شرک اور اس کی اقسام
شرک: یعنی غیر خدا کا شریک قرار دینا، اس کی بھی چار قسمیں ہیں:
۱ ۔ شرک ذاتی: یہ ہے کہ انسان جھان کے لئے ایک سے زیادہ مبدا کا قائل ہو جیسا کہ ”ثنویَّہ“ (دو مبدا کے قائل)دو ”یزدان“ اور ”اہریمن“ کی خالقیّت پر اعتقاد رکھتے ہیں اور نصاریٰ ”اقانیم ثلاثہ“ یعنی تین اصولوں (پدر، پسر اور روح القدس) کے جوہر کی عین وحدت کے قائل ہیں یہ عقیدہ ذاتی مبدا کے وجوب کے ساتھ سازگار نہیں ہے جو اپنی جگہ پر برہان عقلی کے ذریعہ ثابت ہوچکا ہے۔
۲ ۔ شرک صفاتی: یہ ہے کہ خدا کی صفات کو اس کی ”ذات اقدس“ پر زائد، جاننا جیسا کہ ”ممکنات“ میں ایسا ہی ہے، اس عقیدہ کا لازمہ یہ ہے کہ (نعوذ باللہ) ذات الہٰی اپنی ذات کے مرتبہ میں ہر طرح کے کمال جیسے: حیات، علم اور قدرت وغیرہ سے پاک ہو (جبکہ صفات کو حادث جانیں) یا یہ کہ صفات کو اس کی ”قدامت“ میں شریک جانیں،(جبکہ صفات کو قدیم فرض کریں)
حالانکہ خدا کی صفات جیسا کہ ہم ”توحید“ کے معنی میں اشارہ کرچکے ہیں کہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ہیں اور کبھی بھی ”واجب الوجود“ کی ذات سے صفات کمالیہ جدا نہیں ہوسکتی، اگر چہ اس صورت میں ”واجب الوجود“ اور ھستی نامحدود تصور نہیں کی جائے گی۔
مثال کے طور پر : مٹھاس کا شکر سے جدا ہونا، یا چربی کا روغن سے جدا ہونا مساوی ہے کہ گھی اور شکر معدوم ہو جاتے اسلئے کہ گھی چکنائی، شکر مٹھاس اور نور روشنائی کے بغیر ایک نامعقول تصور کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔
”(
وَتِلکٴَ الاَمْثْالُ نَضْربُهَالِلنّاسِ وَمَایَعقِلُهَا اِلّاالْعَالِمُونَ
)
۔“
۳ ۔ شرک افعالی: یہ ہے کہ انسان عالم ایجاد، آفرینش اور تدبیر میں غیر خدا کی ”تاثیر استقلالی“ پر اعتقاد رکھتا ہو اور اس ”فاعلیت بالاستقلال“پر اعتقاد رکھتا ہو اور اس کو فاعلیت بالاستقلال میں شریک اور خدا جانتا ہو، اور تاثیر استقلالی یعنی غیر خدا،کو اثر بخشی اور اس کی تدبیر فعالیت جس طرح سے بھی ہو، اس میں وہ کسی بھی جہت سے خدا کا محتاج نہ ہو اور خود ارادہ و عمل میں ”مستقل“ اور خود کفا ہو۔
خواہ وہ اس کی استقلالی تدبیر و تاثیر بصورت ”اشتراک“یعنی خدا کے ساتھ مل جل کر انجام پائے یا یہ کہ اس کو ”تفویض“یعنی خلق ِجھان کے امور کی ذمہ داری دے دی جائے۔
عمل میں ”اشتراک“ کی نظیر یہ ہے کہ دو یا چند طاقتور آدمی ملکر ایک دوسرے کی مدد سے چاہیں کہ زمین سے ایک بہت بڑا پتھر اٹھالیں تو اس صورت میں ان میں سے ہر ایک زمین سے اس پتھر کو حرکت دینے میں دوسروں کا محتاج ہے، لیکن وہ اس مقدار میں اپنی اس طاقت کے رکھنے میں مستقل ہے اور دوسروں کا محتاج نہیں ہے۔
یھاں بھی غیر خدا کے اشتراک کی صورت کے فرض میں (نعوذباللہ) خدا اپنی طاقت کا اثر محدود ہونے کی وجہ سے عالم کی تدبیر میں دوسروں کا محتاج ہوگا اور وہ دوسرا موجود (غیر خدا) اپنے سے مخصوص مقدار طاقت کے رکھنے میں مستقل اور خدا سے بے نیاز ہوگا۔
لیکن ”تفویض“ اور خلق جھان کے امور کی غیر خدا کو واگذاری کی صورت میں خدا مخلوقات کے پیدا کرنے کے بعد تدبیر اور ادارہ امور مثلاً: زندہ کرنے، مارنے، روزی دینے، عزت و ذلت بخشنے وغیرہ کے امور سے ھاتھ کھینچ بیٹھا ہے اور تمام تدبیرات کو خود مخلوقات یا ان میں سے بعض افراد کے سپرد کردی ہے ۔
جیسا کہ یھودیوں کا اعتقادھے کہ خدا کے ھاتھوں کو امور جھان کی تدبیر سے بندھا ہوا مانتے ہیں، قرآن میں ارشاد ہے: ”(
وَقَاْلَتِ الْیَهُودُ یَدُاللّٰهِ مَغْلُولَة
)
“
”یھودیوں نے کھا: خدا کے ھاتھ تو بندھے ہوئے ہیں۔“
”غلات“ نامی ایک گروہ جس کو ”مفوضہ“ بھی کہتے ہیں،
عقیدہ رکھتا ہے کہ (نعوذباللہ) خدا نے پیدا اور خلق کرنے، روزی دینے، زندہ کرنے، مارنے، شفا دینے اور مشکلات کے حل کرنے وغیرہ کے تمام امور کو ائمہ طاہرین علیہم السلام کے سپرد کردئے ہیں اور خود کنارہ کشی کرلی ہے ((
تعالی اللّٰه ُ عمّایقول الجاهلون علواً کبیراً
)
۔“)
یہ دونوں اعتقاد (اشتراک و تفویض) کے حقیقی مواحدوں کی نظر میں مشرکانہ اور باطل ہیں جو شرعی ممانعت کے علاوہ عقلاً محال بھی ہیں۔ یعنی عمل میں خالق کے ساتھ اشتراک مخلوق اور ایسے ہی مخلوق کو تفویض عمل اور عمل سے خالق کے اعتزال کا مسئلہ عقل سلیم کی نظر میں محال اور ممتنع الوقوع ہے۔
کیونکہ جو مخلوق ”ممکن الوجود“ ہے اور ذاتاً فاقد ھستی ہے ہر وقت خالق فیّاض کی جانب سے ”افاضہ“ کی محتاج ہے تا کہ اس سے وجود لے اور پھر ”ایجاد“ اثر کرے، لہٰذا اگر ایک آن کے لئے خداوند منّان کی جانب سے فیض بند ہوجائے تو مخلوق کا وجود ختم ہوجائے گا اس کی قدرت ایجاد تو دور کی بات ہے۔
جس امکان کا” وجود “جو واجب سے ربط اور خالق واقعی پر بھروسہ رکھنے کے سوا کچھ نہیں ہے اس کے لئے استقلال کا تصورایک نامعقول تصور ہے اور اس کو مستقل مخلوق کھنا ایک متناقض سخن ہے ، جس کا لازمہ وجود اور عدم کا ایک جگہ جمع ہونا ہے جس کا محال ہونا بھی واضح ہے ۔
جھان کی پیدائش ایک نظام کے تحت ہے
اگر ہم یھاں”فلسفہ“کے ایک گوشہ کی طرف اشارہ کریں ،تو بے جا نہ ہوگا اور وہ بحث یہ ہے کہ :فلسفہ اور حکمت الٰھی میں جن مسائل پر بحث و تحقیق ہوتی ہے ان میں سے ایک بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ خداوندعالم نے اس جھان کو کس طرح پیدا کیا ہے ۔
اس بحث میں متفق علیہ عقلی برہان کے ذریعہ ثابت کیا جاتا ہے کہ خدا کا فعل اور اس سے اشیاء کا صادر ہونا ایک مرتب نظام و ترتیب پر برقرار ہے،یعنی اشیاء کی نسبت خدا کی فاعلیت ایک معین نظام اور ایک مشخص ترتیب پر جاری ہے۔
یعنی خدا وندعالم کی قدوسیت اور ذات و کبریائی تقاضا کرتی ہے کہ موجودات کا سلسلہ، خلق و آفرنیش کے لحاظ سے اپنے وجود کی شدت وضعف کے مطابق، ایک دوسرے کے طول اوریکے بعد دیگرے قرارپائے اور ایک کے بعد دوسرا ”الاشرف فالاشرف“ کے لحاظ سے ایجاد ہو،اور موجودات میں سے ایک اپنے خاص رتبہ میں ، اپنے اُوپر مقدم رتبہ کا معلول ہو ،درحالیکہ خود بھی اپنے سے بعد والے رتبہ کا سبب و علت قرار پائے۔
یہ تمام کثیر ایجادات جو علل و معلولاتِ مترتبہ کے سلسلہ سے صادر ہوتے ہیں، اسی واحد کی عین ایجاد ہے کہ جو خداوندعالم کی خالقیت اور ”علیّت“ کے مقامِ عالی سے صادر ہوتی ہے جیسا کہ ارشاد ہے: ”(
وَمَا اَمْرُنَا اِلاّ واحدة
)
“
ہمارا کام سوائے ایک کام کے کچھ نہیں ہے۔
خلاصہ یہ کہ وہ ایک کام اور وہ ایک ایجاد، عین وحدت میں متعدد مراتب اور طولیہ و کثیرہ درجات کو متحمل ہے کہ ان مراتب سے ہر مرتبہ بصورت خاص منعکس ہو کر اپنے سے نیچے والے مرتبہ کی ایجاد کی علت قرار پاتا ہے۔
مثال کے طور پر: سورج کا نور آئینہ سے ٹکرا کر دیوار پر پڑتا ہے تو اب اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دیوار کا نور، آئینہ کا نور ہے اور یہ بھی واضح وروشن ہے کہ آئینہ کا نور بھی سورج کا نور ہے اور در واقع اس واحد کا اشراق ہے کہ جو خورشید سے صادر ہوا ہے کہ پھلے صفحہ آئینہ پر اور پھر دیوار پر ظاہر ہوا کہ نہ آئینہ کے پاس اپنا کوئی نور تھا کہ دیوارپر چمکتا ہے اور نہ ہی سورج نے اپنے اشراق و چمک کو بغیر آئینہ کے ذریعہ دیوار تک پھنچایا ہے۔
اس باب میں شارع مقدس کا نظریہ
”یہ خلقت کا طولی نظام جو فلسفی محکم دلیلوں کے ذریعہ ثابت ہوچکا ہے، قرآن اور دین کے بزرگ رھبروں کی زبان ِمبارک سے واضح اور آسان طریقہ سے بیان ہوا ہے،جبکہ ہم جانتے ہیں کہ قرآن کی آیہ کریمہ اور انبیاء اور ائمہ طاہرین علیہم السلام کی اعلیٰ تعلیمات میں مکرر ”فرشتوں اور ملائکہ ، خدا کی جنود و سپاہ کا تذکرہ آیا ہے اور ان کی مختلف عناوین کے ذریعہ : ”مدبّرات امر، مقسّمات امر، معقّبات، کاتبین اور حافظین اعمال، وحی لانے والے اورروح قبض کرنے والے وغیرہ جیسے القابات سے پہچنوایاگیاہے ، اور مکرم فرشتوں میں سے ہر ایک کے لئے ایک مشخص مقام اور معین جگہ کا پتہ بتایا ہے کہ: ”وما مِنّا اِلاّلہ مقامُ معلومَُ“ ہم میں سے کوئی (فرشتہ) نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے لئے ایک معلوم جگہ ہے۔
اور ایسے ہی وضاحت کرتے ہیں کہ فرشتوں کے درمیان نیز چھوٹے اور بڑے درجات کا سلسلہ مقرر ہے اور مقرب ملائکہ سے ہر ایک خدا کی طرف سے ایک معین گروہ کی رھبری کے عھدہ پر فائز ہے جو اپنے اعوان و انصار کے ذریعہ سے خدا کی جانب سے دئے گئے کاموں کی تدبیریں کرتا ہے۔
مثلاً جبرئیل (ع) وحی لانے والا ایک فرشتہ ہے اور میکائیل (ع) رزق پھنچانے اور عزرائیل(ع) قبض روح کے لئے معین ہے۔
اور اسرافیل (ع) صور پہونکنے اورمردوں کو زندہ کرنے والا فرشتہ ہے، اسی طرح بعض فرشتے ہوا چلانے، بادلوں کو ادھر اُوہر لے جانے اور بارش کرنے جیسے موسمی امور کی تدبیر پر معین ہیں، بعض فرشتے دنیا میں بندوں کے اعمال لکھنے، اور آخرت میں حساب وکتاب کرنے پر مامور ہیں اور بالآخر ایک فرشتہ دوزخ کا مالک ہے اور دوسرا فرشتہ جنت کے امور پر موکل ہے اور ہر فرشتہ اپنی حاکمیت کے تحت بعض فرشتوں کو (خادم کی حیثیت سے) رکھتا ہے۔
اور سب کے سب فرشتے خداوندعالم کے فرمان کے تابع ہیں اور اس کے امور کو انجام دینے والے ہیں۔
اور ایسے ہی ہم دیکھتے ہیں کہ کتاب و سنّت (آیات و روایات) نے واضح طورپر اور صراحت کے ساتھ خاص تدبیری مقامات کو بعنوان :
عرش، کرسی اور لوح و قلم، کوخدا کے نزول حکم کے لئے پھنچوایا ہے اور فرشتوں کے ایک گروہ کو ”حاملان عرش“ اور ”مَنْ حول العرش“ کی وصف کے ساتھ امور جھان کی تدبیر کرنے والے کی حیثیت سے معرفی کی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ دین کے یہ صریح بیانات، خداوندعالم کی فاعلیت اور مقام ربوبیت سے عالم خلقت اور موجودات کے سلسلہ میں ایک مرتب اور منظم نظام و تشکیلات کے بارے میں خبر دیتے ہیں۔
اور اس حقیقت کو بطور واضح سمجھاتے ہیں کہ ایسا نہیں ہے کہ خداوند متعال کا ارادہ ہر موجود کی خلقت کے سلسلہ میں بطور مستقیم اور بلاواسطہ اس سے متعلق ہوگیا ہو اور جھان کے تمام موجودات سے ہر ایک بطور مستقل اور دوسروں سے جدا گانہ پیدا ہوگیا ہو۔
کیونکہ یہ تصور قطع نظر اس سے کہ وہ اپنی جگہ پر جن کو محکم عقلی دلائل کے ذریعہ مشروح بیان کیاگیا ہے، ان کے ساتھ منافات رکھتا ہے اور خلقت میں ایک طرح کی مشکل کا باعث ہے، دین کی روشن منطق کے ذریعہ نیز ”تدبیر عالم میں وساطت“ کی اصل مسلّم اور آفرنیش کے وسیع پھلو اور خلقت کے وسیع نظام میں فرشتوں کے مدبر اور فعّال ہونے کے وجود پر قطعی اعتقاد کے ساتھ بھی ناساز گار ہے۔
اس لئے اس حقیقت پر کامل توجہ رکھنی چاہیئے اور کبھی بھی اس کو بھولنا نہیں چاہیئے کہ تدبیر امور خدا کی طرف سے مختلف کاموں میں فرشتوں کے ماذون اور نظام الٰھی میں ہر ایک فرشتہ کا مقام معلوم پر فائز ہونے میں جو فرشتوں کی وساطت ہے نہ کہ ”اعتباری“ قرار دادوں اور ایسے اجتماعی منصبوں اور مقاموں کی وساطت ہو جو بشری معاشروں کی تشکیلات میں پائے جاتے ہیں ایسی وساطت کی قرار داد اور اعتبار کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہوتی ہے جیسے ایک ڈاریکٹر کہ جو ایک وزیر کے دستخط سے کسی کو عطا اور ایک دوسرے دستخط سے ختم کردیا جاتاہے۔
خدا کے نظام اور تشکیلات میں جب کھا جائے کہ مثلاً ملک الموت روح کو قبض کرنے میں خدا کی طرف سے ماذون ہے تو اس کو ”قابض الارواحی“ کی وساطت اور عھدہ عطا کردیا گیا ہے یقینا اذنِ خدا اس باب میں نہ تو زبانی کی صورت میں ہے اور نہ ہی دستخط کی صورت میں ، اور نہ ہی اس مقرب ملک کا مقام اعتباری اور بشری قرار دادی قسم سے ہے۔
بلکہ خدا کا اذن، اذن تکوینی اور مقام ملک بھی مقام وجودی ہے، یعنی خدا نے جناب عزرائیل کے وجودی ڈھانچے کو اس طرح بنایا ہے اور اس کی بنیاد کو اس طرح کی طاقت عطا کی ہے کہ جو زندہ انسان کو مارسکتا ہے اور روح و بدن کے درمیان جدائی ڈال سکتا ہے۔
اسی طرح خدا نے”اسرافیل “کو اس طرح پیدا کیا ہے اورایسی طاقت عطا کی ہے جو مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اور بے جان میں جان ڈال سکتا ہے۔
اور یہ مارنا اور زندہ کرنا خدا کا کام ہے اور فاعل حقیقی اور اس کا اصلی خدا ہے لیکن خداوندعالم کی فاعلیت ان مقرب فرشتوں کی فاعلیت کے ذریعہ ظاہر ہوتی ہے۔
عزرائیل مارنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن خدا کے ارادہ سے کرتا ہے اور خدا بھی مارنے کا ارادہ کرتا ہے لیکن عزرائیل کے ارادہ کے ساتھ کرتا ہے البتہ یہ دونوں ارادے ایک دوسرے کے طول میں ہیں یعنی خدا کا ارادہ، ارادہ ذاتی اور اوّلی ہے اور عزرائیل کا ارادہ، ارادہ ”اعطائی اور ثانوی“ ہے، نہ تو عزرائیل ہی فی حد نفسہ خدا کے ارادہ کے بغیر کسی زندہ کو مارسکتا ہے اور نہ ایسے ہی ہے کہ خدا ”نظام فعل“ اور اپنی ثابت ”سنت“ میں عزرائیل کے ارادہ کے توسط کے بغیر، کسی زندہ کو مارنے کا ارادہ کرے، بلکہ خدا کا مارنا عزرائیل کے عین مارنے کے مطابق ہے اور عزرائیل کا مارنا بھی خدا کے عین مارنے کے مطابق ہے کہ ارشاد ہے:
”ا(
ٕنَّا کُلَّ شَي ءٍ خَلَقْنَاهُ بِقَدَرٍوَمَاامْرُنآ اِلاَّ وَاحِدَةٌ کَلَمْحِ بِالْبَصَرِ
)
۔“
ہم نے ہر چیز کو ایک شخص اور اندازہ سے پیدا کیا ہے اور ہمارا کام سوائے ایک کام کے کچھ نہیں ہے جو چشم زدنی کے مانند ہے“
جی ہاں اس کا فرمان ایک فرمان اوراس کی تخلیق ایک تخلیق ہے لیکن یہی اس کی ایک تخلیق اور فرمان، اسباب و مسببّات کے سلسلہ سے تشکیل شدہ ہے،جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
”(
فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللّٰهِ تَبْدِیْلاً وَلَنْ تَجِدَ لِسُنّتِ اللّٰه تَحْوِیْلاً
)
“
”ھر گز خدا کی سنّت اور قانون میں تم تبدیلی نہیں دیکھو گے اور نہ ہی تم اس کی سنّت میں دگر گونی اور تغیر پاوں گے“
لہٰذا نظام آفرینش میں ان تمام وسائط، عُمال اور ھاتھ بٹانے والوں کے باوجود، یہ تمام ہر آن اور ہر منٹ خالق کل جھان کے دامن سے جڑے ہوئے اور اسی سے مربوط ہیں اور پورے جھان کا فقر اور محتاج ہونا اسی کی درگاہ سے وابستہ ہے، جیسا کہ ارشاد ہے:
”(
یَسْئَلُهُ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ کُلَّ یُوْمٍ هوفِی شَانٍ
