وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ

وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ0%

وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ

مؤلف: ھمایون ھمتی
زمرہ جات:

مشاہدے: 20339
ڈاؤنلوڈ: 4996

تبصرے:

وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 20339 / ڈاؤنلوڈ: 4996
سائز سائز سائز
وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ

وہابيت کا تحليلي اور تنقيدي جائزہ

مؤلف:
اردو

حج کا سیاسی پھلو

اسلام کے عظیم فقھاء میں سے ایک بزرگ فقیہ کے فرمان کے مطابق جیسا کہ حج کے مراسم اور اعمال عمیق اور خالص ترین عبادت کو پیش کرتے ہیں وہ ایسے ہی حج اسلامی اہداف و اغراض و مقاصد کی پیش رفت کے لئے ایک مؤثر وسیلہ بھی ہے خدا کی طرق توجہ اور روح عبادت ہے اور خدا کی مخلوق پر توجہ روح سیاست ہے ،اور حج کی یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے سے اس طرح پیوستہ ہیں کہ ایک ہی چیز محسوس ہوتی ہے ۔

حج مسلما نوں کو متحد کرنے کا ایک مؤثر وسیلہ اور عمل ہے ۔

حج تعصبات ، نسل پرستی و اختلافات اور جغرافیائی سرحدوں میں محدود اور منحصر ہونے سے چھٹکارے کا بہترین ذریعہ ہے ۔

حج مسلمانوںکے درد و غم اور مشکلات سے آگاہی اور ان کے حل کی چارہ جوئی کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔

حج رکاوٹ اور بندشوں کو توڑنے اور ظالمانہ نظا م کو ختم کرنے کا وسیلہ ہے،اس ظالمانہ نظام کو جو دنیا کی قدرتمند اور ظالم حکومتوں کی طرف سے اسلامی حکومتوں میں رائج کیا گیا ہے ۔

حج اسلامی ممالک کی سیاسی جڑوں کو ایک جگہ سے دوسری جگھوں پر پہونچانے کا بہترین وسیلہ ہے ۔

حج غلامی او رسامراجی زنجیروں کو توڑنے اور مسلمانوں کو غلامی ظالمانہ نظام سے نجات دلانے کا مؤثر وسیلہ ہے یہی وجہ تھی کہ اس زمانہ میں جب بنی امیہ اور بنی عباس کے ظالم و جابر حکمراں، اسلام کی مقدس سرزمین پرقابض تھے اور مسلمانوں کے ہر طرح کے میل جول کو تحت نظر رکھتے تھے تا کہ ہر آزادی کی تحریک کو کچل دیں اور اعتراض کی ہر آواز کو گلوںھی میں گھونٹ دیں ایسے دردناک زمانہ میں ایام حج کا آنا آزادی اوراسلامی معاشرے کے ایسے روابط اور مختلف سیاسی مسائل کو ایک دوسرے کے سامنے پیش کرنے کے لئے ایک دریچہ کا کام دیتا تھا ۔

اس وجہ سے حضرت علی (ع) حج کے فلسفہ کے متعلق فرماتے ہیں ” اَلحَجُّ تَقوِیَةُ الدِّینِ‘ ‘ خداوند عالم نے حج کو دین کے لئے باعث تقویت بنایا ہے ،ایک غیر مذہب اور مشھور سیاست داں کا یہ کھنا بلاوجہ نہیں ہے کہ وہ اپنی پُر معنی گفتگوکے دوران کہتا ہے کہ افسوس ، مسلمانوں کے حال پر کہ اگر حج کے معنی نہ سمجھیں اور افسوس اسی طرح مسلمان دشمنوں پر کہ اگر حج کے واقعی معنی کو درک کریں۔یھاں تک کہ اسلامی روایات میں حج کو ضعیف اور کمزور افراد کے لئے جھاد کے نام سے یادکیا گیا ہے ، حج ایسا جھاد ہے کہ جس میں بوڑھے ، ناتوان مرد اور کمزور عورتیں بھی شریک ہو کر اسلام کی عظمت و جلال کودنیا کے سامنے پیش کرسکتے ہیں ، اور خانہ کعبہ کے ارد گرد نمازیوںکی صفوں میں کھڑے ہوکر وحدت و تکبیر کی آواز بلند کرکے دشمن کی کمرتوڑسکتے ہیں اور دشمنوں کے ایوانوں میں لرزہ پیدا کرسکتے ہیں ۔( ۱ )

حج اور خانہ کعبہ کا طواف شرک سے نفرت اور مشرکوں سے بیزاری کابہترین موقع ہے

اگرچہ ہر طرح کی عبادت شرک سے نفرت اور طاغوت سے بیزاری ہی کا نام ہے ، اسی طرح حج اور خانہ کعبہ کا طواف بھی نمازھی کے مثل ہے یا یہ کہ اسمیں بھی نماز ہے ”اَلطَّوافُ بِالبَیتِ فَاِنَّ فِیهِ صَلاةٌ( ۲ )

