شیعوں پر وہابیوں کے اعتراضات
شیعہ مذہب کے وجود میں آنے سے متعلق وہابیوں کے اعتراضات
وہابیوں کے اذیت کنندہ اور خائنانہ اعتراضوں میں سے ایک یہ بھی ہے شیعہ مذہب کو یھودیوں سے منسوب ہے، اور تعجب کامقام تو یہ ہے کہ یہی وہ حربہ ہے کہ جسے ”گلدزیھر“جیسے یھودیوں کی خدمت کرنے والوں نے اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ایک افسانہ عبدالله بن سبا کے نام سے بھی گڑھا ہے،اوراس میں اتنا زیادہ دروغ گوئی اورجھوٹ سے کام لیا گیا ہے کہ جسکی حد نہیں ، کبھی تو شیعہ مذہب کو مجوسیوں اور آتش پرستوں کی ایجاد کردہ بتایا ہے تو کبھی شیعہ مذہب کو یھودیوں کی ایجاد بتایاہے تو کسی جگہ پر ”فراماسیو نوں “( تہذیب و تمدن کا نعرہ لگانے والے) کاموجد بتایا گیا ہے ، جبکہ ان کے پاس اس بات کے لئے کوئی دلیل موجود نہیں ہے ، یہ ہے وہابیوں کا واقعی طریقہ کار کہ بغیر ثبوت کے بولتے اور کتابیں لکھتے ہیں اور ایسا ظاہر ہوتاہے کہ گویا انھوں نے شیعوں سے متعلق سارے مسائل اور حقائق کو عالَم غیب سے حاصل کیا ہے اسلئے کسی ثبوت کو پیش کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتے۔
کسی بھی طرح کی کوئی تہم ت لگانے میں دریغ نہیں کرتے ،اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی سند اپنے ان شیطانی اور آزار دھندہ الزامات کے سلسلہ میں پیش کرتے ہیں، در اصل اس مذہب میں فکر اور اندیشہ کی حیثیت ،اوریہ ہے اسلامی وحدت کے شعار اور نعروں کی حقیقت ! اور یہ ہے آزادی و آزادطلبی کی صدا جو کعبہ سے بلند کی جاتی رہی ہے ،بلا وجہ اپنے مخالفین کی فکروں پر پردہ ڈالنا ، گالیاں دینا اور بے ہودہ الفاظ سے یادکرنا در حقیقت یہ ہے اصلاح کا نعرہ لگانے والوں ، توحید کے حامیوں ، دین کی نسبت فکرمند رھنے والوں اور اپنے سلف صالح کی فکروں کو زندہ رکھنے والوں کا طریقہ کار، آپ انصاف سے بتائےں کب پیغمبر(ص) کا طرز عمل ایسا تھا ؟ وہ رسول(ص) جو اپنے پیروکاروں کو غور وفکر ، تدبر اور دلیل سے کام لینے کا حکم دیتا ہے ” قُل ہَاتُوا بُرہَانَکُم اِن کُنتُم صَادِقِینَ۔“
یہ سیاہ قلب ، متعصب اور ملحد گروہ ، خدا کے دین کو اپنی ہوا و ہوس پر قربان کئے ہوئے ہے ، کسی قسم کی کوئی بھی تہم ت لگانے سے دریغ نہیں کرتے ، اسی لئے کہتے ہیں کہ یہ مذہب فراماسونیوں کی ایجاد ہے ، جبکہ وہ بچہ بھی جو مذہب شیعہ کی الفباء کوجانتا ہو ، اس کو معلوم ہے کہ فقط شیعہ مذہب ہی وہ مذہب ہے جو پوری تاریخ میں ظالموں،خفیہ ایجنٹوں سامراجوں کی روٹیوں پر پلنے والوں ، ظالم حکومتوں اور رسول(ص) کی خلافت کو غصب کرنے والوں سے برسرپیکار رہاہے، اور تاریخ میں تجاوز کرنے والوں اور جلادوںسے جنگ کرتا رہاہے ، کیا فراماسیونوں کے ایسے ہی اعمال تھے؟کہ اپنے ھاتھوں ایک ایسا مذہب ایجاد کریں کہ جو خود انہیں سے ہمیشہ برسرپیکار رھے،شیعہ مذہب تو وہ مذہب حقہ ہے جس نے خود ہی فراماسونیوں اور ان کے نوکروں سے جھاد کیا ہے ،وہابی حضرات کی یہ بیھودہ اور باطل باتیں ہماری نظر میں اس قابل ہی نہیں کہ ان کے بارے میں بحث کریں لیکن صرف اسلئے کہ کسی کے ذھن میں کوئی شبہ باقی نہ رھے ، تھوڑی وضاحت کئے دیتے ہیں۔
شیعہ مذہب کا آغاز خود رسول اکرم(ص) کے زمانے سے ہوا
پھلی بار شیعہ مذہب کی ابتدا کی جب شیعہ ”علی (ع)کے شیعہ “ کے عنوان سے مشھور ہوئے ، خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ میں ہوئی ۔
۲۳ سالہ اسلام کی دعوت اور پیشرفت کے پیش نظر ایسے حالات و اسباب وجود میں آئے کہ جسکی بناپر اصحاب(ص) کے درمیان اس شیعہ فرقہ کا وجود میں آنا ایک عادی اور لازمی بات تھی
۱ ۔ قرآن مجید کے صریح اور واضح قول کے مطابق اوائل بعثت ہی میں خدا کی جانب سے رسول(ص) کویہ حکم ہوا کہ اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو اپنے دین کی طرف دعوت دو ، اسی وقت رسول(ص) نے صاف اور واضح لفظوں میں فرمایا:
”(
وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقرَبِیْنَ
)
“(اپنے رشتہ داروں کو ڈراؤ)
” فرمایا: تم میں سے جو بھی میری دعوت اسلام پر لبیک کہنے میں پھل کرے وہ میرا وزیر ، جانشین اور خلیفہ ہوگا ، علی (ع) نے سب سے پھلے اس دعوت پر لبیک کھا اور دین اسلام کو قبول کیا ، رسول(ص) نے بھی آپ کے ایمان کی تصدیق فرمائی اور اپنے وعدے کو پورا کیا۔
جیساکہ یہ بات عادتاً محال و نا ممکن ہے کہ کسی نہضت اور قیام کرنے والے رھبر ، اپنے قیام کی ابتدامیں ہی کسی اپنے ہمایتی کو ، اپنے جانشین کے عنوان سے اعلان کرے ،جبکہ اس سے پوری طرح واقف نہ ہو، اور یہ ممکن نہیں کہ کسی کو اپنے جانشین کے عنوان سے پہچانے اور پہچنوائے ، لیکن اپنی پوری زندگی اسکی جانشین کا کوئی احترام نہ کرے اسکو دئے گئے وظائف جانشینی سے معزول رکھے اور اسکے اور دوسروں کے درمیان کوئی فرق نہ کرے ۔
حضرت علی (ع) کاعلم اور آپ کی عصمت
رسول اسلام(ص) کی متواترہ احادیث میں ہے کہ جسے شیعہ اور سنی دونوں نے نقل کیا ہے ، یہ واضح لفظوںمیں ملتا ہے کہ علی (ع) اپنے قول اور فعل میں خطا اور گناہ سے محفوظ ہیں،
جوبھی علی (ع) کھیں یاکریں ، وہی دین ہے اور شریعت اسلامی کو آپ سے بہتر کوئی نہیں جانتاتھا۔
حضرت علی (ع) کی فداکاریاں اور قربانیاں
حضرت علی علیہ السلام نے بہت اہم خدمات انجام دی ہیں اور حیرت میں ڈال دینے والی قربانیاں پیش کی ہےں مثال کے طور پر ہجرت کی شب
رسول مقبول(ص) کے بستر پر سونا، اور وہ جنگیں (بدر و احد ، خیبر اور خندق )جو آپ کے دست مبارک پر فتح ہوئی ہیں، ان جنگوںمیں سے اگر کسی ایک میں بھی آپ کا وجود مبارک نہ ہوتا تو اسلام دشمنوں کے ھاتھوں پامال اور ہمیشہ کے لئے صفحہ ھستی سے ختم ہوجاتا ۔
غدیر خم کا واقعہ
یہ ، وہ واقعہ ہے کہ جس میں رسول الله(ص) نے علی (ع) کو اپنا جانشین بنایا اور اپنے اختیارات کو آپ کے سپرد کیا۔
ظاہر ہے کہ اسطرح کے فضائل کہ جسکے سامنے سبھی تسلیم تھے ۔
اور حضرت رسول اکرم(ص) کا علی (ع)کی نسبت اظھار محبت کرناکچھ لوگوں پر بہت گران گذر تا تھا۔
جو مزید حسد اور بغض کا سبب بنتاتھا لیکن وہ اصحاب جو حقائق فضائل کے تشنہ تھے ، ان کے عشق میں اضافہ ہوتا تھا اور علی (ع)کی سیرت طیبہ کو اپنا نے کا جذبہ بڑہتا تھا ۔
ان تمام باتوںسے صرف نظر، خود رسول اسلام(ص) کے کلمات میں ” شیعہ علی “ اور ” شیعہ اہلبیت“ کثرت سے ملتا ہے ۔
ابن عباس فرماتے ہیں کہ یہ آیت :
”(
اِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اولٰئِکَ هُم خَیرُالبَرِیَّةِ
)
“
نازل ہوئی تو رسول اسلام(ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:
” اس آیت سے مراد تم اور تمھارے شیعہ ہیں ،جوقیامت میں خوشحال ہوںگے اور خداوند عالم تم سے راضی ہے “ یہ دو حدیثیں ،جو ذکر ہوئیں اور اسکے علاوہ چند روایتیں ” الدّر المنثور“ نامی تفسیرکے جلد ۶ ص ۳۷۹ اور غایة المرام میں ص ۳۲۶ پر نقل ہوئی ہیں ۔
وہ اسباب کہ جنکی بناپر شیعوں کی اقلیّت ، سنّیّوں کی
اکثریت سے جدا ہوئی اور اختلافات ظاہر ہوئے
اگر چہ ہماری بحث اس کتاب میں شیعوں کی شناخت اور شیعیت کی تاریخ سے متعلق نہیں لیکن وہابیوں کے اعتراضات کوردّ کرنے کے لئے ہم مجبور ہیں کہ کچھ شیعوں کی تاریخی حیثیت کا جائزہ لیں ۔
حضرت رسول اکرم(ص) اصحاب اور مسلمانوں کے درمیان ، حضرت علی (ع) کی منزلت اور بزرگی اتنی پر واضح ومسلّم تھی کہ آپ کی محبّت کا دم بھرنے والے اور پیروی کرنے والے اس بات کو بخوبی جانتے تھے کہ رسول اسلام(ص)کی رحلت کے بعد آنحضرت(ص)کے جانشین اور خلیفہ حضرت علی (ع) ہوںگے ، ظاہری حالات بھی ( سواء ے ان مسائل و اختلافات کے جو رسول(ص) کی بیماری کے دوران آخر عمر میں پیش آئے)
پیغمبر اکرم(ص) نے اپنے ا نتقال سے قبل ارشاد فرمایا : مجھے قلم اور دوات دو تاکہ تمھارے لئےحضرت علی (ع) اور آپ کے اصحا ب باوفا کے سامنے اسطرح ظاہر ہوئے کہ جو کرنا تھا کرچکے۔
لوگ کبھی گمراہ نہ ہو ، عمر نے( نوشتہ )لکھنے نہ دیا اور کھا (آپ پر) مرض اور بیماری کا غلبہ ہے (معاذالله) ہذیان بک رھے ہیں ، تاریخ طبری جلد ا ص ۳۳ ا ، ، صحیح مسلم جلد ۵ ، البدایة و النھایة جلد ۵ ص ۲۲۷ اور شرح ابن ابی الحدید جلدا ص ۳۳ ا ، پر ملاحظہ فرمائیں ۔
بہتر ہے کہ ہمارے قارئین جان لیں ،ا گر چہ وہابی حضرات بے اطلاعی کا اظھار کرتے ہیں در اصل وہ حقیقت سے آگاہ ہوناہی نہیں چاہتے ، کہ یہی واقعہ خلیفہ اوّل ( ابو بکر ) کے مرض الموت کے وقت پیش آیا ، جب ابوبکر ، عمر کو اپنے بعد خلیفہ ہونے کے لئے وصیت کررھے تھے اور وصیت کرنے کے دوران بیھوش بھی ہوگئے لیکن اس موقع پر عمر نے کچھ بھی نہ کھا ، یعنی خاموش رھے اور خلیفہ اوّل ( ابوبکر ) کی طرف ہذیان کی نسبت نہ دی ،جبکہ دے سکتے تھے چونکہ وصیت کرنے کے دوران ہی ابوبکر بیھوش ہو گئے تھے ،جبکہ رسول خدا(ص) تو معصوم تھے اور آپ کا ارشاد گرامی بجا اور بموقع تھا ( در واقع رسول(ص) ، حکم الٰھی کی تکمیل فرما رھے تھے،روضة الصفاء ج ۲ ص ۲۶۰ ۔)
ان حالات میں حضرت علی(ع) اور آپ سے عقیدت رکھنے والے جیسے عباس ، زبیر ، سلمان ، ابوذر ، مقداد اور عمار کفن ودفن رسول(ص) سے فراغت کے بعد باخبر ہوئے تو ان حضرات نے اعتراض کیا اور اس سلسلہ میں اعتراض آمیز جلسہ اور جلسات بھی کئے، تو اُدھرسے یہ جواب دیا گیا کہ مسلمانوں کی مصلحت اسی میں تھی ۔
یھی وہ انتقاد اور اعتراض تھا کہ جس نے اقلیت کو اکثریت سے جدا کردیا اورحضرت علی (ع) کی پیروی واطاعت کرنے والوں کو ” علی (ع)کے شیعہ “ کے نام سے پہچانا گیا ، خود ساختہ خلافت بھی وقت کی نزاکت کو مدنظر رکھتے ہوئے بہت ہوشیارانہ طور سے قدم اٹھارہی تھی کہ کھیں ایسا نہ ہو کہ اقلّیت”حضرت علی (ع)کے شیعہ کے نام “ سے مشھور ہوجائیں اور نتیجہ میں دوطرح کا سماج اقلیت و اکثریت کی شکل میں وجود میں آجائے بلکہ خود ساختہ خلافت تو اس بات کی کوشش میں تھی کہ اس غصبی خلافت کوبھی ایک اجتماعی حل سمجھ کر قبول کرلیں اس لئے اعتراض کرنے والوں کو بیعت کا مخالف اور مسلمانوں کی صف سے علیحدہ ہونے والا یا دوسر ے نازیبا اور برے القاب سے یاد کرتے تھے۔
البتہ شیعہ حضرات پیغمبر اکرم(ص) کی وفات کے بعد ہی غاصب حکومت وقت کی سیاست کا شکار ہوگئے اور زبانی اعتراض کے علاوہ مزید کچھ نہ کرسکے اورحضرت علی (ع) نے بھی اسلام اور مسلمین کی مصلحتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اور مخلصین افراد اور دوستوں کی قلّت کے پیش نظر تلوار نہ اٹھائی لیکن اعتراض کرنے والوں نے اپنے سچّے عقیدے کی بناپر اکثریت کے سامنے سرنہ جھکا یا اور پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین حضرت علی (ع) ہی کو مانا اور اپنے علمی مسائل میں صرف حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کرنے کو ہی صحیح سمجھا
اور اپنے علمی اور معنوی مسائل میں فقط حضرت علی (ع) کی طرف رجوع کرتے رھے ، اور لوگوں کواس راہ پر چلنے کی دعوت دیتے رھے۔
قارئین محترم یہ شیعہ مذہب کی پیدائش اورحضرت علی (ع) کی پیروی کرنے والوں سے تاریخ کی مختصر لیکن جامع ورق گردانی تھی ( جو پیش کی گئی ) اور اب ہم وہابیوں کی ان تہم توں اور بے بنیاد باتوں کا جائزہ لیں گے کہ جسکی یہ حضرات علی کے شیعوں کی طرف نسبت دیتے ہیں غورو فکر ” میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑے جارہا ہوں اگر تم ان سے متمسّک رھوگے تو ھرگز گمراہ نہ ہوگے ( اور وہ ) قرآن اور میرے اہل بیت ہیں کہ جو قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے“ یہ حدیث سو سے زیادہ سندوں کے ساتھ ۳۵ صحابیوں نے رسول اسلام(ص) سے نقل کی ہے اور بہتر ہے کہ وہابی حضرات کہ جو صحابہ کی پیروی کا دم بھرتے ہیں اور شدّت کے ساتھ ان صحابہ کی حمایت کرتے ہیں اسطرح کی حدیثوں کو غور سے پڑھیں کہ جسکو پیغمبر(ص) کے بڑے اور با فضیلت اصحاب نے نقل کیا ہے تاکہ مزید اپنی بے عزتی کا ثبوت فراہم نہ کریں اور محققین اور مؤمنین کو اس سے زیادہ زحمت میں نہ ڈالیں( ورنہ مزید رسوائی ہوگی )حدیث ثقلین کے راویوں کے سلسلہ سند کے ارزش مند کتاب بنام” غایة المرام کے ص اا ۲ “ کی طرف رجوع فرمائیں۔
سے کام لیں تا کہ حقیقت آپ پر واضح ہو جائے ، البتہ اس کتاب میں واقعہ کی تفصیل پیش کرنا ہمارا مقصد نہیں ہے ورنہ مناسب تو یہ تھا کہ اس اہم مسئلہ سے متعلق کچھ مزید تفصیل پیش کی جاتی تاکہ حضرت علی(ع) اور آپ کی اولادکی مظلومیت بیان کرتے جو آج بھی پوری تاریخ میں مظلوم ہیں ، اور اب تک وہابیوں کی تہم توں اور غلط بیانی کاشکار ہیں ۔
ہم صرف اتنا ہی کہنے پر اکتفاء کرتے ہیں کہ عبد الله بن سبا کا مسئلہ کہ جسکو وہابی اور ان کے ہم فکر حضرات ،شیعہ مذہب کا موسس اور بانی کہتے ہیں ، اسکی حقیقت ایک افسانہ سے زیادہ کچھ نھیں۔
اگر ہم عبدالله بن سبا نامی افسانہ کو حقیقت فرض کریں تب بھی شیعہ مذہب پر کوئی آنچ نہیں آسکتی اسلئے کہ یہ پاک و پاکیزہ مذہب خود رسول مقبول(ص) کے زمانہ سے ہے اور اسلام و قرآن کی نسبت حضرت علی (ع) کے افکار کے سایہ میں رھنا ہی اس پاک و پاکیزہ شیعہ مذہب کا نصب العین ہے جسکی خود پیغمبر ، نے بارہا تائید اور تصدیق فرمائی ہے
محققین اور مطالعہ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس سلسلہ میں مزید تفصیل کے لئے گرانقدر اور ارزشمند کتاب بنام” عبدالله بن سبا و افسانہ ھای دیگر“ مؤلف محقق بزرگوار علامہ سید مرتضیٰ عسکری دام عزہ کی طرف رجوع فرمائیں ۔
تحریف قرآن کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ
اور وہابیوں کے اعترضات
انھیںتہم توں میں سے ایک باطل بے بنیاد اور محض کذب نسبت وہّابی حضرات شیعوں کی طرف دیتے ہیں ، اور وہ تحریف قرآن کریم کامسئلہ ہے ، اس سے قبل ہم نے قرآن کی تحریف سے متعلق محمدبن عبدالوہاب کاکلام اسکی مشھور کتاب بنام ” الردّ علی الرافضہ “ سے نقل کیا اور اب قارئین کرام کے اذھان کو مزید روشن اور منور کرنے کے لئے نیز یہ ثابت کرنے کے لئے کہ محمد بن عبدالوہاب کی طرف سے لگائی تحریف قرآن سے متعلق یہ تہم ت اور صرف ایک جھوٹ ہے ، شیعوں کے بزرگترین قرآن شناس علماء میں سے ایک عالم بزگوار قرآن شناس اور ہم عصر مفسّر گرانقدر مرحوم علامہ طباطبائی (رہ) کا نظریہ مذکورہ مسئلہ( تحریف قرآن) سے متعلق پیش کرتے ہیں تاکہ جھوٹے رسوا ہوں ، ( اور اگر ذرہ برابر بھی غیرت رکھتے ہوں تو چلو بھر پانی میں ڈوب مریں) اور شیعوں کی طرف مزید ایسی بے بنیاد تہم تیں لگانے کی ہمت نہ کریں ۔
قرآن مجید میں تحریف نہ ہونے کے بارے میں علامہ طباطبائی کا نظریہ
آپ اس سلسلہ میں یوں فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کی تاریخ ، نزول سے لیکر آج تک بہت زیادہ روشن اور واضح ہے قرآن مجید کے سورے اور آیتیں ہمیشہ مسلمانوں کی ورد زبان رہیں اور اسی طرح ایک دوسرے تک پہونچی ہیں ۔
اور یہ بات تو ہم سب کو معلوم ہے کہ دو دفتیوں کے درمیان جو قرآن ہمارے ھاتھوں میں ہے یہ وہی قرآن ہے جو چودہ سو سال پھلے ختمی مرتبت(ص) پر تدریجاً ( تھوڑا تھوڑا کرکے ) نازل ہوا ہے ۔
اس توصیف کے بعد مزید کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی کہ قران مجید کومعتبر جاننے اوراسکی واقعیت کو ثابت کرنے کے لئے تاریخ کا سھارا لیں اگر چہ قرآن مجید کی تاریخ خود اپنے مقام پر واضح اور مسلّم ہے چونکہ جو کتاب خود کلام خدا ہونے کا دعویٰ کرے اور اپنے اس دعویٰ کے صحت اور صحیح ہونے پر آیتیں پیش کرے بلکہ اس سے بھی بڑھکر جنّات اور انسانوں کو للکارتے ہوئے اپنے جیسا( ایک چھوٹا ساسورہ بھی ) لانے سے عاجز بتائے تو اس صورت میں یہ کھنا کہ یہ قرآن کلام خدانھیں ہے اور اس میں تحریف واقع ہوئی ہے ، یا اس طرح کی باتیں کرنا عقل سے بعیدھے، اور جب وہ ( قرآن مجید ) خود اپنے اوپرواضح دلیل ہے تو پھر اسکے صحیح اور معتبر ہونے میں کسی عھدہ دار ، شخص اور دلیل کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی ،یعنی یہ قرآن وہی ہے جو پیغمبر اکرم، پر نازل ہواتھا ، اور ہر طرح کی تحریف سے محفوظ ہے اور اسکی واضح دلیل یہ ہے کہ جو صفتیں اور امتیازات قرآن مجید نے اپنے لئے بیان کی ہیں ( وہ) نور کی کتاب اور ہدایت بنکر نازل ہوئی اور انسانوں کو حق اور حقیقت کی طرف راہنمائی کرتی ہے ۔
دوسری آیت میں یوں ارشاد ہے : میں وہ کتاب ہوں جس میں دوچیزیں بیان کی گئی ہیں ، یعنی ہر اس چیز کا بیان قرآن مجید میں موجود ہے کہ جسکی ،بشرکو اپنی زندگی میں ضرورت پڑ سکتی ہے، البتہ انسان کی فطرت بھی اسکی خواہا ںھو ۔
ایک اور آیہ کریمہ میں یوں بیان ہوا ہے کہ میں خدا کا کلام ہوں اور اگر یہ کھو کہ یہ خدا کا کلام نہیں ہے تو سارے انسان اور جنّات جمع ہو جائیں اور ایسا ہی کلام ( قرآ ن کے مانند )لا کر دکھائیں، یا کوئی شخص پیغمبر(ص) کی طرح لاکر دکھائے جس نے لکھنا پڑھنا نہ سیکھا ہو وہ بھی جاہلیت کے ماحول میں یتیمی کے عالم میں جبکہ کوئی تربیت کرنے والا بھی نہ ہو جس کے سایہ عطوفت میں نشو و نماپائے ( ان سب چیزوں کے باوجود اس سے آیات قرآن کریم جیسے فصیح و بلیغ کلام صادر ہوں ، یا اس کتاب الٰھی میں اس طرح کے طرز بیان میں کوئی اختلاف یا معارف اسلامی اور احکام بیان میں کوئی فرق جو عام طور سے انسانوں کی گفتگو میں نظر آتا ہے ، نہیں دکھاسکتا ( اور ھرگز ایسا کرنے پر کوئی بھی قادر نہیں )
مذکورہ بالا یہ امتیازات اور صفات قرآن مجید ہی سے مخصوص ہیں اور آج تک ( بلکہ قیامت تک ) اسی طرح باقی رہیں گے ۔
قرآن مجیدوہ کتاب ہے جو حق اور حقیقت کی طرف رھنمائی اور ہدایت کرتی ہے ، خود اس کتاب کے واضح بیان میں خدا شناسی سے متعلق مکمل بحث موجود ہے جو دقیق ترین عقلی دلیلوں کے مطابق ہے ، اور انسان کی سعادت مند زندگی کے لئے اہم ترین مرجع اور پناہ گاہ ہے ، حق اور حقیقت کو واضح کرنے والی ہے اور یہ کتاب لوگوں کی نیک نیّتی اور عاقبت کو مد نظر رکھتے ہوئے انہیں ایمان کی طرف دعوت دیتی ہے ۔
قرآن مجید نے انسان کی تمام ضروریات زندگی اور اسکی حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے الله تعالیٰ کی وحدانیت کو اصل اور بنیادقرار دیا ہے اور سارے اعتقادی مسائل کو اس کا نتیجہ بتا یا ہے اور اس سلسلہ میں چھوٹے سے چھوٹے مسائل سب بیان کردئے ۔
انسان میں پسندیدہ اخلاق کو اس مسئلہ اعتقادی کانتیجہ بتایا ہے اور اسکی وضاحت کی ہے اسکے بعد انسان کے انفرادی اور اجتماعی اعمال اور افعال کی طرف توجہ دلاتے ہوئے انسان کی فطرت اور خلقت کے مطابق کلی طورپر اسکے فرائض اور وظائف کو بیان کیا ہے ، البتہ اس سلسلہ میں (انفرادی اور اجتماعی مسائل کے سلسلہ میں ) جزئیات اور خصوصیات کے بیان کو رسول(ص) کے سپرد کیاہے ۔
جملہ کتاب اور سنّت کی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر دین مبین اسلام پر نظر ڈالیں تو اسلام اپنی تمام حیرت انگیز وسعتوں کے ساتھ نظر آئے گا ، وہ دین جس نے انسان کی پوری زندگی کی انفرادی اور اجتماعی ضروریات کو مد نظر رکھا ہے اور سارے انسان اپنی پوری زندگی میں جن مسائل سے دوچار ہوسکتے ہیں ان مسائل کا حل اور اسکے لئے حکم پیش کرتا ہے بغیر اسکے کہ اس کے بیان میں کسی قسم کا تضادنظر آئے ۔
یہ وہ دین ہے کہ جسکی فھرست کا صرف تصور ہی بڑے بڑے حقوق شناس افراد کی حد سے باہر ہے چاہے وہ اپنی پوری زندگی اس مسئلہ ( فھرست ) کو ہی سمجھنے میں صرف کردیں ۔
قرآن مجید کااپنے بیان میں معجزنما ہونا،اور اس کتاب الٰھی کی فوق العادہ طرز گفتگو عربوں کے فصیح و بلیغ دور سے مشابہت رکھتی ہے ، تاریخ کا سنھرا دور تھا جو اس وقت کے عربوں سے مخصوص تھا اور یہ فصاحت اور بلاغت کا دوربمشکل پھلی صدی تک رہ سکا جب اس پھلی صدی میں اسلام کا پر چم دوسری سرزمینوں پر لھرایا تو دوسری زبانوں نے عربی زبان کو متاثر کیا اور اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ عربی زبان بھی دوسری زبانوں کی طرح ایک عام لہجہ اختیار کرگئی اور اپنی فصاحت اور بلاغت کوکھو بیٹھی ۔