)
“
”جو کچھ زمین و آسمان میں ہے وہ اپنے کو اسی سے سوال کرتے ہیں ، اور وہ ہر روز (ھر وقت) مخلوق کے ایک ایک کام میں ہے “
اگر چہ عالم خلق کا سببی اور مسبّبی نظام،خداوندعالم کے عین ارادہ ”فعلی“ اور اس کا دائمی کام ہے اور خداوندعالم کا دائمی کام اور فعلی ارادہ بھی عالم حق کے سببی اور مسببی نظام کا عین ہے۔
قرآن سے ایک نمونہ
ہم قرآن مجید میں خلقت کے اسی ”طولی نظام“ کے سلسلہ میں ملاحظہ کرتے ہیں کہ وہ ایک فعل کو کبھی خدا کی طرف اور کبھی فرشتوں کی طرف نسبت دیتا ہے اور کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ وہ کسی کام کو انسان کی طرف عین اسناد میں ، خدا کی طرف نسبت دیتا ہے اور انسان سے نفی کرتا ہے مثلاً فرماتا ہے:
”(
وَمَا رَمَیْتَ اذْرَمَیْتَ وَلکنّ اللّٰه رمیٰ
)
“
یعنی جس وقت کہ (اے رسول(ص)) تم نے (سنگریزے) پھینکے تو وہ تم نے نہیں پھینکے ہیں بلکہ خدا نے پھینکے ہیں۔
اس آیت میں ہم دیکھتے ہیں کہ جملہ ”مَارَمَیْتَ“ آنحضرت(ص) سے پھینکنے کی نسبت کی نفی کرتا ہے اور جملہ ”اللّٰہ رمیٰ “ عیناً اسی پھینکنے کی نسبت کو خدا کے لئے ثابت کرتا ہے، یعنی انسان عین اثبات ”فاعلیت“ میں ”استقلال“ کی نفی کی ہے اور پھر اسی ”فعل“ میں خدا کو فاعل ”مستقل اور بالذات“ قرار دیا ہے۔
اسی طرح قرآن نے ”قبض روح“ کے سلسلہ میں بھی اس کی نسبت خدا کی طرف دی ہے فرماتا ہے:
”(
اللّٰهُ یَتَوفَّی الْانْفُسَ حِیْنَ مَوتِهَا
)
۔۔۔“
”خدا موت کے وقت (انسانوں) کی جانوں کو لے لیتا ہے۔
اور دوسری جگہ پر اسی کام کو ”ملک الموت“ کی طرف نسبت دیتا ہے کہ ارشاد ہوتاہے:
”(
قُلْ یَتَوفّٰکُمْ مَّلَکٴُ الْمَوْتِ الَّذِیْ وُکِّلَ بکُمْ
)
۔۔۔“
”اے میرے رسول کہہ دیجئے: ملک الموت جو تم پر موکّل ہے تمھاری جانوں کو لے لیتا ہے۔
دوسری جگہ ارشاد ہے:
”(
حَتّٰی اِذٰا جَآءَ احَدُکُمُ المُوتُ توفَّتْهُ رُسُلُنٰا
)
“
”جیسے ہی تم میں سے کسی ایک کو موت آتی ہے تو ہمارے رسول اس کی جان اور روح قبض کرلیتے ہیں“
اور کبھی فرماتا ہے:
”(
یُدبّرُ الْاَمْرَ مِنَ السّمٰآء اِلیٰ الْارضِ
)
۔۔۔۔“
”تمام امور کی تدبیر خدا کرتا ہے اور پھر آسمان سے زمین کی طرف نازل کرتا ہے“
اور دوسری جگہ ارشادھوتا ہے:
”(
فالْمُدَبّراتِ اَمْراً
)
“
”قسم ہے ان فرشتوں کی جو تدبیر کرنے والے ہیں“
ایک جگہ ”وحی“ لانے اور قرآن نازل کرنے کو حضرت ”روح الامین“ کی طرف نسبت دے کر فرماتا ہے:
”نَ(
زَلَ بِهِ الرُّوْحُ الْامِیْنُ عَلٰی قَلْبِکٴَ
)
۔۔۔۔“
”قرآن کو روح الاْمین نے تمھارے قلب پر نازل کیا ہے“۔
اور دوسری جگہ خدا کی ذات اقدس کی طرف نسبت دیکر فرماتا ہے:
”(
إنَّانَحْنُ نَزَّلْنَا عَلَیْکَٴ الْقُرْآنَ تَنْزِیْلاً
)
“
”حقیقت یہ ہے کہ قرآن کو ہم نے تم پر نازل کیا ہے“۔
سرّ مطلب وہی ہے کہ جوہم نے بیان کیا یعنی خدا کا ”فعل“ اور اس سے اشیاء کا صادر ہونا، جریان میں ایک منظّم تشکیلات اور ”نظام“ کی صورت سے ہے اور اس نظام کے داخل میں جو کام انجام دیاجاتا ہے، خالق کل جھان، خدا کی وہی عین فاعلیت ہے کہ جس کو قرآن میں ”اِذْنُ اللہ“ سے تعبیر کیا جاتا ہے ارشاد ہوتا ہے:
”(
مَنْ ذَا الَّذِی یَشْفَعُ عِنْدَهُ إلاَّبِاِذْنِهِ
)
“
کون ہے جو اس کے نزدیک (اس کے نظام خلق میں ) شفاعت کرے (اپنی طرف سے کوئی اثر وجود میں لائے) سوائے اس کی اجازت (کی طاقت) کے؟
”(
هَلْ مِنْ خالِقٍ غَیْرُاللّٰهِ
)
“
”آیا خدا کے علاوہ کوئی پیدا کرنے والا ہے؟“
”(
قُلِ اللّٰه ُ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ وهوَالوَاحِدُ القَهَّارِ
)
“
”کہہ دو! ہر چیز کا پیدا کرنے والا صرف خدا ہے جو واحد قھار ہے“
(کہ اس کی قدرت کا سایہ، پورے جھانِ ھستی پر پھیلا ہوا ہے اور تمام موجودات کو اپنی قاہر تدبیر و ارادہ کے تحت لے رکھا ہے،)
لیکن یہ ”خلق “ یہ ”ارادہ“ اور یہ ”تدبیر“ ایک خاص نظام کے تحت انجام پاتا ہے اور ہر ایک ”معلول“ اپنی خاص ”علت“ کے تحت وجود پاتا ہے۔
ھاں یہ خدا ہی ہے جو ” لوگوں کو مارتا“ اور ان کی روحوں کو قبض کرتا ہے لیکن ”عزرائیل“ اور اس کے اعوان و انصارکے ذریعہ، اور یہ خدا ہی ہے جو تمام روزی خواروں کو روزی دیتا ہے:
”(
وَمَا مِنْ دَابّةٍ فِی الْاَرْضِ إلَّاعَلٰی اللّٰهِ رِزْقُهٰا
)
“
کوئی جانور اور جنبذہ روی زمین پرنھیں ہے مگر یہ کہ اس کا رزق خدا کے ذمّہ ہے،(لیکن میکائیل اور اس کے مددگاروں کے ذریعہ اسے رزق ملتا ہے۔)
یہ خدا ہی ہے جو انبیاء علیہم السلام کے قلوب پر ”وحی“ نازل کرتا ہے لیکن جبرئیل اور اس کے پیروکاروں کے ذریعہ، اور خداہی ہے جو بارش برساتا ہے اور ہوائیں چلاتا ہے اور زمین کو زندہ کر کے گھاس اُگاتا ہے لیکن ایک مخصوص انداز میں سورج کی روشنی، نور اور حرارت کے وجود کے ذریعہ، نیز قرآن حکیم فرماتا ہے:
”(
اَللّٰهَ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ وهوَ عَلٰی کُلِّ شَيءٍ وَّکِیْلٌ
)
“
”خدا ہر چیز کا خالق ہے اور وہی ہر چیز پر مدّبر و کارساز ہے۔“
”(
إنَّ اللّٰهَ هو الرَّزَّاقُ ذُوْالقُوَّةِ المَتِیْنُ
)
“
”روزی دینے والا وہی خدا ہے جو صاحب قدرت و توانا ہے“۔
دوسری جگہ ارشادھوتا ہے:
”(
وَقُلْ الْحَمْدُلِلّٰهِ الذِّیْ لَمْ یَتّخِذْ وَلَداً وَلَمْ یَکُِنْ لَّهُ شَرِیْکٌ فِی الْمُلْکِٴ وَلَمْ یَکُنْ لَهْ وَلِیٌّ مِنَ الذُّلِّ وَ کَبّرهُ تَکْبِیْراً
)
“
”اورکھوکہ ہر طرح کی تعریف اسی خدا (کو سزا وار )ھے جو نہ تو کوئی اولاد رکھتا ہے اور نہ (سارے جھاں کی) سلطنت میں اس کا کوئی ساجھے دار ہے، او رنہ اسے طرح کی کمزوری ہے، نہ کوئی اس کا سرپرست ہے اور اس کی بڑائی اچھے طرح کیا کرو“
حضرت امام صادق علیہ السلام اسماعیل بن عبدالعزیز (جو آپ کے بارے میں غلو آمیز عقیدہ رکھتا تھا)سے فرماتے ہیں کہ :
”(
یَا إسْمَاعِیْلُ لاَترْفَعِ البِنَاءَ فَوقَ طَاقَتِهِ فَیَنْهَدِمُ ، إجْعَلُونَا مَخْلُوقِیْنَ
)
۔۔۔“
اے اسماعیل ! عمارت کو اس کے پایوں کی طاقت سے زیادہ اُونچا نہ کرو ورنہ وہ عمارت منھدم ہوجائے گی، ہم کو مخلوق سمجھو! “
یعنی ہمارا وجودِ ”امکانی“ اس بات کی طاقت نہیں رکھتا ہے تم ہماری طرف ”خلاّقیت ، رزّاقیت اور فعالیت میں استقلال “ کی نسبت دو کہ جو خدا وندعالم کے کاموں میں سے ہے،بلکہ جو ہمارے وجود کے مرتبہ کی مناسبت اور شائستہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم کو خدا ئے ربّ العالمین کی نسبت مخلوقیت و مربوبیّت کی حدوں سے دور رکھو اور اگر کسی وقت ہم سے کوئی چیز صادر ہو تو سمجھو وہ فاعلیتِ ”بالْاِذْن“ کی شئونات میں سے خدائے ”بالّذات“ کی فعالیت پر متکی ہے۔
پس جو فعل کسی سبب اور علت کے ذریعہ صادر ہوتا ہو وہ اولاً و بالذّات خدا سے صادر ہوتا ہے اور ثانیاً و بالعرض اس کی نسبت علل و اسباب اور وسائط کی طرف دی جاتی ہے کہ ایک سکنڈ کے لئے اگر خدا کا ”فیض“ منقطع ہو جائے تو تمام چیزیں نیست ونابود ہوجائیں گی۔
لیکن جن فاعلوں کا وجود، وجود حق کے سائے میں ہو تو طبیعی طور پر ان کی فاعلیت بھی حضرت حق کی فاعلیت کا سایہ ہوگی۔
این ہمہ عکس می و نقش مخالف کہ نمود
یک فروغ رخ ساقی است کہ درجام افتاد
اس وجہ سے ، خدا اور موجوداتِ جھاں کے درمیان علل و اسباب کا وجود، خدا کی مستقل فاعلیتِ و خالقیت کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتا ہے، اور جو اصل مسلّم ہے وہ یہ کہ:
”لٰاخَاِلقَ إلاّاللّٰه ُ، وَلٰا رَازِقَ إلاّاللّٰه ُ ،وَ لٰا مُدَبَّرَ فِی الْخَلْقِ وَاْلاَمرِ إلاّ اللّٰه ، لٰامُحْیي وَلَامُمِیْتَ إلاّ اللّٰهُ وَ لاََمٴوثّرَفِی الُوجُودِ إِلّااللّٰه
“
”سوائے خدا کے کوئی خالق نھیں، سوائے خدا کے کوئی رازق نھیں، امور مملکت اور خلق میں سوائے خدا کے کوئی مدبّر نھیں، سوائے خدا کے کوئی مارنے اور جلانے والا نہیں اور خلاصہ یہ ہے کہ وجود میں سوائے خدا کے کوئی موثر(اثر دکھانے والا) نہیں ہے،“ یہ کمال اتفاق اور اپنی حالت میں باقی اور ثابت ہے۔
کیونکہ تمام عالم میں فاعل ”مستقل اور بالذّات“ خدا ہے اور تمام موجودات جتنے بھی ہیں وہ سب عمومی طور پر فاعل ”بالاِذْن“ ہیں، اور ان میں سے ہر ایک خدا کی امداد کے مطابق اور خداوندعالم کی عطا کی حدود میں کسی کام کی انجام دھی میں ماذون ہیں اور اپنی مخلوقیّت کے اقتضاء میں ان میں سے کوئی ایک بھی پلک جھپکنے کے برابر بھی وجود اور اپنے پاس سے ایجاد میں ”استقلال“ نہیں رکھتے، اور نہ ہی اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔
جبکہ عقل سلیم کے حکم سے ”ممکن الوجود“ اپنی ذات کی حد تک عدم اور فاقد وجود ہے، لہٰذا محال ہے کہ ایسا وجود، مبداء ھستی ہو اور ”ایجاد، فنا اور مارنا و جلانا وغیرہ اس سے صادر ہوں، بلکہ موجود ”ممکن“ (کہ سوائے خدا کے جو بھی ہے وہ موجود ممکن میں شمار ہے) حدوثاً، بقاء اً، وجوداً، ایجاداً ذاتاً و فعلاً خدا کی ذات پر متکی اور ”قیومیت“ کا محتاج ہے۔
ایک ناقص مثال :
ھر وہ فعل جو انسان کے ظاہری و باطنی اعضاء مثلاً آنکھ، کان، ھاتھ، پیر، زبان وغیرہ سے صادر ہوتا ہے در حالیکہ انسان کی طرف منسوب ہوتی ہے وہاں انسان کے اعضاء کی طرف بھی نسبت دی جاتا ہے۔
لہٰذا ہم کہتے ہیں: میں نے دیکھا، میں نے سنا اور میں نے لکھا (اور یہ بھی ہم کہتے ہیں: ھاتھ نے لکھا اور آنکھ نے دیکھا وغیرہ)
اور ان دو نسبتوں کی گفتگو کا راز یہ ہے کہ انسان کی فعّال قوتیں، انسان کے ناطقہ نفس کے ”طول“ میں قرار پاتے ہیں اور مجریان فرمان نفس بھی ہیں اور دوسرے لفظوں میں مظاہر فعالیّت نفس ہوتے ہیں۔
اور یہ افعال اولاً و بالذات، نفس سے صادر ہوتے ہیں اور ثانیاً و بالعرض انسان کی طرف منسوب ہوتے ہیں، یہ نفس ناطقہ اور خود انسان ہے جو آنکھ کے ذریعہ دیکھتا ہے، کان کے ذریعہ سنتا ہے اور ھاتھ کے ذریعہ لکھتا ہے، لہٰذا قرآن میں ارشاد ہے:
”(
وَاللّٰهُ خَلَقَکُمْ وَمَاتَعْمَلُونَ
)
“
”تمھیں اور جو کچھ تم انجام دیتے ہو (یا جو بت تم تراش کر کے بناتے ہو) خدا نے پیدا کیا ہے“۔
”درحالیکہ یہ انسان کے اعمال (منجملہ ان کے وہی تراشے ہوئے جو بت پرستوں کے ھاتھ سے بنائے ہوئے ہیں اور آیتوں کے سیاق کے حکم کے مطابق اس آیہ شریفہ کے مورد توجہ ہیں) کو خود ان کی طرف نسبت دی ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :”وما تعملون“ (تم جو عمل کرتے ہو) لیکن اس کے باوجود ان کی ایجاد و آفرنیش کو قرآن نے خدا کی طرف منسوب کیا ہے جھاں فرماتا ہے: ”(
واللّٰه خلقکم وما
)
۔۔۔۔“ یعنی تم سے صادرہ افعال کو بھی تمھاری طرح خدا نے پیدا کیا ہے۔
ایک تذکر :
ارباب نظر پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ آیت میں (ماتعملون) ”ما“ کا موصولہ یا مصدر یہ ہونا، مذکورہ مطلب اخذ کرنے میں کوئی زیادہ فرق نہیں کرتا ہے، ضمناً آیت شریف کا پھلی والی آیت کے مقابلہ میں تعلیلی مقام رکھنا، انسان کے تمام اعمال کی نسبت شمولِ اطلاقی کی تائید کرتا ہے اور بالخصوص ”اصنام“ کو مراد لینے کی قید سے باہر لاتا ہے (دقت کریں)، یہی وجہ ہے کہ آیات:
”(
اللّٰه یَتَوَفّیٰ الانفس
)
“ و ”(
یتوفیٰکم ملکٴ الموت
)
“ اور ”(
توفّتهُ رُسُلنا
)
“
ایک دوسرے کے ساتھ منافات نہیں رکھتی ہیں، اسلئے کہ حقیقت میں تمام آیات ایک ہی ”فعل“ اور ایک ہی ”مستقل فاعلیّت“ کی طرف اشارہ کرتی ہیں، جو اس ”نظام“ میں ”طولی فاعل“ کے ذریعہ انجام پاتاہے۔
اور وہ مستقل فاعل واحد، صرف خدا ئے تعالیٰ کی ذات اقدس ہے کہ اس کا فعل واحد، افعال کثیرہ کی صورت میں ایسے پے در پے فاعلوں کے ذریعہ انجام پاتے ہیں جو ایک دوسرے کے بعد ہیں ،منجلی ہوتا ہے۔
اور یہ تمام خدا وندعالم کے فیض والھام اور امر تکوینی کے ذریعہ انجام دیتے ہیں اور وظیفہ کرتے ہیں اور ایک منٹ کے لئے بھی اس کے فیض ”نورالسمٰوات والارض
“ سے بے نیازنھیں ہوتے لہٰذا نتیجہ وہی ہے کہ:
”لاَمُوثر فی الوجود الاالله، ولا حول ولا قوّهَ الّا بالله
“
( موجودات میں سوائے خدا کے کوئی موثر نہیں ہے، اور کوئی حرکت اور کوئی قوت نہیں ہوتی مگر خدا کے ذریعہ)بے شک خدا کو و اسطوںکی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
یہ ایک طرح کی فکری ضلالت و رسوائی ہے کہ کوئی یہ وہم کرے کہ خدا وند متعال سے صدور اشیاء کے لئے ایک منظّم تشکیلات اور نظام کا وجود خدا وندعالم کی مطلقہ قدرت میں ، عجز و محدودیت لازم آتی ہے اور بے نیاز ذات فرشتوں اور غیر فرشتوں کے وسائط اور اسباب کی محتاج ہو ! ”نعوذبالله من هِذه الضلالة و الْوهم
۔“ھرگز نھیں! وہ ذات جو سبوح ٌاور قدوس ٌھے اس کی ذات وصفات سے تمام اشیاء اور اس کے تمام افعال، اس کے امرتکوینی اور فعلی ارادے ہی ہیں
”گرنازی کند از ہم فرو ریزند و قالبھا“
کیسے تصور کیا جاسکتاہے کہ خداوند عالم اپنی آفرنیش و فاعلیت میں ان کا محتاج ہو اور اس کی مخلوقات (نعوذباللہ) اس کے ”ولی’‘ من الذّل“ اور ”شریک’‘ فی الملک“ ہو !!تعالیٰ اللّٰه عمّا یتوهم هَ الجاهلونَ علّوا کبیراً
۔(خدا جاہلوں کے ان تمام توہمات سے پاک وپاکیزہ ہے )
بلکہ یہ اشیاء کاضعیف مرتبہ وجودی ہے جس نے ان کو مستقیم کسب فیض کی قابلیت سے محروم کیا ہے اور ناچار ہوگئے ہیں کہ وہ مجرای فیض حق میں خلقت کے تمام مراتب عالیہ کے وجود کی پناہ میں قرار پائیں اور اپنے وجودی مرتبہ خاص میں ، مبداء فیاض کی بے دریغ رحمت سے فیض حاصل کریں۔
ایک دوسری مثال :
خدا وندعالم کی ذات ایسی مقدس ہے جو زمین اور زمین والوں کو زندہ کرتا ہے اور گھاس کو اُگاتا ہے اور کرّات منظومہ شمسی کو ایک دقیق اور منظّم حساب کے ذریعہ چلاتا ہے لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ تمام برکات ”سورج“ کے پر فیض دامن سے زمین اور اس پر موجود تمام چیزوں اور دوسرے کرّات تک پھنچتا ہے کہ اگر اس درمیان سورج نہ ہو تو منظومہ شمسی کا پورا نظام اپنی تمام چیزوں کے ساتھ درہم وبرہم اور نابود ہو جائے گا۔
تو اب کیا ”سورج“ نعوذباللہ خدا کے لئے ”ولی الذّلّ“ اور ”شریک فی الملک“ ہے اور خداوند عالم سورج کی وساطت کے بغیر گھاس اور نباتات کو اُگانے اور احیاء اموات کوئی قدم نہیں اٹھاسکتا ہے۔