یہ روایت بھی اسی اصل اور بنیاد کی حکایت کر رہی ہے ( یعنی طاغوت سے بیزاری اورشرک سے نفرت ) چونکہ حج ایک مخصوص عبادت ہے جس میں سیاست کی بھی آمیزش ہے اور دنیا کے مختلف طریقوں کا اس عبادت میں حاضر ہونا ایک بہترین اور مناسب موقع ہے تاکہ الله کی دوسری عبادتوںکی طرح اس قابل ملاحظہ مجمع میں روح عبادت بہتر طور پر جلوہ گر ہو اور اس خاص عبادت کا جوہر اپنی پوری آب وتاب کے ساتھ چمکے لہذا فرمان الٰھی کے مطابق پیغمبر اسلام(ص) نے اسلامی حکومت کے نمایندے حضرت علی (ع) کو مشرکوں سے بیزاری کے اعلان پر مامور فرمایا تاکہ توحید کی سرحد شرک و طاغوت کی سر حد سے مکمل اور قطعی طورپر جدا ہوجائے ، اور مسلمانوں کی صفیں کفار ومشرکین کی صفوں سے ممتاز اور علیحیدہ ہوجائیں اور اس طرح سے حج کاسیاسی اور عبادی چھرہ جلوہ گر ہو اور بیت الله کے زائر اسلامی حکومت کایہ منشور سن کر جو شرک سے نفرت او رمشرکوں کے سامنے تسلیم نہ ہونے پر مشتمل ہے اس پیام توحید کو اس طرح ( جیسا کہ مسلمان اپنی زندگی میں بہت سے کاموں میں کعبہ کی سمت متوجہ ہوئے ہیں ) ویسے ہی بیت اللہ کی برکت سے توحید کا پیغام بھی دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل جائے۔( ۳ )

( وَاَذَانُ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِهِ اِلَی النَّاسِ یَومَ الحَجِّ الاَکبَرِ اِنَّ اللهَ بَريءٌ مِنَ المُشرِکِینَ وَ رَسُولُهُ فَاِن تُبتُم فَهُوَ خَیرٌ لَکُم وَ اِن تَوَلَّیتُم فَاعْلَمُوا اَنَّکُم غَیرُ مُعجِزِیِ الله )( ۴ )

اور حج اکبر کے دن ( جس دن سب حاجی مکہ میں جمع ہوتے ہیں ) الله ورسول کی طرف سے یہ عام اعلان ہے کہ الله اور اسکا رسول(ص) دونوں مشرکوں سے بیزار ہیں ، لہذا اگرتم لوگ توبہ کروگے( اور اسلام لے آؤ گے ) تو تمھارے لئے دنیا اور آخرت دونوں میں بہتر ہوگا اور اگر انحراف کیا تو یاد رکھنا کہ تم خدا کی قدرت پر غالب نہیں آسکتے ( بلکہ خدا اور رسول(ص) کی قدرت کے سامنے کمزور رھوگے)۔

قرآن کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے امام زمانہ(عج) کے نائب کبیر سید العلماء والعرفاء و سید الفقھاء حضرت امام خمینی (رہ) ( طاب ثراہ ) نے بپھرے ہوئے شیر کے مانند حج کے زمانہ میں مشرکوں سے بیزار ی کی آواز بلند کی ، اور تمام حاجیوں کومشرکوں سے بیزاری کے لئے دعوت دی ، یھاں پر ہم تبر کاً امام زمانہ(عج) کے نائب کے جامع پیغام اور منشور مقدس کی چند سرخیاں پیش کرتے ہیں ۔

حاجیوں کے نام حضرت امام خمینی (رہ) کے پیغا م کا خلاصہ

مشرکوں سے بیزار ی کا وہ اعلان جو ار کان توحید میں سے ایک رکن اور حج کے سیاسی واجبات میں سے ایک فریضہ ہے ، ایام حج میں شجاعت او ر مردانگی کے ساتھ شاندار اور بہتر طریقہ سے مظاہروں کی شکل میں انجام دیناچاہئے ، ایرانی وغیر ایرانی حجاج کو چاہئے کہ حج کے ذمہ دار افراد اور ہمارے نمایندہ جناب حجةالسلام آقای کروبی سے مکمل ہماہنگی کے ساتھ تمام پروگراموں میں شرکت کریں اورمشرکوںسے بیزاری نیز سامراجی ملحدوں ، خصوصاً ظالم امریکا سے خانہ توحید میں برائت و بیزاری کی آواز بلند کریں اور الله اور اسکی مخلوق کے دشمنوں سے اظھار نفرت میں غفلت نہ برتیں ۔

کیا دینداری ،حق سے محبت او رباطل سے اظھار نفرت او رغم وغصہ کے سوا کچھ اور ہے ؟ یکتا پرستوں کو اسوقت تک ھرگز عشق حاصل نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ مشرک ومنافقوں سے مکمل نفرت کا اظھار نہ کریں او راس کے لئے خانہ کعبہ سے بہتر اور کون سی جگہ ہو سکتی ہے ، خانہ کعبہ ، خانہ امن اورطھارت ہے اور وہاں پر ظلم و تجاوز غلامی ونامردی جیسی قبیح صفات پائی جاتی ہیں اسکی نسبت سبھی لوگوں پر واجب ہے کہ اپنی گفتارا ور کردار سے اظھار نفرت کریں ، او ر( الَستُ بِرَبِّکُم ) کے میثاق کی تجدید کرتے ہوئے متفرق اسباب اور خدائی کے دعوے دار بتوں کو توڑدیں۔

پیغمبر اسلام (ص) کی سیاسی تحریک کے سب سے بڑے اور اہم ترین واقعہ (”وَاَذَانُ مِنَ اللهِ وَ رَسُولِہِ اِلَی النَّاسِ یَومَ الحَجِّ الاَکبَرِ)کوزندہ کریں او رمکرر انجام دیںچونکہ یہ سنّت پیغمبر(ص) ہے ، اور اپنے مقدس دفاع اور مجاہدت کی صفوں کو مضبوط ومستحکم کریں ، اور شیطان کی پیروی کرنے والے مردہ دل او ربے خبر افراد کومسلمانوں کی صفوں میں گھس کر ان کے عقیدہ اور عزت پر حملہ کرنے کا اس سے زیادہ موقع نہ دیں ، اور ہر جگہ اورھر سرزمین سے خصوصاً کعبہ حق میں خدا کے لشکر سے مل جائیں ، زائرین اور حجاج عزیز ، عشق اور شعور اور جھاد کی مقدس اور بہترین سرزمین سے ایک بلند اور بالا کعبہ کی طرف سفر کریں او رجیسا کہ شھیدوں کے سید وسالار حضرت ابیٰ عبدالله الحسین (ع) نے احرام حج سے احرام حرب و جنگ او رکعبہ و حرم کے طواف سے مالک کعبہ کے طواف اور زمزم سے وضوء کے بجائے خون شھادت سے وضوء فرمایا ویسے ہی ان کی سیرت پر چلتے ہوئے ایک شکست ناپذیر امت اور سیساپلائی ہوئی دیوار میں تبدیل ہوجائیں تاکہ پھر نہ مشرق کی سوپر پاور اسکے مقابلہ میں ٹھھر سکیں اور نہ مغرب کی طاقت اسکی تاب لاسکے ۔

