پر حکومت کے چند بڑے بڑے لوگ اور مصر کے چار قاضی القضات بھی موجود تھے ، جس میں ابن تیمیہ کو ” تشبیہ “ سے متہم کیا گیا اور اس کو قید کی سزا سنادی گئی ، ابن تیمیہ تقریباً ڈیڑھ سال یعنی ۲۶ ربیع الاول ۷۰۷ ھ تک ارگ کی قید میں رہا، یھاں تک کہ امیر سلار رقیب بیبرس جاشنکیر اور امیر بدوی مُہَنّا بن عیسیٰ کی وجہ سے اس کو قید سے رہائی ملی ،کہ نامعین تاریخ میں ”العقیدة التَّدمریة“ نامی کتاب کو اس کے نام سے مرقوم کی گئی ہے ۔
ابن تیمیہ آزاد ہو چکا تھا،لیکن شام جانے کا حق نہیں تھا ، اور اپنے خیال میں ہر بدعتی کو محکوم کرتا تھا اور اس کو ” زندیہ “ کہتا تھا۔
اور کچھ ہی دنوں کے بعد مصر کے دو مشھور و معروف صوفیوں سے جھگڑا ہوگیا
ایک ابن عطاء الله شاگرد ابو الحسن مُرسی ، دوسرے کریم الدین آملی رئیس دار سعید السعداء ، لوگوں نے شوال ۷۰۷ ھ میں ایک مظاہرہ کیا جس کی بناپر ( ابن تیمیہ ) کو براالدین بن جماعة قاضی شافعی کے حضور میں حاضر کیا گیا ، قاضی نے اس سے سوال کیا کہ ” توسل اور استغاثہ“ کے بارے میں تمھارا کیا نظریہ ہے ؟
ابن تیمیہ کو اجازت ملی کہ وہ شام جاسکتا ہے لیکن اس کے با وجود اس کو قاہرہ میں پکڑلیا گیا اور چند مھینہ قضات کے زندان میں قید کردیا گیا ۔
۷۰۸ ھ میں بیبرس جاشنکیر کو باد شاہت ملی ، ابن تیمیہ کودوبارہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑگیا ، اور آخری صفر ۷۰۹ کی شب میں ابن تیمیہ کوسخت حفاظت میں اسکندریہ لے جایاگیا، اور اس کو وہاں نظر بند کردیا ، ابن تیمیہ کو بادشاہ کے قلعہ میں رکھا گیا ، اور اجازت دی گئی کہ لوگ اس سے ملاقات کرسکتے ہیں ،اور یہ جو کتاب لکھنا چاہے لکھ سکتے ہےں ، سات مھینہ کی قید کی مدت میں بہت سے مغربی افراد جو مصر سے گذرتے تھے ، اس کو دیکھنے کیلئے آتے تھے ، اور خود اس نے کئی اہم کتابیں لکھیں ، کہ جن میں ( گم شدہ)کتاب ردّ ”مرشدہ“تالیف ابن تومرت اور کتاب” الرد علی المنطقین“ کا نام لیا جاتاہے ۔
محمد بن قلدوون یکم شوال ۷۰۹ ھ میں دوبارہ تخت نشین ہوا ،اور ابن تیمیہ کو قیدسے رہا کرکے قاہرہ میں اپنے پاس بلادیا ۔
اور اپنے اس کام سے بتادیا کہ علم منطق ( برہان و استدلال کے ذریعہ صحیح فکر کا معیار ) سے بے نیاز نہیں ہوا جا سکتا ، اس کا منطق کو رد کرنا ہی منطق کا اثبات کرنا ہے ، اور اس کو چھوڑنا ہی اس کو اختیا رکرنا ہے ، چونکہ خداوند عالم نے ان کی عقل پر تالا لگادیا ہے ، جس کی بنا پر ان کی باتیں غلط اور ان میں تناقض پایا جاتاہے ۔
ابن تیمیہ ۸ شوال ۷۰۹ ھ کو قاہرہ پہونچا ، اور تقریباً تین سال تک قاہرہ میں قیام کیا ، محمدبن قلدوون (الملک الناصر ) کبھی کبھی شام کے بارے میں مشورہ کرتا تھا اس مدت میں ابن تیمیہ نے خصوصی درس شروع کیا ، اور مختلف طریقہ کے سوالوں کے جوابات بھی دئے ، اور اسی زمانے میں اپنی کتاب ” کتاب السیاسة الشرعیہ “ کے آخری یا تکمیلی مراحل میں مشغول رہا ، کتاب مذکو ر اا ۷ ھ سے ۴ ا ۷ ھ کی مدت میں لکھی گئی ، اور بہت سے ” فتاوای مصریہ “ بھی اسی زمانہ کے ہیں ۔
مغلوں کے خوف سے ابن تیمیہ نے دمشق کو قیام گاہ بنا یا اور بیت المقدس میں کچھ مدت رکنے کے بعد پھلی ذیقعد ۲ ا ۷ ھ کو دمشق پہونچا، ملک الناصر ابن تیمیہ سے ایک ہفتہ پھلے دمشق پہونچ کر حج کیلئے جا چکا تھا لیکن حج سے واپسی پر اامحرم ۳ ا ۷ ھ کو اس سے ملاقات کی اور اس شھر کے مالی اور اجرائی مسائل پر گفتگو کی ، اور اس میں کچھ تبدیلیاں کی ، امیر تکینر کو ربیع الاول ۴ ا ۷ ھ میں اس شھر کی حکومت کیلئے مقرر کیا گیا ۔
ابن تیمیہ نے اپنی عمر کے آخری ۵ ا سال اسی تنکیزحکومت میں گذارے اور ابن تیمیہ کو ایک مدرسہ کا رئیس بنا دیا گیا تھا اور اس کے مرید اس کو مجتھد مانتے تھے۔
ھر کہ را مرشد چنین گمراہ بود
کی مریدش را بہ جنت رہ بود ؟!
”جس کا رھبرہی گمراہ ہو ،اس کے پیرو کار کو جنت کیسے مل سکتی ہے“۔
اس مدت میں اس کا خاص شاگرد ابن قیّم جوزی اس کے عقائد اور افکار کو پھیلانے میں بہت زیادہ کو شاں رہا اور وہ بھی اپنے استاد کی طرح مشکلات سے دوچار ہوا ، فرقہ اشعری اور حنبلیوں کے درمیا ن اختلاف جاری تھا کہ جس کے نتیجہ میں محرم ۶ ا ۷ ھ کا وہ واقعہ ہے ،جس میں دونوں مذہب کے اعتقادی مسائل کی وجہ سے ایک دوسرے میں ٹکراؤ ہوا ۔
۶ ا ۷ ھ کے آخرمیں اور اس کے بعد ابن تیمیہ کے ساتھ” حُمَیضہ“ امیر مکّہ کا حادثہ پیش آیا کہ جس میں ایران کے سلطان خدا بندہ ایلخان سے یہ طے پایا کہ مکہ معظمہ میں اہل تشیع کیلئے خوشگوار فضا بنائی جائے ، اور ظاہراً اس زمانہ میں ابن تیمیہ نے منھاج السنہ النبویّہ
تالیف کی ہے
بہتر تو یہ تھا کہ ابن تیمیہ اس کتاب کا نام ” منھاج البدعة “ رکھتے نہ” منھاج السنة “ کیونکہ یہ کتاب اسلام کے مسلّمات کا انکار ، مسلمانوں کی تکفیر اور گمراہی و کج فکری سے بھری ہوئی ہے ، نیز اہل بیت علیہم السلام کی بے حرمتی ، حقائق کو مخفی رکھنے اور دیگر تحریفات سے یہ کتاب لبریزھے ۔
یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ ابن تیمیہ کی یہ کتاب وہابیوں کے عقائد کی بنیادی اور اساسی کتاب ہے ۔
اس کتاب میں پھلے فقیہ زمان فیلسوف نامدار اور متکلم بزرگ حضرت علامہ حلی (رہ) پر حملہ کیا ہے اور منھاج السنة کو علامہ حلی (رہ) کی کتاب ’ ’ منھاج الکرامة “ کی رد میں لکھا گیا اور وہابیوں کا اکثر منبع فکری یہی کتاب ہے ، خصوصاً توسل اور شفاعت ، دعا و زیارت کے بارے میں جو کچھ کہتے ہےں ابن تیمیہ کی اس کتاب سے اخذ کرتے ہیں ۔
قارئین محترم کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ مرحوم آیت الله فی الارضین علامہ حلی (رہ) کی کتاب ” منھاج الکرامة “ کا فارسی میں ترجمہ بنام ”جذبہ ولایت “ ہو چکاہے ۔
اور جس وقت ہم کتاب ”باب حادی عشر“ سے اصول عقائد کی تدریس کررھے تھے ، دوسری کلامی
جس میں علامہ حلی (رہ) پر حملہ کیا ہے ،یھاں تک کہ آزار و اذیت کا زمانہ دوبارہ شروع ہوا ۸ ا ۷ ھ میں سلطان کی طرف سے حکم صادر ہوا کہ ابن تیمیہ کو طلاق کے بارے میں کہ جو مذہب حنبلی کے مشھور اعتقادات کا مخالف ہو ، کسی بھی طرح کا فتویٰ دینے سے رو کاجائے ،
اور ابن تیمیہ کا اس بات پر مسخرہ کرتے تھے کہ جو ایک مجلس میں ” تین طلاق “ کے صحت کا منکر تھا اور طلاق کے بارے میں قسم ” حَلْف“ کہ جس میں طلاق دینے کا قصد نہ ہو اس کو معتبر نہیں مانتا تھا ۔
اس مسئلہ کے سلسلے میں تنکیز کی ریاست میں اس کے محاکمہ کیلئے ۸ ا ۷ ھ میں دو جلسہ منعقد ہوئے اور تیسرے جلسہ میں کہ جو ۲۰ رجب ۷۲۰ ھ میں ہوا ، ابن تیمیہ کو سلطان کا نافرمان قرار دے کر اس کو سزائے قید سنادی گئی۔
ابن تیمیہ کو بے خوف و خطر روک لیا گیا اور شام کے ایک قلعہ میں قید کردیا گیا ، تقریباً پانچ ماہ قید میں رھنے کے بعد ملک الناصر کے حکم سے ۰ ا محرم کو آزاد کردیا گیا، اس کے بعد بھی شام اور مصر کے واقعات و حادثات میں اس کانام ملتا ہے، ۶ ا شعبان ۷۲۶ ھ میں بغیر کسی عدالت و قضاوت کے ان کو روک لیا گیا ، اور سلطان کے حکم کے مطابق کہ جس کواموی مسجدمیں سب کے سامنے پڑ ھا
کتابوں کو خصوصاً امامت کی بحث میں مطالعہ کرتے تھے ، علامہ حلی (رہ) کی اس گرانقدر کتاب کا بھی مطالعہ کرتے تھے ، اور ہم نے اس کتاب کو بحث امامت میں ایک جامع و مستدل اور کم نظیر پایا اور نہ صرف یہ کہ اس کتاب میں کوئی چیز بھی خلاف شریعت نھیںپائی ،بلکہ ہماری نظر میں یہ کتاب ان بہترین استدلالی کتابوں میں سے ہے جو اب تک علماء شیعہ (کثرالله امثالہم ) نے تحریر کی ہیں ، ابن تیمیہ کوروز قیامت ضروراس چیز کا جواب دینا پڑے گا جو تہم تیں علامہ حلی (رہ) اور مذہب تشیع پر لگائی ہیں ۔