یا نھیں! یہ زمین، گھاس اور دیگر دوسری چیزوں کا تقاضا ہے کہ وہ سورج کی تابش اور بارش کی وساطت کے بغیرخداوندعالم کے فیض سے فیضیاب نہیں ہوسکتے۔
جی ہاں ایک طرف تو خداوندعالم کی قدوسیّت، لامتناہی کبریائی اور علوذات، اور دوسری طرف اشیاء کے وجودمیں شدت و ضعف کے مراتب میں فرق اس طرح کا تقاضا کرتا ہے کہ ”وجود“ کا فیض اور اس کی برکات کی اقسام، عالی اور پست”مراتب“ سے بنے”نظام“ کے تحت جاری ہوکر ”وسائط“ اسباب اور علل کے مجراء سے عبور کرتے ہوئے جھان کے تمام موجودات اور اشیاء تک پھنچتی ہیں، کہ نہ خلقت کے پست اور ”دانیہ“ مراتب اس کی توانائی رکھتے ہیں کہ اس کے ”عالیہ“ مراتب کے توسط کے بغیر ”ربوبی“ اعلیٰ مقام سے کسب فیض کریں ،نہ ہی ”ربُوبی“ مقام اقدس اس کا تقاضا کرتا ہے کہ علل و اسباب کی وساطت کے بغیر خلقت کے دانی مراتب کے ذریعہ فیضیاب کرسکے۔
”(
وَاِنْ مِنْ شَيءٍ اِلَّا عِنْدَنَا خَزَائِنُهُ وَمَا نُنَزّلُهُ اِلَّا بِقَدرٍ مَعْلُومٍ
)
“
کوئی چیز نہیں ہے مگر یہ کہ اس کے خزینے ہمارے پاس ہیں اور ہم ان کو دکھاتے (نازل کرتے) نہیں ہیں مگر ایک مشخص اور معلوم مقدار میں “
شاعر کہتا ہے:
ھر کسی راگر بُدی آن چشم و زور کہ گرفتی ز آفتاب چرخ نور
کی ستارہ جاجنستی ای ذلیل کہ بود برنور خورشید او دلیل
ھیچ ماہ و اختری حاجت نبود کہ بود بر آفتاب حق شھود
ماہ می گوید بہ ابر و خاک و فی من بشر باشم ولی یُوحیٰ اِلّی
چون شما تاریک بودم از نھاد وَحْی خورشیدم چنین نوری بداد
ظلمتی دارم بہ نسبت باشموس نور دارم بھر ظلمَات نفوس
زان ضعیفم تاتوتابی آوری کہ نہ مَردِ آفتاب انوری
ترجمہ اشعار:
” اگر کسی شخص کے پاس تھوڑی بھی قوت وبصیرت ہوتو وہ سورج کے نور سے نور کسب کرسکتا ہے۔
ستاروں کو کب خواہش ہوتی ہے کہ وہ نور خورشید پر دلیل وحجت جتائیں۔
کبھی بھی چاند وستاروں کو خواہش نہیں ہوتی کہ وہ اپنے نور کے سبب سورج کی حقیقی روشنی پر شھادت کا حق جتائیں۔
بلکہ چاند تو زمین وآسمان سے یہی کہتا ہے کہ میں باوفا ایسا بشر ہوں جس کی طرف نوروحی کیا جاتا ہے۔
ورنہ فطرتاََ میں بھی تمھاری طرح ہوں تاریکی میں غرق تھا یہ تو مجھے خورشید کی وحی نے مجھے نورانی بنادیا ہے۔
لہٰذا میں سورج کی نسبت جھل وتاریکی رکھتا ہوں البتہ نفوس کی نسبت نوروروشنی رکھتا ہوں۔
اس اعتبار سے میں تیرے مقابلہ میں ضعیف ہوں اور آفتاب انوری کی طرح مرد نہیں ہوں۔“
اس نورانی جملہ پر جو اس سے پھلے بھی حضرت فاطمہ صدیقہ طاہرہ سلام اللہ علیھا سے نقل ہوچکا ہے دقت کریں:
”واَحْمِدُوا اللّٰه َ الذی لِعَظَمَتهِ و نُوره یَبْتغی مَن فی السمٰواتِ و الاَرْض الیه الْوسلیةوَنَحْنُ و سیُلتُهُ فی خلقهِ
۔۔۔۔“
”حمد وثناکریں اس خدا کی جس کا نور و عظمت تقاضا کرتا ہے کہ اہل آسمان و زمین (اس سے قربت حاصل کرنے کے لئے) وسیلہ تلاش کریں اور ہم اس کی مخلوقات میں اس کا وسیلہ ہیں“
علامہ شھید مطھری کا بیان
”اپنی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے، قارئین کرام کے اذھان عالیہ کو روشن و منور کرنے کے لئے عبادت، شرک اور مسئلہ توحید سے متعلق، استاد شھید مطھری(رہ) کی ایک دقیق اور مفید بحث بیان کرتے ہیں جس میں موصوف نے توحید و شرک کے درمیان ایک واضح فرق بیان کیاہے اور ایک دوسرے سے تشخیص کا معیار بخوبی نمایاں کر دیا ہے، کہ پھر اس راہگشا اور عمیق بحث کو بیان کرنے کے بعد، شیعوں کو بدنام کرنے کے لئے اس لقب اور عوام فریب نعرہ لگانے کی کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے،جیسا کہ کہتے ہیں:
”شیعہ رافضی اور دین سے خارج ہیں“
جو لوگ صاحب بصیرت ہیں اور عقل کی عظمت کا پاس رکھتے ہیں ہماری منطقی بحث پر کان دھریں گے اور حقیقت کو پالیں گے لیکن جو لوگ نعرہ بازی کرنے والے دھوکہ باز ہیں وہ ہمارے اس عقلی عمیق استدلالوں اور تجزیوں کے فروغ پر نور اور فروزاں شعاع میں خفاش کی طرح نور سے بھاگتے نظر آئیں گے اور ظلمت و گمراہی کے شکار بھی ہونگے اور ان کے ھاتھوں سے تہم ت زنی، گستاخی اور حملہ کا وقت بھی جاتا رھے گا۔
توحید و شرک کی حدود
توحید و شرک (خواہ نظری ہو یا عملی) اس کی دقیق حدود کیا ہیں؟ توحیدکیاہے؟ اور شرک کیا ہے؟ عمل توحیدی، کونسا عمل ہے؟ اور کونسا عمل، عمل شرک ہے؟
آیا خدا کے علاوہ کسی موجود پر عقیدہ رکھنا شرک ہے؟ (شرک ذاتی) اور توحید ذاتی کا لازمہ یہ ہے کہ ہم خدا کے علاوہ کسی بھی موجودات پر (اگر چہ اسی کی مخلوق کے عنوان سے ہی ہو) کوئی عقیدہ نہ رکھیں؟ (وحدت وجود کی ایک قسم)
روشن ہے کہ مخلوق خدا فعل خدا ہے، خدا کا فعل خود خدا کی ایک شان ہے اور اس کے مقابلہ میں کوئی اس کا ثانی نہیں ہے، خدا کی مخلوقات اس کے فیض کی تجلی ہیں، وجود مخلوق پر اس جہت سے اعتقاد رکھنا کہ وہ مخلوق ہے، توحید پر اعتقاد کا دوسرا حصہ ہے نہ کہ توحید کی ضد، لہٰذاتوحید و شرک کا معیار کسی دوسری چیز کا وجود رکھنا یا نہ رکھنا ، نہیں ہے۔
آیا تاثیر و تاثر اور سببیّت و مسببیت میں مخلوقات کے کردار پر اعتقاد رکھنا شرک ہے؟ (یعنی خالقیت و فاعلیت میں شرک) آیا توحید افعالی کا لازمہ یہ ہے کہ ہم کائنات کے سببی اور مسببی نظام کا انکار کریں؟ اور ہر اثر کو مستقیماً اور بلاواسطہ خدا سے صادر ہونا تصور کریں؟! اور اسباب کے لئے کسی اثر کے قائل نہ ہوں؟
مثلاً یہ عقیدہ رکھیں کہ آگ ،جلانے میں ، پانی ،سیراب کرنے میں ، بارش، گھاس اُگانے میں اور دوائی، مریض کو شفابخشنے میں کوئی کردار نہیں رکھتی ہے؟ یعنی بس خدا ہے جو بطور مستقیم جلاتا ہے، سیراب کرتا ہے، مستقیماً اُگاتا ہے اور مستقیماً شفا دیتاہے؟! کیا ان عوامل کا ہونا اور نا ہونابرابر ہے؟!
یھاں پرجو چیز قابل دقت ہے وہ یہ کہ خدا کی عادت ہے کہ وہ اپنے کاموں کو ان امور (اسباب) کی موجودگی میں انجام دیتا ہے مثلاً اگر ایک انسان کی عادت یہ ہو کہ:
وہ اپنے سر پر ٹوپی رکھ کر خط لکھتا ہو، خط کے لکھنے میں سر پر ٹوپی کا ہونا نہ ہونا کوئی اثر نہیں رکھتا ہے لیکن خط لکھنے والا کبھی یہ نہیں چاہتا کہ وہ ٹوپی کے بغیر خط لکھے۔
خدا کے امور بھی اسی نظریہ کے مطابق ہیں یعنی ان امور کا نہ ہونا جن کو عوامل و اسباب کھا جاتا ہے، اسی قبیل سے ہیں، (یعنی خدا نے اپنی عادت بنالی ہے کہ وہ اپنے امور کچھ افراد کے ذریعہ سے انجام دیتا ہے)۔
اور اگر اس کے علاوہ ہم قائل ہو جائیں تو گویا فاعلیت میں ہم ایک ہی کے شریک نہیں بلکہ بہت سے شرکاء کے قائل ہوگئے ہیں (جبریوں اور اشاعرہ کا نظریہ) یہ نظریہ بھی صحیح نہیں ہے۔
جیسا کہ مخلوق کے وجود پر اعتقاد، خدا کے مقابل شرک ذاتی، قطبی وجود اور دوسرے خدا پر اعتقاد کے ساتھ مساوی نہیں ہے بلکہ خدائے وحدہ لاشریک کے وجود پر اعتقاد کا مکمِّل اور متِمّم ہے، نظام کائنات میں مخلوقات کے کردار پر اور تاثیر و سببّیت پر اعتقاد رکھنا بھی (جیسا کہ موجودات ذات میں استقلال نہیں رکھتے ہیں ایسے ہی تاثیر میں بھی استقلال نہیں رکھتے ہیں: وہ موجود ہیں تو اس کے وجود سے، موثر ہیں تو اس کی تاثیر سے) خالقیت میں شرک کا باعث نہیں ہے بلکہ خدا کی خالقیت کے اعتقاد کامکمل اور متمم ہے۔
ھاں اگر مخلوقات کے لئے، تاثیر کے لحاظ سے استقلال و تفویض کے قائل ہو جائیں اور اس طرح اعتقاد رکھیں کہ جھان کی طرف خدا کی نسبت ایسے ہے کہ جیسے ایک انجینئر کی نسبت، صنعت کی طرف ہوتی ہے (مثلاً گاڑی) اپنی پیدائش میں ایک انجینئر (بنانے والے) کی محتاج ہے لیکن جب بن کر تیار ہو جائے تو وہ اپنا کام اپنے سسٹم کے مطابق جاری رکھتی ہے۔
انجینئر فقط گاڑی کے بنانے میں کردار ادا کرتا ہے نہ کہ تیار ہونے کے بعد اس کی کار کردگی میں ، اگر بنانے والا مستری مر جائے تب بھی گاڑی اپنا کام جاری رکھے گی۔
اگر ایسا عقیدہ ہو تو عوامل جھان: پانی، بارش، بجلی، حرارت، خاک، گھاس، حیوان اور انسان وغیرہ کی نسبت خدا کے ساتھ ایسی نسبت ہے کہ (جیسی گاڑی اور اس کے بنانے والے کے درمیان نسبت ہوتی ہے) جو واقعاً شرک ہے، ( جیسا کہ معتزلہ اس کے قائل ہیں)
مخلوق اپنی حدوث و بقاء میں خدائے خالق کی محتاج ہے، بقاء اور تاثیر گذار میں بھی اسی مقدار میں محتاج ہے کہ جتنا حدوث میں ہے، جھان کا عین فیض، عین تعلق، عین ارتباط، عین وابستگی، صرف اسی کی ذات سے ہے لہٰذااس لحاظ سے اشیاء کی تاثیر و سببیّت، خدا کی عین تاثیر و سببیّت ہے،
جھان کی قوتِ خلاقیت جو انسان وغیر انسان ہر ایک میں موجودھے، عین خلاقیتِ خداوندعالم اور اس کی فاعلیّت کی بسط(وسعت) ہے بلکہ یہ اعتقاد کہ اس دنیامیں اشیاء کا کردار ادا کرنا شرک کا باعث ہے خود ایک طرح کا شرک ہے۔
کیونکہ یہ اعتقاد اس نظریہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے کہ بے خبری میں موجودات کی ذات کے لئے ذاتِ حق کے مقابل ہم استقلال کے قائل ہوگئے ہیں اور اس بناء پر اگر موجودات کو ئی تاثیری نقش رکھتے ہوں تو تاثیرات کی نسبت دوسرے قطبوں سے دے دی گئی ہے، پس شرک و توحید کے درمیان حدود یہ نہیں ہیں کہ غیر خدا کے لئے سببیّت اور تاثیرات میں کسی نقش کے قائل ہوں یا قائل نہ ہوں۔
کیاتوحید و شرک کی حدود، قدرت اور مافوق الطبیعی چیزوں کی تاثیر پر اعتقاد کا نام ہے؟ یعنی ایک موجود، خواہ وہ انسان ہو مثلا ًنبی یا امام یا فرشتہ، کے لئے طبیعی طور پر مافوق قوانین کی قدرت پر اعتقاد رکھنا شرک ہے، لیکن متعارف اور معمولی حدود میں تاثیر و قدرت پر اعتقاد رکھنا شرک نہیں ہے اور ایسے ہی دنیا سے چلے گئے انسان کی تاثیر و قدرت پر اعتقاد بھی شرک ہے؟ کیونکہ مرا ہوا انسان جمادات کا حکم رکھتا ہے اور قوانین طبیعی کے اعتبار سے شعوربھی نھیںرکھتا، اور نہ ہی قدرت و ارادہ ، لہٰذامردہ کا درک کرنا، مردہ کو سلام کرنا، مردہ کی تعظیم و تکریم کرنا، مردہ کو پکارنا، مردہ سے کوئی چیز طلب کرنا اور مردہ پر فدا ہو جانا وغیرہ جیسے اعتقاد رکھنا شرک ہے، کیونکہ غیر خدا کے لئے ایک ماوراء طبیعی قدرت پر اعتقاد رکھنے کا لازمہ یہی ہے۔
ایسے ہی مرموز اور ناشناختہ چیزوں کے لئے ایک حالت کی تاثیر رکھنے پر اعتقاد کا مسئلہ مخصوصاً بیماری سے شفا پانے میں یا ایک مخصوص جگہ دعا کے قبول ہونے پر اعتقادرکھنا شرک ہے، کیونکہ ایک ماوراء الطبیعی قدرت پر اعتقاد رکھناہے، خواہ وہ کوئی بھی طبیعی چیز ہو۔
اس وجہ سے اشیاء کے لئے مطلقا تاثیرات پر اعتقاد رکھنا شرک نہیں ہے (جیسا کہ اشاعرہ قائل ہوئے ہیں) بلکہ اشیاء کے لئے مافوق الطبیعی تاثیرات پر اعتقاد رکھنا شرک ہے، لہٰذاہستی دو حصّوں میں تقسیم ہوتی ہے: طبیعت اور ماوراء طبیعت، ماوراء الطبیعت جو خدا سے مخصوص ہے اور طبیعت اس کی مخلوق سے مختص ہے یا خدا اور مخلوق دونوں کے لئے ہے۔
کچھ اس طرح کے کام ہیں جو غیر طبیعی پھلو رکھتے ہیں جیسے زندہ کرنا ، مارنا، روزی دینا وغیرہ، مذکورہ باقی امور عمومی اور عادی ہیں ، عمومی کام خدا سے مخصوص ہیں اور باقی امور اس کی مخلوقات کے دائرہ اختیار میں ہے ، یہ باتیں توحید نظری کے اعتبار سے ہیں ۔
لیکن توحید عملی کے لحاظ سے غیرخدا کی طرف ہر طرح کی معنوی توجہ یعنی ایسی توجہ کہ جو توجہ کرنے والے کے چھرے اور زبان کے ذریعہ، جس کی طرف توجہ کی جائے اس کے ظاہری کان اور چھرہ کی طرف نہ ہوبلکہ توجہ کرنے والا چاہتا ہے کہ ایک طرح کا قلبی او رمعنوی رابطہ اپنے او ر مدمقابل کے درمیان برقرار کرے ، او راس کو پکارے اور اپنی طرف متوجہ کرکے اس تک(پہونچنے کے لئے) وسیلہ تلاش کرے او راس سے مراد مانگے یہ تمام کام شرک اور غیر خدا کی پرستش ہے کیونکہ عبادت بھی اسی طرح سے ہوتی ہے ۔
اور غیر خدا کی عبادت بحکم عقل وشرع جائز نہیں ہے ،جس کا لازمہ دائرہ اسلام سے خارج ہونا ہے ، اس کے علاوہ اس طرح کے فعل انجام دینا قطع نظر اس بات سے کہ غیر خدا کی عملی عبادت ہے اور یہ ایسے افعال ہیںکہ جو مشرکین بتوں کے لئے انجام دیتے تھے اور اس بات کالازمہ یہ ہے کہ پیغمبر یا امام کے لئے غیر طبیعی طاقت کا عقیدہ رکھا جائے ، (جیسا کہ ہمارے زمانے کے وہابیوں اور وہابیت کے ٹھیکیداروں کا عقیدہ ہے)
یہ نظریہ ہمارے زمانہ میں اس حد تک پھیل گیا ہے کہ ایک طبقہ کے درمیان خاص طور پر روشن فکری کی نشانی سمجھا جاتا ہے لیکن معیار توحید کے لحاظ سے یہ نظریہ توحید ذاتی کے بارے میں نظریہ اشاعرہ کی حدتک شرک آلودھے ، او رتوحید خالقیت اور فاعلیت کے لحاظ سے بہت ہی شرک آمیز نظریات میں سے ہے۔
اس سے قبل ہم نے اشاعرہ کے نظریہ کی ردّ میں کھا تھا کہ اشاعرہ اشیاء میں سببیت او رنفی تاثیر کے قائل ہیں اس خیال سے کہ اشیاء کی تاثیر اور سببیت کا اعتقاد رکھنے کا ملازمہ خدا کے مقابلہ میں منشاء اور قطب کا اعتقاد رکھناہے ، او رہم نے پھلے بھی عرض کیا ہے کہ اشیاء قطب(محور)کی شکل میں اس وقت خدا کے مقابلہ میں آتے ہیں کہ جب وہ ذاتاً مستقل ہوں ، لہٰذا معلوم یہ ہوا کہ اشاعرہ ندانستہ طورپر اشیاء کے لئے ایک طرح سے استقلال ذاتی کا قائل ہوگئے ہیں ،جس کا ملازمہ شرک ذاتی ہے ، البتہ اس سے غافل تھے اور وہ یہ چاہتے تھے کہ اشیاء سے نفی اثر کے ذریعہ توحید خالقیت کو ثابت کریں، ان کے اس کام نے خالقیت میں شرک کی نفی کرنے کے ساتھ ساتھ شرک ذاتی کی تائید کی ہے ۔
بالکل اسی طرح کا اعتراض وہابیت پر بھی ہوتا ہے یہ لوگ بھی نادانستہ طور سے اشیاء میں استقلال ذاتی کے قائل ہوگئے ہیں ،اور اسی طرح مافوق طبیعت چیزوں کا نقش معمولی عوامل واسباب میں رکھنے کو مرکزیت ومحوریت اور ایک قدرت کا ملازمہ خدا کے مقابلہ میں اعتقاد جانا ہے اس بات سے غافل ہوگئے کہ تمام موجودات اپنی تمام ترحقیقت کے ساتھ اللہ کے ارادے سے وابستہ ہیں اور ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہے اس مافوق ِ طبیعت کی تاثیر اس کی طبیعی تاثیر کی طرح ہے ، لہٰذا اگر کوئی چیز اپنی طرف منسوب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف منسوب ہے اورکسی چیز کی حقیقت نہیں مگر یہ کہ اللہ نے اس کو فیض پہونچانے کا ایک ذریعہ بنایا ہے ۔
کیا جناب جبرئیل (ع)کا وحی وعلم پہونچانے اور میکائیل (ع)کا رزق پہونچانے، یا اسرافیل (ع) کا مردوں کو زندہ کرنے میں ، یا ملک الموت کا روح کو قبض کرنے میں واسطہ ہونا شرک ہے ؟!
