بانی وہابیت محمد ابن عبد الوہاب کے حالاتِ زندگی
فرقہ وہابیت کا بانی محمد ابن عبد الوہاب ہے جس کا نسب، وہیب تمیمی تک پہونچتا ہے ،
اس نے مکہ ومدینہ میں تعلیم حاصل کی ، اس میں گمراہی اور ضلالت کے آثار اسی وقت سے ظاہر تھے، خود اس کے باپ نے کہ جو صالح علماء میں سے تھے اس میں گمراہی وضلالت کا احساس کیا اور اسی وجہ سے اس کو چند بار تنبیہ بھی کی، اور لوگوں کو اس کی پیروی سے روکا، خود اس کا بھائی سلیمان بن عبد الوہاب بھی اس کے کارناموں پر اعتراض کرتا تھا، آخر کار اس کے بھائی نے خود محمد ابن عبد الوہاب کی ردّ میں ایک کتاب بھی تحریر کی، عبد الوہاب نے سب سے پھلے ان لوگوں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کیا کہ جھنوں نے نبوت کا دعوی ٰ کیا تھا ، مثلاً: مسلیمہ،سجّاح،اسود عنسی اور طلیحہ اسدی، محمد ابن عبد الوہاب ان لوگوں کے حالات زندگی پڑھنے کا بہت شوقین تھا او ران کے حالات کا شیفتہ بن چکا تھا۔
محمد ابن عبد الوہاب نے چار بیٹے چھوڑے کہ جن کے نام اس طرح ہیں: عبد اللہ، حسن، حسین اور علی، اس کے مرنے کے بعد اس کے بڑے بیٹے عبد اللہ نے اپنے باپ کے پروگراموں کو آگے بڑھایا، اور اس کے مرنے کے بعد اس کے دو بیٹے سلیمان وعبد الرحمن اس کے جانشین ہوئے، خصوصاً سلیمان بہت زیادہ متعصب تھا، ۱۲۳۳ ھ میں ابراہیم بادشاہ کے ذریعہ قتل ہوا، اور اس کا بھائی عبد الرحمن بھی گرفتا رکرلیا گیااور جلاوطن کرکے مصر بھیج دیا گیا اور اس کا وہیں پر انتقال ہوگیا۔
محمد ابن عبد الوہاب کے دوسرے فرزند یعنی حسن کا بھی ایک بیٹا عبد الرحمن تھا کہ اس زمانے کے وہابیوں کا مکہ میں قاضی قرار دیا گیا اور حدوداً سو سال کی لمبی عمر پائی، اور اس نے بھی ایک بیٹا بنام عبد اللطیف چھوڑا، او رحسین وعلی نے بھی بہت سی اولادیں چھوڑی کہ جو اب بھی ”دِرعیہ“شھر میں رہتے ہیں اور ”فرزندان شیخ“ کے نام سے مشھور ہیں ۔
سب سے پھلے جس نے محمد ابن عبد الوہاب کو اس کے عقائد میں اس کی تائید ومدد کی، محمد ابن سعود اور اس کا بیٹا اور پوتا عبد العزیز او رسعود ہے۔
سعود بن عبد العزیز اس ملعون کا نام ہے کہ جس نے عراق او رحجاز میں جنگ کرائی اورمسلمانوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روکا، او راپنے زمانہ میں حج بند کرادیا۔
ملطبرون کہتا ہے : وہابیت کی اصل وبنیاد یہ ہے کہ اہل عرب مخصوصاً اہل یمن آپس میں یہ قارئین کرام ! جھوٹے پیامبروں کے حالات ِ زندگی سے مزیدآگاہی کے لئے حسب ذیل کتابوں کی طرف رجوع فرمائیں:
۱ ۔پیامبران دروغین، تالیف ڈاکٹر بحریہ اوج اوک۔ ۲ ۔تاریخ سیاسی اسلام، تالیف ڈاکٹر حسن ابراہیم حسن۔ ۳ ۔تاریخ یعقوبی ترجمہ مرحوم ڈاکٹر ابراہیم آیتی۔ ۴ ۔سیرہ ابن ہشام، ترجمہ رسول محلاتی۔