اسکے باوجود قران مجید اپنے روش اور اسلوب پر ہوبھوباقی ہے اور اپنے معنوی نقطئہ نظر کے ساتھ ، لفظی لحاظ سے معجزہ ہونے کا دعویدار ہے ۔
جو لوگ عربی زبان سے بخوبی واقف ہیں اور نظم و نثر میں ید طولیٰ رکھتے ہیں وہ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ قرآن مجید کا لہجہ اتنا شیرین اور دل ربا ہے کہ انسان اسکی پور ی زیبائی کو درک کرنے سے عاجز اور اسکی توصیف کرنے سے قاصر ہے ، نہ شعر ہے اور نہ ہی نثر بلکہ دونوں لہجہ ہیں، اور سلیقہ بیان اس طرح اس میں جلوہ گر اور موجزن ہےں کہ شعر سے زیادہ جذابیّت اور نثرسے زیادہ بیان میں روانی واضح طور پر محسوس ہوتی ہے ، قران مجید کی ایک آیت یا ایک جملہ گذشتہ زمانے کے کسی فرد کے خطبوں کے درمیان یا آج کے لکھنے والوں کے مکتوبات کے درمیان چراغ کے مانند ہے جوساری تحریروں پر سایہ فگن ہے ۔
معنوی نقطئہ نظر سے بھی قرآن مجید کا اعجاز پھلے کی طرح آج بھی باقی ہے اور اعتقادات اور اخلاقیات کا وسیع خزانہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسلام کے انفرادی اور اجتماعی قوانین کا ایسا مجموعہ ہے کہ جسکے بنیادی اصول اور کلیات کا سرچشمہ قرآن مجید ہے جسمیں نہ تو کوئی خدشہ ہے اور نہ ہی کوئی تضاداور تناقض کہ اس طرح کامجموعہ تیار کرنا انسان کی صلاحیت سے بالاتر ہے خصوصاً ایسے انسان کے لئے جسکی زندگی کے حالات رسول(ص) کے زمانے جیسے ہوں ۔
وہ بھی ایسی کتاب ( قرآن مجید ) کہ جسکی آیتیں ہم اہنگ اور اسکے اجزاء کا ایک دوسرے سے متشابہ ہونا وہ بھی ۲۳ سال کی مدت میں بحران اور پر آشوب حالات میں سخت ترین اور ناامن ترین حالات میں جو جنگ و جدال اور صلح سے دوچار ہو، تو کبھی خلوت اور تنھائی تو کبھی لوگوں کی کثیر تعداد کے درمیان جسکی کچھ آیتیں سفرکی حالت میں تو کچھ آیتیں حضرکی حالت میں لیکن ان سب کے باوجود آیات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہ ہونا انسان کی توانائی اور اس کی طاقت سے کھیں بالاتر ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ وہ سارے اوصاف جوپیغمبر(ص) پر نازل شدہ کتاب میں موجود تھے وہ ساری صفات اس قرآن مجید میں موجود ہیں جو ہمارے پاس ہے اور اسمیں کسی قسم کی کوئی تبدیلی یا تحریف واقع نہیں ہوئی ہے ۔
ان سب باتوں کے علاوہ خود خداوند متعال نے ہمیں قرآن مجید کے ہر قسم کی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ ہونے کی خبر دی ہے ، جیسا کہ خداوند عالم فرماتاہے:
”(
اِناَّ نَحْنُ نَزَّلنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
)
“
”بے شک ہم نے ہی اس ذکر ( قرآن مجید ) کو نازل کیا ہے اور ہم ہی تو اسکے حافظ اور نگھبان ہیں “
اور ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتاہے :
”(
وَ اِنَّهُ لَکِتَابٌ عَزِیْزٌ َلا یَاتِیهِ البَاطِلُ مِن بَینِ یَدَیهِ وَلاَمِن خَلفِهِ تَنزِیلٌ مِن حَکَیمٍ حَمِیدٍ
)
“
یہ قرآن تو یقینا ایک عالی رتبہ کتاب ہے کہ جھوٹ نہ تو اسکے آگے ہی پھٹک سکتا ہے، نہ اسکے پیچھے سے ( باطل کا اسکے قریب سے گذر ہی نہیں ہوسکتا اور نہ اسکے قبل ہی کوئی کتاب ایسی کتاب آئی ہے جو اسے باطل کرسکے ) اور خوبیوں والے دانا ( خدا) کی بارگاہ سے نازل ہوئی ہے۔
ان مذکورہ آیات کے پیش نظر قرآن مجید بالخصوص اس لحاظ کے تحت کہ خدائے سبحان کی ذات اقدس کی طرف متوجہ کرنے والی حقیقی معارف کی طرف راہنمائی کرنے والی کتاب ہے اور ہر طرح کی تباہ کرنے والی گزند سے خدائے متعال نے اسے محفوظ رکھاہے ، اور یہی خداوند عالم کا وعدہ بھی ہے کہ جسکی بناپر یہ کتاب الٰھی چودہ صدی کے بعد آج بھی سیکڑوں اور لاکھوں دشمنوں کے باوجود محفوظ ہے اور صرف یہی کتاب ( قرآن مجید ) ہی ہے کہ جو اتنا طولانی زمانہ گذارنے کے بعد بھی آج تک بشر کے درمیان محفوظ ہے ۔
تقیہ کے بارے میں شیعوں کاعقیدہ
اور وہابیوں کے اعتراضات
وہابیوں کے اعتراضوں میں ایک یہ بھی ہے کہ شیعہ تقیہ کے قائل ہیں ، یہ کم فکر اور نافہم افراد یہ سوچتے ہیں کہ تقیّہ یعنی جھوٹ بولنا ، اور تقیہ کے جائز ہونے کو جھوٹ کا جائز ہوناسمجھتے ہیں، ایسا لگتا ہے اسلام کے اتنے اہم حکم شرعی جسکے آثار اور فوائد بھی بہت ہیں اور حسّاس ترین شرائط میں راہگشا ہے ، جس کو وہ سمجھ ہی نہیں سکے ہیں اس لئے شیعوں پر شریعت کی مخالفت اور خدا و رسول(ص) کی طرف جھوٹ کی نسبت کا الزام لگاتے ہیں ، جیسا کہ ہم نے اس سے پھلے وہابیت کی بنیاد رکھنے والے کا قول اس سلسلہ میں آپ کے لئے نقل کیا لیکن اس جگہ پر تقیہ کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ سے متعلق کچھ توضیحات پیش کررھے ہیں ( تاکہ کسی قسم کاکوئی شبہ باقی نہ رہ جائے )
حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے معتبر سندوںکے ساتھ نقل ہوا ہے کہ آپ نے فرمایا:
”اَلتَّقِیَّةُ دِینِی وَ دِینُ آبَائِی وَ مَن لاَ تَقِیّةَ لَهُ لَا دِینَ لَهُ
“
”تقیّہ ہمارے اور ہمارے آباء و اجداد کا دین ہے جو تقیہ سے منھ موڑے اور گریز کرے وہ بے دین ہے یھاں پر امام (ع)نے تقیہ سے متعلق عقیدہ کو دوسرے عقائد کی فھرست میں شمارفرمایاہے۔
جب بھی کسی انسان کو کوئی ایسا خطرہ در پیش ہو کہ جس کی بناء پر وہ اپنی جان اور مال کے بارے میں اپنے عقیدہ کو ظاہر کرنے کی وجہ سے خوف محسوس کرتا ہے تووہ ہر حال میں اپنے عقیدہ کو چھپائے گاتاکہ اپنے کو خطرات سے محفوظ رکھ سکے اور یہ ایک ایسی چیز ہے کہ جسکی انسان کی فطرت اور عقل گواہی دیتی ہے ، تو پھرہم یںیہ جان لیناچاہئے کہ تقیہ کا حساب جھوٹ اور ڈر سے جدا ہے بلکہ تقیہ ایک ایسا طریقہ ہے کہ جسکے ذریعہ انسان اپنے رازوں کو پوشیدہ رکھ سکتاہے اور یہ بات وہابیوں کے اس دعوے کے بالکل خلاف ہے کہ جسکی نسبت وہ شیعوں کی طرف دیتے ہیں چونکہ یہ ( تقیہ کا طریقہ ) نہ تو عقل کے خلاف ہے اور نہ ہی شرع مقدس کے ، اس لئے کہ دشمن کے مقابلہ میں اسرار ( رازوں ) کو چھپانا چاہئے تاکہ قدرت اور قوت کے ساتھ اپنی او راپنے دین کی حفاظت کر سکےں اور خدا کی راہ میں جھاد کا باب بھی ہمیشہ کھلا رھے یہ کھاں بزدلی اور جھوٹ ( جو ایک بڑی اور ناپسند عادت ہے )ھے ؟!
یہ بات سب پر واضح ہے ائمہ (ع) اوران کے پیروکار ہمیشہ ہر زمانہ میں حوادث ،طوفانوں اور سختی میں رھے ہیں ، اس لئے ناچاری صورت میں بہت سے مواقع پر یہ ضروری تھا کہ تقیہ سے کام لیں اور اپنے اعمال اور عقائدکو مخفی کر کے اپنے کو دشمن کے خطرات سے محفوظ کر سکیں اور اگر ایسا نہ کرتے تو دنیا وی اور دینی نقصانات سے دوچار ہوتے ، اس لئے فقط شیعہ اثناء عشری حضرات ہی (یعنی ایثارگر ) تقیہ کے عنوان سے پہچانے گئے اور جھاں جھاں تقیہ کی بات ہوتی ہے شیعیت کا اس کے ساتھ چولی دامن کا ساتھ رہا۔
البتہ یہ جان لینا ضروری ہے کہ تقیہ واجب ہونے اور نہ ہونے کے اعتبارسے جب ضرورت ہو ( خوف اور نقصانات ) جو احکام ہیں اسے شیعہ فقھاء ( کثرالله امثالہم ) نے اپنی فقھی کتابوں کے مخصوص ابواب میں بحث کی ہے ۔
ایسانھیں ہے کہ تقیہ ہر جگہ واجب ہو بلکہ کبھی تقیہ جائز ( مستحب ، مباح اور مکروہ ) ہوتاہے اور بعض اوقات تقیہ نہ کرنا واجب ہو جاتاہے اور یہ مقام اس وقت ہے جبکہ حق کے اظھار سے دین کی مدد ہو نیز جھاد اور اسلام کی خدمت درکار ہو ، ایسے مقامات پر جان اور مال کو اہم یت نہیں دیناچاہئے بلکہ جان و مال کو دین پرفدا کردیناضروری ہے اور یہ وہ چیز ہے جس کے ا دراک سے وہابی حضرات عاجزھیں لہٰذا تقیہ کے مسئلہ میں شیعوں کے مقصد سے غافل رھے ہیں فقط شیعوںکی تکفیر اور تقسیق کو ہی اپنا شیواقرار دیاہے ، یہ ہے وہابیوں میں حقیقت جوئی اور تحقیق کی منزل ۔!
کبھی ایسا بھی وقت آتا ہے جھاں تقیہ کرنا حرام ہوتاہے مثلاًایسے موقع پر تقیہ کرنا جو کسی مؤمن کے قتل کا سبب بنے یاباطل کی ترویج ، دین میں فساد یا ایسا نقصان جوناقابل برداشت ہو یا اگر اس سے چشم پوشی کی جائے تو گمراہی یا ظالم کے تجاوز کا سبب بنے اور یہ بھی ان ہی چیزوں میں سے ہے جس سے وہابی غافل رھے ہیں اور جھل و نادانی کی بناپر شیعوں پر غلط نسبتیں دیتے ہیں اور تہم ت و جھوٹ جیسے ناروا الزامات کے لئے زبان درازی کرتے ہیں ۔
تقیہ کے بارے میں شیعوں کا نظریہ
تقیہ کے بارے میں شیعوں کا ھرگز یہ نظریہ نہیں ہے کہ اسکے ذریعہ کوئی مخفی گروہ بربادی اور تباہی کے لئے تیار کریں جیسا کہ بعض دشمنوں اوروہابی فرقہ کاکھنا ہے، یہ جاہل او ردل کے اندھے بجائے اسکے کہ تقیہ کے بارے میں کوئی تحقیق کرنے یا اسکے مقامات کو در ک کرنے کی کوشش کرتے، تقیہ کے بارے میں ایسا جاہلانہ تصور لیکر بیٹھ گئے اور اپنے کو تحقیق کرنے کی زحمت دینا گوارا نہ سمجھا تاکہ تقیہ کے بارے میں شیعوں کے صحیح نظریہ کو خود شیعوں کی معتبر کتابوں سے حاصل کرتے اور اس عظیم مسئلہ کو درک کرنے کی کوشش کرتے۔
نیز تقیہ کامقصد اور غرض یہ بھی نہیں ہے کہ دین اور اسکے احکام کو ایک پوشیدہ راز کی طرح چھپا کررکھاجائے اورکسی غیر شیعہ کے لئے اس پوشیدہ راز کو فاش نہ کیا جائے ایسی صورت میں اسلام کی تبلیغ جیسے فریضہ کا انجام کیا ہوگا ؟ہمارا فریضہ ہے کہ اسلام کو اسکے محاسن کے ساتھ پیش کریں، چنانچہ شیعوں کی فقھی اور کلامی کتابوں نے تقیہ کو اس طرح پیش کیا اور پہچنوایا ہے جبکہ اسلام کی تبلیغ کو اہم وظائف میں شمار کیا ہے ۔
جس تقیہ کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو مخالفین شیعیت نے اپنے لئے ثبوت کی حیثیت دی ہے تاکہ تقیہ کو غلط طریقے سے پیش کرکے شیعوں کے خلاف زبان درازی کرسکیں گویا ان کے عداوت اور نفرت کے شعلے خاموش نہ ہوں گے مگر اس صورت میں کہ شیعہ تقیہ کرنا ترک کردیں اور اپنے کو دشمنوں کے ہجوم سے محفوظ نہ کرسکیں اور ان کی گردنیں اسلام کے بڑے دشمنوں یعنی بنی امیّہ اور بنی عباس کے نا خلف اولادوں کے خنجروں کے نیچے آجائے تا کہ کلی طور پر شیعیت کا خاتمہ ہو جائے اور ان کی نسل باقی نہ رھے ،اس زمانہ میں جب کہ شیعہ ہونا ہی ان کے خون بھانے کے لئے آل محمد(ص) کے دشمنوں یعنی بنی امیّہ ، بنی عباس اور عثمانیوں کے ھاتھوں کافی تھا تو اس تقیہ جیسے معقول طریقے کے علاوہ کون سی چیز اس بے دفاع اقلیت ( شیعیت ) کو محفوظ کرسکتی تھی ، لہٰذا تقیہ ہی وہ چیز تھی کہ جس کی وجہ سے یہ نورانی اور مقدس مذہب تاریخ میں نور افشانی کررہا ہے۔
جوشخص ہمیشہ اعتراض تراشی کی فکر میں رہتاہے اور چاہتا ہے کہ موضوع تقیہ کو اعتراضات کی وجہ قرار دیکراس تصورمیں رھے کہ تقیہ دین کی نظر میں مشروع اور درست نہیں ہے تو ہم اس سے کھیں گے کہ :
اول : ہم اپنے ائمہ(ع) کے پیروکار ہیں اور ان حضرات کے ہدایت کردہ راستوں کو اپناتے ہیں ، اور ائمہ(ع) (ع) نے ضروری موقع پر تقیہ کا حکم فرمایاہے اور ان حضرات کی نظر میں تقیہ، دین کا جزء ہے جیسا کہ ہم نے پھلے بھی عرض کیا کہ امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں :
” من لا تقیّة لہ لادین لہ “ ( جو تقیہ نہ کرے وہ بے دین ہے )
دوم: تقیہ کے مشروع ہونے کے سلسلہ میں قرآن مجید میں واضح طور پر بیان موجود چنانچہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے جو بھی ایمان لانے کے بعد خداوند عالم کامنکر ہو جائے یا کفر اختیار کرے ”(
اِلَّا مَن اُکرِهَ وَ قَلبُهَ مُطمَئِنٌّ بِالِایمَانِ
)
“
”جو شخص جبر اور اکراہ ک&# ۱۷۴۰; صورت میں منکر(خدا) ہوں، لیکن ان کے دل میں ایمان کی شمع روشن ہو“ سوائے ان کے ان پر خداوند متعال کا غضب ہو ۔
&# ۱۷۴۰;ہ آیہ شریفہ عماریاسر کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہ آپ نے کفار کی ڈر سے کفر کا اظھار کیا در حالیکہ ان کا دل ایمان سے مالامال تھا ، اور اس آیہ کریمہ اور گفتار رسول اسلام کی روسے وہ معذور اور بے گناہ پہچانے گئے۔
الله تعالیٰ سورہ آل عمران کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
” کہ مؤمنین ، کو چھوڑ کے کافروں کو اپنا سرپرست نہ بنائیں او رجو ایسا کرے گا تو اس کا خدا سے کوئی سروکار نہیں :
”(
اِلّا انْ تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً
)
“ مگر یہ کہ دشمنوں سے تقیہ کریں۔
( اس ظاہر ی صورت میں ان سے دوستی کے اظھار میں کوئی مانع نہیں ہے )
خداوند عالم سورہ غافر کی ۲۸ ویں آیت میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَقالَ رَجُلٌ مومِن آلِ فِرعَونَ یَکتُمُ اِیمَانَهُ
)
“
”اور فرعون کے لوگوں میں ایک ایماندار شخص ( حزقیل ) تھا جو اپنے ایمان کو چھپائے رہتاتا تھا“
جیسا کہ آپ حضرات نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں تقیہ کے جواز کی طرف اشا رہ موجود ہے۔
قرآن کے ظاہر و باطن کے متعلق شیعوں کا نظریہ
اور اس سلسلہ میں وہابیوں کے شبھات
اعتقادکی اہم بحثوں میں جو فلسفہ اور عرفان شیعیت میں ایک بلند و بالامقام اور ایک مخصوص اور ممتاز درجہ رکھتی ہے ،قرآن مجیدکے ظاہر وباطن بلکہ عالم وجود کاظاہر وباطن مسئلہ ہے شیعہ فلاسفہ اور علماء عرفان حضرت رسول(ص) اورائمہ کی پیروی کرتے ہوئے ظاہر اور باطن قرآن کے قائل ہوئے ہیں ، چنانچہ عالم ھستی کے لئے بھی ظاہر اور باطن کو تسلیم کرتے ہیں ۔
لیکن ظاہر پرست اور نا فہم منجمد وہابی ان اہم اور عمیق مطالب کے منکر ہیں ہمیشہ کی طرح گویا تہم ت ، تکفیر اور نا سزا الفاظ کہنے کے علاوہ ان کے پاس کچھ بھی نہیں ہے گویا ان کے ھاتھ چھوٹے اور کھجوربہت اونچائی پرھے اور بقول مولانارومی :
دانہ ہر مرغ اندازہ وی است
طعمہ ہر مرغ انجیری کی است؟!
” پرندہ کے لئے دانہ اس کے اندازہ کے مطابق ہے ، مرغیوں کے لئے انجیر بطور غذا کیسے فراہم ہو سکتی ہے “
فلسفہ اور عرفان کے عمیق مسائل سے ان کاکیا ربط یہ لوگ تو تشبیہ ، تجسّم ،جبر اور قدر کے متعلق چند حدیثوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور اسلامی معارف سے متعلق انہیں مزید کچھ نہیں معلوم ، حقیقت تو یہ ہے کہ وہابیت جیسا سست اور سطحی مذہب کیونکر اس قدر دقیق و فلسفی اور عرفانی مطالب کو درک کرسکتا ہے ۔
حلّاج برسردار این نکتہ خوش سراید
کز شافعی می پرسد امثال این مسائل
”ہم اس سلسلہ میں شیعہ مذہب کے نورانی اصول کی وضاحت کی خاطر مختصراً پیش کررھے ہیں اور مفصّل بحث اس موضوع سے متعلق کسی دوسرے وقت کے لئے چھوڑتے ہیں ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
”(
وَ اعبُدُوا اللهَ وَلاَتُشرِکُوا بِهِ شَیئاً
)
“
”اور خدا ہی کی عبادت کرو اور کسی کو اسکا شریک نہ بناؤ“
اس کلام سے ظاہر تو یہ ہے کہ معمولی بتوں کی عبادت و پرستش کرنے سے روکاجارہاہے ، چنانچہ الله تعالیٰ کا فرمان ہے : ” فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الَاوثَانِ “
”پلیدی اور کثافت سے دور رھو ،یعنی بتوں کی پلیدی اور کثافت سے دور رھو۔
لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تبوں کی عبادت سے اسلئے روکا گیا ہے چونکہ یہ خداوند عالم کے سوائے کسی اور کے سامنے خضوع اور خشوع ہے ، اوربت کی عبادت اور پرستش میں کوئی خاص چیز نہیں ہے اور یہ بالکل بے فائدہ ہے ، جیسا کہ الله تعالی ٰ نے شیطان کی اطاعت کو اسکی پرستش بتایا ہے ،فرماتا ہے:
” اَلَم اَعہَد اِلَیکُم یَا بَنِی آدَمَ اَن لَّا تَعبُدُوا الشَّیطَانَ “
” اے اولاد آدم !کیا میں نے تمھارے پاس یہ حکم نہیں بھیجاکہ ( خبردار ) شیطان کی پرستش نہ کرنا “
اگر اسے دوسرے لحاظ سے دیکھا جاے تو اس بات کا اندازہ ہوجائیگا کہ اطاعت اور سر تسلیم کرنے میں خود انسان کے در میان اور اسکے علاوہ کوئی فرق نہیں ہے چنانچہ کسی غیرکی پیروی اور اطاعت کرنا صحیح نہیں ہے، اور نہ ہی خداوند عالم کے مقابلہ میں اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کرنا ہی درست ہے۔
جیسا کہ خدا وندکریم نے بطور اشارہ فرمایا ہے:
” اَفرَاَیتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰہَہُ ہُوَاہُ“
”کیا تم نے اس شخص کوبھی دیکھا جس نے اپنے نفسانی خواہش کو اپنا معبود بنا رکھا ہے ۔“
اور اگر اس مسئلہ کی دقّت سے تحقیق وبررسی کریں تو معلوم ہوگا کہ خداوند عالم کے علاوہ کسی غیر کی طرف توجہ نھیںکرنا چاہئے اور اس معبود و رب ذو الجلال سے غفلت نہ کرنے کا حکم ہے چونکہ خدا کی ذات کے علاوہ کسی غیر کی طرف توجہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ شئی مستقل ہے اور اس شئی کے سامنے خضوع کرنا ، انکساری سے پیش آنا، نا درست ہے اور غیر خدا کی طرف توجہ نہ کرنا ہی ایمان اور روح عبادت اور پرستش ہے جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے :
”(
وَ لَقَد ذَرَانَا لِجَهَنَّمَ کَثِیراً مِّنَ الجِنِّ وَ الِانسِ
)
“ یھاں تک کہ فرمایاہے کہ
”(
اُولٰئِکَ هُمُ الغَافِلُونَ
)
“
”اور گویا ہم نے خودبہت سے جنّات اور آدمیوں کو جھنّم کے لئے پیدا کیا ، اور یہی لوگ ( مورد حق سے ) بالکل بے خبر ہیں ۔
چنانچہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آیہ کریمہ ”(
وَلاَ تُشرِکُو بِهِ شَیئاً
)
“ سے ابتدائی طور پر یہ ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ بتوں کی عبادت اور پرستش نہیں کرنا چاہئے اور وسیع نظر سے کام لیں تو یہ کہہ سکتے ہیں کہ انسان خداکے علاوہ کسی کی پرستش نہ کرے اور اس سے بھی زیادہ وسعت نظری یہ ہے کہ انسان کا جیسے دل چاہے اسطرح نہ رھے اور اس سے بھی وسعت نظر کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ انسان کو خداوند منّان سے غافل نہیں ہو نا چاہئے اور اس ذات حق کے علاوہ کسی کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہئے ۔
اور یہی ترتیب یعنی آیہ کریمہ کے ابتدائی اور عام فہم معنی کا ظاہر ہونا اسکے بعد اس سے زیادہ وسیع معنی، اور اسکے بعد ایک معنی کا وجود میں آنا اور ظاہر ہونا پھلے معنی کے پیش نظر، اور یہ سلسلہ پورے قرآن مجید میں جاری اور ساری ہے ، اگر اس کے معنی میں غور و فکر کریں کہ جو پیغمبر اسلام(ص) سے منقول اور حدیث و تفسیر کی کتابوں میں موجود ہے:
”اِنَّ لِلقُرآنِ ظَهراً وَ بَطناً وَ لِبَطنِهِ بَطناً اِلیٰ سَبعَةِ اَبطُنٍ
‘ ‘
”قرآن کریم کے ظاہر وباطن ہے اور اس کے بطن کے لئے بھی سات بطن ہیں“
سے بات واضح ہو جاتی ہے ۔
لہٰذا مذکورہ بالا مطالب کے مد نظر ، قرآن مجید میں ظاہر و باطن دونوں معنی استعمال ہوا یہ دونوں معنی ایک ہی ردیف میں ہیں نہ کہ ایک دوسرے کے مقابلہ میں نہ تو ظاہر لفظ باطنی معنی کی نفی کرتا ہے او رنہ ہی معنی باطنی ظاہری ارادہ کے لئے مزاحم ہے۔
مسئلہ رجعت سے متعلق وہابیوں کی فتنہ گری
رجعت کے بارے میں شیعوں کا عقیدہ ، شیعوں کے اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے شیعوں کے بڑے بڑے علماء اور شیعہ محققین نے رجعت سے متعلق بہت سی کتابیں لکھی ہیں ، یہ مسئلہ توشیعوںکے افتخارات میں سے ہے ، یہ مسئلہ توشیعوں کے عمیق دشوار اور فلسفی مسائل میں سے ہے جسے وہابی حضرات درک کرنے اور سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے،ھنسی اڑانے ، تہم ت لگانے اور برے الفاظ کہنے کہ سوا اُن کے پاس کوئی چارہ نہیں اور اس طرح اپنی آبرو عزت کھونے کے علاوہ ان کے پاس کوئی اور کام نہیں ، ان کے یھاں فلسفہ کے سست مبانی ایسے سنگین اور دشوار فلسفی مسائل کو برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔
لیکن بحمد للہ شیعوں کے یھاں ایسے سخت اور دشوار مسائل کا حل بخوبی موجود ہے اور شیعوں کی طرف سے اس سلسلہ میں مناسب جوابات دئے گئے ہیں ،ہم قارئین کرام کی مزید اطلاع کے لئے اس اہم مسئلہ کے بارے میں اختصارکے ساتھ کچھ وضاحت پیش کرتے ہیں۔