خالقیت میں توحید کے نظریات میں سے یہ نظریہ سب سے بدترین شرک کی قسموں میں سے ہے کیونکہ اس نظریہ میں خالق ومخلوق کے درمیان کام تقسیم ہونے کے قائل ہوئے ہیں :
غیر طبیعی کاموں کو خدا سے مخصوص کرنا اور طبیعی کاموں کو انسانوں سے مخصوص کرنا یا خدا اور مخلوق کے درمیان اشتراک کا قائل ہونا، مخلوق کے لئے کچھ کاموں کا مخصوص کرنا ، فاعلیت میں عین شرک ہے نیز اشتراکیت کا قائل ہونا بھی فاعلیت میں ایک دوسرا شرک ہے ۔
رائج تصور کے برعکس ، وہابیت کا نظریہ صرف امامت کی مخالفت میں نہیں ہے بلکہ قبل اس سے کہ امامت کے مخالف ہو توحید او رانسانیت کے خلاف ہے ، توحید کے مخالف اس وجہ سے ہے کیونکہ خالق اور مخلوق کے درمیان تقسیم امور کے قائل ہیں اور اس کی وجہ سے ایک طرح کا ”شرک ذاتی خفی “کے قائل ہیں جس کی وضاحت ہم پھلے کر چکے ہیں ، اور انسانیت کے مخالف اس وجہ سے ہے کہ اس انسان کو کہ جو اشرف المخلوقات ہے اور قرآنی روسے خلیفة اللہ ہے اور مسجود ملائکہ ہے ، اس انسان کی قابلیت اور استعداد کو نہیں سمجھاگیا او راس کو ایک جانور کی حد تک گرادیا،اس کے علاوہ مردہ اور زندہ میں اس طرح کے فرق کے قائل ہوئے کہ مردے عالم (آخرت) میں بھی زندہ نہیں ہیں اور یہ کہ انسان کی تمام شخصیت اس کا بدن ہے جو ایک جماد کی شکل میں ہے ، لہٰذا یہ ایک مادی اورضد الٰھی نظریہ ہے ۔
اور اسی طرح مجھول او رناشناختہ چیزوں اور معلوم اور شناختہ شدہ چیزوں کے درمیان اس طرح جدائی کی ہے اور پھلے کو دوسرے کے برعکس غیر طبیعی جاننا بھی ایک طرح کا شرک ہے ۔
ہم یھاںپر حضرت رسول اکرم(ص) کے ارشاد کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: افکار وعقائد میں شرک اس طرح مخفی طریقہ سے داخل ہوتا ہے کہ جس طرح ایک کالی چیونٹی اندھیری رات میں سخت پتھر پر اہستہ اہستہ چلے۔
حقیقت تو یہ ہے کہ توحید اور شرک کی حد خدا اورانسان کے درمیان ”من اللّٰہ “ ”الی اللہ“ ہے ۔
”توحیدنظری“ میں شرک اور توحید کی سرحد” من اللہ“(اِنّا لِلّٰہ) ہے یعنی خدا کی جانب سے ہے(إنَّا لِلّٰہِ)ھر حقیقت اور ہر موجود جب تک کہ ذات و صفات و افعال کو اس کی خصلت و ہویت کے ساتھ ”اس (اللہ) سے“ پہچانیں تواس کو صحیح اور حقیقت کے مطابق اور نگاہ توحید کے مساوی پہچاننا ہے، چاہے وہ چیز ایک اثر یا چند اثر رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو یا یہ کہ وہ اثر جنبہ ماوراء طبیعت رکھتی ہو یا نہ رکھتی ہو،چونکہ خدا صرف ماوراء طبیعت ، آسمان و ملکوت و جبروت کا خدا نہیں ہے بلکہ سارے جھان کا خدا ہے، وہ طبیعت سے اتنا ہی قریب ہو نے کے ساتھ قیومیت بھی رکھتا ہے جتنا ماوراء طبیعت سے نزدیک ہے ، اور ایک موجود کے لئے جہت ماوراء طبیعت رکھنے سے اس کو خدائی کا پھلو نہیں ملتا ہے۔
یہ بات ہم پھلے بھی عرض کرچکے ہیں کہ جھان بینی اسلامی نقطہ نظر سے دنیا کی ماہیت ”اس (اللہ) سے“ھے، جیسا کہ قرآن کریم نے متعدد معجزات کو، مثلاً مردہ کو زندہ کرنے یا مادر زاد اندھے کو شفا دینے کی نسبت بعض، پیغمبروں کی طرف دی ہے، لیکن اس نسبت کے ساتھ ساتھ قرآن کریم نے کلمہ ”بِاِذنِہِ“ کو اضافہ کیا ہے یہ کلمہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ماہیت ”اس (اللہ) سے“ ہے، لیکن یھاں کوئی یہ خیال نہ کرے کہ انبیاء مستقلاً اس کام کو انجام دیتے ہیں۔
لہٰذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید نظری و شرک نظری کی حدیں ”اس (اللہ) سے“ ہے اور کسی موجود کے وجود پر اعتقاد رکھنا کہ اس کی موجودیت ”اس سے“ یعنی خدا سے نہیں ہے شرک ہے،یا یہ اعتقاد رکھنا کہ کسی موجود میں تاثیرو موثریت ”اس (اللہ) سے“ نہیں ہے یہ بھی شرک ہے چاہے اثر، اثر مافوق طبیعت ہو مثلاً آسمان و زمین کی خلقت یا ایک ھلکا سا اثر مثلاً پتوں کا ھلنا۔
توحید عملی میں شرک و توحید کی حد ”اس (اللہ) سے“ ہے ”إنَّا للہِ وَاِنَّا اِلَیہِ رَاجِعُونَ“ ہر موجود کی طرف توجہ، ظاہری و معنوی توجہ سے بڑھ کر، جب کبھی بھی اصل توجہ ایک راہ کی طرف ہو ،وہ راہ جو حق کی طرف ہو اس مقصد کی طرف، تو وہ توجہ اللہ کی طرف ہے،ھر حرکت و مسیر میں راستے کی طرف توجہ کرنا اس حیثیت کا راستہ ہے اور علائم و چراغ راستہ نہ کھونے یا مقصد سے دور نہ ہٹنے کے لئے ہوتے ہےں، کی طرف توجہ کرنا اس لحاظ سے کہ یہ سب علامت اور نشانیاں ہیں مقصد کی طرف راستہ چلنے کے لئے ، اسی طرح انبیاء اور اولیاء خدا بھی راستہ کی طرح ہیں: ”اَنتُمُ السَّبِیلُ الاَعظَمُ وَ الصِّرَاطُ الاَقوَمُ“ آپ ہی سبیل اعظم اور صراط اقوم ہیں، وہ لوگ اللہ کی طرف سیر کرنے کی علامت اور نشانیاں ہیں: ”و اعلاماً لعبادہ و مناراً فی بلادہ و ادلائاً علی صراطہ“حق کی طرف ہدایت کرنے والے اور راستہ دکھانے والے ہیں،”اَلدُّعَاةُ اِلَی اللّٰہِ وَ الاَدِلَّاءُ عَلَی مَرضَاةِ اللّٰہِ“
لہٰذا بات یہ نہیں ہے کہ توسل و زیارت یا اولیا ء خدا سے امداد طلب کرنا اور مافوق طبیعت کام انجام دینے کا انتظار کرنا شرک ہے، بلکہ بات کچھ اور ہی ہے۔
اول :۔ہم کو یہ جاننا ضروری ہے کہ انبیاء اور اولیاء خدا نے قرب الھی میں اتنی بلندی حاصل کی کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایسے مقامات عطا کئے گئے ہیں یا نھیں؟
آیات قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بعض بندوں کو ایسا مقام و مرتبہ عطا کیا ہے ۔
دوم :۔وہ لوگ جو توسل کرتے ہیں یا اولیاء خدا کی زیارت کو جاتے ہیں ان سے حاجت طلب کرتے ہیں، توحیدی نظریہ کے مطابق ان کو توحید کے صحیح معنی معلوم ہیں یا نہیں ؟
کیا واقعاً اس نظریہ کے تحت زیارت کرنے والے لوگ خشنودی خدا کے لئے زیارت کرتے ہیں یا اللہ کو بھول کر خود جس کی زیارت کو جاتے ہیں اسی کو مقصد قرار دیتے ہیں؟
بغیرکسی شک کے اکثر لوگ اسی نیت سے زیارت کرتے ہیں اور ممکن ہے کچھ لوگ اقلیت میں ایسے بھی ہوں جو ایسا قصد نہ رکھتے ہوں اور توحید کو صحیح درک کرنے سے قاصر ہوں، اگر چہ خواہشات ہی کی حد میں کیوں نہ ہوں ضروری ہے کہ ہم انہیں توحید کے معنی سمجھائیں نہ یہ کہ زیارت کو شرک قرار دیں۔
سوم :۔ وہ افعال و اقوال جو تسبیح و تکبیر و تحمید اور علی الاطلاق ذات کامل یعنی خدا، اور علی الاطلاق بے نیازی پر دلالت کرتے ہیں غیر خدا کے لئے ان کااستعمال شرک ہے ، سبوح ٌیعنی وہ مطلقاً طور پر منزہ ہے ، اور اس کی ذات ہر نقص سے پاک و پاکیز ہ ہے، بزرگ تنھا اس کی ذات ہے تمام تعریفوں کا منبع و مرکز تنھا خدائے بزرگ و برتر ہے، تمام ”حول و قوة“ اسی کی ذات اور صفات سے قائم ہے!اوراگر اسی طرح کی توصیف و تعریف کوئی شخص غیر خدا کے لئے کرنا چاہے زبان کے ذریعے ہو یا عمل کے ذریعے ، شرک ہے۔
عالم کائنات میں وہابیوں کا نفی واسطہ کا عقیدہ
اسلامی عظیم الشان فلسفی اور مفکر حضرات نے اپنے صحائف اور تالیفات میں ، عالم ھستی میں ضرورتِ وجود ”رابطہ“ و ”واسطہ“ پر بحث کی ہے اور طالبان حکمت و عرفان کے لئے خصوصاً مفید، راہ گشا اوربہت عمدہ مطالب ذکر کئے ہیں۔
فلسفی حضرات نے اپنی جگہ پریہ بات ثابت کی ہے کہ دو چیز جن کے درمیان بلندی و پستی میں نھایت بُعدا ورمباینت ،پا ئی جاتی ہو،ان کے لئے ایک دوسرے سے ارتباط کے لئے واسطہ درکار ہے تاکہ عالی سے سافل تک پیغام رسانی میں واسطہ بن سکے ،اگر ایسا نہ ہو تو کسی بھی حالت میں دو موجود کے درمیان کہ جو مبائن و مغایر ہیں اور ایک دوسرے سے نھایت بُعد رکھتے ہیں کبھی بھی ان میں رابطہ برقرار نہیں ہوسکتا۔
اسی طرح سے صدر متاَلھین اور دیگر فلاسفہ و محققین اور دوراندیش اسلامی حکماء نے حکمت کی عمیق اور فلسفی بحثوں میں اس بات کو منزل ثبوت تک پہونچا دیا ہے کہ خداوند متعال نھایت ”تجرد“ بلکہ” مافوق تجرد“ ہے اور کسی طرح کا نقص اور محدودیت نہیں رکھتا بلکہ اس کی ھستی نا محدودا ور لامتناہی ہے ”کل الکمال“ اور ”کلہ الکمال“ ہے ، اور اگر قاعدہ ”بسیط الحقیقة“ کے لحاظ سے دیکھا جائے ، جس کا یھاں ذکر کرنا یا عام لوگوں کا اس کو سمجھنا مشکل ہے بس اس قاعدے کے ذیل میں اتنا سمجھ لیں کہ خداوند عالم سارے کمالات کو خالص اور نامحدودطور پر رکھتا ہے، اور ائمہ معصومین(ع) کے بقول کہ وہ ایک شئی ہے ”لَا کَالاَشیَاءِ
“ لیکن اشیا ء کی طرح نھیں، بلکہ وہ ایسی شئی ہے کہ ”بِحَقِیقَةِ الشَّیئِیَّةِ
“ یعنی وہ وہی ”حقیقة الوجود“ اور ”حقیقة الحقائق“ ہے کہ عرفان کی زبان میں ”نور الانوار“ و ”ظاہر مطلق“ اور ”غیب ہویت“ و ” ذات احدیت “ و ”عنقاء مغرب“ کھا جاتا ہے۔
دوسری طرف جبکہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ اس کائنات کی تمام موجودات ،مادی ہیں جوتمام کی تمام بے انتھا، وسیع و نامحدودفیض( حق تعالی) کی طرف سے فیضیاب ہوتے رہتے ہےں، مادی و جسمانی چیزیں زمان ومکان میں مقید ہوتی ہیں نیز ”بُعد“ میں اسیر رہتی ہیں اور ان کا وجود محدود ہوتا ہے اور ہمیشہ بدلتی رہتی ہیں اور اپنی شکل تبدیل کرتی رہتی ہیں اور ان کی ”حیثیت وقتی“ او رانکی شکل ”متحرک“ھوتی ہیں۔
اوریہ بھی روشن اور واضح ہے کہ خداوند عالم صرف تمام مخلوقات کا خالق ہی نہیں ہے :”(
اَللّٰهُ خَالِقُ کُلِّ شَيءٍ
)
“ بلکہ ان کا ھادی اور مربی بھی ہے۔
”(
رَبُّنَا الَّذِی اَعطَیٰ کُلشَيءٍ خَلقَهُ ثُمَّ هدیٰ“
)
وہ ”(
رَبُّ الْعَالِمِیْن
)
“ ہے اور تمام موجودات کی پرورش کرنے والا ہے۔
سبھی اس کے کرم و نعمت کے دسترخوان پر بیٹھے ہوئے ہیں کوئی شخص اپنے پاس سے کچھ نہیں رکھتا ہے جو کچھ ہے سب اسی کا دیا ہواہے سب اسی کے محتاج ہیں اور وہ خود ہر ایک سے بے نیاز ہے:
”(
یَا اَیُّهَا النَّاسُ اَنتُمُ الفُقَرَاءُ اِلَی اللّٰهِ وَ اللّٰهُ هُوَ الغَنِیُ الحَمِیدُ
)
“
لہٰذا اب ہم کہتے ہیں:کہ اگر واسطہ درکار نہ ہو، تو غنی محض بلکہ ”غنای محض“کا ”فقر محض“اور وہ بھی نامحدود سے کیا تقابل ، ان میں کیا سنخیت ہے، اور کس طرح ”غناء محض“ ”فقر محض“کا ہم نشین و ہم پلہ ہوسکتا ہے سنخیت علتِ انضمام ہے ”اَلسِّنخِیَّةُ عِلَّةُ الاِنضِمَامِ“ لیکن کس طرح ہمنشینی اور دو موجود کے درمیان ارتباط جو کاملاً متفاوت و متباین ہیں توجیہ پذیر ہوسکتا ہے مگر یہ کھا جائے کہ یہ موجودات خاکی مادی و محدود کہ جو ”غواسق“ یعنی اندھیرے و تاریکی میں ہیں ، عقول کلیہ ”وسائط فیض“ و ”وسائل“ کے توسط سے قریب او رقربت رکھتے ہیں، اور حکماء کی اصطلاح میں ”جالس بین الحدین“ یعنی دو حدوں کے درمیان قرار پانے والے ، کھلاتے ہیں حضرت ”نور الانوار“ سے ،ھر حالت میں ، فیوضات کسب کرتے رہتے ہیں ،اور ہر ایک اپنی لیاقت و ظرفیت کے مطابق منزل کمال تک پہونچتے ہیں کہ وہ وہی انبیاء و اولیاء معصومین(ع) ہیں جو اپنے جنبہ روحانیت کے ذریعے خدا وندکریم سے فیوضات کسب کرتے ہیں اور اس طرف مخلوقات سے پیکر انسانی میں مناسبت رکھتے ہیں اور فیضیاب کرتے ہیں۔
وجود نبی و پیامبر کی ضرورت کے سلسلے میں اسلامی فلسفی حضرات کے جومدلل و واضح ترین بیانات ہیں ،وہی دلیلیں بعینہ وجود امام و خلیفہ پیامبر(ص) پر جاری ہوںگی ۔
اگر چہ یہ بحث مفصل مقدمات اور فلسفہ کے دشوار و مشکل مراحل میں سے ہے اور ہم یھاں پر فلسفے کی دشوار و سنگین وادیوں میں جانا مناسب نہیں سمجھتے لیکن اس نکتہ کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ نہ تو محمدا بن عبد الوہاب اور نہ ہی اس کے ہمفکر رھنماؤں ، مثال کے طور پر ابن تیمیہ و ابن
قیم،جیسے افراد فلسفے اور حکمت کے مطالب سے ناآشنائی کی بنا پر اور مسٹر ہمفرے کے توسط سے برطانیہ کی تحریک آمیز جاسوسی و وزارت استعمار برطانیہ کی طرف سے محمد ابن عبد الوہاب کو دین سازی کے دیئے گئے احکامات ، ان سب کے علاوہ علوم عقلیہ سے دوری و اسلامی فلسفے و حکمت سے عدم واقفیت اور ظاہر پرستی و جمود و عدم تفکر کا نتیجہ ہے، یہ بات اصلاحگروں اور نئی فکررکھنے والے اندیشمندوں کی اصطلاح میں جو حفظ شرع و دین کا دفاع اور دلسوزی و جانبازی !کا نعرہ لگاتے ہیں، یہ لوگ اللہ کی قدرت وعظمت و علم و احاطہ و حیات و تمام اسماء و صفات کو مخلوقات سے جدا و الگ مانتے ہیں اس طرح کہ عنوان ”وساطت“ کو وسائط سے اور عنوان ”مرآتیت“ (آئینہ)کے قائل ہیں جن میں خدا وندعالم کی ذات کے مظھر ہیں اس وجہ سے اصولاً عالم امکان میں معنی ظھور وتجلی کے قائل نہیں ہےں۔