گیا ، ابن تیمیہ کو فتویٰ صادر کرنے سے منع کیا گیا کیونکہ” زیارة القبور“نامی رسالے پر لوگوں کو اعتراض تھا ،کیونکہ اس میں اولیاء کرام کے احترام کو حرام قرار دیا تھا۔
اس کے ساتھ میں اس کے چند شاگردوں کو بھی قید کرلیاگیا لیکن ابن قیّم جوزی کے علاوہ کچھ ہی مدت میں باقی سب لو گ آزاد ہوگئے ،اس کے بعد ابن تیمیہ کو مالکی قاضی القضات ، تقی الدین اخنائی کی مخالفت سے سامنا کرنا پڑا ، نیز علاء الدین قونوی شاگرد ابن عربی نے بھی اسکی شدید مخالفت کی ، جبکہ اس کے پاس وہ دار سعید السعداء قاہرہ کی باگ ڈور تھی ، دمشق کے قاضی القضات شافعی بھی قرار پائے ۔
ابن تیمیہ دو سال تک قید میں رہا اور کتابیں لکھتا رہا،نیز مختلف فتوے بھی جاری کرتا رہا، بہت سی کتابیں جو ہم تک پہونچی ہیں وہ اسی زمانہ کی ہیں جن میں اپنے عقائد کو ثابت کیا ہے ، خصوصاًکتاب” معارج الوصول“ اصول الفقہ کے بارے میں اور کتا ب” رفع الملام “و کتاب ”الرد علی الاخنائی “کہ جس میں اخنائی کو اپنا سخت ترین دشمن بتایا ، اس کتاب میں اولیاء کرام کی تعظیم و تکریم کے بارے میں اپنے نظریات کو تفصیل کے ساتھ تحریر کیا ، اس کے بعد اخنائی نے سلطان سے شکایت کی تو سلطان نے ۹ جمادی الاخر ۷۲۸ ھ کو فرمان صادر کردیا کہ ابن تیمیہ کو کتاب و کاغذا ور قلم سے محروم کردیا جائے ۔ اسی موقع پر ۲۰ ذیقعدہ ۷۲۸ ھ کو ابن تیمیہ کاقید میں انتقال ہو گیا ، اس کے جنازے کو ایک عظیم مجمع نے دمشق کے صوفیہ قبرستان میں دفن کیا ، اور آج بھی اس کے مرید اس کی قبر پر ادب و احترام کے لئے جایاکرتے ہیں۔
(کیا اس کی قبر کا احترام کفر وشرک اور بت پرستی نہیں ہے !!) ۔خیرالدین زرکلی اپنی کتاب ”الاعلام “ میں جس کا موضوع بیوگرافی ہے ابن تیمیہ کے بارے میں اس طرح تحریر ہے:
ابو العباس تقی الدین احمد بن عبد الحلیم بن عبد السلام بن عبد الله بن ابی القاسم الحصر نمیری حرانی دمشقی حنبلی معروف بہ ابن تیمیہ ،حران میں پیدا ہوئے ۔ اس کے بعد دمشق پہونچے ، اور اپنی عجیب و غریب زکاوت اور ہوشیاری اور استعداد کو ظاہر کیا اور بہت مشھور ہوئے ، لیکن اپنے فتووں کی وجہ سے ان کو مصر طلب کر لیا گیا ،اور بہت سے لوگ ان سے حسد کرتے تھے، اور اس وجہ سے ایک مدت تک قیدمیں زندگی گذاری ۔ اس کے بعد اسکندریہ گئے ۔اور اس کے بعد قید سے رہائی ملی ، اور ۷۲۰ ھ میں ایک با ر پھر ان کو قید کر لیا گیا ۔ اور آخر کا ر قلعہ دمشق کے قید خانے میں موت آگئی، اس کے جنازے میں ایک جم غفیر نے شرکت کی، موصوف ”اصلاح دین“ کے مدعی تھے،
او رمختلف بحثیں کیں۔
”الدررالکامنہ “ میں تحریر ہے کہ : ابن تیمیہ ۲۰ سال کی عمر میں علماء سے بحث و مناظرہ میں مشغول تھے ۔ان کی تقریباً ۳۰۰ کتابیں بتا ئی جاتی ہیں ”فوات الوفیات “ میں تحریرھے کہ: ان کی تالیفات تقریباً ۳۰۰ کتابیں ہیں ان میں کی بعض کتابیں اس طرح ہیں :
السیاسة الشرعیہ،الفتاوی ،الایمان ، الجمع بین النقل و العقل ، منھاج السنة، الفرقان بین اولیاء الله و اولیاء الشیطان،الواسطة بین الحق والخلق ، الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول ، مجموع رسائل ، نظریة العقد، الرّدعلی البکری ، الرّد علی الاخنائی ، رفع الملام عن الائمة الاعلام ، شرح العقیدة الاصفھانیة ، القواعد النورانیة الفقھیة ، مجموعة الرسائل والمسائل ، التوسل و الوسیلة ، نقص المنطق اور دوسری کتابیں او ررسالے۔
ابن تیمیہ کی شرح زندگی ،موافق اور مخالف دونوںنے لکھی ہے ، اور ہر ایک نے اپنے نظریے کے مطابق اس کو پہچنوایا ہے ، بعض لوگوں نے صرف اس کے بارے میں تعریف و تحسین کی ہے اور اس کے غلط نظریات اور انحرافات سے چشم پوشی کی ہے ، اور بعض لوگوںنے اس کے کج روی ، بدعت اور فکری انحرافات کو مورد بحث قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت اور سرزنش کی ہے ۔
”’ ھانری لاؤسٹ “ مولف کتاب ” نظریات شیخ الاسلام ابن تیمیہ فی السیاسة و الاجتماع “ وہ شخص ہے کہ جس نے ابن تیمیہ کی تعریف و تمجید کی ہے ، لاؤسٹ نے ابن تیمیہ کو ” اسلامی عظیم مجاہد “ کا لقب دیا ہے ، اور اس کے اسلامی دفاع اور مغلوں سے مقابلے کو سراہا ہے ، اس کی سیاسی و اجتماعی کارناموں کوشمار کیا ہے اور اس کو اپنے زمانے کا مشھور عالم دین کے عنوان سے پیش کیا اور اس کی مدح و ثنا کی ، اس کو مستقل مزاج ، کسی کی تقلید نہ کرنے والا، اور تنقیدی مزاج سے بھر پور بتایا ہے ،لاؤسٹ نے لکھا ہے کہ ابن تیمیہ اس زمانہ کی جنگوں اور سیاسی میدان میں بہت زیادہ سرگرم رہا ، اور اپنے مذہب کی خاطر ارسطو کی منطق اور یونان کے فلسفہ پر بھی حملہ آور ہوا ہے۔
ابن تیمیہ کے بارے میں ہمارا نظریہ
ہماری نظر میں ابن تیمیہ بے حد تعصبی اور غیر منطقی اور عقائد کے بارے میں سرسخت جامد فکر کا حامل تھا ، اگر چہ اس کی معلومات فلسفی حضرات مانند ابن سینا ، فخررازی ، اور سھروردی و غیرہ کے اقوال اور نظریات کے بارے میں کافی زیادہ تھیں ، ابن تیمیہ اپنے دوسرے ہم فکر مثل ابن قیّم ، ابن خرم ، ابن بطّہ ، بربھاری ، ابن تومرت اور ابن جوزی کی طرح ظاہر گرایی ، جمود فکر ی میں گرفتار تھا، اس کی فکر ابتدائی ، سطحی ، فلسفی اور منطقی اصولوں سے دور تھی ، ہمارے نظریہ کے مطابق ابن تیمیہ ایک طرح سے ” میٹریالیزم لطیف دینی “ (' Materialisme ) ( وہ فلسفہ جو معنویات کامنکر ہے) میں مبتلاتھا ، اور مادہ گرایی اور ظاہر پرستی کے ہولناک دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔
جو شخص منطق و فلسفہ اور حکمت اسلامی سے سمجھ بوجھ رکھتا ہے وہ ابن تیمیہ کی کتابوں کا مطالعہ و تحقیق کے بعد اسی نتیجہ پر پہونچ سکتا ہے کہ ابن تیمیہ نے فلسفی مسائل کو سونگھا تک نہیں ، اور منطق کے مقدمات میں ہی الجھ کررہ گیاہے، اور علماء منطق پر جو اعتراض اس نے کیئے ہیں، وہ بے جا اور باطل ہیں، وجود ماہیت ذاتی ودعرضی ، تصور و تصدیق ، حدّ و رسم ، بدیھات عقلی اور قیاس و غیرہ جیسے دوسرے فلسفی و منطقی مسائل میں اس کے نظریات بالکل بچکانہ ہیں اوریہ چیزیں اس طرح کے دقیق و عمیق مسائل سے نابلد ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے ” توحید والھیات “کی بحث میں ان کے قدم لڑکھڑاتے ہیں ، اور حسّ گرایان و مادہ پرستوں کی طرح خداوند عالم کی جسمیت کے قائل ہیں (نعوذ بالله من ذالک
) ابن تیمیہ سے اس بات کی امید نہیں ہے کہ وہ الھیات اور دوسرے عقائد کے مسائل میں لغزشوں سے محفوظ رھے ۔
اس کے باوجود بھی ابن تیمیہ فلسفہ ، منطق اور علم کلام کے علماء سے مقابلہ کیلئے کھڑے ہوگئے، البتہ اس مقابلہ کا کوئی خاص نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اور چند مغالطوں ( دھوکہ ) کے علاوہ کچھ نہیں کرسکاکہ جو اس کی دقیق و عمیق نظرنہ ہونے پر دلالت کرتا ہے ، ابن تیمیہ منطق ، فلسفہ اور عرفان کے مقابلہ کرنے والوں میں سے ہے ، ہم نے اس جیسے افراد میں دقیق نظر رکھنے والے نہیں دیکھے ہیں ، ایسے لوگ فلاسفہ کی باتوں کو سمجھ نھیںپائے ہیں اور جو چیزیں ان کیلئے مبہم اور مجھول ہیں ان چیزوں میں مقابلہ کیلئے تیار ہیں !!