ان عقائد میں سے جس کے شیعہ اثناعشری اہلبیت (ع) سے منقولہ روایات کی بناپر معتقد ہیں ، رجعت کا عقیدہ ہے یعنی خداوند متعال کچھ مردوں کو اسی صورت اور جسم کے ساتھ دوبارہ زندہ کرکے دنیا میں پلٹا ئے گا اور ایک گروہ کو عزت و بزرگی سے سرفراز کرے گا اور دوسرے گروہ کو ذلیل ، خوار اور رسوا کرے گا ، اور اس دن حق پرستوں کے حق کو باطل پرستوں سے اور اسی طرح مظلوموں کے حق کوستمگروں سے لے گااور یہ مسائل امام زمانہ (ع) کے ظھور مبارک کے بعد وجود میں آئیں گے۔جولوگ مرنے کے بعد زندہ کرکے دنیا میں پلٹائے جائیں گے وہ کوئی معمولی لوگ نہ ہوں گے بلکہ یا تو ایمان کے اعلیٰ درجہ پر فائز ہوںگے یافساد کے اعلیٰ درجہ پر کہ ایک مدّت کے بعد زندہ کئے جائیں اسکے بعدجس جزاء اور سزا کے مستحق ہوں گے وہ ان کو دی جائےگی اور اس کے بعد دوبارہ ان کی روحیں قبض کرلی جائیں گی پھر قیامت وحشر ونشر کے دن انہیں زندہ کیا جائے گا۔
چنانچہ خداوند عالم نے قرآن مجید میں ان لوگوں کی آرزو کو نقل فرمایاہے کہ کچھ لوگوں کوخداوند متعال نے مرنے کے بعد زندہ کیا لیکن دوبارہ دنیا میں آنے کے بعد بھی انھوں نے اپنے امور کی اصلاح نہ کی اور خداوند قدوس کے احکام کونظرانداز کرتے رھے ایسے لوگ مرنے کے لعد تیسری مرتبہ زندہ کئے جانے کی درخواست کریں گے تا کہ اس تیسری مرتبہ میں صالح بن جائیں ، اس آیت شریفہ میں ارشاد ہوا :
”(
قَالُوا رَبَّنَا اَمتّنا اثنَتَینِ وَ اَحیَیتَنَا اثنَتَینِ فَاعتَرَفنَا بِذُنوبِنَا فَهَل اِلیٰ خُرُوجٍ مِّن َسبِیلٍ
)
“
”
پروردگار تو ہم کو دوبار مارچکا ہے اور دوبار زندہ کرچکا ہے تو اب ہم اپنے گناہوں کا اقرار کرتے تو کیا (یھاں سے )نکلنے کی بھی کوئی سبیل ہے“
جی ہاں قرآن مجید میں رجعت ( مرنے کے بعد ایک مدّت کے لئے دوبارہ زندہ کیا جانا) کے واقع ہونے سے متعلق آیات موجودھیں اور اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم(ص) کے گھرانے سے بہت سی روایتیں ہم تک پہونچی ہیں ، سبھی شیعہ اثنا عشری رجعت پر عقیدہ رکھتے ہیں ۔
کم ہی لوگ ایسے ہیں جھنوں نے رجعت سے متعلق آیتوں اور روایتوں کی تاویل کی ہے اوریہ کہتے ہیں کہ رجعت سے مراد حکومت کی بازگشت اور امر بالمعروف ونھی از منکر کا حضرت مھدی(ص) کے ظھور کے وقت اہل بیت (ع) کے ھاتھوں اجرا ہونا ہے ،بغیر اسکے کہ کوئی مردہ ، زندہ کیا جائے۔
رجعت کے مسئلہ سے متعلق مزید تحقیقات
اگر چہ حضرات اہل سنت بھی رجعت پر عقیدہ نہیں رکھتے لیکن فی الحال اس کتاب میں ہماری گفتگو وہابیوں سے ہے کہ جو اہلسنّت حضرات کوبھی مشرک اور بدعت کی بنیادرکھنے والے اور صرف اپنے کو توحید کا اہل سمجھتے ہیں۔
البتہ یہ بتا دینا ضروری ہے کہ اہل سنت کے مصنفین اور رجال روایات کی شرح کر نے والے رجعت کے عقیدہ کو طعنہ زنی کی علامت سمجھتے ہیں اور ان روایات کو غیر معتبر جانتے ہیں جو رجعت کے سلسلہ میں ہیں اس لئے ایسی غیر معتبر روایتوں کے مضمون کی بھی نفی کرتے ہیںیھاں تک کہ بعض انہیں میں سے رجعت کے عقیدہ کو کفر و شرک بلکہ اس سے بھی زیادہ برا سمجھتے ہیں اور یہی اعتقاد رجعت پربڑے اعتراضوں ، انتقادوں اور اشکالوں میں سے ایک ہے ،جس کو لے کر برادران اہلسنت شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں ۔
لیکن جب کہ ہم نے اوپر ذکر کیا کہ فی الحال ہماری گفتگو و ھابیوں سے ہے جونہ سنی ہیں اور نہ شیعہ ، ورنہ ہمارے اور اہلسنت حضرات کے مشترکات اتنے زیادہ ہیں کہ بحمد الله اس زمانہ میں بالخصوص ایران اسلامی انقلاب کے بعد ایک صف ہے جو دشمنان اسلام کے خلاف نبرد آزما ہیں ۔
اس میں شک نہیں کہ یہی مطالب ان بے اساس اور گمراہ کن دستاویزوں سے ہے جس کو بعض لو گ جو بظاہر مسلمان جیسے وہابی حضرات نے شیعوں کے خلاف ،لعن و طعن اور شیعیت کو رد کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے ، لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ جو چیزان دستاویزوں کی تصدیق کرے ، ان کونظر نہیں آتی ،جبکہ رجعت کا عقیدہ کسی بھی طرح خداشناسی ، توحید اور نبوت کے عقیدہ کو خراب نہیں کرتا بلکہ ان دونوں عقیدوں کی تقویت کا سبب ہے چونکہ رجعت ( مردوں کا زندہ ہونا ) جیسے حشر اور نشر وغیرہ خداوند عالم کی قدرت کاملہ کی نشانی ہے اور ان غیر عادی امور میں سے جو پیغمبر اور آل پیغمبر کے معجز وں میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
درحقیقت رجعت ایک معجزہ یعنی مردوں کو زندہ کرنا ہے جیساکہ حضرت عیسیٰ (ع)انجام دیتے تھے بلکہ یوںکھا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا کہ یہ معجزہ ، رجعت میں زیادہ رساں اور تکمیل کی منزل میں ہے چونکہ رجعت یعنی مردوںکا زندہ ہونا ، اسکے بعدکہ وہ سڑ گل کر ہڈی ہو گئے ہوں گے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہو تا ہے:
”(
قَالَ مَن یُّحیِی العِظَامَ وَ هِیَ رَمِیمٌ قُل یُحیِیهَاالَّذِی اَنشَاهااَوَّلَ مَرَّةٍ وَ هُوَ بِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٍ
)
“
” ایک منکر سڑی گلی ہڈی کو دکھلا تے ہوئے کہنے لگا ، بھلا جب یہ ہڈیاں ( سڑگل کر) خاک ہوجائیں گی تو (پھر) کون ( دوبارہ ) زندہ کرسکتا ہے ( اے رسول(ص)) تم کھدو کہ اسکو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو ( جب یہ کچھ نہ تھے ) پھلی مرتبہ زندہ کردکھایا وہ ہر طرح کی پیدایش سے واقف ہے ۔
( اس بناپر رجعت کا عقیدہ شرک اور کفر سے کسی بھی طرح کی شباہت نہیں رکھتا تا کہ کفر و شرک یا اس سے بدتر کھا جائے ) کچھ لوگوںنے رجعت کے عقیدہ کو باطل قرار دینے کے لئے ایک دوسرا راستہ اختیار کیا ہے ، کہ رجعت ایک قسم کا تنا سخ ہے جس کا باطل ہونا مسلّم طور پر ثابت ہے ، در اصل ( رجعت سے متعلق ) جن حضرات کا یہ تصور ہے انھوں نے تناسخ اور جسمانی معاد کے فرق کو نہیں سمجھا ہے ، رجعت جسمانی معاد کی قسموں میں سے ہے جبکہ تناسخ کے معنی یہ ہیں کہ روح کا ایک جسم سے دوسرے جسم میں منتقل ہونا اور یہ کہ روح کاپھلے جسم سے جدا ہونا ۔
لیکن معاد یعنی روح کا پھلے بدن میں ہی دوبارہ واپس آنا اپنی تمام پرانی خصوصیات کے ساتھ اور رجعت کے معنی بھی یہی ہیں ۔اگر رجعت کے معنی تناسخ کئے جائیں تو اسکا لازمہ یہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ (ع) کامردوں کو زندہ کرنابھی تناسخ ہو، یا حشر و نشر اور جسمانی معاد کاموضوع بھی تناسخ ہو ، جبکہ ایسا ھرگز نہیں ہے۔خلاصہ یہ کہ رجعت پر دو طریقے سے اشکال اور اعتراض کئے گئے ہیں ۔
پھلااعتراض : یہ کہ رجعت کا واقع ہونا محال ہے ۔
دوسرا اعتراض: یہ کہ جو روایتیں رجعت کے بارے میں ہیں ، وہ بے بنیاد ہیں ۔
پھلے اعتراض کا جواب
با لفرض اگر ان د و اعتراضوں کو رجعت کے متعلق تسلیم کربھی لیا جائے اسکے باوجود رجعت کا معتقد ہونا اتنا زیادہ قبیح نہیں کہ وہابی مسلک اسے لے کر شیعوں سے اپنی دشمنی نکالیں اور اسے دستاویز قرار دے کر شیعوں کے خلاف پروپیگنڈا کریں ۔
اسلامی فرقوں کے درمیان کتنے ایسے عقائد نظر آتے ہیں کہ جو محال اور ناممکن ہیں جسکی تشریح اور تصریح بھی علماء اسلام نے کی ہے لیکن پھر بھی یہ ان کے اسلام سے خارج ہونے کا سبب نہیں بن سکتا اور اس بات کی وضاحت بہت سی مثالیں موجود ہیں کہ چند ایک کو ذیل میں ذکر کرتے ہیں مثلاً :
ا۔ یہ اعتقاد کہ پیغمبر بھی سھو و نسیان سے دوچار ہوتے ہیں اور گناہ کرتے ہیں ۔(معاذ اللہ)۔
۲ ۔یہ عقیدہ کہ قرآن ، قدیم ہے ۔
۳ ۔رسول الله(ص) نے اپنے بعد کسی کو جانشین کے عنوان سے معین نہیں کیا ۔
جبکہ اس طرح کے اعتراضوں کے علاوہ کوئی حقیقت اور بنیاد نہیں ہے البتہ ان حضرات کا یہ کھنا کہ رجعت محال اور ناممکن ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ رجعت ، حشر ونشر اور جسمانی معاد کی ایک قسم ہے صرف اس فرق کے ساتھ کہ رجعت کا زمانہ اس دنیا میں ہے ادر جو دلیل جسمانی معاد کے لئے ہے وہی رجعت کے لئے بھی ہے اور کوئی وجہ ایسی نہیں کہ جسکے ذریعہ رجعت کو بعید از امکان یا تعجب کا سبب قرار دیا جائے ،یہ ضرور ہے کہ رجعت (مردوں کازندہ ہونا ) کا موضوع عادتاً جانا پہچانا نہیں چونکہ زندگی میں اس موضوع سے ہمارا کوئی سروکارنہیں ہے اس لئے ہم اس سے نامانوس ہیں اور کوئی ایسے علل ، اسباب اور موانع نظر نہیں آئے جو ہمیں اس عقیدہ سے نزدیک یا دور کریں ۔
اور انسانی ذھن ا دراک کی قدرت مانوس اور بے گانہ امور کی تصدیق کرے ، یہ ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی کھے کہ ہمارے لئے بعث ، حشر و نشر کا عقیدہ عجیب اور غیر طبیعی ہے جیسا کہ فوق الذکر میں آیا ہے آیہ کریمہ: ” مَن یُحیِ العِظَامَ وَ ہِیَ رَمِیمٌ “
” جب یہ ہڈیاں سڑگل کر خاک ہو جائیں گی تو (پھر) کون ( دوبارہ ) زندہ کرسکتا ہے ، تو اس سے کھا جائے گا :
”(
یُحیِیهَا الَّذِی اَنشَاهَا اَوَّلَ مَرَّةٍ وَهُوَبِکُلِّ خَلقٍ عَلِیمٍ
)
“
”( اے رسول ) تم کھدو کہ اسکو وہی زندہ کرے گا جس نے ان کو ( جب یہ کچھ نہ تھے)پھلی مرتبہ زندہ کردکھا یاوہ ہر طرح کی پیدایش سے واقف ہے “
ھاں ، ہمارے پاس رجعت جیسے موضوع کو ثابت کرنے یا انکار کرنے کے لئے کوئی عقلی دلیل نہیں ہے اور ذھن میں بات آتی ہے کہ کوئی دلیل نہیں ہے تو ہمیں آیات و روایات کی طرف رجوع کرناچاہئے کہ جووحی الٰھی جیسے سرچشمہ سے اخذ کی گئی ہیں ان سے مد دحاصل کرنی چاہئے۔
قرآن مجید میں ایسی آیات موجود ہیں جو رجعت کے واقع ہونے مردوں کا زندہ ہوکر دوبارہ دنیا میں آنے پر دلالت کرتی ہیں ، جیسے حضرت عیسیٰ (ع) کا معجزے(مردوں کو زندہ کرنے) سے متعلق جسے قرآن مجید نے حضرت عیسیٰ(ع)کی زبانی نقل کیا ہے:
”(
وَ اُبرِی الاَکمَهَ وَ الاَبرَصَ وَاُحیِ المَوتیٰ بِاِذنِ اللهِ
)
“
اور میں خدا کے حکم سے مادر زاد اندھے او رکوڑھی کو اچھا کردونگا اور مردوں کو زندہ کروں گا“
اور اسی طرح سورہ بقرہ کی آیت نمبر ۲۶۰ جس میں پیغمبر وںمیں سے ایک پیغمبر کے قول کو بعنوان حکایت پیش کیا ہے کہ ایک اجڑے دیار اور ویرانے سے گذر رھے تھے توکھا:
”(
انَّیٰ یُحیِی هٰذِهِ اللهُ بَعدَ مَوتِهَا فَاَمَاتَهُ اللهُ مِاَئَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ
)
“
”(یہ دیکھ کر وہ بندہ کہنے لگا) اللہ اب اس گاؤں کو (ایسی )ویرانی کے بعد کیونکر آباد (زندہ) کرے گااس پر خدا نے اس کو( مارڈالااور)سو برس تک مردہ رکھا پھر اس کو جلا اٹھایا“
اور وہ آیہ کریمہ جسکا ذکر اس بحث کی ابتدا میں آیا کہ ”(
قَالُو رَبَّنَا اَمّتَنَا
)
“ یہ آیتیں واضح طور پر مرنے کے بعد اس دنیا میں رجعت کے واقع ہونے کی حکایت کررہی ہیں، اور اسکے علاوہ ان آیات کا کوئی اور معنی کیا جائے تو وہ صحیح نہیں ہوگا، چونکہ بعض مفسرین ایسی اور اسطرح کی آیات کی تاویل میں وہم و گمان کے شکار ہوئے ہیں اور حقیقی معنی کوچھوڑکرخود کو زحمت میں مبتلا کربیٹھے ہیں۔
دوسرے اعتراض کا جواب
اور جو یہ کھا جاتاہے کہ رجعت کے بارے میں وارد ہونے والی روایتیںجعلی اور بے بنیاد ہیں ، اس دعوے کے لئے ان لوگوں کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے،
چونکہ رجعت ایک ضروری اور واضح امور میں سے ہے جس پر ائمہ (ع) سے متواتر روایتیں اور حدیثیں ہم تک پہونچی ہیں اور ان سب متواتر روایتوں کوجعلی اور بے بنیاد قرار دینا ایک وہم ی اور بے بنیاد دعوے کے سوا کچھ نہیں ۔
لہٰذا جب رجعت کے معنی اوراسکے واقع ہونے کی کیفیت واضح ہوگئی تو آپ بتلائیں کہ کیا یہ تعجب کامقام نہیں ہے کہ وہابی حضرات کہ جو علم ، فضل اور قرآن شناسی کے بارے میں بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں اور صرف اپنے پیروی کرنے والوں کو قرآن اور توحید کا اہل سمجھتے ہیں اسکے باوجود رجعت کا انکار اور اس عقیدے کی بنیادپر شیعوں پر کفر ، ارتداد اور بدعت گذاری کی تہم ت لگاتے ہیں اوران کو محکوم کرتے ہیں ، البتہ شیعہ حضرات چونکہ قرآن او رسنّت کی پیروی کرتے ہیں اس لئے رجعت کے بھی معتقد ہیں ۔
کیا یہ تعجب کامقام نہیں ہے کہ بعض اہلسنّت کے مشھور مولف جو فضل ومعرفت کی بھی شھرت رکھتے ہیں ،جیسے احمد امین مصری جو اپنی کتاب بنام فجرالاسلام میں لکھتے ہیں:
”فَالیَهُودِیَّةُ ظَهَرَت بِالتَّشَیّعِ بِالقَولِ بِالرَّجعَةِ
“ یھودیوں کامذہب شیعوں کے درمیان رجعت کے عقیدے سے ظاہر ہوا ہے مزے کی بات تو یہ ہے کہ محمد بن عبدالوہاب کی یہ باتیں احمدامین کی زبان سے نکل رہی ہیں یہ مشھور مولف جو روشن فکر ہونے کی شھرت حاصل کرچکا ہے اس نے وہابیوںکے رھبر کی باتوں کو بغیر کسی تحقیق اور جستجو کے دھرادیا۔
ہم اس مولف کی تحریر کے مطابق عرض کرتے ہیں کہ یھودیوں کے مذہب کے پیش نظر یہ کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں بھی رجعت کے عقیدہ سے متعلق بیان ہوا ہے جیساکہ ہم نے قرآن کی چند آیتیں جو رجعت سے متعلق تھیں ، آپ حضرات کے سامنے پھلے ہی پیش کیں لیکن یھاں پر کچھ اور اضافہ کرتے ہیں اور وہ یہ کہ غیر تحریف شدہ یھودیوں اور نصاریٰ کے مذہب کے بہت سے قوانین اور عقائد ، مذہب اسلام میں نظر آتے ہیں چونکہ خود رسول(ص) نے گذشتہ آسمانی ادیان کی تصدیق فرمائی ہے جیسے اس آیہ شریفہ میں وارد ہوا ہے کہ:
”(
اِنَّ الدِّینَ عِندَاللهِ الِاسلاَمُ
)
“ ایک دین کے علاوہ کوئی اور دین نہیں اور وہ دین اسلام ہے ،لیکن فروعی قوانین اور جزئی مسائل میں کچھ فرق واضح طور پر نظر آتاہے ورنہ تمام آسمانی ادیان ایک مشترک اور مشابہ اصول کے تحت ہیں ، اور قرآن مجید نے چندآیات میں اس بات کی تاکید فرمائی ہے اگر چہ شریعت پیغمبر اسلام(ص)کے آنے کے بعد سابقہ شریعتوں کے کچھ مسائل اور احکام نسخ ہوچکے ہیں جو خودایک مستقل بحث ہے اورفی الحال ہمارے پیش نظرنھیں ہے ۔
لہٰذا یھودی اور مسیحی مذہب کے قوانین اور احکام کامذہب اسلام میں موجود ہونا نقص اور عیب نہیں ،بالفرض ہم مان بھی لیںکہ رجعت کاعقیدہ بھی یھودی مذہب کا ایک جزء ہو (جیسا کہ احمد امین نے دعوی ٰ کیا ہے) اسکے بعد اسلام میں آگیاہے ۔
اگر بعض اعتقادی مسائل کا چند آسمانی ادیان کے درمیان مشترک ہونے کو ان کے تمام مسائل کا مشترک ہونا کھاجائے توپھر محمد بن عبدالوہاب کویھودی اور مسیحی دونوں ہی مذہب کاماننے والا کھنا درست ہوگاچونکہ وہ خود کو فقط توحید کا اہل سمجھتا ہے اور یہ اسکا دعویٰ ہے کہ توحید اور معاد پر یقین رکھتا ہے ، حالانکہ غیر تحریف شدہ یھودی اور مسیحی مذہب میں یہ دونوں عقیدے (توحید اور معاد) موجود ہیں ، تو یھاں پر یہ کھنا درست ہوگا کہ وہابیت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن عبدالوہاب اور سارے وہابی ( محمد بن عبد الوہاب کے پیروکار) یھودی بھی ہیں اور مسیحی بھی ہیں،چونکہ وہ خود کو اہل توحید سمجھتے ہیں اور اس بات کے دعویدار بھی ہےںکہ اللہ کی وحدانیت اور قیامت پر اعتقاد رکھتا ہے جبکہ غیر تحریف شدہ یھودی او رمسیحی مذہب میں بھی اللہ کی واحدانیت، قیامت اور حشر ونشر وغیرہ جیسے اعتقادات موجود ہیں اس لحاظ سے وہابیت کی بنیاد رکھنے والا محمد بن عبد الوہاب اور سارے وہابی یھودی بھی ہوئے او رمسیحی بھی ۔
چونکہ اللہ کی وحدانیت کا عقیدہ ان دونوں دینوں (یھودی اور مسیحی) مذہب میں موجود ہے ، اگر وہابی حضرات ادیان میں اشتراک کو نہیں مانیں گے، تو اس سے قبل وہ قرآن مجید کی آیات کے منکر ہوجائیں، چونکہ خود قرآن مجید ادیان کے مشترک ہونے کا قائل ہے ، قرآن کریم حضرت عیسیٰ (ع) اور حضرت موسیٰ(ع) او ردوسرے انبیاء(ع) کو اہل توحید اور وحدہ لاشریک کی عبادت کرنے والا اور سبھی کو خدا کا بندہ ہونے سے یاد کررہا ہے ، وہابیوں کو چاہئے کہ اپنے بے بنیاد دعووں کوواپس لے لیں اور جھوٹی تہم تیں لگانے سے باز آجائیں او راپنے متناقض مسائل کی طرف توجہ کریں۔
بھر حال ،کلام کو مختصر کرتے ہوئے صرف اتنا عرض کرنا ہے کہ رجعت ، اسلام کے ان اعتقادی اصولوں میں سے نہیں ہے جس پر عقیدہ رکھنا یا اس پر دقت نظر سے کام لینا واجب ہو، یہ ہم شیعوں کا عقیدہ ہے جو قرآن کریم او راہل بیت علیہم السلام کی پیروی او رحضرات ائمہ (ع) سے نقل شدہ معتبر روایتوں پر عمل کرنے کا نتیجہ ہے یہ وہ ھستیاں ہیں جن کے بارے میں جھوٹ ، جھل اور خطا جیسے گناہوں کا تصور بھی نہیں پایا جاتا۔
رجعت کا موضوع بھی ایک مشکل او ردشوار فلسفی موضوعات میں سے ایک ہے جو پورے طورپر قرآنی اور شرعی ہے او رعقل کی روشنی میں بھی اس کا واقع ہونا ناممکن نہیں ہے ۔
حضرت علی (ع)کی محبت سے متعلق شیعوں کا عقیدہ
اور وہابیوں کی زھر افشانی
وہ مسائل جن کو وہابی حضرات سننے کی تاب نہیں رکھتے اور برداشت نہیں کر پاتے یھاں تک کہ اسکوشرک ، کفر اور بت پرستی شمار کرتے ہیں ، ان مسائل میں سے ایک مولا علی (ع) کی محبت اور ولایت کا مسئلہ ہے ،یہ سیاہ دل اور چمگا دڑصفت لوگ نور امامت سے ایسے گریزکرتے ہیں جیسے چمگادڑروشنی سے بھا گتے ہےں ،اور جھالت کے اندھیروںمیں سرگرداں ہوکر ھاتھ پیر مارتے ہیں، مولا علی(ع) سے محبت کا عقیدہ جو اہل سنّت حضرات کے یھاں حدیثوں میں بھی موجود ہے شدت سے انکار کرتے ہیں اور شیعوں پر لعنت وملامت،سب وشتم کے لئے زبان کھول دیتے ہیں، ہم یھاں پر ضروری سمجھتے ہیں کہ اس سلسلہ میں مختصر طور پر وضاحت کریں اور بتائیں کہ حبّ علی (ع) سے متعلق شیعوں کا کیا عقیدہ ہے تاکہ معلوم ہو جائے کہ رسول(ص) کی حقیقی پیروی کرنے والا کون ہے ؟ وہابیوں کامتعصب اور خوارج صفت گروہ؟! یا پاک دل اور حقیقت کی تلاش کرنے والے شیعہ جو دلیل و برہان کے علاوہ کوئی بات ہی نہیں کرتے ؟
استاد شھید مطھری (رہ) عشق ، محبت اور عاطفہ کے متعلق بحث کرتے ہوئے مذکورہ مسئلہ اور عقیدہ کے بارے میں ایک عمیق اور دقیق فلسفی، تحلیل اور بررسی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ( اب ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اسلام اور قرآن نے ہمارے لئے کوئی محبوب منتخب کیا ہے یا نہیں ؟ )
اسکے بعد حضرت علی (ع) کی محبت کے بارے میں ایک مفید اور جذّاب بحث کرتے ہیں نیز اس کے اثرات کے متعلق بیان فرماتے ہیںکہ ہم اس بحث کی افادیت اور گھرائی اور مستند ہونے کے پیش نظر یھاں پر نقل کرتے ہیں تاکہ قارئین اور قدردانوں کے اذھان روشن ہوں اور محبان علی (ع) اور اولاد علی (ع) کو خوشنود کرتے ہوئے وہابیوں اور وہابی مسلک افراد کے لئے دندان شکن جواب بھی ثابت ہوسکے۔
حضرت علی (ع) کی محبت قرآن اور سنّت کی روشنی میں
قرآن مجید گذشتہ انبیاء (ع)کے اقوال کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ سارے انبیاء (ع)نے یہ کھا ہے کہ” ہم لوگوں سے کوئی اجرت اور بدلہ نہیں چاہتے ہمارا اجرتو فقط خدا پر ہے ) لیکن خداوندعالم پیغمبر اسلام(ص) کوخطاب کرتے ہوئے فرماتا :
”(
قُل لَااسئَلُکُم عَلَیهِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربَیٰ
)
“
”اے ہمارے رسول کھدو کہ: ہم تم سے اپنے اقرباء کی محبت کے سواء کوئی بدلہ یا کوئی اجرت نہیں چاہتے “
یھاں پر یہ سؤال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی نبی نے کسی طرح کی اجرت کامطالبہ نھیںکیا تو پھر نبی اکرم(ص) نے اپنی رسالت پر اجرت کا مطالبہ کیوں فرمایا اور لوگوں کو اجررسالت کے عنوان سے اپنے قریبی عزیزوں کی محبت کامطالبہ کیوں کیا ؟
قرآن کریم خود ہی اس سؤال کا جواب دیتاہے:
”(
قُل مَا سَئَلتُکُم مِن اَجرٍ فَهُوَ لَکُم اِن اَجرِیَ اِلّٰاعَلَی اللهِ
)
“
اے ہمارے رسول کھدو کہ: میں نے جس اجرت کا تم سے مطالبہ کیا ہے اسکا فائدہ خود تم کو ہی پہونچنے والاہے اسلئے کہ میرا اجر تو فقط خدا پرھے ۔
یعنی وہ چیز جسکا مطالبہ میں نے اجر رسالت کے عنوان سے کیاہے اسکا فائدہ تم ہی کو پہونچنے والاہے نہ کہ مجھکو، یہ محبت اور دوستی خود تمھاری اصلاح اور کمال حقیقی تک پہونچنے کے لئے وسیلہ کے مانند ہے ، اسکا فقط نام اجرت ہے ورنہ حقیقت میں ایک خیر اور نیکی تمھیں دی جارہی ہے۔
چو نکہ اہلبیت (ع) اور رسول(ص) کے اقرباء وہ افراد ہیں جن کا دامن ھرطرح کی رجس اور آلودگی سے پاک اور پاکیزہ ہے ( حُجُورٌ طَابَت وَطُہَرَتْ) ۔ (
ان سے عشق و محبت اور شیدائی ہونے کا نتیجہ فضائل کی پیروی اور حق کی اطاعت کے علاوہ اور کیاہوسکتا ہے ، یہ انھیںکی دوستی اور محبت ہی ہے جو دلوں کوفولاد بنادیتی ہے ، اور ایمان کو کامل کرنے کا سبب بنتی ہے قربیٰ سے مراد کچھ بھی لیا جائے مگر یہ بات مسلم ہے کہ قربیٰ کا سب سے عظیم اور روشن مصداق مولاعلی (ع) کی ذات گرامی ہے۔