گفتگو کیا کرتے تھے کہ ایک سلیمان نامی چرواہے جس نے ایک خواب دیکھا تھا کہ اس سے ایک آگ کی چنگاری نکلی اورزمین پر بکھر گئی، اور جوبھی اس کے سامنے آگیا اس کو جلاکر راکھ کردیا، اس نے اس خواب کو ایک خواب کی تعبیر کرنے والے سے بتایا، اس نے اس خواب کی تعبیر یہ کی کہ تیری اولاد میں سے ایک ایسا بیٹا پیدا ہوگا کہ ایک بہت بڑی طاقت کا مالک ہوگا اور ایک بڑی حکومت بنائے گا۔
اور اس کے خواب کی تعبیر اس کے پوتے محمدمیں پوری ہوئی ، جس وقت محمد ابن عبد الوہاب بڑا ہوا، اپنے ہم وطنوں کے درمیان اس خواب کی بنا پر کہ معلوم نہیں کہ صحیح بھی ہے یا نہیں ، بہت محبوب تھا، اس نے پھلے اپنے مخفی مذہب کو چوری چھپے آشکار کیا او راسی طرح کافی تعدا د میں اپنے مرید بنالئے اس کے بعد شام کا سفر کیا اور چونکہ وہاں کسی نے اس کے نئے مذہب کو پسند نہ کیا،دوبارہ اپنے وطن واپس لوٹ آیا۔
اس کے بعد وہ نجد گیااو راپنے مذہب کو کُھلے عام ظاہر کرنا شروع کردیا اور سعود نے اس کی پیروی کی ، وہ ایک ہوشیار او رمحکم آدمی تھا، اپنے ہر کام کو ایک دوسرے کے ذریعہ تقویت کرتا تھا، سعود نے اس محمد ابن عبد الوہاب کے نئے مذہب کی پیروی کرکے اپنی حکومت کے ستونوں کو مضبوط کرلیا، او ر محمد ابن عبد الوہاب نے بھی سعود کی فوجی طاقت او راس کی شمشیر کے زور پر اپنے نئے مذہب کو پھیلایا او راس کو مضبوط کیا، جس کا نتیجہ یہ نکلاکہ سعود اس منطقہ کا حکمراں او ربادشاہ بن گیا اور محمد ابن عبد الوہاب مذہبی رھبر بن بیٹھا۔
ان میں ہر ایک کی اولاد اپنے اپنے باپ کی جانشین ہوئی او رجس وقت سعود نے اپنے قبیلہ والوں پر کامیابی حاصل کرنے کے بعد یمن کے دوبڑے قبیلوں پر بھی غلبہ حاصل کرلیا اور عرب کے دوسرے قبائل نیز نجد کے تمام عرب وہابیت کے مرید ہوگئے۔
شھر درعیہ کہ جو بصرہ کے مشرق میں واقع ہے ، پائے تخت قرار دیا او ر ۱۵ سال تک سعود کی حکومت جاری رہی، اس کے بعد بھی اپنی حکومت کو وسعت دینے کے لالچ میں لگا رہا۔
وہ اپنے ماننے والوں سے ایک دہم چارپائے،غلات اور پیسہ یھاں تک کہ انسان بھی لیتا تھا ، جی ہاں وہ اپنے ماننے والوں سے قرعہ کشی کے ذریعہ ایک دہم انسانوں کو بھی اپنی خدمت گذاری کے لئے لیتا تھا، جس کے نتیجہ میں ایک بہت بڑی دولت اور ایک بڑی فوج اس نے جمع کرلی ، کھا جاتا ہے کہ اس کی فوج ایک لاکھ چوبیس ہزار لوگوں پر مشتمل تھی۔
”خلاصة الکلام“ نامی کتاب میں اس طرح تحریر ہے :
محمد ابن عبد الوہاب ۱۱۴۲ ھ میں ظاہر ہوا، اور پچاس سال کے بعد اس کا مذہب مشھور ہوا اور اس کے خرافاتی عقائد نجد میں آشکار ہوئے ، اور کھلے عام اپنے مذہب کو لوگوں کے سامنے پیش کیا۔