جبکہ بعض سادہ لوح افرادنے کہ جن کو خود علم منطق وفلسفہ کی صحیح معرفت نہ تھی ، ابن تیمیہ کومستقل فکر کا حامل ، آزادانہ فکر ، اندھی تقلید کا مخالف ، اور کسی بھی طرح کی گمراہی اور بدعت کا سخت مخالف کھاہے،بعض لوگوں نے کھا : وہ تقلید کے قید و بند سے آزاد تھا ، یھاں تک کہ اس کو اسلامی نہضتوں کا محرک کھا ، اور کہنے والوں نے اس کو ” مصلح اجتماعی “اور ” دین کو نئی حیات دینے والا “بھی کھا ” تمسک بہ قرآن “ اور فلسفہ یونانی اور منطق ارسطو سے مقابلہ جس کا نعرہ تھا۔
لیکن ہماری نظر میں یہ فیصلہ انصاف و حقیقت سے بہت دور ہے ، اور اگرمجموعی طور پر تفکر اسلامی کی نگاہ سے خصوصاً مذہب حقہ تشیع کے فلسفی اصولوں کے تحت ابن تیمیہ کو دیکھا جائے تو وہ ایک ظاہری فکر ، سطحی اور جمودی فکر رکھنے والا ، متعصب ، بے ہودہ خیالوں کا اسیر، غلط بیانی کرنے والا ، خود پرست ، حقائق کا انکار کرنے والا ، مکر وفریب جیسی صفات رزیلہ کا حامل پایاہے ، اس صورت میں آزاد فکری اور مستقل نظر کا کس طرح دعویٰ کیا جاسکتا ہے ،جو شخص ” علماء کلام کے مارپیٹ “ کا حکم صادر کرے ،
یہ کس طرح فکری آزادی ہوسکتی ہے ؟جو وحدت اور عرفان کی بلند پرواز فکر (نہ کہ کفر آمیز وحدت)کو ،کہ جس کو قونوی ، ابن عربی
، قیصری ، کاشانی ، ابن ترکہ ، سید حیدر آملی ، صدر المتالھین شیرازی ، علامہ طباطبائی (رضوان الله تعالی علیہم ) جیسے بزرگ علماء کرام نے بیان کیا ہے، جس کو ”فرعونی نظریہ “ کھا گیا ہے۔
کیا یہی آزاد اندیشی ہے، اور جس کی فکر کی آخری منزل ” خدا کی جسمانیت کا قائل ہونا“ ہے، کیا وہ اہل غور و فکر ہوسکتا ہے ،اس وقت ہم ابن تیمیہ کی کج فکری اور گمراہی کی تفصیل بیان کرنانھیں چاہتے،اگر چہ مناسب تھا کہ فقھی ، تفسیری ، حدیثی ، تاریخی ، اصولی، فلسفی، منطقی اور عرفانی جیسے مباحث میں اس کے تمام نظریات کو بیان کرتے اور اس کا جواب بھی دیتے، تا کہ سب پر واضح ہو جائے کہ یہ حضرت شیخ الاسلام ! صرف ” زبان درازی “ اور زیادہ لکھنے کے عادی تھے، اور کسی مشکل کو آسان نہیں کیا ہے حالا نکہ اس کی بہت زیادہ اور بڑی بڑی کتابیں ہیں
ابن تیمیہ کے عقائد اورا قوال
ہم یھاں پر ابن تیمیہ کے بعض نظریات کو اجمالی طور پر ذکر کرتے ہیں ، تا کہ قارئین کرام پر واضح ہوجائے کہ ابن تیمیہ کے چند مرتبہ قید خانہ میں جانے اور علماء اسلام کی طرف سے اس پر کفر کا فتویٰ لگانے کی وجہ کیا ہے ، اور یہ بھی معلوم ہوجائے کہ ابن تیمیہ کے اصلاحی نظریات !! کو نسے ہیں ، اور کیوں ان کے ہم عصر علماء اسلام کی طرف سے اس کی مخالفتیں ہوئیں ۔
ابن تیمیہ کی نظرمیں مسئلہ توحید
ابن تیمیہ کہتا ہے: پیغمبروں نے جس توحید کو بیان کیا ہے صرف خدا کی الوہیت کو ثابت کرتی ہے ، اس طرح کہ انسان شھادت دے کہ اس خدا کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے ، اور صرف اسی کی عبادت کرے اور صرف اسی پر بھروسہ کرے ، اور صرف اسی کی رضایت و خوشنودی کیلئے کسی سے دوستی یا دشمنی کرے ، اور جو کچھ بھی انجام دے اسی کی خوشنودی کیلئے ہو ، یہ وہ توحید ہے جس کو خداوندعالم نے قرآن مجید میں اپنے لئے بیان کیا ہے ۔
لیکن خدا کو واحد ماننا یعنی یہ اعتقاد رکھنا کہ اس عالم کوخلق کرنے والا خدائے واحد ہے ، یہ توحید نہیں ہے، اور اسی طرح خدا کی صفات کا اقرارکرنا اور اس کو عیوب سے پاک و منزہ ماننا ، اور یہ اقرار کرنا کہ تمام موجودات کا خالق خداوند عالم ہے ، ایسا شخص موحد اور مسلمان نہیں ہے ،مگریہ کہ شھادت دے کہ اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اقرار کرے کہ صرف خدا ہی مستحق عبادت ہے۔
یھاں یہ عرض کردینا ضروری ہے کہ ابن تیمیہ ، خدا کے علاوہ کسی نبی یااولیاء الله سے ہر قسم کے توسل اور استغاثہ ، نیز پیغمبر(ص) اور دوسرے صالحین کی قبروں کی زیارت ، ان کے قبروں کی نزدیک نماز پڑھنا ، اور قبروں پر نذر اور قربانی جیسے کاموں کو توحید کے مخالف اور موجب شرک جانتے ہیں۔
اس بناپر ان کی نظر میں مسلمان وہ ہے جو کچھ طلب کرنا چاہے توخداوند عالم سے طلب کرے ، کسی کو بھی وسیلہ ، واسطہ اور شفیع قرار نہ دے ، اور غیر خدا پر بالکل توجہ نہ کرے ۔
کفر و شرک کے معنی میں وسعت دینا
بعض وہ اعمال جن کوسارے مسلمان جائز بلکہ مستحب جانتے ہیں ، ابن تیمیہ کی نظر میں شرک اور بے دینی کا باعث ہیں ، مثال کے طور پر اگر کوئی شخص صرف رسول اسلام(ص) کی قبر کی زیارت کیلئے سفر کرے اوراس کے سفر کا اصل مقصد زیارت ” مسجد النبی “ نہ ہو ، وہ شخص مسلمان نہیں ہے ، اور اگر کوئی شخص پیغمبر اکرم(ص) یا دیگر اولیاء کی قبروںکی زیارت کرے ، اس قصد ( ان سے حاجت طلب کرنا ) سے ان کو خدا کا شریک قرار دے اور ان سے کوئی چیز طلب کرے ، تو یہ سب کچھ حرام اور شرک ہے۔
اور جو شخص ( اہل ) قبور سے فائدہ اور نفع کی امیدکرے ، اور ان کو بلا دور کرنے والا جانے ، وہ بت پرستوں کے حکم میں ہے ، جو ان کی طرح بتوں کے فائدہ اور نقصان پہونچا نے کے قائل ہیں ، اور جو لوگ (قبروں ) کی زیارت کیلئے جاتے ہیں ، ان کا مقصد بھی مشرکین کے قصد جیسا ہے جوبتوں سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں ، جبکہ ایک موحد اور مسلمان شخص صرف خدا سے طلب حاجت کرتا ہے ، اور اس طرح کہتے ہیں کہ جو کوئی غیر خدا کو پکارے اور غیر خدا کے لئے حج (قبروں کی زیارت کے لیئے سفر کرے ) کے لئے جائے اور مردوں کو پکارے چاہے وہ پیغمبر ہویا ان کے علاوہ ، اس نے خدا وند عالم کی ذات اقدس کے ساتھ شرک کیا ہے۔
ابن تیمیہ کی نظر میں کفر و شرک کا دائرہ اس سے بھی زیادہ وسیع ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ جو شخص مسجد کا ہمسایہ ہے ، اگر اپنے مشغلہ کی وجہ سے نماز جماعت میں حاضر نہیں ہوتا ، اس پر توبہ کرنا واجب ہے اور اگر توبہ نہیں کرتا تو اس کا قتل واجب ہے
مذکو رہ بیان کی وضاحت
ابن تیمیہ اور فرقہ وہابیت کا طرف دار ” شوکانی “ کہتا ہے :
وہ چیزیں جو صاحب نجد ( ابن تیمیہ ) کے حوالہ سے ہم تک پہونچی ہیں ان میں سے ایک یہ ہے کہ جو شخص نماز جماعت میں شریک نہ ہو اس کا خون بھانا جائز ہے ، جبکہ یہ بات شریعت کے خلاف ہے ،اہل سنت کے چاروں فرقے کے امام و رھبر اور دوسرے مذاہب اسلامی کے امام بھی واجب نمازوں کو اپنے گھر یا مسجد کے علاوہ پڑھا کرتے تھے ، منجملہ فرقہ مالکی کے امام، امام مالک شروع میں مسجد میں جا کر نماز پڑھا کرتے تھے پھر کچھ مدت کے بعد مسجد میں جانا چھوڑدیا اور اپنے گھرہی میں نماز پڑھنے لگے ، اور جب اس سلسلے میں لوگوں نے مذمت کرنا شروع کی ، تب فرماتے تھے کہ اس چیز کی میں کیا دلیل بیان کروں اس طرح احمد ابن حنبل ، جس وقت ان پر خلیفہ غضب ناک ہوا ، مسجد جانا چھوڑ دیا اور نماز و غیر نماز کیلئے مسجد میں جانا بند کردیا۔
اسی طرح ابن تیمیہ کی نظر میں وہ شخص بھی کافر تھا جو نماز ظھر کو مغرب تک اور نماز مغرب کو آدھی رات تک نہ پڑھے ، اورجو شخص اس کام کو کفرنہ جانے وہ بھی واجب القتل ہے ،ابن تیمیہ کی نظر میں وہ شخص جوبالغ ہواور نماز پنجگانہ نہ پڑھے ، نماز کے کسی واجب کو ترک کرے ، اس کو توبہ کرانی چاہیئے اور اگر وہ توبہ نہ کرے تو وہ بھی واجب القتل ہے،
ابن تیمیہ کی نظرمیں غیر خدا کی قسم کھانا اور غیر خدا کیلئے نذر کرنا بھی شرک ہے۔
خدا کے دیدارکے سلسلے میں ابن تیمیہ کا عقیدہ اور اس کی تحقیق
ابن تیمیہ کی مشھور و معروف کتابوں میں کتاب ”منھاج السنہ “ ہے جس کو شیعوں کے عظیم عالم مرحوم علامہ حلی (رہ) کی کتاب ” منھاج الکرامة فی اثبات الامامة “ کی رد میں لکھا گیاہے ، جس میں شیعوں کے اعتقادات کے بارے میں علامہ حلی (رہ) کے اقوال کو ایک ایک کرکے نقل کیا اور ان کو رد کرنے کی کوشش کی ، جس میں علامہ حلی (رہ) کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد کہ ” خداوند تبارک و تعالی ٰ کا دیدار نہیں ہو سکتا اور کسی بھی حواس کے ذریعہ اس کو درک نہیں کیا جاسکتا ، کیونکہ خداوند عالم خود فرماتا ہے: ”لَا تُدرکُہُ الَابصارُ وَ ہو یُدرِکُ الابصارِ“ اور اسی طرح علامہ حلی (رہ) کے اس قول کو نقل کرنے کے بعد کہ ، خداوند عالم کیلئے کو ئی جہت (سمت ) و مکان نہیں ہے ، اس طرح رقمطراز ہیں : علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ خدا دکھائی دے سکتا ہے ، اور گذشتہ علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ روز قیامت ان آنکھوں کے ذریعہ خداوند عالم کا دیدار ہوگا لیکن اس دنیا میں دیدار نہیں ہوسکتا ، اور پیغمبر اکرم(ص) کے بارے میں اختلاف ہے ( کہ آنحضرت(ص) نے اس دنیا میں خدا کا دیدار کیا ہے یا نہیں ) اور مذکورہ آیت کے بارے میں کہتے ہیں کہ رویت خدابغیر کسی ادراک کے ممکن ہے۔
ابن تیمیہ خدا کے دیدار اور اس کیلئے جہت ( سمت ) کو ثابت کرتے ہیں اور آیات و روایات کے ظواہر سے استدلال کرتے ہےں ،اس نے رسالہ ” حَمَویة “ کو اس مسئلہ میں تحریر کیا ہے ، کہ تمام نصوص اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ خداوند عالم عرش اعلیٰ اور آسمان کے اوپر رہتا ہے ، اور انگلی سے اس کی طرف اشارہ کیاجاسکتا ہے ، اور قیامت کے دن اس کا دیدار ہوگا ، اور یہ کہ خداوند عالم ھنستا ہے ، اور اگر کوئی خدا کے آسمان پر ہونے کا معتقد نہ ہو تو اس کو توبہ کرنے کے لئے کھا جائے اور اگر اس نے توبہ نہ کی تو اس کو قتل کردیا جائے ۔
اور اس طرح لکھتا ہے کہ آیات کے ظواہر کے مطابق خداوند عالم اعضاء و جوارح رکھتا ہے ، لیکن خدا کی صفات اور اس کے اعضاؤ جوارح کو مخلوقات کے اعضاء و جوارح سے موازنہ نہیں کیا جاسکتا اور اس سلسلے میں جو تاویلات کی گئی ہیں مثلاً آیہ مبارکہ ” اَلرَّحمٰن ُ عَلَی العَرشِ اِستَویٰ“ استویٰ کے معنی استولیٰ کے ہیں اس طرح کی تاویلات باطل ہیں ، اور اس طرح کی تاویلات دوسری زبانوں کی کتب ضلال ( گمراہ کن کتابوں ) سے ترجمہ ہوکر متکلمین کے ذریعہ عربی زبان میں داخل کی گئی ہیں !
”خدا کا آنکھوں کے ذریعہ دیدار “کے بارے میں ابن تیمیہ کے نظریہ کی رد
ّ اگر چہ ابن تیمیہ کے نظریات خودھی تناقض گوئی پر مشتمل ہیں اور ان کے رد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
” دیدار خدا “ کے بارے میں اس چیزسے بحث نہیں ہے کہ شیعہ معتقد ہیں کہ ” خدا کا دیدار آنکھوں سے ممکن نہیں ہے “ یعنی خدا کو سرکی آنکھوں سے نہیں دیکھا جاسکتا ، کیونکہ روشن ہے کہ دیدار کے لئے ضروری ہے کہ آنکھ اور جس چیز کا دیدار کرنا ہے اس کے درمیان وضع محاذات (کسی چیز کا مقابل ہونا) ہو اور محاذات اس چیزسے مخصوص ہے کہ جو ذاتی طور پر جہت (سمت) رکھتی ہو جیسے آنکھ یا عرضی طور پر جیسے رنگ و شکل ، اور ظاہر ہے کہ خداوند کریم ھرگزجہت نہیں رکھتا ۔
زخیال برتر است این تو خیال رامرنجان
ز جہت بود مبرّا مطلب بھیچ سو یش !