فخر رازی کا بیان ہے : زمخشری نے اپنی” تفسیر الکشاف “ میں روایت نقل کی ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو لوگوں نے عرض کیا: یا رسول الله(ص) آپ کے کن عزیز اقرباء کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے وہ کون لوگ ہیں ؟ آنحضرت(ص) نے ان کے جواب میں ارشاد فرمایا علی (ع)و فاطمہ(ع) اور ان کے فرزند۔
اس روایت سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ یہ چار افراد پیغمبر(ص)کے اقرباء ہیں اور ان سے دوستی رکھنا اور ان کا احترام کرناتمام مسلمانوں پر واجب ہے اس بات پر بہت سے طریقوں سے ثابت کیا جاسکتا ہے :
(ا) اس آیہ کریمہ کے ذریعہ ”(
اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ“
)
( ۲) بغیر کسی شک و تردید کے کہ ( رسول اسلام(ص) فاطمہ زھرا (ع)کو بہت زیادہ چاہتے اور نھایت عزیز رکھتے تھے ، آنحصرت(ص) فرماتے تھے کہ فاطمہ(ع) میرے جگر کا ٹکڑا ہے جس نے فاطمہ کو اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی، اسی طرح رسول اسلام(ص) حضرت علی (ع) اور حسنین (ع) سے بے حد محبت کرتے تھے اس سلسلہ میں بہت سی متواتر روایات وارد ہوئی ہیںلہٰذا ان کی دوستی اور محبت تمام امّت پر واجب اور لازم ہے چونکہ یہ سنّت پیغمبر(ص) ہے اور رسول اسلام (ص) کی اطاعت اور پیروی ہر مسلمان پر واجب ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے :
”(
وَاتَّبَعُوهُ لَعَلَّکُمْ تُهتَدُونَ
)
“
”پیغمبر کی پیروی کرو شاید ہدایت پا جاو“
اور دوسری جگہ پر ارشاد ہوتا ہے:
”(
لَقَد کَانَ لَکُم فِی رَسُولِ اللهِ اُسوَةٌ حَسَنَةٌ
)
“
یعنی خدا کا رسول تمھارے لئے سرمشق اور نمونہ عمل ہے ،مذکورہ آیتیں آل محمد ( علی (ع) فاطمہ حسن (ع) وحسین (ع) ) کی دوستی پر دلالت کرتی ہیں اور یہ بتاتی ہیں کہ ان کی دوستی تمام مسلمانوں پر واجب ہے اور اسی طرح رسول(ص) کی علی (ع) سے محبت اور دوستی کے متعلق بہت سی حدیثیں اور روایات وارد ہوئی ہیں،جیسے:
ا۔ ابن اثیر سے منقول ہے کہ رسول اکرم(ص) نے حضرت علی (ع) کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یا علی (ع)! خداوند عالم نے ( آپ) کو ایسی چیزوں سے مزین کیا اور زینتوں سے نواز ا کہ بندوں کے پاس اور کوئی زینت اس سے زیادہ محبوب نہیں : دنیا سے کنارہ کشی اور زھد کے ایسے مقام پر قرار دیا کہ نہ دنیا تمھیں فریب دے سکتی ہے نہ تم سے بھرہ مند ہو سکتی ہے ، تمھیں الله نے مسکینوں سے دوستی اور محبت عطا کی ہے وہ تمھاری امامت پر خوش ہیں او رتم ان کی فرمانبرداری پر ،اورخوش نصیب ہے وہ شخص جو تم سے محبت کرے اورتمھاری دوستی پر باقی رھے اوربد نصیب ہےں وہ لوگ جو تم سے دشمنی کریں، اور تمھارے خلاف جھوٹ بولیں اور کذب و افتراء سے کام لیں ۔
۲ ۔ سیوطی نے روایت کی ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا :
”حضرت علی (ع) کی دوستی اور محبت ایمان ہے اور ان سے دشمنی کرنا نفاق ہے“
۳ ۔ ابو نعیم سے روایت ہے کہ حضرت رسول(ص) نے انصار کومخاطب کرتے ہوئے فرمایا کیا تمھیں ایسی چیز کی طرف ہدایت کروں کہ اگر اسکو مضبوطی سے پکڑے رکھو اور اس راہ پر گامزن رھو ھرگز گمراہ نہیں ہوسکتے ؟ سب لوگوں نے عرض کیا :ھاں یارسول الله(ص) ہم یہی چاہتے ہیں تب آنحضرت نے ارشاد فرمایا : یہ علی (ع) ہیں ان سے محبت کروجس طرح سے مجھ سے محبت کرتے ہو ان کا احترام کرو، جیسے میرا احترام کرتے ہو اسلئے کہ خدا وند عالم نے جبرئیل (ع)کے ذریعہ مجھے یہ حکم بھیجا ہے کہ میں یہ پیغام تم لوگوں تک پہونچا دوں ۔
اسکے علاوہ اہل سنّت نے اور بہت سی روایتیں رسول اکرم(ص) سے نقل کی ہیں ان روایات میں علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھنا عبادت ہے یھاں تک کہ حضرت علی (ع) کے متعلق گفتگو کو بھی عبادت میں شمار کیاگیا ہے:
ا۔ طبری نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ وہ کہتی ہیں کہ میں نے اپنے باپ کوحضرت علی (ع) کے چھرے کی طرف بہت زیادہ نظر کرتے ہوئے دیکھا، تو میں نے عرض کی : بابامیں دیکھ رہی ہوں کہ آپ حضرت علی (ع) کے چھرے کی طرف بہت زیادہ دیکھا کرتے ہیں ؟ تو حضرت ابوبکر نے جواب دیا کہ بیٹی میں نے پیغمبر اسلام(ص)سے سنا ہے کہ ”علی (ع) کے چھرے کی طرف دیکھناعبادت ہے“
۲ ۔ ابن حجر نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ، میرے بھایئوں میں سب سے بہترین بھائی علی(ع) اور چچاؤں میں سب سے بہتر چچا حمزہ ہیں علی (ع)کی یاد اور ان کا تذکرہ عبادت ہے خداوند عالم اور رسول خدا(ص)کے نزدیک سب سے محبوب شخص حضرت علی (ع) ہیںلہذاکائنات کی سب سے محبوب شخصیت حضرت علی (ع) کی ذات ہے ۔
۳ ۔ انس بن مالک کا بیان ہے ( کہ پیغمبر اسلام(ص) کایہ روزمرّہ کا معمول تھا ) کہ ہر روز انصار میں سے کوئی ایک شخص آنحضرت(ص)کے روزمرّہ کے کاموں کو انجام دیتا تھا ایک دن میری باری تھی ، ام ایمن پیغمبر(ص) کی خدمت میں ایک بُھنا ہوا پرندہ لے کر حاضر ہوئیںاور عرض کیا:
میں نے اس پرندہ کا خودشکار کیا ہے اور آپ ہی کے لئے پکاکر لائی ہوں ، آنحضرت(ص) نے خدا کی بارگاہ میں دعا کی : پروردگار! اپنے سب سے محبوب بندے کو بھیج تا کہ اس طعام میں میرا شریک ہوسکے ، ابھی دعا ختم بھی نہ ہونے پائی تھی کہ دقّ الباب ہوا تو آنحضرت(ص)نے فرمایا:
دروازہ کھولو ،جب میں دروازہ کھولنے گیاتومیں نے خدا سے دعا کی یا الله یہ آنے والا شخص انصار سے تعلق رکھتا ہو لیکن جب میں نے علی کو دروازہ پر دیکھا تویہ کہہ دیا کہ رسول (ص) کسی کام میں مشغول ہیں اور یہ کہہ کر اپنی جگہ پر کھڑا ہوگیا ، کچھ دیر کے بعددوبارہ دقّ الباب ہوا حضرت نے پھر فرمایا دروازہ کھولو ، اس وقت بھی میں نے یہی دعا کی کہ خدا یا کوئی شخص انصار سے آیا ہو، دروازہ کھولا تو دیکھا پھرحضرت علی (ع) تشریف لائے ہیں۔
میں نے دوبارہ وہی کھا کہ رسول(ص) کسی کام میں مشغول ہیں یہ کہہ کر دوبارہ اپنی جگہ پر آگیا ، پھر جب تیسری مرتبہ دقّ الباب ہوا، تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا انس! جاو، اور دروازہ کھولو اور ان کو اندر آنے دو ،تم پھلے شخص نہیں ہوجو اپنی قوم کا خیال رکھتے ہو ، جاؤ وہ انصار میں سے نہیں ہیں ، میں دروازہ پر گیا اورحضرت علی (ع) کو بیت الشرف میں لے آیا ،آنحضرت(ص)نے علی (ع) کے ساتھ یہ بھنا ہوا پرندہ نوش فرمایا۔
مجھے نہیں معلوم کہ ان تمام احادیث اور روایتوں کے باوجود بھی کیوں وہابیوں کے لئے انکار اور شک وشبہ کی گنجایش باقی رہ جاتی ہے ؟
گمراہی اورضلالت میں غرق لوگ کیونکہ عقل کے فیصلے اورتقاضوں کے مطابق اپنے منحرف ، باطل اور فاسد افکار کو چھوڑ کر سیدالعارفین ،مولاالموحدین امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی امامت اور نور محبت سے اپنے تاریک دلوں کو روشن اور منور کرسکتے ہیں؟
عقیدہ بداء پر وہابیوں کا اعتراض
ایسے تو بہت سے مسائل ہیں جنھیں وہابی فرقہ شیعوں کے خلاف استعمال کرتا ہے اور ان پر تہم تیں لگاتا ہے ان میں سے ایک بہت ہی اہم مسئلہ شیعوں کا بداء کے متعلق عقیدہ ہے ، یہ مسئلہ جو الٰھی فلسفہ کی ایک دشوار اور پیچیدہ ترین بحثوں میں شمار کیا جاتا ہے ہمیشہ شیعہ عقائد کا حصہ رہا ہے ، اس مسئلہ کو بطور دقیق اور فلسفی اعتبار سے بیان کرنے کے لئے ضروری تو یہ تھا کہ پھلے چند مفصّل باب اور مقدمے تحریر کئے جائیں لیکن اختصار کی خاطر فقط اس فلسفی موضوع سے متعلق ایک بزرگ شیعہ عالم کا بیان نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں یہ بزرگ شیعہ عالم جو عظیم فلسفی اور منطقی بھی ہیں اور عظیم فلسفی اور منطق داںحضرات کے ہم عصر بھی ہیں تا کہ سبھی پر واضح ہو جائے کہ بداء کا عقیدہ نہ صرف یہ کہ اسلامی شریعت کے خلاف نہیں بلکہ یہ شیعہ مذہب کے افتخارات اور امتیازات میں شمار ہوتا ہے نیز شیعوں کی دقیق فہم و فراست کی علامت بن چکا ہے جو ظاہر بین اور فہم و فراست سے بے بھرہ لوگوں ( وہابیوں ) کی عقلوں سے بالاتر ہے اورایسے افراد تا قیامت اس مسئلہ کے در ک و فہم سے عاجز ہیں اور رہیں گے ۔ انشاء اللہ۔
بداء کے حقیقی معنی
انسان سے متعلق بداء کے معنی یہ ہیں کہ انسان ایسی کسی چیز کے بارے میں کوئی ایسا نظریہ پیش کرے کہ اس چیز کے متعلق ، اس کا پھلے یہ نظریہ نہ تھا ،جیسے کسی کام کو انجام دینے کا ارادہ کر چکا تھا لیکن بعد میں کچھ ایسے اسباب پیش آجائیں جن کی بنا پر ارادہ تبدیل کرنا پڑے ایسی صورت میں یہ کھاجاتا ہے کہ اس انسان کے لئے بداء واقع ہوا ہے چونکہ جس کام کو انجام دینے کے لئے قطعی ارادہ کر چکا تھا ،اب ترک کرنے کا ارادہ کر لیا یہ ارادہ میں تبدیلی انسان کی بی اطلاعی اور نادانی کا نتیجہ نیز گذشتہ ارادہ کی مصلحت پر پشیمانی اور اسکے اسرار و رموز سے نا آشنائی کی وجہ سے ہوا ہے اور یہ بات مسلم ہے کہ بداء اس مذکورہ معنی میں ذات الہٰی کے لئے محال اور ناممکن ہے۔
چونکہ خداوند عالم ہر طرح کے جھل و نقص سے پاک ومنزہ ہے ، اور شیعہ حضرات ایسے معنی کی نسبت کبھی بھی خداوند عالم کی طرف نہیں دیتے ۔
جیسا کہ مذہب شیعہ ( اور فقہ جعفری کے بنیان گذار عظیم پیشوا ) حضرت امام جعفر صادق (ع) کا فرمان ہے :
”مَن زَعَمَ اِنَّ اللهَ تَعٰالیٰ بَدَالَهُ فِی شَی بَدَاءَ نِدَامَةٍ فَهُوَ عِندَناَ کَافِرٌ بِاللهِالعَظِیمِ
“
”جو شخص بھی یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے کسی بھی چیز کے متعلق پشیمانی کی وجہ سے اپنا ارادہ تبدیل کیا ہے یا اسلئے کہ وہ چیز پھلے خدا کی ذات پر مخفی تھی اور اب ظاہر ہوئی ہے تو ہمارے نزدیک ایسا شخص خدائے عظیم کا منکر اور کافر ہے۔
قارئین محترم! ملاحظہ فرمائیں کہ محمدبن عبدالوہاب کی پیدائش سے صدیوں پھلے ہمارے عظیم الشان امام صادق آل محمد (ع) نے بدا ء کے مذکورہ غلط اورفاسد معنی کو مردود ،قابل مذمت اور کفرکا سبب بتایاہے ، اور چونکہ وہّابی لوگ بدا ء کے صرف یہی معنی سمجھتے ہیں اور یہی گمان کرتے ہوئے کہ شیعہ حضرات شاید بدا ء سے یہی معنی مرادلیتے ہیں ، شیعوں کے خلاف الزام تراشیاں تہم تیں، گالیاں اور نازیبا باتیں اور طرح طرح کے حربے استعمال کرتے ہیں اور ظلم بالائے ظلم یہ کہ ان قبیح حرکات کے باوجود اس خوش فہم ی میں بھی مبتلا ہیں کہ اس طرح کے جدید اور اصلاح دین کے نئے نئے طریقے انہیں کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں !!
ایک دوسری روایت میں حضرت امام جعفر صادق (ع)ارشاد فرماتے ہیں:
”مَن زَعَمَ اَنَّ اللّٰهَ بَدَالَهُ فِی شَيءٍ وَلَم یَعلَمهُ اَمسَ فَابرَا مِنهُ
“ ۔
”جو شخص یہ گمان کرے کہ خداوند عالم نے اسلئے کسی چیز کے متعلق ارادہ بدلاہے کہ وہ پھلے اسے نہیں جانتا تھا توہم ایسے شخص سے بیزار ہیں“
مجھے نہیں معلوم کہ ان حدیثوںکے سننے اور پڑھنے کے بعد بھی وہابیوں کے پاس کہنے کو کچھ باقی رہ جاتا ہے یا وہ اس قدر ضمیر ، انصاف اور عقل و شعور رکھتے ہوں کہ حق کے سامنے سر جھکا دیں،اور شیعہ روایات کی کتابوں کی طرف رجوع کریں اور ہمارے ائمہ (ع) سے مروی حدیثوں کو ملاحظہ کریں اور کج فکر ی و خرافات سے باز آجائیں ،ہم نے تو محمدبن عبدالوہاب کی باتوں سے بخوبی سمجھ لیا ہے کہ موصوف نے شیعہ روایات کی کتابوں میں کسی ایک کا بھی مطالعہ نہیں کیا ہے ،نیز شیعہ عقائد او ران کے پاک وپاکیزہ نظریات سے مطلقاً طور پر ناواقف او ر جاہل تھے ۔
ائمہ اطھار (ع) سے بعض روایتیں منقول ( جس کے صحیح معنی درک نہ کرنے کی وجہ سے ) وہابیوں نے بداء کے واقعی معنی کے بجائے بداء کے غلط معنی تصور کرلئے ہیں اور ان کو یہ وہم ہے کہ ہم ایسے غلط معنی میں بداء کی نسبت خداوند عالم کی طرف دیتے ہیں، جو ہر عیب و نقص سے منزہ ہے ،ان روایات میں سے ( جن کے صحیح معنی درک نہ کرسکے ) ایک روایت یہ ہے :
مَا بَدَا ِللهِ فِیشَيءٍ کَمَا بَدَا لَهُ فِی اِسمٰعِیلَ اِبنِی
۔
امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں کہ خداوند عالم کو کسی چیز کے متعلق ایسا بداء یعنی ارادہ کی تبدیلی حاصل نہیں ہوئی جیسا کہ میرے فرزند اسمٰعیل کے متعلق حاصل ہوئی۔
بعض مسلمان مؤلفین نے امام جعفر صادق (ع) کے مذکورہ فرمان کے غلط معنی کرکے شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراضات کی صورت میں پیش کرکے بداء کے غلط معنی کی نسبت شیعوں کی طرف دی ہے اور ان غلط معنی کوشیعہ عقائد میں ایک منحرف عقیدہ کے عنوان سے مشھور کردیاگیا ہے ۔
لیکن وہ اس بات سے غافل رھے کہ امام جعفر صادق (ع) کی مذکورہ بالا روایت کے صحیح معنی وہی ہیں جن کی طرف خداوند عالم نے اس آیہ کریمہ میں ارشاد فرمایا ہے:
”(
یَمحُو اللهُ مَایَشَاءُ وَ یُثبُتُ وَعِندَهُ اُمُّ الکِتَا بِ
)
“
خداوندعالم جس چیز کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور جس چیز کو چاہتا ہے باقی اور ثابت رکھتا ہے اور اسی کے پاس ام الکتاب ہے۔
اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ خداوند عالم پیغمبر اکرم(ص) یا صاحبان امر کی زبان مبارک یاکسی دوسرے طرح سے کوئی بات ظاہر فرماتاہے اسلئے کہ اسکے اظھارمیں کوئی مصلحت پوشیدہ ہے اور پھر جیسے ظاہر فرمایا تھا و یسے ہی مٹا دیتا ہے ، حالانکہ وہ اس بات کے اطراف و جوانب سے مکمل طور پر آگاہ ہے، دوسرے لفظوں میں اس طرح کھا جاسکتا ہے کہ ا س بات کے اظھار کی مصلحت فقط ایک مخصوص اور معیّن مدّت تک تھی یہ رائے کا بدلنا جھالت یا کسی طرح کی پشیمانی کی بنا پر نہیں ہے ۔
یہ ویسے ہی ہے جیسے جناب اسمٰعیل (ع)اور حضرت ابراہیم (ع) کا واقعہ کہ جب جناب اسمٰعیل باخبر ہوئے کہ ان کے پدر بزرگوار الله کے حکم کے مطابق ان کی قربانی پیش کرنا چاہتے ہیں لیکن قربانی کرتے وقت جناب ابراہیم (ع) سے یہ حکم اٹھا لیاگیا ،اس واقعہ کی بنیاد پر جضرت امام صادق(ع) (ع)کے فرمان کے صحیح اور حقیقی معنی یہ ہیں :
خداوند عالم نے کسی موضوع کو بھی اسطرح ظاہر نہیں فرمایا جسطرح میرے فرزند اسمٰعیل کے موضوع کو ظاہر اور روشن فرمایا اس لئے کہ ظاہرمیں یہ تصورکیا جا تا تھا کہ چونکہ حضرت کے بڑے فرزند اسمٰعیل ہیں لہذا حضرت کے بعدوہی امام ہوں گے ایسی صورت میں خداوند عالم کے حکم سے اسمٰعیل کی روح قبض کرلی گئی تا کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے حضرت امام جعفر صادق (ع) کے بعد آپ کے فرزند اسمٰعیل امام نہیں ہیں ،مسئلہ بداء کے یہ حقیقی او رصحیح معنی جو اوپر ذکر کئے گئے قریب قریب یہی معنی ”نسخ “کے ہیں اور نسخ اسلام میں مسلم الثبوت امر ہے جیسا کہ اسلام کے آنے سے تمام گذشتہ ادیان نسخ ہوگئے یھاں تک کہ بعض احکام جو صدر اسلام میں واجب تھے اور آنحضرت کے زمانہ ہی میں الله کے حکم سے منسوخ کردئے گئے۔
زیارت سے متعلق شیعہ مذہب کاموقف
اور اس پر وہابیوںکے اعتراضات
چنانچہ جیسا کہ پھلے بھی بیان ہوچکا کہ وہ مسائل جن پر وہابی حضرات بہت زیادہ زور دیتے ہیں اور جن کی بناپر شرک ،کفر اور بت پرستی کی تہم تیں لگاتے ہیں ان میں سے ایک پیغمبر اکرم(ص)، معصومین (ع) اور صالحین کی زیارت کے متعلق شیعہ نظریہ ہے ، مذکورہ مسئلہ کے متعلق شیعہ مذہب کے نظریہ اور موقف کو بیان کرنے کی غرض سے نیز ظاہر بین، متعصب وہابی گروہ کو مناسب اور دندان شکن جواب دینے کی غرض سے ایک بزرگ شیعہ عالم دین علامہ مرحوم شیخ محمد رضا مظفر (رہ) کے بیان کوحسب وعدہ پیش کرتے ہیں تا کہ مذکورہ مسئلہ سے متعلق شیعوں کا نقطہ نظر اورموقف بخوبی روشن ہو جائے نیز تہم ت لگانے والوں کی زبان کو بھی لگام لگا دی جائے ۔
قبروں کی زیارت
رسول اکرم(ص) اورائمہ (ع)اطھار کی مبارک اور پر نور قبور کی زیارت کرنا ان پر خصوصی توجہ دنیا ہمیشہ شیعہ مذہب کا طرّہ امتیاز رہا ہے شیعہ حضرات ان مقدس مقبروں کا بے حد احترام کرتے ہیں ان مقدس قبروں پر پرشکوہ ، مجلّل اور عظیم الشان عمارتیں بناتے ہیں اور اس راہ میں ایمان اور بے حد محبت اور چاہت کے ساتھ ہر ممکن مال و دولت خرچ کرنے سے کبھی دریغ نہیں کرتے،شیعہ حضرات یہ سب تعظیم و احترام ائمہ(ع) کے حکم کے مطابق انجام دیتے ہیں چونکہ ائمہ معصومین(ع) نے ان مقدس قبور کی زیارت پر بہت زور دیا ہے نیز اپنے شیعوں کو وصیت کی ہے، اور ان زیارتوں کا بارگاہ خداوندی میں بے حد ثواب بیان کرتے ہوئے زیارت کا شوق دلایا ہے اور زیارت کو واجب عبادات کے بعد بہترین اطاعت اور اللہ سے تقرّب کا سب سے اچھا اور بہتر ذریعہ سمجھتے ہیں نیز قبروں کے اطراف کی جگہ کو خداوند عالم کی خاص توجہ کا مقام اور دعا کی قبولیت کے بہترین مرکز کی حیثیت سے پہچنواتے ہیں چنانچہ ائمہ اطھار(ع) نے یھاں تک فرمایا ہے کہ ان مقدس قبور کی زیارت تعظیم و تکریم کرنا ہمارے عھد و پیمان کی تکمیل ہے چنانچہ حضرت امام علی ابن موسیٰ الرضا(ع) ارشاد فرماتے ہیں:
”لِکُلِّ اِمَامٍ عَهداً فِی عُنُقِ اَولِیَائِهِ وَ شِیعَتِهِ وَ اِنَّ مِن تَمَامِ الوَفاَءِ بِالَعهدِ وَ حُسنِ الاَدَاءِ زِیَارَةُ قُبُورِ هم فَمَن َزارَهم رَغبَةً فِی زِیَارَتِهم وَ تَصدِیقاً بِمَا رَغِبُوا فِیهِ کَانَ آئِمَّتُهم شُفَعَاعهم یَومَ القِیَامَةِ
“
”ھر امام کی جانب سے ان کے چاہنے والوں اور پیرو کا روں پر کچھ ذمہ داریاں، حقوق اور عھد پیمان کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ عھد و پیمان بخوبی ادا ہوتے ہیں ، ان میں سے ایک عمل ائمہ اطھارکی مقدس قبروں کی زیارت کرنا ہے لہذا جو شخص شوق سے ائمہ(ع) کے مقدس روضہ کی زیارت کرے اور زیارت کے دوران ائمہ (ع)کے اہداف اور مقاصد پر توجہ رکھے روز قیامت ائمہ اطھار (ع) اس کی شفاعت کریں گے،(انشاء اللہ)
ائمہ اطھار (ع) کی مقدس قبروں کی زیارت پر خصوصی توجہ اور عنایت رکھنا بلاوجہ نہیں ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیارت کے سایہ میں بہت سے دینی اور سماجی فائدے مضمرو پوشیدہ ہیں ان بے شمار فائدوں میں سے ایک یہ ہے کہ: زیارت، ائمہ اطھار(ع) اور شیعوں کے ما بین دوستی اور محبّت کے رابطے مستحکم نیز ان میں اضافہ کا باعث ہے، مزیدائمہ اطھار (ع) کے فضائل اور اخلاق اور راہ خدا میں جھاد کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
خصوصاً زیارت کے مخصوص دنوںمیں نورانی روضوں پر دنیا کے مختلف گوشہ و کنار سے مختلف مسلمانوں کا کثیر تعداد میں جمع ہونا اور اسکے سایہ میں ایک دوسرے سے آشنائی اور آپس میں محبت اور دوستی کا رشتہ قائم ہوتا ہے اور اس طرح سے زائروں کے دلوں میں اللہ کی اطاعت اور فرمانبرداری کی روح زندہ ہو جاتی ہے نیز اللہ کے احکام کی بجا آوری میں نھایت خلوص پیدا ہوجاتا ہے۔
اہل بیت (ع) کی جانب سے وہ فصیح و بلیغ زیارتیں واردھوئی ہیں جن میں یکتا معبود کی حقیقی عبادت اسلام کی قداست اور پاکیزگی ،نیز حضرت محمد(ص) کی رسالت و غیرہ کے متعلق تعلیم دی گئی ہے وہ سب باتیں جو ہر مسلمان پر واجب ہیں، بلندی کردار ، او رخداوندعالم کے سامنے اچھے اخلاق ، خشوع و خضوع ہونے کے طریقے اور اسکی نعمتوں اور لطف و کرم پر شکر ادا کرنے کا جذبہ زا ئروں کے دلوں میں پیدا ہو تا ہے ۔
لہٰذا ان زیارتوں کے پڑھنے کا بھی وہی اثر ہے جو ائمہ (ع) سے مروی دعاوں کا اثر ہوتاہے ، (جیسا کہ پھلے بھی بیان کیا جاچکا ہے ) کہ زیارتوں کا زیادہ تر حصہ بلند ترین دعاوں پر مشتمل ہے جیسے زیارت ” امین الله “ کہ جسے امام سجاد (ع) نے اپنے جد بزرگوارمولاعلی (ع) کی زیارت کرتے وقت پڑھا ہے۔
ائمہ (ع) سے منقول زیارتوںمیں ان کا موقف یہ ہے کہ ان زیارتوںمیں دین و حق کی راہ اور کلمہ حق کی بلندی میں دی گئی مخلصانہ فداکاریوں اور قربانیوں کا بیان ہے نیز بارگاہ خداوندی میں ان کی بے لوث اطاعت اورمخلصانہ عبادت کو مجسّم طور سے پیش کیا ہے ۔