اسی وجہ سے یہ لوگ ایک خطرے اور اشکال میں قرار پاتے ہیں کہ اگر روز قیامت تک یہ لوگ فکر کریں تب بھی اس سے نجات اور چھٹکارہ نہیں مل سکتا، اور یہ اعتراض کہ: ہم اس کائنات میں بہت ساری ایسی مخلوقات کو وجداناً اور شھوداً دیکھتے ہیں کہ سب کی سب زندگی و علم و قدرت رکھتی ہیں ، اوریہ ایک ایسا مسئلہ ہے کہ جو قابل انکار بھی نہیں ہے اور موجودات مو ثر کا ہم انکاربھی نہیں کرسکتے۔
لہٰذا ہم کہتے ہیں: کہ اگر ذات ازلی حق، میں حیات و علم و قدرت کو دیگر موجودات کے علاوہ جانیں تو یہ بات وجداناً و شھوداً غلط اور باطل ہے چونکہ موجودات میں ان صفات کا وجود ضروریات و یقینیات میں سے ہے اور اگر موجودات کو قدرت مستقل و حیات و علم مستقل والا مانیں، اگرچہ اللہ تعالی کی طرف ہو، پھر بھی یہ غلط ہے کیونکہ یہ کلام عین شرک و ثنویت ہے اور اس پر تعدد خدا و دیگر بے شماراشکالات پیدا ہوتے ہیں۔
عنوان ”اعطاء“ عنوان ”استقلال“ کے ساتھ سازگاری نہیں رکھتا ، چونکہ اس گفتگو کا لازمہ یہ ہوگا کہ، موجودات کی خلقت حق تعالی کے سبب ہے، اور یہ کلام اگر دیکھا جائے تو عین تفویض ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ خداوند عالم”لَم یَلِد وَ لَم یُولَد وَ لَم یَکُن لَّہُ کُفُواً اَحَدٌ“ ہے نہ اس نے کسی کو جنم دیا اور نہ اسکو کسی نے پیداکیا اور نہ ہی اس کا کوئی کفو ہے۔
اب یھاں پر کوئی علمی و فلسفی راستہ نہیں ہے مگر یہ کہ اس کائنات کی موجودات کو ذات اقدس باری تعالی کے لئے مظاہر و متجلی تسلیم کریں اس طرح کہ قدرت و علم و حیات خداوندعالم سے مخصوص ہے اور یہ موجودات عالم میں ان کی ماہیت و ہویت کے اعتبار سے قدرت و علم و حیات نے اظھار کیا ہے۔
یعنی استقلال خداوندعالم میں منحصر ہے حیات و علم و قدرت وسارے اسما ء و صفات میں استقلال، ذات حق تعالی سے مختص ہے اور خدا کے علاوہ دیگر چیزوں میں عرضی طور پر ہے یہ تمام چیزیں ذات حق تعالی میں اصالت رکھتی ہیں اور دیگر موجودات میں آئینہ و نشانی کے طور پر پائی جاتی ہیں۔
اور اب اسی قاعدہ کی بنا پر ارواح مجرداور مقرب فرشتوں کے نفوس قدسیہ و انبیاء (ع) کے نفوس ناطقہ اور اسی طرح ائمہ اطھار علیہم السلام کے نفوس ناطقہ، حضرت مھدی قائم آل محمد(ع) عج اللہ تعالی فرجہ الشریف میں مزید پایا جاتا ہے بلکہ عادتاً ان میں زیادہ ہی ظھور و بروز پایا جاتا ہے اور یہ آئینے ذات حق تعالی کی کچھ زیادہ ہی عکاسی کرتے ہیں۔
لہٰذا اس اصل و قاعدہ کی بنا پر حیات و علم و قدرت خداوندعالم سے مخصوص ہےں، ان کا ظھور و بروز ان آئینوں میں گواہ اور ایک ناقابل انکار حقیقت اور عقلی طور پر یہ بات ثابت ہے۔
ظھور و ظاہر، اورحضور و حاضر ایک ہی چیز ہے معنی حرفی معنی اسمی میں سما یا ہوا ہے، تمام موجودات بغیر کسی استثناء کے، سب کے سب اللہ کی نشانیاں ہیں اور ان کی نسبت اللہ تعالی کی طرف معانی حرفیہ کی نسبت ہے اور معنی حرفی کے لئے استقلال کا تصور نا معقول ہے اور قیاس برہانی میں خلف کا سبب ہے۔
معنی حرفی و معنی اسمی الگ الگ دو چیز یںنھیں ہیں ”معنی حرفی“، ”معنی اسمی“ کی کیفیت و خصوصیت پر دلالت کرتاہے، پیغمبر اکرم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) سے حاجت طلب کرنا عین خداوند منان سے حاجت طلب کرنا ہے اور عین توحید ہے۔
فلسفہ متعالیہ و حکمت اسلام میں ، کثرت میں وحدت کا وجود، اور وحدت ذات حق میں کثرت کا وجود ثابت شدہ چیزھے، جس طرح خداوند تبارک و تعالیٰ کانام ”احدیت“ ہے جو تمام اسماء و تعینات اور ہر اسم و رسم سے منزہ و پاک ہے اور وہ احدیت ہے جسکی ذات بسیط و صرف ہے، جو کہ ہر طرح کے تعلقات اور مفھوم کے انطباق سے عاری ہونے پر دلالت کرتی ہے، اسی طرح خداوند تبارک و تعالی کا نام ” واحدیت“ بھی ہے کہ اس کے ظھور و طلوع ہونے کے لحاظ سے، عالم میں اسما اور صفات کلیہ و جزئیہ ، اور ساری کائنات ملک سے لیکر ملکوت تک کی خلقت کا ملاحظہ کیا گیا ہے۔
وہابی حضرات کہتے ہیں: خداوند عالم نے کائنات کو بغیر کسی واسطے کے پیدا کیا ہے اور عِلَّوی موجودات، آسمانی فرشتے، ارواح مجردہ قدسیہ، خلقت عالم میں کوئی تاثیر نہیں رکھتے، اور ان میں کسی طرح کا واسطہ نہیں پایا جاتا ، اس بنا پر رسول اللہ(ص) یا ائمہ معصومین(ع) کی روح سے مدد طلب کرنا، ملائکہ بلکہ خدا کے مقرب ملائکہ سے بھی مدد طلب کرنا شرک ہے۔
وہابیوں کے اس اعتراض کاہم جواب دیتے ہیںکہ: کیا روحوں سے زندہ ہونے کی صورت میں مثلاً زندہ پیغمبر یا امام سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے؟ ! کیا عالم و طبیب (ڈاکٹر) یا ماہر (اسپیشلسٹ) ڈاکٹر یا کاشتکار و صنعتکار سے مدد طلب کرنا شرک نہیں ہے؟!
اگر شرک ہے تو پھر کیوں مدد لیتے ہو؟ اس عالم کائنات میں ہر طرح کی مدد لینے سے ھاتھ کھینچ لو، تو پھر چند دنوں کے بعد سب کے سب مرجاوگے اور دیا رعدم ا ور وطن اصلی کو لوٹ جاو۔
اور اگر شرک نہیں ہے تو پھر کیا فرق ہے زندہ پیغمبر(ص) اور اس دنیا سے چلے جانے کے بعد اس کی روح سے مدد لینے میں ،اور ایک طبیب و ڈاکٹرسے ، مثلاً ”اپنڈکس “( Appendix )کے آپریشن میں مدد لینے یا مثلاً جبرئیل سے مدد لینے میں کیا فرق ہے؟!
تو کھیں گے کہ وہ شرک نہیں ہے اور یہ شرک ہے! چونکہ ان کی روحیں دیکھی نہیں جاتیں اور پیکر جسمانی میں نہیں آتی اور خلاصہ یہ کہ اسباب طبیعی و مادی سے مدد لینا شرک نہیں ہے لیکن معنوی و روحانی اشیاء سے مدد لینا شرک ہے، کثیف اشیا سے مدد لینا شرک نہیں ہے اور نفوس عالیہ مجردہ قدسیہ سے مدد لینا شرک ہے؟!
ہم جواب میں کھیں گے: قاعدہ عقلیہ استثناء کو قبول نہیں کرتا ، اگر غیر خدا سے مدد لینا شرک ہے تو پھر ہر جگہ شرک ہے اور ہر جگہ غلط ہے، لہٰذا آپ کیسے دلیل عقلی کے ذریعہ توحید خدا کو ثابت کرتے ہیں جبکہ مادی و طبیعی امور میں استثنا کے قائل ہیں؟! کیا یہ بات مضحکہ خیز نہیں ہے؟ ! یا خداوند متعال کے بارے میں علم و عرفان سے تھی دستی پر رونے کے قابل نھیں؟
وہابی کہتے ہیں: قبر معصوم کے اردگرد طواف کرنا شرک ہے ،ضریح مطھر، عتبات عالیہ کو بوسہ دینا شرک ہے، سید الشھداء کی مٹی پر سجدہ کرنا شرک ہے، قضاء حوائج کے لئے ائمہ اطھار (ع)و صدیقہ طاہرہ کو واسطہ قرار دینا شرک ہے۔
ہمارا جواب یہ ہے کہ: کیوں شرک ہے ؟ کیا فرق ہے حجر اسود اور ضریح کو بوسہ دینے میں ؟ کیا فرق ہے اس گھر میں جس کو حضرت ابراہیم(ع) نے بنایا اور اس مرقد مطھر میں جو آیت کبریٰ الہٰی اور صاحب مقام اَو اَدنیٰ و صاحب شفاعت کبریٰ اورحامل لواء حمد ہے، خانہ کعبہ کا طواف کیوں جائز ہے؟ اور یھاں قبر مطھر کا طواف جو کہ اہم یت کا حامل ہے جائز نھیں؟
”شرح قاموس اللغہ مادہ طَوف “میں ہے کہ طوف یعنی پاخانہ کرنا ، طاف َ یعنی اس نے پاخانہ کیا، ”مجمع البحرین“ میں اس طرح ہے کہ ”والطَوف : الغائط یعنی طوف کے معنی پاخانہ کرنے کے ہیں جیسا کہ روایت میں بھی وارد ہواہے :
”لَا یُصَلِّ اَحَدُکُمْ وَهَوَ یُدْافِعُ الطَّوْفَ
“ یعنی جس کو پاخانہ تیز لگاہوا ہو نماز نہ پڑھیں،یعنی (اس حالت میں نماز پڑھنا مکروہ ہے ) او ردوسری حدیث میں اس طرح وارد ہوا ہے : ”لَاتَبُلْ فِی مَاءٍ مُسْتَنْقَعَ وَلَاتَطُفْ بِقَبْرٍ
‘ ‘ جمع شدہ پانی میں پیشاب نہ کرو اور قبروں پر پاخانہ نہ کرو،اگر آپ حضرات دقت سے کام لیں تو واضح ہوجائے گاکہ اس روایت سے مراد پاخانہ کرنا ہے ، لہٰذا قبروں کا طواف کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ۔
کیوں زمین و خاک اور ہر چیز پر سجدہ کرنا جائز ہے؟ لیکن مخصوصاًسید الشھدا ء امام حسین (ع) جوحق و شریعت کے لئے شھید ہوگئے ان کی قبر کی مٹی پر سجدہ جائز نھیں؟! اگرکسی چیز پر سجدہ کرنا شرک ہے تو کیوں فرش و قالین ، چٹائی ، زمین پر جائز ہے، لیکن یھاں حرام ہے؟ عجیب بات ہے وہاں توحید ہے اور یھاں شرک ہوگیا؟
اگر کسی زندہ شخص سے مدد طلب کرتے ہیں تو اس کی روح سے کرتے ہیں کیونکہ روح اصل ہے ، اس کے بدن سے مدد طلب نھیںکرتے ! اس صورت میں نفوس خبیثہ ، کافرہ جو کہ اس دنیا میں ہیں ان سے مدد لینا شرک نھیں؟ اور صدیقہ طاہرہ کی روح پاک سے مدد لینا شرک ہے؟ (واہ سبحان اللہ)
یہ ایسے سوالات ہیں جن کا وہابیوں نے کبھی جواب نہیں دیا اور نہ دے سکتے ہیں، ہاں مگر اس کا جواب دیا جاسکتا ہے: اگر مدد لینا بعنوان استقلال ہو تو شرک ہے، چاہے وہ خانہ کعبہ کا طواف ہو،یا حجر اسود کا بوسہ لینا ، فرش و معمولی زمین پر سجدہ کرنا ہو، طبیب و ڈاکٹرکو واسطہ قرار دینا ہو، سب کا سب شرک ہے لیکن اگر بعنوان استقلال نہ ہو تو کوئی چیز شرک نہیں ہے بلکہ نفس توحید و عین توحید ہے، کیا اس کائنات کی موجودات کو استقلال کی رو سے دیکھنا شرک نہیں ہے؟ لہٰذاوہابی حضرات خداوند متعال کی اتنی تنزیہ و تقدیس کرتے ہیں کہ خود اندھے ہوکر شرک کے دامن میں پھنس جاتے ہیں، ”وَ مِمَّن یَعبُدُ اللّٰهَ عَلَی حَرفٍ
“ یعنی خدا کو فقط ایک زاویہ سے دیکھتے اور فکر کرتے ہیں، اور اس کی قدرت و عظمت کو فقط بعض چیزوں میں جانتے ہیں نہ یہ کہ ہر چیز اور ہر جگہ میں ۔
قرآن مجید میں بعنوان آیت وخدا کی نشانی عین توحیدھے ،بلحاظ امامت امام کو بوسہ دینا چومنا،عین خدا کا احترام ہے، ارواح مقدسہ سے حاجت طلب کرنا جومعنویت و روحانیت اور مقرب بارگاہ خداوندعالم ہیں، کے عنوان سے عین توحید ہے خدا کے محبوب بندوں سے محبت کرنا، خدا سے محبت کرنا ہے، یہ تھی عقلی دلیل۔
اور دلیل نقلی(قرآن وسنت) کے لحاظ سے ہم کہتے ہیں : کہ اس سلسلہ میں آیات و روایات بھری پڑی ہیں کہ بہت سی موجودات، وجود و ایجاد میں وسیلہ ہیں اور خلقت اسباب کے ذریعہ وقوع پذیر ہوتی ہے اوراگرکوئی عالم تکوینی میں واسطہ کا انکارکرے گویا اس نے کتاب و سنت کا انکارکیا ہے،کیا ہم قرآن کریم میں نہیں پڑھتے: ”وَ المُدَبِّرَاتُ اَمْراً“
”قسم ان فرشتوں کی جو تدبیر امور کرتے ہیں“
”واَرْسَلنَا الرِّیَاحَ لَوَاقِح
“
” اور ہم نے ہواوں کو بھیجا تا کہ درختوں کو پھل کے لئے آمادہ کرے“
(ھوا کے ذریعہ نر درختوں سے مادہ درختوں میں ایک مادہ منتقل ہوتا ہے اس کو عربی میں تلقیح کہتے ہیں، درخت مادہ اس کے بعد پھل دیتا ہے)
”(
وَاللّٰهُ الَّذِی ارْسَلَ الرِّیَاحَ فَتُثِیرَ سَحَاباً فَسُقْنَاهُ اِلیٰ بَلَدٍ مَیِّتٍ فَاحْیَینَا بِهِ الارضَ بَعْدَ مَوْتِهَا کَذَلِکَ النُّشُوْرُ
)
“
اور خدا وہ ہے جس نے ہوا کو بھیجا تا کہ بادلوں کو حرکت دیں اس طرح ہم ان بادلوں کو مردہ زمین (بے آب و علف) کی طرف لے جاتے ہیں تا کہ ان بادلوں کے ذریعہ مردہ زمین کو زندہ کریں، اسی طرح مردہ لوگوں کا نشور بھی ہے۔
”(
وَ هُوَ الَّذِی انزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاخرَجنَا بِهِ نَبَاتَ کُلِّ شَئیٍ
)
“
اور وہ (وہ)ھے جو پانی کو آسمان سے نیچے لاتا ہے تاکہ ہم اس کے وسیلہ سے، ہر اُگنے والی چیز کو آگائیں۔
ان آیات میں کیسے فرشتوں کے ذریعے تدبیر امور کو مانتے ہیں اور بارش کو مختلف جگھوں پر بادلوں کی حرکت کے سبب، اور درختوں کا ہوا کے توسط سے پھلدار ہونا، اور ہر اُگنے والی چیز کا اُگنا آسمان سے بارش ہونے کے ذریعہ مانتے ہیں۔
اس کے علاوہ دیگر آیات بھی ہیں جن میں واضح طور پر تکوینی اسباب کا تذکرہ موجودھے اس بنا پر ہم کیسے سببیت کا انکار کرسکتے ہیں؟ جبکہ یہ آیات صریحاً اس بات کو ثابت کرتی ہیں،لہٰذا عالم کائنات میں سببیت کا انکار عقلاً و نقلاً محال ہے، عالم کائنات میں سببیت و مسببیت پائی جاتی ہے اور ہر چیز اپنے خاص سبب کے ذریعہ وجود میں آتی ہے، سبب و علت ا ور واسطہ کی نفی کرنا، قانون علیت و عالم میں قانون علیت کے انکار کے مساوی ہے یعنی بدیھیات کا انکار ، اور بدیھیات کا انکار مریض ، پاگل ، دیوانہ او رمجنون کے علاوہ کوئی نہیں کرسکتا۔!