لہٰذا اشاعرة ( اور ان کے ہم خیالوں کی) دلیل کمزور اور مردود ہے ، اور جن آیات اور روایات کے ذریعہ اشاعرہ اور ان کے ہم فکر لوگوں نے دلیل قائم کی ہے ، اس فرض کے ساتھ کہ ان آیات و روایات کا ظھور ان کے مقصد کو بیان کرتی ہیں ، اور حکم عقل سے چشم پوشی کرتے ہوئے ، دوسری آیات و روایات سے ٹکراتی ہیںکہ جن میں خدا کے دیدار کی نفی کی گئی ہے ، لہٰذا مجبوراً ان آیات وروایات کی صحیح تاویل اور توجیہ کریں ۔
اشعریوںاور ان کے ہم فکر لوگوں کی دلیل کی کمزوری ظاہر ہونے کیلئے ان کی ایک عقلی دلیل کو بیان کرکے اس کو رد کرتے ہیں :
خدا کے دیدار پر اشعریوں کی دلیل
کہتے ہیں : کسی چیز کے دیکھنے کا معیار اس کا موجود ہونا ہے ،بس جو چیز موجود ہو اس کو دیکھا جا سکتا ہے ، اور جس چیز کو دیکھنا ممکن نہ ہو ، تو وہ چیز موجود نہیں ہے ۔
ہمارا جواب
ظاہر ہے یہ دعویٰ بغیر دلیل کے ہے چونکہ ان کا یہ دعویٰ کہ جو چیز موجود ہے اس کو دیکھنا بھی ممکن ہے ، یہ معیار اور ملاک مادی اور حادث چیزوں کا تو ہو سکتا ہے ۔
(خدا کے بارے میں یہ معیار صحیح نہیں ہے ) اور ان کا یہ دعویٰ باطل ہے اور اسی وجہ سے مادیین (مادہ کے قائل ) منحرف ہوئے ہیں ، کہ انھوں نے خدا کا انکار کردیا کیونکہ جو چیز ہوتی ہے وہ دیکھائی بھی دیتی ہے اور چونکہ خدا دکھائی نہیں دیتا ،لہٰذا خدا ہے ہی نہیں ، جبکہ یہ دعویٰ عقلی لحاظ سے باطل ہے ، کیونکہ ہر عاقل انسان واضح طور پر تصدیق کرتا ہے کہ خدا ان چیزوں میں ہے جو موجود ہے لیکن دکھائی نہیں دیتا !
اور اسی طرح انسان کاضمیر گواہ ہے کہ انسان کی باطنی چیزیں مثلاً بھوک وپیاس ، محبت و غصہ موجود ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتیں ! ، اور آج کے سائنس نے محکم دلیلوں کے ساتھ ثابت کیا ہے کہ زمین حرکت کرتی ہے اور اس حرکت کی بھی قسمیں ہیں لیکن دکھائی نہیں دیتیں ۔
اشاعرہ اور اس کے ہم فکروں کی اس دلیل کے باطل ہونے کے لئے اتنا کافی ہے ،اشاعرہ نے اوربھی آیات و روایات کے ذریعہ دلیلیں قائم کی ہیں ، جو سب کی سب کمزور اور باطل ہیں ، اور دامن کتاب میں گنجائش نہیں کہ ان کو بیان کیا جائے ، یہ ایک نمونہ ہی قارئین کرام کے لئے کافی ہے ۔
مزید معلومات کیلئے مفید اور بہترین کتاب ” علم کلام “ تالیف مرحوم سید احمد اصفھانی کا مطالعہ فرمائیں اور ہم نے بھی اس مطلب کو اسی کتاب سے تھوڑابہت فرق کے ساتھ تحریر کیاہے۔
کامل انسانوں کےلئے خدا کا قلبی دیدار ممکن ہے
تا کہ یہ گمان نہ ہو کہ خدا سے ارتباط اور اس سے ملاقات ” لقاء“ کا کوئی راستہ ممکن نہیں ہے ، عرض کرتے ہیں کہ جو چیز شرعاً اور عقلاًباطل اور محال ہے وہ خدا کاحسّی دیدار ہے یعنی سر کی آنکھوں سے خدا کا دیدارھونا ممکن نہںی ہے ، لیکن دل کے ذریعہ خدا کادیدار اور شھود ، حسّی دیدار سے الگ ہے ، یہ ایک طریقہ سے کشف حقیقت ہے کہ جس کا راز گناہوں سے دوری ہے اور یہ ممکن بھی ہے ،بلکہ بزرگوں کیلئے ایسا بھی ہوا ہے ۔
خدا ” نور السموات و الارض “ ہے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے اگر ہمارے گناہوں کا پردہ نہ ہو (جیسا کہ احادیث میں ہے ) خدا کے خاص بندے دل کی آنکھوں سے اس کا دیدار کرسکتے ہیں ۔
مرحوم فیض کاشانی اپنی کتاب ” کلمات مکنونہ “میں ایک حدیث بیان کرتے ہیں جس کا مضمون یہ ہے : ”مَا مِنْ عَبْدٍ اِلَّا وَلَهُ عَینَانِ ، اِذَا اَرَادَ اللهْ بِعَبْدِهِ خَیراً فَتَحَ عَینَ قَلْبِهِ
“ ہر انسان کی دو طرح کی آنکھیں ہوتی ہیں:سرکی آنکھ اور دل کی آنکھ، جس وقت خدا اپنے بندے کو خیر اور نیکی عطا کرتا ہے اس کے دل کی آنکھ کو روشن کردیتا ہے ، تاکہ جو چیز سر کی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا دل کی آنکھ سے دیکھ سکے ، ہمارے یھاں احادیث کی کتابوں میں اس طرح کی حدیثیں بہت زیادہ ہیں ، منجملہ حارثہ بن زید کی حدیث کہ جس کو ”اصول کافی باب حقیقت ایمان “میں بیان کیا گیا ۔
خرد را نیست تاب دید آن روی برو از بھر روی چشمی دگر جوی
چو نور او ملک را پر بسوزد خرد را جملہ پاو سر بسوزد
لیکن وہ کامل حضرات کہ جنھوں نے زندگی بھر خدا کی عبادت اور اس کی اطاعت کی ہے دل کی آنکھوں سے حق کا مشاہدہ کیا ہے ، جیسا کہ رئیس العارفین حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام فرماتے ہیں :
” لَو کُشِفَ الغِطَاء مَا ازدَدتُ یَقیناً“ اگر میرے سامنے سے پردہ ہٹا لیا جا ئے تو بھی میرے یقین میں اضافہ نہیں ہوگا ، کیونکہ وہ بغیر کسی پردہ کے حقائق کو دیکھتے تھے ایک حدیث کے ضمن میں ” ذعلب یمانی“ سے آنحضرت (ص) نے سوال کیا :
”ہَل ْ رَایتَ ربک“ کیا تم نے اپنے پروردگار کو دیکھا ؟ ذعلب نے جواب دیا ، ”وَ یُحَکَ اِنَّیِ لَم اَکُنْ اَعبُدُ ربّاً لَم اَرَهُ
“ میں اپنے رب کو بغیر دیکھے عبادت نہیں کرتا ، اس کے بعد آنحضرت(ص) نے اس وجہ سے کہ حاضرین بزم آور آئندہ آنے والی نسل ” خدا کے دیدار حسّی“ کے شبہ میں گرفتار نہ ہوجائیں، فرمایا :
”لَا تُدْرِکْهُ الَابُصَارُ بِمُشَاهِدَةِ العَیَان ، وَ لٰکَنُ تُعْرَفُهُ القُلُوبُ بِحَقَائِقِ الْایْمَانِ
“ ہماری ظاہری آنکھیں خدا کو نہیں دیکھ سکتیں، لیکن انسان حقیقت ایمان کو پا کر دل کی آنکھوں سے دیکھ سکتا ہے ،
دلی کز معرفت نور و صفا دید زھر چیزی کہ دید اول خدا دید !
”جس دل میں خدا کی معرفت اور اس کا نور ہو ،اس نے سب سے پھلے خدا کا دیدار کیا“
آنحضرت(ص) نے اس موقع پر فرمایا : ” مَا رَایْتُ اللهَ قَبلَہُ وَ مَعَہُ وَ بَعْدَہُ “ میں نے کسی چیز کو نہیں دیکھا مگر اس سے پھلے ، اس کے ساتھ ، اور اس کے بعد ، خدا کودیکھا کہ یہ وہی شھود قلبی اور دلی دیدار ہے کہ صرف عقل اس کے جواز کا حکم کرتی ہے ، بلکہ خدا کے خالص اور نیک بندوں کیلئے خدا کا دیدار ہوا ہے ۔
تو مگو ما را بدان شہ بار نیست با کریمان کارہا دشوار نیست
اس بحث کی شرح انشاء الله کسی اور موقع پر عرض کریں گے ، آپ حضرات اس مختصر گفتگو سے تفصیلی نتیجہ نکال سکتے ہیں ۔
لیکن پھر بھی ہم ایک اشارہ کرتے ہیں ، کہ ابن تیمیہ کہ اس قول کا لازمہ یہ ہے کہ خداوند عالم کی ذات پاک جسم و مکان رکھتی ہو ، اور اعضاء و جوارح سے مل کر بنا ہے گویا خداوند عالم کی ذات ( اعضاء و جوارح سے ) مرکب ہے اور یہ واضح ہے کہ ہر مرکب چیز اپنے بقاء میں اجزا کی محتاج ہو تی ہے ، لہٰذاجو چیز مرکب ہوتی ہے وہ محتاج ہوتی ہے اور خدا محتاج نہیں ہو سکتا ، کیونکہ خداوند عالم ہر چیز سے بے نیاز ہے تمام چیزیں اس کی محتاج ہیں ، جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :
”(
وَ اللهُ غَنَیُّ عَنِ العَالَمِیْن“ یا یه آیت ” یَا اَیُّهَا النَُاسُ اَنْتُم الفُقراءُ اِلَی اللهُ وَاللّٰهُ هْو الغَنِیُّ الحَمِیدُ
)
“
ان لوگوں نے قرآنی آیات کے ذریعہ دلیل قائم کی ہے کیا ان آیات کو جو ہماری خدا سے نیاز و فقر کو اور خداوند عالم کی بے نیازی کو بیان کرتی ہیں قرآن مجید میں نہیں دیکھا ہے ، کیا قرآن مجید خداوند عالم کو ہر چیز سے بے نیاز اور غنی نہیں بتاتا ہے ؟!