یقیناً حج کا پیغام او رحج کی روح اسکے علاوہ اور کچھ نہیں ہوسکتی کہ تمام مسلمان جھاد بالنفس کے دستورالعمل کو بھی سیکھیں نیز کفر وشرک کے خلاف بر سرپیکار ہونے کے طو روطریقہ کوبھی ۔

بھر حال ایام حج میں بیزاری کا اعلان ،عھد مبارزہ کی تجدید اور گرو ہ مجاہدین کی کفر وشرک اور بت پرستی کے خلاف نبرد کے جاری رکھنے کی مشق ہے اوریہ نعروں ہی میں منحصر نہیں بلکہ یہ منشور جھاد کے آشکار اعلان کی ابتدا ہے نیز ابلیس و شیطان صفتوں کے لشکر کے مقابلہ میں خدا کے لشکر کی سازماندھی او رتیاری ہے اس کا شمار توحید کے بنیاد ی اصولوں میں ہوتا ہے، اگر مسلمان الله کے گھر میں برائت کا اظھار نہ کریں تو پھرکھاںپر اظھار کرسکتے ہیں ، او راگر حرم وکعبہ و مسجد اور محراب ،خدائی فوج اور مدافعین حرم اور برائت کے مورچہ اور ان کے لئے پشت پناہ نہ ہوں تو اس سے بہتر اورکیاپناہ گاہ ہوسکتی ہے۔

یہ بات فرسودہ اور پرانی ہونے والی نہیں کہ اعلان برائت فقط ایام حج میں منحصر نہیں ہو سکتا بلکہ مسلمانوں کو چاہئےے کہ پورے عالم کو ذات حق کے لئے عشق و محبت سے اور خدا کے دشمنوں کے لئے بغض و نفرت سے لبریز کردیں ،خنّاس اور منحرف افراد کے وسوسوں شبھات اور تردید پر کان نہ دھریں ،پورے جھان کو اسلام میں شامل کرنے نیز توحید کے مقدس ساز اہنگ سے ایک لمحہ بھی غفلت نہ برتیں چونکہ یہ بات مسلّم ہے کہ دنیا کے ظالم ، جابر ،خونخوار اور ملتوں کے دشمن اب چین و سکون سے نہ بیٹھیں گے طرح طرح کے حیلوں اور بھانوں سے مختلف شکلوں اور لباسوں میں طرح طرح کے حربے استعمال کریں گے اور بظاہر مقدس نظر آنے والے اور حکومتوں کی روٹیوں پر پلنے والے درباری ملاّ قوم پرست افراد اور منافقین غلط اور منحرف فہم و تفسیر اور فلسفہ استعمال کریں گے مسلمانوں کو غیر مسلم کہنے ، ان کی شجاعت اور ھیبت پر ضرب لگانے اور امّت محمدیہ کا اقتدار ختم کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں گے ۔

عجب نہیں کچھ جاہل اور سادہ لوح افراد یہ کھیں کہ خانہ حق کعبہ کی عظمت کو نعروں ، مظاہروں اور اعلا ن برائت سے پامال نہیں کرنا چاہئے اور شاید یہ بھی کھیں کہ حج تو عبادت و ذکر کی جگہ ہے نہ کہ صف آرائی و رزم گاہ ،اور عجب نہیں کچھ ضمیر فروش علماء بھی یہ بات ذھن نشین کرانے کی کو شش کریں کہ مبارزہ ،برائت اور جنگ و غیرہ ہمیشہ دنیا داروں کا کام رہاہے یایہ کھیں کہ ایام حج میں سیاسی مسائل کا چھیڑنا روحانیت اور علماء کی شان کے خلاف ہے یہ اور اس طرح کی دوسری باتیں ظالم دشمن کی تحریک اورمخفیانہ سیاست کا حصہ ہے ، لہذا مسلمانوں کو اپنے تمام امکانات اور لازمی وسائل کے ساتھ مسلمانوں کے مفاد اور الٰھی ارزشوںسے دفاع کے لئے میدان عمل میں آجانا چاہئے اور جب انبیاء کا احترام باقی نہ رہا تو پھر کسی کے لئے بھی کوئی پناہ گاہ نہیں ہوسکتی ۔

خلاصہ مطلب یہ ہے کہ مبارزہ اور قیام کا پھلا مرحلہ بیزاری کا اعلان ہے ،اور اسکے دوسرے مرحلوں کا جاری رکھنا ہمارا فریضہ ہے اور یہ کام ہر زمانے کے مطابق مناسب طور طریقوں اور شان و شوکت کے ساتھ ہونا چاہئےے ،ہم یں یہ دیکھنا چاہیئے کہ دور حاضر میں کفر و شرک کے علمبرداروں نے توحید کے وجود اور وحدانیت کے تصورکو خطرہ میں ڈال رکھا ہے ، اور ہر قوم اور ملّت کے دینی ، سیاسی ، اور تمدنی ،مظاہروں کو ہوس پرستی اور شھوت نفسانی کا کھلونا بنا رکھا ہے ، ایسے حالات میں کیا کرنا چاہئےے ؟۔