یہ زیارتیں عربی طور طریقے اور قانون کے مطابق روشن اور واضح ، فصیح و بلیغ عبارتوںمیں ہونے کے باوجود ہر خاص وعام کے لئے واضح اور روشن ہیں ،جیسا کہ وارد ہوا ہے: ان زیارتوں میں کلی طور پر توحید کے دقیق معنی و مفاہیم اور الله کے تقرّب نیز اسکی بارگاہ میں دعا کرنے کے طریقے بیان ہوئے ہیں ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ قرآن ، نہج البلاغہ اور ائمہ(ع) سے مروی دعاوںکے بعد ان زیارتوں کاشمار دینی ادبیات میں سب سے بلند مقام پر ہوتاہے ، چونکہ مذکورہ زیارتوں میں آئمئہ اطھار (ع) کے تمام معارف اور مفاہیم کا خلاصہ جامع طور پرنیز ان کے دینی اور اخلاقی احکام جلوہ گر ہیں۔
قبروں کی زیارت کے سلسلہ میں اہلسنّت کا عقیدہ
اس گفتگو کے اختتام میں ان روایتوںکو ذکر کردینا بھی بہت مناسب ہے جو اہلسنّت حضرات کے یھاں وارد ہوئی ہیں اور زیارت کے جائزبلکہ مستحب ہونے پر دلالت کرتی ہیں تاکہ کسی کویہ شک یا وہم نہ ہونے پائے کہ فقط شیعہ حضرات ہی زیارت قبور کے قائل ہیں اور باقی تمام اہلسنّت وہابی گروہ کے ہم خیال ہیں اور اس سے یہ بھی بخوبی واضح اور روشن ہوجائیگا کہ وہابی نہ شیعہ ہیں اور نہ ہی سنّی ، چونکہ اہل سنّت حضرات تو قبروں کی زیارت خصوصاً رسول اکرم(ص) کی قبر مبارک کی زیارت کامکمل عقیدہ رکھتے ہیں اور اس راہ پر عمل پیرابھی ہیں ، اس سلسلہ میں اہل سنت حضرات کے یھاں کثیر تعداد میں متواتر صحیح ا ور واضح حدیثیںموجودھیں اور انکے علاوہ حضور اکرم سرور کائنات(ص)کے زمانے سے تمام مسلمان اس پرعمل کرتے چلے آرھے ہیں ، یھاں تک کہ خود آنحضرت(ص) بنفس نفیس شھداء کی زیارت کے لئے تشریف لے جاتے تھے ۔
قارئین محترم ”مغازی واقدی“ نامی کتاب اور محدث قمی کی تصنیف” منتھی الآمال“کی طرف رجوع فرمائیں تاکہ پیغمبر اسلام(ص) کاشھداء کی قبروں پر رونا ،سوگ منانا اور ان کی قبروں پرزیارت کے لئے جانا تاریخ کی زبان سے سن لیں ( تا کہ عقیدت کے موتیوں سے جھولی بھرجائے )
اہل سنّت حضرات کی کتابوں میں مثال کے طور پر سنن نسائی ، سنن ا بن ماجہ اور احیاء العلوم مؤلفہ غزالی میں مذکورہ موضوع ( زیارت) پر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل ہوئی ہیں ابوہریرہ سے روایت ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا ” قبروں کی زیارت کرو اس لئے کہ ( قبروںکی زیارت ) تمھیں آخرت کی یاد دلائے گی “ مذکورہ کتابوںمیں ابن ملیکہ نے جناب عائشہ سے روایت نقل کی ہے : حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے اپنی مادر گرامی کی قبرمبارک کی زیارت کی ، خودروئے اور حاضرین کوبھی رلایا اور فرمایا :
میں نے اپنے معبود سے اپنی ماد رگرامی کی قبرکی زیارت کےلئے اجازت مانگی تو خداوند عالم نے مجھے اجازت مرحمت فرمائی لہٰذا قبروں کی زیارت کیا کرو تاکہ یہ تمھیں آخرت کی یاد دلائے۔
اس طرح مذکورہ کتابوںمیں عبدالله بن مسعود سے روایت نقل ہوئی ہے ان کابیان ہے کہ آنحضرت(ص) نے ارشادفرمایاکہ پھلے میں نے تم لوگوں کو قبروںکی زیارت سے روکا ،لیکن اب جو چاہے زیارت کرے اس لئے کہ زیارت تمھیں روز آخرت اور قیامت کی یادلاتی ہے البتہ بیھودہ باتوںسے پرہیزکرو ۔
غزالی اپنی کتاب احیاء العلوم میں ابن ملیکہ سے روایتں نقل کرتے ہیں کہ ابن ملیکہ کہتے ہیں :
ایک روز میں نے دیکھا کہ حضرت عائشہ قبروں کی زیارت کرکے واپس آرہی ہیں تو میں نے عرض کیا کہ ام المؤمنین کھا ں سے تشریف لارہی ہیں ؟
حضرت عائشہ نے جواب دیا کہ اپنے بھائی عبدالرحمٰن کے قبر کی زیارت کرکے آرہی ہوں،میں نے عرض کیاکہ کیا پیغمبر(ص)نے اس کام سے منع نہیں فرمایاتھا ؟
تب عائشہ نے جواب دیاکہ پھلے تو منع کیا تھا لیکن بعدمیں حکم دیا کہ اہل قبور کی زیارت کو جایاکریں ۔
اہل سنّت کی حدیث کی کتابوں یعنی صحاح اور سنن میں اہل قبور کی زیارت کی کیفیت سے متعلق بھی حدیثیں وارد ہوئی ہیں ان میں سے ایک حدیث میں زیارت کا طریقے اس طرح بیان ہوا ہے ، کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ارشاد فرمایا کہ جب قبرستان بقیع میں جاؤ تویہ کہہ کرسلام کرو :
”السَّلَامُ عَلَی اهل دِیَارٍ مِّنَ المُؤمِنِینَ
“ یہ تمام روایتیں تو صالح لوگوں کی زیارت سے متعلق تھیں لیکن آنحضرت کی زیارت سے متعلق بھی بہت سی معتبر حدیثیں موجود ہیں جن کو دار قطنی، بیہقی ،غزالی اور دیگر حضرا ت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے جو مطلب کوواضح کرنے کے لئے کافی ہیں ، ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ پیغمبر اکرم(ص) نے ارشاد فرمایا:
” جو شخص بھی میری زیارت کرے اسکی شفاعت کرنا مجھ پرواجب ہے ، البتہ یہ شفاعت فقط رسالت مآب کے روضہ اقدس کے زائروں اور زیارت کرنے والوں ہی سے مخصوص ہے اور وہ شفاعت جو تمام مومنین کے شامل حال ہوگی اس شفاعت سے جدا ہے ۔
حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری پر وہابیوں کے اعتراضات
جیسا کہ پھلے عرض کیاجاچکا اور محمد بن عبدالوہاب کی کتاب ” الرّد علی الرافضہ “ سے بیان ہوا کہ وہابی حضرات سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کی عزاداری اور مجالس بر پا کرنے کی وجہ سے شیعوں پر بدعت ،ضلالت وگمراہی کے فتوے لگاتے ہیں ، اور جس قدر بھی گالیاں او رنازیبا الفاظ ان کے بس میں ہے اور ان کی جاہل فکر میں سماتے ہےں ، شیعوں پر اسکی بوچھار کردیتے ہیں مجھے نہیں معلوم کہ جوشخص یہ کہتا ہے کہ امام حسین (ع) کی عزاداری نہیں کرناچاہئیے غم نہیں منانا چاہئے اور ان پر گریہ وبکا نھیںکرناچاہئے یا واقعہ عاشورا کی یاد تازہ نہیں کرنا چاہئے کیا ایسے شخص مین عزّت و شرافت ، غیرت و انسانیت اور عاطفت ومحبت جیسی چیزوں کی بو بھی پائی جاتی ہے یانھیں؟ وہ لوگ جو سید الشھداء (ع) ( جنھوں نے اپنی تمام ھستی کو الله کی رضا او رخوشنودی کے لئے قربان کردیا اور اس راہ میں کسی چیز سے دریغ نہ کیا ) کی سوگواری او رعزاداری کو بدعت و ضلالت وگمراہی اور قبیح فعل کے عنوان سے موسوم کرتے ہیں ،کیا ایسے لوگ روز قیامت پر ایمان بھی رکھتے ہیں یانھیں ؟ یا شرافت و انسانیت ، دین اور دینداری سے کوئی تعلق یا وابستگی بھی رکھتے ہیں یا نہیں ؟ وہ امام جن کی مظلومانہ شھادت کی خبر رسالت مآب(ص) نے سنائی اور تمام ائمہ معصومین (ع) نے ان کی یاد اور ان کی تحریک اورقیام کے پیغام کو زندہ رکھنے کی انتھک کوشش کی، وہ امام جو رسولخدا(ص) کا پارہ تن نھایت عزیز اور جگر گوشہ تھا اور اہلسنت حضرات کی صحیح احادیث کے مطابق ” جوانان جنّت کا سیدوسردار“ کیا اسکی مظلومیت پر آنسوں بھانا مناسب اور اچھا نہیں ہے ؟!کیا ان کی تحریک اور ایثار وفداکاری سے الھام لے کر ان کی راہ اور ان کے پیغام کو زندہ نہیں رکھنا چاہئے ؟ اور اس طرح سے آنے والی نسلوں کو درس دیا جا سکے اور ہمیشہ ظلم سے برسر پیکار ہونے کا درس نیز کفرو باطل پرستی کے خلاف مؤمنوں کو جدو جھد کا درس دیا جاسکے۔ہم یھاں پر تفصیلی بحث کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے صرف صاحب الغدیر مرحوم علامہ امینی (رہ) کے بیان کو نقل کرنے پرہی اکتفاء کرتے ہیں تا کہ واضح ہو جائے کہ سید الشھداء کی سوگواری اور عزاداری نہ صرف یہ کہ بدعت نہیں بلکہ عبادتوں میں اہم عبادت اور دینی وظائف میں اہم ترین وظیفہ ہے ۔
سالانہ عزاداری
عظیم الشان کتاب الغدیر کے مصنف مرحوم علامہ امینی (رہ) کی دوسری تصنیف بنام ” راہ وروش پیغمبر(ص) مااست “ ( اصل کتاب کا فارسی ترجمہ ) میں مذکورہ عنوان کے ذیل میں امام حسین (ع) کی عزاداری کو بر پا کرنے کے متعلق یوںر قمطراز ہیں :
”شاید یہ کھا جاسکے کہ امیر و بادشاہ کی وفات اور ولادت کے موقعوں پر یادمنانا قومی اور دینی بڑی تحریکوں کی عید اور دنیا کے اجتماعی حادثات اور وہ اہم واقعات جو مختلف قوموں میں رونما ہوتے ہیں ( مہم تاریخی واقعات وحادثات کے گذرے ہوئے سالوں کے اعداد و شمار کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ) اور ان کے سالگرہ کے موقع پر جشن و سرور کی محفل سجانا یا وفات کے موقع پر سوگواری و عزاداری برپا کرنا دیرینہ رسوم اور شعائر میں شمار ہوتا ہے جسکی بشری طبیعت اور اسکی شایستہ اور مناسب فکروں نے گذشتہ قوموں اور ملتوں نے بنیاد ڈالی اور زمان جاہلیت سے پھلے اور اسکے بعد بھی زمانہ حاضر تک ویسے ہی جاری اور ساری ہے ۔
یھود و نصاریٰ اور اسلا م سے پھلے عرب قوم کی بڑی عیدیں جنھیں تاریخ نے اپنے دامن میں مخفوظ رکھا،اور گویا یہ ایک انسانی انس و محبت چاہت و خواہش کی ایسی سنّت ہے جو محبت و عاطفت جیسے اسباب سے وجود میں آئی ہے، اور یہ ایسی شاخ وبرگ ہے جو احترام اقتدار اور حسن و سلوک کے ضوابط سے دنیا کے عظیم لوگ اور بے نظیر، نامور افراد و بزرگان امت سے پھوٹتے ہیں اور ان کا مقصد واقعات کو زندہ رکھنا اور ایسے افراد کو زندہ اور جاوید رکھنا ہے ، چونکہ اسمیں تاریخی اجتماعی اور سماجی فائدے پوشیدہ ہیں نیز آئندہ نسل کے لئے سالھا سال اخلاق کامل کے طور پر ثابت ہوسکیں، اور اسمیں کوئی شک نہیں جوان نسل کے لئے پند و نصیحت ، عبرت اور دستور العمل مفیداور مؤثر چیز ہے اور اسمیں وہ تجربات اور آزمائشیں ہیں جو قوموں کی بیداری کاسبب ہیں ،اور یہ ” کسی خاص گروہ یا کسی قوم و نسل سے مخصوص نہیں ، ہاں البتہ تاریخی ایام ،اہم حادثات اور ان ناگوار واقعات سے جو ان ایام میں رو نما ہوئے ہیں ، ایک طرح کی نورانیّت او ر سرور کسب کرلیتے ہیں کہ پورے سال میں یہ ایّام کرامت و عظمت کا نشان ہوجاتے ہیں اور ان حادثات اور واقعات کی خوبی اور بدی سے نیک نامی یا نحوست کسب کرکے ان حادثات کا رنگ اپنا لیتے ہیں۔
تاریخ نے ابھی تک کسی ایسے دن کا پتہ نہیں بتایا جو واقعہ کربلا (روز عاشورا) سے زیادہ درد ناک اور دلخراش دن ہو جس پر ہر شریف اور غیرتمند انسان لرز اٹھتا ہے۔
اس دردناک واقعہ کربلاوالے وہ عالی اور بلند درس دے گئے ہیں جو توحید اور عبادت کی درسگاہوں میں حکمت عملی کی انتھائی اور آخر ی منزلوں میں شمار ہوتے ہیں چنانچہ قیام عاشورا نے جو آزادی اور بلند ہمتی نیز راہ خدا میں فداکاری اور جانبازی بے حد خوبصورت اور زیباترین تصویرپیش کی ہے وہ ایک کامل واضح اور روشن ترین نمونہ عمل ہے ،عاشورا تباہی اور مشکلات کو بر طرف کرنے نیز ان کی زھریلی جڑوں کو نابودکرنے کی طرف انسانیت کے صحیح راستوں میں سے ایک مثبت قدم ہے ۔
عاشورا رذائل اور پست چیزوں سے بیزار رھنے اور ان سے دور رھنے کی راہ میں ایک مثبت اورمؤثر قدم ہے ۔
عاشورا ظالموں کی شان و شوکت کو خاک میں ملانے کے لئے اور شرک ونفاق کے پرچم کو سرنگون اور نیست و نابود کرنے ، ظالموں کے ظلم و تجاوز سے نپٹنے اور تمام بشریت کو نفس کی اسیری سے رہائی اور آزادی کے لئے ایک محکم بنیادی اور مؤثر ذریعہ ہے ۔
توحید، سچائی اور حقیقت کاکلمہ انسان کے بلند مقام اور سعادت مند زندگی کے پھیلانے کے لئے عاشوراء ہی مثبت ترین عمل ہے :
”(
وَتَمَّت کَلِمَةُ رَبِّکَ صِدقاً وَ عَدلاً لاَمُبَدِّلَ لِکَلِمَاتِهِ
)
“
لہٰذا وہ دن جو تاریخ کی پیشانی پر امّت محمدی(ص) کے لئے زندہ ، تازہ ، درخشان اور ہمیشہ کے لئے باقی رھنے کا سب سے زیادہ بہتر او رحقدار دن ہے وہ حسین(ع) جو رسول(ص) کے جگر گوشہ اور پیغمبر(ص) کے گوشت و پوست کا حصہ اور نور چشم کا ہی دن ہوسکتا ہے ( اور کوئی نہیں ) ان کے پھول کی خوشبو دنیا کی زندگانی ہے۔
حق تو یہ ہے کہ اس دن (عاشورا)کو خدا کے دنوں میں سے سب سے بڑا دن (وہ جو سب سے پھلے خدا سے منسوب ہے ) رسولخدا(ص) کا دن پیغمبر(ص) کی عید قربان کا دن اور آنحضرت (ع)کے ذبح عظیم کے عنوان سے سمجھنا جاننا اور پہچاننا چاہئے ۔
اس بناپر اگر ہم ”ابو المُویّد موفق خوارزمی حنفی“ متوفی ۵۶۸ ھ ، کی روایت کو حسن قبولیت کا درجہ دیں تو ہم نے کوئی عجیب یا نیا کام انجام نہیں دیا ۔
وہ اپنی مشھور ومعروف کتاب” مقتل الامام السبط الشھید “کے صفحہ ۶۳ ا پر ایک روایت اس طرح نقل کرتے ہیں :
امام حسین (ع) کی ولادت کے ایک سال بعد سرخ چھرے والافرشتہ رسول(ص) پر نازل ہوا اور اپنے پروں کو پھیلا ئے ہوئے اس طرح گویا ہوا کہ اے محمد(ص) آپ کے فرزندحسین(ع) کو انہیں مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو مصائب قابیل کی طرف سے ھابیل کو پیش آئے اور خداوند عالم نے جو جزا ھابیل کو عطا کی وہی آپ کے فرزندکوبھی عطا کرے گا اور جو سزا اور عذاب قابیل کودیا گیا وہی عذاب ان کے قاتل کو ہو گا،پھر اسکے بعد مزید اضافہ کرتے ہیں کہ کوئی فرشتہ آسمان میں نہ تھا مگر یہ کہ رسولخدا(ص) پر نازل ہوکر تسلیّاںدیتا تھا اور اس جزاء اور انعام سے آگاہ کرتاتھا جو آنحضرت کو الله کی جانب سے ملنے والاہے اور امام حسین (ع) کی تربت کو آنحضرت(ع) کی خدمت میں پیش کرتے تھے :
آنحضرت(ص) الله کی بارگاہ میں عرض کرتے تھے پروردگارا اس شخص کو ذلیل و رسوا کر جو میرے حسین(ع) کی مدد نہ کرے اور قتل کر،اسے جو میرے حسین (ع)کو شھید کرے اور اسکی آرزوں ا ور خواہشوں کو خاک میں ملادے ۔
اور جب امام حسین (ع) کی ولادت کو دوسال گذر گئے تو رسولخدا(ص) کو کوئی سفردرپیش ہوا اور آپ سفر پر تشریف لے گئے ابھی کچھ راستہ طے کیا تھاکہ اچانک آنحضرت(ص) بیٹھ گئے اور روتے ہوئے کلمہ استرجاء اپنی زبان پر جاری کیا :
”(
اِنَّاللهِ وَ اِنَّااِلَیهِ رَاجِعُونَ
)
“
جب اصحاب نے گریہ کاسبب پوچھا تو آنحضرت نے ارشاد فرمایا:
ابھی ابھی جبرئیل (ع) آئے ہیں اور مجھے نھرے فرات کے کنارے ایک سرزمین کے متعلق خبر دے رھے ہیں جس کا نام کربلا ہے میرا بیٹا حسین (ع)وہاں پر شھید کیا جائیگا۔
اصحاب نے پوچھا :کون سنگدل ہے جو آپ کے شہزادے کو شھید کرےگا ؟ فرمایا یزید نامی شخص کہ خداوند عالم اس منحوس وجود کی نسل ابتر اور قطع کردے گویا میں اس وقت اپنے لال کے خیمہ گاہ اور دفن ہونے کی جگہ کودیکھ رہا ہوں ایسی حالت میں کہ میر ے لال کے سر کو ہدیہ اور تحفہ کے طور پر لے جایا جارہا ہے ۔
خدا کی قسم کوئی بھی میرے لال کے سر بریدہ کو دیکھ خوش نہیں ہوگا مگر یہ کہ خدا اسکو نفاق کی بیماری میں مبتلا کردے گا اور اسکے قلب و زبان میں اختلاف ہو جائیگا (یعنی زبانی ایمان کا دعویٰ کریگا، لیکن اس کے دل میں ایمان نہیں ہوگا )
ابو الموید مزید بیان کرتے ہیں کہ جس وقت رسالت مآب(ص) سفر سے واپس تشریف لائے تو غمگین حالت میں منبر پر تشریف لے گئے جبکہ امام حسن (ع) اور امام حسین (ع) آپ کے سامنے تشریف فرماتھے آنحضرت(ص)نے خطبہ ارشاد فرما یا ،و عظ و نصیحتیں کیں او رخطبہ سے فارغ ہو نے کے بعد اپنا داہنا دست مبارک حسین (ع) کے سر پررکھا اورسر کو آسمان کی طرف بلند کرتے ہو ئے بارگاہ الٰھی میں عرض کیا : ” پروردگار میں تیرا بندہ او رتیرا پیغمبر محمد ہوں اور یہ دو بچے میری پاک و پاکیزہ عترت اورمیری ذریت اورنسل کے منتخب او ربرگزیدہ بندہ ہیں ( جن کو اپنے بعد چھوڑ کر جا رہا ہوں )
میرے معبود جبرئیل (ع)نے مجھے خبردی کہ یہ میرا لال حسین (ع)بے یار و مددگار قتل کیا جائیگا۔
پروردگا راس کی شھادت کو میری امت کی اصلاح کا سبب قرار دے اورمیرے لال حسین(ع) کو شھیدوں کا سید و سردار قرا ردے اسلئے کہ تو ہر چیز پر قادر ہے، پر ور دگا راسکے قاتل او رجو اسکی مدد نہ کرے اسکی نسل کو منحوس اوربے برکت قرار دے ۔
یھاں پر پھو نچ کر ابو الموید بیان کرتے ہیں کہ مسجد میں جب لوگوں نے رسول مقبول(ص) کایہ کلام سنا تو سب چیخ مارمارکر اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے جب حضرت(ص)نے لوگوں کا یہ حال دیکھا تو ارشاد فرمایا :رو تو رھے ہو کیا میرے لال کی مدد بھی کروگے ؟ پروردگار تو ہی اسکا والی و ناصر اور مددگار ہے ۔اسکے بعد ابو المؤید آنحضرت(ص) کے اس خطبہ کو بیان کرتے ہیں جو آنحضرت(ص) نے سفرسے لوٹنے کے بعد اور وفات سے چند روز قبل ارشاد فرمایا تھا، وہ ابن عباس کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں اور شاید یہ خطبہ حجّة الوداع سے واپسی پر دیا تھا بھر حال اس خطبہ کا مضمون بھی اس مضمون سے ملتا جلتا ہے جو ابھی ہم نے بیان کیا ۔
عجب نہیں کسی کے ذھن میں یہ گمان آئے ( اور تیز اور باہوش لوگوں کا گمان بھی یقین ہی کے مانند ہوتا ہے) کہ رسول خدا(ص) کا اپنی بیویوں ( امھات المؤمنین) کے گھروںمیں عزاداری اور سوگواری کا باربار برپا کرنا اپنے پارہ جگر حسین کی ولادت کے سالگرہ کے موقع پریا شھادت کے دن آنے کی بناپر تھا یادونوں مناسبتوں کی بناپر رہاہو:
”(
سُنَّةُ اللهِ فِی الَّذِینَ خَلَوا مِن قَبلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَحوِیلاً
)
۔
”خدا کی (یھی) عادت (جاری) رہی اور تم خدا کی عادت میں ھرگز تغیر وتبدل نہ پاؤ گے“
امام حسین (ع) کی شھادت کے مسئلہ سے متعلق رسالت مآب(ص)کے اس قدراحترام اور اہتمام کے باوجود کیا پھربھی وہابی فرقہ جو خود کو محمدی(ص) اور سنّت رسول(ص) کا پیرو سمجھتاہے ، امام حسین(ع) کی سوگواری اور عزاداری، ان کی مظلومیت اور ان کے اہلبیت (ع) کی اسیری اور ان کے اصحاب کی مظلومانہ شھادت پر آنسوبھانے کی مخالفت کرسکتا ہے ؟ حالانکہ ( عزاداری و سوگواری امام حسین (ع) ) ایک عظیم کام اور بہت بڑا شرعی ، عاطفی اور انسانی فریضہ ہے ، عزاداری کے ذریعہ امام حسین (ع) کی یاد کو زندہ رکھناان کی راہ میں مذہب و مکتب کو زندہ رکھنے کے مترادف ہے ، اور یہی رسول(ص) کا راستہ ہے ، اور رسولخدا(ص) کے راستے اور طریقے اور سنّت کو زندہ رکھنا، کیا وہابیوں کی نظرمیں شرک ، کفر اور جرم ہے ؟ یا رسول(ص) کی راہ و روش کو جاری رکھنا ہر مسلمان پرفرض اورواجب ہے ؟ قارئین محترم : خود اس بارے میں غور فرمائیں اور دقّت نظر سے کام لیں ۔
عالم اسلام کے لئے وہابیت کے بدترین تحفے
وہابیت کا مسلمانوں کے خلاف کفر کا فتویٰ
وہابیوں کے اہم اور دلنشین ( اپنی دانست میں ) نظریوں میں سے ایک نظریہ مسلمانوں کو کافر اورمشرک سمجھنا ہے ، اس نظریہ نے عالم اسلام اور تمام مسلمانوں میں بہت ہی برے اور ناگوار اثرات ڈالے ہیںجن کے نتائج بے انتھا ناگوار ثابت ہوئے ، مذکورہ نظریہ کو اسلام دشمن طاقتیں ایک خطرناک اور نھایت مھلک حربے کے طور پر استعمال کررہی ہیں ، وہابی خود کو موحد اور مسلمان تصور کرتے ہیں جبکہ تمام دوسرے مسلمانوں کو کافر اور مشرک سمجھتے ہیں یہ لوگ تعصب کی بنا پر اپنی گمراہی، کج فکری اور بدعتوںکو بھی دینداری سمجھ کر تمام مسلمانوں پر کفر وگمراہی کے فتوے لگاتے ہیں، اور اس طرح وہابیوں نے امّت اسلامیہ کے پیکر پر ضربیں لگائی ہیں ، چنانچہ یہ فتوے اتحادبین المسلمین کی راہ میں مانع اورایک محکم دیوار ثابت ہوئے ہیں، اسی بناپر مسلمان، اسلام دشمن طاقتوں کے سامنے متحد نہ ہوسکے ۔
اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے کہ وہابیوں کی فکر اور طریقہ کا رکی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اور نہ ہی ان کے فتوےٰ قرآن و سنت کے مطابق ہوتے ہیں،بلکہ یہ بایتں قطعاً قرآن و سنّت کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ خطرناک اور تباہ کن بھی ہیں ،اس موضوع سے متعلق پھلے ایک مختصر سی بحث کرتے ہیں اور پھر سنی و شیعہ علماء کے فتووں کو پیش کریں گے ، او رآخر میں اس منحرف اور گندی فکر کے خطرناک ، مضّر اور دکھ دہ نتائج کا جائزہ لیں گے ۔
وہابی حضرات قرآنی توحید کے بارے میں ایک غلط نتیجہ گیری نیز مسائل اعتقادی کے متعلق غلط طرز تفکر کی بناپر تمام مسلمانوںکوجو انہیں کی طرح اسلام کا دم بھرتے ہیں ،کافر و مشرک سمجھتے ہیں اور ان کو مکہ مدینہ اور مسلمانوں کے دوسرے مقد س مقامات پر طعن و تشنیع کا نشانہ اور طرح طرح سے اذیت و آزار پھنچاتے ہیںاور ظلم وتجاوز سے باز نہیں آتے ، ان کا یہ کام سوفیصد خدا و رسول(ص)کی مرضی کے خلاف ہے ،ان کا مقصد مسلمانوں سے دشمنی ہے چونکہ وہ مسلمانوں کو اپنے سے الگ شمار کرتے میں اس لئے کہ وہ باتیں جنکی نسبت وہ اپنے علاوہ دوسروں کی جانب دیتے ہیں اور ان پر ظلم و تشدّد کو جائز سمجھتے ہیں نہ تو اس کی کوئی دلیل قرآن میں موجود ہے اور نہ ہی نبی اکرم(ص) کی سنّت میں اسکا کوئی جواز ہے، انکا یہ عمل در حقیقت قرآن و سنت کے سراسر خلاف ہے۔