ہم فلسفی بحث نہیں کرتے ، کیونکہ ابن تیمیہ جیسا شخص علماء فلاسفہ بزرگ شیعہ مثل صدر المتالھین ، محقق طوسی ، محقق داماد ، فیض کاشانی ، محقق لاہیجی و حکیم مقالہ سبزواری
وغیرہ کی بلندی فکر تک نہیں پہونچ سکتا ۔
حکمت عالیہ اسلامی اور شیعہ عمیق فلسفہ جس کی بنیاد بڑے بڑے حکماء اور فلسفی حضرات
ا۔ ” خدمات متقابل اسلام و ایران “ تالیف استاد علامہ شھید مطھری۔
۲ ۔ ” اعیان الشیعہ “ سید محمد امین (رہ) ۔
۳ ۔ ” روضات الجنات “ مرحوم خوانساری ، اور دوسری تراجم و رجال ۔
کے ذریعہ رکھی گئی ہے ، اور صدیوں سے اس کو مستحکم تر کیا گیا ہے اور اس وقت اپنے اوج و کمال پر پہونچا ہوا ہے ، خداوند عالم مجرد بلکہ یوں کھا جائے کہ ہر لحاظ سے لامتناہی ہے
اور اثبات کرتی ہے کہ خدا وند عالم کی ذات مبارک میں کسی بھی طرح کی کوئی جہت اور محدودیت اور ترکیب نہیں ہے، نہ ترکیب وجود وماہیت ، نہ ترکیب مادہ و صورت ، نہ ترکیب جنس و فصل ، خداکاجسم سے کیا مطلب ؟ ”این التراب و رب الارباب“ ہم خاکی بندے کھاں اور رب الارباب کی ذات اقدس کھاں ، لیکن ابن تیمیہ قائل ہے کہ اگر کوئی شخص یہ اعتقاد رکھے کہ خداوند عالم آسمانوں کے اوپر عرش پر مستقر ہے ، اور اپنی مخلوقات سے جدا ہے ، یہ معنی صحیح اور درست ہیں ، چاہے اس کو مکان کھا جائے یا نہ کھا جائے۔
یہ مطلب واضح اور روشن ہے ،کہ مذکورہ معنی خدا کیلئے مکان ثابت کرتا ہے ، اس نے تویھاں تک کہہ دیاکہ اس کی طرف انگلی سے اشارہ کیا جاسکتا ہے ، اور اگر خدا کی طرف حسّی طورپر اشارہ کیا جاسکتا ہے تو پھر اس کے لئے مکان ہونا ضروری ہے ، اور اگر خدا کے اعضاء و جوارح ھاتھ، منھ اور آنکھیں ہیں تو حتماًپھر جسم بھی ہونا چائیے ،تَعَالَی اللهُ عَمَّا یَقُولُ الظَّالِمُونَ عُلُواً کَبِیراً
۔
شیعہ فلسفی حضرات نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خداوند عالم کا وجود” صرف بحُتِ بسیط “ ہے ، اور اس میں کسی بھی طرح کی ترکیب اور ماہیت نہیں ہے ،
وَ الحَقَّ مَاهِیَةُ اِنّیتة ، اذمقتضی العروض معلُولِیَةُ
اس کا وجود صرف اور ” صرف الوجود “ و ” حقیقة الحائق “ ہے جبکہ بسیط ہوتے ہوئے ساری خصوصیات اس میں پائی جاتی ہیں ،جس کا کوئی ” غیر “ اور ”ثانی “ اس کی سنخیت سے نہیں ہے ، اور ہر چیز کا مبداء اور ہر چیز کو فیضیاب کرنے والا اور ہر کمال کاپیدا کرنے والا ہے ۔
کوئی شی چیز اس کی قدرت سے باہر نہیں ہے ، ”بکل شيءٍ قدیر
“ اور اس کا علم ھرچیز پرچھایا ہوا ہے “ و قد احَاطَ بکلِّ شَيءٍ علماً “ اور دوسری جگہ فلسفہ اسلامی میں ثابت ہے کہ جسم و جسمانیت موجودات کے سب سے نیچے درجہ کی خصوصیت ہے ، اور عالم مادی جسم وجسمانیت کا ظرف ہے ، اور وجود کا سب سے پست درجہ ہے ۔
جیسا کہ حدیث قدسی میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :جس وقت سے میں نے اجسام (جسموں ) کو خلق کیا ان پر نظر رحمت نہیں کی ہے ، ”مَا نَظرتُ اِلَی الَاجْسَامِ مُذُ خَلَقْتُها
“ یہ ہے مادہ اور جسم کی شان ، اس حالت میں خداوند عالم کو جسم سے توصیف کیا جاسکتا ہے ،! جبکہ وہ عرش اعلیٰ پر مستقر ہے اور آنکھ کان ، ھاتھ ، پیر اور دیگر اعضاء و جوارح رکھتا ہے ؟ یہ وہی دینی مادہ گرایی ہے کہ جس کا ذکر ، ہم نے پھلے بھی کیا ہے ۔
ہمارے نظریہ کے مطابق ،ابن تیمیہ اور ابن قیّم اور اس کے سارے ہم خیال اور وہابی اس جال میں پھنس گئے ہیں ، اور یہ ساری گمراہی اور کج انحراف اعتقادی مسائل میں غور و فکر نہ کرنے ، عقل سے کام نہ لینے اور فلسفہ اور حکمت سے دوری کا نتیجہ ہے۔
چنانچہ اسی ابن تیمیہ کے نظریات ، محمد ابن عبدالوہاب کیلئے سرچشمہ بن گئے ، اور فرقہ وہابیت بننے کا سبب پیدا ہوگیا ، محمد ابن عبد الوہاب نے اپنے عقائد میں کوئی نئی چیز پیش نہیں کی، بلکہ ابن تیمیہ کے نظریات کو الفاظ بدل کر دوسرے طریقوں سے بیان کیا ہے ۔
خدا کا دنیا کے آسمان پر اُترنے کا عقیدہ
” ابن بطوطہ “ اپنے سفرنامہ میں دمشق کی توصیف کرتے ہوئے لکھتا ہے :
دمشق کے فقھاء حنبلی میں ایک تقی الدین ابن تیمیہ تھے ، کہ جنھوں نے مختلف موضوعات پر گفتگو کی ، اور منبر سے اہل دمشق کو وعظ ونصیحت کرتے تھے، اچانک ان کے منھ پر ایک بات آئی ، کہ جن کو اس وقت کے فقھاء نے انکار کیا اور اس کو برا سمجھا اور مصر کے بادشاہ ملک ناصرکو اطلاع دی ، ملک ناصر نے حکم دیا کہ اس کو قاہر ہ کی طرف روانہ کردیا جائے ، اور ملک ناصر کے ساتھ فقھاء اور قضات قاہرہ میں جمع ہوئے اور شرف الدین زواوی مالکی نے آغاز سخن کیا اور ابن تیمیہ کے نظریات کو بیان کیا ، تب ملک ناصر نے حکم دیا کہ اس کو قید میں ڈال دیا جائے ، ابن تیمیہ نے چند سال قید خانہ میں زندگی گذاری ، اور اسی مدت میں ایک ۴۰ جلدی کتاب بنام ” البحر المحیط “ تالیف کی ، قید سے رہائی کے بعد دوبارہ اسی طرح باتیں کی جن کو علماء نے ماننے سے انکار کردیا ۔
میں (ابن بطوطہ ) اس وقت دمشق میں موجود تھا ،جمعہ کے دن ابن تیمیہ مسجد جامع میں منبر پرگئے اور لوگوں کو وعظ و نصیحت کی اس وقت میں بھی مسجد میں موجود تھا،
اس نے اپنی گفتگو کے دوران اس طرح کھا کہ خداوند عالم دنیا کے آسمان( پھلا آسمان ) پر نیچے اترتا ہے ، جس طرح میں نیچے اتر تا ہوں اور منبر کے ایک زینہ نیچے اتر کردکھایا ، اور جیسے ہی اس کی زبان پر یہ جملہ جاری ہوا ، ابن الزھرا نامی مالکی فقیہ اس کی مخالفت کیلئے کھڑا ہوگیا ، اور اس کی بات کا انکار کیا ، لوگوں نے اس فقیہ پر حملہ کردیا، مار پٹائی شروع کردی اور اس پر جوتے بر سا ئے گئے ، یھاں تک کہ اس کے سر سے عمامہ بھی گرگیا ، اس کے عمامہ کے نیچے سے ایک حریر کی ٹوپی نکلی ، لوگوں کو اس فقیہ پر حریر کا لباس معیوب لگا، اس کو حنبلیوں کے قاضی عزالدین بن مسلم کے پاس لے گئے ، قاضی نے اس کو سزائے قید سنادی ، اور اس کو شرعی تنبیہ بھی کی ، شافعی اور مالکی علماء کو اس قاضی کا فیصلہ پسند نہیں آیا ، اور یہ اطلاع ملک الامراء سیف الدین تنکیز تک پہونچائی ، سیف الدین نے اس مسئلہ کو اور ابن تیمیہ کے دوسرے موضوعات کے سلسلہ میں ایک تحریر جس پر چند قاضیوں اور عادل گواہوں کے دستخط تھے ملک ناصر کو بھیجی ملک ناصر نے حکم دیا کہ ابن تیمیہ کو جیل بھیج دیا جائے ، اور اس کے بعد ابن تیمیہ آخر عمر تک قید میں رھے
اگرچہ بعض افرادنے ابن بطوطہ کی گذشتہ باتوں میں شک و تردید کی ہے ، اور ان واقعیات کو جعلی بتا یا ہے ، لیکن خود ابن تیمیہ نے اپنی کتاب ” العقیدة الحمویة الکبریٰ “میں ان باتوں کی تصدیق کی ہے ، جیسا کہ کہتا ہے : خداوند عالم عرش اعلیٰ پر رہتا ہے اور کبھی کبھی وہاں سے پھلے آسمان پر آتا ہے ،وہ اس بارے میں کہ خدا آسمان پر رہتا ہے بغیر کسی تاویل و تفسیر کے حقیقت میں قائل ہیں اور اس چیز کا جواب کہ خدا کی صفات کو ظاہر پرحمل کیا جا سکتا ہے ، تشبیہ کا انکار کرتے ہیں ۔
اور یہ کہ عورتیں بھی جنت میں خدا کا دیدار کریں گی ، اور اس طرح کے دوسرے مسائل میں چند عدد کتابچہ بھی لکھے ہیں
انبیاء کی بعثت سے قبل ان کے غیر معصوم ہونے کاعقیدہ
ابن تیمیہ نے علامہ حلی (رہ) کی اس بات کا کہ انبیاء کرام(ع) اول عمر سے آخر تکز ہر طرح کی خطاو غلطی اور گناہ چاہے گناہ صغیرہ ہو یا کبیرہ سے پاک ہوتے ہیں ( یعنی وہ معصوم ہوتے ہیں ) اور اگر معصوم نہ ہوں تو ان کے کہنے پر اعتماد اور بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، جواب دیتے ہوئے کہتا ہے :
انبیاء کا پیغمبری پر مبعوث ہونے سے قبل ان کا گناہوں اور خطاوں سے پاک ہونا ضروری نہیں ہے ، اور اپنے اس دعوی کے ثابت کرنے کیلئے چند دلیلیں بھی بیان کی ہیں۔
” ابن تیمیہ کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ انبیاء کی عصمت فقط تبلیغی امور میں ہونا ضروری ہے“ اور اس سلسلے میں ایک مقالہ بھی لکھا ہے !
انبیاء علیہم السلام کی عصمت و طھارت پر ایک تفصیلی وقت درکار ہے، جس کو ہم انشاء اللہ کسی مناسب موقع پر بیان کریں گے۔
اور یہ بحث اعتقادی اور فلسفی و کلامی مباحث کے اہم ترین اورتفصیلی بحثوں میں سے ہے ، مغربی اور روشن فکروں نے اس بحث میں ایک ھنگامہ بر پا کیا ہے ، اور بہت سے شبھات ایجاد کیئے ہیں ، اور اس سلسلے میں اشاعرہ ، معتزلہ ، خوارج اور حشویہ و غیرہ فرقوں نے اپنی اپنی رائے بیان کی ہے ،لیکن ہم اس وقت ان کے بیان کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے ، اس وقت صرف یہ عرض کردینا چاہتے ہیں کہ شیعوں کا اعتقاد یہ ہے ( اور حق بھی یہی ہے ) کہ نبی اول عمر سے آخرعمر تک گناہ اور خطا سے پاک ہوتا ہے، کیونکہ جو شخص اپنی زندگی میں گناہ کبیرہ اور صغیرہ کا مرتکب ہوتا رہتا ہے انسان ایسے شخص کا مطیع او رفرمانبردار نہیں ہو سکتا ، اور اگر کسی نبی سے لوگ نفرت کریں اور اس کو قبول نہ کریں ، اور اس کے بتائے ہوئے پر عمل نہ کریں ، تو پھر لوگوں کی ہدایت کس طرح ممکن ہے ، اس طرح تو ہدف اور مقصد ِ بعثت انبیاء(ع)ختم ہو جاتا ہے ۔
خداوند عالم اپنے مقام ربوبیت کی وجہ سے تمام موجودات کو ہدایت کرنے والا ہے اور تمام موجودات کی ہدایت خاص طریقے سے انجام دی ہے ۔
اگر لوگ انبیاء کی اطاعت نہ کریں ، ان کو قبول نہ کریں تو پھر ہدایت نہیں پاسکتے ، اور اس حالت میں خداوند عالم کا مقصد(بعثت انبیاء) ختم ہوجاتا ہے ، لہٰذا انبیاء کرام کو ہر جہت سے ، چاہے وحی سے قبل ہو یا وحی کے بعد ،معصوم ہونا چاہیئے۔
عصمت انبیاء کے بارے میں علامہ طباطبائی کا نظریہ
علامہ طباطبائی (رہ) صاحب تفسیر المیزان فرماتے ہیں :
پھلی قسم :۔ نبی کووحی کے سلسلہ میں خطاء سے پاک ہونا چاہئے۔
دوسری قسم :۔ تبلیغ اور رسالت کے کاموں میں خطاء اور غلطی سے پاک ہونا چاہئے۔