کیا گھر میں بیٹھ جانا چاہئے اور انسان و انسانیت کی منزلت کی توہین اور اسکے بارے میں غلط تحلیل، شیطان اور اسکی ناجائز اولاد کی طرف سے مسلمانوں میں عجز وکمزوری کی تبلیغ و ترویج کو برداشت کر لینا چاہئےے اور معاشرے کو کمال حقیقی اورخلوص آرزو کی انتھا تک پہونچنے سے روک دینا چاہتے ہیں ؟ اور فقط تصور کر لینا چاہتے ہیں کہ انبیاء اکرام (ع) کا قیام فقط لکڑی اور پتھر کے بے جان بتوں کو توڑنے ہی میں منحصر تھا ،( نعوذ بالله)

حضرت ابراہیم (ع) جیسے اولوالعزم پیغمبر بت شکنی میں پیش قدم اور ظالموں کے خلاف جھاد کے میدان کو تر ک کردیں؟ حالانکہ حضرت ابراہیم (ع) نمرودیوں نیز چاند ، سورج اور ستاروں کی پوجا کرنے والوں کے خلاف ، بت شکنی جنگ اور تمام مجاہدت جو ایک عظیم ہجرت کا مقدمہ ہے اور وہ تمام ہجرتیں ، سفرکی صعوبتیں نیز دوسرے مسائل و آلام کا برداشت کرنا بے آ ب و گیاہ وادی میں سکونت ، خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت اسماعیل (ع) کا فدیہ سب اسی رسالت و بعثت کا مقدمہ ہے جس میں خاتم النبیین ، معمار کعبہ کے حرف بحرف پیغام کا اعادہ کرتے ہےں اور اپنی ابدی رسالت کو ابدی کلام:

”اِنَّنِی بَرِی مِمَّا تُشرِکُونَ “ کے ذریعہ ابلاغ کرتے ہےں ، لہٰذاہم اگر بت پرستی وغیرہ کی اسکے علاوہ تفسیر وشرح اور بررسی کرےںتوگویا ایسا ہے جیسا کہ دور حاضرمیں بت اور بت پرستی کا وجود ہی باقی نہیں کیا کوئی عاقل انسان ایسا ہے جو اس نئی اورماڈرن بت پرستی کو اسکی مخصوص مشکلوں اور حیلہ اور بھانوں کے ساتھ نہ پہچانتا ہو ؟ اور اسلامی ممالک اور مسلمانوںکی جان ومال و عزت و آبرو اور تیسری دنیا پر وائٹ ھاوس جیسے بت خانہ کے تسلط کی خبر نہ رکھتا ہو ،؟!

آج کافر اور مشرکوں سے ہماری بیزاری کی آواز، ظالم کے ظلم کے خلاف ہے اور یہ اس امّت کی فریاد ہے ،جس کی جانیں مشرق و مغرب کی طاقتوں خصوصاً امریکا اور اسکے ہمنواؤں کے تجاوز اور ظلم و تشدّدسے لبوں تک آچکی ہیں ، یہ اس غمزدہ امّت کی فریادھے جسکا گھر ،وطن، عزت ، آبرو اور مال و متاع تباہ و برباد کر دیا گیا۔

ہمارا یہ بیزاری کا اعلان افغانستان کی رنجیدہ اور مظلوم ملّت کی فریادھے،اور مجھے افسوس ہے کہ روس کی حکومت نے میری یاد دھانی اور افغانستان کے بارے میں دی گئی دہم کیوں پر عمل نہ کیا، اور اس اسلامی ملک پر حملہ کردیا ، میں نے متعدد بار کھاہے اور اب بھی یاد دھانی کرارہا ہوں کہ کم از کم افغانستان کی ملّت کو اسکے حال پرچھوڑ دو ،افغانستان کے لو گ خوداپنی تقدیر کا فیصلہ کرلیں گے اور حقیقی آزادی حاصل کرلیں گے ، ان کو ”کرملن“ کی سرنوشت او رامریکہ کی رھبری کی ضرورت نھیں، یہ بات مسلم ہے کہ افغانی مجاہد غیر ملکی فوج کو افغانستان کی سر حد سے نکالنے کے بعد کسی دوسری حکومت کے سامنے سر نہیں جھکائیں گے اور اگر امریکا نے سرزمین افغانستان پرقدم رکھنے کا ارادہ بھی کیا تو اسکو کچل کر رکھ دیں گے ۔

ہمارا اعلان بیزاری افریقہ کے مسلمانوں کی فریاد بھی ہے ” انکی فریاد جو ہمارے دینی بھن بھائیوںکی فریادھے ، جن کو سیاہ ہونے کے جرم میں بے دین، قوم پرست اور روسیاہ ظالموں کے تازیانے کھانے پڑرھے ہیں ۔

ہماری یہ برائت کی آوازلبنان اور فلسطین کے مظلوم لوگوں کی فریادھے اور ان تمام ممالک اور قوموں کی فریاد ہے جن پر مشرق ومغرب کی طاقتیں اپنی حریصانہ نظریں جمائے ہوئے ہیں اور ان کی مال ودولت کو غارت کررھے ہیں، اور اپنے نوکروں کو ان پر مسلط کررکھا ہے اور ہزاروں کیلومیٹر دور رہتے ہوئے بھی ان کی سر زمین پراپنے منحوس پنجے گاڑ رکھے ہیں اور ان کی زمینی اور دریائی سرحدوں پر قبضہ کر رکھا ہے ۔

ہماری یہ آواز ان سب لوگوں کے دل کی آواز ہے جو امریکہ کی فرعونیت، ظلم وبربریت اور تسلط سے تھک چکے ہیں اور برداشت کی حدوں سے گذرچکے ہیں او راب نہیں چاہتے کہ ان کے غم وغصہ او رنفرت وغضب کی آواز ان کے سینوں میں ہی گھٹ کر ہمیشہ کے لئے دم توڑدے ، اور جنھوں نے آزاد زندگی گذارنے اور آزادی سے مرنے کا ارادہ کرلیا ہے او رپوری نسل کے فریادرس اور امین ہیں ۔