درعیہ کے حکمراں محمد ابن سعودنے اس کی نصرت کی ، اور وہاں کے رھنے والوںکو اس کی پیروی کی دعوت دی ،یھاں تک کہ تمام لوگوں نے اس کی پیروی کی، اور رفتہ رفتہ عرب کے بہت سے قبیلوں نے اس کی پیروی کرنا شروع کردی، اور اس نے ایک عظیم لشکر بنالیا کہ جس کی بناپر صحراء نشین بھی اس سے ڈر نے لگے۔
اس کانعرہ تھا کہ ”میں تم کو توحید اور یکتاپرستی کی دعوت دیتا ہوں او رچاہتا ہوں کہ شرک کو بالکل ختم کروں“
آلوسی(سنی مولف) لکھتا ہے کہ: محمد ابن عبد الوہاب نجد کے ”عُیینہ“ شھر میں پلا بڑھا، حنبلی فقہ کو اپنے باپ سے حاصل کیا او راسی بچپنے سے عجیب وغریب باتیں کیا کرتا تھا، او ر مسلمانوں کے بہت سے متفق علیہ اعمال وعقائد کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا، او ران پر نکتہ چینی کیا کرتا تھا، لیکن کسی نے اس کی مدد نہ کی ، اسی زمانے میں اس نے اپنے شھر عیینہ سے مکہ کی طرف اورپھروہاں سے مدینہ کی طرف ہجرت کی، مدینہ میں شیخ عبداللہ نامی شخص کے پاس درس پڑھا اور رسول اسلام(ص) کی مرقد منور کے پاس لوگوں کے استغاثہ او رتوسل کو سن کر سخت تنقید کیا کرتا تھا، اس کے بعد وہاں سے نجد ، نجد کے بعد بصرہ اورپھر وہاں سے شام کی طرف سفرکیا، بصرہ میں کچھ مدت قیام کیا او رشیخ محمدمجموعی کے درس میں شرکت کی، اس شھر میں بھی مسلمانوں کے بہت سے اعمال پراعتراض کیا ، لوگوں نے اس کو اپنے شھر سے نکال دیا، اور یہ حضرت وہاں سے بھاگ نکلے۔
ان تحویل وتحول کے بعد نجد کے شھر” شرہ حریملة“ گیا، اور چونکہ اس کاباپ بھی اسی شھر میں تھا وہیں قیام کیا او راپنے باپ کے درس میں شرکت کی ، اس دوران بھی نجد کے مسلمانوں کے بعض عقیدوں کامذاق اڑایا اور ان پر تنقید کی، جبکہ اس کاباپ اسے اس کام سے روکتا رہتا تھا لیکن وہ تب بھی نہیں مانتا تھا، جس کے نتیجہ میں باپ بیٹے میں کئی بار اختلاف اور جھگڑا بھی ہوا۔
وہاں کے مسلمانوں کے ساتھ کئی بار جھگڑے بھی ہوئے، دوسال یہی کشمکش جاری رہی۔
۱۱۵۳ ھ میں اس کے باپ کا انتقال ہوگیا، اس وقت اس کی جرات اوربھی بڑھ گئی ، اور اپنے عقیدہ کو بغیر کسی روک ٹوک کے آشکار کرنے لگا، مسلمانوں کے مورد اتفاق مسائل واعتقاد پر حملہ آور ہوتا تھا، اس نے اپنے نزدیک چند غُنڈے بھی جمع کررکھے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لوگ اس کی باتوں سے ناراض ہوگئے اور اس کے قتل کی تیاری شروع کردی وہ یہ دیکھ کر وہاں سے بھاگ نکلااور عُیَینہ چلاگیا۔