تیسری قسم :۔ نبی کو ہر لحاظ سے معصوم ہونا چاہئیے ، یعنی اس میں خدا کی مخالفت اور خطاء کا تصور بھی نہ پایا جائے ۔قرآن مجید انبیاء کے ہر طرح سے معصوم ہونے پر دلالت کرتاہے ۔
ہم اس بحث کو اسکی اہم یت کی وجہ سے ، قرآن مجید کی روشنی میں جو ابن تیمیہ او راس کے ہم فکر لوگوں کو بھی قبول ہے ،بیان کرتے ہیں ، تا کہ روشن ہوجائے کہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم فکر لوگوں کا نظریہ ، قرآن کریم سے بہت دور ہے ، یہ لوگ بے فائدہ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے غلط نظریات کو قرآن مجید کی طرف نسبت دیتے ہیں، اور اپنے غلط نتائج کو قرآن سے مرتبط کرتے ہیں، جبکہ قرآن کریم ان تمام چیزوں سے پاک و منزہ ہے ۔
انبیاء کی عصمت کے تین مرحلے
ہم نے عرض کیا کہ انبیاء علیہم السلام کی عصمت کے تین مرحلے ہیں ۔
پھلا مرحلہ :۔ القاء وحی ،یعنی پیغمبر کا دل اس طرح ہو کہ وحی کے نازل ہوتے وقت خطا نہ کرے ، اور وحی جس طرح ہے اس طرح سے اخذ کرے ، اور اس میں کم و زیادتی نہ کرے ، پیغمبر کا دل اس کی حقیقت کو تبدیل نہ ہونے دے۔
دوسرا مرحلہ :۔ وحی کو لوگوں تک پہونچانا ، یعنی جس طرح وحی نازل ہوئی ہے اسی طرح سے لوگوں تک پہونچائے ، اور وحی کو پہونچائے میں خطا و غلطی نہ کرے وحی کو نہ بھولے ، یا اس کے پہونچانے میں کمی یازیادتی نہ کرے ،یعنی وحی کی حقیقت کو لوگوں تک پہونچائے ۔
تیسرا مرحلہ :۔ گناہ اور نافرمانی سے پاک، یعنی کوئی ایسے کام انجام نہ دے جو خدا کی عبودیت اور اس کے احترام کے خلاف ہو ، چاہے زبانی طور پر ہویا عملی طور پر ، مجموعی طورپر ان تینوںمرحلوں کو ایک جملہ میں خلاصہ کیاجاسکتا ہے ، اور وہ یہ کہ خدا نبی کو خطا اور گناہ سے محفوظ رکھے۔
لیکن عصمت ان تینوں مرحلوں کے علاوہ بحث سے خارج ہے مثلاً امور خارجیہ میں وہ خطا ، جیسے کہ انسان اپنے حواس میں اشتباہ اور غلطی کرتا ہے یا امور اعتباریہ میں خطا کرنا ، جیسے نفع و نقصان اصلاح و فساد وغیرہ میں خطا کرنا۔
اور عصمت کے ان تینوں مرحلوں پر قرآن مجید کی آیات دلالت کرتی ہیں :
ارشاد خداوند عالم ہوتا ہے :
(
” کَانَ النَّاسُ امَّةً وَاحِدَةً فَبَعَثَ اللهُ النَّبِیّنَ مُبَشُِّرِیْنَ وَ مُنْذِرِینَ وَ انْزَلَ مَعَهْمُ الکِتَابَ بِالْحَقِّ لِیَحْکُمَ بَینَ النَّاسِ فِیمَااخْتَلَفُوا فِیْهِ وَ مَا اَخْتَلَفَ فِیْهِ اِلَّا الّذِیْنَ اوْتُوهُ مِِنْ بَعْدِ مَا جَاءَ تْهُمُ البَیَّناتُ بَغیاً بَیْنَهُمْ فَهَدَی اللهُ الَّذیْنَ آمَنُوا لِمَا اخْتَلَفُوا فِیهِ مِنَ الْحَقِّ بِاِذْنِهِ وَ اللهُ یَهْدِی مَنْ یشَاءُ اِلیٰ صِرَاطٍ مُسْتَقِیم
)
“
یہ آیت دلالت کرتی ہے کہ انبیاء علیہم السلام کا ہدف بعثت اور نزول وحی کا مقصد لوگوں کو خدا کی طرف دعوت دینا ہے ، اور اختلافی مقامات پر چاہے فعل ہو چاہے قول اور چاہے اعتقادی مسائل ، لوگوں کو راہ حق کی جانب رھنمائی کرنا ہے، یہ ہے انبیاء علیہم السلام کی بعثت کاہدف اور مقصد، کیونکہ خداوند عالم اپنے مقصد میں خطاء و غلطی نہیں کرتا۔
کیونکہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
” ل(
َا یَضِلُّ رَبّی ولایُنسیٰ“
)
”میرا پروردگار نہ بھکتا ہے اور نہ بھولتا ہے “
اور یہ کہ خدا اپنے مقصد میں کامیاب ہے اور اس کے لئے کوئی مانع اور رکاوٹ نہیں ہے ، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
”(
اِنَّ اللهَبالَغُ اَمْرِهِ قَدْ جَعَلَ اللهُ لِکلِّ شَيءٍٍ قَدْرَاً
)
“
بے شک خدا اپنے کام کو پورا کرکے رہتا ہے ، خدا نے ہر چیز کاایک اندازہ مقرر کررکھاہے ۔
اور یہ آیہ شریفہ :(
وَ اللهُ غَالِبٌ عَلیٰ اَمْرِه
)
“
اس بناپر لازم ہے کہ نزول وحی اور اس کی تبلیغ میں پیغمبر کو ہر طرح کی خطا اور غلطی سے محفوظ رکھے ، کیونکہ اگر نزول وحی میں پیغمبر کا دل خطا و غلطی کرے ، رسالت کا مقصد پورا نہیں ہوسکتا ، کیونکہ انبیاء کی بعثت کا مقصد حق کی طرف دعوت ہے ۔
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
”(
وَ اَنزَلَ مَعَهُمُ الکِتَابَ بِالحقِّ لِیَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسَ فیَما اْخْتَلَفُوا فِیهِ
)
“
”اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں“
لہٰذا غلطی ہونے کی صورت میں یایہ کہ خداوند عالم نے رسول کے انتخاب اور نبی کے دل پر نزول وحی کے طریقہ میں غلطی کی ہے یا پھربھول چوک ہوئی ہے ، یا اس مقصد میں جو حق کی دعوت تھی، اس میں کمی بیشی ہوگئی ہے، لیکن پیغمبر کے دل پرنزول وحی کے وقت تبدیلی اور خطاء ہوگئی ، یہ تمام چیزیں(
” لَا یَضِلُّ رَبِّی وَلَا یَنسیٰ“
)
کے پیش نظر صحیح نہیں ہےں ۔
جبکہ نبی کا مقصد اور ہدف خدا کی طرف لوگوں کو دعوت دینا تھا ، اور اس نے تبلیغ وحی میں بھی کوئی غلطی نہیں کی ، لیکن کسی دوسرے مانع کی وجہ سے خدا کا ہدف پایہ تکمیل تک نہ پہونچ سکا، اور اس میں مانع ایجاد ہوگیا ، یہ بھی ” اِنَّ اللهبَالغُ اَمْرِہِ “ اور ” والله غالب علیٰ امرہِ“ کی روسے محال ہے ۔
ان تمام چیزوں کے پیش نظر خداوند عالم پر ضروری ہے کہ پیغمبر کو ہر طرح کی خطا نہ کرنے سے روکے اور انبیاء (ع) کے دلوں کو اس طرح پاک و پاکیزہ قرار دے تا کہ وحی کے نزول کے اثر سے نبی کے دل میں کوئی ایسی گھبراہٹ پیدا نہ ہو ،جس کی وجہ سے وحی کی کیفیت اور اس کی حقیقت تبدیل ہوجائے ، اور کسی بھی طرح کا کوئی اضطراب و پریشانی اور تاریکی وجود میں نہ آئے جس سے حق وحقانیت کی تاویل وتفسیرمیں غلطی کا امکان رہ جائے،اور یہی عصمت کے دو نوںمنزلوں (نزول وحی اور اس کی تبلیغ) کے حقیقی معنی ہیں۔
تیسرا مرحلہ:
انبیاء علیہم السلام کاگناہوںسے پاک ومحفوظ ہوناممکن ہے ، ضروری ہے کہ یھاںپر ایک اور بات بیان کی جائے تاکہ مذکورہ آیت کی دلالت کامل اور واضح ہو جا ئے ،اور وہ یہ ہے کہ اگر کوئی پیغمبر گناہ و معصیت کرے اور اپنے اس فعل سے کسی کام کے جائز اور مباح ہونے کو عملی طورپر بتائے کیونکہ ایک عقلمند انسان کسی کام کو انجام نہیں دیتا ، مگر یہ کہ وہ کام اس کی نظر میں پسند ہو،تو اگرنبی سے کوئی معصیت اورگناہ سزرد ہو جب کہ زبانی طور پر وہ اس کے خلاف حکم کرے تویہ بات تضادگوئی ہوگی، یعنی اپنے قول وفعل سے دو متناقض چیزوںکی تبلیغ کررہاہے ،اپنے قول سے لوگوں کو کسی چیز سے روک رہاہے اوراسی کام کو عملی طورپر اپنی امت کے لئے جائزھو نے کو ثابت کر رہاہے، اوریہ بات واضح و روشن ہے کہ دو متناقض چیزوں کی تبلیغ حق نہیں ہو سکتی،کیونکہ ان میں سے ھرچیز ایک دوسرے کو باطل قرار دیتی ہے ،اور وہ خدا جس نے پیغمبروں کو حق وحقیقت کی تبلیغ کے لئے بھیجا ہے وہ انبیاء (ع)کو متناقض چیزوں کی تبلیغ کے لئے نھیںبھیج سکتا ، بلکہ ان کو غیر مناسب افعال اور ہر طرح کی معصیت وگناہ سے محفوظ رکھتا ہے ، کیونکہ دین الٰھی کی تبلیغ گناہوں سے پاکیزگی کے بغیر، کامل نہیں ہوسکتی۔
ہمارے اس بیان سے واضح اور روشن ہوچکاہے کہ مذکورہ آیت انبیاء کی عصمت پردلالت کرتی ہے (عصمت کے تینوں مرحلوں: نزول وحی، تبلیغ وحی، اور معصیت وگناہ)۔
لیکن انبیاء علیہم السلام کی عصمت مطلق اور مادام العمر عصمت سے بحث (جیساکہ شیعہ معتقدھیں ) ایک مناسب فرصت چاہتی ہے جو اس وقت ہمارے پاس نہیں ہے ۔
غیر خدا کی قسم کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کا نظریہ
ابن تیمیہ کہتا ہے :اس بات پر علماء کا اتفاق ہے کہ باعظمت مخلوقات ،مثلاً عرش وکرسی، ملائکہ اور خانہ کعبہ کی قسم کھانا جائز نہیں ہے ۔
حضرت رسول اکرم(ص) کی قسم کھانے کے سلسلہ میں امام مالک، ابوحنیفہ اور احمد ابن حنبل مخلوقات کی قسم نافذ نہیں ہے ،(یعنی یہ قسم شرعی حکم نہیں رکھتی) یعنی ایسی قسم کو توڑنے سے کفارہ بھی واجب نہیں ہوتا،کیونکہ صحیح روایت کے مطابق آنحضرت(ص) نے فرمایا: خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم نہ کھاؤ۔
اور دوسری روایت میں وارد ہوا ہے کہ : جو شخص قسم کھانا چاہتا ہے اس کو چاہئےے کہ خدا کی قسم کھائے یا پھر قسم نہ کھائے۔
ایک دوسری جگہ نقل ہوا ہے کہ خدا کی جھوٹی قسم کھانا ، غیر خدا کی سچّی قسم سے بہتر ہے ، اور یہ کہ غیر خدا کی قسم شرک ہے ۔
جبکہ بعض علماء نے پیغمبر(ص) کی قسم کو استثناء کیا ہے یعنی آنحضرت(ص) کی قسم کھانے کو جائز قرار دیاہے ، احمد بن حنبل کے دوقولوں میں سے ایک یہی ہے ، اور احمد کے بعض اصحاب نے بھی اسی قول کو قبول کیا ہے۔
اسی طرح بعض دوسرے علماء نے دوسرے تمام انبیاء کی قسم کو بھی جائز مانا ہے ،لیکن مشھور قول یہ کہ مخلوق کی قسم کھانا بغیر کسی استثناء کے منع ہے ، اور یہی قول صحیح اور بہتر ہے ۔
ابن قیّم جوزی (شاگرد ابن تیمیہ) کہتا ہے :
خدا کے علاوہ کسی دوسرے کی قسم کھانا گناہ کبیرہ ہے ، پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایاکہ جوشخص بھی غیر خدا کی قسم کھاتا ہے وہ خدا کے ساتھ شرک کرتا ہے اسی وجہ سے غیر خدا کی قسم کھانا گناہان کبیرہ کی سر فھرست میں ہے ۔
غیر خدا کی قسم کے سلسلہ میں وضاحت اور ابن تیمیہ کے نظریہ کی ردّ
مرحوم علامہ امین صاحب کتاب ارزشمند ”اعیان الشیعہ“ بیان فرماتے ہیں: صاحب رسالہ کا وہ قول جس میں غیر خدا کی قسم کھانے سے بالاتفاق علماء نے منع کیا ہے ،حقیقت سے بہت دور ہے کیونکہ اس نے اپنی اس بات کو ثابت کرنے کے لئے فقط ابوحنیفہ، ابویوسف، ابن عبدالسلام اور قدوری جیسے افراد کا قول نقل کیا ہے ، اور تعجب تو یہی ہے کہ عالم اسلام کے تمام علماء کو انہیں چار لوگوں میں منحصر کیا ہے، اور پھر شافعی ، امام مالک، احمد ابن حنبل کے فتووں کو نقل کرنے سے کیوں اجتناب کیا گیاہے، اور بہت سے بے شمار علماء کے فتووں کو کیوں نہیں بیان کیا ان علماء کے فتوے کہ جن کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں جانتاہے ؟!