ھاں یہ کھنا چاہیئے: تمام کے تمام اسباب خدا کے مقھور و مامور ہیں ان میں ذرہ برابر بھی استقلال نہیں پایا جاتاہے بلکہ خداوند متعال کے کار ندہ ہیں”(
لِلّٰهِ جُنُودُ السَّمٰاوٰاتِ وَالارضِ
)
“ ہم بھی ان اسباب کے بارے میں یہی کہتے ہیں: کہ استقلال نہیں رکھتے بلکہ خدا کی جانب سے فیض لیکر کائنات کو فیضیاب کرتے ہیںان میں ھرایک شفیع و شافع و واسطہ کے عنوان سے ہیں۔
وہ کہتے ہیں: انبیا و ائمہ کی ارواح سے مدد طلب کرنا ،مردہ روحوںسے مدد طلب کرنا ہے، اور یہ ایک طرح سے مردہ گرائی ہے اور بت پرستی ہے کہ انسان مردوں سے، حاجت طلب کرے اور اس کو خدا کے نزدیک شفیع قرار دے، کیا فرق ہے بتوں سے حاجت طلب کرنے میں یا بے جان موجود سے حاجت طلب کرنے میں ؟
ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں: آیات قرآن اور عقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت ہے کہ انسان کی روح اس کے مرنے سے نھیںمرتی، بلکہ زندہ رہتی ہے اور چونکہ ”تجرد نفس“ معدوم محض نہیں ہوسکتا، اور موت کا معنی ہے دنیا سے آخرت کی طرف منتقل ہوجانا، اور اس کے علاوہ کیا قرآن شھدا کے بارے میں یہ ارشاد نہیں فرماتا: وہ لوگ زندہ ہیں اور خدا کے نزدیک رزق پاتے ہیں۔؟
”(
وَ لَاتَحْسَبَنَّ الَّذِینَ قُتِلُوا فِی سَبِیْلِ اللّٰهِ اموَاتاً بَلْ احْیَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ یُرزَقُونَ
)
“
”اور ھرگز یہ گمان مت کرو کہ جو لوگ راہ خدا میں قتل کر دیئے گئے ہیں وہ مردہ ہیں بلکہ وہ لوگ زندہ ہیںاور اپنے پروردگار کے پاس رزق پاتے ہیں“
وہابی کہتے ہیں: یہ آیت شھدا ء احد جیسے جناب حمزہ اور ان کے علاوہ دیگر شھدا سے مخصوص ہے ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ: کیا جناب حمزہ اور دیگر شھدا ء رسول اللہ(ص) کی نبوت کے زیر سایہ نہ تھے؟ کیا جناب حمزہ کا مقام رسول اللہ(ص)کے مقام سے بالاتر ہے؟ کہ وہ زندہ ہیں اور رسول اللہ(ص) (معاذ اللہ) اس دنیا سے رحلت کے بعد مردہ ہیں؟
نھیں! ایسا نہیں ہے بلکہ رسول اللہ(ص) تو شھیدالشھدا ہیں یعنی شھدا ء پر گواہ ہیں اور انبیا ء کی روحوں کے موکل ہیں۔
ہم تمام نمازوں میں پیغمبر اکرم(ص) پر درود و سلام بھیجتے ہیں:اَلسَّلَامُ عَلَیکَ اَیُّهَا النَّبِیُّ وَ رَحْمَةُ اللّٰهِ وَ بَرَکَاتُهُ
:(اے نبی گرامی آپ پر خدا کا سلام ہو! اورآپ پر اس کی رحمت و برکت ہو!)اس خطاب کا مخاطب ، کیا ٰزندہ و سامع شخص کے علاوہ کوئی اور ہوسکتا ہے؟
توسل کے بارے میں ایک جد وجھد
وہابیوں نے جن چیزوں کو بہت زیادہ اچھالا اور اس پر بہت زیادہ اعتراضات کئے ہیں، ان میں سے ایک توسل ہے جس کو کہتے ہیں کہ توحید کے عقیدے سے منافات رکھتا ہے وہ اپنی تحریروں کے ذریعہ شیعوں کے خلاف ہمیشہ زھر اگلتے رہتے ہیں اور تبلیغ کرتے ہیں ، کہتے ہیں:چونکہ شیعہ توسل کے قائل ہیں اس لئے مشرک اور دین سے خارج ہیں اور ان کی توحید حقیقی توحید نہیں ہے۔
ان کے ناقص نظریہ کے مطابق توسل کا عقیدہ توحید کے عقیدے سے منافات رکھتا ہے، حقیقت میں اس استعماری مذہب کی یہ ایک کج فکری اور گمراہی ہے، ورنہ ہر صاحب بصیرت و آگاہ شخص جو قرآن و شیعہ و سنی روایات سے واقفیت رکھتا ہے بخوبی جانتا ہے کہ توسل نہ صرف توحید سے منافات رکھتا ہے بلکہ توسل توحید کا بنیادی راستہ ہے جس کی طرف قرآن کریم نے خود ”دعوتِ ارشادی“ کیا ہے ہم وہابیوں کے اس جھوٹے دعوے کو باطل کرنے کے لئے ضروری سمجھتے ہیں کہ توسل کے بارے میں ایک جامع بحث و گفتگو کریں تاکہ حق وباطل اور سچائی و جھوٹ میں فرق واضح ہو جائے۔!
لغت میں توسل کے معنی
”توسل“ یعنی کسی چیز سے نزدیک ہونے کے لئے وسیلہ تلاش کرنا ، جیسا کہ ماہرین لغت فرماتے ہیں
:تَوَسَّلَ اِلَیهِ بِوَسِیلَةٍ:اِذَا تَقَرَّبَ اِلَیهِ بِعَمَلٍ تَوَسَّلَ اِلَی اللّٰهِ بِعَمَلٍ اَو وَسِیلَةٍ: عَمِلَ عَمَلاً تَقَرَّبَ بِهِ اِلَیهِ تَعَالٰی
،
(اس کی طرف وسیلہ کے ذریعہ متوسل ہوا: جب اللہ سے کسی عمل کے ذریعہ قربت حاصل کی تو اس نے کسی عمل یا وسیلہ کے سھارے اللہ سے توسل کیا: یعنی اس نے ایسا عمل انجام دیا کہ اس کے ذریعہ اللہ سے قریب ہوگیا)
لغت میں ”وسیلہ“ کے مختلف معنی بیان کئے گئے ہیں:
۱( ع) نزدیک ہونا ۔
۲( ع) بادشاہ کے نزدیک مقام و منزلت۔
۳( ع) درجہ ۔
۴( ع) میل و رغبت کے ساتھ کسی چیز تک پہونچنے کے لئے چارہ جوئی کرنا۔
۵( ع) ہر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ہونا ممکن ہو۔
توسل فطرت و طبیعت کی نگاہ سے
اس میں کوئی شک نہیں کہ انسان اپنے مورد نیاز معنوی و مادی کمالات کو حاصل کرنے کا محتاج ہے، زمین و آسمان سے لیکر ہزاروں جمادات و نباتات انسان و حیوان درکار ہوتے ہیں تاکہ انسان اس کائنات کے آثار و خواص وجودی کے ذریعہ اپنے نقائص و کمیوں کو دور کرے اور کچھ کمالات مادی و معنوی کو حاصل کرے۔
یھی قاعدہ تمام موجودات کے لئے جاری و ساری ہے، یعنی ہر ایک موجود ایک طرح سے دوسرے موجودات کی طرف دست نیاز دراز کئے ہوئے ہیں اور فعل و انفعال اور تاثیر و تاثر میں ایک دوسرے کے محتاج ہیں۔
اور یہ وہی قانون ”توسل“ ہے جو ایک تکوینی حقیقت اور مسلّم طبیعت ہے کہ خلقتِ نظام عالم اور عالم انسانیت میں برقرار اور ہر جگہ مشھود و عیاں ہے۔
اور کوئی با شعور انسان چاہے اس کا شعور مادی ہو یا الہٰی اس قانون کو جاری کرنے میں کسی طرح کی تردید محسوس نہیں کرتا اور موجودات کے تاثیر کا منکر نہیں ہے۔
جبکہ ہم لوگ جانتے ہیں کہ: پیاسا انسان ٹھنڈا پانی پینے سے سیراب ہو جاتا ہے اوردوا بیمار کے لئے شفابخش ہوتی ہے اور زھریلی چیزیں سالم افراد کی جان خطرے میں ڈال سکتی ہیں، اور اسی طرح جاہل افراد استاد کی تعلیم سے عالم بن جاتے ہیں اور فقیر مالدار کی بخشش سے غنی ہوجاتے ہیں برسات میں بادل پانی برساتا ہے اور وہ پانی زمین کو سر سبز کرتا ہے جانور سبزہ زار سے اپنے پیٹ بھرتے ہیں اور جانور خود حیات انسانی کی بقا کے سبب بنتے ہیں۔
اور اسی طرح کائنات کی تمام چیزیں سلسلے وار ایک دوسرے کے لئے موثر اور ایک دوسرے سے متاثر ہیں یھاںتک کہ مادی انسان تمام اشیا ء و خواصِ موجودات کو ایک دوسرے کے لئے معلول طبیعت جانتا ہے ،لیکن ایک مسلمان تمام اشیاء کی طبیعت و اجسام کی ترکیب کائنات کے نظم و نسق میں خدائے علیم و حکیم کو مستند و اصل جانتا ہے ایک ایسی تدبیر جو کہ :
چشمہ از سنگ برون آرد و باران از میغ
انگبین از مگس نحل و در از دریا بار
پاک و بی عیب خدائی کہ بہ تقدیر عزیز
ماہ و خورشید مسخر کند و لیل و نھار
پادشاہی نہ بدستور کند یا گنجور
نقشبندی نہ بہ شنگرف کند یا زنگار
بھر حال کائنات میں موجودہ نظام اور قوانین حاکم (توسل) اور قانون (تسبب) ہیں یعنی اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کمال اور خواہش کو پورا ہونے کے لئے، اصل طبیعت کے قانون سے، وسیلہ کے دائرہ میں ہے اور سبب کو حاصل کرنے پر موقوف ہے۔
توسل قرآن کی نظر میں
قرآن مجید انسانی فطرت کے مطابق نازل ہوا ہے،اسی وجہ سے (توسل) کے موضوع کو ہدف اور توحید تک پھنچنے کے لئے ایک مسلم راستے کے عنوان سے تعارف کرایا ہے۔
اس لئے اصل توسل کا انکار حقیقت میں عالم طبیعت کے اصل اصول کے انکار کرنے کے برابر ہے اور قوانین فطرت کو نادیدہ شمار کرنا ہے۔
( قُرب خدا)عبودیت و بندگی کی راہ میں انسان کے لئے قرب خدا ایک عالی ترین اور شریف ترین کمال ہے جس کی قرآن نے نشان دھی کی ہے ،ارشاد ہوتا ہے:
”(
یَا اَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوا اِلَیهِ الوَ سِیْلَةَ وَ جَاهدُوا فِی سَبِیلِهِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُونَ
)
“
اے ایمان لانے والو! تقوی الہٰی اختیار کرو اور اللہ تک پھنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو اور اللہ کی راہ میں جھاد کرو شاید تم نجات پا جاو۔
اور اسی طرح دوسری جگہ ارشادھوتا ہے:
(
قُلِ ادْعُوا الَّذِینَ زَعَمْتُمْ مِنْ دُونِهِ فَلَایَملِکُونَ کَشْفَ الضُّرِّ عَنکُم وَ لَا تَحْوِیلاً اُولٰئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُونَ یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّهِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّهم اَقْرَبُ وَ یَرجُونَ رَحْمَتَهُ وَ یَخَافُونَ عَذَابَهُ اِنَّ عَذَاْبَ رَبِّکَ کَانَ مَحذُوراً
)
۔
”یہ لوگ جن کی مشرکین(اپنا خدا سمجھ کر) عبادت کرتے ہیں ،وہ خود اپنے پروردگار کی قُربت کے ذریعہ ڈھونڈتے پھر تے ہیں کہ (دیکھیں) ان میں سے کو ن زیادہ قربت رکھتا ہے اور اس کی رحمت کی امید رکھتے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہیں، ا س میں کوئی شک نہیں کہ تیرے پروردگار کا عذا ب ڈرنے کی چیز ہے“۔
یہ آیات شریفہ اس بات کی نشاندھی کرتی ہیں کہ تمام موجودات ، فرشتے اور پیامبران یا دوسری مخلوقات اللہ کے علاوہ سب کے سب اس سے کسب فیض (وسیلہ کی تلاش) کرتے ہیں، چاہے وہ اضطراری حالت میں ہو یا اختیاری حالت میں ، ہر طرح سے اس کی رحمت سے قریب اور عذاب کو دو رکرنے میں وسیلہ کی تلاش کرتے ہیں، تاکہ اس سے اور زیادہ قریب ہو جائیں :
”یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّهِمُ الوَسِیلَةَ اَیُّهُم اَقرَبُ
“
رسول اللہ(ص) سے روایت کی گئی ہے کہ:آنحضرت(ص) نے فرمایا:
”اِسْئَلُُوا اللّٰهَ لِی بِالوَسِیلَةِ فَاِنَّهَا دَرَجَةٌ فِی الجَنَّةِ لاَیَنَالُهَا اِلاّٰ عَبدٌ وَ احِدٌ اَرجُو اَن اَکُونَ اَنَا هُوَ
“
میرے لئے اللہ سے وسیلہ کی دعا کرو کیونکہ جنت میں وسیلہ ایک ایسا درجہ ہے جو ایک بندہ کے علاوہ کسی کو نہیں مل سکتا میں امید کرتا ہوں کہ وہ ایک بندہ میں ہوں۔
اسی طرح رسول اللہ(ص) سے اذان سننے کے وقت کی دعا میں نقل ہوا ہے: ”۔۔۔آتِ مُحَمَّداً الوَسِیلَةَ
۔۔۔۔“ اے اللہ رسول اللہ(ص) کو درجہ وسیلہ پر فائز کر۔
حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کے لئے دعا کرتے وقت یہ فرماتے ہیں :”وَشَرِّفْ عِندَکَ مَنزِلَتَهُ وَ آتِهِ الوَسِیلَةَ
۔۔۔“ اے خدا اپنے نزدیک رسول اسلام(ص) کی منزلت کو بزرگ قرار دے اور ان کو درجہ وسیلہ سے سرفراز فرما۔۔۔
غرض یہ کہ تمام کائنات یھاں تک کہ اشرف موجودات میں سے خود رسول اعظم(ص) ہیں وہ بھی خدا سے تقرب حاصل کرنے میں ”ابتغاء وسیلہ“ یعنی وسیلہ تلاش کرتے ہیں یہ اور بات ہے کہ آنحضرت(ص) کا وسیلہ دیگر ممکنات جھان کے وسیلہ سے بہت مختلف ہے اوروہ وسیلہ ہماری سعی اور کوشش سے بڑھ کر ہے۔
اسی لئے تمام موجودات جھان اپنے حدود کے دائرے میں رہ کر سب کے سب ایک دوسرے کے محتاج ہیں جیسا کہ خود قرآن کریم نے ارشاد فرمایا:(
” یَبتَغُونَ اِلٰی رَبِّهِمُ الوَسِیلَةَ
)
“یعنی وسیلہ کی تلاش میں ر ہیں تاکہ اپنے پروردگار کا قرب حاصل کریں ، ہاں بس اسی لئے ہے کہ کائنات میں کوئی بھی موجود یہ صلاحیت نہیں رکھتاکہ رب حقیقی بن سکے یا مستقلاً مشکلات کو رفع کرسکے یامستقل طور پر کسی کو فیضیاب کرسکے۔
جبکہ معبودیت اور استقلال رحمت کے افاضہ کے لئے ، حکم عقل کے مطابق، قدرت مستقلہ اور موجود کے خصائص کی شان ”قائم بذات“ ہے اور وہ بھی ذات اقدس حضرت ”حق “ جل شانہ میں منحصر ہے اور بس۔
اور تمام موجودات جو کہ بذات خود فاقد ھستی و کمالات ہیں ضروری ہے کہ مبدا ھستی و منبع کمال سے ”ابتغاء وسیلہ“ کی راہ پر گامزن رھکر طلب فیض کریں ”اِتَّقُوا اللّٰهَ وَ ابْتَغُوا اِلَیهِ الْوَسِیلَةَ
“۔
اور جیسا کہ ہم نے کھا کہ لغت میں ”وسیلہ“ کے مختلف معانی بیان کئے گئے ہیں ان میں مناسب ترین معنی گذشتہ دو آیات ( آیت ۳۵ سورہ مائدہ و آیت ۷۵ سورہ اسراء )میں سیاق کلام کے لحاظ سے وہ وہی پانچواں معنی ہے، یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ دوسرے سے نزدیک ہوا جاسکے“
مخصوصاً پھلی آیت میں کہ اولاً حکم ”ابتغاء وسیلہ“ کے بعد، راہ خدا میں جھاد کا حکم دیا گیا ہے اور ثانیاً ”تقویٰ“ و ”ابتغاء وسیلہ“ اور ”جھاد“ کے نتیجہ کو ”فلاح“ و کامیابی ، جملہ ”(
لعلکم تفلحون
)
“ کے ذریعہ بیان کیا جا رہا ہے۔
اور یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ فلاح و کامیابی ،وہی خدا کے قرب کا پا جانا ہے اور چونکہ ”مقصد“ اور ”نتیجہ“ میں مغایرت ہونی چاہیئے ضروری ہے کہ ”وسیلہ“ ایسی چیز ہوکہ آدمی کے لئے ممکن ہوسکے کہ اس کے ذریعہ ”قرب خدا“ و ”منزلت“ اور اس ”درجہ“ تک رسائی ہوسکے اور وہ وہی ”فلاح“ اور کامیابی ہے جو اس تک پہونچ سکے۔
اور اسی طرح جھاد کا حکم حقیقت میں اس کے درپے وسیلہ کا حکم ہے (چاہے جھاد کو کفار کے ساتھ قتال کے معنی میں لیں، یا مطلقاً راہ خدا میں کوشش و سعی کے معنی میں لیں) پھر بھی وسیلہ اس کے اہم مصداق میں سے ہے اور چونکہ یہ مسلّم ہے کہ خود ”جھاد“ قرب خدا کے لئے عینی و خارجی تحقق نہیں ہے بلکہ ”قرب“ کے لئے ایک سبب و مقدمہ ہے تو پھر اس کا مطلب یہ ہوا کہ ”وسیلہ“ اس مذکورہ آیت میں ”قرب“ و”درجہ“ اور ”منزلت“ و ”چارہ جوئی“ جو کہ وسیلہ کے لغوی معنی ہیں، نہیں ہے۔
بلکہ صحیح و مناسب معنی اس آیہ شریفہ کا وہی ہے جو پانچواںمعنی بیان کیا گیا ہے یعنی ”ھر وہ چیز جس کے ذریعہ خدا تک رسائی ہوسکے"
اور اس وجہ سے بھی کہ کلمہ ”وسیلہ“ آیہ شریفہ میں مطلق اور کسی قید و تقیید کے بغیر آیا ہے اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس کے معنی میں وسعت و گستردگی ہے اور ہر طرح کا اعتقاد و عمل اور ہر چیز و ہر شخص جو کہ خدا سے ”قرب“ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اطلاق ہوتا ہے، بطور مثال، ایمان ، پروردگار کی وحدانیت کا اعتقاد اور پیغمبروں کی رسالت کا اعتقاد و ایمان ،اور اسی طرح رسول اسلام(ص) کی پیروی و اطاعت ، واجبات کا انجام دینا مثلاً نماز، روزہ، حج، زکات و جھاد اور نادان لوگوں کو صلہ رحم کی ہدایت کرنا ، مریض کی عیادت کرنا وغیرہ نیک اور خداپسند اعمال یہ تمام کے تمام قرب خدا کے وسائل و اسباب ہیں۔