اس زمانہ میں عیینہ شھر کا حکمراں عثمان بن احمد بن معمر تھا، محمد ابن عبد الوہاب نے اس سے نجد کی حکومت کا وعدہ کیا ، جس کی بناپر اس نے اس کی کمک ونصرت کی ، او رمسلمانوں کے عقائد واعمال کو مورد حملہ قرار دیا، جس کی بناپر شھر کے بعض لوگ اس کے مرید ہوگئے، اس موقع پر جبیلہ میں زید بن خطاب کے مزار کو گراکر خاک کردیا، وہابیت اس زمانہ میں ترقی کرنے لگی، اس کی خبریں احساء ، قطیف و اطراف کے حکمراں سلیمان بن محمد بن عزیز حمیدی تک پہونچی، سلیمان نے عیینہ کے حکمراں عثمان کے پاس ایک خط لکھا اور اس کو محمد ابن عبد الوہاب کے قتل کے لئے حکم دیا اور اس فرمان کی مخالفت سے ڈرایا، عثمان ،سلیمان سے مخالفت کی طاقت نہیں رکھتا تھا جس کی بناپر محمد ابن عبد الوہاب کو پیغام پہونچایاکہ اس کی حکومت اور شھر سے جلد از جلد نکل جائے ورنہ خطرہ ہے ، جس کے جواب میں محمد ابن عبد الوہاب نے عثمان کو تمام نجد کی حکومت کی بشارت دی، لیکن عثمان نے اس کی اس بات کو قبول نہ کیا، بالآخر محمد ابن عبد الوہاب ۱۱۶۰ ھ میں درِعیہ شھر ”مسیلمہ کذاب کے وطن“ میں چلا گیا۔
اس وقت اس سر زمین کا حکمراں محمد بن سعود ”قبیلہ عُنیزہ“ سے تھا، محمد ابن عبد الوہاب نے اس کی بیوی کے ذریعہ اس تک رسائی کی، اور اس کو نجد کی حکومت کا لالچ دیا، او رمسلمانوں کے قتل عام کے لئے اس سے عھد کیا، اس کے بعد نجد کے تمام صوفیوں اورروساء کے پاس ایک خط لکھا : جس میں ان کو اس کے نئے مذہب کو قبول کرنے کی دعوت دی گئی تھی ، جس کی بعض لوگوں نے پیروی کی اور بعض لوگوں نے اس کی کوئی پروانھیں کی۔
اس نے درعیہ کے لوگوں کو جنگ وجدال کی دعوت دی، انھوں نے بھی اس کا مثبت جواب دیا، اور اس کے ساتھ نجداور احساء کے لوگوں سے کئی بار جنگ کی، کہ جس کی بناپرکچھ لوگوں نے اپنی خوشی سے اور کچھ نے مجبوراً اس کی دعوت پر لبیک کھا، اور اس وجہ سے تمام نجد پر خاندان سعود کی حکومت ہوگئی۔
محمد ابن عبد الوہاب کا ۱۲۰۶ ھ میں انتقال ہوگیا، اور اس کے بعدمحمد ابن سعود بھی اس دنیا سے چل بسا، اور اس کا بیٹا عبد العزیز اس کا جانشین ہوا، اور اس نے بھی وہابیت کی بھر پور حمایت کی، اور اس کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہونچانے کے لئے متعدد جنگیں کیں،یھاں تک کہ اس کے سپاہی نجد کے دور دراز علاقہ تک گئے۔
اور جب عبد العزیز مرا، اس کابیٹا سعود اس کا جانشین ہوا، سعود وہابیگری میں اپنے باپ سے بھی زیادہ متعصب تھا، یہ وہ شخص تھا جس نے مسلمانوں کو خانہ کعبہ کی زیارت سے روکااور اپنے مخالفین کو دائرہ کفر میں رکھنے کی بہت زیادہ کوشش کی، اور جب اس کا انتقال ہوا، اس کا بیٹا عبد اللہ جانشین ہوا۔
”خلاصة الکلام“ میں ایک دوسری جگہ یوں لکھا ہے :