تعجب اس بات پر ہوتا ہے کہ ان تمام چیزوں کے با وجود ، وہ اپنے آپ کو اہل سنّت سمجھتے ہیں ،جبکہ واقعی اہل سنّت وہ حضرات ہیں جو گفتار و کردار میں سنّت پیغمبر(ص) اور رسول(ص)کے بتائے ہوئے راستے پر عمل پیراہوں، حالانکہ مسلمان علماء اعلام اور اسلامی پیشواؤں کی سیرت سے قطع نظر فقط سنّت اور و ہ شریعت محمدی(ص) جو تمام مسلمانوںکے لئے عمومی حیثیت رکھتی ہے، وہابیوں کے اس طرز تفکر کے خلاف ہے اور ان کے اعمال اور افکار کو مردود اور قابل مذمت بھی شمار کرتی ہے ۔
ابن تیمیہ ” منھاج السنة “ کی تیسری جلد کے ۱۹ ویں صفحہ پر ان اشکالوں کو جواب دیتے ہوئے جو اس پر اس کے ہم مذہب اہل سنّت حضرات نے کئے ہیں لکھتا ہے ،( مذکورہ امور میں سے بہت سے امور کو گناہ کی فھرست سے خارج کرنے پر عذر شرعی ہے ، اور یہ ان اجتھادی مسائل میں سے ہیں جن میں اگر مجتھد واقعی حکم تک دست رسی پیدا کرے تو دو اجر وثواب ہے اور اگر واقعی حکم کو بیان کرنے میں خطا کرے تو ایک اجر ہے، اکثر وہ باتیں جو خلفاء راشدین سے منقول ہیں، وہ اسی باب سے تعلق رکھتی ہیں )
ابن تیمیہ نے اپنی اس گفتار میں اس حدیث پر نظر رکھی ہے کہ جس حدیث کو بخاری نے اپنی کتاب ” صحیح بخاری “ میں عمر و بن عاص سے روایت کی ہے عمربن عاص کہتا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا : ”جب کوئی حاکم شرعی کسی مسئلہ میں اجتھادکرے اور اسکے مطابق حکم صادر کرے اگر بیان شدہ حکم، واقعی حکم کے مطابق ہو، تومجتھد کے لئے دو اجر و ثواب ہےں اور اگر مجتھد نے اجتھاد میں خطا کی ہے تو ایک اجر ملے گا “
اور پھر ابن تیمیہ ، اس کتاب کے بیسویں صفحہ پر لکھتا ہے کہ گذشتہ علماء، مفتی ، مراجع جیسے ابوحنیفہ ، شافعی ، ثوری ، داود بن علی اور دیگر مجتھدوںنے بیان کیا ہے کہ وہ مجتھد جو حکم شرعی کو بیان کرنے میں غلطی کرتے ہیں گناہگار نہیں ہیں غلطی اصول میں سے ہوںیا فرعی مسائل میں سے، جیسا کہ ا بن حزم نے مذکورہ بالا علماء اور دوسروں سے نقل کیا ہے ۔
اسی وجہ سے ابوحنیفہ ، شافعی ،اور دوسرے علماء ( فرقہ حطابیہ کے علاوہ ) نفس پرست افراد کی گواہی قبول کرلیتے تھے ، ان کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح سمجھتے تھے حالانکہ کافر کی گواہی مسلمانوںکے یھاں قبول نہیں ہے اوراسی طرح کافرکی اقتداء بھی صحیح نہیں ہے ۔
گذشتہ زمانے کے بزرگ علماء نے فرمایا ہے کہ ” بزرگ صحابہ ، تابعین اور دینی پیشوا کسی مسلمان کو کافر یا فاسق نہیں کہتے تھے اور اس مجتھد کوجو حکم کو بیان کرنے میں اجتھادی خطا کامرتکب ہوجائے ، گناہگار شمار نہیں کرتے تھے چاہے خطا علمی مسائل میں ہویا فقہ کے فرعی مسائل میں “
ابن حزم اُندلُسی اپنی کتاب ” الفِصَل “ کے تیسرے حصہ میں صفحہ ۲۴۷ پر(یہ کتاب اسلامی مذاہب کے عقائد کے متعلق لکھی ہے ) لکھتا ہے کہ ” علماء کے ایک گروہ کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اعتقادی مسائل یا شرعی مسائل یا فتویٰ دینے میں اجتھادی خطا کرے تو اسکو کافروفاسق شمارنھیں کیا جائیگا اور اگر کوئی شخص اجتھاد کرے او راپنے اجتھاد کردہ مسئلہ کو حق تصور کرے تو ایسے شخض کو ، ہر حال میں اجرملے گا ، اب اگر اسکا نظریہ واقعی حکم کے موافق ہے تو دو اجر ، اور اگر خطا کی ہے تو ایک اجر بھرحال ملے گا “
وہابیت کا مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس کی بے حرمتی کرنا
ان تمام مذکورہ بزرگ علماء کے نظریات اور اقوال جن کو وہابی بھی بزرگ مانتے ہیں اور ان کے نظریات کو تسلیم کرتے ہیں اور ان کتابوں کوسند کا درجہ دیتے ہیں ، مد نظر رکھتے ہوئے ہم اہل سنّت کے دعوے دار وہّابی فرقے سے یہ سؤال کرتے ہیں کہ اگر وہ سب باتیں جو تمھارے بزرگوں نے بیان کی ہیں ، دینی امور میں تمھارے عمل کی اصل اساس او ربنیاد کا درجہ رکھتی ہیںتو پھر کس شرعی دلیل کی بناپر ان تمام مسلمانوںکے فرقوں کو جوتمھارے مسلک کے موافق نہیں ، کافر ومشرک سمجھتے ہو ؟او ران پر ہر طرح کی سختی ،اذیت اور ظلم و تشدّد کو جائز سمحھتے ہو ؟ نیز ان کے ملک اور سرزمین کو کافر حربی کی سرزمین کے مانند خیال کرتے ہو ؟ حالانکہ خداوند عالم فرماتاہے : ”تمام مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔
اور دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے: ” ان نعمتو ں کو یاد کرو جو خدا نے تمھیں عطا کی ہیں جب تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے او رخداوندعالم نے تمھارے دلوں کو ملادیا اور اس طرح نعمت خدا سے تم ایک دوسرے کے بھائی ہوگئے ۔
پھر ارشاد فرماتا ہے : ” ہم نے مومنوں کے دلوں سے ہر طرح کی کدورتوں کو نکال پھینکاہے تاکہ مومنین آپس میں بھائی بھائی ہو جائیں اور جب ایک دوسرے سے ملاقات کریں توخوشی کا احساس کریں ۔
اور دوسری جگہ پر ارشاد ہوتاہے: ” جن لوگوں نے ایمان قبول کیا اور نیک کام انجام دے خدا ان سے محبت کرتا ہے “ ۔
اور ایک جگہ یہ فرماتا ہے: ” اگر وہ توبہ کریں نماز پڑھیں او رزکواة ادا کریں تو وہ تمھارے دینی بھائی ہیں اس طرح ہم اپنی آیتوں کو ان کے لئے بیان کرتے ہیں جوجاننا چاہتے ہیں یا جاننے کے خواہشمندھیں ۔
پیغمبر اسلام (ص) کی معتبر حدیثوں میں بیان ہوا ہے کہ ” اگر کوئی الله کی وحدانیت او رمحمد(ص)کی نبوت کی گواہی دے اسکی جان و مال اور عزت و آبرو محترم ہے اور ہر طرح کے تجاوز سے محفوظ ہے “
صحیح بخاری میں ایک روایت عبداللهبن عباس سے نقل ہوئی ہے کہ جسوقت معاذبن جبل کو یمن بھیجا تو آنحضرت(ص)نے ارشاد فرمایا ” بہت جلد اہل کتاب( یھود ونصاریٰ) سے ملاقات کروگے، جس وقت ان کے پاس پہونچ جاؤ تو ان کو اسلام کی دعوت دینا کہ وہ خداکی وحدانیت یعنی لاالہ الاالله اور رسول(ص)کی رسالت کااقرار کریں ، اگر انھوں نے تمھاری اس بات کو قبول کر لیا تو پھر ان سے یہ کھنا کہ خدائے یکتا نے تم پر ھرروز پانچ وقت نماز کو واجب کیا ہے اگر اسکو بھی قبول کرلیں توپھر ان سے کھنا کہ خدا نے تم پر زکوٰةادا کرنا واجب کیا ہے اور ان کے مالداروں سے زکوٰة وصول کرکے ان کے غریب افراد میں تقسیم کردینا اگر اس بات کو بھی مان لیں تو پھر ان کے اموال پر کوئی تعرّض یا تجاوز نہ کرنا چو نکہ پھر ان کے اموال محفوظ ہیں “
اس طرح کی ایک اور روایت بخاری نے ابن عباس سے نقل کی ہے کہ جب پیغمبر(ص) نے لوگوں کو خدائے یکتا پرایمان لانے کا حکم دیا تو ارشاد فرمایا ” کیا تم جانتے ہو کہ خدا پر ایمان لانے کامطلب کیا ہے “ لوگوں نے جواب دیا ، خدا او ر اسکا رسول(ص)بہتر جانتے ہیں ، تب آنحضرت(ص) نے ارشاد فرمایا ” خدائے وحدہ لاشریک پر ایمان لانا یعنی اس بات کی گواہی دیں کہ خدا ئے یکتا کے علاوہ کوئی خدا اور معبود نہیں اور محمد(ص) الله کے رسول(ص) ہیں اور نماز پڑھیں ،زکوٰة دیں ، ماہ رمضان میں روزہ رکھیں اور جو بھی مال غنیمت حاصل ہو اس میں سے خمس ادا کریں “
اسی کتاب خدا سے آشنا ئی اور سیدالمرسلین کی شریعت سے آگاہی رکھنے والو! ذرا انصاف سے بتاؤ کہ کیا اہل حق او رتمھاے مسلمان بھایئوں سے وہابیوں کی عدالت اور دشمنی ، احکام الٰھی کی حدودسے تجاوز اوران کو پائمال کرنا نہیں ہے ؟!
قارئین محترم کو یاد دھانی کرانے کی ضرورت نہیں کہ مذہب اسلام اور وہ شریعت جو خدا کے منتخب بندے حضرت محمد(ص) پر خدا کی جانب سے نازل ہوئی ہے ، وہابی فرقے کے اعمال ، کردار اور غلط رویّہ کے سراسر خلاف ہے ، وہابیوں کو یہ بتا دینا ضروری ہے کہ خداوند عالم کا حکم ہے:
”(
اَفَحُکمُ الجَاهِلِیّةِ یَبغُونَ وَ مَن اَحسَنُ مِنَ اللهِحُکماًلِقَومٍ یُوقِنُونَ
)
“
”کیا ایام جاہلیت کے طور طریقوں کی پیروی کرتے ہو ؟ خداوند عالم کی شریعت اوراحکام جن کو خدانے مومنوںکے لئے نازل فرمایا ہے ، کیا اس سے بہتر کوئی شریعت ہے“
اس لئے اگر کوئی اپنی جانب سے کوئی حکم بیان کرے تو گویا اس نے اپنی خواہشات نفسانی کی پیروی کی اور ایسا کرنے سے خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو بھی روکا اورمنع فرمایا ہے ، خداوند عالم فرماتا ہے ”وَلَا تَتَّبِعِ الہَوَیٰ “ خواہش نفسانی کی پیروی نکرو ، اور خداوند عالم کا حکم ہے کہ فقط ہمارے نازل کردہ قانون کے مطابق عمل کرو ۔
لہٰذا اگر کوئی شخص خدا کے اس حکم پر عمل نکرے تو اس نے خدا کے حکم سے سرپیچی کی ہے وہ بھی ایسی حالت میں کہ جب حق اس کے لئے ظاہر اور آشکار ہوگیا ہو اور حقیقت کی علامتوں کو دیکھ رہاہو“
وہابیوںکاخدا کے حکم کی نافرمانی کرنا
بھر حال حق کی پیروی کا معیار یہ ہے کہ جو بھی قرآن نے حکم دیا اس کو تہہ دل سے قبول کرےںاور اس پر سر تسلیم خم کردےں ،ورنہ اس طرح سے تو ہر فرقہ اپنے آپ کو حق پر سمجھتا ہے اور دعویدار ہے کہ انصاف اور احسان کی راہ پر گامزن ہے جیسا کہ یہ طریقہ نادان اور جاہل افراد کے یھاں رائج ہے بالکل ویسے ہی وہابیت کے روز مرّہ کا معمول بن چکاہے ، چونکہ وہابیوں کے ملاّ اور مفتی اور دین کے بزرگان اکثر اوقات اپنی عادت اور خواہشوں کے مطابق فتویٰ دیتے ہیں نہ کہ قرآن اور پیغمبر(ص)کی سنّت کے مطابق ۔
اس لئے اس آیہ شریفہ کا مضمون وہابی فرقہ پر صادق آتاہے:
” اگر انھوں نے حق سے روگردانی کی تو اے پیغمبر جان لیجئے کہ خدا یہی چاہتا ہے کہ وہ لوگ اپنے بعض گناہوں میں مبتلا ہوجائیں چونکہ ان میں سے بہت لوگ فاسق ہیں“
اور اس آیہ شریفہ کا مضمون بھی انہیں کے حال پر صادق آئے گا :
” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ (قرآن ) کے مطابق حکم نہیں کرتے ،فاسق ہیں“۔
یہ بھی اس صورت میں ہے کہ جب خدا اور رسول کی مخالفت کو جائز نہ سمجھتے ہوں ورنہ اگر جائز سمجھیں تو کافر ہو جائیں گے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے ” وہ لوگ جو خدا کے نازل کردہ قانون کے مطابق حکم نہیں کرتے ، وہ کافر ہیں“۔
ھاں البتہ اگر فرض کریں کہ مسلمان آپس میں کسی مسئلہ سے متعلق اختلاف یا نزاع کریں تو ان پر واجب ہے کہ اس اختلافی موضوع کوخدا اور رسول(ص) پر چھوڑ دیں جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا ہے کہ” اگرکسی چیز کے بارے میں نزاع اور اختلاف رکھتے ہو تو خدا اور رسول(ص)کی طرف رجوع کرو اگر خدا اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو ۔
اور دوسری جگہ پر فرماتا ہے ” جب بھی کسی چیز کے متعلق شدید اختلاف نظر ہو جائے تو اس کے حکم کو خدا اور اسکے رسول پر چھوڑدو“ مندرجہ بالا مطلب کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی مسلمانوں کے قول میں سے کسی ایک فرقے کے اعتقاد کا مسخرہ اور مذاق اڑائے نیز اس پرلعن و طعن کرے اور کفرو الحاد سے نسبت دے تویہ سب اور اس طرح کے دوسرے کام مسلمانوں کے درمیان اختلاف پھیلانا اور تفرقہ اندازی ہے حس سے خداوند عالم نے اس آیہ کریمہ میں منع فرمایا ہے:
” جن لوگوں نے اپنے دین میں تفرقہ پھیلا یا اور مختلف فرقوںمیں تقسیم ہوگئے ایسے لوگوں سے کوئی امید نہ رکھو“ ۔
اور فرماتا ہے ” اے ایمان لانے والوں خدا کو اس طرح پہچانو جیسا کہ پہچاننے کا حق ہے اور ایسے کام کرو کہ جب تم مرو تو با ایمان مرو“
اور اس آیہ شریفہ میں ارشاد ہواہے ” ان لوگوں کے مانند نہ ہوجاؤ کہ جو لوگ مختلف فرقوں میں تقسیم ہوگئے اور اللہ کی طرف سے روشن اور واضح دلائل آنے کے باوجود آپس میں اختلاف کر بیٹھے چونکہ ان کے انتظار میں ایک عظیم عذاب موجود ہے“۔
قارئین محترم ! جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ خداوند عالم با ایمان لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ اس کی رسیّ (دین) کو مضبوطی سے پکڑلیں اور تفرقہ اندازی سے پرہیز کریں“ اور اپنی رسّی کو مضبوطی سے تھام لینے کی تفسیر بھی یہ کی ہے اسکے دین کو قبول کریں اور اسپر ایمان لے آئیں ۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس آیہ شریفہ کی روسے اللہ کا پسندیدہ دین فقط سلام ہے:
”(
اِنَّ الدِّینَ عِندَ اللّٰهِ الاِسلاَم
)
“( بیشک خدا کا پسندیدہ دین اسلام ہے) اسلام ایمان بھی ہے جیسا کہ اس بات کی تفسیر کلمہ شھادتین میں ہوئی ہے (یعنی لا اله الاّ اللّٰه و محمد رسول اللّٰه
)،اس بنا پر بھی مسلمان ایک ہی دین کے ماننے والے ہیں خداوند عالم نے مسلمانوں کے لئے کچھ حدیں معین کردی ہیں جن سے تجاوز کرنا جائز نہیں ، اس طرح خداوند عالم نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کرنا حرام قرار دیا ہے نیز مسلمانوں کی جان و مال اور ناموس پر تجاوز اور تعرّض کوبھی ایک دوسرے پر حرام کیا ہے،صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں ہے کہ پیغمبر اسلام(ص)نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا ”تمھاری جان و مال و عزت اور ناموس ایک دوسرے پر حرام ہے جیسے کہ آج تم لوگ محرم ہو،اور احرام حج باندھے ہوئے ہو اس محترم مھینہ ( ذی الحجہ) اور اس محترم شھر مکہ میں تمھاری جان و مال و عزّت اور آبرو نیز ایک دوسرے کا خون بھانا حرام ہے پھر آپ نے سب لوگوں سے پوچھا:
”کیا میں نے تم لوگوں تک اسلام کا پیغام نھیںپہونچا یا؟ آگاہ ہو جاؤ اور حاضرین ، غائبین کو مطلع کریں“صحیح بخاری میں یہ روایت مختلف راویوں سے نقل ہوئی کہ رسول اکرم(ص) نے حجة الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا: ” غور سے دیکھو اور توجہ سے سنو اور اسلام کے حقائق اور معارف کو خوب اچھی طرح سمجھو“ کھیں ایسا نہ ہو کہ میرے بعد کافر ہو جاؤ اور ایک دوسرے کے خون کے پیاسے بن جاو۔
اس مقدمہ کو بیان کرنے سے ہمارا مقصد یہ ہے کہ یہ ثابت کریں کہ وہابیوں کے کارنامے اور اعمال کتاب و سنّت کے خلاف ہیں چونکہ قرآن اور سنّت کافرمان ہے کہ مسلمان کو دوستی و محبت کی فضا ہموار کرنی چاہئے نہ یہ کہ مسلمانوں کے درمیان نفرت کا بیج بوئیں اور ان کے درمیان دشمنی ایجاد کریں ان میں سے بعض کو کافر شمار کریں اور مارپیٹ اور برا بھلا کہہ کرظلم و تجاوز کریں ہم اسکے علاوہ وہابیوں سے اور کچھ نہیں کھنا چاہتے :”(
تِلکَ آیَاتُ اللّٰهِ نَتلُوهَا عَلَیکَ بِالحَقِّ
)
“
،
مسلمانوں کی بے ا حترامی اور ان کی تکفیر سے متعلق اسلام کا صاف اور صریح موقف
اب ہم قارئین کرام کی مزید معلومات کے لئے نیز موضوع کی اہم یت کا لحاظ کرتے ہوئے مسلمانوں کو کافر بتانے کے متعلق ایک عمیق اور تفصیلی بحث پیش کرتے ہیں اور اس بحث میں فریقین کے علماء کے نظریات کا بھی جائز ہ لیں گے تا کہ مؤثر اور مفید ہو۔
اسلامی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اگر کوئی کلمہ شھادتین زبان پر جاری کرے اورمسلمان ہونے کا دعویٰ کرے تو اسے کافر کھنا جائز نہیں اور فریقین کے اصلی مدارک میں اس موضوع سے متعلق بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں جن میں مسلمانوں کو کافر کہنے سے منع کیا گیا ہے نیز ایسا کہنے یا کرنے والے کی مذمت کی گئی ہے یھاں تک کہ بعض روایات میں تو کافر کہنے والے کو ہی کافر بتایا گیا ہے ان میں سے بعض آیات و روایات کی طرف ہم اشارہ کرتے ہیں۔
خداوند عالم قران مجید میں ارشاد فرماتاہے:
”(
وَ لَا تَقُولُوا لِمَن اَلقَیٰ اِلَیکُم السَّلاَمُ لَستَ مُؤمِناً
)
“
( جو شخص بھی اسلام کا دعویٰ کرے اس سے یہ نہ کھو کہ تم مسلمان نہیں ہو اس آیہ شریفہ کے شان نزول کے متعلق لکھا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام(ص) نے ” اسامہ بن زید“ کو ان یھودیوں کی طرف بھیجا کہ جو فدک کی کسی آبادی میں زندگی بسر کررھے تھے تا کہ ان کو اسلام کی دعوت دیں یا کافر ذمّی کے عنوان سے خراج دینے کے شرائط کو قبول کرنے کی دعوت دیں ایک ”مرد اس“ نامی یھودی ، خدا کی وحدانیت نیز پیغمبر(ص) کی رسالت کی گواہی دیتے ہوئے مسلمانوں کے استقبال لئے بڑھا لیکن اسامہ نے اس کے اسلام کو فقط زبانی اسلام ( لقلقہ زبانی) خیال کرتے ہوئے قتل کرڈالا ، اور اسکے مال کو مال غنیمت کے طور پرلے لیا ،اورجب یہ خبر پیغمبر اسلام(ص) تک پہونچی تو آپ بہت رنجیدہ اور ناراض ہوئے اور فرمایا:
تونے مسلمان کو قتل کیا ہے ؟اسامہ نے عرض کی : یا رسول اللہ(ص) وہ شخص اپنی جان بچانے اور مال کی حفاظت کی غرض سے اسلام کا اظھار کررہا تھا تو پیغمبر اسلام(ص)نے فرمایا:
”فَهَلاّ شَقَقتَ قَلبَهُ
“ تو نے اس کے قلب کو تو چیر کر نہیں دیکھا تھا شاید وہ حقیقت میں مسلمان ہوگیا ہو۔
اسی مضمون کی دوسری روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں نقل ہوئی ہے کہ خود اسامہ بن زید راوی ہیں وہ اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ” رسول خدا(ص) نے ہمیں مقام ” جرقَہ“ بھیجااور جب ہم لوگ وہاں پہونچے اورصبح کے وقت ہمارا ان لوگوں سے مقابلہ ہوا اور ان لوگوں کو شکست دی اور باقی لوگ فرار ہوگئے تو ہم نے او رانصار میں سے ایک شخص نے اس فراری کا پیچھا کیا اور جیسے ہی ہم نے اسے پکڑا توفوراً ا سنے” لاالہ الا اللّٰہ “زبان پر جاری کردیا یہ سن کر انصاری شخص نے اس کے قتل کا ارادہ بدل لیا لیکن میں نے آگے بڑہ کر اپنے نیز ے سے قتل کردیا جب ہم لوٹ کر آئے تو یہ خبر اور صورتحال پھلے ہی پیغمبر (ص) تک پہونچ چکی تھی۔
حضرت(ص) نے اسامہ کو دیکھتے ہی فرمایا :اے اسامہ تم نے اس کو اللہ کی وحدانیت کی گواہی دینے کے باوجود قتل کرڈالا؟! اسامہ کا بیان ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ (ص)یہ شخص اس طرح سے اپنے کو قتل ہونے سے بچانا چاہتا تھا ،آنحضرت(ص) نے اپنے اس کلام کو بار بار دھرایا :” لا الہ الاّاللّٰہ “کھنے کے باوجود تم نے اسے قتل کردیا؟! آنحضرت(ص) نے اس جملہ کو اس قدر دھرایا کہ میں نے تمنا کی کہ اے کاش میں اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ہوا ہوتا۔
اسامہ بن زید نے حضرت کے رویّہ سے جو مطلب اخذ کیا وہ یہ ہے کہ اسکے تمام اعمال نماز وروزہ جھاد وغیرہ اس گناہ کے خلع کو پورا نہیں کرسکتے اور گناہ کے بخشے نہ جانے کا خوف رہا، اسی وجہ سے تمناکی کہ اے کاش اس حادثہ سے پھلے مسلمان نہ ہوا ہوتااور اس حادثے کے بعد مسلمان ہوتا۔
ان آیات و روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی اسلام کا اظھار کرے یعنی کلمہ شھادتین کھے تووہ مسلمان ہے اس کو کافرکھنا یا سمجھنا جائز نہیں ہے، اگر ہمارے پاس صرف یہی آیات وروایات ہوتیں، تو مذاہب اسلامیہ اور مسلمانوں کو ایک دوسرے پر کفر کا فتویٰ لگانے سے روکنے کے لئے کا فی تھیں چونکہ جو شخص خودکو ” لا الہ الاّ اللّٰہ “ کی پناہ میں قرار دے وہ محترم ہے اوراسکی جان و مال بھی محترم ہے بلکہ جو افراد اسی نیّت سے کلمہ شھادتین پڑھیں ان کے لئے تو اور زیادہ احترام ہونا چاہئے ،ان سے بغض و عناد رکھنا سب وشتم کرنا، نیز ان کوکافر و فاسق کھنا جائز نہیں حالانکہ اسی طرح کی بلکہ اس سے بھی صاف اور صریح الفاظ میں بہت سی روایتیں فریقین کے یھاں مختلف روایوں سے نقل ہوئی ہیں۔
ان میں سے ایک روایت یہ ہے نبی مرسل نے ارشاد فرمایا :
”َمن کَفََّرَ مُومِناً صَارَ کاَفِراً
“ جو شخص کسی مومن کو کافر کھے وہ خو د کافر ہو جائیگا ۔
اور امام باقر علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:
” مَا شَهِدَ رَجُلٌ عَلَی رَجلٍُ بِکُفرٍ قَطُّ الَابَاءَ به اَحَدِهِمَا اِن کَانَ شَهِدَبه عَلیَ کَافِرٍ صَدَقَ وَ اِن کَانَ مُؤِمنًا رَجَعَ الکُفرُ اِلَیهِ فَاِیَّاکُم وَالطَّعنَ عَلَی المُومِنِینَ
“۔
”کوئی شخص بھی کسی کے کفر کی گواہی نہیں دے سکتا مگر یہ کہ ان دونوں میں سے ایک کفر کا مستحق ہو، اگر یہ گواہی کافر کی نسبت تھی ( یعنی مخاطب واقعی کافر تھا) تو گواہی سچی ہے اور اگر مؤمن کے بارے میں کفر کی گواہی دی ہے تو خود گواہی دینے والاہی کافر ہے لہذا مؤمن پر طعنہ زنی سے پرہیز کرو۔
اس مضمون کی روایت کنزالعمال میں وارد ہوئی ہے کہ آنحضرت(ص) نے فرمایا:
”اَیَّمَا إِمرَءٌ قَالَ ِلاَخِیهِ کَافِرٌ فَقَد بَاءَ بهَا اَحَدَهُما اِن کَانَ کَمَا قَالَ وَ اِلاّ رَجَعَتْ عَلَیهِ
“ ۔