جیسا کہ مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”اِنَّ اَفْضَلَ مَا تَوَسَّلَ بِهِ المُتَوَسِّلُونَ اِلٰی اللّٰهِ سُبْحَانَهُ ، اَلاِیمَانُ بِهِ وَ بِرَسُولِهِ وَ الجِهَادُ فِی سَبِیْلِهِ… وَ کَلِمَةُ الاِخْلاَصِ …وَ اِقَامِ الصَّلوةِ …وَ اِیتَاءِ الزَّکَوةِ …وَ صَوْمِ شَهرِ رَمَضَان…َ وَ حَجُّ البَیتِ وَ اِعتِمَارُه ُ…وَ صِلَةُ الرَّحم…ِ وَ صَدَقَةُ السِّرِّ وَصَدَقَةُ العَلَانِیَّةِ …وَ صَنَائِعُ المَعرُوفِ
“
بیشک وسیلہ تلاش کرنے والوں کے لئے بہترین وسیلہ خدا تک رسائی کی خاطر ، اللہ پر ایمان اور اس کے رسول پر ایمان اور اس کی راہ میں جھاد، کلمہ اخلاص، اقامہ نماز، اداء زکات، رمضان المبارک کا روزہ، حج بیت اللہ اور عمرہ، صلہ رحم ، اللہ کی راہ میں مخفی اور علناً طریقے سے صدقہ دینا، اور دیگرنیک اور خداپسند اعمال سب کے سب خدا تک پہونچنے کے وسیلہ ہیں۔
اور اسی طرح انبیاء کی ذوات مقدسہ، اولیا خدا و مقربین بارگاہ خداوندی، ان کی معرفت اور ان لوگوں سے محبت کرنا، دعا و شفاعت طلب کرنا ان کے ذریعہ تقرب تلاش کرنا، یا ان سے منسوب چیزوں کی تجلیل کرنا، کسی بھی طریقے سے کیوں نہ ہو، مراقد مطھرہ کی زیارت کرنا اور ان کی قبور شریفہ جو کہ مسلّم مصداق ”تعظیم شعائر اللہ“ ہے اور بندگان خدا سے محبت و مودت کی روشن ترین دلیل اور ھادیان راہ حق کی تعالیم و مکتب کو عظمت دینے کے برابر ہے۔
روشن ہے کہ یہ تمام مذکورہ چیزیں کلمہ ”وسیلہ“ کے ”اطلاق“ کے لحاظ سے سب کی سب اس وسیع و عام مفھوم میں داخل ہیں،یعنی ان تمام امور پر، یہ عنوان صدق آتا ہے ”مَا یَتَقَرَّبُ بِهِ اِلٰی اللّٰهِ
“ یعنی جس کے ذریعہ اللہ سے قریب ہوا جاسکے اور اس کی رضا و خوشنودی کو حاصل کرسکیں۔
اس بنا پر کوئی ہمارے پاس دلیل یا سبب نہیں ہے کہ کلمہ وسیلہ کے ”اطلاق“ سے چشم پوشی کریں اور اس کے مفھوم کو ایک یا چند مفھوم کے لئے مخصوص کریں جیسا کہ ”ابن تیمیہ“ اور اس کے پیروکار ”وہابیوں“ نے بغیر کسی دلیل کے تقیید و تخصیص کی ہے۔
۱) رسول خدا(ص) پر ایمان اور آنحضرت(ص) کی پیروی ۔
۲) پیامبر اکرم(ص) کا دعا و شفاعت کرنا وہ بھی فقط دنیوی زندگی کے دوران اور روز قیامت میں ۔
اور کبھی اس آیت کی تفسیر واجبات اور مستحبات کے لئے کرتے ہیں،اطلاق کے علاوہ آیہ شریفہ جیسا کہ ہر طرح کی تقیید سے خالی ہے اسلامی احادیث (چاہے شیعہ حضرات کے ذریعہ حدیث نقل ہوئی ہو یا اہل سنت کے ذریعہ) توسل کے عنوان پر روایات بہت زیادہ ہیںجو کمال ِوضاحت کے ساتھ وہی عام وسیع معنی کوثابت کرتی ہیں اور خدا سے تقرب جوئی و منبع و مرکز فیض سے اخذ برکات، صلحاء و مقربین بارگاہ خداوندی سے استغاثہ و استمداد چاہے کسی بھی حالت میں ہو، چاہے کسی بھی عنوان سے ہو، تائید اور تصدیق کرتی ہیں
بحث طولانی ہونے کی وجہ سے ہم یھاں پر ان روایات کو ذکر کرنا نہیں چاہتے، اس سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو کتب روائی اور کتب سیرت و کتب تاریخ اہل سنت اور اسی طرح کتاب ”وفاء الوفاء باخبار دار المصطفیٰ“ نوشتہ سمھودی کے مطالعہ کی دعوت دیتے ہیں۔
شفاعت وہابیوں کی نظر میں
وہابیوں نے جس کے بارے میں بہت زیادہ شور و غل مچایا اورجسے تکفیر و تفسیق کی دلیل قرار دیتے ہیں ان میں سے ایک مسئلہ شفاعت بھی ہے تقریباً محمد بن عبد الوہاب کی ”کشف الشبھات“ اسی مسئلہ کے متعلق، پوری کتاب گہما پھرا کر لکھا ہے جیسا کہ ہم پھلے بھی اس سے چند چیزیںنقل کر چکے ہیں اور اسی طرح اس کے پوتے شیخ عبد الرحمٰن آل الشیخ نے جو کتاب ”التوحید“ لکھی اور اس کی شرح ”فتح المجید“ کے نام سے منتشر ہوئی ہے اسی مسئلہ شفاعت سے مخصوص ہے۔
ہماری نظر میں مسئلہ شفاعت جو کہ ”بحث ِقیامت “کی فروعات میں سے ہے بہت ہی وسیع و پیچیدہ مسئلہ ہے اس کے لئے ایک مستقل رسالہ اور الگ سے اس مسئلہ پر کتاب تالیف کی جائے تا کہ اس کے تمام نشیب و فراز اچھی طرح سے روشن ہو جائیں اور منکرین و مخالفین کے شبھات و اعتراضات کا جواب دیا جاسکے۔
اگر چہ پھلے ہم نے مسئلہ شفاعت ، درخواست مغفرت ، اولیاء خدا سے طلب حاجت اور اس کے مانند مسائل ، میں ابن تیمیہ کی آراء پر جرح و بحث و نقد کیا ہے لیکن چونکہ وہابیوں کی کتابوں میں (جیسا کہ ہم پھلے کہہ چکے ہیں) ان مسائل کے متعلق مختص ایک مستقل بحث پائی جاتی ہے اور یہ وہابیوں کے جنجالی ترین اور شوروغل والے مباحث و مسائل ہیں جن کو اصطلاح میں فرھنگی معرکہ اور آئیڈیا لوزی !! کا نام دیتے ہیں۔
اس لئے ہم بھی اختصار کا خیال رکھتے ہوئے اور اس کتاب کی مناسبت کو خاطر میں رکھتے ہوئے ضرورت کے مطابق خصوصاً مسئلہ شفاعت کے بارے میں بحث کریں گے اور مفصل و وسیع بحث و انشاء اللہ کسی اور فرصت کے وقت بیان کریں گے۔
پیغمبر اسلام(ص) کے زمانے سے لیکر آج تک مسلمانوںکی تاریخ اور ان کی سیرت اس بات پر شاہد ہے کہ ہمیشہ اور ہر دور میں شفاعت حق اور صحیح رہی ہے اور ہمیشہ ہر حال میں ، حیات و ممات کے بعد بھی مسلمان، اولیاء خدا و بندگان خدا سے شفاعت طلب کرتے رھے ہیں، کسی اسلامی دانشمنداور مفکر نے درخواست شفاعت کو اصولِ اسلام کے خلاف نہیں جانا ہے یھاں تک کہ آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ نے اس مسئلہ (شفاعت) کی مخالفت کی اور اس کے بعد محمد ابن عبد الوہاب نجدی ، جو کہ وہابیت کا بانی ہے، اس کی پیروی کی اور شفاعت کے خلاف علم بلند کیا۔
وہابیوں کا دوسرے اسلامی فرقوں سے ایک نقطہ پر اختلاف یہ بھی ہے کہ مسلمانان عالم نے شفاعت کو ایک اصل اسلامی کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے ، وہ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن گنھگاروںکے لئے شافعین حضرات شفاعت کریں گے اور پیغمبر اسلام(ص) کا شفاعت کرنے میں زیادہ حصہ ہے اور ساتھ ہی یہ بھی کہتے ہیں کہ ”ہم ھرگز یہ حق نہیں رکھتے کہ اس دنیا میں ان سے شفاعت طلب کریں“
اور اس بارے میں اتنے افراط سے کام لیا ہے کہ ہماری زبان ان کی باتوں کو نقل کرنے سے عاجز ہے، اور ہم نے اس کتاب کے مقدمہ اور بعض حاشیے پر جبراً و قھراً ان کی شرم آور باتوں کی طرف اشارہ کیا ہے، ان کے کلام کا خلاصہ یوں ہے کہ:
پیغمبر اسلام(ص) اور دوسرے پیامبران اور فرشتے و اولیا خدا قیامت کے دن ”حق شفاعت“ رکھتے ہیں لیکن ضروری ہے کہ شفاعت ”مالک شفاعت“ و ”اذن شفاعت دینے والے“ سے جو کہ خدا ہے، طلب کریں اور کھیں: ”پروردگارا ! پیغمبر(ص) اور دیگر صالح بندوں کو قیامت کے دن ہمارا شفیع قرار دے“ لیکن ہم کو کوئی حق نہیں پہونچتا کہ ہم کھیں: ”اے پیغمبر(ص) خدا ہم آپ(ص) سے اپنے حق میں شفاعت طلب کرتے ہیں“ چونکہ شفاعت ایسی چیز ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی اس پر قادر نہیں ہے۔
وہابیوں نے پنجگانہ دلیلوں کے ذریعہ شافعین کی شفاعت کو ممنوع قرار دیا ہے، ہم ان کے دلائل پر تحقیق سے پھلے، شفاعت کو قرآن و سنت و عقل کے مطابق بحث کرتے ہیں پھر اس کے بعد ان کے دلائل پر تنقید اور جواب پیش کریں گے۔
اولیا ء خدا سے شفاعت کے جواز پر دلائل
اگر” حقیقت شفاعت“ کو گنھگاروں کے حق میں شفیع کی دعا جانیں،اور یہی ایک مستحسن و پسندیدہ امر ہے جیسے کسی برادر مومن سے درخواست دعا کرنا، اور پیغمبروں و اولیا ء خدا سے درخواست دعا کرنا، تو عقلی لحاظ سے اس میں کسی طرح کی کوئی حرمت و ممانعت نہیں دکھائی دیتی۔
اگر وہابی حضرات اپنے برادر مومن سے درخواست دعا کو جائز مانتے ہیں توان کو چاہیئے کہ زندہ شفیع سے درخواست شفاعت کو بغیر کسی پس و پیش کے جائز و صحیح مانیں، اور اگر زندہ انسان سے درخواست شفاعت کو جائز و صحیح نہیں مانتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لوگ شفاعت کے معنی ”دعا“کے لیتے ہیں۔
اسلامی احادیث اور سیرت صحابہ ،درخواست شفاعت کو بہت ہی حسن اسلوب و روشن طریقے سے ثابت کرتی ہے کہ ہم ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
۱ ۔ انس بن مالک کہتے ہےں:
”سَاَلتُ النبَِّی(ص) اَن یَشفَعَ لِی یَومَ القِیَامَةِ فَقَالَ: اَنَا فَاعِلٌ فَقُلتُ فَاَینَ اَطلُبُکَ؟ فَقَالَ: عَلَی الصِّرَاطِ
“
پیغمبر اسلام(ص) سے میں نے شفاعت کی درخواست کی کہ روز قیامت میری شفاعت فرمائیں گے تو رسول اسلام(ص) نے میری درخواست کو قبول فرمایا، انس نے ظرافت طبیعت کے ساتھ رسول اسلام(ص) سے درخواست شفاعت کی اور اس کی جگہ کے بارے میں سوال کیا ،رسول اسلام(ص) بھی فرماتے ہیں کہ ”صراط پر“ اور انس کے دل میں ھرگز یہ خطور بھی نہیں پیدا ہوا کہ یہ کام اصول ِتوحید کے خلاف ہے پیغمبر اسلام(ص) بھی اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اسے خوشخبری دیتے ہیں۔
۲ ۔ سواد بن قارب جو پیغمبر اسلام(ص) کے مدرگاروں میں سے تھے، اپنے اشعار کے ضمن میں رسول اسلام(ص) سے شفاعت طلب کرتے ہیں ، فرماتے ہیں:
وَ کُنْ لِیْ شَفِیْعاً یَوْمَ لَا ذُوْ شَفَاعَةٍ
بِمُغْنٍ فَتِیْلاً عَنْ سُوَادِ بِنْ قَارِبِ
”اے پیغمبر اسلام(ص) روز قیامت میر ی شفاعت فرمائےے جس دن شافعین کی شفاعت ذرہ برابر سوادبن قارب کے حق میں فائدہ مند نہ ہوگی“۔
وہابی حضرات ممکن ہے کھیں کہ: یہ تمام درخواستیں رسول اسلام(ص) کی حیات سے مربوط ہیں اور ان میں سے ایک بھی درخواست شفاعت رسول اسلام(ص) کے انتقال کے بعد نہیں ہے، لیکن اس کا جواب بھی واضح ہے ، جیسا کہ گذر چکا ہے، وہابی مطلقاً شفاعت کو حرام جانتے ہیں، موت و حیات معتبر نہیں ہے بلکہ معتبر لغو اور عدم لغو ہے۔
اسلامی احادیث سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ رسول اسلام(ص) کے اصحاب و مددگار رسول اسلام(ص) کی وفات کے بعدبھی ہمیشہ ان سے شفاعت کی درخواست کرتے رھے ہیں۔
۳ ۔ جس وقت حضرت امیر المومنین(ع) رسول اسلام(ص) کی تجھیز و تکفین سے فارغ ہوئے رسول اسلام(ص) کے چھرہ منور کو کھولا اور کھا:
بِاَبِی اَنتَ وَ اُمِّی (طِبتَ حَیّاً وَ طِبتَ مَیِّتاً )… اُذکُرنَا عِندَ رَبِّکَ
۔
میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں (آپکی حیات و ممات طیب و طاہر رہی ) اپنے پروردگار کے پاس ہمار ا تذکرہ کریں۔
اب ہم خیال کرتے ہیں کہ سیرت اصحاب رسول کو ذکر کرنے سے درخواست شفاعت عملاً اسلام کی رو سے واضح ہوگئی ہوگی۔
وہابیوں کے اشکالات و اعتراضات کا خلاصہ
اب و ہ وقت پہونچ چکا ہے کہ جب ہم وہابیوں کے بعض دلائل جس کے ذریعہ درخواست شفاعت کو حرام قرار دیتے ہیں ان کی تحقیق اور ان پر نقد کریں ، وہ لوگ کچھ ایسے دلائل کا سھارا لیتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں۔
درخواست شفاعت شرک ہے
وہابی حضرات کہتے ہیں : پیغمبران ا ور اولیا ء اللہ اس دنیا میں حق شفاعت نہیں رکھتے، بلکہ یہ حق صرف اور صرف انہیں آخرت میں حاصل ہے اور جو کوئی شخص بندگان خدا کو اپنے اور خدا کے درمیان واسطہ قرار دے،تا کہ اس کے حق میں شفاعت کریں وہ مشرک ہے، وہابی کہتے ہیں کہ درخواست شفاعت کے وقت اس طرح کھیں: ”اَلّٰلهم اجْعَلنَا مِمَّن تَنَالُهُ شَفَاعَةُ مُحَمَّدٍ
“ یعنی خدایا ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جن کو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی شفاعت نصیب ہوگی۔
وہ لوگ کہتے ہیں : ہمیں ھرگز یہ حق حاصل نہیں ہے کہ ہم کھیں: ”یَا مُحَمَّدُ اِشفَعْ لَنَا عِندَ اللّٰهِ
“ اے محمد(ص) ! اللہ کے نزدیک ہمارے حق میں شفاعت کیجئے، وہ کہتے ہیں ، کہ یہ صحیح ہے کہ اللہ نے رسول اسلام(ص) کو حق شفاعت دیا ہے لیکن اللہ نے ہم کو اس کے مطالبہ سے منع فرمایا ہے بلکہ ہم شفاعت کو خدا سے طلب کریں جس نے رسول اسلام(ص) کو یہ حق دیا ہے۔
وہابیوں کو ہمارا جواب
ہم کہتے ہیں: ”توحید در عبادت “ ”شرک درعبادت“کے مقابلہ میں ہے کہ جوارکان توحید میں ایک اہم رکن ہے قرآن کریم میں اس کو بہت اہم یت دی گئی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کیا ہر طرح کی دعوت و طلب یا کسی چیز کی درخواست، عبادت اور پرستش ہے؟ یا یہ کہ عبادت و پرستش کا ایک خاص معنی ہے اور وہ دعوت و طلب، اورامور دنیا و آخرت میں کسی کے سامنے اظھار ذلت و خضوع کرنا اس اعتقاد کے ساتھ کہ وہ (متصرف بلامنازع) و بغیر چون چرا کے صاحب قدرت ہے یا دوسرے لفظوں میں یوںکھا جائے کہ اس کو خدا جانیں یا مرتبہ خدائی اس کے لئے قائل ہوں، چاہے بڑا خدا یا چھوٹا خدا ، حقیقی خدا یا مجازی خدا ، یا خدا اس موجود کو کہتے ہیں جو کائنات کا پروردگار اور اس کا مدبر ہے یا خلقت کے امور میں سے کسی شان کا مالک ہے بطور مثال مقام ”رزاقیت“ یا ”مغفرت“ یا ”شفاعت“کا مالک ہے اگر کوئی اس اعتقاد کے ساتھ کسی سے کوئی چیز طلب کرے تو مسلّم ہے کہ اس نے اس کی پرستش کی ہے، اور یہ بات واضح ہے کہ شافعین حقیقی سے درخواست شفاعت اس طرح نہیں ہوتی، بلکہ اس اعتقاد و ایمان کے ساتھ ہوتی ہے کہ یہ لوگ اولیاء اللہ ہیںاور اس کی بارگاہ میں مقرب ترین بندے ہیں ،بارگاہ خداوندی میں ان کی دعا مستجاب ہوتی ہے دوسرے لفظوں میں یوں کھا جائے کہ خداوند کریم نے ان کو خاص شرائط کے تحت شفاعت کی اجازت دے رکھی ہے۔
اس مطلب کی وضاحت کے لئے قرآن کریم کی آیات واضح طور پر گواہی دیتی ہیں کہ قیامت کے دن حق و حقیقت کی گواہی دینے والے بندگان خدا شفاعت کریں گے، قرآن فرماتا ہے:
”(
وَ لاَیَملِکُ الَّذِینَ یَدعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ اِلّٰا مَن شَهِدَ بِالحَقِّ وَ هم یَعلَمُونَ
)
“
”وہ لوگ جو غیر خدا کی پرستش کرتے ہیں انہیں شفاعت کا حق نہیں ہے ہاں مگر وہ لوگ جو کہ توحید خدا کی گواہی دیتے ہیں شفاعت کریں گے او راس کی حقیقت سے آگاہ ہیں “
لفظ ”الّا“حروف استثناء میں سے ہے وہ لوگ جو خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں ان کے شفاعت کرنے پر روشن و واضح دلیل ہے۔