”شریف مسعود کی حکومت کے زمانہ میں وہابیوں نے بحث وگفتگو کرنے کے لئے ۳۰ علماء کو مکہ ومدینہ بھیجا، شریف مسعود نے حرمین کے علماء سے درخواست کی کہ آپ حضرات ان لوگوں سے بحث وگفتگو کریں،مکہ کے علماء نے ان کے ساتھ بحث ومباحثہ کیا ، جس کے نتیجہ میں ان کو فاسد العقیدہ اور بے بنیا د پایا، اور قاضی شرع نے ان کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا، اور ان کے زندان کا حکم بھی دیدیا، ان میں سے بعض لوگ بھاگ گئے اور بعض لوگوں کو زنداں میں بھیج دیا گیا۔
۱۱۹۵ ھ میں دوبارہ شریف احمد کی حکومت کے زمانہ میں درعیہ شھر کے حکمراں نے چند وہابی علماء کو بحث کے لئے روانہ کیا تاکہ مکہ کے علماء سے بحث ومناظرہ کریں، اور جب مناظرہ ہوا، مکہ کے علماء نے ان کے کفر والحاد کو تشخیص دیتے ہوئے خانہ کعبہ کی زیارت کی اجازت تک نہ دی۔
فرقہ وہابیت اگر چہ بارھویں صدی میں محمد ابن عبد الوہاب کے زمانے میں ظاہر اور نشر ہوا، لیکن جیسا کہ ہم نے متعدد بارعرض کیا کہ وہابیت کی داغ بیل ساتویں صدی میں ابن تیمیہ اور اس کے شاگرد ابن قیم جوزی اور ابن عبد الھادی وغیرہ کے زمانہ سے پڑچکی تھی۔
محمد ابن عبد الوہاب کی دعوت کا طریقہ
”ابن بشر“ کہتا ہے : جس وقت شیخ محمد ابن عبد الوہاب نے شھر درعیہ کو اپنا وطن قرار دیا اس شھر کے لوگ نھایت جھالت وگمراہی میں تھے نماز وزکوٰة کی ادائیگی میں سستی کرتے تھے ، نیز دوسرے اسلامی امور میں بھی اسی طرح کاہلی کرتے تھے ، شیخ نے سب سے پھلے انہیں ”لاالہ الّا اللّٰہ“کے معنی سکھایا جس میں نفی اور اثبات دونوں ہیں اس کا پھلاجز”لاالہ“تمام معبودوں کی نفی کرتا ہے اور اس کا دوسرا جز ”الا اللہ“ خدا کی وحدانیت کا اثبات کرتا ہے۔
اس کے بعد ان کو ایسے چند اصول سکھائے جو خدا کے وجود پر دلالت کرتے تھے مثلاً سورج چاند اور ستارے ، دن رات ، اور ان کو اسلام کے معنی بتائے کہ اسلام کے معنی یہ ہیں کہ خدا کے احکامات کے سامنے تسلیم ہونا اور اس کے نواہی سے دوری کرنا ہے ۔
اسی طرح دوسرے اسلامی ارکان سے آشنا کیا، پیغمبر اکرم(ص) کا حسب و نسب ، بعثت کی کیفیت ، اور آپ کی ہجرت سے آشنا کیا،اور بتایاکہ آنحضرت کی سب سے پھلی دعوت کلمہ ”لاالہ الاّ اللہ“ تھی، نیز اسی طرح بعثت وقیام جیسے موضوعات سے آگاہ کیا اور بتایا کہ خدا کی مخلوق سے کسی طرح کا کوئی استغاثہ نہیں کرنا چاہئےے اور اس سلسلہ میں بہت مبالغہ سے کام لیا۔
اس کے بعد شیخ محمد نے نجد کے قضات اور روساء کو خط لکھا جس میں ان کو اپنی اطاعت اور مطیع ہونے کے بارے میں دعوت دی ، جس کی بعض لوگوں نے اطاعت کی او ربعض لوگوں نے نافرمانی کی، اور شیخ کی دعوت کا مذاق اڑایا اور شیخ کو نادان و بے معرفت جیسے القابات سے نوازا، بعض لوگوں نے اس کو جادوگر کھا اور بعض نے اس کو بری بری نسبتیں دیں۔
شیخ نے اہل درعیہ کو جنگ کا حکم دیا ، او رکئی مرتبہ اہل نجد سے جنگ ہوئی ، یھاں تک کہ لوگوں کو شیخ کی اطاعت پر مجبور کردیاگیااورآل سعود نے نجد اور اس کے اطراف پر غلبہ پیدا کرلیا۔