ہمارا یہ اعلان بیزاری اپنے مکتب حیثیت او راپنی ناموس کے دفاع کی فریاد ہے ، اپنے مال ودولت او رمنابع وذخائر کے دفاع کی فریاد ہے یہ اس مجبور مظلوم اور درد مند قوم کی فریاد ہے ،جس کے دلوں کو کفر ونفاق کے خنجروں نے چیر ڈالا ہے۔

ہماری یہ فریاد ان بھوکے پیاسے، ننگے او رپابرھنہ لوگوںکی غربت او رافلاس کی فریاد ہے کہ جن کے رات دن خون پسینہ کی کمائی کو دنیا کے لیٹروں اور بین الاقوامی ڈاکؤں نے چھین کراپنے خزانہ بھر لئے ہیں، سرمایہ داری، سوسیالیزم اور کمیونیزم کے نام پر زحمت کش افراد مزدور کسان اور غریب لوگوں کے جگر کا خون نچوڑ رھے ہیں اور پوری دینا کے اقتصاد کی رگ ِحیات کو اپنی مٹھّی میں لے رکھاہے اور دنیا کے بے بس افراد کو ان کے چھوٹے چھوٹے حقوق سے بھی محروم کررکھا ہے ۔

ہماری یہ برائت کی فریاد ، اس امّت کااظھار بیزاری ہے جسکو نیست ونابود کرنے کے لئے پور ا کفر و استکبار گھات میں بیٹھا ہے ، اور کفر نے اپنے تمام تیرکمان اور نیزوں کا رخ قرآن واہل بیت (ع) کی طرف کررکھا ہے، ایساکبھی نہیں ہوسکتا کہ :

امّت محمد(ص) اور کوثر اور چشمہ عاشورا سے سیراب ہونے والے اورصالحین کی وراثت کی منتظر قوم ،ذلّت کی موت یاغرب و شرق کی غلامی پر راضی ہوجائے او ریہ بھی ممکن نہیں کہ دیو صفت مشرک و کافر ،قرآن اوراہل بیت رسول(ص)، امت محمد(ص) اور حضرت ابراہیم (ع) کی پیروی کرنے دالوں پر ظلم وتجاوز اور بربریت کا کھیل کھیلتے رہیں اور خمینی خاموش او رآرام سے بیٹھ کر مسلمانوں کی ذلّت اور حقارت کا تماشہ دیکھتا رھے ۔

میں نے اپنے خون او راس ناقابل جان کو مسلمانوں سے دفاع کے اہم فریضہ کو ادا کرنے کے لئے آمادہ کر لیاہے اور شھادت کی عظیم کا میابی کے انتظار میں ہوں ،تمام دشمن طاقتیں (سوپر پاورس) اور ان کے زر خریدغلام یہ یاد رکھیں کہ اگر خمینی(رہ) تنھا بھی رہ جائے تو بھی اپنی اس راہ یعنی کفر و شرک و ظلم اور بت پرستی کے ساتھ جنگ کو جاری رکھے گا اور اس راہ سے ایک لمحہ کے لئے بھی غافل نہیں رھے گا اور خداوند رحمن کی مدد سے اسلامی دنیا کے تمام رضا کاروں کے ساتھ اور ڈکٹیٹروں کے غضب میں گرفتار ان تمام پا برھنہ غربت زدہ اور مظلوم افراد کے ساتھ مل کردنیا کے تمام ظالم و جبّار جوبار بار ظلم و تشدّد کا کھیل ، کھیل رھے ہیں اور ان کے نو کروں پر آرام کی نیندیں حرام کردوں گا۔( ۵ )

یزید (اوربنی امیہ ) کے جانشینوں کی نا خلف اولاد

کے ھاتھوں حاجیوں کا قتل عام

مورخہ ۶ ذی الحجہ ۴۰۷ اہ جمعہ کے دن غروب کے وقت جب ایرانی مسلمان حاجی مکہ مکرمہ میں توحیدی نعرے لگاکر مشرکین سے بیزاری کا اظھار کررھے تھے ، سعودی عرب خونخوار اور وحشیوں کے ھاتھوں خاک و خون میں غلطاں کردے گئے ، پھلے سے سوچا سمجھا اور مسلح حملہ مظاہر ہ کرنے والے جلوس پر اس حالت میں کیاگیا کہ انقلاب اسلامی ایران عراق کی ایران پر تحمیلی جنگ کے دوران زخمی شدہ افراد جو اپنے دفاع پر قادرنہ تھے اور فرار بھی نہیں کرسکتے تھے ، مظاہرہ کر نے والے جلوس میں سب سے آگے تھے یہ حملہ اسقدر بزدلانہ اور وحشیانہ تھا کہ وہ عورتیں کہ جو شھیدوں کی مائیں بھنیں او ربیویاں تھیں اور ابھی اپنے عزیز او رجوان شھیدوں کے غموں کو نہ بھولنے پائی تھیں ان پر بھی رحم نہ کیاگیا اور بموں کے دہماکوں سے ان جگر سوختہ اورغمزدہ عورتوں کے دلوں پر غم کا پھاڑگرا دیا گیا ، سعودی حکومت کے خونخوار اور وحشی کتوں نے زھریلی گیس اوربموں کے دہماکوں کے ذریعہ جو داغ لگایاوہ ناقابل فراموش ہے ۔

سعودی حکومت کے اس وحشیانہ اور انسانیت سوز حملہ میں جو یقیناً پھلے سے سوچا سمجھا تھا ایرانی اور غیر ایرانی کئی سو حاجی شھید ہوئے اور کافی تعداد میں زخمی ہوگئے ، حجاج بن یوسف ، یزید اور معاویہ کے جانشینوں کے ناخلف اولاد کی درندگی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ زخمیوں کی مدد کرنے سے ریڈکراس کے افراد کو بھی روکا گیا اورزخمیوں سے ملاقات کرنے کو بھی منع کیاگیا ۔