حق تو یہ ہے کہ غیر خدا کی قسم کھانا نہ حرام ہے اور نہ ہی مکروہ، بلکہ ایک پسندیدہ اور مستحب عمل ہے جیسا کہ اس سلسلہ میں روایات بھی وارد ہوئی ہیں : اس کے بعد مرحوم امین(رہ) نے صحاح ستہ سے چند روایتیں نقل کی ہیں،اس کے بعد دوسری جگہ کہتا ہے کہ : غیر خدا کی قسم کھانا، خدا وررسول(ص) ، صحابہ تابعین اور تمام مسلمانوں سے ، زمانہ قدیم سے آج تک دیکھی گئی ہے ، خدا وندعالم نے قرآن مجید میں بہت سے مقامات پر اپنی مخلوق کی قسم کھائی ہے ، پیغمبر اور صحابہ وتابعین کی گفتگو میں بہت سے ایسے مورد پائے جاتے ہیں کہ جھاں اپنی جان کی قسم کھائی گئی ہے، نیز دوسری چیزوں کی بھی قسم کھائی ہے۔
پیغمبر اسلام(ص) سے توسل واستغاثہ کرنا اور ا ن کو شفیع قرار دینا اور ان سے حاجت مانگنا
ابن تیمیہ ان مسائل کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرت(ص) کی زیارت کو جائے اور اس کا قصد دعا وسلام نہ ہو بلکہ زیارت ِپیغمبر(ص) ہو، اور ان سے طلب حاجت کے لئے جائے اور اسی قصد سے اپنی آواز پیغمبر کی قبر منور کے پاس بلند کرے ، تو ایسے شخص نے پیغمبر(ص) کو اذیت دی ہے اور خدا کے ساتھ شریک کیا ہے ، اور خود اپنے اوپر ستم کیا ہے ۔
ابن تیمیہ نے ان حدیثوں کو جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا: جو شخص میری رحلت کے بعد میری زیارت کرے ، ایسا ہے کہ اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی ہو، ان احادیث کو جعلی او رمن گھڑت بتایاہے ۔
ابن تیمیہ صاحب قبور سے توسل کے سلسلہ میں کہتا ہے :
بعض زائرین کی زیارت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ان کی حاجتیں پوری ہوجائیں، کیونکہ صاحب قبر کو خدا کا مقرب بندہ مانتے ہیں اور اس کو خدا کے حضور میں واسطہ اور وسیلہ مانتے ہیں اور اسکے لئے نذر وقربانی کرکے صاحب قبر کو ہدیہ کرتے ہیں ، اور بعض زائرین اپنے اموال کو صاحب قبر کے لئے نذرکرتے ہیں ،اور بعض زائرین شوق اور محبت کے جذبے میں صاحب قبر کی زیارت کے لئے آتے ہیں اس قصد سے کہ ان کی قبر کی طرف سفر کرنا، گویا ایسا ہے کہ ان کی زندگی میں خود ان کی زیارت کے لئے سفر کیا ہو، اور جب صاحب قبر کی زیارت کرلیتے ہیں اپنے اندر ایک طرح کا سکون واطمینان محسوس کرتے ہیں ، لہٰذا اس طرح کے لوگ بت پرستوں کی طرح ہیں جو بتوں کو مثل خدا جانتے ہیں ۔
پیغمبر(ص) سے توسل اور وسیلہ کے سلسلہ میں وضاحت
اور ابن تیمیہ کے قول کا جواب
ہم خدا وندعالم کے لطف وکرم اور اس کی مدد سے، توسل اور وسیلہ کے سلسلہ میں ابن تیمیہ کے نظریات کی بعد میں تنقید کریں گے لیکن یھاں پر مختصرطورپرعرض کرتے ہیں کہ: یہ توسل کا مسئلہ شرع مقدس کے ذرہ برابر بھی منافی نہیں ہے ، بلکہ یہ ایک معقول امر ہے ۔
”سہم ودی“ نے ”سُبکی“ سے نقل کیا ہے کہ کھبی کبھی محبوب کا ذکر، دعا کے قبول ہونے میں سبب بنتا ہے ، اور اسی کا نام توسل ہے اور کبھی اس کو استغاثہ اور تشفّع (شفاعت طلب کرنا) بھی کھا جاتا ہے ، کبھی انسان اپنے سے کسی بزرگ ھستی سے اپنی عظمت اور مقام کی وجہ سے متوسل ہوتا ہے۔
رسول اسلام(ص) کی زندگی میں توسل کا مسئلہ بارہا پیش آیا ہے ، ترمذی او رنسائی نے عثمان بن حنیف سے روایت کی ہے کہ: حضرت رسول اسلام(ص) نے ایک نابینا شخص کو حکم دیا کہ اس طرح دعا کرو:
”اللّٰهم انی اسئلک واتوجه الیک بنبیک محمد نبی الرحمة، یامحمد انی توجهتُ بک الیٰ ربّی فی حاجتی لتقضِ لی ، اللّٰهم شفّعه لی
“
اے پروردگار! میری تجھ سے التجا ہے اور تیرے پیغمبر(ص) کہ جوپیامبر رحمت ہے کے وسیلہ سے تیری بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں، اے محمد(ص)! میں آپ کے توسل سے خدا کی بارگاہ میں متوجہ ہوتا ہوں تاکہ خدا آپ کے ذریعہ سے میری حاجت روائی فرمائے، اے خدا ! حضرت محمد(ص) کو میرا شفیع قرار دے ۔
طبرانی نے اس طرح کی حدیث اس شخص کے بارے میں بیان کی ہے کہ جو رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعد عثمان بن عفان کے زمانے میں کچھ حاجت رکھتا تھا اور انہیں عثمان بن حُنیف نے یہی مذکورہ دعا پڑھنے کے لئے کھا،(اور اس کی حاجت پوری ہوگئی)
اس طرح کی ایک روایت ”بیہقی“ نے نقل کی ہے کہ جس وقت عمر کے زمانے میں قحط پڑا(اور بارش نہ ہوئی) تو لوگوں نے حضرت رسول اسلام(ص) سے توسل کیا، اور ایک شخص آنحضرت کی قبر منور کے سامنے کھڑا ہوکر عرض کرتا ہے : یَا رَسُوْلُ اللّٰہ اِسْتَسْقِ لِاُمَّتِکَ فَاِنَّہم قَدْ ہَلَکُوا“(یعنی اے رسول اللہ(ص)(ص) آپ خدا سے اپنی امت کے لئے بارش طلب کیجئے،کیونکہ آپ کی امت ھلاک ہونے جارہی ہے )
اس طرح یہ روایت کہ قحط سالی کے وقت عمر نے حضرت رسول خدا(ص) کے چچا جناب عباس کے ذریعہ بارگاہ خدا وندی میں توسل کیا اور کھا:الٴَلّٰهُمَّ کُنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنَبِینَافَتُسْقِینَا، اِنَّا نَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِینَا فَاسْقِیْنَا
“ یعنی اے خدا ہم لوگ قحط سالی کے وقت اپنے پیغمبر(ص)کے ذریعہ توسل کیا کرتے تھے اور تو ہمیں سیراب کردیتا تھا (اور چونکہ اب پیغمبر نہیں ہیں ) ہم تیری بارگاہ میں تیرے نبی(ص)کے چچا کے ذریعہ متوسل ہوتے ہیں ، تو ہمارے لئے باران رحمت نازل فرما۔
ایک اور روایت کے مطابق عمر نے کھا: ”جناب عباس کو خدا کی بارگاہ میں وسیلہ قرار دو“
خود ابن تیمیہ کہتا ہے کہ اصحاب پیغمبر خود آنحضرت(ص) کے زمانے میں آپ سے توسل کرتے تھے، اور آپ کی وفات کے بعد جس طرح سے آنحضرت سے متوسل ہوتے تھے ، اسی طرح آپ کے چچا عباس کے ذریعہ بھی متوسل ہوتے تھے۔
ایک دوسری جگہ کہتا ہے کہ: احمد ابن حنبل نے اپنی دعاؤں میں پیغمبر اکرم(ص) سے توسل کیا ہے اور یہ کہ (احمد بن حنبل) اپنی دوروایتوں میں سے ایک میں آنحضرت(ص) کی قسم، اور ان سے توسل کو جائز مانتے ہیں ، مذکورہ چیزیںاور ان کی طرح دوسری چیزیں صحاح ستہ اور اہل سنت کی دیگر دوسری معتبرکتابوں میں موجود ہونا خود اس بات کی دلیل ہے کہ حضرت پیغمبر اسلام(ص) سے توسل کرنا اور ان سے شفاعت کی درخواست کرنا نیز آنحضرت(ص) کے چچا عباس سے توسل کرنا گذشتہ اصحاب کی سیرت رہی ہے ۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا کہ ابن تیمیہ کے نظر یات کے سلسلہ میں بحث بہت تفصیلی ہے ہم یھاںپرصرف اس کے چندایک انحرافی عقیدوں پربحث کی ہے، اور امیدوار ہیں کہ خداوندعالم ہمیں توفیق دے تاکہ ابن تیمیہ کے نظریات اور ان کی تنقید کے سلسلہ میں ایک تفصیلی بحث کرسکیں۔
ابن تیمیہ کی شخصیت اور اسکے نظریات کے بعد، ایک اور مشھور شخصیت کے بارے میں بحث کرتے ہیں کہ جو ابن تیمیہ کا ہم فکر ، شاگرد اور اس کے قریبی ساتھیو ں میں سے تھا یعنی ابن قیّم جوزی جس سے محمد ابن عبد الوہاب کی فرقہ وہابیت کی ایجاد کے سلسلے میں بہت متاثر ہوئے ہیں ۔
ابن قیّم جوزی کے حالاتِ زندگی
محدث قمّی(رہ) ، صاحب مفاتیح الجنان اپنی گرانقدر کتاب ”الکنی والالقاب“ میں تحریر کرتے ہیں: ”اس کا نام محمد بن ابوبکر حنبلی تھا اس کی وفات ۷۵۱ ھ قمری میں ہوئی ، اس کی ایک کتاب بنام ”زاد المعادفی ہدی خیر العباد“ تھی، اس نے علم فقہ کو ابن تیمیہ کی شاگردی میں حاصل کیا۔
صاحب ”الدرر الکامنہ“ تحریر کرتے ہیں کہ ابن قیّم جوزی پرابن تیمیہ کی محبت اس قدر غلبہ کرچکی تھی کہ اس نے کبھی بھی ابن تیمیہ کے نظریات کی مخالفت نہ کی ، بلکہ اپنے تمام نظریات میں اسی ہی کے نظریات پر اکتفا کی، اس ابن قیّم جوزی نے ابن تیمیہ کی کتابوں کی تحقیق کی اور ان کو نشر کیا، مصر کے دولت مندلوگوں نے اس کو نوازا، ابن قیّم جوزی ابن تیمیہ کے ساتھ گرفتار کئے گئے اور قید خانہ میں بھی رھے ، ایک مدت کے بعد اس کو ذلیل ورسوا کیا گیا او راس کو ایک اونٹ پر بٹھاکر مارتے ہوئے شھر میں گہمایاگیا ،اور جس وقت ابن تیمیہ کا انتقال ہوا تب اس کو کچھ سکون ملا۔
ایک مرتبہ اور بھی ابن تیمیہ کے فتاوای نقل کرنے کی وجہ سے ابن قیّم جوزی کو آزار واذیت دی گئی، یہ اپنے زمانے کے علماء سے بھرہ مند ہوتا تھا او رعلماء بھی اس کو مستفید کرتے تھے۔
”داشنامہ ایران واسلام“میں ابن قیّم جوزی کے سلسلہ میں اس طرح تحریر ہے :
شمس الدین ابوبکر محمدبن ابی بکر زرعی ایک حنبلی متکلم او رفقیہ تھے، تاریخ پیدائش ۷ صفر ۶۹۱ ھ، مقام پیدائش دمشق ، اور تاریخ وفات ۷۵۱ ھ ،اور جائے وفات دمشق ہے ۔
ابن قیّم جوزی ایک درمیانی خاندان سے تعلق رکھتا تھا اس کا باپ قیّم تھا او رمدرسہ جوزیہ کے برابر میں رہتا تھا یہ مدرسہ جوزیہ وہی مدرسہ ہے کہ جس میں حنبلی قاضی القضات قضاوت کیا کرتے تھے۔