محمد ابن عبد الوہاب کا غنائم جنگی تقسیم کرنے کا طریقہ
شیخ محمدابن عبد الوہاب کاغنائم جنگی تقسیم کرنے کا طریقہ یہ تھا کہ اپنی مرضی کے مطابق اس کو خرچ کرتا تھا اورکبھی کبھی غنائم جنگی کو (جن کی مقدار بہت زیادہ ہوتی تھی) اپنے مریدوں میں ۲ یا ۳ لوگوں کو دیدیتا تھا ، جتنی بھی غنائم جنگی ہوتی تھیں وہ سب کی سب شیخ کے اختیار میں ہوتی تھی او رنجد کا حکمراں بھی اس سے اجازت لے کر خرچ کیا کرتا تھا، اس کے علاوہ امیر نجداپنے سپاہیوں کے لئے اسلحہ لینا چاہتا تھا شیخ کی اجازت ہی سے یہ کام بھی کیا کرتا تھا۔
آلوسی کہتا ہے : اہل نجد نے شیخ کی طرح کسی بھی عالم کی اس قدر اطاعت نہ کی اور یہ واقعاً ایک عجیب بات ہے کہ اس کے ماننے والے آج تک (آلوسی کے زمانہ تک) اس کو چار اماموں (ابو حنیفہ ، شافعی، مالک، احمدبن حنبل)کی طرح مانتے ہیں،اور اگر کسی نے اس کو بُرا کھا تو اس کو قتل کردیتے تھے۔
زینی دحلان کا بیان ہے کہ : شیخ محمد کے کاموں میں سے ایک کام یہ تھا کہ جوبھی اس کی پیروی کا دم بھرے وہ اپنا سر منڈائے ،لیکن اس کام کو خوارج اور بدعت گذاروں نے انجام نہ دیا۔
سید عبد الرحمن اہدل مفتی زبید کہتا ہے کہ : وہابیوں کی رد میں کوئی کتاب لکھنے کی ضرورت نہیں ، ان کے لئے رسول اسلام کی یہ حدیث کافی ہے کہ آنحضرت نے فرمایا:” سیماہم التحلیق“ ان کی نشانی سرمنڈانا ہے ۔
اتفاق سے شیخ نے ایک عورت کو جب اپنی پیروی کرنے کے لئے مجبور کیا تو اس عورت نے اس سے کھا: جب تو عورتوں کو سر منڈانے پر مجبور کرتا ہے تو مردوں کو بھی اپنی ڈاڑھی منڈانے پر مجبور کر، کیونکہ عورت کے سر کے بال او رمردوں کی ڈاڑھی کے بال دونوں زینت ہوتے ہیں ، شیخ کے پاس اس کا کوئی جواب نہ بن پایا۔
عبد الوہاب کے بیٹے کا سرانجام
”جس وقت شیخ محمد نے ریاض (سعودی کا حالیہ پائے تخت) کو فتح کرلیا، اس کے بعد اس کا ملک وسیع ہوتا چلا گیا، رفتہ رفتہ فتنہ وفساد ختم ہوتے گئے، اور تما م بڑے بڑے لوگ اس کے مطیع وفرمانبردار بن گئے، شیخ محمد نے اموال اور غنائم اور لوگوں کے دوسرے امور کوعبدالعزیز بن محمد بن سعود کے حوالہ کردئے، اور خودعبادت اور تدریس میں مشغول ہوگیا، لیکن عبد العزیز نے پھر بھی اس کو نہیں چھوڑا او راپنے تمام کام شیخ کے نظریہ کے مطابق انجام دیتا رہا، اور اسی طرح یہ سلسلہ جاری رہا، یھاں تک کہ شیخ محمد ابن عبد الوہاب ۱۲۰۶ ھ میں اس دنیا سے چل بسا۔
محمد ابن عبد الوہاب کی تالیفات
کتاب ”کشف الشبھات“ میں شیخ کی تالیفات کا اس طرح ذکر کیا گیا ہے :