زخمیوں کے گھروالوں اور عزیزوں کو بھی ان کے دیدار کی اجازت نہ دی گئی ،یہ ظلم وبربریت کاکھیل اس جگہ اوراس مقام پر کھیلا گیا جو خدا کی طرف سے خانہ امن قرار دیا گیا ہے ، ”مَن دَخَلَهُ کَانَ آمِناً “اوروہ شھر جھاں پر حیوانات اور پرندوں تک کا شکار منع ہے مکھی ، مچھر اورگھاس پودوں تک کو نقصان پہونچا ناجائز نھیں، کئی سو مظلوم اور بے دفاع انسانوں کا قتل عام کیا اور بے دریغ ان کا خون بھاد یا گیا، اور اسی پر اکتفانہ کیا بلکہ اس قبیح فعل پر ایک دوسرے کو ٹیلیفون وغیرہ پر مبارک بادیں پیش کی گئیں !

سعودی حکومت نے درندگی اور بربریت میں یزید او رشمر کو بھی پیچھے چھوڑدیا ، اور سعود ی حکومت کے چھرے پرایسا دھبہ پڑگیاجو رھبر انقلاب کے بقول کوثر وزمزم کے پانی سے بھی صاف نہیں ہوسکتا۔

کیا کوئی بتاسکتا ہے کہ اس پر امن مظاہرہ کرنے والے حاجیوں کا جرم کیا تھا اور کیوں پولیس نے انہیں زھریلی گیس اور بموں کا نشانہ بنایا ۔

کیا خادم الحرمین کا ایمان ، انسانیت اور بھادری اسی میں ہے کہ اپنے سکھائے ہوئے کتّوں کو کچھ عورتوں اور زخمی افراد پر چھوڑ دیں تا کہ وہ ان بے بس افراد کوبھوکے بھیڑئے کی طرح چیرپھاڑ دیں ،خانہ کعبہ اورحرمین شریفین کے واقعی خادموں کاکیا خوب احترام کیا اپنے شُرطوںاور بے دین پولیس سے خانہ خدا کے زائروں اور میہمانوں کی مہمان نوازی کی اورحرم امن الٰھی میں بھی مارپیٹ قتل و غارت گری اورقید وبند سے بھی دریغ نہیں کیا ، ضعیف ، کمزور او رزخمیوں پربھی رحم نہ کیا۔

حج ہر طرف سے منھ موڑکر فقط اللهکی طرف متوجہ ہوجانے کانام ہی نہیں بلکہ حج ایک ایسی عبادت ہے جسمیں سیاست کی بھی آمیزش ہے مخلوق خدا میں رھنا ان سے محبّت کرنا اور ہم آواز ہونا اور تمام مسلمانوں کے ساتھ مل کر قدم اٹھا نابھی حج ہے ، حج نماز شب کی طرح فقط ایک انفرادی عبادت نہیں ،بلکہ یہ ایک اجتماعی عبادت ہے ۔

قرآن مجیدکے فرمان کے مطابق لوگوں کے لئے حج کے بہت سے فائدے ہیں ، ان میں سے ایک فائدہ منافقوں اور خیانت کار افراد کو رسوا کرنا ہے نیزمسلمانوں کی رھبری کا جھوٹا دعوی ٰکرنے والوں کا راز فاش کرنابھی ہے،خادم الحرمین اور ملک کے لباس میں اسلامی سرزمین کو غاصب کے چھرے سے نقاب اٹھانا بھی ہے ، کعبہ مسلمانوں کی زندگی کی استقامت کا سبب ہے ، ”ج ( َعَلَ للهُ الکَعبَةَ قِیَاماً لِلنَّاسِ ) “ قرآن مجید کے حکم کے مطابق حج ،کافر ، مشرک ، ملحداور منافقوں سے برائت اور بیزاری کے اظھار کا بہترین موقع ہے ، ایرانی اور انقلابی شیعہ مسلمان یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہی حج بجا لائیں جو قرآنی اور محمدی حج ہے۔ گر چہ محمد بن عبد الوہاب اور وہابیوں کے زر خرید قلمکار آل سعود اور سعودی جلّاد اس حج کو کوئی حیثیت نہ دیں اور حج کانام نہ دیں ، وہابیوں کا کھنا ہے کہ شیعوں کا حج ہمارے حج جیسا نھیں“( ۶ )

اور وہ صحیح بھی کہتے ہیں کیوں کہ شیعوں کا حج جوش و خروش اور ولولہ کا حج ہے نہ کہ خاموش حج، سعودی حکومت کی اپنے اس بڑے جرم کو جس نے اسے پورے عالم اسلام میں رسوا کرکے اس کے چھرے سے نقاب کھینچ لی ہے ، چھپانے کی بے ہودہ کوشش کی ہے، جتنا چاہیں چھپائیں اور جس قدر چاہیں بھانہ بازی کریں لیکن اس جرم سے ان کا کثیف اورخبیث سلسلہ در ہم و برہم ہو کررھے گا۔(انشاء اللہ)

اور خدائے قھار جو ربّ البیت اور منتقم حقیقی ہے خانہ کعبہ اور حرمین شریفین کی بے حرمتی کا بدلہ امر یکہ کے زرخرید غلاموں سے لے کر رھے گا”( مَکَرُو ا وَ مَکَرَاللهُ وَ اللهُخَیرُ المَاکِرِینَ )( ۷ )

”او ریھودیوں نے(عیسیٰ (ع) سے) مکاری کی او رخدا نے اس کی دفیعہ کی تدبیر کی او رخدا سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے“