”جو شخص بھی اپنے برادر مؤمن کو کافر کہہ کر خطاب کرے ان دونوں میں سے ایک ضرور کافر کھلانے کا حق دار ہے اگر مخاطب واقعی کافر تھا تو صحیح کھا لیکن اگر مخاطب کافر نہیں تھا تو خود کہنے والا کفر کا مستحق ہے۔
ایک ا ور روایت صاد ق آل محمد حضرت امام جعفر صادق(ع)سے نقل ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا:
”مَلعُونٌ مَلعُونٌ مَن رَمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍوَ مَن َرمَیٰ مُؤمِناًبِکُفرٍ فَهُوَکَقَتلِهِ
“
ملعون ہے ملعون ہے وہ شخص جو کسی مومن پر کفر کی تہم ت لگا ئے او رجو بھی ایسی تہم ت لگائے گویا ایسا ہے کہ جیسے اس نے اسے قتل کر دیا ہو ۔
اور اسی مضمون کی روایت کنز الاعمال میں وار د ہوئی ہے کہ رسول اکرم(ص)نے ارشاد فرمایا:
”اِذَا قَالَ رَجُلٌ ِلاَخِیهِ کَافِرٌ فَهُوَ کَقَتلِهِ وَ لَعَنُ المُومِنِ کَقَتْلِهِ“
”جو بھی اپنے برادر مومن کو کافر کھے ایسا ہے کہ جیسے کسی نے اسے قتل کردیا ہو نیز کسی مومن پر لعنت کرنا بھی اسکو قتل کر دینے کے برابر ہے ۔
ہم اگرگذرے ہوئے زمانہ پر نظرکر یں اور اسلامی مذاہب اور مسلمانوں کی تاریخ کا بغور مطالعہ کر یں تو ہمیں پتہ چلے گا کہ بہت مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ کسی کو فاسق یا کافر کھنا ، بہت سے بے گناہ افرا د کے قتل کا باعث بن گیا ۔
روایت میں ملتا ہے کہ قیامت کے دن ایسے شخص کو لایا جائیگا کہ جس نے دنیا میں اچھے کام انجام دئے ہیں لیکن حساب و کتاب کے وقت اپنے اعمال نامے میں ایک عظیم گناہ کو مکتوب دیکھ کر یہ اعتراض کرے گا ( کہ میں نے یہ گناہ انجام نہیں دئے) تو اسکو جواب دیا جائیگا کہ فلاں کے قتل کا گناہ تیری گردن پر ہے تو وہ کھے گا کہ میں نے کسی ایسے شخص قتل کو نہیں کیا او رمیرے ھاتھ کسی کے خون سے آلودہ نہیں ہیں ، تو اسے جواب ملے گا کہ تم نے فلاں شخص کے بارے میں کوئی بات سنی اور اسکو دوسروں کے سامنے نقل کر دیا ،و ہی بات اثر انداز ہوئی او رآخر کار وہ قتل ہو گیا ،لہٰذا تو اس بات کونقل کر نے کی بنا پر تم اسکے قتل میں شریک ہو ۔
ان تمام روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے جو فریقین کے حوالے سے نقل کی ہیں ہم اس نتیجہ پر پہونچتے ہیں کہ ایک دوسرے کو فاسق کھنا یا کافر سمجھنا ، گا لیاں دینا اورجاہلانہ بغض و عناد اسلامی مذاہب او رمسلمانوں میں فرقہ وارنہ جنگ ، صدر اسلام سے ابتک رواج پاچکی ہے یہ قطعاً حرام ہے ا ورفریقین کی روایات کے صریحاً مخالف ہے ۔
مندرجہ بالا آیات و روا یات نیز اسی طرح کی اور بہت سی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑی جرآت کا کام ہے کہ روایات میں ان تمام صراحتوں کے با وجود کوئی مسلمان فقط اس نیّت سے کہ اسکے دینی عقائد اور اصول کی طرف قلباً مائل نہیں یا بعض صحابہ کے نا مناسب سلوک اور اعمال کی بنا پر یا اس سے بھی بڑ ھ کر اپنے سیاسی یا اقتصادی مقاصد کی وجہ سے یا اپنے علوم اسلامی سے متعلق، مختلف فہم و فراصت کی بنا پر دوسرے مسلمان پر فسق اور کفر کی تہم ت لگائے یا اسلام سے منحرف ہونے کی نسبت دے ۔
( یہ بڑی جرائت کا کام ہے ) لیکن افسوس کہ اسلام کے ماننے والے ، اسلامی اصول اوربنیاد ی مسائل سے جھالت کی بنا پر آپس میں نامناسب سلوک رکھتے ہیں اور یہی نامناسب اور غیر منطقی سلوک مسلمانوں میں تفرقہ اور گروہ گروہ تقسیم ہونے کا سبب بنا ، اس بنا پرھرگروہ دوسرے کو اپنا دشمن سمجھتا ہے اور ایک دوسرے کو گالی گفتار سے نوازتے ہوئے کفر کے فتوے لگاتا ہے ۔
مذکورہ موضوع پر غیر صریح روایتیں
ان روایات کے علاوہ جو بطور صریح اور واضح الفاظ میں مسلمانوں کو ایک دوسرے کو کافر کہنے سے روکتی ہیں، دوسری روایتیں بھی ملتی ہیںجو اس عمل کے مضّر اور منفی اثرات کو بیان کرتی ہیں،عنوان مذکورہ کے علاوہ اور دوسرے عنوان بھی ہیں جنکا اسلام کی نظر میں حرام ہونا مسلّم الثبوت ہے ۔
ان عنوانوں کے روشن مصداقوں میں سے کسی کو کافر کھنا بھی ہے اور مؤمن کی بے حرمتی یا مؤمن پرتہم ت لگانا سبّ وشتم کرنا ، لعنت کرنا حقیر اور ذلیل سمجھنا ، نیز مذاق اڑانا ، سرزنش کرنا، مؤمن کی توہین اور اسکواذیّت وآزار پہونچا نا ، اسکے عیب تلاش کرنا اور مسلمانوں کے ساتھ دشمنی و غیرہ وغیرہ بہت سے عنوانات پائے جاتے ہیں جو سب کے سب غیر صریح طور پر مرتبط مسئلہ کی حرمت پر دلالت کرتے ہیں کہ ان میں سے بعض کی طرف مختصر طور پر اشارہ کرتے ہیں ۔
مؤمن کی بی حرمتی پر اسلام کی واضح مخالفت
اسلامی قانون میں مسلمان کی جان کی طرح اس کا مال اور عزّت و آبروبھی محترم ہے چنانچہ پیغمبر اسلام(ص) نے فرمایا ہے :
”اِنَّ اللهَ حَرَّمَ عَلَی المُسلِمِ دَ مَهُ وَ مَالَهُ وَ عِرضَهُ وَ اِن یَظُنُّ بِهِ سُؤءُ الظَّنِّ
“
” خداوند عالم نے ہر مسلمان پر ، دوسرے مسلمانوں کی جان ، مال ، عزّت و آبرو اور ان کے بارے میں بدگمانی کرنے کو حرام قرار دیا ہے “
جس نے بھی اس عمل کو انجام دیا ،و ہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ہوا اور گناہ کبیرہ پر عذاب کا وعدہ کیا گیا ہے ۔
خلاصئہ مطلب یہ ہے کہ مؤمن کی آبروریزی اور بے احترامی کسی طرح سے بھی جائز نہیں ہے، چاہے اسکا مذاق اڑانے یا مسخرہ کرنے کے ذریعہ ہو یا اسکی سرزنش، توہین، جھوٹاسمجھنا ، لعنت و ملامت اور تکفیر کرنے کے ذریعہ ہو ،چنانچہ ایک مسلمان کو کافر کھنا سب سے زیادہ واضح نمونہ ہے ۔اس سلسلہ میں حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہےں:
”مَن رَوَیٰ عَلَی مُؤمِنٍ رِوَایَةً یُرِیدُ بِهَا شَینَهُ وَ هَدمَ مُرُوََّتِهِ لِیَسقُطَ مِن اَعیُنِ النَّاسِ اَخرَجَهُ اللهُ مِن وِلَاَیَتِهِ اِلیٰ وِلاَیَةِ الشَّیطَانِ فَلاَ یَقبَلُهُ الشَّیطَانُ
“
” جو شخص بھی مؤمن کی عیب جوئی اور بے احترامی کی غرض سے کوئی بات کھے تا کہ اسکو لوگوں کی نظروںسے گرا دے تو خداوند عالم ایسے شخص کو اپنی رحمت سے نکال کرشیطان کی سرپرستی میں بھیج دیتا ہے ،اور شیطان بھی اسکو قبول نہیں کرتا “۔
تکفیر سے بدتر اور کون سی قبیح بات ہوگی جو مؤمن کی روحانی ،معنوی اور اعتقادی شخصیت کو پامال کرتی ہے ۔
اسلام میں کسی مؤمن پر تہم ت لگانے کی ممانعت
تہم ت یعنی کسی انسان کی طرف کسی ایسی بری چیز کی نسبت دینا جو اس میں نہیں پائی جاتی ، دین اسلام نے اس طرح کے برے اعمال کی شدّت سے ممانعت کی ہے ، اور بڑے ہی شدید لہجے میں منع کیا ہے نیز اس قبیح فعل کو بڑے گناہوںمیں شمار کیا ہے ،تہم ت اور بری نسبت دینے کی بھی بہت سی قسمیں ہیں ، بھرحال کسی پر بے دینی کی تہم ت لگانا تہم ت کی سب سے بدترین قسم ہے ، تہم ت کے متعلق روایتیں ایسے تمام افراد کے شامل حال ہیں ، ( جو دوسروں پر بے دینی و غیرہ کا الزام لگاتے ہیں )
حضرت رسالت مآب(ص) فرماتے ہیں :
”مَن بَهَتَ مُؤمِناً اَو مُؤمِنَةً اَو قَالَ فِیهِ مَا لَیسَ فِیهِ ، اَقَامَهُ اللهُ عَزَّوَجَلَّ یَومَ القِیَامَةِ عَلیٰ تَلٍّ مِّنْ نَاْرٍحَتیَّ یَخرُجَ مِمَّا قَالَ فِیهِ
”جوشخص کسی مؤمن یا مومنہ پر بہتان لگائے یا ان کے بارے میں کوئی بری بات کھے جو ان میں نہیں پائی جاتی تو خداوند عالم قیامت میں آگ کی سیڑھی پر اسے روکے رھے گا تا کہ جو بدگوئی ( کسی مؤمن کی نسبت ) کی ہے اس کا بھکتان بھگتے ۔
حضرت امام جعفر صادق(ع) فرماتے ہیں:
”مَن ِاتّهََمَ اَخَاهُ فِی دِینِهِ فَلاَحُرمَةَ بَینَهُمَا وَ مَن عَامَلَ اَخَاهُ بِمِثلِ مَا عَامَلَ فَهُوَبَرِی مِمَّا یَنتَحِل
“
”جوبھی اپنے دینی بھائی پر تہم ت لگائے تو ان کے درمیان پھر کوئی احترام باقی نہیں رہا اور جو شخص اپنے برادر دینی کے ساتھ ، وہی طریقہ اپنائے اور ویسے ہی ملے جیسا کہ دوسرے لوگوں کے ساتھ ملتا ہے تو ایسا شخص مذہب سے خارج ہے ۔
اسلام نے کسی مؤمن پر لعنت اور گالی گفتار سے منع کیا ہے
ایک دوسرے کی طرف بری اور نازیبا نسبت دینا ناگوار الفاظ کھنا جیسے خائن، فاسق ، فاجر ، ملعون و غیرہ کھنا اور اس سے بھی بڑھکر مشرک ، کافر و غیرہ کھنا یا ایسے الفاظ کھنا کہ جن سے کسی مسلمان کی حقارت اور ذلّت ہوتی ہو قطعاً اور یقیناً حرام ہے ، اور بہت سی روایتوں میں اس برے عمل سے روکا گیا ہے ۔
حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :
”سِبَابُ المُؤمِنِ فُسُوقٌ وَ قِتَا لُهُ کُفرٌ وَحُرمَة ُ مَا لِهِ کَحُرمَةِ دَمِهِ
“
”مؤمن کو گالی دینا فاسق ہونے کا سبب ہے اسکے ساتھ جنگ کرنا کفر ہے اور اسکا مال بھی اسکی جان کی طرح قیمتی اور محترم ہے ۔
مزید فرماتے ہیں کہ ”وَلَعنُ المُؤمِنِ کَقَتلِهِ
“ مؤمن پر لعنت کرنا اسکے قتل کرنے کے برابر ہے ۔
مسلمانوں کی طرف کفر کی نسبت دینا حرام ہے
اس بارے میں علماء کے فتوے
ہم یھاں پر اسلامی مذاہب کے ائمہ اور بزرگ علماء اسلام کے فتوے مختصر طور پر پیش کرتے میں ،تا کہ یہ بات روشن ہو جائے کہ اسلامی معاشرے میں ایک دوسرے پر تہم ت لگانا ، کفر و تہم ت کے لئے راہ ہموار کرنا، نیز کفر کے فتووںکی اسلام کی نظرمیں کوئی اصل و بنیاد نہیں ہے چونکہ قبیح اورگھناؤنی باتیں نہ اسلام کی حیات بخش تعلیم سے سازگارہیں اور نہ ہی آیات وروایات اور علماء اسلام کے فتاویٰ سے اسکی تائید ہوتی ہے۔
شیعہ علماء کرام کے فتوے
شیعہ مذہب میں عظیم اور بزرگ علماء جیسے شیخ صدوق(رہ) کتاب ہدایہ میں ، شیخ مفید(رہ) اوائل المقامات میں ، محقق حلی (رہ) شرایع الاسلام میں صاحب جواہر(رہ)جواہر الکلام میں ، آیت اللہ الحکیم مُستمسک میں اورجناب آملی (رہ)نے مُصباح الھدیٰ میں ، علامہ مجلسی(رہ) نے بحارالانوار میں ، اور الحاج آقاے رضا ہمدانی (رہ) نے مُصباح الفقیہ ، میں تحریر کیا ہے کہ جو شخص شھادتین (لاالہ الاا لله محمد رسول الله)کا اظھار کرے وہ شخص مسلمان ہے ،اور اسلام کے اجتماعی حقوقی او ر عدالتی احکام اس پر جاری ہوں گے۔
نمونہ کے طور پر شیخ صدوق (رہ) کی کتاب الھدایة کی عبارت پیش خدمت ہے ،موصوف فرماتے ہیں:
”الِاسلاَمُ هُوَ الاِقرَارُ بِالشَّهَادَتَیںِ وَ هُوَ الَّذِی یُحقَنُ بِهِ الدِّمَاءُ وَ الاَموَالُ وَ مَن قَالَ لاَ اِلٰهَ اِلّااللهُ مُحَمَّدٌرَسُولُ اللهِ(ص) فَقَد حُقِنَ مَالُهُ وَ دَمُه
‘ُ‘
”اسلام یعنی خدا کی وحدانیت اور حضرت محمد(ص) کی رسالت کا ا قرار کرنا ،اور جس نے شھادتین کو زبان پر جاری کر لیا اسکی جان و مال ہر طرح کے تجاوز سے محفوظ ہے لہذا جو بھی” لا الہ الاالله محمد رسول الله “کھے اسکی جان و مال محفوظ ہے “
بغیر کسی شک و تردید کے علماء ان فتاویٰ کے ہوتے ہوئے کسی کو بھی، کسی ایسے شخص کو کافر کہنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو کلمہ شھادتین کا اقرار کرے اگر چہ زبانی ہی اقرار کرے۔
سنّی علماء کے فتوے
اشعری کا فتویٰ :
”احمدبن زاہرسرخی “جن کا شمار امام ابوالحسن اشعری کے بزرگ شاگردوں میں ھوتا ہے، نقل کرتے ہیں کہ وہ(ابوالحسن اشعری ) اپنے زندگی کے آخری لحظات میں میرے غریب خانہ پر تشریف فرماتھے اسوقت مجھے حکم دیا کہ ان کے سبھی شاگردوں اور دوستوں کو ان کے پاس بلاؤں، جب لوگ جمع ہو گئے تو سب کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
”اَشهِدُوا عَلَی اِنَّنیِ لَا اُکَفِّرُاَحَداً مِّن اهل القِبلَةِبِذَنبٍ ِلاَنَّهُم کُلُّهُم یُشِیرُونَ اِلَی مَعبُودٍ وَاحِدٍ وَ الِاسلاَمُ یَشمُلُهُم وَیَعُمُُّهُم
“
” تم سب لوگ گواہ رھنا کہ میں نے کبھی بھی کسی ایسے شخص کو جوایک قبلہ کا ماننے والا ہے اسکے کسی گناہ کی وجہ سے اُسے کافر نہیں کھا اس لئے کہ وہ سب ایک ہی معبود کی عبادت کرتے ہیں وہ لوگ اسلام میں شامل ہےں، اوروہ سب اسلام کے دائرے میں ہیں “
ابوحنیفہ و غیرہ کا فتویٰ :
”قال ابن حزم ”وَذَهَبَ طَائفَة ٌاِلَی انّهُ لَا یُکَفِّرُ وَلَا یُفَسِّقُ مُسلِمٌ بِقَولٍ قَالَهُ فِی اِعتِقَادٍ اَوفَتیَا … وَهَذَا قَولُ اِبنِ اَبِی لَیلیٰ وَ اَبِی حنیفه و الشافعی و سفیان الثوری و داؤد ابن علی و هو قول کل من عرفنا له قولاً فی هٰذه المسالة من الصحابة و لا نعلم فیه خلافاًفی ذلک
“
ابن حزم ( جن کا شمار فرقہ ظاہر یہ کے رھبروں میں ہوتا ہے ) کہتے ہیںکہ علماء کاایک گروہ اور جماعت کا نظریہ یہ ہے کہ کسی مسلمان کو اسکے عقیدہ یا ایسے فتووں پر عمل کرنے کی وجہ سے جومشھو ر نہیں ، فاسق یا فاجر نھیںکھاجاسکتا اور یہی نظریہ ابی لیلیٰ جو ابو حنیفہ کے ہم عصر تھے اور ابو حنیفہ ،شافعی ، سفیان ثور ی ( ابو حنیفہ کے دوسرے ہم عصر ) اور داؤد بن علی کا نظریہ ہے ، اور ہم نے کسی صحابی کو بھی اس نظریہ کا مخالف نہیں پایا ۔
جب شیخ الاسلام تقی الدین سبکی سے اہل ہوا و ہوس اور بدعت کرنے والوں کی تکفیر کے متعلق سوال ہو تا ہے تو وہ جواب میں تحریر کرتے ہیں :
”اے میرے بھائی یہ بات ملحوظ خاطر رھے کہ کسی مؤمن کے کفر کے متعلق اظھار کرنا نھایت مشکل اور سخت کام ہے ، لہذا جوشخص مؤمن ہو اسکے لئے کسی ایسے شخص کو جو” لا الہ الاالله محمدرسول الله“ کا اقرار کرتا ہے ، فقط ہوا پرستی یاکسی بدعت کی بنیاد پر کفر کا فتویٰ لگانا بہت ہی خطرناک کام ہے اور کسی کی طرف بھی کفر کی نسبت دینا کوئی آسان کام نہیں ۔
اور دوسری جگہ پر جب ان سے غالی ، بدعتی اور ہوا پرست متکلمین او ر فلاسفہ سے متعلق سؤال ہو تا ہے تو فرماتے ہیں کہ یہ جان لینا چاہئے جسکے دل میں الله عزو جل کا خوف ہو وہ کسی ایسے شخص کے کفر کے متعلق زبان کھولنے گی ھرگزجرات نھیںکر سکتا جو ” لاالہ الاالله او ر محمد رسول الله “کا اقرار کرنے والاہے ۔۔۔ نیز انھوں نے اپنی گفتگو کو جاری رکھتے ہوئے فرمایا کہ کوئی شخص بھی کسی مؤمن کو کافر نہیں کہہ سکتا مگر یہ کہ خود اصول دین سے خارج اور کلمہ شھادتین کا منکر ہوجائے نتیجہ میں ایسا شخص اسلام کے دائرے سے خارج ہوجائیگا “ ۔
اوزاعی کہتے ہیں:
” خدا کی قسم اگر مجھے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا جائے تب بھی شھادتین کا اقرار کرنے والے کوکافر نہیں کہہ سکتا “
حسن بصری فرماتے ہیں:
جب ان سے نفس پرستوں کے متعلق سؤال کیا گیا تو اپنے جواب میں فرمایا کہ تمام وہ افراد جو خدا کی وحدانیت کی گواہی دیتے ہیں ، ہمارے رسول(ص) کے امّتی ہیں اور یقیناً جنّت میں جائیں گے۔
زھری ، سفیان ثور ی اور سعیدبن مسیّب و غیرہ جیسے بزرگ علماء بھی کسی مسلمان کو کافر کہنے کی اجازت نہیں دیتے اور اس کی تکفیر کو حرام جانتے ہیں ۔
لہٰذا جب یہ ثابت ہوگیا کہ کسی پر تہم ت لگانا یا کسی مسلمان کو کافر کھنا بے بنیاد بات ہے اورآیات و روایات کی روشنی میں اسلام کی شدید مخالفت بھی اس موضوع سے متعلق ظاہر اور روشن ہوگئی تو تمام مسلمانوں پر خصوصاً ان علماء پر کہ جو دین اور شریعت کے محافظ ہیں ، واجب اور ضروری ہے کہ معاشرے کے دامن سے اس کثیف اور ننگین دھبّہ کو مٹانے کی کوشش کرےں اور ان منحوس باتوں کا معاشرے سے نام ونشان تک مٹا دیں اور مسلمانوں کو ان بے بنیاد باتوں سے جو مصیبتیں مشکلات، کدورتیں، تفرقہ بازی اور جنگ و جدل سے نجات دلاکر آسودہ خاطر کریں عقیدہ اور فرعی احکام میں فقط اسلامی اصولوں پر اعتماد کرتے ہوئے معاشرے میں اخوت اور بھائی چارگی کی فضا دوبارہ ہموار کریں، آپس میں سماجی رابطوں اور تعلقات کو مضبوط سے مضبوط تر بنائیں اور تمام مسلمانوں کو متحد ہوکر الله کی رسّی ( دین )کو مضبوطی سے پکڑنے کی دعوت دیں ، یہ الٰھی اور اسلامی انقلاب جو سرزمین ایران پر ظھور پذیر ہوا اسکی قدردانی کرتے ہوئے آپس میں بے وجہ کینہ اور کدورتوں کو دور کرنے کی کوشش کریں اور سب کو ایک صف میں کھڑے ہوکر ایک جسم وجان کے مانند اسلام کے لئے ایک مضبوط حصار میں تبدیل ہوجائیں اور سامراج اور ظالم طاقتوں کا نام ونشان مٹادیں ،اس امید کے ساتھ کہ الله کی عطا کردہ اس عظیم نعمت کے سایہ میں مسلمانوں کے درمیان اتحاد اوریکجہتی کی فضاقائم ہو ، اور اس کے سایہ میں اسلامی برادری اپنی عزت و عظمت کو دوبارہ حاصل کرلیں تا کہ پھرکسی کو اپنی عظمت رفتہ کا ماتم نہ کرناپڑے ۔
وہابیوں کے ھاتھوں اہل کربلا کا قتل عام
وہابیوںکی زندگی کی بھیانک اور تاریک تاریخ میں وہ دردناک غم انگیز اور دل، ھلا دےنے والے حادثات نظر آتے ہیں ،جوایک زمانہ گذر جانے کے باوجود بھی بھلائے نہیں جاسکتے ، ان میں سے ایک حادثہ کربلا کے مقدس شھر پر ۲۱۶ اہ میں افسوسناک حملہ کی شکل میں پیش آیا ، ہم اس دردناک قتل عام واقعہ کا خلاصہ” ڈاکٹر سید عبدالجواد کلید دار“ کی کتاب” تاریخ کربلا“ نامی کتاب سے نقل کررھے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ :
”واقعہ عاشورا کے دردناک واقعہ کے بعد تاریخ کربلامیں جو سب سے بڑا افسوس ناک اور ہولناک واقعہ ہواہے وہ وہابیوں کے ھاتھوں کربلاکے لوگوں کا قتل عام ہے جو ۶ ا ۲ اہجری میں پیش آیا ، یہ دل کو لرزادینے والادردناک حادثہ جس کے شعلہ ، چنگاریاں اور اثرات تمام اسلامی اور یورپی ملکو ں میں اب بھی باقی ہےں ، مسلمانوں اور مغربی تاریخ نگاروں نے اس واقعہ کے غم انگیز اور دردناک اثرات کے متعلق بہت کچھ لکھاہے اور لکھتے رہتے ہیں نیز اس واقعہ کو کربلاکی تاریخ میں دوسرے دردناک واقعہ کے عنوان سے یادکرتے ہیں ۔
ایک انگیریز ”اسٹیفن ہمیسلی، لوئیکر “ اپنی ” تاریخ عراق کی چارصدیاں “ نامی کتاب میں لکھتا ہے کہ نجدی عربوں کا بار ہویں صدی ہجر ی کے اواخر تک وہی عقیدہ اور مذہب تھا جو باقی سارے مسلمانوںکا عقیدہ اور مذہب تھا اور دونوںمیں کوئی فرق نہ تھا، یہ اس زمانے کی بات ہے جب محمدبن عبدالوہاب نے اپنے نئے نظریات او رافکار کا نشانہ بادیا نشین عربوں کو بنایا تھا ۔
اس زمانے میں محمدبن عبدالوہاب کے نظریات کوسب سے پھلے محمدبن مسعود نے قبول کیا جو عرب کی بادیا نشین آبادی کا بادشاہ تھا ۔
محمدبن عبدالوہاب کہ جس نے بغداد میں تعلیم حاصل کی پھر مدینہ کا رخ کیا تب مقام عوینہ (جو حجاز میں واقع ہے ) کی طرف لوٹ آیا ۔
وہ دردناک واقعہ جو وہابیوںکی قساوت قلبی ، سنگ دلی ، درندگی اور حرص و ہوس پرستی پر دلالت کرتا ہے کہ جسکو وہ ( وہابی ) دین او ردینداری سمجھتے ہیں وہ واقعہ ہے کہ جب وہابیوںکے لشکر نے مسلمانوں کے قتل عام کے لئے پیش قدمی کی ۔
وہابی لشکر کے شھر کربلا کے قریب آنے کی اطلاع اس وقت ہوئی کہ جب کر بلا کے رھنے والے اکثر افراد زیارت کی غرض سے نجف اشرف گئے تھے اور باقی لوگ جو کربلا میں موجود تھے دروازوں کو بند کرنے میں مشغول ہوگئے ۔
وہابیوں کا لشکر چار سو سوار اور چھ سو پیادہ افراد پر مشتمل تھا ، یہ ایک ہزارسپاہیوں پر مشتمل لشکر شھر کے باہر پڑاؤ ڈال کر خیمہ زن ہوا ، پھر اپنی فوج کو تین دستوں میں تقسیم کرنے کے بعد آخر کار ”باب المحیّم“نامی محلہ کی جانب سے شدید حملہ کرنے کے بعد شھر میں داخل ہو گئے ۔
لوگ چار و ںطرف سے تتر بتر ہو کر بھا گ کر جان بچانے کی کوشش کر رھے تھے تب وہابیوں نے امام حسین (ع) کے روضہ کا رخ کیا اور راستہ صاف کرکے روضہ منور تک جا پہونچے روضہ میں گھس کر حضرت کی مقدس ضریح کو توڑدیا اور نھایت بی حرمتی کی اور روضئہ مبارک کی تمام نفیس اشیاء قیمتی ہدایا ، شمعدان ، جھاڑ فانوس بیش بھا قالینیں اور گرانقیمت چراغدان ، گنبد میں لگا ہوا سونا اور تمام ھیرے و جواہرات اور اس طرح کی بہت سی قیمتی چیزوں کو لوٹ کر شھر سے باہرنکل گئے ، اس ظلم و تشدّد پر ہی اکتفاء نہ کیا بلکہ روضہ اقدس کے صحن میں نیز مقدس ضریح کے پاس ظلم و بربریت کا وہ کھیل کھیلا کہ انسانیت بلبلا اٹھی، شیشہ اور آئینوں سے روضہ مبارک کی مزیّن در و دیوار کو مسمار کرتے ہوئے ضریح کے نزدیک پچاس مؤمنین کو ا ورصحن اطھرمیں پانچ سو بے گناہ زائرین کو بڑی بے دردی سے قتل کرڈالا ۔
سفّاک ، سنگدل اور وحشی درندوں نے شھر میں ہر طرف تباہی، لوٹ مار ، قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیا جو بھی نظر آیا ذرّہ برابر رحم کئے بغیر اسے قتل کردیا ،گھروں کو تاراج اور شھر کو ویران کردیا، اس قتل و غارت گری میں مرد عورت پیرو جوان ضعیف و کمزور یھاں تک کہ بچوں پر بھی رحم نہ کیا ، کوئی بھی ان کی درندگی سے محفوظ نہ رہ سکا ، مورخین نے قتل ہونے والوں کی تعداد اکی ہزار اور بعض نے فقط زخمیوں کی تعداد پانچ ہزار تک بتائی ہے،مدینہ کے وہابی ملاؤں نے ۳۴۴ اہ میں جنّت البقیع اور دوسری جگھوں پر مقدس قبروں کو مسمار اور منھدم کرنے کا فتویٰ صادر کردیا اس سال ۸ شوال کو شہزادی کو نین صدیقہ طاہرہ دختر رسول(ص) حضرت فاطمہ زھرا سلام اللہ علیھا کی قبّہ مبارک کو منھدم کرنے کا فتویٰ جاری کیا اس فتوے کے فوراً بعد شہزادی کو نین کی قبر مبارک کو منھدم کردیا گیا ۔