ابن قیّم جوزی نے اعلی تعلیم حاصل کی، اس کے اساتید میں قاضی سلیمان بن حمزہ اور شیخ ابوبکر محدث ابن عبد القائم کے بیٹے کا نام لیا جاتا ہے ، لیکن خصوصی طور سے ۷۱۳ ھ سے ابن تیمیہ کی شاگردی کی او راسکے خاص اور ہونھار شاگردوں میں شمار ہوتا تھا، اور یہ بات یقین کے ساتھ کھی جاسکتی ہے کہ ابن قیم نے ابن تیمیہ کے تمام افکار او رعقائد کو قبول کیا تھا ، اور اپنی شخصیت کو حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ ان عقائد کونشر کرنے میں مشغول رہا، اپنے استاد کی طرح اپنے زمانہ کے تمام علوم مثلاً تفسیر قرآن، حدیث،اصول ، اورفروع فقہ میں مھارت رکھتا تھا، اور جس وقت ایک انجمن کے ذریعہ کہ جو عربی کے نظریات کے تحت اس کی تعلیمات کے سلسلہ کو جاری رکھا گیا تو ابن قیّم جوزی نے بہت مخالفت کی لیکن اسکے برخلاف تصوف(صوفیت) سے بہت زیادہ متاثر تھا ، ”منازل السائرین“خواجہ عبد اللہ انصاری“ جو ممالیک کے زمانہ میں مشھور تھاابن قیّم جوزی اس سے خاص اُنس رکھتا تھا۔
مناظرہ میں اپنے استاد سے کم تھا لیکن وعظ ونصیحت میں اپنے استاد سے کھیں زیادہ، اس کا طرز تحریر ابن تیمیہ کے خشک وتلخ روش کے برخلاف تھا، ۷۲۶ ھ میں ابن قیّم جوزی بھی ابن تیمیہ کے ساتھ دمشق کے زندان میں گیا اور ابن تیمیہ کے مرنے کے بعد ابن قیّم جوزی کو رہائی ملی۔
۷۳۱ ھ میں حج کے لئے گیا،کھا جاتا ہے کہ امیر عز الدین آبیک کی سرپرستی میں جوقافلہ شام سے گیا تھا جس میں بہت سے فقھاء ومحدثین اس کے ہمراہ تھے۔
ابن قیّم جوزی کے کارنامے کوئی بہت زیادہ عمدہ نہیں تھے ، کیونکہ ممالیک کی حکومت کی طرف سے ابن تیمیہ کے جدید حنبلی مذہب پر بہت سی ممانعت تھیں۔
دوسری رجب ۷۳۶ ھ میں پھلی مرتبہ اس نے اس مسجد میں خطبہ دیا جس مسجدکو نجم الدین بن خالیخان نے دمشق کے بیرونی دروازے کے پاس ایک باغ میں بنوایا تھا۔
۶ صفر ۷۴۳ ھ میں مدرسہ ”صدریہ“ میں اپنا پھلا درس پڑھانا شروع کیااور عمر بھر اسی مدرسہ میں تدریس کرتارہا۔
اس زمانہ سے ابن قیّم جوزی کا تقی الدین سُبکی دمشق کے شافعی قاضی القضات سے دو مرتبہ اختلاف ہوا، لیکن کبھی کوئی جھگڑا نہ ہوا۔
محرم ۷۴۶ ھ میں ابن قیّم جوزی کا سُبکی سے اختلاف یہ تھا کہ تیر اندازی یا گھوڑا سواری کے مقابلے میں شرکت کرنے والے ایک مبلغ شرط بندی کے لحاظ سے معین کریں او رکوئی تیسرا شخص بعنوان محلل(بغیر مبلغ دئے مسابقہ میں شرکت کرنے والا ) مقابلہ میں شرکت نہ کرے، تو کیا اس طریقہ کار کی بناپر وہ مقابلہ میں شرعی جواز رکھتا ہے یا قُمار اور جوے کا نام دیا جائے گا؟
ابن قیّم جوزی کا طرز تفکر اور طریقہ استدلال بھی ابن تیمیہ کی طرح تھا، یہ نظریہ پیش کیا کہ ایسے مقابلوں میں محلِل کی ضرورت نہیں ہے اسی بناپر قاضی القضات نے اس کو حاضر کرلیا، (اور اس کی توبیخ کی) جس کی بنا پر اس کو اکثریت کی پیروی کرنی پڑی۔
کچھ مدت بعد، سُبکی سے ابن قیم کا دوسرا اختلاف طلاق کے بارے میں ہوا کہ اس نے ابن تیمیہ کے نظریات کے مطابق فتویٰ دیا لیکن امیر سیف الدین بن فضل بدوی نے ان دونوں کے درمیان صلح کرادی۔
۲۳ رجب المرجب ۷۵۱ ھ کو ابن قیّم جوزی کا دمشق میں انتقال ہوگیا، اس کو باب الصغیر نامی قبرستان میں اپنے باپ کے برابر میں دفن کردیاگیا ، اس کے بعد اس کا بیٹا جمل الدین عبد اللہ مدرسہ صدریہ کا مدرس بن بیٹھا۔
ابن قیّم جوزی کی ادبی اور اعتقادی تالیفات بہت زیادہ ہیں ” کتاب مدارج السالکین “ جو ”منازل السائرین“ خواجہ عبد اللہ انصاری کی شرح ہے ، اس کتا ب کومذہب حنبلی میں تصوف کا شاہکار کھا جاسکتا ہے ، ”اعلام الموقّعین“ یا ”راہنمائی کامل مفتی“ نامی کتاب اصول فقہ میں بھی ابن تیمیہ کے نظریات کے مطابق تحریر کی۔
سیاست میں بھی ابن تیمیہ سے الھام لیا کہ جس کا نمونہ کتاب ”حسبہ“ او رکتاب ”السیاسة الشرعیة“ ہے ، اصول دین کے سلسلہ میں ”قصیدہ نونیہ“ تحریر کی، جو ایک اعتقاد نامہ ہے جس کی”عقیدہ اتحادیہ“ کے نام سے ردبھی لکھی گئی ہے ۔
اس طرح ایک کتاب ”الصوارق المرسلة“ ابن قیّم جوزی نے لکھی جس کا طرز استدلال جدَلی ہے اور یہ کتاب”جہم یہ“ کی رد ہے ۔
زمانہ ممالیک میں ابن قیّم جوزی کے چند شاگرد فقیہ اورمجتھد بنے یا یہ کھیں کہ ان شاگردوں میں کم وبیش ابن قیّم جوزی کے نظریات سے متاثر ہوئے اور اس کے نظریات کو قبول کیا، انہیں میں شافعی محدث مورخ ابن کثیر ، زین الدین بن رجب، قرن وسطیٰ میں مذہب حنبلی کے آخری نمائندے ، اور ابن حجر عسقلانی ہیں اس زمانہ میں بھی ابن قیّم جوزی کی کتابیں نہ یہ کہ وہابیوں کے درمیان بلکہ گذشتہ زمانہ سے آج تک پڑھی جارہی ہیں خصوصاً شمالی افریقہ میں اس کی کتابوں کے پڑھنے والوں کی تعداد کافی مقدار میں مل جائے گی۔
خیر الدین زرکلی صاحب کتاب الاعلام نے ابن قیّم جوزی کو اصلاح اسلامی کا ایک رکن اورعلماء بزرگ میں اس کاشمار کیا ہے ، زرکلی کہتا ہے : (ابن قیّم جوزی) اپنے استاد ابن تیمیہ کے نظریات سے آگے نہیں بڑھتے تھے بلکہ اس کی تائید وتکمیل کرتے تھے اس کی کتابوں کی نشرواشاعت کیا کرتے تھے، اور لوگوں کے درمیان نیک سیرت سے مشھور تھے، اس کے بعد اُس کی تالیفات کی فھرست تحریر کی ہے ۔
(ابن قیّم جوزی )نے ابن تیمیہ سے سب سے زیادہ فائدہ حاصل کیا ہے اور اس کے نظریات کو مکمل طورپر قبول کیا ہے او راسکے افکار اور نظریات کو نشر کیا ، او راس کا فکری وعملی لحاظ سے ساتھ دیا ہے ، زندان میں بھی اس کے ساتھ گئے اور ان کی خاطر دوسروں سے مقابلہ کیا کرتے تھے او رتوہین واذیت کو برداشت کرتے تھے، ہمیشہ کتابوں میں مشغول رہتے تھے، او راپنے استا دکی موت کے بعد ان کی کتابوں کی تحقیق وتہذیب میں مشغول رھے ۔
ڈاکٹر نزار رضا ابن قیّم جوزی کی کتاب ”اخبار النساء“ جس کو اس نے تحقیق وتصحیح کیا ہے اس کے مقدمہ میں ابن قیّم جوزی کے حالات زندگی کو مختصر طور پر بیان کیا ہے ، کہتاہے:
ابن قیّم جوزی کی کتاب ”روضة المحبین ونزھة المشتاقین“ جس کی تصحیح وتحقیق صابر یوسف نے کی وہ اس کے مقدمہ میں کہتا ہے: ابن قیّم جوزی ایک فقیہ،دینی رھبر،آزاد فکر کے مالک، اہل اجتھاد واستنباط اور اندھی تقلید کے مخالف تھے، اور وہ فقط قرآن وسنت کی تقلید کیا کرتے تھے اور کسی ایک مذہب سےوابستہ نہیں تھے یہ ایسے شخص تھے کہ جس کی ہمیشہ یہ کوشش رہتی تھی کہ مطلب کی گھرائی تک پہونچاجائے اور حقائق کو عمیق نظر اور ظریف نگاہ سے دیکھے اور ان کی گھرائی تک پہونچے، اس کے بعد اس کے بارے میں ان مختلف علماء کے اقوال نقل کرتا ہے کہ جنھوں نے اس کو صاحب بیان ، زبان سلیس، عالم فقیہ،محدث ، مفسر، اصولی، نحوی او ردینی خدمت گذار کھا ہے ، اس کے بعد ان مشکلات اورمصائب کا ذکر کرتا ہے کہ جو ابن قیّم جوزی نے اپنی زندگی میں برداشت کئے ہیں او راس کے بعد ابن قیم کے اساتید او رشاگردوں کے نام بیان کرتا ہے اس کے اساتید میں ان ناموں کو بیان کرتا ہے : ابن عبد الدائم، عیسیٰ المطعّم، قاضی تقی الدین بن سلیمان، ابن الشیرازی، الشھاب النابلسی، اسماعیل بن مکتوم۔
اسی طرح عربی علوم کے اساتید میں علی بن ابی الفتح اور المجد التونسی کا نام تحریر کیا ہے ، علم اصول کو علی صفی ھندی اور علم فقہ کو علی مجد حرّانی اور تقی الدین ابن تیمیہ سے حاصل کیا ہے ۔
ابن قیّم جوزی کی تالیفات
ابن قیّم جوزی کی تالیفات کو یوں تحریر کیا ہے :
”اعلام الموقّعین عن رب العٰالمین، بدائع الفوائد، اخبار النساء، اغاثة اللهفان من مکائد الشیطان، اغاثة اللهفان فی حکم طلاق الغضبان والسکران، التبیان فی اقسام القرآن، جلاء الافهام فی الصلاٰة والسلام علی خیر الانام، الجواب الکافی لمن سال عن الدّواء الشافی، هادی الارواح الی بلاد الافراح، زاد المعاد فی هدی خیر العباد، کتاب الصلوٰة وحکم تارکها، عدة الصابرین وذخیرة الشاکرین، الکلم الطیب، تفسیر المعودتین، مدارج السالکین، الطرق الحکمیه ، الوابل الصیّب من کلم الطیّب، الصواعق المرسلة علی الجهم یة والمعطّلة، روضة المحبین ونزهة المشتاقین
“
ان تمام تعریفوں کے باوجود کہ جو بعض معاصر مولفین نے ابن قیّم جوزی کی وسیع اطلاع اوروسیع مطالعہ کے سلسلہ میں کی ہیں ، اگر کوئی صاحب بصیرت او رعقلمند انسان اس کی کتابوں کا مطالعہ کرے تو یہی نتیجہ نکالے گاکہ: ابن قیّم جوزی بھی اپنے استاد ابن تیمیہ کی طرح اعتقادی مسائل میں بہت سی خطا اور لغزشوں کا شکارھوا ہے ، مثلاً ”خدا کا حسّی دیدار“ کا مسئلہ کہ جس کو ہم نے پھلے بھی بیان کیا ہے او راس کا غلط ہونا بھی ثابت کیا ہے ،یہ بھی ابن قیّم جوزی کے اعتقادات میں شامل ہے ، اس نے خود ”کافیة الشافیة“نامی طویل قصیدے میں صاف صاف اس عقیدہ کو قبول کیا ہے ۔بھر حال ہماری نظر میں ابن قیّم جوزی اپنے فکری معلم (ابن تیمیہ ) کی طرح بہت سے اعتقادی مسائل میں لغزشوں او رانحرافات کا شکار ہوا ہے لیکن اس وقت ان تمام لغرشوں او ر انحرافات سے بحث کرنے کا موقع نہیں ہے ۔
____________________