سرزمین ایران سے خورشیدانقلاب اسلامی کا طلوع ہونا اور پھر اسکی درخشان اور قابل ملاحظہ کا میابیوں نے دنیا کے ظالم ،ستمگر اور سامراجی نوکروں کے دلوں میں رعب ،وحشت اور دبدبہ ڈا ل دیاہے اور سعودی مزدور خیانت کار اور ملحدوں کو اسطرح وحشت زدہ اور حراساں کردیا ہے کہ کبھی وہ قتل و غارت گر ی کے ذریعہ اس آواز کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں اور کبھی درباری ملّاوں کو جمع کرکے حج کی غلط تفسیر کرتے ہیں اور حج کو فقط ایک غیر سیاسی شکل میں پیش کرتے ہیں،اور کبھی سیم وزر، درہم و دینار کے لالچی قلمکاروں کوشیعیت اور ایران کے اسلامی انقلاب کی ردّ میں کتابیں لکھنے پر آمادہ کرتے ہیں اور کبھی مجبور ہوکر اپنے خونخوار حکام کے اشاروںپر اور شاہ اور اس کے ہم پیالہ اورہم مشربوں کی تشویق پر درندہ صفت پولیس اور وحشی کتّوں کے ذریعہ بیت الله کے زائروں کے درپے ہو جاتے ہیں ان کا قتل عام اور ان کا خون بھاتے ہیں۔

لیکن ہمیں کیاڈر کہ اپنے اس جان کا ناقابل ہدیہ محبوب حقیقی کی بارگاہ میں پیش کریں ، اوراصل معبود سے ہمکنار ہوں ، ہماری قوم نے آزادی کی قیمت چکانے کے لئے اپنے آپ کو پھلے سے آمادہ کر رکھا ہے، اور نہ صرف یہ کہ شھادت سے نہیں گھبراتے ،بلکہ قرآن اوراسلام کے مقدس مقاصد کو پائے تکمیل تک پہونچا نے کے لئے شھادت سے ہم آغوش ہونے کےلئے بے قرار ہیں۔

اس سال ایران کے مسلمان اور انقلابی حاجیوں نے نئے انداز کا احرام زیب تن کیا اور خانہ کعبہ سے صاحب کعبہ کی طرف پرواز کیا

کعبہ یک سنگ سیاہی است کہ رہ گم نشود

حاج احرام دگربند و بیین یار کجا است

”بھول نہ جانا اوربھٹک نہ جانا کہ خانہ کعبہ فقط ایک راستہ ہے معبود حقیقی تک پہونچنے کے لئے ، لہذا اسکے لئے ایک دوسرے احرام کی ضرورت ہے تا کہ مالک کعبہ کے وصال سے ہمکنار ہوسکیں“

یہ الله وحدہ لاشریک کے دل سوختہ عاشق اور وادی فنا کے ہجر کے درد سے آشنا محبوب،جنھوں نے جماران کے شیر سے سیرو سلوک ، عرفان او رعشق کا درس لیا ہے اپنے پیرو مرشد خمینی عظیم کی طرح موت کو وحشت زدہ کردیا ہے شھادت کے لمحہ کو عید اور وصال کا دن اور دینداری کا وہ لمحہ سمجھتے ہیں کہ جب فراق و ہجر کی کلفتیں دم توڑ دیتی ہیں وہ اس دنیائے فانی سے چلے جاتے ہیں ، تا کہ اپنے معشوق کی شمع وصال کے اردگرد پروانہ کا کام انجام دیں اور اپنی جان کے ناقابل ہدیہ کو اللہ تعالیٰ پر نچھاور کریں ، وہ بخوبی جانتے تھے کہ وصال کی قیمت ادا کررھے ہیں۔

قدم براہ طلب چون نھی زجان بگریز

کہ شرط راہ بو جان من سبکباری !

”جب کسی طلب کی راہ میں قدم رکھو تو جان دینے سے گریز نہ کرو چونکہ اس راہ کی شرط یہ ہے کہ انسان ھلکا پھلکا رھے“

خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو قربان گاہ عشق اور میعاد گاہ معشوق میں ان سعودی بے رحم جلّادوں کے ھاتھوں جو کعبہ وصال کی راہ میں مکاری سے گھات لگائے ہوئے بیٹھے تھے ، خاک و خون میں غلطاں ہوکر اس ظلمت کدے اورجھان فانی سے گذرکر خدا ئے متعال کے جوار رحمت میں آرام فرما رھے ہیں اور ابدی سعادت کی عظیم کامیابی اور کامرانی پر فائز ہوچکے ہیں خداوند عالم اور انبیاء اور اولیاء حق کی ابدی لعنت اور نفرین ہوجرم پیشہ سعودی وہابی جلاد پر جو کعبہ او رحرم الٰھی کے غاصب ہیں ۔

اختتام کلام اور دعا

خدایا! تجھ کو تیرے اولیاء کے نور قلب،صالحین کے پاک نفوس، سیدالشھداء کے طاہر و مطھر خون کا واسطہ یہ ایام محرم جو حضرت سید الشھداء کی شھادت سے منسوب ہے ، تجھ کو تیری غیرت کا واسطہ اور تجھکو تیری عزّت و جلال کی قسم ان مظلوم شھیدوں کے بھائے گئے خون ناحق کا انتقام اس حکومت اور آل سعود بدنھاد خاندان سے طلب کر اور ان کو اپنے قھرو خشم اور غضب کی آتش کا مزہ چکھا اور اس خبیث نسل کو صفحہ ھستی سے نیست و نابودفرما، (الہٰی آمین)