اسکے بعد ہمارے چار امام یعنی حضرت امام حسن مجتبیٰ (ع) امام زین العابدین (ع) امام محمد باقر (ع) اور امام جعفر صادق (ع) کے مبارک مرقدوں اور رسولخدا کے چچا جناب عباس پیغمبر اکرم(ص) کے فرزند جناب ابراہیم (ع) اور آنحضرت(ص) کی پھوپھیوں اور بیویوں کی قبروں نیز جناب فاطمہ بنت اسد کی قبر مبارک اور اسلامی لشکر کے سردار رسول خدا کے چچا جناب حمزہ کی قبر مقدس کوبھی منھدم کردیا یھاں تک کہ نشان قبر بھی مٹا نے کی کوشش کی گویا یہ بھیانک جرائم کرکے اس آیہ شریفہ پر عمل کرنے کا ثبوت دیا :
”(
قُل لَااَسئَلُکُم عَلَیهِ اَجراً اِلاَّالمُوَدَّةَ فِی القُربیٰ
)
“
اے پیغمبر ان سے کھدو کہ میں اپنے اقرباء کی مودّت اور محبت کے سوا ء تم لوگوں سے کسی اجر کا طلبگار نہیں ہوں ۔
شیعہ مذہب کے عالی مقام مجتھد اور عظیم مرجع آقائے محمد باقر اصفھانی کہ جو وحید بھبھانی کے نام سے مشھور ہیں ، ان کے نواسے ایک بزرگ اور مشھور عالم علامہ آقائے احمد کرمانشاہی جو اس زمانہ کے مشھور علماء میں سے ہیں اپنی ” مرآةالاحوال جھاں نما “ نامی کتاب میں وہابیوں کے کربلا پر ظالمانہ حملہ کے بارے میں تحریر فرماتے ہیں یھاں پر اس کتاب سے کچھ باتیں پیش کردینا مناسب سمجھتے ہیں ،علامہ احمد کرمانشاہی جو اسوقت ( کربلامیں وہابیوں کے ظالمانہ حملہ کے موقع پر ) کرمانشاہ میں تشریف فرماتھے اس طرح تحریر فرماتے ہیں:
” ان دنوں وہابی جماعت کی کربلائے معّلیٰ اور اس پاک ومقدس شھر میں قتل و غارت گری جو خبریں موصول ہوئی ہیں ان کا خلاصہ یہ ہے اس مقدس شھر ( کربلا) اور اسکے اطراف وجوانب میں ساکن افراد ۶ ا ۲ اہ میں عید غدیر کے موقع پر حضرت علی (ع) کے روضئہ اقدس کی زیارت اور حضرت کی ڈیوڑھی پر بوسہ دینے کی غرض سے نجف اشرف گئے ہوئے تھے اور اس شھر میں موجود نہ تھے ، بدنھاد اور منحوس سعود (بادشاہ وقت ) کو جب اس بات کی خبر ہوئی کہ کر بلا کامقدس شھر خالی ہے ، اس نے اس شھر مقدس کو راتوں رات گھیر لیا ، جس وقت ذی الحجہ کے مھینے میں غدیرکے دن مومنین زیارت اور عید کی تیاری میں مشغو ل تھے ، قلعہ کو پوری طرح سے محاصرہ میں لے لےا ،افرادکی کمی اور سامان جنگ کی قلّت اور وہاں کے حاکم ” عمد ناصبی “ کی سستی کی وجہ سے مومنین کی کمر ٹوٹ گئی اور لوگوں کی قوت دم توڑگئی اور مرکز ضلالت کی گمراہ فوج نے قلعہ کے دروازہ کو توڑکر نیز اطراف و جوانب سے شھر میں داخل ہوکر قتل و غارت گری شروع کردی چنانچہ تین ہزار مقدس مجاور اور زائرین درجہ شھادت پر فائز ہوئے ، اور قبہ مبارک نیز حضرت سید الشھداء حضرت امام حسین (ع) کے روضہ اقدس کو ناقابل تلافی نقصان پہونچا اور ضریح مقدس کے جوارمیں بسنے والوں کے گھروں کو تاراج کرڈالا اور زوال کے بعد اس منحوس فوج کے مقام درعیّہ کی طرف چلے جانے کے بعد ظلم اور بربریت کا یہ کھیل ختم ہوا ۔
میر عبداللطیف شوشتری جو شھر شوشتر کے نورانی سلسلہ سادات اور سید نعمت الله جزائری کی نسل میں سے ہیں اور صفوی حکومت کے آخر ی دور کے مشھور ومعروف مجتھد اور فقیہ ہیں ، موصوف اپنی” تحفہ العالم “نامی کتاب میں جو ایک سفرنامہ ہونے کے باوجودتاریخی جغرافیائی شعر و ادب اور ھندسہ شناسی کے متعلق اپنے دامن میں بہت سے اہم نکات لئے ہوئے ہے اور فارسی زبان کے سیاست سے متعلق ایک اہم اور قدیمی کتابوں میں شمار ہوتی ہے ، محمد بن عبدالوہاب کے نمایان ہونے اور اسکی منحرف تعلیم و تریبت نیز اسکی باطل فکروں ، کربلائے معلّیٰ پرحملہ ، ضریح مقدس اور قبروں کومنھدم کرنے کے متعلق بہت ہی روشن بیانات ملتے ہیں قارئین محترم کومکمل فائد ہ ،نیز معلومات میں اضافہ کی خاطر مرحوم مجتھد کے بیان کو یھاںپر بیان کردینا مناسب ہے ۔
آپ اپنے سفرنامہ کے اختتام میں کہ جو’ ’ ذیل التحفہ“ کے نام سے موسوم ہے ، تحریر فرماتے ہیں :
”بھرحال جس وقت میں وہاں تھا تو عبدالعزیز وہّابی کی کدورتوں کی خبر موصول ہوئی کہ اس نے ۸ اذی الحجہ ۶ ا ۲ اہ میں عرب کی بدّو فوج کو لے کر کربلائے معلّیٰ کی مقدس سرزمین پر چڑھائی کی، اور تقریباً چار پانچ ہزار مؤمنین کو تہہ تیغ کرڈالا ، اور روضئہ منوّرہ کی جو بے ادبی اور بے حرمتی کی ہے، اسے قلم لکھنے سے قاصر ہے ، شھر کو برباد اور غارت کردیا ، مال و اسباب لوٹ لیا اور تباہی مچانے کے بعد اپنے وطن ”درعیّہ“ کی طرف چلاگیا “
جب بات یھاں تک پہونچ گئی تو مناسب ہے کہ کچھ باتیں وہابیوں کے حالات کے بارے میں رقم کردی جائیں تا کہ قارئین محترم وہابی مذہب سے پورے طور پر آگاہ ہوجائیں ،اور تشنگی محسوس نہ کریں۔
شیخ عبدالوہاب جو وہابیت کی اصل و بنیاد ہے ،نجد کے علاقہ درعیّہ سے تعلق رکھتا تھا ، اپنے زمانہ میں اپنے ہم عمر لوگوں کے درمیان ذھانت میں مشھور تھا ، اور چالاک سمجھا جاتا تھا ،اور سخی بھی تھا ، لہذا جو بھی اسکی دست رسی میں ہوتا تھااپنے تابعین اور مددگاروں میں خرچ کر دیتا تھا،اپنے ہی وطن میں تھوڑی بہت عربی علوم کی تعلیم حاصل کی ، بھر حال حنفی فقہ میں تھوڑی بہت جانکاری کے بعداصفھان کی طرف سفر کیااور و ہاں کے یونانی فلسفی ماحول میں یونانی فلسفہ کے مشھور اساتذہ سے فلسفہ یونانی کے کچھ مسائل سیکھے اور یونانی فلسفہ جو اپنی دلیل خود ہی باطل کرنے کے مترادف ہے او رگویا اپنے لئے خود ہی قبر کھودنے کے برابر ہے ،میں تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی، اس کے بعد اپنے وطن واپس چلا آیا اور ۱۱۷۱ ھ میں وہابی مذہب کا علمبردار بن کر ابھرا ، وہ حنفی طریقہ پر عمل پیرا تھا اور اصول میں امام ابوحنیفہ کا مقلّد تھا اور فروع دین میں اپنی رائے پر عمل کرتا تھا ،آخر کار اصول کے بعض مسائل میں بھی ابوحنیفہ کی تقلید کے طوق کو گردن سے اتار کر پھینکا اور اپنی مستقل رائے کا اظھار کرنے لگا، اپنی ذاتی رائے کے مطابق جو بھی اس کو اچھا لگتا تھا وہی کہتا تھا اور اس پر لوگوں کو عمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اس کی اپنی ذاتی رائے تھی کہ مسلمانوں کے تمام فرقے یھودی ،عیسائی اور تمام لوگ مشرک او رکافر ہیں اور سب ہی کو بت پرستوں کے زمرے میں شمار کرتا تھا او راپنی اس باطل رائے پر یہ دلیل پیش کرتا تھا کہ مسلمان حضرت رسول اکرم(ص) کی قبر منور پر ،ائمہ ہدیٰ اور اولیاء، اوصیاء کے مقدس روضوں اور پُر نور قبروں سے متوسل ہوتے ہیں، جو خود مٹی اور پتھر سے بنے ہوئے ہیں او رقبر میں سونے والے مردوں سے توسل کرتے ہیں، ان کی قبروں کے سامنے سجدہ کرتے ہیں ان کے آستانوں پر جبین نیاز خم کرتے ہیں۔
حالانکہ حقیقت میں یہ بت پرستی اور بتوں کی عبادت ہے کہ اگر بتوں کی تصویر یا خود بت یا اس کی مخصوص شکل کو خدا نہ سمجھیں بلکہ یہ کھیں کہ یہ ہمارا قبلہ ہے اور فقط اس کے واسطے سے اپنی حاجتوں کو خدا کی بارگاہ میں پیش کرتے ہیں جیسا کہ یھودی اور عیسائی کلیساؤں او راپنی عبادتگاہوں میں حضرت موسی ٰ (ع) او رحضرت عیسیٰ (ع) کی تصویر نصب کرکے خدا کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دیتے ہیں جب کہ خدا کی عبادت یہ ہے کہ ذات اقدس کے لئے عبادت کرےں اور سجدہ ریز ہوں او رکسی کو خداوندعالم کا شریک قرار نہ دیں۔
گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے بعض مددگار قبیلوں نے اس کی پیروی کی اور اس طرح نجد کے دیھاتی علاقوں میں مشھور ہوگیا وہ ہمیشہ حضرت رسول اکرم(ص) کے روضہ کی گنبد اور ائمہ کے روضوں کے منھدم کرنے سے متعلق موضوع کو ورد زبان رکھتا تھا اور اس کو اپنا نصب العین اور اپنے منحوس مقاصد کی کامیابی میں رکاوٹ سمجھتا تھا ،وہ ہمیشہ اسی کوشش میں لگا رہتا تھا کہ اگرقدرت وطاقت حاصل ہوجائے تو سب روضوں کو تباہ و برباد کرکے ان مقدس آستانوں کا نام و نشان تک مٹادیں لیکن موت نے اسے مھلت نہ دی اور مرگیا ۔
یھاں تک کہ عبدالعزیز جو محمد بن الوہاب کا ہم عصر تھا خود بھی اور اسکا بیٹا سعود کہ وہ دونوں خلیفہ، جانشین اور امیرالمسلمین جیسے ناموں سے موسوم تھے،انھوں نے بھی نجد اور اسکے اطراف و جوانب کی بستیوں پر اکتفا ء نہیں کی بلکہ دور درازکے شھروں اور علاقوں کو بھی اسی طور طریقہ پر عمل کرنے کو کھا اور انہیں طو رطریقوں کو رائج کرنے میں بہت کو شاں رھے نیز اپنے پیروکا روں کے لئے تمام مسلمان فرقوں کے جان و مال کو حلال قراردے دیا اور اپنے لشکر اور اپنے پیروکاروں کو یہ حکم دیا کہ جس علاقہ میں جاؤ و ہاں کے مردوں کو قتل کرڈالومال و دولت لوٹ لو، لیکن عورتوں اورناموس پر ھاتھ نہ ڈالو اور لشکر کے ہر فرد کو جنگ کے وقت ایک رقعہ خازن جنّت کے نام لکھ دو تا کہ وہ اپنی گردن میں لٹکالے تا کہ جس وقت اسکی روح جسم سے جدا ہو فوراً بغیر کسی سؤال و جواب اور تاخیر کے بہشت میں داخل ہوجائے ، اسکے مرنے کے بعد اس کی آل و اولادکی ذمہ داری لے لی ، اس طرح سے ہر فوجی، مال و دولت او رجنّت کی لالچ میں سکون او راطمینان کے ساتھ جنگ میں قدم رکھنے لگا ۔
چونکہ اگر فتح ہوئی تو مال اور دولت ھاتھ آئے گا او راگر قتل ہوگیا تو اس رقعہ کی وجہ سے ( جو خازن جنّت کے نام اسکی گردن میں آویزاں ہے ) بغیر حساب وکتاب کے جنّت میں داخل ہوجائےگا۔
اس طرح گذشتہ سالوں میں نجد کے آس پاس کے علاوہ اور دوسرے شھر مثلاً احساء ، قطیف، اور بہت سے عرب علاقوں پر ، بصرہ کی حدود تک دوسری طرف عمان کے قریب علاقوں تک اور بنی عقبہ کے تمام علاقوں پر قھر اور غلبہ سے قابض ہو گئے ، لوگوں نے قتل وغارت اورتاراجی اور قید و بند کے مصائب سے تنگ آکر مجبوراً ان کے مذہب اور طو رطریقوں کو اپنا لیا ، اس طرح اسکی حکومت اور اقتدار کا اثر دنیا کے مختلف گوشوں میں پھیل گیا چندمرتبہ ان کے قھر و غلبہ کے متعلق روم کے بادشاہ اور عجم کے دوسرے بادشاہوں تک یہ خبر بھیجی گئیں اسکے باوجودکسی نے ان کو روکنے کی کوشش نہ کی اور نہ ہی ان کے مقابلہ اور دفاع کے لئے کوئی قدم اٹھایا ،اس کے بعد صاحب کتاب تحفة العالم اس رسالہ کا بعض حصّہ نقل کرتے ہیں جو محمدبن عبدالوہاب نے اپنے اعتقاد اور فتووں کے متعلق لکھا ہے جیسا کہ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے مذکورہ رسالہ کو محمدبن عبدالوہاب کے ماننے والے کے پاس دیکھا ہے اس رسالہ کو عربی ہی میں نقل کرنے کے بعد یہ تحریر فرماتے ہیں۔
اگر چہ اسکی اکثر دلیلیں جو اس نے قرآن کی آیتوں سے استدلال کے طور پر پیش کی ہےں، ان سب کا جواب بھی قرآن ہی کی آیات میں موجود ہے مثال کے طو رپر شعائر اللهکی تعظیم وتکریم رسولخدا(ص) کی اطاعت جو خداوند عالم کی اطاعت ہی میں مضمر ہے لہٰذا جب رسول(ص) کی اطاعت کا فرض اور واجب ہونا ثابت ہوگیا جیسا کہ یہ آیت بھی اطاعت رسو ل(ص) کی تائید کررہی ہے:
”(
وَ مَا یَنطِقُ عَنِ الهَوَیٰ اِن هُوَ اِلاّٰ وَحیٌ یُوحیٰ
)
آنحضرت(ص)کے فرمان کے مطابق جنت اور ارکان دین کا زبان سے اقرار کرنا بھی مہم ترین واجب او رفریضہ ہے اور جو کچھ آنحضرت یا صاحبان امر سے اپنی مشکلات اور مصیبتوں میں اپنے منافع یا اپنے ضرر سے بچنے کے لئے اپنی زندگی کی خوشحالی یاتنگ دستی کے ایّام میں یا آخر ت میں نجات سے متعلق متوسل ہو، تو اپنے اور خدا کے درمیان ان حضرات وسیلہ اور شفیع قرار دے تو نہ کوئی حرج ہے اور نہ اس سے کسی عقیدہ کو کوئی ٹھیس پہونچتی ہے لیکن وہابی افراد یا محمدبن عبدالوہّا ب کے پاس اپنی باتوں کو ثابت کرنے کے لئے سب سے بڑی اورخطرناک دلیل شمشیر برّان اور تیغ آبدار ہے ، اور ایسی دلیل کا جواب تلواروںکی تیز دھاروں کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا
خونین حج او رمسلمانوں کے قتل عام کا دردناک واقعہ
”(
اِنَّ الَّذِینَ کَفَرُوا ویَصُدُّونَ عَن سَبِیلِ اللهِ وَالمَسجِدِ الحَرَامِ الَّذِی جَعَلنَاهُ لِلنَّاسِ سَوَاءً العَاکِفِ فِیهِ وَالبَادِ وَ مَن یُرِد فِیهِ باِلِحَادٍ بِطُلمٍ نُذِقْهُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ
)
“
” بے شک جو لوگ کافرھوبیٹھے اور خدا کی راہ سے اور مسجد الحرام ( خانہ کعبہ ) سے جسے سب لوگوںکے لئے ( عبادتگاہ ) بنا یا ہے ( اور ) اسمیں شھری اور بیرونی سب کا حق برابر ہے (لوگوں کو) روکتے ہیں(انکو ) اور جو شخص اسمیں شرارت سے گمراہی کرے اسکو ہم دردناک عذاب کامزاچکھا دیں گے “
بغیر کسی شک وشبہ کے حج ایک اہم انسان ساز او راسلام کو پھیلانے کے لئے بہت ہی عظیم عبادت اور نھایت مؤثر ذریعہ ہے، حج میں بہت سی ایسی خصوصیات او رصفات پائی جاتی ہے جو حج کو تمام عبادتوں سے ممتاز بنادیتی ہےں ، ہم یھاں پر حج کو مختلف گوشوں اور پھلووں کی طرف مختصرسا اشارہ کریں گے اور پھر اس دردناک اور افسوس ناک واقعہ کے متعلق کچھ بیان کریں گے جو سعودی حکومت کے نوکروں نے ایرانی ( اور غیر ایرانی ) حاجیوں کا حج کے دوران قتل عام کیا ہے ۔
حج، دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہے
اور کسی مخصوص قوم یا نسل سے تعلق نہیں رکھتا
خداوند عالم قرآن مجید میں حج کے متعلق فرماتاہے ۔
”(
وَاَذِّن فِی النَّاسِ بِالحَجِّ یَاتُو کَ رِجَالاً وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاتِینَ مِن کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ
)
“
”اور لوگوں کے در میان حج کا اعلان کرو تا کہ لوگ ہر طرف سے جس طرح بھی ممکن ہوپیدل یا سوار ہو کر دور دراز علاقوں سے آ پ کی آواز پر لبیک کھیں اور خانہ خدا کی زیارت سے مشرّف ہوں ،اور حج کے لئے ہر ممکن وسیلہ سے استفادہ کریں “
قرآن مجید دوسرے جگہ فرماتا ہے:(
سَوَاءً العَاکِفِ ِفیهِ وَ البَادِ
)
“
خانہ خدا سب کے لئے برابر ہے چاہے مقامی افراد ہوں یا با ھرسے آنے والے مسافر،لہٰذا حج خدا کے سامنے تمام انسا نوں کو برابری کو کا درس دیتا ہے،اور حج انسانوں کے آپسی تعلقات میں مساوات کا عملی درس ہے ، اور انھی مفاہیم کے پیش نظر حج کے سیاسی پھلو کی ابتدا ہوتی ہے،لہٰذا حج برابری اور مساوات کا اعلان ہے اور تبعیض جیسی ظالم اور درد ناک رسوم کے باطل کرنے کا حکم اور احساس برتری جیسی لعنت کو معاشرے سے دور کرنے کا اعلان ہے۔
قرآن اور وحی کی اصطلاح میں حج کسی خاص سرزمین کے افراد سے مخصوص نہیں بلکہ یہ خدا کی عبادت کے لئے ایک عام دعوت ہے حج کے روحانی سفر میں کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر برتری نہیں رکھتا ۔
اس معنوی سفر میں مقام کا دور ہونا بھی قریب محسوس ہوتا ہے قران مجید کے فرمان کے مطابق وہ مسجد جو حرم کعبہ میں بنائی گئی ہے اور تمام لوگوں کے لئے نماز ودعا اور طواف کی جگہ اور مقام ہے کہ ، سب لوگوں کے لئے برابر قرار دی گئی ہے لہذا اس اعتبار سے مکہ میں رھنے والے اور دور درازسے آنے والے مسافروں میں کوئی فرق نہیں ہے ، حج اس دنیا سے تعلقات اور روابط سے جدا ہوکر خداوند عالم کی طرف ایک طرح کی ہجرت ہے۔
معمار کعبہ وہ بت شکن اور مجاہد مرد تھا جو ہمیشہ ظلم سے برسرپیکار رہا اور ایسا اہل سیاست تھا جو اپنے زمانے میں رائج ایسے سیاسی نظام سے ٹکرایا جس میں بت پرستی ایک عام بات اور لوگوں کو جاہل رکھنارواج پاچکا تھا ،اور ان کی مقدس ترین چیز بتوں کو توڑ ڈالا اور اس عمل سے ان ظالموں کے ظاہر بظاہر اعلان جنگ فرمایا لہذا اس اعتبار سے بھی حج ایک سیاسی پھلو رکھتا ہے چونکہ کعبہ کا بنانے والا معمار اور بانی ایک سیاسی مدبّر ،مجاہد ، یکتاپرست اور ایثار وقربانی دینے والا شخص تھا ۔
خداوند عالم قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد فرماتاہے :
”(
وَطَهِّرَبَیتِی لِلطَّائِفِینَ وَ القَائِمِینَ وَالرُّکعَّ ِالسُّجُودِ
)
“
”اے ابراہیم تم ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں،قیام کرنے والوں اوررکوع و سجودکرنے والوں کے لئے پاک وپاکیزہ بناؤ“
اس آیت کی روسے خانہ کعبہ کو ہر نجاست سے پاک و پاکیزہ ہونا چاہئے اور چونکہ خود قرآن مجیدمیں شرک کو گناہ اورگناہ کو نجاست کھاگیا ہے ،لہٰذا حرم امن الٰھی میں ظلم و ستم کے لئے کوئی جگہ نہیں اور حرم الٰھی کو ظلم و ستم سے پاک و پاکیزہ بنا نالازم اور ضروری ہے ،آیہ شریفہ میں ”وَطَہِّر بَیتِی “ے فقط ظاہری نجاست سے پاک و صاف کرنا ہی مراد نہیں ہے بلکہ حرم امن جو حضرت جبرئیل کے رفت آمد کی جگہ ہے مشرکوںکے شرک اور ظالموں کے ظلم سے پاک وپاکیزہ کرنا بھی مراد ہے ،یعنی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ میرے گھر کو ظلم و ستم کی نجاست سے پاک و پاکیزہ رکھو ،لہٰذا خانہ خدا سے ظلم و ستم نیز ظالموں کو مٹانا ایک طرح سے خانہ خدا کو پاک رکھنا ہی ہے ،اور یہ کا م طبّی دستور کے مطابق ایک معنوی اور روحانی فریضہ ہے ویسے ہی ایک عظیم سیاسی وظیفہ بھی ہے ،تب ہی خداوند عالم تھدید و خوف دلا رہا ہے کہ جو ظالم بھی حرم کعبہ پر تجاوز کا ارادہ کرے (چاہے کعبہ کی ظاہری شکل کو ختم کرنا چاہے یا اسکے روحانی اور معنوی اثر کوختم کرنا چاہے ) یا حاجیوں کو روکے (زمانہ حاضر کی طرح رسوم شرعیہ اور اعمال و مناسک حج پر عمل کرنے سے روکے ) اور ظلم کے ساتھ شرک پھیلا ئے تو ایسا شخص اپنے شرمناک ارادہ میں کامیاب ہونے سے پھلے ہی دردناک عذاب میں مبتلا ہو جائیگا ،(انشاء اللہ)قرآن مجیدکا اعلان ہے کہ حج اورخانہ خدا کی زیارت کے بارے میں ظلم و ستم کا ارادہ بھی الٰھی انتقام کا سبب ہے:
”(
وَ مَن یُرِد فِیهِ بِاِلحَادٍ بِظُلمٍ نُذِقهُ مِن عَذَابٍ اَلِیمٍ
)
“
”جو بھی حرم امن میں ظلم کے ساتھ الحا دو شرک کا ارادہ کرے (اور صراط الٰھی کو مسدود کرنا چاہے اور لوگوں کو خانہ خدا کی زیارت اور مسجد الحرام میں عبادت کرنے سے روکے ) ہم اسکو دردناک عذاب کا مزہ چکھائیں گے“
اسی وجہ سے ہماری روایات کی کتابوں میں ایک باب بنام ”باب من ارادلکعبہ بسوء“کے عنوان کے تحت نقل ہوا ہے اورائمہ معصومین (ع)سے اس بارے میں بہت سی روایات نقل ہوئی ہیں ۔
حج کے متعلق اسلامی حکومت کی ذمہ داریاں
خانہ کعبہ کی زیارت اور اعمال حج کاا نجام دینا ، دین اسلام کے ان اہم ترین واجبات میں سے ہے کہ اگر کوئی مسلمان بغیر کسی عذر کے وظیفہ حج کو انجام نہ دے تومرتے وقت اس سے کھاجائیگا کہ یہ شخص مسلمانوں کی صف سے خارج ہے اور ایسے شخص کو غیر مسلموں کی صف میں لکھا جائیگا، حضرت علی (ع) کی وصیت سے استفادہ ہوتا ہے کہ اگر خانہ کعبہ کی زیارت بالکل ترک کردی جائے تو عذاب الٰھی کا نازل ہوناایک فوری عمل ہے اور بغیر کسی مھلت کے عذاب نازل ہو جا ئیگا ، ”اللهُ اَللهُفِی بَیتِ رَبِّکُم فَاِنَّہُ اِن تُرِکَ لَم تَنَاظَرُوا“
اگر کوئی سال ایسا آئے کہ لوگ کعبہ کی زیارت نہ کرنے جائیں اور خانہ خدا کا کوئی زائر اور حاجی نہ ہو، تو اسلامی حکومت پر واجب ہے کہ بیت المال کے خرچ سے لوگوں کو حج کے لئے بھیجے جیسا کہ حضرت امام صادق(ع)نے فرمایا ہے:
” لَو عَطَّلَ النَّاسُ الحَجََّ لَوَجَبَ عَلَی الِامَامِ اَن یَجُرَّهُم عَلَی الحَجِّ اِن شَاؤُوا وَ اِن اَبَوا فَاِنَّ هَذَا البَیتَ اِنَّمَا وَضَعَ لِلحَجِّ فَاِن لَم یَکُن لَهُم اَموَالٌ اَنفَقَ عَلَیهِم مِن بَیتِ مَالِ المُسلِمِینَ “
اس بنا پر حج اسلام کا سیاسی عبادی پھلو ہے اگرچہ (ہمارادین و ہی ہے جو ہماری سیاست ہے اور ہماری سیاست بھی و ہی ہے جو ہمارا دین ہے)
یعنی ہمارا دین اور سیاست ایک ہی چیز ہے اور حج کا سیاسی عبادی ہونا ان وظائف پر غور کرنے سے بھی ثابت ہوتا ہے جو مسلمانوں کے پیشوا اور امام کی ذمہ داری ہے او رحج کا سیاسی عبادی ہونا ان احکامات سے ثابت ہے اور بخوبی ظاہر ہے کہ جو حکومت اسلامی کے لئے پیش کئے گئے ہیں ، لہٰذا اس اعتبار سے بھی حج کے بہت سے سیاسی پھلو ہیں ۔
____________________