کشف الشبھات، تفسیر کلمة التوحیدو ادلتھا، تلقین اصول العقیدة العامة، معنی الطاغوت وروس انواعہ، مختصر سیرة الرسول، ہذہ مسائل، بعض فوائد صلح الحدیبیہ، ستة موضع من السیرة، نواقض الاسلام، احکام تمنی الموت، مختصر الانصاف والشرح الکبیر، نصیحة المسلمین، تفسیر بعض سور القرآن، الاصول الثلاثة، اربع قواعدمن الدین، ثلاث مسائل، احکام الصلاٰة، مختصر زاد المعاد، مختصر تفسیر سورة الانفال، الاصل الجامع لعبادة اللّٰہ وحدہ، مسائل الجاہلیة، فضل الاسلام، اربع قواعد تدور الاحکام علیھا، کتاب الکبائر، اصول الایمان، احادیث فی الفتن والحوادث، الرسائل الشخصیة،کتاب الطھارة، الخطب المنبریة، فضائل القرآن، القواعد الاربع، ستة اصول عظیمة مفیدة، شروط الصلوٰةوارکانھا وواجباتھا، مجموع الحدیث(چار جلدیں) مبحث الاجتھاد والخلاف، الردّ علی الرافضة، فتاویٰ ومسائل، تفسیر آیات القرآن الکریم، مفید المستفید فی حکم تارک التوحید، رسالة فی توحیدالعبادة، مختصر صحیح البخاری، آداب المشي الی الصلاٰة۔
کھا جاتا ہے کہ” کتاب التوحید “اس کی اہم ترین کتاب تھی نیز یہ وہی کتاب تھی جس نے تاریخ کا رخ موڑکر رکھ دیا اور اس کتاب نے اصلاح اور نوآوری کی تاریخ میں ایک اہم کردار ادا کیا۔
جب کہ اس کتاب کے مطالعہ کے بعد انسان اس نتیجہ پر پہونچتا ہے کہ اس کتاب میں کوئی نئی بات نہیں ہے بلکہ وہی ابن تیمیہ او رابن قیم جوزی والی باتیں تکرار ہوئی ہیں ، او رمسلمانوں پر تہم تیں او ران کی نسبت نازیبا الفاظ اس کتاب میں موجود ہےں اس کے علاوہ قرآن وحدیث کے ظاہری اور ابتدائی معنی پر مشتمل نتائج اخذ کئے ہیں ، اور اس کتاب میں دقیق اورعلمی نکات بالکل نہیں ہیں او رواقعاً اس کتاب نے تاریخ کے رخ کو موڑ دیا ہے اور اس کو بدل کر رکھ دیا ہے۔
لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ واقعاً اس کتاب نے تاریخ کا رخ تجدید ومجدد اور مسلمانوں کی شوکت وعظمت کو تنزلی اور زوال اور مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، قتل وغارت کی طرف موڑاہے ، یہ کتاب او رشیخ محمد کی دوسری کتابوں نے مسلمانوں کے اتحاد کے خلاف ایک بہترین حربہ کی شکل اختیار کی ، اورانکے جدا ہونے کا بہترین سبب بنی ہے، او رخود استعمار گروں نے اس فرقہ کے نظریات کو محمد ابن عبد الوہاب کو ایک طریقہ سے املاء بولا تھا جس سے انھوں نے بہت کچھ فائدے اٹھائے اور آج بھی اس سے متعدد فائدے اٹھارھے ہیں ۔
عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کے اسلامی دنیا کے بعض دانشوروںاو رمولفوں نے غیروں اور اسلام دشمن لوگوں کی طرح اس شیخ محمد کو ”مجدد“ اور ”مصلح“ کا لقب دیا ہے اور اس کے کارناموں کو مسلمانوں کے لئے ”اصلاحی دعوت“ کے نام سے یاد کیا ہے اور اس کے انقلابی نظریات کی داد وتحسین میں مشغول ہیں۔
____________________