خدایا تیری بارگاہ میں درخواست ہے کہ ہمارے عزیز اور عظیم رھبر کو اپنی پناہ میں رکھ اور ان کی خواہش میں ( جو تیری خواہش اور تیرے دین کے لئے ضروری ہے ) کامیابی اور کامرانی عطا فرما اور ہمیں ان کی واقعی اور حقیقی اطاعت کی توفیق اور لیاقت عطا فرما اور ہمار ے مخلص فوجیوں اور لشکر کو میدان جنگ میں مکمل کامیابی سے ہمکنار کر اور شھداء کے محترم اہل خانہ کو صبر جمیل اور اجر جزیل عنایت فرما اور ہم کو اپنی یادسے ایک لمحہ بھی غافل نہ رکھ اور ہمیں ایک لمحہ بھی اپنے سے جدا نہ کر،(آمین یا ربّ العلمین)

رَبَّنَا وَ تَقَبَّل مِنَّا اِنَّکَ اَنتَ السَّمِیعُ العَلِیم

والحمد لله ربّ العالمین

اقل العباد

ڈاکٹرہمایوں ہمتی

____________________

[۱] تفسیر نمونہ جلد نمبر ا۴ ص ۷۷ا۔

[۲] و سائل شیعہ ج ۹ ص ۴۴۵)

[۳] اس حصہ کی تحریر میں نے استاد بزرگوار حضرت علامہ آیت الله شیخ عبد الله جوادی آملی مدظلہ کے مقالے بنام” نظام حج در اسلام“ سے استفادہ کیا ہے جو کتاب بنام” مجموعہ مقالات حج “ وزارت ارشاد اسلامی ، میں چھپ چکا ہے ۔

[۴] سورہ توبہ آیت ۳ ۔

[۵] فریاد برائت : حجاج بیت الله الحرام کے نام امام خمینی (رہ) کا پیغام مرداد ۳۶۶ا ش مطبع وزارت فرھنگ و ارشاد اسلامی ۔۔

[۶] اس نکتہ کہ یادآوری ضروری ہے کہ یہ جو کھا جاتا ہے کہ شیعوں کا حج ، ہم مسلمانوں کے حج جیسا نہیں ہے اس بات کو ابراہیم سلیمان جہمان نامی وہابی نے اپنے ایک مقالہ میں لکھا ہے جس کا نام ”مقالہ ای در ردّ شیعہ“ ہے ،اور ہم نے اس کتاب حاضر کے ص ۱۵۵ / پر اسکا خلاصہ کر کے ترجمہ پیش کیا ہے اورقائین کی مزید اطلاع کے پیش نظر اس مغرض اور رافض کی عین عبارت آپ کے لئے نقل کرتے ہیں وہ ھرجگہ شیعوں کو مسلمانوں کے مقابلہ میں لاکر کھڑا کرتا ہے البتہ مسلمانوں سے اسکی مراد خود وہّابی حضرات ہیں نہ اہل سنّت چونکہ وہ لوگ سنیوں کو بھی پیغمبر اسلام(ص) کی قبر مبارک کی زیارت اور بعض دوسرے مسائل میں عقیدت سے کام لینے کومحکوم کرتے ہیں اور مشرک ، کافر اور بدعت گذار کہتے ہیں ،تو تنھا شیعہ ہی نہیں کہ وہابیوںکے مغرضانہ حملات کا نشانہ ہوں بلکہ اپنےکوموحد کہنے والے سنّی حضرات محکومیت اور تکفیر میں بھی پیش قدم نظرآتے ہیں اور وہابی فرقہ کے مؤسس کی کتابیں بنام ”توحید“ یا ”کشف الشبھات “میں یہ سب باتیں نقل ہوئی ہیں چنانچہ یہ وہابی مؤلف شیعوں کے بارے میں اس طرح رقم طراز ہے :

زد علی ذلک ان اذانهم یختلف عن آذاننا و صلاتهم تختلف عن صلاتنا ووضوء هم یختلف عن وضوء نا و صیامهم تختلف عن صیامنا وحجّهم یختلف عن حجّنا

یعنی شیعوں کی اذان ہم مسلمانوںکی اذان سے فرق کرتی ہے اور اسی طرح ان کی نماز ، وضو، روزہ اورحج بھی ہم مسلمانوں سے مختلف ہے ۔

ہماری مذکورہ گفتگو اسطرح کے وہابیوں کے ان جھوٹ ، تہم توں کا جواب ہے ورنہ کون نہیں جانتا کہ انقلاب اسلامی ایران کے سارے شیعہ وسنی حجّاج سب ایک ساتھ مشرکین سے برات کے اظھار جیسے پروگرام میں شریک ہوتے ہیں اور سبھی مل کر خدا ، اسلام اور قرآن کے دشمنوںکے خلاف آواز بلند کرتے ہیں ، ہماری اس پوری کتاب میں صرف وہی وہّابی حضرات مخاطب ہیں جو اپنے کو اہل توحید سمجھتے ہیں ، اور بقیہ مسلمانوں حتی برادران اہل سنّت پر کفروشرک اور بدعت کی تہم ت لگاتے ہیں ، اور ہمارے اس دعوے کا بہترین ثبوت ، متعھد علماء اہل سنّت کی وہ کتابیں ہیں جو وہابیوں کے خرافات کی ردّ میں لکھی گئی ہیں ۔

خداوند کریم! ساری دنیا میں مسلمانوں کے درمیان روز افزون الفت اور محبت قائم کر اوران کے دلوں کو ایک دوسرے سے نزدیکتر کرے ، اور ان کے دلوں میں دشمنان ِاسلام کے خلاف ہمیشہ کے لئے بغض اور نفرت کو باقی رکھ۔(آمین ثم آمین)

وضاحت کے ساتھ تحریر ہے کہ وہابی مؤلف کے مذکورہ بالا مطالب کو ”بحوث مع السلفیة واہل السنّة“ مئولفہ جناب مھدی حسینی روحانی سے ترجمہ کرکے نقل کیا ہے، قارئین کرام کتاب ہذا کی طرف رجوع فرمائیں ۔

[۷] سورہ آل عمران آیت ۵۴۔