اب یھاں پر ایک سوال یہ پیش آتا ہے :جبکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بعض اولیاء کو حق شفاعت اور اجازہ شفاعت دیا ہے جو کوئی شخص بھی ان حضرات سے درخواست شفاعت کرے ، اگر درخواست کرنے والا شفاعت کے شرائط رکھتا ہے اور ان افراد میں سے ہو کہ اس کے حق میں شفاعت قبول کی جائے تو اس کی درخواست شفاعت قبول کی جائے گی ورنہ اس کی شفاعت ردّ کر دی جائے گی،بانی وہابیت کا یہ جملہ کتنا مضحکہ خیز ہے، وہ کہتا ہے کہ : ”خدا نے اپنے اولیاء کو حق شفاعت دیا ہے لیکن ہم کو اس کی درخواست سے منع فرمایا ہے۔
اولاً: ہم سوال کرتے ہیں کہ خداوند کریم نے قرآن کی کس آیت میں درخواست شفاعت سے منع فرمایا ہے؟ اگر اللہ نے ہمیں اس لئے روکا ہے کہ شافعین سے شفاعت طلب کرناشرک ہے تو ھرگز یہ درخواست پرستش اور عبادت کے مقابلہ میں نہیں ہے اور اگر کسی دوسری جہت سے ہے تو انشاء اللہ اس کے بعد ہم اس پر تحقیق کریں گے۔
ثانیاً: بذات خود یھاں قول و فعل میں تناقض پایا جارہا ہے اس لئے کہ اگر اللہ اپنے اولیاء کو یہ حق شفاعت دیا ، تو کس لئے ؟ تاکہ دوسرے لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں، کیا یہ صحیح اور معقول ہے کہ جن لوگوں کو اس نے حق شفاعت دیا ہے ،تاکہ لوگ اس سے فائدہ اٹھائیں ان سے یہ کھا جائے کہ آپ کو درخواست شفاعت کرنے کا حق حاصل نہیں ہے، لہٰذایہ کھنا حکمت و رحمت اور عدل خداوندی کے خلاف ہے۔
مشرکین کا شرک بتوں سے شفاعت طلب کرنے کی وجہ سے تھا
وہابی حضرات کہتے ہیں:
مشرکین کا شرک اس وجہ سے تھا کہ وہ بتوں سے درخواست شفاعت کیا کرتے تھے ، ذیل کی آیت اس مطلب پر دلالت کرتی ہے:”(
وَ یَعبُدُونَ مِن دُونِ اللّٰهِ مَا لاَ یَضُرُّهم وَ لاَ یَنفَعُهم وَ یَقُولُونَ هٰولاٰءِ شُفَعَاونَا عِندَ اللّٰهِ
)
“
”وہ لوگ اللہ کے علاوہ کسی اور چیز کی پرستش کرتے ہیں نہ وہ انہیں نفع پہونچا سکتی ہے اور نہ نقصان اور کہتے ہیں کہ یہ اللہ کے نزدیک ہمارے شفیع ہیں“اس بنا پر غیر خدا سے ہر طرح کی درخواست ایک طرح کا شرک اور پرستش ہے۔
وہابیوں کو ہمارا جواب
اولاً: ”واو عاطفہ“ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ مشرکین کی عبادت درخواست شفاعت کے علاوہ تھی ، اور اگر درخواست شفاعت ان لوگوں کی پرستش تھی تو لفظ واو یھاں پر زیادہ ہے۔
ثانیاً: کفارو مشرکین ”بتوں“ کو چھوٹے خدا تصور کرتے تھے او ران کو دنیاوی اور اخروی کاموں میں دخل وتصرف کا مالک جانتے تھے،لہٰذا اگر اس عقیدے کے تحت کسی سے شفاعت طلب کی جائے تو یہ واقعاً شفیع کی پرستش اور اس کی عبادت ہوگی، درحالیکہ ہم لوگ شافعین حضرات کو خدا کے مقرب بندے مانتے ہیں اور یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ یہ حضرات خدا کی اجازت کے بغیر کوئی کام نہیں کرتے، ایسی صورت میں یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہماری ا س بحث کو مذکورہ آیت سے ربط دیا جائے۔
غیر خدا سے حاجت طلب کرنا حرام ہے
طلبِ شفاعت کی حرمت کے بارے میں وہابیوں کی تیسری دلیل یہ ہے کہ غیرخدا سے حاجت طلب کرنا حرام ہے ،جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
”(
فَلا تَدْعُوا مَعَ اللّٰهِ اَحَداً
)
“
”خدا کے ساتھ کسی کو نہ پکارو“
اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے :
”(
ادْعُونِیْ اسْتَجِبْ لَکُمْ
)
“
”مجھے پکاروتاکہ تمھاری دعا قبول کروں“
وہابیوں کو ہمار جواب
مذکورہ آیات میں لفظ ”دعوت“ سے مراد حاجت طلب کرنا ،دعا وغیر دعا نہیں ہے بلکہ دعوت سے مراد غیر خدا کی پرستش اور عبادت ہے ہماری اس بات پر کلمہ ”مع اللہ“ گواہ ہے کہ جو دونوں مذکورہ آیات میں موجود ہے کیونکہ دوسری آیت کے ذیل میں اس طرح ہے ”(
إَنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ
)
“ وہ لوگ جوہماری عبادت سے کنارہ کشی کرتے ہیں ، مذکورہ آیات کا مقصد صرف یہ ہے کہ ”غیر خدا“ کی عبادت نہ کریں، لیکن اگر گذشتہ آیات کے اس طرح وسیع معنی کریں کہ درخواست اور دعا کو بھی شامل ہوجائے ، اس وقت انسان کی درخواست اور دعا، اس قسم سے ہوگی جبکہ حاجت مند مدّمقابل کو خدا مانتے ہوئے اس سے حاجت طلب کرے۔
شفاعت خدا وندعالم سے مخصوص ہے
وہابی حضرات کہتے ہیں: قرآن مجید کی بعض آیات سے پتہ چلتا ہے کہ حق شفاعت خداوندعالم سے مخصوص ہے اور اسی کی ذات میں منحصر ہے ، ارشاد ہوتا ہے :
”(
اَمِ اتَّخِذُوا مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ شُفَعَاءُ قُلْ اَوَلَوْکَانُوا لَایَمْلِکُونَ شَیْئًا وَلَا یَعْقِلُونَ قُلْ لِلّٰهِ الشَّفََاعَةُ جَمِیْعاً
)
“
”بلکہ ان لوگوں نے ”غیر خدا“ کو اپنا شفیع بنالیا ہے ،(اے میرے رسول(ص)) کھدو کہ وہ کسی چیز کے مالک نہیں ہیں اور نہ ہی سوچنے کی صلاحیت رکھتے ہیں (کس طرح شفاعت کرسکتے ہیں) کھدیجئے کہ شفاعت تمام کی تمام خدا سے مخصوص ہے“
وہابیوں کو ہمارا جواب
اگر اس آیت کے جملوں پر توجہ کریں اور غور وفکر سے کام لیا جائے تو واضح ہے کہ اس آیت کا مقصد لکڑی ، پتھر او رلوہے کے بتوں سے شفاعت کی نفی کی گئی ہے نہ یہ کہ ان حقیقی شافعین سے شفاعت کی نفی کی گئی ہو جن کی شفاعت کے سلسلہ میں دوسری آیات موجود ہیں کیونکہ:
اول: ”(
لَایَمْلِکُونَ
)
“ اور ”(
لَا یَعْقِلُونَ
)
“ جملے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ شفاعت کا حق ان کا ہے کہ جو ”حق شفاعت“ رکھتے ہوں، او راپنے کاموں سے بھی آگاہ ہوں،
اورگذشتہ آیات میں جن بتوں کا تذکرہ ہے ان میں دونوں شرطوں میں سے کوئی بھی شرط نہیں ہے ، (وہ شرطیں یہ ہے :نہ ہی اپنے کاموں سے آگاہ ہیں اور نہ ہی شفاعت کے مالک ہیں) لہٰذا آیت کے اس حصہ ”(
قُلْ لِلّٰهِ الشَّفَاعَةُ جَمِیْعاً
)
“ کے معنی یہ ہونگے کہ:شفاعت خدا کے لئے ہے نہ کہ لکڑی اور پتھر وں کے بتوں کیلئے ،گویا اس طرح معنی کئے جائیں :”ِللّٰہِ الشَّفَاعَةُ جَمِیعاً لَا للِاوْثَانِ وَالاَصْنَامِ”(یعنی شفا عت کا ما لک خدا ہے ، نہ کہ بت)
اور شفاعت کا مالک صرف خدا ہے اولیاء الہٰی شفاعت کے مالک نہیں ہیں بلکہ شفاعت کے بارے میں خدا کی طرف سے ان حضرات کو اجازت دی گئی ہے ، لہٰذا کوئی مانع نہیں ہے کہ ”شفاعت کا مالک“ خداہو اور اولیاء الٰھی ”خدا کی اجازت سے“ شفاعت کریں۔
دوسرے : مذکورہ آیت کے جملہ کا مقصد یہ نہیں ہے کہ فقط اور فقط خدا شفیع ہے اور غیر خدا کوئی شفیع نہیں ہے، کیونکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوندکریم کسی کے بارے میں شفاعت نہیں کرے گا بلکہ آیت کا مقصد یہ ہے کہ خدا وندکریم اصل شفاعت کا مالک ہے اور دوسرے حضرات اس کی اجازت سے شفاعت کریں گے ، مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم کا یہ حق ”اصالةً “ ہے اور دوسروں کو یہ حق ”نیابتاً “ دیا گیا ہے ، لہٰذا مذکورہ آیت وہابیوں کے اعتراض کو ثابت نہیں کرتی ۔
مردوں سے شفاعت کی درخواست کرنا ،لغو ہے
وہابی کہتے ہیں : مرنے کے بعد روح انسان باقی نہیں رہتی ، اور انسان کے مرنے کے ساتھ ساتھ اس کی روح بھی نابود ہوجاتی ہے ۔
اسی وجہ سے یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ انبیاء(ع) اور اولیاء الٰھی نیز خدا کے نیک وصالح بندوں کی جسمانی موت کے ساتھ ساتھ ان کی روح بھی نابود ہوجاتی ہے او رجو چیز موجود نہیں ہے اس سے مدد اور شفاعت چاہنا ، عقل کے خلاف ہے ۔!!
وہابیوں کا ہمارا جواب :
اجمالی طور پر اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ روح ایک ایساجوہر ہے جو ”مجرد“ ہے اور ھرگز اس کے لئے موت نہیں ہے اوریہ جسم کے مرنے سے نابود نہیں ہوتی ،بلکہ جسم کے مرنے کے بعد ،بدن کے قیدو بند سے آزاد ہوکر مزید عالِم اور طاقتور ہوجاتی ہے اور یہ فلسفہ کی مشکل بحثوں میں سے ہے ، اور جوحضرات اسلامی فلسفہ سے آگاہی رکھتے ہیں او ر”حکمت متعالیہ صدرائی“ سے باخبر ہیں وہ جانتے ہیں ، یھاں اس دقیق اورعلمی اور مشکل بحث کرنے کا موقع نہیں ہے ۔
لہٰذااگر یہ ثابت ہوکہ جسم کے مرنے کے بعد روح نہیں مرتی (جیسا کہ اسلامی فلسفہ میں ثابت ہوچکاہے نیز قرآن مجید میں بھی اس سلسلہ میں آیات موجود ہیں) لہٰذا وہابیوں کی طرف سے اس اعتراض کی جگہ ہی باقی نہیں رہتی۔
او رجیسا کہ ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ شفاعت کے سلسلہ میں مختلف گوشہ ہیں اور تمام گوشوں سے اس کتاب میں بحث کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ ہمارا ہدف بحث کو طولانی کرنا نہیں ہے۔
محترم قارئین! مزید آگاہی کے لئے ”تفسیر المیزان“ اور ددسری تفاسیر کی طرف رجوع فرمائیں ۔
شفاعت کے بارے میں علامہ طباطبائی (رہ) کا نظریہ
آخر میں قارئین کرام کی مزید آگاہی اور فائدہ کے پیش نظر مرحوم علامہ الحاج سید محمد حسین طباطبائی تبریزی (رہ) صاحب تفسیر المیزان کا نظریہ بیان کرتے ہیں تاکہ ہمارے قارئین عالم اسلام کے مایہ ناز شیعہ فلسفی علماء کرام کی بلندی فکر او رلطیف نظریات سے مزید واقفیت حاصل کریں اور معلوم ہوجائے کہ جن مسائل کو ابن تیمیہ ، ابن قیّم جوزی اور محمد ابن عبد الوہاب جیسے افراد حل نہ کرسکے اور اس میں غرق ہوکر رہ گئے او راس کا کوئی حل نہ نکال سکے اور بے ہودہ اور باطل چیزیں کہنے پر مجبور ہوگئے او رلغزشوں کے دلدل میں پھنس کر رہ گئے شیعہ علماء اور دانشوروں نے ان مسائل کا حل آسان او راچھے طریقہ سے تلاش کرلیا اور اب کوئی مشکل باقی نہیں رہ گئی ہے۔
صاحب تفسیر المیزان (رہ) ان لوگوں کے بارے میں فرماتے ہیںکہ جو شدت پسندی کا شکار ہوئے ہیں اور ائمہ معصومین (ع) کے روضوں میں حاجت طلب کرنے کو شرک مانتے ہیں او رکہتے ہیں:بیماروں کی شفا ، نیزحاجت کو پورا کرنا خدا کے ھاتھ میں ہے نہ کہ امام کے اختیار میں !
مرحوم علامہ فرماتے ہیں : ”مطلب کو واضح او رروشن کرنے کے لئے ایک مقدمہ بیان کرنا ضروری ہے اور وہ یہ ہے کہ : عالم کائینات میں ”علّیت او رمعلولیت“کا قانون ایک عمومی قانون ہے اور ھرحادثہ کی ایک علت ہوتی ہے کہ جس کی بناپر وہ واقعہ پیدا ہوتا ہے ، لہٰذا نتیجہ یہ نکلا کہ عالَم”عالَم اسباب“ ہے اورتمام چیزوں کی علت حقیقی اور اس میں مستقل تاثیر خداوندعالم کی ہے ۔
اگر تیغ عالم بجنبد زجای نبُرد رگی تانخواہد خدائی
”اگر کسی کی گردن پر تلوا رچلائی بھی جائے تو جب تک خدا نہیں چاہے گا اس کی ایک رگ بھی نہیں کٹ سکتی “
اور دوسری وہ تمام علتیں جو خدا اور دوسرے معلول کے درمیان ہیں ان کو ”واسطہ“ کہتے ہیں جن کا فعل اور اثر خدا کا فعل واثر ہے او رکسی چیز کا معلول کے وجود کو فیض پھنچانے میں واسطہ ہونا شرکت اورتاثیر میں استقلال کے علاوہ دوسری چیز ہے ۔
مثال کے طور پر ”واسطہ“ اور ”ذی الواسطہ“ کے درمیان موجود نسبت جیسے یہ کہ کوئی انسان کسی قلم سے کوئی چیز لکھ رہا ہو، تو اس کے بارے میں یہ کھنا صحیح ہے کہ قلم لکھ رہا ہے اور ھاتھ بھی لکھ رہا ہے او رانسان بھی لکھ رہا ہے ، جبکہ یہ ایک کام ہے لیکن اس کی نسبت تین چیزوں کی طرف دی گئی ہے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ لکھنے میں مستقل تاثیر انسان کی ہے اور ھاتھ اور قلم لکھنے میں ”واسطہ“ ہےں ”شریک “نھیں ہیں ۔
قرآن کریم میں بھی ایسی بہت سے آیات موجو ہیں جن میں ان تمام اعمال وآثار کی نسبت مخلوق کی طرف دی گئی ہے جبکہ اپنے احتجاج میں علیت او رمعلولیت کے عمومی قانون کو قبول کرتی ہے حالانکہ تاثیر میں استقلال فقط اور فقط خدا سے مخصوص ہے ۔
مثال کے طور پر یہ آیہ شریفہ ”(
وَمَارَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَ لٰکِنَّ اللّٰهَ رَمیٰ“
)
”اے میرے رسول آپ کنکریاں نہیں پھینک رھے تھے خدا کنکریاں پھینک رہا تھا“
اور یہ آیہ مبارکہ ”(
قَاتِلُوهُمْ یُعَذِّبَهم اللّٰهُ بِادِیَکُمْ
)
“
”کفار ومشرکین سے جنگ کرو کہ خداوندعالم تمھارے ذریعہ ان کو عذاب دینا چاہتا ہے “
نیز یہ آیت کریمہ”(
إنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُعَذِّبُهُمْ بِهَا
)
“
”خدا چاہتا ہے کہ ا سکے ذریعہ ان پر عذاب کرے “
لہٰذا وہ تمام چیزیں جو ”وسیلہ“ اور ”واسطہ“ کے سلسلے میں کھی گئی ہیں امام سے حاجت طلب کرنا اس وقت شرک ہوگا جب حاجت طلب کرنے والا امام (ع) کو تاثیر میں مستقل سمجھے او را س کو ذاتی قدرت کا مالک جانے، لیکن اگر خدا کو تاثیر کا مالک سمجھے او راما م کو صرف ”وسیلہ“ او رواسطہ قرار دے، تواس صورت میں واسطہ کو پکارنا بھی صاحب واسطہ (خدا) کو پکارنا ہوگا، جس طرح واسطہ کی اطاعت صاحب واسطہ کی اطاعت ہے جیسا کہ قرآن کریم ارشاد فرماتا ہے :
”(
مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهِ
)
“
”جس نے رسول کی اطاعت کی گویا اس نے خدا کی اطاعت کی “
اس طرح ملائکہ کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے :
”(
لَا یَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُمْ بِامْرِهِ یَعْمَلُوْنَ
)
“
یعنی ملائکہ میں سے کوئی بھی مستقل ارادہ نہیں رکھتا بلکہ یہ وہی ارادہ کرتے ہیں کہ جس چیز کا خدا نے ارادہ کیا ہے ۔
سادہ او رآسان زبان میں عرض کریں : چونکہ انبیاء اور اولیاء علیہم السلام خداوندعالم کے مقرب نبدے ہیں اور خدا کی بارگاہ میں قدر ومنزلت رکھتے ہیں لہٰذا اگر کوئی ان کو کسب فیض میں واسطہ قرار دے اور اس طریقہ سے خداوندعالم سے اپنی حاجت طلب کرے تو اس کا یہ عمل ”شرک“ نہیں ہوگا اور ”توحید“ سے بالکل منافات نہیں رکھتا۔
حقیقت تو یہ ہے کہ کوئی بھی عاقل انسان ”واسطہ“ اور ”وسیلہ“ کو خدا کا شریک نہیں مانتا کیونکہ واسطہ اور وسیلہ ایک ایسا راستہ ہے کہ جس کے ذریعہ توسل کرنے والا متوسل الیہ(خدا) سے ربط دیتا ہے اور عقلی حکم کے مطابق ”رابط“ (رابطہ کرنے والا) ”مقصد اور مقصود “ کے علاوہ ہے ،(یعنی دونوں ایک چیز نہیں ہیں) مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی مالدار اوردولت مند کے سامنے کسی فقیر کے لئے ”شفاعت“ کرے او را سکے ذریعہ سے فقیر کو کچھ دلوائے تو کوئی بھی عاقل انسان بہ نہیں کھے گا کہ جو کچھ فقیر کو ملا ہے وہ دولت مند اور شفیع(دونوں) کا عطیہ ہے بلکہ اس موقع پر یہی کھا جائے گا کہ دولت مند ”صاحب عطا “او رشفاعت کرنے والا ”واسطہ“ اور ”رابط ہے۔
____________________